Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 1 Issue 1 of Al-ʿILM

اسم محمد ﷺ اور رسول اللہ کی جلالت قدر کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060040263_507

Pages

31-41

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/86/66

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/86

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

نبوت کے اعتبار سے ہمارے نبی کریم ﷺ کو بہت کمال حاصل ہے آپ کا تذکرہ سارے انبیاءسے پہلے ہے حالانکہ بعثت سب کے بعد ہے اور پھر آپ کی بعثت ثقلین کی طرف ہے اورآپ کی ذات اقدس کو تمام انبیاءسے پہلے میدان محشر میں پوری تکریم کے ساتھ لایا جائے گا ۔آپ کی شریعت کو منسوخ نہیں کیا گیا ۔علاوہ ازیں آپ کے فضائل حدو شمار سے باہر ہیں۔ لیکن ذیل کی سطور میں اسم محمد ﷺکے حوالہ سے آپ ﷺ کی عظمت و شان کو بیان کیا جا رہا ہے

 

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے چار جگہ اسم محمد کو ذکر فرمایا ہے ۔ ارشاد ہے ۔

 

ومَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ([1]

 

(اور نہیں محمد(مصطفیٰ) مگر (اللہ کے )رسول)

 

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ([2])

 

(نہیں ہیں محمد (فداہ روحی)کسی کے باپ تمہارے مردوں میں سے)

 

وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ([3])

 

(اور ایمان لے آئے جو اتارا گی محمد پر)

 

محَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ([4])

 

(جان عالم)محمداللہ کے رسول ہیں(

 

اس سلسلہ میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ وَأَنَا المَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الكُفْرَ، وَأَنَا الحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي، وَأَنَا العَاقِبُ([5])۔کہ نبی کریمﷺنے فرمایا میرےپانچ نام ہیں۔ میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں اللہ تعالیٰ میرے بعد حشر قائم کرے گا اورمیں عاقب ہوں ۔

 

اس حدیث کی شرح میں علامہ محمد بن خلیفہ ابی مالکی لکھتے ہیں کہ محمد ،حمد سے ماخوذ ہے اور مفعل کے وزن پر اسم مفعول کا صیغہ ہے اس کا معنی ہے بہت زیادہ حمد کیا ہوا ۔ نبی کریم اس کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکی ایسی حمد کی ہے جو کسی اور کی نہیں کی اور آپﷺ کو دو محامد عطا کئے ہیں جو کسی اور کو عطا نہیں کئے ۔اور قیامت کے دن آپ ﷺکو وہ چیزیں الہام کرے گا جو کسی اور کو الہام نہیں کرے گا جس شخص میں خصال محمود کامل ہوں اس کو محمد کہا جاتا ہے ایک قول یہ ہے کہ یہ باب تکثیر کے لئے ہے یعنی جس کی بہت زیادہ حمد کی جائے وہ محمد ہے ابن قتیبہ نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ کی نبوت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ آپﷺ سے پہلے کسی کا نام محمد نہیں رکھا گیا جیسے حضرت یحییٰ علیہ السلام سے پہلے کسی کا نام یحییٰ نہیں رکھا گیاتھا۔ ([6])

 

علامہ علی قاری لکھتے ہیں محمد تحمید کا اسم مفعول ہے اس کو وصفیت سے اسمیت کی طر ف مبالغة نقل کیا گیا ہے بہ کثرت خصال محمودہ کی بنا پر آپ ﷺکا نام محمد رکھا گیا ہے یا ا س لئے کہ آ پ ﷺکی باربار حمد کی جاتی ہے یا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺکی بہت حمد کرے گا اسی طرح ملائکہ ،انبیاءاور اولیٰاءآپﷺ کی حمد کریں گے یااس لئے کہ اولین و آخرین آپ کی حمد کریں گے اور قیامت کے دن تمام اولین و آخرین آپ کی حمد کے جھنڈے تلے ہوں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے گھر والوں کے دل میں یہ الہام کیا کہ وہ آپ ﷺکا نام محمد رکھیں۔

 

احادیث میں آپ ﷺکے اسما ءکے بیان میں محمد کو احمد پر مقدم کیا گیا ہے کیونکہ محمد ،احمد سے زیادہ مشہور ہے بلکہ ابونعیم نے روایت کیا ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے آپﷺ کا نام محمد رکھا گیا اور کعب بن احبار نے روایت کیا ہے کہ عرش کے پائے پر سات آسمانوں ،جنت کے محلات اور بالاخانوں پر ،حوروں کے سینوں پر ،جنت کے درختوں کے پتوں پر سدرة المنتھی اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان محمد لکھا ہوا ہے اس نام کو تمام ناموں پر فضیلت ہے ابو نعیم نے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم ۔جوشخص تمہارا نام رکھے گا میں اس کو جہنم میں نہیں ڈالوں گا اور دیلمی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جس دستر خواں پر محمد یا احمد نام کا شخص ہو گا میں اس گھر کو دن میں دو بار پاک کرو ں گا۔۔۔۔البتہ جب آپ ﷺکی ولادت کا زمانہ قریب آیا اور اہل کتاب نے آپ کی ولادت کے زمانے کے قریب آنے کی بشارت دی تو بہت سے لوگوں نے اپنے بچوں کا نام محمد رکھا ۔۔۔زیادہ مشہور یہ ہے کہ پندرہ بچوں کا نام ”محمد “رکھا گیا([7]) ۔

 

اسم محمد آپ ﷺکے کمال مطلق ہونے کی دلیل ہے حمد کسی حسن اور کمال پر کی جاتی ہے اور آپ ﷺعلی الاطلاق محمد ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ علی الاطلاق حسن اور کمال ہیں اگر آپ ﷺمیں کسی وجہ یا کسی اعتبار سے کوئی عیب یا نقص ہوتا تو آپ ﷺعلی الاطلاق محمد نہ ہوتے کیونکہ نقص اور عیب کی مذمت ہوتی ہے،حمد نہیں ہوتی۔کسی اعتبار سے کوئی عیب یا نقص ہوتا تو آپ ﷺعلی الاطلاق محمد نہ ہوتے کیونکہ نقص اور عیب کی مذمت ہوتی ہے،حمد نہیں ہوتی۔

 

علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ آپ ﷺکوکسی زید یا بکر نے محمد نہیں کیا،آپﷺ کو اللہ تعالیٰٰ نے محمد کیا ہے۔اگر آپﷺ میں کسی وجہ سے کوئی عیب یا نقص ہو تو اللہ تعالیٰٰ کا آپ کومطلقا محمد کہنا صحیح نہیں ہو گا۔اللہ تعالیٰٰ کا کلام غلط ہو سکتا ہے نہ آپ ﷺمیں کوئی عیب اور نقص ہو سکتا ہے۔یہ بات مشرکین عرب کو بھی معلوم تھی وہ آپ ﷺمیں عیب نکالتے پھر آپ ﷺکو محمد کہتے انہیں خیال آیا کہ محمد کہہ دینے سے تو آپ سے عیب کی نفی ہو جاتی ہے۔اس لئیے وہ آپﷺ کو مذمم(مذمت کیا ہوا)کہنے لگے کہ مذمم میں یہ عیب ہے اور مذمم ایسا ہے ۔حضور ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا :وہ مجھ میں عیب نہیں نکالتے کسی مذمم میں عیب نکالتے ہیں،میں مذمم نہیں محمد ﷺہوں([8]

 

امام محمد بن اسماعیل بخاری روایت کرتے ہیں عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلاَ تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ، يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّد([9])۔حضر ت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس پر تعجب نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے قریش کے سب و شتم کو کس طرح دور کر دیا وہ مذمم کو برا کہتے ہیں اور مذمم کو لعنت کرتے ہیں اور میں محمد ہوں۔

 

یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ غیرکا محتاج ہو حسن ہے یا عیب؟اگر یہ حسن ہو تو تمام محاسن اور کمالات کا جامع اللہ تعالیٰ ہے پھر اللہ تعالیٰ کو بھی غیر کا محتاج ہونا چاہئے اور اگر یہ عیب ہو تو آپ ﷺمیں یہ عیب ثابت ہو گیا کہ آپﷺ اپنے غیر کے محتاج ہیں کیونکہ آپﷺ بہر حال اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں

 

اس سوال کا جوا ب دیتے ہوئے علامہ غلام رسول سعید ی لکھتے ہیں کہ یہ آ پ ﷺکے لئے کمال ہے اور اللہ کے لئے نقص ہے جیسے عبادت کمال ہے مگر یہ مخلوق کے لئے کمال ہے اللہ کے لئے عبادت کرنا نقص اور عیب ہے بعض چیزیں حسن لذاتہ اور قبیح لغیرہ ہوتی اور بعض چیزیں قبیح لذاتہ اور حسن لغیرہ ہوتی ہیں غیر کا محتاج ہونا قبیح لذاتہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس عیب سے پاک ہے اور حسن لغیرہ ہے کیونکہ بندہ کا یہ کمال ہے کہ وہ اپنے مولی کا محتاج ہو اس لئے رسول اللہ ﷺ کا اپنے مولی کا محتاج ہونا آپ ﷺکا حسن اور کمال ہے([10]

 

معلوم ہوا کہ آپ ﷺازلاًابداًمحمد ہیں تعریف کئے ہوئے ہیں اور تعریف ہمیشہ حسن اور کمال کی ہوتی ہے اس لئے آپﷺ ہمیشہ سے حسن اورکمال ہیں بلکہ تمام محاسن اور کمالات کی اصل ہیں

 

نام محمد وصف اور علمیت کا جامع ہے

علامہ ابن قیم جوزیہ نام محمد کی تحقیق میں لکھتے ہیں: ویقال حمد فھو محمد کما یقال علم فھو معلم وھذا علم و صفة اجتمع فیہ الامر ان فی حقہﷺ ([11]) ۔کہا جاتا ہے اس کی حمد کی گئی تو وہ محمد ہے جس طرح کہا جاتاہے اس نے تعلیم دی تو وہ معلم ہے لہذا یہ (لفظ محمد)علم (نام )بھی ہے اور صفت بھی اور آپ کے حق میں یہ دونوں چیزیں جمع ہیں ۔محمد اور احمد میں وصفیت علمیت (نام ہونے )کے منافی نہیں ہے اور ان دونوں معنوں کا قصد کیا جاتا ہے ۔علامہ علی قاری لکھتے ہیں : قصد بہ المعنی الوصفی دون المعنی العلمی ([12])۔(جب حضرت جبرائیل نے آپ کو یا محمد کہا )توا س سے لفظ محمد کے وصفی معنی کا ارادہ کیا اور علمی (نام کے )معنی کا ارادہ نہیں کیا)۔

 

شیخ شبیر احمد عثمانی نے بھی ملاعلی قاری کے حوالے سے اس جواب کا ذکر کیا ہے ([13]

 

اسم وصفی سے خطاب

قرآن مجید میں دوسرے انبیاءکو ہمیشہ ان کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے یا آدم ،یا نوح ،یا ابراہیم،اے آدم ۔اے نوح۔ اے ابراہیم لیکن اپنے حبیب کریم ﷺ کو جب بھی خطاب فرمایا تو نام سے نہیں بلکہ اسم وصفی سے ارشاد خداوندی ہے۔

 

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا([14])

 

اے نبی (مکرم )(حسب سابق )ڈراتے رہئے اللہ تعالیٰ سے اور نہ کہنا مانئے کفار اور منافقین کا ؛بے شک اللہ تعالیٰ خو ب جاننے والا ،بڑا دانا ہے

 

اس سے مقصود کی عظمت شان اور جلالت قدر کا اظہار ہے۔علامہ آلوسی اور دیگر مفسرین نے لکھا ہے ناداه جلّ وعلا بوصفه عليه الصلاة والسلام دون اسمه تعظيما له وتفخيما([15])۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم ﷺکی تعظیم اور تکریم اورا ظہار شان کے لئے وصف نبوت سے یا د فرمایا اور نا م لے کر ندا نہیں دی۔

 

اسم محمد ﷺ کی خصوصی عظمتیں

حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔۔۔۔قَالَ:وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ " قَالَ: " فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔۔۔۔۔۔" فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِي، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ " قَالَ: «فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا([16])۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب لوگ میت کو دفن کر کے چلے جاتے ہیں تو اسکے پاس دو فرشتے آکر اس کو بٹھا دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے پھر پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے پھر پوچھتے ہیں وہ شخص کون تھا جو تم میں مبعوث کیا گیا ہے وہ کہتاہے وہ رسول اللہ ﷺ ہیں پھر آسمان سے ندا کی جائے گی میرے بندے نے سچ کہا اس کے لئے جنت سے فرش بچھاد و اور اس کے لئے جنت کادروازہ کھول دو اور اس کو جنت کا لباس پہنادو،فرمایا اس کے پاس ہوا اور پاکیزہ خوشبوآتی ہے ۔

 

معلوم ہوا کہ جب قبر والا نام محمدﷺ لیتا ہے تو اس کی قبر منور ہوجاتی ہے اور جنت کی کھڑکی کھل جاتی ہے (قبر کو سترضرب ستر وسیع کر دیا جاتا ہے اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس سے تویہ لازم آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا مرتبہ اللہ سے بڑھ جائے۔ اس کے جواب میں صاحب تبیان القرآن راقم ہیں کہ قبر اللہ کے نام سے ہی منور ہوتی ہے لیکن اللہ کے نزدیک اس کا نام لینا اس وقت مقبول ہوتاہےجب اس کے نام کے ساتھ نام محمد ﷺلیا جائے اسی طرح انسان لا الہ الا اللہ پڑھنے سے ہی جنتی ہوتا ہے لیکن اللہ سبحانہ کے نزدیک لاالہ الا اللہ پڑھنا مقبول اس وقت ہوتا ہے جب لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ پڑھا جائے([17]

 

سواسلام کا دروازہ بھی نام محمد ﷺسے کھلتا ہے اور اسلام لانے کے بعد اگر کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ کا دروازہ بھی آپ ﷺکے نام سے کھلتا ہے

 

قرآن مجید میں ہے ومَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤ وكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا([18])۔(اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اذن سے ،اور اگر یہ لوگ جب ظلم کر بیٹھے تھے اپنے آپ پر حاضر ہوتے آپ کے پاس اور مغفرت طلب کرتے اللہ تعالیٰٰ سے نیز مغفرت طلب کرتا ان کے لئے رسول (کریم) ﷺبھی تو وہ ضرور پاتے اللہ تعالیٰٰ کو بہت توبہ قبول فرمانے والا ،نہایت رحم کر نے والا)

 

تحقیقی مطالعہ کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کے لئے مختلف مقامات پر یایھاالنبی کا لفظ استعمال کیا ہے مثلا :

 

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤ مِنِينَ([19])

 

اے نبی (مکرم) کافی ہے آپ کو اللہ تعالیٰٰ اور جو آپ کے فرمانبردار ہیں مومنو ں سے

 

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤ مِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ([20])

 

اے نبی :برانگیختہ کیجئے مومنوں کو جہاد پر

 

یا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الأَسْرَى ([21])

 

اے نبی (کریم)آپ فرمایئے ان قیدیوں سے جو تمہارے قبضہ میں ہیں

 

یا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ([22])

 

اے نبی کریم :جہاد کیجئے کافروں اور منافقوں کے ساتھ اور سختی کیجئے ان پر

 

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ([23])

 

اے نبی (مکرم)(حسب سابق) ڈرتے رہئے اللہ تعالیٰٰ سے

 

عربی میں لفظ یا کے ساتھ اس وقت ندا کی جاتی ہے جب منادی (جس کو ندا دی جائے )غافل ہو اور ظاہر ہے کہ یہاں نبی اکرم ﷺ کو ندا کی گئی ہے اور غافل ہونا آپ کی شان سے بعید ہے کیونکہ آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرف متوجہ رہتے ہیں توان مقامات پر پھر کیا مطلب ہو گا؟

 

علامہ غلام رسول سعیدی نے مختلف مقامات پر بحث کی ہے کہ لفظ یا محمد کہ کر رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرنا ،آپ کو یاد کرنا یا اظہار محبت کرنا مقصود ہو تویہ جائز ہے ([24])۔امام بخاری روایت کرتے ہیں ۔عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ([25]

 

عبد الرحمن بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پیر سن ہو گیا ایک شخص نے کہا اس کو یاد کرو جو تم کو سب سے زیادہ محبوب ہو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا محمد ۔اسی طرح امام مسلم حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث روایت کرتے ہیں اس میں ہے ۔فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فَوْقَ الْبُيُوتِ، وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِي الطُّرُقِ، يُنَادُونَ: يَامُحَمَّدُ يَا رَسُولَ اللهِ يَا مُحَمَّدُ يَا رَسُولَ اللهِ([26])۔ (جب رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو )مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے اور وہ نعرے لگا رہے تھے یا محمد یا رسول اللہ یا محمد یا رسول اللہ)

 

مذکورہ مقامات پر لفظ یا کے ساتھ ندا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس چیز کی خاطر ندا کی گئی ہے وہ بہت عظیم ہے اور اس کی عظمت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے لفظ یا کےساتھ ندا کی جاتی ہے اس لئے یہاں پر بھی یہی مراد ہے۔

 

علامہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو آپﷺ کی صفت النبی کے ساتھ ندا کی ہے اور آپ کے اسم کے ساتھ ندا نہیں کی جس طرح دوسرے انبیاءعلیھم السلام کو نداکرتے ہوئے فرمایا یا آدم ،یا نوح،یا موسی،یا عیسی،یا زکریا اور یایحییٰ اور آ پ کو معزز اور مکرم القاب مثلا یا یھاالنبی ،یایھا المزمل،کے ساتھ ندا فرمائی اور اس سے سیدنا محمد ﷺکی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت اور وجاہت کو ظاہر فرمایا ۔۔۔اورجو آپﷺ کا نام ذکر فرمایا ہے یہ اس لئے ہے تا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں اور وہ آپﷺ کے رسول ہونے کا عقیدہ رکھیں اور آپ ﷺ کو عقائد حقہ میں شمار کریں([27]

 

لوح محفوظ اور عرش و کرسی کے بلند کنگروں پر نام محمدﷺ

اللہ تعالیٰٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

 

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا([28])

 

وہ(اللہ )ہی ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو (کتاب) ہدایت اور دین حق دے کر تاکہ غالب کر دے اسے تمام دینوں پر اور(رسول کی صداقت پر) اللہ کی گواہی کافی ہے

 

پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں کہ اس آیت طیبہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی شان کبریائی اور اپنے نبی کریم ﷺ کے مقام رفیع اور منصب عالی کا ذکر فرمایا ہے کہ انہیں منصب رسالت پر فائز کرنے والا میں ہوں میں نے ہی اس یتیم مکہ کو کتاب ہدایت عطا فرمائی ہے جس کے مقدر میں اس ظلمت کدہ عالم کو منورکرنا ہے میں نے اس کو ایسا جامع نظام حیات اور شریعت بیضا دے کر مبعوث فرمایا ہے جو افراط و تفریط گوناگوں بدعنوانیوں نہیں کر سکتی ساری دنیا انکار کردے اس کی عظمت کا ماہ تمام سے روندے ہوئے گلشن انسانیت کے لئے پیغام بہار رہے ہیں جس کو میں نے اس منصب رفیع پر فائز کیا ہے کوئی طاقت اس کو اس شرف سے محروم نہیں کر سکتی ساری دنیا انکار کر دے اس کی عظمت کا ماہ تمام چمکتا رہے گا اے کفار تم نے میرے محبوب کے اسم گرامی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے الفاظ مٹا دینے پر اصرار کیا اس ورق سے تو تم مٹا سکتے ہو لیکن لوح محفوظ ،عرش و کرسی کے بلند کنگروں ،جنت کے ایوانوں اور اہل ایمان کے الواح قلوب پر محمد رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ہمیشہ تابندہ و درخشندہ رہیں گے وہاں سے تو تم نہیں مٹا سکتے([29]

 

رسولہ میں اضافت غور طلب ہے سارے رسول اسی نے بھیجے ہیں لیکن اس رسول کو جو نسبت ہے اس کی شان ہی نرالی ہے برق غضب بن کر باطل کو خاکستر کرنے نہیں آیا بلکہ ابر رحمت بن کر پیاسی دنیا کو سیراب کرنے آیا ہے فرمایا اسے ہدایت اور دین حق دے کر مبعوث کیا گیا ہے ہدایت سے مراد قرآن اور دین حق سے مراد شریعت محمدی ﷺ یا ہدایت سے علم دین اور دین سےمراد عمل دین الحق میں اضافت موصوف الی الصفة ہے یعنی الدین الحق ایسا دین جو حق ہے ۔

 

آخر میں فرمایا کہ میں نے اپنے رسول کی رسالت کابھی گواہ ہوں اور اس کی حقیقت کا بھی گواہ ہوں کہ وہ کتاب ہدایت او ردین رحمت لے کر آیا ہے اور اس بات کا بھی ضامن ہوں کہ یہ دین سب ادیان پر غالب آئے گا اور میری گواہی کے بعد ان سچائیوں کو ثابت کرنے کے لئے کسی دوسرے گواہ کی ضرورت نہیں ۔

 

مزیداللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے: وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجمعؤ ن([30])۔(اور آپ کے رب کی رحمت (خاص) بہت بہتر ہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں)اے میرے محبوب ! تیرے رب کریم کی خصوصی رحمت یعنی منصب رسالت اور ختم نبوت جس سے اس نے آپ ﷺکو سرفراز فرمایا ہے اس کے مقابلہ میں دنیا بھر کے قارونوں کے خزانوں کی کیا حیثیت ؟رحمة ربک کے کلمات میں کیا لطف ہے رب تو وہ سارے جہانوںکا ہے لیکن اس کی شان ربوبیت کی جو خصوصی نسبت آپﷺکی ذات سے ہے وہ تو کسی دوسرے کو نصیب نہیں آیت کے اس حصہ سے بتا دیا کہ جب معیشت دنیا کی تقسیم میں ان کا کوئی دخل نہیں تو نبوت جو بڑی ہی قیمتی اور گراں بہا متاع ہے اس کی بخشش میں ان کی رائے کون پوچھتا ہے

حوالہ جات

  1. ۔آل عمران، ۳:۴۴ ۱
  2. .۔الاحزاب،۳۳ :۴۰
  3. .۔محمد، ۴۷ :۲
  4. .۔الفتح، ۴۸ :۹ ۲
  5. .۔بخاری،ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح ،متوفٰی ۲۵۶ھ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ۱۴۱۲ھ ،باب ماجاء فی اسماءرسول اللہ ،رقم الحدیث ۳۵۳۲،صحیح مسلم ،رقم الحدیث ۲۳۵۴
  6. ۔مالکی،ابوعبدمحمد بن خلیفہ ،اکمال اکمال المعلم،متوفیٰ۸۲۸ھ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ،ھ۱۴۱۵، ج۸،ص۹۳
  7. .۔ملاعلی قاری،علی بن سلطان محمد،جامع الوسائل،متوفیٰ۱۰۱۴ھ ، مطبوعہ نو رمحمد اصح المطابع کراچی،ص
  8. . ۔سعید ی،غلام رسول ،تبیان القرآن،فرید بک سٹال لاہور ،ج۱۱،ص۱۲۹
  9. .۔بخاری، الجامع الصحیح ،رقم الحدیث ۳۵۳۳
  10. .۔غلام سول سعیدی،تبیان القرآن،ج۱۱،ص ۱۲۹
  11. ۔۔آلوسی ، ابو الفضل سید محمود متوفی۱۲۷۰ھ،روح لمعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی،مطبوعہ دار احیا ءالترا ث العربی بیروت، ج۱۱،ص۱۴۴
  12. .۔ابو داؤد،سلیمان بن اشعث سبحستانی، السنن ،متوفیٰ۲۷۵ھ ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،۱۴۱۴ھ ، رقم الحدیث ۴۷۵۳
  13. .۔ابن ماجہ،امام ابوعبداللہ محمد بن یزید ابن ماجہ ،متوفیٰ۲۷۳ھ،السنن ،مطبوعہ دارالفکر بیروت،۱۴۱۵ھ،رقم الحدیث ۴۲۶۹
  14. .۔تبیان القرآن،ج۱۱،ص۱۳۱
  15. .۔ ابن قیم، شمس الدین محمد بن ابی بکر جوزی ،متوفیٰ۷۵۱ھ،جلاءالافہام،مطبوعہ دارالکتاب الاسلامی بیروت ،۱۴۱۷ھ، ص ۹۳
  16. ایضا،ص۹۳
  17. .۔ملاعلی قاری،علی بن سلطان محمد،مرقات، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان،۱۳۹۰ھ، ج ۱،ص ۵۱
  18. .۔عثمانی، شبیر احمد ،متوفیٰ ۱۳۶۹ھ ،فتح الملہم،مطبوعہ مکتبہ الحجاز کراچی, ج ۱،ص ۱۰۴
  19. .۔الانفال: ۸: ۶۴
  20. .۔الانفال: ۸: ۶۵
  21. .۔الانفال ۸ :۷۰
  22. .۔التوبہ۹: ۷۳
  23. .۔الاحزاب ۳۳ :۱
  24. .۔التوبۃ ۹ :۳ ۷
  25. .۔الاحزاب ۳۳ :۱
  26. .۔تبیان القرآن ،ج۱۱،ص۱۳۰
  27. .۔بخاری، ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل ،متوفیٰ ۲۵۶ھ ،الادب المفرد،رقم الحدیث ۹۶۴،مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت،۱۴۱۲ھ، ج ۱،ص ۳۳۵
  28. .۔الفتح ۴۸ :۲۸
  29. .۔مسلم بن حجاج قشیری،متوفی۲۶۱ھ،الجامع الحیح،مطبوعہ مکتبہ نزارمصطفی البازمکہ مکرمہ ،۱۴۱۷ھ،ج ۴،ص ۲۳۱۰،رقم الحدیث۷۵
  30. ۔ تبیان القرآن ،ج۱۱،ص۱۳۰
    ¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...