Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 2 Issue 1 of Al-ʿILM

انسان کی معاشرتی زندگی پر صفات الہیہ کے اثرات |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060040263_853

Pages

99-126

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/71/64

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/71

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

معاشرتی زندگی پر صفات ا لٰہیہ کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔انسان جب اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حا صل کر لیتا ہے تو وہ ان صفات کو اپنے اندر ڈھالنے کی حتی المقدور کوشش میں لگ جاتا ہے اور اسی عمل کے ذریعے وہ انسان اپنی عملی زندگی میں بھی کامیابی حا صل کر لیتا ہے ۔اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا علم سارے علوم کی جڑاورایمان کی بنیاد ہے۔ سارے علوم میں سب سے زیادہ مقام و مرتبہ رکھنے والا علم وہ ہے جس کا تعلق اللہ تعالی کی ذات، اور اس کے اسماء و صفات سے ہو، اور بندے کی اللہ تعالی کے اسماء و صفات کی معرفت کے بقدراس کے اندر اپنے پروردگار کی بندگی، اس سے انسیت و محبت اور اس کی ہیبت پیدا ہوتی ہے، جوکہ اللہ تعالی کی خوشنودی اور اس کی جنت کے حصول کا طالب بننے، نیز آخرت میں اللہ تعالی کے دیدار کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کا سبب ہوتی ہے۔ یہ مقصد اللہ تعالی کی توفیق کے بغیر ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا ہے درحقیقت اللہ تعالی کی ذات کی معرفت رکھنے والا انسان اپنے اسماءِ حسنیٰ و صفاتِ الہیہ کے علم کو اللہ تعالی کے جملہ افعال و احکام کے لئے ثبوت بناتا ہے؛ اس لئے کہ اللہ تعالی سے وہی افعال صادر ہوتے ہیں جو اس کے اسماء و صفات کے تقاضوں کے عین مطابق ہوتے ہیں، اور اس کے اعمال حکمت و انصاف اور فضل و کرم پر مبنی ہوتے ہیں۔اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے بندوں کے دلوں اور اخلاق و کردار کی سدھار میں بڑے اچھے اثرات ہیں، نیز اس کے برعکس اسماء و صفات الہیہ کے علم سے ناواقفیت روحانی امراض کا دروازہ ہے۔

 

معاشرہ کا معنی و مفہوم :

معاشرہ کا لفظ عشر سے ہے اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ :

 

لفظ عشر کا مادہ (ع، ش، ر) ہے اس کی اصل ع اور ر ہے ان دونوں کا عدد معلوم ہے اور یہ اس کے سوا بھی استعمال ہوتا ہے ۔"

 

دوسری جگہ اس کی تعریف یوں کی گئی :

 

عشرۃ و کذا ( العشیر ) بوزن الشعیر و جمعہ أ عشرء کنصیب و أنصباء و فی الحدیث : تسعۃ أ عشرءالرزق فی التجارۃ و منہ العاشر و العشار بالتشدید ۔ و عشرھم من باب ضرب صار عاشرھم ۔و اعشر القوم صاروا عشرۃ۔[1]

 

" عشرۃ اور اسی طرح العشیر جس کا وزن شعیر ہے اور اس کی جمع أعشرء ہے جیسے نصیب اور أنصباء ہے جیسے حدیث میں ہے کہ رزق کے ننانوے حصے تجارت میں ہیں ۔ اور اسی سے عاشر اور عشار ہے تشدید کیساتھ باب ضرب یضرب سے اور دس لوگ جمع ہو گئے ۔ والمعاشرہ اور معاشرہ سے مراد ہے سب کا مل جل کر رہنا ۔ "

 

چونکہ معاشرہ کے معنی مل جل کر رہنے کے ہیں اس لئے معاشرہ سے مراد افراد کا وہ مجموعہ ہے جو باہم مل جل کر رہے۔ اجتماعیت کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے اور انسان پیدائش سے لے کر موت تک معاشرے کا محتاج ہے۔ انسان ہر متعلقہ شئے کے لئے معاشرے کا محتاج ہے۔ اگر اس سے تمام علائق حذف کر دیئے جائیں تو پھر اس کے پاس کچھ باقی نہ رہے اور انسانی زندگی کی حیثیت ختم ہو جائے۔ اجتماعی زندگی کے بغیر انسان کے اعمال، اغراض اور عادات کی کوئی قیمت نہ رہے۔ 

 

معاشرے مختلف بنیادوں پر قائم ہوتے رہے ہیں۔ مثلاً برادری، قوم، زبان، مذہب اور جغرافیائی حدود وغیرہ۔ انسانی تاریخ میں جتنے معاشرے تشکیل پاتے ہیں ان میں تقریباً یہی عوامل کار فرما رہے ہیں۔انسانی زندگی کی اجتماعی ترقی میں ان عوامل نے بہت اہم کردار انجام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان اپنی بنیادی ضرورتوں میں بقائے نسل اور تحفظ ذات کی طرف زیادہ توجہ دیتا رہا ہے، انسان کی اجتماعی زندگی پر نظر رکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں دو امور کو پیش نظر رکھا ہے:

 

ایک یہ کہ وہ اس طرح زندگی بسر کرے کہ اس کی اپنی ذات کی تکمیل ہو۔ 

 

دوسرے یہ کہ ایسے اصول و ضوابط تیار کرے جن کے ذریعے وہ باقی انسانوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ 

 

اسلام میں مشترکہ بنیادی ضروریات زندگی کہ اس تصور کو مزید بڑھا کر بھائی چارے اور فلاح و بہبود کے معاشرے کا قرآنی تصور، ایک ایسا تصور ہے کہ جس کے مقابل معاشرے کی تمام لغاتی تعریفیں اپنی چمک کھو دیتی ہیں۔

 

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :

 

تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ[2]"کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو"اس قرآنی تصور سے ایک ایسا معاشرہ بنانے کی جانب راہ کھلتی ہے کہ جہاں معاشرے کے بنیادی تصور کے مطابق تمام افراد کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر ہوں اور ذہنی آسودگی بھی۔ اور کسی بھی انسانی معاشرے کو اس وقت تک ایک اچھا معاشرہ نہیں کہا جاسکتا کہ جب تک اس کے ہر فرد کو مساوی انسان نا سمجھا جاۓ، اور ایک کمزور کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہوں جو ایک طاقتور کے پاس ہوں، خواہ یہ کمزوری طبیعی ہو یا مالیاتی یا کسی اور قسم کی۔

 

اب معاشرہ کی تعریف کے بعد ہم معاشرتی زندگی پر صفات الٰہیہ کے اثرات کا جائزہ لیں گے :

 

اللہ تعالیٰ کی صفت السلام کے معاشرتی اثرات :

اللہ تعالیٰ کی صفت اسلام یعنی سلامتی والی صفت ہے ۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کو رحمن اور رحیم اور سلامتی والی صفات میں محسوس کرتا ہے تو انسان کے اندر بھی یہ جذبہ بھرتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے سلامتی کا باعث بنے دوسروں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچانے کی کوشش کرے تا کہ انسان اللہ کا محبوب بندہ بن سکے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات میں اسی لیے تو شامل کیا کیوں کہ انسان ہی دوسرے انسان کے کام آسکتا ہے اور دوسروں کو نفع پہنچا سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا :

 

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً[3]

 

"اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا ۔"

 

درج بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تکریم انسانی کا ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی، مختلف سواریوں کو اس کے تابع کیا، پاکیزہ رزق عطا فرمایا اور اشرف المخلوقات کے مرتبہ پر فائز کیا ہے۔ عظمت و تکریم انسانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ السلام کے واقعہ کے باب میں بھی کیا، ارشاد فرمایا :

 

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً.[4]

 

"اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں"

 

گویا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انسان اور سب سے پہلے نبی ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو جب پیدا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہیں اپنے نائب/ خلیفہ کے طور پر متعارف کروا کر عظمت و تکریم آدم کا ذکر کیا۔

 

اول الذکر آیت کریمہ میں نسل آدم یعنی انسان کی عزت و تکریم کا ذکر ہے، بات فقط اہل ایمان و اسلام کی نہیں ہو رہی بلکہ مطلقاً نسل بنی آدم، بنی نوع انسان کی بات ہو رہی ہے کہ بنی نوع انسان کو ہم نے بطور انسان اپنی کائنات خلق کے بے شمار طبقات پر فضیلت و برتری عطا کی ہے۔ انسان کی عظمت و تکریم کو مزید واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَ[5]

 

"پھر جب میں اس (کے ظاہر) کو درست کر لوں اور اس (کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس (کی تعظیم) کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑنا "

 

انسان کی ایک فضیلت اس آیت مبارکہ سے یہ ثابت ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے باطن میں اپنی روح پھونکی ہے اور اپنے نور کا چراغ روشن فرمایا ہے۔ اسی آیت کریمہ سے انسان کی دوسری فضیلت اس طرح عیاں ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت و اکرام کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں سجدہ کرنا۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : اُسْجُدُوْا لِاٰدَم.[6]

 

"آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کرو" تاکہ ان کی عظمت و اکرام تمہارے سجدے سے ظاہر ہو۔ جب ابلیس نے حکمِ خداوندی کے باوجود سجدہ نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا کہ

 

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ.[7]

 

"(اﷲ نے) ارشاد فرمایا : اے ابلیس! تجھے کس نے اس (ہستی) کو سجدہ کرنے سے روکا ہے جسے میں نے خود اپنے دستِ (کرم) سے بنایا ہے"

 

گویا اپنے ہاتھ سے تخلیق کرنے کا ذکر فرمانا دراصل حضرت آدم علیہ السلام کی بے حد عظمت و اکرام کا اظہار کرنا ہے۔ بنی نوع انسان کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا :

 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ[8]

 

"اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے "

 

درج بالا آیات کریمہ انسان کے مقام و مرتبہ، عظمت و فضیلت کے حوالے سے تھی۔ انسانوں کے طبقات اور انسانوں کے آپس کے رشتے کے حوالے سے ارشاد فرمایا :

 

وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا[9]

 

"اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو ۔"

 

اس آیت کریمہ میں حکم توحید کے فوری بعد ماں باپ کا حق بیان کیا اور اس کے بعد رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں، ہمسایوں، مسافروں، غلاموں، ہم مجلس اور اجنبیوں کے حقوق کا ذکر کیا کہ ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ۔ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَيْمَانُکُمْ میں اُس دور کے غلاموں کی طرف صریحاً ذکر کے ساتھ ساتھ یہ ملکیت حق زوجیت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔

 

اللہ تعالیٰ کی صفت المومن کے معاشرتی اثرات :

اللہ تعالیٰ کی صفت المومن کے انسانی شخصیت پر بہت گہرے اثرات مرتب ہو تے ہیں معاشرے میں اللہ تعالیٰ کی صفت سے امن کا دور دوراں ہوتا ہے اور انسان امن کے فروغ کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے ،اسلام چونکہ ہے ہی امن کا دین اور امن کا پیغام ہی دیتا ہے ،ذیل میں الللہ تعالیٰ کی صفت المومن کے اثرات کو بیان کیا جاتا ہے :

 

۱۔ فروغ امن :

 

جس معاشرہ کا شیرازہ امن بکھیرتا ہے اس کی پہلی زد انسانی جان پر پڑتی ہے۔ اسلام سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی مگراسلام نے انسانی جان کو وہ عظمت و احترام بخشا کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن کریم میں ہے:ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :

 

من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیرنفس آو فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاہا فکأنما احیا الناس جمیعا[10]

 

"اسی لئے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے یہ حکم جاری کیا کہ جو شخص کسی انسانی جان کو بغیر کسی جان کے بدلے یا زمینی فساد برپا کرنے کے علاوہ کسی اور سبب سے قتل کرے اس نے گویا ساری انسانیت کاقتل کیا اور جس نے کسی انسانی جان کی عظمت واحترام کو پہچانا اس نے گویا پوری انسانیت کو نئی زندگی بخشی۔"

 

انسانی جان کا ایسا عالم گیر اور وسیع تصور اسلام سے قبل کسی مذہب و تحریک نے پیش نہیں کیا تھا۔

 

اسی آفاقی تصور کی بنیاد پر قرآن اہل ایمان کو امن کا سب سے زیادہ مستحق اور علمبردار قرار دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

 

فای الفریقین احق بالامن ان کنتم تعلمون، الذین آمنوا ولم یلبسوا ایمانہم بظلم اولئک لہم الامن وہم مہتدون[11]

 

"دونوں فریقوں (مسلم اور غیرمسلم) میں امن کا کون زیادہ حقدار ہے؛ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ جو لوگ صاحب ایمان ہیں اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم وشرک کی ہرملاوٹ سے پاک رکھا ہے امن انہی لوگوں کے لئے ہے اور وہی حق پر بھی ہیں۔“ان اللّٰہ لایحب المفسدین [12]”اللہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتے"

 

اس مضمون کی متعدد آیات قرآن پاک میں موجود ہیں۔

 

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔

 

اِنَّ رَجُلًا سَاءَلاً النبی صلی الله عليه وآله وسلم اَیُّ الْمُسًلِمِيْنَ خَيْرٌ؟ قَالَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لسَانِه وَيَدِه.[13]

 

"حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ مسلمانوں میں بہتر مسلمان کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہتر مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اورجس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں"

 

یعنی نہ وہ زبان سے مسلمانوں کو گزند تکلیف و اذیت پہنچائے اور نہ وہ ہاتھ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچائے۔ سوال چونکہ مسلمانوں کے حوالے سے کیا گیا کہ مسلمانوں میں سے اچھا مسلمان کون ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سوال کا جواب بھی مسلمانوں کی نسبت سے عطا فرمایا۔

 

مومنین کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

 

لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه[14]

 

" نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نا کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔"

 

پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کی تعریف میں فرمایا کہ مومن وہ ہے جس سے صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ کل انسانوں (خواہ مسلم ہوں یا نصاریٰ، یہودی ہوں یا ہندو، ان کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب سے ہو) کی جانیں اور ان کے مال محفوظ رہیں۔ گویا مومن وہ ہے جو انسانوں کے لئے امن کا پیکر، امن کا منبع اور امن کا باعث ہو نیز انسانی زندگی کے امن کا محافظ ہو۔ انسانوں کو امن فراہم کرنے والا ہو۔ اس میں نہ مسلمان کا امتیاز رہا اور نہ غیر مسلم کا امتیاز رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تصور اور فکر باطل کو سراسر رد فرما دیا کہ کسی مسلمان کی (معاذاللہ) یہ ذمہ داری ہے کہ وہ محض مسلمان ہونے کی وجہ سے غیر مسلموں کی جانیں لیتا پھرے، انہیں قتل کرے، ان کے مال لوٹے اور ان پر ظلم کرے۔ فرمایا : ایسا عمل اسلام سے خارج ہے اور ایسا عمل کرنے والا شخص خود مسلمان اور مومن ہی نہیں ہے۔

 

پس احادیث مبارکہ میں مذکور مسلم و مومن کی تعریف سے ہی اسلام کا تصور امن نکھر کر سامنے آرہا ہے کہ اسلام و ایمان کی حدود میں وہی شخص شامل ہے جو انسانوں کے لئے باعث امن و سلامتی ہو۔

 

اللہ تعالیٰ کی صفت الواسع ،المغنی،الصمدکے معاشرتی اثرات :

اللہ تعالیٰ کی صفت الواسع سے انسان کے اندر سخاوت کا جذبہ ابھرتا ہے اور انسان دوسروں کے ساتھ حتی الامکان نرمی اور رحمت و شفقت کا برتاؤ کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت اس کے بندوں میں بھی پائی جاتی ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا [15]

 

"اور تمہارے پروردگار کی بخشش  (کسی سے)  رکی ہوئی نہیں۔"

 

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جن سے رب نے فرمایا:

 

وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى [16]

 

"اور آپ کو پروردگار عنقریب وہ کچھ عطا فرمائے گا کہ آپ  خوش ہو جائیں گے۔"

 

اللہ تعالی کا فرمان ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ [17]

 

"مومنو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔"

 

سخاوت سے متعلق حدیث مبارکہ ہے کہ :

 

حدثنا ابراھیم قال : انا بی قال : نا سعید بن محمد الوارق ، عن یحیی بن سعید ، عن محمد بن ابراھیم بن الحارث التیمی ، عن ابیہ عن عائشہ قالت : سمعت رسول اللہ ﷺ یقول : السخی قریب من اللہ ، بعید من النار ، قریب من الجنۃ ، قریب من الناس، والبخیل بعید من اللہ ، بعید من الجنۃ ، بعید من الناس ، قریب من النار ۔[18]

 

"حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:سخی شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے قریب ہے اور جہنم سے دور ہے لوگوں سے قریب ہے ،جنت سے قریب ہے لوگوں سے قریب ہے جب کہ بخیل اللہعَزَّوَجَلَّ سے دور ہے جنت سے دُورہے لوگوں سے دُورہے اوردوزخ سے قریب ہے۔"

 

سخاوت کے فوائد :

 

سخاوت کے بہت سے فوائد جو کہ ہمیں عملی زندگی میں بھی نظر آتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سخاوت کرنے سے مال میں برکت ہوتی ہے مال پاک ہو جاتا ہے اور معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے جب دولت معاشرے کے سب افراد کے ہاتھوں میں گردش کرتی ہے تو پھر خوشحالی کا دور دورہ ہوتا ہے ۔

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :

 

مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ

 

"جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالٰی جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے ۔"

 

(۱) سخاوت ایک عبادت:

 

(اللہ کے لئے) مال خرچ کرنا  ایک عبادت ہے اور اللہ کی نعمتوں کے شکر کا ایک طریقہ ہے۔حدیث پاک سے بھی سخاوت کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :

 

(۲) اللہ کے رسول ﷺکی سخاوت:

 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے اور آپ کی شان اجود الناس بالخیر اور اکرم الناس بالخیر تھی۔ سب سے زیادہ جود و کرم کے ساتھ حاجتمندوں، ضرورتمندوں اور محتاجوں پر خرچ کرتے تھے۔ آپ کے خرچ کرنے اور سخاوت کرنے کی شان ’’الریح المرسلہ‘‘ تیز ہوا کی طرح تھی جو کچھ مال غنیمت، تحائف، ہدایا، عطیات، صدقات، خیرات آتے وہ فوراً خرچ کردیتے۔ آپ کی شان سخاوت سے ہر کوئی ’’الریح المرسلہ‘‘ تیز ہوا کی طرح فیضیاب ہوتا تھا اور تیز ہوا کی طرح یہ چیزیں آپ کے پاس رکتی نہ تھی بلکہ مستحقین تک فوری پہنچ جاتیں۔ جو کچھ دن کو آتا وہ رات آنے سے پہلے پہلے بٹ جاتا تھا اور تقسیم ہوجاتا تھا۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے فاقہ کشوں کا فاقہ ختم کرتے، غریبوں اورمحتاجوں کی غربت کا خاتمہ کرتے، ضرورتمندوں کی حاجتوں کو پورا کرتے، تنگدستوں کی تنگدستی دور کرتے۔ افراد امت کی بدحالی کو اپنی شان سخاوت کے ساتھ خوشحالی میں بدلتے۔

 

(۳)خلق سخاوت فروغ اسلام کا باعث :

 

سخاوت کرتے وقت نہ زیادہ سے زیادہ عطا کرکے نہ اپنے فاقے کا اندیشہ کرتے اور نہ ہی عطا کرنے والے کو اندیشہ فاقہ رہنے دیتے، اتنا عطا کرتے کہ وہ فاقہ کش خود صاحب مال اور صاحب عطا اور صاحب سخا بن جاتا۔ اس لئے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

 

عن انس ان رجلا سالة فاعطاه غنماً بين جبلين فرجع الی قومه وقال اسلموا فان محمدا يعطی عطاء من لا يخشی فاقة.[19]

 

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا تو آپ نے دو پہاڑوں کے درمیان (جتنی بکریاں آتی تھیں) اس کے برابر بکریاں اسے عنایت فرمادیں، جب وہ شخص واپس اپنی قوم میں گیا تو انہیں پکار کر کہنے لگا اسلموا سارے کے سارے مسلمان ہوجاؤمحمد اتنا دیتے ہیں کہ پھر فاقہ کا خوف نہیں رہتا ۔"

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق سخاوت، لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا باعث اور سبب بن گیا اس شخص نے

 

لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق سخاوت سے متاثر ہوکر دی، پوری قوم اور قبیلے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسلموا مسلمان ہوجاؤ۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ خلق سخاوت اور یہ خلق جود و کرم ہماری یہ راہنمائی کرتا ہے کہ ہم اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں سخاوت کے جذبے کے ساتھ خرچ کرتے رہیں اور ہم اپنے عمل کو قرآن کے اس حکم کے مطابق بنائیں۔

 

اللہ تعالیٰ کی صفت المعز کے معاشرتی اثرات :

اللہ تعالیٰ کی صفت المعز سے لوگوں میں عزت و احترام کا جذبہ ابھرتا ہے اور تکریم انسانیت کا فروغ ملتا ہے ۔اس بات کی گواہی قرآن خود دیتا ہے کہ انسان کی عزت و تکریم دوسرے انسان کے لیے کتنی اہم ہے اور یہاں تک کہ اسلام نے ایک شخص کے قتل کو تما م انسانیت کے قتل کے برابر قرار دے دیا ۔

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :

 

مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا ۭ[20]

 

"جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو ،قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا"

 

اس آیت مبارکہ میں انسانی جان کی حرمت کا مطلقاًذکر کیا گیا ہے جس میں عورت ، مرد ، بچے ، بوڑھے ، امیر ، غریب ، مسلم اور غیر مسلم کی تشخیص نہیں کی گئی ۔ مدعا یہ ہے کہ قرآن نے کسی بھی انسان کو بلا وجہ قتل کرنے سے نہ صر ف ممانعت فرمائی ہے بلکہ اسے پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے ۔

 

مومن کی تکریم اور حرمت کعبہ

 

سیاسی، فکر ی یا اعتقادی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کی اکثریت کو کافر ، مشرک اور بدعتی قرار دیتے ہوئے انہیں بے دریغ قتل کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک مومن کے جسم وجان اور عزت و آبرو کی اہمیت کعبۃ اللہ سے بھی زیادہ ہے ۔ صاحب شریعت حضور اکرم ﷺ نے مومن کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے ۔

 

حدیث مبارکہ ہے کہ:

 

عن عبداللہ بن عمرقال: رایت رسول اللہ یطوف با لکعبۃ و یقول : ما اطیبک و اطیب ریحک، ما اعظمک و اعظم حرمتک ، والذی نفس محمد بیدہ ، لحرمۃ المومن اعظم عنداللہ حرمۃً منک مالہ و دمہ، وانّ نظن بہ الا خبیراً۔[21]

 

" حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : ( اے کعبہ) ! تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے ، تو کتنا عظیم لمرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہیے ۔ "

 

اللہ تعالیٰ کی صفت الستار کے معاشرتی اثرات :

اسلام انسان كے ہر پوشیدہ اعمال کو راز میں رکھنے کی تلقین کرتا ہے، راز کی باتوں کو افشا کرنے اور پھیلانے کی سخت مذمت وارد ہوئی ہے، جو دوسروں کے راز کی حفاظت کرتا ہے اس کے لئے بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "[22]

 

" اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے عیب چھپائےگا۔"

 

یعنی جو شخص دوسروں کی برائیاں بیان کرنے کے بجائے اپنے دل میں ہی دفن کرجاتا ہے، اللہ روز قیامت اس کے عیوب اور گناہوں پر پردہ ڈالے گا ، لوگوں کے سامنے اس کے گناہوں کا تذکرہ نہیں کرے گا، بلکہ اسے در گزر فرمادے گا۔

 

غیبت سے پرہیز:

 

شریعت نے ہر ایسی چیز کو حرام قرار دے دیا جو مسلمان کے ذاتی راز کو افشا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ یعنی ایک مسلمان کا

 

کسی مسلمان کی پرسنل باتوں یا اعمال کو برے ارداہ سے جاننے کے لئے جاسوسی کرنا ، چھپ کر اس کے عیوب تلاش کرنا ، ٹوہ میں پڑے رہنا وغیرہ سب حرام ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ[23]

 

"اے ایمان والو ! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں، اور بھید نہ ٹٹولا کرو، اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے ، کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ تم کو اس سے گھن آئے گی ، اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔"

 

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "

 

مَنْ اِطَّلَعَ فِي بَيْت قَوْم بِغَيْرِ إِذْنهمْ فَقَدْ حَلَّ لَهُمْ أَنْ يَفْقَئُوا عَيْنه "[24]

 

"جو کسی کے گھر کی طرف بغیر ان کی اجازت کے جھانکے تو ان کے لئے اس کی آنکھیں پھوڑ دینا جائز ہے۔"

 

زبان کی حفاظت :

 

اسی طرح گھر سے باہر جو کسی کی آپسی باتوں کو سننے کی کوشش کرتا ہے اس کے لئے بڑی سخت وعید وارد ہوئی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

" وَمَنْ اسْتَمَعَ إِلَى حَدِيثِ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ أَوْ يَفِرُّونَ مِنْهُ صُبَّ فِي أُذُنِهِ الآنُكُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " [25]

 

"اور جس نے كسى قوم كى بات چيت سنى اور وہ اسے ناپسند كرتے ہوں يا اس سے بھاگتے ہوں تو روز قيامت اس كے كانوں ميں پگھلايا ہوا سكہ ڈالا جائے گا."

 

ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے چاہے وہ مرد یا عورت کہ جب اس کا ساتھی اسے اپنا محسن اور رازداں سمجھ کر کوئی بات بیان کردے تو اسے اس کی حفاظت کرنی چاہئے ، یہ بہت بڑی امانت ہے ، چاہے بیان کرنے والا یہ کہے یا نا کہے کہ یہ راز کی بات ہے کسی کو بتانا نہیں !!، کیونکہ انسان کو اللہ نے عقل دی ہے وہ اپنے ساتھی کی بات کس نوعیت کی ہے سمجھ سکتا ہے، بالخصوص جب وہ کوئی بات چوکنا ہوکر بولے کہ کہیں کوئی دوسرا نہ سن لےاور امانت کی حفاظت مسلمان کی واجبی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ[26]

 

"اے ایمان والو ! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو ، اور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں بھی خیانت مت کرو۔"

 

یہ سارے احکام اس لئے ہیں کیونکہ شریعت میں مسلمان کی عزت و ناموس بہت قیمتی چیز ہے۔عزت و ناموس کی حفاظت ان پانچ ضروری امور میں سے ہے جس کے حفاظت کی اسلام نے مسلمانوں سے ضمانت لی ہے، اور یہ اسلام کے طرہ امتیاز میں سے ہے ، وہ پانچ ضروری امور یہ ہیں: 1۔ دین کی حفاظت۔ 2۔ نفس وجان کی حفاظت۔ 3۔ نسل کی حفاظت ۔ 4۔ عزت و آبرو کی حفاظت ۔ 5۔ عقل کی حفاظت ۔

 

مسلمان کی عزت و آبرو کی حفاظت :

 

عزت و آبرو کی حفاظت کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کسی پاک دامن عورت پر تہمت لگانے والوں سے چار گواہ طلب کی ہے ، جبکہ دوسرے امور میں دو گواہوں کی طلب ہے مگر چونکہ یہ مسئلہ عزت و آبرو کی حفاظت کا ہے اس لئے اسلام نے اس کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے پوری حفاظتی سیکورٹی دی ہے اور تہمت لگانے والوں سے چار گواہ طلب فرمایا ہے ، پیش نہ کر پانے کی صورت میں 80 کوڑے مارنے کا حکم ہے،( جبکہ دوسرے امور میں گواہ حاضر نا کر پانے کی صورت میں کوئی سزا مقرر نہیں ہے) ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

 

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاء فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ [27]

 

" جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاو اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہ لوگ فاسق ہیں۔"

 

کسی شخص کا اسلام میں داخل ہوجانے کے بعد مسلمان پر اس کا خون ، مال اور عزت و آبرو سب حرام ہوجاتا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ [28]

 

"کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے، ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہیں۔"

 

یہ سب کے سب کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔

 

حتی کہ علماء نے دلائل کی روشنی میں یہاں تک کہا یے کہ : "شرک" اور "قتل" کے بعد سب سے بڑا گناہ یہی ہے کہ کسی مسلمان کی عزت و آبرو کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے۔

 

معلوم ہوا کسی مسلمان کو گالی دینا ، اس کی غیبت کرنا ، اور تہمت لگانا وغیرہ جس سے اس کی عزت و آبرو پر آنچ آتی ہو زنا سے بڑھ کر گناہ ہے، بلکہ ماں سے یا اپنے محارم سے کئے گئے زنا سے بھی بڑا گناہ ہے۔

 

اللہ تعالیٰ کی صفت الشکور کے معاشرتی اثرات:

شُکر ایک بنیادی نعمت ہے، جس کو یہ نعمت نصیب ہوجاتی ہے، اُس کے لئے ہر نعمت کا دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے، قرآن مجید ہمیں کئی مقامات پر ’’شکر‘‘ سکھاتا ہے… اللہ تعالیٰ کا شُکر اتنی بڑی نعمت ہے کہ شکر گزار انسان فرشتوں سے بھاری ہوجاتا ہے۔(جبکہ) ناشکری انسان سے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں چھین لیتی ہے، اس لئے احادیث مبارکہ میں شکر کی توفیق مانگنے کی دعائیں ارشاد فرمائی گئی ہیں.

 

علامہ ابن قیمؒ مدارج السالکین میں تحریر فرماتے ہیں:

 

الشکر مبنی علی خمس قواعد: خضوع الشاکر للمشکور، وحبہ لہ، واعترافہ بنعمتہ، و ثناؤہ علیہ بھا، وان لایستعملھا فیما یکرہ[29]

 

شکر پانچ قواعد پر مبنی ہے: (۱) شکر گزارانسان اپنے مشکور رب تعالیٰ کے سامنے عاجزی اختیار کرے(۲) اللہ تعالی سے محبت رکھے(۳) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف و اقرارکرے(۴) ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے(۵) ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کاموں میں استعمال نہ کرے۔

 

یہ حقیقت ہے کہ ہمیں ملنے والی ہر نعمت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جیسا کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ومابکم من نعمۃ فمن اللہ۔ یعنی:تمہارے پاس جو بھی نعمت آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، پھر اس بات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالی کی نعمتوں پر اس کی تعریف کرنی چاہیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ارشاد فرمایا: واما بنعمۃ ربک فحدث۔ یعنی: (اے نبی!) آپ ہرحال میں اپنے رب کا احسان ذکر کیا کرو، پھر یہ نعمت کا شکر صرف زبانی نہ ہونا چاہئے کہ بلکہ عملی شکر ہونا چاہئے کہ اس نعمت کو اللہ تعالیٰ کی رضاء کے مطابق استعمال کیا جائے اور اس کے ناپسندیدہ کاموں میں استعمال نہ کیا جائے۔

 

شکر کی جہتیں :

 

یاد رہے کہ ’’شکر‘‘ ایک ایسی صفت ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے اور بندوں کی طرف بھی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے دو صفات:’’ شاکر‘‘ اور’’شکور‘‘ بھی ہیں، اور یہ بھی معلوم ہے کہ انسان کو بھی یہی حکم ہے کہ وہ ’’شاکر‘‘ یعنی شکر گزار بن کر رہے، تو ان دونوں میں فرق کیا ہے؟

 

ان دونوں میں بہت فرق ہے:انسان کی شکر گزاری کی کیفیت کا تذکرہ تو ابھی ہوچکا مگراللہ تعالیٰ کے شکر کا کیامطلب ہے؟ تو اس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ جب یوں کہاجاتا ہے کہ اللہ تعالی شاکر اور شکور ہیں تواس کامعنیٰ کیا جاتا ہے کہ وہ ’’قدردان‘‘ ہیں، یعنی اللہ تعالی ایسے کریم ہیں کہ کوئی بھی بندہ کوئی بھی نیکی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کو ضائع نہیں فرماتے، بلکہ اسے اُس نیکی کا ضرور بدلہ عطاء فرماتے ہیں، حتیٰ کہ اگر کافر بھی نیکی کرے تواسے بھی اس کابدلہ ضرور عطاء فرماتے ہیں ، البتہ اتنا فرق رہتا ہے کہ کافر کو تو اس کے اچھے کاموں کا بدلہ دنیا میں ہی دیدیا جاتا ہے اورآخرت میں تو سرے سے کچھ فائدہ ملتا ہی نہیں ، اگرکسی کسی کافر کو آخرت میں کچھ فائدہ مل بھی جائے تو وہ جہنم کے عذاب کی کچھ تخفیف تک ہی محدود رہتا ہے بالکل خلاصی نہیں ملتی کیوں کہ وہ تو ایمان پر موقوف ہوتی ہے، جبکہ اس کے مقابل میں ایمان والوں کو ان کے اچھے اعمال کابدلہ دنیا بھی ملتا ہے اورآخرت میں بھی مگر اس فرق کے ساتھ کہ انہیں دنیا میں کم ملتا ہے اورآخرت میں زیادہ ملے گا، الغرض انسان کے نیک کاموں کو قبول کرلینا اوراس پر انہیں اچھا بدلہ عطاء کرنا یہ اللہ تعالی کی طرف سے انسانوں کوملنے والی ’’قدردانی‘‘ ہے اوراسی کو کہاجاتا ہے کہ اللہ تعالی تو بڑے "شکور" ہیں!

 

انسانوں کاشکر:

 

جس طرح اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ہر قسم کی نعمت کو پیدا کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں اسی طرح اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے فطرت کے اصولوں میں یہ بات شامل رکھی ہے کہ عام طور سے جس کو جو نعمت ملتی ہے اس میں کسی نہ کسی مخلوق اورخاص کر انسانوں میں باہم انسان ایک دوسرے کے لیے اس نعمت کا واسطہ بنتے رہتے ہیں ۔ ایسے میں اللہ تعالی نے ان واسطوں کو بھی اپنے فضل سے محروم نہیں کیا بلکہ یہ حکم دیاگیا کہ اللہ تعالی کے شکر کے بعد اس انسان کا بھی شکر اداء کیا جائے جس کے توسط سے وہ نعمت ملی ہے، مثلاً آپ بھوکے تھے کسی نے کھانا کھلادیا، آپ سفرپرجانا چاہتے تھے کسی نے سواری کا انتظام کردیا، آپ بیمار تھے کسی نے آپ کا علاج کردیا، یا کوئی مفید مشورہ دیدیا جس سے آپ کو بہت فائدہ ہوا، آپ نے شادی کی اورآپ کو وفادار، نیک سیرت بیوی مل گئی، وغیرہ …اس طرح کی بہت سے نعمتیں ہیں جن میں انسانوں کا واسطہ ہوتا ہے تو اب شریعت کا حکم یہ ہے کہ ایسے موقع پر اللہ تعالی کے شکر کا بہانہ بنا کر ’’تکبر‘‘ کی روش نہ اپنائی جائے، مثلا اس وقت یہ کہنا کہ تو نے مجھے کھانا کھلا کر کون سا تیرمارا ہے یہ تو میرا رزق تھاجو یہیں مقدرتھا میں نے تو اپنا مقسوم کھایا ہے، یوں ایسے لوگ بظاہر تو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ ہم تو صرف اللہ تعالیٰ کا شکر اداء کرتے ہیں ، مخلوق کا شکر کیوں اداء کریں؟ حالانکہ اللہ تعالی نے بھی ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اپنے محسنین کا شکر اداء کریں ۔

 

شکر کی معاون چیزیں:

ایک انسان اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنناچاہتا ہے تو اس کے لیے کون سی چیزیں اس کے لیے معاون ہوں گی؟ اس کا بھی مختصر ساتذکرہ کرکے بات ختم کرتے ہیں:(۱) اللہ تعالی سے دعاء کرنا کہ اے اللہ! مجھے شکر کی توفیق عطاء فرمادیجئے، مجھے اپنے شکرگزار بندوں میں شامل فرما دیجئے (۲)اللہ تعالی کی کامل قدرت اوراپنی عاجزی وبے بسی کا دھیان رکھنااوریہ تصورکرنا یہ شکر تو میری ہی ضرورت ہے ، اللہ تعالی میرے شکر کے قطعاً محتاج نہیں ہیں(۳) اللہ تعالی کی نعمتوں کو یاد کرنا ، جوں جوں زیادہ نعمتوں کی طرف ذہن جائے گا اسی قدر شکر کی کیفیت میں اضافہ ہوگا(۴) شکر پر ملنے والے عظیم اجرپر غور وفکر کرے جو دنیا میں بھی ملنا ہے اورآخرت میں بھی(۵) قیامت کے دن نعمتوں پر جو سوال ہوگا اس سوال کی عظمت اورہیبت کا تصور کرے ، اس طرح دل یہ کہے گا کہ میں تو ہمت نہیں رکھتا کہ اس سوال کا سامنا کرسکوں، اس لیے زیادہ سے زیادہ شکر اداء کرلوں تاکہ قیامت کے دن اس سوال کی ہیبت سے بچاؤ ہوسکے(۶) اپنے سے کم درجہ لوگوں کے حالات پر غور کرے اور یہ سوچے کہ مجھے اللہ تعالی نے جو کچھ دیا یہ محض اس کافضل ہے ورنہ میں تو اس قابل نہ تھا، اس طرح بھی شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

 

اللہ تعالیٰ کی صفت العفو اور التوّاب سے معافی و درگزر کے جذبہ کو فروغ :

 

عفوودرگزر قیام امن کے لیے کس قدر ناگزیر ہے، یہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ سرزمین عرب پر خاص طور سے قتال

 

وجدال کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس وقت رکا جب آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم طلوع ہوا ورنہ پشتہا پشت بدلے لینے کی روش برقرار رہتی تھی، لیکن سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آئندہ کے لیے ختم کردیا اور اولیں قربانی خود پیش کی اور اپنے خاندان پر ہونے والے مظالم کو فراموش کردیا اور ان کے اوپر بیک جنبش قلم خطِّ عفو کھینچ دیا۔ جہاں تک عفوودرگزر کا سوال ہے:

 

"ارباب سیر نے تصریح کی اور تمام واقعات شاہد ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا․․․․ قریش نے آپ کو گالیاں دیں، مارنے کی دھمکی دی، راستوں میں کانٹے بچھائے، جسم اطہر پر نجاستیں ڈالیں، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا، آپ کی شان میں گستاخیاں کیں، نعوذ باللہ کبھی جادوگر، کبھی پاگل، کبھی شاعر کہا، لیکن آپ نے کبھی ان کی باتوں پر برہمی ظاہر نہیں فرمائی۔"[30]

 

(۸)انسان کے ذخیرہٴ اخلاق میں سب سے کم یاب، نادرالوجود چیز دشمنوں پررحم اور ان سے عفوودرگزر ہے، لیکن حاملِ وحی ونبوت کی ذات اقدس میں یہ جنس فراواں تھی۔ دشمن سے انتقام لینا انسان کا قانونی فرض ہے، لیکن اخلاق کے دائرئہ شریعت میں آکر یہ فرضیت مکروہ تحریمی بن جاتی ہے۔ تمام روایتیں اس بات پر متفق ہیں کہ آپ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ دشمنوں سے انتقام کا سب سے بڑا موقع فتح حرم کا دن تھا جب کہ وہ کینہ خو سامنے آئے جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے تھے اور جن کے دستِ ستم سے آپ نے طرح طرح کے اذیتیں اٹھائی تھیں، لیکن ان سب کو یہ کہہ کر چھوڑدیا:

 

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عربوں جیسی وحشی اور جنگجوقوم کو اس فضا سے نکال کرامن اور بھائی چارہ کا درس دیا۔ اگر انھوں نے کبھی جنگ بھی لڑی تو اس وقت، جب انھیں مجبور کیاگیا یا جب قیام امن کے لیے ناگزیر ہوگئی۔"[31]

 

(۹)"احسان"۔ "حُسن"سے ہے۔ ’’حُسن‘‘ بھی ٹھنڈک اور سلامتی ہی ہے۔ ’’حُسن‘‘ توازن (Moderation) کا نام ہے۔ جتنا کسی چیز میں توازن ہوگا اتنی وہ چیز حسین ہوگی۔ رنگ کا توازن ہو تو رنگ حسین ہوتا ہے، اعضاء میں توازن ہو تو اعضاء حسین ہوتے ہیں، قد و قامت میں توازن ہو تو بندہ حسین ہوتا ہے، اخلاق میں توازن ہو تو خُلق حسین ہوتا ہے۔ پس جس کو اللہ نے کمالِ ایمان کہا وہ ’’احسان‘‘ ہے اور احسان کا مادہ ’’حُسن‘‘ ہے اور حُسن میں بھی امن و سلامتی، توازن، اعتدال ہے۔

 

حسن خلق اور طبعیت میں نرمی کی علامت :

 

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

 

تَبَسُّمُکَ فِی وَجْهِ اَخِيْکَ لَکَ صَدَقَةَ. [32]

 

حسن اخلاق جو دوزخ کی آگ کو بھی حرام کر دیتا ہے اس کی علامت یہ ہے کہ جب اپنے کسی مسلمان بھائی سے ملو تو ملاقات کے وقت تمہارے چہرے پر تبسم آ جائے یہ بھی اللہ کے ہاں صدقہ ہے۔

 

صرف Smiling Face مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنا بھی حسن خلق، صدقہ و خیرات ہے۔ ایک Smile دینا بھی Charity (خیرات) ہے۔ افسوس کہ ہمارے چہرے اتنے سخت ہوگئے ہیں کہ کوشش بھی کریں تو مسکرانا نہیں آتا، جلالی خد و خال بن چکے ہیں اور اگر کوئی جبراً مسکرالے تو محسو س ہوتا ہے کہ مسکرانے سے بھی مذاق کیا جا رہا ہے۔

 

حسن خلق کی تعریف کے حوالے سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

 

اِنَّ اللّٰه يُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِکُلِّه. [33]

 

’’اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی برتنے کو پسند فرماتا ہے‘‘۔

 

گویا اخلاق کا معنی اور اسلام کا مزاج اس حدیث مبارکہ سے متعین ہوگیا۔ وہی معاملہ اللہ کی بارگاہ میں اچھا ہے جس میں بندے کے معاملے میں نرمی ہے۔ سختی کا معاملہ اللہ کو پسند نہیں کیا جب ہم سختی کا معاملہ کریں گے تو اپنے ساتھ قیامت کے دن سختی کا معاملہ گوارا کر لیں گے۔ ہم خود تو اللہ سے نرمی کا معاملہ مانگیں اور خود سختی کے معاملے کریں، یہ دوہرا پن ہے۔

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

 

يَا عَائِشَةُ اِنَّ اللّٰهَ رَفِيْقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّه. [34]

 

"اے عائشہ! اللہ تعالیٰ خود نرمی کا سلوک فرمانے والا ہے اور ہر معاملہ میں نرمی کرنے والے کو اللہ پسند فرماتاہے"۔

 

نرم خو ئی کی جزا:

 

پس اللہ تعالیٰ نرم خوئی پر جو جزا عطا فرماتا ہے وہ کبھی سختی پر عطا نہیں کرتا۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں

 

کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

 

مَنْ يُحْرِم الرِّفْقَ يُحْرَم الْخَيْر. [35]

 

"جو نرم طبیعت سے محروم کر دیا گیا وہ ساری خیر و بھلائی سے محروم کر دیا گیا"۔

 

جس کی طبیعت میں نرمی نہ رہی، جس کے معاملے میں نرمی نہ رہی، جس کے اخلاق میں نرم نہ ہوئی وہ سمجھے کہ وہ ساری خیر سے محروم ہوگیا۔ گویا کل خیر نرمی میں ہے اور کل شر سختی میں ہے۔

 

اللہ تعالیٰ کی صفت الصبور کے معاشرتی اثرات:

 

یہ نفس کو اضطراب اور بے چینی سے روکنے کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ :

 

'وَلَوْ أَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ إِلَیْہِمْ[36]'

 

"اور اگر وہ تمھارے باہر نکلنے تک صبر سے کام لیتے" باب اذا عرض الذمی و غیرہ بسب النبی ﷺ ولم یصرح

 

یہ اپنے اسی ابتدائی مفہوم میں استعمال ہواہے۔ پھر اس سے مشکلات اور موانع کے علی الرغم پا مردی، استقلال اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پر جمے رہنے کے معنی اس میں پیدا ہوگئے ہیں۔ چنانچہ آیۂ زیر بحث میں جس صبر کا ذکر ہے، وہ عجزوتذلل کے قسم کی کوئی چیز نہیں ہے جسے بے بسی اور درماندگی کی حالت میں مجبوراً اختیار کیا جائے، بلکہ عزم وہمت کا سرچشمہ اور تمام سیرت وکردار کا جمال وکمال ہے۔ اسی سے انسان میں یہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے ناخوش گوار تجربات پر شکایت یا فریاد کرنے کے بجائے وہ انھیں رضا مندی کے ساتھ قبول کر لے اور خدا کی طرف سے مان کر ان کا استقبال کرے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے 'صابر' وہ شخص ہے جو ہر خوف وطمع کے مقابل میں اپنے موقف پر قائم اور اپنے پروردگار کے فیصلوں پر راضی اور مطمئن رہے۔

 

اس کے تین مواقع قرآن میں بیان ہوئے ہیں: غربت، بیماری اور جنگ۔ غور کیجیے تو تمام شدائدومصائب کا منبع یہی تین چیزیں ہیں۔ ارشاد فرمایا ہےکہ:

 

وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ، والضَّرَّآءِ، وَحِیْنَ الْبَاْسِ[37].

 

اور جو تنگی، بیماری اور جنگ کے مواقع پر ثابت قدم رہیں۔

 

اس آیت میں 'نصب علی المدح' کے طریقے پر صبر کو نمایاں کر کے قرآن نے بتا دیا ہے کہ سیرت وکردار کے معاملے میں اس کی اہمیت کس قدر غیر معمولی ہے۔ اس کی مزید وضاحت قرآن مجید میں اس کے مواقع استعمال سے ہوتی ہے۔

 

دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

 

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ، وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ، وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ، وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ، وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ، وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ، وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ، وَالصَّآءِمِیْنَ وَالصّآءِمٰتِ، وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ، وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ، اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا[38].

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دعوت حق کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ کو ہدایت کی گئی کہ لوگوں کی عداوت اور دشمنی کی پروا کیے بغیر پوری سرگرمی کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہیں، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ظاہر ہو جائے۔آپ کو ہر حال میں اس فیصلے کا انتظار کرنا ہے۔ اس سے پہلے آپ کوئی اقدام نہیں کر سکتے۔ قرآن میں یہ مفہوم اسی لفظ صبر سے ادا ہوا ہےوَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ، وَاصْبِرْ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ، وَہُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ[39].

 

"اور اُس وحی کی پیروی کرو جو تمھاری طرف کی جارہی ہے اور صبر کے ساتھ انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے، اور وہی فیصلہ کرنے والا ہے۔"

 

ایوب علیہ السلام پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، لیکن انھوں نے تسلیم ورضا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی مدح کی تو اس کے لیے بھی یہی تعبیر اختیار کی ہے:

 

انَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا، نِعْمَ الْعَبْدُ، اِنَّہٓٗ اَوَّابٌ[40]ہم نے اُسے بہت صابر پایا، بہترین بندہ، وہ اپنے پروردگار کی طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔

 

لقمان کی نصیحت قرآن میں نقل ہوئی ہے۔ راہ حق کی مصیبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے بیٹے کو اسی کی تلقین فرمائی ہے:

 

وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ، وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ، اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْر[41]ِ.

 

"اور بھلائی کی تلقین کرو اور برائی سے روکو، اور جو مصیبت بھی پیش آئے اس پر صبر کرو۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔"

 

دعوت کی جدوجہد کے لیے اٹھنے والوں کو ایک اہم ہدایت قرآن میں یہ کی گئی ہے کہ ان کیمخاطبین اگر ظلم و زیادتی اور ایذارسانی پر اتر آئیں تو بہتر یہی ہے کہ ان کی بدتمیزیوں کو نظر انداز کر کے وہ ان کی بد خواہی کا جواب بھی نیکی سے دیں۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ برداشت، تحمل اور عفوودرگزر کی جو صفت اس کے لیے آدمی کو اپنے اندر پیدا کرنی پڑتی ہے، قرآن میں اس کے لیے صبر ہی کا لفظ آیا ہے:

 

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ، وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ، وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ، اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ، وَہُوَ اَعْلَمُبِالْمُہْتَدِیْنَ، وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ، وَلَءِنْ صَبَرْتُمْ، لَہُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ[42]

 

"اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دو اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کرو اُس طریقے سے جو پسندیدہ ہو۔ بے شک، تمھارا پروردگار خوب جانتاہے اُن کو بھی جو اس کی راستے بھٹکے ہوئے ہیں اور اُن کوبھی جو ہدایت پانے والے ہیں۔ اور اگر بدلہ لو تو اتنا ہی جتنی تکلیف تمھیں پہنچی ہے اور اگر صبر کرو تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ بہت ہی بہتر ہے۔"

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :

 

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ، وَعَمِلَ صَالِحًا، وَّقَالَ: اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ، اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ، فَاِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ، وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا، وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ.[43]

 

"اور اس سے بڑھ کر اچھی بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں اور (یہ حقیقت ہے کہ) بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہے۔ تم برائی کو اُس خیر سے دفع کرو جو بہتر ہے تو تم دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمھارے درمیان عداوت تھی، وہ گویا ایک سرگرم دوست ہے۔ اور (یاد رکھو کہ)یہ دانش انھی کو ملتیہے جو صبر کریں اور انھی کو ملتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوتے ہیں۔"

 

میدان جنگ میں جب موت سامنے کھڑی ہوتی ہے، کلیجے منہ کو آتے ہیں اور آنکھیں خوف سے پتھرا جاتی ہیں تو جو لوگ بہادری اور استقامت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کریں اور ان کے پاے استقلال میں لغزش نہ آئے، ان کے لیے بھی یہی لفظ ہے:

 

فَاِنْ یَکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُوْا مِاءَتَیْْنِ، وَاِنْ یَکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ[44].

 

"لہٰذا تم میں سے اگر سو صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر ہزار ایسے ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دوہزار پر بھاری رہیں گے، اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ انھی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔"

 

اللہ تعالیٰ نے جو فرائض اور ذمہ داریاں انسان پر عائد کی ہیں، انھیں عمر بھر پورے استقلال اور مضبوطی کے ساتھ ادا کیا جائے اور استاذ امام کے الفاظ میں جس طرح کسان اپنے کھیت میں ہل چلاتا، اس میں تخم ریزی کرتا ، اس کو پانی دیتا اور برابر اس کی نگرانی کرتا ہے، اسی طرح بندۂ مومن اگر اپنے اس مبارک مزرعہ میں پوری محنت اور اس کی پوری حفاظت کرے تو اس کے لیے بھی یہی تعبیر ہے۔

 

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْْنَہُمَا، فَاعْبُدْہُ، وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہِ[45].

 

زمین وآسمان اور اُن کے درمیان کی ہر چیز کا پروردگار، سو اُسی کی بندگی کرو اور صبر کے ساتھ اُسی کی بندگی پر قائم رہو۔"

 

اس سے واضح ہے کہ صبر مجبوری کے درگزر اور بے بسی کی خاموشی کا نام نہیں ہے، بلکہ اس چیز کانا م ہے کہ بندۂ مومن ہر حال میں اپنے رب کے فیصلوں پر راضی رہے، نتیجۂ عمل میں تاخیر سے پریشان نہ ہو، اضطراب اور بے چینی سے بچا رہے، برائی کرنے والوں کے لیے بھی اپنے دل میں انتقام کا کوئی جذبہ پیدا نہ ہونے دے، حق کی مدافعت کا موقع ہوتو موت کو سامنے دیکھ کربھی ثابت قدم رہے، رنج وراحت کی ہر حالت میں ضبط نفس سے کام لے اور جس چیز کو فرض وواجب سمجھے، تمام عمر اس کی پابندی کرتا رہے۔

 

انسان کی سیرت کا یہی پہلو ہے جس سے خدا اوربندے کے درمیان وہ تعلق قائم ہوتاہے جسے توکل سے تعبیر کیاگیا ہے۔ یعنی ہر حال میں خدا ہی پر بھروسا کیا جائے۔ 'اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْْہِ رٰجِعُوْنَ' اسی تفویض اور سپردگی کا کلمہ ہے۔ قرآن کا بیان ہے کہ ان لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے خاص الطاف وعنایات ہیں جو اس کلمے پر قائم رہتے اوراسی پر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:

 

وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْمُّصِیْبَۃٌ، قَالُوْٓا: اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ. اُولٰٓءِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ، وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ[46].

 

"اور (اِس میں) جو ثابت قدم ہوں گے،اُنھیں(کامیابی کی) بشارت دو۔ (وہی) جنھیں کوئی مصیبت پہنچے تو کہیں کہ لاریب، ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں (ایک دن) اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اُن کے پروردگار کی عنایتیں اور اس کی رحمت ہو گی اور یہی ہیں جو (اُس کی) ہدایت سے بہرہ یاب ہونے والے ہیں۔"

 

المختصر یہ کہ مندرجہ بالا صفات جو کہ صفات جمالیہ کا مظہر ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں بھی پائی جاتی ہیں جب انسان دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمان و رحیم ہے اور شکور، المھیمن ، الولی اور ودود ہے تو انسان ان تمام صفات کو اپنے اندر ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے اس طرح ایک خوبصورت معاشرہ جنم لیتا ہے اور انسان کی معاشرتی زندگی تب خوبصورت ہو جاتی ہے جب وہ اپنے اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر ڈھال لیتا ہے اس طرح ایک اچھے معاشرے کا قیام امن میں آتا ہے ۔

 

نتائج بحث:

اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا علم سارے علوم کی جڑاورایمان کی بنیاد ہےکیونکہ جب لوگ اللہ تعالی کا کماحقہ علم حاصل کرلیں گے، تو وہ اس کی کماحقہ عبادت بھی کریں گے۔ صفا ت الٰہیہ کی معرفت سے متعلق ہے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ ہے اور اس بات کا منکر کافر کہلائے گا۔

  • مزید یہ کہ سارے علوم میں سب سے زیادہ مقام و مرتبہ رکھنے والا علم وہ ہے جس کا تعلق اللہ تعالی کی ذات، اور اس کے اسماء و صفات سے ہو، اور بندے کی اللہ تعالی کے اسماء و صفات کی معرفت کے بقدراس کے اندر اپنے پروردگار کی بندگی، اس سے انسیت و محبت اور اس کی ہیبت پیدا ہوتی ہے، جوکہ اللہ تعالی کی خوشنودی اور اس کی جنت کے حصول کا طالب بننے، نیز آخرت میں اللہ تعالی کے دیدار کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کا سبب ہوتی ہے۔ یہ مقصد اللہ تعالی کی توفیق کے بغیر ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔
  • صفات الٰہیہ پر ایمان لانے سے جب بندے کو یہ معلوم ہو جاتا ہے اور وہ اس بات پر ایمان لے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ محبت بھی کرتا ہے اور راضی بھی ہوتا ہے،تو وہ ایسے اعمال سرانجام دیتا ہے، جن کو اس کا معبود و محبوب پسند کرتا ہے اور جن سے وہ راضی ہوتا ہے۔جب یہی بندہ اللہ تعالیٰ کی صفات ِغضب ،کراہیت،ناراضی،لعنت پر ایمان لاتا ہے ،تو وہ ایسے اعمال کرتا ہے،جو اس کے ربّ کو غصہ نہیں دلاتے اور جن کو وہ پسند نہیں کرتا،تاکہ اس کا ربّ ناراض ہو کر اس پر لعنت کر کے اسے اپنی رحمت سے دُور نہ کر دے۔
  • نیز یہ کہ اللہ تعالی ٰ کی جمالی صفات پر ایمان لانے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ الجمیل" سارے کامل و مکمل ناموں کا جمال، ساری کامل و مکمل صفات کا جمال اور کامل و مکمل کمال کا جمال سب کچھ اللہ تعالی کے لئے ہے۔"الجمیل" کائنات کا جمال اس کے جلال وجمال کی دلیل ہے؛ اللہ تعالی کے جمال کو انسانی عقل اپنے احاطہ علم میں لا نہیں سکتی ہے۔
  • اللہ تعا لیٰ کی جمالی صفات سے انسان کی شخصیت پر ایک یہ اثر ہوتا ہے کہ جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی صفت ِرحمت،رافت،رجوع،لطف،معافی، مغفرت، پردہ پوشی اور قبولیت ِدعا کا علم ہوتا ہے اور وہ ان صفات پر ایمان لاتا ہے، تو جب بھی وہ کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے،اپنے لیے اللہ سے رحمت،مغفرت اور قبولیت ِتوبہ کی دُعا کرتا ہے،نیز اللہ کے ہاں اپنے مؤمن بندوں کے لیے پردہ پوشی اور لطف و کرم کی جو عنایت ہے،بندہ اس کا طمع کرتا ہے۔جب بھی اس سے کوئی گناہ ہوتا ہے،یہ چیزیں اسے اللہ کی طرف رجوع اور توبہ پر آمادہ کرتی ہیں اور یوں کبھی ناامیدی اس کے دل تک رسائی حاصل نہیں کر پاتی۔

 

 

 

سفارشات:

گزشتہ صفحات میں مقالے کے نتائج کو بیان کی گیا ہے ذیل میں بعض اہم تجاویز و سفارشات کا ذکر کیا جائے گا ۔

 

۱۔صفات باری تعالیٰ کے حوالے سے لوگوں کے ذہن میں بہت سے شبہات پائے جاتے ہیں جن کو دور کرنا بہت ضروری ہے یہ علماء وقت کی بہت بڑی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں سے غلط شبہات کو دور کر کے انہیں صحیح راہ کی طرف متعین کریں ۔

 

۲۔ حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ انسان کی شخصیت کو سنوارنے کے لیے نصاب تعلیم میں تصوف کو شامل کرے تا کہ بچوں کو شعور حا صل ہو ۔

 

۳۔ مخلوق میں صفات الٰہیہ کی موجودگی سے خالق اور مخلوق کے فرق کو روا رکھا جائے ، بعض لوگ رحمدل ہوتے ہیں اور بعض بہت حیار ہوتے ہیں ۔

 

۴۔ مخلوق میں صفات الٰہیہ کی موجودگی سے خالق کی صفت میں فرق موجود رہے گا ، ہمہ است نہیں ہمہ از اوست کے نظریہ کو سامنے رکھا جائے گا۔

 

۵۔ اقتدار اعلیٰ کے اصل تصور کو سامنے رکھا جائے گا کہ خواہ انسان کتنی ہی صفات کا مالک کیوں نہ ہو رہے گا تو وہ خدا کا بندہ اس لیے ہر چیز میں اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی سمجھا جائے تا کہ زندگی میں کامیابی و کامرانی حا صل ہو سکے .

 

حوالہ جات

  1. رازی ، ابو بکر ، زین الدین ابو عبد اللہ ، (م۶۶۶ھ) ، المکتبہ العصریۃ، الدار الموذجیۃ، بیروت ، صیدا،۱/ ۲۰۹
  2. ۔آل عمران،۳: ۱۱۰
  3. ۔بنی اسرائیل ،۱۷: ۷۰
  4. ۔البقرہ،۲: ۳۰
  5. ۔ الحجر۱۵: ۲۹
  6. ۔البقرہ،۲: ۳۴
  7. ۔ص،۳۸: ۷۵
  8. ۔الحجرات،۴۹: ۱۳
  9. ۔النساء۴: ۳۶
  10. ۔المائدہ ،۵: ۳۲
  11. الانعام ،۶: ۸۱، ۸۲
  12. ۔ القصص، ۲۸: ۷۷
  13. ۔بخاری،الجامع الصحیح ، کتاب الایمان ، باب ای الاسلام افضل ،رقم الحدیث :۱۱، ۱/ ۱۱
  14. بخاري، الجامع الصحیح ،كتاب الإيمان، باب من الإيمان أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه ، رقم الحدیث: ۱۳، ۱/ ۱۴
  15. الاسراء،۱۷: ۲۰
  16. ۔ الضحی،۹۳: ۵
  17. آل عمران ،۳: ۱۰۲
  18. ۔ ترمذی، السنن ،کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی السخائ،رقم الحدیث۸ ۱۹۶۷، ۳/۳۸۷
  19. ۔ مسلم ، الجامع الصحیح، کتاب الفضائل،باب ماسئل رسول اللہﷺ شیئا قط فقال لا و کثرۃ عطائہ ، رقم الحدیث : ۲۳۱۲، ۴/۱۸۰۶
  20. ۔المائدہ ،۵: ۳۲
  21. ۔ابن ماجہ ، السنن، کتاب الفتن ، باب حرمۃ و دم المومن و مالہ ، رقم الحدیث: ۳۹۳۲، ۲/ ۱۲۹۷
  22. مسلم، الجامع الصحیح ،کتاب البر والصلۃ والآداب ، باب تحریم الظلم ، رقم الحدیث : ۲۵۸۰، ۴/۱۹۹۶
  23. ۔ الحجرات ۴۹: ۱۲
  24. مسلم، الجامع الصحیح ،کتاب الآداب ، باب تحریم النظر فی بیت غیرہ ،رقم الحدیث : ۲۱۵۸ ، ۳/ ۱۶۹۹
  25. ۔ بخاری ، الجامع الصحیح، کتاب التعبیر ، باب من کذب فی حلمہ ، رقم الحدیث :۷۰۴۲، ۹/ ۴۲
  26. ۔الانفال ، ۸: ۲۷
  27. ۔ النور ۲۴: ۴،۵
  28. ۔ مسلم ،الجامع الصحیح کتاب البر والصلہ والآداب ، باب تحریم ظلم المسلم ، وخذلہ واحتقارہ ودمہ ، و عرضہ ، و مالہ ، رقم الحدیث: ۲۵۶۴، ۴/ ۱۹۸۶
  29. ۔ابن قیم ،(م ۷۵۱ھ)مدارج السالکین ،دار الکتاب العربی ، بیروت ، ۱۴۱۶ھ۔۱۹۹۶ء ۲، /۲۳۴
  30. نعمانی، علامہ شبلی، ستمبر۲۰۰۲/، سیرت النبی، ،ادارہ اسلامیات، انارکلی، لاہور،۱/۵۹۹
  31. نعمانی، علامہ شبلی، ستمبر۲۰۰۲/، سیرت النبی، ،ادارہ اسلامیات، انارکلی، لاہور،۱/۵۹۹
  32. ۔ ترمذی ،الجامع الترمذی ،باب البر و الصلۃ، رقم الحدیث:۱۹۵۶ ،۴/ ۳۳۹
  33. ۔ بخاری، الجامع الصحیح ، کتاب استتا بۃ المرتدین وا لمعاندین و قتا لھم ، باب اذا عرض الذمی و غیرہ بسب النبی ﷺ ولم یصرح ،رقم الحدیث ۶۹۲۷: ۹/ ۱۶
  34. ۔ بخاری ، الجامع الصحیح ، کتاب الاستتا بۃ المرتدین ، باب اذا عرض الذمی و غیرہ بسب النبی ﷺ ولم یصرح ، رقم الحدیث :۶۵۲۸، ۶/۲۵۳۹
  35. ۔مسلم ، الجامع الصحیح ،کتاب البر والصلۃ ،باب فضل الرفق ،رقم الحدیث : ۲۵۹۲، ۴/ ۲۰۰۳
  36. ۔ الحجرات ، ۴۹: ۷۹
  37. ۔ البقرہ،۲: ۱۷۷
  38. الاحزاب ، ۳۳: ۳۵
  39. ۔ یونس ، ۱۰ : ۱۰۹
  40. ۔ص ، ۳۸: ۴۴
  41. ۔ لقمان ،۳۱: ۱۷
  42. ۔ النخل ، ۱۶: ۱۲۵۔۱۲۷
  43. ۔ حمٰ السجدہ، ۴۱: ۳۳۔۳۵
  44. الانفال ، ۸: ۶۶
  45. ۔ مریم، ۱۹: ۶۵
  46. ۱۵۵۔ ۱۵۷ ۔ البقرہ ،۲:
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...