Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 2 of Al-ʿILM

سربراہ ریاست کے اختیارات: جدید مغربی سیاسی افکار کا سیرت نبوی کی روشنی میں تجزیاتی مطالعہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060040263_854

Pages

147-174

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/33/30

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/33

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

انسانی معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے اور عوام الناس کے حقوق کے تحفظ کے لیے ریاست کا قیام ناگزیر ہوتاہے۔ جبکہ ریاست کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے ریاست میں کسی ایسی بااختیار قوت کا ہونا بھی ضروری ہے جس کی اطاعت و فرمانبرداری عوام کے لیے ضروری ہو ۔ بصورت دیگر ریاست انتشار اور افراتفری کا شکار ہو سکتی ہے۔ اسی طرح سربراہ ریاست چونکہ ریاست کا نگہبان ہوتا ہے ۔عوام کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا اور ان کی فلاح و بہبود کی خاطر اقدامات اٹھانا اس کی ذمہ داری ہوتا ہے لہذا افراد ریاست کے مقابلے میں اس کو چند ایسے اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو نہ صرف اس کے منصب کا تقاضا ہوتے ہیں بلکہ اس منصب سےجڑے فرائض کی انجام دہی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ قطع نظر کہ ان اختیارات کا تعین کون کرتا ہے ، مختلف معاشروں میں اور مختلف ادوار میں سربراہ ریاست کو مختلف اختیارات حاصل رہے ہیں۔جدیدمغربی مفکرین بھی اس حوالے سے اپنے نظریات و افکارپیش کرتے ہیں۔جن کا سیرت نبویؐ کی روشنی میں مطالعہ اس تحقیقی مقالہ کا موضوع ہے۔

 

احتساب سے بالاتری:

 

تاریخ میں ایسے کئی شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ محتسب کا ادارہ کسی نہ کسی شکل میں انسانی

 

تہذیب کے ہر دور میں موجود رہا ہے ۔ چین کے منگول شہنشاہ قبلائی خان نے اس قسم کا ایک ادارہ قائم کر رکھا تھا جسے Censorateکہتے تھے۔ یہ محتسب کے ادارہ کے اغراض و مقاصد کے بہت قریب تر تھا۔ اس کی نگرانی میں افسران اور اہلکاروں کی زیادتیوں کی جانچ پڑتال ہوتی اور عوامی شکایات کا ازالہ کیا جاتا تھا۔ اسی طرح محتسب کی طرز کے اداروں کی تشکیل اور قیام کا پتا رومن تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ لیکن عصر حاضر میں احتساب کے لیے قائم ہونے والے ادارے بہت حد تک انیسویں اور بیسویں صدی میں قائم ہوئے۔سویڈن میں یہ ادارہ 1809ء میں تشکیل پایا، برطانیہ میں 1927ء میں قائم ہوا، 1919ء میں فن لینڈ میں ، 1954ء میں ڈنمارک میں، 1962ء میں ناروے میں ، اور 1970ء میں کینیڈا وغیرہ میں محتسب کے ادارے قائم کیے گئے۔[1]

 

لیکن جدید مغربی مفکرین میں کچھ مفکرین کے نزدیک سربراہ ریاست کا احتساب ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے کسی بھی فعل کی وجہ سے اس کو حکمرانی سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ان مفکرین میں ژین بودین(Jean Bodin) اور تھامس ہابز(Thomas Hobbes) شامل ہیں۔ ان کے خیال میں جب اس کو ریاست کاسربرا ہ بنا دیا گیا تو پھر اب یہ منصب اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔وہ اس دنیا میں خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ خدا نے اس کو یہ منصب عطا کیا ہے ۔ خدا کے علاوہ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اسے اس منصب سے محروم کرے۔ژین بودین لکھتے ہیں:

 

I conclude then that the subject is never justified in any circumstances in attempting anything against his sovereign prince, however evil and tyrannical he may be. [2]

 

(میں پھر یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ کسی بھی صورت میں عوام کے مقتدر اعلیٰ کے خلاف اقدام کا جواز نہیں نکلتا چاہے وہ کتنا ہی برا یا ظالم کیوں نہ ہو۔)

 

تھامس ہابز بھی ریاست کے سربراہ کو احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق کسی بھی فرد کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ مقتدر اعلیٰ سے باز پرس کر سکے۔ تھامس ہابز رقم طراز ہیں:

 

No man that hath soveraigne power can justly be put to death, or

 

otherwise in any manner by his subjects punished.[3]

 

"کوئی بھی انسان جس کے پاس اقتدار ہو اس کی عوام نہ تو اسے قتل کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی اور ذریعے سے سزا دےسکتی ہے"

 

تھامس ہابز نہ صرف ریاست کے سربرا ہ کو احتساب اور ردعمل سے بالاتر قرار دیتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کسی کو بھی ریاست میں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سربراہ ریاست کے ہوتے ہوئے اس کو اس کے عہدہ سے دستبردار کر سکے۔ وہ لکھتے ہیں:

 

Therefore, where there is already erected a sovereign power, there can be no other representative of the same people, but only to certain particular ends, by the sovereign limited.[4]

 

"اسلئے اگر کہیں پر پہلے سے مقتدراعلیٰ موجود ہو تو عوام اپنے لیے دوسرے مقتدر اعلیٰ کا انتخاب نہیں کر سکتی،بلکہ ایک مخصوص حد تک مقتدر اعلیٰ چاہے وہ اس بات کی اجازت دے سکتا ہے "

 

اسلام کی تعلیمات جدید مغربی مفکرین کے اس نظریہ سے میل نہیں کھاتیں ۔ ان کے مطابق ریاست کا کوئی بھی فرد احتساب سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔یہاں تک کہ ریاست کا سربرا ہ بھی عام لوگوں کے برابر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلا م میں ریاست کی سربراہی دراصل ایک امانت ہے۔حقیقی اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔[5]جس کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔ جس شخص کو بھی حکومت کی دیکھ بھال کی امانت سونپی جاتی ہے اس کو مقررہ حدود میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ان حدود سے تجاوز کرنے کی صورت میں نہ تو اس کی اطاعت کا حکم ہے اور نہ ہی اس کو اس عہدہ پر برقرار رکھنے کا۔[6]

 

احتساب باب افتعال سے ہے اور اس کا مادہ ح س ب ہے ۔حسب یحسب حسبانا و حسابا کے معنی گننا یا شمار کرنا کے ہیں۔جبکہ حسب یحسب محبسۃ و حسبانا سے مراد ہے : خیال کرنا گمان کرنا ۔قرآن مجید میں لفظ احتساب تو نہیں آیا تاہم اس سے مشابہ الفاظ کی مختلف شکلیں استعمال ہوئی ہیں۔ قرآن مجید میں لفظ حساب یا الحساب تقریبا 25 مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔کہیں اس کے معنی گنتی ، شمار اور حساب کے آئے ہیں اور کہیں اعمال ، یو م حساب ، عذاب اور جزا و سزا کے۔ مثلا :

 

وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ۝۰ۭ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰہُ تَفْصِيْلًا[7]

 

"اور اس لئے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو اور ہرچیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرما

 

دیا ہے"

 

مفسرین نے حساب اور حسبان کے معنی قریب قریب ایک ہی بتائے ہیں ۔علامہ راغب اصفہانی نے الحسبان کی معنوی تشریح میں بتایا ہے کہ کسی کے بارے میں اس طرح خیال دل میں لانا اور حکم لگانا کہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔[8]اس کی تائید میں قرآن کی متعدد آیات ہیں مثلا:

 

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ[9]

 

"کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انھیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟ "

 

بعض قرآنی آیات میں یحتسب کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور وہ بھی گمان کے معنوں میں ہے۔ مثلا:

 

مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ يَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوْنُہُمْ مِّنَ اللہِ فَاَتٰىہُمُ اللہُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا۝۰[10]

 

"وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ (عذاب) سے بچا لیں گے پس ان پر اللہ کا عذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا"

 

لہذا عربی زبان اور اسلامی ادبیات جن میں احادیث نبویہ اور کتب فضائل شامل ہیں ، لفظ احتساب کے معنی کسی ایسے کام کے لیے بالخصوص آئے ہیں جو خالصتا اللہ کے لیے یعنی صرف اور صرف خوشنودی خدا کی خاطر کیا جائے اور باری تعالیٰ سے ہی اس کے اجر و ثواب کی امید رکھی جائے۔ چنانچہ ایسے کام کے لیے کہاجاتا ہےکہ یہ حسبۃ اللہ یا احتسابا للہ کیا گیا ہے۔ صحیحین کی ایک حدیث میں بھی احتساب کا یہی مفہوم پایا جاتا ہے:

 

من صام رمضان ایمانا وا حتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ۔[11]

 

"جس نے کامل ایمان و یقین کے ساتھ اور خالصتا اللہ کے لیے رمضان کے روزے رکھے ، اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے"

 

الغرض احتساب سے مراد کسی نیک کام سے اجتناب پر نکیر اور ناپسندیدگی کا اظہار کرنا ہے۔اس سے مراد گنتی و شمار بھی ہے اور حساب لینے ، حساب کرنے ، اعمال ، جزا و سزا اور عذاب کے معنی بھی اس سے مراد لیے جاتے ہیں۔ لہذا احتساب میں وہ تمام معنی مضمر ہیں جو مادہ س ح ب کے تحت قرآن و حدیث

 

میں اس لفظ کے متعلقات میں استعمال ہوئے ہیں۔

 

جبکہ امام غزالی کے نزدیک احتساب سے مراد ہے:

 

الاحتساب عبارۃ عن المنع عن منکر لحق اللہ صیانۃ للمنوع عن مقارنۃ المنکر۔[12]

 

"احتساب عبارت ہے حقو ق اللہ سے متعلق کسی منکر یعنی ناپسندیدہ کام سے روکنا تاکہ جس کو روکا جا رہا ہو وہ برائی کا مرتکب نہ ہو"

 

ابن اثیر کے نزدیک :

 

والاحتساب فی الاعمال الصالحہ وعند المکر وھات ھو البدار الی طلب الاجر وتحصیلہ بالتسلیم والصبر او باستعمال انواع البر والقیام بھا علی الوجہ المرسوم فیھا طلبا للثواب المرجو منھا۔ [13]

 

"اور احتساب نیک اعمال میں اور ناپسندیدہ امور کے وقت اجر کے حصول کی طرف جلدی کرنے کا نام ہے اور اس کا حصول تسلیم و رضا اور صبر یا اس سے مطلوب اجر و ثواب کے حصول کی خاطر نیکی کے مختلف طریقوں پر چلنے اور ان پر مناسب طریقوں سے مداومت کرنے سے ممکن ہے"

 

اسی طرح عربی لفظ الحسبہ سے مراد وہ ادارہ ہے جو احتساب کے فریضہ کو بخوبی سر انجام دے۔

 

الحسبہ: مصطلح من مصطلحات القانون الاداری معناہ الحساب او وظیفۃ المحتسب۔ [14]

 

"حسبہ قانونی اور انتطامی اصطلاحات میں سے ایسی اصطلاح ہے جس کے معانی حساب یا محتسب کا فریضہ ہیں"

 

جب کہ محتسب احتساب کے عہدہ پر فائز شخص کو کہا جاتا ہے:

 

المحتسب من کان یتولی منصب الحسبۃ[15]

 

امام ماوردی کی رائے میں محتسب وہ شخص ہے جس کے متعلق رواج اسلام اور نفاذ احکام شریعت کیا گیا ہو

 

تاکہ وہ جس بدعت و خلاف شرع بات کو اعلانیہ لوگوں میں پائے ، اول نرمی اور بعد ازاں سختی سے منع کرے۔ [16]

 

چونکہ محتسب خلاف شرع باتوں سے منع کرتا ہے لہذا اس کی حیثیت شرعی امور کے نگہبان کی ہوتی ہے۔ ماضی کے مختلف ادوار میں یہ فریضہ کبھی مفتی و قاضی اور بعض حالات میں کوتوال شہر انجام دیا کرتے تھے ۔

 

جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے تو وہ سربراہ ریاست کے محاسبہ کے جائز ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔دیکھا جائے تو امر احتساب کی جائز ہونے کے پیچھے قرآن کا امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا اصول کار فرما ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لیے یہ لازم قرار دیا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن[17]‬‬‬

 

"اور تمہارے اندر ضرور ایسے لوگوں کی ایک جماعت رہنی چاہیے، جو (دنیا کو) نیکی کی طرف بلائے، بھلائی کا حکم کرے، اور برائی سے روکے، اور یہی لوگ ہیں فلاح (اور حقیقی کامیابی) سے سرفراز ہونے والے "

 

مفسرین کرام اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں امت مسلمہ کے لیے یہ فرض قرار دیتے ہیں کہ وہ نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔کہ ابراھیم ثعلبی اپنی تفسیر " الکشف والبیان " میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

من أمر بالمعروف ونهى عن المنكر فهو خليفة الله في أرضه وخليفة رسوله وخليفة كتابهوقال علي بن أبي طالب كرم الله وجهه: أفضل الجهاد الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وشنآن الفاسقين فمن أمر بالمعروف شدّ ظهر المؤمن، ومن نهى عن المنكر أرغم أنف المنافق، ومن شنأ المنافقين وغضب لله عز وجل غضب الله تعالى له[18]

 

"جن نے نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع فرمایا تو وہ زمین میں اللہ کا خلیفہ ہے اور اس کے رسول کا خلیفہ ہےا ور اس کی کتاب کا خلیفہ ہے ۔ اور فرمایا علی بن ابی طالب نے سب سے افضل جہا د نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا اور فاسق لوگوں کے خلاف عمل کرنا ہے ۔ پس جس نے نیکی کا حکم دیا اس نے مومن کی کمر کو مضبوط کیا اور جس نے برائی سے منع کیا اس نے منا فق کی ناک خاک آلود کردی ۔ اور جس نے منافقین کی مخالفت کی اور اللہ کے لیے غصہ کیا اللہ تعالیٰ اس کے لیے غصہ ہو گا"

 

مسلم مفکرین اجتماعی اداروں کی تشکیل کا سبب اسی کو قرار دیتے ہیں۔ ابن تیمیہ امارت و حکومت کاسبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:پس معلوم ہوا کہ ولایت اور امارت کا اصل مقصد اللہ کی مخلوق کی خدمت و اصلاح ہے۔ اور جب دین کو لوگ چھوڑ دیں تو سخت ترین گھاٹا اٹھائیں گے ۔[19]

 

یہی وجہ ہے کہ مسلم مفکرین جن میں امام ماوردی اور ابن تیمیہ کے ساتھ ساتھ امام غزالی، ابن جوزی ،ابن قیم ، ابن خلدون بھی شامل ہیں ادارہ احتساب کی تشریح و توضیح امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ابواب کے تحت بیان کرتے ہیں۔

 

اس کے ساتھ ساتھ اسلام میں ریاست کی سربراہی ایک ذمہ داری اور امانت ہے ۔جس کی بطریق احسن انجام دہی اور حفاظت و دیکھ بھال ضروری ہے۔قرآن کی رو سے اس خلافت و نیابت کا مقصد درحقیقت انسان کی آزمائش ہے۔اللہ تعالیٰ انسانوں کو اقتدار و اختیار دے کر آزماتا ہے کہ کون اس سے جڑی ذمہ داری کو پورا کرتا ہے اپنے فرائض ادا کرتا ہے ، اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے اور کون ان تمام سے اعراض کرتا ہے ۔ سورۃ الاعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

 

قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ [20]

 

"انہوں نے فرمایا قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور اس کی جگہ تم کو زمین کا مالک بنادے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو"

 

سورۃ الانعام میں ارشاد ہوتا ہے:

 

وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ۝۰ۡۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌۧ [21]

 

"اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے۔ تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بیشک تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور بیشک وہ بخشے والا مہربان (بھی) ہے"

 

نبی کریم ﷺ کے ارشادات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ سربراہ ریاست کا کردار ایک نگہبان کا سا ہے ۔

 

جس پر لازم ہے کہ وہ اپنی رعایا کا اچھی طرح خیال رکھے اور ان کی جانب جو فرائض اس کے ذمہ ہیں ان کو ادا کرے۔ارشاد نبوی ؐ ہے :

 

قال الا کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ فالامام الذی علی الناس راع وھو مسئول عن رعیتہ والرجل راع علی اھل بیتہ وھو مسئول عن رعیتہ والمراۃ راعیۃ علی اھل بیت زوجھا وولدہ وھی مسئولۃ عنھم وعبد الرجل راع علی مال سیدہ وھو مسئول عنہ الا فکلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔[22]

 

"رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ سن لو کہ تم میں سے ہر شخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ امام جو لوگوں پر نگران ہے اس سے رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگران ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا، کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا، تم میں سے ہر ایک شخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا"

 

نبی کریم ﷺ کے نزدیک خلافت یاحکومت ایک ایسی ذمہ داری اور امانت ہے جس میں خیانت کرنے والا اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں پائے گا اور جہنم اس کا مقدر ٹھہرے گی۔ارشاد ہوتا ہے:

 

فَقَالَ مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ[23]

 

"آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص مسلمان رعیت کا حاکم ہو اور وہ اس حال میں مرجائے کہ ان سے خیانت کرنے والا ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردے گا"

 

خلافت کے پس منظر میں موجود نیابت و امانت کا یہ اصول سربراہ ریاست کےمحاسبہ کے وجوب کی نشاندہی کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی وہ تمام احادیث مبارکہ جو کہ امیر کی مشروط اطاعت کے حوالے سے وارد ہوئی ہیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسلامی ریاست کا سربراہ احتساب سے بالاتر نہیں ہو سکتا ۔مگر احتساب کے جواز کی شرائط میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی صریح نافرمانی شامل ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے:

 

السمع والطاعۃ علی المرء المسلم فیما احب و کرہ مالم یومر بمعصیۃ فاذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ۔[24]

 

"مسلمان مرد کو امام کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا لازم ہے جب تک کہ اس کو گناہ کا حکم نہ کیا جائے اور جب گناہ کا حکم کیا جائے تو نہ سننا چاہیے اور نہ ہی اطاعت کرنی چاہیے"

 

"نبی کریم ﷺ نے ظلم و فسق میں مبتلا حکمرانوں کا ساتھ دینے سے منع فرمایا ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

 

میرے بعد کچھ لوگ حکمران ہوں گے ۔ جو ان کے جھوٹ میں ان کی تائید کرے اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرے وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں"[25]

 

ایک اورموقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تم پر ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کی بعض باتوں کو تم معروف پاؤ گے اور بعض کو منکر ۔ تو جس نے ان کے منکرات پر اظہارِ ناراضگی کیا وہ بری الذمہ ہو گیا اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا۔ مگر جو ان پر راضی ہو ا اور پیروی کرنے لگا ۔صحابہ  نے پوچھا۔ پھر جب ایسے حکام کا دور آئے تو کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آ پ ؐ نے فرمایا: نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں"[26]

 

خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام  کا طرز عمل بھی اس پر دلیل ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق  ارشاد فرماتے تھے"اے لوگو! میں تمھاری ہی طرح کا ایک آدمی ہوں ۔۔۔ میں نبی کریمﷺ کا متبع ہوں کوئی نیا راستہ نکالنے والا نہیں ہوں ۔سو اگر تم مجھے حق پر دیکھو تو میری اعانت کرو اور اگر باطل پر دیکھو تو مجھے درست کرو"[27]

 

حضرت عمر نے جب منصب خلافت سنبھالا اور عوام کو خطبہ دیا تو اس میں آپ نے واضح طور پر یہ بیان فرمایا کہ نہ تو وہ اور نہ ہی کوئی اور احتساب سے بالاتر ہو سکتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں"اگر میں اچھے اصولوں پر قائم رہوں تو میری امداد پر کمر بستہ رہو اور اگر برا طرزعمل اختیار کروں تو مجھے سیدھا کرو۔ جسے اپنی قوت کا گھمنڈ ہے میرے نزدیک کمزور ہے اور جو کمزور ہے میرے نزدیک طاقتور ہے۔ میں طاقتور سے کمزور کا حق لے کر ہی مطمئن ہو سکتا ہوں۔ جہاد و جنگ سے غفلت قومی ذلت کا سبب ہے اور بدکاریوں کے پیچھے جانا بربادی اور خدا کی مار کا موجب ہے۔ اگر میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں تو تم میری اطاعت کرو اور اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو تم میری ہدایات کی تعمیل سے انکار کر دو۔ ایسی حالت میں میرے حکم کی پابندی تم پر فرض نہیں ہے"[28]

 

حضرت معاذ بن جبل نے شام کے حکمران کے دربار میں ایلچی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

 

"ہمارا حکمران ہم ہی میں سے ہے ۔ اگر یہ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب ، پیغمبر کی سنت پرعمل کرے گا ہم اسے حکمران کی حیثیت سے تسلیم کرتے رہیں گے لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو ہم اسے معزول کر دیں گے"[29]

 

ایک مرتبہ حضرت عمر بن الخطاب  نے دوران خطاب لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:"اگر تم میرے اندر کوئی کجی دیکھو تو کیا کرو گے؟ ایک صحابی  کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے کہا: ہم اپنی تلواروں کی دھار سے اسے سیدھا کریں گے۔ اس پر حضرت عمر  نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے جس نے عمر کی رعایا میں ایسے افراد کو رکھا ہے جو اس کی کجی کو اپنی تلواروں کی دھار سے سیدھا کر سکتے ہیں" [30]

 

مسلم مفکرین کے نزدیک حکمران طبقہ کا محاسبہ اسلامی اصول حکمرانی کا جزو ہے۔وہ احتساب کے عمل کو سربراہ ریاست کی ذمہ داریوں میں سےایک ذمہ داری قرار دیتے تھے۔مثلا امام ماوردی کے نزدیک حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ دین کی حفاظت کریں ۔عدل وانصاف کو قائم کریں ۔ جہاد کو جاری رکھیں۔ حدود اللہ کا نفاذ کریں۔مستحقین کو وظائف عطا کریں اور امور حکومت کی کڑی نگرانی کریں۔ انھوں نے امامت کے دس فرائض بیان کیے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:

 

حفظ الدین ، قطع الخصام بین المتناز عین، حمایت البیضۃ، اقامۃ الحدود، تحصین الثغور، جھاد من عائد الاسلام، جیابۃ الفئی والصدقات ، تقدیر العطایا، استکفا ء الافتا، تصفح الاحوال۔[31]

 

" دین کی حفاظت ، عدل و انصاف، امن و امان، تحفظ سلطنت ، محصولات کاانتظام ، مستحقین کے وظائف ، قابل عمال حکومت کا تقرر، امور سلطنت پر کڑی نگرانی۔ جہاد ، حدود و تعزیرات کا نفاذ "

 

نظام الملک طوسی بھی حکومتی اراکین کے لیے احتساب کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں شرعی احکام کی عملداری اورقیا م عدل سربراہ حکومت کے لازمی اور مقدم فرائض ہیں۔ ان کے لیے لازم ہے کہ وہ مشاورت کو اختیار کریں۔ اسی طرح خدا خوفی کے ساتھ قابل عمال کا تقرر بھی ان کی ذمہ داری ہے ۔ان

 

پر لازم ہے کہ وہ عمال اور رعایا کی نگرانی کریں۔[32]

 

جبکہ امام ابو یوسف کے مطابق احتساب کا عمل حکمران کے فرائض میں شامل ہے۔ ان کے خیال میں حاکم کے لیے لازم ہے حدود اللہ کو قائم رکھنا۔ حق داروں کے حقوق ٹھیک ٹھیک تحقیق کر کے ان کو دلوانا۔ صالح حکمرانوں کے دستور العمل کو زندہ رکھنا، ظلم کو روکنا اور عوام کی شکایات کو تحقیق کے بعد رفع کرنا۔ اللہ کے احکام کے مطابق لوگوں کو اطاعت کا حکم دینا اور معصیت سے روکنا۔[33]

 

ہماری تاریخ حکمران طبقے کے احتساب کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ریاست مدینہ کے قیام کے بعد اس امر کو خصوصی توجہ دی۔ نبی کریم ﷺ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد خود معاشی اور سیاسی امور کی نگرانی فرماتے تھے۔ایک مرتبہ آپ ؐ بازار تشریف لے گئےتو آپ نے غلہ کا ایک انبار دیکھا ۔ آپؐ نے اس کے اندر ہاتھ ڈالا تو اس میں نمی محسوس ہوئی آپ نے دکان دار سے فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ بارش میں بھیگ گیا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا کہ پھر اس کو اوپر کیوں نہیں کیا تاکہ ہر شخص کو نظر آئے۔ پھر فرمایا:

 

لا تغش بین المسلمین ، من غشنا فلیس منا۔[34]

 

"مسلمانوں کے باہمی معاملات میں دھوکہ دہی نہیں ہونی چاہیے۔ جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں"

 

حضرت ابو حمید ساعدی  سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو بنی سلیم کےصدقات وصول کرنے کے لیے اپنا عامل مقرر کر کے روانہ فرمایا۔ جب وہ مال وصول کر کے لوٹا تو آپؐ نے رقوم کا حساب طلب کیا ۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ یہ تو آپ کا مال ہے۔ یعنی وصول شدہ صدقات ہیں اور یہ مجھے ہدیہ ملا ہے۔ یہ سن کر آپ سخت غصے ہوئے اور فرمایا:

 

فھلا جلست فی بیوت ابیک وامک حتی تاتیک حدیتک ان کنت صادقا۔

 

"اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو تم کیوں نہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھے رہے یہ ہدیہ وہیں تمھارے پاس آجاتا ؟ "

 

پھر آپؐ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپؐ نے اس عمل کی سخت مذمت فرمائی۔[35]

 

سربراہ ریاست کے احتساب کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ حضرت عمر  کے دور خلافت میں یمن سے کچھ

 

چادروں کا تحفہ آیا اور اس کو حضرت عمر  نے صحابہ کرام میں تقسیم کردیا ۔ایک چادر خود بھی رکھی ۔حضرت عمر  خطبہ دے رہے تھے اوران کے جسم پر اسی چادر کی قمیض تھی۔ اچانک سلمان فارسی  کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: واللہ ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے ۔ حضرت عمر  نے دریافت کیا : کیوں؟ انھوں نے کہا: پہلے یہ بتائیے کہ مال غنیمت میں جو یمنی چادریں آئی ہیں ۔ان میں سے جب ہر ایک کے حصے میں ایک چادر ہی آئی ہے تو آپ کے جسم پر دو چادریں کیسے ہیں؟ [36]حضرت عمر  نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ سے گواہی دلوائی کہ دوسری چادر ان کی ہے ۔ جسے ان کے باپ نے ان سے مانگ لیا تھا۔ تب سلمان فارسی بولے : ہاں اب فرمائیے ۔ ہم سنیں گے۔ اور اطاعت کریں گے۔[37]

 

اسی طرح خطبہ کے دوران جب حضرت عمر  نے لوگوں کو اپنی لڑکیوں کا نکاح کرتے وقت زیادہ مہر متعین کرنے سے منع کیا تو ایک عورت نے انھیں برسر منبر ٹوکا اور کہا: اے عمر! جب اللہ تعالیٰ نے زیادہ مہر رکھنے سے نہیں روکا ہے تو آپ کو اس کی تحدید کا کیوں کر حق حاصل ہے؟ یہ سن کر حضرت عمر  نے اپنی بات سے رجوع کر لیا۔[38]

 

اسلامی تاریخ میں حکمران کے احتساب کے جائز ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے بھرےمجمع میں حضرت عمر کو مخاطب کر کے کہا: اے عمر ! اللہ سے ڈرو ۔ ساتھ ہی اور بہت کچھ کہا۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے اسے روکا اور کہا: بس کرو بہت ہو گیا۔ حضرت عمر  نے فرمایا: اسے کہنے دو ۔ اگر یہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اور ہم نہ مانیں گے تو ہم۔[39]

 

حضرت عمر فاروق  جب کسی کو عامل مقرر کیا کرتے تھے تو اس کے مال و اسباب کی فہرست تیار کرکے رکھ لیتے تھے پھر اگر اس دوران اس کی مالی حالت میں اضافہ ہوتا تو زائد رقم اس سے لے لیتےتھے۔[40]اس کے علاوہ انھوں نے تمام عمال کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ حج کے موقع پر حاضر ہوں ۔ وہ تمام لوگوں کی موجودگی میں اعلان کرتے تھے کہ اگر کسی کو کسی عامل کے بارے میں کوئی شکایت ہو تو وہ بیان کرے۔ چنانچہ اس وقت جو بھی شکایت ہوتی تحقیق و تفتیش کے بعد اس کا ازالہ کیاجاتا تھا۔[41]

 

ایک دفعہ تمام عمال جمع تھے تو ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ آپ کے عامل نے مجھے بے قصور سو کوڑے مارے ہیں۔ حضرت عمر  نے اس کو حکم دیا کہ وہیں مجمع میں عامل کو سو کوڑے لگائے۔ حضرت عمرو بن العاص  نے کہا کہ یہ امر عمال پر گراں ہو گا ۔ حضرت عمر  نے فرمایا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ملزم سے

 

انتقام نہ لوں۔ [42]

 

حضرت عمر  اپنے پاس آنے والے وفود سے پوچھا کرتے تھے کہ تمہارا امیر کیسا ہے؟ کیا وہ تمھارے بیماروں کی عیادت کرتا ہے؟ کیا کوئی غلام بیمار ہوتا ہے تو وہ اس کی عیادت کو جاتا ہے؟ وہ کمزور کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے؟ وہ بیکسوں کے دروازوں پر بیٹھنے میں اپنی ہتک تو محسوس نہیں کرتا ؟ اگر جواب نفی میں ملتا اور معلوم ہو جاتا کہ وہ ان ہدایات کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے فورا معزول کر دیا جاتا تھا۔[43]

 

بعض مورخین کی رائے میں حضرت عمر فاروق  نے ہی احتساب کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ابن سعد  کا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے بازار کی نگرانی کے لیے عبدا للہ بن عتبہ کو مقرر فرمایا۔ [44]

 

الماوردی اور قاضی ابو یعلی کے بیان کے مطابق حضرت عمر  نے جابجا محتسب مقرر فرمائے۔ مشہور صحابی محمد بن مسلمہ انصاری  کو عہد فاروقی میں احتساب کا سربراہ بنایا گیا تھا۔مختلف صوبوں اور علاقوں کے دورے اور صوبائی و ضلعی محتسبوں کی نگرانی کے علاوہ حضرت عمر فاروق  خود بھی احتساب کا فریضہ سر انجام دیا کرتے تھے۔ [45]

 

حضرت عثمان غنی  نے بھی اپنے دور میں احتساب کے عمل کو یقینی بنائے رکھا۔آپ عمال کے اعمال و احتساب پر کڑی نظر رکھتے تھے۔رعایا کے حالات سے باخبر رہا کرتے تھے۔ حج کے موقع پر تمام عمال کو جمع کرتے اور جس عامل کے خلاف شکایت پیش ہوتی اس کی تحقیقات کر کے فوری طور پر ازالہ فرماتے۔ آپ کا فرمان ہے۔

 

"مجھے معلوم ہے کہ بعض عمال بے وجہ لوگوں پر زیادتی کرتے ہیں ، اس لیے عام اعلان ہے کہ کسی کو مجھ سے یا میرے کسی عامل سے کوئی شکایت ہو تو وہ حج کے موقع پر بیان کرے۔ میں کامل تدارک کرکے مظلوم کو اس کا حق دلاؤں گا"[46]

 

عمل احتساب کے سلسلے میں ہی 29ھ کو ابو موسیٰ اشعری  کو بصرہ کی حکومت سے معزول کیا گیا تھا۔ ابن اثیر کا بیان ہے کہ ایک بار ابو موسی اشعری  کی سواری میں ایک عمدہ ترکی گھوڑا تھا اور چالیس خچر ان کا سامان لیے جا رہے تھے کہ ایک شخص نے بڑھ کر ان کی باگ پکڑ لی ۔ سوال کیا کہ اے ابو موسیٰ! قول و فعل میں اتنا تضاد؟ آپ ہمیں تو پیدل چلنے کا ثواب حاصل کرنے کی تلقین فرماتے ہیں اور خود عمدہ ترکی گھوڑے کی سواری کرتے ہیں ؟ ابو موسیٰ اشعری کو اس پر غصہ آگیا انھوں نے باگ پکڑنے والے کو ایک کوڑا دے مارا۔ لوگ شکایت لے کر حضرت عثمان  کے پاس پہنچے۔ آپ نے ابو موسیٰ اشعری کو فورا معزول کر کے ان کی جگہ عبد اللہ بن عامر  کو بصرہ کا والی بنا دیا۔ [47]

 

ولید بن عقبہ کو شراب نوشی کے جرم میں آپ نے 30 ھ کو کوفہ کی ولایت سے برطرف کر دیا تھا۔ ان کی جگہ سعید بن العاص  کی تقرری عمل میں لائی گئی لیکن جب لوگوں نے ان کی بھی شکایات کیں تو انھیں بھی سبکدوش کر دیا گیا۔

 

خلیفہ چہارم حضرت علی  بھی محتسب اعلیٰ کی حیثیت سے عمال کے اعمال و افعال کا احتساب فرمایا کرتے تھے.منذر بن جارود والی اصطحر کے متعلق جب حضرت علی  کو معلوم ہوا کہ رعایا کی فلاح و بہبود کی بجائے زیادہ تر وقت سیر وشکار میں گزارتے ہیں تو انھیں طلب کیا، فرائض منصبی میں غفلت برتنے کی تحقیقات کروائیں اور اس کے بعد ان کو معزول کر دیا۔ [48]

 

الغرض اسلام اپنے حکمرانوں کو کھلی چھوٹ نہیں دیتا نہ ہی ان کو مطلق العنانیت بخش کر احتساب سے بالاتر کر دیتا ہے۔ ان کی اطاعت صرف اور صرف اطاعت الہیٰ کے ساتھ مشروط ہے۔ بصورت دیگر ان کا محاسبہ واجب ہو جاتا ہے۔مولانا محمد اسحاق سندیلوی لکھتے ہیں:

 

اصولی طور پر محتسب کا فرض نگرانی اور تنبیہہ تک محدود ہے۔ فیصلہ یا سزا اس کے حدود اختیارات سے خارج ہے۔ اس فریضے کی ادائیگی میں وہ رعایا اور حکام کے درمیان امتیاز نہیں برتے گا۔ یہاں تک کہ خود امیر کے خلاف شریعت افعال پر بھی اعتراض و تنبیہہ کا حق اسے حاصل ہے۔ حالانکہ ہر ملازم حکومت کی طرح وہ بھی امیر کا ماتحت ہے اور اس کا نصب وعزل بھی امیر کے اختیار میں ہے۔ [49]

 

قرآن و سنت کی تعلیمات کی رو سے چونکہ سربراہ ریاست کی حیثیت مطلق العنان نہیں ہے۔اس لیے اس کو احتساب سے بالاتری حاصل نہیں ہو سکتی۔وہ ریاستی امور کی انجام دہی کے دوران اس بات کا پابند ہوتا ہےکہ اپنے افعال و کردار پر اٹھنے والے سوالات کا اطمینان بخش جواب فراہم کرے۔اس کی اطاعت صرف اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے جب وہ حق پر ہو۔ نبی کریمﷺ کا اسوہ حسنہ اور خلفاء راشدین کا طرز عمل اسی اصول کی نشاندہی کرتاہے۔

 

نبی کریم ﷺ کی وہ تمام احادیث مبارکہ جو کہ امیر کی مشروط اطاعت کے حوالے سے وارد ہوئی ہیں

 

اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسلامی ریاست کا سربراہ احتساب سے بالاتر نہیں ہو سکتا ۔مگر احتساب

 

کے جواز کی شرائط میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی صریح نافرمانی شامل ہے۔

 

اسلامی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اسلامی ریاست کی ایک لازمی خصوصیت احتساب کا قیام ہے۔ نبی کریمﷺ،خلافت راشدہ اور بعد کے ادوار میں ایسے ادارے باقاعدہ طور پر قائم کیے گئے جو نہ صرف عوام بلکہ حکومتی اراکین کے لیے بھی احتساب کے عمل کو یقینی بنایا کرتے تھے۔ اسلامی سیاسی مفکرین بھی ریاست و حکومت اور سربراہ ریاست کے فرائض میں احتساب کے عمل کو بھی شامل کرتے ہیں۔ انھوں نے اس ادارے اور اس سے جڑے فرائض کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ اس حوالے سے جو چند اہم کتب ہمیں میسر آتی ہیں ان میں ابو الحسن علی ماوردی کی " الاحکام السلطانیہ " ، امام غزالی کی "احیاء العلوم" ، ابن حزم کی "الفصل فی الملل" ،امام ابن تیمیہ کا "رسالۃ الحسبہ فی الاسلام"،اور ابن خلدون کا مقدمہ شامل ہیں۔یہ تمام مفکرین سربراہ ریاست اور دیگر حکومتی عہدہ داران کے محاسبہ کے قائل ہیں۔ وہ کسی کو بھی احتساب سے بالاتر قرار نہیں دیتے ہیں۔

 

سربراہ ریاست کو احتساب اور جوابدہی سے بالاتر قراردینا ان کو لامحدود اختیارات کا مالک بنا دیتاہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ وہ خود کو مطلق العنان سمجھتے ہیں اور عوام کی حقوق کی نگہداشت جو کہ حکومت کے قیام کامقصد ہے اس کو پورا نہیں کرپاتے۔ بلکہ اس کے برعکس ریاست میں لاقانونیت اور جبر کا دور دورہ ہوسکتا ہے۔ اس کا نتیجہ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں تو نکلتا ہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قانون اور عدل و انصاف کا دوہرا معیار قائم ہو جاتا ہے جو کہ قوموں کے زوال اور عدم استحکا م کی وجہ بنتا ہے۔

 

الغرض جدید مغربی سیاسی افکار کے برعکس اسلام اپنے حکمرانوں کو کھلی چھوٹ نہیں دیتا نہ ہی ان کو مطلق العنانیت بخش کر احتساب سے بالاتر کر دیتا ہے۔ ان کی اطاعت صرف اور صرف اطاعت الہٰی کے ساتھ مشروط ہے۔ بصورت دیگر ان کا محاسبہ واجب ہو جاتا ہے۔

 

قانون سازی کا اختیار اور قانون سے استثناء

 

قرآن و سنت کے مطالعہ سے حکمرانی کے جو اصول سامنے آتے ہیں ان کی رو سے سربراہ ریاست کو قانون سازی کے اختیارات مطلقا حاصل نہیں ہیں۔ قانون کامنبع خدا اور اس کا رسول ﷺ ہیں۔ لہذا اسلام میں حقیقی قانون ساز اللہ ہی کی ذات ہے۔ سورہ شوری میں ارشاد ہوتا ہے:

 

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْہِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُہٗٓ اِلَى اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبِّيْ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ۝۰ۤۖ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ۰[50]

 

"اور (ان کو یہ بھی بتا دو کہ) جس چیز کے بارے میں بھی تمہارے درمیان اختلاف واقع ہو جائے تو اس کا فیصلہ کرنا اللہ ہی کا کام ہے یہ ہے اللہ میرا رب میں نے اسی پر بھروسہ کر رکھا ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں"

 

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اصل حکم اللہ ہی کا ہے۔جن امور میں اختلاف ہو جائے اس کے حل کے لیے اصل اللہ کا حکم ہے۔مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے ۔اسی نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئےاس آیت کی تفسیر میں ابن جریر طبری لکھتے ہیں:

 

وما اختلفتم أيها الناس فيه من شيء فتنازعتم بينكم، فحكمه إلى الله. يقول: فإن الله هو الذي يقضي بينكم ويفصل فيه الحكم.[51]

 

"قرآن میں ان لوگوں کو گمراہ قرار دیا گیا ہے جو اللہ کے بتائے ہوئے اصول و قوانین کو نہیں مانتے اور ان کے خلاف جاتے ہیں"

 

اسی طرح سورہ المائدہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

 

وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ وَاحْذَرْہُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللہُ اِلَيْكَ۝۰ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّصِيْبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِہِمْ۝۰ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ[52]

 

اور (مکرر حکم ہے کہ) فیصلہ کرو تم ان کے درمیان اس (حکم و قانون) کے مطابق جسے اتارا ہے اللہ نے، اور پیروی نہیں کرنا ان کی خواہشات کی، اور ہوشیار رہنا ان سے کہ یہ کہیں پھسل نہ دیں آپ کو اس (حق و ہدایت) کی کسی بات سے جس کو اللہ نے اتارا ہے آپ کی طرف، پھر اگر یہ پھرے ہی رہیں (حق و ہدایت) تو یقین جان لو کہ اللہ ان کو مبتلائے مصیبت کرنا چاہتا ہے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں، بیشک لوگوں کی اکثریت پکی بدکار ہے"

 

یہ آیات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اسلامی ریاست میں قرآن وسنت کے خلاف جا کر قانون سازی کی اجازت نہیں ہے۔جس وجہ سے حکمران طبقہ کو قرآن و سنت سے اخذ شدہ اصولوں کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کرنی ہو گی۔ ان کے پاس قانون سازی کا مطلق اختیار موجود نہیں ہے۔ معروف مسلم مفکر مولانا محمد اسد اس اصول کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کوئی بھی ریاست اس وقت تک صحیح معنوں میں اسلامی نہیں ہو سکتی جب تک اس کے دستور میں اس مضمون کا حامل قانون شامل نہ کر لیا جائے کہ پبلک معاملات کے بارے میں جملہ شرعی قوانین ہر نوع کی قانون سازی کی ایسی اساس و بنیاد ہوں گے جس میں کسی طرح کی ترمیم یا رد بدل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔[53]

 

جدید مغربی مفکرین جن میں میکاولی(Machiavelli)، ژین بودین(Jean Bodin) اور تھامس ہابز(Thomas Hobbes) شامل ہیں ان کے نزدیک سربراہ ریاست کو قانون سازی کا مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے۔ قانون کا منبع مقتدر اعلیٰ کی ذات ہوتی ہے۔ وہ جیسا چاہے قانون بنا سکتا ہے۔اس کی ذات قانون سے بالاتر ہوتی ہے۔ عوام کو اس کےاحتساب کا حق حاصل نہیں ہوتا۔وہ جس کو چاہے سز ا دے سکتا ہے کیو نکہ قانون کا منبع اس کی ذات ہوتی ہے۔ تھامس ہابز لکھتے ہیں:

 

No man that hath sovereign power can justly be put to death, or otherwise in any manner by his subjects punished.[54]

 

"کوئی بھی انسان جس کے پاس اقتدار ہو اس کی عوام نہ تو اسے قتل کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی اور ذریعے سے سزا دےسکتی ہے"

 

جب کہ دیگر مغربی مفکرین کے خیال میں قانون سازی کا یہ اختیار اصلا عوام کے پاس ہوتا ہے اور وہ اسے منتخب نمائند ہ کو سونپ دیتے ہیں۔ جس کو عوام کی خواہشات کے عین مطابق قانون سازی کا عمل سر انجام دینا ہوتا ہے۔ اس نقظہ نظر کو بیان کرتے ہوئے ایڈمنڈ برک (Edmund Burke) لکھتے ہیں:

 

In all forms of Government the people is the true Legislator: and whether the immediate and instrumental cause of the Law be a single person, or many, the remote and efficient cause is the consent of the people, either actual or implied: and such consent is absolutely essential to its validity.[55]

 

"تمام اقسام کی حکومتوں میں عوام ہی حقیقی قانون ساز ہوتے ہیں۔ قانون سازی کا اختیار چاہے ایک فرد کے پاس ہو یا افراد کے پاس ۔اس کی بنیادی اور حقیقی وجہ عوام کی رضامندی ہوتی ہے چاہے وہ حقیقی ہو یا معنوی۔یہ رضامندی اس قانون کے اطلاق اور بقا کے لیے بہت ضروری ہے"

 

پس جدید مغربی مفکرین کی رائے میں یا تو قانون سازی کا مطلق اختیار سربرا ہ ریاست کے پاس ہوتا ہے یا

 

پھر عوام اس اختیار کو اپنے منتخب شدہ سربراہ ریاست یا حکومتی اداروں کو سونپ دیتے ہیں۔ پہلی صورت میں حکمران جو چاہے قانون بنا سکتا ہے ۔اس پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی وہ جو چاہے قانون بنائے جب چاہے اسے ختم کردے یا تبدیل کر دے۔ دوسری صورت میں قانون سازی کے عمل میں عوام کی رضامندی اور خوشنودی کا خیال رکھنا حکمران کے ذمہ ہوتا ہے۔

 

اسلامی تعلیمات قانون سازی کے حوالے سے جدید مغربی نقطہ نظر سے بالکل مختلف ہیں۔ اسلام میں قانون سازی کا منبع نہ تو حکمران کی منشاء ہوتی ہے نہ ہی عوام کی خواہشات ۔ اسلام میں اگرچہ حکمران کو قانون سازی کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں لیکن یہ اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ قرآن و سنت کی رو سے قانون کا اصل منبع اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسلامی سربراہ ریاست کو اسی قانون کی پیروی کرنا ہو گی جو اللہ اور ا س کے رسول ﷺ نے طے کر دیا۔ وہ اگر قانون سازی کرے گا بھی تو بھی انہی اصولوں کو مدنظر رکھ کر کرے گا جن کو حقیقی مقتدر اعلیٰ یعنی اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے۔

 

قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو جو اپنے رب کے حکم پر نہیں چلتے۔اس کو چھوڑ کر اور راہ اپناتے ہیں۔ان کو گناہ گار کہا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وہ لوگ ظالم[56] اور فاسق ہیں جو اللہ کے قانون پر عمل نہیں کرتے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ[57]

 

"اور جو لوگ فیصلہ نہیں کرتے اس (حکم و قانون) کے مطابق جو اللہ نے اتارا ہے وہ فاسق ہیں"

 

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جدید مغربی مفکرین اور اسلامی تعلیمات میں قانون سازی کے اختیارات کے حوالے سے واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ اسلام قانون سازی کے عمل کو انسانوں کی بجائے خالق کائنات سے جوڑتا ہے۔اگر انسان کو قانون سازی کا مطلق اختیار دے دیا جائے تو پھر اس کے بعد اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہو گی کہ جو قوانین وہ بنائیں گے اسی میں ہی بہتری و فلاح ہو گی۔ انسان طاقت و اختیار کے نشے میں چور ہو کر غلط فیصلے بھی کر جاتا ہے۔ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دے دیتا ہے ۔ اسی لیے خالق کائنات نے اسے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ

 

اِلَّا يَخْرُصُوْنَ[58]

 

"اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں خدا کا راستہ بھلا دیں گے۔ یہ) (محض خیال کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں "

 

جدید مغربی مفکرین مقتدر اعلیٰ یا دوسرے لفظوں میں سربراہ ریاست کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں چونکہ وہ ریاست کا سب سے با اختیار شخص اور قانون کا منبع ہوتا ہے لہذا اس پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔تھامس ہابز (Thomas Hobbes)لکھتے ہیں:

 

No man that hath sovereign power can justly be put to death, or otherwise in any manner by his subjects punished.[59]

 

"کوئی بھی انسان جس کے پاس اقتدار ہو اس کی عوام نہ تو اسے قتل کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی اور ذریعے سے سزا دےسکتی ہے"

 

لیکن اسلام ریاست میں کسی بھی انسان کو قانون سے بالاتر قرار نہیں دیتا ہے۔ اس کے نزدیک تمام انسان قانونی مساوات کے حامل ہیں۔ سب پر ایک جیسے قانون کا اطلاق ہو گا ۔ریاست کا سربراہ بھی عام لوگوں کے برابر ہوتا ہے۔ اگر وہ قانون پر عمل پیرا نہیں ہو گا تو پھر اس کو بھی عام لوگوں کی طرح قانون کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔نبی کریم ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع میں یہ کہنا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر ، کسی عجمی کو کسی عربی پر ، کوئی فضیلت حاصل نہیں [60]اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح جب قبیلہ بنی مخزوم کی ایک معزز عورت فاطمہ کو چوری کی سزا سنائی گئی تو سفارش کرنے پر نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد کہ اگر اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیئے جاتے ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی ریاست میں کوئی بھی فرد قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتا ۔ خلفا ء راشدین کا یہ کہنا کہ اگر وہ غلط ہوں تو ان کو سیدھا کر دیا جائے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسلامی ریاست کے سربراہ کو قانون کی پابندی کرنی ہو گی ۔بصورت دیگر ان سے پوچھ ہو گی۔لہذا اسلام اپنے ماننے والوں میں سے سب کو برابر جانتے ہوئے قانون کی نظر میں برابر سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ سربراہ ریاست کو بھی قانون کی اسی طرح پابندی کرنی ہو گی اور وہ قانون کے سامنے اسی طرح جوابدہ ہو گا جس طرح ایک عام فرد ہوتا ہے۔

 

سزاؤں کا تعین ،نفاذ اور تخفیف

 

اسلامی ریاست میں سزاؤں کا نفاذ اگرچہ سربراہ ریاست کی ذمہ داری ہےاور وہ سزا تجویز بھی کر سکتا ہے۔ مگر حدود اللہ کے نفاذ میں کوتاہی اور تبدیلی اس کے دائرہ اختیار سے خارج ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مختلف جرائم کی جو سزائیں مقرر کر دیں ہیں ان کو نافذ کرنا سربراہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان سزاؤں کو اللہ کا حق قرار دیا ہے۔ قرآن شرعی سزاؤں کو فرض قرار دیتا ہے۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے قاتل سے قصاص لینے کو فرض قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي۝۰ۭ[61]

 

"اے ایمان والو تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے"

 

اسی طرح سورہ نور میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بیان کردہ سزا کو دین پر عمل درآمد کا معاملہ قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

 

اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۝۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۚ[62]

 

"زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو، ۱ اور تمہیں ان کے بارے میں اللہ کے دین کے معاملے میں کوئی ترس نہیں آنا چاہیے۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر"

 

اسلام سربراہ ریاست کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ قانون کے مطابق طے کردہ سزاؤں میں اپنی مرضی سے کمی بیشی کر سکے۔ یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے بھی کئی مقدمات میں مجرم کے ساتھ ہمدردی رکھنے کے باوجود ، صاحب حق کے معاف کر دینے یا تلافی کی متبادل صورت موجود ہونے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزاؤں کے نفاذ پر اصرار کیا۔ حدیث میں بیان ہوتا ہے کہ ایک شخص نے صفوان بن امیہ کی چادر چرالی۔ اس کو پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ ؐ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۔ صفوان بن امیہ نے چور پر ترس کھاتے ہوئے کہا یا رسول اللہ ﷺ میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے ، اس لیے میں اپنی چادر اسے ہبہ کرتا ہوں ۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا : تم نے اسے میرے پاس لانےسے قبل معاف کیوں نہیں کیا؟ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ [63]خلفائے راشدین کا طرز عمل بھی یہی تھا۔ انھوں نے اپنے دور میں شرعی سزاؤں کے نفاذ میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ لہذا مسلمان سربراہ ریاست ان سزاؤں کی تخفیف یا معزولی کے حوالے سے کوئی اختیار نہیں رکھتا جس کو اللہ تعالیٰ نے خود مقرر کیا ہے۔

 

جبکہ جدید مغربی مفکرین کے ہاں چونکہ قانون کا منبع ریاست کا سربراہ ہوتا ہے لہذا اس کے پاس سزا کے نفاذ اور اس کی معافی کا حق ہوتا ہے ۔ وہ جس کو چاہے سز ا دے سکتا ہے اور جس مجرم کو چاہے معاف کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اس کو کسی قانون کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ تھامس ہابز (Thomas Hobbes)کےنزدیک:

 

Supreme judge of controversies; and of the times and occasions of warre, and peace: to him it belongeth to choose magistrates, counsellours, commanders, and all other officers, and ministers and to determine of rewards and punishments, honour and order.[64]

 

"سب سے بڑا جج وہی (مقتدر اعلیٰ) ہے جو تنازعات کی صورت میں ،جنگ اور امن کی حالت میں فیصلے کرتا ہے۔ مجسٹریٹ ، کونسلرز ، سپہ سالار اور دیگر افسران کا چناؤ اسی کے ذمہ ہے۔ جزا و سزا ، اعزاز و احکامات سب اسی کی جانب سے ہوں گے"

 

جدید مغربی مفکرین اگرچہ سربراہ ریاست کو سزاؤں کے تعین اور نفاذ کا مکمل اختیار دیتے ہیں لیکن اسلامی ریاست کے سربراہ کو ایسا حق حاصل نہیں ہوتا ۔ شرعی حدود کی پیروی کے ساتھ ساتھ اس کو اسلامی ریاست کے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر کسی فرد کو اسلامی ریاست کا قانون مجرم ٹھہرا دے تو پھر وہ اس کو معاف نہیں کر سکتا ۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت پاک ﷺ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے کبھی قانون کے معاملے میں تفریق نہیں کی۔ اگر کبھی آپ سے سفارش کی بھی گئی تو بھی آپ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ قبیلہ بنی مخزوم کی ایک معزز عورت فاطمہ کو جب چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی گئی تو آپ ؐ نے اس فیصلہ کو بدلنے سے انکار کر دیا۔ [65]یہ اسلیے ہے کہ اسلام میں قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ ایک جرم کے لیے مجرموں کے مختلف مراتب کے لحاظ سے مختلف سزائیں مقرر نہیں کی گئی ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ

 

اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ[66]

 

"لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے"

 

لہذا اسلام مساوات اور برابری کا قائل ہے۔ نہ کسی فرد اور نہ ہی سربراہ ریاست کو قانونی لحاظ سے باقی عوام کی نسبت اعلیٰ و برتر مقام حاصل ہے۔ وہ قانون سے بالاتر ہو کر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اسلام سربراہ ریاست کو یہ حق نہیں دیتا ہے کہ وہ قوانین کی حدود سے بالاتر ہو کر کسی کو سزا دے یا پھر جرم ثابت ہو جانے اور سزا کا تقرر ہو جانے کے بعد اس میں کمی بیشی کر دیں۔

 

سربراہ ریاست کو بلامشروط طورپر سزاؤں کے تعین اور ان میں تخفیف یا تبدیلی کا حق عطا کرنا نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ یہ معاشرتی عدل اور مساوات کے لیے بھی زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس اختیار کی بدولت نہ صرف قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیا جا سکتا ہے ۔بلکہ قانون کا دوہرا معیار بھی قائم ہو جاتا ہے۔ سربراہ ریاست ذاتی اغراض و مقاصد کے حصول اور اقربا پروری کے لیے بھی اس حق کو استعمال کر سکتے ہیں۔

 

بلامشروط اطاعت

 

اسلامی ریاست کے حکمران کے پاس بلامشروط اطاعت جیسا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس کا صر ف

 

وہی حکم قابل اتباع ہوتا ہے جو قرآن و سنت کے دائرہ میں رہ کر دیا گیا ہو ۔جو اسلامی قانون کے خلاف نہ ہو۔ اگر چہ قرآن و سنت کی رو سے سربراہ ریاست کی اطاعت اور پیروی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ان کی اطاعت کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔[67] تاہم اطاعت و اتباع کا یہ دائرہ محدود ہے۔یہ حکم صرف تب تک ہے جب تک وہ معصیت کا حکم نہ دیں۔کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

 

وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ[68] "اور وہ نیکی میں تیری نافرمانی نہ کریں"

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ

 

شَدِيْدُ الْعِقَابِ[69]

 

"اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو ۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے"

 

لیکن جدید مغربی مفکرین کے مطابق ریاست کا سربراہ چونکہ مقتدر اعلیٰ ہوتا ہے لہذا اس کی بلا مشروط اطاعت کی جانی چاہیے۔ قانون سازی کے اختیارات اس کے پاس ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ میں مطلق العنان ہوتا ہے۔ تمام انتظامی اختیارات اس کے پاس ہوتے ہیں ۔جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے قانون نافذ کرے اس کی اتباع کی جائے۔ اس کا نافذ کیا ہوا ہر قانون بلامشروط اطاعت کے قابل ہو گا۔ تھامس ہابز (Thomas Hobbes)کے مطابق:

 

Because the major part hath by consenting voices declared a Sovereign; he that dissented must now consent with the rest; that is, be contented to avow all the actions he shall do, or else justly be destroyed by the rest.[70]

 

"چونکہ مقتدراعلیٰ عوام کی اکثریت کی رضامندی کے بعد چنا جاتا ہے ۔لہذا اب عوام کو اس کے افعال پر راضی رہنا ہو گا۔وہ جو بھی کرے اس پر قانع ہو نا ہو گا ۔ بصورت دیگر اس کو سزا دی جائے گی"

 

جدید مغربی مفکرین کی تجویز کردہ سربراہ ریاست کی بلامشروط اطاعت نہ صرف اسلامی تعلیمات کے منافی ہے بلکہ یہ انسان کے بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ یہ بات خلاف عقل ہے کہ انسان ہر اچھی اور بری بات میں سربراہ ریاست کی اطاعت کرے۔ ایسا کرنا ناممکن ہے۔ بلا مشروط اطاعت غلامی کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر سربراہ ریاست کو یہ حق عطا کر دیا جائے تو پھر وہ اس کا درجہ خدا کے برابر ہو جائے گا۔ کیونکہ یہ حق تو صرف خالق کائنات کو ہی حاصل ہے کہ اس کی بلامشروط اطاعت کی جائے۔ مذہبی تعلیما ت کے قطع نظر اگر سربراہ ریاست کے احکامات کی بلامشروط اطاعت عوام پر لازم ہوجائے تو پھر دنیا میں ظلم و بربریت کا دور دورہ ہو جائے گا۔ کیونکہ طاقت اوراختیار انسان کو سرکش اور متکبر بنا دیتا ہے۔ اگر اس پر حدود و قیود نافذ نہ کی جائیں تو اس کا نتیجہ بدامنی اور انتشار کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

 

وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ ١٥١؀ۙ الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ [71]

 

"اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی بات نہ مانو جو ملک میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے"

 

نبی کریم ﷺ کے ارشادات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امیر کی بلامشروط اطاعت مسلمانوں پر لازم

 

نہیں ہے۔ جب تک وہ قرآن و سنت کے دائرہ میں رہ کر حکم دیتے رہیں گے تب تک قابل اطاعت ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

عن عبادۃ بن الصامت فقال: دعانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم. فکان فیھا اخذ علینا: ان بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطناومکرھنا وعسرنا ویسرنا واثرۃ علینا وأن لاننازع الامر اھلہ إلا أن تروا کفرًا بواحاً عندکم من اللّٰہ فیہ برھان۔ [72]

 

"عبادہ بن صامت نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا تاکہ ہم ہر حالت کے لیے سمع و طاعت کی بیعت کریں کہ کہ نرمی و جبر، تنگی و رماخی اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیے جانےکے باوجود بھی حکمران کی اطاعت سے نہیں نکلے، اور نہ ان سے جھگڑا کریں گے۔فرمایا کہ صرف (اس صورت میں تم حکمران کی اطاعت سے نکل سکتے ہو) کہ تم کوئی صریح کفر اس کی طرف سے دیکھو، جس کے بارے میں تمہارے پاس اللہ کی واضح حجت ہو"

 

الغرض اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلم ریاست کی عوام کے لیے لازم نہیں ہے کہ وہ سربراہ ریاست

 

کی بلامشروط اطاعت کریں۔ وہ اس کا صرف وہی حکم ماننے کے پابند ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق ہو ۔قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی احکامات کو ماننا ان پر لازم نہیں ہے بلکہ ایسی صورت میں ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکم ماننے سے انکار کر دیں۔ جبکہ جدید مغربی مفکرین جو کہ حکمرانوں کی بلامشروط اطاعت کے قائل ہیں ان کا یہ نقطہ نظر نہ صرف انسانی عقل وشعور بلکہ اس کے بنیادی حقو ق کے منافی ہے۔

 

نتائج بحث

 

قرآن وسنت کی رو سے سربراہ ریاست کو جو اختیارات عطا کیے گئے ہیں وہ جدید مغربی مفکرین کے نظریات سے مختلف ہیں۔ اسلام ریاست کے حکمرانوں کو جو اختیار عطا کرتا ہے ان میں انتظامی اور قانونی اختیارات اگرچہ شامل ہیں مگر ان کو مطلق العنانیت کسی بھی حوالے سے حاصل نہیں ہے۔ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی نہ تو قانون سازی کر سکتے ہیں اور نہ ہی ریاست کا نظام چلا سکتے ہیں۔ جبکہ مغربی مفکرین سربراہ ریاست کو نہ صرف قانون سازی کا بلا مشروط اختیار عطا کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ انتظامی امور کے حوالے سے بھی ان پر کوئی قدغن نہیں لگاتے۔ وہ جو چاہےقانون بنا سکتے ہیں اور جو طریقہ کار چاہیں نافذ کر سکتے ہیں۔ اسلام حکمرانوں کی بلامشروط اطاعت کا اختیار بھی ان کو نہیں سونپتا جبکہ اس کے برعکس مغربی مفکرین سربراہ ریاست کو مطلق العنانیت عطا کرتے ہیں۔ اسلام قرآن وسنت کی اطاعت کو ترجیح دیتے ہوئے صرف اس وقت تک حکمران کی اطاعت کو فرض قرار دیتا ہے جب تک وہ معصیت کا حکم نہ دے۔

 

مغربی مفکرین سربراہ ریاست کو احتساب اور سزا سے مبراقرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ سربراہ ریاست سے جوابدہی کر سکے۔ لیکن اسلام میں عوام اور حاکم دونوں کو ہی ایک دوسرے کے احتساب کا حق حاصل ہے۔ قران و سنت کی رو سے سربراہ ریاست کی حیثیت نائب خداوندی کی سی ہے جس کے پاس اقتدار خدا کی امانت ہے جس کا اس کو جواب دینا ہے۔ مگر مغربی سیاسی مفکرین کے نزدیک خدا کے بعد اس دنیا میں سب سے بلند تر ہستی حاکم ہوتا ہے۔ جس کو نہ تو اس کے کسی فعل پر سزا دی جا سکتی ہے نہ ہی معزول کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی باز پرس کی جاسکتی ہے۔ اس کے مقابل اسلام سربراہ ریاست کو نہ تو احتساب سے بالاتر سمجھتا ہے اور نہ ہی اس کو قانون سازی کا بلامشروط اختیار دیتا ہے۔

 

 

حوالہ جات

  1. حوالہ جات

     

    : ایس ایم ناز،ڈاکٹر، اسلامی ریاست میں محتسب کا کردار ، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ت-ن، 376
  2. : Jean Bodin, Six Books of Commonwealth, Trans: M.J. Toole. Oxford: Basil Blackwell, 1996,p:68
  3. : Thomas Hobbes, Leviathan, Ed: W.G. Pagson Smith. Oxford: Clarendon Press, 1929, p:136
  4. : Ibid, p:150
  5. : الملک، 67: 1
  6. : الممتحنہ، 60: 12
  7. : الاسرء17: 12
  8. : راغب اصفہانی ، ابو القاسم حسین بن محمد، امام، المفردات فی غریب القرآن، مکتبہ و مطبعہ مصطفیٰ ،قاہرہ،1961ء، 204
  9. : العنکبوت، 29: 2
  10. : الحشر، 59: 2
  11. : بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح،کتاب الایمان، باب صوم رمضان احتسابا من الایمان، دارالاحیاء الارشاد العربی، بیروت ، 2006ء رقم الحدیث : 38
  12. : امام غزالی، ابو حامد محمد بن احمد طوسی، احیاءالعلوم،مکتبہ عثمانیہ، لاہور ، 2007ء،311
  13. : ابن الاثیر،مجد الدین ابی السعادات، من النھایہ فی غریب الحدیث والاثر، مکتبہ التوفیقیہ، قاہرہ : ، 1300ھ ،بذیل مادہ ح س ب،1/235
  14. : الزبیدی ،محمد مرتضی ابن محمد الحسینی ، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت : دار الکتب العلمیہ ، 1994ء،بذیل مادہ ح س ب، 174
  15. : ایضا
  16. : الماوردی، ابو حسن علی بن محمد، الاحکام السلطانیہ ،دارالحکمۃ ،بیروت ، 2009ء، 231
  17. : آل عمران ،3: 104
  18. : إبراهيم الثعلبي ، الكشف والبيان عن تفسير القرآن،دارالاحیاء الارشاد العربی، بیروت ، 2006ء ،3/ 123
  19. : ابن تیمیہ، تقی الدین ابن عباس احمد، السیاسۃ الشریعہ ، دار الدعوۃ الاسلامیۃ،مصر، 1997ء، 55
  20. : الاعراف، 7: 129
  21. : الانعام، 6: 165
  22. : قشیری ، مسلم بن حجاج ا، الجامع الصحیح ، کتاب ا لامارہ، باب فضیلۃ الامام العادل ،دار السلام للنشر والتوزیع ، ریاض ، رقم الحدیث : 4051
  23. : ایضا، کتاب ا لامارہ، باب وجوب طاعۃ الامراء ،رقم الحدیث: 4064
  24. : ایضا، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ ، رقم الحدیث: 4236
  25. : ترمذی، محمد بن عیسٰی، ابو عیسیٰ، الجامع ،کتاب الاحکام ،باب ماء جاء فی قبول الہدیۃ ، دارالسلام للنشر والتوزیع، سعودی عرب ، 2007ء ، رقم الحدیث : 2259
  26. : امام مسلم، الجامع الصحیح ، کتاب الحدود، باب الشفاعۃ فی الحدود دون السلطان ، رقم الحدیث : 4267
  27. : البلاذری، احمد بن یحییٰ ، فتوح البلدان، مطبعہ رحمانیہ، مصر، 2006ء، 219
  28. : الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم والملوک، المکتبۃ التوفیقیہ، مصر، 1996ء ،218
  29. : واقدی،ابی عبداللہ محمد بن عمر،فتوح الشام، المکتبۃ التوفیقیہ، بیروت، 1996ء، 108
  30. : سید قطب شہید، العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام ، دارالاحیاء الکتب العربیہ ،مصر، 2014ء،185
  31. : الماوردی ، الاحکام السلطانیہ، 15-16
  32. : نظام الملک طوسی، ابو علی احمد بن علی، سیر الملوک ، دارالمعارف مصر ، ت۔ن،84-93
  33. : ابو یوسف، یعقوب بن ابراھیم ،کتاب الخراج، دارالفکر، بیروت ، 1993ء ،108
  34. : الدارمی ، ابو محمد بن عبداللہ بن عبدالرحمن، السنن ، دار المعرفت ، بیروت، 2007ء، رقم الحدیث :2541
  35. امام بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الامارہ،رقم الحدیث: 2018
  36. : حضرت عمر طویل قامت تھے اور ایک چادر میں ان کی قمیض نہیں بن سکتی تھی۔
  37. : علی طنطاوی، اخبار عمر،المکتبۃ الوقفیہ، دمشق ، 2005ء، 202
  38. : ابن کثیر، اسماعیل بن عمر ، تفسیر القرآن العظیم، ریاض: دار طیبہ للنشر والتوزیع، 1420ھ، 2/244
  39. : ابو یوسف، کتاب الخراج، 12
  40. :علامہ بلاذری، فتوح البلدان، 219
  41. : ایضا، 325
  42. : شبلی نعمانی، الفاروق، 325
  43. : ایضا، 326
  44. : ابن سعد، محمد بن عبداللہ ، الطبقات الکبری، دار الکتب العلمیہ ، لبنان، 2010ء، 2/110
  45. : الماوردی، الاحکام السلطانیہ ، 256
  46. : ابن سعد، الطبقات الکبری، 3/38
  47. :ابن اثیر ، الکامل فی التاریخ ، 3/240
  48. : یعقوب ، احمد بن ابو یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ت۔ن، 2/240
  49. : محمد اسحٰق سندھیلوی ،اسلام کا سیاسی نظام، دار الشعور ،لاہور، ت-ن ،252
  50. : الشوری 42: 10
  51. : الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر، جامع البیان فی تاویل القران، دار الکتب العلمیہ، بیروت ، 2003، 2/506
  52. :المائدہ، 5: 47
  53. : Asad, Muhammad, The Principles of State and Government in Islam, Los Angeles: University of California Press, 1961, p:67
  54. : Thomas Hobbes, Leviathan, p:136
  55. : Edmund Burke, The Works of Edmund Burk, New York: Viking Penguin Inc., 1964, Vol: IX, p:348
  56. : المائدہ، 5: 45
  57. : المائدہ، 5: 47
  58. : الانعام، 6: 116
  59. : Thomas Hobbes, Leviathan, p:136
  60. : احمد، ا بن حنبل، امام ، المسند ، دار الاحیاء التراث العربی، بیروت ، 1991ء، 4/456
  61. : البقرہ، 2: 178
  62. : النور، 24: 2
  63. : ابن ماجہ ،ابو عبداللہ محمد بن یزید، السنن ، ،کتاب الحدود ،باب اقامۃ الحدود،دارالسلام للنشر والتوزیع، سعودی عرب ، 2002ء ، رقم الحدیث : 2585
  64. : Thomas Hobbes, Leviathan, p:153
  65. : امام بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الحدود،باب السارق حین یسرق ، رقم الحدیث: 1725
  66. : الحجرات، 49: 13
  67. : النساء، 4: 59
  68. : الممتحنہ، 60: 12
  69. : المائدہ، 5 : 2
  70. : Thomas Hobbes, Leviathan, p:135
  71. : الشعراء، 26: 151-152
  72. : امام مسلم ، الجامع الصحیح، کتاب الامارہ ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ ، رقم الحدیث:2389
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...