Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 1 Issue 1 of Al-ʿILM

تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ کا شرعی و قانونی نقطہ نظر سے تجزیاتی مطالعہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060040263_658

Pages

98-132

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/89/69

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/89

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے اور زندگی گذارنے کے اہم اصول فراہم کرتا ہے۔اسلام کے یہ اصول انسانی زندگی کے ہر گوشہ کا احاطہ کرتے ہیں اور انسانیت کو زندگی گذارنے کا سلیقہ فراہم کرتے ہیں۔اسلام کے عطا کردہ یہ حقوق مختلف جہتوں سے متعلق ہیں جن میں مالک اور غلام کے حقوق،والدین اور اولاد کے حقوق،استاد اور شاگرد کے حقوق، ہمسائیوں اور شریکِ کاروبار اور شریک ِمجلس افراد کے حقوق۔الغرض کوئی طبقہ انسانیت ایسا نہیں جس کے حقوق سے متعلق اسلام نے خاموشی اختیار کی ہو بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو اس کے استحقاق کے مطابق حق ادا کر دیا ہے اور ان حقوق کی ادائیگی سے امن عالم کی وابستگی ہے جبکہ ان کا استحصال انسانیت کے زوال کا اہم ذریعہ بنتا ہے۔ تاریخ ان امور پر کئی شہادتیں پیش کر چکی ہے اور پکار پکار کر انسانی معاشرے کو ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کی طرف متوجہ کرتی ہے۔

 

اسلام اور حقوقِ نسواں:

انسانی معاشرے کے گوشہ ہائے زندگی میں سے ایک اہم گوشہ خواتین کے احوال اور ان کے حقوق کا ہے۔اسلام نے عورت کو اس کی زندگی سے متعلق تمام حقوق واضح طور پر نہ صرف متعین فرمائے ہیں بلکہ ان حقوق کی فراہمی اور عورت کے ان سے استفادہ کو بھی یقینی بنایا ہے۔ پوری دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی بھی تہذیب اور قانون ایسا نظر نہیں آتا جس نے مکمل طور پر عورت کے حقوق کی پاسداری کی ہو۔اسلام نے واضح طور ان حقوق میں مردوزن کی برابری کی بات کرتے ہوئے فرمایا:

 

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۠ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ([1])

 

اور مردوں کا حق عورتوں پر ایسا ہی ہے جیسا دستور کے مطابق عورتوں کا حق مردوں پر ہے۔البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ فضلیت حاصل ہے۔

 

اسلام نے جس طرح معاشرے کے ہر فرد کے حقوق وفرائض کا تعین کیا ہے اسی طرح عورت کے حقوق وفرائض کا تعین بھی کرتے ہوئے اس کے فرائض کی جہتوں کا تعین کردیا ہے۔لیکن اس کے فرائض اس کی بساط کے مطابق رکھے اور اس میں بھی پردے کا خصوصی خیال رکھا اور اس کی عزت و عظمت کی حفاظت اور پاسداری کا خصوصی اہتمام کیا۔یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو کسبِ معاش اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری سے مکمل طور پر آزاد کر کے خاندان کے مرد افراد کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔یہ عورت شادی سے قبل والد کی کفالت میں اور بعد از نکاح شوہر کی کفالت میں آجاتی ہیں کہ اس کی تمام بنیادی ضروریات کی فراہمی ان افراد پر لازم قرار دے دیا گیا ہے۔اسلام کے فراہم کردہ یہ حقوق انسانی حقوق کے اہم چارٹر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔

 

بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی:

اسلام عورت کو اس کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بناتاہے اور ان کے خوراک،لباش اور رہائش کی فراہمی مرد حضرات پر لازمی کر تا ہےاور معاشرے کے مردحضرات کو تلقین کر رہا ہے کہ

 

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ([2])

 

اور ان کے ساتھ اچھ طریقے سے زندگی بسر کرنا" آیت قرآنی میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ

 

رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ([3])

 

دستور کے مطابق ان کے کھانے اور کپڑے کی ذمہ داری شوہر پر ہے۔

 

یعنی عورت کا یہ کام نہیں کہ وہ کسبِ معاش کے لئے جدوجہد کرے اور دن بھر ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرتی رہے بلکہ یہ ذمہ داری اسلام نے عورت پر ڈالنے کی بجائے مرد پر ڈال دی اور اس کو ان چیزوں کے انتظام کا ذمہ دار قرار دے دیا اور عورت کا ان وسائل کی فراہمی پر حسنِ انتظام اور مرد کے گھر کی حفاظت کا ذمہ دار قرار دیا تا کہ یہ صنفِ نازک جسمانی مشقت کی بجائے حسن تدبیر اور حسنِ انتظام کی طرف توجہ دے اور گھر کے ماحول کو اسلامی بنانے کے مرد کا ساتھ دے۔

 

وراثت میں حصہ:

اسلام کے علاوہ دیگر تہذیبیں اور مذاہب عورت کو حق وراثت سے محروم رکھتے ہیں جبکہ اسلام اس کے اس مالی حق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کو وراثت کا باقاعدہ حصہ دار بناتا ہے اور وراثت میں درج ذیل پہلوؤں سے ان کے حق وراثت کا تعین کردیا:

 

دو یا اس سے زائد بیٹیاں ہوں تو ان کے لئے جائیداد کا دو تہائی اور ایک ہو تو کل ترکہ کا نصف حصہ اس کے لئے متعین کردیا۔اس حوالے سے قرآن نے صراحت کر دی کہ:

 

يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۚ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَھَا النِّصْفُ ۭ وَلِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗٓ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗٓ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۭ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۭ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا ([4])

 

اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں تاکید ی حکم دیتا ہے مرد کے لیے دو عورتوں کے برابرحصہ ہے۔ پھر اگر عورتیں دو سے اوپر ہوں تو ان کے لیے جو اس نے چھوڑا اسکا دو تہائی ہے اور اگر وہ ایک ہی عورت ہے اس کے لیے نصف ہے۔

 

فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۚ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَھَا النِّصْفُ ۭ ([5])

 

اگر وہ(بیٹیاں) دو سے زیادہ ہوں تو ان کے کل ترکہ کا دوتہائی حصہ ہے اور اگر وہ ایک ہوتو اس کے لئے ایک حصہ ہے

 

ماں کو اپنی اولاد کی وفات پر اس کی جائیداد میں سے چھٹا حصہ ملتا ہے بشرطیکہ اس کی اولاد کی آگے مزید اولاد ہواور اگر اس کی اولاد نہ ہوتو ماں کو کل ترکہ کا تہائی حصہ ملتا ہے۔قرآن پاک اس کی وضاحت یوں کرتا ہے:

 

وَلِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗٓ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗٓ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْ بِھَآ ([6])

 

"اگر(میت)کی کوئی اولاد ہوتو اس کے ترکہ میں سے اس کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہواور اس کے والدین اس کے وارث بنیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے

 

بیوی کو خاوند کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھا اور اولاد ہونے کی صورت میں آٹھواں حسہ ملے گا۔اس ذیل میں قرآن پاک میں ہے:

 

"اگرتمہاری کوئی اولادنہ ہو تو ان (بیویوں)کے لئے تمہارے ترکہ میں سے چوتھا حصہ ہے اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہوتو پھر ان کے لئے آٹھواں حصہ ہے"

 

اسی طرح اسلام نے عورت کو بہن،دادی اور پوتی وغیرہ کی حیثیت سے بھی جائیداد میں وراثت کے طور پر حصہ دلایا اور ان تہذیبوں کو سوچنے پر مجبور کیا جو عورت کو مالی معاملات میں ان کے حقوق سے محروم کرکے ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

 

 

عزت وناموس کی حفاظت:

اسلام نے عورتوں کو ان کے دیگر حقوق کی حفاظت کیطرح ان کی عزت وناموس کی حفاظت کی بھی ضمانت دی ہے اور ان کی عزت پر حملہ کر کے ان پربدکاری اور زنا کا الزام لگا کر معاشرے میں ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرنے والوں کے لئے شریعت نے قذف کی سزا رکھی اور واضح طور پر فرمادیا کہ:

 

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ([7])

 

جو لوگ پاک دامن، بھولی بھالی یا ایما ن والی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے

 

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ([8])

 

اور جولوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت زنا لگائیں اور پھر چار گواہ پیش نہ کرسکیں تو انہیں 80کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی شہادت قبول نہ کرو۔یہی فاسق لوگ ہیں

 

یعنی اس آیت میں قذف کی سزا بیان کی گئی ہے کہ جو شخص کسی پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگائے(اسطرح جو عورت کسی پاک دامن عورت یا مر د پر زنا کی تہمت لگائے)اور وہ بطور ثبوت ۴گواہ پیش نہ کر سکے تو ان کے لیے تین احکام بیان کیے گئے ہیں:۔

* انہیں 80کوڑے لگاؤ۔

  • ان کی گواہی کبھی قبول نہ کی جائے گی۔
  • وہ فاسق ہیں۔

 

 

 

باوقار اور محترم مقام کی فراہمی:

عورت کے دیگر حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اسلام نے ہر عورت کو قابل احترام بنا دیا اور اس کو دیکھنے کی صورت میں مردوں کو حیاء کا پاس رکھتے ہوئے اپنی نظروں کو جھکانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

 

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ ([9])

 

مومنوں کو فرما دیں کہ وہ اپنی نظروں کو جھکا کے رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں،یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے بے شک جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالی ٰ اس سے با خبرہے۔

 

اور اس کی عزت اور احترام کو اس حدیث سے واضح ہوتی ہے جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا تیری ماں "اسی طرح اسلام نے معاشرے کی ہر عورت کا محترم اور با عزت بناتے ہوئے اس کے عزت واحترام کو افرادِ معاشرہ پر لازم قرار دے دیااورماں کے احترام کے احترام کو لازم کیا۔

 

حکومت پنجاب نے خواتین کو گھریلو تشدد سمیت تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے،معاشرے میں ان کو حسب منشاآزادانہ کردار ادا کرنے، ان کو سہولیات بہم پہنچا نے کے لئے تحفظ نسواں کے نام سے ایک بل پیش کیا۔جسے بعد میں قانون کا درجہ دے دیا گیا۔اس بل کاقرآن و سنت کی روشنی میں تجزیاتی مطالعہ کرنے کے بعد کچھ اہم اختلافی واتفاقی انکات ذیل میں دیے جا رہے ہیں۔

 

عورت کے حقوق کی بہت سی جہتیں ہیں مگر ان میں سے چند ایک کا تذکرہ صرف اس لئے کیا گیا تا کہ اسلام کی نظر میں عورت کی اہمیت اور اس کے حقوق کی پاسداری کے اسلامی اہتمام کو سمجھا جا سکے۔مگر مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اسلام سے دوری اور اس کی تعلیمات سے عدمِ معرفت کی بناء محض جدت کے شوق اور تبدیلی کی خواہش کی بناء پر عورت سے متعلق اسلامی تعلیمات کودقیانوسی اور زمانہ ماضی سے متعلق تعلیمات قرار دیا جانے لگا اور اسلامی تعلیمات کو دورِ جدید کے ساتھ غیر موافق قرار دیاجانے لگا اور آئے دن حقوقِ نسواں کی پاسداری کے نام پر تحریکیں چلنے لگیں اور مختلف ممالک میں قانون سازی ہونے لگی۔اس فرسودہ فکرِ جدید کے متاثرہ ممالک میں ایک ملکِ پاکستان بھی ہے اور اس میں بھی مختلف ادارے وقتا فوقتا آوازیں بھی بلند کرتے رہے اور مغرب کا مسترد شدہ ماحول اس ملک میں لانے کی کوشش کرتے رہے تاکہ اس ملک میں شرم وحیاء کا جنازہ نکال کر اسلام کو ایک سیکولر اور جنسی آزادی کا ملک بناکر بے حیائی اور بدکاری کو عام کیا جائے تاکہ کردار کی یہ غازی قوم اخلاق باختہ اور حیاء سوز بن کر ترقی سے منزلوں دور چلی جائے۔

 

انہی تحریکوں کا شاخسانہ ہوا کہ "حکومت پنجاب کا تشدد کے خلاف تحفظ نسواں ایکٹ ۲۰۱۶ء"کے نا م سے قانون سازی کی گئی تا کہ اس ایکٹ سے متعلق سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب پر تجربہ کیا جائے کہ اس قوم کا رد عمل کیا ہوتا ہے اور پھر باقی میں بھی اس طرح کی قانون سازی کر کے اس قوم کے مردوں کو ہردم حاضر اور ہر دم خادم غلام بنا دیا جائے اور اس ملک کی خواتین کو خود مختاری کے نام پر مکمل آزادی دی جائے۔

 

حقوقِ نسواں اور مغرب:

آج پوری دنیا میں حقوقِ انسانی کے حوالے سے مختلف تحریکیں نظر آرہی ہیں اور مختلف ممالک میں مختلف اوقات میں قانون سازی ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے۔مغرب کی طرح پاکستان میں بھی مختلف این جی اوز عورت کی آواز بننے کی کوشش میں مختلف اوقات میں مختلف تحریکات چلا کر اپنے ذہن کے مطابق عورت کو اس کے حقوق دلانے کے لئے تگ ودو کر رہی ہیں۔ان کا اصل مقصد کیا ہے؟ اور ان تحریکوں کے پس پردہ حقائق کیا ہیں؟ ان باتوں کے قطع نظر اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو عورت کو اس کا اصل مقام اور اس کے اصل حقوق فراہم کر رہا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حقوقِ نسواں کا اصل نگہبان اسلام ہے اس سے بڑھ کر دنیا کا کوئی قانون اور مذہب ان کے حقوق کی پاسداری نہیں کر سکتا۔ اسلا نے عورت کو جو حقوق فراہم کئے ہیں ان میں سے چند ایک کا ذیل میں جائزہ لیا جاتا ہے۔

 

حقوقِ نسواں اور آئین ِپاکستان:

پاکستان اسلامی دنیاکاواحدملک ہے جوایک نظریے کی بنیادپروجودمیں آیا۔متحدہ برصیغر(پاک وہند)جہاں اکثریت واقلیت کے معاشی،معاشرتی،سیاسی حقوق کے اصول وضوابط اورقوانین مرتب کیے۔مگرپھربھی معاشر ہ میں امن نافذ اور قائم کیا جا سکے اوراسکی بنیادی جدوجہدوبڑے مذاہب کی تعلیمات تھیں۔مسلمانوں کیلے ہندوستان کے اندراپنے مذہب اسلام پرعمل کرنے میں بہت مشکلیں پیش آرہی تھیں۔چونکہ پاکستان کے و جودمیں آنیکے بعدپاکستانی خواتین کوہرطرح کے مذہبی،معاشرتی ومعاشی وغیرہ حقوق دینے کی ہرممکن کوشش کی گئی اورتاحال کی جارہی ہے۔ذیل میں پاکستا ن میں خواتین کے حقوق سے متعلق اہم نکات بیان کئے جاتے ہیں۔

 

مذہبی حقوق:

پاکستان میں خواتین ہرقسم کی مذہبی آزادی حاصل ہے اور انہیں حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کا مذہب اپنائیں اور اس پر عمل کریں۔ ان پرکسی بھی قسم کی قدغن نہ ہے۔۔انہیں مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مذہبی رسومات اپنے مذہب وعقیدے کے مطابق ا داکرئیں۔ آئین پاکستان کاآرٹیکل (20) اس حوا لے سے واضح ہے۔

 

A: "Every citizen (Including Women) Have the right to process, Practice and Propagate his religion and,

 

B:" Every religions denomination and every sect therefore shall have the right to establish, Maintain and mange its religious Institutions."

 

"الف۔پاکستان کے ہر شہری (بشمول عورت)کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنے مذہب کو آگے بڑھائے،اس پر عمل کرییا اس کی تبلیغ کرے، اور"

 

ب۔ہر مذہبی دھڑی اورہر فرقے کو حق حاصل ہو گا کہ وہ (اپنا)کوئی مذہبی ادارہ تشکیل دے،اس کی دیکھ بھال یا اس کا انتظام کرے۔

 

آئین کے آرٹیکل 21میں مزیدوضاحت ہے:

 

" No Person (Including Women) shall be compelled to pay any special tax he proceeds or which are to be spent on propagation or maintenance of any religion other than his (her) own"

 

"کسی بھی شخص کو (بشمول عورت) مجبور نہیں کیا جائے گا کہ جو ٹیکس وہ ادا کر رہا ہے اس کے علاوہ کوئی ایسا خصوصی ٹیکس ادا کرے جسے اس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذعب کی اشاعت اور تنظیم میں صرف کیا جائے"

 

پاکستان میں خواتین کومکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے اوراسکے ضامن پاکستان کاآئین اوردیگرقوانین ہیں۔

 

حق زمین ووراثت:

پاکستان میں خواتین کوزمین کے متعلق تمام حقوق حاصل ہیں۔یورپی ممالک خاص طورپربرطانیہ میں خواتین کو زمین رکھنے۔خرید نے اوربیچنے کاحق حاصل نہ تھااورآج بھی اشتراکی ممالک میں خواتین کو حق حاصل نہ ہے لیکن اسکے برعکس پاکستان میں پہلے دن سے ہی خواتین کویہ حق حاصل ہے۔ آئین پاکستان کیآرٹیکل 23میں واضح درج ہے۔

 

"Every Citizen (Including Women) shall have the Right to acquire, hold and dispose of property in any part of Pakistan. Subject to the constitution and any reasonable restrictions"

 

"پاکستان کے ہر شہری (بشمول عورت) کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ آئین اور دیگر معقول شرائط کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان کے کسی بھی حصے میں جائیداد بنائے،اس کو اپنے پاس رکھے یا کسی اور کے حوالے کردے"

 

آئین کی اس شق پر غور سے واضح ہوتا ہے کہ اس ملک میں عورت کے لئے مال ودولت کے حوالے سے عورت پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں بلکہ اس معاملہ میں مردو زن دونوں برابر ہیں۔

 

حقوقِ نسواں سے متعلق پاکستان میں قانون سازی:

آئین پاکستان میں خواتین کے حقوق کے متعلق بالکل واضح قوانین ہیں جن سے پتہ چلتا ہے ملک پاکستان اسلام کی روح کے مطابق عورت کو اس کے بنیادی حقوق کی فراہمی کرتا ہے اور اسی آئین کی اقتدامیں وفاق اور صوبوں کی سطح پر حقوقِ نسواں کے حوالے سے مختلف قوانین بنائے گئے ہیں۔ ان میں بعض قوانین ایسے بھی ہیں جو قیام ِ پاکستان سے پہلے بنے مگر قیامِ پاکستان کے بعد بھی ان کو جاری رکھا گیااور بعض قیامِ پاکستان کے بعد ہی بنائے گئے۔ان قوانین میں شادی شدہ خواتین کی جائیداد سے متعلق 1882 کا ایکٹ، کم سنی کی شادی کی ممانعت کا ایکٹ1929،مسلمان خاتون کاتنسیخِ نکاح ایکٹ 1939، مسلم فیملی لاز آرڈینینس 1961،حدود آرڈینیس 1979،تحفظ نسواں (فوجداری ایکٹ)2006،ملازمت کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق ایکٹ2010، خواتین کے خلاف اقدامات(ترمیم فوجدای قانون)ایکٹ 2011 اور پنجاب تحفظِ نسواں بل 2016 اہم قوانین ہیں جو کہ اس ملک میں انسانی بنیادی حقوق کے مطابق عورت کو اس کا مقام اور حق دلانے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔

 

حکومت ِپنجاب کا تشدد کے خلاف تحفظ نسواں ایکٹ۔۲۰۱۶ءکے مضامین کا مطالعہ

ذیل میں مذکورہ ایکٹ کی مختلف جہتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جاتا ہے تاکہ اسلام نے نام پر بننے والی اس ریاست میں اسلامی تعلیمات کی پاسداری کا جائزہ لیا جاسکے اور اس ایکٹ کی اسلامی تعلیمات کے موافق اور غیر موافق شقوں کا جائزہ لیا جا سکے۔اگرغو ر کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حقوقِ نسواں کے اس بل میں شوہر پر بعض پابندیاں لگائی گئی ہیں جن کا مقصد بیوی کو مکمل طور تحفظ فراہم کرنا بتایا گیا ہے مگر اگر غور کیا جائے تو یہ عورت کو تو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش ہے مگر فی الحقیقت یہ شوہر کو مظلوم بنانے اور ان کے حقوق کی تلفی کا اہم ذریعہ ہے۔ذیل میں ان چیزوں پر مشتمل چند اہم امور کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

 

حکومت ِپنجاب کا تشدد کے خلاف تحفظ نسواں ایکٹ۔۲۰۱۶ءکی اتفاقی دفعات:

حقوقِ نسواں ایکٹ کی شریعت سے مطابقت رکھنے والی دفعات کا ذیل کے صفحات میں جائزہ لیا جاتا ہے:

 

رہائش کا حق:

 

دفعہ ۵ (اے) کے مطابق شوہر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کو محفوظ رہائش فراہم کرے اور جھگڑے کی صورت میں اس کو اس حق سے محروم نہ کرے اور اگر وہ اس کو گھر سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو اپنے اس حق کو بذریعہ عدالت حاصل کر سکتی ہے اسی طرح دفعہ ۵(بی)کے مطابق متاثرہ خاتون کو اپنی مرضی سے اسی گھر میں یا مدعا علیہ کی جانب سے اس کے مالی وسائل کے مطابق دی گئی کسی متبادل رہائش میں یا کسی شیلٹر ہوم میں رہنے کا حق ہو گا۔اس دفعہ کے مطابق متاثرہ خاتون کو اس کے شوہر کے گھر یا اس کی طرف سے متبادل رہائش گاہ میں رہنے کا حق ہو گا۔

 

یہی بات دفعہ ۸ کی ذیلی دفعہ اے اور بی میں کی گئی ہے کہ شوہر اس کو اپنے گھر سے بے دخل نہیں کرے گا۔اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ بیویوں کا نان و نفقہ شوہر کی ذمہ داری ہے پھر اگر خدانخواستہ شوہر بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو دوران عدت بھی شوہر ہی کی ذمہ داری شمار ہو گی۔یعنی لباس،خوراک، رہائش بہم پہنچانا۔بلکہ طلاق رجعی میں تو بیوی کیلئے حکم ہے کہ وہ شوہر کیلئے بناؤ سنگھار کرے تاکہ شوہر کا دل اس کی طرف مائل ہو اور وہ رجوع کر لے۔جبکہ طلاق بائن کی صورت میں عورت سابقہ شوہر سے مکمل پردہ میں رہے گی۔واضح رہے کہ اس دوران بھی نان و نفقہ شوہر کے ذمہ ہی ہو گا۔ارشاد ِباری تعالی ہے:ٍو

 

وَعَلَي الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ([10])

 

"دستور کے مطابق ان کے کھانے اور کپڑے کی ذمہ داری شوہر پر ہے"

 

مطلقہ عورت کیلئے یہ حکم صرف دروان ِعدت ہو گا۔جب وہ اپنی عدت مکمل کر لے تو پھر سابقہ شوہر پر اس کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔نہ وہ اس کی ذمہ داری میں شمار ہو گی اور نہ ہی اس کا خرچہ اس پر لازم ہوگا۔

 

حفاظتی افسر سے مزاحمت کی سزا:

 

٭ دفعہ ۱۸کے مطابق اگر کوئی شخص جو ضلعی افسر تحفظ خواتین یا افسر تحفظ خواتین سے قانون ہذا کے تحت فرائض کی ادائیگی میں مزاہمت کرئے تو ایسا شخص چھ ماہ تک سزائے ِقید یا پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزاؤ ں کا مستوجب ہوگا:

 

کسی بھی قانون پر عمل درآمد کے لئے عوام کا تعاون ضروری ہوتا ہے۔اگر عوام قانون کی خلاف ورزی کریں،قانون کے خلاف نعرے بازیاں یا دیگر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرئیں تو پھر کسی بھی قانون پر عمل نہیں ہو سکتا۔اسلام کی تعلیمات یہی ہیں کہ ہم ہر ممکن حد تک اپنے امراء کی اطاعت کریں۔

 

اللہ تعالی کا فرمان ہے

 

یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہ َ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ([11])

 

اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور اپنے میں سے صاحب امر لوگو کی۔“

 

یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ

 

لا طاعۃ المخلوق فی معصیۃ الخالق۔([12])

 

اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں؂

 

اگر امراء ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق چلائیں تو ان کی اطاعت ہم پر لازم ہے اور نافرمانی کی صورت میں ہم گناہگار اور مستوجب ِسزا ہوں گے۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ امیر اگر شریعت کے مطابق چلائے تو اس کی اطاعت لازم ہوگی اور میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی صورت میں بھی فریقین پر لازم ہوگا کہ تفشیشی افسر کے ساتھ تعاون اور قانون کے مطابق کارروائی میں اس ہدایات پر عمل کرے۔ہاں اگر اس کے احکام شریعت اور قانون کے خلاف ہوں تو پھر ا س کی اطاعت لازم نہیں ہو گی لہذا صرف جائز اور اطاعت کے کاموں میں تفتیشی افسر کے ساتھ تعاون اور عدمِ مزاحمت کا یہ قانونی حکم جائز اور شریعت کے موافق حکم ہے۔

 

غلط شکایت درج کروانے پہ سزا:

 

٭ دفعہ ۱۹کے مطابق ایسا شخص جو تشدد کے بارے میں جان بوجھ کر غلط اطلاع کرئے تو تین ماہ تک قید اور پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا مستوجب ہوگا؛

 

یہ دفعہ بھی متفقہ طور پر جائز ہے۔اسلام میں جھوٹ کی ممانعت ہے۔

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

 

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَاۗءُ اِلَّآ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۢ بِاللّٰهِ ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَوَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَيْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِيْن ([13])

 

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور اس پر ان کے پاس اپنی جانوں کے سوا کوئی گواہ نہ ہوتو پس وہ چار بار اللہ کے نام کی قسم کھائیں کہ وہ سچے ہیں اور پانچویں بار یہ کہیں کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگروہ جھوٹوں میں سے ہو۔“

 

وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ ([14])

 

تباہی ہے اس شخص کے لئے جو لوگوں کی برائیاں کرنے کا خوگر ہو“۔

 

حدیث مبارکہ ہے:

 

عن ابو ہریرہ عن النبیﷺ قال:

 

آیات المنافق ثلاثۃ اذا حدث کذب واذاء وعد اخلف، واذااوتمن خان ([15])

 

ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا

 

منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرئے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرئے تو اسکی خلاف ورزی کرئے،اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے

 

بہتان بھی جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے اور جو شخص کسی پر بہتان لگائے اس کے لئے اسلام میں یہ سزا ہے کہ اسے اسی کوڑے لگائے جائیں اور پھر عمر بھر اس کی گواہی قبول نہ کی جائے۔فرمان باری تعالی ہے۔

 

اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰ ِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْٰاخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ([16])

 

اور جو لوگ ایمان والی پاک پاک دامن بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگائیں تو ایسے لوگوں پر دنیا میں لعنت کی گئی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔

 

اس لئے اگر کوئی شخص جھوٹ بولے تو وہ حقیقتاََ سزا کا مستحق ہے

 

مشکلات کے خاتمے کا اختیار:

 

دفعہ۱۳ے مطابق حکومت قانون ہذا کے نفاذ سے دو سال کے اندر اور بذریعہ نو ٹیفکیشن ایسا قانون وضع کر سکتی ہے جو قانون ہذا سے متصادم نہ ہو اور جو کسی مشکل کے خاتمے یا قانون ہذا کی دفعات کو روبہ عمل لانے کی غرض سے ضروری معلوم ہو۔

 

مندرجہ بالا دفعہ پر بھی اتفاق کیا جاسکتا ہے کیونکہ قانون سازی کے حقیقی مقاصد تبھی حاصل ہوتے ہیں جب اس پر عمل بھی کیا جائے۔۔لہذا جو بھی قانون سازی ہو اس پر عمل درآمد کیلئے ہر قسم کی جائز کوشش ضروری ہے اور اس میں عوام الناس کا تعاون بھی ضروری ہے۔

 

حکومت ِپنجاب کا تشدد کے خلاف تحفظ نسواں ایکٹ۔۲۰۱۶ءکی شریعت سے متصادم دفعات کا جائزہ:

جہاں اس ایکٹ میں شریعت سے موافق پہلو ہیں وہیں بہت سے ایسے پہلو بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ بل تنقید کا نشانہ بنا اور مذہبی حلقوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ذیل میں خلاف، شریعت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

 

ایکٹ میں تشدد کا نظریہ اوراسلامی تعلیمات

 

دفعہ (۲)ذیلی دفعہ(ایچ) میں ”گھریلو تشدد“سے مراد مدعا علیہ کی جانب سے کیا گیا ”تشدد“ہے جس کے ساتھ متاثرہ خاتون کسی گھر میں رہ رہی ہو یا رہ چکی ہو اور وہ آپس میں نسبی،عقدی،لے پالکی رشتے سے منسلک ہو۔

 

یعنی اس سیکشن میں خاوند کا بیوی کو سمجھانا،ڈرانا،یا اس کی بہتری کیلئے ضروری باز پرس یا ہلکی پھلکی مار مارنا تشدد کہلایا گیا ہے۔عام طور پر”تشدد“ کا لفظ شدیدزیادتی یا ظلم کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔جبکہ اسلام میں بیوی پر کسی بھی قسم کا تشدد جائز نہیں ہے۔رہی وہ عورتیں جو صالحات نہیں ہیں تو وہ سرکش ہیں۔ان کیلئے قرآن پاک میں لفظ"ناشزات"استعمال ہواہے۔ناشزہ دراصل شوہر کی نافرمانی کو جائز سمجھتی ہے علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کرتی ہیاور سرکشی اختیار کرتی ہے جس کی وجہ سے مرد کی نگرانی کا رعب ختم ہو جاتا ہے اولاد بے راہروی کا شکار اور گھر کا ماحول گیر اسلامی ہو جاتا ہے۔حالات اگر اس مقام تک پہنچ تو پھراس کا علاج ضروری ہے کیونکہ عدمِ کنٹرول کی صورت میں نہ صرف گھر کا ماحول خراب ہوگا بلکہ معاشرے کا امن اور سکون بھی تباہ ہو جائے گااورنسل نفسیاتی امراض،اعصابی امراض اور دوسرے جسمانی امراض کا شکار ہو گی اور نتیجتاََ ایک اخلاق باختہ نسل تیار ہو گی۔چنانچہ خاندان کے بچاؤ کے لئے خاوند کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ تادیبی اقدامات کرے۔یہ اقدامات محض انتقام،توہین اور جسمانی اذیت کے لئے نہیں روا رکھے گئے بلکہ محض اصلاحی اقدامات ہیں لہذا ایسے اقدامات کے لئے تشدد کا لفظ انتہائی نا مناسب ہے۔اس ذیل میں فرمان باری تعالی ہے:و

 

ۭ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا ([17])

 

اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انہیں سمجھاؤ،خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو۔اور مارو۔پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خوامخواہ ان پر دست درازی کے بہانے تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اللہ اوپر موجود ہے اور بالاتر ہے۔

 

اور عورتیں جن سے تمہں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ۔اسلام میں یہ پہلا قدم ہے اگر وہ نہ سمجھیں تو پھر خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو۔خواب گاہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں عورت انتہائی شان سے اپنی بات منواتی ہے۔جب ایک مرد اپنی خواہش پر قابو پا کر عورت کی اس فطری کشش کا مقابلہ کر لے تووہ عورت کے موثر ترین ہتھیار کو کند کر دیتا ہے۔جو ہتھیار وہ مرد کے خلاف استعمال کرتی ہے۔یہ دوسرا قدم ہے۔لیکن بعض اوقات یہ دوسرا قدم بھی کامیاب نہیں رہتاتو پھر ایک مزید کوشش کا حکم ملتا ہے۔(اور انہیں مارو) اس سے پہلے جو مطالب بیان کیے ہیں اور ان اقدامات کے جو اہداف سامنے رکھے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مار سے مقصود عورت کو سزا دینا نہیں ہے اور نہ اس سے انتقام لینا مطلوب ہے،اور نہ محض غصے کو ٹھنڈا کرنا مطلوب ہے اور نہ اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ یہ مار محض تذلیل،توہین اور تحقیر کیلئے ہے بلکہ یہ مار اصلاح کیلئے ہے۔([18])

 

فاضربوھن ضرباَ غیر مبرح۔([19])

 

یہ مار صرف تادیب کیلئے ہے اور اسمیں جسم پر کسی قسم کا نشان نہ پڑے۔اس شرط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مارنا انتہائی نرم انداز سے ہے۔

 

اس کیلئے تشدد کا لفظ مناسب نہیں۔کیونکہ بعض جرائم پر قانون بھی سزا کا حکم دیتا ہے جس کو تشدد یا ظلم کا نام نہیں دیا جاتا بلکہ اصلاح کی خاطر اس کو ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ ہاں اگر شوہر بغیر کسی وجہ سے تشدد کرتا ہے تو وہ ظالم بھی ہے اور قانونی اور شرعی دونوں طرح سے قابلِ گرفت ہے۔اس مار کا انداز کیا ہونا چاہئے اس کی وضاحت حدیث میں یوں ملتی ہے: فاضربوھن ضربا غیر مبرح "ان کو مارواس انداز سے کہ نشان نہ پڑیں "اس سے واضح ہوتا ہے شریعت مخصوص حالات میں تادیب کی خاطر ہلکی مار کاحکم دیتا ہے جس کو تشدد کا نام دینا نامناسب ہے۔

 

ایک اور موقع پہ آپﷺ نے فرمایا:

 

عن عبداللہ بن زمعہ عن النبیﷺ قال لا یجلد احدکم امراتہ جلد العبد ثم یجامعھما فی اخر الیوم ([20])

 

عبداللہ بن زمعہ سے رایت ہے کہتے ہیں رسوال اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی تم میں سے اپنی جورو کو غلام لونڈی کی طرح نہ مارے(افسوس ہے کہ صبح کو تو اسے مارے)اور شام کو اس سے صبحت کرئے۔

 

مصالحتی اقدامات

 

٭دفعہ ۳ ذیلی دفعہ (سی) کے مطابق پروٹیکشن سینٹر میں فریقین کے درمیان مفاہمت اور مصالحت کی خاطر متاثرہ خواتین کے ریسکیو،طبی معائنے،میڈیکل اور نفسیاتی علاج اور قانونی مدد نیز متاثرہ خواتین کے خلاف کیے گئے جرائم کی مناسب تفتیش کیلئے ضروری سٹاف کا تقرر کیا جائے گا۔دفعہ ۳ ذیلی دفعہ (سی) اختلافی دفعہ ہے۔اسلام کی تعلیمات ہمارے لئے یہ ہیں کے اگر دو گروہ، دو لوگ یا دومسلمان آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کروا دی جائے۔ ارشاد ہو تا ہے

 

وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْن ([21])

 

قول باری تعالی ہے: (وَاِنْ طَآءِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُو۔۔۔۔۔۔)اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کرنے لگیں تو ان کے درمیان صلح کروا دو۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان جنگ شروع ہو جانے کی صورت میں اللہ تعالی نے ان کے درمیان صلاح اور حق نیز کتاب و سنت کے حکم اور ترک بغاوت کی طرف بلایا جائے۔([22])

 

اگر صلح دو فریقین کے درمیان کی بات ہوتی تو یہ بلاشبہ جائز اور تعلیمات ِاسلام کے مطابق ہوتی ِ لیکن یہاں بات میاں اور بیوی کی صلح کی ہے تو اس کے لئے اسلام کی تعلیمات یہی ہیں جب ایسی صورت حال پیش آ ئے تو پھر دونوں خاندانوں میں سے ایک ایک حکم مقرر کیا جائے جو مل کے مسائل کو حل کریں نہ کہ مصالحتی کونسلز کا قیام عمل میں لایاجائے جو مسائل کو سلجھانے کی بجائے الجھانے کا باعث بنیں اور خاندانی نظام کی تنزلی ہو۔

 

وَاِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۭ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۭوَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ۭوَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا ([23])

 

لہذا(دفعہ ۳) مندرجہ بالا آیت کی روشنی میں اختلافی ثابت ہوتی ہے۔

 

خاوندکابیوی سے عدم رابطہ اور دوری:

 

اس ایکٹ میں تاکید کی گئی ہے کہ عدالت میں معاملہ آنے کے بعد خاوند اپنی بیوی سے اتنے فاصلے پر رہے جس کا تعین عدالت کیس اور حقائق کے تناظر میں کرئیگی۔مزید اس بل کی دفعہ (۷) ذیلی دفعہ (۱،اے،سی) کے مطابق شوہر اس متاثرہ خاتون سے کوئی رابطہ نہ کرے گا۔اس قانون کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ میاں بیوی کے درمیان جھگڑا اگرمعمولی تھا تو اس قانون کی وجہ سیاس میں شدت آجائے گی جبکہ اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ اگر میاں بیوی میں جھگڑا ہو بھی جائے تو مصالحت کی کوشش کی جائے نہ کہ ان کو ایک دوسرے دور کو دیا جائے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

 

وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللہ ُ بَیْنَھُمَا اِنَّ اللہ َ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا ([24])

 

اور کہیں تم لوگوں کو میاں بیوی کے تعلقات صاف ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے رشتے داروں سے اور ایک عورت کے رشتے داروں کی صورت نکال دے گا اللہ سب کچھ جانتا اور باخبر ہے۔

 

وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْن ([25])

 

اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں باہم صلح کروا دو۔

 

قول باری تعالی ہے۔(وَاِنْ طَآءِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُو۔۔۔۔۔۔)اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کرنے لگیں تو ان کے درمیان صلح کروا دو۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان جنگ شروع ہو جانے کی صورت میں اللہ تعالی نے ان کے درمیان صلاح اور حق نیز کتاب و سنت کے حکم اور ترک بغاوت کی طرف بلایا جائے ۔([26])

 

آپﷺ نے فرمایا:

 

عن عائشہ وان امراۃخافت من بعلھا نشوزااو اعراضاَقالت ھو الرجل یری من امراۃ مالا فیرید فراقھا فتقول امسکنی واقسم لی ما شئت قالت فلا باس اذا تراضیا ([27])

 

حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے آپﷺ نے فرمایا اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی شرارت یا بے پرواہی سے ڈرے اس کا مطلب ہے کہ مرد اپنی عورت میں بڑھاپا یا کوئی اور قباحت دیکھ کر اس سے جدا ہونا چاہے وہ عورت کہے نہیں مجھ کو اپنے پاس رہنے دے اور جو تیرا جی چاہے وہ میرے لئے مقرر کر دے انہوں نے کہا کہ اگر دونوں کسی بات پر راضی ہو جائیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔

 

وَاِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۭ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۭوَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ۭوَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا ([28])

 

اور اگر ایک عورت اپنے خاوند سے لڑنے یا نہ پھیرنے سے ڈرئے تو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ صلح کر لیں۔اور صلح بہتر ہے۔اور حاضر کی گئی جانیں بخیلی پر۔اور اگر تم احسان کرو اور پرہیز گاری کرو تو تحقیق اللہ اللہ ان کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔

 

اسلام یہ مشورہ نہیں دیتا کہ عورت کی جانب سے سرکشی شروع ہوتے ہی تم اس سرکشی اور نفرت کے سامنے ہتھیار ڈال دو اور نہ اسلام یہ مشورہ دیتا ہے کہ بس فوراََ معاہدہ نکاح ختم کردو۔ اور خاندان کی ہنڈیا ان لوگوں کے سر پر لا کر پھوڑ دو۔جن کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں ہے۔جن میں کم عمر بھی ہیں اور بڑے بھی۔اسلامی نقطہ نگاہ سے مقرر کرووہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت"سے اداراہ خاندان بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے اس لئے اسلام اس کی اہمیت کی خاطر اسے ازسرِنو جدیداینٹوں کی مدد سے تعمیر کرتا ہے تاکہ وہ دوبارہ نشونما حاصل کر سکے۔

 

اسی لئے حکم دیا جاتا ہے کہ ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے ہواور وہ اپنے ذاتی میلانات کو سامنے نہ رکھیں۔اپنے شعور اور احساس کے بوجھ سے الگ ہو جائیں اور معاشی حالات و مفادات کو نظر انداز کر دیں۔جن کی وجہ سے زوجین کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی،بلکہ ان ثالثوں کا مطمع ِ نظر اصلاح ہو گا۔([29])

 

یعنی ہر ممکن حد تک کوشش میاں بیوی کو جوڑنے کی کی جائے نہ کہ بغیر لڑائی جھگڑے صرف خطرے کی صورت میں ہی ان میں علیحدگی کروانے کی۔ اسی طرح ذیلی دفعہ سی کے مطابق جتنا عرصہ عدالت متعین کرئے گی خاوند اتنا عرصہ بیوی سے الگ رہے گا۔

 

جبکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

 

لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ ۚ فَاِنْ فَاۗءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ([30])

 

جولوگ اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لیتے ہیں،ان کے لئے چار ماہ کی مہلت ہے اگر وہ رجوع کر لیں تو اللہ بخشنے والا ہے۔

 

مرد کے رویے کے سبب ”ایلا“ طلاق کی ایک ایسی قسم ہے جو کہ طلاق بائن کی صورت اختیار کر لیتی ہے اس طلاق کی صورت میں شوہراگر یہ قسم کھالے کہ وہ چار ماہ تک اپنی بیوی سے تعلق زوجیت نہیں رکھے گاتو اس کے رویے کی وجہ سے چار ماہ گزرنے کے بعدطلاق بائن ہو جائے گی،اگر اس مدت کے دوران وہ زوجہ سے تعلقات قائم کر ے یعنی مجامعت وغیرہ تو یہ طلاق ختم ہو جائے گی۔([31])

 

یعنی جو مرد اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لیتے ہیں اور اگر وہ چار ماہ تک مسلسل حالت ناراضگی میں بیوی کے پاس نہ جائیں تو ایسی صورت میں بیوی کو طلاق بائن ہو جائے گی۔جس کے بعد تجدید نکاح ضروری ہے

 

مصالحتی اقدامات

 

دفعہ (3ٰ)ذیلی دفعہ (سی) کے مطابق پروٹیکشن سینٹر میں فریقین کے درمیان مفاہمت اور مصالحت کی خاطر متاثرہ خواتین کے ریسکیو، طبی معائنے، میڈیکل اور نفسیاتی علاج اور قانونی مدد نیز متاثرہ خواتین کے خلاف کیے گے جرائم کی مناسب تفتیش کیلیے ضروری سٹاف کا تقرر کیا جائے گا۔

 

دفعہ تین ذیلی دفعہ(سی) اختلافی دفعہ ہے۔ اسلام کی تعلیمات ہمارے لیے ہیں کے اگر دو گروہ، دو لوگ یا دو مسلمان اآپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کروا دی جائے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

 

وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْن ([32])

 

اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں باہم صلح کروا دواگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں باہم ملاپ کرادوپھر اگر ایک فریق دوسرے پر چڑھائی کرئے تو چڑھائی کرنے والے کو قتل کرو۔یہاں تک کہ چڑھائی کرنے والے اللہ کے حکم کی طرف رجوع کر لیں۔([33])

 

اگر صلح دو فریقین کے درمیان کی بات ہوتی تو یہ بلاشبہ جائز اور تعلیمات ِاسلام کے مطابق ہوتی ِ لیکن یہاں بات میاں اور بیوی کی صلح کی ہے تو اس کے لئے اسلام کی تعلیمات یہی ہیں جب ایسی صورت حال پیش آئے تو پھر دونوں خاندانوں میں سے ایک ایک حکم مقرر کیا جائے جو مل کے مسائل کو حل کریں نہ کہ مصالحتی کونسلز کا قیام عمل میں لایاجائے جو مسائل کو سلجھانے کی بجائے الجھانے کا باعث بنیں اور خاندانی نظام کی تنزلی ہو۔

 

خاوند کو جی پی ایس ٹریکر پہنانا:

 

ایکٹ کی دفعہ (۷)ذیلی دفعہ (ڈی) کے مطابق سنگین تشدد کیلئے کیے گئے کسی عمل یا ممکنہ سنگین تشدد جس سے متاثرہ خاتون کی زندگی،ناموس۔یا شہرت کو خطرہ لاحق ہو کی نشاندہی کی غرض سے مدعاعلیہ ٹخنہ یا کلائی پر بریسلیٹ جی پی ایس ٹریکر پہنے۔

 

٭ذیلی دفعہ (ڈی) کے مطابق سنگین تشدد کیلئے کیے گئے کسی عمل یا ممکنہ سنگین تشدد جس سے متاثرہ خاتون کی زندگی،ناموس۔یا شہرت کو خطرہ لاحق ہو کی نشاندہی کی غرض سے مدعاعلیہ ٹخنہ یا کلائی پر بریسلیٹ جی پی ایس(گلوبل پوزیشنگ سسٹم Globel Positioning System Tracer) ٹریکر پہنے۔

 

حکومت پنجاب نے خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے جو اقدامات کئے ہیں ان میں سے ایک قدم بیوی کو خاوند کے ظلم سے بچانے کے لئے خاوند کو ”جی پی ایس“ٹریکر پہنانا ہے۔جی پی ایس ایک ایسا سسٹم ہے جس سے کسی فرد کے معینہ مقام کو معلوم کیا جاسکتا ہے

 

یہ ایک ایسا قانون ہے جس کی حدبندی نہیں کی گئی اور یہ کبھی اپنی اصلی ظاہری صورت میں نافذ نہیں ہوا۔۰۷۹۱ سے ۰۹۸۱ کے دوران US فورس نے آرمی کے لئے کچھ سیٹلائٹس لانچ کی تھیں جن میں جی پی ایس کو استعمال کیا گیا اس کے بعد ۳۸۹۱ میں روس میں ایک شہری کو قتل کر دیا گیا جو غلطی سے ائیر بیس میں گھس گیاتھا۔اس حادثے کے بعد سے شہریوں کے لئے بھی اسے ضروری قرار دیا۔ سپریم کورٹ اور دوسری نچلی سطح کی عدالتوں نے ۲۱۰۲ اور ۳۱۰۲ میں جی پی ایس ٹریکنگ کا بل پاس کیا۔[34]

 

ٹریکر عام طور پر مجرموں یا مشکوک افراد کو پہنایا جاتا ہے جس سے ان کے محل ِ وقوع اور آمدورفت سے آگہی رہتی ہے۔سربراہ خاندان کے لئے یہ عمل توہین آمیزہے۔کوئی انتہائی مجبور شوہر ہی اسے قبول کر سکتا ہے ورنہ ایسی صورت میں طلاق کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ بلکہ اس ذلت آمیز عمل کے باعث وہ خود کشی یا بیوی کو قتل کرنے جیسے اقدامات بھی کر سکتا ہے۔لہذایہ ٹریکر والا عمل بہت سے جرائم اور نا پسندیدہ اعمال کا باعث بن سکتا ہے۔اس انجام کے اعتبار سے بھی یہ فعل غیر اسلامی ہے۔

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

 

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۠ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْم([35])

 

اور مردوں کا حق عورتوں پر ایسا ہی ہے جیسا دستور کے مطابق مردوں کا حق عورتوں پر ہے۔البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ فضلیت حاصل ہے اللہ تعالی نے مردوں کوعورتوں سے ایک درجہ زیادہ فضیلت دی ہے۔

 

حدیث مبارکہ ہے:

 

لو کنت امرا احدا ان یسجد لا حد لامرت المراۃ یسجد لزوجھا

 

”اگر میں خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرئے“۔([36])

 

بیوی کو ممکنہ خطرہ کے پیش نظر خاوند کو بریسلیٹ پہنانا یہ مرد کی توہین ہے اور اسے ذلیل کرنے کے مترادف ہے۔جس کی اسلام میں سختی سے ممانعت کرتا ہے۔

 

سر براہ خاندان کی گھر سے بے دخلی:

 

٭ذیلی دفعہ (ای) کے مطابق سنگین تشدد کے باعث متاثرہ خاتون کی زندگی،ناموس،شہرت کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں مدعاعلیہ گھر سے باہر نکل جائے؛

 

ذیلی دفعہ (ای) کے مطابق بیوی کو ممکنہ خطرہ کے پیشِ نظر گھر سے باہر نکال دیا جائے۔جو مرد بیوی کا محافظ و نگران ہے،نگہبان ہے اگر اسی سے خطرات ہوں تو پھر عورت کا حقیقی محافظ کون ہو سکتا ہے؟

 

ارشادِ ربانی ہے:

 

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۭ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا ([37])

 

مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضلیت دی ہے اور اس بنا پر کے مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں مرد کی نگرانی اور سرپرستی کے جواز پر بعض اہم دلائل ہیں جن کے بارے میں خود فطرت انسانی ہماری راہنمائی کرتی ہے۔مرد کی فطرت میں یہ سرپرستی موجود ہوتی ہے اور مرد میں یہ اصول و قواعد پوری قوت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔اگرچہ لوگ اس سے انکار کرئیں اسے انوکھا سمجھیں یا اسے ترک کر دیں۔([38])

 

حدیث مبارکہ ہے:

 

عن انس قال الی رسول اللہ ﷺ من نسآۂ شھرا وقعد نی مشربۃ لہ فنزل لتسع و عشرین فقیل یا رسول اللہ انک الیت علی شھرقال ان الشھر تسع و عشرون ([39])

 

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قسم کھائی کے ایک مہینہ تک اپنی بی بیوں کے پاس نہ جاوں گا پھر ایک بالا خانے میں (آپﷺ)اکیلے بیٹھے رہے اور انتیس دن کے بعد وہاں سے اتر آئے۔حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺآپ نے تو ایک مہینہ علیحدہ رہنے کی قسم کھائی تھی آپ ﷺ نے فرمایا مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔

 

یعنی مرد ہی عورت کا حقیقی نگران اور محافظ ہے اگر مرد کو ہی گھر سے نکال دیا جائے تو عورت اور بھی زیادہ غیر محفوظ ہو جائے گی کیونکہ شوہر کو ہی حقیقی محافظ کہا گیا ہے۔

 

خاوند کو اسلحہ رکھنے پر پابندی:

 

٭ذیلی دفعہ (ایف) کے مطابق مدعاعلیہ اپنے پاس اسلحہ یا اسلحے کا لائسنس رکھنے سے باز رہے:

 

یہ دفعہ بھی میاں بیوی کے درمیاں عدم اعتمادی پیدا کرنے کا موجب ہے۔خاوند کو اختیار ہی نہیں کے جائز طور پر بھی اسلحہ رکھ سکے۔جبکہ اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ ہر مسلما ن کو اپنی حفاظت کا سامان ہر وقت موجود رکھنا چاہیے۔تاکہ جب بھی دشمن یا بیرونی طاقتیں حملہ آور ہوں تو ان کا مقابلہ کیا جا سکے۔

 

ایک طرف تو یہ دفعہ میاں بیوی میں عدم اعتمادی کو فروغ دے گی دوسری طرف خاوند کو بے بس و لاچار کر دے گی۔یعنی اگر اس دوران کوئی اور دشمن اس کے خلاف سازش کرئے تو وہ اپنی حفاظت کرنے سے معذور ہو گا،کیونکہ اسے اجازت ہی نہیں کہ وہ اپنی حفاظت کر سکے۔لہذا یہ ذیلی دفعہ ایف بھی غیر اخلاقی و غیر اسلامی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:

 

وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ ۭوَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ ([40])

 

اور تم لوگ،جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لئے مہیا رکھو۔ تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کوخوفزدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹا دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہیں ہو گا۔

 

اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کواپنی حفاظت کا سامان ہر وقت تیار رکھنے کاحکم واضح طور پر دیا گیا ہے جس سے مندرجہ بالا دفعہ کی تردید ہوتی ہے

 

بیوی کے معمولات سے آگہی پر پابندی:

 

٭ذیلی دفعہ (ایچ) کے مطابق متاثرہ خاتون کے کام یا اکثر جانیوالی جگہ سے باز رہے:

 

اس دفعہ میں متاثرہ خاتون کے اکثر جانیوالی جگہ کی وضاحت نہیں کی گئی۔اگر تو بیوی کے اکثر جانیوالی جگہ سے مراد کوئی قبحہ خانہ یا کوئی اور برائی کی جگہ ہے توبیوی کو ایسی جگہ جانے سے نہ روکنا غیر اسلامی فعل ہے۔مرد کو نگران اور محافظ بنانے کے ساتھ ساتھ مرد کی یہ ذمہ داری بھی لگائی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچائے۔

 

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْن )[41](

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو دوزخ سے بچاؤ۔ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔

 

اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی لکھتے ہیں

 

ویصلح اھلہ اصلاح الراعی للرعیتہ۔)[42](

 

اور وہ اپنے اہل و عیا ل کی اصلاح کرئے گا۔

 

اے ایمان دارو صرف ایمان پر تکبر کر کے نہ بیٹھو،بلکہ اپنے آپکواور اپنی محبوب بیوی اور مرغوب اولاد کو بھی آگ سے بچاؤ۔ایسے کام نہ خود کرو نہ کرنے دوجن سے جہنم کی آگ میں جلنا پڑے۔اور فرائض و واجبات کی تاکید کرو۔([43])

 

عما ر بن یاسر ؓ کہتے ہیں رسول ﷺ نے فرمایا:

 

لا تترک یدخلون الجنتہ ابدا،الدیوث من الرجال،والرجلتہ من النساء ومدمق الخمر فقالوا یا رسول اللہ اما من الخمر فقد ولمرفقاہ فما الد یوث من الرجال؟ قال الذی لایبالی من دخل علی اھلہ قلنا فالرجلتہ من النساء؟ قال التی تشبہ بالرجال۔([44])

 

آپﷺ نے فرمایا:

 

تین طرح کے لوگ کبھی جنت میں داخل نہیں ہوں۔دیوث آدمی، مردوں سے مشابہت رکھنے والی عورتیں اور شراب اٹھانے والے۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺتحقیق ہم شراب اٹھانے والے کو جانتے ہیں۔آدمیوں میں سے دیوث کون ہے؟فرمایا جو اپنی اہل والی کے کہیں بھی داخل ہونے کی پرواہ نہیں کرتا۔عرض کی الرجلتہ من النساء سے کیا مراد ہے؟ فرمایا جو خواتین مردوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔

 

شوہر ہونے کے ناطے مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ہر فعل سے باخبر رہے اور ایسا کرنے سے روکنا اسلامی احکامات پہ عمل نہ کرنا ہے۔

 

ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا

 

ان یحیی الرجل امراتہ و بنتہ،مخالطۃ الرجال ومحاتتھم والخلوۃ بھم

 

کہ آدمی اپنی عورت اور بیٹی کی آدمیوں کے ساتھ،ان سے میل جول،گفتگواور خلوت کی نگرانی کرے۔

 

حدیث پاک ہے کہ آدمی کو کسی نہ کسی طور پر راعی اور نگہبان قرار دیا گیا ہے

 

کلکم راعِ و کلکم مسؤل عن رعیتہ

 

حکمران کا ذکر کرنیکے بعد فرمایا:

 

والرجل راعِ فی اھلہ وھو مسؤل عن رعیتہ۔([45])

 

آدمی اپنے گھر والوں کیلئے نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

 

اس حدیث کے مطابق خاوند بیوی بچوں کا نگہبان ہے اور اس بارے میں جوابدہ بھی۔بیوی کے بارے میں معلومات اور رکھنا اس کے فرائض میں سے ہے۔لہذا اگر خاوند پراگر یہ پابندی عائد کر دی جائے کہ وہ بیوی کی ملازمت کی جگہ پہ نا جائے یا بیوی کے حالات کی خبر نہ رکھے تو یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

 

فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ ۭ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَاَهْلِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ ([46] )

 

فرما دیجئے بے شک نقصان اٹھانے والے یہی ہیں جو قیامت کے روز اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈالے۔خبردار وہی واضح نقصان ہے۔

 

مزید فرمایا:

 

وَقَالَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃ اَلَآ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ فِیْ عَذَابٍ مُّقِیْمٍ ([47])

 

اور ایمان والوں نے کہابلاشبہ نقصان اٹھانے والے وہی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے دن نقصان میں ڈالا۔خبردار بیشک ظالم لوگ ہی دائمی عذاب میں رہیں گئے۔

 

مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں حقیقی نقصان والے وہی لوگ ہوں گے جو قیامت کے روزاپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی نقصان میں ڈالنے والے ہوں گے۔

 

مقدمہ کی کارروائی کی آڈیو وڈیو ریکارڈنگ:

 

٭دفعہ ۳۱ ذیلی دفعہ (جے) کے مطابق قانون ہذا کے تحت کیے گئے تمام اقدامات کا آڈیو ویڈیو ریکارڈ مینٹین کرئے گا:

 

یہ دفعہ بھی بعض اوقات نامناسب معلوم ہوتی ہے ریکارڈ کے لئے دستاویزات ہی کافی ہوتی ہیں آڈیو ویڈیو ریکارڈ اور بھی بہت سے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ دوسروں کے معاملات میں تجسس نہ کیا جائے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

 

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ([48])

 

اس آیت مبارکہ میں بتایا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس بات کے خواہش مد ہیں کہ مسلاموں میں برائی یا بے حیائی پھیلے تو ایسے لوگ قیامت کے دن رسوا ہوں گے ان کے لیئے درد ناک عذاب ہو گا۔ان اعمال کے بدلے میں جو وہ کرتے رہے ہیں اور یہ ان باتوں سے بے خبر فواحش کے کاموں میں مصروف ہیں،اور اللہ تعالی سب باتوں سے باخبر ہے۔

 

یٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ([49])

 

اے ایمان والو بہت سی بد گمانیوں سے بچو۔کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیںاب یہ شبہ ہوتا ہے کہ بدگمانی کی ممانعت ہے۔اچھا ہم تحقیق کرئیں گے تو اس کے لئے اگلا حکم تحقیق و تفتیش کی بابت ہے۔پس فرمایا ”ولا تجسسوا“کے کسی کی جاسوسی نہ کرو۔کسی کے عیب دریافت کرنا اور ان کی تفتیش کرنا نہ چاہیے۔کیونکہ اس میں سراسر برائی ہے([50])

 

مندرجہ بالا آیت مبارکہ کی روشنی میں آڈیو ویڈیو ریکارڈ کی کراہت کا احساس ہوتا ہے۔

 

اتھارٹی کو زبردستی گھر میں داخلہ کا اختیار:

 

٭دفعہ ۵۱ ذیلی دفعہ (۳) کے مطابق اگر ذیلی دفعہ (۲) کے تحت ایسی جگہ یا گھر تک رسائی حاصل نہ کی جاسکی ہو تو ضلعی افسر تحفظ خواتین یا افسر تحفظ خواتین ڈسٹرکٹ اتھارٹیز بشمول پولیس کے اشتراک سے ایسی جگہ یا گھر میں داخلے اور ایسی جگہ یا گھر میں مقیم یا رکھی گئی متاثرہ خاتون سے ملنے اور ایسی جگہ یا گھر میں داخلے کو یقینی بنانے کی غرض سے اس گھر یا جگہ میں ذبردستی داخل ہو سکتی ہے۔

 

مندرجہ بالا دفعہ واضح طور پر غیر اسلامی ہے۔اسلام کسی کے گھر بغیر اجازت کے داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ارشاد باری تعالی ہے

 

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ([51])

 

اے ایمان والو اپنے گھروں کے علاوہ کسی کے گھروں میں بغیر اجازت کے نہ جایا کرو‘۔اور اس کے رہنے والوں پر سلام کرو یہی تمہارے لئے بہتر ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو‘

 

مومنین کو حکم دیا جا رہا ہے کہ کسی کے گھروں میں بغیر اجازت کے نہ جایا کرو۔پہلے دروازے پر جا کر سلام کہے اور پوچھے کے میں آؤں؟ احادیث سے ثابت ہے کہ تین بار اجازت مانگے۔اگر تیسری بار مانگنے پہ بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانا بہتر ہے۔جیسا کہ عبداللہ بن قیس نے آنحضرتﷺ سے روایت کی ہے

 

اور یہ حکم عام ہے خواہ گھر میں صرف عورتیں رہتی ہوں یا صرف مرد۔([52])

 

دفعہ ۱۵ذیلی دفعہ (۳) واضح طور پر غیر اسلامی ہے اس سے کسی صورت اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔

 

حکومتی ویب سائٹ پہ مقدمے کی کاروائی ڈالنے کا حکم:

 

٭دفعہ ۳۲ ذیلی دفعہ (۱) کے مطابق کسی متاثرہ خاتون پر ہونے والے تشدد کے مقدمے کی تفصیلات اور متاثرہ خاتون کے تحفظ کے لئے کیے گئے اقدامات کے بارے میں موصول ہونے والی معلومات کو سات دن کے اندر اندر اپنی ویب سائٹ پر شائع کرئے گی جس پر عوا م الناس کی مفت رسائی ہو گی۔

 

یہ دفعہ معاملات کو سلجھانے نہیں بلکہ مذید الجھانے والی ہے۔جس شوہر کی ناچاقی پر بیوی نے مقدمہ درج کروایا اور پھر اس کی جو مدد کی گئی۔یہاں تک تو بات ٹھیک ہے۔اس طریق میں بات چند لوگوں کے درمیاں ہی زیر بحث رہی ہو گی کہ فلاں کی بیوی نے اس کے خلاف مقدمہ درج کروایا یا فلاں نے اپنی بیوی پر تشدد کیا وغیرہ غیرہ۔لیکن اگر اسے ویب سائٹس پہ دے دیا جائے اور اس تک عوام الناس کی مفت رسائی بھی ہو۔تو یہ تحفظ گھر خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔عورت کو اگر ناقص العقل کہا گیا ہے تو یہ بلاوجہ نہیں کہا گیا۔جب ہر بندہ دیکھے گا کہ بیوی نے شوہر کے خلاف کیس کیااور پھر اسے یوں تحفظ دیا گیا تو پھر بہت سی عورتیں جو روزمرہ زندگی میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کر کے اپنی زندگی اچھے سے گزارنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں۔وہ بھی عدالت کا رخ کرئیں گی۔جس سے حالات بہتری کی بجائے بدتری کی طرف جائیں گے اور نتیجتاََ طلاق کی شرح بڑھے گی۔

 

اسلام اگر حدود کے نفاذ میں یہ حکم دیتا ہے کے مجرم کو کھلے میدان میں سزا دی جائے تو اس کا مقصد لوگو کو ڈرانا ہے تاکہ وہ جرائم سے باز رہیں نہ کہ ایسے سبز باغ دکھانا کے جنہیں دیکھ کر عورتیں اپنے گھر خراب کرنا شروع کر دیں۔

 

تحفظِ نسواں ایکٹ کے معاشرے اور خاندانی نظام پر اثرات:

 

اس ایکٹ کی بعض ایسی دفعات ہیں جن میں خاوند کو گھر سے باہر جانے کا حکم دیا گیاہے اور خاوند کو GPS(Global Positioning System)ٹریکر پہنایا جاتا ہے،یہ ٹریکر انتہائی خطرناک مجرموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان کی نگرانی کی جا سکے اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کے معاملات کو کنٹرول کرنا اور مردوں کے اختلاط سے بچا کر اس کی اور خاندان کی عزت کو بچانا تھا اس کو تو آزاد کردیا گیا اور وہ جو محافظ تھا اس کی حرکات وسکنات کی نگرانی ہونے لگی جس کی وجہ سے معاشرہ بیوی کی عزت کا رکھوالا سر، بازار رسوا کر کے رکھ دیا گیا جس کی وجہ طلاق کے امکانات مزید بڑھ جائیں گی کیونکہ اس قانون کی وجہ حالات سدھرنے کی بجائے زیادہ بگڑیں گے اور اس طرح خاندانی نظام تباہی کا شکار ہوگا۔اسی طرح مرد اپنا قانونی اسلحہ واپس کرے گا اور اس کے لئے نئے اسلحے کا خریدنا اور لائسنس بنانا منع ہے۔

 

جسکی وجہ سے ایک فریق کو تحفظ دیتے دیتے دوسرے فریق کو اتنا غیر محفوظ کر دیا گیا ہے کہ اس پر حملہ کی صورت میں بھی وہ اپنا تحفظ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔اس سے خاوند اور بیوی کے درمیان عدمِ اعتمادی بڑھے گی اور خاوند کی مزید رسوائی ہوگی۔متاثرہ خاتون کی جائے ملازمت پر جانے کی ممانعت خاوند کے فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں رکاوٹ ہے۔

 

اس طرح اس سارے مقدمہ کی کاروائی کی آڈیو وڈیو ریکارڈنگ اور ویب سائٹ پر مشتہر کرنے سے ان کے درمیان اختلافات کی تشہیر اور عوام الناس کی آگاہی کا ذریعہ بنے گا جو یقینی طور پر دونوں خاندانوں کی رسوائی اور میاں بیوی کے درمیان خلیج بڑھانے کا ذریعہ اور مصالحت کے مواقع کے خاتمہ کا ذریعہ بنے گا اور ایسے حالات میں جب میاں بیوی میں نزاع کا عروج اور خاندان ایک دوسرے کے پکے دشمن بن جائیں گے تو اولاد کا کیا بنے گا اور ان پر اس کے کیا اثرات مترتب ہونگے اس کا اندازہ ایک خاندان کا منتظم ہی لگا سکتا ہے۔المختصر عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا یہ ایکٹ ان کے حقوق کے تحفظ کی بجائے ان کی تباہی اور معاشرہ پر منفی اثرات ہی چھوڑے گا لہذا خیر اسی میں ہے کہ اس ایکٹ میں ترمیم کرکے فریقین کے تحفظ اور معاشرتی رواداری کا ذریعہ بنا کر خاندانوں کو جد اکرنے کی بجائے جوڑنے کا سبب بنایا جائے تاکہ پاکستانی معاشرہ جو کہ پہلے ہی انتشار اور دہشت گردی کی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اس کو مزید الجھنے سے بچایا جائے۔

 

نتائجِ بحث

اس مقالہ پر غور سے درج ذیل اہم نکات سامنے آتے ہیں۔

 

۱۔اسلام نے خواتین کو بہت سے حقوق عطا کئے ہیں جو کہ مغرب نے کئی صدیوں اور کئی تحریکوں اور کوششوں کے بعد خواتین کو دئیے ہیں مگر اسلام نے بغیر مطالبہ کے بہت پہلے یہ سارے حقوق عورت کو عطا کرکے اس کے تقدس کا اعتراف کیا ہے۔

 

۲۔آئین ِ پاکستان میں خواتین کو بنیادی معاشی،مذہبی اور سیاسی حقوق دئیے گئے ہیں اور اسلام کے اسی اقدام کی اقتداءمیں بہت سے قوانین خواتین کے تحفظ کے لئے بنائے گئے ہیں۔

 

۳۔پنجاب تحفظِ نسواں ایکٹ 2016میں مصالحت،عورت کورہائش دینا،غلط شکایت اور حفاظتی افسر سے عدمِ تعاون کی صورت میں سزا جیسی دفعات اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں کیونکہ تادیب کی خاطر بسا اوقات اس قسم کے اقدامات کرنا پڑتے ہیں تاکہ قانون پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔

 

۴۔اس ایکٹ کی دفعہ ۷(۱) بی کے مطابق اختلاف کا معاملہ عدالت میں آنے کے بعد متاثرہ خاتون کو خاوند سے دور رہنے کا قانون(ڈی) کے مطابق خاوند کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے جی پی ایس ٹریکر پہنانا، (ای) کے مطابق مرد کو اپنا قانونی اسلحہ حکومت کو واپس کرنا اور کسی نے اسلحہ کو خریدنے یا اس کا لایسنس بنانے کی ممانعت،(ایچ) کے مطابق متاثرہ خاتون کی جاے ملازمت یا کسی ایسی اور جگہ جہاں اس کا اکثر آنا جانا رہتا ہے خاوند کا ایسی جگہوں پر جانے سے منع نہ کرنا اور دفعہ ۱۳(۲) جے کے مطابق تمام کاروایٓ کی آڈیوویڈیو ریکارڈینگ اور دفعہ ۲۳ کے مطابق سارے معاملے کو سات دن کے اندر اندر حکومت کی ویب سایٹ پر ڈالنے کا حکم شوہر کی ساکھ کو متاثر کرنے اور معاشر ے میں اس کو بدنام کرنے کا باعث ہو گا۔اور جیسی دفعات اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں ۔لہذا ان میں اشد ضروری ہو گی۔ تاکہ حالات بگاڑنے کی بجاے سدھارنے کا عمل اپنایا جاے۔

 

۵۔مذکورہ بالا دفعات جن کی نشاندہی کی گئی ہے اس ایکٹ کے اہم مندرجات ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات اور اس کی روح سے متصادم ہیں لہذا ان میں ترمیم کرکے اس ایکٹ کو واقعی فریقین کے حقوق اور خاندانی نظام کے تحفظ اور استحکام کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔

 

حوالہ جات

  1. ۔البقرہ، ۲: ۲۲۸
  2. ۔النساء، ۴: ۱۹
  3. ۔البقرۃ،،۲۳۳:۲
  4. ۔النساء،۱۱:۴
  5. ۔ایضاََ۱۱:۴
  6. ۔ایضاَ۱۱:۴
  7. ۔النور،۲۳:۲۴
  8. ۔ایضاََ،۴:۲۴
  9. ۔ایضاَََ،۳۰:۲۴
  10. ۔البقرۃ، ۲۳۳:۲
  11. ۔النساء،۵۹:۴
  12. ۔بخاری،الجامع الصحیح،کتاب الاحکام،باب السمع والطاعۃ للمام ما لم تکن معصیتہ،رقم الحدیث،۷۸۸:۱،۷۱۴۲
  13. ۔النور۔،۷،۶:۲۴
  14. ۔الھمزہ،۱:۱۰۴
  15. ۔بخاری،محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح ، کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق،رقم الحدیث،۶۲:۱،۳۲
  16. ۔النور،۲۳:۲۴
  17. ۔النساء، ۳۴:۴
  18. ۔سید قطب شہید،فی ظلال القرآن،۸۱:۱،۱۹۸۰
  19. ۔مسلم،مسلم بن الحجاج القشیری،الجامع الصحیح،کتاب الحج،باب حجتہ النبیﷺ،۸۸۶:۲۷
  20. ۔بخاری،محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح،کتاب النکاح،بابما یکرہ من ضرب النساء وقولہ وضربوھن ضربا غیر مبرح،۱۰۳:۱،۱۸۷
  21. ۔الحجرات،۹:۴۹
  22. ۔جصاص، اابوبکر محمد بن رازی،احکام القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،۱۹۷۲
  23. ۔النساء،۱۲۸:۴
  24. ۔ایضاََ،۳۵:۴
  25. ۔الحجرات،۹:۴۹
  26. ۔جصاص، اابوبکر محمد بن رازی،احکام القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،۱۹۷۲
  27. ۔بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب قول تعالی ان یصلحا بینھما صلحاََ واؒصلح خیر،رقم الحدیث ۱۲۸:۲،۱۲۱۵
  28. ۔النساء،۱۲۸:۴
  29. ۔سید قطب شہید،فی ظلال القرآن،۸۵:۱،۱۹۸۰
  30. ۔البقرۃ، ۲۲۶:۲
  31. ۔قرۃالعین،مسلم عائلی قوانین و معاملات، حافظ پرنٹنگ پریس بیرون بوہڑ گیٹ، ملتان،۳۵۳،۲۰۱۲
  32. ۔الحجرات، ۴۹:۹
  33. ۔جصاص، اابوبکر محمد بن رازی،احکام القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،۱۹۷۲
  34. /threads/www.daily pakistanurdu point. com,p=390 -fourm.mohadis.com
  35. ۔البقرہ، ۲: ۲۲۸
  36. ۔ترمذی،ابو عیسی محمد بن عیسی،الجامع،ابواب الرضاع عن رسول اللہ ﷺ باب فی حق الزوج علی المراۃ،رقم الحدیث،۱۱۵۹
  37. ۔النساء،۳۴:۴
  38. ۔سید قطب شہید،فی ظلال القرآن، ۷۴:۱،۱۹۸۰
  39. ۔بخاری،محمد بن اسماعیل،الصحیح،کتاب النکاح، باب الرجال قوامون علی النسآء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض الی قولہ ان اللہ کان علیا کبیرا۔ رقم الحدیِث۱۲۶:۲،۱۸۵
  40. ۔الانفال،۶۰:۸
  41. ۔التحریم، ۶۶: ۶
  42. ۔قرطبی،شمس الدین، الجامع احکام القرآن،۱۹۳:۱۸،۱۲۷۳
  43. ۔جصاص، اابوبکر محمد بن رازی،احکام القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،۱۹۷۲
  44. ۔بہقی، امام ابی بکر احمد بن الحسین،شعب الایمان ،المکتبہ رشید،۲۰۰۲ طبعہ اولی،۳۱:۰۲
  45. ۔بخاری،محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیحِ،کتاب الصلواۃ، باب فی القری المدن،رقم الحدیث ۸۹۳
  46. ۔الزمر، ۱۵:۳۹
  47. ۔الشوری، ۴۵:۴۲
  48. ۔النور، ۲۴: ۱۹
  49. ۔الحجرات،۱۲:۴۹
  50. ۔جصاص، اابوبکر محمد بن رازی،احکام القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،۱۹۷۲
  51. ۔النور،۲۷:۲۴
  52. ۔جصاص، اابوبکر محمد بن رازی،احکام القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،۱۹۷۲

     

     

    ¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...