Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 1 of Al-ʿILM

عصری کاروباری اخلاقیات کی تطہیر |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060040263_960

Pages

116-128

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/19/16

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/19

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

دین کی دعوت دراصل معاد کی دعوت ہے ۔انبیائے کرام علیھم السلام کی دعوت کا اصل منشا انسان کی اُخروی زندگی کی کامیابی ہے چونکہ آخرت کی طرف جانے والا راستہ مادی دنیا سے گزرکر جاتا ہے اور منزل کی طرف جانے والےراستےکو نظر انداز کرکےمحض منزل کی دعوت دینا خلافِ حکمت تھا۔ اسی لیےدین نےدیگرشعبہ جات کے ساتھ ساتھ دنیائے مادیات کی اشد ضرورت یعنی کاروبار کے بارے میں بھی اصولی اوراخلاقی ہدایات دیں۔

 

اسلامی تعلیمات کا نقطہ آغاز ذہن سازی کےلیےقانون یعنی تعلیماتِ حلال و حرام اور اختتام،منفی رجحانات کی بیخ کنی کرتے ہوۓعمدہ سیرت و اخلاق کی تعمیر ہےجس سے دائمی کامیابی ممکن ہوسکے۔یہی رنگ کاروبار سے متعلق تعلیمات سے جھلکتا ہے ۔دنیا کے جدید گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کر لینے وجہ سےہمیں اپنے کاروباری ماحول پراخلاق کو نظرانداز کرنے والے مادہ پرست فلسفہءمعاشیات کے اثرات گہرے ہوتے نظر آتے ہیں ۔

 

اسلام میں کاروبارومعاش کی اہمیت

اسلام میں زندگی کا مقصود بندگی ہے۔ کاروبار انسان کی مادی زندگی کی مجبوری ہے ۔اس کائنات میں آنے کے بعد انسان کی زندگی کی بقا کے لیے کاروبار و معاش امرِ لازم ہیں ۔اس کے لیےرب تعالیٰ نےباقاعدہ ہدایات دی ہیں ۔ایسے افراد کو قابلِ تحسین سمجھا جن کو کاروبار اپنے مقصدِ اصلی سے غافل نہیں کرتا۔

 

رجال لا تلھیھم بیع ولا تجارۃ عن ذکر اللہ [1]

 

یعنی :اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نا کسی طرح

 

خدا کا نام آتا رہےخواہ وہ معاشرتی معاملات میں مصروف ہویا معیشت کے میدان میں مصروفِ عمل ہو۔یہی چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔[2] اسی لیےحکم دیا گیا :

 

اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وزرواالبیع۔۔۔واذا قضیت الصلوۃ فانتشروافی الارض وابتغوا من فضل اللہ[3]

 

رسول اللہ ﷺ خود تجارت کرتے رہےنیز آپﷺفرمایا:علیکم بالتجارہ،فان فیھا تسعۃ اعشار الرزق[4]

 

معاشی معاملات کی اہمیت کے باعث فقہاءِ کرام نے حفظِ مال کو مقاصدو مصالح شریعت میں شامل سمجھا ہے۔ مقاصدِ شریعت کی سب سے پہلی بحث امام شاطبی ؒکے ہاں ملتی ہے۔امام غزالیؒ لکھتے ہیں: مقاصدِ شریعت سے ہماری مراد ،مقصودِشریعت کی محافظت ہے[5]۔اسی مال کی محافظت کا ایک عمدہ طریقہ سرمایہ کاری ہے تاکہ مال ختم نہ ہو جائے اور انفاق،صدقات و زکٰوۃ جیسے احکام پر عمل درآمد ہوسکے۔

 

اسلامی فلسفہ اخلاق –معیشت سے لے کر سیاست ،عبادت،معاشرت اور حقوق العباد تک پھیلا ہوا ہے۔انسانی زندگی کی ہمہ پہلو اور ہم آہنگ نشوونما ہی اسلامی اصول ہے ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عبادات اور حقوق العباد میں تو اخلاق و احسان کا رنگ نظر آئے مگر سیاست اور معیشت جیسی اجتماعی سرگرمیاں اخلاق سے عاری اور خالی ہوں۔اسلامی اخلاقیات کے متعین مصادر قرآن سنت ہیں جن کے مطابق رسولِ اکرمﷺ کی بعثت کا مقصد ہی تزکیہ اور تکمیلِ اخلاق ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

ہوالذی بعث فی الامیین رسولامنھم یتلوا علیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتٰب والحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلٰلٍ مبین[6]

 

ارشادِ نبویﷺ ہے: انما بعثت ُ لاُتمم حسن الاخلاق[7]

 

بقول حکیم محمد سعید:کوئی قوم اور کوئی جماعت ترقی کرنا تو بڑی بات ہے اپنے وجود کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتے اگر وہ اخلاق کے کم از کم معیار کو ملحوظ نہ رکھیں۔ افراد کے مجموعے کو قومی شخصیت بخشنے والی طاقت اور جوڑنے والی قوت اخلاق کی ہی ہے۔اخلاقی اقدار کے پاس و لحاظ کے بغیر افراد کے مجموعے کو بھیڑ تو کہا جاسکتا ہے قوم یا ملت نہیں کہا جاسکتا۔تاریخ کا مطالعہ ہمیں ہی بتاتا ہے کہ جو قومیں اپنے اخلاق کو معیار سے گرا لیتی ہیں ا ور اپنے افکار و اعمال میں اخلاقی قدروں کو ملحوظ نہیں رکھتیں ان کو تاریخ کا متلاطم سمندر ہچکولے دیتا ہے اور اگر وہ پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتیں تو بالآخر مذلت کے بحرِ عمیق میں تہہ نشین ہو جاتی ہیں۔[8]

 

اسلامی معاشیات میں اخلاق کے دو پہلو ہیں ایک حلال وحرام یعنی قانونی پہلو اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرا رُخ احسان اور اخلاقیات کا ہے۔ان دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ بعض اوقات محض قانون کی پاسداری،زندگی میں وہ حسن و لطافت نہیں لا پاتی جو اکثرضروری ہوتی ہے اس لیے اسلام احسان کے پہلو کو متعارف کراتا ہے۔اگر کتبِ حدیث میں ابواب البیوع کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ممنوعہ بیوع کی اقسام جو اندازاً باون ہیں ان میں تین پہلو سامنے رکھے گئے ہیں غرر،سوداور قمار ۔قمار اورسودکی ممانعت اگرچہ قانونی ہے لیکن ان کی حکمتیں سب اخلاقی ہیں۔ بس ایک غرر کی بیوع ہی آج کے تصور کے مطابق قانونی دھوکہ دہی میں آتی ہیں ۔اس اخلاقی پہلو کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے عبادات میں بھی اس طرف توجہ مبذول کرائی۔اس مقالہ میں کاروبارکےقانونی پہلو سے زیادہ احسان کا اخلاقی پہلو زیرِمطالعہ رکھا گیا ۔

 

عصری کاروباری صورتِ حال اسلامی فلسفہءاخلاق کے تناظر میں:

عصری کاروبار ی اخلاق کو اسلامی اصولوں کے مطابق منظم کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اگرچہ حلال و حرام کا تعلق مسلمان دنیوی و اخروی فلاح سے ہےلیکن اکثر اوقات محض قانون اورحلال و حرام سے پسے ہوئے طبقات کا دفاع اور مدد ممکن نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ اسلام معیشت کے اخلاقی پہلو کو بھی ضروری سمجھتا ہے۔ ایثار،ہمدردی،اخوت،تعاون اورخیر خواہی جیسے اوصاف کو اہم قرار دیتا ہے۔اگر اخلاق کا پہلو فراموش کر دیا جائے تو

 

انسان خود غرضی،مادہ پرستی،نفع اندوزی میں آگے بڑھتا ہوا آخر کار حلال و حرام کی قانونی حدود عبور کرنے کی نامبارک

 

سعی میں دنیا آخرت سب برباد کر ڈالے گا۔

 

عصری معاشیات کا ایک اہم رجحان یہ ہے کہ انسانوں کی ہر خواہش کو جائز مان کراس کی تکمیل کی کوشش کی جائے ۔اس کا گہرا اثر ہماری کاروباری زندگی پر پڑتا ہے۔ جب معاشی میدان سے دین اور اخلاق کو دیس نکالا مل چکا ہو تو پھر کسی خواہش کو جائز اور ناجائز ماننا ناممکن ہو جاتاہے۔ ہر خواہش کا پورا ہونا ممکن نہیں کہ انسانی خواہشات لامحدود اور ان کو پورا کرنے کے ذرائع محدود ہیں۔انسانی خواہشات اکثر اپنے حق سے زائد کا مطالبہ کرتی ہیں،دوسروں کی خواہشات پر دست اندازی کرتی ہیں۔اگر وہ زیادہ خودسر ہوجائیں تو دوسروں کو فنا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی اور اس پر انسانی تاریخ گواہ ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ خواہشات میں جب خود کو منظم کرنے کا ازخود سلسلہ بھی نہیں پایا جاتاتو ان کی باہمی نزاع کا فیصلہ کون کرے گا؟ یہ فیصلہ اس قانون و حکومت کے سپرد نہیں کیا جاسکتا ۔انسانی تاریخ بتاتی ہے ہٹلر ہو یا میسولینی ،چنگیز و ہلاکوہوں ، عصرِ حاضرمیں شام کے ڈکٹیٹر حافظ الاسد کو دیکھیں یابش ،ٹرمپ اور مودی وغیرہ جومحض اپنی تمناؤں کی تکمیل میں حکومت اور طاقت کی اوٹ میں ہر جائز وناجائز کے مرتکب ہوتے رہے۔ انسان طاقت کے استعمال میں بڑا کمزور ہے چنانچہ جائز وناجائز اور نزاعی حدودکاتعین کرنے میں بعض اوقات قانون کافی نہیں ہوتا۔یہاں دین اور اخلاق کی اشد ضرورت کی پڑتی ہے۔ اخلاق کو زندگی کے کسی میدان سے نکالا نہیں جا سکتا ۔ عصری کاروباری صورتحال کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ایک طرف تو جدید نظام ِمعیشت کے رجحانات ،گلوبلائزیشن کی وجہ سے ہم پر گہرے طور اثر انداز ہو رہے ہیں اور دوسری طرف ہماری دینی و اخلاقی تعلیمات ہیں جن کے درمیان بعد المشرقین فرق ہے۔اسی وجہ سے صورتحال روکے ہے مجھے ایمان تو کھینچے ہے کفر جیسی ہو رہی ہے۔لوگوں خود اپنے تضادات سمجھ نہیں آرہے۔اخلاق تو درکنار قوانین ِ اسلام کے برخلاف مثلاً سود،ملاوٹ،اسلامی ملک میں شراب کی خرید و فروخت[9]،جوا،قمار اور غرر کی کئی صورتیں ہمارے ہاں سکہ رائج الوقت ہیں۔جہاں قانونی معاملات ہی مکمل دینِ اسلام کے تابع نہ ہوں ،وہاں اخلاقی صورتِ حال کی ناگفتنی کا اندازہ بڑی آ سانی سے کیا جا سکتا ہے۔

 

جہاں تک اس موقف کہ کاروبار میں اخلاق کا کوئی دخل نہیں، کا تعلق ہے تو اس کی ڈانڈے اہلِ مغرب کی اخلاق باختگی Atheism اور لا دینی Secularismسے ملتے ہیں۔اخلاق کے بارے میں کارل مارکس کے موقف کو دیکھا جائے تو وہ افادی ہے۔اس کے نزدیک اخلاق کادارومدار عام انسانوں کی بھلائی نہیں غالب طبقوں کی بہبود پر ہے ۔ہر زمانہ میں وہی اخلاقی قدریں رائج ہوتی ہیں جن سے مروجہ معاشی نظام کی حمایت ہوتی ہےاخلاق کے متعلق کارل مارکس کا یہ نظریہ ہے : کسی دور میں معاشی پیدائش کاجو نظام رائج ہوتا ہےاسی کے مطابق اور اسی سے ہم آہنگ بعض اخلاقی قدریں پرورش پاتی ہیں۔ہر عمل کو اسی نسبت سے اچھا یابراقرار دیاجاتاہےجس نسبت سے وہ مروجہ معاشی نظام کے مطابق پیدائش ِدولت میں بھی تبدیلی ہونی چاہیےاور یہ کہ کسی معاشرہ میں جس اخلاقی معیار کو عمومیت حاصل ہوتی

 

ہے وہ وہی ہوتا ہے جو رائج الوقت معاشی نظام کے مطالبات کو بہتر طور پر پورا کرتا ہے۔[10]

 

عصری کاروبارکا سب سے گھناؤنا پہلواخلاقِ حسنہ سے محرومی اور افادیت Utilityکا مغربی تصورہے۔اہلِ مغرب کے ہاں افادیت کا تصور صرف ہی ہے کہہ اقدار اور اخلاق کا کوئی دائمی نظام نہیں۔افادیت دراصل انفرادی اور اجتماعی مفاد پرستی ہے کہ ہر وہ مادی چیز اوراخلاقی قدر جو عامۃ الناس کا ہاں قبولیتِ عامہ کے درجے میں ہو اس کو اختیار کرلیا جائے۔ڈاکٹر محمود غازی کہتے ہیں کہ اسلامی شریعت اس تصور کو قبول نہیں کرتی کہ معاشی انسان سے مراد وہ زندہ وجود ہے جس کی زندگی کا مقصدِ وجود صرف یہ ہو کہ وہ مادی زندگی کا بہتر سے بہتر ہدف اور اعلیٰ سے اعلیٰ سطح حاصل کرے ، ا ور حصولِ مال ،حصولِ زر اور حصولِ مادیات کے علاوہ اس کا کوئی محرک نہ ہو۔[11]

 

آج کاروباری اخلاقیات کے عدم کی وجہ سےفلسفہ مادیت و افادیت کے زیرِ اثرانسانیت افلاس و غربت اور استحصال کے چنگل میں پھنسی بلک رہی ہےحالاں کہ قرآنِ مجید کے مطابق کاروبارمیں اخلاق کاعدم ، معاشی و مالی فساد فی الارض کی ہے۔یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی وجہ سےقوموں پر عذاب آتے رہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ولا تبخسواالمکیال و المیزان انی اراکم بخیر و انی اخاف علیکم عذاب یوم محیط۔ ویقوم اوفوا المکیال والمیزان بالقسط ولا تبخسواالناس اشیاءھم ولا تعثوافی الارض مفسدین۔[12]

 

یہ ایسا سنگین معاملہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے ناپ تول کرنے والوں کو فرمایا:

 

انکم قد ولیتم امرین ھلکت فیھما الامم السابقۃ قبلکم[13]

 

تمھیں ایسے دو کاموں کی نگرانی سونپی گئی ہے جن میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے کئی قومیں ہلاک ہوئیں وہ کام ہیں ناپ اور تول آپﷺنےوزن کرنے والے سے فرمایا:زن و ارجح یعنی تول اوراحسان کا معاملہ کرتے ہوئےجھکتا ہوا تول[14]

 

دین اور دنیامیں دوئی کا جدیدتصور کاروبار کو اخلاقیات سے بےگانہ بنادیتا ہےجس میں انسان محض آلہ پیداوارہے۔ تمام معاشی سرگرمیوں کا مقصدmaterial productivityہے۔ حالاں کہ اخلاقی محرکات کا تذکرہ کسی دور میں اہلِ مغرب کے ہاں بھی موجود تھا۔آج دنیا نے مذہب اور معاشیات کا دائرہ الگ کر دیا ہےاور مسلمان علماء معاشیات کے احکام کو مذہبی تصورات سے وابستہ کرتے ہیں ،معاشیات کے مسائل کو مذہبی تصورات کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بہت سے مغربی اور جدید ذہن کے مشرقی فضلاء اس پر معترض ہوتے ہیں ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشیات کے مباحث میں مذہب کو داخل کرنے کی روایت خود مغرب میں بھی موجود رہی ہے اور مغربی معیشت کے ماہرین اس روایت سے ناواقف نہیں۔آدم سمتھ جو کلاسیکی اسکول کابانی مانا جاتا ہے وہ اخلاقی محرکات کا ذکر صراحت کے ساتھ کرتا ہے۔اس کے یہاں مذہب اور معاشیات میں ربط کے تصورات موجود ہیں۔[15]

 

بہرحال نو کلاسیکی مفکرین نے مذہب واخلاق کو معاشی سرگرمی سے بالکل نکال دیا۔ انسان کومحض کماؤجانور بنا دیا جس کی پیدائش سوائے مادی احتیاج کی تکمیل کےکوئی اعلیٰ اور ارفع مقصد نہیں ۔ڈاکٹر محمود غازی لکھتے ہیں : مغربی سرمایہ داری میں اول تو اخلاقی اقدار سرے سے ہی غیر متعلق سمجھے جاتے ہیں۔لیکن اگر کہیں اخلاقی اقدار اور اصولوں کا تذکرہ ملتا ہے تو صرف اس حد تک جس میں وہ نفع میں ممدومعاون اور مادیات کے حصول میں کارآمد معلوم ہوں۔سچ بولنا اس لیے اچھا ہے کہ سچ بولنے سے خریدار کااعتماد قائم ہوجاتا ہےدیانت داری بہترین پالیسی ہے ۔یعنی دیانت داری فی نفسہ بطور ایک اخلاقی قدر کے کوئی اچھی چیز نہیں ہے،نہ فی نفسہ دیانت داری مطلوب ہے،بلکہ بطور پالیسی کے اختیار کی جائے تو بہت اچھی چیز ہے۔[16]

 

عصری سرمایہ دارانہ معیشت میں خالص مقابلے Competition کی معیشت ہے۔مقابلہ بازی کوئی غیر قانونی امر نہیں۔لیکن عصرِ حاضر میں یہ مقابلہ بازی ،بداخلاقی کی انتہائی گھناؤنی شکل اختیار کر چکی ہے۔مد مقابل کو پچھاڑنے کے لیے تمام منفی ہتھکنڈے کھلے عام اختیار کیے جاتے ہیں ۔ دوسرے کی کاروباری شہرت کو بےجا نقصان پہنچانا،منفی اشتہار بازی اور دوسری کمپنیوں کے خلاف سرمایہ کاری،لوگوں میں مقبول ترین نیشنل ہیروز کو اپنی مصنوعات کی ترویج کےلیے استعمال کرنا،کاروباری رازوں کی چوری،دوسری کمپنیوں کے ماہرین کو زیادہ مراعات کا لالچ دے کراپنے ہاں خدمات کی فراہمی کےلیے مجبور کردینا وغیرہ ۔اس کے علاوہ اور بیسیوں ایسے کاروباری ہتھکنڈے ہیں جنھیں اپنے کاروباری حریفوں کو چت کرنے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے ۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام غیر اخلاقی اقدامات بظاہر قانون کی حدود میں رہتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔دینِ اسلام ایسی تمام غیر اخلاقی سرگرمیوں کی مذمت کرتا ہے جن سے دوسروں کے مفادات کو زک پہنچے ۔

 

فرمانِ نبویﷺ ہے: ملعون من ضار مومنا او مکر بہ [17]مزید فرمایا:من ضار ضار اللہ بہ ومن شاق شاق اللہ بہ[18]

 

عصری تجارت میں اشیا کی فروخت کاری کےلیے اشتہار کو ایک کاروباری ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے بغیر اشیائے صرف کا ،کارخانوں سے نکل کر گھروں تک پہنچنا ناممکن سمجھا جاتا ہے۔آج کل اس اشتہاربازی نے باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کرلیا ہےاسے باقاعدہ علوم وفنون کی طرح اداروں میں پڑھایاجارہا ہے۔طلبہ کی بڑی تعداد اشتہاربازی سیکھنے کی طرف متوجہ اس لیے ہوتی ہے کہ اس میں آمدن کے مواقع کافی زیادہ ہیں تاہم اس آمدن کا کثیر حصہ لاگت ِ اشیاءمیں اضافہ ہی کی صورت میں پیدا ہو تا ہے۔ اس میں سرمایہ دار اور خاص طور پر بڑے کاروباری حضرات کاتو فائدہ ہے لیکن صارف کا سراسرخسارہ ہے۔لوگ نت نئے ماڈلز اور آئیٹمز دیکھ کر اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانے پے مجبور ہوجاتے ہیں۔ان کے نزدیک بہتر سے بہترین اورجدید ترین مصنوعات تک رسائی کی ذہنیت پیدا ہوتی ہےاوراس سے اصل مقصدِ حیات سے غفلت کے جذبات ابھرتے ہیں۔سید مودودی لکھتے ہیں :وافر سرمایہ کے بل پر ایک چیز از قسم سامانِ تعیش تیارکی جائےاور پھر اشتہار سے ترغیب دلائی جائے اور مفت بانٹ بانٹ کر طرح طرح کی سخن سازیاں کرکے زبردستی اس کی مانگ پیدا کی جائے اور اسے ان غریب اور متوسط الحال لوگوں کی ضروریات زندگی میں خواہ مخواہ ٹھونس دیا جائے جو بیچارے اپنے فرائضِ حیات بھی پوری طرح بجالانے کے قابل نہیں ۔[19]

 

اس اشتہار بازی میں اور بھی کئی چیزیں صریحًا اسلامی تعلیمات سےمتصادم ہیں ۔ایک طرف تو اشیا کواس طرح دلکش ودلفریب انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ صارفین اضاعۃ المال کی طرف راغب ہوجائیں اور ان کے دل اعتدال سے ہٹ کر خواہشات کی آماج گاہ بن جائیں۔ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مطابق : مغرب کی پوری معیشت دن رات اسی بات کے لیے کوشاں رہتی ہے کہ انسانوں کے دل و دماغ کو نت نئی مادی اور شہوانی خواہشات کی آماج گاہ بنا یاجائے۔ان کی کمپنیاں، ان کی تجارتیں،ان کے بنک،ان کے تجارتی دفاتر،ان کے اشتہارات غرض ہر چیز کا ہدف یہ ہے کہ عام انسانوں کے لیے نئی نئی ضروریات تراشیں پھر ان لوگوں کو ان ضروریات کی تکمیل پر آمادہ کریں۔[20]

 

اس کے علاوہ یہ کہ ان تمام تشہیری اخراجات کو صارفین کے حصہ میں ڈ الاجاتا ہے جس سے اشیاء کی لاگت میں کئی گنااضافہ ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بیع تلقی الجنب اوربیع الحاضر للباد سےاستحصالی صورتیں ہونےاور اخراجات میں غیر ضروری اضافے کی وجہ سے بھی منع فرمایا[21]

 

ڈاکٹر سعدیہ گلزار لکھتی ہیں:اشتہار بازی میں بے حیائی،رقص،موسیقی،اخلاق سے گری فلموں،محزبِ اخلاق

 

مطبوعات اورمہنگی تصاویر کو ذریعہ بنایا جاتا ہے۔مضرِ صحت اشیا کی تشہیر کی جاتی ہےمثلاً سگریٹ وغیرہ۔نت نئے فیشنوں کے اشتہار دے کر فیشن پرستی کو رواج دیا جارہا ہے۔اخلاق سے گرے اشتہارات نشر کیے جاتے ہیں۔[22]

 

ڈاکٹر نور محمد غفاری لکھتے ہیں کہ اشتہارات کے ذریعے انسانوں کو تعیشات کا دلدادہ بنایا جارہا ہے اور ہمیں تو فکر اس امتِ مسلمہ کی ہےجس کا مزاج ہی مجاہدانہ ہے مگر آج وہ اس قدر تکلفات اور تعیشات کی دلدادہ بن گئی ہے کہ اس کی تمام سخت کوشی اور سخت جانی کی صفات محو ہورہی ہیں جن پر اس کے جہادِزندگانی کی بنیاد روزِ اول ہی سے رکھی گئی تھی ۔آج امت کا وہ حصہ جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے وہ سرمایہ دار صنعتی ممالک کے پیدا کردہ سامانِ تعیشات کاسب سے بڑاخریدار بن چکا ہے اس عیش کوشی اور آرام پسندی کے مہلک نتائج کیا ہیں؟ اس کا جواب بیت المقدس،جولان کی پہاڑیوں اور غزہ کے شہر سے پوچھ لیں۔[23]

 

عصر حاضر کی ایک بڑی تجارتی بد اخلاقی جبراً قیمتوں پر کنٹرول کرنا ہے۔اسلام تجارت میں قیمتوں کے منصفانہ ہونے کاداعی ہے۔لیکن طلب و رسد کے لیے حکومتی کنٹرول کی بجائے تمام استحصالی حربوں کا خاتمہ کرتے ہوئےکھلی منڈی میں باافراط لانے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔جب اشیا بازار میں قدرتی طریقے سے آئیں تو پھر ان کی طلب بھی قدرتی طریقہ پر ہوتی رہے تو قیمتیں اپنی مناسب سطح پر رہیں گی ۔قیمتوں پرسخت حکومتی کنٹرول بھی شرعاً درست نہیں البتہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصنوعی قلت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے۔احتکار اور اجارہ داری کے تمام حیلے بزور ختم کرے۔قیمتوں پر جبری کنٹرول میں پیدوار کنندہ کا نقصان و استحصال، مارکیٹوں سے اشیا کا غائب ہوجانااور چور بازاری جیسی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں ٭ اسی لیےرسول اکرم ﷺ نے لوگوں کے اصرار کے باوجود قیمتیں مقرر کرنے سے انکار کیا تھا ایک دفعہ فرمایا:میں تو بس اللہ سے دعا کر سکتا ہوں ایک بار کہا:اللہ تعالیٰ ہی بھاؤ چڑھانے اور گرانے والے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ میرے ذمہ کسی پر ظلم نہ ہو۔[24]

 

ڈاکٹر نور محمد غفاری لکھتے ہیں کہ موجودہ حکومتوں نے قیمتوں پر کنٹرول کی صورت میں تجار اور صارفین دونوں کے معاشی استحصال کا ہتھیار اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے جسے وہ جب چاہیں بےرحمانہ چلائیں اور غریب عوام بےچارے کچھ بولنے کی سکت نہیں رکھتےحکومت کے اس ہتھیار کی کئی صورتیں ہوتی ہیں مثلاًدرآمدی ٹیکسوں کا بوجھ بڑھادیا جاتا ہے،دوکان داروں پر روز افرزوں سیلز ٹیکس لگاکر اس خنجر کی دھار کو تیز کردیاجاتا ہے۔[25]

 

عصری تجارت میں انفرادی اور گروہی مفاد پرستی،تکثیر ،مادی تلذذاوراجارہ داری و تسلط hegemonyبہت عام سی بات ہےاور اسلام اخوت ،احسان اور احساسِ جوابدہی کی اقدار کو راسخ دیکھنا چاہتا ہےجبکہ سرمایہ دارانہ معیشت میں مادی نفع محرکِ اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام نفع سے منع نہیں کرتا بلکہ زیادہ سے زیادہ نفع اندوزی کی مذمت کرتا ہے۔اس سے صارفین کے مفادات پر زک پڑتی ہے۔ان میں اکثریت کم تر وسائل رکھنے والے ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کرپاتے۔اسلام ذاتی مفاد،استحصالی و مادہ پرستانہ رویوں اورہوس مال وزر سے منع کرتا ہے ۔ مادیت زدہ سوچ والے افراداخلاقی صفات سے عاری اور عیش وتنعم کے عادی ہوتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے نمائندےحضرت معاذ بن جبل کو یمن بھیجتے وقت یہ وصیت کی:یا معاذ ایاکم والتنعم فان عباد اللہ لیسوا با لمتنعمین[26]

 

مزید فرمایا: کلوا واشربوا والبسوا تصدقوا،فی غیر اسراف ولا مخیلۃ [27]

 

اسلام نے اخلاقی صفات کو ابھارا ہے جس میں خدمتِ خلق کو سرِ فہرست رکھا گیا: الساعی علی الارملۃ وا لمسکین کالمجاہد فی سبیل اللہ[28]

 

خلاصہ و نتائج:

عصری کاروباری اخلاق ، ہوسِ مال وجاہ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔انسان فطرتاً مال ودولت کی محبت اور جذبہ تملیک پر تفاخر محسوس کرتا ہے ایک بچہ کے اولین جذبات کا مشاہدہ کیا جائے تو تحفظ طلبی کے ساتھ جذبہ تملیک سرفہرست ملے گا اسلام اسی فطری جذبے کو درست سمت فراہم کرتا ہے۔ارشاد ہوا:الذی یوتی مالہ یتزکی۔وما لاحدٍ الا البتغاءِ وجہ ربہ الاعلیٰ۔ ولسوف یرضیٰ[29]

 

اسلام اس جذبہ کو اخلاقی جذبات کے ساتھ کنٹرول کرناضروری سمجھا گیا تاکہ انسان مادیت کی اس انتہا پر نا چلاجائے جسے الھکم التکاثر [30]کہا گیا ہے۔ عصری تجارتی ماحول میں تکثیر کے لیے ہر ناجائز و جائز روا رکھاجاتا ہے۔جہاں دیانت داری اور کفالتِ عامہ جیسی سرگرمیاں بھی اپنی تشہیر اور کاروباری ساکھ کےلیے استعمال ہوتی ہیں۔محض رمضان المبارک میں زکوٰۃ کے مستحقین ،متاثرینِ سیلاب و زلزلہ کے ساتھ تصویری تشہیرہو یا کسی طرح کی کوئی فلاحی و رفاہی سرگرمی ہمارے کاروباری حلقوں کی ذہنیت کی قلعی کھول دیتی ہے۔ اس کے برعکس اخلاقِ حسنہ کاروباری دنیا کو احسان، اخوت ، دنیوی زندگی کی ناپائیداری کا تصوراور احساسِ جواب دہی کی معنویت عطا کرتا ہے۔

 

اسی لیےمسلمانوں کے باہم خیر خواہی والے تعلق کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

المسلم اخواالمسلم،لا یظلمہ ولا یسلمہ،ومن کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ [31]

 

اسلامی تجارتی اخلاقیات کے نفاذ کامجوزہ لائحہ عمل : Suggestions

کاروبار میں اخلاقِ حسنہ کی تنفیذ کےلیے اسلامی تعلیمات نہایت واضح ہیں ۔اگر ان پر غور کیا جائے تو سہ پہلوی لائحہ عمل سامنے آ تا ہےجو قانون سازی کی شکل میں حکومتی ذمہ داری مفاسدِ تجارت کی ترہیب سے کاروباری حلقوںکی تربیت اورعامۃالناس کی آگاہی پرمشتمل ہونا چاہیے۔اس ضمن میں ممکنہ تجاویز درجِ ذیل ہیں:

 

٭سب سے پہلے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی مملکت میں لوگوں کو اسلام کے مطابق گزارنے کے مواقع فراہم کرے۔ قومی خزانے کو امانت سمجھے سرکاری اخراجات میں کفایت شعاری اختیار کرے۔اپنے بجٹ خسارے آجرین اورصارفین کی جیبوں سے ناپورے کرے۔

 

٭عصرِ حاضر میں ناجائز تجاویزات کی زدمیں آنےوالے بازاروں اوردوکانوں کو گرا کر لوگوں کو کاروبار سے محروم کیا جارہا ہے۔حکومت کو قانوناً اس کا حق حاصل ہے۔ یہ کاروباری صورتحال کو تباہ کردینے کے علاوہ اسکی زد بہرحال اخلاقیات پر بھی پڑے گی۔ اس معاملے پر اخلاقاًہمدردانہ غور کرتے حکومت اپنے وسیع وسائل کے مطابق کوئی متبادل طریقہ کار اختیار کرے ۔

 

٭تاجروں اور صارفین پرعائد بےجا ٹیکس کم کیے جائیں۔46 کی جگہ 16 ٹیکس کرنے کی تجویز قابلِ غور ہے لیکن یہ 16 کا عدد بھی زیادہ ہے۔

 

٭ روزانہ کی بنیاد پر پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں کا DCOsکی طرف سےتعیین کیا جانا محض ایک مذاق اور قانون شکنی بن چکا ہے اس قیمتوں پر کنٹرول کے نظام پر نظرِ ثانی کی جائے.

 

٭ریاستِ مدینہ کے قیام کی طرف کی جانے والی سرکاری پیش رفت میں اخلاص کے ساتھ ساتھ علماءِ کرام اورعدلیہ،

 

مقننہ،انتظامیہ ،معیشت اور صحافت سےدرست وژن والے بافراست افرادِکار کی خدمات حاصل کی جائیں۔مہنگے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنےسے اجتناب کیا جائے۔

 

٭ذاتی وانفرادی محاسبہ کی ضرورت اور اہمیت اُجاگر کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔اس قسم کے اشتہارات نشر کیے جائیں مثلاًکہ میں روز اپنا محاسبہ کرکے سوتا ہوں یا آج کتنے احکامِ رب پورے کیے، کتنی بار دیانتداری سےفرائض سر انجام دیے کتنی بار خدمت ،خوش خُلقی ، تعاون اوررحم دلی کا مظاہرہ کیا ،کتنی بار رب کو پکارا؟ وغیرہ

 

٭ ضروری ہے کہ تجارت میں اخلاق حسنہ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے افراد اورتنظیموں کو میڈلز،اعزازت اور القابات سے نوزا جائے جو اپنی کمپنیوں کا تجارتی اخلاق ،اسلامی اخلاق کے زریں اصولوں کے مطابق ترتیب دیں۔

 

٭اشتہار بازی کے مقاصد کا رخ بہترین اورسستی اشیائے صرف کی فراہمی رکھا جائے۔

 

٭جب تک عوام کی اکثریت کو ضروریات کی فراہمی مکمل نا ہو اس وقت تک تعیشات اور سہولیات کی اشتہار کاری ممنوع قرار دی جائے یا ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان کے منافع پر بھاری بھر کم ٹیکس عائد کیے جائیں۔

 

٭میڈیا کاروباری اخلاقیات کے اسوہ بنویﷺ کو اجاگر کرے ۔

 

٭دیانت داری اور کاروباری اخلاقیات پر مشمل مختصر کورس کروائے جا سکتے ہیں جن میں شمولیت اختیار کرنے والوں کو تشہیری سرٹیفکیٹ یا ٹیکس میں یاکچھ اورطرح کی مراعات دی جاسکتی ہیں۔

 

٭جمعہ کی نمازوں اور خطبات میں اخلاق و دیانت کی ترویج اورمادہ پرستانہ طرزِ زندگی کی حوصلہ شکنی کو موضوع بنایا جائے۔

 

٭رفاہی تنظیموں کی معاونت سے آیات و احادیث پر مشتمل فلیکس،بورڈزوغیرو دکانوں اورکاروباری مراکز میں نصب کرائی جائیں۔

 

٭ بزنس ایتھکس کے نصاب کی اسلامی اصولوں کے مطابق تدوینِ نو کی جائے اور اس مضمون کو سکینڈری سکول لیول پر متعارف کرایا جائے۔

 

٭ہیروز کے مروجہ گلیمرائزڈ تصور کو بدلا جائے۔ڈرامہ و افسانہ نگاروں،شاعروں اور مصنفین کےسرکاری سطح پر

 

کانفرنسز اور پروگرام کرکے انہیں بامقصد ادب کی طرف راغب کیا جائے۔ادب برائے معاش کی حوصکہ شکنی کی جائے۔میڈیا اور چینلز کو مقصدیت کی طرف راغب کرنے کےلیے اقدامات کیے جائیں۔

حوالہ جات

  1. :النور،24:37
  2. مودودی،ابوالاعلٰی،مولانا،تفھیم القرآن،ادارہ ترجمان القرآن،لاہور،2000ء،2/96-97
  3. الجمعہ،62 : 15
  4. علی المتقی بن حسام الدین برہان پوری،کنزالعمال فی سنن الاقوال و الاعمال،مطبوعہ قاہرہ،2/192
  5. الشاطبی، الموافقات فی اصول الشرعیۃ،المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ،قاہرہ،سن ندارد؛الغزالی،محمد بن احمد،المستصفیٰ فی اصول الفقہ،مطبعہ امیریہ، قاہرہ،1324ھ،2/287
  6. الجمعہ،62:2
  7. مالک بن انس،الامام،المؤطا،باب حسن الخلق ،2/51،دارالغدالجدید،مصر،2005ء/1426ھ
  8. محمد سعید حکیم،اخلاقیاتِ نبوی ﷺ ،مقالہ مذکرہ ملی،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس،کراچی،1416ھ،ص19٭دیکھیے حدیثِ جبرائیل،کتاب الایمان والاسلام والاحسان ووجوب الایمان،ح93،الجامع الصحیح لمسلم،دار السلام،الریاض،2001ء
  9. اکستان میں 1999ء میں سود سے پاک معیشت کے بارےمیں عدالتی فیصلہ آچکا ہے۔گذشتہ ماہ دسمبر 2018ء میں ریاستِ مدینہ کی دعوے دار ملک کی پارلیمنٹ میں حکومت ،اپوزیشن دونوں کے شراب کی حرمت کے قانون کے خلاف متحد ہونے کا نظارہ ہم دیکھ چکے ہیں۔اب لاہور ہائیکورٹ نے بھی شراب کی فروخت پر پابندی کی درخواست مسترد کری۔ دیکھیے،روزنامہ اسلام ، لاہور،16 فروری،2019ء
  10. صدیقی،مظہرالدین،محمد،ہیکل،مارکس اور نظامِ اسلام،37 ٭راقمہ کو ایک سفر نامہ پڑھتے ہوئے تعجب ہوا کہ ہالینڈ میں بھنگ اور چرس سے بھرے سگریٹ قانوناً ممنوع نہیں اس کی وجہ بقول مصنف: یورپی خصلت بے حد پریکٹیکل ہے۔ہالینڈ میں سب سے پہلے ہم جنس شادیوں کو تحفظ دیا گیاکہ لوگ اس اجازت کے بغیر بھی اس کے مرتکب ہو رہے ہیں تو انہیں قانونی تحفظ دینے میں کیا حرج ہے۔او راگر عوام الناس ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہیں انہوں نے ہر صورت میں نشہ بازی اختیار کرنی ہے تو ان لوگوں کوگرفتار کرکے جیلوں میں بھیجنے کا کیا فائدہ۔مستنصر حسین تاڑڑ،ہیلو ہالینڈ،سنگِ میل پبلیکیشنز،لاہور،2015 ،137
  11. غازی،محمود احمد،ڈاکٹر، محاضراتِ معیشت و تجارت ،الفیصل ناشران کتب،لاہور،جون2017ء ،86
  12. الاعراف،7: 85
  13. محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ ،جامع الترمذی، دار السلام الریاض،1999 ء ،کتاب البیوع،باب ما جاء فی المکیال والمیزان،2890؛ الخطیب ،محمد بن عبداللہ تبریزی ،المشکوٰۃ المصابیح ، دار ارقم ،بیروت ،سن ندارد،کتاب البیوع،باب السلم والرہن،فصل ثانی،حدیث 3، جلد اول
  14. جامع الترمذی، دار السلام الریاض،1999 ء کتاب البیوع،باب ماجاءفی الرجحان الوزن،2890
  15. محاضراتِ تجارت و معیشت،84
  16. :ایضاً،ص 122 ۔تاہم اب مغرب میں ہی سوشل انٹرپرینیور شپ،Ethical Investment اخلاقی سرمایہ کاریSocial responsible investment سماجی ذمہ داری کی حامل سرمایہ کاری کے چرچے ہورہے ہیں۔ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی لکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ طرزِ فکر اور نیو کلاسیکی نظریہ معاشیات کے زیرِاثر افراد کا مطمحِ نظربیش از بیش نفع کمانا ہے۔۔۔ ایسے انفرادی فیصلوں کے منفی اثرات سے اجتماعی مفاد کو بچانے کی ذمہ داری ریاست کے سر آتی ہے مگر سرمایہ دارانہ فلسفہ ریاستی ضابطہ بندی کی نفی کرتا ہے اس لیے اس فکر کے نقصانات سے آگاہی بڑھی ہے اور گزشتہ چند دہائیوں میں اجتماعی مفاد کی رعایت اور اخلاقی قدروں کے التزام کے لیے تحریکوں نے جنم لیا ہے۔مقاصدِ شریعت،ادارہ تحقیقاتِ اسلامی،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد،2009ء،ص191،192
  17. ترمذی،محمد بن عیسیٰ ،الترمذی ،الجامع الصحیح،دار السلام الریاض،1999 ء ابواب البر والصلہ،باب ما جاء فی الخیانۃ والغش،1941
  18. ایضاً،1940
  19. مودودی،سید ابوالاعلیٰ ،اسلام اور جدید معاشی نظریات،اسلامک پبلیکیشنز،لاہور،2001ء،30
  20. غازی،محمود احمد،ڈاکٹر،محاضراتِ تجارت و معیشت، الفیصل ناشران کتب،لاہور،جون2017ء ،85،86
  21. دیکھیے کتاب البیوع فی الصحیحین۔
  22. سعدیہ گلزار،ڈاکٹر،پاکستانی معیشت اور اخلاق، الفیصل ناشران کتب،لاہور ،2017ء،70
  23. غفاری، نور محمد،ڈاکٹر، اسلام کا قانونِ تجارت،مرکز تحقیق دیال سنگھ لائبریری ،لاہور،ستمبر1989ء،ص186
  24. الترمذی،الجامع الصحیح،کتاب البیوع،باب ما جاء فی التسعیر،1314
  25. اسلام کا قانونِ تجارت،150
  26. مشکوٰۃ المصا بیح،کتاب الرقاق،باب فضل الفقراء،1/5262
  27. البخاری،الجامع الصحیح،دار السلام،الریاض،2001ء،کتاب اللباس،باب قول اللہ تعالیٰ: قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ،محمد بن یزیدالربعی القزوینی،ابنِ ماجہ، السنن،ابواب اللباس،باب البس ما شئت،3605
  28. البخاری، الجامع الصحیح ،کتاب الادب، باب الساعی الی المسکین 6007
  29. اللیل،92: 18-21
  30. التکاثر، 1:102
  31. مسلم،الجامع الصحیح،کتاب المظالم،باب تحریم الظلم،دار السلام لنشر والتوزیع،الریاض،2000ء/1421ھ،6578
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...