Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 2 Issue 2 of Al-ʿILM

استحکام خاندان میں زوجین کا کردار: سیرت طیبہ کا عملی و اطلاقی مطالعہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060040263_505

Pages

1-33

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/95/75

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/95

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

خاندان معاشرتی زندگی کی بنیادی اکائی ہے۔ کسی بھی معاشرے کا استحکام اور تعمیرو ارتقاء اسی ابتدائی سماجی اکائی کا رہین منت ہے۔ نسل نو کی تربیت اور تعمیرو تشکیل کے ساتھ ساتھ مذہبی ، سماجی ، تعلیمی و تربیتی ، تہذیبی و ثقافتی وظائف خاندان ہی کے ذریعے سے اگلی نسلوں تک منتقل کیے جاتے ہیں ۔ خاندان جس قدر تندہی اور جانفشانی سے اپنے یہ وظائف ادا کر رہا ہو گا اسی قدر مستحکم و منظم ہو گا اس کا یہ استحکام معاشرتی استحکام اور تعمیر میں معاون ثابت ہو گا۔ اس کے برعکس اگر خاندان اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت یا کوتاہی برتے تو اس سے خاندانی نظام میں انتشار و افتراق رونما ہو گا جس سے شرے کا استحکام بھی انتشار کا شکار ہو گا ۔ یعنی معاشرے کا استحکام خاندان کے استحکام پر منحصر ہے ۔

 

خاندان کی اسی اساسی اہمیت و ناگزیریت کے سبب حضرت محمد ﷺ نے نہ صرف اس ازدواجی تعلق کے قیام کی ترغیب دی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسے تمام دینی ، اخلاقی ، معاشرتی ، معاشی اور قانونی اقدامات کیے جن سے یہ رشتہ حقیقی معنوں میں زوجین کے لیے سکون اور باہمی مؤدت و رحمت کا باعث بن سکے ۔ جس کے ثمرات سے زوجین ، ان کی اولا ، والدین اور تمام افراد معاشرہ بہر طور مستفید ہو سکیں۔آپﷺ نے خاندان کی ہر اکائی کو اس کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا اور خود اپنی سیرت سے ایسی مثالیں پیش کیں جو رہتی دنیا تک کے ہر خاندان کے لیے مثالی حیثیت رکھتی ہیں ۔

 

زوج کا معنیٰ و مفہوم

زوجین خاندان کے دو اہم اور بنیادی ستون ہیں۔ کیونکہ خاندان زوجین کے عائلی روابط سے ہی وجود میں آتا ہے۔استحکام خاندان کا انحصار انہی کے باہمی تعلقات پر ہوتا ہے۔ زوجین تثنیہ کا صیغہ ہے جس کا واحد زوج ہے۔ قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر یہ لفظ جوڑے کے معنوں میں استعمال ہواہے: ھم ازواجھم۔"[1]وہ اور ان کے جوڑے۔اسی طرح سے سورہ یٰسین میں بھی یہ لفظ جوڑے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ " سُبْحَانَ الَّـذِىْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّـهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِهِـمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُوْنَ۔"[2]وہ ذات پاک ہے جس نے زمین سے اگنے والی چیزوں کو گوناگوں (جوڑوں کی شکل میں) بنایا، اور خود ان (انسانوں) میں سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جنہیں وہ نہیں جانتے۔

 

لفظ زوج کا اطلاق شوہر پر بھی ہوتا ہے اور بیوی پر بھی کیونکہ زوج کا معنی ہے ” جوڑا “ اور دونوں ایک دوسرے کے لیے جوڑا ہیں۔[3] قرآن حکیم میں یہ لفظ میاں، بیوی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ۔"اُحْشُرُوا الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُـمْ۔"[4]انہیں جمع کردو جنہوں نے ظلم کیا اور ان کی بیویوں کو ۔ اسی طرح سے یہ لفظ ساتھی اور رفقاء کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ " زَوَّجْنَاهُـمْ بِحُوْرٍ عِيْنٍ۔"[5] ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ اس آیت میں زَوَّجْنَا کے معنیٰ باہم ساتھی اور رفیق بنا دینا کے ہیں ۔سورۃ البقرہ میں ہے :" وَلَـهُـمْ فِيْـهَآ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ"۔"[6]ان کے لیے طبیعت میں ہم آہنگ پاکیزہ سیرت کے حامل ہم سفر ساتھی ہوں گے۔

 

لہٰذا زوج سے مراد ایسا رفیق یا ساتھی ہے جن کے ساتھ ملے بغیر اپنی تکمیل نہ ہو سکے۔ جو ایک دوسرے کے لیے لازم ہوں۔ complimentary to each other جیسے گاڑی کے دو پہیے ایک دوسرے کے زوج ہوتے ہیں اگر گاڑی کا ایک پہیہ نہ ہو یا خراب ہو تو دوسرا پہیہ کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا بے کار ہو جاتا ہے ۔اسی طرح سے زوجین ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں ۔ دونوں مل کر خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں ۔ دونوں کا ساتھ اور تعاون خاندان کے وجود کو استحکام بخشتا ہے۔ کسی ایک کی عدم توجہی یا لا پروائی خاندان کو منتشر اور غیر مستحکم کر دیتی ہے۔

 

 

استحکام خاندان میں زو جین کا کردار

زوجین گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہوتے ہیں جو مل کر خاندان کی بقا، تشکیل اور استحکام میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ دونو ں میں سے ایک فریق تنہا تمام ذمہ داریا ں انجام نہیں دے سکتا ۔ اسی لیے اللہ تعالی نے زوجین کو اس ذمہ داری سے احسن انداز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ایک دوسرے کا معاون اور مددگار بنایا ہے۔

 

قرآن حکیم میں زوجین کے لیے لباس کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔"هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۔"[7] تم ان کے لیے لباس ہو اور وہ تمہارے لیے لباس ہیں ۔جس طرح زوجین تحفظ عفت و عصمت کے لیے ایک دوسرے کے لیے بمنزلہ لباس ہیں اسی طرح دونوں خاندان کی تشکیل اور استحکام کے لیے بھی باہم ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں۔ دونوں مل کر خاندان کی تشکیل کرتے ہیں ۔ اسلام نے خاندانی استحکام کے لیے مردو زن کی ذمہ داروں کا ایک نہایت متوازن، معتدل اور جامع تصور دیا ہے ۔ خاندان کی تعمیر و استحکام میں دونوں کو یکساں ذمہ دار قرار دیا گیا۔ایسے میں ا گر ایک بھی فریق اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑتا ہے تو یہ توازن بگڑ جاتا ہے اور خاندان و معاشرہ بھی انتشار کا شکار ہو جا تا ہے۔

 

استحکام خاندان میں عورت کا کردار

ہمارے معاشرے میں یہ مقولہ زبان زد عام ہے کہ گھر عورتیں بناتی ہیں ، حقیقت تو یہ ہے کہ گھر تنہا بن ہی نہیں سکتا جب تک زوجین مل کر اس کی تعمیر و تزئین نہ کریں اور اسے اپنے خون سے نہ سینچیں۔ میا ں اور بیوی دونو ں کا اپنا اپنا دائرہ عمل ہوتا ہے اپنے اپنے فرائض ہوتے ہیں جن کی احسن انداز سے ادائیگی خاندان کو استحکام بخشتی ہے۔ گھر کو گھر بنانے کے لیے مادی وسائل جہاں مرد مہیا کرتا ہے وہیں اپنی ذمہ داریوں کی بطریق ا حسن ادائیگی سے اسے پائیداری بھی عطا فرماتا ہے۔ جبکہ عورت کا وجود اس گھر میں تزئین و آرائش کا سامان مہیا کرتا ہے۔ مرد اگر خاندان کے لیے معاشی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرتا ہے ،عزت کی چھت اور چاردیواری مہیا کرتا ہے تو عورت اس مکان کو اپنے وجود سے اپنی توجہ ، لگن ، محبت ، خلوص ،ایثار ، وفا شعاری ، جانثاری اور محنت سے گھر بناتی ہے۔ وہ اپنی فہم و فراست اور حکمت سے خاندان کی اکائیوں کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔انہیں محبت کے دھاگے میں پروئے رکھتی ہے ۔ انہیں منتشر نہیں ہونے دیتی ۔عورت کا وجود خاندان کو باطنی استحکام فراہم کرتا ہے۔

 

خاندانی نظام کے استحکام میں عورت کا یہ مرکزی کردار ہی ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے رکھ دی ۔[8] اور بحیثیت ماں اسے مرد جو کہ باپ ہے اس پر تین گنا فضیلت اور درجات عطا کیے[9] عورت کا رویہ اپنی اولاد کے ساتھ حقوق و فرائض سے بڑھ کر احسان کا ہوتا ہے۔ اس کی تربیت ہی کی بدولت صالح، نونہلان امت اور معمار قوم پیدا ہوتے ہیں اسی لیے اسے عورت کے جہاد سے تعبیر کیا گیاہے ۔[10]

 

مرد خاندان کے لیے ایک مضبوط اور مہربان سائبان کی مانند ہوتا ہے لیکن عورت ایک ایسا رفیق حیات ثابت ہوتی ہے جو اس سائبان کے لیے سہارے کا کام دیتی ہے اسے نامساعد حالات میں کمزور نہیں پڑنے دیتی اس کی ہمت بندھاتی ہے اور مسائل اور مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسے ہمت ، طاقت ، اعتماد اور حوصلہ دیتی ہے ۔اسی لیے تو مقولہ عام ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کے ذمہ عظیم مشن تھا جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ آپ کو اپنی جان کا خطرہ محسوس ہوا لیکن ان حالات میں حضرت خدیجہ ؓ ہی تھیں کہ جنہوں نےایک مہربان رفیق کی طرح اپنی محبت ، توجہ ،لگن اور وفا شعاری سے آپ ﷺ کی دلجوئی کی اور آپ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:

 

"ہرگز نہیں، خدا کی قسم، اللہ تعالی آپ ﷺ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپ ﷺ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔"[11]

 

حضرت خدیجہؓ کی یہی ہمدردی، دلسوزی اور جاں نثاری تھی کہ حضور ﷺ ان سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ ان کی زندگی میں دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔[12] ان کی وفات کے بعد بھی آپ ﷺ اکثر انہیں یاد کیا کرتے تھے کیونکہ انہوں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا ان کےاسی کردار کے باعث نبی کریم ﷺ سے جب کہا گیا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا آپ کے لئے ایک سن رسیدہ زوجہ کے علاوہ کچھ نہ تھیں تو آپ ﷺ ا س بات پر ناراض ہوئے ، اور فرمایا کہ رب تعالیٰ نے مجھے کبھی بھی ایسی زوجہ عطا نہیں کی جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا نعم البدل بن سکے ۔ کیونکہ انہوں نے میری تصدیق کی جبکہ کسی نے میری تصدیق نہیں کی ،انہوں نے میری مدد کی ایسے حال میں جب کسی اور نے میری مدد نہیں کی ، اپنے مال سے میری امداد کی جب کہ دوسرے اپنا مال دینے سے انکاری تھے۔ [13]

 

نبی محترم ﷺ کے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان جذبات و خیالات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عائلی زندگی میں آپ کے ایثار و خلوص ، وفا و احسان کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے یعنی ایک خاندان کو نامساعد حالات میں بہتر انداز میں چلانے اور اس کا استحکام برقرار رکھنے کے لئے جن جذباتی و مالی سہاروں کی فوری ضرورت ہوتی ہے وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فوری طور پر اختیار کئے۔ اگر آپ اس وقت یہ رویہ اختیار نہ کرتیں تو نبی کریم ﷺ اعلان نبوت کے بعد اتنے نا مساعد حالات کے لئے تیار نہ ہوتے۔

 

مرد ہمہ وقت گھر پر نہیں رہ سکتا کسب معاش کے لیے اسے گھر سے باہر جانا پڑتا ہے ۔ بعض اوقات کئی دنوں کے لیے اور کبھی کبھا دیار غیر میں سالوں تک خاک چھاننا پڑتی ہے۔ ایسے میں گھر کی حفاظت ، شوہر کے مال کی حفاظت، اپنی عزت و آبرو کی حفاظت ، بچوں کی پرورش ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں عورت ہی ادا کرتی ہے۔ آنحضور ﷺ کئی کئی دنوں کے لیے غار حرا میں عبادت کے لیے چلے جایا کرتے تھے ۔اس عرصے میں بنات النبی ﷺ کی پرورش اور تربیت حضرت خدیجہ ؓ ہی کیا کرتی تھیں۔ یہ حضرت خدیجہ ہی تھیں جنہوں نے آنحضور ﷺ کو خانگی مسائل اور فکر سے بے نیاز رکھا ۔ آنحضور ﷺ کو بھی ان کی ذات پر بھروسا تھا کہ میری غیر موجودگی میں بھی یہ تمام امور کو بخوبی سر انجام دے لیں گی ۔ اسی لیے جب حضرت خدیجہ ؓ کی وفات ہوئی تو آپ ﷺ ملول رہنےلگے ۔ یہ دیکھ کر حضرت خولہ بنت حکیمؓ نے ایک دن بارگاہ نبوی میں عرض کی” یا رسول اللہ! خدیجہؓ کی وفات کے بعد میں آپ کو ہمیشہ ملول دیکھتی ہوں۔حضور ﷺ نے فرمایا: ہاں، گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت خدیجہ ہی کے سپرد تھی۔[14]یہ سن کر حضرت خولہؓ نے آپ ﷺ کے سامنے حضرت سودہ ؓ کا نام رکھا اور آپ ﷺ کو قائل کرتے ہوئے ان کے خصائص بیان کیے کہ وہ ایک سچی مومنہ اور آپ کی اتباع کرنے والی نیک دل خاتون ہیں ۔چنانچہ آپ ﷺ نے ان کی یہ تجویز انہی خصائل کی وجہ سے پسند فرمائی کہ خاندان کے استحکام اور اولاد کی پرورش اور تربیت کےلیے ایسی ہی خاتون مناسب ہو سکتی تھی ۔لہٰذا ہم نے دیکھا کہ حضرت سودہؓ کا اپنی سوتیلی اولادوں کے ساتھ برتاؤ حقیقی ماؤں سے بڑھ کر رہا۔ حضرت سودہؓ نے بنات النبی ﷺ کی پرورش اور تربیت نہایت محبت و شفقت کے ساتھ کی ، نبی محترم ﷺ کے مکہ سے ہجرت کرنے کے چھ ماہ تک سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بچیوں کی دیکھ بھال، تربیت کی کٹھن ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے پورا کرتی رہیں۔ ایک سن رسیدہ خاتون کے لئے اپنی سوتیلی اولاد سے شفقت و محبت کا برتاؤ کرناانتہائی مشکل ہوتا ہے مگر آپ رضی اللہ عنہا نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی صاحبزادیوں کے ساتھ باوجود یکہ وہ سوتیلی اولاد تھیں، انہیں حقیقی ماں جیسا پیار دیا۔ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کم و بیش پانچ چھ سال تک سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی زیرِتربیت رہیں لیکن ساری زندگی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیشں نہیں آیا، نہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے اور نہ ہی سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کی طرف سے۔

 

یہی نہیں بلکہ دیگر تمام ازواج مطہرات کا آپ ﷺ کی اولاد کے ساتھ برتاؤ مثالی تھا۔جب حضرت فاطمہ ؓ کی شادی ہوئی تو تمام ازواج مطہرات نے اس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ تمام انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے خود حضرت فاطمہؓ کے لیے مکان لیپا ، بستر لگایا، اپنے ہاتھ سے کھجور کی چھال دھنکر تکئے بنائے ، چھوہارے اور منقے دعوت میں پیش کئے ، لکڑی کی ایک الگنی تیار کی کہ اس پر پانی کی مشک اور کپڑے لٹکائے جائیں ۔ آپ ؓفرماتی ہیں کہ فاطمہ کے بیاہ سے کوئی اچھا بیاہ میں نے نہیں دیکھا۔[15] جب حضرت فاطمہ ؓ مرض الموت میں مبتلا ہوئیں تو حضرت امّ سلمہؓان کی تیمارداری کرتی رہیں اور وفات سے پہلے انہیں غسل میں مدد بھی دی ۔ [16]یہی وہ رویہ ہے جو خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ عورت کے حسن سلوک ، خوش معاملگی کے باعث ان تمام اکائیوں کو باہم ایک دوسرے سے پیوست کر دیتا ہے ۔ عورت کی محبت، وفا، ایثار ، خدمت ، حکمت گھریلو ماحول میں محبت کی چاشنی کو برقرار رکھتی ہے اور گھر کے شیرازے کو بکھرنے نہیں دیتی ۔

 

اسی حکمت ، دانائی اور دور اندیشی کی ضرورت تب بھی پیش آتی ہے جب مرد کی ایک سے زائد بیویاں ہوں ۔محبت میں شراکت کوئی بھی عورت برداشت نہیں کرتی یہ ایک فطری جذبہ ہے جس سے کوئی بھی عورت مبرا نہیں ہوتی ۔ اسی وجہ سے عموماً سوکنوں کے درمیان انس و محبت شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہے۔ بلکہ کبھی کبھار ان کے اختلافات کی وجہ سے ماحول کشیدہ اور کثیف بھی ہو جاتا ہے ایسی صورتحال مرد کے لیے ذہنی اضطراب کا باعث بنتی ہے اور وہ اپنے معمولات تندہی سے انجام نہیں دے پاتا ایسی صورتحال میں خواتین کے لیے ازواج مطہرات کا اسوہ مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ ازواج مطہرات میں اس فطری جذبہ کے باوجود نہایت دوستانہ اور خوشگوار تعلقات موجود تھے ۔ اکثر خانگی مشوروں میں وہ ایک دوسرے کی رفیق ہوا کرتیں تھیں ۔[17] ایک دوسرے کے فضائل کی معترف ہو تی تھیں ۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ حضرت سودہ ؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال نہ ہوا کہ ان کے قالب میں میری روح ہوتی ۔[18] حضرت عائشہؓ اور حضرت صفیہ ؓ میں اس قدر موافقت تھی کہ ایک بار دوران سفر باہم مشورے سے دوران سفر ایک دوسرے سے اونٹ تبدیل کر لیا ،[19] حضرت زینب ؓ جب حلقہ ازواج میں داخل ہوئیں تو حضرت عائشہ ؓ نے ان کو مبارکباد دی ،[20] منافقین نےجب حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو حضرت زینب ؓ نے حضرت عائشہؓ کے پاکیزہ کردار کی گواہی ان الفاظ کے ساتھ دی " ما علمت فیھا الاخیرا۔"[21] اور حضرت عائشہ ؓ حضرت زینبؓ کی مدح میں فرماتی ہیں کہ" میں نے کوئی عورت زینب سے زیادہ دیندار ، زیادہ پرہیزگار ، زیادہ راست گفتار، زیادہ فیاض ،زیادہ فیاض ،سخی ،مخیر اور اللہ کی تقرب جوئی میں زیادہ سرگرم نہیں دیکھی ۔[22]پھر یہی نہیں ایسے واقعات بھی احادیث کی کتب میں ملتے ہیں کہ جب حضرت محمد ﷺ اپنی کسی زوجہ سے ناراض ہوتے تو یہ ازواج باہم ایک دوسرے کی حمایت میں صلح کی کوشش بھی کرتی نظر آتیں جیسا کہ ایک بار حضرت عائشہ ؓ حضرت زینبؓ اور حضرت محمد ﷺ کے درمیان صلح کروانے کے لیے سفارش کے لیے جاتی ہیں تو باقاعدہ بناؤ سنگھار کا اہتمام کرتی ہیں۔[23] یہ سب اس لیے تھا کہ ازواج مطہرات میں حد درجہ خوف خدا،تقوٰی اور عدل کی صفات بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ انہیں حقوق میں توازن اور عدل و انصاف کی اہمیت کا ادراک تھااور اس بات کا بھی بخوبی احساس تھا کہ ان کی ذرا سی نادانی گھر کے ماحول کو کثیف اور حالات کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ایسے حالات ان کے شوہر کے لیے ذہنی اضطراب اور اذیت کا باعث بن سکتے ہیں اور وہ عظیم مشن جو آپ ﷺ کے ذمہ تھا اس میں خلل واقع ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جہاں تعدد ازواج کی صورت مرد پر ازواج کے درمیان عدل واجب ہے ۔ وہیں خاندان کی فلاح اور استحکام کا انحصار عورت کے رویے پر بھی ہے کہ وہ اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرے، خوف خدا کو ملحوظ رکھتے ہوئے رشتوں کی نزاکت اور ان کے درمیان توازن کا خیال رکھے ۔یہی وجہ ہے کہ متعد احادیث میں دیندار عورت کو نکاح کے لیے ترجیح دی ہے ۔آپ ﷺ نے نیک اور دیندار بیوی کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیتے ہوئے فرمایا:" بے شک دنیا متاع ہے اور دنیا کی متاع میں کوئی چیز نیک عورت سے زیادہ افضل نہیں اللہ تعالیٰ کے تقوٰی کے بعد جو چیز مومن کو فائدہ دیتی ہے وہ نیک بیوی ہے کہ جب وہ اسے حکم دے اسے بجا لائے جب اس کی طرف نظر کرے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب اسے قسم دے تو اسے پورا کرے اس کی غیر موجودگی میں اپنے نفس اور اس کے مال کی حفاظت کرے۔"[24]

 

دیندار عورت افراد خاندان کے ساتھ باہمی تعلقات میں اپنی پر خلوص محبت ، ایثار اور احسان پر مبنی سلوک کے باعث خاندان کی تعمیر و ترقی میں ایک نباض حکیم کا کردار ادا کرتی ہے جو زمانے کی تند و تیز ہواؤں سے اپنے آشیانے کی حفاظت کرتی ہے اور اس کے گرد اپنی تربیت کا حصار قائم کرتی ہے جو اسے زمانے کی سرد و گرم کا مقابلہ کرنے کی صلا حیت عطا کرتے ہیں نیز وہ اپنی محنت لگن، توجہ ، محبت ، حکمت ، حسن تدبیر اور ایثار سے گھر کو جنت نظیر بنا دیتی ہے ، جہاں معاشرے کی صالح ، پاکیزہ فطرت اور بلند کردار کی حامل ہستیاں پروان چڑھتی ہیں ، عورت کا یہی مثبت کردار خاندان کی شیرازہ بکھرنے نہیں دیتا اور ایک ایسے مستحکم خاندان کا قیام عمل میں لاتا ہے جو ایک پر امن اور خیر خواہی پر مبنی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کرتا ہے ۔

 

==استحکام خاندان میں مرد کا کردار ==

 

خاندان میں مرد اور عورت دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں ۔ ۔ اسلام معاشرتی نظام حسن اور پائیداری قائم کرنے کے لئے وہ مرد کو عورت پر ایک درجہ ترجیح دیتا ہے اور اس فوقیت کو نظامِ معاشرت میں توازن قائم رکھنے کے لیے ضروری قرار دیتا ہے:اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ[25]"مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس کی بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔"

 

قوام یا قیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا اجتماعی نظام کے معاملات کو چلانے، اس کی حفاظت و نگرانی کرنے اور اس کے لیے مطلوبہ ضروریات فراہم کرنے کا ذمہ دار ہو۔ مرد اِن تینوں معنوں میں قوام یا قیم ہے۔

 

مرد کو قوام کیوں بنایا گیا ہے؟اس کی وضاحت کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ حقوقِ زوجین میں لکھتے ہیں:

 

’’خانگی زندگی کے نظم کو برقرار رکھنے کیلئے بہر حال زوجین میں سے کسی ایک کا قوام اور صاحب ِ ا مر ہونا ناگزیر ہے۔اگر دونوں مساوی درجہ اورمساوی اختیارات رکھنے والے ہوں تو بد نظمی کا پیدا ہونا یقینی ہے ۔۔۔اسلام چونکہ ایک فطری دین ہے اس لئے اس نے فطرت کا لحاظ کر کے زوجین میں سے ایک کو قوام اور صاحبِ امر اور دوسرے کو مطیع اور ماتحت بناناضروری سمجھا اور قوامیت کیلئے اس فریق (مرد)کا انتخاب کیا جو فطرتاً یہی درجہ لے کر پیدا ہوا ہے۔[26]

 

بحیثیت قوام زوجین کے باہمی تعلق میں مرد کو مرکزی کردار حاصل ہے۔ استحکام خاندان کا دارومدار عورت کی بہ نسبت مرد پر زیادہ ہے کیونکہ اگر وہ جسمانی لحاظ سے طاقتور ہے تو اعصابی لحاظ سےبھی عورت کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے ۔ اس میں تحمل مزاجی اور بردباری کی صفات عورت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ اسی سبب سے اس کے ہاتھ میں عقدۃ النکاح تھمائی۔ کیونکہ وہ فہم و فراست میں عورت سے فائق ہے اور عورت کی طرح جلد بازی سے کام نہیں لیتا ۔اس کے مقام اور درجے کا بھی یہی تقاضا ہے کہ وہ عورت کی جانب سے ہونے والی کوتاہیوں کو نظر انداز کرے اور کمال شفقت و محبت ، صبر و حلم ، ایثار و حکمت سے اپنے اس تعلق کو مزید حسن و خوبی سے آراستہ کرے ۔

 

مرد کی قوامیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مرد حاکمانہ رویہ اختیار کرے ۔ کیونکہ مرد کا بے جا رعب و دبدبہ بھی خاندان کا شیرازہ منتشر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ "ایسے گھرانے جہاں پر مرد کا آمرانہ رویہ ہے۔ اور وہ اپنی رائے اور اپنے فیصلوں سے اختلاف کو سنگین جرم سمجھتا ہے اور ایسے جرم کو خواہ وہ اس کی بیوی ہو یا بیٹی سخت سزا کا موجب گردانتا ہے یہ رجحان اسلامی اصولوں کے خلاف ہے، اسلامی تعلیمات کے منافی اور خاندانی استحکام کو نقصان پہنچانے والا رویہ ہے۔"[27]

 

اس حوالے سے آنحضورﷺ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے ۔ خانہ نبوت میں مختلف عمروں اور مزاج کی حامل خواتین شامل تھیں ۔ لیکن آپ ﷺ کے انصاف ، حکمت اور فہم و فراست نے گھر کا توازن اور حسن کبھی بگڑنے نہیں دیا۔ ازواج مطہرات نے تنگی کی شکایت کرتے ہوئے نان و نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے ایک روایتی مرد کی طرح نہ تو لعن طعن کیااور نہ ہی زود و کوب کیا ۔ اور نہ اٹھ کر انہیں وعظ و نصیحت کرنا شروع کر دی بلکہ آپ ﷺ نے خاموشی اختیار کی اور بالا خانہ پر تشریف لے گئے تاآنکہ آیت تخییر نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے انہیں دامن نبوت اور اپنی خواہشات میں سے کسی ایک چننے کا آزادانہ اختیار دے دیا۔

 

اسی طرح حضرت عائشہ کم سن تھیں تو آپ ﷺ نے انہیں کبھی یہ احساس دلانے کی کوشش نہ کی تھی کہ بیوی ہونے کی حیثیت سے اب بچپنا چھوڑ دو اور سنجیدگی اختیار کرو بلکہ آپ ﷺ خود جا کر ان کی سہیلیوں کو بلا کر لاتے تھے انہیں گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت دیتے،[28] انہیں اپنی اوٹ میں کھڑا کر کے حبشیوں کا کھیل دکھاتے،[29] ان کے ساتھ دوڑ لگاتے،[30] کبھی گیارہ عورتوں کا طویل قصہ یا کہانی سناتیں تو نہ صرف تحمل بلکہ پورے انہماک سے سنتے،[31] آپؓ سوئی ہوتیں تو آہستہ سے اٹھتے اور آہستہ سے دروازہ کھولتے تاکہ آپؓ کی نیند میں خلل واقع نہ ہو،[32] اور کبھی ان سے خطا ہو جاتی تو کمال حکمت سے کام لیتے ہوئے ان کی راہنمائی کرتے جیسے ایک بار آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کے ہاں تشریف فرما تھے ۔ زینب بنت جحش ؓنے آنحضرت ﷺ کے لئے ایک پیالے میں کچھ کھانے کی چیز بھیجی۔ حضرت عائشہ کو غیرت آئی اور آپؓ نے ہاتھ مار کر وہ پیالہ توڑ دیا اور کھانا بھی ضائع ہو گیا۔ بعد میں آپؓ کو ندامت ہوئی تو آپﷺ سے پوچھنے لگیں کہ اب کیا کروں تو آپ ﷺ نے خوش مزاجی سے فرمایا عائشہ ویسا برتن اور ویسا ہی کھانا اس کا بدلہ ہے ۔[33]

 

آپ ﷺ چاہتے تو حضرت عائشہؓ کو سخت سخت بھی سنا سکتے تھے لیکن آپ ﷺ نے ان کے جذبہ غیرت کو سمجھتے ہوئے کچھ نا کہا یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ کو خود ندامت محسوس ہوئی اور آپ ﷺ نے بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ازالہ کی راہ بھی سجھا دی۔لہٰذا عورتوں پر مردوں کی فضیلت ایک طرف ان کی ذمہ داریوں کے باعث ہے تو دوسری طرف زوجین کی باہمی رفاقت میں بیوی کی جانب سے ہونے والی بہت سے معاملات میں کوتاہیوں سے چشم پوشی اور اعلیٰ درجہ کی برداشت کے سبب سے بھی ہے ۔

 

اختلافات اور تنازعات کس گھر میں نہیں ہوتے ازواج مطہرات میں بھی ہوتے تھے لیکن آپ ﷺ کے حلم اور فراست نے ہمیشہ ماحول کو خوشگوار ہی رکھا۔ایک بار حضرت صفیہ زار وقطار رورہی تھیں ۔آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ صفیہ کیوں رورہی ہو؟کہا کہ زینب جو آپکی بیوی ہیں وہ کہہ رہی تھیں کہ ہمار اتعلق نبی کریم ﷺ سے نسبی ہے،لہذا فضیلت میں ہم تم سے بڑھ کر ہیں۔تم فضیلت میں ہمارے برابر نہیں ہوسکتیں اور ہم سے بڑھ نہیں سکتیں۔فورا ًنبی کریم ﷺ نے ان سے یہ کہا کہ: ارے !تم نے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ تم مجھ سے فضیلت میں کیسے بڑھ کر ہوسکتی ہوجبکہ میرا باپ ہارونؑ اور میرے چچا موسیٰؑ اور میرے شوہر حضرت محمد ﷺ ہیں ۔[34]

 

یہ بھی آپ ﷺ کا حکمت بھرا انداز تھا جس نے دلوں میں دوریا ں اور کدورتیں بڑھنے نہ دیں اور ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تلخی او راثر کو بھی زائل کر دیا۔ ہمارے معاشرے میں مرد ماں اور بیوی کے درمیان توازن نہیں رکھ سکتا اور دونوں کے درمیان پس کر رہ جاتا ہے اسی غیر متوازن رویے کے سبب اکثر گھروں کا ماحول کشیدہ رہتا ہے ۔ جبکہ اکثرو بیشتر یہ ناچاقی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ خاندان کا شیرازہ ہی بکھر جاتا ہے۔ یہاں مرد کی فہم و فراست اور حکمت و دانشمندی ہی وہ چیز ہو سکتی ہے جو خاندان میں توازن کو برقرار رکھ سکتی ہے اور بحیثیت قوام یہ اس کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے ۔ خانہ نبوت میں بیک وقت متعدد ازواج موجود تھیں باہم غیرت یا رقابت کے جذبات کے واقعات ہمیں ازواج النبی ﷺ کی زندگی سے بھی ملتے ہیں ۔ اس نسوانی فطرت کی جھلک ہمیں ان میں بھی نظر آتی ہے لیکن آپ ﷺ کے انصاف ، عدل حکمت اور فہم و فراست نے توازن کو کبھی بگڑنے نہ دیا اور ازواج مطہرات کے درمیان باہم محبت، احترام کا جذبہ ہمیشہ قائم رہا۔ یہی مرد کی قوامیت کا تقاضا ہے کہ وہ حسن تدبیر سے کام لے خاندان کی اکائیوں کے درمیان توازن کو قائم رکھے ۔کیونکہ اس کی ذرا سی غفلت یا لا پرواہی خاندان کا شیرازہ منتشر کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

 

آپ ﷺ نے تمام ازواج مطہرات کی نفسیات ، ضروریات ،حسب نسب ، مقام ومرتبہ اور ان کے رجحانات کو ایک ماہر نفسیات کی طرح ہمیشہ ملحوظ رکھا ، یہی وجہ ہے کہ ہر زوجہ بحیثیت شوہرآپ ﷺ کے کردار سے مطمئن و شاداں نظر آئیں۔ اگر بحیثیت آپ ﷺ کمال تدبر و حکمت سے کام نہ لیتے تو خاندان نبوت کا شیرازہ بکھر جاتا۔ یہ آپ ﷺ کی تربیت ہی تھی کہ جس کے باعث وصال نبی ﷺ کے بعد بھی تمام ازواج باہمی احترام و مودت ، محبت و حسن سلوک کی مجسم پیکر نظر آئیں۔

 

استحکام خاندان کے لیے مردو زن کے دائرہ عمل کی تقسیم کے بعد اسلام ایسے بہت سے امور کا ذکر کرتا ہے جن میں زوجین کا یکساں کردار خاندان کے استحکام میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

 

1۔ باہمی محبت و مؤدت

زوجین کے درمیان باہمی محبت و مؤدت، دلی لگاؤ، اور دلی وابستگی کا ہونا استحکام خاندان کے لیے نا گزیر ہے۔تبھی وہ زندگی کے نشیب و فراز اور نامساعد حالات کا سامنا کر پائیں گے۔اس مخلص رشتے میں محبت دراصل اللہ کی بے پایاں رحمت کا حصہ ہے۔

 

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً[35] ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘۔زوجین کے درمیان محبت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی ہے:

 

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ ۔"[36]’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے ۔" اس آیت مبارکہ میں قُرَّۃَ اَعْیُنٍ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی کہ جو آنکھوں کی ٹھنڈ ک ہو۔ آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد زوجین کے درمیان گہری محبت اور وابستگی ہے۔ دونوں کے درمیان مزاج کی ہم آہنگی اور مزاج شناسی کا ہونا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں بھی ہے :ان امرھا اطاعتہ ، وان نظر الیھا سرتہ، وان اقسم علیھا ابرتہ ، وان غاب عنھا نصحتہ فی نفسھا ومالہ۔"[37]

 

کہ ایسی عورت جو شوہر کی فرمانبردار ہو، مال اور عزت آبرو کی حفاظت کرنے والی اور ظاہری جمال کے ساتھ ساتھ خوش خصال بھی ہو قُرَّۃَ اَعْیُنٍ کے مفہوم میں شامل ہے۔

 

آپؐ کی خانگی زندگی ایسی تھی جس میں زوجین کے درمیان محبت و الفت گھر کے کونے کونے میں رچی بسی نظر آتی ہے۔ ازواج مطہرات سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ازواج سے صلح میںہمیشہ پہل فرماتے ،حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ مجھ سے پانی کا گلاس چھین لیتے اور مسکرا کر جہاں سے میں پانی پی رہی ہوتی ٹھیک اسی جگہ منہ رکھ کر پانی پیتے،ہڈی وہاں سے چباتے جہاں حضرت عائشہ نے چبایا ہوتا، [38]پیار سے حضرت عائشہ کو حمیرااور عائش کہہ کر بلاتے ۔ حضرت عائشہ ؓ کو بھی آپ ﷺ سے نہ صرف شدید محبت تھی بلکہ انتہا کا شغف و عشق تھا کہ کسی اور کی جانب سے اظہار ہوتا تو ان کو ملال ہوتا ۔کبھی راتوں کو بیدار ہوتیں اور پہلو میں نہ پاتیں تو بے قرار ہو جاتیں ۔ [39]تخییر کی آیت نازل ہوئی تو بلا تردد دامن نبوت کا انتخاب فرمایا ،ارجا کی آیت نازل ہوئی کہ آپ ﷺ جس بیوی کو چاہیں تو رکھیں اور جس کو چاہیں الگ کر دیں ۔ تو حضرت عائشہ ؓ کہنے لگیں اگر یہ اختیار مجھے حاصل ہوتا تو آپ ﷺ پر کسی کو ترجیح نہ دیتی ۔[40]

 

چنانچہ زوجین میں جب تک ایک دوسرے کے ساتھ محبت ومہربانی کا تعلق پیدا نہ ہو اور ان دونوں کے درمیان خلوص اور ایثار کے جذبات نہ پائے جاتے ہوں تو ایسے تعلقات پائیدار نہیں ہو سکتے بلکہ وہ کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں۔اور اگر بالفرض طوعاً کرھاً اس رشتے کو ناگواری کے ساتھ نبھایا بھی جاتا ہے تو زندگی بذات خود ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ گھر کا ماحول کشیدہ اور کثیف رہنے لگتا ہے۔ زوجین کے درمیان محبت و الفت اور موافقت کی کمی بچوں پر اثر انداز ہونے لگتی ہے اور ان کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔

 

اس کا واحد حل یہی ہے کہ ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھا جائے، شکایات کا ازالہ کیا جائے ، بد گمانیوں کو رفع کیا جائے،اپنی غلطی ہو تو اس کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت کر لی جائے ،حقوق وفرائض کو ادا کیا جائے، ایسے عادات اور خصائل سے خود کو آراستہ کیا جائے جن سے پیراستہ اسے دوسرا دیکھنا چاہتا ہے اور بعد میں بھی اس پر ثابت قدم رہا جائے تا کہ دونوں کے درمیان چاہت، محبت اور الفت کے جذبات روز افزوں رہیں ۔

 

2۔حسن سلوک

خانگی زندگی میں حسن سلوک بہت اہمیت کا حامل ہے اسی لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے روزمرہ کی زندگی میں عورت کیساتھ حسن سلوک کی سفارش کی ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، فَاِنْ کَرِھُتُمُوْھُنَّ شَیْئاً فَعَسَیٰ أَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئاً وَیَجْعَلُ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْراً ۔"[41]اور ان عورتوں کے ساتھ حسن وخوبی سے گذر بسر کرو اور اگر تم کو وہ ناپسند ہو ں تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز ناپسند کرو اور اللہ تعالی اس کے اندر بڑی منفعت رکھ دے ۔

 

اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا اور اگر اس جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اِس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی۔مولانا جلال الدین عمری لکھتے ہیںوَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کا مطلب ہے کہ .بیوی کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کیے جائیں اور اس کی جائز اور معقول ضروریات پوری کی جائیں۔ اس کے ساتھ ناروا سلوک نہ کیا جائے، بلکہ پیار اور محبت کا برتاؤ کیا جائے۔ ترش روئی اور سخت کلامیسے اجتناب کیا جائے۔ یہ سب باتیں معروف میں آتی ہیں۔ اس کے خلاف جو رویہ اختیار کیا جائے گا وہ غیر معروف اور منکر ہو گا۔”[42]

 

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی سفارش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :استوصو بالنساء فان المراۃ خلقت من ضلع و ان اعوج شی فی الضلع اعلاہ ، فان ذھبت تقیمہ کسرتہ و ان ترکتہ لم یزل اعوج فا ستو صو بالنساء ۔[43]

 

" عورتوں کے بارے میں مجھ سے نصیحت حا صل کر لو ۔ بے شک عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھی اوپر والی پسلی ہوتی ہے ۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے ٹوڑ دو گے ۔ اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی ۔ پس عورت کے بارے میں وصیت حا صل کر لو ۔ "

 

جس معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کی سفارش آ جائے اس معاملے کی سنگینی، نزاکت اور اہمیت کا اندازہ بخوبی ہو جانا چاہیے۔ عورتوں سے حسن سلوک کی تاکید وہ واحد معاملہ ہے کہ آپ ﷺ نے سب سے زیادہ نصیحت کی ۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کو کامل ایمان کی علامت قرار دیا ہے :

 

"ان من اکمل المومنین ایمانا أحسنھم خلقا والطفہم باھلہ۔"[44] مومنین میں سے اس کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاقی برتاؤ سب کے ساتھ بہت اچھا ہو اور خاص کر اپنی بیوی کے ساتھ جس کا رویہ انتہائی لطف و محبت کا ہو۔ مزید فرمایا :" خیرکم خیرکم لاھلیٰ، وانا خیرکم لاھلی۔" [45]تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہوگا جو اُن کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔ اور بیوی کے حقوق کیا ہیں جب ا س بارے میں آپ ﷺ سے استفسار فرمایا تو آپ ﷺ نے جواب دیا :ان تطعھمااذا طعمت و تکسوھا اذا اکتسیت او اکتسبت ولا تضرب الوجہ ولا تقبح۔"[46] یہ کہ تو اس کو کھلائے اور اس کو پہنائے جو تو خود پہنے ، اور اس کے چہرے پر نہ مار اور نہ اسے برا بھلا کہہ۔"

 

امام غزالی آداب معاشرت اور نکاح کو قائم رکھنے والے اسباب بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

 

عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے رہنا چاہیے، ان کی جانب سے ایذا برداشت کرنی چاہیے ان پر رحم اور ترس کھانا چاہیے ۔ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بیوی کو ایذا نہ دینا حسن سلوک نہیں بلکہ عورت کی جانب سے ایذا برداشت کرنا اور اس کے غصہ اور طیش کو سہنا اصل حسن سلوک ہے ۔ یہ آپ ﷺ کا طریقہ ہے ۔ آپ ﷺ کی بعض بیویاں آپ ﷺ کے سامنے بولتی تھیں اور سارا سارا دن بات نہ کرتی تھیں مگر آپ ﷺ پھر بھی تحمل فرماتے ۔"[47]

 

آپ ﷺ نے کبھی کسی زوجہ کو طعن و تشنیع نہ کی اور نہ ہی کبھی کسی پر ہاتھ اٹھایا حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :" ما ضرب رسول ﷺ خادماً لہ، ولا امراۃ ولا ضرب بیدہ شیاً۔[48] بلکہ بیوی کے ساتھ تشدد کرنے والوں کے لیے فرمایا :" لیس اولئیک بخیارکم۔"[49]

 

عورت کو بھی مرد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے ۔ اس کے مزاج، پسند و ناپسند کا خیال رکھے۔ جب کوئی حکم دے تو بجا لائے ۔ شوہر گھر آئے تو اس کے آرام و سکون کا خیال رکھے۔اس کے اعزہ و أقارب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ اس کے والدین بہن بھائیوں اور اگر دوسری بیوی سے اولادیں ہوں تو ان کے ساتھ بھی احسان کا رویہ اپنانا چاہیے۔جس طرح حضرت سودہ ؓ نے حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد ان کی بچیوں کی دیکھ بھال اور تربیت کی کٹھن ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے پورا کیا انہیں حقیقی ماں جیسا پیار دیا، حضرت فاطمہؓ کی شادی میں تمام ازواج مطہرات کی شمولیت کرنا خواتین کے لیے بھی قابل تقلید نمونہ ہے کہ مرد کے حسن سلوک کے جواب میں عورت کس طرح سے احسان کی روش اپنا سکتی ہے۔کیونکہ نرمی محبت اور خدمت و اطاعت دلوں کے بند دروازے وا کرتی ہے۔ نفرت و عداوت کا خاتمہ کرتی ہے اور خاندان کی بنیادوں کو باطنی استحکام فراہم کرتیں ہیں ۔

 

3۔حقوق و فرائض کی ادائیگی

خا ندان کی تشکیل میں جو تعلق سب سے حساس اور اہم ہے وہ میاں بیوی کا ہے،آپ ﷺ نے خاندان کو انتشار سے بچانے اور اسے استحکام بخشنے کے لیے زوجین کے باہمی حقوق و فرائض کا ایک ایسا سلسلہ قائم کر دیا ، جس پر عمل پیرا ہو کر انفرادیت پسندی ، عدم اعتماد، پریشانی اور انتشار جیسے معاشرتی امرا ض کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ، حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ میں خاندان کے جملہ عناصر ترکیبی مثلاً والدین ، ازواج مطہرات ، اولاد ، اقربا اور غلاموں کے بارے میں وا ضح ہدایات موجود ہیں۔[50]

 

آپﷺ کی خارجی زندگی کی ذمہ داریاں اتنی متنوع اور وسیع تر تھیں کہ ان کے ساتھ اپنے اہل خانہ اور افراد خاندان کے لیے وقت نکالنا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا، آج کے زمانے کو دیکھتے ہوئےایک مشکل ترین بات تھی لیکن حیات مبارکہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ آپ ﷺازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے حقوق کی رعایت فرماتے اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ اس سے غافل نظر نہیں آتے۔

 

4۔تقویٰ

قرآن کریم نے جہاں زو جین کے حقوق کا ذکر کیا ہے وہاں انہیں تقوٰی اختیار کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے اس حوالے سے خطبہ نکاح کے وقت پڑھی جانے والی آیت سب سے پہلے ذہن میں رہنی چاہیے "[51] اللہ رب العزت نے جہاں میاں بیوی کے حقوق کا تذکرہ فرمایا وہیں تقوٰی کا حکم بھی دیا :" وَاتَّقُوا اللّـٰهَ وَاعْلَمُوٓا اَنَّكُمْ مُّلَاقُـوْهُ۔"[52] اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اس کے رو برو حاضر ہونا ہے۔ ان آیات میں میاں بیوی کو یہ بات ذہن نشین کروائی ہے کہ باہمی حقوق و فرائض میں اگر کسی جانب سے کمی ، کوتاہی یا زیادتی ہو بھی جائے تو دونوں اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنے معاملات انجام دیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حد ہے ۔ نہ کہ ایک دوسرے کی دل آزاری کی جائے ، سزا دی جائے ، تشدد کیا جائے، ایذا دی جائے ۔ آپ ﷺ نے عورتوں کے معاملے میں تقوٰی اختیار کرنے کی تاکید کی۔ "اتقواللہ فی النساء، فانکم أخذتموھن بامانۃ اللہ۔"[53]اپنی بیویوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو تم نے ان کو اللہ کی امان کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے۔اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب کوئی عورت حبالہ نکاح میں آتی ہے تو وہ اللہ کی امان میں داخل ہو جاتی ہے ایسے میں اگر شوہر اس پر زیادتی کرے گا تو وہ اللہ کی امان کو توڑے گا اور بارگاہ الٰہی میں مستوجب سزا ٹھہرے گا۔اور حضوؐر کی ایک حدیث کے مطابق اُس سے اس ذمہ داری کے سلسلے میں خدا کے ہاں بازپُرس ہوگی۔"والرجل راع علی اھل بیتہ وھو مسئول عنھم۔"[54]مرد اپنے گھر والوں پر نگہبان ہے اور اسے اس کے بارے میں بازپرس کی جائے گی۔

 

تقوٰی کے حصول کا یہ سفر سہل نہیں اس سفر میں کبھی خاردار جھاڑیوں سے دامن الجھے گا اور کبھی صحرا کی صعوبتیں بھی سہنیں پڑیں گی، کبھی اس دشت کی سیاحی جسم و روح دونوں کی آبلہ پائی کا باعث بنے گی تو کبھی موسموں کے سردو گرم مضطرب رکھیں گے ، کبھی یہ نہ کٹنے والا پر خطر سفر مضمحل کرے گا تو کبھی اس کے بالکل برعکس انہی خار دار جھاڑیوں سے بیش قیمت پھولوں سے دامن بھر جائے گا کبھی یہی صحرا شجر سایہ دار میں بدل جائے گا اور کبھی اس دشت کی سیاہی پھولوں کی سیج ثابت ہو گی تو کبھی موسموں کا یہی سرد و گرم زندگی کا حسن بڑھاتا جائے گا اور کبھی یہ پر خطر سفر ایک حسین خواب کی تعبیر کا روپ دھار لے گا۔ اور یہ سب تبھی ممکن ہو گا جب زوجین میں سے ہر ایک کی زندگی میں تقویٰ کا پہلو کبھی فراموش نہ کیا جائے ۔ اور وہ عزم و ہمت ، صبر و برداشت ، ایثار و محبت خلوص اور سچائی پر اس رشتے کی بنیاد رکھیں۔

 

5۔ عفو و درگزر اور صبر و تحمل کا مظاہرہ

عفو درگزر خانگی زندگی میں کامیابی کی کنجی ہے ۔ زوجین کے درمیان تفاوت اور اختلاف کا ہونا فطری امر ہے ۔ اور خطا کا ہو جانا بھی انسانی سرشت میں شامل ہے لیکن ایسے مواقع پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا اور عفو درگزر سے کام لینا بہت سی پیچیدگیوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔اگر زوجین عفودرگزر سے کام نہ لیں تو نوبت لڑائی جھگڑوں تک پہنچ سکتی جس سے خاندان کا شیرازہ منتشر ہو سکتا ہے۔اور یہی کام شیطان چاہتا ہے کہ زوجین کے درمیان تفریق کروا دی جائے۔آپ ﷺ سے روایت ہے:

 

’’شیطان پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور اپنے چیلوں کی کارگردگی کی رپورٹ لیتا ہے۔کوئی کہتا ہے میں نے فلاں جگہ قتل کروا دیا ، کوئی کہتا ہے میں نے فلاں کو زنا یا شراب کی طرف مائل کر دیا لیکن ابلیس لعین تب خوش ہوتا ہے جب ایک چیلایہ رپورٹ دیتا ہے کہ میں نے بیوی خاوند میں پھوٹ ڈالدی اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا، وہ اسے گلے لگاتا اور شاباش دیتا ہے کہ تو نے اصل کام کیا۔[55]

 

عفو درگزر اور صبر وتحمل شیطان کے حملے کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ رشتوں میں تلخیوں اور دوریوں کو بڑھنے نہیں دیتا ۔ غلطیوں اور کو تاہیوں کو نطر انداز کر کے نرم رویہ اپنانا اسوہ محمدی ﷺ ہے ۔حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں :"ما رایت احدا کان ارحم بالعیال من رسول اللہﷺ ۔"[56] " میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ اپنے اہل و عیال کے لیے رحیم و شفیق کسی کو نہیں دیکھا ۔"

 

عورت نرم دل اور جذباتی ہوتی ہے ، جذبات سے مغلوب ہو کر بعض اوقات اس سے کوئی ایسا فعل ہو جاتا ہے جو عقل سلیم کے مخالف ہوتا ہے ایسے حالات میں شوہر کو چاہیے کہ وہ عورت کی جانب مدد کا ہاتھ بڑھائے نہ کہ زودو کوب کا بہانہ ہاتھ آنے پر وحشت و بربریت کا مظاہرہ کرے ۔ بلکہ اس کی کوتاہی پر عفو و درگزر سے کام لے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا :"استوصوا بالنساء فان المراۃ خلقت من ضلع و ان اعوج شی فی الضلع اعلاہ ، فان ذھبت تقیمہ کسرتہ و ان ترکتہ لم یزل اعوج فا ستو صو بالنساءخیراً ۔[57]" عورتوں کے بارے میں مجھ سے نصیحت حا صل کر لو ۔ بے شک عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھی اوپر والی پسلی ہوتی ہے ۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے ٹوڑ دو گے ۔ اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی ۔ پس عورت کے بارے میں وصیت حا صل کر لو ۔ "

 

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مرد کو اپنے گھر میں کیسا رویہ رکھنا چاہیے ۔ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرے بلکہ اپنی حکمت اور دانشمندی سے اسے اپنی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے ۔ کیونکہ اگر مرد جسمانی لحاظ سے بمقابلہ عورت کے قوی ہے تو جذباتی لحاظ اور فہم و فراست میں بھی عورت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے ۔ اگر وہ حکمت سے کام لے تو زندگی کا اصل لطف حاصل کر پائے گا کیونکہ عورت کا یہی مزاج یکساں اور بے رنگ زندگی میں تنوع اور خوبصورتی کا باعث بھی ہے۔ ایک بار حضرت عائشہ ؓ آپ ﷺ سے ناراض ہو گئیں اور فرمانے لگیں "أنت الذی تزعم انک نبی"؟ [58]ہمارے معاشرے میں مرد عموماً ایسی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور ایسے طرز تخاطب کو بدتمیزی اور اپنی بے عزتی پر محمول کرتے ہیں لیکن آپ ﷺ تو اس بات کو سن کر مسکرانے لگے ۔

 

آپ ﷺ کا طریقہ کار کتنا بہترین ہے ۔ اس کے ذریعے گھر کو جنت کا نمونہ بنایا جا سکتا ہے۔ جس میں سلامتی اترتی ہے۔ اور ازدواجی زندگی کی بقا ءکی ضمانت ہے ۔لہٰذا جب میاں بیوی میں سے ایک غصے میں ہو تو دوسرے کو حوصلہ اختیار کرنا چاہیے ورنہ عداوت پختہ اور جھگڑا سخت نوعیت کا ہو جا تا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ کچھ ہو جاتا ہے جس کا گمان تک نہیں ہوتا ۔ بسا اوقات ایسی صورتحال خاندان کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔[59]لیکن اگر بیوی بد مزاج ہے یا جھگڑالو ہے تب بھی مرد کو صبر اور تحمل مزاجی سے کام لینے کی تلقین کرتے ہوئے آپ ﷺ نے اجر کی نوید سنائی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی بیوی کے برے اخلاق پر صبر کر لیتا ہے تو اللہ تعالی اس خاوند کو اس طرح سے اجر عطا فرمائے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب ؑ کو اللہ تعالی نے بیماری کے اوپر صبر کرنے کا اجر عطا فرمایا تھا ۔ اور جو بیوی اپنے خاوند کے برے اخلاق پر صبر کر لیتی ہے اللہ تعالٰی اس کو اتنا صبر عطا کرتا ہے جتنا آسیہ بنت مزاحم یعنی فرعون کی بیوی کو عطا کیا تھا۔"[60]

 

مقصود یہ ہے ناخوشگوار حالات میں مرد بد کلامی اور زودو کوب کی بجائے نرمی و شائستگی سے کام لے ۔ یہ نا ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ہو اور اس کے اچھے نتائج برآمد نہ ہوں ۔ مرد چونکہ عقلمندی اور دانائی میں بڑا ہوتا ہے اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ سے حکمت ، نرمی اور اچھی رہنمائی سے کام لیتے ہوئےمعاملے کو سلجھانے کی ذمہ داری کسی مناسب وقت میں نبھائے کیونکہ اس کے لیے ہر وقت مناسب نہیں ہوتا۔"[61]

 

خا وند کو چاہیے کہ وہ عورت میں اچھے اخلاق کو دیکھے اور بیوی کی برائی کے بدلے میں اچھے اخلاق کا مظا ہرہ کرے ۔ اسی بارے میں آپﷺ کا فرما ن ہے :"ولا یفرک مومن مومنۃ ان کرہ منھا خلقا رضی آخر۔"[62]" کوئی مومن مرد ( اپنی ) مومن عورت سے بغض نہ رکھے ۔ اگر وہ اس کی کسی عادت کو نا پسند کرتا ہے تو کسی عادت کو پسند بھی تو کرتا ہے۔ " الفرک کا لفظ کینہ بغض و عناد کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی کہ زوجین کسی معمولی بات کی وجہ سے دل میں نفرت، بغض اور کینہ نہ پال لیں بلکہ ایسے وقت میں ایک دوسرے کی خوبیوں پر نگاہ کرتے ہوئے کوتاہیوں اور خامیوں سے درگزر کرنا ہی دور اندیشی ہے ۔ ایک غصے کی حالت میں ہو تو دوسرا درگزر سے کام لے اور خاموش رہے ۔ اس سے جھگڑا طول نہیں پکڑے گا اور بات جلد ہی رفع دفع ہو جائے گی ۔

 

دوسری طرف عورت کو بھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اگر خاوند تھکا ہارا کام سے آیا ہے اس کے چڑ چڑے پن یا سخت لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے عفو درگزر سے کام لے ، اس کے مزاج کو سمجھے ، بعد میں جب شوہر کا مزاج اعتدال پر آ جائے تو اس سے اس کی پریشانی کی بابت دریافت کرے ۔اس کی دلجوئی کرے ۔ اور اسے اچھے حالات کی امید دلائے اس کے اعصاب کو سکون و راحت دے ۔ جیسا کہ پہلی وحی کہ نزول کے وقت آپ ﷺ پریشان حال گھبرائے ہوئے گھر لوٹے تھے تو حضرت خدیجہ ؓ نے ان کو ہمت دلائی ان کی ڈھارس بندھا ئی اور انہیں امید افزاء نتائج کا یقین دلایا۔حضرت خدیجہ ؓ کا یہ انداز تمام خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔ جس پر عمل پیرا ہو کر گھر کے ماحول کو کشیدگی سے بچایا جا سکتا ہے ، زوجین کے باہمی تعلق کو مزید مستحکم اور گہرا بنایا جا سکتا ہے۔

 

خواتین کے لیے بھی ازواج مطہرات کا اسوہ قابل تقلید ہے کہ جب خاوند کی کوئی بات بری لگے تو شکوہ شکایات ، برا بھلا کہنے کی بجائے مناسب طرز عمل اختیار کریں ۔ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو، دونوں حالتوں میں مجھے علم ہوجاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے پوچھا : یا رسول اللہ! کس طرح علم ہوجاتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو رب محمد کے الفاظ کے ساتھ قسم کھاتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو رب ابراہیم کے الفاظ کے ساتھ قسم کھاتی ہو۔ اس وقت تم میرا نام نہیں لیتیبلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیتی ہو۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ! میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہوں، نام کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑتی۔[63]

 

اب آپ اندازہ لگائیں کہ کون ناراض ہورہا ہے؟ حضرت عائشہؓ اور کس سے ناراض ہورہی ہیں؟ حضور اکرم ﷺ سے معلوم ہوا کہ اگر بیوی ناراضگی کا اظہار کررہی ہے تو یہ مرد کی قوامیتیعنی امارت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے بڑی خوشی طبعی کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا کہ مجھے تمہاری ناراضگی کا پتہ چل جاتا ہے۔

 

دوسری طرف حضرت عائشہ کا طرز عمل عورتوں کے لیے قابل تقلید ہے کہ گھر بار چھوڑ کے ماں باپ کی طرف نہیں چلی گئیں ، نہ ہی کسی قسم کا قطع تعلق کیا اور نہ ہی جھگڑا کیا بلکہ خاموش طرز عمل اپناتے ہوئے اپنے تمام فرائض و امور بھی معمول کے مطابق انجام دے رہی ہیں بس خفگی کے اظہار کے لیے محبوب شوہر کا نام لینے سے گریز اں ہیں ۔ یہ انداز محبت و الفت کے اس رشتے میں دراڑ نہیں ڈالتا بلکہ مان بھرا یہ انداز اس رشتے کو اور مستحکم کر دیتا ہے ۔یہ ادا و ناز اس رشتے میں محبت و الفت کی چاشنی کو اور بڑھا دیتی ہے ۔

 

6۔باہمی مشاورت

صالح، کامیاب اورپرامن زندگی گزارنے کے لیے مشاورتی نظام اپنانا ازحد ضروری ہے، بلاشبہ مشورہ خیر و برکت، عروج و ترقی اور نزولِ رحمت کا ذریعہ ہے، اس میں نقصان و شرمندگی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:" مَا شَقٰی عَبْدٌ بِمَشْوَرَةٍ وَمَا سَعِدَ بِاسْتِغْنَاءِ رَأیٍ۔"[64]یعنی کوئی انسان مشورہ سے کبھی نا کام اور نامراد نہیں ہوتا اور نہ ہی مشورہ ترک کر کے کبھی کوئی بھلائی حاصل کرسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گھر کے نظام کو چلانے کی ذمہ داری مرد کے ذمہ رکھی گئی ہے لیکن حسن معاشرت کے طور پر عورت سے بھی گھر کے نظام کو چلانے کے لئے مشورہ لینا چاہئے، جیساکہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:یعنی بیٹیوں کے رشتے کے لئے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کرو۔[65]ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

 

"مَاخَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ "[66]جس نے استخارہ کیا وہ نا کام نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہ ہوا۔”

 

مشاورت کی کمی کی وجہ سے ماحول میں کشیدگی اور بدامنی کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک کے مشورے پر عمل کیا جائے بلکہ باہمی مشاورت کے بعد جو بہتر مشورہ نظر آئے اسے تسلیم کیا جائے۔

 

آپﷺاکثر صحابہ کرام کے ساتھ مشاورت کیا کرتے تھے ۔ لیکن متعدد مواقع پر آپ ﷺ نے ازواج مطہرات کے ساتھ مشاورت بھی فرمائی ۔ جیسا کہ پہلی وحی کے نزول کے وقت آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے مشاورت کی ۔ حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کی شادی کے بارے حضرت عائشہ ؓ کے مشورہ پر عمل کیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ﷺ نے حضرت ام سلمیٰ کے مشورہ سے سر منڈوایا۔[67]زوجین چونکہ باہم رفیق ہوتے ہیں تو زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا کرنے کے لیے اپنے رفیق حیات سے بڑھ کر مخلص کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ باہمی مشاورت سے زوجین جو امور انجام دیں گے اس سے خاندانی نظام کو مزید تقویت حاصل ہوگی کیونکہ دونوں ہی کے پیش نظر خاندان کی فلاح اور بھلائی ہوتی ہے۔

 

7۔ایثار

زوجین کا باہمی تعلق تبھی ایک مضبوط بندھن ہونے کے ساتھ دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ بنتا ہے جب اس میں حقوق و فرائض کے دائرہ سے نکل کر ایک دوسرے کے ساتھ احسان اور ایثار کا رویہ ہو ۔ یہ دونوں اوصاف اس رشتہ کو مزید نکھارتے ہیں اور اس میں حسن و نزاکت پیدا کرتے ہیں۔ زوجین کا یہ رشتہ ایثار پر ہی استوار ہے لڑکی اپنا گھر بار اپنے والدین بہن بھائی سب چھوڑ کر آتی ہے۔ شوہر کی دلجوئی کرتی ہے ۔ اس کی اولاد کی پرورش کرنے میں اپنا آرام سکون ، نیندیں سب قربان کر دیتی ہے اسی طرح سے مرد دن رات زمانے کے سرد و گرم سے لڑ کر محنت کر کے روزی روٹی کما کے لاتا ہے اپنا مال عورت پر خرچ کرتا ہے اس کی دلجوئی کرتا ہے اس کا خیال رکھتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے ایثار کی انتہا کر دیتے ہیں تو ایک خاندان بنتا ہے ۔ جس قدر یہ ایثار کرتے جائیں گے اسی قدر خاندان مستحکم ہوتا جائے گا۔نیززوجین کا یہ ایثار کمال محبت کی دلیل ہوتا ہے ۔ یہ ایثار ہمیں ذات نبوی ﷺ میں بھی نظر آتا ہے ۔ آپ ﷺ کو شہد بہت پسند تھا لیکن جب آپ ﷺ کی ایک زوجہ نے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یا رسول اللہ شہد کی وجہ سے آپ ﷺ کے منہ سے تو بدبو آ رہی ہے تو آپ ﷺ نے شہد چھوڑ دیا۔[68]ایک دوسرے کے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایثار زوجین کے رشتے کو محبت کی چاشنی سے گوندھ دیتا ہے اسے ایسی پائیداری اور مضبوطی عطا کرتا ہے کوئی بھی طوفان اسے غیر متزلزل نہیں کر سکتا۔

 

ایثار کی یہ انتہا ہمیں خانہ نبوت میں ازواج مطہرات کے درمیان بھی نظر آتی ہے۔ حضرت سودہ ؓ کا سن زیادہ ہو چکا تھا اور حضرت عائشہ ؓ ابھی نوعمر تھیں اس لئے انہوں نے اپنی باری بھی حضرت عائشہ کو دے دی جو انہوں نے خوشی سے قبول کر لی۔ حضرت عائشہ ؓ کا قول ہے: ’’ میں نے کسی عورت کو جذبہ رقابت سے خالی نہ دیکھا سوائے سودہ کے۔"مَارَأَيْتُ امْرَأَةً أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَكُونَ فِي مِسْلَاخِهَا مِنْ سَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ"[69]سودہ بنتِ زمعہ کے علاوہ کسی عورت کودیکھ کرمجھے یہ خیال نہیں ہوا کہ اس کے قلب میں میری روح ہوتی۔حضرت سودہ کا یہ ؓ ایثارعدیم النظیر اور فقید المثال ہے ۔

 

8۔رازداری

زوجین لباس ہی کی مانند ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں ایک دوسرے کے عیوب ، کمزوریوں ، خامیوں اور رازوں سے واقف ہوتے ہیں ۔لباس نہ صرف جسم کے عیوب کو چھپاتا ہے بلکہ انسان کی شخصیت کو نکھارتا اور اس کی وجاہت و وقار کا سبب بھی ہے۔ اسی طرح زوجین بھی ایک دوسرے کے عیوب کی پردہ پوشی کر تے ہوئے ایک دوسرے کی عزت اور وقار میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں ۔ ہمارے ہاں عموماً عورتیں بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر چھوٹی بڑی بات کسی سہیلی ، دوست ، بہن یا ماں سے بیان کرنا ضروری سمجھتی ہیں ۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ گھر کی عزت بھی کم ہوتی ہے اور الٹے سیدھے مشوروں سے وہ اپنی گرہستی بھی تباہ کر لیتی ہے۔ایک بار جب حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے مابین کچھ اختلاف ہو جاتا ہے اور آنحضور ﷺ نے اس بارے میں حضرت فاطمہ ؓ سے استفسار کیا تو رازداری اور ایک دوسرے کی عزت کا پاس رکھتے ہوئے اور بجائے شوہر کی شکایتیں کرنے کہ مختصراً کہا کہ ہمارے درمیان کچھ ان بن ہو گئی ہے۔ [70]۔ پھر جب ازواج مطہرات نے جب آپ ﷺ سے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کیا اور آپ ﷺ بالا خانے پر تشریف لے گئے تو ازواج مطہرات بھاگی بھاگی اپنے والدین کے پاس نہیں گئیں کہ ہمارا شوہر ہمیں کم خرچ دیتا ہے یا خرچ میں اضافہ کے مطالبہ کے جواب میں ہم سے ناراض ہو کر بالا خانہ جا کر مقیم ہو گیا ہے۔ بلکہ اس واقعہ کی خبر حضرت عمر ؓکو اپنے پڑوسی سے ملتی ہے۔ اور جب آیات تخییر نازل ہوئیں تو آپ ﷺ بالا خانہ سے نیچےتشریف لائے اور سب سے پہلے حضرت عائشہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے عائشہ ! میں تمہارے سامنے ایک بات رکھتا ہوں مگر تم اس کے جواب میں جلدی مت کرنا اور اپنے والدین سے مشورہ کر کے مجھے جواب دینا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے تخییرکی آیت تلاوت فرما کر ان کو سنائی تو انہوں نے برجستہ عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ "يفَفِيْ اَيِّ هٰذَا اَسْتَامِرُ اَبَوَيَّ فَاِنِّيْ اُرِيْدُ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ۔"[71]اس معاملہ میں بھلا میں کیا اپنے والدین سے مشورہ کروں میں اﷲ اور اسکے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے یکے بعد دیگرے تمام ازواجِ مطہرات ؓ کو الگ الگ آیت تخییر سنا سنا کر سب کو اختیار دیا اور سب نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا تھا۔ ان تمام واقعات میں ان خواتین کے لیے نصیحت ہے جو ایسے معاملات میں اپنی ہر چھوٹی بڑی بات خود کو معصوم ظاہر کرتے ہوئے اپنے والدین تک پہنچانا ضروری سمجھتی ہیں ۔

 

اسی طرح سے مردوں کو بھی اپنی بیوی کے رازوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور مشترکہ معاملات کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے۔رسول اللہ ﷺ نے اس قبیح فعل کی مذمت فرمائی ہے وان من اشر الناس عند اللہ منزلہ یوم القیامۃ الرجل یقضی الی امراتہ و تقضی الیہ ثم ینشر سرھا ۔[72]" بے شک لوگوں میں بدترین آدمی اللہ کے ہاں قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جو اپنی بیوی سے خواہش پوری کرتا ہے اور اس کی بیوی اس سے خواہش پوری کرتی ہے ، پھر وہ بیوی کے راز کو افشاں کردیتا ہے ۔"

 

جبکہ یہ زوجین کی عزت کی حفاظت کے لیے ضروری بھی ہے اور اس رشتہ وفا کا تقاضا بھی ہے کہ زوجین ایک دوسرے کے عیوب کی تشہیر نہ کرتے پھریں۔مشترک معا ملات کو نہ پھیلائیں ۔ کیونکہ یہ بات عہد زوجیت کے منافی اور خیانت میں شمار ہوتی ہے ۔ ایسا رویہ بے مروتی ، بدمزاجی اور بد اخلا قی کی دلیل ہو گا ۔ بعد ازاں یہی وعدہ خلافی میاں بیوی کے درمیان اختلافا ت کی آگ بھڑکانے اور ضد و ہٹ دھرمی میں اضافے کا سبب بنے گا ۔

 

9۔قناعت و شکر گزاری

قناعت اور ایک دوسرے کی شکر گزاری خانگی زندگی پر مثبت اثرات ڈالتی ہے۔اور زندگی کے مسائل کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ میاں اور بیوی دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے خاندان کے لیے ایثار بھی کرتے ہیں اور مختلف فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کاوشوں کو سراہنا زوجین کے درمیان تعلق کی پختگی کا سبب بنتا ہے۔اور ایک خوشگوار تاثر چھوڑتا ہے۔لیکن عموماً زوجین اور بالخصوص بیوی ایک دوسرے سے شاکی اور غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔اکثر عورتوں میں قناعت اور شکر گزاری کا عنصر کم ہوتا ہے لیکن شوہر کی نافرمانی اور نا شکری عورت کو جہنم میں لے جانے کا سبب بن سکتی ہے ۔ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ یا معشر النساء تصدقن فانی رایتکن اکثر اھل النار ، فقلن و بما ذلک یا رسول اللہ ﷺ قال : تکثرن اللعن و تکفرن العشر۔[73]" اے عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ کیا کرو ، کیونکہ میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم اکثر جہنم میں ہو ، انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! ایسا کیوں ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا " تم کثرت سے لعن طعن کرتی ہو اور اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہو ۔ "

 

قناعت کی یہ جھلک ہمیں خانہ نبوی ﷺ میں بڑی واضح نظر آتی ہے۔حضور ﷺ کی تقریباً تمام ازواج مالدار اور بڑے گھرانوں سے تھیں حضرت ام حبیبہؓ رئیس مکہ حضرت ابو سفیانؓ کی صاحبزادی تھیں،حضرت جویریہؓ قبیلہ بنی المصطلق کے سردار اعظم حارث بن ضرار کی بیٹی تھیں، حضرت صفیہؓ بنو نضیر اور خیبر کے رئیس اعظم حیی بن اخطب کی نور نظر تھیں،حضرت عائشہؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی پیاری بیٹی تھیں،حضرت حفصہؓ حضرت عمر فاروقؓ کی چہیتی صاحبزادی تھیں ،حضرت زینب بنت جحش اور حضرت اُمِ سلمہؓ بھی خاندانِ قریش کے اونچے اونچے گھروں کی ناز و نعمت میں پلی ہوئی لڑکیاں تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب بچپن سے امیرانہ زندگی اور رئیسانہ ماحول کی عادی تھیں اور ان کا رہن سہن، خوردونوش، لباس و پوشاک سب کچھ امیرزادیوں کی رئیسانہ زندگی کا آئینہ دار تھا اور تاجدار دو عالم ﷺ کی مقدس زندگی بالکل ہی زاہدانہ اور دنیوی تکلفات سے یکسر بے گانہ تھی۔ دو دو مہینے کاشانہ نبوت میں چولھا نہیں جلتا تھا۔ صرف کھجور اور پانی پر پورے گھرانے کی زندگی بسر ہوتی تھی۔ لباس و پوشاک میں بھی پیغمبرانہ زندگی کی جھلک تھی مکان اور گھر کے سازو سامان میں بھی نبوت کی سادگی نمایاں تھی۔ لیکن ازواج مطہرات نے ہمیشہ ایک ہی بات کہی " فَاِنِّيْ اُرِيْدُ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ۔"[74]

 

عورت پر یہ بات لازم ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ میانہ روی اور حسن تدبیر کے ساتھ زندگی گزار کر اس کی مدد کرے ،اسی طرح مردوں پر بھی لازم ہے کہ آپ ﷺ کےاسوہ حسنہ سے روشنی حاصل کریں اور جس طرح سے آپ ﷺ حضرت خدیجہ ؓ کے ایثار اور قربانیوں کا اعتراف کیا کرتے تھے کہ :" اللہ کی قسم!خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اللہ تعالی نے مجھے اولادعطافرمائی۔[75]

 

اسی طرح سے ایثار کا رویہ اختیار کرنے سے زوجین میں باہم محبت ،مؤدت، الفت، ایثار، تعاون اور عزت و احترام کا یہ تعلق مزید مستحکم ہوتا جائے گا۔

 

10۔ شخصی آزادی اور احترام باہمی

خاندانی زندگی میں جہاں محبت و الفت اور حسن سلوک کی اہمیت ہے وہیں افراد خانہ اور بالخصوص زوجین کے درمیان

 

عزت و احترام کا ہونا بہت ضروری ہے۔ شرف انسانی کی بنا پر ایک دوسرے کو عزت دینا ، رائے کو اہمیت دینا اور بحیثیت انسان مختلف معاملات میں شخصی آزادی کا خیال رکھنا خاندانی روابط کو مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:واذا صلت المراۃ خمسھا و حصنت فرجھا وا طاعت بعلھا دخلت من ای ابواب الجنۃ شاءت ۔ [76]" جب عورت اپنی پانچ نمازیں پڑھے ، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے ، اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔"

 

لیکن اس اطاعت کا یہ مطلب نہیں کہ مرد کو عورت پر ہر طرح کا اختیار حاصل ہو گیا کہ عورت سانس بھی مرد کی اجازت سے لے۔ ایسا نہیں ہے اسلام بحیثیت زوجین کسی ایک فریق پر بھی زندگی کی راہیں مسدود نہیں کرتا بلکہ دونوں کو مخصوص حد کے اندر مکمل شخصی آزادی کا حق بھی دیتا ہے ۔ بحیثیت انسان ایک دوسرے کی ذات کا احترام ملحوظ رکھنے کی بھی تلقین بھی کرتا ہے۔ ہر معاملے کی ٹوہ ، ہر وقت کی پوچھ گچھ، ہر بات میں بلا وجہ کی دخل اندازی زندگی کے دائرے کو تنگ کر دیتی ہے کہ دوسرا فریق عدم تحفظ کا شکار ہو کر خود کو بے بس اور مجبور قیدی تصور کر نے لگتا ہے۔ اکثر ایسا رویہ بد اعتمادی کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔ اور یہ بد اعتمادی خاندان کی بنیادوں تک کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ بلکہ زوجین باہمی طور پر ذاتی معاملات میں مناسب حد تک ایک دوسرے کو حق تخلیہ دے ۔ احترام باہمی اور شخصی آزادی کا یہ تصور آپ ﷺ کی خانگی زندگی سے بھی ملتا ہے۔ ایک بار آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں مقیم تھے ۔ ہوا سے الماری کا پردہ اٹھا اور آپ ﷺ کی نظر حضرت عائشہ کے کھلونوں پر پڑی، جن میں ایک اڑنے والا گھوڑا بھی تھا ۔ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ سے اس بارے میں استفسار کیا کہ اے عائشہ گھوڑے کے تو پر نہیں ہوتے تو اس کے پر کیوں ہیں ۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ حضرت سلیمانؑ کے گھوڑے کے پر تو ہوا کرتے تھے۔ " [77]

 

اگر غور کریں تو یہ واقعہ اس بات پر استدلال کرتا ہے کہ ایک مختصر سا حجرہ جس میں بمشکل کھڑے ہونے اور لیٹنے کی جگہ تھی اور حضرت عائشہ سے سالوں کی رفاقت کے بعد ان کے کھلونے کے بارے میں استفسار کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس تمام عرصے میں آپ ﷺ نے حضرت عائشہ کی شخصی آزادی کا خیال کرتے ہوئے اس پردے کو اٹھا کر ان کی ذاتی اشیاء میں دلچسپی نہ لی اور انہیں ان کے ذاتی معاملات میں مناسب حد تک حق تخلیہ دیا۔ بلا وجہ کی مداخلت ہر وقت کی پوچھ گچھ زوجین کے درمیان نا چاقی اور تلخی کا باعث بنتی ہے۔ ایک دوسرے پر اعتماد ، ایک دوسرے کی ذات کا احترام اس رشتے کو مزید مستحکم اور پائیدار کر دیتا ہے۔

 

11۔ذاتی سطح پر اصلاح احوال

زوجین کے مزاج میں اختلاف کا ہونا فطری بات ہے۔ ایک ساتھ ایک ہی چھت تلے رہتے ہوئے عموماً معمولی اختلافات ہو جاتے ہیں جو کہ اکثر و بیشتر زوجین باہمی افہام و تفہیم سے خود ہی حل کر لیتے ہیں ۔ اور نوبت خاندان کے دیگر افراد تک نہیں پہنچتی ۔رشتے کی نزاکت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ممکن حد تک اپنی باتیں خود تک ہی محدود رکھی جائیں اور دوسروں کو اس میں ملوث نہ کیا جائے کیونکہ ہر چھوٹی بڑی بات ،معمولی تنازعات اور اختلافات کی خاندان کے دوسرے افراد کے سامنے تشہیر سے اکثرو بیشتر معاملات پیچیدہ صورت اختیار کر جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اسوہ نبوی ﷺ اور سیرت صحابیات کے نظائر ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔ تخییر والا واقعہ ہمارے لئے بطور مثال ہے۔[78]

 

ایک دوسری مثال حضرت فاطمہؓ کی ہے۔ ایک مرتبہ رسول ﷺ ان کے ہاں تشریف لے گئے تو حضرت علی ؓ کو نہ پایا ۔ استفسار فرمایا کہ وہ کدھر ہیں تو حضرت فاطمہ ؓ نے عرض کیا میں ان سے کچھ چپقلش ہو گئی تھی اس لیے وہ ناراض ہو کر باہر چلے گئے ہیں اور میرے پاس انہوں نے قیلولہ بھی نہیں کیا۔آپ ﷺ نے کسی سے فرمایا جاؤ دیکھو وہ کہاں ہیں ؟ پتا چلا کہ مسجد میں لیٹے ہوئے ہیں ۔ رسول ﷺ خود مسجد میں تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ حضرت علیؓ ز۔مین پر لیٹے ہوئے ہیں اور جسم پر مٹی لگی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے خوشگوار انداز میں انہیں مخاطب فرمایا اے ابو تراب حضرت علی ؓ کو یہ کنیت بہت پسند تھی ۔ [79]

 

یہاں حضرت فاطمہ ؓ کا طرز عمل تمام خواتین کے لیے مشعل راہ ہے ۔ کہ انہوں نے والد کو تفصیل نہیں بتائی بلکہ اتنا کہا کہ آج ہم میں کچھ ان بن ہو گئی ہے۔زوجین جس طرح سے ایک دوسرے کے مزاج اور اپنے تعلق کو سمجھتے ہیں کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے اپنی ہر چھوٹی بڑی بات پوری جزئیات کے ساتھ ہر کسی کے سامنے بیان کرنا خود کو معصوم عن الخطا ظاہر کرنا اور دوسرے کو غلط ۔ تو اس سے ایک تو زوجین کی اپنی عزت و وقار اور مرتبے میں کمی ہوتی ہے دوسرا بہتری کی بجائے خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ لہٰذا کوشش یہ ہونی چاہیے کہ باہمی افہام و تفہیم سے اختلافات کو حل کر لیا جائے ۔ معمولی باتوں کو نظر انداز کر دیا جائے ۔ کیونکہ یہ رشتہ معمولی اختلافات سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ زوجین کا باہمی تعلق جس قدر مضبوط ہو گا اسی قدر وہ باہمی مسائل کا تصفیہ بھی آپس ہی میں کر لیں گے ۔ کیونکہ اس تعلق میں ہار جیت اور انا پسندی نہیں ہوتی اور زوجین فریق نہیں بلکہ ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں ۔

 

12۔تعدد ازواج اور عدل

جب کسی آدمی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس کے ذمہ ہے کہ وہ ان کے درمیان شریعت کے مطابق عدل کرے ۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت دوسری شادی کو بہت براسمجھتی ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جو شوہر دوسری شادی کرتے ہیں وہ اپنی پہلی بیوی کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کی سیرت عائلہ سے تمام ارباب علم و دانش آگاہ ہیں آپﷺ کا فرمان ہے :من کانت لہ امراتان فمال الی احداھما ، جاء یوم القیامۃ و شقہ مائل ۔[80]"جس شخص کی دو بیویاں ہوں وہ ان میں سے کسی ایک کی طرف زیادہ جھک جائے تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہو گا ۔"

 

قلبی میلان پر کسی کا اختیار نہیں ۔ وہ کسی ایک کی طرف زیادہ ہو سکتا ہے لیکن حقوق و فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی یا کمی بیشی سخت پکڑ کا موجب بن سکتی ہے۔ آپ ﷺ کے نکاح میں بیک وقت ایک سے زائد خواتین موجود تھیں آپﷺ کا قلبی میلان حضرت عائشہ ؓ کی طرف زیاد ہ تھا لیکن آپ ﷺ نے انصاف کے ساتھ سب کی باریاں مقرر کی ہوئی تھیں ۔ یہاں تک کہ آخری ایام میں بیماری کی حالت میں بھی آپ ﷺ باری باری ازواج مطہرات کی طرف جاتے رہے اور پھر سب کی اجازت سے حضرت عائشہ کے حجرہ میں آخری دن گزارے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :ان المقسطین عند اللہ علی منابر من نور عن یمین الرحمن عزوجل و کلتا یدیہ یمین الذین یعدلون فی حکمھم و اھلیھم وما و لو ۔[81]

 

" بے شک اللہ کے نزدیک انصاف کرنے والے قیامت کے دن رحمن کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے ، اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو کہ اپنے فیصلوں میں اہل و عیال کے بارے میں اور جن کے وہ نگران بنائے گئے ہوں ان کے معاملے میں عدل سے کام لیتے ہیں ۔"

 

لیکن اگر مرد کو خوف ہو کہ وہ اپنی ازواج میں انصاف نہیں کر سکے گا تو پھر ایک پر ہی اکتفاء کرنا بہتر ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً[82]"اگرتمہیں برابری نہ کرسکنےکاخوف ہوتوایک ہی کافی ہے۔"

 

ازواج کے درمیان انصاف رکھنا خانگی ماحول کی سازگاری کے لیے ضروری ہے ۔کیونکہ اگر مرد ان میں انصاف نہ کر سکا خاندان کا شیرازہ تو بکھرے گا ہی بلکہ اس کی اپنی زندگی بھی جہنم بن جائے گی اور آخرت بھی ہاتھ سے جائے گی ۔

 

خلاصہ بحث

استحکام خاندان کی ذمہ داری مرد و عورت دونوں پر یکساں عائد ہوتی ہے۔ خاندان کا وجود ان دونوں کے مثبت کردار کا مرہوں منت ہے اور یہ معاشرے کی یہ اولین اکائی تب ہی ثمر آور ہوسکتی ہے جب زوجین اس ادارے کے استحکام کے لئے شعوری کوششیں کریں ، کسی ایک جانب سے برتی جانے والی کوتاہی اس کے استحکام کو متزلزل کرنے کاباعث بن سکتی ہے ۔

 

سفارشات

استحکام خاندان میں زوجین کے کردار کا جائزہ لینے کے بعدمندرجہ ذیل سفارشات مرتب کی جاتی ہیں ۔

 

۱۔ استحکام خاندان کے لیے زوجین میں باہم محبت و مؤدت، تعاون، ہم آہنگی مشاورت اور احترام باہمی ہو۔نیز جانبین حسن سلوک ، ایثار ،عفو درگزر اور صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں ۔

 

۲۔ زوجین کے لیے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم لازمی قرار دی جائے ۔ خصوصاً حسن معاشرت ، نکا ح طلاق اور حقوق زوجین کی تعلیم لازمی دی جائے۔

 

۳۔شادی سے قبل زوجین کے والدین و دیگر اعزہ و أقارب زوجین کی نئے رشتوں کے حقوق و فرائض کے حوالے سے ذہن سازی کریں۔

 

۴۔زوجین کو نکاح کے مقاصد، نکاح کی اہمیت، خاندان کی اہمیت، نکاح سے متعلقہ شرعی معاملات سے آگاہی ، اپنی ذمہ داریوں سے واقفیت ، زوجین کے حقوق، کامیاب ازدواجی ، ازدواجی نفسیات اور خانگی مسائل کے حل کے لیے تربیت اور میرج کونسلنگ کا اہتمام کیا جائے۔

 

۵۔مساجد اور مدارس میں سیرت طیبہ کے خانگی زندگی کے حوالے سے خوبصورت گوشوں کو نمایا ں کیا جائے۔ اور معاشرے میں مرد کی قوامیت کے غلط تصور کی نفی کرتے ہوئے سیرت طیبہ کی روشنی میں قوامیت کے درست مفہوم کو اجاگر کیا جائے ۔

 

۶۔ تعلیمی نصابات میں معاشرتی و خاندانی مسائل پر موضوعات ضرور شامل کیے جائیں تا کہ منفی رویوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے ۔

 

۷۔ زوجین معمولی تنازعات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ذات تک محدود رکھیں ۔ لیکن اگر معاملہ زیادہ سنجیدہ ہو تو بہتر ہے کہ خاندان کے مخلص اور دانش مند بزرگوں کو مصالحت کے لیے شامل کیا جائے۔

 

۸۔ گھریلو تشدد کے سد باب کے لیے قانون سازی کی جائے۔

 

۹۔ خاندانی اقدار کے فروغ اور خاندان کے استحکام کی خاطر ذرائع ابلا غ مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ لہٰذا ایسے پروگرام نشر کیے جائیں جو خاندانی اقدار کو فروغ دینے میں ممدو معاون ثابت ہوں۔ منفی رویوں کی أصلا ح کے لیے پروگرام ترتیب دیئے جائیں تا کہ رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے ۔

 

۱۰۔ٹی وی ٹاک شوز میں حقوق العباد ، خاندان کی اہمیت و استحکام ، ازدواجی مسائل و معاملات ، معاشرتی رسوم و مسائ۶ل وغیرہ کے موضوعات پر مباحث و مذاکرات کا اہتمام کیا جائے۔

 

۱۱۔خاندانی نظام اور اس سے متعلقہ مسائل اور معاملات کے حوالے سے سیمینارز، ورکشاپس، کا اہتمام کیا جائے۔

حوالہ جات

  1. یٰسین،۳۶ : ۵۶
  2. ایضا: ۳۶
  3. صدیقی، محمد اسلم، ڈاکٹر، تفسیر روح القرآن،ادارہ ھدًی للناس، ۳۴۳۔مہران بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور۔البقرہ،۲۵
  4. الصٰفٰت،۳۷ : ۲۲
  5. الدخان، ۴۴ : ۵۴
  6. البقرۃ،۲ : ۲۵
  7. البقرۃ،۲ : ۱۸۷
  8. نسائی ،ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب(۳۰۳ھ)،السنن ،كتاب الجہاد،باب الرُّخْصَةِ فِي التَّخَلُّفِ لِمَنْ لَهُ وَالِدَةٌ ، رقم الحدیث:۳۱۰۶،مکتب المطبوعات الاسلامیۃ۔حلب،ط ثانی،۱۹۸۶ء
  9. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)، الجامع المسند الصحیح المختصرمن أمور رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ، کتاب الادب ، باب من احق الناس بحسن اصحبۃ، رقم الحدیث : ۵۹۷۱
  10. البزار، احمد بن عمرو، البحر الزخار، مکتبۃ العلوم والحکم، المدینہ منورہ، ۲۰۰۹ء
  11. مبارکپوری،صفی الرحمٰن،الرحیق المختوم، المکتبۃ السلفیہ لاہور: ۹۹
  12. مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)،المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسول ا للہﷺ، کتاب فضائل الصحابہ،باب فضائل خدیجۃ ام المومنین رضی اللہ تعالی عنھا،رقم الحدیث:۱۳۲۴
  13. عبد اللہ بن محمد بن عبد البر، الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب، ، دار الجیل ، بیروت ،4: 1824
  14. زرقانی ، محمد بن عبد الباقی،شرح المواہب اللدنیہ، حضرت خدیجۃ ام المومنین رضی اللہ عنہ’، دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان ، ۱۹۹۶ ء:۳/۲۶
  15. ابن ماجہ، ابو عبداللہ بن یزید القزوینی ، السنن ، کتاب النکاح ، باب الولیمہ ،رقم الحدیث : ۱۹۱۱
  16. أحمد بن حنبل المسند،رقم الحدیث : ۲۷۶۵۶، ۶:۴۶۱
  17. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)، الجامع المسند الصحیح المختصرمن أمور رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ ، ، کتاب الہبۃ، باب نب اھدی الی صحابہ ،رقم الحدیث : ۲۵۸۱
  18. مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)،المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسولؐ، ،کتاب الرضاؑ، باب جواز ھبتھا نوبتھا لضرتھا، رقم الحدیث : ۱۴۶۳
  19. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)، الجامع المسند الصحیح المختصرمن أمور رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ ، کتاب النکاح ،باب القرعۃ بین النساء اذا اراد سفراء ، رقم الحدیث : ۵۶۱۱
  20. ایضاً، کتاب التفسیر ، باب سورۃ الاحزاب ، باب قولہ ( لا تدخلوا بیوت النبی ﷺ) ، رقم الحدیث : ۴۷۹۳
  21. ایضاً ، کتاب المغازی ، باب الافک ، رقم الحدیث :۴۱۴۱
  22. مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)،المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسولؐ، ، کتاب فضائل الصحابہ ، باب فی فضائل عائشہؓ،رقم الحدیث : ۲۴۴۲
  23. ابو داؤد،سلیمان بن اشعث سجستانی(۲۷۵ھ)، السنن ، کتاب السنۃ، باب ترک السلام علی اھل الاھواء ، رقم الحدیث :۴۶۰۲
  24. ابن ماجہ، ابو عبداللہ بن یزید القزوینی ، السنن، ابواب النکاح ، باب افضل النساء، رقم الحدیث : ۱۸۵۵۔۱۸۵۷ ،
  25. النساء ،۴: ۳۴
  26. مودودی، ابوالاعلیٰ، سید، حقوق زوجین،اسلامک پبلیکیشنز لیمیٹڈ،لاہور،ڈھاکہ،۱۹۷۶ء: ۳۰
  27. خلیلی ،منیر احمد،عصر حاضر کی اسلامی تحریکیں،منظر و پس منظر، حسن البناء اکیڈمی راوالپنڈی، ۲۰۰۴ء : ۴۲۵
  28. ابو داؤد،سلیمان بن اشعث سجستانی(۲۷۵ھ)، السنن ، کتاب الادب، باب اللعب بالبنات ، رقم الحدیث : ۴۹۹۳۲
  29. ایضاً السنن، کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا، رقم الحدیث: ۲۱۴۴
  30. ایضاً، کتاب الجہاد، باب فی السبق علی الرجل، رقم الحدیث : ۲۵۷۸
  31. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)،الجامع الصحیح ، کتاب النکاح، باب حسن المعاشرۃ مع الاھل، رقم الحدیث:۵۱۸۹
  32. مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)،المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسول ، کتاب الجنائز، باب ما یقول عند دخول القبر والدعاء لاھلھا، رقم الحدیث :۹۷۳
  33. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)،الجامع الصحیح، کتاب النکاح ، باب الغیرۃ، رقم الحدیث:۵۲۲۵
  34. دہلوی، عبد الحق ،شاہ،مدارج النبوۃ،(مترجم) غلام معین الدین، شبیر برادرزاردو بازار لاہور،۲۰۰۴ء،۲ :۵۵۹
  35. الروم،۳۰: ۲۱
  36. الفرقان ، ۲۵:۷۴
  37. ابن ماجه ، ابو عبداللہ محمد بن یزید قزوینی(۲۷۳ھ)،السنن ، ابواب النکاح ، باب افضل النساء، رقم الحدیث : ۱۸۵۵۔۱۸۵۷ ،
  38. مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)،المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسول ، کتاب الحیض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجھا، رقم الحدیث : ۳۰۰
  39. ایضاً ، کتاب الصلوۃ، باب ما یقال فی الرکوع، رقم الحدیث: ۴۸۵
  40. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)، الجامع المسند الصحیح المختصرمن أمور رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ ، کتاب التفسیر،سورۃ الاحزاب ، باب قولہ (ترجی من تشاءمنھن۔۔۔۔۔) رقم الحدیث: ۴۷۸۹
  41. النساء ۴: ۱۹
  42. مولانا جلال الدین عمری, اسلام کا عائلی نظام،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔۲۰۱۷ء،ط چہارم: ۲۴
  43. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)، الجامع المسند الصحیح المختصرمن أمور رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ ، کتاب النکاح ، با ب الو صاۃ با لنساء ، رقم الحدیث:۵۱۸۶
  44. ترمذی،محمد بن عیسیٰ (۲۷۹ھ)،الجامع الکبیر ، کتاب الایمان، باب فی ضرب النساء، رقم الحدیث :۲۱۴۶
  45. ایضاً ، ابواب البرو الصلۃ، باب فضل ازواج النبی ﷺ، رقم الحدیث:۳۸۹۵
  46. ابو داؤد،سلیمان بن اشعث سجستانی(۲۷۵ھ)، السنن، کتاب النکاح ، باب فی حق المراۃ علی زوجھا ،رقم الحدیث:۱۲۴۲
  47. غزالی، ابو حامد محمد،احیاء علوم الدین،مترجم مولانا ندیم الواجدی، دارالاشاعت اردو بازار کراچی ، ۲ : ۲۴۰
  48. ابن ماجه ، ابو عبداللہ محمد بن یزید قزوینی(۲۷۳ھ)،السنن ، کتاب النکاح باب ضرب النساء ،رقم الحدیث : ۱۹۸۴
  49. ابو داؤد،سلیمان بن اشعث سجستانی(۲۷۵ھ)، السنن ، کتاب النکاح ، باب فی ضرب النساء رقم الحدیث : ۲۱۴۶
  50. خالد علوی ، ڈاکٹر، انسان کامل ، فیصل ناشران ، لاہور ۱۹۹۵ء ،: ۵۱۵
  51. النساء،۴ : ۱
  52. البقرہ ،۲ : ۲۲۳
  53. ابو داؤد،سلیمان بن اشعث سجستانی(۲۷۵ھ)، السنن، کتاب المناسک، باب صفۃ حجۃ النبی ﷺ، رقم الحدیث : ۱۹۰۵
  54. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)، الجامع المسند الصحیح المختصرمن أمور رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ ،کتاب الاحکام ، باب قول اللہ تعالیٰ اطیعواللہ، رقم الحدیث : ۷۱۳۸
  55. مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)،المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسولؐ، کتاب صفۃ القیامۃُ والجنۃ والنار ، باب تحریش الشیطان وبعثہ سرایہ ، رقم الحدیث : ۲۸۱۳
  56. ایضاًؐ ، کتاب الفضائل ، باب رحمۃ الصبیان والعیال و توا ضعہ و فضل ذلک ، رقم الحدیث:۳۳۱۶
  57. ایضاً، الصحیح ، کتاب النکاح ، با ب الو صاۃ با لنساء ، رقم الحدیث:۵۱۸۶
  58. ایضاً، کتاب المظالم باب الفرقۃ والعلیۃ ، رقم الحدیث : ۲۴۶۸
  59. حافظہ شاہدہ پروین، ڈاکٹر،عصری عائلی مسائل اور اسلامی تعلیمات ، پریس اینڈ پبلی کیشنز ڈیپارٹمنٹ، پنجاب یونیورسٹی لاہور: ۲۹۳
  60. الذہبی ، شمس الدین ابی عبداللہ ، الکبائر ، بیروت ، دارلندوہ جدیدہ ،: ۱۷۹
  61. الاستانبولی، محمود مہدی،تحفۃ العروس مترجم مولانا ابو یاسر اجمل، دارالاندلس لاہور ، ۲۰۰۵ء،:۲۵۰
  62. ایضاً، کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء ،رقم الحدیث: ۱۴۶۹
  63. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)، الجامع المسند الصحیح المختصرمن أمور رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ ،کتاب الادب،باب ما یجوز من الہجر، رقم الحدیث :۶۰۷۸
  64. قرطبی،محمد بن احمد،تفسیر قرطبی، مترجم کرم شاہ الازہری ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،۴: ۱۶۱
  65. ابو داؤد،سلیمان بن اشعث سجستانی(۲۷۵ھ)، السنن ،كتاب النکاح ،باب فِي الاِسْتِئْمَارِ، رقم الحدیث:۳۳۸۴
  66. طبرانی، سلیمان بن احمد،المعجم الأوسط ، دار الحرمین القاہرہ،رقم الحدیث : ۶۸۱۶
  67. مبارکپوری،صفی الرحمٰن،الرحیق المختوم، المکتبۃ السلفیہ لاہور: ۴۶۷
  68. ابو داؤد،سلیمان بن اشعث سجستانی(۲۷۵ھ)، السنن ،کتاب الاشربہ، باب فی شراب العسل، رقم الحدیث : ۳۷ ۱۴
  69. مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)،المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسولؐ، كِتَاب الرِّضَاعِ،بَاب جَوَازِ هِبَتِهَا نَوْبَتَهَا لِضُرَّتِهَا،رقم الحدیث:۲۶۵۷
  70. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)، الجامع المسند الصحیح المختصرمن أمور رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ، کتاب الصلوۃ، باب نوم الرجال فی المسجد ، رقم الحدیث : ۴۴۱
  71. ایضاً،كتاب التفسير، بَابُ قَوْلِهِ: وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا، رقم الحدیث:۴۷۸۶
  72. مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)،المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسول اللہﷺ، کتاب النکاح ، با ب تحریم افشاء سر المراۃ ،رقم الحدیث: ۱۴۳۷
  73. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)، الجامع المسند الصحیح المختصرمن أمور رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ، کتاب الزکوۃ ، باب الزکوۃ علی الاقارب ، رقم الحدیث: ۱۴۶۲
  74. ایضاً،كتاب التفسير، بَابُ قَوْلِهِ: وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا، رقم الحدیث:۴۷۸۶
  75. زرقانی ، محمد بن عبد الباقی،شرح المواہب اللدنیہ، حضرت خدیجۃ ام المومنین رضی اللہ عنہ’، دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان ، ۱۹۹۶ ء
  76. احمد بن حنبل،المسند ، کتاب مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ، رقم الحدیث :۱۶۶۴
  77. ابو داؤد،سلیمان بن اشعث سجستانی(۲۷۵ھ)، السنن ،كتاب الادب،باب فی اللَّعِبِ بِالْبَنَاتِ رقم الحدیث:۴۹۳۲
  78. مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)،المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسول اللہﷺ ، کتاب الطلاق، باب بیان ان تخییر امرتہ لا یکون طلاقا الا بالنیۃ، رقم الحدیث : ۱۴۷۵
  79. بخاری ، محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)،الجامع المسند الصحیح المختصرمن أمور رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ، کتاب الادب ، باب التلنی بابی تراب، وان کانت لہ کنیۃ اخری ، رقم الحدیث : ۶۲۰۴
  80. ابو داؤد،سلیمان بن اشعث سجستانی(۲۷۵ھ)، السنن ، کتاب النکاح ، باب فی القسم بین النساء ، رقم الحدیث:۲۱۳۳
  81. مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)،المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسول اللہﷺ، کتاب الامارۃ ، باب فضیلۃ الامام العادل و عقوبۃ الجائر والحث علی الرفق ،رقم الحدیث: ۱۸۲۷
  82. النساء ۴: ۳
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...