Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 2 of Al-ʿILM

تفسیر جلالین میں اسرائیلی روایات کا تجزیاتی مطالعہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060040263_659

Pages

1-25

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/26/24

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/26

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

 

قرآن کریم انسانیت کیلئے دستو ر حیات، منشور حیات، ضابطہ حیات، بلکہ پوری انسانیت کیلئے آب حیات ہے۔ یہ انسانیت کو ہدایت دینے والی کتاب بھٹکے ہوؤں کو سیدھے راستے پر لانے والی کتاب، قعر مذلت میں پڑے ہوؤں کو اوج ثریا پر پہنچانے والی کتاب اور شیطان کی پیروی کرنے والوں کو رحمن کی بندگی سکھانے والی کتاب ہے۔ اور یہ اسلئے کہ یہ رب کائنات کا وہ کلام ہے جسے دوسرے کلاموں پر وہی فضیلت حاصل ہے، جو رب کائنات کو اپنی مخلوق پر ہے۔ کتب سماویہ میں یہی وہ یکتا کتا ب ہے جسکی حفاظت کی ذمہ داری رب ذوالجلال نے خود اپنے ذمہ لی ہے۔ قرآن کریم کے جس طرح الفاظ محفوظ ہیں اس طرح اسکے معانی اور مضامین بھی محفوظ ہیں، یہی وجہ ہے کہ علوم اسلامیہ میں علم التفسیر ”جس میں الفاظ اور معانی قرآن سے بحث ہوتی ہے“ کو سب سے اعلیٰ اور برتر مقام حاصل ہوا ہے۔ مگر یاد رہے کہ تفسیر کی ”باعتبارماخذکے“ کئی صورتیں ہیں، بعض صورتیں معتبر اور دیگربعض صورتیں غیرمعتبر ہیں۔ ذیل میں ان تمام صورتوں کے حوالے سے مختصراَ گفتگو کی جائے گی۔

 

تفسیر کی بنیادی طور پردو ہی مآّخذہیں:معتبر مآخذ تفسیر اور غیر معتبر مآخذ تفسیر۔ معتبر مآخذ تفسیر چھ ہیں: قرآن کریم،احادیث نبویہ،اقوال تابعین،لغت عرب اورعقل سلیم۔ جبکہ غیر معتبر مآخذ تفسیر تین ہیں:تفسیر صوفیا ء،تفسیر بالرائے اوراسرائیلیات۔زیر نظر مضمون اس آخری قسم ”یعنی اسرائیلیات“ سے متعلق ہے۔

 

اسرائیلیات کی حقیقت پر تبصرہ کرتے ہوئےمولانامحمد نظام الدین اسیرادروی نے لکھا ہےکہ دراصل اسلام اور پیغمبر اسلام ؐ کی دشمنی میں یہود سب سے آگے تھے، انہوں نے چاہا کہ کسی طرح قرآن کریم کی بے لوث صداقت کو داغدار بنا دیا جائے، لیکن ان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ قرآن کریم میں تحریف و ترمیم کی جسارت کر سکیں، البتہ انہوں نے اس کیلئے ایک زبردست ساز ش یہ کی کہ قرآن میں جن واقعات کو مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے، ان کی تفصیلات میں جھوٹے قصے، مہمل باتیں، گندے اور ناپاک واقعات، خلاف عقل و مشاہدہ اور محیر العقول کہانیا ں گھڑ کر مسلمانوں میں پھیلا دیں اس طرح قرآن کی بے داغ صداقت بڑی آسانی سے داغدار ہو سکتی ہے[1]۔

 

اب قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن دشمنی کی اس زبردست سازش کو ناکام بنانا اگر ہمارا فرض اور ہماری مسؤلیت ہے اور وہ ہمارے لئے ممکن بھی ہے، تو اس کی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ قرآن کریم اور اس کی تفاسیر میں موجود اسرائیلیات اور ان کے مقامات کی نشاندہی کے بعد ہر روایت کی حقیقت مسلمانوں کے سامنے لایاجائے۔ چنانچہ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے جب ہم نے تفاسیر قرآن کا بغور مطالعہ شروع کیا تو ہمیں اسرائیلی روایات کا محلِ وقوع بیشتر قصص و واقعات نظر آیا ہے۔

 

قرآن کریم میں یہ واقعات اور قصے اگر چہ بڑے حکیمانہ پیرائے میں بیان کئے گئے ہیں اور دہرائے گئے ہیں مگر اسرائیلیات نے ان واقعات اور قصص میں داخل ہو کر ان کو کافی داغدار بنادیاہے۔ذیل میں انہی واقعات کے حوالے سے کچھ تفصیلی کلام پیش خدمت ہے۔

 

قصص قرآن میں اسرائیلیات اور تفسیرجلالین

 

قران کریم میں متعدد انبیاء کرام اقوام شخصیات اور اسی طرح دیگر کچھ اشیاء کے کچھ خاص اور اہم واقعات اجمالی طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ ان سچے اور حقیقی واقعات کو سامنے رکھ کر اس شمع صداقت کو موضوع اور اسرائیلی روایتوں کے افسانوی فانوس سے کچھ اس طرح ڈھانک دیا گیا ہے کہ شمع صداقت کی لو اپنے اصلی رنگ میں نظر نہ آئے،اگر اس کی کوئی جھلک نظر آئے بھی تو اس مصنوعی فانوس کے رنگ میں ڈھل کر مصنوعی نظرآئے اور ا س کی صداقت مشکوک ہوجائے۔اس لئے ہم نے تفسیرجلالین ”جلداول“ میں مذکور اسرائیلی روایات کے حوالے سے ایک مضمون لکھنے کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعاکرتا ہوں کہ ان چند سطور کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطافرمادے۔ سو اس حوالے سے جب ہم نے تفسیرجلالین کا بغور مطالعہ کیا تو ہمیں درج ذیل نو قصص قرآنیہ میں چند اسرائیلی روایات موجود نظر آئے:

 

قصہ ہاروت وماروت میں اسرائیلیات

 

قصہ ہاروت وماروت میں علامہ سیوطیؒ نے متعدد من گھڑت اور فرضی کہانیوں پرمشتمل روایات میں سے ایک قابل گرفت روایت تفسیرجلالین میں ذکر کی ہے، جس میں علامہ سیوطیؒ نے حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہاروت وماروت فرشتے نہیں بلکہ بابل شہر کے دوجادوگر تھے جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔جیسا کہ وہ لکھتے ہے کہ:

 

قال ابن عباس ‘ھما ساحران کانا یعلمان السحر[2]

 

نیز تفسیر جلالین کے مشہور محشی ”علامہ صاویؒ“ نے اس موقع پر وہی کہانی دہرائی ہے جسے علامہ سیوطیؒ نے الدرالمنثور میں، ابن جریرطبریؒ نے جامع البیان میں اور علامہ نسفیؒ نے مدارک میں نقل کی ہے، جس میں ہے کہ زہرہ کی کافرانہ چال نے ان دو فرشتوں کو مبتلائے عذاب کیا۔ ذیل میں علامہ سیوطیؒ اور علامہ صاویؒ کے ذکر کردہ عبارات اور روایات کا تحقیقی جائزہ ”نقلاً وعقلاً“ پیش کردیا جاتاہے۔

 

علامہ سیوطیؒ اور علامہ صاویؒ کی آراء کا نقلی جائزہ

 

قاضی بیضاویؒ کی طرف سے تردید:

 

قاضی بیضاوی نے علامہ سیوطی اور علامہ صاوی کی آراءکی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے:

 

ہماملکان انزلا لتعلیم السحر ابتلاء من اللہ للناس وتمییزا بینہ وبین المعجزۃ، وماروی انہما مثلا بشرین ورکب فیھما الشھوۃ فتعرضا الامراۃ یقال لھا زہرۃ فحملتھما علی المعاصی والشرک ثم صعدت السمآء بما تعلمت منھما فمحکی عن الیہود[3]۔

 

علامہ شہاب الدین عراقی کی طرف سے تردید:

 

علامہ شہاب الدین عراقی نے کہا ہے کہ جو یہ اعتقاد رکھے کہ ہاروت وماروت کچھ ایسے فرشتے تھے جن کو ان کی گناہوں کی وجہ سے عذاب دیا گیا وہ قطعاً کافر ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:”نص الشہاب العراقی علی ان من اعتقد فی ہاروت وماروت انھما ملکان ییعذبان علی خطیئتھما مع الزہرۃ فھوکافر باللہ تعالی“[4]۔

 

حافظ ابن کثیر کی تردید:

 

حافظ ابن کثیر نے بھی یہی لکھا ہے کہ یہ یہودیوں کی گھڑی ہوئی کہانی ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:

 

”وقد روی فی قصۃ ہاروت و ماروت عن جماعۃ من التابعین ............وحاصلھاراجع فی تفصیلھا الی اخبار بنی اسرائیل،اذ لیس فیھا حدیث مرفوع صحیح متصل الاسنادالی الصادق المصدوق المعصوم الذی لا ینطق عن الھوی............الخ[5]

 

علامہ آلوسیؒ کی طرف سے تردید:

 

علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں کہ :

 

من قال بصحۃ ہذہ القصۃ فی نفس الامر وحملھا علی ظاہرہا فقد رکب شططا وقال غلطا وفتح بابا من السحر یضحک الموت ویبکی الاحیاء وینکس رأیۃ الاسلام ویرفع رؤس الکفرۃ الطغام کمال یخفی ذلک علی المنصفین من العلماء المحققین۔[6]

 

حضرت مولانامفتی محمدشفیع صاحبؒ کی رائے:

 

حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک زمانے میں بابل میں جادو کا بہت چرچا تھا جس کی وجہ سے

 

جادو کی حقیقت اور انبیائے کرام کے معجزات کی حقیقت میں اختلاط و اشتباہ ہونے لگا اور لوگ جادوگری کو مقدس اورقابل اتباع سمجھنے لگے اور کچھ لوگ جادو کو نیک کام سمجھ کر اس کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اشتباہ اور غلط فہمی کو دفع کرنے کے لئے بابل میں دوفرشتے ہاروت وماروت کو بھیجا تاکہ لوگوں کو سحر کی حقیقت اور اس کے شعبے سے مطلع کردے اور اشتباہ جاتا رہے اور جادو پر عمل کرنے اور جادوگروں کی اتباع کرنے سے اجتناب کریں۔ [7]

 

مولاناعبدالماجددریاآبادیؒ کی رائے:

 

مولانانے لکھا ہے کہ بعض اہل تفسیر نے یہودیوں کا بیان کیا ہوا ملک عراق کی ایک رقاصہ زہرہ کا ایک قصہ نقل کیا ہے۔ لیکن اول تو اس آیت کی تفسیر اس قصے پر موقوف کسی درجے میں بھی نہیں، دوسرے خود محدثین اور محققین تفسیر نے اس کی صحت سے بالکل انکار کردیا ہے اور صاف لکھ دیا ہے کہ یہ قصہ بالکل گھڑا ہوا ہے لغو اور مردود ہے، اس گروہ میں قاضی عیاض، امام رازی اور شہاب الدین عراقی وغیرہ مشہور ہیں.[8]

 

علامہ سیوطیؒ اور علامہ صاویؒ کی آراء کا عقلی جائزہ

 

عقلی اعتبار سے بھی یہ واقعہ ناقابل تسلیم ہے کیونکہ اس مسئلے پر اجماع امت ہے کہ فرشتے معصوم ہیں ان سے گناہوں کا صدور نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بیان کردیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی نہیں کرتے، ان کو جو حکم دیاجاتا ہے وہی کرتے ہیں۔

 

اس واقعے کے سلسلے میں اب تک جتنی بھی روایتیں ذکر کی گئی ہیں ان سب سے اللہ تعالیٰ کے کلام کی تردید ہوتی ہے۔ نیز بعض روایتوں کا یہ انداز بیان کہ ”جب اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے کہا کہ تم بھی جب دنیا میں جاؤگے تو میری نافرمانی کرنے لگوگے تو فرشتوں نے اللہ کے کلام کو رد کردیا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے“۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کا رد کرنا خود کفر ہے، کوئی بھی شخص ”جسے ذرہ بھی اللہ اور اس کی صفتوں کا علم ہے“اسےتسلیم نہیں کرسکتا، فرشتے تواس سے بھی بہت ہی بلند وبالا ہیں۔ مزیدبرآں! کتنی حیرت اور جسارت کی بات کہی گئی ہے کہ ایک زانیہ اور بدکار عورت اڑ کر آسمان کی طرف چلی گئی اور اس کو ایک روشن ستارہ بنا کر ہمیشہ کے لئے ایک اعزاز وافتخار دے دیا گیا۔ علامہ آلوسیؒ نے بھی عقلی طور پر اس قصے کی خوب تردید کی ہے کہ ”زہرہ ستارہ کا وجود تو اسی دن سے جس دن سے یہ آسمان اور زمین پیدا کئے گئے ہیں“۔ اور یہ واقعہ جیسا بیان کیا جاتا ہے کہ گویا اس واقعے سے پہلے اس ستارے کا وجود ہی نہیں تھا حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔

 

قصہ ’’الذین خرجوا من دیارھم...“میں اسرائیلیات

 

قرآن کریم کے دیگر واقعات کی طرح اس سبق آموز سچے اور حقیقی واقعہ کی شمع صداقت کو بھی اسلام دشمنوں نے اسرائیلی روایتوں کے افسانوی فانوس سے ڈھانک دینے کی ناپاک کوشش کی ہے، اور اتفاق سے ہمارے حضرات مفسرین نے بھی یہ تمام بے سروپا من گھڑت اسرائیلی روایات اپنی تفاسیر میں نقل کی ہیں۔ اب یہاں ہم نے یہ جائزہ لینا ہے کہ تفسیرجلالین میں تو اس قسم کی کوئی روایت موجود نہیں؟سو اس حوالے سے یہ سمجھ لیں کہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں نکلنے والوں کی تعداد، عرصہ وفات، عرصہ حیاۃ ثانیہ اور اس دوسری مرتبہ کی زندگی کے عجیب وغریب حالات بیان کرتے ہوئے تفسیر جلالین میں علامہ سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ:

 

الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف ”اربعۃ اوثمانیۃ او عشرۃ او ثلاثون او اربعون او سبعون الفا“ حذرالموت ”...... وھم قوم من بنی اسرائیل وقع الطاعون ببلادھم ففروا“ فقال لھم اللہ موتوا ”فماتوا“ ثم احیاھم ”بعد ثمانیۃ ایام او اکثر بدعاء نبیھم حزقیل.... فعاشوا دھرا علیھم اثرالموت لا یلبسون ثوبا الا عاد کالکفن واستمرت فی اسباطھم“۔[9]

 

تفسیرجلالین کی اس روایت پر تنقید وتبصرہ

 

آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ اس آیت مبارکہ میں پچھلی امتوں میں سے کسی ایک امت کا حوالہ دے کر بس صرف اور صرف یہ بتایا گیا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود دشمن کے مقابلہ یا کسی بیماری کے خوف سے گھروں سے بھاگ نکلے تھے مگر پھر بھی وہ لوگ اس سے نہ بچ سکے، اللہ تعالیٰ نے ان کو موت کی سزا سنا دی اور سزا بھگتنے کے بعد دوبارہ ان کو زندہ کردیا۔اب سوال یہ ہے کہ اس واقعہ کے سلسلے میں ”تفسیرجلالین میں مذکور تفصیلات“ کیسے اور کہاں سے نمودار ہوئے ہیں؟ سو اس حوالے سے حضرات علماء حق کی آراء پیش کردیاجاتا ہے تاکہ صحیح اور معتمد بات واضح ہوکر سامنے آجائے۔

 

آیت مبارکہ کی تفسیر میں علماء کی آراء

 

حضرت مولانامفتی محمدمختارالدین شاہ صاحب کی رائے:

 

حضرت مفتی صاحب اس سلسلہ میں ایک جامع تبصرہ کرتے ہوئے اپنی تفسیر’’البرھان فی توضیح آیات الرحمٰن“ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں پچھلی امتوں میں سے کسی امت کے ایک واقعہ کا حوالہ دے کر بتایاہےکہ وہ بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود دشمن کے مقابلے یا کسی بیماری کے خوف سے گھروں سے بھاگ نکلے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو موت کی سزادی اور پھر دوبارہ زندہ کیا۔یہ واقعہ کس قوم کو پیش آیا؟ اور یہ لوگ کون تھے؟ کہاں کے رہنے والے تھے؟ اور کس دور میں گزرے ہیں؟ اور ان کو موت کا خطرہ کیسے لاحق ہوگیا؟ دشمن یا کسی خطرناک بیماری سے؟ اس کے بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں اور بہت سے مفسرین نے اس واقعہ کی کچھ تفصیلات بھی بیان کی ہیں لیکن اس واقعہ کی تفصیل میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ تقریباً تمام تر اسرائیلیات”یعنی بنی اسرائیل کی کتابوں اور تاریخ“ سے لیا گیا ہے جن میں حق وباطل اور سچ وجھوٹ باہم ملا ہواہے۔[10]

 

حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحبؒ کی رائے:

 

قرآن کریم نے ”وھم الوف“ میں ہزاروں کا حوالہ دے کر اس بات کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ یہ لوگ اس قدر بزدل اور بے ہمت تھے کہ ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود دشمن کے مقابلہ سے ڈر کر بھاگ نکلے تھے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہلوگ کتنے ہزار تھے؟ اور ان کی صحیح تعداد کیا تھی؟ اس حوالے سے قرآن کریم بالکل خاموش ہے، اور اسی میں قرآن کا جمال اور خوبصورتی بھی ہے۔لیکن حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحبؒ نے یہاں اس جگہ لکھا ہے کہ قرآن کریم نے لفظ ‘‘الوف’’لاکر ان کی تعداد کی طرف ایک لطیف اشارہ یہ کیا ہے کہ عربی زبان کے قاعدہ سے یہ لفظ جمع کثرت ہے جس کا اطلاق دس سے کم پر نہیں ہوتا اس لئے اس سے یہ معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی تعداد دس ہزار سے کم نہ تھی۔[11]

 

قصہ تابوت سکینہ میں اسرائیلیات

 

تابوت سکینہ کے حوالے سے صاحب تفسیرجلالین اور اس کے محشیؒ نے درج ذیل دو باتیں ایسی

 

تحریر کی ہیں جو بلاشبہ بنی اسرائیل کے جھوٹ اور افسانوں پر مشتمل ہیں:

 

پہلی بات: تابوت میں کیا چیز تھی؟ علامہ سیوطیؒ نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ تابوت اس صندوق کا نام ہے جو حضرت آدم پر اترا تھا اور اس میں تمام انبیاء کی تصویریں تھیں۔ علامہؒ کے الفاظ یہ ہیں:”التابوت الصندوق کان فیہ صورالانبیاء، انزل اللہ تعالیٰ علی آدم واستمرالیہم فغلبتھم العمالقہ علیہ واخذوہ وکانوا لیستفتحون بہ علی عدوھم“[12]

 

دوسری بات: سکینہ کی حقیقت اور صفت کے بارے میں کہ سکینہ کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ تفسیر جلالین کے محشی نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ:”صورۃ کانت فیہ من زبرجد او یاقوت، لھا رأس وذنب کرأس الھرۃ وذنبھا،وجناحان ویسیر التابوت بسرعۃ نحوالعدو ویتبعونہ، فاذااستقر ثبتوا وسکنوا ونزل النصر“[13]

 

اقوال علماء کی روشنی میں دونوں قولوں کا تحقیقی جائزہ

 

قاضی بیضاویؒ کا نقدوتبصرہ:

 

قاضی بیضاویؒ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں زبرجد یایاقوت کی ایک مورتی تھی جس کا سر اور دم بلی کی طرح تھا اس کے دو بازو تھے وہ پھڑپھڑانے لگتی تھی تو تابوت دوڑنے لگتا تھا بنی اسرائیل اس کے پیچھے پیچھے دوڑتے تھے جب وہ ٹھہر جاتا تو وہ جم کر لڑتے تھے اوراللہ کی مدد آجاتی تھی۔نیز بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آدمؑ سے لیکر حضورﷺتک تمام پیغمبروں کی اس میں تصویریں تھیں[14]

 

ان دونوں قولوں کو قاضی بیضاویؒ نے قیل کے لفظ سے ذکر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شروع سے جو بات تابوت کی تشریح میں انہوں نے کہی ہے وہ صحیح ہے اور وہی راجح قول ہے۔

 

علامہ آلوسیؒ کا نقدوتبصرہ:

 

علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں بہت سی روایتیں نقل کی جاتی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ تابوت حضرت آدمؑ پر اترا تھا اور اس میں تمام پیغمبروں کی تصویریں تھیں …………اس روایت کے علاوہ اور روایتیں اور خبریں بھی ہیں مگران میں سب سے زیادہ قرین قیاس وعقل جو قول ہے وہ یہی ہے کہ وہ تورات کے رکھنے کا صندوق تھا جس پر عمالقہ نے قبضہ کرلیا تھا پھر اللہ نے اس تابوت کو بنی اسرائیل میں لوٹا دیا تھا۔

 

ٍمیں نے تابوت کے بارے میں کوئی ایسی صحیح مرفوع حدیث نہیں پائی جس پر اعتماد اور بھروسہ کیا جاسکے اور اس کی کنجی سے اس صندوق کو کھولا جاسکے اور نہ عقل وفکر کے پاس اس کی حقیقت وواقفیت معلوم کرنے کی کوئی تدبیر ہے۔[15]

 

علامہ نسفیؒ کا نقد وتبصرہ:

 

علامہ نسفیؒ نے بھی اپنی تفسیر میں یہی لکھا ہے کہ وہ تبرکات کا ایک صندوق تھا جس میں توریت اور حضرت موسیؑ کے متروکات تھے۔[16]

 

شیخ الہند،حضرت تھانوی اور مفتی شفیع کا نقدوتبصرہ:

 

شیخ الہندؒ نے اپنے ترجمہ کلام پاک کے فوائد میں تحریر فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک صندوق چلا آرہا تھا، حضرت موسیؑ اور دوسرے انبیاء بنی اسرائیل کے اس میں تبرکات تھے، بنی اسرائیل اس تابوت کو جنگ میں آگے رکھتے تھے اور اس کی برکت سے اللہ ان کو فتح دیتا تھا، جب ان پر جالوت غالب آیا تو وہ یہ صندوق بھی لے گیا، جب اللہ کو صندوق واپس کرنا منظور ہوا تو یہ کیا کہ وہ کافر اس صندوق کو جہاں رکھتے وہاں وبا اور بلا آجاتی تھی اور پانچ شہر ویران ہوگئے، ناچار ہوکر دوبیلوں پر اس کو لاد کر ہانک دیا، فرشتے بیلوں کو ہانک کر طالوت کے دروازے پر پہنچاگئے، بنی اسرائیل اس نشانی کو دیکھ کر طالوت کی بادشاہت پر یقین کرنے لگے اور طالوت نے جالوت پر فوج کشی کی۔[17]”یہی رائے مفتی محمدشفیعؒ اور مولانا تھانویؒ کی بھی ہے، جیسا کہ انہوں نے اپنی اپنی تفسیروں میں لکھا ہے“۔

 

مولاناعبدالماجد دریاآبادیؒ کا نقدوتبصرہ:

 

مولانا اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس خاص صندوق کا اصطلاحی نام تابوت سکینہ ہے، یہ بنی اسرائیل کا اہم ترین قومی وملی سرمایہ تھا اور ان کا ورثہ تھا، اس کے اندر اصلی نسخہ توریت مع تبرکاتِ انبیاء محفوظ تھا۔ اسرائیل اس کو انتہائی برکت وتقدیس کی چیز سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ برتاؤ انتہائی احترام کا رکھتے تھے۔[18]

 

قصہ میدان تیہ میں اسرائیلیات

 

میدان تیہ کے سلسلہ میں ویسے تو دسیوں، بیسیوں مقامات پر متعدد اسرائیلی روایات پائے

 

جاتے ہیں لیکن علامہ سیوطیؒ نے تفسیرجلالین میں سوائے ایک روایت کے اور کوئی اسرائیلی روایت ذکر نہیں کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ میدان تیہ میں بنی اسرائیل کی تعداد کیاتھی؟ سو اس حوالے سے علامہ سیوطیؒ نے ان کی تعداد چھ لاکھ بتائی ہے۔

 

تفسیر جلالین کے اس قول پر تنقید وتبصرہ

 

اب سوال یہ ہے کہ علامہ سیوطی کی بتائی ہوئی یہ تعداد صحیح بھی ہے کہ نہیں؟ سو اس حوالے سے بس اتنا سمجھ لیں کہ قرآن کریم پر نظر کرنے والے جانتے ہیں کہ قرآن کریم کوئی قصہ کہانییا تاریخ کی کتاب نہیں ”جس کا مقصد کسی واقعہ کو اول تا آخر بیان کرنا ہو“ بلکہ قرآن کا اسلوب ہر جگہ یہ ہے کہ موقع بہ موقع کوئی واقعہ بیان کرتا ہے اور اکثر پورا واقعہ بھی ایک جگہ بیان نہیں کرتا بلکہ اس کے جتنے حصہ سے اس جگہ کوئی مقصد متعلق ہوتا ہے اس کا وہی ٹکڑا یہاں بیان کردیا جاتا ہے۔

 

اب قابل غور بات یہ ہے کہ وہ واقعات جن کو قرآن کریم نے مجمل چھوڑا ہے یا ان میں جزوی تفصیلات کے بیان کرنے کو غیر ضروری سمجھاہے اور احادیث صحیحہ میں بھی اس کی کوئی صراحت نہیں ملتی تو پھر ان مجمل واقعات کی تشریح، غیر مستند اور من گھڑت واقعات سے کرنے کی ضرورت کیا پڑی ہے جبکہ آیت کی تفسیر ان کی محتاج بھی نہیں ہے؟ ایک سچے اور حقیقی واقعہ کی صداقت کو مشکوک بنانے والی ان غیر مستند روایتوں سے کیا احتیاط ہی زیادہ بہتر نہیں ہے؟ میدان تیہ میں بنی اسرائیل کی تعداد وغیرہ دسیوں باتوں کا اضافہ کرکے واقعہ کو دلچسپ اور عبرتناک بنانے کا آخر فائدہ کیا ہے؟غرض یہ کہ جن باتوں کا قرآن کریم میں کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی اس سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث موجود ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ سب سلسلہ اسرائیلیات کی کڑی ہے اور اہل کتاب کی حاشیہ آرائی ہے۔ذیل میں اپنے اسلاف اور اکابرین کی آراء قلمبند کردیاجاتا ہے تاکہ ان کا نقطہ نگا ہ معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ حق بات بھی واضح ہوکر سامنے آجائے ”وباللہ التوفیق“۔

 

مولانامحمد نظام الدین اسیرادروی کی رائے:

 

مولانا لکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی اگر چھ لاکھ فوج تسلیم کی جائے تو یہ حقائق سے روگردانی ہوگی، نہ تو اتنی بڑی تعداد کے لئے ان کی حکومت میں طاقت تھی اور نہ ہی اس کی گنجائش تھی، بنو اسرائیل اور حضرت موسیٰ کے درمیان صرف چار پشتوں کا فرق ہے کیونکہ حضرت موسیٰکا سلسلہ نسب ”موسی بن عمران بن یصہر بن قاہث بن لاوی بن یعقوب“ ہے، اور یہی حضرت یعقوبؑ اسرائیل کہلائے جاتے ہیں جن کی اولاد کو قرآن میں بنواسرائیل کہا گیا ہے، حضرت یعقوبؑ کے صاحبزادے حضرت یوسفؑ کے زمانہ میں جب مصر آئے تو ان کے ساتھ ان کے لڑکے پوتے اور نواسے تھے”جن کی کل تعداد 70 تھی“ ان لوگوں نے مصر میں اقامت کی اور یہیں رہے، یہی لوگ موسیؑ کے زمانہ میں فرعون کے ظلم وستم سے تنگ آکر مصر سے نکلے تھے اور فرعون غرق دریا ہوا تھا اور موسیٰ کے ساتھ یہی نکلنے والے میدان تیہ میں تھے۔ لہٰذا یہ کسی طرح قابل قبول اور عقل میں آنے والی بات نہیں کہ صرف چارپشتوں میں سترنفر سے چھ لاکھ کی تعداد ہوجائے اوروہ بھی صرف فوجی اور دوسرے عام لوگ ان کے علاوہ ہوں۔[19]

 

علامہ ابن خلدونؒ کی رائے:

 

علامہ ابن خلدونؒ نے اپنے مشہور مقدمہ تاریخ میں ایک نفیس اور مدلل بحث کرکے روایت کی مبالغہ آرائی کا قلعہ قمع کردیا ہے اوربحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مفسرینؒ نے بنی اسرائیل کی چھ لاکھ جو تعداد بتائی ہے حقائق وواقعات اس کی تردید کرتے ہیں، مصر وشام کی آبادی اور ان کی حکومتوں کی فوجی طاقت کے پیش نظر چھ لاکھ فوجیوں کا ہونا قطعاً ناممکن ہے، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مصروشام سے کہیں بڑی فارس کی حکومت تھی اور مصروشام پر حاوی بھی تھی اور اس زمانہ میں بیت المقدس کی تبائی وبربادی میں بھی اس کا ہاتھ تھا، اس کی حکومت کی حدود عراق، خراسان اور ماوراء النہر تک تھیں اور بنو اسرائیل سے کہیں زیادہ وسیع ملک ان کے زیر حکومت تھا، ان تمام وسعت وعظمت اور حکومت کے باوجود فارس والوں کے پاس کبھی اتنی بڑی فوج نہیں رہی، ان کی سب سے بڑی فوج جو قادسیہ میں مقابلہ پر آئی وہ دو لاکھ بیس ہزار تھی، حضرت سعدؓ سے جب رستم کا مقابلہ ہوا تو ان کی کل تعداد ساٹھ ہزار فوجیوں کی تھی۔نیز بحث کے آخر میں روایت کرنے والوں کے سلسلہ میں علامہؒ نے لکھا ہے:

 

”لم نجد معشار ما یعدونہ، وما ذلک الا لِوُلُوْع النفس بالغرائب وسہولۃ التجاوز علی

 

اللسان والغفلۃ علی المتعقب والمنتقد، حتی لایحاسب نفسہ علی خطاء ولا عمد، ولا یطالبہ الی الخبر بتوسط ولا عدالۃ، ولا یراجعہا الی بحث وتفتیش، فیرسل عنانہ ویسیم فی مراتع الکذب لسانہ، ویتخذ آیات اللہ ہزوا ویشتری لھوالحدیث لیضل

 

عن سبیل اللہ“۔[20]

 

قصہ نزول مائدہ میں اسرائیلیات

 

قصہ نزول مائدہ کے سلسلے میں علامہ سیوطیؒ نے تفسیر جلالین میں درج ذیل دو قابل گرفت باتیں کی ہیں: [21]

 

پہلی بات: مائدہ کی حقیت کے بارے میں ہے کہ اس میں کیا تھا؟ علامہ سیوطیؒ نے حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:فنزلت الملائکۃ بھا من السمآء سبعۃ ارغفۃ وسبعۃ احوات، فاکلوا منھا حتیٰ شبعوا۔

 

دوسری بات: مائدہ نازل ہونے کے بعد کیا ہوا؟ کیا ان کی صورتیں مسخ ہوگئی تھی؟ مسخ ہوکر کیا بنے تھے؟ اس حوالے سے علامہ سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ:وفی حدیث: انزلت المائدۃ من السمآء خبزا ولحما، فامروا ان لایخونوا ولا یدخروا لغد، فخانوا وادخروا، فرفعت، فمسخوا قردۃ وخنازیر۔

 

تفسیرجلالین کی ان دونوں روایتوں کا تحقیقی جائزہ

 

تفسیرجلالین کا پہلا قول اور اس پر تنقید وتبصرہ:

 

مائدہ کی حقیقت کے بارے میں کہ اس میں کیا تھا؟ سو اس حوالے سے حضرت ابن عباسؓ، کعب احبارؒ اور وھب ابن منبہؒ سے متعدد سندوں کے ساتھ مختلف روایات منقول ہیں جن میں سے ایک روایت ابھی اوپر بحوالہ تفسیرجلالین ”حضرت ابن عباس سے منسوب“ نقل کی گئی ہے مگر ان ساری روایتوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان روایتوں کا تعلق اس صادق ومصدوق کی ذات گرامی سے نہیں ہے جو صرف ایک حقیقت بیان کرنے پر اکتفاء کرے۔ نیز حضرت ابن عباسؓ کی متعدد روایتیں خود ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور اسی طرح ابن منبہ وغیرہ کی ہر روایت ایک دوسرے کی تردید کرتی ہے، اس لئے کوئی بھی روایت قابل اعتماد نہیں ہے۔مشہور مفسر محمدابن احمدالقرطبیؒ نے ان روایتوں کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ”لا یصح من قبل اسنادہ“اور اسی طرح حافظ ابن کثیرؒ نے بھی ان روایتوں کو ذکر کرکے اپنی یہ رائے لکھی ہے کہ یہ سب روایتیں عجیب وغریب ہیں۔

 

تفسیرجلالین کا دوسراقول اور اس پر تنقید وتبصرہ:

 

مائدہ نازل ہونے کے بعد کیا ہوا؟ کیا ان کی صورتیں مسخ ہوگئی تھی؟ مسخ ہوکر کیا بن گئے تھے؟اس حوالے سے بھی متعدد بے بنیاد روایتوں کا سہارا لیا جاتا ہے، جیسا کہ ابھی اوپر بحوالہ تفسیر جلالین ایک روایت نقل کی گئی ہے مگر اس روایت کے حوالے سے کچھ قابل غور امور ہیں جن کو ترتیب وار درج کردیاجائے گا۔

 

(۱)قرآن کریم کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مائدہ نازل ہونے کے بعد کفر کرے گا تو اس کو اس طرح کا عذاب دیا جائے گا جو اس پورے عالم میں کسی کو نہیں دیا جائے گا، لیکن سابقہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر کرنے کا جو عذاب دیا گیا تو وہ یہ تھا کہ ان کی شکلیں مسخ ہوکر خنزیر اور بندر بن گئے۔ اب قابل غور بات یہ ہے کہ اس روایت میں عذاب کی جو نوعیت بتائی جارہی ہے یہ کوئی ایسا عذاب نہیں جو اس عالم میں کسی اور کو نہ دیاگیا ہو۔ چنانچہ قرآن کریم میں اصحاب سبت یعنی یہودیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار نہ کریں، مگر ہفتہ کے روز مچھلیاں پانی سے سر نکال کر ظاہر ہوتی تھیں اور عام دنوں میں دور کہیں چلی جاتی تھیں تو ان میں سے بعض نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی تب اللہ نے ان کو سخت عذاب میں پکڑ لیا اور ان کو حکم دیا کہ ذلیل بندر بن جاؤ۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا عذاب یہودیوں کو پہلے بھی دیا گیا تھا۔

 

(۲)ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اس رایت میں ہے کہ مسخ ہونے کے بعد یہ لوگ بندر اور خنزیر بن گئے تھے حالانکہ تفسیرالدرالمنثور میں علامہ سیوطیؒ نے ”مسخ شدہ اقوام کے بارے میں“ ایک طویل روایت نقل کی ہے جس میں آتا ہے کہ:[22]

 

سورخنزیراصل میں وہ نصاری تھے جنہوں نے حضرت عیسیؑ سے کہا تھا کہ اپنے رب سے مائدہ طلب کیجئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مائدہ اتارا، مگر اس کے بعد بھی ان لوگوں نے کفر کیا جس کی وجہ سے ان لوگوں کو خنزیر بنادیا گیا۔ اور بندر ان لوگوں کی نسل میں سے ہے جن کو سنیچر کے دن شکار کھیلنے سے منع کیا گیا تھا مگر ممانعت کے باوجود وہ باز نہیں آئے۔ اس لئے انہیں بندر بنادیا گیا، بندر انہی کی نسل سے ہیں۔

 

اور یہی بات علامہ سیوطیؒ نے بھی”تفسیرجلالین میں ایک اور مقام پر“کہی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ:

 

لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داؤد ”بان دعا عیلھم فمسخوا قردۃ،

 

وھم اصحاب ایلۃ“ وعیسی ابن مریم ”بان دعا علیھم فمسخوا خنازیر، وھم اصحاب المائدہ“ ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون۔[23]

 

اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اصحاب مائدہ خنزیر تو بن گئے تھے مگر بندر نہیں، بندر کچھ اور نافرمان لوگ ”جو اصحاب السبت کے نام سے مشہور ہیں“ بنے تھے۔

 

(۳)ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ تفسیر جلالین کی مذکور روایت میں سبب مسخ یہ بتایا گیا ہے کہ: ان کو حکم ہوا تھا کہ اب مائدہ نازل ہونے کے بعد تم خیانت نہ کرنا اور آئندہ کے لئے ذخیرہ اندوزی بھی نہیں کرنا مگر انہوں نے حکم نہیں مانا ااور نافرمانی کی، جس کی وجہ سے وہ لوگ بندر اور خنزیر بن گئے تھے۔مگر تفسیر جلالین کے مشہور محشی ”علامہ صاویؒ“ نے ایک روایت ذکر کی ہے جس میں سبب مسخ کچھ اور بتایا گیا ہے، اور وہ روایت یہ ہے:

 

وفی روایۃ: ان سبب مسخھم انہ بعد تمام اربعینیوما من نزولھا اوحی اللہ الی عیسی ان اجعل مائدتی ہذہ للفقراء دون الاغنیاء، فتماری الاغنیاء فی ذلک، وعادوا للفقراء، فمسخوا قردۃ وخنازیر۔[24]

 

(۴)آخر میں ایک قابل غور بات یہ رہ جاتی ہے کہ ٹھیک ہے مائدہ نازل ہونے کے بعد ان کی شکلیں مسخ ہوگئی تھیں، مگر یہ سوال ضرور ہوتا ہے کہ آخر ان مسخ ہونے والوں کی تعداد کیا تھی؟ سو علامہ صاوی نے تفسیر جلالین کے حاشیہ میں مسخ ہونے والوں کی تعداد ”330“ بتائی ہے، وہ لکھتے ہیں:

 

فمسخ اللہ منھم ثلاث ماءۃ وثلاثین رجلا باتوا لیلتھم مع نسائھم ثم اصبحواخنازیر، فلما ابصرت الخنازیر عیسی بکت، وجعل یدعوھم باسمائھم

 

فیشیرون برؤسھم ولا یقدرون علی الکلام...... [25]

 

جبکہ تفسیر جلالین کی متن میں ایک اور جگہ لکھا ہے کہ ان مسخ ہونے والوں کی تعداد ”500“ تھی، ذیل میں تفسیر جلالین کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

 

لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داؤد ”بان دعا عیلھم فمسخوا قردۃ،

 

وھم اصحاب ایلۃ“ وعیسی ابن مریم ”بان دعا علیھم فمسخوا خنازیر، وکان خمسۃ الٓاف رجل، وھم اصحاب المائدہ“..[26]

 

اس لئے کہنا پڑے گا کہ مذکور شہادتِ قرآنیہ، عبارات سابقہ اور روایات متضادہ، خود ہی اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ تفسیر جلالین میں مذکور روایت کا تعلق اس صادق ومصددق ذات گرامیﷺ سے نہیں ہے۔”واللہ اعلم“

 

مولانامحمدنظام الدین اسیرادرویؒ کی رائے:

 

ان روایتوں کے بارے میں مولانااسیرادروی کا ایک بہترین جامع تجزیہ ملاحظہ فرمائیں، وہ لکھتے ہیں کہ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ان روایتوں کی تفصیلات جانے بغیر آیت قرآنی کا مفہوم واضح ہوتا ہے یا نہیں؟ اور قرآن کا مقصد ظاہر ہوتا ہے یا نہیں؟اس کا صاف جواب یہی ہے کہ آیات قرآنی کا مفہوم او رمقصد ان تفصیلات سے قطعاً بے نیاز ہے، قرآن کا مقصد ان تفصیلات کا بیان کرنا ہی نہیں ہے، وہ حضورﷺ کے ذریعہ مشرکین کو جو بتانا چاہتا ہے وہ بس اتنا ہی ہے جتنا الفاظ قرآنی کہتے ہیں، قرآن پاک کی ان آیتوں کی صحیح تفسیر صرف یہی ہے کہ حضرت عیسیؑ کے مخلصین نے ان سے نزول مائدہ کی درخواست کی تھی،یہ مطالبہ کسی ایمانی کمزوری کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ حضرت ابراہیمؑ کی طرح طمانیتِ قلب کے لئے تھا۔بہرحال! انزالِ مائدہ کا اللہ نے وعدہ کرلیا اور مائدہ نازل بھی کردیا مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ قرآن اس کے بارے میں خاموش ہے، کسی لفظ سے بھییہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے نزول مائدہ کے بعد کفر کیا اور ان کی صورتیں مسخ کردی گئیں اور نہ ہییہ بات کہی گئی کہ وعید کے بعد وہ اپنے مطالبہ سے باز آگئے تھے ۔حاصل یہ کہ نزول مائدہ میں مذکور چھوٹے چھوٹے اور جزئی تفصیلات وواقعات ”جو اس تسلسل اور ترتیب کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں جیسے کوئی چشم دید واقعہ بیان کیا جارہا ہے“ جب قرآن کریم میں موجود نہیں اور نہ ہی احادیث صحیحہ میں کہیں ان کا پتہ چلتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ تفصیلات کہاں سے معلوم ہوگئیں؟ اور ان تفصیلی روایات کا سرچشمہ کہاں ہے؟[27]

 

حضرات علماء اور محققین کا تو ابھی اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ نزول مائدہ ہوا بھی ہے یا نہیں؟ حضرت حسن بصریؒ اور قتادہؒ تو سرے سے نزول مائدہ کا انکار کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے اتنی سخت وعید کے ساتھ نزول مائدہ کو مشروط کردیا گیا تھا کہ ان لوگوں نے عذاب خداوندی میں گرفتار ہوجانے کے خوف سے یہ سوال ہی ختم کردیا اور کہہ دیا کہ ہم مائدہ کے طلب گار نہیں، لیکن جمہور علماء کی یہی رائے ہے کہ مائدہ نازل ہوا تھا اور قرآنِ کریم کے اندازِ بیان سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔[28]

 

قصہ قوم عاد میں اسرائیلیات

 

قوم عاد کے واقعے کے سلسلے میں تفسیرجلالین میں علامہ سیوطیؒ نے ”سوائے ایک مقام کے“ کسی مقام پر کوئی اسرائیلی روایت ذکر نہیں کی ہے، اور وہ مقام یہ ہے کہ قوم عاد کی جسموں کی لمبائی کیا تھی؟ سو اس حوالے سے علامہ سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ قوم عام کی جسموں کی لمبائی ساٹھ تا سوہاتھ تھی، ذیل میں تفسیرجلالین کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

 

واذکروا اذ جعلکم خلفاء ”فی الارض“ من بعد قوم نوح وزادکم فی الخلق بصطۃ ”قوۃ وطولا، وکان طویلھم ماءۃ ذراء وقصیرھم ستین“ فاذکروا الٓاء اللہ لعلکم تفلحون۔[29]

 

تفسیرجلالین کی عبارت پر تنقیدوتبصرہ

 

علامہ سیوطیؒ کی بات کس حد تک صحیح ہے؟ اس حوالے سے صرف اتنا سمجھ لیں کہ شریعت مطہرہ کا مزاج ہمیشہ سے یہ ہے کہ وہ بس صرف کسی چیز کی حقیقت اور اس کی روح کو بتاتی ہے، اس چیز کی جزوی تفصیلات پر بات کرنا یہ قرآن کریم کا اسلوب نہیں ہے۔ قرآن کریم تو ایک جامع کتاب ہے جو صرف کلیات کو بتاتا ہے۔ لہٰذا وہ چھوٹی موٹی باتیں جن کا قرآن میں ذکر نہیں اور نہ ہی اس سلسلہ میں کوئی حدیث موجود ہے تو اس کے بارے میں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ سب سلسلہ اسرائیلیات کی کڑی اور اہل کتاب کی حاشیہ آرائی ہے۔ (یہ اسی طرح کی افسانہ طرازی ہے جیسی عمالقہ یعنی قوماًجبارینکے قدوقامت کے ذکر میں کی گئی ہے”ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے“) وہ یقینی طور پر انتہائی طاقتور اور بڑے قدآور لوگ تھے لیکن اس سے قطعاً یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کے قدوقامت عام انسانی قدوقامت کے مقابلہ میں محیرالعقول اور جداگانہ تھے،یہ ساری باتیں اہل کتاب کی روایتوں کے ذریعہ ہماری کتابوں میں آگئی ہیں۔نیزاس حوالے سے تفسیر جلالین کی روایت کو ”بالفرض والمحال“ اگر صحیح تسلیم بھی کرلیا جائے تو قابل اعتراض بات یہ ہے کہ قدوقامت کے بارے میں تو متعدد روایات پائے جاتے ہیں (علامہ سیوطیؒ کے قول کے مطابق ان کی لمبائی ”60 سے 100 ہاتھ“ تھیجبکہ ان کے استاذعلامہ جلال الدین محلیؒ نے تفسیر جلالین جلد ثانی میں بلا اختیار ان کی لمبائی چارسوہاتھ لکھی ہے[30]) مگر ہر ایک کا دوسرے سے متصادم اور ہر روایت کا دوسرے کی تردید کرنااس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ سب اسلام دشمنوں کی وہ من گھڑت باتیں ہیں جو لاشعوری طور پر ہماری تفسیروں میں داخل ہوگئی ہیں۔ ”واللہ اعلم بحقیقۃ الحال“

 

قصہ الواح تورات میں اسرائیلیات

 

الواح تورا کے سلسلے میں بھی دسیوں مقامات پر اسرائیلیات پائے جاتے ہیں، لیکن علامہ سیوطیؒ نے تفسیرجلالین میں سوائے ایک روایت کے اور کوئی روایت ذکر نہیں کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ الواح تورات ”یعنی تورات کی تختیوں“ کی حقیقت اور تعداد کیا تھی؟ سو اس حوالے سے علامہ سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ وہ تختیاں جنت والے بیر کے درخت کی تھیں،یا زبرجد کییازمرد کی، اور ان کی تعداد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ سات یا دس تختیاں تھیں۔ ذیل میں تفسیرجلالین کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

 

وکتبنا لہ فی الالواح ”ای الواح التوراۃ وکانت من سدرۃ الجنۃ او زبرجد او زمرد، سبعۃ اوعشرۃ“ من کل شیئ ”یحتاج الیہ فی الدین“ موعظۃ وتفصیلاً لکل شیئ۔[31]

 

تفسیرجلالین کے اس قول پرتنقید وتبصرہ

 

الواح تورات ”تورات کی تختیاں کس چیزکی تھی؟ اور ان کی تعداد کیا تھی؟ اس حوالے سے تفاسیرمیں درج ذیل متعدد روایات پائی جاتی ہیں: [32]

 

(۱)ایک روایت میں ہے کہ وہ تختیاں جنت والے بیر کے درخت کی تھیں۔

 

(۲)حسنؒ کی روایت ہے کہ تختیاں لکڑی کی تھیں۔

 

(۳)لیکن کلبیؒ کی روایت ہے کہ وہ سبز زبرجد کی تھیں۔

 

(۴)سعید ابن جبیرؒ کی رائے ہے کہ وہ سرخ یاقوت کی تھیں۔

 

(۵)وکیعؒ کی روایت ہے کہ وہ دھاری دار چادر کی تھیں۔

 

(۶)ابن جریح کی روایت ہے کہ وہ زمرد کی تھیں اللہ نے جبرائیل کے ذریعے منگوائی تھیں۔

 

(۷)صاحب جلالینؒ نے لکھا ہے کہ یا تو جنت والے بیر کے درخت کی تھیںیا زبرجد کییا زمرد کی۔

 

(۸)وہب ابن منبہؒ کی روایت ہے کہ اللہ نے سخت چٹانوں کو تراش کر ان تختیوں کو بنانے کا حکم دیا تھا، اللہ نے ان چٹانوں کو نرم کردیا تھا، انہیں چٹانوں کو تراش کر تختیاں بنائی گئیں۔

 

غرض یہ کہ تفسیر ثعلبی، تفسیربغوی، تفسیرزمحشری، تفسیرقرطبی اور روح المعانی وغیرہ میں متعدد

 

اور ایک دوسرے سے متصادم روایتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے ہر روایت دوسرے کی تردید کرتی ہیں اور ان روایتوں میں صحابہؓ اور تابعینؒ کے اقوال کے ساتھ اہل کتاب مسلمانوں کیبھی روایتیں موجود ہیں ”جیسے کعب احبار اور وہب ابن منبہؒ وغیرہ“۔

 

علامہ آلوسیؒ کی رائے:

 

علامہ آلوسیؒ نے ان تمام روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد اپنی رائے ان لفظوں میں تحریر کی ہے کہ ”لایخفی ان امثال ہذا یحتاج الی النقل الصحیح والا فالسکوت اولی اذ لیس فی الایۃ مایدل علیہ“۔[33]

 

علامہ شوکانی کی رائے:

 

علامہ شوکانیؒ کا خیال ہے کہ اسلاف عموماً ان تختیوں کے بارے میں یہودی علماء سے پوچھا کرتے تھے، جس کی وجہ اس قسم کے بہت سارے اقوال ہمیں سننے کو ملتے ہیں۔ علامہ لکھتے ہیں:

 

”والذی یغلب بہ الظن ان کثیرا من السلف کانوا یسئلون الیہود عن ہذہ الامور فلھذا اختلفت واضطربت، فھذا یقول من خشب وہذا یقول من یاقوت وہذا یقول من زمرد وہذا یقول من زبرجد وھذا یقول من برد وہذا یقول من حجر“۔[34]

 

قصہ آدم میں اسرائیلیات

 

حضرت آدمؑ کے قصے میں مختلف مقامات پر متعدد اسرائیلی روایات موجود ہیں، لیکن علامہ سیوطیؒ نے اپنی تفسیر ”تفسیرجلالین“ میں ان میں سے کوئی اسرائیلی روایت کسی مقام پر ذکر نہیں کی ہے۔ ہاں البتہ ایک جگہ اس قسم کی ایک قابل گرفت اسرائیلی روایت ”جو حضرت آدم وحوا کی طرف نسبتِ شرک سے متعلق“ ضرور موجود ہے، جو کہ درج ذیل ہے:

 

وروی سمرۃ عن النبی ﷺ قال: ”لما حملت حواء طاف بہا ابلیس وکان لا یعیش لھاولد فقال: سمیہ عبدالحارث فانہ یعیش، فسمتہ فعاش، فکان ذلک من وحی الشیطان وامرہ“ رواہ الحاکم وقال صحیح، والترمذی وقال حسن غریب۔[35]

 

 

تفسیرجلالین کی اس روایت کا تحقیقی جائزہ

 

حافظ ابن کثیرؒ کا اس روایت پر تنقید وتبصرہ:

 

حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں بہت سے آثار اور حدیثیں بیان کی جاتی ہیں اور ان میں سے ایک مرفوع روایت حدیث سمرہ بن جندب بھی ہے جسے امام احمد، ابن جریر، ابوحاتم، امام ترمذی اور حاکم وغیرہ متعدد حضرات نے نقل کی ہے۔(تاہم امام ترمذیؒ نے آیت مبارکہ کی تفسیر میںیہ روایت لکھی ضرور ہے لیکن آخر میں اس روایت پر ان الفاظ کے ساتھ تبصرہ بھی کیا ہے اور وہ الفاظ یہ ہیں: ”ھذا حدیث حسن غریب لا نعرفہ الا من حدیث عمر ابن ابراہیم عن قتادۃ، ورواہ بعضھم عن عبدالصمد ولم یرفعہ“اور جہاں تک مستدرک حاکم کی بات ہے تو حاکم نے مستدرک میںیہ روایت نقل کرکے اگرچہ ”ھذاحدیث صحیح الاسناد“ کہا ہے لیکن امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیحین میں اس روایت کو نہیں لیا ہے)لیکن یہ روایت تین وجوہ سے معلول ہے: [36]

 

(۱)پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث سمرہ میں موجودراوی ”عمر ابن ابراہیم“یہ وہی بصری ہے جس کو یحیی ابن معین نے ضرور ثقہ کہا ہے لیکن ابو حاتم نے اس کے بارے میں ”لایحتج بہ“ لکھا ہے۔

 

(۲)دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ روایت جس طرح مرفوعاً نقل کی گئی ہے اسی طرح موقوفاً بھی نقل کی گئی ہے ”یعنی ایک روایت میں یہ حضورﷺ کا قول نہیں بلکہ خود سمرہ بن جندب کا قول کہا ہے“جیسا کہ معتمر کی روایت میں ہے:

 

”حدثنا المعتمر عن ابیہ قال: حدثنا بکر ابن عبداللہ عن سلمان التیمی عن ابی العلاء ابن الشخیر عن سمرۃ ابن جندب قال: سمی ادم ابنہ عبدالحارث۔“

 

(۳)تیسری وجہ یہ ہے کہ اس حدیث مرفوع میں سمرہ بن جندبؓ سے روایت کرنے والے خود حسن ہیں اور حسنؒ نے آیت کی تفسیر اپنے طور پر بھی کی ہے، اب اگر حسن کو سمرہ والی حدیث کا علم ہوتا تو وہ اس کو کیسے نظرانداز کرسکتے تھے؟ اگر ان کو علم ہوتا کہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حدیث مرفوع موجود ہے تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے کہ حضورﷺ کی بیان کردہ تفسیر کے ہوتے ہوئے اپنے طور پر اس کی تفسیر بیان کریں۔ نیز آیت کی تفسیر میں ”حضرت حسنؒ سے“ متعدد روایات منقول ہیں، ذیل میں آپ

 

انہیں ملاحظہ فرماسکتے ہیں:

 

ابن جریرؒ کی روایت میں آتاہے کہ حدثنا ابن الوکیع، حدثنا سہیل ابن یوسف عن عمرو عن الحسن (جعلالہ شرکاء فیما اتاہما) قال:کان ہذا فی بعض اہل الملل ولم یکن باٰدم۔

 

ایک دوسری روایت حضرت حسن سے اس طرح منقول ہے کہحدثنا محمدابن عبدالاعلی، حدثنا محمدابن ثور عن معمر قال قال الحسن: عنی بہا ذریۃ آدم ومن اشرک منھم بعدہ۔یعنی(جعلا لہ شرکاء فیما اتاھما) میں شرک کی نسبت آدمؑ کی طرف نہیں ذریت آدمؑ کی طرف ہے۔

 

ایک تیسری روایت بھی حضرت حسن سے اس طرح منقول ہے کہحدثنا بشر، حدثنا یزید، حدثنا سعید عن قتادۃ قال کان الحسن یقول:ہم الیہود والنصاری، رزقھم اللہ اولادا فھوّدوا ونصّروا۔

 

حاصل یہ کہ ”حضرت حسنؒ“ سے یہ جتنی روایتیں ذکر کی گئی ہیں ہر ایک کی سند صحیح ہے، ان صحیح الاسناد روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حسن نے آیت کی تفسیر بطور خود کی ہے، نہ کہ حدیث مرفوع کے ذریعہ، اگر حدیث مرفوع ان کے نزدیک محفوظ ہوتی تو اس سے ہٹنے اور اس کو چھوڑنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ نیزاس تفصیل سے یہ بات قطعی طور ثابت ہوجاتی ہے کہ اس سلسلہ میں حسن سے جو مرفوع روایت بیان کی جاتی ہے اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ موقوف روایت ہے، اور جب اس کا موقوف ہونا متعین ہوگیا تو یہ بھی احتمال پیدا ہوگیا کہ صحابی نے کسی ایسے اہل کتاب سے اس کو لیا ہو جو مسلمان ہوگیا ہو،جیسے کعب احبار وغیرہ۔

 

اور اہل کتاب کی خبروں سے متعلق علماءِ اسلام کا ایک فیصلہ ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے اہل کتاب کی روایتوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے اور تینوں کے الگ الگ حکم بیان کئے ہیں:[37]

 

(۱)اہل کتاب کے وہ قصے اور روایتیں جن کی تائید کتاب اللہ اور احادیث رسولﷺ سے

 

ہوتی ہے، ان روایتوں کو صحیح سمجھا جائے گا اور اس کو بطور تائید اور شہادت کے پیش بھی کیا جاسکتا ہے۔

 

(۲)اہل کتاب کے وہ آثار وروایت ہیں جو قرآن اور حدیث کی تصریحات کے خلاف ہیں

 

”کتاب وسنت ان کی تکذیب کرتے ہیں“ وہ قطعاً مردود اور ناقابل قبول ہیں اور ان کا بیان کرنابھی جائز نہیں۔

 

(۳)تیسری قسم میں وہ آثار اور روایتیں ہیں جن کا صدق وکذب معلوم نہیں ”نہ ان کا صحیح ہونا معلوم اور نہ ہی ان کا جھوٹا ہونا ثابت ہے“ یہ اخبار وآثار مسکوت عنہ ہیں ”یعنی ہم نہ اس کی تائید کریں گے اور نہ ہی اسے غلط کہیں گے اور ان کے ذکر کرنے کی بھی اجازت ہے“۔

 

زیر بحث آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں اہل کتاب کی اس روایت کو ہم قطعی طور پر دوسری قسم میں شمار کریں گے کیونکہ قرآن وسنت اس روایت کی تکذیت کرتے ہیں، انبیاء معصوم ہوتے ہیں ان سے شرک کا صدور ممکن ہی نہیں، اس لئے یہ روایت دوسری قسم میں داخل ہے اور مردود ہے۔

 

آیت کی تفسیرمیں قاضی بیضاویؒ کی رائے:

 

قاضی بیضاویؒ آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ بعض مفسرین نے آیت کی تفسیر کے سلسلہ میںایک روایت نقل کی ہے”کما مر آنفا “ لیکن اس پر انہوں نے درج ذیل الفاظ سے تبصرہ کیا:

 

”وامثال ذلک لاتلیق بالانبیاء، ویحتمل ان یکون الخطاب فی خلقکم لآل قصی من قریش، فانھم خلقوا من نفس قصی، وکان لہ زوج من جنسہ عربیۃ قرشیّۃ، وطلبا من اللہ الولد فاعطاھما اربعۃ بنین، فسمیاھم عبدمناف عبدشمس عبدقصی عبدالدار، ویکون الضمیر فی یشرکون لھما ولاعقابھما المقتدین بھا“۔[38]

 

آیت کی تفسیرمیں علامہ نسفیؒ کی رائے:

 

علامہ نسفیؒ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں تقریباً وہی باتیں کہی ہیں جو قاضی بیضاویؒ نے لکھی ہیں۔ اور انہوں نے (جعلالہ شرکاء) کی تفسیر میں(جعل اولادھالہ شرکاء) لکھا ہے ”یعنی آدم وحوانے شرک نہیں کیا بلکہ ان کی اولاد نے شرک کیا“یعنییہاں مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ کو اس جگہ رکھ دیا گیا ہے، اس لئے شرک سے آدم وحوا بری ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں خطاب قریش سے ہو ”جو قصی کی اولاد ہیں، جو عہد نبوی میں موجود تھے“ اس لئے انہیں کے شرک

 

کا ذکر کیا گیا ہے۔[39]

 

 

آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر کا نظریہ:

 

حافظ ابن کثیرؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ اور انہوں نے زیر بحث آیت کی جو تفسیر کی ہے وہ مختصراً یہ ہے:[40]

 

(فلمّا اتاھما صالحاً)یعنی آدم وحوا کی مشرک ذریت میں جب ہم نے اولاد دی تو انہوں نے شرک کیا، مراد اس سے جنس انسانی ہے، جنس ذکر اور جنس انثی ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ کے اس قول: (فتعالی اللہ عما یشرکون) میں جمع کا صیغہ لایا گیا ہے، اگر آدم وحوا ہی مراد ہوتے تو تثنیہ کاصیغہ آتا لیکن جمع کا صیغہ لاکر بتادیا گیا کہ ان کی مشرک ذریت کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے، آیت لفظاً اگرچہ موصول ہے لیکن حقیقتاً مفصول ہے (خلقکم من نفس واحدۃ)یعنی نفس ذکر (وجعل منھا)یعنی اس کی جنس سے (زوجھا) اور جنس انثی ہے اور جب دونوں کو اولاد دی گئی تو میاں بیوی دونوں نے شرک کا ارتکاب کیا اور اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے کفر کیا، اس طرح آدم وحوا کے لئے اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا، جو آیت کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔

 

مولاناعبدالماجددریاآبادیؒ کی رائے گرامی:

 

مولانا اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:(جعلالہ شرکاء) جعلا کی ضمیر تثنیہ کس طرف راجع ہے؟

 

بعض اس طرف گئے ہیں کہ آدم اور حوا کی طرف لوٹتی ہے اور وہی دونوں مراد ہیں لیکن قول محقق یہ ہے کہ بنی آدم میں ہرنفس اور زوجِ نفس مراد ہیں، بعض تابعین سے بھی یہی منقول ہے: ”قال الحسن والقتادۃ: الضمیر فی ”جعلالہ“ عائد الی النفس وزوجہ من ولد آدم، ولا الی آدم“نیز امام رازیؒ نے قفال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ قصہ بطور تمثیل کے مشرکین کی عام حالت کو بیان کررہا اور انہوں نے اس تفسیر کو بہت پسند کیا ہے اور لکھا ہے کہ:”ھذا جواب فی غایۃ الصحۃ والسداد“اور محققین نے یہ بھی لکھا ہے کہ آیت میں ضمیر آدم وحوا کی طرف راجع کرنے کی کوئی تائید نہ قرآن سے ملتی ہے اور نہ حدیث صحیح سے اور نہ ایسے قصے پیغمبروں کے لائق ہیں:”لم تثبت فی قرآن ولا حدیث صحیح فاطرحت ذکرھا“۔[41]

 

 

مفتی محمدشفیع صاحبؒ کی رائے گرامی:

 

مفتی محمدشفیع صاحبؒ تحریر کرتے ہیں کہ شرک کرنے والوں کا تعلق آدم وحوا سے مطلق نہیں ”جس کی وجہ سے حضرت آدم کی عصمت پر کوئی شبہ ہو“ بلکہ اس کا تعلق بعد میں آنے والی نسلوں کے عمل سے ہے۔مزید وہ لکھتے ہیں کہ ترمذیؒ اور حاکمؒ کی روایتوں میں جو ایک قصہ آدم وحواؑ اور شیطان کے فریب دینے کا مذکورہے اس کو بعض علما نے اسرائیلی روایات قرار ے کر ناقابل اعتبار بتایا ہے۔[42]

 

ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔

 

وصل اللہم وسلم وبارک علی نبینا محمد وعلی الہ وصحبہ اجمعین۔

 

حوالہ جات

  1. اسیرا دروی ،محمد نظام الدین ،۲۰۰۵،تفسیروں میں اسرائیلی روایات ،مکتبہ عثمانیہ ،راولپنڈی ،:۳۳
  2. سیوطی،عبدالرحمن ابن ابی بکر ،۲۰۱۰،تفسیر الجلالین ،مکتبہ البشری،کراچی ، ۱ :۶۲
  3. بیضاوی،عبداللہ ابن عمر،(س ن) انوارالتنزیل و اسرارالتا ویل،مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ ،۱ :۹۶
  4. آلوسی، محمود الحسینی، ۱۳۹۹، روح المعانی فی تفسیر القران العظیم و السبع المثانی،مکتبہ رشیدیہ ،کوئٹہ ،۱ :۴۶۳
  5. ابن کثیر ،اسماعیل ابن عمر، ۱۴۲۱،تفسیر القران العظیم،الفاروق الحدیثیۃ،القاہرہ ، ۱ :۵۳۲
  6. آلوسی، محمود الحسینی، ۱۳۹۹، روح المعانی فی تفسیر القران العظیم و السبع المثانی، ۱ :۴۶۵
  7. عثمانی ، مفتی محمد شفیع ،۲۰۰۸،معارف القران ،مکتبہ ادارۃ المعارف ،کراچی ،۱ :۲۷۱
  8. دریا آبادی ،عبدالماجد،مولانا ،(س ن)تفسیر ماجدی ،پاک کمپنی ،لاہور،:۵۲
  9. سیوطی،عبدالرحمن ابن ابی بکر ،۲۰۱۰،تفسیر الجلالین ، ۱ :۱۵۵
  10. مختار الدین،مفتی،۲۰۱۸،البرہان فی توضیح آیات الرحمن،دارالایمان،پشاور،۳ :۹۱
  11. عثمانی ، مفتی محمد شفیع ،۲۰۰۸،معارف القران ،۱ :۵۹۴
  12. سیوطی،عبدالرحمن ابن ابی بکر ،۲۰۱۰،تفسیر الجلالین ،۱ :۱۵۸
  13. سیوطی،عبدالرحمن ابن ابی بکر ،۲۰۱۰،حاشیہ تفسیر الجلالین ،۱ :۱۵۹
  14. بیضاوی،عبداللہ ابن عمر،(س ن) انوارالتنزیل و اسرارالتا ویل،۱ :۱۶۱
  15. آلوسی، محمود الحسینی، ۱۳۹۹، روح المعانی فی تفسیر القران العظیم و السبع المثانی ،۱ :۷۶۴
  16. نسفی ،ابوالبرکات،عبداللہ ابن احمد ابن محمود،(س ن) مدارک التنزیل و حقائق التاویل،مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۱ :۲۰۵
  17. عثمانی، شبیر احمد ،شیخ الاسلام ،۲۰۰۵،تفسیر عثمانی، پاک کمپنی ،لاہور ،:۵۱
  18. دریا آبادی ،عبدالماجد،مولانا ،(س ن)تفسیر ماجدی ،:۱۲۸
  19. اسیرا دروی ،محمد نظام الدین ،۲۰۰۵،تفسیروں میں اسرائیلی روایات ،:۱۴۵
  20. ابن خلدون،عبدالرحمن ابن محمد،(س ن)العبر ودیوان المبتدا والخبر فی ایام العرب والعجم والبربر ومن عاصر ہم من ذوی السلطان الاکبر ،دارالکتب العلمیۃ،لبنان ،۱ :۹
  21. سیوطی،عبدالرحمن ابن ابی بکر ،۲۰۱۰،تفسیر الجلالین ،۱ :۴۵۵
  22. سیوطی،عبدالرحمن ابن ابی بکر ،(س ن)تفسیرالدر المنثورفی التفسیر بالماثور،مکتبہ اشرفیہ،کوئٹہ،۱ :۱۲۴
  23. سیوطی،عبدالرحمن ابن ابی بکر ،۲۰۱۰،تفسیر الجلالین۱ :۴۳۲
  24. صاوی،احمد ابن محمد ،۲۰۱۰،تفسیر الصاوی علی تفسیر الجلالین ،مکتبہ البشری،کراچی،۱ :۲۵۵
  25. ایضا،۱ :۴۵۶
  26. سیوطی،عبدالرحمن ابن ابی بکر ،۲۰۱۰،تفسیر الجلالین ،۱ :۴۳۲
  27. اسیرا دروی ،محمد نظام الدین ،۲۰۰۵،تفسیروں میں اسرائیلی روایات ،:۱۶۴
  28. ابن کثیر ،اسماعیل ابن عمر،(س ن)تفسیر القران العظیم،قدیمی کتب خانہ،کراچی ۲ :۶۵۰
  29. سیوطی،عبدالرحمن ابن ابی بکر ،۲۰۱۰،تفسیر الجلالین،۱ :۵۵۴
  30. محلی،محمد ابن احمد،۲۰۱۰،تفسیر الجلالین ،مکتبہ البشری،کراچی ،۳ :۶۸۱
  31. سیوطی،عبدالرحمن ابن ابی بکر ،۲۰۱۰،تفسیر الجلالین،۱ :۵۷۱
  32. اسیرا دروی ،محمد نظام الدین ،۲۰۰۵،تفسیروں میں اسرائیلی روایات ،:۱۷۵
  33. آلوسی، محمود الحسینی، ۱۳۹۹، روح المعانی فی تفسیر القران العظیم و السبع المثانی،۹ :۷۸
  34. شوکانی ،بدرالدین،محمد ابن علی ابن محمد،(س ن)فتح القدیرالجامع بین فنی الروایۃ والدرایۃمن التفسیر،دارالمعرفۃ،بیروت ۲ :۲۴۶
  35. سیوطی،عبدالرحمن ابن ابی بکر ،۲۰۱۰،تفسیر الجلالین ،۱ :۶۰۰
  36. ابن کثیر ،اسماعیل ابن عمر، (س ن)تفسیر القران العظیم،۳ :۲۵۰
  37. نعناعہ ،رمزی ،الدکتور،۱۳۹۰،الاسرائیلیات واثرہافی کتب التفسیر،دارالقلم،دمشق،:۷۴
  38. بیضاوی،عبداللہ ابن عمر،(س ن) انوارالتنزیل و اسرارالتا ویل ،المکتبہ التوقیفیہ،القاہرہ،:۴۷۲
  39. نسفی ،ابوالبرکات،عبداللہ ابن احمد ابن محمود، (س ن)مدارک التنزیل و حقائق التاویل،۱ :۶۲۴
  40. ابن کثیر ،اسماعیل ابن عمر، (س ن)تفسیر القران العظیم،۳ :۲۵۳
  41. دریا آبادی ،عبدالماجد،مولانا ،(س ن)تفسیر ماجدی ،:۴۰۷
  42. عثمانی ،محمد شفیع ،مفتی ،۲۰۰۸،معارف القران ،۴ :۱۴۹
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...