Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 1 Issue 2 of Al-ʿILM

علم قراءت اور محدث تابعينِ قراء كرام: قرآن، حدیث اور تاریخی تناظر میں تجزیاتی |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060040263_962

Pages

1-30

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

The Holy Quran is one of the most vibrant fields of knowledge in Islamic Sharī’ah because it is the primary source of Islamic Law and teachings. It has many sub-fields and branches of knowledge. One of the most significant fields of the Holy Quran’s knowledge is ‘Ilm al-Qira’at (Science of Qurānic Variants). It means the recitation of Quran in various styles, accents, methodology and approaches. According to deeper Islamic perception of Knowledge the Holy Quran was reveled in seven Ahruf (accents, meanings, phrases and styles).This Knowledge ultimately deals with these styles and methodologies. The wise and faithful companions of the Holy Prophet (pbuh) get more and more expertise under the divine leadership of the Kind Prophet (pbuh). After it the nearest era of the Holy Prophet (pbuh) is the era of Tābī’n (Successors of the Companions of the Holy Prophet). They worked hard and get more height and boom in different domains of knowledge of Islamic Sharī’ah. They served every field of Islamic sciences and knowledge but emphases on one of them and became (leader) Imam of it. The honorable companions of the Holy prophet (pbuh) which get wisdom and knowledge directly from the Holy Prophet (pbuh) convey and deliver it to the respected Tāb’in and they made it most perfect and productive knowledge of the human history with their hard working and pure intentions . They had deeper knowledge of Quran and Hadith both but some of them had specialization in Qurānic sciences and some had specialization in Hadith and Seerah Studies. Contrary to this, some of them are included in Muhaddīthīn but they had deeper knowledge of Tafsīr and Qir’āt studies. This study examines the services and contribution of those Muhddīth Tābī’n which have special knowledge of Ilm al-Qira’t (Qurānic Variants) with its skills. Keywords: ‘Ilm al-Qira’at (Qurānic Variants), Muhddīth Tābī’n, services & contribution

تمہید

ہمارے اسلاف كو قربِ الہى كى دولت بدرجہءكمال حاصل تھى جسكى بركت سے انكى ہمتىں عالى اور حوصلے نہاىت بلند تھے، وہ قرآن وحدىث كے لفظى ومعنوى تمام علوم كے جامع تھے ۔ايك ہى وقت مىں وہ قارى بھى تھے، مفسربھى، فقىہ بھى تھے اور محدث بھى،غازى بھى تھے اور مجاہدبھى،زاہد بھى تھے اور متقى بھى۔ ان حضرات نے اپنى اپنى استعداد اور فہم كے مطابق اىك اىك علم كو اختىار كىا اور اس مىں ماہر بن گئے ،نىز علوم وفنون مىں توسع،عمق اور دقت نظرى بڑھتى چلى گئى ىہاں تك كہ اىك اىك شعبہ كے ذىل مىں بےشمار ذىلى تفرىعات وتخرىجات نے بھى مستقل علوم كى شكل اختىار كر لى اور اىك شخص كى پورى زندگى انہى تفرىعات وتدقىقات مىں گزر گئى، تو پھر كوئى قراءت كى طرف مائل ہوا،تو كوئى تفسىركى طرف، كسى نے حدىث مىں كمال حاصل كىا تو كسى نے فقہ مىں،كوئى صرفى بن گىا،تو كوئى نحوى اور بعض خلوت نشىنى اختىار كرتے ہوئے دروىش بن گئے ۔

 

ان لوگوں میں تابعين كرام ﷭ ايسى ہستياں تھيں جنھوں نے صحابہ كرام ﷢كى صحبت سے فيض حاصل كيا ، كتاب و سنت كوسيكھا اور صحابہ كرام ﷢ نے براہ راست نبى اكرمﷺ سے سيكھا اور نبى اكرمﷺ نے روح القدس ،جبريل امين كےواسطہ سے اللہ احكم الحاكمين سے اس قرآن مجيد كو سيكھا ، ياد كيا تو يہ سند متواتر نبى كريمﷺ تك نہيں بلكہ اللہ رب العزت تك پہنچتى ہے جس سے اس كتاب كامعجزہ ہونا ظاہر ہوتا ہے۔

 

ان تابعين كرام ﷭ نے قرآن وحديث دونوں ميں مہارت حاصل كى ، ان ميں سے بعض قراءت ميں ماہر ہوئے اور بعض حديث ميں ليكن ان ميں چندايسى شخصيات ہيں جو محدث ہونے كے ساتھ ساتھ قراءت ميں بھى خدمات سرانجام ديتے رہے ، وہ كونسى ايسى شخصيات ہيں جنھوں نے دونوں ميدانوں ميں كارہائےنما یاں سرانجام ديے، يہ مقالہ انھيں كے تعارف پر مشتمل ہے۔

 

ان محدث قراء ميں عبدالرحمن بن ہرمز اعرج، مجاہد بن جبير، سعيد بن جبير، حسن بصرى، محمد بن عبد الرحمن بن ابى ليلى، جعفر بن محمد الصادق، سلام بن سليمان، اسحاق مسيبى ، يحيى بن آدم و غيرہ شامل ہيں جو قراءت اور حديث دونوںميں امام ہيں اوريہ تمام كے تمام شيوخ ثقات اورمتقنين ميں سے ہيں اور ان ميں سے بعض صرف حديث كے ميدان ميں معروف ہيں اور قراءت ميں ان كى خدمات مخفى ہيں اس مقالہ ميں ان كى خدمات كو اس حوالہ سے نماياں كرنا اور ان کی علمی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔

 

علم قراءت کی اہمیت

تمام كتب سماويہ ميں قرآن مجيدكى عزت وعظمت نماياں ہے۔اپنى اصل شكل ميں اس وقت اگر كوئى صحيح اور كامل آسمانى كتاب ہے تو وہ قرآن مجيد ہے، اسى كو عالمگيريت اور جامعیت كادرجہ حاصل ہے ۔ قرآن مجيد سے پہلى كتابيں مخصوص زمانہ اور مخصوص اقوام تك محدودتھيں، ان كتب كى حفاظت كا ذمہ نہ تو خالق كائنات نے اٹھايا نہ ہى ان كےمحفوظ رہنے كاكوئى اعلان كيا۔ اس لیے وہ محفوظ نہیں رہیں ۔ اس كے برعكس اللہ تعالی نے قرآن مجيد كى حفاظت كا ذمہ بھى ليااور ساتھ ہى اعلان بھى كرديا۔

 

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[1]

 

”بے شك ہم نے ذكر كونازل كيا اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں“۔

 

اس مقصدِ حفاظت كى تكميل كے ليے اللہ رب العلمين نے ايك ايسا ذريعہ اختیار فرمايا جو روزِ قيامت تك جارى و سارى رہے گاوہ ہے ناقلين قرآن كا سلسلہ سند۔اللہ سبحانہ وتعالى نے قراء کرام كے اذہان وقلوب كو اس كام كے ليے تيار كيا،اس كے اسباب مہيا كيے ۔ اس لیے تاریخ شاہد ہے کہ امت مسلمہ ميں ہر وقت اتنے حفاظ موجود رہےہیں كہ جن كو احاطہ شمار ميں لانا صرف اللہ رب العزت كے اختيار ميں ہے۔ ہر زمانہ ميں ناقلين قرآن آنے والوں تك اپنے علم كو منتقل كرتے رہے حتى كہ موتيوں كى طرح پروئى ہوئى راويوں كى ايك خوبصورت لڑى بن گئى، جس كو سند كا نام ديا جاتا ہے اور يہ سند عام سند نہيں بلكہ اس كا دوسرا نام ”سلسلۃ الذہب“ ہے۔

 

قرآن مجيد كا يہ بہت بڑا اعجاز ہےكہ اس كى سند روز اول سے لے كر آج تك اسى طرح چل رہى ہے اور صرف ايك سند نہيں بلكہ لاكھوں كى تعداد ميں ايسے لوگ موجود ہيں جن كے پاس با قاعدہ ايسى سنديں موجودہيں جو انھيں علمى اداروں ميں اپنے شيوخ سے فراغت كے بعد ملتى ہيں۔نسل در نسل يہ سلسلہ چلاجارہا ہے اور تا قيامت چلتارہےگا۔ ان شاءاللہ ۔اور يہ سلسلہ سند صرف حفص كى روايت ہى نہيں بلكہ قراءات سبعہ وعشرہ كے ہر امام اوران كے تمام راويوں كى سند تك محفوظ ہے۔

 

علم قراءت كياہے ، اس كا فائدہ اوراہميت كيا ہے ؟

 

علامہ احمد بن محمد البنّا فرماتے ہيں:

 

"علم القراءة علم يعلم منه اتفاق الناقلين لكتاب الله تعالى واختلافهم في الحذف والإثبات والتحريك والتسكين والفصل والوصل وغير ذلك من هيئة النطق والإبدال وغيره, من حيث السماع، أو يقال: علم بكيفية أداء كلمات القرآن، واختلافها معزوا لناقله".[2]

 

ترجمہ: ”علم قراءت وہ علم ہےجس سےكلماتِ قرآنيہ ميں قرآن مجيد كے ناقلين كا وہ اتفاق واختلاف معلوم ہوجو نبى كريم ﷺ سے سن لينے كى بناء پر ہے، اپنى رائے كى بناپر نہيں ہے“۔

 

اس كافائدہ كياہے اس كے بارے ميں علامہ احمد بن محمد البنّا فرماتے ہيں:

 

"صيانته عن التحريف والتغيير مع ثمرات كثيرة، ولم تزل العلماء تستنبط من كل حرف يقرأ به قارئ معنى لا يوجد في قراءة الآخر، والقراءة حجة الفقهاء في الاستنباط ومحجتهم في الاهتداء مع ما فيه من التسهيل على الأمة".[3]

 

ترجمہ: ”بہت سے فوائد كےساتھ ساتھ قرآن كوتحريف اور تبديلى سے محفوظ ركھنا، اورعلماء اس كى ہر قراءت سےاستنباط كرتے رہے ہيں، اور يہ قراءات امت پر آسانى كے ساتھ ،فقہاء كے ليے استنباط اوررہنمائى ميں حجت ہے “

 

ايك لمبى حديث ہے جسے عمر ﷜ روايت كرتے ہيں جس ميں نبى كريمﷺ نے فرمايا:

 

«إِنَّ هَذَا القُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ»[4]

 

ترجمہ: بے شك يہ قرآن سات حرفوں پر اتارا گيا ہے ، پس جو آسان ہو اس ميں پڑھو۔

 

مطلب يہ ہے قرآن كريم سات حرفوں پر اترا ہے اور ان ميں سے كوئى ايك پڑھ ليں ياسب كو ملا كرپڑھ ليں سب طريقے كافى شافى ہيں كيونكہ مقصد آسانى ہے۔قراء ت سبعہ وعشرہ اس سبعۃ احرف كا ايك حصہ اورجزء ہے جيسا كہ امام ابو شامہ﷫[5]اور امام ابن الجزرى﷫[6] وغيرہ نے وضاحت كى ہے۔[7]

 

امام ابو شامہ ﷫ نے فرمایا : "ظن قوم أن القراءات السبع الموجودة الآن هي التي أريدت في الحديث وهو خلاف إجماع أهل العلم قاطبة وإنما يظن ذلك بعض أهل الجهل".[8]

 

ترجمہ:بعض لوگ يہ سمجھتے ہيں كہ موجودہ قراءت سبعہ وہى ہے جو حديث ميں بيان ہوئى ہےتويہ تمام اہل علم كے اجماع كے خلاف ہے اور يہ بعض جاہل لوگوں كا خيال ہے۔

 

قراء صحابہ كرام

عہد نبوى ميں بہت سارے صحابہ كرام ﷢ نے قرآن مجيد حفظ كيا ہوا تھا جن ميں سے بعض تك قراءات كى اسانيد بھى پہنچتى ہيں ۔ امام ذہبى ﷫ فرماتے ہيں : جن صحابہ كرام نے قرآن مجيد حفظ كركے آپ كو سنايا ان ميں سے مندرجہ ذيل صحابہ كرام زيادہ مشہور و معروف ہيں:

 

١-عثمان بن عفان ﷜٣٥ھ

 

٢- على بن ابى طالب﷜ ٤٠ھ

 

٣-ابى بن كعب﷜ ٣٢ھ

 

٤-عبد اللہ بن مسعود﷜ ٣٢ھ

 

٥-زيدبن ثابت﷜ ٤٥ھ

 

٦-ابو موسى اشعرى﷜ ٥٠ھ

 

٧-ابودرداء عويمر بن زيد﷜32ھ يا اس كے بعد

 

يہ وہ محترم ومكرم ہستياں ہيں جن كے متعلق ہم تك يہ بات پہنچى ہے كہ انہوں نے حيات رسول ﷺ ميں ہى قرآن كريم حفظ كيا اور ياد كر كے نبى كريم ﷺ كوسنايا، اور يہى وہ مكرم ہستياں ہيں جن كے گرد آئمہ عشرہ كى اسانيد قراءات گھومتى ہيں۔

 

اس كے علاوہ بھى ديگر صحابہ كرام نے قرآن مجيد حفظ كيا ان ميں درج ذیل نام زیادہ معروف ہیں:

 

٨-سيدنا معاذ بن جبل ﷜١٨ھ

 

٩-سالم مولى ابو حذيفہ﷜12ھ

 

١٠-عبد اللہ بن عمر﷜٧٣ھ

 

١١-عقبہ بن عامر﷜60ھ قابل ذكر ہيں ليكن ان كى قراءات ہم تك نہيں پہنچيں۔[9]

 

پہلے سات قراء کرام ميں سے حضرت ابى بن كعب ﷜ سے صحابہ كرام كى ايك جماعت نے قرآن مجيد پڑھا ان ميں سےابوہريرہ،ابن عباس ، عبد الله بن السائب﷢، اسى طرح عبد اللہ بن عباس﷜ نے زيدبن ثابت ﷜سے بھى سيكھا اور ان سےتابعين كى ايك كثير تعداد نے ياد كيا۔[10]

 

مشہور قراء تابعين كرام

مشہور تابعين كرام جنھوں نے ان صحابہ كرام سے قرآن مجيدياد كيا:-

 

مدينہ ميں: سعيدبن المسيب ،عروة بن زبير،سالم ،عمر بن عبد العزيز ،سليمان ،عطاء ابن يسار ،معاذ بن حارث جو معاذ القارئ كے نام سے معروف ہيں،عبد الرحمن بن ہرمز اعرج ،ابن شہاب زہرى،مسلم بن جندب،زيد بن اسلم ۔

 

مكہ ميں: عبيد بن عمير ،عطاء بن ابى رباح ،طاوس ،مجاہد،عكرمہ،ابن ابى مليكہ۔

 

كوفہ ميں: علقمہ،اسود،مسروق،عبيدة،عمرو بن شرحبيل،حارث بن قيس،ربيع بن خثيم ،عمرو بن ميمون ، ابو عبد الرحمن سلمى،زر بن حبيش،عبيد بن نضيلہ،سعيد بن جبير ،نخعى،شعبى۔

 

بصرہ ميں: ابو العاليہ،ابو رجاء ،نصر بن عاصم ،يحيى بن يعمر ،حسن ،ابن سيرين،قتادہ۔

 

شام ميں: مغيرة بن ابى شہاب مخزومى صاحب عثمان،خليفہ بن سعد صاحب ابى الدرداء۔[11]

 

تابعين كى اس جماعت ميں قراءات كے ساتھ ساتھ حديث اور فقہ كا غلبہ تھا۔

 

تبع تابعين قراء كرام

ابوعبيد قاسم بن سلام فرماتے ہيں :

 

ان تابعين كے بعد جانشين حاملين قرآن لوگوں ميں ان جيسى ہمت اور طاقت نہ تھى ، انہوں نے صرف قراءات كو اپنا مركز و محور بناكر تمام تر توجہ قراءات ميں صرف كى ، لوگ ان سے قراءات نقل كرنے لگے حتى كہ وہ اس فن كے امام و مقتدا بن گئے چنانچہ مندرجہ

 

ذيل حضرات پر قراءات كى بنياد منتہى ہوئى:

 

مدينہ ميں: ابو جعفر يزيد بن القعقاع ، شيبہ بن نصاح، نافع بن ابى نعيم۔

 

مكہ ميں: عبد الله بن كثير ،حميد بن قيس اعرج ،محمد بن محيصن

 

كوفہ ميں: يحيى بن وثاب ،عاصم بن ابى النجود،سليمان اعمش، حمزہ اوركسائى۔

 

بصرہ ميں: عبد الله بن ابى اسحاق ،عيسى بن عمر، ابو عمرو بن العلاء ،عاصم جحدرى،يعقوب حضرمى۔

 

شام ميں: عبد الله بن عامر، عطيہ بن قيس كلابى،اسماعيل بن عبد الله بن مہاجر ، يحيى بن حارث ذمارى، شريح بن يزيد حضرمى۔اور انہيں ميں مشہور آئمہ سبعہ ہوئے۔

 

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس مقالہ ميں صرف ان تابعين كرام كا تعارف كروايا جائے گاجنہوں نے قراءات اور حديث دونوں ميدانوں ميں خدمات انجام ديں اور ان كى قراءت كى سند بھى ہم تك پہنچى ، حديث اور علوم حديث ميں ان كا نام معروف ہے ليكن قراءت ميں نہيں حالانكہ قراءت كے ميدان ميں بھى ان كى بہت خدمات ہيں بلكہ قرآن كى قراءت كى سند ان ہى كےذريعہ ہم تك پہنچى ہے اور ان كى انکی خدمات كو روشناس كرانا بہت ضروری ہے ۔[12]

 

١-عبد الرَّحْمن بن ہرمُز اعرج(م: 117 ھ)

 

امام، حافظ، حجت، مقرئ عبد الرحمن بن ہرمز اعرج ، ابو داود مدنى ، ربيعہ بن حارث بن عبد المطلب كے آزاد كردہ تھے۔ مدينہ منورہ ميں پيداہوئے ، بعض صحابہ كرام سےحديث نبوى كا سماع كيا ، قرآن مجيد كى بہ نسبت حديث ميں زيادہ مشہورہيں ، قرآن مجيد حفظ كيااور ابوہريرة﷜، ابن عباس﷜، عبد الله بن عياش بن ابى ربيعۃ سے قراءت سيكھى ۔ قرآن مجيد كو اپنے ہاتھ سے تحرير كيا كرتے تھے ، آپ كا شمار علماء لغت ميں بھى ہوتاہے ،ابو الأسود الدؤلى كے بھى تلميذ رشيد تھے ، اسى طرح نسب قريش كےماہر تھے۔آخرى عمر ميں مصر گئے اور اسكندريہ ميں ١١٧ھ كو٨٠سال سے زائد عمر ميں وفات پائى۔[13]

 

آپ ثقہ ثبت اور كتب ستہ كے رواۃ ميں سےہيں،قراءت ميں آپ كى سندجسے امام ابن مجاہدنے اپنى كتاب السبعہ ميں ذكر كيا ہے، درج ذيل ہے۔

 

"أخبرنَا نَافِع أَنه قَرَأَ على الْأَعْرَج وَأَن الْأَعْرَج قَالَ قَرَأت على أبي هُرَيْرَة وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَة قَرَأت على أبي بن كَعْب وَقَالَ أبي عرض على رَسُول الله ﷺ الْقُرْآن وَقَالَ أَمرنِي جِبْرِيل أَن أعرض عَلَيْك الْقُرْآن".[14]

 

امام نافع نے اعرج سے اور اعرج نے ابو ہريرہ ﷜سے، ابو ہريرہ ﷜ نے ابى بن كعب ﷜سے اور ابى بن كعب ﷜ نےرسول اللہ ﷺ سے قرآن سيكھا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمايا جبريل ﷩ نے مجھے حكم ديا كہ ميں تجھے قرآن سناؤں۔

 

2۔ مُسلم بن جُنْدُب ہُذلِى (م:1٠٦ ھ)

 

مسلم بن جندب ہُذلى ، ابو عبد الله مدنى قاضى ، عبد الله بن مسلم مقرىءكے والد، حكيم بن حزام، زبير بن عَوام ، ابن عمر، ابوهريرة ﷢، اسلم مولى عمر بن الخطاب،يزيد بن ہرمزوغيرہ سےاحاديث روايت كرتے ہيں۔ فصيح اللسان لوگوں ميں سے ہيں ،مدينہ ميں وعظ و قصص بيان كيا كرتے تھے۔عبد اللہ بن عياش مخزومى سے قرآن پڑھا۔ امام بخارى﷫ نےكتاب " أفعال العباد " ، اور امام ترمذى﷫ نے جامع الترمذى ميں ان سے روايت نقل كى ہے۔امام عجلى[15]،حافظ ابن حجر[16] اور امام ذہبى[17] ﷭ نے آپ كوثقہ تابعى قرار ديا ہے۔ ابن مجاہدفرماتے ہيں : "كان من فصحاء الناس ، و كان معلم عمر بن عبد العزيز ، و كان عمر يثنى عليه و على فصاحته بالقرآن."[18]

 

”فصيح لوگوں ميں سے تھے، عمر بن عبد العزيز كےاستاد تھے اور عمربن عبدالعزيز ان كى اور ان كے فصاحت قرآن كى مدح ثنائى كرتے تھے“ ۔

 

خليفہ ہشام بن عبد الملك كے زمانہ ميں ١٠٦ھ يا اس كے بعد وفات پائى۔[19]

 

3۔ يزِيد بن رُومَان(م: 1٣0 ھ)

 

يزيد بن رومان اسدى ، ابو روح مدنى ، مولى آل الزبير بن العوام،فقہاء اہل مدينہ ،مقرى ،كثير الحديث ، ثقہ عالم ، كتب ستہ كے رُواۃ ميں سے ہيں ، عبد الله بن عياش بن ابى ربيعہ مخزومى سے قراءت كو حاصل كيا۔حديث كوانس بن مالك﷜،ابو ہريرہ﷜، عبد الله بن زبير﷜، سالم بن عبد الله بن عمر،صالح بن خوات بن جبير ، عبيد الله بن عبد الله بن عمر ،عروة بن الزبير ،محمد بن مسلم بن شہاب زہرى﷭ سے نقل كرتے ہيں۔ حافظ ابن حجر[20] اور امام ذہبى[21] ﷭ نے آپ كوثقہ تابعى قرار ديا ہے۔ ١٢٠ھ يا ١٣٠ھ كو وفات پائى۔[22]

 

آپ كى سند قراءت درج ذيل ہے۔

 

"قَالَ أبي أويس أَخْبرنِي يزِيد بن رُومَان مولى آل الزبير أَنه أَخذ الْقِرَاءَة عرضا عَن عبد الله بن عَيَّاش بن أبي ربيعَة وَقد روى أَيْضا عَن ابْن عَبَّاس".[23]

 

ابو اويس كہتے كہ يزيد بن رومان نے مجھے بتايا كہ انھوں نے عبداللہ بن عياش بن ابى ربيعہ سے قراءت كوحاصل كيا اوريہ بھى مروى ہے كہ ابن عباس ﷜ سے بھى قراءت حاصل كى۔

 

4. مُجَاہد بن جبير (م:١٠٤ھ)

 

مجاہد بن جبر يا جبير ، ابوالحجاج مكى قرشى مخزومى ، سائب بن ابى السائب مخزومى يا قیس بن مخزومی کے غلام تھے۔ ان کی

 

پیدائش21ھ میں زمانہ خلافت فاروق اعظم ميں ہوئی۔83 برس کی عمر میں ١٠٣ھ يا ١٠٤ھ میں وفات پائی۔ امام ،فقيہ ، كثير الحديث، قراءت، تفسيركے امام، حديث نبوى ميں ماہر،ثقہ اورنہایت نامور عالم تھے۔[24]

 

قراءت اورتفسیر انہوں نےحبر الامۃ ابن عباس﷜ سے حاصل کی اور تين مرتبہ ان سے قرآن کا دورہ کیا، اس محنت اورتحقیق کے ساتھ کہ ہر ایک آيت پر رک کر اس کے شانِ نزول اوراس کے جملہ متعلقات پوچھتے جاتے تھے ۔

 

قال مجاهد:" قرأت القرآن على ابن عباس ثلاث عرضات أقف عند كل آية أسأله فيم نزلت، و كيف كانت".[25]

 

ترجمہ: ميں نےابن عباس سےتين دفعہ قرآن كادورہ كيا۔ہرآيت پر ركتااور پوچھتا كہ كن كے بارے ميں نازل ہوئى اوراب اس کا كيا (مفہوم)ہے۔

 

انہوں نے عبد اللہ بن عباس ﷢كےعلاوہ بہت سے صحابہ كرام ﷢ سے كسب فيض كيا، ان ميں على ،سعد بن ابى وقاص ،عبادلہ اربعہ، رافع بن خديج ، ابو سعيد خدرى،عائشہ، ام سلمہ، جويريہ بنت الحارث ،ابو ہريرة ، ام ہانى بنت ابى طالب ،جابر بن عبد الله ،عطيہ قرظى،سراقہ بن مالك بن جعشم﷢ وغيرہ اورتابعين كى ايك بہت بڑى تعداد سے روايت كرتے ہيں۔[26]

 

آپ كے تلامذہ ميں ايك بہت بڑى تعداد شامل ہے، ان ميں ايوب سختيانى، عطاء ، عكرمہ،ابن عون ،عمرو بن دينار، قتادہ، عبيد الله بن ابى يزيد ،ابان بن صالح ،سليمان الأعمش ،عبد الله بن كثير القارى وغيرہ۔[27]

 

امام ابن كثير كے علاوہ امام ابوعمرو بصرى اور ابن محيصن نے بھى آپ سے قرآن سيكھا۔[28]

 

ان كى قرآن كى سند كچھ يوں ہے:

 

"وَقَرَأَ مُجَاهِد على ابْن عَبَّاس ،وَقَرَأَ ابْن عَبَّاس على أبي بن كَعْب وَلم يُخَالف ابْن كثير مُجَاهدًا فِي شَيْء من قِرَاءَته".[29]

 

ترجمہ:مجاہد نے ابن عباس سے، ابن عباس نے ابى بن كعب سےقرآن پڑھا اور امام ابن كثير مكى نے مجاہد سے ان كى قراءت ميں كوئى اختلاف نہيں كيا۔

 

5. سعید بن جبیر (م: 95ھ):

 

سعيد بن جبير بن ہشام اسدى والبى مولاهم كوفى ، ابو محمد ، امام ،حافظ، مقرى، مفسر،محدث،فقيہ تابعى اور حبشى الأصل تھے ، ثقہ ثبت حجت اور كتب ستہ كے رواۃ ميں سے ہيں۔ حديث كوانس بن مالك﷜، عبد الله بن زبير﷜،عبد الله بن عباس﷜،عبد الله بن عمر﷜ ،عبد الله بن مغفل ﷜،عدى بن حاتم ﷜، ابو سعيد خدرى ﷜،ابو عبد الرحمن سلمى﷜ ،ابو مسعود انصارى﷜، ابو موسى اشعرى﷜ ، ابو ہريرة ﷜اور ام المؤمنين عائشہ ﷞ سے حاصل كيا ، كوفہ ميں سكونت اختيار كى اور يہيں علم كى نشرو اشاعت كى،٩٥ھ ميں حجاج بن يوسف نے آپ﷫ كو شہيد كرادياتھا۔[30]

 

آپ كى قراءت كى سند كچھ يوں ہے:

 

قال أبو العباس "ختن ليث قال سألت أبا عمرو على من قرأت فقال على مجاهد وسعيد بن جبير وغيرهما".[31]

 

ترجمہ:ابوالعباس جو ليث كے داماد ہيں فرماتے ہيں ميں نے امام ابوعمرو بصرى سے پوچھاآپ نے كس سے پڑھاتو انھوں نے جواب ديامجاہد اور سعيد بن جبير سے۔

 

"عن يحيى بن مبارك اليزيدي عن أبي عمرو قال سمع سعيد بن جبير قراءتي فقال الزم قراءتك هذه".[32]

 

ترجمہ: يحيى بن مبارك يزيدى ابوعمرو بصرى سے روايت كرتےہيں كہ سعيد بن جبير نے ان (ابوعمرو بصرى) كى قراءت سنى تو كہا:اس قراءت كولازم پكڑو۔

 

6-ابو عبدالرحمن سلمی کوفی(م:٧٤ھ):

 

عبداللہ بن حبیب بن ربیعہ ہے، كوفہ كےقارى ،امام ،عہدنبوى ميں پيدا ہوئے،اولاد صحابہ ميں سے ہيں،قراءت اورحديث دونوں ميں ثقہ ثبت ہيں، كتب ستہ ميں آپ كى مرويات ہيں، عثمان﷜ ، على﷜ اور عبد اللہ بن مسعود ﷜ سے قرآن سيكھا، حسن و حسين ﷠ نے بھى آپ كو قرآن سنايا۔

 

اس حديث كو حذيفہ بن يمان ﷜،خالد بن الوليد ﷜،سعد بن ابى وقاص ﷜،ابوموسى اشعرى﷜،عبد الله بن مسعود ﷜،عثمان بن عفان ﷜،على بن ابى طالب ﷜،عمر بن الخطاب ﷜،ابو الدرداء ﷜،ابو هريرة﷜وغيرہ سے روايت كرتے ہيں۔عثمان ﷜كى خلافت سےحجاج كے زمانہ تك تقريباً چاليس٤٠ سال تك قرآن مجيدكى تدريس سےوابستہ رہے، ٧٤ھ ميں وفات پائى۔[33]

 

 

7- زر بن حبیش(م: 81ھ):

 

نام ونسب زر بن حبيش بن حباشۃ بن اوس اسدى كوفى، كنيت ابو مريم ،زمانہ جاہليت پايا ، اسلام لائے ليكن نبى كريم ﷺ سے ملاقات نہ كر سكے، جليل القدر تابعى اوركتب ستہ كے رواۃ ميں سے ہيں ، كوفہ ميں سكونت اختيار كى، صحابہ كرام ميں سے عُمَر بن خطاب﷜، ابو ذر غفارى﷜ ، ام المؤمنين عائشہ ﷜، عمار بن ياسر﷜، صفوان بن عسال﷜ ،ابى بن كعب﷜ ،عبد الرحمن بن عوف ﷜ وغيرہ سے علم حديث حاصل كيا۔ عبد الله بن مسعود﷜ اورعلى بن ابى طالب﷜ سے قرآن مجيد كى تعليم حاصل كى۔حفظ ميں بہت پختہ تھے، كوفہ ميں تدريس كى مسندسجائى ،يحيى بن وثاب ،عاصم بن ابى النجود ،ابو اسحاق سبيعى اورسليمان بن مہران اعمش وغيره نے آپ سے قراءت سيكھى۔آپ لغت عربى كےاتنے ماہر تھےكہ عبد الله بن مسعود﷜ اس بارے ميں آپ سے سوال كيا كرتے تھے۔ زر بن حبيش 81 ھ نے كوفہ ميں 122 سال كى عمر ميں وفات پائى۔[34]

 

امام عاصم كى ان سے سند كچھ يوں ہے ،خود فرماتے ہيں:

 

قال عاصم: "وكنتُ أرجع من عند عبد الرحمن، فأعرض على زر بن حبيش، وكان زر قد قرأ على عَبد الله بْن مسعود. قال أبو بكر: قلت لعاصم: لقد استوثقت، أخذت القراءة من وجهين، قال: أجل"۔[35]

 

”امام عاصم كہتے ہيں ميں ابو عبد الرحمن سُلمى سے پڑھ كر لو ٹتا پھر زِر بن حبيش سے پڑھتا اور زِر نے عبد اللہ بن مسعود ﷜سے پڑھا ہے، ابوبكر كہتے ہيں ميں نے عاصم سے كہا :آپ نے تو خوب پختہ كيااور دو طرق سے قراءت كوحاصل كيا، انہوں نے كہا : جى ہاں“ ۔

 

8-اعمش سليمان بن مہران(م:١٤٨ھ):

 

سليمان بن مہران اسدى كاہلى ہے ، كاہل بن اسد بن خزيمہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ کنیت ابو محمداور لقب اعمش ہے ۔ کمزور بینائی كى بنا پر آپ كو یہ لقب دیا گيا۔ امام ،شيخ الإسلام ، شيخ المقرئين و المحدثين، ثقہ حافظ ، قراءت كے ماہر ، زہدو ورع كى عملى تصوير تھے،تدليس ميں معروف ہيں۔ قراءت شاذہ ميں سے ايك امام ہيں۔آپ كى پیدائش حسین بن علی ﷠کی شہادت كے سال 61 ہجری میں اور وفات ١٤٨ھ كو ٨٧سال كى عمر ميں ہوئى۔

 

حديث كو ابراہيم نخعى ، اسماعيل بن ابى خالد ،اسماعيل بن رجاء زبيدى ، جامع بن شداد ،حبيب بن ابى ثابت ،حكم بن عتيبہ ، ذكوان ابى صالح السمان ، سعيد بن جبير، طلحہ بن مصرف، عطاء بن ابى رباح، عكرمہ مولى ابن عباس وغيره سے حاصل كيا۔

 

مقرى عراق يحيى بن وثاب ،زيد بن وہب ، زر بن حبيش ، ابو العاليہ اور مجاہد وغيرہ سے قراءت كا علم حاصل كيا ۔[36]

 

سفيان بن عیینہ کا بیان ہے کہ: "كَانَ الأَعْمَشُ أَقْرَأَهُم لِكِتَابِ اللهِ، وَأَحْفَظَهُم لِلْحَدِيْثِ، وَأَعْلَمَهُم بِالفَرَائِضِ".[37]

 

” اعمش کتاب اللہ کے بڑے قاری،احادیث کے بڑے حافظ اورعلم فرائض کےماہر تھے“۔

 

امام حمزه كى اعمش سے سند:

 

"قال حدثنا حجاج قال قلت لحمزة قرأت على الأعمش قال لا ولكني سألته عن هذه الحروف حرفا حرفا".[38]

 

حجاج كہتے ہيں كہ ميں نے امام حمزہ سے پوچھا كہ آپ نے اعمش سےقراءت پڑھى، انھوں نے كہانہيں بلكہ ان اختلافى حروف كو ايك ايك كركے پڑھا ہے۔

 

"قال وقرأ حمزة أيضا على سليمان بن مهران الأعمش وقرأ سليمان على يحيى ابن وثاب وقرأ يحيى على أصحاب عبد الله وقرأ يحيى أيضا على زر بن حبيش وزر قرأ على علي وعثمان وعبد الله".[39]

 

اور دوسرى روايت ميں ہے كہ امام حمزہ نے سليمان بن مہران اعمش سے پڑھا اور سليمان نے يحيى بن وثاب سے اور يحيى بن وثاب نےعبد اللہ بن كے تلامذہ سے اسى طرح يحيى بن وثاب نے زر بن حبيش سےاور زر بن حبيش نے على، عثمان اور عبد اللہ بن مسعود سے قراءت پڑھى۔

 

9- ابن ابی ليلى(م: 148ھ):

 

محمد بن عبد الرحمن بن ابى ليلى، ابو عبدالرحمن، قاضى و مفتى كوفہ، امام العلم، عالى مرتبت اور فقيہ ہيں۔اپنے بھائى عيسى بن ابى ليلى، امام شعبى اور منہال بن عمرو سے قرآن سيكھا اور ان سے حمزہ زيات نے ، حديث كو حكم بن عتيبہ،قاسم بن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود ،محمد بن عبد الرحمن بن سعد بن زرارة انصارى ، سلمہ بن كهيل ،عامر شعبى، عطاء بن ابى رباح،منہال بن عمرو ،نافع مولى ابن عمر وغيرہ سے نقل كرتے ہيں۔امام احمدبن حنبل اور بہت سے آئمہ حديث نے انہيں حديث ميں سيئ الحفظ كہا ہے۔ ١٤٨ھ ميں وفات پائى۔[40]

 

امام حمزہ سے ان كى سند قراءت:

 

"وقرأ حمزة أيضا على ابن أبي ليلى وقرأ ابن أبي ليلى على أخيه وقرأ أخوه على أبيه عبد الرحمن وقرأ عبد الرحمن على علي ".[41]

 

امام حمزہ نے ابن ابى ليلى سے قراءت پڑھى اور ابن ابى ليلى نے اپنے بھائى سےاور ان كے بھائى نے اپنے والد عبدالرحمن سےاور عبدالرحمن نے على﷜سے پڑھا۔

 

"وقرأ على ابن أبي ليلى وقرأ ابن أبي ليلى على المنهال بن عمرو وقرأ المنهال على سعيد بن جبير وقرأ سعيد على ابن عباس وقرأ ابن عباس على أبي بن كعب وقرأ أبي بن كعب على النبي ".[42]

 

امام حمزہ نے ابن ابى ليلى سے قراءت پڑھى اور ابن ابى ليلى نے منہال بن عمروسے ، اورمنہال نے سعيدبن جبير سےاور سعيدبن جبير نےابن عباس سےاور ابن عباس نے ابى بن كعب سے اور ابى بن كعب نےنبىﷺسےپڑھا۔

 

"قَالَ سليم بن عِيسَى الْكُوفِي قَرَأَ حَمْزَة على الْأَعْمَش وَابْن أبي ليلى فَمَا كَانَ من قِرَاءَة الْأَعْمَش فَهُوَ عَن ابْن مَسْعُود وَمَا كَانَ من قِرَاءَة ابْن أبي ليلى فَهُوَ عَن عَليّ ".[43]

 

سُليم بن عيسى كہتے ہيں كہ امام حمزہ نے اعمش اور ابن ابى ليلى دونوں سے قراءت پڑھى اور اعمش كى قراءت عبد اللہ بن مسعود ﷜سے اورابن ابى ليلى كى قراءت على﷜ كے واسطہ سے ہے۔

 

 

10-حُمران بن اعين(م:129 ھ):

 

حمران بن اعين ، كوفى ، (عبد الملك بن أعين ، و عبد الأعلى بن أعين اور بلال بن أعين كے بھائى ہيں)كوفہ كے كبار قراء اور بنو شيبان كے موالى ميں سے ہيں ، قراءت ميں ثقہ ليكن حديث ميں ضعيف ہيں، حديث كو ابو الطفيل عامر بن واثلہ ليثى ،عبيد بن نضيلہ ان كوقرآن بھى سنايا،ابو جعفر محمد بن على بن حسين ،ابو حرب بن ابى الأسود وغيره سے نقل كرتےہيں۔ان كى سند قراءت ابن مجاہدكے ہاں يوں بيان كى گئى ہے۔[44]

 

"قال علي بن حمزة الكسائي قلت لحمزة على من قرأت فقال علي ابن أبي ليلى وحمران بن أعين قلت فحمران على من قرأ قال على عبيد بن نضيلة الخزاعي وقرأ عبيد على علقمة وقرأ علقمة على عبد الله وقرأ عبد الله على النبي ".[45]

 

على بن حمزہ كسائى كہتے ہيں ميں نے امام حمزہ سےپوچھا ، آپ نے قراءت كس سے پڑھى؟ توانھوں نے جواب ديا على بن ابى ليلى اور حمران بن اعين سے ۔ ميں نے پوچھا حمران نے كس سے پڑھا ؟ انھوں نے جواب ديا عبيد بن نضيلہ خزاعى سے اور عبيد نے علقمہ سےاور علقمہ نے عبداللہ بن مسعود﷜ سے اور عبداللہ بن مسعود﷜ نے نبى كريم ﷺ سے۔

 

ابو بكر بن مجاہد اپنى سند سے بيان كرتے ہيں:

 

"قرأ سليم على حمزة الزيات وقرأ حمزة على حمران بن أعين وقرأ حمران على أبي الأسود الدؤلي وقرأ أبو الأسود على علي وعثمان ".[46]

 

سليم بن عيسى نے حمزہ زيات سے، انھوں نے حمران بن اعين سے انھوں نے ابو اسود دؤلى،انھوں نےعلى ﷜ اور عثمان ﷜ سے قراءت پڑھى۔

 

11-جعفر بن محمد صادق(م: 148ھ)

 

جعفر بن محمد بن على بن حسين بن على قرشى ہاشمى ، ابو عبد الله مدنى صادق،مدينہ كےجليل القدر علماء ميں سے

 

ہيں، امام بخارى نےادب المفرد، امام مسلم نے صحيح ، ابو داود ، ترمذى ، نسائى، ابن ماجہ نے سنن ميں ان سے روايت كرتے ہيں۔ ٨٠ھ ميں پيدا ہوئے اور ١٤٨ھ ميں وفات پائى۔اپنے والدمحترم محمد باقر سے قرآن مجيد كى تعليم حاصل كى ، امام حمزہ نےمدينہ ميں ان سے قرآن مجيد سيكھا، فرماتےہيں:" قرأت على أبي عبد الله جعفر الصادق القرآن بالمدينة".[47]

 

"ميں نے امام جعفر صادق سےمدينہ ميں قراءت پڑھى۔"

 

امام ابن مجاہد ان كى سند قراءت يوں بيان كى ہے:

 

"وقرأ حمزة أيضا على جعفر بن محمد(بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب) وقرأ جعفر على آبائه وقرءوا على أهل المدينة".[48]

 

امام حمزہ نے امام جعفر بن محمدسے ،اور امام جعفر بن محمدنے اپنے اباؤ اجداد سےاورانھوں نے اہل مدينہ سےقراءت پڑھى۔

 

حديث كو عبيد الله بن ابى رافع كاتب على،عروة بن زبير ،عطاء بن ابى رباح ،قاسم بن محمد بن ابى بكر صديق ،اپنے والدابو جعفر محمد بن على باقر ،محمد بن مسلم بن شہاب زہرى ،محمد بن المنكدر ،مسلم بن ابى مريم،نافع مولى ابن عمر وغيرہ سے نقل كرتےہيں۔[49]

 

12-عيسى بن عمر ہمدانى(م: ١٥٦ھ):

 

عيسى بن عمر كوفى اسدى قارى ، ہمدانى كے نام سے معروف ہيں،كنيت ابوعمر، نابينا تھے، امام حمزہ كے بعد كوفہ كے قارى ہيں، حديث ميں بھى ثقہ ہيں،امام ترمذى اور امام نسائى اپنى سنن ميں ان سے روايت نقل كرتے ہيں۔امام عاصم بن ابى النجود،طلحہ بن مصرف اور سليما ن اعمش سے قراءت سيكھى، امام كسائى اور ايك جماعت نےآپ سے كسب فيض كيا۔١٥٦ھ ميں وفات پائى۔[50]

 

امام كسائى اپنے شيوخ كاتذكرہ كرتے ہوئے فرماتے ہيں۔

 

"قَالَ الْكسَائي: أدْركْت أَشْيَاخ أهل الْكُوفَة الْقُرَّاء الْفُقَهَاء ابْن أبي ليلى وَأَبَان بن تغلب وَالْحجاج بن أَرْطَاة وَعِيسَى بن عمر الهمذاني وَحَمْزَة الزيات".[51]

 

"ميں نے كوفہ كے بزرگ قراء فقہاء ابن ابى ليلى، ابان بن تغلب، حجاج بن ارطاۃ ، عيسى بن عمر ہمذانى اور حمزہ زيات وغيرہ سے قراءت اور ديگر علوم كو حاصل كيا۔"

 

حديث ميں آپ كے شيوخ ميں ابراہيم بن محمد بن منتشر ،اسماعيل بن عبد الرحمن السدى ،حماد بن ابى سليمان ،زيد بن اسلم ، سہل بن ابى امامہ،طلحہ بن مصرف ،عبد الرحمن بن اصبهانى ،عطاء بن ابى رباح ،عطاء بن السائب ،عمرو بن مرة وغيره سے روايت نقل كرتے ہيں۔

 

13-سلام بن سليمان(م: 171ھ):

 

ابوالمنذر سلام بن سليمان مُزنى مقرى نحوى بصرى خراسانى، جامع بصرہ كے امام اور بصرہ كے جليل القدر علماء ميں سے ہيں۔ معقل بن يسار مُزنى كے غلام تھے، عاصم بن بہدلہ ، عاصم جحدرى ، ابو عمرو بصرى ، شہاب بن شُرنفہ اور ايك جماعت سے قرآن كى تعليم حاصل كى۔يعقوب حضرمى ،ابراہيم بن حسن علاف اور ايوب بن متوكل وغيرہ نے آپ سے قراءت سيكھى۔اس حديث كو ايوب سختيانى ،ثابت بنانى ،حميد بن قيس اعرج ،داود بن ابى هند ، عاصم بن ابى النجود ، مطر الوراق ، يونس بن عبيدوغيرہ سے روايت كرتے ہيں۔حافظ ابن حجر نے آپ كو صدوق يہم قرار ديا ہے۔[52] قدريہ [53]كے سخت خلاف تھے۔171 ھ ميں وفات پائى۔[54]

 

امام يعقوب كى سلام بن سليمان سے سند:يعقوب خود فرماتے ہيں:"قرأت على سلام في سنة ونصف"۔[55]

 

ترجمہ:ميں نے ڈيڑھ سال سلام بن سليمان سے پڑھا۔

 

"قال رَوْح بْن عَبْد المؤمن، وغيره: قرأ يعقوب عَلَى سلّام الطويل، وقرأ سلّام عَلَى أَبِي عَمْرو بْن العلاء".[56]

 

روح بن عبد المؤمن فرماتے ہيں كہ ان كے استاد يعقوب نے سلام طويل سے اور سلام نے امام ابوعمرو بصرى سے پڑھا۔

 

"وقال محمد بْن المتوكل: قرأت عَلَى يعقوب، وقرأ عَلَى سلّام، وقرأ سلّام عَلَى عاصم بْن أبي النجود، عَنْ أَبِي عَبْد الرَّحْمَن، عَنْ عليّ ".[57]

 

محمد بن متوكل فرماتے ہيں كہ ميں نےاپنے استاد يعقوب سے انھوں نے سلام طويل سے اور سلام نے امام عاصم كوفى سے انھوں نے ابو عبدالرحمن سلمى سے اور انھوں نے على ﷜سے پڑھا۔

 

"وَرُوِيَ عَنْ يعقوب أَنَّهُ قرأ عَلَى سلّام، وأنّه قرأ عَلَى عاصم الْجُحْدُرِيّ. فهذه ثلاثة أقوال مختلفة".[58]

 

اور يہ بھى رويت كيا گيا ہےكہ يعقوب نے سلّام سے اور سلّام نے عاصم جحدرى سے پڑھا۔ تواس طرح يہ تين مختلف اقوال ہيں۔

 

14-جعفر بن حيان سعدى(م: 165ھ):

 

جعفر بن حيان سعدى ، ابو الأشہب عُطاردى بصرى خراز الأعمى، امام ، حجہ ،ثقات حفاظ اور كتب ستہ كے رواۃ ميں سے ہيں۔حديث كو بكر بن عبد الله مزنى ،توبۃ العنبرى ،حسن بصرى ، ابو السليل ضريب بن نقير ،عامر شعبى ،عبد الرحمن بن طرفہ ،عكرمہ مولى ابن عباس سے روايت كرتے ہيں۔ بصرہ ميں خليفہ مہدى كے زمانے ميں ١٦٥ھ كو وفات پائى۔[59]

 

امام ذہبى فرماتے ہيں: "وقراءته على أبي الأشهب عن أبي رجاء عن أبي موسى في غاية العلو"۔[60]

 

"امام يعقوب كى قراءت ابو الأشہب كےواسطہ سےجس كو وہ ابورجاء سےاور ابورجاء ابو موسى سےروايت كرتے ہيں، بہت عالى ہے۔"

 

15- اسحاق مسيبى(م: 206ھ):

 

اسحاق بن محمد بن عبد الرحمن بن عبد الله بن المسيب بن ابى السائب : صيفى ، قرشى مخزومى مسيبى مدنى ، ابو محمد،نافع بن ابى نعيم كے خاص تلامذہ،مدينہ كے جليل القدر قراء اور عالم حديث ہيں۔امام ابوداود﷫ نے آپ سے روايت نقل كى ہے۔حافظ ابن حجر نے ان كو صدوق فيہ لين و رمى بالقدر كہا ہے۔قرات اور حدیث میں بہت بڑے امام گذرے ہیں۔

 

انہوں نے اپنی سند حديث كو عبد الرحمن بن أبى الزناد ،مالك بن أنس ،محمد بن عبد الرحمن بن أبى ذئب ،نافع بن عبد الرحمن بن أبى نعيم القارىء ، ان كوقرآن بھى سنايا ،نافع بن عمر جمحى وغيرہ سے روايت كرتے ہيں۔ آپ كےبيٹے محمد بن اسحاق،ابو حمدون طيب بن اسماعيل، خلف بزاراور ايك بہت بڑى جماعت نے آپ سے قراءت سيكھى۔ 206ھ ميں وفات ہوئى۔[61]

 

16-يحيى بن آدم (م: ٢٠٣ھ):

 

يحيى بن آدم بن سليمان قرشى اموى ، كوفى ، ابو زكريا ، خالد بن عقبہ بن ابى معيط كے آزاد كردہ ہيں،علامہ، حافظ، مجود، فقيہ، ثقہ ، حجہ ،علم كے جامع،صاحب التصانيف، كثير الحديث اوركتب ستہ كے رواۃ ميں سے ہيں، امام عاصم كے حروف كا ابوبكر بن عياش سے سماع كيا۔

 

قرات اور حدیث میں بہت بڑے امام گذرے ہیں۔انہوں نے اپنی سند حديث كو جرير بن حازم ،حماد بن سلمہ ،حمزة بن حبيب الزيات ،زهير بن معاويہ،سفيان الثورى ،سفيان بن عيينہ،عبد الله بن مبارك ، وكيع بن جراح ،ابو بكر بن عياش وغيرہ سے روايت كرتے ہيں۔ستر٧٠سال كى عمر ميں ٢٠٣ھ ميں وفات پائى۔[62]

 

قرآن ،حدیث اور تاریخی تناظر میں تجزیاتی مطالعہ

یہ بات بہت اچھی طرح واضح ہے کہ شرىعت اسلامىہ كے دو بنىادى ماخذ ہىں جن مىں سے اىك قرآن مجىد اور دوسرا سنت رسول ﷺ ہے۔ وحى كى دو مختلف شكلىں(متلو اور غىر متلو) ہونے كے باوجود دىن كى اساس انہى دو چىزوں پر قائم ہے اور دىن كے قىام كے لىے دونوں چىزىں ىكساں طور پر ضرورى اور اہم ہىں ۔

 

مسلم معاشرے مىں انفرادى و اجتماعى ہر دو سطح پر ان دو ماخذ كو دستور العمل اور حرز جاں بناىا جانا ضرورى ہے۔قرآن مجىد اىك متن متىن ہے جس مىں بہت سے احكام ومسائل اجمال واختصار كے ساتھ بىان كىے گئے ہىں، حدىث انكى شرح وتفصىل بىان كرتى ہے،حدىث كے بغىر ان مجمل احكام ِقرآن كوسمجھنا اور ان آىات كاموقع و محل پہچاننا دشوار ہے۔ارشادِ بارى تعالى ہے :

 

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ[63]

 

”اور ہم نے آپ كى طرف نصيحت اتارى تاكہ آپ اسے لوگوں كے ليے كھول كر بيان كرديں،جوكچھ ان كى طرف اتارا گيا ہے اور تا كہ وہ غور و فكر كريں۔“

 

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ o فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ o ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُo [64]

 

”بلاشبہ اس كا جمع كرنا اور(م: آپ كا) اس كو پڑھنا ہمارے ذمہ ہے ۔ جب ہم اسے پڑھيں توآپ اس پڑھنے كى پيروى كريں۔پھر بلاشبہ اس كاواضح كرنا ہمارے ذمہ ہے۔“

 

قرآن كرىم اور اسكى شرح و تفسىر ىعنى سنت نبوى ﷺ دونوں كى تشرىعى حىثىت تسلىم كرنا اور فہم حاصل كرنا انتہائى ضرورى ہے، كيونكہ يہى تو خالق كائنات كى طرف سے انسانوں كى ہدايت وراہنمائى ونجات كا واحد اور بنيادى راستہ و ذريعہ ہے ۔ اىك مسلمان سنت كا جس قدر وسىع علم ركھے گا،اسے قرآن كو سمجھنے اور اس سے احكام مستنبط كرنے مىںاتنی زیادہ آسانى ہوگى اور جو جس قدر علم حدىث سے بےبہرہ ہوگا،اسى قدر حقیقی فہمِ قرآن سے محروم رہے گا،يعنى دونوں لازم و ملزوم ہيں۔ ايك كے بغير دوسرے كا تصور ممكن نہيں۔خلاصہ يہ كہ وحى قرآن اور حديث كانام ہے ۔اور دونوں كى حفاظت رب العلمين خود لى ہے۔

 

إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[65]

 

”بے شك ہم نے ذكر كونازل كيا اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں“۔

 

اور ان كى حفاظت كيسے ہوئى يہ بذات خود ايك بہت بڑا موضوع ہے، مختصراً يہ كہ جس طرح قرآن كا ايك ايك حرف اور ايك ايك قراءت محفوظ ہے ،نبى کریم ﷺ كا ايك ايك فرمان بھى اسى طرح محفوظ ہے۔ان كى حفاظت كے اسباب ميں سے ايك يہ ہے كہ قراءت اور حديث كى صحت كادارومدار استاد سے پڑھنے اور اس کو یاد رکھنے پرہےاور حدثنا ، اخبرنا كتابوں سے نہيں ہوتا،ہمارا دين حدثنا، اخبرنا كے بغير مقبول نہيں اور حدثنا ، اخبرنا صرف استاد سے ہوتا ہے، آئمہ قراءت اور آئمہ محدثين يعنى دونوں كےہاں ايسے آدمى كا علم مقبول نہيں جس نے استاد كے سامنے بيٹھ كر زانوائے تلمذ طے نہ كيےہوں ۔اس كا يہ علم منقطع السند ہوگا اور يہ قراء اور محدثين دونوں كے ہاں ضعف كى علامت ہےاور ايسے علم كى نسبت ہم اللہ كے نبى ﷺ كى طرف نہيں كرسكتے ۔كيونكہ فرمان نبوى ہےجسےمغيره بن شعبہ﷜ روايت كرتے ہيں كہ نبى كريم ﷺ نے فرمايا:

 

«مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»[66]

 

” جس نےجان بوجھ كر مجھ پر جھوٹ بولا، اسے چاہيے كہ اپنا ٹھكانہ آگ ميں بنالے“۔

 

اس ليے سلف صالحين نے چاہے قراءت كاعلم ہو يا حديث كا اس ميں سند كا خصوصى اہتمام كياہے اورجيسا كہ اس مقالہ ميں اس حوالہ سے ان آئمہ كرام كى اسانيد كو بيان كياگيا ہے۔ اور يہ وہ تابعين كرام ہيں جن كى سند نبى كريم ﷺ تك محفوظ ہے اور ان ہى ميں آئمہ قراءات سبعہ وعشرہ بھى ہيں يا وہ ان سے قراءات نقل كرنے والےيعنى تبع تابعين ميں سے ہيں۔ يعنى تابعين كرام ايسا گرو ہ ہے جس نےدين كو چاہے وہ قرآ ن ہو ياحديث متصل وصحيح سند كے ساتھ من وعن اسى طرح آگےتبع تابعين ميں منتقل كيا جس طرح انھوں نے صحابہ كرام سے سيكھا۔

 

صحابہ كرام﷢ كى صحبت سے فيض حاصل كرنے والے، مستفيد ہونے والے علم كے جامع تھے، يعنى كہ وہ نہ صرف قارى تھے بلكہ مفسر و محدث بھى تھے مزىد ىہ كہ عجمى ہونے كے ساتھ ساتھ عربى زبان كے بھى ماہر تھے ۔ تابعين كے زمانہ كے بعد جب ہمتيں پست ہوئيں ياكسى شخص نے كسى ايك ہى ميدان كواپنايا ، اس ميں مہارت تامہ حاصل كى تو وہ اس شعبہ ميں پھر امامت كے درجہ فائز ہوا۔

 

صحابہ كرام﷢ كى ايك بہت بڑى تعداد ہے جو حفاظ اور قراء تھے، اور ان ميں سے بعض تو وہ ہيں جن سے نبى كريم ﷺ نے قرآن سيكھنے كا حكم ديا ۔

 

"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «اسْتَقْرِئُوا القُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ، مِنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَسَالِمٍ، مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَأُبَيٍّ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ»".[67]

 

”چار اشخاص سےقرآن پڑھو، عبداللہ بن مسعود ، سالم ابو حذيفہ كے آزاد كردہ غلام،ابى بن كعب اور معاذ بن جبل﷢ سے۔“

 

جن ميں سيدنا معاذ بن جبل ﷜١٨ھ،سالم مولى ابو حذيفہ﷜12ھ،عبد اللہ بن عمر﷜٧٣ھ،عقبہ بن عامر﷜60ھ ايسى شخصيات ہيں كہ ان كى قراءات ہم تك نہيں پہنچيں۔[68]اس كى وجہ یہ ہے کہ كہ ان ميں سے بعض كى وفات جلد ہوگئى اور انھيں اپنے علم كو آگےمنتقل كرنے كا موقع نہ مل سكا۔

 

اس علم كو محفوظ كرنے كے ليے علماء محققين وماہرين نے نے قراءت كے قبول ہونے كے ليے تين شرائط مقرر كى ہيں كہ ان كى اسناد نبى كريم ﷺ تك متصل، صحيح اور تواتر كے ساتھ ثابت ہوں، يہ قراءات و روايات رسم عثمانى اور لغت عربيہ كے موافق بھى ہوں، جيسا كہ امام ابن الجزرى نےطيبۃ النشر ميں قراءت كے ان اركان ثلاثہ كو واضح كياہے فرماتے ہيں:

 

"فَكُلُّ مَا وَافَقَ وَجْهَ نَحْوِ ... وَكَانَ ِللرَّسْمِ احْتِمَالاً يَحْوِي

 

وَصَحَّ إسْناداً هُوَ الْقُرآنُ ... فَهَذِهِ الثَّلاثَةُ الأَرْكَانُ

 

وَحَيثُماَ يَخْتَلُّ رُكْنٌ أَثْبِتِ ... شُذُوذَهُ لَوْ أنَّهُ فِي السَّبعَةِ". [69]

 

"پس(كسى قراءت كےصحيح ہونے كى شرائط يہ ہيں كہ)وہ كسى نحوى وجہ كےمطابق ہو اور رسم كے موافق ہوچاہےوہ احتمالاًہى ہو۔ اور صحيح سند سےمنقول ہو تو يہ قرآن ہے پس يہ تين اركان ہيں۔ اور جس مقام پر كسى بھى ركن ميں خلل آجائے تويہ اس قراءت كوشاذ ثابت كردے گاچاہے وہ آئمہ سبعہ ہى كى قراءت ہو۔"

 

ان اشعار ميں علامہ ابن جزرى﷫ كسى قراءت كےصحيح متصل الاسناد ہونے كے متعلق تين قوانين ذكرفرمارہے ہيں اور انہى تين قوانين پر چانج كر كسى قراءت كے صحيح اورغير صحيح ہونے كا علم ہوتا ہے۔

 

اول:اس قراءت كا كسى نحوى وجہ كے مطابق ہونا ضرورى ہے۔

 

دوم: اس قراءت كا رسم عثمان غنى﷜ كے تحرير كردہ مصاحف ميں سے كسى مصحف كے مطابق ہو۔

 

سوم:وہ قراءت صحيح اور متواتر سند سے آنحضرتﷺ سے ثابت ہو۔

 

جس قراءت ميں ان اركان ميں سے ايك ركن بھى رہ گيا تو وہ قراءت صحيح نہيں ہوگى بلكہ شاذ ميں شمار ہوگى جبكہ قراءت شاذہ ادبى، نحوى اور تفسيرى اعتبار سے بہت شاندار ہيں ، فقہاء اس سے بہت سے مسائل كا استنباط كرتے ہيں مگر شاذ ہونے كى وجہ سے ان تين اركان ميں سے كسى ركن كانہ ہونا ہے يعنى رسم كے موافق نہيں ہے يا اس كى نبى كريم ﷺ تك سند ثابت نہيں ہے وغيرہ اس ليے شاذ قراءات مقبول نہيں ہيں اور شاذ قراءات ميں مندرجہ ذيل چار آئمہ معروف ہيں :

 

١-امام محمدبن محيصن٢-يحيى بن مبارك يزيدى ٣-حسن بصرى٤-سليمان بن مہران اعمش

 

امام حسن بصرى اور سليمان بن مہران اعمش معروف علمى شخصيات ہونے كے باوجود ان كى قراءت كو شاذ كہا گيا ہے كيونكہ يہ اصول قراءات پر مكمل نہيں اتريں۔

 

قراءت كا مدار نقل(سند ) پر ہے : ان تابعين كرام نےويسے ہى تبع تابعين كومن وعن اسى طرح سكھايا جس طرح انھوں نے خود صحابہ كرام ﷢ سے سيكھا تھا، ايك حرف حتى كہ ايك حركت كو بھى تبديل نہيں كيا اس كى ايك وجہ تو نبى كريم ﷺ كا فرمان ہے جسےعلى﷜ روايت كرتے ہيں:

 

"وَقَال عَلِيٌّ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَقْرَؤُوا كَمَا عُلِّمْتُمْ))". [70]

 

"يقيناً اللہ كے رسول ﷺ قرآ ن ايسے پڑہنے كاحكم ديتے ہيں جيسے تمھيں سكھايا گيا ہے۔“

 

دوسرى وجہ قراءت ميں قياس كا كوئى دخل نہيں ہے، فقہى قياس اوراجتہادى رائے سے اس كا كوئى تعلق نہيں جيسا كہ امام شاطبى ﷫ فرماتے ہيں:

 

"وَمَا لِقِيَاسٍ فِي الْقِرَاءة مَدْخَلٌ ... فَدُونَكَ مَا فِيهِ الرِّضاَ مُتَكَفِّلَا".[71]

 

"فن قراءت ميں قياس كےليے كوئى جگہ نہيں ہےپس تو اس ميں وہى چيز لے جوپسنديدہ ہے (يعنى نقل متواتر) اس حال ميں كہ تو اس كا ذمہ دار بننے والا ہے۔"

 

فقہاء اور قراء كے اختلاف ميں فرق يہ ہے كہ فقہاء كا اختلاف اجتہادى ہوتا ہے اور قراء كا روايتى، اسى وجہ سےفقہ كى اختلافى وجوہ ميں سے ايك صحيح و درست ہے باقى ميں خطا كا احتمال ہےجبكہ قراءت كى اختلافى وجوہ ميں سے ہر ايك صحيح ، حق، منزل من اللہ اور كلام الٰہى ہے۔ جس صحابى اورتابعى كى طرف اس وجہ كى نسبت ہوتى ہے اس نے اس كواسى طرح پڑھا تھااور وہ اس كے ليے اضبط اور اقراء تھا۔اس ليے قرآن كا بالمشافہ كسى قارى سے سيكھنا ضرورى ہے۔

 

عبد الرحمن بن ہرمز اعرج، مجاہد بن جبر يا جبير، سعيد بن جبير، ابو عبدالرحمن سلمی کوفی عبداللہ بن حبیب ، زر بن حبيش، اعمش سليمان بن مہران، محمد بن عبد الرحمن بن ابى ليلى، حمران بن اعين، جعفر بن محمد صادق وغيرہ تابعين ميں سے يہ وہ مكرم ہستياں ہيں جو علم كا سمندر تھے،عربيت كے ساتھ ساتھ قرآن اورحديث دونوں ميں مہارت ركھتے تھے،ان كے بعد آنے والوں كو ہمتيں پست ہوئىں تو انھوں نے كسى ايك ميدان ميں مہارت حاصل كى اور اس علم ميں امام بن گئے، مثلاًامام نافع اور امام ابوجعفر يزيدبن قعقاع مدينہ ميں، امام عبد اللہ بن كثير مكہ ميں، امام ابوعمرواورامام يعقوب بصرہ ميں ، امام عبد اللہ بن عامر شام ميں، امام عاصم ،امام حمزہ، امام كسائى اورامام خلف كوفہ ميں قراءت كے امام مانے جاتے ہيں كيونكہ ان لوگوں نے اپنى پورى زندگى صرف اسى كام كے ليے وقف كردى تھى۔

 

ليكن ان آئمہ كرام تك يہ علم ان تابعين كرام﷭ كے ذريعہ ہى پہنچا ہے،اگرچہ وہ اس علم ميں امام نہيں گردانے گئےليكن وہ اس علم كاواسطہ وذريعہ بن گئے۔جيسے كہا جاتا ہے كہ يہ امام عاصم كى قراءت ہے، يہ امام نافع كى قراءت ہےوغيرہ اس طرح ان تابعين كى طرف اس قراءت كو منسوب نہيں كياجاتا جيسے عبدالرحمن ہرمز كى قراءت ، مجاہدبن جبير كى قراءت وغيرہ ليكن يہ تابعين كرام اس علم كے ناقلين ہيں ، پہچانے والے ہيں اور انھوں نے صحابہ كرام﷢ سے جيسے سيكھا،پڑھا ويسے ہى من وعن اسى طرح اسے آگے پہنچا ديا ، انہيں كے بارے ميں امام شاطبى ﷫ فرماتے ہيں:

 

"جَزَى اللهُ بِالْخَيْرَاتِ عَنَّا أَئِمَّةً ... لَنَا نَقَلُوا القُرَآنَ عَذْباً وَسَلْسَلَا".[72]

 

"الله تعالى ہمارى طرف سے ان اماموں كو بہترين جزا دے جنھوں نےقرآن كو ہم تك پہونچايااس شان سے كہ وہ نہايت شيريں اور مسلسل (الى رسول اللہ ﷺ )ہے۔"

 

 

نتائج

يہ تمام كے تمام شيوخ ثقات اورمتقنين تابعين ميں سے ہيں جنھوں نے صحابہ كرام ﷢كى صحبت سے فيض حاصل كيا اور صحابہ كرام ﷢نے براہ راست نبى اكرمﷺ سے سيكھا اور نبى اكرمﷺ نے روح القدس ،جبريل امين كےواسطہ سے اللہ احكم الحاكمين سے اس قرآن مجيد كو سيكھا ، ياد كيا تو يہ سند متواتر نبى كريمﷺ تك نہيں بلكہ اللہ رب العزت تك پہنچتى ہے جس سے اس كتاب كامعجزہ ہونا ظاہر ہوتا ہے كہ يہ كتاب تا قيامت اسى طرح محفوظ رہے گى، ارشاد بارى تعالى ہے۔

 

لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ[73]

 

”اس كےپاس باطل نہ اس كے آگے سے آتا ہےاور نہ اس كے پيچھےسے، ايك كمال حكمت والے ، تمام خوبيوں والے كى طرف سے اتارى ہوئى ہے۔“

 

اس آيت مباركہ كے مختلف مفہوم بيان كيے گئے ہيں ان ميں سے:

 

ايك يہ ہے كہ پہلے كى كوئى كتاب يا تحقيق اس قرآن كى كسى بات كو غلط يا باطل ثابت نہيں كر سكتى اور نہ ہى بعد كى كوئى كتاب يا تحقيق اس كى كسى بات كو غلط ثابت كر سكے گى ۔

 

دوسرا مطلب يہ ہے كہ اس ميں باطل كى آميزش نہ كوئى كھلم كھلا كر سكتا ہے نہ چورى چھپے، جيسا پہلى كتابوں كے ساتھ ہوا ، بلكہ اس كى حفاظت كاذمہ اللہ تعالى نے لياہے ۔

 

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[74]

 

”بے شك ہم نے ذكر كونازل كيا اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں“۔

 

﴿حكيم﴾ وہ جسكى كسى تدبير ميں خطا نہ ہو اور ﴿حميد﴾ وہ جس كے كسى فعل كى مذمت نہ ہوسكے۔[75]

 

دوسرا ان قراءت كے شيوخ ميں بڑے بڑے محدث بھى ہيں مثلاً عبدالرحمن بن ہرمز اعرج، مجاہد بن جبير، سعيد بن جبير، حسن بصرى، محمد بن عبد الرحمن بن ابى ليلى، جعفر بن محمد الصادق، سلام بن سليمان، اسحاق مسيبى ، يحيى بن آدم و غيرہ جو قراءت ميں اتنے مشہور ومعروف نہيں ہوئے جتنا حديث ميں۔

 

تيسرا يہ كہ جس طرح آئمہ قراءات نے قراءات كے علاوہ حدىث كى خدمت كى، اسى طرح محدثىن بھى حدىث كے علاوہ علم قراءات مىں خدمت سرانجام دىتے رہے۔واللہ اعلم بالصواب ۔

 

تيسرا يہ كہ جس طرح آئمہ قراءات نے قراءات كے علاوہ حدىث كى خدمت كى، اسى طرح محدثىن بھى حدىث كے علاوہ علم قراءات مىں خدمت سرانجام دىتے رہے۔واللہ اعلم بالصواب ۔

 

حوالہ جات

  1. حوالہ جات

     

    .سورۃ الحجر: ٩
  2. . بنّاء،احمد بن محمد دمياطى، شہاب الدين (م:1117ھ)،إتحاف فضلاء البشر فى القراءات الأربعۃ عشر،محقق: د.شعبان محمد اسماعيل،ناشر: عالم الكتب ، بيروت، لبنان،طبع: اول، ١٩٨٧ء:(1/67)
  3. . ايضاً
  4. . بخارى ،محمد بن اسماعىل، ابو عبدالله (م:٢٥٢ھ)صحىح بخارى، دار السلام، رىاض،طبع،دوم،١٩٩٩:رقم الحديث:٤٩٩٢
  5. . عبد الرحمن بن اسماعيل بن ابراہيم مقدسى دمشقيّ، ابو القاسم، شہاب الدين،اأبو شامہ: مؤرخ، محدث، مقرى اور فقيہ،دمشق ميں 599ھ ميں پيدا ہوئے، اور يہيں 665 ھ ميں وفات پائى۔ قراءت ميں آپ كى كتابوں ميں إبراز المعانى شرح شاطبيہ اور مفردات القراء ہيں ۔صلاح الدين ،محمد بن شاكر (م:764ھ)، فوات الوفيات، محقق: احسان عباس، ناشر: دار صادر ، بيروت طبع: اول، 1974 (٢/٢٦٩)
  6. . محمد بن محمد بن محمد بن على بن يوسف، ابو الخير، شمس الدين، دمشقى ، ابن الجزرى كے لقب سے مشہور ہيں (م: 833ھ) اپنے زمانے كے شيخ القراء اور حفاظ حديث ميں سے ہيں، قراءت ميں بہت سى مفيد كتب تاليف كيں ان ميں ”الدرۃ“ ، ”طيبۃ النشر“ ، ”منجد المقرئين“ اور ” غايۃ النہايۃ فى طبقات القراء“اس كے علاوہ وظائف و اذكار ميں ”حصن حصين“ بہت ہى معروف كتاب ہے۔ مزيد تفصيل كےليے ديكھيے:سخاوى، محمد بن عبد الرحمن: (م: 902ھ)، الضوء اللامع لأہل القرن التاسع، ناشر: منشورات دار مكتبۃالحياة ، بيروت: ٢/ 193
  7. . سيوطى،عبد الرحمن بن ابى بكر، جلال الدين (م: 911ھ)،الإتقان فى علوم القرآن،محقق: احمد بن على،ناشر: دار الحديث،قاہرہ، مصر،طبع: ٢٠٠٤ ء:١/٢٤٢
  8. .ايضاً
  9. . ذہبی، محمد بن احمد بن عثمان، شمس الدين ، ابو عبد اللہ (م:748ھ)، معرفۃالقراء الكبار على الطبقات والأعصار، محقق : د.طيار آلتى قولاچ ،ناشر: دار عالم الكتب ، طبع: اول، ٢٠٠٣ء: ١/٢٤ تا٤٢
  10. . سيوطى،عبد الرحمن بن ابى بكر، جلال الدين ( 911ھ)،الإتقان فى علوم القرآن،محقق: احمد بن على،ناشر: دار الحديث،قاہرہ، مصر،طبع: ٢٠٠٤ ء:١/٢٢٤
  11. . سخاوى، علم الدين (٦٤٣ھ )،جمال القراء وكمال الإقراء، تحقيق :على حسين البواب، ناشر: المكتبۃ التراث ، المكۃالمكرمۃ،طبع: اول،١٩٨٧، ص:٤٢٨ ، سيوطى، الإتقان فى علوم القرآن:١/٢٢٥
  12. . سخاوى، علم الدين (٦٤٣ھ )،جمال القراء وكمال الإقراء، تحقيق :على حسين البواب ناشر: المكتبۃ التراث ، المكۃالمكرمۃ،طبع: اول،١٩٨٧، ص:٤٢٨ و ٤٢٩
  13. . المزى، يوسف بن عبد الرحمن ، ابو الحجاج، (م:742ھ)، تہذيب الكمال فى اسماء الرجال ، محقق: د. بشار عواد معروف ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ ، بيروت طبع: اول، 1980ء: 17/467،ذہبى ،سیر اعلام النبلاء: ٩/3٤٦ و معرفۃالقراء الكبار: ١/١٨٠،١٨١
  14. . ابن مجاہد ،احمد بن موسى بن عباس تميمى بغدادى، ابو بكر (م:324ھ) كتاب السبعۃ فى القراءات، محقق: شوقى ضيف، ناشر: دار المعارف ،مصر، طبع: دوم، 1400ھ ، ص:٥٥
  15. . عجلى، احمد بن عبد اللہ بن صالح، الكوفى، ابو الحسن (م:261ھ) معرفۃ الثقات من رجال اہل العلم والحديث ومن الضعفاء ، محقق: عبد العليم عبد العظيم بستوى ناشر: مكتبۃ الدار ، المدينۃ المنورة ، السعوديۃ،طبع: اول، 1985ء:٢/٢٧٦
  16. . ابن حجر ، احمد بن على ، عسقلانى (م:852ھ)، تقريب التہذيب، ناشر: دار المعرفۃ بيروت لبنان،طبع سوئم، ٢٠٠١ء:٢/٢٥١
  17. . ذہبی، محمد بن احمد بن عثمان، ابو عبد اللہ (م:748ھ)،الكاشف فى معرفۃمن لہ روايۃفى الكتب الستۃ،محقق: محمد عوامۃاحمد محمد نمر الخطيب ،ناشر: دار القبلۃ للثقافۃالإسلاميۃ ،جدة ،طبع: اول، 1992ء:٢/٢٥٨
  18. . ابن مجاہد ، كتاب السبعۃ فى القراءات، ص:٦١
  19. . معرفۃالقراء الكبار: ١/١٨٤، المزى، يوسف بن عبد الرحمن ، ابو الحجاج، (م:742ھ)، تہذيب الكمال فى اسماء الرجال ، محقق: د. بشار عواد معروف ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ ، بيروت طبع: اول، 1980ء:٢٧/٤٩٥
  20. . ابن حجر، تقريب التہذيب:٢/٣٧٣
  21. . ذہبی، الكاشف فى معرفۃمن لہ روايۃفى الكتب الستۃ:٢/٣٨٢
  22. . المزى، تہذيب الكمال فى اسماء الرجال :٣٢/١٢٢
  23. . ابن مجاہد ، كتاب السبعۃ فى القراءات، ص:٦١
  24. . سیر اعلام النبلاء: ٤/٤٤٩، معرفۃالقراء الكبار: ١/١٦٣، تہذيب الكمال:٢٧/٢٢٨
  25. . معرفۃالقراء الكبار: ١/١٦٤
  26. . تہذيب الكمال:٢٧/٢٢٩
  27. .ايضاً:٢٧/٢٣٠
  28. . معرفۃالقراء الكبار: ١/١٦٤
  29. . ابن مجاہد ، كتاب السبعۃ فى القراءات،ص:٦٤
  30. . سیر اعلام النبلاء: ٤/٣٢١، معرفۃالقراء الكبار: ١/١٦٥، تہذيب الكمال:10/358
  31. . ابن مجاہد ، كتاب السبعۃ فى القراءات،ص:٨٣
  32. . ايضاً
  33. . معرفۃالقراء الكبار: ١/١٤٦، تہذيب الكمال:1٤/٤٠٨
  34. . معرفۃالقراء الكبار: ١/١٤٣، غايۃ النہايۃ: ١/294،سیر اعلام النبلاء: ٤/١٦٦، تہذيب الكمال:٩/٣٣٥
  35. . السبعۃ فى القراءات: ص:٧٠
  36. . معرفۃالقراء الكبار: ١/٢١٤، غايۃ النہايۃ: ١/315،سیر اعلام النبلاء: ٦/٢٢٦، تہذيب الكمال:١٢/٧٦
  37. . سیر اعلام النبلاء: ٦/٢٢٨
  38. . ابن مجاہد ، كتاب السبعۃ فى القراءات،ص:٧٣
  39. . ايضاً،ص:٧٣
  40. . معرفۃالقراء الكبار: ١/٢٤٩، غايۃ النہايۃ: 2/165، تہذيب الكمال:25/622
  41. . ابن مجاہد ، كتاب السبعۃ فى القراءات،ص:٧٣
  42. . ايضاً،ص:٧٢
  43. . ايضاً،ص:٧٤
  44. . معرفۃالقراء الكبار: ١/١٧١، غايۃ النہايۃ: ١/261، تہذيب الكمال:7/306
  45. . ابن مجاہد ، كتاب السبعۃ فى القراءات،ص:٧٢
  46. . ايضاً،ص:٧٢
  47. . تہذيب الكمال:٥/٧٤،غايۃ النہايۃ: ١/١٩٦، سیر اعلام النبلاء: ٦/٢٥٥
  48. . ابن مجاہد ، كتاب السبعۃ فى القراءات:ص: ٧٣
  49. . تہذيب الكمال:٥/٧٤،غايۃ النہايۃ: ١/١٩٦
  50. . تہذيب الكمال:٢٣/١١،معرفۃالقراء الكبار: ١/٢٦٩، غايۃ النہايۃ: ١/612، سیر اعلام النبلاء: ٧/١٩٩
  51. . ابن مجاہد ، كتاب السبعۃ فى القراءات:ص: ٧٨
  52. . تقريب التہذيب:١/٣٢٨
  53. . قدريہ :تقدير كے منكرين كو قدريہ كہا جاتا ہے۔ان كےنظريات ميں سے ايك يہ ہے كہ ہر بندہ اپنے فعل كاخالق ہے،كفر اور نافرمانى اللہ سبحانہ وتعالى كى تقدير ميں نہيں ہيں۔ الله تعالى كا علم قديم نہيں ہے۔ ان كو نبى كريمﷺ نے مجوس ہذہ الأمۃ كہا ہے۔ ابن تيميہ، احمد بن عبد الحليم ، حرانى ، ابو العباس (728ھ)،العقيدة الواسطيۃ،محقق: ابو محمد اشرف بن عبد المقصود،ناشر: أضواء السلف ، الرياض، طبع: دوم، 1999ء، ص: ٠٨ ، جرجانى،على بن محمد زين شريف (816ھ)، التعريفات، محقق: محمد باسل عيون السود،ناشر: دار الكتب العلميۃ بيروت –لبنان،طبع: اول :٢٠١٣ء ، ص:١٧٤
  54. . معرفۃالقراء الكبار: ١/٣٢٨،غايۃ النہايۃ:١/3٠٩،تہذيب الكمال: ١٢/٢٨٨
  55. . غايۃ النہايۃ فى طبقات القراء : 2/386
  56. . تاريخ الإسلام: ٥/٢٣١
  57. .ايضاً
  58. . ايضاً
  59. . سیر اعلام النبلاء: 7/286، تہذيب الكمال: 5/22، غايۃ النہايۃ: ١/١٩٢
  60. . غايۃ النہايۃ فى طبقات القراء : 2/386
  61. . معرفۃالقراء الكبار: ١/٣١٢،غايۃ النہايۃ:١/١٥٧، تہذيب الكمال: 2/٤٧٣
  62. . معرفۃالقراء الكبار: ١/٣٤٢،غايۃ النہايۃ:١/3١٨، سیر اعلام النبلاء: ٩/٥٢٢، تہذيب الكمال: 31/188
  63. . النحل: ٤٤
  64. . القيامۃ: 17تا 19
  65. .الحجر: ٩
  66. . صحىح بخارى، رقم الحديث:1291
  67. .صحىح بخارى، رقم الحديث:٣٨٠٦
  68. . ذہبی، محمد بن احمد بن عثمان، شمس الدين ، ابو عبد اللہ (م:748ھ)، معرفۃالقراء الكبار على الطبقات والأعصار، محقق : د.طيار آلتى قولاچ ،ناشر: دار عالم الكتب ، طبع: اول، ٢٠٠٣ء: ١/٢٤ تا٤٢
  69. . ابن الجزرى، محمد بن محمد بن يوسف، ابو الخير (م: 833ھ )،مَتْنُ «طَيِّبَۃالنَّشْرِ» فِى الْقِرَاءَاتِ الْعَشْرِ، محقق: محمد تميم الزعبى،ناشر: دار الہدى، جدة، طبع: اول، 1994 م: ص:٣٢
  70. . ابن حبان، محمد بن حبان ، ابو حاتم (م:354ھ)، الإحسان فى تقريب صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان محقق: شعيب الأرنؤوط، ناشر: مؤسسۃالرسالۃ ،بيروت، طبع: اول،١٩٨٨ء،رقم الحديث:٧٤٦
  71. . شاطبى ،قاسم بن فيرہ بن خلف رعينى، ابو محمد (م: 590ھ) محقق: محمد تميم الزعبى، حرز الأمانى ووجہ التہانى ، ناشر: مكتبۃ اولاد الشيخ للتراث طبع:نہم، 20١5 م:ص:29
  72. . شاطبى ، حرز الأمانى ووجہ التہانى:ص:٢
  73. .فصلت: 42
  74. .الحجر: ٩
  75. .بھٹوى،عبد السلام بن محمد،حافظ، تفسير القرآن الكريم ، ناشر :دار الاندلس طبع: اول اشاعت نداراد:٤/٩٧
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...