Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Īqān > Volume 1 Issue 2 of Īqān

سیکولرازم اور مسلم معاشرے میں اس کا ارتقاء: تحقیقی مطالعہ |
Īqān
Īqān

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682731180342_874

Pages

71-88

DOI

10.36755/iqan.v1i02.54

PDF URL

https://iqan.com.pk/index.php/iqan/article/download/54/23

Chapter URL

https://iqan.com.pk/index.php/iqan/article/view/54

Subjects

Secularism Religion State Education Authority Revolution

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف:

اہل مغرب دور حاضر کی مادی ترقی کا نقطہ آغاز تیرہویں صدی عیسوی میں اٹلی سے جنم لینے والی تحریک احیائے علوم کا مرہون منت سمجھتے ہیں۔ ا س تحریک کا آغاز مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والی صیلبی جنگوں سے ہوا ۔اس سے قبل یورپ کا قریب ایک ہزار سال(500-1500CE) پر محیط عرصہ Dark Agesکہلاتا ہے ۔ یہ دور یورپ میں چرچ کی بلا شرکت غیر ے حکمرانی کا دور تھا جہاں سائنسی ترقی کا سفر نہ ہونے کے برابر تھا۔رومی (مسیحی ) تہذیب میں مادی علوم کو نہ پا کر یورپ قدیم یونانی علما ء و فلاسفہ کے کام کی طرف متوجہ ہوا ۔لاطینی و یونانی زبانوں کی تحصیل کا سفر شروع ہوا۔یہاں قدم قدم پر کلیسیاء متلاشیان ِعلم کے رستے میں مزاحم ہوا۔اس کی بنیاد ی وجہ عیسائی مذہبی علوم کا علمی وسائنسی اکتشافات میں تفاوت تھا۔ کلیسیائی مسیحیت اور عقل دانش و آگہی کے مابین کشمکش کئی صدیوں جاری رہی جس میں انجام کار سائنس و حرفت کو فتح ہوئی اور کلیسیاء کی جمودی فکر شکست پاگئی چونکہ کلیسیاء مذہب و خدا کا نمائندہ تصور کیاجاتا تھا ۔لہذا بد قسمتی سے اسے مسیحیت کی بجائےکلی پسپائی قرار دیا گیا ۔مغرب نے من حیث المجموع مذہب کا انکار نہیں کیا لیکن اس کشمکش کا ایک ردِعمل انکار خدا اور انکار مذہب کی کمیونسٹ اور سوشلسٹ تحریکوں کے جنم کی صورت میں نکلا۔ ہزاروں سالہ پختہ مذہبی روایت کے نتیجہ میں خدا کا کلیتاً انکار ہرذی شعور کے لیے قریب قریب نا ممکن تھا ۔چنا نچہ یورپ نے مادی ترقی کی راہ میں حائل مذہب کا یہ حل نکالا کہ مذہب کو فرد کا ذاتی معا ملہ قرار دے کر اس کا معاشرتی ،سیاسی اور معاشی کردار ختم کردیا گیا اورتھیالوجی سے زیادہ مذہب کے ثقافتی اظہار پر ارتکاز کیا گیا۔ اس جدید فکر کو سیکولرازم کا نام دیا گیا۔اس کا بنیادی مقصد مذہب کو ریاست کے دائرہ کا ر سے الگ کرنا تھا یورپ میں یہ تجربہ خاصاً کا میاب رہا۔جہاں مادی ترقی کی راہ میں کلیسیا ء حائل تھا۔

سیکولر اِزم کا لغوی و اصطلاحی مفہوم:

Oxford dictionary میں لفظ سیکولر کے درج ذیل معنی بیان کیے گئے ہیں :

​“Not connected with spiritual or religious matters” [1]

’’ جو روحانی و مذہبی معاملات سے جڑا نا ہو‘‘

اس ضمن میں سیکولر عمارات(Secular Buildings) کی اصطلاح استعمال کی جاتی رہی جو غیرمذہبی ، عمومی ، غیر کلیسیائی، دنیاوی، مادی ،ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہو اس کے مقابل مقدس، مذہبی وغیرہ کے الفاظ آتے ہیں ۔ جیساکہ مندرجہ ذیل تصریح ہے:

“(Of priests) living among ordinary people rather than in a religious community”[2]

’’مسیحی کلیسیاء کی اصطلاح میں "جو کسی مذہب کا پابند نہ ہو ، یا اس کی پیروی نہ کرتا ہو۔ جوکسی بھی راہبانہ طریق زندگی پر نہ چلتا ہو۔‘‘

سیکولر کالفظ لاطینی Seculum(سیکولم) کی جدید انگریزی شکل ہے۔ قدیم فرانسیسی زبان میں یہ لفظ Seculerکے ہجوں کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔سیکولم کا مطلب ہے: ’’دنیا ،نسل ،عمر ،عہد‘‘[3]

سیکو لرازم سرکاری اداروں اور ریاستی نمائندوں کو مذ ہبی اداروں اور مذہبی شخصیات سے جدا کرنے کا نام ہے۔سیکو لر ازم کا ایک مظہر یہ ہے کہ یہ مذہبی حکومت یا مذہبی تعلیمات سے آزاد رہنے کے حق پر زور دیتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ایک ریا ست میں غیر متعصبانہ مذہبی ذاتی و شخص نظریات رکھنے کی اجا زت دیتا ہے۔سیکو لر ازم کا ایک اظہار یہ نقطہ نظر بھی ہے کہ اجتماعی فکر اور فیصلوں میں خصو صاً سیا سی معاملات میں مذہبی عقائد ونظریات کو دخل نہیں۔ جارج ہولیوک اس بارے لکھتا ہے:

“Secularism is a code of duties related to the world, which is set on purely humanitarian considerations, especially those who consider religion unprofessional, inappropriate, untrustworthy or untrustworthy. The basic principle is three: Improving material resources in the life of this world, Science is the available "power" to man, Good is good, though not good in another world, good is good for the present life and finding good is also a good practice”[4]

سیکولر ازم اس دنیا سےمتعلق فرائض کا ایک کوڈ ہےجس کو خالصتاً انسانی تحفظات پر ترتیب دیا گیا ہے اس میں خاص طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں جو مذہب کو غیر معین یانا کا فی ،نا مناسب ،نا قابل اعتماد یا ناقابل یقین خیال کرتے ہیں۔اس کے بنیادی اصول تین ہیں :اس دنیا کی زندگی میں مادی ذرائع سے بہتری لانا ،سائنس انسان کو میسرقدرت ہے،اچھا ئی کرنا اچھا ہے،اگرچہ کسی دوسرے جہان میں اچھا ہویا نہ ہو ،موجودہ زندگی کے لیے اچھا کرنا اچھا ہےاورا س اچھائی کی تلاش بھی اچھا عمل ہے۔‘‘

ہولیوک اس نقطہ نظر کا حامل رہا کہ سیکو لرازم یا سیکو لر اخلا قیات کو مذہبی سوالات سے کچھ سروکارنہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ انہیں غیر متعلقہ خیال کرتا ہے ۔اِسی بنیاد پر اس کو مکمل آزادی رائے اور الحادیت سے ممتاز کیا جاتا ہے۔اِس معاملے میں اِس نے چارلس بریڈ لاف(Charles Brad Laugh) سے اختلاف کیا اور اس اختلاف نے سیکو لر تحاریک کو دونظریاتی دھڑوں میں تقسیم کردیا۔ایک وہ جن کے نزدیک مذہب مخالف تحریک چلانا غیر ضروری تھا اور دوسرے وہ جن کے ہا ں یہ لازمی تھا۔

سیکولراِزم کےتصور کو فلسفہ ،عمرانیات اور سیاسیاست ہر تین حوالہ سے الگ الگ دیکھا جائےتو کچھ وضاحت سامنے آتی ہے۔

فلسفہ کی رو سے سیکولرازم آفاقی مابعد از طبیعات کا منکر ہے اور وجود ومشاہد ہ پر اس کی تمام تر توجہ ہے۔ اِ س حوالہ سے ہاروی کو کس (Harvey Cox) لکھتا ہے :

“Religious and religiously oriented human freedoms and all other attention from the other world to the present life.” [5]

’’مذہبی ومابعداز طبیعاتی گرفت سے انسان کی آزادی اور دوسری دنیا سے اس کی تمام تر توجہ موجودہ زندگی کی طرف مبذول کروانا ۔‘‘

عمرانیاتی اعتبار سے،سیکولراِزم کو جدید یت سے ملا یا جاتا ہے ۔ایک ایسے مسلسل عمل کے طور پر جو معاشرتی اداروں ،روزمرہ کی زندگی اور انسانی تعلیمات میں مذہبی اثر کو لگا تار کم کرتا جارہا ہے یہ دعوٰ ی کی حد تک سیکولراِزم کی معروف ترین تشریح ہے۔پیڑ بر جر نے The Sacred Canopyمیں لکھا ہے:

“Secularism is a process by which sections of society and culture are getting out of the grip of religious symbols and institutions”. [6]

’’سیکولراِزم ایک عمل ہے جس سے معاشرے اور کلچر کے حصے مذہبی علامات و اداروں کی گرفت سے نکل رہے ہیں۔‘‘

سیاسی اعتبار سے سیکولراِزم کی رو سے اجتماعی اورنجی دائرہ عمل کی علیحدگی ضروری ہے ،زیادہ واضح لفظوں میں ایسی تفریق جو ریاستی اداروں اور مذہبی قوتوں کے درمیان تبدیل ہوتی ہو۔یہ سہ پہلوی تقسیم اُس انداز ِ تفہیم سے مشابہ ہے جسے کئی ایک معروف اسکالر ز نے پیش کیا ہے۔Nikki Keddie کے مطابق درج ذیل تین رجحانات سے سیکو لرازم کا دور حاضر میں سمجھنا ممکن ہے:

“Increase the number of followers of secular beliefs and rituals, Gradual reduction of religious effect in most areas of life, Increase state and religion distinctions, and the import of secular traditions into religious institutions and customs”. [7]

’’سیکو لر عقائد اور رسومات کے پیروکار وں کی تعداد میں اضافہ،زندگی کے زیادہ ترشعبوں میں مذ ہبی اثر کی بتدریج کمی

ریاست اور مذہب تفریق میں اضافہ ،اور مذہبی اداروں اور رسوم میں سیکولر روایات کی درآمد‘‘۔

سیکولرمعاشرہ کی وضاحت:

مطالعہ مذہب میں جدید جمہوریت کو عام طور پر سیکولر تصور کیا جاتا ہے۔یہ قریب قریب مکمل مذہبی آزادی کی وجہ سے

ہوتا ہے۔مذہبی عقائد کی بنا پر فرد کوقانونی یا معاشرتی پا بندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔اور مذہبی لیڈران سیاسی فیصلو ں پر کوئی اختیار نہیں رکھتے ۔ بعض سیکولر مما لک جیسا کہ بھارت میں مذہبی عقائد عملاً سیاسی معاملات میں اپنا واضح اثر رکھتے ہیں جبکہ بعض مغربی مما لک جیسا کہ انگلینڈ میں (جوآئینی اعتبار سے عیسائی مذہبی ریاست ہے) مذہبی عقائد سیاسی معاملات میں داخل انداز نہیں ہوتے ۔ایک سیکولر معاشرہ مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہوتا ہے:

  • ایک سیکولر معاشرہ کا ئنات کی فطرت اور اس میں انسان کے کردار کے حوالہ سے کسی ایک متفقہ نقطہ نظر کا حامل نہیں ہوتا۔
  • یہ یکساں نہیں ہوتا بلکہ تکثیری ہوتا ہے۔
  • یہ بردبار ہوتا ہے۔یہ ذاتی یعنی فردکی سطح پر فیصلہ کرنے کی آزادی دیتا ہے۔
  • ہر معاشرہ کے کچھ مشترکہ مقاصد ہوتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ کسی خاص مسئلہ کے حل میں اس معاشرہ کا اس سے نبرد آزماہونےکا متفقہ طریقہ کار کیا ہوگا یا ایک عمومی دائرہ قانون کیساہوگا،ایک سیکولر معاشرہ میں ان کو انتہائی محدود کردیا جاتا ہے۔
  • مسائل کا حل عقلی بنیاد وں پر کیا جاتا ہےجس میں حقائق کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔کیونکہ سیکولر معاشرہ کا کوئی مجموعی مقصد نہیں ہوتا ۔یہ اپنے ممبران کو اُن کے مقاصد سے آگاہ ہونے میں معاونت کرتا ہے۔
  • اس معاشرہ کی کوئی سرکاری شناخت (Official Image)نہیں ہوتی ۔نہ ہی اس میں کوئی عمومی مثالی قسم کا رویہ اختیارکیا جاتا ہےجوعا لمگیر طورپر لاگو کیا جاسکے۔

کوئی بھی سیکولر معاشرہ درج ذیل مثبت نظریات رکھتاہے:

  • فرد کی عزت نفس کا لحاظ ،اور اُن چھوٹے چھوٹے گروہوں کا خیال جن سے وہ وابستہ ہیں ۔
  • مساوات انسانی
  • ہرفرد کی مدد کہ وہ اپنی خصو صی اعلیٰ صلاحیت(Excellence)کو پہچان سکیں۔
  • ذات برادری اور طبقاتی تقسیم کا خاتمہ [8]

مارکس ویبر (1864-1920 CE)کے عہد سے جدید عمرانیات اکثر اس بحث میں مصروف رہتی ہےکہ سیکولر معاشروں میں طاقت کا سرچشمہ کون ہے۔اور سیکولرائزیشن کا معاشرتی یا تاریخی عمل کیا ہے۔[9]عمومی تاثر یہ ہے کہ معاشرتی عمل کی بنا پر بعض معاشرے بتد ریج سیکولر ہوتے گئے اور انہیں کسی منظم سیکولر تحریک کا مرہون منت نہیں ہونا پڑا۔اس عمل کو سیکو لر ائز یشن کہا جاتا ہے ۔

سیکولراِزم کی تاریخی ابتدا :

سیکولر اِزم کی عقلی بنیاد یونانی اور رومی فلاسفہ تک لے جاتی ہے ۔ یونانی فلسفی ایپی قورس[10] (Epicurus) نے فلسفہ محبتِ دانش یعنی Love for wisdom کا مقصد عارضی زندگی میں خوشی ،امن، خوف سے نجات، عدم تکلیف اور دوستوں سےبھر پور خود کفیل زندگی کا حصول قرار دیا۔ ایپی قورین فلسفہ انسانی زندگی میں دیوتاؤں کی مداخلت کا قائل نہیں ۔ اس کے نزدیک خدا ،مادہ اور ارواح، جواہر((Atomسے بنے ہیں۔ خداؤں کی بھی ارواح ہیں جو اپنے اجسام کے اندر مستقل مقید ہیں ۔انسانی ارواح مستقل مقید نہیں ایپی قورس کا قول ہے کہ:خوشی سب سے بڑی اچھائی ہے[11]۔

اطالوی بادشاہ مارکس آریلیس[12]) (Marcus Aureliusنے رواقیت پسندی[13] Stoicism کا پرچار کیا ۔ روشن خیالی کے عہد (۱۶۲۰۔۱۷۸۰) میں ڈینس ڈیڈی روٹ (م۔۱۷۸۴)[14]) (Denis Dedirot، والٹیئر(م۔۱۷۷۸)[15] (Voltair)، باروچ سپی نوزا (م۔۱۶۷۷)[16] (Baruch Spinoza)، ٹامس جیفرسن (م۔۱۸۲۶)[17]) (Tomis Jaffersonاور ٹامس پائین (م۔۱۸۰۹) [18] ((Thomas Paineسیکو لر ازم کے نمائندے بنے۔ دور جدید میں آزاد خیال اور لا مذہب ، رابرٹ انگرسلم۔۱۸۹۹)[19]) (Robert

Ingersollاوربرٹرینڈ رسل (م۔۱۹۷۰) [20]) (Bertrand Russelجیسے لوگ لائی سائٹ (Laicite)[21]کے سرخیل ہیں۔[22]سیکولر اِزم کے مقاصد اور ا سکے حق میں دئیے جانے والے دلائل ایک دوسرے سے وسیع پیمانے پر مختلف ہیں ۔لائی سزم (Laicism) کو جدیدیت کی طرف گامزن تحریک کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔یہ روایتی مذہبی اقدار سے ہٹنے کا نام ہے اس طرح کی سیکولراِزم میں ریاستی چرچ یا مذہبی حمایت معاشرتی یا فلسفیانہ درجے پر قائم رہتی ہے ۔ امریکہ میں بعض کے خیا ل میں اسٹیٹ سیکولراِزم نے مذہب کو بڑ ی حد تک حکومتی مداخلت سے محفوظ رکھا ہے۔ جبکہ معاشرتی طور پر سیکو لرازم کم پھیلا ہے[23] ۔مختلف ممالک میں بعض سیا سی تحر یکیں مختلف وجو ہات کی بنیاد پر سیکو لرازم کی حمایت کرتی ہیں۔

سیکولر ازم کی اصطلا ح :

سیکولراِزم کی اصطلا ح سب سے پہلے پرطانوی مصنف جارج جیکب ہولیوک George Jacob Holyoakeنے 1851میں استعمال کی [24]۔اگرچہ یہ ایک نئی اصطلاح تھی تاہم یہ آ زادی فکر کے جن تصورات پر استوار ہوئی وہ صدیوں پر محیط تاریخ کا حصہ تھے۔ ہو لیوک نے سیکولراِزم کی اصطلاح اپنے اُ ن نظریات کو بیان کرنے کے لیے ایجاد کی جو کسی مذہبی عقیدہ کو بر طرف کیے یااُس پر تنقید کیےبغیر ،مذہب سے الگ تھلگ ایک معاشرتی نظام کی ترویج کرتے تھے۔وہ بذات خود مادیت پرست Agnostic)) تھا۔ ا ُس نےیہ دلیل دی کہ سیکو لرازم عیسا ئیت کا مخالف نہیں ،یہ اس سے الگ اور اپنا آزادانہ وجود رکھتا ہے۔یہ عیسائیت کے دعوو ں پر سوال نہیں اٹھا تا ۔اُن کی دلیل نہیں مانگتا بلکہ دوسرے معاملات پر آگے بڑھتا ہے۔ سیکولراِزم یہ نہیں کہتا کہ ہدایت یا روشنی دوسری جگہ نہیں ہو سکتی بلکہ یہ کہتا ہے کہ سیکولر سچائی میں روشنی اور ہدایت موجود ہے۔جس کی شرائط اور پا بندیاں آزادانہ وجود رکھتی ہیں۔اور ہمیشہ کا م کرتی ہیں۔ سیکولر علم صریحاََایسا علم ہے جو دنیا میں پایا جاتا ہے۔ جو اس دنیا کے طرزعمل سے متعلق ہے۔اس دنیا کی فلاح کے لیے کوشاں ہےاور اس قابل ہے کہ دنیاوی تجربات سے پرکھا جاسکے [25]۔

Institute for the Study of Secularism in Society and Culture کے ڈائریکٹر بیری کوسمین (Barry Kosmin) کے مطابق جدید سیکولراِزم کو دواقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ہارڈ سیکولراِزم اور سوفٹ سیکولراِزم ۔ہارڈ سیکولر سٹ ،فلسفہ و مذہب کو عملی اعتبار سے غیر حقیقی سمجھتا ہےچونکہ عقل وتجربہ کی موجودگی میں اس کے نزدیک ان کی ضرورت نہیں ،سوفٹ سیکولرسٹ کے نزدیک حتمی سچائی کا پا نا ممکن نہیں اس لیے تشکیک اور رواداری، سائنس اور مذہب کی متصادم و متعارض اقدار سے بحث کرتے ہوئے بنیا دی اصول ہونے چاہییں ۔[26]

ریاستی سیکولراِزم :

سیاسی اعتبار سے سیکو لر ازم سیاست ومذہب کی علیحدگی کی تحریک ہےجسے اکثر چرچ اور حکومت کی علیحدگی گردانا جاتا ہے ۔ اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ دراصل حکومت اور ریاستی مذہب کے درمیان رشتے کو مضبوط کرتا ہے۔جس کے تحت وحی دالہام پر منحصر قوانین ( مثلا بائبل یا شریعت کے قوانین ) کو شہری قوانین سے بدل دیا جاتا ہے۔اور مذہبی بنیاد پر امتیاز ختم کردیا جاتا ہے۔اس طریقے سے جمہوریت میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق محفوظ رہتے ہیں[27]۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ’’ہودی تہذیب‘‘کے پروفیسر جیکس برلز فلاؤ (Jaques Berlinerflao) اس نقطہ نظر کے حامل ہیں کہ مذہب وریاست کی علیحدگی سیکولر حکومتوں کی اختیار کردہ ایک قابل عمل حکمت عملی ضرور ہے ۔مگر تمام آ مرانہ اور جمہوری حکومتیں جس چیز پر توجہ دیتی ہیں وہ مذہب و ریاست کے ما بین تعلقات ہیں ۔ہر حکومت اپنے معروضی حالات کے اعتبار سے مذہب ومدرسہ سے اپنے تعلقات استوار کرتی ہے۔مثلاً فرانس میں حکومت و ریاست بظاہر الگ ہوتے ہوئے بھی چرچ کےمعاملات کی مکمل نگرانی کرتی ہے[28]۔

سیکو لرازم کا تعلق عام طور پر یورپ میں روشن خیالی کی تحریک (Enlightenment)[29]سے جوڑا جاتا ہےاور اس نے جدید

مغربی معاشرہ کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔عملی طور پر نہ سہی لیکن نظریاتی طور پر امریکہ میں چرچ اور حکومت کی علیحدگی اورفرانس میں برپا ہونے والی لائی سائیٹ (Laicite)سیکولراِزم کی ہی مرہون منت ہے۔قرون وسطیٰ میں اسلا می دنیا میں بھی بعض سیکولر ریاستیں قائم ہوئیں[30]۔ سیکولرسٹ مذہب وریاست کی علیحدگی کا عقیدہ اس بنیاد پر قائم کرتے ہیں کہ اُن کے نزدیک ریاست دان مذہبی وجوہات کی بجائے سیکولر وجوہات کی بنیاد پرفیصلے کرتے ہیں۔یوں بعض ایشوز پر یہ مذہب کے مقابل کھڑے نظر آتے ہیں جیسے اسقاط حمل،مائع حمل ،برانن خلیہ سیل کی تحقیق ،ہم جنس شادیوں اور جنسی تعلیم سے متعلق پالیسی فیصلو ں پر امریکی سیکولرسٹ تنظیموں جیسا کہ سنٹر فارانکو ائر ی ہے،میں خصوصی توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ سیکولر قوانین جمہوری معاشرے میں اپنی برتری حاصل کرنے کے لیے سیاسی فیصلو ں میں اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔یا حکومتی و مذہبی حلقوں کے معاہدوں کے ذریعے (Concordat)خصوصی مراعات اور اثر اندازی کا حق حاصل کرلیتے ہیں۔بعض عیسائی اس بنیاد پر سیکولر ریاست کے حامی ہیں ۔کہ وہ اسے بائبل سے متصادم نہیں پاتے انجیل لوقا کی یہ عبارت سیکولر ازم کی حمایت کرتی نظرآتی ہے:

’اور قیصر کو وہ دے دو جو قیصر کا ہے اور خدا کو وہ دے دوجو خدا کا ہے۔‘[31]

تاہم بنیاد پر ست مسیحی سیکولر ازم کے مخالف ہیں ۔وہ اکثر یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ ایک بنیاد پرستانہ سیکولر نظریہ اختیار کیا جارہا ہے۔اور وہ اسے عیسائی حقوق اورقومی سلامتی کے خلاف ایک خطرہ محسوس کرتے ہیں ۔[32]

سیکولر اِزم اور اسلام:

اسلامی دنیا میں سیکولراِزم کا تصور روشن خیالی کے دور کے بعد میں یورپ سے درآمد ہونے والے خیالات کے ساتھ آیا۔بالخصوص مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں مسلمان مفکرین میں پہلے پہل سیکولراِزم کی بحث ریاست ومذہب کے تعلقات اور یورپ میں ان تعلقات کے نتیجہ میں ہونے والی سائنسی ترقی وایجادات،ٹیکنالوجی اور طرز حکومت کے گردگھومتی رہی۔[33]

ریاست ومذہب کے مباحثہ میں رہتے ہوئے دنیائے اسلام میں مذہبی اور سیاسی حکام کی الگ الگ حیثیت یا خلیفہ کا درجہ و مقام بڑے مسائل تھے۔[34]ٍٍ John L. Esposito لکھتے ہیں:

“The post-pandemic era witnessed the formation of modern Islamic states whose development was greatly influenced by Western secular parameters and models. Saudi Arabia and Turkey are at two polar positions. Most of the Muslim states found a middle way to build their own nations… However, although most Muslim governments have replaced the Islamic laws with the secular laws of Europe yet Muslim family laws regarding marriage, separation and inheritance remained enforced.” [35]

مسلم غالب اکثریت کے مطابق اسلام مذہب وریاست کی علیحدگی کا قائل نہیں اور وہ اپنے اپنے مما لک میں اپنی سیا سی زندگی میں مذہب کے ایک اہم کردار کے لیے کوشاں ہیں۔ اسلام کی حیات نو ،جو 1979کے انقلاب ایران سے شروع ہوئی ،اُس نے سیکولر آئز یشن کے نظریے کے وکلا ء کو شکست دے دی ،مصرالجیریا اور ترکی جیسے انتہائی ماڈرن ممالک میں اسلام کی حیات نَونے اُن افراد کی توقعات پر پانی پھیر دیا جن کا یقین تھا کہ مذہب کو ایک خاص حد تک محد ود کردینا چاہیے اور اسے لوگو ں کی زندگی کا مرکز نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ تحاریک دیہاتوں سے نہ چلیں بلکہ شہروں سے پروان چڑھیں اور ان کے لیڈران اور سپوٹران پڑھے لکھے پروفیشنلز تھے۔[36]

تاریخی نقطہ نظر سے ،اسکا لر اولیو ررائے (Oliver Roy )یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سلا طین کی سیاسی قوت اور خلیفہ کی مذہبی قوت کے مابین بنیادی تفریق پہلی صدی ہجری کے آخر تک پیدا ہوچکی تھی اور مسلم دنیا میں جس چیز کی کمی رہی وہ یہ ہےکہ اِس خلا کو پُر کرنے کے لیے سیاسی فکر پیدا نہ ہوسکی۔شریعت سے ہٹ کر کو ئی مثبت قانون نہ بنایا جاسکا ،مذہب کا واحد مقصد یہ رہا کہ اسلامی معاشرہ کو اسکے تما م دشمنوں کے مقابل تحفظ دے،شریعت کو ایک ادارہ بنا ئے اور مصالح و رفاہِ عامہ (Public Good)کو یقینی بنائے۔ریاست ایک آلہ تھی کہ مسلمانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اچھے مسلمانوں کی طرح زندگی گزاریں اور مسلمانو ں کو سلطان کی خواہش پر عمل کرنا پڑتا تھا ۔کسی حکمران کی قانونی حیثیت اِس بات سے متعین ہوتی تھی کہ وہ سِکہ جاری کرنے کا مجا ز تھا اور جمعہ کی نماز میں اسکے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا ۔[37] سیکولر ازم کو اسلام میں مذہبی سند دینے کے لیےسیکولرازم کے وکلا بعض روایات کا سہارا لیتے ہیں مثلاً صحیح مسلم میں ایک باب کا عنوان ہے" جو کچھ پیغمبر صلی اللہ علیہ السلام مذہبی معاملات میں فرمائیں اُس پر من وعن عمل ضروری ہے لیکن یہ بات دنیا وی معاملات پر لاگو نہیں ہوتی "اس بات کے تحت جو حدیث بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ایک بار نبی کریم ﷺ کا ایسے لوگو ں سے گزر ہوا جو کھجور کے درختوں کی مصنو عی پولی نیشن (زیرگی )کر رہے تھے ۔کِسی وجہ سے آپؐ کو یہ طریقہ پسند نہ آیا اور آپ ؐ نے فرمایا کہ بہتر ہے کہ پولی نیشن نہ کی جائے تاہم اس سال پیداوار کم ہوئی ۔جب یہ آپؐ کے علم میں آیا تو آپؐ نے فرمایا:

’’إِنْ كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ، فَشَأْنُكُمْ بِهِ وَإِنْ كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دِينِكُمْ فَإِلَيَّ‘‘[38]

’’اگر کوئی معاملہ تمہارے دنیاوی معاملات سے متعلق ہو تو تم بہتر جانتے ہو لیکن اگر یہ تمہارے مذہب سے متعلق ہو تو یہ

میرے متعلقہ ہے‘‘

مولانا وحیدالدین خاں اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اسلام نے مذہبی علم کو طبیعاتی علم سے الگ کردیا۔مذہبی علم کا ماخذ جسے عمومی طور پر تسلیم کیا گیا وہ آفاقی تھی جو قرآن پاک کی صورت محفوظ ہے جبکہ طبیعاتی معاملات تفتیش کی میں مکمل آزادی دی گئی تاکہ افراد اپنے غور وفکر کی بنا پر نتائج تک آزادانہ پہنچ سکیں ۔مزید یہ کہتے ہیں "اسلام مذہبی معاملات کو اس حدیث کے مطابق سائنسی تحقیق سے الگ کر رہا ہے۔مذہبی معاملات میں الہامی رہنمائی پر سختی سے عمل پیرا ہونا ضروری ہے لیکن سائنسی تحقیق میں کام کو انسانی تجربات کی روشنی میں آگے بڑھنا چاہیے ۔‘‘[39]

مسلمان معاشروں میں سیکولرازم :

یونیورسٹی آف کیلی فورینا برکلے میں مشرق وسطیٰ اورتاریخ اسلام کے پروفیسر ایمریطس اِیرا۔ایم لیپی ڈس (Ira. M, Lepidus)تجزیہ کرتے ہیں ۔کہ تاریخ اسلام کے آغاز میں ہی مذہب وریاست کی علیحدگی وقوع پذیر ہوچکی تھی ۔پہلے وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ السلام کے زمانہ میں مذہبی وسیاسی قوت کے اٹوٹ بندھن کا ذکر کرتےہیں جواُن کی رہبر تھی۔"مسلمانوں میں رائج عام تصور یہی ہے کہ کلاسک اسلامی معاشرہ ،معاشرتی زندگی کے مذہبی وسیاسی پہلو وں میں تفریق نہیں کرتا ۔خلافت بیک وقت مسلمانوں کی سیاسی ومذہبی قیادت تھی ۔جس کے پیروکار اور رعایا ایسے سیاسی نظام کا حصہ تھے جو بیعت کے ذریعے استوار ہوتا تھا۔چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم پیغمبر تھے جو وحی الہیٰ سےمنشائے الہیٰ کو زندگی کے تمام شعبوں میں بیان فرماتے ۔مسلمان ہونا خلیفہ کی اطاعت اورامُت کی رکنیت پر منحصر تھا ۔اس لحاظ سے مذہبی وسیاسی اقدار اور دفاتر کو جداکرنا ناممکن تھا[40]۔

لیپی ڈس اس بات کا مدعی ہے کہ سیکولر حکومتیں دسویں صدی عیسوی سے مسلم دنیا میں قائم ہیں وہ یہ دلیل دیتا ہے کہ خلیفہ کی علامتی حیثیت کے ماتحت علماء سیاسی لیڈران اور فوجی قیادت الگ الگ ہوچکے تھے۔درحقیت مذہبی اور سیاسی زندگی نے تجربات کے الگ الگ شعبے پروان چڑھا لیے تھے جن کی اپنی آزادانہ اقدار ،رہنما اور تنظیمیں تھیں ۔دسویں صدی سے عرب مسلم سلطنت کا موثر انتظام جرنیلوں ،منتظموں ،گورنروں اور مقامی صوبائی آقاوں کے ہاتھ آگیا تھا اور خلیفہ اپنی موثر سیاسی قوت کھوچکا تھا اس لحاظ سے اسلامی دنیا میں حکومتیں سیکولر تھیں ۔یعنی سلطنتیں ،جو نظریاتی اعتبار سے خلیفہ کی توثیق سے اختیار پاتی تھیں۔لیکن عملاًعوامی نظام کی ضرورت کے تحت درست قرار پاتی تھیں ۔اس کے بعد سے اسلامی ریاستیں مکمل طور پر الگ تھلک وجود تھے جن کا کوئی اندرونی مشترکہ کردار نہ تھا۔اگرچہ وہ سرکاری طور پر اسلام کی وفادار تھیں اور اس کی حفاظت کا دم بھرتی تھیں۔[41]

یہ استدلال غلط ہے کیونکہ یہ حکمران کی سیاسی گرفت میں کمزوری کا نتیجہ تھا نہ کہ مذہب کو حکومتی امور میں سے نکالا جا رہا تھا۔

اِسی دور میں مذہبی طبقات آزادانہ طور پر اِن ریاستوں میں معرض وجود میں آنے لگے ،علما نے مقامی معاشرتی اورمذہبی زندگیوں کو بطور جج، منتظم اور اساتذہ متاثرکرنا شروع کیا اور مذہبی اشرافیہ بعض مسلکی تحریکوں کے ساتھ اپنے الحاق کی بنیاد پر سنی،شیعہ اور صوفی طبقات میں منقسم ہوگئی۔قانون اسلامی یعنی شریعت سے پیدا ہونے والے مختلف معاملات میں مختلف مکا تب فکر کے علما ء نے مقامی منتظمین اور معاشرتی اشرافیہ بنا لی جن کا اختیار مذہب سے رہنمائی لیتا تھا ۔اس طرح اگرچہ مسلم مذاہب (فقہی)مسیحی کلیسیاء کی طرح خلافت یا مذہبی پیشوائیت سے مربوط نہیں ہوئے ، اگرچہ ان کے بہت سے مذہبی اور معاشرتی عوامل چرچ سے ملتے جلتے ہیں۔ قریباً بیس برس قبل سرہملٹن گِل(Hamilton Gill)نے اپنے مضمون "آئنی تنظیم "(Constitutional Organization)میں ثابت کیا کہ مسلمان مفکرین ریاست ومذہب کی علیحدگی سے آگاہ ہو چکے تھے اور انہوں نے ایک خود مختار دائرہ کا ر میں مذہبی سرگرمیاں اور تنظیم کو تسلیم کرلیا تھا ۔مثلاًابن تیمیہ یہ کہتے ہیں ۔کہ خلافت کے علاوہ ،علما ءنے امتِ مسلمہ کی تعمیر کی اور حکمران طبقے مسلمان تھے اندرونی معیار کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے کہ انہوں نے مذہب اسلام اور مذہبی کمیو نٹیوں کو مد د دی ۔[42]

لیپی ڈس لکھتا ہے کہ اگرچہ ابتدا میں خلافت نے امت کو اپنے اندر جذب کر لیا تھا ۔تاہم تین عوامل تاریخی کے اعتبار سے مسلم معاشرہ کی سیاسی ومذہبی زندگی الگ تھلگ ہوئی۔

      • خلفا ءکے خلاف عربوں کی بغاوتیں ہوئیں۔
      • خلیفہ کے ہوتے ہوئے مذہبی سرگرمیوں کا علیحدہ سے نمودار ہونا۔
      • حنبلی مکتب فکر کا آنا ۔

مصری مصنف ،طہٰ حسین (1889-1973CE) مصری نیشنلز م کے حوالہ سے مذہب وسیاست کی علیحدگی کی وکالت کرتے ہیں ۔ان کا یقین تھا کہ مصرہمیشہ سے یورپ کا حصہ تھا اور مصر میں اینسویں صدی میں نشاط ثا نیہ ہوئی جس کے نتیجہ میں اس نے خود کو دوبارہ یورپی بنا لیا۔اس کے نزدیک جدید دنیا کا سب سے قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ اس نے مذہب اور تہذیب کے درمیان ایک مجازی علیحدگی پیدا کردی جن میں سے ہر ایک کا اپنا دائرہ کا ر ہے۔اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ تہذیب کی بنیاد یورپ سے اُس کا مذہب یعنی عیسائیت لیے بغیر اخذ کر لی جائے اس نے یہ بھی کہا کہ عیسائیوں کی نسبت ،مسلمانوں کے لیے یہ آسان ہے کیونکہ اسلام میں پاپائیت نہیں اور اس وجہ سے مذہب کے معاشرہ پر اختیار کے حوالہ سے کسی کے ذاتی مفادات نہیں ۔[43]

نو آبادیاتی نظام میں سیکولراِزم اسلامی دنیا میں پھیلا ۔اِس کی وجہ یورپی استعماری مما لک کا مسلمان مما لک کوزیرِ نگیں کر نا تھا۔جیساکہ john. L Esposito لکھتا ہے:

’جدیدسیکولراِزم کو یورپی نو آبادیت کی وراثت کے طورپر دیکھا گیا ۔جس کو مغربی استشراقی اشرافیہ نے قائم کیا ۔جنھوں

نے مغربیت اور سیکولریت کےدوہرے عمل کو نافذ کیا اور رائج کیا‘[44]۔

نوآبادیاتی قوتوں نے زیادہ تر علاقوں میں مقامی سیاسی ،معاشرتی ،معاشی ،قانونی اورتعلیمی اداروں کو تبدیل کردیا ۔مثلاً زیادہ ترسابقہ نوآبادیاتی مشرق وسطیٰ کےممالک میں ،تدریس یا مدرسہ کے نظام کو مغربی انداز تعلیم سے بدل دیا گیا۔فرانس کی نوآبادیاتی حکومت نے مغرب کےمحافظوں کے ہاتھوں تعلیمی نظام کو سیکو لرنظام سے بدلا جو ان کے اپنے ملک کےمشابہ تھا [45]۔

نوآبادیاتی نظٖام کےقابضین کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کا سیکو لرنظام موجودہ روایات سے زیادہ جدید ،موثر اور ترقی پسند تھا۔ قدرتی طورپر تبدیلوں کےدور رس معاشرتی اثرات ہوئے اور انہوں نے عرب سیکو لر از م کی بنیاد رکھی جو اسلام کو حکومتی معاملات تعلیم اور قانون سے الگ کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سرکاری، سیاسی اور معاشرتی دائرہ کار میں مذہب کے تناظر میں معاملات کا جانچنا کم ہوتا گیا اور اس کی جگہ ایک نئی طرز ِادراک نےلے لِی جوجدید دنیاوی ،نظریاتی ،اخلاقی انقلابی اور سیاسی تھا ۔اِس نے بعض حکومتوں کو چیلنج کیا جن کے پاس اس کے آگے سرجھکا نے کے سوِا کو ئی چارہ نہ تھا ۔اس تجربہ سے سیکولراِزم نے اپنی غیر ملکی شناخت بھی بنائی[46]۔

۱۹۱۸ء میں کمیونزم کے اثرات ظاہر ہوئے۔ سوویت یونین نے مسلمانوں کےمعاملات کے لیے کمسریت (تھانہ ) Commissariat ،محکمہ رسد، قائم کیا جس نے مڈل ایسٹ میں نوآبادیاتی قوتوں کی اور اُن کےمینڈیٹ کی بھرپور مخالفت کی۔ ۱۹۲۰ ء ابتدائی کمیونسٹ جماعتوں کے قیام نے نوآبادیاتی نظام مخالف کو ششوں میں اپنا اہم حصہ ڈالنا شروع کردیا ۔اور مزدوروں کےحقوق کےحوالہ سے کمیونزم کی حمایت کی۔دوسری جنگ عظیم نے انہوں نےفاشزم کے خلاف جنگ کی مخالفت کی اور بین الا قوامی امن تحریک میں حصہ لیا [47]۔کمیونسٹ جماعتوں کی تحریک کا اہم ترین پہلویہ تھا کہ مختلف مما لک میں ہوتے ہوئے انہوں نےجبر کےخلاف بھرپور اور مربوط مہم چلائی ۔ عرب نیشنلز م کی تحریک کا اہم محرک کمیونز م بن گیا اور مصر میں بالخصوص جمال عبد الناصر کے عہد میں نیشنلسٹ اور کمیونسٹ ایک صف میں کھڑے ہوئے اور اگر چہ کمیونزم عرب نیشنلز م کا ایک نمایا ں مددگار تھا وہ بین الاقوامی تعلیمات جنھوں نے اسے ایک طاقتور قوت میں تبدیل کیا تھا ۔ اپوزیشن جماعتوں نے کسی حد تک جنگ میں تیسری قوتوں بھی استعمال کیا[48]۔

اِسلامی معاشروں میں سیکولراِزم کے ارتقا کا تنقیدی جائزہ:

اسلام کو عرصہ دراز سے اینٹی سیکولرروایت کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔بعض قابل قدر سکالر ز کے نزدیک اسلام کو پیش آمدہ

اولین تجربات اور اس کے جدید یت کے مقابل عمل نے سیکولراز م کو پھلنے پھولنے نہ دیا ایک معروف ترین میں دلیل میں برنارڈ لیوس نے لکھا ہے کہ "مسلمانوں کےہاں اندرونی طور پر سیکولراِزم کی کوئی تحریک نمودارنہیں ہوئی اور بیرونی طور پر کسی ایسی کوشش کا سختی سے سدباب کیا گیا ۔اس کی بنیادی وجہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین تاریخ اور تجربات کے اختلافی فرق سے واضح ہوتی ہے۔ابتدا سے ہی عیسائیوں کو خدا اور سیزر ( قیصر ) میں فرق کرنا سیکھایاگیا اور ہر ایک کی خوشنودی کےلیے الگ الگ فرئض کی بجا آوری ضروری تھی ۔ مسلمانوں کو ایسی کوئی ہدایات نہیں دی گئیں[49]۔

اس تناظر میں اسلا می سیاست کے حوالہ سے ارنسٹ جیلنر (Ersesrt Gellner)کا یہ کہنا ہے کہ اعلی ثقافت کی حامل مذہبی قیادت عموماً شہروں میں رہی جس نے سخت مزاجی کا تاثر پیش کیا جبکہ ادنی ثقافت کے لوگوں نے دیہاتوں میں لوک اسلام کی پیروی کی۔ جیلیز کہتا ہے کہ موجودہ سیاسی مرکزیت کےدور میں وہی کٹر اسلام جو شہری علماء کا پیش کردہ ہے زیادہ موزوں ہے چو نکہ تعلیم وشہریت بڑ ھ چکی ہے۔اسلامی بنیاد پر ستی اس لحاظ سے درحقیقت اس روایت کے احیا کا مطالبہ ہے اوراس کو ملنے والی لوگوں کی بے انتہامد دنئی شہری عوام کی اُسی اعلی ٰ ثقافت کی خواہش سے جنم لیتی ہے۔مسلمانوں کی سیاست کا یہ پھیلا ؤ جیلز کے نزدیک جدید یت کی سیاست کی ضروریات کےساتھ ہم آہنگ ہےجبکہ یہ انداز سابقہ تسلیم شدہ معاشرتی مفروضوں کے خلاف ہے کہ جن کے مطابق سیکولراِزم جدیدیت کی ضرورت ہے اس لحاظ سے جدیدیت کے ساتھ اسلام کا تعلق نادرو نایاب ہے کہ یہاں جدیدیت معاشرہ پر مذہب کے اثر کو مضبوط کرتی ہے۔ اور اسی سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ سیکولراِزم مسلم معاشروں میں کیوں پنپ نہ سکا [50]۔

بیسویں صدی میں مسلم سیاسی مصلحین کی تحاریر سے بھی اس تصور کو تقویت ملتی ہے جنھوں نے دین وحکومت کے مابین کسی بھی قسم کےفرق کا یکسر انکار کیا جس کی بنیاد پر اسلامی دنیا کا سیاسی قانون استوار ہوا ۔مزید برآں بیسویں صدی کےدوسرے نصف میں حکومت مخالف مذہبی تحاریک کی کامیابیوں نے ، جو سیکولراِزم کی شدید ترین مخالف تھیں مسلمانوں کےحوالہ سےاس استثنائی وضاحت کو تقویت بخشی ۔ایران ،افغانستان اورترکی میں ا ٹھنے والی مذہبی تحاریک اور ان کی عوامی پذیرائی اس کی واضح مثال ہیں۔

یہ بات غور طلب ہے کہ ترکی ،عربی اور فارسی زبانوں میں سیکولرازم کا ہم معنی کوئی لفظ موجود نہیں عربی زبان میں ایک قریب المعنی کے طورپر عِلما نیہ ( علم سے ماخوذ ) یا عَلَمانیہ ( دنیاوی )کی اصطلا ح مروّج ہے۔ فارسی میں انگریز ی لفظ سیکولراِزم کو ہی اختیار کیا جاتا ہے اور ترکی میں مستعمل لفظ" لائی لک "ہے جو فرانسیسی لائی سائیٹ سے ماخوذ ہے[51]۔مسلمان اکثریت کی ان بڑی زبانوں میں سیکولراِزم کے ہم معنی لفظ کا نہ ہونا اسلام کے جبر کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلئے ہےکہ مسلمانوں کو اس موضوع پر سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ۔اینگلو امریکن روایت میں سیاسی سیکولراِزم کے آغاز کاتجزیہ اس ضمن میں بہت زیادہ مدد گار ہوتا ہے۔

Mark Lillaنے لکھا ہے کہ:

’’تاریخی اعتبار سے تقر یباً ہر تہذیب نے قانونی سیاسی اقتدار کو خدا ،انسان اور دنیاکے آفاقی گٹھ جوڑ تنا ظر میں دیکھا۔سیاسی مذہبیت اس کے خیا ل میں تہذیبوں کی اولین شرط ہے چونکہ وہ مذہب و سیاست اور اپنے اطراف کی قدرتی دنیا کے درمیان ایک تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں ‘‘[52]

یہاں یہ سوال متعلقہ ہے کہ لاطینی عیسائیت میں یہ آفاقی تعلق (خدا ،انسان اور معاشرہ کا ) کیونکر بتدریج روبہ زوال رہا اور بالاخر اس نے سیاسی سیکولراِزم کی راہ ہموار کی اور اس میں ہم عصر مسلمانو ں کے لیے کیا سبق ہے۔مغرب میں سیکو لرازم کی تاریخ طویل اور مختلف النوع ہے عموماً فکر ی مباحثوں میں بھی اس سے عموماً غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے خصوصاً جب اس کا اسلام سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ Charles Taylor کی کتابA Secular Age[53] اس تناظر میں ایک عمدہ آغاز ہو سکتی ہے ماضی میں چار سماجی رجحانات کا جاننا ضروری ہے جنھوں نے یورپ پر سیکولراِزم کے اثرات ڈالے ۔

  • جدید سرمایہ داریت کا عروج ۔
  • جدید قوم پرست ریاستوں اور قوم پرستی کاعروج۔
  • سائنسی انقلاب۔
  • پروٹسٹنٹ تحریک اصلاح کلیسا اور مذہب کے نام پر سو لہویں اور سترھویں صدی کی جنگیں۔

یہ سب سے بعد میں ہونے والی اہم تبدیلی سیاسی سیکو لر ازم کا مرکزی نقطہ ہے بالخصوص اینگلو امریکن روایت میں اور جو خاص طور پر اسلامی معاشروں میں مذہب و ریاست کے تعلقات کے سوال کو روشن کرتے ہیں ۔تحریک اصلاح کلیساکے بعد کے دور میں مذہبی رواداری کے حوالےسے نئی نئی بحثیں چلتی ہیں[54] ۔

مسلمانوں کی رواداری اور اس کے اثرات

مورخین مجموعی طور پر اس بات سے متفق ہیں کہ کثیر المذاہب علاقوں میں اسلامی معاشروں کا رویہ عیسائیوں کے مقابلہ میں خاصابردباری والا تھا جس کااعتراف مسیحی مصنفین برملا کرتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بیسویں صدی کے وسط تک بغداد کی ایک تہائی آبادی یہودی تھی۔اگرچہ اسلامی معاشرے مذہبی رواداریت کا گڑھ نہ تھے جیسا کہ ہم اس اصطلاح کو آج دیکھتے ہیں ۔یا یہ کہ اقلیتیں اور مخالفین کو کبھی بھی جبر کا سامنا نہ کرنا پڑاتاہم یہ ضرور ہے کہ مسلمانوں کو کبھی بھی اُس طرح سے مذہب کی بنیادپر جنگوں یا مذہبی رواداری کی ضرورت کے مباحثوں یا سیاسی احکام کی ضرورت جیسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑاجو کہ دور جدید کی ابتدا تک یورپی سیاسی تاریخ کامرکزی قضیہ اور موضوع ِگفتگو تھے ۔ تقابلی طور پر یہ چیز سامنے آتی ہے کہ مسلم فِرق کے باہمی تعلقات اور مذہبی اقلیتوں سے سلوک اسلامی دنیا میں پچھلی دس صدیوں میں یورپ سے کہیں زیادہ بہتر تھا ۔[55]

اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سیاسی طور پر مسلم معاشروں میں رواداری کی وجہ سےا یسا کوئی سلگتا ہوا سیاسی تنازعہ سامنے نہ آیا جس کی بنیاد پر ریاست اور معاشرہ ،جس پر مذہب کی چھا پ غالب تھی ، میں کوئی اختلاف پیدا ہو جب کہ مسیحی یورپ میں یہ معمول کے جھگڑے تھے۔ اسی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں کو ئی ایسی آواز نہیں ابھری جسے ستر ھویں صدی میں سیکولرازم کی حمایت میں یورپ میں اٹھنے والی آوازوں کی باز گشت کہا جاسکے ۔مسلمان ریاستوں کو الگ قسم کے مسائل در پیش تھے ۔ریاستی حکمرانوں کی اقرباپروری ،قدرتی آفات اور سب سے اہم طور پر بیرونی مداخلت اور قبضے جیساکہ صلیبی جنگیں (گیارھویں سے تیرھویں صدی تک ) منگولوں کے حملے (جن کی وجہ سے 1258 سکوتِ بغداد ہوا) بعد ازیں روس فرانس ،برطانیہ اور آخر میں امریکہ کا بڑھتا ہو ا اثر ورسوخ، نو آبادیت اور سامراجیت ،جن کے اثرات مختلف اسلامی مما لک میں علاقے ،دور اور جغرافیا ئی اعتبار سے مختلف تھے ۔مسلم معاشروں کو سیکو لرازم کے حوالہ سے سوچنے کی کبھی ضرورت ہی نہ پڑی ۔اس کے برعکس یورپ نے یہ کام کیا جو اُس کی سیاسی استحکام کے لیے ضرورت تھا۔

مزید برآں اسلامی دنیامیں مذہب وریاست کے تعلقات یورپ سے زیادہ مستحکم اور دوستی پر مبنی تھے ۔پچھلی دس صدیوں میں مسلم دنیا میں اکثر اوقات مذہب استحکام اور امکا نیت کی وجہ بنا جبکہ یورپ میں یہ پو سٹ ریفارمیشن کے دوران اندرونی خلفشار کی وجہ تھا ۔اسلامی دنیا میں مذہبی علماء خلیفہ کی حکومت کی توثیق کے بدلے میں اُسے اپنی ذاتی خواہشات کو مذہبی احکامات کے تابع رکھنے پر کامیاب رہے ۔مختصر اً یہ کہ حکمران کبھی بھی قانون سے بالاتر نہ تھے ۔( جیسا کہ بعد میں یہ بیسویں صدی کےدوران ہوگئے ۔) اس طرح ان کی مطلق العنانیت رائج نہ ہوسکی ۔فلڈ مین کے نزدیک اسلامی ممالک جہاں اسلام پسندوں کی حکومت نہیں ہے، رائے عامہ مذہب کے سیاست میں زیادہ عمل دخل کی حامی نظرآتی ہے۔[56]

پاکستان میں سیکولرازم کی بحث:

ہمارے ہاں اسلام اور سیکولرزم کی بحث ۱۸۵۷ سے پہلے کی ہے اور اس جنگ کے بعد اس بحث کا فیصلہ مذہبی طبقے کے خلاف اور جدید طبقے کے حق میں ہو گیا۔ اب تک تاریخ سیکولر یا نیم سیکولر طبقے کی ہمنوا ہے، اور مذہبی طبقہ صرف ردعمل میں ہے۔ریاستی پالیسیوں کے تحت جدید تعلیم، نئی ثقافت اور خاص طور پر جدید معاشی رشتوں اورسیاسی واقعات کی وجہ سے زمین مذہبی طبقے کے پیروں تلے سے مسلسل نکل رہی ہے ۔ریاستی چھتری تلے بیرونی درٓمد پالیسیوں کی بدولت مذہبی طبقے کے مؤقف اور کوشش کے علی الرغم پاکستانی معاشرہ کے سیکولر بننے کے عمل کا تقریباً آغاز کیا جا چکا ہے، اور مذہبی طبقہ اس عمل میں اب شکست اور پسپائی سے دوچار ہے۔ اس عمل کے محرک تمام سیاسی، معاشی اور ثقافتی مؤثرات اشرافیہ سے تعلق رکھنے والےسیکولر طبقے کے پاس ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور نئی معاشی قوتوں کی وجہ سے بھی اس عمل میں بہت تیزی آ گئی ہے اور مذہبی طبقے اور مذہب سے لگاؤ رکھنے والوں کو مسلسل کمزور کیا جارہا ہے۔

پا کستان میں سیکولر طبقے کا نعرہ ترقی اور مذہبی طبقے کا نعرہ دفاع ہے۔سیکولر طبقے کی ترقی کا مطلب صرف ان کی اپنی ترقی ہے ۔ اس ترقی اور دفاع میں دونوں طبقات کو ریاست کی مرکزی اہمیت کا اندازہ ہے۔ علم اور بحث کے سارے قلابے اس لیے ملائے جاتے ہیں کہ ریاست کے طاقتی اور معاشی وسائل تک رسائی حاصل ہو جائے۔ ان دونوں کی باہمی آویزش سے اب تک جتنی ”ترقی“ ہوئی ہے، اور اسلام کا جس قدر دفاع ہوا ہے وہ تو اب نوشتۂ دیوار ہے، اس کے لیے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ سیکولر طبقہ اہل مذہب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتا ہے ۔

قیام پاکستان کے بعد اس بحث کی نوعیت مختلف حالات میں مختلف رہی ہے۔ یہ کسی پالیسی، بیان یا واقعے کے نتیجے میں اچانک دھواں دھار ہو جاتی ہے، اور کچھ عرصے کے بعد بے نتیجہ ختم ہو جاتی ہے۔  لیکن اس کے نتیجہ میں ہر بار طرفین کی باہمی مخاصمت میں کسی قدر اضافہ ہو جاتا ہے، موقف اور پوزیشنیں سخت ہو جاتی ہیں، اور آئندہ بحث کی نتیجہ خیزی بھی موہوم ہو جاتی ہے۔ اس بحث کو مفید اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے خود اس بحث کی نوعیت اور خدوخال، اس کے تاریخی اور علمی تناظر، طرفین کی شناخت اور ان کے موقف اور طرز استدلال کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ درست راستے کی نشاندہی صرف علم ہی سے ممکن ہو سکتی ہے، اور اقدار اس راستے کو طے کرنے کے وسائل اور منزل کے عزم کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ ہم اپنی دینی اقدار کی وجہ سے مسلمان ہیں، لیکن اقدار پر کاربند ہونا ازخود کسی علمی موقف کا اظہار نہیں ہوتا، کیونکہ اقدار کو بنیاد میں رکھتے ہوئے علمی موقف کی عصری تشکیل ضروری ہوتی ہے۔ تاریخی صورت حال علم کا موضوع ہے اور اقدار کا مخاطب انسان ہے۔ روایتی طور پر اجتماعی معاملات ہمارے ہاں اقدار کا موضوع رہے ہیں لیکن جدید دنیا میں وہ علم کا موضوع ہیں۔ مثلاً سیاسی طاقت سے کیا مراد ہے؟ سیاسی طاقت کی جدید تشکیل کا منہج کیا ہے؟ ریاست کی نوعیت کیا ہے؟ قانون اور قانون سازی کے منابع اور طریقۂ کار کیا ہے؟ کلچر کیا ہے؟ خود علم اور اقدار سے کیا مراد لیا جاتا ہے؟ اگر اقدار کو علم کی کمک حاصل نہ رہے تو ان کی حیثیت اس کی آدمی کی طرح ہو جاتی ہے جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو۔

ہم نے دیانت داری سے عصری صورت حال کو سمجھنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ کام صرف ذہن کی جدلیات میں رہ کر ہی ممکن تھا۔ مثلاً کوئی اگر پوچھ لے کہ دین کا سیاسی نظام کیا ہے؟ تو جواب ہوگا کہ خلافت۔ لیکن عصر حاضر میں انسانی اجتماع کو منظم کرنے کے لیے اس کی علمی تفصیل اور فکری جہات کو اجاگر کرنا پڑے گا ۔مثلاً ہم جدید ریاست کی فکری و اخلاقی تفصیلات طے کیے بغیر اسے اسلامی کہنا چاہتے ہیں۔ جدید سرمایہ داری نظام کو بھی اسی بنیاد پر اسلامی کہنا چاہتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس۔ اس رویے کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ اہل علم کو معلوم ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں مذہب کے وکلا میں جدید ریاست یا جدید دنیا کے موثرات وغیرہ کا کم ادراک پایا جاتا ہے۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سیکولراِزم کے تصور پر بالخصوص سیاسی سیکولراِزم پر ،کا صحیح ادراک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مختلف پہلوؤ ں کو سامنے رکھا جائے جوکہ کئی ایک ہیں ۔سیکولراِزم کے حوالہ سے پیدا شدہ طلاطم پر بحث کرنے سے قبل خود مذہبی طبقہ کو مارکس، ڈرخائیم اور ویبر کی صنعتی معاشروں کے حوالہ سے پیش کردہ سیکولراِزم کے بارے معروضات کا جاننا ضروری ہے اس سے سیکولرازم کے مغر بی تجربہ کی صحیح تصویر سامنے آئے گی مزید یہ کہ اس کی ضمنیات کو صحیح طور پر پرکھا جاسکے گا۔

حوالہ جات

  1. www.oxforddictionaries.com/definition/english/secular, (accessed 5 May, 2018)
  2. ibid
  3. https://www.lexico.com/en/definition/secular, (accessed 25 August 2018)
  4.  Holyoake, George J., English Secularism, (Chicago: The Open Court Publishing Company, 1896), p: 25
  5. Harvey Cox, Secular City: Secularization and Urbanization in theological perspective, (New York: MacMillan, 1966), p: 17
  6. Peter Berger, The Sacred Canopy: Elements of a Sociological Theory of Religion, (New York: Anchor Books, 1967), p: 107
  7. Nikki Keddie, Secularism and its Discontents, (Daedalus 132 Summer 2003), p: 16
  8. Munby, D. L. The Idea of a Secular Society, (London: Oxford University Press, 1963),p: 14–32
  9. Weber, Max. The Protestant Ethic and the Spirit of Capitalism, (London: Rout ledge Classics, 2001), p: 123-125.
  10. ایپی قورس: 341-270 قبل مسیح، قدیم یونانی فلسفہ Epicureanism کا بانی کہلاتا ہے۔اس کی تین سو تصانیف میں سےمحض چند ایک کے بعض حصے دستیاب ہیں- ایپی قورین فلسفہ زیادہ تربعد کے شارحین اور پیروکاروں سے ماخوذ ہے۔
  11. https://en.wikipedia.org/wiki/Epicureanism (accessed 29 Nov, 2018)
  12. مارکس آریلیس سلنطت روما کے سنہری دور کا بادشاہ تھا۔ اسے روم کے پانچ عظیم بادشاہوں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے فلسفیانہ اقوال کی وجہ سے آج بھی معروف ہے۔
  13. یہ فلسفہ جبریت کا ہم معنیٗ ہے۔ یونانی فلسفی زینو (Zeno) 495-430 قبل مسیح اس فلسفے کا بانی تھا۔
  14. ڈینس ڈیڈی روٹ فرانسیسی فلسفی تھا۔ جو روشن خیالی کی تحریک کا پرجوش علم بردار تھا۔
  15. والٹیئر فرانسیسی فلسفی تھا۔ جو رومن کیتھولک مذہب کے زبردست ناقد کے طور پر جانا جاتا ہے۔انسانی حقوق اوراظہار رائے کا مغربی تصور سب سے پہلے اسی نے پیش کیا۔ روشن خیالی کی تحریک کا حامی تھا۔
  16. باروچ سپی نوزا کا تعلق ہالینڈ سے تھا۔وہ یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اسے روشن خیالی کی تحریک کے اولین فلاسفہ میں شمار کیا جاتا ہے۔
  17. ٹامس جیفرسن ۱۷۹۷ سے ۱۸۰۱ تک امریکہ کا نائب صدر رہا۔ بعد ازاں ۱۸۰۱ سے ۱۸۰۹ تک امریکہ کا صدر بنا۔
  18. ٹامس پائین برطانوی نژاد امریکی فلسفی اور انقلابی مفکر تھا۔ اسے ریاست ہائے متحدہ کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
  19. رابرٹ انگرسل امریکی مقرر اور مصنف تھا جس نے اگناسٹسزم کا پرچار کیا۔ اسے ‘The Great Agnostic’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
  20. برٹرینڈ رسل برطانوی فلسفی، منطقی، ریاضی دان، سیاسی مفکر، مصنف، مضمون نگار اور معاشرتی نقاد تھا۔
  21. Laicism” یا فرانسیسی Laicite حکومتی معاملات میں مذہب کی عدم مداخلت اور مذہبی معاملات میں حکومت کی عدم مداخلت کا نام ہے۔1871ء میں یہ اصطلاح اس وقت سامنے آئی جب فرانس کے ایلیمنٹری سکولوں سے مذہبی اساتذہ اور تعلیم کو الگ کر دیا گیا۔ فرانسیسی زبان میں یہ لفظ 1842 سے بولا جانے لگا۔‘‘
  22. Ford, Caroline C., Divided houses: religion and gender in modern France (Cornell University Press, 2005), p: 6
  23. Yavuz, Hakan M. and John L. Esposito, Turkish Islam and the Secular State: The Gulen Movement, (Syracuse University, 2003) p: 15 
  24. Holyoake, G.J., The Origin and Nature of Secularism, (London: Watts and Co., 1896), p: 51
  25. Secularism, Catholic Encyclopedia, www.Newadvent.org (accessed 23 Dec, 2018)
  26. http://www.trincoll.edu/NR/rdonlyres/9614BC42-9E4C-42BF-A7F4-B5EE1009462- /0/Kosmin_paper, (accessed 23 Dec, 2018)
  27. Feldman, Noah, Divided by God, Farrar, Straus and Giroux, (2005), p: 14
  28. Berlinerblau, Jacques, How to be Secular, (Houghton Mifflin Harcourt), p: 16
  29. روشن خیالی ، جسے عہدِ عقل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، ایک فلسفیانہ تحریک تھی جو بنیادی طور پر یورپ اور بعد ازاں ، شمالی امریکہ میں ، اٹھارویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی۔ اس کے شرکاء کا خیال تھا کہ وہ "تاریک" قرون وسطی کے بعد انسانی عقل اور ثقافت کو روشن کررہے ہیں۔ روشن خیالی کی خصوصیات میں تصورات کا عروج شامل ہے نیز عقل انسانی کی بالا دستی، آزادی اور سائنسی وروشن خیالی کا فلسفہ مذہبی تشکیک سے عبارت تھا۔
  30. Ira M. Lepidus, The Separation of State and Religion in the Development of Early Islamic SocietyInternational Journal of Middle East Studies, 6 (4), p: 363-385.
  31. Then to give Caesar what is Caesar’s, and to God what is God’s.(Matt.22.17)
  32. Bob Lewis, Jerry's Kids' Urged to Challenge 'Radical Secularism, published on 14 May, 2007 in The Christian Post. (accessed 24 Dec, 2018)
  33. Tamimi, Azzam, The Origins of Arab Secularism, In Islam and Secularism in the Middle East, edited by Esposito, Jon L. and Tamimi Azzam, )New York, New York University Press. 2000(, 13-28, p:17
  34. Ardic, Nurullah, Islam and the Politics of Secularism: The Caliphate and the Middle Eastern Modernization in the Early Twentieth Century, )New York: Rout ledge, 2012(, p: 8
  35. Tamimi, Azzam, Islam and Secularism in the Twenty-First Century, in Islam and Secularism in the Middle East, p. 2
  36. ibid, p: 3
  37. Roy, Olivier, The Failure of Political Islam by Olivier Roy, translated by Carol Volk, (Harvard University Press, 1994), p: 14-15
  38. القزوینی، یزید بن ماجہ ، السنن، (ریاض: دارالسلام، ۱۹۹۹ء)، حدیث: ۲۴۷۱
  39.  http://www.aldunya.net/, (accessed 5 Nov, 2018)
  40. Ira M. Lepidus. The Separation of State and Religion in the Development of Early Islamic Society, International Journal of Middle East Studies 6 (4) (October 1975), p: 363
  41. Ibid, p:364
  42. Ira M. Lepidus. The Separation of State and Religion , p:365
  43.  Hourani, Albert, Arabic Thought in the Liberal Age 1798-1939, (Cambridge: Cambridge University Press, 1983), p: 330-332
  44. John, L. Esposito, The Islamic Threat: Myth or Reality, p: 13
  45. Ibid.
  46. Aziz Al-AzmehIslams and Modernities, p: 48
  47. Nicola Pratt, Democracy and Authoritarianism in the Arab World, p: 163
  48. http://www.answers.com/topic/communism-in-the-middle-east, (accessed 29 Dec, 2018)
  49. Bernard Lewis, What Went Wrong: The Clash between Islam and Modernity in the Middle East(New York: Perennial, 2003), p: 103
  50. Ernest Gellner, Postmodernism, Reason and Religion (New York: Rout ledge, 1992), p: 5-22
  51. Ibid.
  52. Mark Lilla, The Stillborn God: Religion, Politics and Modern West, (New York: Knopf Double- day Publishing Group, 2008), p: 231
  53. Charles Taylor, A Secular Age, (Edinburgh: Harvard University Press, 2007)
  54. Perez Zagorin, How the Idea of Toleration Came to the West, (Princeton, NJ: Princeton University Press, 2003), p: 121
  55. Marshall Hodgson, The Venture of Islam, (Chicago: University of Chicago Press, 1974) p: 63
  56. Noah Feldman, The Fall and Rise of the Islamic State, (New Jersey: Princeton University Press, 2008) p: 20-21
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...