Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 2 of Al-ʿILM

غربت کے خاتمہ کے لیے ازواجِ مطہرات کی مساعی |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060040263_993

Pages

79-100

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/30/28

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/30

Subjects

Plebian uplift UMMAHATUL-MOMINEEN'S reole Equality Code of ethic

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

غربت کے خاتمہ اور غرباء کے ساتھ حسنِ سلوک کا ذکر کیا جاتا ہے تو ذہن سب سے پہلے مالی

 

تعاون کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اسلام نے مال کے انفاق پر زور دے کر اور اس کے اجرو ثواب کا ذکر کر کے اس کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کے مال میں معاشرہ کے نادار، بے کس اور وسائل سے محروم افراد کا حق ہے۔ اس حق کو ادا کرنے کی وہ ترغیب دیتا ہے۔ازواج مطہرات اس حوالہ سے بھی امت کے لئے نمونہ ہیں۔اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اشیاء یعنی دولت میں سے غریبوں کی مدد کرنا کارِ خیر ہے اور بہت ثواب کا کام ہے۔

 

i۔انفاق فی سبیل اللہ:

 

انفاق فی سبیل اللہ بھی غربت کے خاتمہ کی ایک صورت ہے۔ انفاق کے معنی ہیں کسی چیز کو خرچ کرنا۔ جب یہ خرچ اللہ پاک کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کسی کارِ خیر میں کیا جائے تو اسے انفاق فی سبیل اللہ کہا جائے گا۔ انفاق فی سبیل اللہ کے وسیع مفہوم میں ہر اس شے کے خرچ کرنے پر انفاق کا اطلاق ہوتا ہے۔ جس پر انسان کو اختیار حاصل ہو۔ مال کے ساتھ ساتھ جسمانی و ذہنی صلاحیت، اولاد، املاک وغیرہ اللہ کی راہ میں لگا دینا بھی انفاق فی سبیل اللہ میں آتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَکُم مُستَخلَفِینَ فِیہ([1])

 

"اور اس کی راہ میں کچھ وہ خرچ کرو جس میں تمہیں اوروں کا جانشین کیا "

 

اسلام امن و سلامتی، اصلاح و فلاح ، انفاق فی سبیل اللہ اور غربت کے خاتمہ کا دین ہے۔ جس کا پیغام اور نظامِ فلاح معاشرہ اور اصلاحِ انسانیت ہے۔

 

انفاق فی سبیل اللہ غربت کے خاتمہ کے لیے انتہائی خوبصورت پہلو ہے۔ کیونکہ بندوں کی ضرورت اور احتیاج پوری کرنے کے لیے مال خرچ کرنا،اللہ کے دین کی تبلیغ اور غلبہ کے لیے مال خرچ کرنا ،غربت کا خاتمہ ہے۔ کسی کا قرض ادا کر دینا یا قرض معاف کر دینا، کسی کو غلامی سے نجات دلوانا بھی انفاق فی سبیل اللہ کے ضمن میں ہی آتے ہیں۔انفاق فی سبیل اللہ کا اجربے حساب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

 

مَن ذَا الَّذِی یُقرِضُ اللَّہَ قَرضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہُ لَہُ وَلَہُ أَجرٌ کَرِیمٌ ([2])

 

"کون ہے جو اللہ کو قرض دے اچھا قرض تو وہ اس کے لیے دوگنے کرے اور اس کو عزت کا ثواب ہے"

 

نبی کریم ﷺ عورتوں کی طرف تشریف لائے آپ ﷺ کے ساتھ بلالؓ تھے۔ آپ ﷺ نے

 

فَأَمَرَھُنَّ بِالصَّدَقَۃِ فَجَعَلَتِ الْمَرْأَۃُ تُلْقَي قُرْطَھَا ([3]) "تو وہ اپنی بالیاں بلالؓ کی جھولی میں ڈالنے لگیں"

 

ازواج مطہرات کا جذبہ جو دو سخا مثالی تھا۔ انفاق فی سبیل اللہ کی بابت آیاتِ قرآنیہ کے تناظر میں فرمانِ الٰہی کے مطابق بے پایاں اجرو ثواب کے حصول کی خاطر ازواج مطہرات نے اللہ پاک کے راستے میں بے دریغ مال خرچ کیا۔ انھیں اس بات کی کوئی فکر نہ ہوتی تھی کہ ان کے اپنے لیے بھی کچھ ہے یا نہیں۔ وہ سب کچھ خدا کی راہ میں خرچ کر دیا کرتی تھیں۔ کوئی سائل ان کے در سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا تھا۔ غریبوں ، مسکینوں، یتیموں کی ضروریات حتی الوسع پوری فرما دیا کرتی تھیں۔ ہمیشہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتی تھیں۔ اور دوسروں کو انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ خود عملی طور پر بھی مخلوقِ خدا کی خدمت کا فريضہ انجام دیتی تھیں۔ جیسا کہ تمام ازواج مطہرات اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں کنجوسی نہیں کرتی تھیں ان میں سیدہ خدیجہؓ کی مثال نہیں ملتی درج ذیل امثال سے مزید وضاحت ہوتی ہے۔

 

اُم المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا (۶۸۔۳ ق ھ:۵۵۶۔۶۲۰م) ([4]) عام الفیل سے پندرہ سال قبل پیدا ہوئیں([5]) اور ہجرت سے تین سال قبل بعثت کے دسویں سال گیارہ رمضان المبارک ۱۰ ؁ نبوی کو وفات پائی۔([6]) نہایت معزز اور امیر گھرانے سے تھیں مگر حضرت محمد ﷺ سے نکاح کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سار امال غربت کے خاتمہ میں صرف ہونے لگا۔ انھوں نے اپنا سار امال اللہ کی راہ میں نثار کر دیا۔ خود اپنے گھر میں کئی کئی دن چولہا نہ جلتا تھا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کی خواہاں تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا بہت ر حم دل تھیں اور نیکی کرنے میں ذرا بھی پس و پیش نہ کرتی تھیں۔ اسلام لانے کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا سار امال اللہ کی راہ میں لٹا دیا۔

 

شعبِ ابی طالب میں قید کے زمانہ میں حالات سنگین ہو گئے غلّے اور سامان خوردو نوش کی آمد بند ہو گئی اور مسلمان درختوں کے پتے کھانے پر مجبور تھے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے تجربے اور وجاہت کے سبب حکیم بن حزام کے ذریعہ خفیہ طور پر گیہوں منگواتیں اور اپنے گھر والوں سے پہلے دیگر مسلمانوں میں تقسیم فرما دیتی تھیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ خود کو بھول جاتیں اور ان کے اپنے لیے کچھ نہ بچتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اسلام لانے کے بعد اور اسلام لانے سے پہلے بھی غریب گھرانوں کے لیے رقمیں مقرر

 

کر رکھی تھیں جو انھیں خفیہ طور پر بھجوا دیتی تھیں۔ ([7])

 

غرُبا پروری اور سخاوت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی امتیازی خصوصیات تھیں۔ تمام ازواج مطہرات محتاجوں مسکینوں ، غلاموں اور فقیروں پر مہربان ہونے اور ان پر خرچ کرنے میں مشہور تھیں۔ مصیبت زدوں مریضوں، بے کسوں، بے بسوں، ضرورت معذوروں کا سب سے پہلے خیال کرتی تھیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ۔ (۹ق ھ۔۵۸ھ=۶۱۳ء۔۶۷۸م) ([8])

 

اُم المومنین سیدہ عائشہؓ کی ولادت اعلان نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ یعنی (شوال ۹ ق ھ) قبل ہجرت مطابق جولائی ۶۱۴ ؁ء۔ امیر معاویہؓ کی خلافت کا آخری حصہ سیدہ عائشہؓ کی زندگی کا آخری زمانہ ہے اس وقت ان کی عمر سٹرسٹھ (۶۷) برس تھی ۔ 51ہجری میں مہینہ بھر بیمار پڑیں، چند روز تک علیل رہیں۔ کوئی خیریت پوچھتا تو فرماتی، ’’ اچھی ہوں‘‘([9]) ازواج مطہرات میں حضرت عائشہؓ غریبوں کی مدد کرنے، بے کسوں کو سہارا دینے، مصیبت زدوں، بیماروں کی مدد کرنے میں ان کا شمار صف اول کی خواتین میں ہوتا ہے۔ آسودگی کے ایام میں بے شمار مال آیا لیکن شام سے پہلے فقراء و مساکین میں تقسیم کر دیا جاتا۔ حضرت عائشہؓ کی سیرت کا ایک تابناک پہلو آپؓ کی طبعی فیاضی اور کشادہ دستی تھی۔

 

"ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روزے سے تھیں اور گھر میں ایک روٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اسی حالت میں ایک مسکین نے سوال کیا۔ تو انہوں نے لونڈی سے کہا کہ وہ روٹی اس کو دے دو لونڈی نے کہا آپ رضی اللہ عنہا روزہ افطار کس چیز سے کریں گی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اس کو دے دو۔ شام ہوئی تو کسی نے بکری کا گوشت بھیجوا دیا۔ لونڈی کو بلا کر کہا لے کھا! یہ تیری روٹی سے بہتر ہے"([10])

 

وہ غربت کے خاتمہ کے جذبہ سے سرشار تھیں اور اَلخَلقُ عیال اللہ کی حاجت روائی ان کے پیشِ نظر تھی۔ قرآن پاک میں ایسے ہی پاک طنیت اور نیک لوگوں کے بارے میں ارشاد ہے:

 

وَیُطعِمُونَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہِ مِسکِیناًوَّ یَتِیماًوَّاَسِیراً([11])

 

"اور وہ اس (اللہ) کی محبت میں مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں"

 

ازواج ِمطہرات اس بات سے بخوبی آگاہ تھیں کہ اللہ پاک کے راستے میں خرچ کیا گیا مال اللہ

 

الباقی کے کرم سے باقی بن جاتا ہے۔ اور فانی کی صفت اس مال سے فنا ہو جاتی ہے اس لیے وہ دل کھول کر

 

اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتیں تھیں۔ اور اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے وقت وہ چیز کی کمی کو پیشِ خاطر نہ لاتیں جیسا کہ:

 

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی ۔ جس کے ساتھ اس کی دوبیٹیاں بھی تھیں تو انہوں نے اس کو تین کھجوریں دیں اس عورت نے ایک ایک کھجور ہر بیٹی کو دی اور تیسری کھجور کے دو ٹکڑے کر کے ان میں بانٹ دیئے پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت ﷺ کے پاس گئیں اور ماجرا بیان کیا"([12])

 

آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو بچیاں ان کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی۔ازواج مطہرات کے یہاں ایسا تھا کہ اُن کے در سے کوئی سائل خالی ہاتھ نہ لوٹتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سخاوت اور غربت کے خاتمہ کا انتہائی سبق آموز واقعہ پیش خدمت ہے۔

 

"حضرت اُمِّ ذرہ کہتی ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک لاکھ درہم آئے انہوں نے اسی وقت وہ سارے تقسیم کر دیئے اس دن ان کا روزہ تھا۔ میں نے ان سے کہا آپ رضی اللہ عنہا نے اتنا خرچ کیا ہے تو کیا آپ اپنے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتیں کہ افطار کے لیے ایک درہم کا گوشت منگوا لیتیں؟ انہوں نے کہا

 

(مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میرا روزہ ہے) اگر تم پہلے یاد کرا دیتی تو میں گوشت منگوا لیتی" ([13])

 

سیدنا امیر معاویہؓ نے سیدہ عائشہؓ کی خدمت میں ایک لاکھ درہم کا ہدیہ بھیجا۔ انہوں نے اسے قبول کر لیا اور رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات میں سارا مال تقسیم کر دیا اور اپنے لیے ایک درہم بھی نہ رکھا۔ ([14])

 

حضرت عروہؓ اپنا چشم دید واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدہ عائشہؓ کے پاس ستر (۷۰) ہزار درہم کی خطیر رقم آئی۔ انہوں نے میرے سامنے کھڑے کھڑے ساری رقم اللہ کی راہ میں خرچ کر دی اور دوپٹہ کا پلو جھاڑ دیا۔ اور اپنا یہ حال تھا کہ تقسیم کے وقت اپنے کرتہ میں پیوند لگا رہی تھیں۔ ([15])

 

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات کو اپنی فکر نہ تھی اور نہ کسی قسم کا ہوس و لالچ تھا۔

 

بلکہ ازواج مطہرات کا ممتاز جوہر ان کی طبعی فیاضی اور کشادہ دستی تھی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی درج

 

ذیل روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ازواج ِمطہرات دوسروں کی حاجت روائی کی کس حد تک طالب تھیں۔

 

عن عائشہ رضی اللہ عنہا انھا کانت تدان فقیل لھا مالک و للدین فقالت ان رسول اللہ قال ما من عبد کانت لہ نیۃ فی اداء دینہ الا کان لہ من اللہ عزوجل عون فانا التمس ذلک العون( [16])

 

"اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اکثر مقروض رہتی تھیں ادھر اُدھر سے قرض لیتی اور لوگوں کی حاجات پوری فرماتی تھیں۔ لوگوں نے عرض کی آپ رضی اللہ عنہا کو قرض لینے کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو آدمی قرض ادا کرنے کی نیت سے قرض لیتا ہے تو اللہ پاک اس کی اعانت فرماتا ہے اور میں اللہ پاک کی اس اعانت ہی کی متلاشی ہوں"

 

ازواج ِمطہرات سائل کی حسبِ حیثیت اعانت کا درس دیتی تھیں۔ زیرِ نظر واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ فقراء کے معاشرتی مرتبے کے مطابق ان سے پیش آتی تھیں۔

 

"ایک مرتبہ ایک معمولی حیثیت کا سائل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آیا آپ رضی اللہ عنہا نے اسے روٹی کا ٹکڑا دیا جسے لے کر وہ چلا گیا۔ اس کے بعد ایک اور سائل آیا جو صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اور کسی قدرعزت دار معلوم ہوتا تھا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے اس کے رتبے کا خیال فرماتے ہوئے اس سائل کو بٹھا کر کھانا کھلایا اور پھر رخصت کر دیا۔ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کہ ان دونوں آدمیوں کے درمیان دو قسم کا برتاؤ کیوں کیا گیا؟ فقالت قال رسول اللہ ﷺ انزلو الناس منازلھم یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کے ساتھ ان کے حسبِ حیثیت معاملہ کیا کرو"([17])

 

اسوۂ ازواج ِمطہرات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ بھی حسب حیثیت ضرورت پوری کرتی تھیں۔ہمیں اس عمل کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے جو آپ رضی اللہ عنہا کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ازواج مطہرات خیرات کرتے وقت تھوڑا یا بہت کا لحاظ نہیں کرتی تھیں بلکہ جو بھی پاس ہوتا سائل کی نذر کر دیتی تھیں۔

 

ان مسکینا استطعم عائشہ ازواج النبی و بین یدیھا عنب فقالت الانسان خذحبۃ

 

فاعطیہ ایاھا، جفعل ینظر الیھا و یعجب فقالت عائشہ اتعجب کم تری من ھذہ

 

الحبۃ من مثقال ذرۃ؟([18])

 

"ایک مسکین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کھانے کو کچھ مانگا اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے انگور رکھے ہوئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے ایک آدمی سے فرمایا کہ انگور کا ایک دانہ لے کر اس کو دے دو۔ وہ شخص (انگور کے دانے کی طرف)حیرت سے دیکھنے لگا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا تمہیں تعجب ہو رہا ہے؟ اس دانے میں تمہیں کتنے ذرے دکھائی دے رہے ہیں؟"

 

پھر آپ رضی اللہ عنہا نے اس آیت مبارکہ کو پڑھا:

 

فَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیرًا یَرَہُ([19]) "جس نے ذرہ برابر نیکی بھی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا"

 

اس کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ آدمی کی کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہیں ہو گی جو ا سکے نامۂ اعمال میں درج ہونے سے رہ گئی ہو۔ ایک ایک خدمت خواہ وہ کسی وقت پانی لاکر دے دینے یا پنکھا جھل دینے ہی کی خدمت ہو۔ الگ جزا دیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اپنا ایک

 

وزن اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے۔

 

گویا اگر انسان اپنے ہر عمل کے بارے میں اس انداز سے سوچے کہ معمولی ، ادنیٰ اور حقیر سے عمل پر بھی بدلہ ملنے والا ہے تو یہ خیال اور فکر انسان کی دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مندرجہ بالا مختصر سے واقعہ میں نصائح و مواعظ کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔غربت کے خاتمہ میں تمام ازواجِ مطہرات میں حضرت سیدہ سودہؓ کی فیاضی بے مثال تھی۔ دوسری امہات کی طرح انہوں نے بھی اپنی فیاضی کی بدولت بہت ثواب کمایا۔غربت کے خاتمہ میں تمام ازواج مطہرات ایک دوسرے سے بڑھ کر تھیں۔ اُم المومنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ (۰۰۰۔۶۷۴م) ([20]) قرشیہ اور عامریہ تھیں اور ان کی والدہ شموس بنت قیس تھیں کی فیاضی درج ذیل روایت سے ظاہر ہوتی ہے۔

 

اخرج ابن سعد بسند صحیح عن محمد بن سیرین ان عمر بعث الی سودہ بغرار تہ من دراھم فقالت ما ھذہ؟ قالوا دراھم قالت فی غرارۃ مثل التسر فقر قتھا([21])

 

"ابن سعد صحیح سند سے بحوالہ محمد بن سیرین روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے

 

حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس درھم کی ایک تھیلی بھیجی ۔ قاصد سے آپ رضی اللہ عنہا نے یہ پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا یہ درہم ہیں۔ کہنے لگیں کھجوروں کی طرح اتنے زیادہ درہم۔ پھر انہیں تقسیم کر

 

دیا"

 

ازواج مطہرات کو معلوم تھا کہ جو کچھ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر رہی ہیں۔ اس کا کتنا اجرو ثواب انہیں ملے گا۔ وہ کبھی بھی مال کو جمع کر کے نہیں رکھتی تھیں بلکہ فوراً اللہ کی راہ میں خرچ کردیتی تھیں۔جس طرح باقی امہات المومنین کی سخاوت و فیاضی کے چرچے تھے اسی طرح سیدہ زینب بنت حجشؓ بھی سارا مال غریبوں مسکینوں میں تقسیم کر دیتی تھیں ۔

 

سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا (۵۹۰۔۶۴۱م) ([22]) بہت مطیعِ شریعت تھیں۔ آپ انتہائی فیاض سخی، اور کھلے ہاتھ کی مالک تھیں۔ جو کچھ پاتی تھیں صدقہ کر دیتی تھیں۔ اللہ کی راہ میں بے حساب خرچ کیا کرتی تھیں۔ وہ خود جو بھی کماتیں تھیں وہ سارا ضرو تمندوں، محتاجوں کو دے دیا کرتیں

 

تھیں، اسی وجہ سے انہیں ”ماوٰی المساکین“ کہا جانے لگا۔

 

"برۃ فرماتی ہیں کہ سیدنا فاروق اعظم نے وظائف تقسیم فرمائے تو سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے خیال فرمایا کہ یہ مال تمام ازواج کا ہے لیکن انہیں بتایا گیا کہ یہ مال صرف آپ کے لیے ہے آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا سبحان اللہ! پھر اپنے اور اس مال کے درمیان ایک پردہ ڈال دیا۔ (تا کہ وہ مال نظر بھی نہ آئے) حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے برزہ کو حکم دیا یہ مال ایک طرف رکھ کر اس پر کپٹرا ڈال دو"

 

ثم قالت لی: ادخلی یدک فا قبضنی منہ، قبضہ فاذھبی بھا الی بنی فلاں و بنی فلاں من احل رحمھا و ایتامھا حتی بقیت منہ بقیۃ تحت الثوب([23])

 

"پھر باندی کو فرمایا اس کپڑے کے نیچے سے مٹھی بھر کر فلاں یتیم کو دے آؤ۔ فلاں ضرورتمند کو مٹھی بھر کر دے آؤ۔ جب اس طرح وہ مال تقسیم ہوتا رہا اور تھوڑا رہ گیا تو برزہ نے عرض کی اے اُم المومنین! اللہ پاک آپ کی مغفرت فرمائے اس مال میں آخر ہمارا بھی تو کچھ حق ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ۔ اس کپڑے کے نیچے جو باقی ہے وہ سب تم لے لو برزہ کہتی ہیں جب میں کپڑا اٹھا کر دیکھا تو اس کے نیچے ۸۵(پچاسی) ہزار درہم تھے۔ جب سب مال تقسیم ہو چکا تو حضرت زینب نے دعا مانگی اے اللہ اس سال کے بعد عمر کا وظیفہ مجھے نہ پائے"

 

اس واقعہ سے سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی سخاوت کا بخوبی علم ہو جاتاہے۔

 

ازواج ِمطہرات میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کماتی اور اللہ کی

 

راہ میں خرچ کر دیتی تھیں۔

 

"زینب رضی اللہ عنہا ہاتھ کی کاریگر تھیں۔ وہ رنگسازی اور سلائی کا کام کرتی تھیں اور جو حاصل ہوتا’’و تصدق‘‘ اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیتی تھیں" ([24])

 

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی سخاوت کے متعلق ایک روایت ہے کہ:

 

"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات نے فرمایا ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ ﷺ سے ملے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:"الطو لکن یدا" جس کے ہاتھ تم میں سے لمبے ہیں وہ مجھ سے ملنے میں تم سب سے سبقت لے جانے والی ہے اس کے بعد ازواج مطہرات نے بانس کا ٹکڑا لے کر اپنے اپنے ہاتھوں کو ناپنا شروع کر دیا۔ تا کہ جانیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ لمبے تھے لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تو ہم نے جانا کہ درازی سے"کانت اسرعنا الحوقا بہ، کانت تحب الصدقہ"([25]) مراد صدقہ و خیرات کی کثرت ہے وہ بہت زیادہ صدقہ و خیرات(انفاق فی سبیل اللہ) کرتی تھیں۔“

 

سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی سخاوت اور انفاق فی سبیل اللہ کی گواہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان الفاظ میں دیتی ہیں۔

 

قالت عائشہ و لم ار امراء ۃ منھا و اکثر صدقۃ وا وصل للرحم و ابذل لنفسھا فی کل شئیِِ یتقرب بہ الی اللہ عزوجل من زینب ([26])

 

"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر بہت زیادہ صدقہ کرنے والی، زیادہ صلہ رحمی کرنے والی خاتون نہیں دیکھی۔ اللہ عزوجل کی قربت حاصل کرنے کے لیے میں نے زینب رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو نا دیکھا"

 

ازواج مطہرات اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں کس قدر منہمک تھیں۔ اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے۔

 

"عن القاسم بن محمد قال قالت زینب حسین حضرتھا الوفاۃ انی قد اعددت کفنی وان عمر سیبعث الی بکفن فتصدقوا با حدھما"([27])

 

"ابو القاسم سے روایت ہے کہ جب حضرت زینب کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا کفن تیار کر رکھا ہے اگر عمر بھی میرے لیئے کفن بھیج دیں تو دونوں میں سے ایک صدقہ کر دینا"

 

اسی لیے تو سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا نے کفن صدقہ کرنے کی وصیت کی تا کہ اللہ پاک کی رضا حاصل ہو اور مخلوق اللہ کی خدمت کا فريضہ بھی سر انجام پائے۔

 

الغرض ازواج مطہرات اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت گزار تھیں ان کا دل تقویٰ کی دولت سے مالا مال تھا۔ خشیت الٰہی کے جذبہ سے سرشار تھیں۔ انہوں نے ہمیں درس دیا کہ اپنی محبوب ترین چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں اور اپنے مال کے ذریعے ضرورت مندوں اور محتاجوں کی حاجت روائی کر کے غربت کے خاتمہ کا فريضہ انجام دیں اور اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ ازواج مطہرات نے ہمیں درس دیا کہ مخلوق اللہ کی خدمت کرو۔ ان سے محبت کر نہ کہ مال سے۔

 

ii۔مظلوموں اور یتیموں کی کفالت

 

اسلام دین کامل ہے یہ تمام انسانوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت ان کے درجات اور مراتب کی پوری رعایت کرتا ہے اور ان کے حقوق کا تعین کرتا ہے۔ قرابتداروں سے محبت انسان کا فطری تقاضا ہے اور ان کی خدمت اخلاقی فرض لیکن اسلام "الخلق عیال" کہہ کر خدمت اور حسن سلوک کا دائرہ عالمگیر سطح تک لے جاتا ہے۔ سورۃ نساء میں اسی خدمت کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:

 

وَ بِالوَلِدَینَ اَحسَاناََ وَّبِذِی القُربیٰ وَالیَتَٰمیٰ وَ المسَٰکِن ([28])

 

"اور والدین ، قرابت داروں،یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرو"

 

اسلام سے قبل غلام انتہائی مظلوم تھے ان پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی جاتی تھی۔ اسلام نے مظلوموں، یتیموں اور غلاموں کے نہ صرف حقوق متعین کیے بلکہ اس عمل کو بے پایاں اجرو ثواب کا ذریعہ قرار دیا۔ اسی حسنِ سلوک کا نتیجہ تھا کہ حضرت زید بن حارث نے اپنے والد کے ساتھ جانے سے

 

انکار کر دیا تھا۔

 

قال النبی العبید اخوانکم فاطعمو ھم مما تاکلون([29])

 

"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا غلام تمہارے بھائی ہیں انہیں وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو"

 

رسول اللہ ﷺ نے غلاموں، مظلوموں، یتیموں، بے سہاروں ، مسکینوں، بیواؤں کی لمحہ بہ لمحہ

 

معاونت کی اور اس کا حکم دیا ۔ اللہ پاک نے فرمایا:

 

وَالسَّائِلِینَ وَفِی الرِّقَاب([30]) "اور سوال کرنے والوں کو دو اور غلاموں کو آزاد کرنے میں خرچ کرو"

 

مظلوموں اور یتیموں کی کفالت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:

 

وَمَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطَأً فَتَحرِیرُ رَقَبَۃٍ مُؤمِنَۃٍ وَدِیَۃٌ مُسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہلِہِ إِلَّا أَن یَصَّدَّقُو([31])

 

"اور وہ جو کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کرے تو اس پر ایک مملوک مسلمان آزاد کرنا ہے اور خون بہا، مقتول کے لوگوں کو سپرد کی جائے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں"

 

ازواج ِمطہرات نے غلاموں ، مظلوموں اور یتیموں کی کفالت کی ذمہ داری بطریق احسن نبھائی۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ تھے جس کے ساتھ ان کا حسنِ سلوک بے مثال تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک غلام سے آپ ﷺ کی ایمانداری کے بارے میں جان کر متاثر ہو گئیں۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام زید بن حارثہ ؓ کو آپ ﷺ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کر دیا تھا۔

 

ہر انسانی معاشرے میں ایک انتہائی کمزور اور بے یارو مدد گار طبقہ یتیم بچوں کا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل یہ طبقہ انتہائی مظلوم تھا۔ قرآن و سنت نے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کو اجر عظیم قرار دیا۔

 

ازواج مطہرات نہ صرف یتیموں کی کفالت و پرورش کرتی تھیں بلکہ ان کی تعلیم و تربیت اور شادی بیاہ کے فرائض بھی انجام دیتی تھیں۔ متعدد روایات ازواج مطہرات کی اس خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

 

اخبر نا مالک عن عبدالرحمن بن القاسم عن ابیہ ان عائشہ کانت تلی بنات اخیھا یا میٰ فی حجرہ([32])

 

"مالک بن عبدالرحمن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمد بن ابی

 

بکر کی لڑکیاں یتیم ہو گئیں۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی پرورش فرماتی تھیں"

 

ازواج مطہرات یتیموں کی پرورش کے ساتھ ساتھ نہایت دیانت سے ان کے مال کی نگہداشت

 

بھی کرتی تھیں۔ اور اس کو ضائع ہونے بچاتی تھیں۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نہ صرف خود یتیموں کی

 

پرورش کرتی تھیں بلکہ اُن کا مال لوگوں کو تجارت کے لیے دے دیتی تھیں۔ تاکہ بعد میں وہ معاشرے کے مفید شہری ثابت ہوں۔

 

ان عائشہ رضی اللہ عنہا زوج النبی کانت تعطی اموال الیتامیٰ الذین فی حجر ھا من یتجرلم فیھا([33])

 

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جن یتیموں کی پرورش کرتی تھیں۔ ان کے مال لوگوں کو دے دیتی تھیں کہ تجارت کے ذریعہ اس کو ترقی دیں"

 

عن مال عن عبدالرحمن بن القسم، عنہ ابیہ انہ قال کانت عائشہ تلینی، واخالی تیمین فی حجر ھا([34])

 

"قاسم بن محمد نے فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا میری اور میری دو یتیم بہنوں کی پرورش کرتی تھیں"

 

ازواج مطہرات مظلوموں اور یتیموں کی نہ صرف خود کفالت کرتی تھیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتی تھیں اس طرح سے بے کسوں اور بے بسوں کی ضروریات پوری ہو جاتی تھیں اور انہیں پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔

 

"حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہو گئیں اور ان کی بیماری لمبی ہو گئی اس دوران ایک شخص مدینہ طیبہ آیا جو علاج معالجہ کرتا تھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے اس شخص کے پا س گئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے درد کے بارے میں اس سے پوچھا اس نے کہا اللہ کی قسم ! تم اس سحر زدہ خاتون کی بات کر رہے ہو اس نے یہ بھی کہا کہ اس عورت پر اس کی کسی لونڈی نے جادو کیا ہے۔ (جب لونڈی سے پوچھا گیا تو) اس نے کہا ہاں! میں نے چاہا تھا کہ آپ مر جائیں تو میں آزاد ہو جاؤں۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ لونڈی دراصل مدبرہ تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ نے فرمایا کہ اس لونڈی کو عرب میں سب سے سخت مالکوں کے ہاتھوں بیچ دو۔ اور اس سے حاصل ہونے والی قیمت کو اسی جیسی

 

لونڈی خرید نے میں لگا دو" ([35])

 

یہ روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلاموں کے ساتھ عفو درگزر کی بہترین مثال ہے۔اُم

 

المومنین سیدہ صفیۃ رضی اللہ عنہا بنتِ حُییَیّ (۰۰۰۔ ۶۷۰م) ([36]) نہایت خدا ترس تھیں، غلاموں اور

 

لونڈیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتی تھیں۔ 

 

"ام المومنین سیدہ صفیۃ رضی اللہ عنہا کی ایک لونڈی نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اب بھی یوم السبت کو اچھا سمجھتی اور یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ نے جب سے مجھے جمعہ عطا فرمایا ہے میں نے سبت کو کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ رہے یہودی تو ان سے میرے قرابت کے تعلقات ہیں اور ان کو میں ضرور دیتی ہوں اس کے بعد لونڈی سے پوچھا کہ کیا تم نے میری شکایت کی؟ اس نے کہا ہاں مجھے شیطان نے بہکا یا تھا۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے اسے سزا دینے کی بجائے آزاد کر دیا" ([37])

 

اسی طرح امہات المومنین مسکینوں کی کفالت بھی کرتی تھیں۔ام المومنین سیدہ زینب بنتِ حجش محنت کر کے جتنا کماتی سارا مسکینوں پر خرچ کر دیتی تھیں۔ وہ متعدد یتیموں کی پرورش کرتی تھیں۔

 

"زینب بنت حجش نے کوئی درہم و دینار نہیں چھوڑا وہ جس پر بھی قدرت رکھتی تھیں اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیا کرتی تھیں ’’و کانت ماوی المساکین‘‘یعنی مساکین کی جائے پناہ تھیں"([38])

 

ماوی المساکین حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے بارے میں سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں۔

 

وکانت الرسول محبۃ وکان ستکثر منھا وکانت صالحۃ صوامۃ، قوامۃ صنا عا تصدق بذلک کلۃِ علی المساکین([39])

 

"سیدہ اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ زینب بنت جحش رسول اللہ ﷺ کو بہت زیادہ پسند تھیں آپ

 

زیادہ وقت ان کو دیا کرتے تھے وہ بڑی نیک، روزہ دار اور عبادت گزار خاتون تھیں وہ اپنے ہاتھ سے کمائی کرتی اور مساکین پر خرچ کرتی تھیں"

 

سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی مظلوموں اور یتیموں کی کفالت اور اعانت کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس انداز میں بیان کرتی ہیں۔

 

ذھبت حمیدۃ مفیدۃ مفروعۃ الیتامی والا رامل([40])

 

"پسندیدہ خصلت والی فائدہ دینے والی اور بیواؤں کی خبر گیری کرنے والی دنیا سے چلی گئی"

 

اُم المومنین سیدہ زینب بنت خزیمہ (۰۰۔۴ھ۔۔۔۶۲۵م) ([41]) بھی مساکین، غرباء اور فقراء کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں۔ زمانہ جاہلیت میں بھی انہیں اُم المساکین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

 

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

 

وھی التی بقل لھا اُم المساکین لکثیرۃ صدقا تھا علیھم و بدھا لھم واحسانھا الیھم([42])

 

"یہی ہیں جنہیں مساکین پر کثرت سے صدقہ کرنے، ان کے ساتھ نیکی کرنے اور حسن سلوک سے پیش آنے کی وجہ سے "اُم المساکین" کہا جاتا تھا"

 

اُم المومنین سیدہ اُم سلمۃ رضی اللہ عنہا (۲۸ق ھ۔۶۶ھ: ۵۹۶۔۶۸۱م ) ([43])یتیموں کی پرورش بڑی نیکی کا کام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "انا وکافل الیتیم کھاتین فی الجنۃ "([44]) یعنی میں اور یتیموں کی پرورش کرنے والا جنت میں اس قدر قریب ہونگے جس قدر یہ دونوں انگلیاں قریب ہیں۔ ازواج مطہرات کو اللہ تعالیٰ نے اس نیک کام کی توفیق دی اس لیے وہ اپنے بچوں کی طرح یتیموں کی پرورش کرتی تھیں۔

 

"حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے یتیم بچوں کی پرورش کرتی تھیں۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ میرے پہلے شوہر کی اولاد جو یتیم ہے اس پر خرچ کرنے پر بھی اجرو ثواب ہے

 

آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں" ([45])

 

ازواج مطہرات کے درِ اقدس کے در مظلوموں، یتیموں، بیواؤں، وغیرہ کے لیے کھلے رہتے تھے۔ ازواج مطہرات نے خلق اللہ کی خدمت کا فريضہ جس طرح انجام دیا وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔

 

iii۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر

 

امر بالمعروف ونہی عن المنکر غربت کے خاتمہ کے لیے ہے کیونکہ کسی سے بھی کوئی غلطی، جرم، کوتاہی سر زد ہو تو فوراََ اس کی اصلاح کر دینا بھی بہت بڑی نیکی ہے۔

 

اللہ پاک کا ارشاد ہے:

 

ولتکن منکم اُمۃ یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولئیک ھم المفلحون([46])

 

"اور تم میں سے کچھ لوگ ہوں جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں اور اچھی باتوں کا حکم کریں اور بری باتوں سے روکیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ھیں"

 

پس تم بھی لوگوں کو نیکی کی طرف دعوت دو اور انہیں اچھائی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

لا تزال امتی بخیر ما امرو بالمعروف، ونھوا عن المنکر و تعاونوا علی البر([47])

 

" جب تک میری اُمت اچھائی اور نیک کام کرے گی اور برائی سے روکے گی اور نیکی پر ایک دوسرے کی مدد کرے گی اس وقت تک میری اُمت سے خیر ختم نہیں ہوگا"

 

رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی اور آپ ﷺ کے وصال کے بعد بالخصوص ازواج مطہرات نے اصلاح اُمت کے فریضے کو بخوبی ادا کیا وہ عوام الناس کی ہر معاملے میں رہنمائی فرمایا کرتی تھیں۔ ازواج مطہرات کے دلوں میں خشیت الہٰی تھا اور ہمدردی، اخوت، محبت و عنایت، خیر خواہی، رحمدلی اور خلوص کے ساتھ غربت کے خاتمہ کی ہے ان کے سامنے کوئی ذاتی مفاد نہ تھا صرف اللہ اور اس کے رسول اللہ کی رضا کی طالب تھیں۔

 

ازواج مطہرات نہ صرف خود بلکہ دوسروں کو بھی نہایت محتاط رویہ اختیار کرنے کا درس دیتی تھیں۔ کہ ایسا

 

نہ ہو کہ انجانے میں کوئی گناہ یا ظلم و زیادتی کا ارتکاب ہو جائے۔

 

"ابو سلمہ بن عبدالرحمن ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس زمین کا ایک جھگڑا لے کر حاضر ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا: اے ابو سلمہ! زمین چھوڑ دو کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص ایک بالشت بھر زمین بھی کسی سے ظلماََ لیتا ہے اللہ پاک قیامت کے دن اس کے گلے میں سات زمینوں کا وہ حصہ طوق بنا کر ڈالے گا"([48])

 

کسی بھی فرد یا معاشرے کی اصلاح کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں لیکن سب سے بہتر اور پائیدار

 

طریقہ وہ طریقہ ہے جس پر رسول اللہ ﷺ نے عربوں کو جو جاہلیت اور تاریکی میں ڈوب چکے تھے ان کو عالم، فاضل اور اعلیٰ اخلاق سے مزین کر دیا۔ تصیح و ترغیب کا یہ جذبہ ہمیں ازواج مطہرات کے اندر

 

موجزن دکھائی دیتا ہے۔روایت ہے کہ:

 

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات مسلمان عورتوں کی اصلاح /امر بالمعروف و نہی

 

عن المنکر میں خاص دلچسپی لیتی تھیں۔ انہوں نے ہر مفید دروازے پر دستک دی اور نہایت نرالا اور منفرد انداز اختیار کیا۔ 

 

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پہلو معاشرے سے خارج ہو جائے تو ہر شخص من مانی کرتا پھرے اور ہر طرف بے عملی و انتشار کی کیفیت طاری ہو جائے۔ ازواج مطہرات نے خواتین کی تعلیمی، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی تمام میدانوں میں اصلاح کا فريضہ انجام دیا۔

 

"عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا وہاں سے ایک آدمی گزرا جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر شراب پینے کی وجہ سے مارا جا رہا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ نے آہٹ سنی تو پوچھا کیا ماجرا ہے ؟ میں نے بتایا کہ ایک آدمی کو شراب کے نشے مین مدہوش پکڑ لیا گیا ہے، اسے مارا جا رہا ہے۔ انھوں نے فرمایا سبحان اللہ میں نے نبی پاک ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص بدکاری کرتا ہے وہ بدکاری کرتے وقت مومن نہیں رہتا جو شخص چوری کرتا ہے وہ چوری کرتے وقت مومن نہیں رہتا اور جو شخص کوئی قیمتی چیز جس کی طرف لوگ سر اُٹھا کر دیکھتے ہوں لوٹتا ہے وہ

 

لوٹتے وقت مومن نہیں رہتا اس لیے تم ان کاموں سے بچو"([49])

 

ازواج مطہرات اُمت کے افراد کو غیر اخلاقی حرکتوں سے بچنے کی بھی تلقین کی تا کہ وہ اخلاق سئیہ سے دور ہوں۔ غربت کے خاتمہ کاوہ جذبہ ہے جو انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ازواج مطہرات نے نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے بھی کئی معاملات میں ان کی اصلاح و رہنمائی کی ہے۔ اُمت کی ہر ممکن طریقے سے رہنمائی فرماتیں اگر کوئی شرماتا تو اسے پیار سے سمجھاتی اور اس کی حوصلہ افزائی فرماتی کہ وہ اپنا مسئلہ پیش خدمت کر دیتا تھا۔ اصلاح اس طریقے سے کرتی تھیں ۔ تاکہ کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو۔ درج ذیل روایت اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی معاملہ فہمی اور پُر تاثیر بیان کو ظاہر کرتی ہے۔

 

"عمرہ بن غالب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عمار اور اشتر حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عمار نے کہا اماں جان اسلام علیکم ! سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا سلام اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ عمار نے دوتین مرتبہ انہیں سلام کیا اور پھر کہا لہذا آپ میری ماں ہیں اگرچہ آپ کو یہ بات نا پسند ہو۔ انہوں نے پوچھا یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ عمار نے بتایا کہ یہ اشتر ہے انہوں نے فرمایا تم وہی ہو جس نے میرے بھانجے کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی اشتر نے کہا جی ہاں میں نے ہی اس کا ارادہ کیا تھا اور اس نے بھی یہی ارادہ کر رکھا تھا۔ انہوں نے فرمایا اگر تم ایسا کرتے تو کبھی کامیاب نہ ہوتے۔ اے عمار تم نے یا میں نے نبی پاک ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی مسلمان کا خون بہا جائز نہیں الّا یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ ہو۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہو جانا یا کسی شخص کو قتل کرنا جس کے بدلے میں اسے قتل کر دیا جائے۔“ ([50])

 

اس طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث مبارکہ بھی ساتھ بیان کر دی کہ کسی معمولی بات پر خون بہا جائز نہیں اور راہِ ہدایت دکھا کر دین کی خدمت بھی کردی۔ازواج مطہرات نبی پاک ﷺ کی شریک حیات تھیں انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں نبی پاک ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے تمام گوشے ہم تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

 

"حضرت عبداللہ بن عمر سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ ﷺ نے عمرہ کتنی بار کیا جواب دیا چار دفعہ میں

 

سے ایک رجب میں کیا۔ عروہ نے پکار کر کہا خالہ جان آپ نہیں سنتیں؟ فرمایا کیا کہتے ہیں؟ عرض کی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے چار عمرے کیے جس میں سے ایک رجب میں کیا۔ فرمایا خدا ابو عبدالرحمن (عبداللہ بن عمر کی کنیت تھی) پر رحم فرمائے آپ ﷺ نے کوئی عمرہ ایسا نہیں کیا جس میں وہ شریک نہ رہی ہوں"([51])

 

سوچ اور فکر کی اصلاح:

 

سوچ اور فکر کی اصلاح کرنا بھی غربت کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے ۔ ازواج مطہرات سادگی پسند تھیں اور سادگی اختیار کرنے کا درس دیتی تھیں۔ فضول خرچی اور نمودونمائش انہیں پسند نہ تھی اسی فکر کو اپنانے کی انہوں نے تعلیم دی۔سیدہ عائشہ ہمیشہ سادہ لباس پہنتی اور اس پر بھی پیوند لگے ہوتے تھے اور جب تک وہ پرانا ہو کر بالکل پھٹ نہ جات اُسے نہ پھینکتی تھیں اس لیے کہ وہ جانتی تھیں کہ یہ دنیا عارضی ہے اور اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق اس دنیا سے اتنا ہی تعلق رکھنا چاہیے جتنا سوار کا توشہ ہوتا ہے۔ سیدہ عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو نہ صرف

 

مانا بلکہ عملی مثالیں بھی پیش کیں۔

 

وکان رضیعا لعائشہ قال: دخلت علی عائشہ وھی تغیط نقبۃ لھا، قلت یا

 

امالمومنین: الیس قد اوسع اللہ عزوجل قالت لا جدید لمن لا خلق([52])

 

"ایک مرتبہ ایک شخص سیدہ عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو آپؓ نے اس سے فرمایا ذرا ٹھہرو میں اپنا نقاب سی لوں۔ اس نے کہا ، اگر میں اس بارے میں لوگوں کو بتا دوں تو لوگ آپ رضی اللہ عنہا کو بخیل سمجھیں گے آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جو لوگ پرانا کپڑا نہیں پہنتے ان کو آخرت میں نیا کپڑا نصیب نہیں ہوگا"

 

گویا نہ صرف سادگی اور تقویٰ اختیار کیا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی راہ دکھائی۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔ ازواج مطہرات برائی سے کنارہ کشی کی ہمیشہ

 

تلقین کرتی تھیں۔

 

عن علقمہ بن ابی علقمہ عن امہ عن عائشہ انۃ بلغھا ان اھل بیت فی دارھا کانوا سکانا فیھا عندھم نرد۔ فارسلت الیھم، لئن لم تخرجو ھا لا خر جنکم من داری۔ وانسکرت ذلک علیھم ([53])

 

"حضرت علقمہ بن ابی علقمہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ کو اطلاع ہوئی کہ ان کے گھر میں جو کرایہ دار تھے وہ شطرنج کھیلا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ کو ان کی یہ حرکت اس قدر نا گوار گذری کہ انہیں کہلا بھیجا ۔ اگر تم اس حرکت سے باز نہ آئے تو تمہیں گھر سے نکلوا دوں گی"

 

گویا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر غربت کے خاتمہ کی ایک جہت ہے۔ امہات المومنین نے نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے بھی کئی معاملات میں ان کی اصلاح و رہنمائی کی ہے۔

 

باہمی اعانت:

 

ازواج مطہرات اور اس وقت کی دیگر خواتین غربت کے خاتمہ کے جذبہ سے لبریز تھیں اور مصیبت آفت، کشمکش میں ایک دوسری کی اعانت کر دیتی تھیں۔ ہمسایہ عورتیں اپنی پڑوسنوں کو ہر قسم کی مدد دیتی تھیں۔ حضرت اسماءؓ کو روٹی پکانا نہیں آتی تھی لیکن ان کی پڑوسن ان کی روٹی پکا دیا کرتی تھیں۔([54])

 

جب عورتوں کو شکایت پیدا ہوتی تو وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا دکھ درد کہتی

 

تھیں آپؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں نہایت پر زور طریقہ سے ان کی سفارش کرتی تھیں ۔ایک بار

 

ان کی خدمت میں ایک عورت سبز دوپٹہ اوڑھ کر آئی اور جسم کھول کر دکھایا کہ شوہر نے اسقدر مار اہے کہ جسم پر نیل پڑ گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے کہا کہ مسلمان عورتیں جو مصیبت برداشت کر رہی ہیں ہم نے ویسی مصیبت نہیں دیکھی، دیکھئے اس کا چمڑاا س کے دوپٹے سے زیادہ سبز ہو گیا ہے۔ فرمایا: والنساء ینصر بعضھن بعضا ([55]) غرض یہ کہ اُس دور کی تمام خواتین ایک دوسری کی مدد کرتی تھیں۔ اور تسلی و تشفی دیتی تھیں۔ گھریلو معاملات میں اس وقت بہت پیچیدگی پائی جاتی ہے جب رہن سہن انتہائی پر تکلف ہو عیش و عشرت کا ہر سامان میسر ہو اور خواہشات لا محدود ہوں لیکن اگر خواہشات کو محدود رکھا جائے اور رہن سہن میں سادگی پائی جائے تو پھر گھر کے انتظام میں بہت آسانی رہتی ہے۔ ازواج مطہرات اور اُن کے گھر کا رہن سہن انتہائی سادہ تھا، نہ کوئی آرائش تھی اور نہ زیبائش۔ توکل و قناعت کا سہارا تھا، گھر کے معاملات بھی سادہ تھے اور ان میں کوئی پیچیدگی نہ پائی جاتی تھی۔

 

خیرو بھلائی کے کاموں ، انفاق اور دادو دہش میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا ازواج مطہرات کا عام معمول تھا۔ عبادات ہوں یا جہاد کا میدان ہو، صدقہ و خیرات کرنا ہو یا رسول اللہ ﷺ کے احکام کی تکمیل کرنا ہو غرض ہر کام میں نہ صرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتیں بلکہ ترغیب بھی دیتی تھیں۔ ([56])

 

ہمسائیوں کی خدمت:

 

اسلام پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

 

عن عائشہ عن النبی قال مازال یوصینی جبرائیل بالجار حتی ظننت انہ سیورثہ([57])

 

"سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے جبرائیل ہمیشہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتے رہے۔ حتی کہ میں نے گمان کیا کہ وہ ہمسائے کو وارث بنا دیں گے"

 

سیدہ عائشہ صدیقہ و دیگر امہات المومنین ہمسائیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتی

 

تھیں۔ اس سے معاشرے میں اخوت ، ہمدردی، باہمی محبت و الفت، عفو ودرگزر، رواداری اور صبروتحمل جیسی اقدار پیدا ہوتی ہیں۔ مگر سیدہ عائشہ کی ذہنی استعداد کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے:

 

عن عائشہ قالت قلت یا رسول ان لی جارین فالیٰ ایھما اُھدی قال الٰی اقر بھما منک بابا([58])

 

"سیدہ عائشہؓ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ میرے ہمسائے ہیں ان میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کا دروازہ تمہارے گھر سے قریب ہے"

 

ظاہر ہو اکہ جس کا دروازہ گھر سے قریب ہو وہ زیادہ حسن سلوک کا مستحق ہے امہات المومنین

 

ہمسائیوں کے ساتھ تحفے تحائف کا تبادلہ بھی کرتی تھیں۔

 

معزز اور بے سہارا لوگوں کی دیکھ بھال، ہر بات میں غرباء کا خاص خیال رکھنا، عام جنگی حالات میں رحمت و شفقت، قیدیوں پر شفقت، غریب خاندانوں کی مالی امداد، غلاموں کی آزادی؍غلام آزاد کرنا، اللہ کی راہ میں انفاق کرنا، غلاموں کو اہمیت دینا عوامی ضرورتوں کا بندو بست، نابینا عورت، مسافر خانے، مہمان خانے، مساجد کی تعمیر، عمارتیں تعمیر کروانا، مقروضوں کا قرض معاف کرنا، سڑکوں اور پلوں کا انتظام، اسلام کے بارے میں تحقیق و جستجو کے لیے مکہ آنے والوں کی مدد، لنگر خانے، لاوارث بچے، رحمت و شفقت کا جذبہ، یتیموں کی خبر گیری، عمومی جو دو سخا، قحط کا انتظام، مخالفین کو بھی دینا، ایثار و قربانی، حقوق العباد کو حقوق اللہ پر ترجیح دینا، کسی کو تکلیف نہ دینا،تمام جہات میں ازواج ِمطہرات نے نمایاں خدمات سر انجام دیں۔

حوالہ جات

  1. ۔ الحدید57: 7
  2. ۔ ایضا، ۱۱
  3. ۔ مسلم بن حجاج، القشیری ،الجامع الصحیح،باب صدقۃ، رقم الحدیث:۵۸۸۳، :۲
  4. ۔ الزرکلیی، خیرالدین، الاعلام، (لاشہرالرجال والنساء من العرب والمستعربین والمتتٰرقین) ,دارالعلم للملایین, , بیروت (لبنان)، ۲ :۳۰۲
  5. ۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، کتاب النساء وکنا ھن، باب الخاء،:۸۱۸
  6. ۔ ایضاً
  7. ۔ طبری، جعفر محمد بن جریر، علامہ، تاریخ الامم الملوک تاریخ طبری،۱: ۴۳
  8. ۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، کتاب النساء وکناھن، باب العین،: ۸۴۶
  9. ۔ طبقات ابن سعد ،جزء نساء ، نفیس اکیڈمی ،کراچی، ۸: ۸۱
  10. ۔ مالک بن انس، امام، المؤطا، دارالفکر،بیروت، س ن، کتاب الزکوٰۃ، باب الترغیب الصدقہ، رقم الحدیث:۲۸۳
  11. ۔ الدھر،۷۶: ۸
  12. ۔ الجامع الصحیح ، کتاب الزکوٰۃ، باب اتقوالنار وَلَو بِشِقً تَمْرَۃٍ، حدیث: ۱۴۱۸
  13. ۔ ابن سعد: طبقات ابن سعد، ۸: ۹۲
  14. ۔ ایضاً،:۹۱
  15. ۔ ابنِ الجوزي، صفۃ الصفوۃ، دار صادر، بیروت ، ۲ :۲۹* انساب الاشراف، ج:۱، ص:۴۱۸،۴۱۹
  16. ۔ احمد بن حنبل، ابو عبد اللہ احمد بن محمد، المسند،۶ :۹۹
  17. ۔ ابو داؤد سلیمان بن اشعت، امام، ،السنن ، کتاب الادب، کتب خانہ نور محمد،کراچی، ۱۳۴۹ھ ، رقم الحدیث:۱۴۱۵
  18. ۔ کاندھلوی، یوسف، حیاۃ الصحابہ، باب انفاق فی سبیل اللہ،۴ :۱۷۵
  19. ۔ الزلزال، ۹۹ :۷
  20. ۔ الزرکلی، خیرالدین، الاعلام قاموس ، ۳ :۱۴۵
  21. ۔ عسقلانی ،علامہ ابن حجر، الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ۴ :۳۳۹
  22. ۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، کتاب النساء وکناھن، باب الزاي،:۸۳۱۔۸۳۲
  23. ۔ کاندھلوی، یوسف، حیاۃ الصحابہ، لاہور: نشریات الاسلام، س۔ن، ۲ :۲۳۵
  24. ۔ الجامع الصحیح، کتاب النکاح، باب عذب من رأی امرأۃ ، حدیث: ۱۴۰۳
  25. ۔ الجامع الصحیح ، کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ، رقم حدیث:۱۴۲۰
  26. ۔ الترمذی ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ، جامع الترمذی، کتاب عشرۃ النساء، باب حب الرجل بعض نساۂٖ، رقم الحدیث:۳۹۴۴
  27. ۔ عسقلانی،علامہ ابن حجر، الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ۴ :۱۳۴
  28. ۔ النساء،۴: ۳۶
  29. ۔ بخاری، محمد بن اسمٰعیل، الجامع الصحیح ، کتاب العتق، رقم الحدیث:۱۵۹۷
  30. ۔ البقرہ،۲: ۱۷۷
  31. ۔ النسآء،۴: ۹۲
  32. ۔ مالک بن انس، امام، المؤطا، کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ فیہ من الحلی ولتبرولعنبر،:۱۶۵
  33. ۔ ایضاً:باب زکوٰۃ اموال الیتیمی والتجارۃ لہم فیہا، حدیث:۱۶۳
  34. ۔ ایضاً: حدیث: ۱۶۳
  35. ۔ ایضاً: کتاب العتق، رقم الحدیث: ۳۵۷
  36. ۔ الزِرکلي، خیرالدین، اعلام،:۳
  37. ۔ القرطبی، یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ ، ۴ :۴۲۷
  38. ۔ الذہبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، علامہ، سیراعلام النبلاء، ۲ :۲۱۲
  39. ۔ عسقلانی،علامہ ابن حجر، الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ۴ :۳۱۴
  40. ۔ ایضاً، ۴ :۳۱۵
  41. ۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب،:۱، کتاب النساء وکناھن، باب الزاي،:۸۳۱۔۸۳۲ * الزرکلي، خیرالدین،۶۶:۳
  42. ۔ ابن کثیر، علامہ، عمادالدین، البدایہ والنھایہ،مکتبہ قدوسیہ،لاہور، ۱۴۰۴ھ، ۴ :۹۰
  43. ۔ الزرکلي، خیرالدین، الاعلام، بیروت: دارالعلم للملایین،۷ :۲۵۹
  44. ۔ الصحیح المسلم، کتاب الزھد، باب فضل الاحسان لی الارملۃ والیتیم والمسکین، ۸ :۹،حدیث:۶۰۰۵
  45. ۔ بخاری، محمد بن اسمعیل، امام، الجامع الصحیح کتاب الزکوٰۃ، باب الصدقہ علی الیتیمی، رقم الحدیث: ۱۳۷۵
  46. ۔ آل عمران،۳: ۱۰۴
  47. ۔ احمد بن حنبل، امام، المسند، ۶ :۴۲۸
  48. ۔ ایضاً:ص:۴۲۸
  49. ۔ احمد بن حنبل، امام، المسند، ۶ :۲۹۳
  50. ۔ ایضاً، ۶ :۲۷۱
  51. ۔ الجامع الصحیح ، کتاب العمرۃ، باب کم اعتمر النبی، رقم الحدیث: ۱۶۵۳
  52. ۔ ایضاً
  53. ۔ ایضاً
  54. ۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ، الجامع الترمذی، کتاب اللباس، باب کپڑے میں پیوند لگانا، ۱ :۸۵۲
  55. ۔ بخاری، محمد بن اسمعیل، امام، ادب المفرد، سانگلہ ہل:المکتبہ الاثریہ، س ن،:۳۲۷
  56. ۔ الصحیح المسلم، کتاب السلام، باب ارادف المراۃ الاجنبیہ اذا رعیت فی الطریق، حدیث:۹۶۲
  57. ۔ الجامع الصحیح ، کتاب اللباس الثیاب الخضر، حدیث: ۲۶۹
  58. ۔ الترمذی کتاب الفتن، حدیث:۳۵۱۶
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...