Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 2 of Al-ʿILM

اسلام اور سائنس میں تضاد کا تحقیقی جائزہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060040263_506

Pages

27-55

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/27/25

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/27

Subjects

Relationship science Islam Islam and science religion and science

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام اور سائنس میں موافقت یا مخالفت کا موضوع موجودہ دور کا اہم مسئلہ ہے ۔ علمی حلقوں میں اس کے متعلق مختلف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں ۔[1] اس مقالےمیں اسلام اور سائنس کے مابین تعلق کی نوعیت سے بحث کی گئی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ ان کا آپس میں کیاتعلق ہے؟

 

مذہب اور سائنس میں کشمکش کاتاریخی جائزہ

 

مذہب اور سائنس میں چپقلش کا آغاز اس وقت ہو اجب اہل کلیسا کا یورپ پر مکمل تسلّط تھاا ور عیسائیت سیاہ وسفید کی مالک تھی۔ عدم رواداری، تعصّب اور توہّم پرستی نے حصولِ علم اور سائنسی مطالعے کو ناممکن بنا دیا تھا ۔ حریت فکر اور سائنسی تحقیقات کی ہر کوشش کو اہل کلیسا نے جبرًا دبا رکھا تھا اور ایسی ہر تعلیم کو ناجائز قرار دے دیا تھاجو ان کے من گھڑت معتقدات کے خلاف ہو۔ [2]جب سائنس کے غلبے کا دور آیا تو مذہب (عیسائیت ) کے خلاف شدید ردِّعمل اور نفرت کا اظہار کیا گیا۔ ابتدا میں یہ کشمکش فقط عیسائیت اور سائنس کے مابین تھی مگر بعد میں نفسِ مذہب (خواہ کوئی بھی مذہب ہو) سائنس کا مدِّ مقابل تصور کر لیا گیا۔[3] مذہب اور سائنس میں مخالفت کا یہ غلط تصور فقط عیسائی دنیا تک ہی محدودنہ رہا بلکہ اسلامی ممالک میں بھی اسکے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔جب ہم مذہب اور سائنس میں مخالفت کے محرکات تلاش کرتے ہیں تو ہمیں دو طرح کی وجوہات نظر آتی ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ مغربی دنیاکی طرف سے ہے جبکہ دوسری وجہ اہل اسلام کی طرف سے ہے۔

 

پہلا سبب: مغربی دنیا کی مخالفت

 

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد بنی اسرائیل کے علماء نےکتاب مقدس میں بہت سی تحریفات کر دی تھیں۔[4] کتاب مقد س میں تحریف کی بدولت یونانی فلسفہ بائبل کا حصہ بن گیا۔ جسے دین عیسوی کے ماننے والے آہستہ آہستہ اپنا مستقل عقیدہ سمجھنے لگ گئے۔ یونانی فلسفہ چونکہ بے شمار اغلاط پر مشتمل تھا اس لیے کتاب مقدس میں سائنسی اغلاط در آئیں۔[5]محمد قطب لکھتے ہیں "یورپ میں مذہب اور سائنس کی چپقلش کا اصل باعث اہل کلیسا کی حماقت تھی جس کی وجہ سے انہوں نے سوچے سمجھے بغیریونان سے ورثے میں ملنے والے بعض "سائنسی حقائق" کو اپنے مذہب کا جزو بنا کر انہیں تقدس کا رنگ دے دیا تھا۔ان کے نزدیک ان(نظریات) کا انکار صداقت اور حقیقت کا انکار تھا"۔[6] مولانامودودی لکھتے ہیں "اگرچہ کائنات کے آثار کا مشاہدہ ، ان کے اسرار کی تحقیق، ان کے کُلی قوانین کی دریافت، ان کے مظاہر پر غوروفکر، اور ان کو ترتیب دے کر قیاس و برہان کے ذریعے سے نتائج کا استنباط، کوئی چیز بھی مذہب کی ضد نہیں ہےمگر سوئے اتفاق سےنشاۃِ جدید(Renaissance) کے عہد میں جب یورپ کی نئی علمی تحریک رونما ہوئی ، تو اس تحریک کو اُن عیسائی پادریوں سے سابقہ پیش آیا جنہوں نے اپنے مذہبی معتقدات کو قدیم یونانی فلسفہ و حکمت کی بنیادوں پر قائم کر رکھا تھا ااور جو یہ سمجھتےتھے کہ اگر جدید علمی تحقیقات اور فکری اجتہاد سے ان بنیادوں میں ذرا سا بھی تزلزل واقع ہو ا تو اصل مذہب کی عمارت پیوندِ خاک ہو جائے گی"۔[7]جب نشاۃ ثانیہ کی تحریک کا آغاز ہوا تو "ابتدا میں لڑائی حریتِ فکر کے عَلم برداروں اورکلیسا کے درمیان تھی مگر ۔۔۔بعد کے ادوار میں یہ انتہاء پسندی اس حد تک پہنچی کہ اس کے بعد نفس مذہب (خواہ وہ کوئی مذہب ہو) اس تحریک کا مدّمقابل قرار دیا گیا۔[8] عیسائیت کی شکست اور سائنس کی فتح کے بعد اگرچہ یہ جنگ اب ختم ہو چکی ہے لیکن جدید ذہن اب بھی اسلام سمیت دیگر تمام ادیان کو عیسائیت ہی کے پردے میں دیکھ رہا ہے اور انہیں بھی سائنسی تحقیقات پر پہرے بٹھانے والے اور باطل ادیان سمجھ رہا ہے حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ مذہب اور سائنس میں مغایرت کی بحث کبھی بھی اسلام کی بحث نہ تھی بلکہ یہ عیسائیت کے مسخ شدہ مذہب اور سائنس کی جنگ تھی۔[9]

 

مذہب اور سائنس میں جس خلیج کی ابتدا اہل کلیسا نے کی تھی، ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے اس کو مزید تقویت بخشی۔ ڈارون سے ڈیڑھ صدی پہلے آئزک نیوٹن کےلیے سائنس مذہب سے الگ نہیں تھی۔ بلکہ اس سے بالکل برعکس یہ مذہب کا ایک پہلو تھی اور بالآخر اس کے تابع تھی لیکن ڈارون کے زمانے کی سائنس نے خود کو مذہب سے نہ صرف الگ کر لیا بلکہ اس کی حریف بن گئی۔ اس طرح مذہب اور سائنس کے درمیان ہم آہنگی کی آخری رمق بھی ختم ہو گئی اور وہ دو مخالف سمتوں میں چلنے لگے جس کی وجہ سے انسانیت مجبور ہوگئی کہ وہ دو میں سے کسی ایک کو منتخب کرے۔[10]

 

مذہب اور سائنس کے درمیان معاندانہ رویے کی ایک بڑی وجہ اہل مغرب کا مادی طرز فکرہے جس کے لوازم میں سے ہے کہ قدرت کی نشانیوں سے عبرت حاصل کرنے اور خالق کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اسکی نشانیوں کا مذاق اڑایا جائے ۔موریس بکائیے مغرب کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "انسان علم کی شاہراہ پر جیسے جیسے آگے قدم بڑھاتا ہے' خصوصا انتہائی چھوٹی اشیاء کے بارے میں' اس کی معلومات میں جو اضافہ ہوتا ہے اس سے ایک خالق کے وجود کی تائید میں دلائل زیادہ قوت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان حقائق سے دوچار ہونے کے بعد بجائے اسکے کہ انسان میں عجزکی صفت پیدا ہو اس میں گھمنڈ پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ خدا کے تصور کا اسہتزاء کرنے لگتا ہے اور اس طرح سے وہ کسی بھی ایسی چیزکو جو اس کو عشق و نشاط سے علیحدہ کر دے، کچلتا ہوا آگے بڑھنے لگتا ہے۔ یہ اس مادہ پرست سماج کا وہ مثالی پیکر ہے جو اس وقت مغرب میں نشوونما پا رہا ہے"۔[11]

 

دوسرا سبب: اہل اسلام کی مخالفت

 

علمائے دین (جنہوں نے صرف مدرسے سے علم حاصل کیا تھااور سائنس کے نظریات سے

 

واقف نہ تھے) نے یہ غلط تصور قائم کر لیاکہ جو فلسفہ مدرسے میں پڑھایا جاتا ہے وہ قرآن و حدیث سے

 

ماخوذ ہے۔ مدرسے کے روائتی انداز [12]کی وجہ سے انہوں نے اس حقیقت کوجاننا کبھی ضروری ہی نہیں سمجھا کہ یہ حقیقت میں یونانی فلسفہ ہے۔ اور اس فلسفے کے بعض تصورات سائنسئ نظریات کے خلاف ہیں۔اس غلط تصور کا کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھی سائنس کی کوئی نئی ایجاد ان کے سامنے آئی جو یونانی فلسفہ کے مخالف تھی تو انہوں نے سمجھاکہ یہ نظریہ اسلام کے خلاف ہےجوکہ ایک بالکل غلط معیار تھا۔ اور اس طرح کی فکر کو اپنانا غلط سوچ اور اصلیت سے بے خبری کی بنا پر تھا۔[13]

 

اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق

 

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے عقل پر پہرے بٹھانے کی بجائےعالمِ ارض و سما میں غورو فکر کرنے اورتسخیر کائنات کو بندہ مومن کی بنیادی صفات میں سے شمار کیا ہے قرآن کریم میں بے شمار ایسی آیات پائی جاتی ہیں جن میں لیل ونہار کی گردش، آسمان وزمین کی تخلیق، سمندروں میں کشتیوں کے چلنے اور ہواؤں کے آنے جانے میں بھرپور انداز میں غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔خالد خان خلجی اسلام اور سائنس کے تعلق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں" قرآن کریم باربار ملکوت السموات و الارض میں غور وفکر ،تدبر اور تسخیر کی تاکید کرتا ہے علم اور حکمت کے حصول پر اسلام کا زور اور وسیع النظری دیکھ کر سائنس بھی اسلام کی مخالف نہیں بلکہ مظہر اسلام اور خادم اسلام ہے جوں جوں دنیا میں ترقی ہو گی سائنس اور حکمت اسلام کو منکشف کرتا رہے گا"۔ [14]موریس بکائیے لکھتے ہیں کہ " قرآن جہاں ہمیں سائنس کو ترقی دینے کی دعوت دیتا ہے وہاں خود اس میں قدرتی حوادث سے متعلق بہت سے مشاہدات و شواہد ملتے ہیں اور اس میں ایسی تشریحی تفصیلات موجود ہیں جو جدید سائنسی مواد سے کلی طور پر مطابقت رکھتی ہیں۔ یہودی، عیسائی تنزیل میں ایسی کوئی بات نہیں۔[15]

 

اسلام کے قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور سائنسی قوانین فطرت کی دریافت کا نام ہے جو کائنات میں غیر متبدل شکل میں محفوظ ہیں لہذا ہر سائنسِ حقیقت اور صداقت، دین فطرت کا عین تقاضا ہے اسکی ضد اور مخالف نہیں یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال میں مسلمانوں نے اسلام کے اس عطا کردہ تصور کے تحت نہ کسی سائنسی دریافت کی مخالفت کی اور نہ کسی سائنسی حقیقت کی دریافت پر کسی ایک فردکو سزا دی گئی۔ مسلم سائنس دانوں نے سائنس کے حقائق معلوم کیے اور ایجادات بھی کیں اور یورپ نے ان سے سائنس سیکھی لیکن نہ انکی مخالفت کی گئی اور نہ سائنس دانی کی وجہ سے مسلم سائنسدانوں کے اسلامی عقائد میں فرق آیا یہ امر واضح دلیل ہے کہ سائنس اور اسلام میں توافق ہے تخالف نہیں البتہ مسلم سائنسدانوں اور ان کے شاگرد یورپی سائنسدانوں کے بنیادی اصول میں فرق تھا جس کی وجہ سے اسلامی سائنس ان خرابیوں سے محفوظ رہی جو موجودہ یورپی سائنس کو لاحق ہوئیں۔[16]

 

موریس بکائیے لکھتے ہیں کہ"اسلام کے نقطہ نظر سے مذہب اور سائنس کی حیثیت ہمیشہ دو جڑواں بہنوں کی سی رہی ہے۔شروع ہی سے اسلامی تمدن کے دور عروج میں سائنس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔جس سے نشاۃ ثانیہ سے قبل خودمغرب نے بھی استفادہ کیا ہے موجودہ سائنسی معلومات نے قرآن کریم کی آیات پر جو روشنی ڈالی ہے اس سے صحیفوں اور سائنس کے درمیان مقابلہ کے لیے فہم و ادراک کی ایک نئی راہ نکل آئی ہے۔ پہلے یہ آیتیں ان معلومات کے عدم حصول کی بناء پر مبہم تھیں جو ان کی توضیح و تشریح میں ممد و معاون ہوسکتی ہیں"۔ [17]مولانا مودودی مذہب اور سائنس میں امتزاج کو اسلام کے وقار اور عالمگیریت کے خلاف نہیں سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک اسلام سائنس کو درست سمت میں لے جانے کے لیے ھادی کا کردار ادا کرتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ " ہم مذہب اور سائنس کے امتزاج کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تو حقیقی مذہب وہ ہے جو سائنس کی روح، اسکی رہنما طاقت بن جائے۔ اسلام درحقیقت ایساہی مذہب ہے اور آج اسکو سائنس کی روح بننے سے اگر کوئی چیز روکے ہوئے ہے تو وہ اس کا اپنا اندرونی نقص نہیں ہے بلکہ اس کے علم برداروں کی غفلت اور موجودہ سائنس کے علم برداروں کا جہل اور جاہلانہ تعصب ہے۔ یہ دو اسباب دور ہو جائیں، پھر یہ سائنس کے قالب میں جانہی بن کر رہے گا"۔ [18]"سائنس کی ترقی اسلام کی صداقت پر مہر ثبت کرتی ہے ایسی کوئی ترقی نہیں جس کا اسلام میں ذکر نہیں۔ اسلام کے سوا ہر مذہب سائنس سے متصادم و خائف ہے حق کبھی خائف یا مسخ نہیں ہو سکتا"۔[19]

 

علوم انسانی کے ارتقائی مراحل کی طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی ایجادات اور نمایاں سائنسی کارناموں کے میدان میں مسلمان سب سے پیش پیش رہے ہیں۔ ڈاکٹر غلام قادر لون لکھتے ہیں کہ علوم شرعیہ کی نشرواشاعت میں مسلمانوں نے جس جانفشانی، عرق ریزی، اور دیدہ وری کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے مگر یہ ان کا دینی فریضہ تھا جس کی پشت پر خدمت دین کا جذبہ بھی کار فرما رہا ہے۔حیرت اس پر ہے کہ مسلمانوں نے دنیاوی علوم میں بھی اسی دیدہ وری، تحقیق و تفتیش اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے جو علوم دینیہ کےلیے خاص تھی۔ تاریخ، جغرافیہ، حیاتیات، کیمسٹری، فزکس، طب اور ہئیت اور ریاضی جیسے علوم میں مسلمانوں کے شاندار کارناموں کو پڑھ کر عقل چکرا جاتی ہے۔ [20]جارج سارٹن (George Sarton)مسلمانوں کے دسویں صدی کے نصف اول کے کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "بنی نوع انسان کا اہم کام مسلمانوں نے سرانجام دیا ۔ سب سے بڑا فلسفی الفارابی مسلمان تھا، سب سے بڑے ریاضی دان ابو کامل اور ابراہیم بن سنان مسلمان تھے ۔سب سے بڑا جغرافیہ دان اور قاموسی المسعودی مسلمان تھا اور سب سے بڑا مورخ الطبری بھی مسلمان ہی تھا"۔ [21]آرنلڈ ٹائن بی(Arnold Toynbee) ابن خلدون کو یوں خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ جہاں تک فلسفہ تاریخ کا تعلق ہے عربی ادب جس عظیم آدمی کے نام سے روشن ہے وہ ابن خلدون ہے ، عیسائی دنیا اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتی حتی کہ افلاطون، ارسطو وغیر ہ بھی اس خصوص میں اس کے ہم پلہ نہ تھے۔[22]

 

اسلام اور سائنس میں ہم آہنگی کے متعلق سائنسدانوں کی آراء

 

ذیل میں چند ایک سائنسدانوں کی اسلام کے متعلق آراء کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اسلام اور سائنس میں تعلق کا بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔*

سارٹن اپنی کتاب تاریخ سائنس کا تعارفمیں لکھتا ہےکہ "مسلمانوں کی سائنس کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں جب تک ہم اس بات کو پوری طرح نہ سمجھ لیں کہ وہ قرآن کے محور پر گھومتی ہے"۔[23]
  • فرانس کے مشہور شہنشاہ اور ہیرو جرنیل نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا"وہ وقت دور نہیں جب میں دنیا کے تمام تعلیم یافتہ ، داناو مہذب انسانوں کو قرآن کی صداقتوں پر دوبارہ جمع کروں گا۔ قرآن وہ واحد الہامی کتاب ہے جس کی تعلیمات میں وہ صداقت ہے جو دنیا کو مسرت سے ہم کنار کرسکتی ہے"۔
  • ڈاکٹر بینا ٹسیٹ، جن کا تعلق پیر س سے ہے، 1935ء میں مسلمان ہوئے ا ور اسلامی نام علی

 

 

 

سلمان رکھا، کہتے ہیں " میں پیرس کی ایک کیتھولک فیملی سے تعلق رکھتا ہوں ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد عیسائیت سے منکر ہو گیا۔ کیونکہ اسکے اصول عقل کی رسائی سے باہر تھے چنانچہ میں نے قرآن حکیم کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اس میں بعض ایسے سائنسی حقائق پائے جنہیں ماڈرن سائنس نے آج دریافت کیا ہے۔ تب مجھے مکمل یقین ہو گیا کہ خدا ایک ہے اور محمد ﷺ اسکے سچے رسول ہیں"۔

*

برطانیہ کا فاضل جے ڈبلیو گراف بیان کرتا ہے "قرآن وہ واحد کتاب ہے جس کے الہامی ہونے پر بے شمار تاریخی دلائل موجود ہیں اور محمد ﷺ وہ واحد رسول ہیں جن کی زندگی کا کوئی پہلو پوشیدہ نہیں۔ اسلام ایک ایسافطری اور سادہ مذہب ہے جو فضولیات اور بے ہودگیوں سے پاک ہے۔ قرآن نے اس مذہب کی تفصیل پیش کی اور رسول ﷺ نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ قول وعمل کا یہ حسین امتزاج کہیں اور نظر نہیں آتا"۔[24]
  • ڈاکٹر لی آن۔ ایم۔اے، پی۔ ایچ۔ڈی، ایل۔ ایل۔ڈی برطانیہ کا ایک سائنسدان تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام ہارون مصطفی رکھا، کہتا ہے۔"اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسکی بنیاد عقل پر رکھی گئی ہے۔عقل انسانی دماغ کی ایک اہم قوت ہے جسے کلیسا خاطر میں نہیں لاتا لیکن اسلام کا یہ حکم ہے کہ کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے اسے عقل کے پیمانے پر پرکھو۔ اسلام اور صداقت دو مترادف الفاظ ہیں اور کوئی شخص عقل کی مدد کے بغیر صداقت تک نہیں پہنچ سکتا"۔[25]
  • ڈاکٹر مارقس ایک جرمن صحافی تھا اور اسلام لانے کے بعد حامد مارقس کہلانے لگا، لکھتا ہے " اوّلا میں اس اخلاقی و روحانی انقلاب سے متاثر ہوا جو اسلام نے پیدا کیا دوم اس حقیقت سے کہ اسلامی تعلیمات سائنس کی جدید تحقیقات سے متصادم نہیں"۔[26]
  • موریس بکائیے لکھتے ہیں" کسی بشر کے لیے جو ساتویں صدی عیسوی میں بقید حیات ہو ' قرآن

 

 

 

میں اتنے بہت سے موضوعات پر جو اسکے زمانے سے تعلق نہ رکھتے ہوں اور جو باتیں صدیوں بعد

 

منکشف ہونے والی ہوں' بیان دے سکے۔ میرے نزدیک قرآن کے لیے کوئی بشری توضیح و تشریح ممکن نہیں ہے"۔[27]

 

اسلامی تعلیمات اور سائنسی نظریات میں تضاد کا علمی جائزہ

 

"اہل کلیسا کی سائنسی نظریات کی مخالفت کی بدولت مذہب اور سائنس کے مابین تضاد کا ایک عام رویہ رواج پاگیا ہے اسکے اثرات جس طرح مغربی دنیا میں مرتب ہوئے ہیں اسی طرح مسلم معاشرے بھی اس تصور سے محفوظ نہیں رہ سکے ہیں۔سائنسی دریافتوں کے اولین دور میں سائنس اور اسلام میں اسی طرح تضاد سمجھا جاتا تھا جیسے مغربی معاشروں میں عیسائیت کی تعلیمات اور سائنس میں آج بھی سمجھا جاتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روش قدرے تبدیل ہو رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات اسلامی تعلیمات کو تدریجا ثابت کر رہی ہیں۔ اسلام اور سائنس پر نمایاں کام کرنے والے سکالر مظفر حسین علامہ اقبال کی بابت لکھتے ہیں کہ "علامہ اقبال کو پختہ یقین تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس اور مذہب کے مابین ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہوتا جائے گا جس سے اسلام کی حقانیت دنیا پر منکشف ہوتی جائےگی یعنی جوں جوں علم میں ہمارا قدم آگے بڑھے گا زیادہ سے زیادہ بہتر نظریات سامنے آتے جائیں گے جو قرآنی حقائق کی تائید و تصدیق کریں گے"۔[28]

 

اسلام اور سائنس میں تعلق کی نوعیت کو سمجھنے کے لیےذیل میں ہم اسلامی تعلیمات کے متعلق سائنسی تحقیقات کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ تضاد کی نوعیت واضح ہو جائے ۔

*

انسان کی تخلیق کا قرآنی نظریہ اور جدید سائنس

 

 

 

موریس بکائیے اپنی معرکۃ الآرا کتاب بائبل قرآن اور سائنس میں لکھتے ہیں "جس لمحہ سے قدیم انسانوں کی تحریروں میں افزائش نسل کے موضوع پر تفصیلات کا سلسلہ شروع ہو اہے، اس وقت سے ان میں ایسے بیانات پیش ہوتے رہے ہیں جو درست نہیں ہیں۔ قرونِ وسطی میں اور نسبتا زیادہ دور جدید میں بھی افزائش نسل کے موضوع کو تمام اقسام کے اساطیر اور توہمات گھیرے رہے ہیں۔۔۔قرآن کریم میں کیفیت اس سے قطعا مختلف ہے ۔ الکتاب بہت سے مقامات پر صحیح میکانیات کو بتاتی اور افزائش نسل کے

 

واضح مدارج کو بیان کرتی ہے جس میں کسی ایک مقام پر بھی درست نہ ہونے کا کوئی امکان نہیں"۔[29]

 

قرآن کریم افزائش نسل سے متعلق جن متعدد نکات کی جانب توجہ مبذول کرواتا ہے ان کی فہرست درج ذیل ہے۔

 

1۔ بار آوری کا عمل رقیق مادہ کی صرف نہایت قلیل مقدار سے انجام پاتا ہے۔ 2۔ بارآور کرنے والے رقیق مادہ کے اجزائے ترکیبی 3۔ بار آور شدہ بیضہ کا استقرار 4۔ جنین کا ارتقاء

 

موریس بکائیے ان نکات کی تفصیلات بیان کرتے ہوے جنین کے ارتقاء کے تحت لکھتے ہیں کہ" جنین کے بڑھنے اور ترقی کے بعض مدارج کا قرآنی بیان پوری طرح ان معلومات سے مطابقت رکھتا ہے جو اس کے بارے میں آج ہمیں حاصل ہیں اور قرآن کریم میں ایک بیان بھی ایسا نہیں ہے جو جدید سائنس کے لحاظ سے تنقید کی زد میں آ سکے"[30]

 

حیاتیات کے بارے قرآن قاعدہ کلیہ بتاتا ہے کہ :

 

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ[31]

 

"اور ہر زنده چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں ﻻتے"

 

ڈاکٹر ذاکر نائیک لکھتے ہیں "آج ہم جانتے ہیں کہ ہر زندہ مخلوق کی بنیادی اکائی خلیہ ہے اور خلیہ بیشتر سائٹو پلازم پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ تقریبا نوے فیصد پانی ہوتا ہے۔ ہر زندہ مخلوق پچاس فیصد سے نوے فیصد پانی پر مشتمل ہوتی ہے۔ کیا عرب کے صحراؤں میں کسی کو یہ اندازہ ہوسکتا تھا یا ایسا خیال بھی آسکتا تھا کہ ہر زندہ چیز پانی سے بنی ہے جبکہ قرآن یہ حقیقت 1400 برس پہلے بیان کر چکا ہے"۔[32]

 

جس دور میں سائنس کا وجود تک نہ تھا اس وقت اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب کے اندر تخلیق انسانی کے مختلف مراحل کا اس احسن انداز سے ذکر کیا ہے کہ موجودہ دور کے دانشور اور سائنسدان نہ صرف حیران ہیں بلکہ ان کے لیے تحقیق کے نئے دروازے بھی کھل رہے ہیں۔ اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کا مرحلہ وار بڑی خوبصورتی سے ذکر فرمایا ہے۔ درج ذیل آیات میں

 

مراحل کی تفصیل یوں بیان فرمائی گئی ہے۔

 

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ ۔ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ ۔

 

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ[33]

 

"یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا۔ برکتوں واﻻ ہے وه اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے واﻻ ہے"

 

سورۃ المومنون کی ان آیات میں انسانی ارتقاء کے سات مراحل بیان کیے گیے ہیں۔

 

سللۃ من طیننطفہعلقہ مضغۃعظاملحمخلق آخر

 

سورۃ السجدۃ میں ارشاد ربانی ہے

 

ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ[34]

 

"جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی، اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو"

 

ٹورانٹو یونیورسٹی میں شعبہ اٹانومی کے پروفیسرڈاکٹر کیتھ ایل مور (Dr. Keith L.Moore) لکھتے ہیں:

 

“The verse 9 of surah 32 tells us that the faculties of hearing, seeing, and feeling are bestowed upon us in this order. Embryologists confirm that this is exactly the order of development of special senses. Moore further confirms that the primordial of the internal ears appear before the beginning of the eyes, and that the brain, which is the site of understanding, differentiates last”.[35]

 

"سورۃ السجدہ کی آیت نمبر 9 اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ مخصوص حس سامعہ، حس باصرہ اور حس لامسہ بالترتیب نمو پاتی ہیں ۔ایمبرالوجی کے ماہرین کے مطابق انسانی حواس مذکورہ ترتیب سے ہی وجود میں آتے ہیں پروفیسر مور تصدیق کرتے ہیں کہ کانوں کے اندرونی عضویات آنکھوں کی ابتدا سے

 

پہلے ظاہر ہوتے ہیں پھر دماغ (سمجھنےکی صلاحیت) اسے ممتاز کرتی ہے"۔

 

“The realization that the human embryo develops in stages was not discussed and illustrated until the 15th century. After the microscope was discovered in the 17th century by Leuven Hook, descriptions were made of the early stages of the chick embryo. The staging of human embryos was not described until the 20th century. Streeter (d.1941) developed the first system of staging which has now been replaced by a more accurate system proposed by O'Rahilly (d.1972)”. [36]

 

"حیاتیاتی نشوونما کی مرحلہ وار تخلیق کےمتعلق پندھرویں صدی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی ۔بطن مادر میں انسان کے حیاتیاتی نشوونما کے یہ مدارج معلوم کرنے کا باقاعدہ سائنسی نظام سب سے پہلے 1941ء میں سٹریٹر (Streeter)نے ایجاد کیا جو بعد ازاں 1972ء میں O, Rahilly کے تجویز کردہ نظام کے ذریعےزیادہ بہتر اور صحیح شکل میں بدلا گیا اور اب اکیسویں صدی کے آغاز تک یہ نظام مرحلہ وار تحقیق کے بعد بھرپور مستحکم ہو چکا ہے" مگر قرآن مجید کا ان مدارج کو اس ترتیب سے بیا ن کرنا ایک ناقابل انکار معجزہ ہے جس کی جدید سائنس بھی معترف ہے۔

 

مندرجہ بالا سائنسی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ سائنسی نظریات نہ صرف قرآن کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ سائنسی تحقیقات کے لیے قرآن رہنما کا کردار ادا کرتا ہوا نظر آتاہے۔*

قرآن اور تسخیر کائنات

 

 

 

قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں صرف آفاق کے مشاہدے کے ضمن میں کم و بیش سات سو آیات نازل ہوئی ہیں اور بے شمار سماوی حقائق سے استشہاد کیا گیا ہے۔[37] مظاہر فطرت میں غوروفکر اور تسخیر کائنات کے متعلق چند آیات بطور نمونہ ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:

 

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۠ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ

 

لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ[38]

 

"آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو

 

لئے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر، مرده زمین کو زنده کردینا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں"

 

اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى[39]

 

"اللہ وه ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر وه عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے، اسی نے سورج اور چاند کو ماتحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے"

 

وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ[40]

 

"اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے"

 

وَهُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ[41]

 

"اور دریا بھی اسی نے تمہارے بس میں کر دیے ہیں کہ تم اس میں سے (نکلا ہوا) تازه گوشت کھاؤ اور اس میں سے اپنے پہننے کے زیورات نکال سکو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس میں پانی چیرتی ہوئی (چلتی) ہیں اور اس لیے بھی کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور ہوسکتا ہے کہ تم شکر گزاری بھی کرو"

 

اَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِيْ جَوِّ السَّمَاۗءِ ۭ مَا يُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ[42]

 

"کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو تابع فرمان ہو کر فضا میں ہیں، جنہیں بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی اور تھامے ہوئے نہیں، بیشک اس میں ایمان ﻻنے والے لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں"

 

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً [43]

 

"کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے اور

 

تمہیں اپنی ظاہری وباطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں "

 

سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ [44]

 

"عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاه ہونا کافی نہیں"

 

قرآن کریم اپنے ماننے والوں کو سائنسی انداز فکر اپنانے اور اللہ رب العزت کی پھیلی ہوئی نشانیوں پر غوروفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ اور اس فعل کو ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

 

الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [45]

 

"جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائده نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے"

 

اِنَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ[46]

 

"آسمانوں اور زمین میں ایمان داروں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں"

 

ڈاکٹر اسرار لکھتے ہیں " یہ قرآن کے اسی انداز اوراسلوب کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنے دور عروج میں آفاق و انفس کے تمام گوشوں اور پہلوؤں سے متعلق سائنس کے جملہ شعبوں کے ذخیرہ معلومات کو ہندو یونان سے اخذ کیا اور پھر نہ صرف یہ کہ انہیں ترقی دے کر بام عروج تک پہنچایا بلکہ متعدد نئے علوم و فنون ایجاد کئے اور فی الجملہ قافلہ انسانیت کو زمانہ وسطیٰ کی جہالت کی تاریکیوں اور توہمات کے اندھیروں سے نکال کر مشاہدہ و تجربہ، تحقیق و تفتیش اور ایجاد و اختراع کی شاہراہ پر ڈال دیا"[47]

 

ذیل میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سائنس تسخیر کائنات کے

 

ضمن میں کس طرح قرآنی حقائق کی تصدیق کرتی ہے۔

 

کائنات کی وسعت پذیری: قرآن اور جدید سائنس کے تناظر میں

 

ذیل میں کائنات کی وسعت پذیر ی کے متعلق مختلف ادوار میں پیش ہونے والے سائنسی نظریات اور ان کا قرآنی نظریہ کے ساتھ تقابل کیا جاتا ہے۔

 

بیسویں صدی کے شروع تک کائنات کے جمود کا نظریہ قائم تھا یہاں تک کہ 1915ءمیں جب آئن سٹائن نے اپنا نظریہ اضافت پیش کیا تو اسے نظریہ جمود پر اس قدر یقین تھا کہ اس نے اس نظریے کے متوازی مشہور عالم تخلیقیاتی مستقل(Cosmological Constant) کو متعارف کرواتے ہوئے اپنے نظرئیےمیں ممکنہ حد تک تبدیلی کر دی۔1922ء میں روسی ماہر طبیعات اور ریاضی دان الیگزنڈر فرائڈ مین (Alexander Friedman)نے پہلی بار کائنات کی وسعت پذیری کا نظریہ پیش کیا جسے 1929ء میں ایڈون ہبل نے سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا یوں مرحلہ وار سائنسی تحقیقات کے بعد بالآخر 1965ء میں دو امریکی ماہرین طبیعات (آرنو پنزیاس اور رابرٹ ولسن ) [48]نے اسے ثابت کر دیا۔

 

یہاں یہ بات دل چسپ ہے کہ سائنس نے مرحلہ وار تحقیقات کے بعد جس حقیقت تک رسائی حاصل کی ہے اس کی نشاندہی قرآن حکیم میں پہلے ہی سے کر دی گئی تھی۔ [49]اس ضمن میں ارشادات خداوندی ملاحظہ ہوں۔

 

يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ [50]

 

"مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے"

 

وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ [51]

 

"آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں"

 

وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ [52]"اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں"

 

مندرجہ بالا آیات صراحت سے بتا رہی ہیں کہ یہ کائنا ت ہر آن تغیر پذیر ہے اور اس میں ہر لمحہ وسعت پیدا ہورہی ہے۔

 

نظام ِ شمسی میں سائنسی تحقیقات اور قرآنی نظریہ

 

نظام شمسی میں سائنس کے ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ

 

کسطرح قرآنی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں ذیل میں ملاحظہ ہوں۔*

معلوم انسانی تاریخ کے مطابق سب سے پہلے جو نظام شمسی کے متعلق نظریہ قائم ہوا تھاوہ سمیری (Sumerians )، کلدی ، مصری اور بابلی (Babylonians) قوم کا تھا۔ ان کے خیال میں زمین ساکن تھی جبکہ تمام اجرام سماوی زمین کے گرد گردش کرتے تھے۔
  • فیثا غورث وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ سورج ساکن ہے جبکہ زمین اس کے گرد گردش کرتی ہے۔ تقریبا ایک سو سال تک اس نظریے کا دور دورہ رہا جو بعد میں ختم ہو گیا۔
  • فیثا غورث کے بعد بطلیموس نے دوبارہ سے زمین کے ساکن ہونے اور سورج کا اس کے گرد گردش کرنے کا نظریہ پیش کیا جس کو زبردست پذیرائی ملی ۔یہ کوئی نیا نظریہ نہ تھا بلکہ بطلیموس نے ارسطو کے نظریے ہی کو فروغ دیا تھا۔ بطلیموس نے زمین کے گرد سورج کی حرکت سے لوگوں کو عملی طور پر آگاہ کیا۔ سکونِ زمین کا نظریہ بطلیموس کے نام سے مشہور ہوا۔ اُس نےاس نظریے کی وضاحت اپنی کتاب "المجسطی " (Almagest) میں کروائی۔ اس کے خیال میں زمین کائنات کا مرکز ہے اور تما م سیارے زمین کے گرد گھوم رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے مدار میں بھی کسی ان دیکھی طاقت کے گرد گھوم رہے ہیں۔بطلیموس کا یہ نظریہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں خاصا مقبول رہا اور عیسائی مذہب کے حصے کے طور پر متعارف رہا۔
  • اسلامی اندلس کے نامور سائنسدان ابو اسحق ابراہیم بن یحیی زرقالی قرطبی (Arzachel) نے بطلیموس کے نظریے کو دلائل و براہین کے ساتھ رد کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ بطلیموسی نظریہ تقریبا ایک ہزار سال سےعیسائی دنیا میں عقیدے کی حیثیت اختیا ر کر چکا تھا۔زرقالی نے 1080 ء میں سورج اور زمین دونوں کے محو حرکت ہونے کا نظریہ پیش کیا۔ اس تھیوری کے مطابق زمین اور سورج دونوں میں سے کوئی بھی مرکز کائنا ت نہیں ہےاور
  • زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔
  • کوپر نیکس (1473ء سے 1543ء ) نے سولہویں صدی کے آغاز میں بطلیموس کے نظریے کو باطل قرار دے دیا۔ بطلیموسی نظریہ چونکہ عیسائیت میں عقید ے کی شکل اختیا ر کر چکا تھا اس لیے اس کے باطل ہونے سے عیسائی دنیا میں بہت بڑا دھچکا لگا۔
  • ٹیکو براہی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج اور چاند دونو ں زمین کے گرد حرکت کر رہے ہیں جبکہ باقی پانچوں سیارے سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ یوں سولہویں صدی میں سائنس ایک دفعہ پھر خطا ء کی طرف چل پڑی۔ٹیکو براہی کا یہ نظریہ بطلیموس اور کوپر نیکس کے نظریے کا بے تکا اجتماع تھا۔
  • اٹلی کے سائنسدان گلیلیو نے 1609 ءمیں دور بین ایجاد کر کے کائنات کا مشاہدہ کیا تو ماضی کے تما م نظریات یکے بعد دیگرے مسترد ہو گئے ۔ کوپر نیکس کا نظریہ قدرے درست تھا۔
  • گلیلیو کے بعد جوہانز کیپلر نے ٹیکو براہی کے نظریا ت کا مشاہدہ کیا اس نے کوپر نیکس کے نظریے میں موجود سقم دور کر کے اس کو درست قرار دے دیا۔ یہ وہی نظریہ تھا جو 1080 ء میں قرطبہ کے مسلمان سائنسدان زرقالی نے پیش کیا تھا۔
  • سترھویں صدی کےوسط میں سر آئزک نیوٹن نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج ساکن ہے اور

 

 

 

تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ نیوٹن نے باقی ساری کائنات کو بھی ناقابل تبدیل

 

قرار دیا۔*

بیسویں صدی کے مشہور زمانہ سائنسدان آئن سٹائن نے برسوں کی تحقیق اور عرق ریزی کے بعد نظریہ اضافت پیش کیا جس کے مطابق تمام اجرام سماوی (خواہ وہ ستارے ہوں یا سیارے ) حرکت میں ہیں۔ علمی حلقوں میں اس نظریے کو قبولیت حاصل ہوئی اور یوں مسلم سائنسدان زرقالی کا پیش کردہ نظریہ حقیقت بن کر سامنے آ گیا۔

 

 

 

یہ نظریہ قرآن حکیم کی عکاسی کرتا ہے تا ہم اس نظریے میں بھی چند اصلاحات کی ضرورت ہے۔ [53]قرآن کریم اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتا ہے

 

وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ [54]

 

"اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں"

 

مرج البحرین پرفرانسیسی سائنسدان کی تحقیق

 

"ایک فرانسیسی سائنسدان جیک وی کوسٹو نے سمندروں کے پانی پر تحقیق کرتے کرتے اپنی ساری زندگی صرف کر دی اور ایک نظریہ قائم کیا جسے "کوسٹو کی تھیوری" کا نام دیا گیا کوسٹو نے دریافت کیا کہ بحر روم اور بحر اوقیانوس کیمیائی اور حیاتیاتی لحاظ سے ایک دوسرےسے مختلف ہیں موصوف نے اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے آبنائے جبرالٹر کے نزدیک زیر سمندر تحقیقات کر کے بتایا کہ جبرالٹر کے جنوبی ساحلوں (مراکش) اور شمالی ساحلوں (اسپین)سے بالکل غیر متوقع طور پر میٹھے پانی کے چشمے ابلتے ہیں یہ سمندری پانی میں ہوتے ہیں یہ بہت بڑے چشمے ایک دوسرے کی طرف 45 ڈگری کے زاویہ پر تیزی سے بڑھتے ہوئے ایک ڈیم کی طرح کنگھی کے دندوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اس عمل کی وجہ سے بحیرہ روم اور بحیرہ اوقیانوس اندر سے ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوتے۔ [55]قرآن حکیم نے اس حقیقت سے یوں پردہ اٹھا یا ہے

 

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ ۔ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ [56]

 

"اس نے دو دریا جاری کر دیے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ان دونوں میں ایک آڑ ہے

 

کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے"

 

کوسٹو کو جب بعد میں معلوم ہوا کہ جس تحقیق پر اس نے اپنی ساری زندگی صرف کر دی اس کی وضاحت تو قرآن کریم نے 1400 سال پہلے کر دی تھی ۔ یہ حقیقت جان کر وہ بہت حیران ہو اا اور اسلام قبول کر لیا۔[57]

 

تسخیر ماہتاب اور قرآنی پیشین گوئی

 

جولائی 1969 ء میں امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے 'ناسا' (National Aeronautic

 

Space Agency)کے تحت تین سائنسدانوں کےہاتھوں تسخیر ماہتاب کا کارنامہ انجام پذیر ہو جس کی شہادت قرآن نے چودہ سو سال پہلے دے دی تھی۔ [58]قرآن کریم نے تسخیر ماہتاب کی طرف یوں اشارہ کیا ہے

 

وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ۔ لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ ۔فَمَالَهُمْ لَايُؤْمِنُونَ[59]

 

"اور چاند کی جب کہ وه کامل ہو جاتا ہے۔یقیناً تم ایک حالت سے دوسری حالت پر پہنچو گے۔انہیں کیا ہو گیا کہ ایمان نہیں ﻻتے"

 

قرآن کریم نے تسخیر ماہتاب کیطرف اشارہ کرتے ہوئے اس امر کی طرف بھی توجہ دلوائی کہ " فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ " یعنی اس مہم کو سر کرنے والے ایمان والے نہیں ہوں گے۔

 

نبی اکرم ﷺ کے اشارے سے چاند کا دولخت ہونا احادیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے حالیہ تحقیقات میں "اپالو 10 اور 11 کے ذریعے ناسا نے چاند کی جو تصویر لی ہے اس سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ زمانہ ماضی میں چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔ یہ تصویر ناسا کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے اور تاحال تحقیق کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ناسا ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔ اس تصویر میں راکی بیلٹ کے مقام پر چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا نظر آتا ہے"۔[60]

*

اسلام اور فلسفہ زمان و مکان

 

 

 

اسلام کی وہ تعلیمات جن کا تعلق ماوراء العقل امورسے ہے اور جن پر ہمیشہ سے غیر مسلموں کی طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہوتی رہی ہے وہ زمان و مکان سے تعلق رکھتی ہیں۔20 ویں صدی تک ان تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک رات میں سات آسمانوں کی سیر کر لی جائے اور عرصہ دراز تک بغیر کچھ کھائے پئے انسان زندہ رہ سکے لیکن آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے اس معمے کو بھی حل کردیا اور اب اسکو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ زمان اور مکان کی حیثیت مطلق نہیں ہے بلکہ یہ اضافی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذیل میں مافوق العقل واقعات کے ذکر سے پہلےنظریہ اضافیت

 

کی وضاحت کی جاتی ہے تاکہ ان واقعات کےمتعلق سائنسی توجیہات کو بہتر طورپر سمجھا جاسکے۔

 

 

  • نظریہ اضافت

 

 

 

نیوٹن (1642ء تا 1727ء) سے پہلے زمان و مکان دونوں کو مطلق سمجھا جاتا تھا ۔ نیوٹن نے اپنے نظریات میں مکان کی مطلق حیثیت کو تو رد کر دیا تھا مگر زما ن کی اضافی حیثیت کے بارے میں وہ کوئی رائے قائم نہ کرسکا۔ بیسویں صدی میں آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافیت میں مکان کے ساتھ زمان کو بھی اضافی قرار دے دیا اور یوں انسانی علوم کے سفر ارتقاء میں اس مادی کائنات کا ہر ذرہ اضافی قرار پایا۔ موجودہ دور میں خود فزکس ہی کے قوانین اس تمام عالم پست و بالا کو اضافی اور حادث ثا بت کر چکے ہیں۔[61]

 

سٹیفن ہاکنگ زمان ومکان کے متعلق اپنی شہرہ آفاق تصنیف “A Brief History of Time”میں لکھتا ہے کہ " ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ مکان ، زمان سے مکمل طور پر الگ اور آزاد نہیں ہے بلکہ وہ اس سے مل کر ایک اور شے بناتا ہے جسے مکان زمان (Space-Time) کہتے ہیں"چنانچہ مکان زمان کی حیثیت کے پیش نظر کہیں وقت مسلسل پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کہیں وہ سکڑ کر محض چند ثانیوں میں سمٹ آتا ہےگویا اس کی مطلق حیثیت جدید نظریات کی رو سے دور کہیں پیچھے رہ گئی ہے نظریہ اضافیت کے مطابق مطلق وقت کچھ معانی نہیں رکھتا ہر فرد اور شے کے لیے وقت کا ایک الگ پیمانہ ہے جس کا انحصار اس حقیقت پر ہوتا ہے کہ وہ کس مکان میں کس طریقے سے محو حرکت ہے ۔یہاں آ کر زمان و مکان کی انفرادی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہےاور وہ باہم مل کر زمان مکان کو تشکیل دیتے ہیں۔[62]

 

قرآن کریم میں قیامت کے دن کی بابت مختلف آیات وارد ہوئی ہیں جو اضافیت زمان و مکان کی تشریح کرتی ہوتی دکھائی دیتی ہیں کہ ایک ہی مکان میں کچھ لوگوں کے لیے وقت اتنی سرعت سے گزار دیا جائے گا کہ ان کو پلک جھپکنے کی مقدار محسوس ہو گا جبکہ باقی لوگوں کے لیے وہ ہزاروں سال تک محیط ہو

 

جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ[63]

 

"اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی زیاده قریب "

 

وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ [64]

 

" ہاں البتہ آپ کے رب کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ہے"

 

تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ [65]

 

"جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے"

 

علامہ شمس الحق افغانی زمان و مکان کے متعلق رقمطراز ہیں کہ "قدیم اور جدید فلاسفہ اس بات پر متفق ہیں کہ حرکت کی تیزی اور سرعت کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہےجس زمانے میں جس قدر حرکت ممکن ہے اسی زمانے میں وہی حرکت اس زمانے کے کروڑویں حصے میں بھی ممکن ہے۔۔۔البتہ ایسی تیز حرکت مشاہدہ میں نہ ہونے کی وجہ سے تعجب انگیز ضرور ہے جیسے قدیم زمانے میں تیز رفتار میزائل کا تصور حیرت انگیز تھا۔ [66]ہارون یحیی وقت کو ادراک سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "چونکہ وقت صرف ادراکات پر مشتمل ہے اس لیے یہ اضافی ہے اور یہ کلی طور پر ادراک کرنے والے پر منحصر ہے"۔[67]

 

مذکورہ بالا سائنسی نظریا ت کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا دشوار نہیں ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک فرد پر وقت اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ گزر جائے اور دوسرے فرد پر ایک ہی مکان میں وقت اپنی رفتار بدل دے۔جدید سائنس اس امر کی صداقت کی گواہی دے چکی ہے کہ زمان اور مکان کی مطلق حیثیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسی قانون کے پیش نظر معراج کی رات حضور ﷺ کے لیے وقت کو طول دے دیاگیا، اصحاب کہف اور عزیر ؑکےلیے طویل عرصے کو ایسے گزاردیا کہ جب وہ بیدار ہوئے تو ان کو ایک یوم یا یوم کا بعض حصہ محسوس ہوا۔یہی اصول ہمیں حضرت آصف بن برخیہ کے تخت کو چند ثانیوں میں دربار سلیمانی میں پیش کردینےمیں کارفرما نظر آتا ہے۔ *

معجزہ ، کرامت اور جدید سائنس

 

 

 

اسلامی تعلیمات میں ایسے واقعات جن کی توجیہہ کرنے سے عقل انسانی عاجز ہے، کو کرامت اور معجزہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت بعض اوقات اپنی قدرت کاملہ کے باعث ایسے واقعات کا ظہور فرماتا ہے جن کو دیکھ کر عقل انسانی ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتی ہے لیکن اہل ایمان کے لیے ایسی نشانیاں ان کے ایمان میں اضافے کا سبب بنتی ہیں ۔ قرآن کریم میں اصحاب کہف کا واقعہ، حضرت عزیرؑ کا سو سال تک سوئے رہنا اور دوبارہ جی اٹھنا، سلیمان ؑ کے درباری کا ملکہ سبا کا تخت آن واحد میں دربار میں حاضر کردینااور حضورﷺ کاایک ہی رات میں معراج کرنا ایسے واقعات ہیں جن پر غیر مسلم ہمیشہ شک ہی میں مبتلا رہے ہیں۔

 

اگرچہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ان واقعات کی توجیہہ کافی آسان ہو گئی ہے تاہم جدید سائنس سے چند ایسے شواھد پیش کیے جاتے ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامیتعلیمات نہ صرف حقیقت پر مبنی ہیں بلکہ تحقیق کے نئے باب کھولنے میں بھی ممدو معاون ہیں۔

 

جدید جینیاتی سائنس کے مطابق انسان اب سمندری پودوں اور پھولوں کی مانند ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے ۔ جینیاتی سائنس کے ماہر پروفیسر ٹام کرگ کا کہنا ہے " بعض حیوانا ت ایسے ہیں جن پر گزرتے ہوئے وقت کا کوئی اثر نہیں ہوتا سمندر کی تہوں میں پائے جانے والے پھول جو گل لالہ سے مشابہت رکھتے ہیں ایسی ہی غیر فانی مخلوق میں شمار ہوتے ہیں اور ایک صدی کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ان پھولوں کی تازگی اور شگفتگی میں قطعا کوئی فرق نہیں آتا وہ آج بھی ویسے ہی ترو تازہ ہیں جیسے انہیں ابھی ابھی سمندر کی تہوں سے چنا گیا ہو اسی طرح انسان کے جسم میں بعض ایسے خلیوں کا سراغ لگا لیا گیا ہے جو فنا کی دست و برد سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔انسانی خصیوں اور بیضوں میں موجودیہ خلیے کبھی فنا نہیں ہوتے۔ ۔ ۔مزید لکھتے ہیں کہ انسانی ڈی این اے میں موجود جینز کاہمارے غیر فانی ہونے سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ سمندری پھولوں کی مانند یہ جینز انسانوں میں بھی موجود ہوتے ہیں تا ہم ان کے بر عکس انسانی جسم میں غیر فانی جینز اس کے تولیدی خلیوں تک ہی محدود رہتے ہیں لیکن ہر انسانی خلیے میں در حقیقت یہ جینز موجود ہوتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بیدار اور متحرک نہیں ہوتے چنانچہ جس دن جینیاتی ماہرین یہ جان لیں گے کہ ان خفیہ اور غیر متحرک جینز کو کیسے اور کیوں کر بیدار اور فعال کیا جا سکتا ہے اس دن ہم عمر جاودانی کا سر بستہ راز پا لیں گے۔"

 

فرانسیسی سائنسدان چارلس ایڈورڈ براؤن سیکوریڈ کے خیال میں انسان ہمیشہ جوان رہ سکتا ہے اگر وہ بعض جانوروں کے خصیوں سے حاصل کردہ ٹیکے لگاتا رہے، وی آنا ایک نامور سائنسدان کا خیال ہے کہ ایک خاص طریقہ اختیار کر کے ریڑھ کی ہڈی میں ایک خاص تجربہ کے بعد انسانی جسم میں اتنے جنسی ہارمون خود بخود پیدا ہو سکتے ہیں کہ انسان کبھی بوڑھا نہ ہو گا ڈاکٹر وردنوف نے لوگوں کو تازہ دم اور جوان رکھنے کے لیے بندروں کے جسم کے بعض حصوں اور غدودوں کو انسانی اجسام میں آپریشن کے بعد لگا دینے سے انسان کو جوان بنا دیا تھا بعض امریکی سائنسدانوں اور ڈاکٹروں نے بھی اس طریقہ کا ر کو اپنایا اور خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ۔

 

دماغ کے بعد انسانی جسم کا سب سے اہم جز ودل ہے سائنسدان ایک عرصے سے ایسا مصنوعی دل بنانے میں لگےہوئے ہیں جو انسان کے قدرتی دل کی طرح طویل مدت تک بغیر رکے دھڑکتا رہے ۔ حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ فزیالوجی کے ایک سائنسدان ڈاکٹر نوبل پینتیس سال کی جدوجہد کے بعد ایسا دل بنانےمیں کامیاب ہو گئے ہیں جو ان کے بقول کبھی رکے گا نہیں بلکہ سدا دھڑکتا ہی رہے گاعلاوہ ازیں اس مصنوعی دل کی مدد سے دل کو مستقبل میں لاحق ہونے والی ہر قسم کی بیماریوں کا قبل از وقت اور باآسانی پتہ لگایا جا سکے گا۔[68]

 

آج کا انسان اگر ایک بات کو ناممکن قرار دیتا ہے تو کل وہی بات حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آ جاتی ہے۔کچھ عرصہ قبل انسان کی چاند تک رسائی محض ایک محال تصور تھا لیکن موجودہ دور میں یہ ایک حقیقت کے طور پر سامنے آ چکی ہے۔ لاکھوں میل دور تک انسان کی آواز کی شنوائی ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے خطبہ کے دوران سینکڑوں میل دور حضرت ساریہ کو کہا کہ "یا ساریۃ الجبل" [69]اے ساریہ پہاڑ کی آڑ لو تو لوگوں کوآپ کی اس بات پر تعجب ہوا لیکن بعد میں حضرت ساریہ کی تصدیق کے بعد یقین آگیا۔ دور جدید میں راکٹ، ٹیلی فون، انٹر نیٹ، ٹیلی ویژن اور کمپوٹر نے یہ ساری چیزیں ممکن بنا دی ہیں۔[70]

 

اصحاب کہف اور حضرت عزیر ؑ کا اتنے عرصے تک بغیر خوراک اور پانی کے زندہ رہنے کو غیر مسلموں نے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنا یا ہے لیکن جدید سائنس نے اب یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ انسان عرصہ دراز تک کچھ بھی نہ کھائے اور زندگی کے شب و روز بسر کرتا رہے۔ اس دار فانی میں درجنوں ایسے افراد گزرے ہیں جو عرصہ دراز تک کچھ کھائے پئے بغیر زندہ رہے ۔ان میں مسلمان بھی تھےاور غیر مسلم بھی ۔ ذیل میں چند غیر مسلموں کے ایسے ہی واقعات نقل کیے جاتے ہیں کہ جنہوں نے عرصہ

 

دراز تک کچھ نہ کھایا اور زندہ بھی رہے۔

 

کونرس روتھ جرمنی کا ایک شہر ہے اس شہر کی ایک خاتون تھرسیانو مان اس بات کو عجیب

 

نہیں سمجھتیں کہ انہوں نے 1927 سے عرصہ دراز تک کچھ نہیں کھایا صرف شرکت عشائیہ ربانی کے وقت وہ ایک پتلا سا کاغذی توست کھا لیتی تھیں اس کے سوا اس طویل عرصے میں ایک سبیل بھی ان کے منہ میں اڑ کر نہیں گئی۔

 

کچھ نہ کھانے والوں میں سے تھریسا نامی خاتون بہت مشہور ہے اور ہزاروں لاکھوں آدمی ان کی زیارت کے لیے آتے رہتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ میرا کچھ نہ کھانا برت یا روزہ نہیں ہے اس لیےکہ مجھے بالکل بھوک نہیں لگتی۔اس عجیب و غریب خاتوں کے متعلق بہت سی کتابیں لکھی گی ہیں پچھلی جنگ عظیم کے دوران انہوں نے راشن کارڈ بھی نہیں لیاتھا اور یہ کہہ دیا تھا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں پچھلے دس سال کے اندر انہوں نے اپنا معائنہ کرنے والوں کو نہیں روکا۔ مسٹر سرجن ایونس نے اپنی مشہور کتاب "بھوتوں کی کھوج" میں اس کا ذکر کیا ہے۔

 

3۔ بروک لن نیویارک کی ایک خاتون ماتی ریچن تھیں وہ اپنے زمانے کے بے خوراک زندہ رہنے والوں میں سب سے زیادہ مشہور تھیں اور اس کی تائید ان کے ڈاکٹر بھی کرتے تھے بلکہ ڈاکٹر تو ان کے متعلق یہاں تک کہتےتھے کہ 1864 میں دس ہفتے تک وہ بغیر سانس لیے زندہ رہیں ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں سے دیکھے بغیر کتاب پڑھ لیتی تھیں۔

 

4۔ایک خاتون ایو فلچن تھیں جنکے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ 1597 سے 1621 تک صرف گلاب کے پھولوں کی خوشبو سونگھ کر زندہ رہیں کہتے ہیں کہ انہون نے 1594 میں دعا کی تھی اے خدا مجھے بھوک کے تقاضوں سے نجات دے اور خوراک کی عادت کو ترک کرتے کرتے انہیں تین سال لگ گئے۔ فلچن کا ایک موی مجسمہ المیسٹرڈیم میں رکھا ہوا ہے ۔[71]

 

سائنس اس نوعیت کے واقعات کی توجیہ کرنے سے قاصر ہے جو کہ صدیوں پرانے نہیں بلکہ ماضی قریب میں رونما ہوئے ہیں اور ان کے عینی شاھدیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔سائنس کی بنیاد چونکہ تجربے اور مشاہدے پر ہے جبکہ اس کائنات میں بہت سی چیزیں ایسی بھی وقوع پذیر ہو رہی ہیں جن کی حقیقت کو تجربے اور مشاہدے کی کسوٹی پر پرکھنا کسی طور پر بھی درست نہیں ہے ۔ سائنس کے محدود دائرہ کار اور محدود آلات کی بدولت ان چیزوں کی حقیقت سےانکار نہیں کیا جاسکتا جوکہ تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں۔

 

خلاصہ ونتائج

 

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور عالمگیر دین ہے اس نے زندگی کے تما م مسائل کے متعلق اصول و قواعد وضع کیے ہیں ۔ معاشیات، معاشرت، طب، انجینئرنگ، حکمت، سائنس، صحافت، بزنس، سیاست اور بے شمار علوم کے چشمے اسی سے پھوٹتے ہیں۔ قرآن مجید کی 750 آیات یعنی نواں حصہ مظاہر فطرت پر غوروخوض کرنے کی دعوت دیتا ہے اور اس غوروفکر کو بندہ مومن کی بنیادی صفات میں شمار کرتا ہے۔جب یہ حقیقت ہے کہ قرآنی تعلیمات کا 9/1 حصہ سائنس سے متعلق ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سائنس اور اسلام میں کسی قسم کا کوئی تصادم ہوسائنس تو اسلام کی نقیب ہے اس کی ایجادات سے اسلام کی حقانیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔اگر دور حاضر کے فلاسفہ اوردانشور شعوری سائنسز کو بھی باقی علوم کی طرح جگر سوزی کے ساتھ پروان چڑھائیں تو کچھ بعید نہیں کہ شعوری سائنسز بھی مادی و حیاتیاتی علوم کی طرح بنی نوع انسان کو الہامی علوم کی صداقت کی طرف لے آئیں۔[72]

 

سائنس صداقت کی تلاش میں ہر آن ارتقائی مراحل سے گرزتی رہتی ہے جس کی بدولت بعض مسائل کو فوری طور پر تجرباتی بنیادوں پر ثابت نہیں کر پاتی اور نہ ہی ٹھوس علمی بنیادوں پران کی صداقت سے انکار کرتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت تک رسائی حاصل کر لیتی ہے یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے سائنس ترقی کررہی ہے ہے اسلام کی حقانیت ثابت ہورہی ہے جس کی واضح دلیل مغربی دنیا میں اسلام کا تیزی سے پھیلنا ہے۔

 

سفارشات

 

میکانیکی اور تیکنیکی ترقی نے انسان کو ایک ایسے دور میں داخل کر دیا ہے جہاں تحقیق و جستجو کا میدان روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جارہاہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لیے بہت سنجیدہ مسائل پید اہورہے ہیں۔ ۔ ۔نئی ایجادات نے عقل انسانی کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ نوجوان نسل کے سامنے مادی ترقی کا ایک سحر انگیز اور پر کشش ماحول پیدا ہو گیا ہے جس میں مذہب اور دین کی باتیں فرسودہ اور بے سود دکھائی دینے لگی ہیں۔ اس مادہ پرستی کے ماحول نے مسلمانوں کو اسلام اور اسکے تقاضوں سے دور کر دیا ہے اور ان کے دنیوی اور دینی تقاضوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل کر دی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر اگر ہم نے ایمان اور اسکے تقاضوں کو واضح اور قابل فہم انداز میں پیش نہ کیا تو اس داخلی انتشار کے باعث مسلمانوں کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں مزید محدود اور مسدود ہو کر رہ جائیں گی اور ہماری دینی اور دنیوی دونوں طرح کی محرومیاں مزید بڑھتی چلی جائیں گی"۔[73]اس صورت حال کے پیش نظر مسلم امہ کے دانشوروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عصر حاضر کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھیں اورجس طرح ہمارے اسلاف نے اسلام پر یونانی فلسفے اور منطق کے حملے کوروکنے کے لیے علم کلام ایجاد کیا تھا اور عقائد اسلامیہ کا داخلی اور خارجی فتنوں سے دفاع کیاتھا اسی طرح موجودہ دور کے فتنہ مادیت کو روکنے کے لیےمستقل بنیادوں پرسائنسی علوم کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوں۔ اس سلسلے میں اہم ترین کام مادیت اور روحانیت کے درمیان اعتدال اور توازن قائم کرنا اور قرآن کریم کو علمی اورعملی بنیادوں پر ہر دور میں تمام علوم و فنون کے لیے مستند مصدر کی حیثیت کے طور پر متعارف کروانا ہے۔یہی وہ راز ہے کہ جس کے ذریعے بھٹکی ہوئی اور سکون کی متلاشی انسانیت دنیا کے اندر امن کی زندگی گزار سکتی ہے۔ اس کے لیے ضرور ی ہے کہ قرآن کریم میں سائنسی طرز فکر کا جو رجحان 19 ویں صدی سے پنپ رہا ہے اسکو مزید آگے بڑھایا جائے اور سائنسی تحقیقات کے ذریعے دنیا کے سامنے واضح کر دیا جائے کہ اسلام نہ صرف سائنسی انداز فکر کی دعوت دیتا ہے بلکہ سائنس کے لیے پیشوا کا کردار ادا کرتے ہوئے تحقیقات کے نئے باب بھی کھولتاہے۔ مزید یہ کہ یورپ کی سائنس جس سمت رواں دواں ہے اس راستے میں سوائے حیرت، اضطراب، ہیجان اور نفسانی خواہشات کے کچھ اور نہیں ہے جس کا لازمی نتیجہ ظلم و استبداد اور امن عالم کی تباہی ہے۔

حوالہ جات

  1. مذہب اور سائنس میں تعلق کے متعلق عام طور پر دو بنیادی نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک موافقت اور دوسرا مخالفت کا ہے۔ (تا ہم) ڈاکٹر یحیٰ خالدنے، بسطامی محمد خير کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے مذہب اور سائنس کے تعلق کو چار گروہوں یعنی مؤيدین (Advocates) ، جدت پسند (Modernists)، مخالفین (Rejectionists) اور معتدلین (Moderates)میں تقسیم کیا ہے۔ طنطاوی اور مصطفی المراغی کو مذہب و سائنس کی تائیدکرنے والوں (Advocates) میں شمار کیا جاسکتا ہے جبکہ جدت پسند(Modernists) جو کہ مذہب کی تشریح سائنس اور سائنسی ترقی کے تناظر میں کرتے ہیں، میں سر سید احمد خان کا نام قابل ذکر ہے ۔ ڈاکٹر یحیٰ خالد بیان کرتے ہیں کہ بنت الشاطی (عائشہ عبدالرحمان) اور محمود شلتوت نے بھی سائنسی تفاسیر پر تنقید کی ہے جبکہ انہوں نے محمد البہی اور حسن البنا کو معتدل رویہ رکھنے والوں (Moderates) میں سے شمار کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اور ڈاکٹر محمد عبدالتواب حامد کے مطابق مخالفین (Rejectionists) میں ابو اسحاق شاطبی کا نام سر فہرست ہے۔ امین الخولی، محمد عزت دروزہ، صبحی صالح، محمد حسین الذھبی اورسید قطب نے قرآن کی روشنی میں سائنسی تعلیمات کا رد کیاہےجبکہ دوسری طرف الغزالی، محمد بن عمر الرازی، طاہر بن عاشور، اور طنطاوی نے کچھ حدود و قیود کے ساتھ سائنسی تشریحات کی تائید کی ہے۔(تفصیل کے لیے درج ذیل مقالہ ملاحظہ ہو)

     

    Muhammad Ashfaq (2005), Study of Scientific, Metaphysical and Aesthetic Aspects of Sūrah Al-Rahmān, MS Thesis from HITEC University Taxila, Pp. 7-8

  2. پرویز امیر علی ہود بھائی، مسلمان اور سائنس،مشعل بکس آر۔بی۔5، سیکنڈ فلور،عوامی کمپلیکس، عثمان بلاک، نیوگارڈن ٹاؤن، لاہور، 2002، ص 44
  3. مودودی،سید ابو الاعلیٰ(۱۴۰۶ھ)،تنقیحات، نوید حفیظ پرنٹر زلاہور، 2013ء، ص 11
  4. الازھری،پیرکرم شاہ، ضیاء النبی، ضیاءالقرآن پبلی کیشنز، گنج بخش روڈ،لاہور، 1999ء ،30: 1
  5. طاہر القادری ، ڈاکٹر ،اسلام اور جدید سائنس ، منہاج القرآن پرنٹرز ، لاہور، 2001ء، ص 67
  6. محمد قطب،شبہات حول الاسلام (ترجمہ: اسلام اور جدید ذہن کے شبہات)، مترجم محمد سلیم کیانی، البدر پبلی کیشنز 23۔ راحت مارکیٹ اردو بازار لاہور، 2013ء ص 11
  7. ابوالاعلیٰ موودودی، تنقیحات، نوید حفیظ پرنٹر زلاہور، 2013ء، ص 10
  8. ایضا، ص 11
  9. ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص68
  10. طارق اقبال سوہدری ، سائنس قرآن کے حضور میں، نشریات اردو بازار لاہور، 2007ء، ص 35
  11. موریس بوکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی، آواز اشاعت گھر، الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور،ص۔ 143
  12. مدارس اسلامیہ میں علوم عقلیہ اور علوم آلیہ کو بھی اس طرح پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے کہ ان میں غور و فکر ، تنقید اور اختلاف رائے سے قطع نظر من وعن تسلیم کر لیا جاتاہے۔
  13. ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، منہاج القرآن پرنٹرز ، لاہور، 2001ء، ص70
  14. خالد خان خلجی، انسان اسلام اور سائنس، ادارہ روحانی سائنس، کوئٹہ، 2004ء، مقدمہ: ص 7
  15. موریس بوکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی، آواز اشاعت گھر، الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور،ص۔ 141
  16. علامہ شمس الحق افغانی، سائنس اور اسلام، مکتبۃ الحسن 29/9 لال چوک عبدالکریم روڈ قلعہ گوجر سنگھ ، لاہور، 1985ء، ص 24
  17. موریس بکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی،ص۔ 22
  18. سید ابو الاعلیٰ موودودی، تنقیحات، ص۔ 10، 11
  19. خالد خان خلجی، انسان اسلام اور سائنس، ص 1
  20. ڈاکٹر غلام قادر لون، مسلمانوں کے سائنسی کارنامے، مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ ملتان روڈ لاہور، 1999، ص 22
  21. George Sarton (1927 Reprint 1953), Introduction of the History of science, - Baltimore, Vol. 1,Pp. 624
  22. اردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہ لاہور، پاکستان، طبع اول،1: 503- 508
  23. عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، علی پرنٹر رشید روڈ، لاہور، 2004ء، ص 43-44
  24. شاہد محمود ملک، انکشافات حق، الحق سٹاکسٹ، کوٹلی،آزاد کشمیر، ص 175-176
  25. ایضا، ص 228
  26. ایضا، ص 229
  27. موریس بکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی ،ص 152
  28. محمد رفیع الدین، ڈاکٹر ، قرآن اور علم جدید یعنی احیائے حکمت دین، مقدمہ ازمظفر حسین، اسلامی اکادمی - 17، اردو بازار، لاہور، 1986ء، ص 3
  29. موریس بکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس،مترجم: ثناء الحق صدیقی، ص۔240
  30. ایضا، ص ۔ 247
  31. الانبیاء، 21: 30
  32. ذاکر نائک، ڈاکٹر، بائبل اور قرآن جدید سائنس کی روشنی میں، مترجم: سید امتیاز احمد، دارالنوادر، الحمد مارکیٹ اردو بازار لاہور، 2007ء، ص 122
  33. سورۃ المومنون،23: 12-14
  34. سورۃ السجدہ،32 : 9
  35. . Dr. Ibrahim B. Syed, Attitude of a Muslim Scholar at Human Embryology,- [Presented at the Islamic Attitude and Practice in Science Seminar, Organized by the International Institute for Islamic Thought, Washington, D.C. February 28-March 1, 1987.]
  36. . Keith L. Moore, A Scientist's Interpretation of References to Embryology in the Qur'an, The Journal of the Islamic Medical Association, Vol.18, Jan-June 1986, Pp.15-16
  37. ڈاکٹر اسرار احمد، مطالعہ فطرت اور ایمان، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، 1983ء ص 12
  38. سورۃ البقرۃ،2: 164
  39. سورۃ الرعد،13 : 2
  40. سورۃ ابراہیم،14 : 33
  41. سورۃ النحل،16: 14
  42. سورۃ النحل،16: 79
  43. سورۃ لقمان،31: 20
  44. سورۃ فصلت،41: 53
  45. سورة آل عمران،3: 191
  46. سورة الجاثية،45 : 3
  47. ڈاکٹر اسرار احمد، مطالعہ فطرت اور ایمان، ص 12
  48. یہ دونوں سائنسدان امریکہ کی ریاست نیوجرسی میں واقع "بیل فون لیبارٹریز" میں کام کرتے تھے ، جنہیں 1978ء میں نوبل پرائز بھی عطاکیا گیا.
  49. ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص446-448
  50. سورۃ الفاطر،35: 1
  51. سورۃ الذاریات،51: 47
  52. سورۃ النحل،16 : 8
  53. ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص242- 249
  54. سورۃ یسین،36: 40
  55. . Halūk Nūr Bāqī, (2005 Qur’āni Ayāt aur Sa’insī Haqā’iq (Qur’ānic Verses and Scientific Facts) translated by Feroz Shah, Aligarh Publisher, Lahore, Pp. page 55-56 See also Huseyn HilmiIsık,( 2012 )Why they Become Muslims, Hakikat Kitabvi Publications, Pp. 46-47, http://www.hakikatkitabevi.com
  56. سورۃ الرحمن،55 : 19-20
  57. عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، علی پرنٹر رشید روڈ، لاہور، 2004ء، ص 44
  58. ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص222
  59. سورۃ انشقاق،84 : 18-20
  60. طارق اقبال سوہدری ، سائنس قرآن کے حضور میں، نشریات اردو بازار لاہور، 2007ء، ص 92
  61. ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص384
  62. ایضا، ص 358-359
  63. سورۃ النحل16,: 77
  64. سورۃ الحج،22: 47
  65. سورۃ المعارج،70 : 4
  66. شمس الحق افغانی، سائنس اور اسلام، مکتبۃ الحسن 29/9 لال چوک عبدالکریم روڈ قلعہ گوجر سنگھ ، لاہور، 1985ء، ص 200
  67. ہارون یحییٰ، کائنات، نظریہ وقت اور تقدیر، اداراہ اسلامیات، لاہور، 2002ء، ص 66
  68. عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، علی پرنٹر رشید روڈ، لاہور، 2004ء، ص 309-310
  69. ابن عساکر، تاريخ دمشق، 20: 25
  70. عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، ص 335
  71. ایضا، ص 314-315
  72. ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، 2001ء، ص262
  73. ڈاکٹر اسرار احمد، مطالعہ فطرت اور ایمان، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، 1983ء ص 12
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...