Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 1 Issue 2 of Al-ʿILM

شریعت کی حقیقت اور تعبیرات: افکارِ مجدد الف ثانی کا ایک فنی زاویہ نگاہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

لفظ شریعت کے معانی و مطالب عربی لغات میں مختلف آئے ہیں۔ اگر ہم اس کا جائزہ لیں تو یہ لفظ شرع یشرع تشریعاً، سے ہے تو تشریع کا معنی ہے۔

ھی منبع الماء التی یذھب الیہ لیشرب الماء منہ [1]

"یہ پانی کے اس چشمے کو کہتے ہیں جس سے پانی پینے کی ضرورت پوری کی جاتی ہے"۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس لفظ

کے مفہوم کی شرح میں کیا مشابہت تھی جس کی بناء پر اسے شریعت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے تو اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ جس طرح پانی انسانی زندگی کے لیے اور انسانی جسموں کے لیے خیر کی بنیاد بنتا ہے اسی طرح شریعت لوگوں کو صراط مستقیم پر ہونے یا اس پر چلانے کے لیے خیر کی اساس بنتی ہے اور خیر کی طرف گامزن کرتی ہے جس کی وجہ سے ان کو ذہنی و قلبی سکون میسر آتا ہے۔اس معنی کی تائید ہمیں قرآن حکیم کی اس آیت سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا [2]

"اور پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر قائم کردیا تو اسی راستے پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا۔"

اسی طرح یہ لفظ ’’شرع لہ الامر‘‘ کسی امر کو متعین کرنا اور واضح کرنا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا

شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحاً [3]

"اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا جس کا حکم اس نے نوح (علیہ السلام) کو دیا تھا۔"

اس لیے قاموس المحیط میں شریعت کا معنی یہ بیان کیا گیا ہے

الشریعۃ معنھا الصراط المستقیم الذی قرر اﷲ لعبادہ [4]

"شریعت سے مراد دین کا وہ سیدھا و صحیح راستہ ہے جسے اﷲ نے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے۔"

امام راغب اصفہانی المفردات میں شریعت کا معنی بیان کرتےہیں:

المرادمن الشریعۃ طریقۃ واضحۃ لھذا یقال شرعت لہ طریقا۔'[5]' "شریعت سے مراد، واضح راستہ ہے اس لیے کہا جاتا ہے میں نے اس کے لیے راستہ واضح کردیا ہے۔ الشرع یہ مصدر ہے اس کا اطلاق ایک صراط مبین، واضح و شفاف راستے پر ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے جو شریعت کے واضح راستہ پر اخلاص کے ساتھ چلتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔

شریعت کا معنی سددھا و صوبھا۔ بھی ہے جس کا معنی، اس راستے کو سیدھا، صحیح اور درست کرنا ہے۔ اس طرح وہ راستہ جو

سیدھا ہوکر عبادت کی خاطر تمام "بندوں کے لیے مشروع ہوجائے اسے شریعت کہتے ہیں"[6]

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا [7]

’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے الگ شریعت اور کشادہ راہ عمل بنائی ہے۔‘‘

اس موضوع کا ایک عمومی پہلو ہے اور دوسرا خصوصی۔ جہاں تک عمومی پہلو کا تعلق ہے وہ حضرت مجدد الف ثانی کی احیائے اسلام اور تجدید دین کے حوالے سے خدمات کا ہے بلاشبہ حضرت مجدد الف ثانی آج بھی راہ حق میں جدوجہد کرنے والوں کے لیے ایک نجم تاباں ہیں اور ایک عالم کے مقتدا ہیں۔ ان کی تحریک احیاء دین آج بھی عالم اسلام کے لیے ایک مینارہ نور ہے اور آپ کے ارشادات طیبات آج بھی عالم اسلام کی اصلاح کے لیے امید کی ایک کرن ہیں اور آپ کی تعلیمات عالمگیر ہیں۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ آپ کے افکارِ عالیہ آفتاب بن کر مردہ دلوں کو روشن کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ آپ آفتابِ ولایت بھی ہیں اور ماہتابِ طریقت بھی ہیں اور مقتدائے شریعت بھی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مجدد ہر صدی میں آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ مگر دو ہزار کا ایسا عظیم مجدد، مجدد الف ثانی کے سوا کوئی نہ آیا۔

شرعی مصالح کا تحفظ اور مجدد الف ثانی:

عالم ربانی وہ نہیں ہے جو اپنی ذات کی عزت و توقیر کرائے جو اپنے نجی مفادات کا تحفظ کرائے اور وہ اپنی ذاتی عظمت کو بڑھائے بلکہ عالمِ ربانی وہ ہے جو دین کی عزت و عظمت بڑھائے جو دینی مصالح کا تحفظ کرائے اور جو اپنے عمل اور کردار سے دین کی ناموس کو چارچاند لگائے۔ یہی کردار ہی کردارِ مجدد الفِ ثانی ہے جن کو دنیا نے اسی کردار کے احیاء کی بناء پر مجدد الف ثانی کے بعد دوسرا لقب عالم ربانی اور امام ربانی کا دیا ہے اور آپ نے اپنے بے مثل کردار کے ذریعے دین کی عظمت کا سکہ پورے جہاں میں بٹھایا اور جمایا ہے۔ وہ جہانگیر جو شراب پیتا تھا، آپ کی نصیحت پر ہی شراب چھوڑنے پر آمادہ ہوتا ہے اور وہ جہانگیر جو اپنے دربار میں آپ کا سر جھکانا چاہتا تھا جسے اقبال نے یوں بیان کیا ہے۔

"گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے"[8]

خدا تعالیٰ نے اس مردِ درویش کے ہاں جس کا کوئی نہ لشکر تھا اور نہ فوج لیکن اتنے بڑے حاکم کو جو پورے برصغیر کا حکمران تھا اُسے آپ کے سامنے سرجھکانے پر مجبور کردیا۔ جو آپ کی گردن جھکانا چاہتا تھا۔ باری تعالیٰ نے اُس کی گردن آپ کے سامنے جھکا دی وہ مجدد جن کی لحد آج بھی مطلع انوار ہے اور وہ مجدد جو صاحبِ اسرار ہے اور وہ مجدد جس کے انوار تاباں گلستان در گلستان ہیں وہ مجدد جو اقلیم رضا کا شاہِ یکتا ہے وہ مجدد جو ملکِ حق کا سلطان ہے اور وہ مجدد جس کا لقب الف ثانی ہے اور اپنے ظہور کے بعد نمایاں ہی نمایاں ہے۔ وہ مجدد جو بحر شریعت و حقیقت ہے جو اپنے قریبی کو جواہر کی دولت لٹاتا ہے اور اپنے بعید کو بادلوں کی صورت میں برس کر فیضیاب کرتا ہے اور وہ مجدد جو علم شریعت اور حقیقت کا ایسا آفتاب ہے جس کی روشنی مشارق اور مغارب میں چھائی ہوئی ہے اور ہر طرف مسلسل پھیل رہی ہے۔

فروغ شریعت اور طبقات کا کردار:

حضرت مجدد الف ثانی نے شریعت کی ترویج و اشاعت کے لیے چار گروہوں پر کام کیا۔ اُن میں سے ایک طبقہ علماء کا ہے، ایک طبقہ صوفیا کا ہے اور ایک طبقہ درباری امراء کا ہے اور ایک طبقہ خود سلاطین وقت کا ہے۔ آپ نے صوفیاء کے لیے ایک مکتوب میں فرمایا:

[9]’’"یاد رکھو قیامت کے روز حساب و کتاب شریعت اسلامی کے مطابق ہوگا نہ کہ تصوف کے نکات کے مطابق

کوئی مسئلہ درپیش ہے اور کوئی شرعی نقطہ سمجھ سے بالاتر ہے تو حضرت امام اعظیم ابو حنیفہ ہمارے راہنما ہیں اور حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد بن حسن شیبانی ہمارے قائد ہیں۔ ان آئمہ و مجتہدین کے اقوال ہی ہماری راہنمائی کریں گے نہ ابوبکر شبلی یا ابوالحسن نوری کے اقوال۔[10]

اسی طرح فرماتے ہیں کل قیامت کے روز انسان کی نجات تصوف کی بناء پر نہیں بلکہ شریعت کی بناء پر ہوگی۔ اس حقیقت کا اظہار یوں کرتے ہیں:

’’کل قیامت کے روز شریعت کی بات پوچھی جائے گی تصوف کی بابت کچھ نہ پوچھا جائے گا۔ جنت میں داخلہ اور دوزخ سے بچاؤ۔ شرعی احکام کی بجاآوری سے مشروط ہے۔

"سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ احکام شرعیہ کو رواج دیا جائے۔ نیز ان کے زندہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ بالخصوص ایسے زمانے میں جب اسلام کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ اس لیے کہ کروڑہا روپیہ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ شرعی احکام کو رواج دیا جائے"[11]

ایک مکتوب میں مزید برآں فرماتے ہیں کہ شریعت پر اس حد تک استقامت اختیار کریں کہ اس کے چھوٹے چھوٹے آداب بھی ترک نہ ہونے پائیں۔[12]

ترویج شریعت میں حائل داخلی رکاوٹیں :

وہ مجدد الف ثانی جنہوں نے سیاسی نحوت، علمی بے راہ روی اور شریعت اسلامی کی خلاف ورزی اور روحانی ابتری کے خلاف اپنے زمانے میں جہاد کیا اور اس جہاد کے نتیجے میں سجدہ تعظیمی کا انکار کیا۔ گوالیار کے قلعے میں قید کیے گئے اکبر کو مفاد پرست علماء اور ویدانت کے اسیر صوفیاء نے خراب کیا اور روح اسلام کو مجروح کیا اور اکبر کی ناخواندگی کو معاذ اﷲ شانِ اُمیت کے مشابے قرار دیا ۔

محضرنامہ کے ذریعے بادشاہ اکبر کو خلیفۃ الزماں اور امامِ عہد قرار دے کر واجب الاطاعت ثابت کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں اس نے شریعت میں قطع و برید شروع کردی۔ رعایا کی خوشنودی کے لیے احکام معطل کردیے۔ فیضی اور ابوالفضل نے اپنی علمی برتری کو مذموم طریق پر استعمال کیا۔ علماء میں علمی جمہود آیا۔ تصنیفی کام حواشی و شروح اور تعلیقات تک محدود رہ گیا۔[13]

حضرت مجدد الف ثانی نے شریعت کی برتر حیثیت کا اس قدر قوت سے دفاع و اثبات کیا کہ طریقت کے نام پر کم فہم افراد کی بے راہ روی کا سدِّباب بھی کردیا۔ شریعت سے فرار کی راہیں ڈھونڈنے والے اپنے آپ کو اس سے بالا خیال کرنے لگے تھے اور طریقت کا لبادہ اوڑھ کر بے عملی اور بدعملی کو سند جواز عطا کرنے پر آمادہ ہو رہے تھے۔ حضرت مجدد الف ثانی نے شریعت کی بالادست حیثیت کا یوں پرچار کیا کہ اسوہ رسول کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہ دیا۔[14]

 

طریق شریعت بہترین طریق حیات ہے:

شریعۃ یہ لفظ شرع سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے کھلا راستہ، کشادہ طریق۔ اسی حوالے سے باری تعالیٰ نے قرآن حکیم اور اسی طرح سورہ شوریٰ میں ہی فرمایا:

ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ [15]

پھر ہم نےآپ ﷺ کو دین کے کھلےرستے شریعت پر مامور فرمادیا ۔سو آپﷺ اسی رستے پر چلتے جائیے اور ان لوگوں کی خواہشوں  کو قبول نہ فرمایےجنہیں آپﷺ کی اورآپﷺکے دین کی عظمت و حقانیت  کا علم نہیں ۔ 

اسی طرح سورۃ شوری ٰمیں ارشاد باری تعالیٰ ہے : شرع لکم من الذین ما وصی بہ نوحاً [16]

"اس نے تمھارے لیے دین کا وہی رستہ مقرر فرمایاجس کا حکم  اس نے نو ح علیہ السلام کو دیا تھا۔

اور اسی طرح سورۃ الشوری ٰ میں ہی ہے۔ شَرَعُوا لَھم  ''اُن کے لیے دین کا راستہ'' '[17]'

یہاں تینوں آیات میں لفظ شرع اور شریعۃ ایک واضح اور کشادہ راستے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ گویا ان آیات کی روشنی میں انسان کے لیے ایک شریعتِ اسلامی کی اتباع ہے اور دوسری اپنی اھواء نفس کی اتباع اور پیروی ہے۔

شریعت اور حقیقت کے علوم کا باہم تلازم:

حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ اپنی معروف کتاب کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ انسان کے لیے دو علم حاصل کرنا ضروری ہے ایک علم شریعت اور دوسرا علم حقیقت و طریقت ہے۔ وہ اس حقیقت کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ اسے معرفت الٰہی اور امور الٰہی کا علم ہو اور یونہی انسان پر مصلحتِ وقت کا علم بھی فرض ہے۔ اس لیے کہ امور الٰہی اور مصلحتِ وقت کا علم بھی علم شریعت ہے۔[18]

اور اسی بات کو مکتوبات میں امام ربانی مجدد الف ثانی یوں بیان کرتے ہیں:

"نجات ابدی حاصل کرنے کے لیے آدمی کا تین چیزوں کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ وہ تین چیزیں علم، عمل اور اخلاص ہیں اور پھر علم دو قسم کا ہے۔ وہ علم جس سے مقصود عمل ہے۔ اس علم کی بیان کی کفیل فقہ ہے اور دوسری قسم کا علم وہ ہے جس سے مقصود صرف اعتقاد اور یقینِ قلبی ہے اور یہی علم طریقت و حقیقت ہے"۔[19]

اس ارشاد کے ذریعے آپ نے شریعت کی خوبصورت توجیہہ بیان کی ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی میں عمل کے سوطے، علم شریعت سے پھوٹتے ہیں۔ اس لیے کہ علم شریعت کا نام ہی علم العمل ہے۔ ایک مومن کی زندگی کے اعمال کیا کیا ہوں اور کیسے اعمال اُس پر کرنا فرض اور واجب ہیں اور مباح ہیں اور کونسے حرام اور کونسے مکروہ ہیں۔ اس کی زندگی میں حلال عمل کیا ہے اور اس کی زندگی میں حرام عمل کیا ہے۔ اس کا پتہ علم شریعت دیتا ہے جو فقہاء کا مطمح نظر ہے اور یہی علم فقہ کا بنیادی موضوع ہے۔

علم شریعت اور عمل استقامت:

حضرت مجدد الف ثانی علم شریعت پر عمل میں استقامت کے حوالے سے بھی وضاحت کرتے ہیں۔ شریعت کا علم عمل کے لیے ہے اور وہ عمل جو کبھی بھی انسان کی زندگی سے ختم نہ ہو، انسان کی زندگی تو ختم ہوجائے مگر وہ عمل شریعت ختم نہ ہو اور جو انسانی زندگی کے مختلف مدارج میں جاری و ساری رہے اور کسی بھی موقع پر سوائے استشنائی حالتوں کے رفع نہ ہو۔ اسی رویے، عادت، طرز عمل اور طریق کا نام شریعت میں استقامت ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں:

"شریعت پر استقامت اختیار کریں اور اپنے احوال کو علوم اور اصول شریعت کے مطابق درست کریں اگر معاذاﷲ اگر کوئی قول اور فعل شریعت کے خلاف ہوجائے تو اس خرابی کا تدارک کیا جائے اور شریعت میں استقامت کو اختیار کیا جائے اور شریعت پر مسلسل عمل ہی اہلِ استقامت کا شیوہ اور طریق ہے۔‘‘[20]

عمل شریعت اتباع رسول کا نام ہے:

یہ بات ذہن نشین رہے کہ شریعت و طریقت میں راہ صفا پر استقامت پیروی مصطفےٰ ﷺ میں ہی ملتی ہے۔ اس لیے باری تعالیٰ نے فرمایا

مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ[21]

’’جس نے اس رسول کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اﷲ ہی اطاعت کی۔‘‘

اس لیے فرماتے ہیں کہ نجات کا طریق اور خلاصی کا راستہ اعتقادی اور عملی طور پر صاحبِ شریعت علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مکمل متابعت اور پیروی میں ہے۔[22]

اطاعتِ رسول ﷺکی عملی صورت صراطِ رسول ﷺ کو اختیار کرنا ہے۔ رسول اﷲ ﷺکا صراط، صراطِ طریقت کو بھی محیط ہے اور صراطِ شریعت کو بھی جامع ہے۔ صراطِ رسول ﷺکو پانا اتباع رسول ﷺکے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے قرآن حکیم میں حکم دیا:

وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ  ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ[23]

’’اور یہ کہ یہی شریعت میرا سیدھا راستہ ہے تو تم اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو۔‘‘

اب شریعت میں اتباع کا کیا درجہ اور مقام ہے۔ اسے واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں

’’آپ کی اتباع کا ایک ذرہ تمام دنیوی لذتوں اور اخروی نعمتوں سے بدرجہ بہتر ہے۔ ایمانی فضیلت اور شرف آپ کی روشن سنت کی متابعت کے ساتھ وابستہ ہے اور انسانی بزرگی و عظمت آپ کی شریعت کی بجاآوری کے ساتھ مربوط ہے۔ مثلاً دوپہر کا قیلولہ اگر متابعت سنتِ رسول ﷺ کی نیت کے ساتھ کیا جائے تو یہ کروڑ  راتوں کے ان نوافل کے ادا کرنے سے بہتر اور افضل ہے جو متابعت رسول ﷺ کی نیت کے بغیر ادا کیے جائیں۔[24]

ترویج شریعت خود تقاضہ شریعت ہے:

شریعت جب اپنے مامورات اور احکامات میں واضح اور مبین ہوجائے اور تاویلات و توجیہات سے گزر کر اپنے مطالب میں ایک حقیقت ثابتہ کی طرح ہوجائے تو پھر اس کی متابعت و مطابقت اور انسانی اعمال میں موافقت کے بعد اشاعت و ترویج کا تقاضہ کرتی ہے۔ اس ضمن میں شیخِ مجدد یوں فرماتے ہیں:

سب سے اعلیٰ نیکی یہ ہے کہ ترویج شریعت کی کوشش کی جائے۔ کسی شرعی حکم کو جاری کرنا خصوصاً ایسے وقت میں جب اسلامی شعائر مٹائے جارہے ہوں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں کروڑوں روپے خیرات کرنے سے بڑھ کر ہے کیونکہ مسائل شریعہ کو رواج دینا انبیاء علیھم السلام کی پیروی کرنا ہے اور وہ حضرات انبیاء علیھم السلام ہی ساری مخلوق سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ اعلیٰ نیکیوں کی توفیق انبیاء کرام علیھم السلام کو نصیب ہوتی تھی جبکہ دھن و دولت خرچ کرنے کی سعادت تو غیر انبیاء کو بھی میسر آتی تھی۔[25]

شریعت احور قیقت کا باہمی تعلق

اس تصور کو مزید واضح کرتے ہیں کہ طریقت اور حقیقت دونوں شریعت ہی کا جزو ہیں نہ کہ شریعت اور ہے اور طریقت اور ہے اور ان دونوں کو شریعت سے علیحدہ کرنا الحاد اور زندیقیت ہے۔[26]

اتباع رسول ﷺ پر مزید زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

سیر النفسی اور سیر آفاقی کا حصول سید الاولین والاخرین کی اتباع پر منحصر ہے۔ جب تک اپنے آپ کو شریعت میں گم نہیں کریں گے اور اوامر کو بجا لانے اور نواہی سے بچنے میں کامیاب نہ ہوں گے اس وقت تک اس دولت کا حصول ناممکن ہے اور شریعت کی اتباع کے بغیر احوال و مواجید کا پایا جانا فقط استدراج ہے۔‘‘[27]

تفسیر اور تاویل اور حضرت مجدد الف ثانی کی رائے:

حضرت مجدد الف ثانی نے تفسیر اور تاویل میں فرق روا رکھا ہے۔ آپ کے تصانیف کے ذریعے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ منقول روایات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ آیت کی تفسیر ہیں۔ اور ان کی صوفیانہ انداز میں توجیہہ و توضیح آیت کی تاویل ہے۔ اس کا ذکر یوں کرتے ہیں:

اور ہم نے جو کہا یہ آیت کریمہ کے تاویلی معانی ہیں۔ اس لیے کہا تفسیری معانی، نقل و سماع سے مشروط ہیں۔ اس لیے فرمایا:

من فسر القرآن براۂ فقد کفر[28]

’"جس نے قرآن کی تفسیر اپنی ذاتی رائے سے کی وہ کافر ٹھہرا۔‘‘ اور تم نے سنا ہوگا کہ تاویل میں صرف احتمال کافی ہے بشرطیکہ وہ کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو"۔

سورہ النور کی تفسیر کے باب میں کہتے ہیں:

 

ترویج شریعت امر وجوب ہے:

شریعت اسلامی کی ترویج کیونکر ضروری ہے۔ اس حقیقت کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ

’’آپ ﷺ کی شریعت منسوخ نہ ہوگی بلکہ قیامت تک باقی رہے گی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرما کر آپ کی شریعت پر عمل کریں گے اور آپ کے امتی ہوکر رہیں گے۔[29]

اس لیے یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ

الاسلام یعلوولایُعلیٰ [30]

’’اسلام اپنی فطرت میں غالب ہی آتا ہے مغلوب کبھی نہیں ہوتا۔‘‘

آپ نے اپنے ایک مکتوب میں بیان کیا

میں مشیخت کرنے نہیں آیا بلکہ میرے ذمہ ایک عظیم الشان کام ہے اور میری نظر میں وہ کام ہے شریعت و طریقت کی بہترین تشریح اور توضیح و تطبیق ہے۔

آپ وہ واحد مجدد ہیں جن کے مجدد ہونے پر پورا عالم اسلام متفق ہے۔ یہاں تک کہ شدید ترین مخالف بھی آپ کو مجدد ہی کہتا ہے۔[31]

شریعت اسلامی کے متفق علیہ ماخذ:

مخدوم زادگان خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم کے نام لکھتے ہیں۔ احکام شریعت کے اثبات میں اصل چیز کتاب و سنت ہے اور مجتہدین کا قیاس اور اجماعِ امت بھی احکام کا مثبت ہے۔ ان چاروں دلائل شرعیہ کے سوا کوئی دلیل بھی احکام شرعیہ کی مثبت نہیں ہوسکتی۔ الہام، حلت و حرمت کا مثبت نہیں اور اہلِ باطن کا کشف، فرض و سنت کا اثبات نہیں کرسکتا۔ ولایت خاصہ کے مالک اور عام مومنین، مجتہدین کی تقلید میں برابر ہیں اور کشف و الہام سے ان کو کوئی فضیلت نہیں مل سکتی اور وہ تقلید کی زنجیر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ذوالنورین مصری، بایزید بسطامی، جنید بغدادی اور شبلیؒ احکام اجتہادیہ میں مجتہدین کی تقلید کرنے میں زید، عمر، بکر اور خالد جو تمام مومنین ہیں، کے برابر ہیں۔[32])ایک اور مکتوب میں لکھتے ہیں کہ طریقت اور حقیقت جس کے ساتھ صوفیہ کرام ممتاز ہیں دونوں شریعت کی خادم ہیں ان دونوں سے شریعت کے تیسرے جزو یعنی اخلاص کی تکمیل ہوتی ہے۔

ترویج شریعت ایک مجددانہ منصب:

اس ضمن میں آپ فرماتے ہیں کہ اگر میں پیری، مریدی کروں تو دنیا میں کسی شیخ کو مرید نہ ملے۔ مگر میرے ذمے ایک دوسرا کام ہے اور وہ ہے شریعت کی ترویج اور ملت اسلامیہ کی تائید و تقویت۔[33]

ایک اور مکتوب میں فرماتے ہیں:

“’واضح رہے کہ اعلیٰ ترین نیکی یہ ہے کہ شریعت کی ترویج کے لیے سعی و کوشش کی جائے اور احکام شرع میں ایک حکم کو جاری و رائج کرنا اور زندہ کرنا۔ خصوصاً ایسے وقت میں کہ جب اسلامی شعائر مٹائے جارہے ہوں۔ تو ایسی صورت حال میں خدا تعالیٰ عزوجل کی راہ میں کروڑہا روپیہ خرچ کردینا بھی اس کے برابر نہیں ہوسکتا۔

حضرت مجدد نے خانِ خاناں کے نام ایک تفصیلی خط لکھا کہ اُمورِ شرعیہ میں پوری آسانی اور سہولت کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ مقیم و مسافر، مریض و تندرست اور مرد و زن دونوں کے دائرہ کار اور نفسیات کے مطابق تعلیمات دی گئی ہیں۔ اب اس اہتمام کے بعد بھی جو شخص عمل نہ کرے وہ حقیقتِ ایمان سے محروم ہے۔[34]

مزید برآں فرماتے ہیں جو شخص یہ چاہتا ہے کہ تمام احکام شریعہ کو عقلی پیمانے پر ناپے اور دلائل عقلیہ کے مطابق کردے وہ شانِ نبوت کا منکر ہے۔ اس کے ساتھ کلام کرنا کم عقلی اور بے وقوفی ہے۔[35]

شریعت کا جامع تصور:

شریعت اور طریقت کی حقیقت سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شریعت کے تین جزو ہیں۔ علم و عمل اور اخلاص۔ جب تک یہ تینوں جزو متحقق نہ ہوں شریعت متحقق نہیں ہوتی اور جب شریعت حاصل ہوگی تو گویا حق تعالیٰ کی رضامندی حاصل ہوگی۔ پس شریعت دنیا و آخرت کی تمام سعادتوں کی ضامن ہے۔ اور یوں کوئی ایسا مطلب باقی نہیں رہتا جس کو حاصل کرنے کے لیے شریعت کے سوا کسی اور چیز کی حاجت محسوس ہو۔

"طریقت اور حقیقت جن سے صوفیاء ممتاز ہیں تیسرے جزو یعنی اخلاص کے کامل کرنے میں شریعت کی خادم ہیں۔"[36]

شریعت کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"نجات کا طریق اور خلاصی کا راستہ، اعتقادی اور عملی طور پر صاحبِ شریعت علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کامل متابعت میں ہے۔"[37]

خلاصہ کلام

حضرت مجدد الف ثانی نے اپنی شرعی توجیہات اور تاویلات کے تناظر میں شریعت اسلامی کے معطل احکام کا دوبارہ اجراء و نفاذ کرایا۔ شرعی اصطلاحات کے غلط استعمال کا سدِباب کیا۔ شریعت کے ممنوعات کو شاہی فرمان حلت کے مقابل، اصل حالت حرمت میں بحال کرایا۔ سجدہ تعظیمی کا خاتمہ کرایا۔ گائے کے ذبح کرنے پر شاہی پابندی کو اٹھوایا۔ خلاف شریعت رسومات کا انسداد کرایا۔ شریعت سے متصادم قوانین کو منسوخ کرایا۔ مساجد کو آباد کرایا، شراب نوشی اور شراب کی خرید و فروخت کو ممنوع ٹھہرایا۔ دین الٰہی اور دین اکبری کے فتنے کو اپنی حکمت و فراست کے ذریعے بے نام و نشان کیا اور رفتہ رفتہ عملی سطح پر اسے غیر موثر کیا۔ اکبر کی تمام تر شرعی تحریفات اور غیر شرعی استعمالات کا قلع قمع کیا۔ ہوائے نفس اور منصب شاہی کے نشے میں شریعت کے جملہ احکامات میں کی گئی تمام قطع و برید کو آہستہ آہستہ اور رفتہ رفتہ بھرپور حکمت و دانش کے ساتھ ختم کرکے دم لیا۔

مجدد الف ثانی کا اسلام کے حوالے سے یہ وہ عظیم تجدیدی اور احیائی کارنامہ ہے جس کا معترف برصغیر پاک و ہند کا ہر صاحبِ علم ہے اور ہر کلمہ گو مسلمان آپ کی ان بے مثل خدمات کی بناء پر آپ کا احسان مند ہے۔ آج ہم توحیدی فضاؤں میں سانس آپ کی تجدیدی کاوشوں کی بناء پر لے رہے ہیں۔ آج ہم رسول اﷲ ﷺ کی محبت و اتباع میں آپ کی مساعئ جمیلہ کی وجہ سے قائم و دائم ہیں۔ آج ہمارے وجودوں میں ایمان کی بہاریں آپ کی مجددانہ کاوشوں کی بناء پر ہیں۔ بلاشبہ آپ اس سرزمین پاک و ہند میں ملت کا سرمایہ ہیں اور ملت کے نگہبان ہیں۔ جس کا اظہار اقبال نے یوں کیا:

وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں اﷲ نے بروقت کیا جس کو خبردار

بلاشبہ وہ سرمایہ ملت ہے وہ نگہبان ملت ہے وہی مجدد عصر ہے اور وہی مجدد الف ثانی ہے۔[38]

حوالہ جات

1۔المنجد مادہ شرع لوئیس معلوف، تہران، ص۳۸۲

2۔الجاثیہ ۴۵: ۱۸ 

3۔الشوری،۴۲: ۱۳

4۔ القاموس المحیط مادہ شرع

5۔راغب اصفہانی، المفردات مادہ شرع

6۔المنجد مادہ شرع لوئیس معلوف، تہران، ص۳۸۲  

7۔المائدہ، ۵: ۴۸    

8۔بالِ جبرئیل، نظم پنجاب کے پیرزادوں سے، کلیاتِ اقبال، اقبال اکیڈمی، ص۴۸۸  

9۔   الف ثانی ،    شیخ احمد سرہندی ،مجدد ،مکتوباتِ امام ربانی، لاہور : ادارہ اسلامیات ۴۷/۱

10۔ایضاً، ج۳، مکتوب ۱۷   

11۔ایضاً، ج۱، مکتوب ۲۲۸ 

12۔ ایضاً

13۔ نقشبندی، صوفی غلام سرور ، ارمغان امام ربانی ،لاہور: امام ربانی پبلیکیشنز، لاہور، ص۵۵

14۔ایضاً، ص۱۳۴

15۔ الجاثیہ ۴۵: ۱۸

16۔الشوریٰ،۴۲:  ۱۳

17۔ارمغان امام ربانی، ، لاہور : امام ربانی، پبلیکیشنز ، ص۱۳۵

18۔مکتوبات امام ربانی لاہور :، ادارہ اسلامیات، ، ج۱، مکتوب ۲۴۵

19۔ایضاً، ج۲، مکتوب ۹۴ 

20۔النساء ۴: ۸۰ 

21۔مکتوبات امام ربانی، ، لاہور :ادارہ اسلامیات ، ج۲، مکتوب ۷۰

22۔الانعام ، ۶: ۱۵۳

23۔مکتوبات امام ربانی، ادارہ اسلامیات، لاہور، ج۲، مکتوب ۱۱۴

24۔ایضاً، ج۱، مکتوب ۴۸

25۔ایضاً، مکتوب ۴۲ 

26۔ایضاً، بنام سید محمود

27۔ایضاً، مکتوب۲۳۴

28۔ایضاً، مکتوب۲۳۵     

29۔ارمغان امام ربانی،   لاہور :امام ربانی، پبلیکیشنز، ، ص۱۶۹

30۔مکتوب امام ربانی، ج۱، مکتوب۶۷

31۔ارمغان امام ربانی، ص۲۰۸

32۔مکتوب امام ربانی، ج۱، مکتوب۴۳

33۔ایضاً، ج۲، مکتوب۵۵

34۔ایضاً، ج۱، مکتوب ۶۵ 

35۔ایضاً، مکتوب۱۹۱

36۔ایضاً، مکتوب ۱۱۴ 

37۔ایضاً، مکتوب ۳۶  

38۔ایضاً، ج۳، مکتوب ۴۱

39۔ ایضاً، ج۳، مکتوب ۴۱

40۔ علامہ اقبال،بالِ جبریل، نظم پنجاب کے پیرزادوں سے، کلیاتِ اقبال، اقبال اکیڈمی، ص۴۸۸

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...