Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 2 Issue 1 of Al-ʿILM

سماجی رویوں کی تشکیل کا نبوی منہج اخلاق |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060040263_856

Pages

1-13

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/66/56

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/66

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام نے اعمال کی اساس تقویٰ پر رکھی ہے تقویٰ ہی کی بدولت اعمال و معاملات کو خوب صورتی اور قبولیت عطا ہوتی ہے تقویٰ قلبی کیفیت کا نام ہے اس کے عملی اظہار کی صورت حسن اخلاق ہی کے ذریعے ممکن ہے نبی کریم ﷺکی بعثت کے مقاصد میں اخلاق کی تکمیل بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ذات اقدس نے اعلان نبوت بعد میں کیا اور حسن اخلاق کا مظاہرہ پہلے کیا ۔ یہی حسن اخلاق آپ کے عظمت کردار کی دلیل ہے اور پھر اسی کردار کو آپ نے اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ارشاد ہوتاہے :

 

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ[1]

 

"بے شک میں اس سے پہلے تم میں اپنی عمر کا کچھ حصہ گزار چکا ہوں "

 

اس آیت سے ایک اصول سامنے آگیا کہ فکر و عمل کی تہذیب کرنے سے قبل دعوت خیر سے قبل ، فلاحی و اسلامی ریاست کے قیام سے قبل کردار کا وہ رنگ پیش کرنا ضروری ہے جس کو اسوہ حسنہ کہا گیاہے مذکورہ بالا آیت میں "من قبلہ " کا جملہ فکر انسانی کو ایک واضح نصب العین عطا کر رہا ہے۔کہ جب نبوت کے اعلان سے قبل حسن اخلاق و کردار پیش کیا جا رہا ہے تو پھر ہر طرح کی دعوتی ، تدریسی ، سماجی اور سیاسی سر گرمیوں سےقبل حسن اخلاق پیش کرنا ضروری ہے تاکہ معا شرہ میں شخصی وقار اوراعتبار قائم ہو جائے ۔

 

پہلی وحی کے بعد جب نبی کریمﷺ نے حضرت خدیجہ کو غار حرا کا سارا واقعہ فرمایا تو حضرت خدیجہ نے کہا :

 

کلا و اللہ ما یخزیک اللہ ابدا انک لتصل الرحم و تحمل الکل و تکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علیٰ نوائب الحق [2]

 

"ہر گز نہیں ! اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی غمگین نہیں کرے گا آپ رشتے داروں سے میل جول رکھتے ہیں کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ناداروں کی مدد کرتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات میں مدد کرتے ہیں "

 

ام المومنین کے یہ پانچ جملے اعلان نبوت سے قبل نبی کریم ﷺ کے سماجی روابط کی جہات کا تذکرہ ہیں آپ نے نبی کریم ﷺ کی غار حرا کی ریاضتوں اور مشاہدوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ آپ کے ان رویوں اور اخلاق کا ہی ذکر خیر کیا جن پر آپ نے اپنےسماجی معاملات کی بنیاد رکھی تھی ۔ نبی کریم ﷺکا اعلان نبوت سے قبل اپنے معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ اس طرح کا رویہ اس بات کی بھی واضح دلیل ہے کہ آپ کو اس بات کا کامل احساس تھا کہ آپ اپنے بارے میں ایک بڑے ہی منصب جلیل کا اعلان کرنے جا رہے ہیں اور اس سے قبل کردار بھی جلیل پیش کرنا ضروری ہے جو کہ آپ نے پیش کر کے دیکھا دیا ۔

 

اسلامی معاشرے کے تربیتی حوالے سے تین ستون ہوتے ہیں جس سے معاشرے کے مقاصد کا تعین کرنے میں آسانی ہوتی ہے وہ حسب ذیل ہیں :1۔سیاسی و حکومتی 2۔تعلیمی و دعوتی 3۔عائلی و خاندانی

 

سماج کے دیگر معاملات انہی کے ذیل میں آتے ہیں نبی کریم ﷺ نے نہ صرف ان کے اخلاقی اصول و ضوابط متعین فرمائے بلکہ ان سب کے حوالے سے اپنا بے مثال اسوہ پیش کر کے یہ بھی واضح کر دیا کہ رہبر کا کام صرف ضابطے مقرر رکرنا ہی نہیں بلکہ عمل کی جہات بھی پیش کرنا بھی ضروری ہیں ذیل میں ان تینوں نبوی جہات کے اخلاقی اصول وضوابط پیش کیے جا رہے ہیں ۔

 

سیاسی و حکومتی اخلاقیات

سیاست کا مطلب ہی معاشرہ کی اصلاح ہے اصلاح کا ثمر فلاح کی صورت میں سامنے آتا ہے نبی کریمﷺ کی تشریف

 

آوری سے قبل دنیا میں جو نظام حکومت رائج تھے ان کا مقصد اپنے اقتدار کو مضبوط کرنا ، محفوظ کرنا اور دوام دینا ہوتا تھا بہت کم فرد اور معاشرہ کی اصلاح کی طرف توجہ کی جاتی تھی ۔ نبی کریم ﷺ نے ریاست کو چلانے کے لیےدوبنیادی جہات متعارف کروائیں۔

 

1۔قانونی ضابطہ2۔ اخلاقی ضابطہ

 

قانون ، فرد اورریاست کے حقوق وفرائض کے لیے تھا جبکہ اخلاق میں طرز حکمرانی ، لوگوں کے آپس میں معاملات اور عوام کا حکمرانوں سے تعلق وغیرہ شامل ہیں ۔حکومتی و سیاسی سطح پر اخلاق کے پہلوؤں کو اجاگر کر کے حکمرانوں کو اس ضمن میں اخلاق کا پابند کرنا تھا جو کہ تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا سیاسی اخلاقیات ہی نے حزب مخالف سے تعلقات واضح کیے تاریخ شاہد ہے کہ حصول اقتدار کے لیے جب دو گروہ آپس میں نبردآزما ہوتے تو غالب مغلوب کو تہ تیغ ہی کرتا جبکہ نبی کریم ﷺ نے جو اسوہ دیا وہ بے مثال ہے مدینہ منورہ میں آپ والی ریاست تھی جبکہ آپ کے حزب مخالف میں قبائل یہود اور منافقین جن کا سر غنہ عبد اللہ بن ابی تھا ان دونوں پارٹیوں کے آپ کی مخالفت کی بنیادی وجہ آپ کا حاکم ریاست ہونا تھا [3]آپ کے کردار ، اقتدار اور معاملات کے حوالے سے آپ کو ہر طرح کی اذیت پہنچائی گئی لیکن آپ نے ان کی ہر چال کو اپنے حسن ِ تدبیر اور اخلاق حسنہ کی بدولت نا کام بنایا اس عہد میں اس طرح کے مخالفوں کو تہ تیغ کرنا حکمرانوں کا معمول تھا لیکن آ پ نے اس معاملے میں با وجود غلبہ کے حسن اخلاق ہی کا مظاہرہ کیا ۔ یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جانا[4]۔یہودی کے بیمار لڑکے کی عیادت کے لیے چلے جانا [5]۔ عبد اللہ بن ابی کی نہ صرف نماز جنازہ پڑھانا بلکہ اپنی قمیض تک عطا کر دینا [6]۔ یہ سب حکومت و سیاست کے معاملات میں آپ کےاخلاق کی امثال ہیں جس کے نتیجے میں حزب مخالف کی ایک کثرت آپ کی مطیع ہو گئی یہ اُس اخلاق کا ثمرہ ہے جو آپ نے ان کے ساتھ اپنایا ۔پھر یہ پہلو بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ حزب مخالف کے لوگ عموماً حکومت کے ساتھ اقتدار میں حصہ یا کسی اور لالچ کی وجہ سے شامل ہوتے ہیں ۔جبکہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ لوگ صرف آپ کے اخلاق حسنہ ہی کی وجہ سے آ ملے حالانکہ آپ نے ان کو کوئی لالچ نہیں دیا بلکہ اقتدار کے حوالے سے آپ کا واضح فرمان ہے کہ جو کوئی ہم سے عہدہ طلب کرتا ہے ہم اسے نہیں دیتے ۔[7]

 

سیاسی اخلاقیات میں آپ نے زیادہ تر توجہ حکام و عمال کے طرز عمل پر فرمائی جس میں ایک توان کے طرز حیات کو سادہ رکھنا اور دوسراا ن کے عوامی روابط میں رکاوٹوں کو ختم کرنا تھا۔ حکام کا طرز حیات ہی معاشرہ میں بسنے والوں کے طرز حیات کی جہات اور ترجیحات متعین کرتا ہے ۔ ویسے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ "الناس علی دین ملوکھم "کہ لوگ اپنے حکمرانوں کے اصولوں پر ہی چلتے ہیں ۔

 

نبی کریم ﷺ کا حصول اقتدار اور انداز حکمرانی کے حوالے سے سخت قوانین مقرر کرنا فی الحقیقت اس شعبہ میں اخلاق حسنہ کے فروغ کے لیےتھا کیونکہ عموماًحکمران اپنے آپ کو نہ جوابدہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی کسی ضابطے کا پابند خیال کرتے ہیں نبی کریم ﷺ حکام کو قانون کا بھی پابند بنایا اور اخلاق کا بھی ، قانون کا اس لیے کہ کسی کے لیے بھی استثنائی (Exceptional)صورت باقی نہ رہے شاہ و گدا کے امتیازات ختم ہو جائیں اور اخلاق کا پابند اس لیے بنایا کہ مسند اقتدار پر بیٹھنے والے خود عملی نمونہ بنیں اور Trend Setterبن کے فرد اور معاشرہ کی صحیح سمت رہنمائی کر سکیں اسوہ حسنہ میں سیاسی اخلاقیات کا یہ بنیادی پہلو ہے کہ قانون کے نفاذ سے قبل اگر حقیقی معنوں میں اخلاق حسنہ کا نفاذ ہو جائے تو بہت کم قانون حرکت میں آئے گا عصر ی معاشرہ میں قوانین کی بہتات کے باوجود جرائم کا نہ رکنا اور ریاست کا کمزور ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اخلاقیات کا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے اور اقتدار پر فائز طبقہ اخلاقی طور پر زوال کاشکا رہے جس کی وجہ سے گزشتہ ایک دھائی میں بڑے بڑے حکومتی عہدیداروں کا عدالتوں سے نا اہل ہونا ہے ۔ اس لیے سیاسی عمل سے قبل اور اقتدار پر فائز ہونے سے پہلے اگر اسوہ حسنہ کے مطابق اس شعبہ پر اخلاقیات کا صحیح اطلاق کیا جائے تو ضرور اس کے ثمرات سے عوام اور حکمران بہرہ یاب ہوں گے ۔

 

حکومتی عہدوں کے حوالے سے نبی کریم ﷺ نےہمیشہ عہدہ تفویض کرتے وقت میرٹ کا لحاظ رکھا اور قابلیت کے ساتھ بوقت تقرری انٹر ویو بھی فرمایا کرتے جیسے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا قاضی مقررفرمانے کا موقع تھا۔[8]

 

اسی طرح مال و اسباب کے وقت بھی ضرورت مندوں اور محتاجوں کو ترجیح دینے کا اصول مقرر فرمایا اور اقربا پروری کی ممانعت کی گئی اس ضمن میں آپ نے اپنے اہل بیت کے حوالے سے ایک مثال پیش کی جب ایک بار سیدہ فاطمہ ایک موقع پر آکر آپ سے کچھ طلب کرتی ہیں اور آپ فرماتے ہیں کہ یہ مال و اسباب پہلے اصحابِ صفہ کی ضروریات پر خرچ کروں گا اور سیدہ فاطمہ کوچند کلمات کی صورت میں وظیفہ دے کر رخصت کر دیا ۔[9]

 

حکومتی اخلاقیات کا یہ روشن باب ہے اسی طرح مدینہ منورہ میں آپ پورے دس برس حاکم رہے لیکن آپ نے خود بنفس نفیس تجارت میں حصہ نہ لیا بلکہ تجارتی و معاشی معاملات میں ہدایت جاری فرمائیں بازاروں اور منڈیوں میں تشریف لے جاتے لیکن خود معاشی معاملات میں حصہ نہ لے کر اصول متعین کر رہے ہیں کہ اگر حاکم ِوقت کاروبار کرے گا توہو سکتا ہے کہ غلبہ و اقتدار کی وجہ سے اس کے پاس دولت کے انبار جمع ہو جائیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کی محرومیوں میں اضافہ نہ ہو جائے اس حوالے سے آپ نے کوئی شرعی ممانعت کا حکم تو نہیں دیا لیکن آپ کا یہ اسوہ حکومتی اخلاقیات کا نمایاں ترین پہلو ہے ۔عصری معاشروں میں جہاں خود حکمران تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لیتےہیں اس سے ان کے اثاثوں کا بڑھنا معمول کی بات ہے اور پھر اس میں اپنے اختیارات کی وجہ سے جائز اور ناجائز کی تمیز کا ختم ہونا عام مشاہدہ کی بات ہے ۔

 

نبی کریم ﷺ نےریاست کے ذرائع آمدن کی تقسیم سے قبل کسی کا ان میں سے کچھ حاصل کرنا نہ صرف جرم قرار دیا بلکہ اس پر وعید بھی سنائی ہے۔[10]حکام کی مدت تقرری کے اختتام پر ان کے اثاثوں کی چھان بین کا پہلو بھی آپ نے متعارف کروا کر اقوام عالم میں ایک اور نئی مثال قائم کی۔ نبی کریم ﷺ کے والی ریاست اور دیگر حکومتی عمال کے لیےمتعین ان اخلاقیات کا یہ نتیجہ تھا کہ مدینہ منورہ میں آپ کے دس سالہ عہد اور بعد میں تیس سالہ خلافت راشدہ کے دور میں نہ صرف ان اخلاقی پہلوؤں کا درس دیا گیا بلکہ تمام بڑے بڑے ذمہ داران نے ان حکومتی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کیں ۔ جس کی وجہ سے نہ حکمرانوں کے اثاثے بڑھے نہ ہی آئے روز کرپشن کے کیسز سامنے آتے نہ عوامی مسائل میں اضافہ ہوتا اور نہ ہی حکام و عوام میں بُعد پیدا ہوا حکام کے ان اخلاقی رویوں ہی کی وجہ سے اسلام کی نوائے حق شرق و غرب میں پہنچی اور ان علاقوں میں جہاں صدیوں سے عوام حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کا شکار تھے ان کی طرف سے بھی نوائے انقلاب بلند ہوئی مسلم طرز حکمرانی بطور نمونہ دنیا میں متعارف ہوا ۔

 

2۔تعلیمی و دعوتی اخلاقیات

تعلیم و تبلیغ کا بڑا گہرا تعلق ہے کیونکہ تعلیم کے بغیر نہ احکام تبلیغ کا ادراک ہوتا ہے اور نہ ہی آداب دعوت کی تفہیم ہوتی ہے اس لیے نبی کریم ﷺ نے دعوت وتبلیغ سے قبل تعلیم و تدریس کا منہج واخلاقیات واضح فرمائیں تعلیمی ودعوتی اخلاقیات کے رہنما اصول کا ابلاغ تو آپ نے مکہ مکرمہ ہی میں کر دیا تھا لیکن ان کی ہر جہت و پہلو جو انسانی زندگی میں سامنے آ سکتاہے اس کی شرح و دائرہ کار مدینہ منورہ میں سامنے آتاہے ۔قرآن کریم نے نبی کریم ﷺکے منصب کے حوالے سے دو بلیغ اصطلاحات بیان کی ہیں ۔ پہلی ہےیعلمھم[11]۔دوسری ہےیُزکیھم[12] ۔ قرآن کریم میں تعلیم وتزکیہ کے حوالے سے ان اصلاحات کا اکثر ذکر اکٹھا کرکے یہ اصول دیا جا رہا ہے کہ تعلیم کا مقصد عظیم تزکیہ ہے اورتزکیہ ہی تربیت و اخلاق کی بنیا دہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے اخلاق حسنہ کے ذریعے جو تعلیمی نظام دنیا کے سامنے متعارف کروایا اُس کی اساس تزکیہ اور مکارم اخلاق ہی ہے۔ اس سے مستحکم افکار، اعلیٰ کردار اور مثالی معاشرہ کا وجود ظہور میں آتا ہے۔ دعوت وتدریس کے چند بنیادی نبوی اصول یہ ہیں:۔ حکمت ، موعظت ، قصص، امثال ، واقعات ، تدریج ، آمادگی ، موقع ، خیر خواہی وغیرہ ۔ یہ تو وہ اصول ہیں جن کے مطابق نبی کریم ﷺ کا دائرہ دعوت و تدریس اور وعظ و خطاب محیط رہا ہے اس کے علاوہ متعلمین اور جن کو دعوت دی جاتی اُن کے حوالے سے بھی چند پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جاتا جو یہ ہیں:۔ مخاطب کی ذہنی حالت ، مخاطب کے نفسیاتی پہلو ، مخاطب کے سماجی و خاندانی پہلو ، مخاطب کے فکری پہلو وغیرہ یہ وہ دو جہات ہیں جن پر دعوت و تدریس کی عمارت قائم کی گئی ۔اس کے ساتھ نبی کریم ﷺ نے معلم او رداعی کے لیے خصوصی طور پر ضابطہ اخلاق مقر ر کیا خود بھی اُس پر عمل پیرا ہوئے اور صحابہ کرام نے بھی مکمل اس ضابطہ کی پیروی کی اور اُس کے ثمرات سے دنیا مستفید ہوئی ۔ ذیل میں دونوں کی اجمالی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔

 

معلم :

 

تعلیم و تدریس کا مرکزی کردار معلم ہے۔ نصاب کی ترتیب و تدوین او رمتعلمین کی تربیت و تزکیہ یہ سب معلم ہی کے مرہون منت ہیں۔ نبی کریم ﷺ کائنات کے معلم بن کر تشریف لائے ہیں۔ جہاں علم کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے وہاں اہل علم کی عظمتوں کا بھی بیان کیا گیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے بطور معلم جو اُسوہ پیش کیا اُس سے یہ بات ذہن نشیں کروائی کہ معلم اور متعلم کا تعلق مجرد تحصیل علم ہی تک محدود نہیں بلکہ معلم ہی مُربی ، مشف اورناصح ہوتا ہے اُس کا تعلق متعلمین سے ایسا ہی ہے جیسا ایک باپ کا اپنی اولاد کے ساتھ یہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمی حکمت عملی کا ثمر تھا کہ جب آپ نے ہجرت سے قبل مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیرؓ کو بطور معلم بنا کر بھیجا تو اُنھوں نے تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ منورہ کے ہر گھر میں اسلام کا پیغام پہنچایا ۔ حضرت مصعب ؓجنہوں نے اندازِ تدریس اور اسلوب دعوت کا منہج مکمل اُسوہ حسنہ پر قائم کیا تھا نے اس شعبہ میں اپنے طریق دعوت و تدریس سے یہ ثابت کر دیا کہ نبوی منہج دعوت و تدریس اپنا کر کس طرح باطل اور فرسودہ افکار و روایات کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح جب خود نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ رونق افروز ہوئے تو آپ نے باقاعدہ طور پر صفہ کے نام سے تعلیمی ادارہ قائم فرمایا اور ترجیحی بنیادوں پر اس ادارے کی ہر پہلو سے نگرانی فرماتے۔ یہاں ہی سے علم و فضل اور کردار وعمل کے وہ پیکر اطراف و اکناف میں پھیل کر علم کی شمع فروزاں کر گئے ۔

 

عصری معاشروں میں علوم و فنون کی بھرمار ، تعلیمی اداروں کی وسعت اور کتب کثیرہ کی نشر و اشاعت سے کیا وہ تعلیم کے مقاصدحاصل ہو رہے ہیں جو فی الحقیقت مطلوب ہیں تو جواب نفی ہی میں ہوگا۔ اس کی ایک ہی بنیادی وجہ ہے کہ معلم کے مقام کے حوالے سے موجودہ نظام تعلیم نے کوئی اخلاقی ضابطہ مقرر کیا ۔ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں اساتذہ کی معاشی اور سماجی حیثیت اور اخلاقی تعلیمات کتنے فیصد شامل کی جاتی ہیں۔ اس کا جواب بڑا مایوس کن ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ طلباء کے ہاتھوں اساتذہ کو زد وکوب کئے جانے کے واقعات معمول بن چکا ہے۔ تعلیمی نصاب فنون کے ماہرین تو خوب پیدا کر رہا ہے ۔ لیکن اُن ماہرین کی اخلاقی حالت پوشیدہ نہیں ۔کتنے فیصد قانون پڑھنے والے قانون کی پاسداری اور احترام کرتے ہیں۔ کتنے فیصد ڈاکٹرز حقیقی معنوں میں مریضوں کی مسیحائی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ کتنے فیصد انجینئرز تعمیراتی کاموں میں دیانتداری کا مظاہر ہ کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ معلمین کے سماج میں حقیقی مقام سے عدم توجہی اور اخلاقی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ ہیں۔ تعلیم میں اخلاقیات کے نہ ہونے کی وجہ سے والدین کے نافرمان ، سیاسی جماعتوں کے آلہ کار ، تخریب کاروں کے سہولت کا ر، کرپشن کی مثالیں قائم کرنے والے اعلیٰ ڈگری ہولڈرز افسران ہی سامنے آئے ہیں اور معاشرہ ایسے " تعلیم یافتہ " افراد سے بھرا پڑا ہے ۔ ایسی صورت حال میں اساتذہ خود اپنے حقیقی مقام کو پہچانیں ۔ ارباب اقتدار نصاب تعلیم میں ایک مناسب حصہ اخلاقی تعلیمات کے حوالے سے مختص کریں تو تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ممکن ہو گی اور معاشرہ اخلاقی بگاڑ سے بھی بچ سکے گا۔ تعلیمی اخلاقیات اور تربیت متعلمین کیلئے نبی کریم ﷺ کے اُسوہ حسنہ سے ایک مثال ملاحظہ ہو۔

 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں :۔

 

ایک بار صفہ میں دوران تعلیم ہی شدید بھوک پیاس کا دورآیا ۔ ایسی حالت میں کہیں سے دودھ کا ایک پیالہ آیا تو دل میں خواہش آئی کہ یہ مجھے مل جائے لیکن نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ ابو ہریرہ جتنے لوگ بیٹھے ہیں دائیں طر ف سے شروع کرو اور سب کو پلاتے جاؤ۔ سب نے جب سیر ہو کر پی لیا تو پھر مجھے حکم دیا کہ تم بھی خوب پیو میں نے سیر ہو کر پیا۔ آخر میں نبی کریم ﷺ نے نوش فرمایا ۔[13]۔ نبی کریم ﷺ کی تربیت نفوس کے حوالے سے اس واقعہ میں کئی نکات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ضبط نفس کا صرف درس ہی نہیں دیا بلکہ تربیت بھی کی جا رہی ہے۔ تعمیر شخصیت اورمکارم اخلاق میں ضبط نفس کی اہمیت اور اثرات ایک مسلمہ امر ہے کہ اس واقعہ میں ضبط نفس نمایاں طور پر نظر آ رہا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا حضرت ابوہریرہ ؓکو باوجود بھوک اور پیاس کے دیگر افراد کو پہلے دودھ پیش کرنے کا حکم " ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصہ[14])کا عملی نمونہ ہے ۔ اس ایک واقعہ میں ایثار، صبر ، ضبط نفس ، اتباع معلم ایسی خوبیاں واضح طور پر نظر آ رہی ہیں۔ یہ اور اس طرح کے دیگر محاسن اخلاق نبی کریم ﷺ کے طریقہ تدریس و تربیت میں نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو افراد براہ راست صفہ کی درس گاہ میں آپ کے سامنے زانوے تلمذ طے کیے رہے وہ تمام کے تمام مختلف معاشروں میں پھیل کر معلم انسانیت ہی کے طریقہ تدریس کے مطابق تعلیم و تعلم کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔ فرد اور معاشرہ کو ظلمتوں سے نکا ل کر راہِ حق پر گامزن کرنے میں ان حضرات کو جو کامیابی حاصل ہوئی اُس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ زبان سے افکار محمدی پیش کرتے تھے اور کردار سے اخلاقی محمدی پیش کرتے تھے ۔

 

داعی:

 

ہر داعی کا طریقِ دعوت اُس کی تعلیم ، تربیت ، تزکیہ ، اخلاق اور حکمت کا عکاس ہوتا ہے۔ دعوت کے مؤثر ہونے کے لیے دلائل کےساتھ ساتھ افکار کی پختگی ، کردار کی عمدگی اور اخلاق کی خوبصورتی ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے مکی اور مدنی دونوں ادوار میں وقت اور حالات کے پیش نظر دعوت کے مختلف اسالیب اختیار فرمائے آپ کا اسلوب کوئی بھی ہوتا ۔ لیکن اُس کا اخلاقی محاسن سے مزین ہونا آپ کے منہج دعوت کی اساس ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ داعی الی الحق ہونے کے ساتھ داعی اخلاق بھی ہے۔ بلکہ آپ کی دعوت الی الحق ہی آپ کے داعی اخلاق ہونے کا مظہر ہے۔ قرآن کریم میں دعوت کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے : ۔

 

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ[15]

 

" بلاؤ اپنے رب کی راہ کی طرف، حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور اُن سے اچھے انداز سے مجادلہ کرو"

 

اس آیت میں دعوت کے چار اصول سکھائے جا رہے ہیں جن کے مطابق نبی کریم ﷺ نے دعوتی اخلاقیات پیش کی ہیں۔ اولین پہلو یہ ہے کہ اللہ کی راہ کی طرف بلایا جائے ۔ یہ دعوتی اخلاقیات کا پہلا اصول ہے اگر کوئی داعی اپنے مسلک ، گروہ، فرقہ ، تنظیم یا جماعت کی طرف بلاتا ہے تو وہ پہلے اصول ہی سے منحرف نظر آئے گااور اُس کی اثر آفرینی صفر ہو گی۔ دوسرا پہلو حکمت ہے ۔ اس سے ہی داعی کا منہج واضح ہوتا ہے کہ وہ کس انداز سے موقع کی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اخلاقی صفات سے مزین ہو کر مخاطب کو کیسے پیغام حق دیتا ہے۔ موعظۃ الحسنۃ سے پہلے حکمت کا ذکر داعی کے لیے اخلاقیات کے تعین کی ہدایت ہے۔ موعظۃ الحسنۃدلائل و براہین کا نام ہے۔ جبکہ حکمت اُن دلائل کوپیش کرنے کا نام ہے۔ عصری معاشروں میں تحقیقات ، تصنیفات ، خطبات ، ملفوظات اور مقالات کی صورت میں دلائل کے انبار نظر آتے ہیں۔ ان سب میں فائق شے وہی ہے جو حکمت سے مزین ہے ۔ دعوت کے دلائل وہی ہیں لیکن داعی کے لئے اپنے عرف کے مطابق اُن کو پیش کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے یہی حکمت ہے اور اِسی میں دعوتی اخلاقیات پنہاں ہیں۔

 

چوتھا پہلو جو دعوت کے حوالے سے ہے وہ ہے "و جادِلھُم بالتی ھی اَحسن" یہ ایک طرح سے داعی کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اُس کی دعوت کے نتیجے میں موافقت اور مخالفت دونوں طرح کے معاملات سامنے آ سکتے ہیں۔ دعوت کا آغاز مکالمہ سے ہوتا ہے۔ مکالمہ پھر مناظرہ کی صورت اختیا رکرتا ہے ۔ مناظرہ کی شدت سے مجادلہ کی صورت بن جاتی ہے۔ یہ اختتام ہوتا ہے ۔ مجادلہ کے بعد بعض دفعہ مباہلہ کی صورت بھی سامنے آتی ہے ۔ مکالمہ ، مناظرہ ، مجادلہ اور مباہلہ چاروں ہی دعوت کے مختلف موقعوں پر بیانیے ہیں اور چاروں ہی میں کامیابی کا مدار اخلاق حسنہ ہی پر ہے۔

 

نبی کریم ﷺ کو مکہ مکرمہ میں مشرکین جواب دینے سے عاجز ہو جاتے تو آپ کو شاعر[16] مجنون[17]اور ساحر[18]کہتے یہ صورت مجادلہ کی ہوتی لیکن آپ "وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ"[19]کا عملی مظاہرہ ہی کرتے ۔ دعوتی اخلاقیات میں ا س سے بڑھ کر کوئی اُسوہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ دعوتِ الی الحق کے حوالے سے نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی ایسے عمل خیر کی طرف نہیں بلایا جس پر پہلے یا بعد میں عمل کرکے نہ دکھایا ہو ۔ اکثر ایسے ہوتا کہ عمل پہلے ہی پیش کر دیتے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے ۔ عمل کے بغیر نیکی کی دعوت دینے میں کوئی مضائقہ تو نہیں ۔ لیکن اس طرح کا رویہ حکمت و اخلاق کے منافی ہے۔

 

دعوت خیر کا ایک طریقہ انسداد شربھی ہے ۔ شر یعنی بُرائی کو ختم کرنا فروغ خیر ہی کا عمل ہے اس کی تین صورتیں ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

 

من رای منکم منکرافلیغیرہ بیدہ فان لم تسطیع فبلسانہ فان لم تسطیع فبقلبہ ذلک اَضعف الایمان [20]

 

"تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے اُس کو ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہیں تو زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو دل میں بُرا جانے۔یہ کمزور ایمان (کی نشانی )ہے۔"

 

اب کوئی صرف زبان سے بُرائی کو روکنے کی طاقت رکھتا ہو لیکن ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے گا تو یہ حکمت دعوت اور اخلاق کے منافی ہو گا۔ اس طرح کے طرز عمل سے فتنہ و فساد بڑھنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس طرح جو ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ خاموش رہیں تو یہ بھی حکمت کے خلاف ہے اور اس سے بھی فتنہ و فساد ہی بڑھتا ہے۔ جو جیسی صلاحیت اور استعدادرکھتا ہو اس کے مطابق ہی دعوت دے گا۔ تو ثمرات حاصل ہونگے ۔

 

3۔عائلی و خاندانی اخلاقیات

 

عائلی زندگی کی اساس بھی نبی کریم ﷺ نے تقوی پر قائم فرمائی ۔ آپ کا یہ فرمان کہ" عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو"[21] عائلی زندگی میں اخلاقیات بنیاد ہے۔ تقوی کے مظاہر کاایک مظہر عائلی زندگی کو خوش گوار گزارنا ہے۔ زوجین اور اولاد ان سب کے آپس کے معاملات کا دائرہ حسن سلوک، باہمی اعلیٰ تعلقات ، ہم آہنگی اخلاق حسنہ کے بغیر ممکن نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے عائلی زندگی میں اخلاقیات کے جو پہلو متعارف کروائے اُن میں سب سے پہلے تو بیک وقت ازواج کی تحدید ہے۔ پھر ایک سے زائد ازواج کی صورت میں اُن کے مابین عدل کی شرط ہے۔[22] تحدید ازواج کا ضابطہ اور پھر عقد ثانی میں عدل کی شرط یہ دونوں عائلی زندگی کے نمایاں ترین پہلو ہیں۔ اس سے اس امر کی شرح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں نکاح کا مقصد صرف شہوانی خواہش کا حصول ہی نہیں بلکہ اس کی کئی حکمتیں اور مقاصد ہیں۔ جو حیات انسانی کیلئے ناگزیر ہیں۔ نکاح کے معاملے میں نبی کریم ﷺکا یہ فرمان کہ نکاح میں چار چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ حسن ، مال ، نسب اور اخلاق اگر ہو سکے تو اخلاق کو مقدم جانو [23]یہ ابلاغ عطا کر رہا ہے کہ حسن اور مال کی کوئی دائمی صفات نہیں ہیں ان میں کمی بیشی ہونا زندگی کا معمول ہے زندگی رویوں کے ساتھ بسر ہوتی ہے اگر اعلیٰ رویہ نہ ہوا تو مال اور حسن زندگی کو خوشگوار نہیں بنا سکتے ۔ زندگی کی خوبصورتی جس میں تحفظ ، احترام اور اعتماد کی فضا قائم رہے اُس کا انحصار رویہ پر ہےاور رویہ اگر حسن اخلاق پر مبنی ہو گا تو پھر عائلی زندگی کی حکمتوں کا بھی ادراک ہو گا اور اس کے مقاصد سے بھی آگہی حاصل ہو گی۔ جس کا براہ راست اثر اولاد پر مرتب ہو کر تربیت اولاد کی صورت میں سامنے آئے گا۔

 

عائلی زندگی کی اخلاقیات کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ہر نکاح کی حکمتوں کو سمجھا جائے اور پھر اُس کا اثرات کے تناظر میں مطالعہ کیا جائے ۔آپ نے حضرت خدیجہ ؓسے جب نکاح کیاتو وہ آپ سے عمر میں پندرہ برس بڑی تھیں اور حضرت عائشہ صدیقہؓ سے جب نکاح کیا تو آپ سے عمر میں بہت زیادہ چھوٹی تھیں۔ عمروں کے ان تفاوت کے باوجود تمام ازواج مطہرات میں سے انہی دو کے ساتھ آپ کی کمال درجے کی ذہنی ہم آہنگی تھی۔ حضرت خدیجہؓ کا اکثر ذکر کرتےرہنا[24]اور اُن کے وصال کے سال کو عام الحزن (غم کا سال) قرار دینا اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کیلئے دیگر ازواج سے اجازت طلب کرنا یہ بتاتا ہے کہ رسول اللہ نے گھریلو زندگی میں بھی ایک خوشگوار ماحول بنایا ہوا تھا اور بطور شوہر اُن مقدس خواتین کے ساتھ ایسا برتاؤ روا رکھا کہ عمروں کے تفاوت کو محسوس ہی نہ ہونے دیا ۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ تو یہاں تک فرمایا کرتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ جب گھر میں موجود ہوتے تو ہمارے ساتھ چھوٹے موٹے کاموں میں معاونت کیا کرتے تھے آپ کا ازواج کے ساتھ خوش طبعی فرمانا یہاں تک کہ اُن کے مزاج ، نفسیات اور فرحت و انبساط کا خیال رکھنا یہ سب اور اِس طرح کا آپ کا رویہ عائلی زندگی میں اخلاقیات ہی کے حوالے سے ہے ۔ اس کے علاوہ آپ کی مکمل عائلی زندگی کامطالعہ کیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ آپ نے کبھی بھی کسی بھی زوجہ محترمہ پر ہاتھ نہیں اُٹھایا اور نہ ہی اُن کی سابقہ زندگی کے حوالے سے کوئی ایسا موضوع زیر بحث لائے جس سے اُس زوجہ کو اذیت ہو سکتی تھی ۔ حضرت ابو سفیان کی صاحبزادی حضرت اُم حبیبہ سے نبی کریم ﷺ نے نکاح حضر ت ابو سفیان کے اسلام قبول کرنے سے کافی عرصہ پہلے کیا ۔جناب ابو سفیان کی قبول اسلام سے پہلے اسلام اور نبی کریم ﷺ کے حوالے سے سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن تمام ذخیرہ کتب میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوسفیان کی معاندانہ کاروائیوں کا اشارۃ ذکر بھی اپنی اہلیہ محترمہ سے کیا ہو بلکہ دیگر ازواج کی طرح اُن کے حقو ق کو بھی مکمل ادا کیا ۔

 

عصری معاشروں میں خواتین کو جسمانی تشد د کا نشانہ بنانا اُن کو اُن کے خاندان یا اُن کے ماضی کے کسی واقعہ کو بنیاد بنا کر لعن طعن کرنا یا کسی گھریلو امور میں بیوی کے ساتھ کام کرنے کو اپنی غیرت کے خلاف سمجھنا یہ اور اس طرح کے دیگر افعال خاندانی اخلاقیات کے منافی رویے ہیں۔ جس کا منفی اثر نہ صرف میاں بیوی کے باہمی تعلقات ، اولاد پرپڑتا ہے بلکہ کئی خاندانوں کے مابین عداوتوں کا سبب بھی بنتا ہے۔

 

عائلی زندگی کو خوشگوار رکھنے کیلئے نبی کریم ﷺ نے مختلف جہات سے حسن اخلاق کی تلقین کی ہے ۔ نکاح کی صورت میں جو مبارک رشتہ معرض وجود میں آتا ہے اُس کو ختم ہونے سے بچانے کیلئے ہر ممکن حد تک جانے کی اجازت ہے۔ مثلاً جھوٹ جو اخلاقی امراض کی جڑ ہے لیکن میاں بیوی کےمابین صلح کروانے کی غرض سے اگر بول لیا جائے گا تو اس کو جھوٹ نہیں کہا جائے بلکہ یہ ایک طرح سے"وَالصُّلْحُ خَيْرٌ"[25]۔ (صلح ہی میں بہتری ہے) پر ہی عمل شمار ہو گا اور اس طرح کے عمل پر اجر کی امید بھی کی جاسکتی ہے۔ صلح کی امید اگر نہ رہے اورطلاق تک نوبت پہنچ جائے تو یہ پہلو فراموش نہیں ہونا چاہیے کہ احادیث میں اس کے لیے "ابغض الحلال" [26](جائز کاموں میں ناپسندیدہ) کے الفاظ آئے ہیں۔ ادنی سی صالح فکر رکھنے والا ایسے کام ہی سے لرز جائے گا جو اللہ کا ناپسندیدہ ہے ۔

 

خلاصہ

انسانی رویہ اُس کی نہ صرف فکر بلکہ تربیت کا بھی عکاس ہوتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ انسانی افکار وکردار کی تہذیب و تربیت اور تزکیہ کے لیے مبعوث ہوئے ہیں آپ نے ہر عمل صالح کی بنیاد تقوی کو بنایا اور تقوی اور اخلاص ہی کو اعمال کی قبولیت کی شرط قرار دیا ۔ تقوی و اخلاص کے مظاہر اخلاق حسنہ کی ہی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ اخلاق حسنہ کا اظہار اگر حکومتی و سیاسی سطح پر ہو گا تو ایک اعلیٰ اور خوشحال ریاست معرض وجود میں آئے گی۔ تعلیمی و دعوتی شعبہ کو اگر اعلیٰ اخلاقی اقدار کے مطابق چلایا جائے گا تو اس کے اثرات سے نہ صرف فرد بلکہ پورا معاشرہ بہرہ یاب ہو گا اِسی طرح عائلی زندگی میں اگر اخلاقی اقدار کی پاسداری کی جائے گی تو اس کا ثمر زوجین کے ساتھ اولاد کو بھی حاصل ہوگا۔ نبوی منہج اخلاق پر عمل پیراہو کر ہم اپنے سیاسی ، تعلیمی ، دعوتی ، خاندانی ہر شعبہ زندگی میں اپنے مطلوبہ مقاصد اور نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. یونس، ۱۰: 16
  2. بخاری،محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)،الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسولﷺ وسننہ وایامہ،مکتبہ دار طوق النجاۃ،، رقم الحدیث 3
  3. بخاری ،الجامع الصحیح، رقم الحدیث ، 4566۔
  4. ایضا ، رقم الحدیث ،1311۔
  5. ایضا، رقم الحدیث ۔
  6. ایضا، رقم الحدیث ،1366،1269۔
  7. ،مسلم بن حجاج،قشیری(۲۶۱ھ)الجامع الصحیح، دار احیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث ، 4603۔
  8. ترمذی، محمد بن عیسٰی، ( المتوفیٰ: ۲۷۹ ) ، السنن،دار الغرب الاسلامی ، بیروت، ۱۹۹۸ ، رقم الحدیث ، 1327سنن ابو داؤد، رقم الحدیث ، 3592۔
  9. بخاری ،الجامع الصحیح، رقم الحدیث ، 313۔
  10. مسلم ،السنن، رقم الحدیث ، 2018۔
  11. البقرہ،۲: 139۔
  12. ایضا
  13. الازہری ، محمد کرم شاہ ، ضیاء النبی ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، 5: 746
  14. الحشر، ۵۹: ۹۹
  15. النحل، ۱۶: ۱۲۵
  16. الانبیاء، ۲۱: ۵
  17. الحجر،۱۵: ۸
  18. الزخرف،۴۳: ۳۰
  19. الاعراف، ۷: ۱۹۹
  20. مسلم ،السنن، رقم الحدیث ، 85۔
  21. دہلوی ، شیخ عبد الحق ، مدارج النبوت ، مترجم غلام معین الدین نعیمی ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور(۔2002 )،2 : 465
  22. النساء، ۴: ۳
  23. بخاری ، الجامع الصحیح،رقم الحدیث ، 5090، مسلم ،السنن، رقم الحدیث ، 1466۔
  24. مسلم ،السنن، رقم الحدیث ، 6158
  25. النساء، ۴: ۱۲۸
  26. ابو داؤد ، السنن،کتاب الطلاق،باب فی کراھیۃ الطلاق،رقم الحدیث ۲۱۷۸
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...