Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 2 Issue 1 of Al-ʿILM

ذرائع ابلاغ کا کردار اور اس کے انفرادی و معاشرتی اثرات: سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں تحدیدات |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060040263_806

Pages

14-41

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/67/57

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/67

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اپنی روز مرہ زندگی پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ دنیا میں با ضابطہ زندگی گزارنے کے لیے اپنے ارد گرد رہنے والوں سے رابطہ قائم کرنا کتنا ضروری ہے۔ہمیں اپنی تکالیف دوسروں کو بیان کرنی ہوتی ہیں اور غم اور خوشی کا تاثر دینا ہوتا ہےکیونکہ ابلاغ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ایک دوسرے سے رابطہ رکھنا انسان کی فطرت ہے اور یہ عمل اس وقت تک جاری ہے جب سے انسانوں نے اکٹھے رہنا شروع کیا، انسان غم اور خوشی،پسندیدگی اور نا پسندیدگی، نفرت اور محبت ،خوف اور غصے کے جذبات کا اظہار بہر حال کرتا تھا، گویا ابلاغ ہماری زندگی کے لمحہ اول سے ہی کار فرما تھا ۔ذرائع ابلاغ پر گفتگو سے پہلے بہت ضروری ہے کہ لفظ ابلاغ کے معنی و مفہو م کاتعارف کروایا جائے۔

 

اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کے عمل کو ابلاغ کہا جاتا ہے۔انگریزی میں ابلاغ کے لیے Communication کا لفظ استعمال ہوا ہے جو لاطینی لفظ کیمونس سے نکلا ہے جس کا مطلب خیالات میں ہم آہنگی پیدا کرنا۔[1]

 

المنجد فی اللغۃ الاعلام میں ہے: بلغ = بلغ، بلوغا الثمر : "غلام بالغ "،" و جارية بالغ و بالغة"[2]

 

لغات القرآن میں : اس کے معنی انتہا کی مقصد منتہیٰ تک پہنچنے کے آتے ہیں خواہ وہ مقصد و منتہیٰ کوئی مقام ہو یا وقت ہو بمعنیٰ یا کوئی اور شے۔

 

لفظ بلغ سے ہی اس نوعیت کے دیگر الفاظ مثلاً تبلیغ،مبلغ، بلاغت اور بلیغ وغیرہ بنے ہیں ۔قرآن میں یہ لفظ تبلیغ کے معنی میں آیا ہے جس کے معنی ہیں پہنچا دینا۔

 

ارشادِ ربانی ہے:

 

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ[3]

 

"اے پیغمبر ﷺ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو"

 

اردو لغت میں ابلاغ کی تعریف یوں کی گئی ہے:

 

(الف): بات،پیغام، خیالات،فائدہ یا علم وغیرہ دوسروں تک بھیجنے کا عمل۔

 

(ب): تقریر،تحریر یا علامت و اشاعت کے ذریعے تبلیغ کرنا ہیں۔[4]

 

انگریزی میں ابلاغ کا مترادف لفظ Communication ہے،جس کے معنی ہیں:

 

The importing,convey or exchange of

 

ideas,Knowledge,informationetc (what them by speech,writing or signs) [5]

 

Introduction to mass communicationکے مصنف نے ابلاغ کی تعریف یوں کی ہے:

 

"Communication is the act of transmitting ideas and attitudes from one person to another"[6]

 

نفیس الدین سعدی ابلاغ کی تعریف یوں کرتے ہیں :

 

"ابلاغ اس ہنر یا علم کا نام ہےجس کے ذریعے کوئی شخص کوئی اطلاع،خیال یا جذبہ کسی دوسرے تک منتقل کرتا ہے"[7]

 

موثر ابلاغ کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال کیا گیا اور اس کو ذرائع ابلاغ کا نام دیا گیا انگریزی میں اس کے لیےلفظ میڈیا (Media) استعمال کیا جاتا ہے۔میڈیا کی کئی اقسام ہیں ،Electronic media, Print media, Social media وغیرہ ۔

 

Media: A volceel stop consonateare letter responding itMedia: One of the sonats mutes (voiecl stops) in Grookor their equivalent in other languages , so hamed as intermediate between the tunes and the aspireates. (Webster's third new international Dictionary, P: 142 )

 

Media: You can refer to television Radio and Newspaper as the Media. [8]

 

ذرائع ابلاغ کی ابتداء و ارتقاء:

انسانی زندگیکاآ غازا ٓدم کے واقعہ سے ہوا ،آدم کے پیکر خاکی میں جان پڑنے اور زندگی کا آغاز ہوتے ہی دو صفات کا ظہور

 

ہوا،ایک اپنے خالق کی موجودگی کا احساس و اعتراف اور دوسرے اس کے عطاکر دہ علم کے اظہار کے لیے قوت گویائی ۔اس موقع پر ا للہ تعالیٰ ،آدم اور فرشتوں کے درمیان جو تبادلہ خیال ہوا اسمیں گفتگو (Dialogue) پہلا ذریعہ ابلاغ(Media of Communication) کا آغاز ہوا ،حضرت آدمؑ اور حضرت اماں حوا کے جوڑے کی صورت میں جنت کے اندر معاشرتی زندگی کا آغاز ہوا، اس لیے جائز اور ناجائز ، حلال اور حرام ،مباح اور ممنوع اور معروف و منکر کی صراحت پر زمین ایک ضابطہ حیات دیا گیا اور (Values) کا دستور بخشا گیا ،ابلیس کے ساتھ کشمکش کا آغاز اپنی اقدار کے تحفظ کے سلسلہ میں ہوا ، گویا انسان کو جو پہلا چیلنج درپیش ہوا وہ جان اور ما ل کے تحفط کا نہ تھا اقدار حیات کے تحفظ کا تھا اور اس میں ناکامی نے اسے جنت کی راحتوں اور نعمتوں سے محروم کر کے اس کانٹوں بھری دنیامیں لا پھینکا۔ یہاں بھی شرط یہ عائد کی گئی کہ اپنی اقدار کی حفاظت میں کامیابی حاصل کی تو جنت گم گشتہ تمہارا دوبارہ مقدر بنے گی اور اس میں ناکام رہے تو پھر جہنم ملے گی بنی نوع انسان کی تہذیب و تعلیم ،تربیت اور آموزش کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کےذریعے ہدایت عطا فرمائی۔ دین سلسلہ آدمؑ سے شروع ہو اور محمدؐ پر مکمل ہوا ۔دین مکمل ہوا اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔

 

ذرائع ابلاغ کی تاریخ بہت پرانیہےہزار سال پہلے عمیلہ فراعنہ کے مصریوں کے حالات حاضرہ کو عوام تک پہنچا نے کی ضرورت محسوس کی ہم ایک پرانے مسودے پر تصویری رسم الخط میں ایک عبارت دیکھتے ہیں،تصویروں کےذریعے ابلاغ کیا جاتا تھا، یونانی کتبے بھی دریافت ہوئے ہیں جن میں بتایا گیا کہ حکمران اور رعایا قوانین کی پابند ہیں ۔محاصل کی تشخیص اور وصولی کا کیا نظام ہے۔قدیم عراق کے قوانین حمور ابی اور قدیم ہندمیں اشوک کے کتبات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ خطوں میں عوام سے رابطہ قائم رکھنے کے لیے کافی طریقے اختیار کیے جاتے تھے ۔[9]

 

تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں خبریں حاصل کرنے کے لیےکوئی منظم ادارہ موجود نہ تھا،حضرت عمرؓ کے عہد میں اس طرف قدم بڑھایا گیا،عہد عباسیہ میں خلافت میں ایرانی رنگ غالب آیا تو خبروں کے لیے ایران کی تقلید کی گئی ، خلیفہ ہارون الرشید نے اس محکمے یعنی ذرائع ابلاغ (برید) کے محکمے کو مضبوط کیا کبوتروں کو پیغام رسائی کے لیے تربیت دی جاتی، محمد بن تغلق نے نظام خبر رسانی میں کمال پیدا کیا،براعظم پاک و ہند میں پہلی مرتبہ خبروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے کے لیے تیز رفتار ذرائع استعمال کیے گئے ۔الغرض جب انسانی معاشرہ کسی قدر منظم ہواخبروں کی ترسیل کی کئی صورتیں رائج ہوئیں۔[10]

 

ذرائع ابلاغ کی اقسام:

ذرائع ابلاغ کی بے شمار اقسام ہیں اور روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ذرائع ابلا غ میں وہ تمام ذرائع شامل ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں ،اردو میں ذرائع ابلاغ اور انگریزی میں اس کو میڈیا کہتے ہیں،اس میں پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا شامل ہیں۔

 

(1مطبوطہ ذرائع ابلاغPrint media :تحریر کا آغاز انسان کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے اور تحریر و تصویر کو اپنے خیالات کے اظہار اور دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے زمانہ قدیم سے استعمال کیا جا رہا ہے۔[11]

 

قرآن جس میں فرمایا گیا: وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ[12]

 

"اور ہم نے اس کے لیے تختیوں پر سب کچھ لکھ دیا"

 

حضرت موسیؑ کو پتھر کی تختیوں پر احکام شریعت عطا کی گئی موہن جودڑو اور ہڑپہ کے نوادرات سے تحاریر ملی ہیں ۔ بابل اور نینوا کے شہروں کی کھدا ئی کے دوران تحریری اجزاء ملے ہیں۔ دنیا میں خیال قلمبند کرنے کے لیے تصویر اور تحریر کا استعمال کیا گیا ۔ پھر وقت کے ساتھ تحریروں کو چھاپا جاتا ۔ یوں حروف کی چھپائی شروع ہوئییورپ ،براعظم پاک و ہند میں۱۵۵۰ء کے بعد چھاپہ خانہ اور یہ ترقی کرتے کرتے اخبارات اور رسائل کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔[13]

 

اخبارات و رسائل وغیرہ چلتے پھرتے مدارس ہوتے ہیں اور ابلاغ کا بہترین ذریعہ بھی۔

 

الیکٹرونک میڈیا:

 

ابلاغ کی دوسری مؤثر ترین صورت الیکٹرونک میڈیا ہے ۔ یعنی ایسا ابلاغ جو برقی تاروں کے ذریعےپیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائے ۔۱۸۵۷ء سے اس کا آغاز ہوا اور میں۱۰۲۷ءمیں ٹیلی ویژن کی صورت میں واضح شکل سامنے آئی اور الیکٹرونک میڈیاکا سفر ٹیلی گرام ،ٹائپ رائٹر، ریڈیو ، ٹیلی فون ،ٹیلیویژن اور کمپیوٹر پر ختم نہیں ہوا موبائل ،انٹرنیٹ اورI.Pad کی صورت میں جا ری و ساری ہے۔اور یہ ابلاغ کے تیز ترین اور تیز رفتار ذرائع ابلاغ ہیں جو لمحوں کے اندر خبر کو پوری دنیا میں پھیلاتے ہیں جسکی وجہ سے پوری دنیا گلوبل ویلج میں بدل چکی ہے۔الیکٹرانک میڈیا نے لوگوں کی عمومی معلومات میں غیر عمومی اضافہ کیا ہے ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس کے اندر انٹرنیٹ سب سے زیادہ اہم ایجاد ہے ۔[14]

 

عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ کی اقسام :

آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے دنیا میں نت نئی ایجادات ،روزمرہ کا معمول بن گیا ہے جس کے نتیجے میں زندگی کے تمامشعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کو ہر امیرغریب کے گھر پہنچا دیا گیا ہے۔

 

ٹیلی ویژن :

 

دسویں صدی کی ایجادات میں ٹیلی ویژن سب سے موثر اور اہم ایجاد ہے جس کی وسیع اثر انگیزی سے اختلاف ممکن نہیں۔ ٹیلی ویژن نے جہاں لوگوں کی عمومی معلومات میں غیر معمولی اضافہ کیا وہاں ان لوگوں کی زندگیوں میں مغربی تہذیب و تمدن کو بھی بہت زیادہ فروغ دیا ہے ۔ [15]

 

ریڈیو:

 

ویڈیو فلم اور ٹیلی ویژن جدید ذرائع ابلاغ ہیں اور کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط بھی ہیں ،ریڈیو پروپگنڈہ کے لیے اہم سمجھا جاتا رہا ہے، آ ج بھی ریڈیو ایک مؤثر ذریعہ ابلاغ ہے۔[16]

 

انٹرنیٹ:

 

انٹرنیٹ ذرائع ابلاغ کی ایک ترقییافتہ شکل ہے اور ایک انتہائی تیز رفتار سروس بھی ،آج کے دور کی اہم ٹیکنالوجی کمپیوٹر کا ایک عالمگیر نیٹ ورک ہے جو مختلف انداز میں بے شمار معلو مات مہیا کرتا ہے۔ میل کے ذریعے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک متین اشکال تصاویر چند سیکنڈ میں پہنچ جاتی ہیں ۔[17]

 

دور جدید مواصلات میں انقلاب کا دور ہے پیغامات کی آزادانہ اور فوری ترسیل انٹرنیٹ کے بنیادی نکات ہیں۔[18]

 

اخبارات و رسائل:

 

ذرائع ابلاغ میں اخبار منفرد حیثیت کی حامل ہے،ان کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔اخبار صرف خبریں ہی شامل

 

نہیں کرتا بلکہ ان کی تشریح بھی کرتا ہے،رسائل و اخبارات چلتے پھرتے مدارس ہوتے ہیں ان کے ذریعے عوام تہذیب سے واقف ہوتے ہیں ،نیز تعلیم و تربیت،اصلاح و تبلیغ زیادہ تر انہی سے ہوتی ہے،اِن کے ذریعے فاصلے سکڑ جاتے ہیں،دور دراز کی اقوام ایک دوسرے کے قریب آ جاتی ہیں۔[19]

 

تاریخ میں دیکھیں تو ابلاغ کے لیے تحریر کا سہارا ہی لیا گیا ، تاریخ میں سب سے پہلے قرآن پاک تحریری صورت میں لکھا گیا اور قرآن میںبھی آتا ہے : اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى[20]

 

کتابیں:

 

کتاب کا لفظ کتب سے نکلا ہے اور انگلش میںbookکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔عربی میں صحیفہ کہتے ہیں ۔کتاب دنیا میں مختلف نظریات کے پرچار اور علم و ادب کے پھیلانے میں اہم مقام رکھتی ہے ۔دنیا میں جتنے قبیلے وجود میں آئے یا آئندہ آئیں گے کتاب انہیں محفوظ رکھنے اور مستقل دستاویزات کی حیثیت دینے میں ہمیشہ اہم مقام رکھے گی۔

 

ذرائع ابلاغ کی اہمیت:

ذرائع ابلاغ کی اہمیت زندگی کے ہر شعبےمیں مسلمہ ہے۔ہمیں سیر و تفریح اور خبریں ملتی ہیں بلکہ معلومات کا وسیع سمندر بھی مہیا ہوتا ہے۔ mediaایک آئینہ ہے جس کے ذریعے ہماری سوسائٹی منعکس ہو کر ہمارے سامنے آتی ہیں بلکہ یہ سوسائٹی کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے،ابلاغ کے ذریعے ہم دیگر اقوام سے متعارف ہوتے ہیں، ان کی تہذیب اور روایت کے بارے میں جانتے ہیں،ابلاغ عامہ کے ذریعے سے جب کوئی بُرائی پھیلتی ہے تو اس کے ذریعے بچنے کی تدابیر بھی ابلاغ عامہ کے ذریعے کی جاتی ہیں ۔[21]

 

ابلاغ عامہ کے ذریعے قوم کی تعمیر و تشکیل کے نظریات فروغ دئیے جا سکتے ہیں۔ابلاغ عامہ کی ضرورت ،انسان کو معاشرے کی تنطیم کے ساتھ ساتھ محسوس ہوتی لیکن اس دور میں جب کتاب ،اخبار ،ریڈیو فلم، ٹیلی ویژن جیسے ذرائع موجود نہ تھے،تقریر اور ڈرامہ ان میں بھی تقریر کو زیادہ اہمیت حاصل تھی۔[22]

 

اسلام کا نظریہ ابلاغ:

اسلام میں ذرائع ابلاغ کی دینی ضرورت و اہمیت کی حسب ذیل بنیادیں ہیں۔

 

(۱)دین اسلام پوری دنیا اور تمام نوع انسانی کے لیے ہے، اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق و مالک ہے اور اس کائنات کا ذرہ ذرہ ا یک ذات کی گواہی دیتا ہے۔

 

(2) اس دین کو جو قبول کرتا ہے اس کے ذمہ اس پیغام حق کو پہنچانا دوسروں تک بھی واجب ہے۔

 

(3) آخری نبیؐ اور ان کے اصحاب اور ان کے بعد آنے والے داعیوں کا کام دین کو لوگوں تک پہنچاناہے، مَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ[23]

 

اسلام کا پیغام انسانیت تک نہ پہنچانا مصیبت کا باعث ہے اور ایک طرح سے یہ کتمان ِعلم کے حکم میں آتا ہے،قرآن کریم میں ذرائع ابلاغ یا میڈیا کا مفہوم ادا کرنے کے لیے دعوت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،اسلام میں ابلاغ کے لیے جو چیزیں بنیاد ہیں ان میں حکمت ،عمدہ نصیحت ،جدال احسن ،فریق مخالف کے معبودوں کو بُرا نہ کہنا،نرمی اور تدریج شامل ہیں۔

 

حکمت:

 

دعوت دین میں دو چیزیں محفوظ رہنی چاہیں ایک حکمت، دوسری عمدہ نصیحتیعنی بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت ،استعداد اور حالات کو سمجھ کر موقعہ محل کے مطابق بات کی جائے۔[24]

 

موعظۃ حسنہ:

 

نصیحت ایسے کی جائے جس سے دلسوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو اور سننے والے کو ایسے محسوس ہو کہ داعی کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے تڑپ موجود ہے اور حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔ [25]

 

جدال احسن:

 

دعوت کے لیے اور ابلاغ حق کے لیے جدال ضروری چیز ہے لیکن حصول بحث و مباحثہ نہ ہو۔[26]

 

مذہبی رواداری:

 

ابلاغ کا ایک طریقہیہ بھی ہے کہ نرمی سے بات سمجھائیں سختی نہ کی جائے اس سے اصلاح کی بجائے مزید خرابی پیدا ہو گی ۔حق کی طرف کیا جانے والا ابلاغ حکمت و تدبر کے ساتھ ہو۔

 

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ[27]

 

اس آیت سے ظاہر ہے کہ مبلغ کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ نرم مزاج ہو اگر سخت ہو گا تو لوگ دور بھاگیں گے، نبیؐ بھی شفیق اور رحیم تھے.

 

تدریج:

 

ابلاغ کاایک اہم طریقہ تدریج بھی ہے نسبتاً پہلے آسان تعلیمات پھر مزید تعلیمات، تربیت کے ساتھ اسلام کے نظریہ ابلاغ کی خصوصیات بھی ہیں

 

1۔ عالمگیریت:

 

یعنی جو دعوت حق ہے وہ پوری دنیا کے لیے ہے فرمایا : وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ[28]

 

یہ دعوت عالمگیر ہے کیونکہ نبیؐ اللہ کے آخری رسول ہیں اورا س بات کی ضرورت تھی کہ یہ دعوت عالمگیر ہو اس کے لیے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جائے اس لیے اس دعوت کی تعلیمات اور اندازِ مخاطب دونوں میں عالمگیریت کا رنگ بہت غالب ہے اس لیے اسلامی دعوت ہیواحد عالمگیر دعوت ہے جو تمام دنیا کو پہنچانیہے۔[29]

 

2۔ علم و آگہی:

 

وہ دعوت حق جو سر زمین مکہ سے تھی اس کی بنیاد علم و آگہی پر ہے۔ کبھی ہمارے ذرائع ابلاغ علم و آگہی کو پھیلائیں گے پہلی وحی کا پیغام ہییہ تھا۔[30]

 

3۔ مساوات نسلِ انسانی :

 

اسلامی ذرائع ابلاغ مساواتِ نسل انسانی کی پہچان ہو ں گے نہ کہ تفرقہ بازی پھیلائیں گے :

 

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ [31]

 

4۔سادگی اور آسانی :

 

اسلام کے نظریہ ابلاغ کی ایک بڑی خصوصیت سادگی اور آسانی ہے اس میں وہ راستہ اختیار کیا گیا ہے جو سب سے زیادہ آسان ہے ۔

 

 

5۔دین اور دنیا میں ہم آ ہنگی:

 

اسلام کے نظریہ ابلاغ کی ایک خصوصیتیہ ہے کہ یہ دین کو دنیا سے علیحدہ نہیں کرتا۔

 

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ[32]

 

ذرائع ابلاغ کا کردار:

اسلامی ریاست ایک خاص مقصد کے تحت وجود میں آئی ۔اس کا مقصد نوع انسان کو احکام خدا وندی کا پابند بنانا اور ان کی بہبود کا خیال رکھنا ہے شریعت اسلام کا نفاذ، ناموس دین کا تحفظ، عدل کاقیام،انسانی حقوق کا تحفظ ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ جیسے عقائد کو پورے کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کی ضرورت ہے،ابلاغ کے ذرائع ہر دور میں مختلف رہے ہیں مثلاً جب حضور ﷺ تشریف لائے اس وقت یہ ذرائع ابلاغ نہیں تھے جو آج کل ہیں،اُس وقت معقول ترین ذرائع خط و کتابت تھا،نبی ﷺ خطیب تھے اور ان کے فصیح و بلیغ خطبےآج بھی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں ہر دور میں ذرائع ابلاغ بدلتے رہتے ہیں مگر ان کا کردار اور ذمہ داریاں نہیں بدلیںبلکہ ان کی ذمہ داریاں آج بھی وہی ہیں جو کہ چلی آرہی ہیں،اسلام میں ذرائع ابلاغ کی ذمہ داریوں کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ذمہ داریوں کے حوالے سے اسلام کیا اصول مرتب کرتا ہے،مولانا مودودی لکھتے ہیں:

 

نیکی اور پرہیز گای کے کاموں میں تعاون کرو اور بدی و زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو، تمہاری دوستی اور دشمنی خدا کی خاطر ہونی چاہیے،نیکی کا حکم دیں بدی سے روکیں،آپس میں بد گمانی نہ کرو،اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بن کر رہو،کسی ظالم کا ساتھ نہ دو،دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو تم خود پسند کرتے ہو۔[33]

 

ذرائع ابلاغ کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور کیا کردار ہونا چاہیے۔

 

ذہنی انقلاب:

 

ذرائع ابلاغ کا سب سے بڑا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ اسلام کے بارے میں ذہنی انقلاب لانے کی کوشش کریں۔ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ:

 

اُمتِ مسلمہ کو یہ حقیقت یاد دلانے کی ضرورت ہےکہ اسلام انقلابی قوت بن کر اُبھرے تاکہ پورے عالم پر چھا جائے۔[34]

 

امر با لمعروف و نہی عن المنکر:

 

دوسری ذمہ داریاں امر با لمعروف و نہی عن المنکر کی ہے۔

 

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭؕ[35]

 

بھلائی کی طرف بلانا ایک بڑی ذمہ داری ہے،ابلاغِ عامہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرنٹ میڈیا،اخبارات و رسائل میں ایسے مضامین شائع کریں جن سے اسلام کی عظمت کا تصور جھلکتا ہو، الیکٹرانک میڈیامیں ریڈیو،ٹی وی،نیٹ کی نشریات امر و نہی کا ایسا سلسلہ جاری کریں جو بین الاقوامی ہو۔

 

برائی کی اشاعت سے گریز:

 

برائی کی اشاعت اللہ کسی صورت میں پسند نہیں کرتے ،ابلاغ کی ذمہ داریوں میں سے ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہر حال میں برائی کی اشاعت سے گریز کرے،اس طرح معاشرے کا بگاڑ کم ہو گا۔

 

لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ۭ [36]

 

خفیہ ہو یا اعلانیہ ہر حال میں بھلائی کیے جاؤ اور برائیوں سے در گزر کرو۔کیونکہ تم کو اپنے اخلاق میں خُدا کے اخلاق سے قریب تر ہونا چاہیے،جس خدا کا قرب تم چاہتے ہو اُس خدا کی شان یہ ہے کہ وہ نہایت حلیم و بُردبار ہے۔[37]

 

قرآن میں فرمایا کہ : جو لوگ چاہتے ہیں کہ بے حیائی کی بات کا مسلمان میں چرچا ہو،اُن کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔[38]

 

تحقیق میں جُستجو:

 

آج کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو تحقیق کی طرف راغب کیا جائے،ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اُمتِ مسلمہ کو بھولا ہواحق یاد کرؤائیں۔

 

اسلامی تعلیمات سے آگاہی:

 

دُنیا بھر میں اِس وقت اسلام کا رشتہ تمام طور پر دہشت گردی و انتہا پسندی سے جوڑا جا رہا ہے،چنانچہ علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ اِس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے انتہا پسندی کے خاتمےکے لیے آگے آئیں۔

 

 

معاشرتی اثرات میں ذرائع ابلاغ کا کردار

مساواتِ مرد و زن کا غلط تصور:

 

ایک تو آزادی نسواں اور مساواتِ مرد و زن کا نعرہ لگ چکا ہےلیکن اس نعرے کی تشہیر و ترویج میں ذرائع ابلاغ نے اہم کردار ادا کیا،قوموں کی تباہی کے لیے عورت کو اِس کے منصب سے ہٹا کر نائٹ کلبوں اور میڈیا کی زینت بنا دیا گیا ہےعورتوں کی بے شمار NGOs بن چکی ہیں،میڈیا نے عورت کو گمراہ کیا ہوا ہے

 

جرائم میں اضافہ:

 

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے ہمیشہ جرائم کی خاطر خواہ تشہیر کر کے اِس میں اضافہ ہی کیا ہے۔الیکٹرانک میڈیا جرائم کی تشہیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے،مثلاً ایک فلم II child play نے دو سے دس سال کے بچوں پر اتنا گہرا اثر کیا کہ انہوں نے فلمی ہیرو کی مانندایک شخص کو فلمی انداز میں قتل کیا۔[39]

 

جنسی بے راہ روی میں اضافہ:

 

میڈیا کے ذریعے جنسی تعلیم اور جنسی تربیت دی جاتی ہے،جس کے بعد بچے اور بچیاں گمراہی کے راستے میں چل پڑتی ہیں۔

 

غیر سرکاری تنظیموں کا منفی کردار:

 

غیر سرکاری تنظیموں کے قیام کا ظاہری مقصد ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہوتا ہے لیکن اس کی آڑ میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جاتا ہے۔[40]

 

مذہبی یلغار میں ذرائع ابلاغ:

 

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پرو پیگنڈا کیا جاتا ہے،مغرب کے electric media نے مسلمانوں کو دہشتگرداور بنیاد پرست کے روپ میں پیش کیا ہے ،مسلمانوں کو غلط کردار میں دکھایا جاتا ہے،داڑھی والے اور برقع والی خاتون کو Negative کردار میں دکھایا جاتا ہے۔28 فروری 2006ء میں ٹی وی پر پروگرام میں دکھایا گیا کہ پاکستانی بچوں پر طنز کیا گیا کہ وہ ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں ،لہذٰا وہ دہشتگرد بنیں گے اچھے انسان نہیں۔[41]

 

دینی مدارس کے خلاف پرو پیگنڈا کیا جاتا ہے تا کہ مسلمانوں کے ذہن میں مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں۔میڈیا کے ذریعے حمایت کی تبلیغ کی جاتی ہے۔امریکہ اور یورپ میں پھیلے مراکز عیسائیت کی تبلیغ کی پلانگ کر رہے ہیں تا کہ میڈیا کے ذریعے عیسائی تعلیمات کی اشاعت کی جائے۔[42]آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلمانوں کے معاشرتی سیٹ اپ کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس سیلاب کا رخ ہمارے گھروں کی طرف ہے۔عورت کو گھر سے نکال کر پردے سے آزاد کر کے مساوات مرد و زن کی تحریکوں سے مسحور ہو کر اسلامی معاشرت کے بنیادی ادارے (خاندان) کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ ہے مغرب کی تہذیبی سامراج کی فتح کردہ اور مسحور کردہ فوج(مغرب پسند خواتین) جو اسلامی تہذیب کے پاسداروں کے خلاف دشمن کے ساتھ ہو کر معرکہ آزاد ہے۔[43]آج عورت کو ماڈلنگ کے نام پر سٹیج اور اشتہارات کی زینت بنایا جا رہا ہے۔ہم یورپ کی نقالی میں عورت کو کھلونا بنا رہے ہیں۔ریڈیو،ٹیلی ویثرن،کمپیوٹر،کیبل ٹی وی،ہوم ریڈیو،سیٹلائیٹ اور انٹرنیٹ نے دنیا میں نشریات کا جال پھیلا دیا ہے۔وسیع و عریض دنیا گھر کے آنگن اور بیڈ روم میں سمٹ کر آگئی ہے،آج گھر کی کھڑکیوں سے پورے عالم کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔جہاں علوم و فنون سائنس تعلیم و تفریح مہیا کرتے ہیں، وہاں پر انسانی جذبات اور احساسات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔(دیوبند راسّر،عوامی ذرائع ابلاغ،ترسیل اور تعمیر و ترقی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،وزارت ترقی انسانی وسائل)[44]بہت زیادہ ٹی وی دیکھنے والے بچوں کے اندر نافرمانی،ماں باپ کے ساتھ بدتمیزی کرنا،وقت کا ضیاع کرنا جیسی عادات پیدا ہو جاتی ہیں۔میڈیا کی وجہ سے ہر شخص مصروف نظر آتا ہے۔کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں۔ڈرامے دیکھنے کے لیے وقت نکل آتا ہے۔ معاشرتی ماحول کے اندر ہر وقت تبدیلی واقع ہو رہی ہےاور سماجی رویوں پر میڈیا نظر انداز ہو تا ہے۔[45]

 

ذرائع ابلاغ کا مذہبی کردار:

جدید تعلیم یافتہ طبقہ شدید مذہبی بحران کا شکا ر ہے۔مغرب نے میڈیا کے ذریعے اسلام کے خلاف ذہنوں کو اس قدر گنداکر دیا ہے کہ آج اسے ایک بنیاد پرست مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہےاور اسلام کے خلاف پروپیگنڈاکو ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے۔آج کے دور میں خبروں میں تحریروں دوسرے مذاہب کے برعکس اسلام کو عمومی طور پر تشدد کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔جبکہ دوسرے مذاہب کے لوگ دہشت گردی کریں تو ان کی مذہبی شناخت بیان نہیں کی جاتی،۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کے واقعہ سے مغرب نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کیا گیایہودیوں کے پروٹوکول میں لکھا ہے کہ : طویل عرصہ سے ہم نے یہ محنت کی ہے مولیت(اسلام) کو بے وقار بنا دیں اور سینہ دھرتی پر ان کے مشن کو ناکام بنا کر تباہ و برباد کر دیں جو ہمارے راستے کے سنگ گراں سے کم نہیں ہے،دن بدن مولویت کی قدروقیمت کم ہو رہی ہے۔آزادی کے نعرے کی طرف ہم نے عوام کو دھکیل کر مولویت کو برباد کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ہمیں ضرورت ہے کہ میڈیا کے اندر جس اسلام کی تصویر پیش کی جاتی ہے اُسکی اصلاح کر دیں ۔[46]

 

ذرائع ابلاغ کا سیاسی کردار:

سیاسی طور پر مسلمانوں کے اندر بذریعہ ذرائع ابلاغ نام نہاد جمہوریت کو پھیلایا گیا۔افراد کو طبقاتی تقسیم میں اُلجھایا گیا،نسل پرستی،تعصب،گروہ بندی اور فرقہ پرستی کو فروغ دیا گیاتا کہ اُمتِ مسلمہ مستحکم نہ ہونے پائے۔مسلمانوں کے اندر قومیت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔قومیت پرستی کے علاوہ نیا عالمی نظام بھیمغرب کی اختراع ہے۔اس نئے عالمی نظام نے تیسری دُنیا جن میں زیادہ تر مسلمان ممالک ہیں پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔اور زبر دستی مغربی پالیسیاں مسلمانوں پر نافذ کی گئی ہیں۔[47]

 

گلوبلائزیشن کے نام پر بے وقوف بنایا جارہا ہے۔گلوبلائزیشن پر روک لگانے کی ضرورت ہے،کیونکہ یہ معاشرتی انتشار کا باعث ہے۔اس کی وجہ سے عالم جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔اور یہ سرمایہ دارانہ نظام کے سوا ہر اقتصادی نظام کا مخالف ہے۔[48]

 

ذرائع ابلاغ کا علمی اور فکری کردار:

آج مغرب نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں مسلمانوں کو شکست دینے کا ارادہ کیا ہے،وہیں علمی اور فکری طور پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے حملہ کر دیا گیا ہے۔مسلمانوں کو اپنے سارے تہذیبی ورثے کے بارے میں شدید احساسِ کمتری کا شکار بنا کر ان کے دلوں پر مغرب کی ہمہ گیر بالادستی کا سکہ بٹھا دیا جائے،نئی نسل کو ہر ممکن طریقے سے یہ یقین کر لینے پر مجبور کردیا جائےکہ اگر دنیا میں ترقی سر بلند چاہتے ہو تو اپنی فکر،اپنے فلسفے،اپنی تہذیب،معاشرت اور اپنے سارے ماضی پر ایک حقارت بھری نظر ڈال کر مغرب کے پیچھے پیچھے چلےآؤ اور زندگی کا ہر راستہ اس کے نقشِ قدم پر تلاش کرو۔[49]

 

معاشی یلغار:

 

ملٹی نیشنل کمپنیوں کا تصور رائج کیا گیا ،اس نظام سے خوشحالی تو شائد ہی آئے گی اُلٹا غربت اور فقر و فاقہ پیدا ہو رہا ہے۔غرض عوامی تطہیر اور ذہن سازی کی وجہ سے "کمپنی کلچر" پیدا ہو رہا ہے۔ اس دماغی تطہیر میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔سود جیسی لعنت سے کوئی بھی نجات نہیں پا سکتا،سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دیا جا رہا ہے،امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔

 

علمی اور فکری یلغار:

 

مشرقین مسلمانوں کے اندر میڈیا کے ذریعے شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔سیکولر نظام ِ تعلیم کو فروغ دیا جا رہا ہے،جسے جدید تعلیم کا نام دیا جاتا ہے۔مسلم ممالک میں اسلامی تعلیمی روایات کو بے توقیر کیا گیا ہے،اور کالے انگریز پیدا ہو رہے ہیں۔تجاویز فرقہ واریت کی آگ کو میڈیا کے ذریعے ہوا دی جاتی ہے۔مسلمانوں کے اندر تفرقہ میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے،مغرب کی پالیسی ہے کہ مسلمانوں کو متحد نہ ہونے دو۔

 

مغربی یلغار میں ذرائع ابلاغ کا کردار:

 

مغرب میڈیا کی طاقت سے واقف تھا اس لیے اس نے اپنی معاشی پالیسیوں کی ترویج کے لیے ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا۔مغرب نے اشتہار بازی کو اپنے معاشی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔آج کل اشتہارات کو اہم ذریعہ ابلاغ سمجھا جاتا ہے انسانی نفسیات کی باریکیوں، گہرائیوں اور نزاکتوں کا خیال رکھ کر اسے بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔نفسیات کو ضروریاتِ زندگی بنا کر پیش کیا جاتا ہے،اعلی معیارِ زندگی دکھا دکھا کر ہر شخص کے دل میں لالچ،ظاہر پرستی اور راتو ں رات امیر ہونے کی ہوس بھر دی گئی ہے۔۔اس کے ذریعے فحاشی و عریانی کا پھیلاؤ بھی مقصود ہے،اور حرام اشیاء اور حرام کاری کی ترغیبات بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔[50]

 

اخلاقی اثرات اور ذرائع ابلاغ:

 

ذرائع ابلاغ نے معاشرے کے اندر اخلاقی اقدار و روایات کو غیر محسوس انداز میں بدلنا شروع کیا اور کل جو چیز یا

 

پروگرام والد یا بھائیوں کی موجودگی میں دیکھنا پسند نہیں کیا جاتا تھا آج تمام اہلِ خانہ اکٹھے بیٹھ کر دیکھتے ہیں،حیا کا تصور بدل گیا ہے۔عفت وعصمت کے تصور کو ویلنٹائن ڈے کی صورت میں تار تار کیا جا رہا ہے۔ ہم مغرب سے آنے والی ہر چیز کے مخالف نہیں مگر کسی دوسری قوم کے وہ تہوار جن کا تعلق کسی تہذیب و روایت سے ہو،انہیں قبول کرتے وقت بہت محتاط رہنا چاہیے۔یہ تہوار اس لیے منائے جاتے ہیں کچھ عقائد و تصورات انسانی معاشروں کے اندر جذب ہو جائیں۔[51]مغربی زبان اور لباس کی وجہ سے ہم اپنے دینی ،قومی اور تہذیبی لباس کو بھو ل رہے ہیں۔زبان کے ذریعے مغربی تہذیب و کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔[52]

 

فحاشی کا فروغ عروج پر ہے:

 

موجودہ ذرائع ابلاغ نے ہماری اولادوں کے اخلاق و کردار کو تباہ و برباد کر دیا ہے،جس کے نتیجے میں آج کل کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔روزانہ اخبار کیا آئینہ دکھا رہے ہیں،بد تمیزی،بد تہذیبی،بد اخلاقی اور اخلاقِ رزیلہ نے قومی وجود کی تو آکاس بیل کی مانند اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔[53]معاشرے کے اندر خود کشی کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔انٹرنیٹ کیمرے کے سامنے خود کشی کے واقعات بھی رونما ہونے لگے ہیں، ہر رجحانات کسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اسکا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ساتھ ہی یہ جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا ذرائع ابلاغ کی چکا چوند انسانی خواہشات کو اپنی دلدل میں تو نہیں لے جا رہے جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔[54]حلال اور حرام کی تمیز ختم ہو گئی ،اللہ سے شکوہ کیا جانے لگا،والدین سے لڑائی جھگڑے ہونے لگے۔نوع پر نوع نفسیاتی بیماریاں بھی پھیل گئی ہیں،معاشرے میں احساسِ کمتری پیدا ہو رہی ہے،طبقاتی تفاوت کی بنا پر چوری ڈاکوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔غیر حقیقت پسندانہ رویے بڑھ رہے ہیں،ڈرامے دیکھ دیکھ کر بچے غیر حقیقی زندگی کی باتیں کرتے ہیں اور غیر حقیقی کام کر گزرتے ہیں کہ بعض اوقات جن کا نقصان ناقابلِ تلافی ہوتا ہے۔ایک خبر کے مطابق بھارت میں چھ سالہ بچے نے اپنے چھوٹے بھائی کو جس کارنگ ذرا کالا تھا چلتی ہوئی واشنگ مشین میں ڈال دیا اور وہ بچہ مر گیا۔پوچھنے پر کہنے لگا کہ ٹی وی میں اشتہار آتا ہے کہ میلے اور کالے کپڑے مشین میں سفید اور اُجلے ہو جاتے ہیں اسی لیے مشین میں ڈالا کہ وہ سفید ہو جائے۔[55]دیکھئے بچے قبل از وقت بالغ ہو جاتے ہیں،رشتوں میں دوریاں پیدا ہو گئی ہیں،بچے کارٹون دیکھنے میں مصروف ہیں،بیگم صاحبہ ڈرامے دیکھنے میں مصروف بڑے میاں کا خبر نامہ چل رہا ہے،اس طرح ٹی وی دیکھتے دیکھتے سب بستر کی طرف چل پڑتے ہیں،آپس میں گپ شپ کا رواج ختم ہو گیا ہے،کسی کے گھر مہمان چلے جاؤ تو وہ ٹی وی کے سامنے لا بٹھا تے ہیں۔اخلاقی تنزلی کی وجہ سے طلاقوں کی بھرمار ہے الغرض مقصدیت کا سیلاب ہے،آج ہمارا ہمارے بچوں کا مقصدِ حیات کھو گیا ہے،اخلاقی بے راہ روی کے فروغ اور لوگوں کو دین و اخلاق سے بیزار بنانے اور خاندانی نظام کی شکست میں فن نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے جس کے شواہد خود مغربی زندگی میں کھلم کھلا دیکھے جا سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اجتماعیات اور اخلاقیات کے بعض مغربی ماہرین نے اس صورتِ حال پر صدائے احتجاج بلند کی ہے۔[56]

 

ذرائع ابلاغ اور تعلیماتِ نبویﷺ:

اسلامی ریاست میں ذرائع ابلاغ کی سمت اور اس مقصد کا یقین کر دیا گیا ہے،ابلاغ کے معنی پھیلانے اور پہنچانے کے ہیں۔اسلام نے طے کر دیا کہ پھیلانے اور پہنچانے کی چیز صرف معروف ہے،یہ ان ذرائع کا (positive and peromotive) کردار ہے۔ان کا دفاعی اور حفاظتی کردار یہ ہے کہ منکرات کو دبانے اور مٹانے کا فریضہ سرانجام دیں۔اسلامی اقدار پر جس سمت کا حملہ ہو اس کا منہ توڑ جواب دیں۔[57]تخلیقِ آدم کے واقعہ میں اظہار کے بعد دو اسلوب ہیں،یہی دواسلوب حیاتِ انسانی میں کار فرما نظر آتے ہیں،ایک آدم کا پیغمبرانہ ماڈل اور دوسرا ابلیسی ماڈل،پیغمبرانہ ماڈل کیا ہے؟

 

قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ۔[58]

 

یعنی صداقت اولین خوبی ٹھہری آگے فرمایا گیا:

 

وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا[59]

 

"یہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہوتا ہے تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں۔"

 

ابلاغ کا یہ ماڈل مقصود ہے جس میں صداقت و انکسار ہو نہ کہ جھوٹ،تصنع، بناوٹ،فحاشی و عریانی کا فروغ اور بے حیائی کا کلچر فروغ پاتا رہے،اسلامی نظریہ ابلاغ قرآن اور نبیﷺ کی تعلیمات پر مبنی ہونا چائیے۔عقیدہ اسلامی کاغیر مبہم اظہار اسلامی اخلاق کی توضیع و تشریح کی جائے،دعوت الی اللہ کی طرف بلایا جائے،دینی اور دنیاوی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔مسلم تشخص کو اُبھارنے والےپروگرام نشر ہوں اور صاف ستھری تفریح فراہم کی جائے،احترام ِ انسانیت نیکی کی اشاعت،صحیح معلومات کا ابلاغ ہو،تجسس سے گریز کیا جائے،صالح معاشرے کے قیام میں معاون ثابت ہوں اور اخوت اور یک جہتی کو فروغ دیا جائے۔

 

احترامِ انسانیت:

 

ایک اسلامی ریاست کے ذرائع ابلاغ انسانی عظمت اور احترام آدمیت کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنی نشریات اور تحریروں میں ایسا پروگرام شامل نہ کریں جس سے انسان کی بے توقیری ہوتی ہو،نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

المسلم اخوالمسلم لا یظلمہ ولا یسلمہمسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس سے کنارہ کرتا ہے۔[60]

 

بے قید و بے لگام صحافت و نشریات انسانی معاشرت میں تخریب کاری کا ذریعہ ہیں۔اسلام ذرائع ابلاغ کو احترامِ انسانیت کے بنیادی اصول کا پابند بناتا ہے مطبوعہ یا الیکٹرک ذرائع ابلاغ کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ لوگوں کی پگڑیاں اُچھالیں۔عوام میں انتشار پھیلائیں اور لوگوں کی عزتِ نفس سے کھیلیں۔

 

دل آزاری اور توہین آمیز رویہ کی ممانعت:

 

اسلام اس بات سے منع کرتا ہے جس سے دوسرے انسانوں کا دل دُکھے۔

 

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ ۚ ۔[61]

 

"اے اہلِ ایمان مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اُڑائیں ،ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔آپس میں ایک دوسرے کو لعن طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔"

 

نیکی کی اشاعت:

 

نیکی کا پھیلاؤ اور برائی سے منع کرنا اسلامی معاشرت کا بنیادی اصول ہے۔لہذا ذرائع ابلاغ کو اسی اصول کی پابندی کرنا ہو گی،قرآن مجید میں فرمایا گیا:

 

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭ [62]

 

"تم دُنیا میں بہترین اُمت ہو جسے انسانوں کے لیے اُٹھایا گیا،تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بُرائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔"

 

نبیﷺ نے فرمایا:والذی نفسی بیدہ لتامرن بالمعروف و تنھون عن المنکر اولیو شکن اللہ ان یبعث علیکم عذابا منہ فتدعو الہ ولا یستجیب لکم۔[63]

 

"قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ تمہیں نیکی کا ضرور حکم دینا ہو گا اور بُرائی سے ضرور روکنا ہو گا،ورنہ ممکن ہے کہ اللہ تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے،پھر تم اسے پُکارو گے اور تمہیں جواب نہ آئے گا۔"

 

اس وقت اُمتِ مسلمہ کی جو حالت ہے وہ اسی فریضے سے غفلت کے نتیجے میں ہے۔نیکی کا فروغ اور بدی کی روک تھام میڈیا کے ذریعے تیز رفتاری کے ساتھ سر انجام دی جا سکتی ہے۔

 

فواحش و منکرات کا سد باب:

 

فحاشی اور عریانی شیطان کا راستہ ہے،فحاشی بنیادی طور پر ایسی گفتگو اور ایسا عمل ہے جو انسان کو بدکاری پر آمادہ کرئے،جیسے فحش مکالمے،جنسی جذبات کو اُبھارنے والے گیت،عریاں تصاویر،فحش افسانے،ناول،نظمیں اور مضامین وغیرہ،قرآن میں فرمایا گیا:

 

وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۚ [64]

 

"فواحش کے قریب بھی مت پھٹکو خواہ وہ ظاہرہو یا چُھپی ہوئی ہو۔"

 

آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

"نساء کاسیات عاریات مائلات ممیلات،روؤسھن کا سئمۃ البغت المائلۃ لا یدخلن الجنۃ ولا یجلن ریحھا وان ریحھا لتوجد من میرۃ کذاوکذا۔"[65]

 

وہ عورتیں جو لباس پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں،خود مردوں کی طرف میلان رکھنے والیاں اور انہیں اپنی طرف مائل کرنے والیاں ہیں،ان کے سر بخشی اُونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف سے جھکےہوئے ہیں۔وہ جنت میں نہ جائیں گی،بلکہ اسکی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی دور سے آتی ہو گی۔ (صحیح مسلم کتاب اللباس والزینۃ)

 

آج اداکاروں کے سٹائل کے لیے باقاعدہ رسالے چھپتے ہیں،اور یہ بے ضرر رسالے شرفاء کے گھروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ :جو شخص تم میں سے کوئی خلاف شرع عمل دیکھے تو اس کو ہاتھ سے روکے اگر اسکی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اسکی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے برا جانے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔[66]

 

سستی تفریح اور اسلام کا تصورِ تفریح:

اخبار و رسائل اور ٹی وی ایک سستی تفریح ہے،جو بغیر کسی مشقت کے گھر بیٹھے بٹھائے ہر کسی کو میسّر آجاتی ہے۔ایک بٹن دُبائیں اور نیا جہان آباد کریں،اسلام ایک بامقصد نظامِ حیات ہے،سنجیدگی و وقار اس کا مزاج ہے،سوچ بچار، غورو فکر اسکی طبیعت ہے۔آپﷺ نے فرمایا:

 

من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یغنیہ[67]

 

"آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے مقصد امور کو چھوڑ دے "

 

نبیﷺ نے فرمایا:مجھے میرے رب نے نو باتوں کی نصیحت کی ،جن میں یہ بھی فرمایا:کہ میری خاموشی سوچ بچار کے لیے ہونی چاہیے،تدبر و تفکر کے لیے ہونی چاہیے۔[68]

 

نجی زندگی کا تحفظ:

 

اسلام فرد کی نجی زندگی کا تحفظ کرتا ہے،اور معاشرے اور ریاست کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ شہریوں کی نجی زندگی کو بے نقاب کرے،اسلامی نقطہ نظر سے ذرائع ابلاغ کا یہ کام نہیں کہ وہ عیب جوئی،غیبت،بدگمانی،لوگوں کے راز معلوم کرنے ، معاملات کی ٹوہ لگانے اور کُریدنے کا کام کریں،اس طرح تجسس سے بھی منع کیا گیا ،آج جسے تفتیشی صحافت کہا جاتا ہے،اس میں اس امر کے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ لوگوں کے عیوب بے نقاب ہوں اور وہ بلیک میل ہوں۔اسلامی نظریے کے مطابق ذرائع ابلاغ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ افراد کی نجی زندگی کے بارے میں کھوج لگاتے پھریں۔

 

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ [69]

 

اے اہلِ ایمان بہت گمان کرنے سے بچو،کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں،تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرئے،کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرئے گا،دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔

 

حضورﷺ نے اسے مزید وضاحت سے بیان کیا ہے،آپﷺ سے منقول ہے:

 

ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ولا تحسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وکونوا عباد اللہ اخوانا۔[70]

 

غلط معلومات کی فراہمی کی مخالفت:

 

ذرائع ابلاغ فرد یا گروہ کے بارے میں غلط اطلاع دے کر اسکا وقار مجروح کرتے ہیں۔اس اسلامی اصول کے مطابق ذرائع ابلاغ کو سچائی اور حقیقت پر مبنی معلومات مہیا کرنا ہوں گی۔ارشارِ باری تعالیٰ ہے:

 

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ ۔[71]

 

اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو"

 

اسلامی ریاست کے ذرائع ابلاغ جھوٹی افواہوں اور بے بنیاد خبروں سے اجتناب کرتے ہیں،ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کریں۔ڈراموں میں جھوٹے کردار ادا کیے جاتے ہیں،ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا:

 

ویل للذی یحدث بالحدیث لیضحک بہ فیکذب فویل لہ فویل لہ۔[72]

 

اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹی باتیں کرتا ہے۔اس کے لیے ہلاکت ہے اس کے لیے ہلاکت ہے۔(سنن ترمذی،ابواب الزھد)[73]

 

ڈراموں اور کہانیوں کے اندر جھوٹے رشتے بنائےجاتے ہیں،پھر اُلٹی سیدھی نسبتیں بنانا تو ویسے بھی حرام ہے،سیّدنا انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا:

 

من ادعیٰ الی غیر ابیہ او انتمیٰ الیٰ غیرموالیہ فعلیہ لعنۃاللہ المتتابعۃ الیٰ یوم القیامۃ۔[74]

 

جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی یا اپنے مالک کے علاوہ کسی اور طرف نسبت کی اس پر قیامت تک کے لیے مسلسل لعنت ہے۔

 

تصنع اور بناوٹ کی مخالفت:

 

ذرائع ابلاغ کے ذریعے تصنع اور بناوٹ کو فروغ دیا جا رہا ہے،نبیﷺ نے اس چیز کی مخالفت فرمائی۔

 

نبی ﷺ نے فرمایا:ھلک المتنطون قالھا ثلاثا[75]

 

مبالغہ آرائی کرنے والے ہلاک ہوں گے،آپﷺ نے یہ بات تین بار فرمائی۔

 

اخوتِ اسلامی کا فروغ:

 

مسلم معاشرے کا استحکام اسلام کے اصولِ اخوت پر مبنی ہے۔ذرائع ابلاغ کی مدد سے اخوتِ اسلامی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

 

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۔[76]

 

"مؤمن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم پر رحمت کی جائے۔"

 

ذرائع ابلاغ اس جذبہ اخوت کو بیدار رکھ کر مسلم معاشرے کی یک جہتی کو قائم رکھ سکتے ہیں۔

 

حضورﷺ نے اخوت کے سلسلے میں ارشاد فرمایا:

 

ان المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ثم شک بین اصابہ[77]

 

مومن مومن کے لیے دیوار کی مانند ہے،کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔پھر آپﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں۔

 

ایک اور جگہ ارشادِ نبویﷺ ہے:

 

المسلمون کرجل واحدان اشتکی عینہ اشتکی کلہ واناشتکی راہ اشتکی کلہ[78]

 

تمام مسلمان ایک آدمی کی مانند ہیں اگر اسکی آنکھ میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن دکھنے لگتا ہے۔

 

ان احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے ذرائع ابلاغ امتِ مسلمہ کی وحدت و اخوت کو مستحکم کرتے ہیں،نا کہ فرقہ بندی،تعصب و منافرت کو فروغ دیں۔

 

 

مثبت تفریح کا تصور:

 

جب انسان مسلسل مصروف رہتا ہے تو اسے سکونِ اطمینان کی ضرورت رہتی ہے،اس بات کو نباضِ حقیقی(اللہ تعالیٰ) نہیں جانتا تو کون جانتا ہے،فرمایا :

 

اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ[79]

 

"اس اللہ نے تمہارے لیے رات اس لیے بنائی ہے کہ تم اس سے سکون حاصل کرو"

 

،نبیﷺ نے ایک صحابی سیّدنا عبداللہ بن عمر ؓسے فرمایا:

 

قم و نم فان لجدک علیک حقاََون لعینک علیک حقاََ وان لزوجک علیک حقاََ[80]

 

"تو سو بھی اور رات کو قیام بھی کرو کیونکہ تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے،تیری آنکھوں کا بھی تجھ پر حق ہے،تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے"

 

یہ تفریح ہے یہ سکون ہے اور کیاہے؟

 

اسلام نے تفریح کی اجازت دی ہے،اس شرط کے ساتھ کہ حرام کا ارتکاب نہ ہو،مسلم معاشرہ بھی اپنے افراد کے لیے تفریح فراہم کر سکتا ہے تا کہ افراد کی صلاحیتوں کو کُند اور ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ہر وہ امر جو اللہ کی یاد سے خالی ہو یا غفلت ہے یا بھول ما سوا چار باتوں کے،ہنر اندازی کے ہدف کے درمیان دوڑنا ،گھوڑے کی تربیت کرنا،گھر والوں کے ساتھ خوش وقتی کرنا اور تیراکی سیکھنا۔

 

رسولﷺ نے گھڑ دوڑ کا مقابلہ کروایا اور آگے نکلنے والے کو انعام عطا فرمایا۔[81]

 

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ:

 

میں نے رسولﷺ سے دوڑ کا مقابلہ کیا اور آپﷺ سے آگے نکل گئی،پھر بعد میں جب میں ذرا فربہ ہو گئی تو آپﷺ کے ساتھ دوڑ لگائی تو آگے نکل گئے اور فرمایا یہ اسکا بدلہ ہے۔[82]

 

ان احادیث سے اندازہ ہوا ہے کہ اسلام میں تفریح کا تصور موجود ہ ذرائع ابلاغ میں پائے جانے والے تفریح کے تصور سے کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔

 

 

حاصلِ بحث:

جدید ذرائع ابلاغ اتنے طاقتور ہیں کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھانا ان کے لیے معمولی کام ہے،دورِ حاضر کا انسان ذرائع ابلاغ کا غلام ہو گیا ہے، وہ ہر وقت نئی نئی چیزوں ،معلومات اور نتائج کا منتظر رہتا ہے۔انسان کے اندر ایک ایسی ہوس پیدا کر دی گئی ہے جو کسی طور پر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، ذرائع ابلاغ کے دو رُخ ہیں ،ایک مثبت دوسرا منفی۔مثبت پہلو میں استعمال کیا جائے تو تعلیم کے شعبے میں ترقی حاصل کی جا سکتی ہے،مثبت معلومات کا حصول آسان ہو سکتا ہے۔جدید اور سائنسی علوم کو فروغ دیا جا سکتا ہے، معاشرے کے اندر نیکی اور بھلائی کا فروغ ہو سکتا ہے، بدی کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔تعلیم اور ثقافت کے عمدہ پروگرام تعمیر شخصیت میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ سمعی وبصری ذرائع ابلاغ کے ذریعے تنہائی کا علاج کیا جا سکتا ہے۔مگر مثبت استعمال ۲۰ فیصد بھی نہیں جبکہ منفی استعمال ۸۰ فیصد سے زائد ہے، ذرائع ابلاغ نے جہاں مثبت اثرات مرتب کیے ہیں وہاں بہت سے منفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں، غیر محسوس انداز میں سا معین و ناظرین کے رویوں ،سوچوں اور مزاجوں کو متا ثر کرتے ہیں۔طرزِ زندگی ،رہن سہن،رسم و رواج،نشست و برخاست انداز گفتگو وغیرہ کو متاثر کیا ہے،نوجوان نسل میں بے راہ روی،بے مقصدیت، فیشن پرستی، جنسی آوارگی، تشدد اور تخریب کاری پیدا کرنے میں اس نے اہم کردار ادا کیا ۔ٹی وی ڈراموں،اخبارات،رسائل ،انٹرنیٹ کے ذریعے امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ،جرائم پروری،نمود و نمائش،ریا کاری،مکاری،تشدد پسندی،غنڈہ گردی اور فیشن پرستی میں اضافہ ہوا ہے، ان روحانی بیماریوں سے اگر چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو قرآن و سنت کو تھامنے میں ہی عافیت ہے۔ پیارے نبیﷺ نے خطبہ حجۃ الواداع میں فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں،

 

قرآن و سنت۔اگر ان کو تھامے رکھو گے تو راہِ راست پر رہوگے اور فرمایا:

 

اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ ۔[83]

 

آج کے دن تمہارے دین کو میں نے مکمل کر دیا اور میں نے تم پر اپنا انعام تمام کر دیا اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لیے پسند کر لیا۔

 

تجاویزِ سفارشات:

نسلِ نوع ،بچوں اور بڑوں کو ذرائع ابلاغ کے مثبت استعمال کی طرف توجہ دلائی جائے اور حسبِ ذیل امور پیش ِ نظر رکھے جائیں

  1. بچوں کو رات جلد سونے کی عادت ڈالی جائے،مقررہ وقت پر ٹی وی اور کمپیوٹر وغیرہ بند کر دیا جائے۔
  1. منتخب پروگرام دکھائے جائیں۔
  2. گھر میں یہ تعلیم دی جائے کہ دینی فرائض یعنی نماز سے غفلت نہ برتیں اور اپنی تعلیم و ترقی اور اپنے اسکول کے کام پر توجہ دیں۔
  3. افراد کو حلال و حرام کی تمیز سکھائیں تا کہ خیر و شر میں تفریق کر سکیں اور انہیں شعور حاصل ہو کہ میڈیا پر جو پروگرام دکھائے جارہے ہیں وہ اسلام کے مطابق ہیں یا نہیں۔
  4. والدین بچپن ہی سے بچوں کو تعلیم دیں کہ وہ حیا سوز گانے،موسیقی،فحش مناظر والے پراگرام اور لغو ڈرامے نہ دیکھیں اس کے برعکس معلومات پر مبنی پروگرام دیکھیں تا کہ بڑوں کی غیر موجودگی میں بھی ان باتوں کو ذہن نشین رکھیں اور ان پر عمل کریں۔
  5. قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق تربیت دیں تا کہ فحاشی و عریانی کےسیلاب سے بچا جا سکے اور راہِ ہدایت پر بآسانی چلا جا سکے
  6. والدین اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں تا کہ وہ ذرائع ابلاغ کے ہتھے نہ چڑھیں اور ان کے ذہنوں کی معصومیت برقرار رہے۔

 

 

ایسے پروگرام دکھانے پر پابندی لگائی جائے جن میں مختلف رذائل ِ اخلاق مثلاََ جھوٹ،غیبت،نقل اُتارنا،چوری،دھوکہ،رشوت دھوکہ دہی اور منافقت دکھائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ سائن بورڈ کہیں بھی لگانے پر پابندی لگائی جائے اس کے ساتھ ساتھ نا شائستہ تصاویر اور پرائیویٹ زندگی میں استعمال ہونے والے پروڈکٹس کے سائن بورڈ لگانے پر نہ صرف پابندی لگائی جائے بلکہ سزا مقرر کی جائے تا کہ اصلاحی اور قومی موضوعات پر مبنی فلمیں اور ڈرامے بنانے کی ترغیب دلائی جائے،

 

ڈش اینٹینا کو صرف ریسرچ کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ،ملک میں بھارتی اور انگریزی فلموں کے کاروبار پر سخت پابندی لگائی جائے۔حکومت انٹرنیٹ پر مخرب اخلاق جنسی ویب سائٹ پر پابندی عائد کرے اور ان کو فلٹر کیا جائے جیسے سعودیہ عرب نے اہتمام کیا ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل ذرائع ابلاغ کےلیےبھی قرآن و سنت کی روشنی میں جامع سفارشات و لائحہ عمل مرتب کرے اور سختی کے ساتھ ان پر عملدرآمد کروایا جائے۔والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں تا کہ وہ ان ذرائع ابلاغ کا غلط استعمال نہ کریں،بچوں کو بھرپور وقت دیں تا کہ وہ اپنے وقت کو بے مقصد سرگرمیوں میں ضائع نہ کریں۔نیٹ کے استعمال پر نظر رکھیں ،بچوں کے دوستوں کی خبر ہو تا کہ بچوں کے اندر غلط عادات و اطوار کا بروقت تدارک کیا جا سکے۔

 

حوالہ جات

  1. خورشید،عبد السّلام،مہدی حسن،تعلقات عامہ،مکتبہ کاروان،لاہور،1987،: 29
  2. المنجد فی اللغۃ، والاعلام، المکتبۃ المشرقیہ ،بیروت،لبنان،1986،: 48
  3. المائدہ،5: 67
  4. اردو لغت،اردو بورڈ،کراچی،1977،37/1
  5. ((The new encyclopedia Britania,vol 6,P:203,Chicago,1986
  6. Emery/Aulte.E.Emery,Introducing the mass communication Harper of Row)

     

    London,1979,P:8,)
  7. BBc English Dictionary,P:72,Harper Collins publishers,1995
  8. Chamber's English Dictionary,P:885,chester Meblbourne,sudeny
  9. BBc English Dictionary,P:72,Harper Collins publishers,1995
  10. زیاد ابو غنیمۃ،المسیطرۃ العھونیہ علی وسائل الاعلام،ص:11
  11. عبد السلام خورشید،صحافت پاکستان و ہندوستان میں،ص:181
  12. الاعراف،145:7
  13. اسلام کا قانون ِ صحافت،ص:36،35
  14. ثناء چوہدری،جدید تعلقاتِ عامہ۔مقتدرہ قومی زبان،پاکستان،1988ء،ص:63
  15. اسلام کا قانونِ صحافت،ص:123
  16. محمد شمس الدین،ڈاکٹر،ابلاغِ عامہ کے نظریات،ص:30
  17. محمد بشیر،مختصر انٹرنیٹ ڈکشنری،اردو ازار لاہور،ص:60
  18. محمد انور بن اختر،دُنیا عیسائیت کی زد میں
  19. اسلام کا قانونِ صحافت،ص:13
  20. الاعلیٰ،87: 18-19
  21. ابلاغِ عامہ اور جدید دور،ص:65
  22. ابلاغِ عامہ،61
  23. المائدہ،5: 99
  24. مودودی ، ابو الاعلیٰ ،تفہیم القرآن581/2،اِسلامک پبلی کیشنز لاہور 1998،1/35
  25. ایضاً
  26. الاعراف،7: 199
  27. آل عمران،3: 159
  28. الانبیاء،107:21
  29. اسعدگیلانی،رسول ﷺ کی حکمتِ انقلاب،اسلامک پبلی کیشنز
  30. العلق،96: 1
  31. الحجرات،49 :13
  32. البقرہ،201:2
  33. مودودی ، ابو الاعلیٰ ،اِسلام کا نظامِ حیات،ص:30
  34. مسلم ممالک اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش میں،ص:322
  35. آل عمران،3: 110
  36. النساء،4: 148
  37. عورت اسلامی معاشرے میں،ص:334
  38. النور،19:24
  39. Burt.C,The young Delinquent.com
  40. متین خالد،حقوق انسانی کی آڑ میں،ص:219
  41. Ntto://michellemalkin.com
  42. محمد انور بن اختر،عالمِ اسلام پر یہودی نصاریٰ کے ذرائع ابلاغ کے یلغار،ص ۳۱۵
  43. نعیم صدیقی، عورت معرض کشمکش میں،ص ۱۳۳
  44. دیوبند اسر،عوامی ذرائع ابلاغ ،ترسیل اور تعمیر و ترقی ،قومی کونسل برائے فروٖ اردو زبان ،وزارت ترقی انسانی وسائل،نئی دہلی،۲۰۰۲،ص۲۱
  45. تعارف ابلاغِ عامہ،جامعہ کراچی
  46. متین خالد،حقوقِ انسانی کی آڑ میں،ص۲۱۹
  47. The muslim World book review P:6
  48. http// www,al.jazeera.net
  49. تقی عثمانی،ہمارا تعلیمی نظام،ص۴۶
  50. مغربی میڈیا اور اس کے اثرات،ص ۱۱۳
  51. یوسفی ,ریحان احمد ،ہم ویلنٹائن ڈے پر کیا کرے،ماہانہ اشراق،ج ۱۷،ص ۱۸
  52. خورشید احمد،نظامِ تعلیم،ص۴۱
  53. شہناز ماجد ،موجودہ ذرائع ابلاغ معاشرتی تعمیر معاون ہا مذاحم ،ماہانہ خواہش میگزین،ج۷،ص ۱۳
  54. سہیل انجم،میڈیا،اردو اور جدید رجحانات ،ایجوکیشنل پبلی کیشنز ہاؤس،دہلی،۲۰۱۰،ص ۶۳
  55. ام عبدالرب ،ٹی وی کے نقصانات اور فائدے کا جائزہ،دارالاندلس لاہور،۲۰۰۶،ص۱۷
  56. فھمی النجار،اسلام اور ذرائع ابلاغ،ادارہ معارفِ اسلامی لاہور،ترجمہ ڈاکٹر ساجد الرحمٰن صدیقی،۱۱۹۲ص ۳۹
  57. محمد دلشاد،کنور ذرائع ابلاغ اور تحقیقی طریقے،منعقدہ قومی زبان،پاکستان،اسلام آباد،۱۹۹۹،ص ۲۹۷
  58. التوبۃ ،9: 119
  59. الفرقان،25: 72
  60. بخاری، الجامع الصحیح ، کتاب المطائم والقصاص ،باب لا یظلم المسلم المسلم،رقم الحدیث: ۳۳۰
  61. الحجرات، 49: 11
  62. ال عمران،3: 110
  63. ترمذی، الجامع، ابواب الفتن،باب ماجا فی الامر بالمعروف و نہی عن المنکر رقم الحدیث:39
  64. الانعام، 6: 151
  65. مسلم ،الجامع الصحیح، کتاب اللباس والزینۃ،باب النساء ،الکاسیات العاریات المائلات الحمیلات
  66. مشکوٰۃ شریف، ۱:۴۷۸
  67. ترمذی،الجامع، ابواب الزھد ،باب ماجافی تکلم بالکلمۃ لیلعک الناس باب منہ،حدیث صحیح ہے۔صحیح ترمذی ۱۴۴۶م ۱۸۸۷
  68. مشکوٰۃ،کتاب الرقا ق ،باب البکا والخوف، رقم الحدیث: ۵۳،۵۸
  69. ۔ الحجرات، 49: 12
  70. بخاری،الجامع الصحیح، باب الادب اماینھی عن التحاسد ،رقم الحدیث: ۷۹۶
  71. التوبہ، 9: 119
  72. ابو داؤد ، السنن، کتاب الادب،باب فی الرجل ینتمی الی غیر موالیہ،رقم الحدیث:۴۲۶۸
  73. مسلم ،الجامع الصحیح، کتاب العلم ،باب ھلک المتنطفون،رقم الحدیث:۲۳۶۷
  74. ابو داؤد ،السنن، کتاب الادب، رقم الحدیث:۴۳۶۸
  75. مسلم ،الجامع الصحیح،تاب العلم، رقم الحدیث:۲۳۶۷
  76. الحجرات، 49: 10
  77. بخاری،الجامع الصحیح، کتاب الصلوۃ ناب تشبیک الاصبع فی المسجد وغیرہ۔۔۔۸۳،کتاب المظالم،باب نصر المظلوم ۔۔رقم الحدیث: ۱۳۹۴ ؛مسلم،الجامع الصحیح، کتاب البر والصلہ،باب تراحم المؤمنین، رقم الحدیث:۱۱۳۱
  78. بخاری،الجامع الصحیح، کتاب الادب ،باب رحمت الناس والھائم، رقم الحدیث:۶۰۰۱؛مسلم ، الجامع الصحیح، کتاب البر،باب تراحم المؤمنین، رقم الحدیث:۱۱۳۱
  79. المؤمن، 40: 61
  80. بخاری،الجامع الصحیح، کتاب النخاح لزوجک علیک حق:حقا ون لعنک حقا لزوجک علیک حقا
  81. بخاری ،الجامع الصحیح، ص ۵۱۵؛مسلم، الجامع الصحیح، رقم الحدیث: ۱۴۹۱
  82. ابو داود، السنن، باب فی السبق علی الرجل، رقم الحدیث: ۲۵۷۸
  83. المائدہ، 5: 3
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...