Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 2 Issue 2 of Al-ʿILM

غیر مسلموں سے تعلقات اور بقائے باہمی کی اساس: سیرت النبیﷺ کے تناظر میں |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060040263_995

Pages

166-185

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/102/80

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/102

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

اسلام ایک عالمگیر دین ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے جو انسانوں کو دنیا و آخرت کا کامیابی کی راہ دکھاتا ہے۔ اس کا خطاب سب انسانوں سے اور ان کے سب طبقات سے ہے۔

 

قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا[1]

 

"اے محبوب کہہ دیجئیے کہ اے لوگوں ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں"

 

جس دین کا خطاب دنیا کے تمام انسانوں اور ان کے تمام طبقات سے ہو ، جو اس حیثیت سے سامنے آئے کہ وہ سارے عالم کی فلاح و نجات کا ذریعہ ہے، وہ کسی طبقہ سے نفرت اور عداوت کا سبق نہیں دے سکتا،ورنہ اس کا خطاب محدود ہو کر رہ جائے گا۔ جو نظریات طبقات کے درمیان کشمکش پیدا کرتے ہیں وہ ایک کے ذریعے دوسرے کا استحصال کرتے ہیں۔ ان میں عمومی اپیل نہیں ہوتی وہ ایک کے لئے پر کشش ہوتے ہیں تو دوسرے کے لئے قابل قبول نہیں ہوتے۔

 

اسلام نے اپنے عقیدے اور فکر کو عام کرنے کے لئے جبر وا کراہ کے تمام طریقوں کو رد کر دیا ہے۔ ان میں سے ہر طریقہ اس کے نزدیک ناجائز اور ممنوع ہے۔ اس کے لئے اس نے صرف دعوت و تبلیغ کی راہ کھلی رکھی ہے۔ وہ اپنی بات دلائل کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اور اسے قبول یا رد کرنے کی پوری آزادی دیتا ہے، اس نے صبر وثبات کے ساتھ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے اور مخالفت اور مزاحمت کو عزم و حوصلہ اور ہمت سے برداشت کرنے کا حکم دیا ہے۔ارشاد ہوتا ہے:

 

وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا [2]

 

"اے نبی ﷺ جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اس پر صبر کیجئے اور ان کو اچھی طرح چھوڑ دیجیے"

 

اسلام نے بار بار کہا ہے کہ یہ راہ عفو و درگزر کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ارشاد ہوتا ہے:

 

فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ[3]

 

’’ان سے درگزر کیجئے اور سلام کہیے، ان کو بہت جلد (اپنا انجام) معلوم ہو جائے گا"

 

ایک اور جگہ ارشاد ہے:

 

فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ[4]

 

’’اے رسول ﷺ ان سے اچھی طرح درگزر کیجئے ، تمارا رب وہی ہے جو پیدا بھی کرتا ہے اور باخبر بھی ہے‘‘

 

اسلام نے ہدایت کی ہے کہ بات چیت میں، دعوت میں اور اپنے عام طرز عمل میں ایسا رویہ اختیار کیا جائے کہ جس سے بدترین دشمن کی بھی دشمنی ختم ہو جائے اور وہ دوستوں کی صف میں آ جائے [5]

 

اسلام نے تعلقات میں صداقت اور راست بازی کی پابندی اور جھوٹ اور مکر و فریب سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ نخوت اور استکبار کی جگہ تواضع اور خاکساری کا مزاج پیدا کیا ہے۔ درشت مزاجی اور شدت کے مقابلے میں نرمی اور راٗفت کو پسند کیا ہے، غیظ و غضب پر قابو پانے اور تحمل و برداشت کا رویہ اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انتقام میں حد سے آگے نہ بڑھنے اور عفو و درگزر سے کام لینے اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دینے کی ترغیب دی ہے۔ شر اور فتنہ و فساد سے بچنے اور ہر حال میں عدل و انصاف پر قائم رہنے کی تاکید کی ہے۔ یہ ہدایات بالکل عام ہیں۔ ان کا تعلق خاص مسلمانوں سے نہیں ہے کہ وہ صرف اپنے تعلقات میں ان کا احترام کریں۔اس معاملہ میں اسلام نے اپنے اور غیروں میں فرق نہیں کیا ہے۔ ایک مسلمان کو ربط و تعلق کسی بھی مذہب و عقیدہ کے ماننے والے سے ہو، توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان کا پابند رہے گا جس سماج میں اخلاقیات کی فرماں روائی ہو وہاں فطری طور پر ظلم و زیادتی کے امکانات کم سے کم تر ہوتے چلے جائیں گے اور اگر کبھی کسی طرف سے کوئی غلط قدم اٹھے تو قانون اس کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو گا اور اپنا فرض انجام دے گا۔[6]

 

عام نوع ِ انسانی کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اسلام کے اصولی انداز ِ فکر کا قرآن و سنت کے اندر محبت (تّوّدُّوْھُم) حسن سلو ک (تُحْسِنُ)حلم و شرافت، (التی ھی احسن) اور محافظت کے الفاظ میں اصولی اظہار ہو ا ہے۔قرآن پاک میں جو ہدایات دی گئیں اس میں غیر مسلموں کے ساتھ نہ صرف پر امن بقائے باہمی کا اصول دیا گیا بلکہ ان کے ساتھ عدل و انصاف کے عالمگیر ابدی اصول کے مطابق اقدامات کرنے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے کام کرنے کی ہدایات بھی دی گئیں۔ مزید برآں قرآن پاک کی مشہور اور عام اصطلاح البر کے اصول کے مطابق ان سے معاملہ کرنے کی ترغیب بھی دی گئی۔ اسلامی ریاست کی حدود سے باہر بین الاقوامی سطح پر اسلامی ریاست دوسری ایسی ریاستوں کا وجود کھلے دل سے تسلیم کرتی ہے جو اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کی پیروکار ہوں جن کا نظام قانون اور دستور اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب یا تصور پر مبنی ہو اور ان کےساتھ اسلامی ریاست کا تعلق ایک پر امن اور مسلسل بقائے باہمی کا ہو۔

 

اس نقطہ نظر سے قرآن پاک پرغور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ قرآن پاک نے ایک عمومی اور اصولی ہدایت مسلمانوں کو دی ہے اور وہ ہدایت یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر جن قوموں سے تعلقات قائم کئے جائیں وہ شہری ریاستیں ہوں ، قبائل ہوں، یا آج کل کے دور کی بڑی بڑی ریاستیں ہوں ، ان سب کے درمیان تعلقات کو اس اصول کی بنا پر قائم کیا جائے گا جو سورہ ممتحنہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ دوستانہ بین الاقوامی اور بین الملکی تعلقات کے نقطہ نظر سے غیر مسلموں کو دو زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مخالفین اور غیر مخالفین۔ یہاں مخالفین سے مراد وہ غیر مسلم ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو اللہ کے راستے پر چلنے سے روکاہو ، انہوں نے مسلمانوں کو ان کے گھر بار سے نکالا ہو، مسلمانوں پر جنگیں مسلط کی ہوں، ان کے جان و مال کو تباہ و برباد کیا ہو ان کی عزتیں لوٹی ہوں، ظاہر ہے کہ ایسے کھلے دشمنان انسانیت سے دوستی اور پرامن بقائے باہمی کی بات کرنا عبث اور بیکار ہے۔

 

دوسرا گروہ غیر مخالفین کا ہے۔ غیر مخالفین سے مراد غیر مسلموں کا وہ گروہ ہے جنہوں نے مسلمانوں کو گھروں سے نہیں نکالا نہ مسلمانوں کو پریشان کیا نہ ان کے دین کے سلسلے میں رخنہ ڈالا اور نہ مسلمانوں سے اس انداز کی دشمنیاں کیں۔ یہ دوسرا گروہ ہے جس کے بارے میں قرآن پاک کی واضح ہدایات یہ ہیں:

 

لاَ ینَھْٰکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْ کُمْ فِی الدِّیْنِ َولَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِ َیارِکُمْ اَنْ َتبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْھِمْ[7]

 

"جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تمہیں پریشان نہیں کیا اور تم سے مقاتلہ و مقابلہ نہیں کیا، تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا اللہ تعالیٰ تم کو اس سے نہیں روکتا کہ تم ان سے بر کا معاملہ رکھو، یعنی نیکی کرو اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ معاملہ کرو"

 

اس کائنات میں مسلمانوں کے تعلقات دو قسم کے انسانوں سےاستوار ہیں:

 

۱۔ ایک وہ جو وحی کی راہنمائی اور ہدایت کو تسلیم کرتے ہیں ۔

 

۲۔دوسرے وہ ہیں جو اس راہنمائی کو تسلیم نہیں کرتے اور وحی کے بجائے ، اپنی یا دوسرے انسانوں کی عقل اور مشاہدہ سے زندگی کے معاملات چلاتے ہیں۔ غیر مسلموں کو مختلف زمروں (Categaries) میں تقسیم کیا گیا جو دارالحرب کے کسی علاقے میں آباد یا کسی علاقے میں فرمانروائی کے منصب پر فائز تھے۔ قرآن پاک نے سارے غیر مسلموں کو ایک ہی زمرے میں شامل قرار نہیں دیا ، بلکہ قرآن مجید میں مختلف غیر مسلموں کے مختلف احکام دیئے گئے ہیں۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے سارے غیر مسلم ایک زمرہ میں نہیں آتے۔ مثلاً قرآن پاک نے عیسائیوں کو مسلمانوں کے زیادہ قریب قرار دیا اور مشرکین کو سب سے زیادہ بعید قرار دیا۔ پھر عرب کے مشرکین کو عام مشرکین کے مقابلہ میں اسلام نے زیادہ دور قرار دیا اور ان کے بارے میں کسی رعایت سے کام نہیں لیا۔

 

قرآن پاک کے اس اسلوب کے مطابق بنیادی طور پر غیر مسلموں کی دو قسمیں قرار دی گئیں ۔ پہلی قسم ان غیر مسلموں کی تھی جو اصلاً آسمانی مذاہب کی پیروی کے مدعی تھے۔ یہ اہل کتاب تھے جو اس اعتبار سے مسلمانوں کے قریب اور مسلمانوں کے مشابہ تھے کہ وہ اپنی اپنی جگہ ان بنیادی تصورات اور عقائد کو کسی نہ کسی رنگ میں تسلیم کرتے تھے جن پر اسلام کی اساس ہے۔ مثلاً وہ توحید ، نبوت، آخرت کو مانتے تھے۔ وہ ان انبیاء کرام میں سے بیشتر کو مانتے تھے جن کو قرآن نے بطور بنی تسلیم کیا ہے اور جن کے نام قرآن میں آئے ہیں۔ اس لئے غیر مسلموں کی اقسام میں سب سے پہلے انہیں رکھا گیا۔ اہل کتاب کے بعد دوسرا درجہ ان غیر مسلموں کا رکھا گیا ہے جن کو فقہاء کرام نے شبہ اہل کتاب قرار دیا ہے، یعنی وہ غیر مسلم جو بعض اعتبارات سے اہل کتاب کے مشابہ تھے۔ ایسے غیر مسلموں سے مسلمانوں کا واسطہ رسول اللہ ﷺ ہی کے عہد مبارک میں پڑ چکا تھا۔

 

اس کے بعد عام کفار کی حیثیت ہے، خواہ وہ بت پرست ہوں یا مشرک ہوں، لیکن کسی نہ کسی مذہب کے قائل ہوں اور کسی نہ کسی رنگ میں خدائے بزرگ و برتر کے ماننے والے ہوں۔ اس کے بعد ان لوگوں کا درجہ ہے جو سرے سے کسی خدا کے وجود کے ہی قائل نہیں یا تو بالکل دہری ہیں یا فطرت پرست ہیں اور مذہب کو سرے سے مانتے ہی نہیں۔ سب سے آخری درجہ مشرکین عرب کا ہے، یعنی حضور ﷺ کی وہ قوم جن کو آپ نے براہ راست تئیس سال اپنی زبان اقدس سے دین کی دعوت دی اور انہوں نے اس کو مسترد کر دیا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی شریعت نے نہایت سخت رویہ اختیار کیا اور ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت روا نہیں رکھی۔ ان کے بارے میں تین رویوں کا قرآن میں ذکر آیا ہے۔ ان کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ ان تین متبادل رویوں سے ایک رویہ اپنے لئے اختیار کر لیں: یا تو وہ اسلام قبول کرلیں، یا جنگ کے لئے تیار ہو جائیں یا پھر جزیرہ عرب کو چھوڑ کر عرب چلے جائیں۔ یہ سختی اس لئے روا رکھی گئی کہ جزیرہ عرب کو اسلام کا مرکز حسی اور روحانیت اسلام کا محور بنانا مطلوب تھا۔ اللہ کی مشیت میں یہ طے کر دیا گیا تھا کہ اب جزیرہ عرب صرف اور صرف دین اسلام کا مرکز ہو گااور وہاں دوسرے غیر اسلامی اور لادینی نظریات و مذاہب کو باقی رہنے کی اجازت نہ ہو گی۔ یہ احکام جو مشرکین عرب کے ساتھ خاص تھے۔

 

اس نظری اور دینیاتی اور ایک حد تک جغرافیائی تقسیم کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی ایک تقسیم اور ہے۔ یہ دوسری تقسیم اس بنیاد پر ہے کہ بالفعل ان کے مسلمانوں کے ساتھ تعلقات کس نوعیت کے ہیں۔ ان کے مذہب اور پالیسی میں اور ان کے فکر میں مسلمانوں کے بارے میں کیا طرز عمل پایا جاتا ہے۔ اس کے لئے پھر کئی ذیلی تقسیمیں ہیں:۔

 

 

۱۔ معاہدین:

سب سے پہلے وہ لوگ ہیں جن کے مسلمانوں کے ساتھ معاہدات اور طے شدہ شرائط کے تحت تعلقات کی نوعیت واضح طور پر طے ہو گئی ہے۔ جس میں دونوں فریقوں کے حقوق اور ذمہ داریاں طے کر لی گئی ہیں اور اقلیت ہونے کی حیثیت سے غیر مسلموں کے اور اکثریت ہونے کے لحاظ سے مسلمانوں کے حقوق و فرائض کا واضح طور پر تعین کر لیا گیا ہے۔ اور معاہدہ کے ذریعہ فریقین کی ذمہ داریاں طے کر لی گئیں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو فقہاء نے معاہدین کے نام سے یاد کیا ہے، یعنی جن کا مسلمانوں سے کوئی معاہدہ ہو چکا ہے اور اس معاہدہ میں فریقین کے فرائض اور ذمہ داریاں (حدود شریعت کے اندر رہتے ہوئے) طے کر لی گئی ہیں۔

 

۲۔ اہل ذمہ :

دوسرا درجہ ان اہل ذمہ کا ہے جو کسی مفتوحہ علاقہ کے غیر مسلم باشندے ہوں، وہ علاقہ دنیائے اسلام نے فتح کر لیا ہو اور وہاں کے باشندوں نے اپنے مذہب پر قائم رہنا پسند کیا ہو اور وہ اس فتح کے نتیجہ میں اسلامی ریاست کے شہری بن گئے ہوں اور اپنی حفاظت کا بدلہ جزیہ دیتے ہوں۔

 

۳۔ مُوَادِ عین:

تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جن سے کوئی جنگ ہو رہی ہو اور جنگ کے کسی واضح نتیجہ پر پہنچنے سے قبل اس کے اختتام سے پہلے ہی ان سے کوئی مستقل یا عارضی مصالحت ہو گئی ہو اور فریقین کے درمیان جنگ بندی ہو گئی ہو۔ صلح کی شرائط پر ان سے معاملات طے کئے گئے ہوں۔ ان کے لئے عموماً اہل صلح یا مواد عین کی اصطلاح استعمال کی جاتی رہی ہے۔

 

ان سب قسموں کے الگ الگ احکام ہیں۔ ان میں سے بعض کے احکام قرآن پاک میں دئیے گئے ہیں، مثلاً قرآن پاک میں اہل کتاب کے ذبیحہ کو جائز قرار دیا گیا ہے، یا مثلاً اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض احکام ؎رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائے۔

 

باہمی تعلقات کی اساس:==

 

اسلام ، مسلمانوں کو باہم اعلیٰ اخلاقی رویہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے، انھیں ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے، ان کے باہم اخلاقی اور قانونی حقوق مقرر کرتا ہے، ان کے درمیان تعاون و تناصر کا جذبہ بیدار کرتا ہے، اور انھیں ایک نظام حیات دے کر ایک امت بناتا ہے اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں ہونی چاہیے کہ اسلام نے اس امت کو ایک اعلیٰ نصب العین دیا ہے، وہ یہ کہ وہ دنیا میں خدا ئے واحد کے دین کے علم بردار بن کر اُٹھے، انسانوں کو ان کی دنیا اور آخرت کی فلاح وہدایت کا پیغام دے، دنیا میں خیر کو عام کرے، بھلائیوں کو پھیلائے اور برائیوں کو مٹائے۔ارشاد ہوتا ہے:

 

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ[8]

 

’’تم بہترین امت ہو، تم لوگوں کے لئے نکالے گئے ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو"

 

قرآن و سنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں سے تعلقات اور بقائے باہمی کی اساس و بنیاد درج ذیل اصول ہیں

 

۱۔ شرف انسانیت و عظمت آدمیت

عظمت آدمیت اور تکریم انسانیت اسلام کی تعلیمات کی اہم جزء ہیں۔ارشاد ہوتا ہے:

 

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ[9]"اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت دی‘‘

 

اسلام بلا تفریق رنگ و نسل ، علاقہ و زبان، مذہب و ملت تمام انسانوں کو شرف انسانیت کے بلند مقام پر فائز کرتا ہے۔ اور بحیثیت انسان اس کی قدر و منزلت اور اس کے حقوق کا لحاظ رکھتا ہے۔

 

ارشاد ہوتا ہے۔

 

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا[10]

 

’’کسی شخص نے ایک نفس کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا‘‘

 

اس طرح انسانیت کی عظمت و وقار کی بحالی اور توقیر کو یوں بیان فرمایا کہ:

 

وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا[11]

 

’’جس کسی نے ایک انسان کو زندہ کیا گویا اُس نے پوری انسانیت کو زندہ کیا‘‘

 

اسلام دیگر مذاہب اور اقوام کے ساتھ باہمی تعلقات کی اساس میں انسانی قدروں اور شرمت انسانیت کو ایک بنیادی عنصر قرار دیتا ہے۔

 

۲۔ عدل:

مسلمانوں کو تمام معاملات میں دیانت داری اور انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ خواہ معاملہ اپنے دشمنوں کا ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ[12]

 

اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو، کسی گروہ کی دشمنی تمھیں اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاو، عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈرکر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

 

عدل و انصاف کا تصور اسلام کا ایک اساسی اصول ہے۔ لہذا اسلام عدل و دیانتداری کے تعلق سے غیر مسلموں سے بقائے باہمی میں جاری رکھنا چاہتا ہے۔ چاہیے اس کے تعلق افراد ، کسی گروہوں یا ریاستوں سے ہی کیوں نہ ہو۔

 

۳۔امن، امداد باہمی اور تعاون:

امن و سلامتی اور باہمی تعاون و ہمدردی بھی ایک اہم اساسی اصول ہے جو باہمی تعلقات کے استحکام اور پائیداری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ[13]

 

’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے‘‘

 

’’البر‘‘ قرآن پاک کی ایک جامع اور معروف اصطلاح ہے جس میں معاشرتی بھلائیوں کا ایک ایسا جامع نقشہ دیا گیا ہے جس میں رفاعی معاشرہ کے سارے پہلو شامل ہیں۔ سورۃ بقرہ میں ایک جگہ اس کے بہت سے پہلو ذکر کئے گئے ہیں۔

 

لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ[14]

 

اس آیت سے صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ معاشرتی سطح پر انسانوں کی فلاح و بہبود کے تمام اقدامات بر میں شامل ہیں۔ انسانوں کی زندگی کو بنانے اور سنوارنے کے سارے اعمال اور انسانوں کی عمومی خدمت انجام دینا یہ سب باتیں سورہ بقرہ کی اس آیت کی روشنی بر کی مختلف صورتیں ہیں۔

 

اللہ کے رسول ﷺ نے تعاون علی البر اور باہمی امداد اور خدمت انسانیت کے ان تصورات کو اپنے کئی ارشادات میں ذکر کیا ہے۔

 

۴۔عہد کی پاسداری و تکمیل:

باہمی تعلق میں ایک اور اہم اساسی اصول عہد کی پاسداری اور تکمیل ہے۔ اسلام مسلمانوں پر یہ اخلاقی فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی سطح پر بھی اپنے تمام شخصی ، قولی، اور بین الاقوامی معاہدوں (عہود) کی پاسداری کریں، قرآن کی متعدد آیات ہیں جن میں مسلمانوں کو اپنے عہد و اقرار کی پاسداری کی تلقین کی گئی ہے۔ارشاد ہوتا ہے:

 

وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا[15]

 

’’اور عہد کی پاسداری کر و بے شک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا ‘‘

 

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا :

 

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [16]

 

’’اے ایمان والو عہد کو پورا کرو‘‘

 

اہل ایمان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا گیا

 

وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ [17]

 

’’وہ اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کی نگہداشت کرتے ہیں‘‘

 

اسلام نے عہد شکنی کو جرمِ عظیم قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُعْرَفُ بِهِ. [18]

 

اسلامی ریاست میں تمام افراد کو مذہبی اور گروہی تعصبات سے آزاد جمہوری خطوط پر حقوق و فرائض کے مابین دو طرفہ تعلق کی بنیاد پر شہری حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ عوام کے حملہ گروہوں کی فلاح و بہبود اور ان کے مختلف نظام ہائے قانون کا پاس و لحاظ اور ان کے تعلق سے فرض شناسی، افراد اور گروہوں کے حقوق و فرائض کی مخلصانہ بجا آوری کی واحد ضمانت ہے۔ مذہب اور نظریات کی آزادی ، جس کے ساتھ عمل اور اظہار کے پر امن اور شائستہ وسائل موجود ہوں، صحت مند پائیدار ، وسعت پذیر اور ترقی کی طرف قدم بڑھانے والے معاشروں کے ناگزیر حیثیت رکھتی ہے۔

 

۵۔عدم اکراہ اور حریت فکر :

دین اسلام ، امن وسلامتی کا دین ہے اس میں جبر وتشدد نہیں۔ یہ اپنی بات افہام وتفہیم ، دلیل برہان، وعظ ونصیحت اور بحث و گفتگو کے ذریعہ دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیتا ہے، ارشاد ہوتا ہے۔İلَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِĬ[19]"دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں"

 

ایک اور جگہ فرمایا:

 

إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا[20]

 

’’بے شک ہم نے انسان کو راستہ دکھایا اب وہ چاہے شکر گزار بنے یا (ناشکرا) اور کافر‘‘

 

سورہ کہف میں ارشاد ہے: وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ[21]"اور اے رسول ؐ کہہ دیجیے، حق تمہارے رب کی طرف سے آچکا ہے پس جو چاہے اس پر ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے‘‘

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کو مجبور نہیں پیدا کیا بلکہ اختیار اور آزادی سے نوازاہے۔

 

اپنے رسولوں کے ذریعے حق وباطل کو واضح کہا اور انسان کو پوری آزادی دی ہے کہ ان میں سے جو راہ چاہے اختیار کرے، اسلامی ریاست میں کسی ذمی یا مستعامن کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی ۔ اگر کسی کو مجبور کیا گیا اور اس نے مجبوری کی حالت میں اسلامی کا اظہار کیا تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔

 

عدم اکراہ کے ساتھ ساتھ دین اسلام دیگر مذہب کے مکمل احترام کی تعلیمات دیتا ہے۔ اسلام نے شرک کی مذمت کی ہے۔ اس بنیاد پر مشرکین کے معبودوں کو، جنہیں معبودان باطل سمجھتا ہے ان کو گالی دینے سے منع کیا ہے۔

 

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ [22]

 

’’یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں تم انہیں برا بھلا نہ ہو۔‘‘

 

دوسری طرف تعلیم دی گئی کہ احسن طریق سے ان سے برتاؤ کیا جائے، تہذیب شائستگی اور حسن خلق سے ان کے دل جتنے کی کوشش کی جائے۔

 

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَأَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ[23]

 

’’نیکی اور بدی یکساں نہیں، تم بدلا دفع کر اس طریقہ سے جو احسن ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تمہارے اور جس شخص کے درمیان دشمنی سے گویاجگری دوست ہے۔

 

قرآن حکیم نے یہ تعلیم دی ہے کہ جتنے انبیاء ورسل تشریف لائے ، اور جو ان پر کتابیں نازل ہوئیں ان سب میں توحید کی تعلیم دی گئی اور شرک کی تردید کی گئی ہے۔ اس بنیاد پر اہل کتاب سے کہا گیا کہ توحید تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک کلمہ ہے، آو ہم سب مل کر اس پر عمل کریں اور اس کے تقاضے پورے کریں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

 

قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ[24]

 

اے رسول ؐ کہہ دیجیے: اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، وہ یہ کہ ہم بندگی نہیں کریں گے مگر صرف اللہ کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو رب نہ بنائے۔

 

۶۔غیر جا نبداری

غیر جانبداری کی اسلامی اصطلاح کے لئے جدید عربی میں حیادۃ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جبکہ قبل از اسلام اور صدر اسلام میں اس کے لئے اعتزال کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی، جس کے معنی الگ ہو جانے کے ہیں،

 

ارشاد ہوتا ہے:فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا[25]

 

یعنی اگر لڑنے والے الگ ہو جائیں (اعتزال کے معنی یہاں دو متحارب فریقوں کے بارے میں کسی تیسرے فریق کا الگ ہونا) اگر وہ تمہارے دشمنوں کے درمیان ہونے والی کشمکش سے الگ ہو جائیں اور تم سے جنگ نہ کریں اور تمہارے ساتھ مسالمہ (باہم امن و سلامتی) کے تعلقات رکھیں تو پھر اللہ کا فیصلہ یہ ہےکہ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے خلاف جنگ کرنے کا اختیار نہیں دیا۔ اس سلسلے کی دوسری آیت سورہ نساء میں ہے کہ اگر وہ تمہارے اور تمہارے دشمنوں کے باہمی محاربہ سے الگ نہ ہوں اور تمہارے ساتھ سلامتی کے تعلقات قائم کرنے کی پیشکش نہ کریں اور لڑائی سے ہاتھ نہ کھینچیں تو پھر ان سے جنگ کرو اور جیسے اور جہاں موقعہ ملے ان کو کیفر کردار تک پہنچائو۔ ان لوگوں کے خلاف لڑنے کے لئے تم کھلی اجازت (سلطانا مبینا) حاصل ہے۔

 

سلطان مبین کے معنی مترجمین قرآن نے کھلی سند، صریح اجازت، صاف گرفت، صاف حجت وغیرہ کے کئے ہیں جس سے یہی پتا چلتا ہے کہ اس صورت میں ایسے لوگوں سے جنگ کرنے کی کھلی اور مکمل اجازت ہے۔

 

اس پورے سلسلہ بیان میں اعتزال کا لفظ دو مرتبہ استعمال ہوا ہے اور دونوں جگہ دو متحارب فریقین کے درمیان غیر جانبداری کے مفہوم میں آیا ہے۔ اس کی بنیاد پر یہ اصول بن گیا کہ اگر کوئی ریاست مسلمانوں کے بارے میں غیر جانبدار رہنا چاہتی ہو، یعنی مسلمانوں کے اور غیر مسلموں کے محاربے میں الگ رہنا چاہتی ہو وہ ان تین شرائط کے ساتھ رہ سکتی ہے کہ:

 

(۱)وہ مسلمانوں سے جنگ نہ کرے۔

 

(۲)مسلمانوں کے دشمنوں سے الگ رہے ۔

 

(۳)اور مسلمانوں کے ساتھ پر امن تعلقات رکھے۔

 

(۴)ایک چوتھی شرط جو خود بخود (Understood) ہے جس کے بارے میں دوسری نصوص میں واضح ہدایات ہیں وہ یہ کہ اس انتظام سے اسلام اور کلمۃاللہ کی سر بلندی پر زد نہ پڑے اور اسلام اور مسلمانوں کے وقار پر حرف نہ آئے۔ اگر یہ شرائط پوری ہوں تو پھر ان چیزوںکی پابندی ملحوظ رہے گی۔یہ وہ دو بنیادی آیات ہیں جن سے فقہائے کرام نے غیر جانبداری کے اصول کی بابت استدلال کیا ہے۔ ان آیات کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کے دور کے متعدد واقعات اور آپ کے کئے ہوئے کئی معاہدے ایسے ہیں جن سے بین الاقوامی تعلقات میں غیر جانبداری کی مزید تفصیلات ملتی ہیں اور جن کو انہی احکام و نظائر کی بنیاد قرار دیتے ہوئے فقہائے کرام نے بین الاقوامی قوانین اور تعلقات کے باب میں غیر جانبداری کے دیگر احکام مرتب کئے ہیں۔

 

سیرت طیبہ سے ایسی کئی مثالیں اور نظائر ملتے ہیں، جن کی رو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے مختلف قبائل سے امن و صلح کے معاہدے اس لحاظ سے کئے کہ دونوں فریقین کسی گروہ کے خلاف غیر جانبدار رہیں گے۔

 

۲ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے بنی ضمرہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ بنی ضمرہ کے سردار سے کیا جانے والا یہ معاہدہ دوستی اور غیر جانبداری کا نہایت واضح معاہدہ ہے۔ معاہدہ کے الفاظ یہ ہیں:عَلَى أَنْ لَا يَغْزُوَ بَنِي ضَمْرَةَ وَلَا يَغْزُوهُ، وَلَا يُكَثِّرُوا عَلَيْهِ جَمْعًا، وَلَا يُعِينُوا عَدُوًّا[26]۔

 

آپ ﷺ بنی ضمرہ سے جنگ نہ کریں گے اور نہ یہ آپ ﷺ سے جنگ کریں گے۔ اور آپ ﷺ کے خلاف گروپ بندی میں کسی کے شریک نہیں ہوں گے اور نہ ہی آپ ﷺ کے خلاف دشمن کی مدد کریں گے۔

 

اس معاہدے سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست اپنے پر امن اور صلح جو غیر مسلم پڑوسیوں سے غیر جانبداری کا معاہدہ کر سکتی ہے۔

 

بنی ضمرہ قبیلہ کی ایک شاخ بنی عہد بن عدی نے بھی آپ سے غیر جانبداری کا معاہدہ کیا۔ یہ مکہ میں حدود حرم کے پاس رہتے تھے۔ انھوں نے بھی ایک وفد بھیج کر رسول اللہ ﷺ سے یہ پیشکش کی کہ قریش کے ساتھ مصالحانہ تعلقات رکھتے ہوئے بھی یہ مسلمانوں کے دوست رہنا چاہتے ہیں اور قریش سے جنگ کی ایک چیز کو مستشنیٰ کرتے ہوئے باقی ہر طرح مسلمانوں کے حلیف بننا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اُن کی اس پیشکش کو قبول کیا۔[27]

 

بنی ضمرہ کی ایک اور شاخ جو کہ غیر مسلم تھا ان سے معاہدہ حلیفی کیا ۔ اس کی ایک شق یہ ہے:

 

بِسْمِ اللهِ الرّحْمَنِ الرّحِيمِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمّدٍ رَسُولِ اللهِ لِبَنِي ضَمْرَةَ فَإِنّهُمْ آمِنُونَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأَنّ لَهُمْ النّصْرَ عَلَى مَنْ رَامَهُمْ إلّا أَنْ يُحَارِبُوا فِي دِينِ اللهِ مَا بَلّ بَحْرٌ صُوفَةً وَإِنّ النّبِيّ إذَا دَعَاهُمْ لِنَصْرِهِ أَجَابُوهُ عَلَيْهِمْ بِذَلِكَ ذِمّةُ اللهِ وَذِمّةُ رَسُولِهِ وَلَهُمْ النّصْرُ عَلَى مَنْ بَرّ مِنْهُمْ وَاتّقَى[28]

 

یعنی ان کے لئے بنی ﷺ کی مدد عندالطلب ضروری ہے البتہ وہ اگر دینی جنگ میں غیر جانبدار رہنا چائیں تو انھیں اجازت ہے۔ مدینہ کے یہودیوں کو بھی دستور مدینہ میں یہ حق دیا گیا ہے کہ الامن حارب فی الدین [29]۔

 

رحمت عالمین کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی اقدامات:

 

داخلہ و خارجہ تعلقات اور بقائے باہمی کے ضمن میں اللہ کے رسول ﷺ نے درج ذیل اقدار کی پاسداری اور ان کی تقسیم بھی دی:

 

۱۔جارحانہ روش (عدوان) سے اجتناب

 

۲۔جورو استبداد (طغیان) سے احتراز

 

۳۔بگاڑ اور کرپشن (فساد) سے بیزاری

 

۴۔حد سے تجاوز (اسراف) سے گریز۔

 

یہ اقدار حقیقی معنوں میں اعتدال، میانہ روی اور ضبط نفس کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ اقدار ارباب اختیار کے لئے کسی خاص روش عمل کی حدود کو ملحوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور اصل مقاصد اور ان کی تحصیل کے رسائل کے درمیان حقیقی تعلق کو سمجھنے میں کوتا نظری سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ بنیادی اقدار جن کے عمل نمونہ آپ ﷺ نے پیش فرمائے۔

 

آقا دو جہاں سرور کائنات ، محسن انسانیت کی بعثت بطور رحمت عالم ہوئی۔ آپ ؐ کا مرتبہ رحمت، مسلمان وغیر مسلم، سب پر یکساں جوست، غیر مسلموں سے حسن سلوک ، صلح رحمی، ہمدردی وتعاون اور خدمت خلق کے حوالے سے اگر سیرت طیبہ کا مطالبہ کیا جائے تو اس کی سینکڑوں مثالیں ملیں گی۔ یہاں چندمثالیں پیش خدمت ہیں:

 

۱۔آپ ؐ نے اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ ہمیشہ صلہ رحمی کا سلوک کیا، اور صحابہ کرام کو بھی اور پوری امت کو بھی اس کی تعلیم دی، آپؐ اپنے چچا جناب ابو طالب کا بہت احترام کرتے تھ، حضرت اسماء بنت ابو بکر ؓ فرماتی ہیں کہ:

 

’’میری ماں جو مشرکہ تھیں مجھ سے ملنے آئیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ وہ مجھ سے کچھ توقع لے کر آئی ہیں۔ کیا میں ان کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کر سکتی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو، [30]ایک اور روایت سے معلوم ہوتا کہ وہ بطور تحفہ پنیر اور مکھن لاتی تھیں لیکن حضرت اسماء نے انہیں اپنے گھر میں آنے کی اجازت دینے اور ان کا تحفہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرایا تو آپؐ نے ان سے کہا کہ وہ ان کا تحفہ قبول کر لیں اور اپنے گھر میں آنے دیں[31]۔

 

۲۔جنگ بدر میں مشرکین کے ستہ آدمی مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنائے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کو صحابہ کرام ؓ کے درمیان تقسیم کردیا اور نصیحت فرمائی کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔[32]

 

آپ ؐ ﷺغیر مسلموں کو بھی دعا دیتے تھے۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے پینے کی کوئی چیز طلب کی اس نے وہ پیش کی تو آپؐ ﷺنے اسے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حسین وجمیل رکھے، چنانچہ مرتے وقت تک اس کے بال سیاہ رہے[33]،

 

آپﷺ کا یہ بھی معمول رہا کہ آپ بہ نفس نفیس غیر مسلم اشخاص کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے، حضرت انس ؓ بھی کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے[34]

 

فقہ حنفی میں عمومی انداز کہا گیا ہے:

 

ولا بأس بعیادۃ الیہودی والنصرانی لانہ نوع برٍ فی حقہم وما نہینا عن ذلک[35]

 

یہودی اور نصرانی کی عیادت میں کوئی حرج نہیں ہے اس لیے کہ یہ ان کے حق میں ایک طرح کی بھلائی اور حسن سلوک ہے اس سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں سے تحائف قبول کرتے اور ان کو تحفے دیتے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر مسلم سلاطین اور سرابرہان مملکت نے تحفے پیش کیے اور آپ ﷺنے قبول فرمائے۔

 

عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ كِسْرَى أَهْدَى لَهُ، فَقَبِلَ، وَأَنَّ الْمُلُوكَ أَهْدَوْا إِلَيْهِ، فَقَبِلَ مِنْهُمْ.[36]

 

غزوہ تبوک ۹ ھ ؁ میں ہوا، حضرت ابو حمید ساعدی اس کے واقعات کے ذیل میں بیان کرتے ہیں کہ آیلہ کے بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور تحفہ ایک سفید خچر پیش کیا اور ایک چادر پہنائی، (اس نے آپ ؐ سے مصالحت کی اور جزیہ ادا کیا ) آپؐ نے اس کے علاقہ پر اس کا قبضہ باقی رکھا[37]

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ عمرہ کے ارادے سے مکہ روانہ ہوئے لیکن حدیبیہ کے مقام پر مشرکین نے آپ کو مکہ میں داخلہ ہونے سے روک دیا، اس پر آپ ؐ کے اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح ہوئی، اس معاہدہ صلح کی بعض دفعات یہ تھی:

 

فریقین کے درمیان دس سال کے لیے جنگ بندی رہے گی تاکہ دونوں طرف کے لوگ امن کے ساتھ رہ سکیں۔ اس مدت میں ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی جنگی اقدام سے احتراز کیا جائے گا۔ اور کسی قسم کی خفیہ حرکت یا سازش نہیں ہوگی۔

 

محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سال حدیبیہ سے مدینہ لوٹ جائیں گے اور عمرہ نہیں کریں گے اور آئندہ آپ ؐ کے ساتھی عمرہ کے لیے آئیں گے۔ صرف تین دن مکے میں قیام کر سکیں گے۔ وہ غیر مسلحہ ہوں گے تلواریں نیام میں ہوں گی، کسی سوار کا جو ضروری سامان ہوتا ہے اس کے علاوہ کوئی چیز اس کے ساتھ نہ ہوگی۔

 

مکہ کے کسی فرد کو آپ ؐ اپنے ساتھ نہیں لے جاسکیں گے البتہ آپ ؐ کے ساتھیوں میں سے کوئی مکہ میں رہ جانا چاہیے تو آپؐ اسے نہیں روکیں گے۔[38]

 

امام ابو یوسف نے یہ معاہدہ بہت تفصیل سے بیان کیا ہے اس کے شروع میں لکھتے ہیں۔

 

قد وادع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشا عام الحدیبیۃ وامسک عن محا ربتہم فللامام ان یوادع اہل الشرک اذا کان ذلک صلاح الدین والاسلام وکان یرجوا ان یتالفہم بذلک علی الاسلام[39]

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے سال قریش سے صلح کی اور ان سے جنگ سے دست کش ہوگئے۔ لہذا امام کو یہ حق ہے کہ وہ اہل شرک سے مصالحت کرے، اگر اس میں دین اور اسلام کی بہتری ہو اور یہ توقع ہو کہ وہ اس کے ذریعہ انہیں اسلام سے مانوس اور قریب کر سکے گا۔

 

۴۔معاہدہ امن وتعاون:

ہجرت کے بعد مدینہ پہنچنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مختلف قبائل کو ایک معاہدے کا پابند بنایا، اسی کے ساتھ آپ نے یہود سے بھی معاہدہ فرمایا،یہود سے متعلق جو باتیں طے ہوئیں اس کے بعض اجزاء یہ ہیں۔

 

یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک قوم ہیں ،یہود کے لیے ان کا اپنا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا اپنا دین ہوگا۔ یہود کے جن سے گہرے تعلقات ہیں وہ بھی ان ہی میں شمار ہوں گے۔ یہود اپنا خرچ اور مسلمان اپنا خرچ برداشت کریں گے ،جو شخص اس صحیفے میں شامل طبقات کے خلاف جنگ کرے گاٰ اس کے مقابلے میں ان کے درمیان تعاون ہوگا۔ ان کے درمیان خیر خواہی کا تعلق ہوگاٰ ،بدی کی راہ میں رکاوٹ ہوں گے۔ کوئی بھی شخص اپنے حلیف کے ساتھ غلط رویّہ اختیار نہیں کرے گا۔ جو مظلوم ہوگٰا اس کی حمایت کی جائے گی۔[40]

 

الغرض پرامن بقائے کے باہمی اور مشترکہ اصولوں پر اتفاق کرنے کی دعوت قرآن حکیم نے دی ، اس نے اہل کتاب کو ایک مشترک کلمہ پر جمع ہونے کی دعوت دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم عصر قریبی کتابی حکمرانوں اور اقوام سے پرامن بقائے باہمی کی ہر ممکن کوشش فرمائی۔مدینہ کے یہودیوں سے تحریری معاہدے ہوئے۔ فریقین کے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین ہوا، لیکن یہودیوں نے ایک ایک کرکے معاہدوں کو توڑا ۔ آپ ؐ نے نجران ، حبشہ اور حدود شام کے متعدد عیسائی حکمرانوں اور امراء سے مفاہمت کی اور معاہدے کیے ان سب سے حبشہ سے ہونے والا معاہدہ صدیوں سے قائم رہا گویا بین الاقوامی سطح پر پرامن بقائے باہمی اور دوستانہ روابطہ کا حبشہ ماڈل کامیاب ترین ماڈل تھا جو ایک ہزار برس سے بھی زیادہ قائم رہا۔

 

نتائج بحث

*

اسلام عالمگیر مذہب ہے اس لیے وہ ناصرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں سے تعلقات کے اصول و ضوابط بھی وضع کرتا ہے ۔
  • اسلام نے مسلم اور غیر مسلم اقوام سے تعلقات کی اساس کے حوالے سے درج ذیل بنیادی اصول دئیے ہیں :
  • شرف انسانیت و عظمت آدمیت
  • عدل و انصاف
  • امن، امداد باہمی و تعاون
  • عہد کی پاسداری اور تکمیل
  • عدم اکراہ اور حریت فکر
  • غیر جانبداری

 

 

 

اسلام ان مذکورہ بالا بقائے باہمی کے اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو آج کے دور میں تہذیبوں کے تصادم سے بچا جا سکتا ہے ۔

حوالہ جات

  1. الاعراف،۷: ۱۵۸
  2. المزمل،۷۳: ۱۰
  3. الزحرف، ۴۳: ۸۹
  4. الحجر،۱۵: ۸۵۔۸۶
  5. حم سجدہ،۳۲: ۳۴۔۳۵
  6. سید جلا ل الدین عمری، غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق، مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ، علی گڑھ،:۱۸
  7. الممتحنہ،۶۰:۸
  8. آل عمران،۳: ۱۲۵
  9. الاسرا، ۱۷ :۶۹
  10. المائدہ،۵:۳۲
  11. ایضا
  12. ایضا: ۸
  13. ایضا: ۲
  14. البقرۃ،۲ ۱۷۷
  15. الاسراء۱۷: ۳۴
  16. المائدہ۵ :۱
  17. المومنون۲۳:۸
  18. البخاری،محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح ،کتاب الجزية والموادعة، باب اثم الغادر للبر والفاجر,رقم الحدیث ۳۱۸۶
  19. البقرۃ۲: ۲۵۶
  20. الدہر۷۶: ۳
  21. سورۃ الکہف۱۸: ۲۹
  22. الانعام۶:۱۰۸
  23. فصلت۴۱: ۳۴
  24. آل عمران۳: ۶۴
  25. النساء۴:۹۰
  26. شامی، امام یوسف الصالح، سبل الھدی، بیروت ، ۴ :۱۴
  27. سہیلی، عبد الرحمن، امام، الروض الانف، ۴:۵۱
  28. محمد حمید اللہ ، ڈاکٹر،الوثائق السیاسۃ ، وثیقہ نمبر ۱
  29. میثاق مدینہ ، دفعہ نمبر 45
  30. ابن حجر،فتح الباری ۵: ۲۳۳
  31. البخاری ، الجامع الصحیح ،کتاب الہبہ باب الہدیۃ للمشرکین
  32. ابن ہشام ،السیرۃ النبویۃ۲:۲۵۶
  33. عبد الرزاق، المصنف:۱۰: ۳۹۲
  34. البخاری ،الجامع الصحیح ، کتاب الجنائز، باب اذا سلم الصبی فمات
  35. ہدایہ ۴؛ ۴۷۲
  36. ترمذی، ابواب السیر، باب ماجاء فی قبول ہدایا المشرکین
  37. البخاری ، الجامع الصحیح ،کتاب الزکاۃ، باب حزص التمر
  38. البخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ الحدیبیہ، مسلم کتاب الجہاد، باب صلح الحدیبیہ
  39. امام ابو یوسف کتاب الخراج،: ۲۰۷
  40. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۲: ۱۱۹
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...