Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 1 of Al-ʿILM

قرآنی معاشرتی احکام اور لفظ لعلکم: حکم و عصری اطلاقات |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060040263_1065

Pages

1-30

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/14/12

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/14

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

بلاشبہ انسان اشرف المخلوقات اور مسجود ملائک ہے اور یہ اللہ رب العزت کی وہ واحد مخلوق ہے جسے اللہ نے نطق یعنی قوتِ گویائی عطا کی ہے۔انسان اپنے مافی الضمیر، اپنے احساسات،جذبات کا اظہار الفاظ کے سانچے میں ڈھال کرکر تا ہے قرآن میں ارشاد ہے: عَلَّمَهُ الْبَيَانَ[1]"اسے(انسان کو) بولنا سکھایا"

 

جس طرح کسی عمارت کو بنانے کیلئے اینٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح لفظ بنانےکے لیے حروف اور جملوں کیلئے الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے یعنی الفاظ حروف کا اور جملے الفاظ کا مرکب ہوتے ہیں۔عربی میں حروف کی دو قسمیں ہیں، عاملہ اور غیر عاملہ۔

 

حروف عاملہ کی دو قسمیں ہیں ،حروف عاملہ دراسم اورحروف عاملہ در فعل۔حروف عاملہ در اسم کی سات قسمیں ہیں جن میں سے ایک حروف مشبہ بفعل ہے اور لفظِ لعل اسی حروف مشبہ بفعل میں سے ہے۔ذیل میں لعل کے معنی و مفہوم پر روشنی ڈالتے ہیں:

 

لعل کا معنیٰ و مفہوم:

لعل حروف مشبہ بالفعل میں سےہے اور واسطے رجا یعنی ممکن الحصول آرزوکےلیےآتا ہے۔ یہ کلمۃ طمع و اشفاق ہے جو

 

شاید،کاش،امید ہے،ممکن ہے جیسے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔مثلاً لعل الساعۃ قریب[2]

 

ذیل میں لفظ لعل کے مفہوم کی وضاحت پیش کی جاتی ہے:* لعل بمعنی شک:

 

 

 

لفظ لعل شک کےمعنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ابنِ منظور لسان العرب میں لعل کا معنی یوں بیان کرتے ہیں:

 

لعل کلمۃ شک و اٗصلھا عل،والام فی اٗ ولھا ذائدہ[3]

 

"لعل کلمۃ شک ہے اور اسکی اصل عل ہےاور شروع والا حرف زائد ہے"

* لعل بمعنیٰ گمان:

 

 

 

لفظ لعل بعض جگہوں پر گمان کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔یعنی اگر لعل کی نسبت بندوں کی طرف ہو تو گمان کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ امام ذبیدی تاج العروس میں لکھتے ہیں :

 

ان معنی لعل ھنا من جھۃ الظن والحسبان[4] "لعل ظن و گمان کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے"

* لعل بمعنیٰ تحقیق:

 

 

 

بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ لعل اگر باری تعالیٰ کی طرف سے ہو تو وجوب اور تحقیق کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنیٰ لینا صحیح نہیں ۔ امام ذبیدی تاج لعروس میں لکھتے ہیں: ولعل من اللہ تحقیق[5] یعنی لعل کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو تحقیق کے معنیٰ میں استعمال ہوگا۔* لعل بمعنیٰ امید:

 

 

 

ابن ھشام مغنی اللبیب میں لعل کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

وفیھا عشر لغات مشہورہ،ولھا معان: احدھا، التوقع ۔[6]

 

یعنی لعل کی دس مشہور لغات ہیں جن میں سے ایک توقع یعنی امید ہے

* لعل بمعنیٰ استفہام:

 

 

 

ابن ھشام مغنی اللبیب میں لکھتے ہیں :

 

لعل، الاستفہام، اٗثبتہ الکوفیون،ولھذا علق بھا الفعل فی نحو[7]

 

یعنی لعل بطور استفہام بھی استعمال ہوا ہے اور اسے کوفیوں نے ثابت کیا ہے اور یہ نحو میں فعل سے متعلق ہے ۔* لعل بمعنیٰ طمع و اشفاق:

 

 

 

امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں :

 

لَعَلَّ: طمع وإشفاق، وذكر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من الله واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا: إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ على الله تعالى، و «لعلّ» وإن كان طمعا فإن ذلك يقتضي في كلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهماَ[8]

 

لعل: طمع و اشفاق (ڈرتے ہوئے چاہیے) کہ معنیٰ ظاہر کرنے کےلیے آتا ہے۔بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لیے استعمال کرے تو اس کے معنیٰ قطعیت آجاتی ہے اس بناءپر بہت سی آیات میں اس لفظ کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنیٰ لینا صحیح نہیں اور گو لعل کے معنیٰ توقع اور امید کے ہیں مگر کبھی اسکا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے۔* لعل بمعنیٰ شاید،کاش:

 

 

 

ذین العابدین بیان السان میں لکھتے ہیں :"لعل: شاید ،کاش(امید اور شک) کے معنی ادا کرتا ہے"[9]

 

وحید الزمان قاسمی القاموس الجدید میں لکھتے ہیں:"لعل:شاید،ممکن ہے اور امید ہے کہ معنوں میں استعمال ہوتا ہے"[10]

 

پس معلوم ہوا کہ لفظ لعل شاید،کاش،گویا کہ،امید ،ظن و گمان ،تحقیق ،شک ،طمع و اشفاق کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور بعض جگہوں پر اس کا استعمال بطور استفہام بھی کیا گیا ہے۔مختصرا یہ کہ اگر اسکی نسبت اللہ رب العزت کی طرف ہو تو وجوب اور تحقیق کہ معنوں میں اور اگر بندوں کی طرف ہو تو گمان اور امید کہ معنوں میں استعمال ہوتاہے۔

 

لعلکم کے قرآنی موضوعات کی تفصیل:

قرآن میں لفظِ لعلکم ۶۸ مقامات پر درج ذیل موضوعات میں استعمال ہوا ہے:

*

لعلکم تتقون: ۶ مرتبہ، لعلکم تشکرون: ۱۴ مرتبہ، لعلکم تعقلون : ۸ مرتبہ
  • لعلکم تھتدون: ۶ مرتبہ، لعلکم تفلحون: ۱۱ مرتبہ، لعلکم تتفکرون: ۲ مرتبہ
  • لعلکم ترحمون: ۸ مرتبہ، لعلکم تذکرون: ۶ مرتبہ، لعلکم تسئلون: ۱ مرتبہ
  • لعلکم تسلمون: ۱ مرتبہ، لعلکم تخلدون: ۱ مرتبہ، لعلکم تصطلون: ۲ مرتبہ
  • لعلکم تغلبون: ۱ مرتبہ،لعلکم بلقاء ربکم توقنون: ۱ مرتبہ

 

 

 

پس لعل حروف مشبہ بفعل ہے اورکم اسکا اسم ہے یوں لعلکم کا معنیٰ ہے "شاید کے تم "یا " ہو سکتا ہے کہ تم"۔ عربی زبان چونکہ ایک وسیع زبان ہے اور اس کے ایک لفظ کےکئی کئی معنیٰ ہوتے ہیں لہذا انہی میں سے ایک قرآنی لفظ "لعلکم" ہے یہ لفظ قرآن میں مختلف جگہوں پر مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔مختصرا یہ کہ اگر اسکی نسبت اللہ رب العزت کی طرف ہو تو وجوب اور تحقیق کہ معنوں میں اور اگر بندوں کی طرف ہو تو گمان اور امید کہ معنوں میں استعمال ہوتاہے۔

 

قرآنی معاشرتی احکام اور لفظِ لعلکم:

 

معاشرت کے معنیٰ "رہن سہن "ہیں اور طرز معاشرت کا مطلب ہے معاشرے میں رہنے سہنےکےطور طریقے، معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ ربط وارتباط کے طریقے اور شب و روز کے مسائل حل کر نے کے اصول و ضوابط۔معاشرت انسان کی اہم ضرورت ہے کیونکہ انسان ایک معاشرتی وجود ہے، وہ پیدائش سے لے کر موت تک اپنے معاشرے سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اپنی تمام تر ضروریات زندگی کے لئے جن میں خوراک، لباس، مکان، پڑھائی، نوکری، کاروبار اور زندگی کی دیگر ضروریا ت شامل ہیں وہ معاشرے کا سہارا لیتا ہے۔ لہذامعاشرے میں رہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تمام اصول وضوابط اور احکام کی پیروی کرے جو اسلام نے اسے دیے ہیں کیونکہ اسلام کے بتائے ہوئے احکام ہی سے وہ معاشرے میں امن و سکو ن سے زندگی گزار سکتا ہے۔ذیل میں "لعلکم" کے تحت آنے والے معاشرتی معاملات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

حکم ِقصاص :

اسلام امن کا داعی ہے اس نے دنیا میں امن و امان اورانصاف کے قیام اور فتنہ و فساد کے خاتمےکےلیے ایک معقول فوجداری ضابطہ پیش کیا ہے جن میں قصاص بھی شامل ہے ۔قصاص ایک قرآنی سزا ہے جو انسانی زندگی کے تحفظ اور قتل و غارت جیسے سنگین جرائم کی روک تھام میں مؤثر کردار اداکرتی ہے ۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّـٰٓــاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ [11]

 

" اے عقل مند لوگو ! تمہارے لیے خون کا بدلہ (مشروع کرنے) میں زندگی ہے ‘ تاکہ تم (ناحق قتل کرنے سے) بچو"

 

 

قصاص کا معنیٰ و مفہوم:

قصاص کا لفظ " قصص الاثر" سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ "روایت یا اثر کی بتدریج پیروی کرنا " کے آتے ہیں۔اسی سے القصاص یعنی" قصہ گو "نکلا ہے کیونکہ وہ آثار و اخیار کی پیروی کرتا ہے ۔اس اعتبار سے قصاص کا معنی یہ ہوا کہ قاتل ،قتل کا جو راستہ اختیار کرتا ہے اس کے قدموں کے نشانوں پر اسکا پیچھا کیا جاتا ہے ۔

 

امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:"القصاص کے معنی خون کا بدلہ دینے کے ہیں"[12]

 

شریعت میں قصاص کی حکمت:

بظاہر دیکھا جائے تو قصاص موت ہےلیکن حقیقت میں پوری زندگی کا راز اسی میں ہے۔ دور جاہلیت میں قصاص کا کوئی قاعدہ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں طرف سے ہزاروں خون ہوتے تھے مگر پھر بھی فساد کی جڑ ختم نہ ہوتی تھی۔عرب کی تمام خانہ جنگیاں جو برس ہا برس تک جاری رہتی تھیں اس کی ایک بڑی وجہ صرف یہی تھی۔اس لیے شریعتِ اسلامیہ نے مقتول کےاہلِخانہ اور وارثوں کے دلوں کی تشفی کے لیے اور عہدِ جاہلیت کے اس دستور کی بیخ کنی کےلیے قصاص کا حکم دیا ہے تاکہ مجرمانہ ذ ہنیت کے دوسرے لوگ اپنا بھانک انجام دیکھ کر قتل کے ارتکاب سےباز آجائیں گے اور اس طرح بہت سے بےگناہ انسانوں کی جانیں قتل و غارت سے بچ جائیں گی۔

 

یوںمندرجہ بالا آیت سےدو اہم نکات سامنے آتے ہیں:

 

۱۔قصاص میں سب کی زندگی کی حفاظت کا سامان ۔

 

۲۔قصاص ہولناک انجام سے بچاؤ کا ذریعہ۔

 

ذیل میں ان نکات کی وضاحت پیش کی جاتی ہے

 

۱۔قصاص میں سب کی زندگی کی حفاظت کا سامان:

 

قتل کرنے والے کو جب یہ خوف ہوگا کہ میں بھی قصاص میں قتل کیا جاؤں گا تو پھر اسے یہ جرأت نہ ہوگی کہ وہ کسی کو قتل کرے یا مارے۔اور جس معاشرے میں یہ قانون قصاص نافذ ہوجاتا ہے وہاں یہ خوف معاشرے کو قتل اور خونریزی سے محفوظ رکھتا ہے جس سے معاشرے میں نہایت امن اور سکون رہتا ہے۔ امام مظہری لکھتے ہیں:

 

"جب قصاص کا حکم معلوم ہوجائے گا تو یہ قاتل کو قتل کے ارادہ سے باز رکھے گا کیونکہ وہ ڈرے گا کہ اگر میں قتل کردوں گا تو قصاص میں میری بھی جان جائے گی تو اس قصاص کے مشروع ہونے سے دو جانیں بچ گئیں" [13]

 

۲۔قصاص ہولناک انجام سے بچاؤ کا ذریعہ:

 

آیت میں قصاص کو زندگی قرار دے کر آخر میں جو یہ فرمایا گیا گیا ہے: لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ[14]

 

اس میں قصاص کی حکمت و علت واضح کی جارہی ہے کہ امید رکھوکہ تم اس طرح اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کرنے ، ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنےیاقصاص کے خوف سے کسی کو قتل کرنے سے بچوگے اور اسی طرح قصاص کے سبب ہی عذاب آخرت سے بچو سکوگے۔

 

پس معلوم ہوا کہ لعلکم تتقون کا استعمال اللہ کے قانون کی خلاف ورزی سے بچنے،ظلم و زیادتی کرنے سے بچنے اور اللہ سے ڈرنے کے لیے کیا گیا ہےکیونکہ یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر بچنے کی امید کی جا سکتی ہے۔

 

عصری اطلاق:

اسلام جتنی تاکید کے ساتھ انسان کے قتل کی حرمت کو بیان کرتا ہے، عصر حاضر میں اس کی اتنی ہی بے حرمتی ہورہی ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر قتل کے واقعات روزانہ اخباروں کی سرخیاں بنتے ہیں اور اسکی ایک وجہ قصاص کے قانون کا مفقود ہونا ہے۔اگر آج پاکستان میں ہی دیکھ لیا جائے تو قتل و غارت گری کی شرح بہت بڑھ چکی ہے۔کبھی غیرت کے نام پر قتل ہو رہا ہے تو کبھی زمین کے ٹکڑے کے لیے کسی انسان کا قتل کر دیا جاتا ہے اور اسکی وجہ قصاص جیسے حکم کو نظر انداز کرنا ہے۔

 

پاکستان میں کچھ شرعی قانون محمد ضیاء الحق کی صدارت کے دوران تعزیرات پاکستان میں شامل تو کیے گئے مگر ان پر باقاعدہ عمل نہ ہو سکا ۔ اس میں قصاص کا قانون بھی شامل ہے۔ قصاص کے قانون کو غلط استعمال کرنے کے متعدد واقعات سامنے آئے جیسے :* قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا واقعہ

  • عدالت اعظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے قصاص قانون کے استعمال پر برہمی کا اظہار کیا اور نواز شریف کی پارلیمان کو اس سلسلہ میں قانون سازی کا مشورہ دیا[15]

 

 

 

اس کے برعکس کچھ واقعات میں مبینہ طور پر قصاص کے غلط استعمال سے کسی فرد کو سزا دینا:*

مرزا طاہر حسین، جس نے اپنے اوپر جنسی حملہ کرنے والے کو حملہ آور کی پستول سے قتل کر دیا اور

 

 

 

مقتول کے خاندان نے قصاص کے قانون کے تحت اسے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ (18 سال بعدپرویز مشرف نے عالمی دباؤ پر اسے ماروائے عدالت رہا کر دیا)[16]۔

 

بلاشبہ قانونِ قصاص عدل و مساوات کا قانون ہے ۔اگر قتل کرنے والے کو سزا نہیں دی جائے گی تو اس کا حوصلہ بڑھے گا اور مجرمانہ ذہنیت کے دوسرے لوگ بھی نڈر ہو کر قتل و غارت کا بازار گرم کردیں گے اور یوں غریب اور مجبور و بےسہارا طبقہ ظلم و زیادتی کا نشانہ بنا رہے گا۔لہذا موجودہ دور میں بھی قصاص کو نافذ کرنے میں کوئی نرمی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اسی میں انسانی زندگی کی بقاء اور معاشرے کا امن پوشیدہ ہے اور یہی قانون اللہ کے غضب سے بچنے کا باعث بھی ہے۔

 

حکمِ استیذان:

اسلام دینِ کامل ہے جس میں انسان کو انفرادی واجتماعی زندگی گزارنے کے قوانین وآداب بیان کر دیے گئے ہیں۔ انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کی رہنمائی کے لیے آداب دین موجود نہ ہوں ۔اسلام نے تو فرد کی نجی زندگی کو بھی پرسکون اور محفوظ بنانے کے لیے کچھ آداب بتائے ہیں جن میں سے ایک ادب استیذان ہے (اجازت لینا ہے)۔ارشاد فرمایا:

 

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ [17]

 

"اے ایمان والو! اپنے گھر کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لواور گھر والوں کو سلام نہ کر لو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو"

 

اس آیت میں اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں بھی داخل ہونے کے آداب بتائے جا رہے ہیں۔جن میں پہلا ادب یہ ہے کہ داخل ہونے سے قبل اجازت لی جائے اور اجازت ملنے پر داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کہنا چاہیے۔

 

مفسرین لکھتے ہیں کہ جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ : حُیِّیتم صَبَاحاً ، حُیِّیتم مَسَاءً (صبح بخیر، شام

 

بخیر) کہتے ہوئے بےتکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے اوربعض اوقات گھر والوں پر اور ان کی عورتوں پر نادیدنی حالت میں نگاہیں پڑجاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے کا حق حاصل ہے اور کسی دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو۔ اس حکم کے نازل ہونے پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاشرے میں جو آداب اور قواعد جاری فرمائے انہیں ہم ذیل میں نمبروار بیان کرتے ہیں :

 

۱۔حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا۔حدیث میں آتا ہے

 

"‏ لو أن امرأ اطلع عليك بغير إذن ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فخذفته بعصاة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ففقأت عينه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لم يكن عليك جناح ‏"‏‏.[18]

 

"اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے تمہارے گھر میں جھانکے اور تم لاٹھی سے اس کی آنکھ پھوڑ دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے"

 

۲۔اجازت لینے کا حکم صرف دوسروں کے گھر جانے کی صورت ہی میں نہیں ہے بلکہ خود اپنے گھر،اپنی ماں، بہنوں کے پاس جانے کی صورت میں بھی ہے۔

 

امام ابن کثیر لکھتے ہیں:" حضرت عطار حمۃ اللہ علیہ نے پوچھا۔ میرے گھر میں میری یتیم بہنیں ہیں جو ایک ہی گھر میں

 

رہتی ہیں اور میں ہی انہیں پالتا ہوں کیا ان کے پاس جانے کے لئے بھی مجھے اجازت کی ضرورت ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ضرور اجازت طلب کیا کرو، میں نے دوبارہ یہی سوال کیا کہ شاید کوئی رخصت کا پہلو نکل آئے آپ نے فرمایا کیا تم انہیں ننگا دیکھنا پسند کروگے ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا پھر ضرور اجازت مانگا کرو۔"[19]

 

۳۔ابتداء میں جب استیذان کا قاعدہ مقرر کیا گیا تو لوگ اس کے آداب سے واقف نہ تھے۔ بنو عامر کا ایک آدمی آیا اور اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، کہنے لگا : ” کیا میں اندر آجاؤں ؟ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خادم سے کہا :

 

اخْرُجْ إِلَی هَذَا فَعَلِّمْهُ الِاسْتِئْذَانَ فَقُلْ لَهُ قُلْ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ أَأَدْخُلُ فَسَمِعَهُ الرَّجُلُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ أَأَدْخُلُ فَأَذِنَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ[20]

 

"اس کے پاس جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ وہ اس طرح کہے : ( اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَ أَدْخُلُ ؟ )” السلام علیکم، کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ اس آدمی نے یہ بات سن لی اور کہا : ” اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَ أَدْخُلُ ؟ “تو رسول

 

اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اجازت دے دی اور وہ داخل ہوگیا"

 

۴۔اجازت طلب کرنے میں اصرار کرنا، یا اجازت نہ ملنے کی صورت میں دروازے پر جم کر کھڑے ہوجانا جائز نہیں

 

ہے۔ اگر تین دفعہ استیذان کے بعد صاحب خانہ کی طرف سے اجازت نہ ملے، یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے۔

 

حکمتِ استیذان :

 

اللہ کریم نے ہر انسان کو جو اس کے رہنے کی جگہ عطا فرمائی ہے ،وہ اس کا مسکن ہے اور مسکن کی اصل غرض سکون وراحت ہے۔اور یہ سکون اسی صورت باقی رہ سکتا ہے کہ انسان دوسرے کسی شخص کی مداخلت کے بغیر اپنے گھر میں، اپنی ضرورت کے مطابق، آزادی سے کام اور آرام کر سکے۔اور بعض اوقات آدمی اپنے گھر میں ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس حال میں اسے دیکھے، اب اگر کوئی شخص بغیر اجازت اس کے گھر میں چلاجائے تو کئی قسم کی اخلاقی اور سماجی بیماریاں اور مسائل جنم لے سکتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان تمام خرابیوں کا سد باب کرنے کے لیے کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے کو ممنوع قرار دیا ہے۔

 

ارشاد فرمایا:ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ[21].اس سے واضح کر دیا کہ انہی اصولوں کی اتباع میں تمہارے لیے

 

بہتری ہےیعنی اجازت طلب کرنا اور سلام کرتے ہوئے داخل ہونا خیر کا باعث ہے۔"لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ " سے واضح کردیا کہ امید ہے تم اس سے نصیحت حاصل کرو گے کہ جس طرح تمہیں دوسروں کا بلا اجازت آ گھسنا برا محسوس ہوتا ہے، اسی طرح دوسروں کو تمہارا بلا اجازت در آنا بھی برا محسوس ہوتا ہے۔

 

عصری اطلاق:

موجودہ دور میں اگر دیکھا جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ آج کا مسلمان اس حکم الٰہی سے غافل نظر آتا ہے۔اس کی چھوٹی سی مثال ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام ہے جہاں عورت کو اپنے دیور ،جیٹھ اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ ایک چھت تلے رہنا پڑتا ہے اور ہمارے معاشرے میں ایک عورت کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے پردہ کرے۔بہت سے گھروں کے آزادانہ ماحول میں لوگ اجازت جیسے ادب کو ضروری نہیں سمجھتے اور یہی چیز فتنہ و فساد کا باعث بنتی ہے ۔ بہرحال دوسروں کے گھروں یا کمروں میں بلا اجازت داخل ہونےاور تانک جھانک کرنے سے مسائل اور فساد پیدا ہوتا ہے لہذا شریعت اسلامیہ نے اس عمل کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔پس معاشرے کا امن قائم رکھنے کےلیے ضروری ہے کہ استیذان جیسے حکم الٰہی پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائےاور نہ صرف دوسروں کے گھروں بلکہ اپنے گھر میں بھی دوسروں کے کمروں میں جانے سے قبل اجازت طلب کرنی چاہیے۔

 

باہمی اکل وشرب اور گھر میں داخل ہونےکے آداب سے متعلق احکام:

جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ حکم نازل کیا۔ لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل آپس میں ناحق ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ تو مسلمانوں نے احتیاط کی بنا پر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کے گھروں کا کھانا کھانا بھی چھوڑ دیا اور خیال کیا کہ بلا ضرورت کسی کے گھر کا کھانا حلال نہیں حتی کہ اندھوں اور لنگڑوں اور بیماروں نے بھی اپنے اعزاء اوراقارب کے گھر جانے میں تنگی محسوس کی اور خیال کیا کہ شاید ہماری معذوری اور ہماری بیماری دوسروں کے لئے باعث گرانی ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَاۗىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗٓ اَوْ صَدِيْقِكُمْ ۭ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْـتَاتًا ۭ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ

 

تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ[22]

 

"نابینا پر کوئی حرج نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے اور نہ خود تم پر کوئی حرج ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ، یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے کھاؤ اور اپنی ماں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے کھاؤ، یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی چابیاں تمہارے قبضے میں ہوں یا اپنے دوست کے گھر سے، اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم سب مل کر کھانا یا الگ الگ کھانا پھر جب تک گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں پر سلام کربھیجو،اللہ سے اچھی دعا کروکہ برکت اور پاکیزگی اللہ کی طرف سے نازل ہو، اللہ اسی طرح تمہارے لئے آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھ لو "

 

اس آیت میں دو اہم مسئلوں کو بیان کیا گیا ہے ایک تو باہمی اکل وشرب کے آداب کو بیان کیا گیا ہےاور بتایا گیا ہے کہ کن کن گھروں سےبلا اجازت کھانا کھایا جاسکتاہےاوردوسرا گھروں میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے کی اہمیت بیان کی گئی ۔

 

جن گھروں سے کھانے کی اجازت:

 

اس آیت میں جن لوگوں کے گھروں اور جن کے ساتھ کھانا کھانا جائز ہے انکی فہرست بیان کر دی گئی ہے۔

 

۱۔اندھے ، لنگڑے اور بیمار لوگ اپنی بھوک رفع کرنے کے لئے ہر جگہ اور ہر گھر سے کھانا کھا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی عام اجازت دے دی ہے کیونکہ ان کی معذوری بجائے خود سارے معاشرے پر ان کا حق قائم کردیتی ہے۔

 

۲۔دوسرے عام لوگ پراپنے والدین، اپنے بھائیوں، اپنی بہنوں، اپنے چچاؤں، اپنی پھوپھیوں، اپنے ماموؤں، اپنی خالاؤں کے گھروں سے کھانے میں کوئی پابندی نہیں۔

 

۲۔ان گھروں سے بھی کھایا جا سکتا ہے جن کی کنجیوں کے تم مالک ہو۔ یعنی جن کے تم متولی ہو اور وہ مکان تمہارے زیر تصرف ہوں مثلا کسی نے تم کو اپنے مکان کا وکیل اور متولی اور محافظ بنادیا ہے اور بقدر ضرورت تم کو اس سے کھانے کی اجازت دی ہے ۔

 

۳۔اپنے دوست کے گھر سے جو تمہارا سچا دوست ہے۔ جسے تمہارے کھانے سے خوشی ہوتی ہے اور تمہارا جانا اس پر شاق اور گراں نہ گزرتا ہو۔

 

پس ان لوگوں کے گھروں سے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ کھانا ناحق کھانا نہیں جس کی اللہ تعالیٰ نے لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل میں ممانعت کی ہے۔ یہ آیتیں نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ تمہیں اس بارے میں رخصت اور وسعت ہے تنگی کی ضرورت نہیں۔

 

اکٹھے اور تنہا کھانے کی اجازت :

 

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْـتَاتًا : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اکٹھے ہو کر کھانے اور علیحدہ

 

علیحدہ کھانے کی اجازت دی اور کسی ایک چیز کا پابند نہیں بنایا۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک آسانی ہے، اگرچہ اکٹھے ہو کر

 

کھانے سے برکت ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

 

طعام الاثنين كافي الثلاثة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وطعام الثلاثة كافي الأربعة ‏‏‏.[23]

 

"دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کو کفایت کرتا ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کو کفایت کرتا ہے"

 

پس معلوم ہوا کہ معذور لوگوں، اقرباء کے ہاں، اپنے دوستوں اور جن گھروں کی چابیاں پاس ہوں ان گھروں سے کھانے کی اجازت ہے اور اس سلسلے میں اکٹھے یا الگ الگ کھانے میں میں کوئی پابندی نہیں ہے۔

 

گھر میں داخل ہوتے وقت اہل خانہ کو سلام کہنا:

 

فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً[24]

 

اس میں اپنے گھروں میں داخل ہونے کا ادب بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ داخل ہوتے وقت اہل خانہ کو سلام عرض کرو کیونکہ سلام کہنا دراصل دعا ہے جس میں ہم دوسروں کی خیر اور سلامتی چاہتے ہیں۔لیکن بعض لوگوں کے لیے اپنی بیوی یا اپنے بچوں کو سلام کرنا گراں گزرتا ہے،تاہم اہل ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق ایسا کریں، آخر اپنے بیوی بچوں کو سلامتی کی دعا سے کیوں محروم رکھا جائے ؟

 

حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:أن رجلا ،‏‏‏‏ سأل النبي صلى الله عليه وسلم أى الإسلام خير قال ‏"‏ تطعم الطعام ،‏‏‏‏ وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف ‏"[25]

 

"کہ ایک آدمی نے رسول اللہ سے سوال کیا، اسلام کی کون سی بات زیادہ بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” یہ کہ تم کھانا کھلاؤ اور ہر شخص کو سلام کہو، چاہے تم اسے پہچانو یا نہ پہچانو"

 

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرٌ ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ فَقَالَ عِشْرُونَ ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکَاتُهُ فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ فَقَالَ ثَلَاثُونَ[26]

 

"سیدنا عمران بن حصین ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا "السلام علیکم “ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا، پھر وہ شخص بیٹھ گیا، تو آپ نے فرمایا : ”( اس کے لیے) دس نیکیاں ہیں۔ "پھر ایک دوسرا آدمی آیا اور اس نے کہا "السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ “ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا : ”( اس کے لیے) بیس (نیکیاں) ہیں۔ “ پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا ” السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ “ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا، پس وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا : ”( اس کے لیے) تیس (نیکیاں) ہیں"

 

اسی ضمن میں امام مظہری جو لکھتے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ سلام کے جواب کو باعث برکت اس لیے کہا گیا ہے کہ اس سے خبر میں زیادتی اور ثواب کی امید کی جاتی ہے۔

 

حکمت :

 

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ[27]

 

آیت میں بیان کردہ احکامات کو کھول کر بیان کرنے کی حکمت عقل اورسمجھ بوجھ سے سے کام لیتے ہوئے اللہ کے بیان

 

کردہ پاکیزہ احکام و آداب اور ان مقدس ہدایات و ارشادات کو سچے دل سے اپنا کر دارین کی سعادتوں سے بہرہ ور ہو نا اور اپنی زندگیوں کو آسان بناناہے۔

 

عصری اطلاق:

 

موجودہ دور نفسا نفسی کا دور ہے ہر شخص زیادہ سے زیادہ کی ہوس میں مبتلا ہے اور غریبوں اور ضروتمندوں پر خرچ کرنا بہت سے لوگوں کے لیے آسان نہیں ہوتا ۔ بے حسی تو آج کے معاشرے کا معمول بنتی جارہی ہے، ہمیں اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں ، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں ہے ۔ ہم خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن برابر میں رہنے والے بھوکے پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بچے روٹی کو ترستے ہیں اور ہم اپنے بچے پر ضرورت سے زائد خرچ کرتے ہیں۔پس اسی چیز نے معاشرے سے اخوت و محبت کے جذبات کو تقریبا ختم کر دیا ہے ۔لیکن ہمارا اسلام چونکہ اس چیز کی اجازت نہیں دیتا سو اس نے تمام افراد کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے علاوہ ایسے لوگوں کی بھی نشاندہی کردی ہے جن کے گھروں سے کھانا پینا جائز ہے۔جیسےاندھے ، لنگڑے اور بیمار لوگ اپنی بھوک رفع کرنے کے لئے ہر جگہ اور ہر گھر سے کھانا کھا سکتے ہیں ۔اب چونکہ دوسروں پر خرچ کرنا یا غریبوں محتاجوں کو کھلانا باعث رحمت و برکت ہے سو ہمیں اپنے رب کو راضی کرنے کےلیے ان قرآنی تعلیمات ،سیرت رسولﷺ اور طرز صحابہ پر عمل کرنا چاہیے۔

 

اخلاق حسنہ کا حکم:

 

دین اسلام اپنے ماننے والوں کو اچھے اخلاق کی ترغیب دیتا ہے اور انہیں برےافعال اور بد اخلاقی سے روکتا ہے، ہر وہ عادت جو معاشرہ میں خیر و بھلائی کو فروغ دینے والی ہے اسلام اس کی دعوت دیتا ہے اور جو عادت معاشرہ میں شر اور

 

فسادکو عام کرتی ہے اسلام اس سے منع کرتا ہے۔

 

قرآن میں ارشاد ہےنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ [28]

 

"بیشک اللہ حکم دیتا ہے کہ عدل اور احسان کرو اور رشتہ داروں کو دو اور بےحیائی اور برائی اور سرکشی سے منع فرماتا ہے وہ تم کو نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔"

 

اس آیت میں تین باتوں کے کرنےکا حکم دیا گیا ہے اور تین باتوں سے منع کیا گیا ہے اور یہ چھ الفاظ اس قدر وسیع المعنی

 

ہیں کہ ساری اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ان میں آگیا ہے۔ اسی لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر قرآن میں کوئی آیت نہ ہوتی تو صرف یہی آیت انسان کی ہدایت کے لیے کافی تھی۔

 

عدل و انصاف کا حکم:

 

آیت میں جو پہلا حکم دیا گیا ہے وہ عدل کا ہے۔عدل کا معنی ہے انصاف کرنا۔ یعنی اپنوں اور غیروں سب کے ساتھ انصاف کیا جائے۔اور اس کے دوسرے معنی اعتدال کے ہیں یعنی کسی معاملے میں بھی کسی کے ساتھ بھی زیادتی یا کمی کا ارتکاب نہ کیا جائے۔

 

امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں:"کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل ہے یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے دینا جبکہ نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اورشر کے مقابلے میں کم شر کرنا احسان ہے"[29]

 

پس معلوم ہوا کہ عدل کے معنی برابری ،توازن قائم رکھنے اور انصاف قائم کرنے کے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں عدل و انصاف سے کام لینے کا حکم دیتا ہے۔

 

احسان کا حکم:

آیت میں جو دوسرا حکم دیا جا رہا ہے وہ احسان کا ہے۔احسان کے ایک معنی حسن سلوک، عفو و درگزر اور معاف کردینے کے ہیں۔ دوسرے معنی تفضل کے ہیں یعنی حق واجب سے زیادہ دینا یا عمل واجب سے زیادہ عمل کرنا مثلاً کسی کام کی مزدوری سو روپے طے ہے۔ لیکن مزدوری دیتے وقت دس بیس روپے زیادہ دینایہ احسان ہے۔ احسان کے ایک تیسرے معنی حسن عبادت ہے، جس کو حدیث میں ان تعبد اللہ کانک تراہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو سے تعبیر کیا گیا ہے.پس معلوم ہوا کہ احسان معاشرے میں امن و امان کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

 

قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم:

 

آیت میں جس تیسری چیز کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ رشتے داروں کا حق ادا کرنا یعنی ان کی امداد کرنا ہے۔اسے حدیث میں صلہ رحمی کہا گیا ہے اور اس کی نہایت تاکید احادیث میں بیان کی گئی ہے ۔حضرت ابو ایوب انصاری بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں داخل کردےفقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تعبد الله لا تشرك به شيئا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وتقيم الصلاة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وتؤتي الزكاة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وتصل الرحم ،[30]

 

"نبی ﷺنے فرمایا تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ ملاپ رکھو۔"

 

معلوم ہوا کہ اللہ صلہ رحمی کو پسند کرتا ہے اور رشتہ داروں کو دینے،انکی ضروریات کو پورا کرنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ یہ عمل جنت میں داخل کرنے کا باعث بنتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس حسن سلوک سے خاندان اور معاشرے میں محبت ،حلاوت اور پاکیزگی کی فضا بھی پیدا ہوتی ہے۔

 

فحش سے باز رہنے کا حکم:

 

درج بالا آیت میں اللہ تعالیٰ بےحیائی سے بچنے کا حکم دیتے ہیں یعنی ان برے کاموں سے بچنے کا حکم جو شہوانی اور نفسانی قوت کے اشارہ پر کیے جائیں جیسے زنا اور لواطت وغیرہ وغیرہ۔قرآن میں ایک جگہ فرمایا :

 

ولا تقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا[31]۔

 

"اور زنا کے قریب (بھی) نہ جاؤ کیونکہ وہ بےحیائی کا کام ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے"

 

ایک اور جگہ فرمایا :

 

قل انما حرم ربی الفواحش ما ظھر منھا وما بطن والاثم والبغی بغیر الحق[32]۔

 

"آپ کہیے میرے رب نے تو صرف بےحیائی کے کاموں کو حرام فرمایا ہے خواہ وہ کھلی بےحیائی ہو یا چھپی ہوئی اور گناہ کو

 

اور ناحق سرکشی کو"

 

خلاصہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام قسم کے بےحیائی کے کاموں کو حرام فرما دیا خواہ وہ علانیہ کیے جائیں یا چھپ کر۔

 

منکر سے باز رہنے کا حکم:

 

آیت میں بیان کردہ دوسری چیز منکر ہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔” منکر “ کے معنی نامعقول اور ناپسندیدہ کے

 

ہیں منکر سے وہ امور مراد ہیں جو شریعت کے نزدیک نامعقول اور ناپسندیدہ ہوں اور قوت غضبیہ اور سبعیہ کے اشارہ سے سرزد ہو رہے ہوں جیسے کسی کو قتل کردینا یا کسی کا مال غصب کرلینا۔ قوت غضبیہ اور سبعیہ ہی انسان کو ایذا رسانی پر آمادہ کرتی ہے اور یہ امر تمام عقلاء کے نزدیک ” منکر “ یعنی ناپسندیدہ ہے۔

 

سرکشی سے باز رہنے کا حکم:

 

تیسری چیز جس سے منع کیا گیا ہے وہ” بغی " ہےاس کا مطلب ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنا،اپنی حد سے تجاوز کرنااور

 

دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرنا ہے ۔ارشاد ہوتا ہے

 

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِنِّي حَرَّمْتُ عَلَی نَفْسِي الظُّلْمَ وَعَلَی عِبَادِي فَلَا تَظَالَمُو[33]

 

'کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے میرے بندو ! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تم پر بھی حرام کیا ہے، لہٰذا تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔ “

 

معلوم ہوا ظلم کرنا اور دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرنا قرآن کی رو سے ممنوع ہے ،اس سے بچنا چاہیے۔

 

حکمت:

 

عدل و احسان، رشتہ داروں کو دینا، بےحیائی اور برائی اور سرکشی سے باز رہنا ایسی احکامات ہیں جو کسی بھی معاشرے میں

 

امن وامان اور خوشگواریت لاتے ہیں سو اللہ ان اوامرو نواہی کے ذریعے نصیحت کرتا ہے کہ ان باتوں کو قبول کرو اور اس پر عمل کرو کیونکہ اسی میں تمہاری دنیا اور آخرت کی فلاح ہے۔

 

عصری اطلاق:

 

آج کا دَور ترقی یافتہ کہلاتاہے، زندگی کے ہر گوشے میں نت نئی ایجادات ہورہی ہیں، ہر قسم کی سہولیات لوگوں کو میسر ہیں لیکن اسکے باوجود آج لوگوں کو سکون وطمانیت حاصل نہیں، ایک دائمی بے اطمینانی ہے، جو سب پر مسلط ہے، ہر طرف ظلم و ستم کی گرم بازاری ہے،عدل و انصاف کا فقدان نظر آرہا ہے ،بےحیائی زِنا اور شراب نوشی یہ سب عام ہو چکی ہیں اور ان سب کی وجہ اللہ کے کلام اور اسکے احکام سے دوری ہے۔آج کے دور میں انتشار اور فساد کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر معاملے میں عدل و انصاف سے کام لیا جائےیعنی ہر شخص کو اس کے حقوق پوری ایمان داری سے ادا کیے جائیں۔جس کا جس قدر اور جس نسبت سے حق بنتا ہے وہ اسے پورا پورا دیا جائے۔

 

دوسری چیز جس کا قرآن نے حکم دیا ہے وہ احسان ہے پس اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اور دوسروں کا حق دیتے ہوئے احسان کو مدنظر رکھنا چاہیے۔تیسری بات رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور انکی ضروریات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔جن تین باتوں کو اسلام نے ناپسند کرتے ہوئے منع فرمایا ہے وہ بےحیائی،برائی اورظلم و زیادتی کا ارتکاب ہے سو ان سب برے کاموں سے بچنا چاہیے تاکہ اللہ کو راضی کیا جاسکےاور دنیا و آخرت میں تباہی سے بچا جا سکے۔

 

 

یمین سے متعلق شرعی حکم :

 

انسان چھوٹا ہو یا بڑا زندگی میں ضرور قسم کھاتا ہے بعض تو اسے تکیہ کلام کے طور پرقسم کھاتے اور بعض جان بوجھ کریا عادتا اس کا استعمال کرتے ہیں ۔لیکن دین اسلام ہمیں اس معاملے میں بھی ہدایات دیتا ہے تاکہ اس ضمن میں انجانے میں ہم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو جائے۔

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ ۚ فَكَفَّارَتُهٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَةِ

 

مَسٰكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ ۭ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ ۭذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ۭ وَاحْفَظُوْٓا اَيْمَانَكُمْ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ [34]

 

" اللہ تمہاری بےمقصد قسموں پر گرفت نہیں فرمائے گا لیکن تمہاری پختہ قسموں پر تمہاری گرفت فرمائے گا ‘ سو ان کا کفارہ دس مسکینوں کو درمیانی قسم کا کھانا کھلانا ہے جیسا کہ تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو ‘ یا ان مسکینوں کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے، جو ان میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے ‘ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھاؤ (اور توڑ دو ) اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو"

 

اس آیت میں قسم کی دو قسموں یمین لغو اور یمین منعقدہ کا بیان اور اس سے متعلقہ احکام کا ذکر کیا گیا ہے

 

یمین لغو کا مفہوم :

 

لغو کے کلام عرب میں دو معنی ہیں۔ ایک معنی بےفائدہ اور باطل کلام جس سے کوئی عقد نہ کیا جائے۔ دوسرا معنی ہے فحش اور بےہودہ کلام ‘ جو گناہ کا موجب ہو۔ قرآن مجید میں ہے لا یسمعون فیھا لغوا الا سلما [35]"وہ جنت میں

 

کوئی فضول اور گناہ کی بات نہیں سنیں گے بجزسلام کے۔"

 

یمین لغو پر عدم گرفت :

 

اس قسم کی قسموں پر نہ کوئی گناہ ہوتا ہے اور نہ کوئی کفارہ واجب ہوتا ہے البتہ بلا ضرورت قسم کھانا کوئی اچھی بات نہیں ہے، اس لئے ایک مسلمان کو اس سے احتیاط کرنی چاہیے۔

 

یمین منعقدہ کا مفہوم:

 

مستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائی جائے تو یہ یمین منعقدہ ہے۔ ایسی قسم کو توڑنا عام حالات میں بڑا گناہ ہے، اور اگر کوئی شخص ایسی قسم توڑدے تو اس کا کفارہ بھی واجب ہے.

 

یمین منعقدہ پر مواخذہ : امام مظہری لکھتے ہیں:

 

" کہ پختہ قسموں کو اگر توڑو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری گرفت کرے گا یا یوں کہو کہ پختہ قسموں کو توڑنے پر تم سے مواخذہ

 

کرے گا "[36]

 

معلوم ہوا کہ ارادۃ پکی قسمیں کھانے سے اللہ کی ذات گرفت فرمائےگی۔اب ایسی قسموں کے مواخذہ سے کیسے بچا جا سکتا ہے اس کے بارے میں اسی آیت میں اسکا کفارہ بھی بتایا گیا ہے۔

 

قسم توڑنے کا کفارہ:

 

ایسی قسم کا کفارہ دس محتاجوں کواوسط درجہ کا کھانا کھلانا ہے جیسا اپنے گھر والوں کو کھلایا جاتا ہے یا دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کپڑا پہنا نا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہےاگر ان تینوں میں سے ایک کام کی بھی استطاعت نہ ہو تو اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا جو تین دن کے روزے ہیں جو متواتر رکھنے ہوں گے ۔

 

احکامات میں نرمی کی حکمت:

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ[37]

 

اس آیت میں ان قسموں پر جن پر اللہ نے گرفت فرمانی تھی اس کا کفارہ بھی بتا دیا گیا ہے تاکہ انسان مواخذہ سے بچ سکے اور کفارہ میں بھی آسانی کا پہلو پیش کیا کہ کھانا کھلا دو،لباس دے دو یا غلام آزاد کر دو اور اگر کچھ نہ کرسکو تو تین روزے رکھ لو تاکہ تم بچ سکو۔اب یہ آسانی اور یہ نرمی اس لیے رکھی تاکہ اس کا شکر ادا کیا جاسکے۔یہاں لعلکم کی نسبت بندوں

 

کی طرف ہے سوبندوں کو اللہ کے اس احسان پر اسکا شکر ادا کرنا چاہیے۔

 

عصری اطلاق:

 

دور حاضر میں دیکھا جائے تو قسم کھانا بہت سے لوگوں کی عادت اور بہت سے لوگوں کا تکیہ کلام نظر آتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ لوگ اس کے متعلق یا تو اللہ کے احکام سے واقف نہیں یا واقف تو ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے اور اسے ایک معمولی بات سمجھتے ہیں مگر قرآن نے اس سے منع فرمایا ہے۔جیساکہ ارشاد فرمایا: وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ

 

تَوْكِيْدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ [38]

 

اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو ، باوجود اس کے کہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو "

 

قسم کھا لینا کوئی مذاق نہیں ہے اس لیے اول تو قسمیں کم سے کم کھانی چاہئیں، اور اگر کوئی قسم کھالی ہو تو حتی الامکان اسے پورا کرنا ضروری ہےبصورت دیگرکفارہ ادا کرنا چاہیے ورنہ انسان اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا۔

 

اخوت اور بھائی چارے کا حکم:

اسلام امن کا داعی ہے یہ تمام مسلمانوں میں رشتہ اخوت پیدا کرتا ہے اورانہیں اپنے اندر اتحاد واتفاق قائم کرنے کی تلقین کرتا ہے اور بلا امتیاز ،حسب و نسب ،رنگ ،نسل اور زبان تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے:

 

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ [39]

 

"بیشک سب مومن آپس میں بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے "

 

یہ آیت دنیا کے تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے اور یہ اسی کی برکت ہے کہ کسی دوسرے دین یا مسلک کے پیروؤں میں وہ اخوت نہیں پائی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔

 

۱۔ایمان والوں کا آپس میں بھائی بھائی ہونا:

 

یعنی تمام مؤمنوں کی اصل ایک ہے یعنی سب کی اصل ایمان ہے اور ایمان ہی حیات ابدی کا موجب ہے۔ اس لیے تمام اہل ایمان بھائی ‘ بھائی ہیں ۔حدیث میں آتا ہے:

 

أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ المسلم أخو المسلم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا يظلمه ولا يسلمه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومن كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومن فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه كربة من كربات يوم

 

القيامة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة ‏"‏‏.[40]

 

"حضرت عبد اللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرے نہ اس کو رسوا کرے، جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتا ہے، اللہ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے تو اللہ قیامت کے دن اس کے مصائب

 

میں سے کوئی مصیبت دور فرمادے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے، قیامت کے دن اللہ اس کا پردہ رکھے

 

گا"معلوم ہوا سب مومن آپس میں دین کی رو سے بھائی بھائی ہیں۔

 

۲۔اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرانے کا حکم:

 

دو مسلمانوں، افراد یا دو گروہوں میں اختلاف واقع ہو سکتا ہے، لیکن ان کے قریب جو تیسرا فرد یا گروہ ہے، اس کی ذمے داری ہے کہ ان لڑنے یا اختلاف کرنے والوں میں فوراً صلح کرا دے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کرے جو دو بھائیوں سے کیا جاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان یہ ذمے داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے کہ ہم مسلمانوں کے درمیان مزید جھگڑا کرنے کی فضا پیدا نہ کریں بلکہ واقع ہونے والے جھگڑے کو نہ صرف ختم کرائیں بلکہ جھگڑے کی بنیاد اور سبب کا خاتمہ بھی کریں۔

 

‏‏‏‏ عن أبي حازم ،‏‏‏‏ عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه أن أهل ،‏‏‏‏ قباء اقتتلوا حتى تراموا بالحجارة ،‏‏‏‏ فأخبر

 

رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك فقال ‏"‏ اذهبوا بنا نصلح بينهم ‏"‏‏.[41]

 

"رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت پر عمل کر کے دکھایا ہے، جیسا کہ سیدنا سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ قبا کے لوگ آپس میں لڑ پڑے، یہاں تک کہ انھوں نے ایک دوسرے پر پتھر پھینکے۔ یہ خبر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی تو آپ نے فرمایا ہمیں ان کے پاس لے چلو، تاکہ ان کے درمیان صلح کرا دیں"

 

حکمت:

 

آیت میں لعلکم ترحمون کے الفاظ واضح کر رہےہیں کہ اگرتم مومن بھائیوں کے درمیان صلح کرواؤ گے اورہر معاملے میں اللہ سے ڈروگےتو امید رکھو کہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاجاؤگےکیونکہ اللہ کی رحمت تو اہل ایمان و تقوی کے لئے یقینی ہے۔امام ابن کثیر لکھتے ہیں:"دونوں لڑنے والی جماعتوں اور دونوں طرف کے اسلامی بھائیوں میں صلح کرا دو اپنے تمام کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو۔ یہی وہ اوصاف ہیں جن کی وجہ سے اللہ کی رحمت تم پر نازل ہوگی پرہیزگاروں کے ساتھ ہی رب کا رحم رہتا ہے"[42]معلوم ہوا کہ اپنے اسلامی بھائیوں کے درمیان صلح کروانا اللہ کی رحمت کا باعث بنتا ہے۔

 

عصری اطلاق:

 

کسی بھی معاشرے کا لازمی جز اخوت اور بھائی چارہ ہے اور مسلم معاشرے میں تو اسکی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ باہمی محبت ، مدد کا جذبہ، ہمدردی اور تعاون کرنا ہی ایسی صفات ہیں جو کسی مسلم معاشرے میں خدا پرستی کے ساتھ ساتھ بندوں کے ساتھ تعلق کی بنیادیں مضبوط کرتی ہیں۔آج پاکستان کے معاشرے کا جائزہ کیا جائے تو یہ بالعموم نفرت و عداوت، فرقہ واریت، لسانی تقسیم، مذہبی تشدد اور طبقاتی کشمکش سے عبارت ہےاور اسکی وجہ جذبہ اخوت کا فقدان ہے۔جبکہ اسلام تمام امت کو وحدت واخوت کی لڑی میں منسلک کردیتا ہےسو اس رشتہ اخوت و محبت سے ہرگز غفلت نہیں اختیار کرنی چاہیےاور چونکہ اسلام کی رو سے تمام مسلمان باہم ایک دوسرے کے بھائی ہیں تو اگر کسی وقت اختلاف پیش آجائے تو ان میں صلح اور ملاپ کرا دیا جائے اور اللہ سے ڈرنا چاہیےکیونکہ اللہ کی رحمت کی امید اسی عمل سے کی جاسکتی ہے۔

 

فرقہ بازی کی ممانعت کا حکم:

اسلام انسانیت کی بقاء، معاشرے میں امن و سلامتی، اتحاد، اخوت اور بھائی چارے کا ضامن ہے۔ اس میں فرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے:

 

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖلَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ[43]

 

"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ ڈالو ‘ اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم (آپس میں) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کے کرم سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تم کو اس سے نجات دی ‘ اللہ اسی طرح تمہارے لیے اپنی آیتوں کو بیان فرماتا ہے۔ تاکہ تم ہدایت پاؤ"

 

۱۔حبل اللہ کو تھامنے کا حکم:

 

اللہ کی رسی کی متعدد تفسیریں کی گئیں ہیں ،بعض مفسرین کی رائے میں اس سے مراد قرآن کریم ، دین اسلام اور

 

شریعت ہے۔بعض مفسرین کی رائے میں اللہ کی رسی سے مراد اس کا دین ہے۔بعض کی رائے میں اللہ کی رسی سے مراد جماعت مسلمین ہے۔اوربعض کی رائے میں اس سے مراد اللہ کا عہد اور اس کا حکم ہے۔

 

ابن کثیر اس ضمن مین لکھتے ہیں:"حبل اللہ سے مراد عہد الہ ہے، جیسے الا یحبل من اللہ الخ، میں " حبل " سے مراد قرآن ہے"[44]

 

بہرحال تمام اقوال متقارب ہیں کیونکہ جو شخص کنویں میں اتر رہا ہوتا ہے وہ مضبوطی کے ساتھ رسی کو پکڑتا ہے تاکہ کنویں میں گر نہ جائے ‘ اسی طرح جو مسلمان قرآن مجید ‘ اللہ کے عہد ‘ اس کے دین یا اس کی اطاعت یا جماعت مسلمین

 

یا اسلام کو مضبوطی سے پکڑے تو وہ جہنم کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے گا اس لیے ان امور کو اللہ کی رسی کہا گیا ہے۔

 

تفرقہ بازی کی ممانعت:

 

اس آیت میں "ولا تفرقوا اور پھوٹ نہ ڈالو " کے ذریعےتفرقہ بازی سے روک دیا گیا ہے مطلب یہ کہ ایسا نہ ہو کہآپس

 

میں مختلف ٹکڑیوں میں بٹ جاؤ اور اللہ کی رسی کو چھوڑ کے الگ الگ گروپ بنا لو ۔کیونکہ ایسا کرنے والا ہلاکتوں کے گڑھوں میں گرتا اور اپنی تباہی کا سامان کرتا ہے،اور اللہ سے دور ہو کر ہمیشہ کیلئے مبتلائے عذاب ہو جاتا ہے۔حدیث میں آتا ہے:

 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يَرْضَی لَکُمْ ثَلَاثًا وَيَکْرَهُ لَکُمْ ثَلَاثًا فَيَرْضَی لَکُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَيَکْرَهُ لَکُمْ قِيلَ وَقَالَ وَکَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةِ الْمَالِ[45]

 

سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتوں کو پسند فرماتا ہے اور تین باتوں کو تمہارے لیے ناپسند فرماتا ہے۔ وہ تمہارے لیے یہ پسند فرماتا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، تم سب اللہ کی رسی کو مضبوط تھام لو اور تفرقہ بازی اختیار نہ کرو اور جن باتوں کو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ناپسند فرماتا ہے وہ بےمقصد ادھر ادھر کی باتیں، کثرت سوال اور مال ضائع کرنا ہے

 

پس معلوم ہوا کہ امت مسلمہ اللہ کی رسی کو تھام کر ہی تفرقہ اور اختلاف سے بچ سکتی ہے سو اس رسی کو کسی صورت چھوڑنا نہیں چاہیے۔

 

اتحاد امت ایک نعمت :

 

آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا جا رہا ہے جس میں اہل عرب اسلام سے پہلے مبتلا تھے ۔یعنی قبائل کی باہمی

 

دشمنیاں ،بات بات پر ان کی لڑائیاں، اور شب و روز کے کشت و خون، جن کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم

 

نیست و نابود ہوجاتی۔ اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی۔

 

دوسری نعمت یہ ہوئی کہ وہ لوگ برائیوں کی وجہ سے آگ کے گھڑے کے پا س کھڑے تھے مطلب یہ کہ وہ اتنے گناہگار تھے کہ اس وقت مرتے تو سیدھا دوزخ میں جاتے مگر اللہ نے انہیں اسلام کی توفیق دے کے اس عذاب سے بچایا۔

 

حکمت:

 

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ[46]

 

آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ علامتیں اس لیے ظاہر کیں تاکہ تم جان سکو کہ ہدایت شریعت کو مضبوط تھامنے اور تفرقہ سے بچنے میں ہے۔اور یہی وہ اصول ہیں جن پر عمل کر کے تم ہدایت کی امید کرسکتے ہو۔

 

عصری اطلاق:

 

آج کے دور میں مسلمانوں میں تفرقہ بازی بہت بڑھ گئی ہے اور اللہ کے حکم کے باوجود فرقہ واریت کو ہوا دینے والےواعظ سرگرم عمل ہیں جب ان کے پاس دوسروں کو قائل کرنے کےلیے دلیل نہیں ہوتی تو وہ فرقہ واریت کا سہارا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مخالف تو دوسرے مسلک کا ہے۔جبکہ اسلام نے تو فرقہ واریت سے سختی سے منع کیا ہےکیونکہ تفرقہ بازی فتنہ و فساد کی جڑ ہے ۔

 

امام کعبہ شیخ صالح بن ابراہیم نے نوشہرہ میں جمعیت علمائے اسلام کے صد سالہ تاسیس پر خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا کہ

 

اسلام امن اور محبت کا دین ہے،قرآنی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں ہی انسانیت کی فلاح ہےاس امت کو اللہ رب العزت نے بہترین امت بنایا۔قرآن کہتا ہے کہ فرقہ واریت میں نہ پڑو۔ جودین میں فرقہ واریت پیداکرتےہیں،وہ فلاح نہیں پائیں گے۔[47]

 

بہرحال قرآن کریم،دین اسلام،شریعت اور جماعت مسلمین یہ سب چیزیں اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنے والی ہیں انہیں ہر حال میں تھامے رکھنا چاہیے اور ایسے تمام عوامل جو تفرقہ بازی کی وجہ بنتے ہیں ان سے بچنا چاہیے ۔

 

غضِ بصر،اظہار زینت اور حجاب کا حکم:

 

معاشرے کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالی نے عورتوں اور مردوں کے لیے کچھ احکام بیان کیے ہیں ۔عورتوں کے بارے میں جو حکم بیان فرمایا وہ یوں ہے:

 

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ[48]

 

"اور آپ مسلمان عورتوں سے کہیے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچے رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ کریں مگر جو خود ظاہر ہو اور اپنے دوپٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو صرف اپنے شوہروں پر ظاہر کریں، یا اپنے باپ دادا پر، یا اپنے شوہروں کے باپ دادا پر، یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی خواتین پر یا اپنی مملوکہ باندیوں نوکرانیوں پر یا اپنے ان نوکروں پر جن کو عورتوں کی شہوت نہ ہو یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی شرم والی باتوں پر مطلع نہ ہوں اور اپنے پاؤں سے اس طرح چلیں جس سے ان کے پاؤں کی وہ زینت ظاہر ہوجائے جس کو وہ چھپائے رکھتی ہیں اور اے مسلمانوں تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ"

 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خواتین کو نگاہیں نیچی کرنے،شرمگاہوں کی حفاظت کرنے، اپنی زینت کو ظاہر نہ کرنے،سینے

 

کے پردے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ ان محارم کا ذکر کیا ہے جن کے سامنے زینت کو ظاہر کرنا جائز ہے۔ذیل میں ان کی وضاحت پیش کی جاتی ہے

 

خواتین کو نگاہیں نیچی کرنے کا حکم:

 

اس آیت میں عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ نظروں کو دیکھنے کےلیے آزاد نہ چھوڑا جائےاور قصدا غیر مردوں کو نہ دیکھا جائے، اور اگر نگاہ پڑجائے تو ہٹا لینی چاہیے ۔حدیث میں آتا ہے:

 

أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا کَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَيْمُونَةَ قَالَتْ فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ أَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ وَذَلِکَ بَعْدَ مَا أُمِرْنَا بِالْحِجَابِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجِبَا مِنْهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَيْسَ هُوَ أَعْمَی لَا يُبْصِرُنَا وَلَا يَعْرِفُنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ[49]

 

"نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ محترمہ حضرت ام المومنین ام سلمہ ؓبیان کرتی ہیں کہ وہ اور آپ کی دوسری زوجہ حضرت میمونہ ؓرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت ابن ام مکتوم ؓآپ کے پاس آئے یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمیں حجاب میں رہنے کا حکم دیا گیا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا

 

تم دونوں اس سے حجاب میں چلی جاؤ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ نابینا نہیں ہے یہ تو ہم کو نہیں دیکھ سکے گا تب

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، کیا تم اس کو نہیں دیکھ رہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے"

 

اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح مردوں کے لیے غیر محرم کو نہ دیکھنے کی ممانعت ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ممانعت ہے تاہم غیر ارادی نظر پڑنے سے کوئی گناہ نہیں۔

 

شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم:

 

آیت میں دوسرا حکم شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا دیا گیا ہے یعنی ناجائز شہوت رانی سے بھی پرہیز کریں، اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے کھونے سے بھی ۔اس معاملے میں عورتوں کے لئے بھی وہی احکام ہیں جو مردوں کے لئے ہیں، لیکن عورت کے ستر کی حدود مردوں سے مختلف ہیں، نیز عورت کا ستر مردوں کے لئے الگ ہے اور عورتوں کے لئے الگ۔

 

حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ان کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے

 

آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ حضور نے فورا منہ پھیرلیا اور فرمایا یا اسماء ان المرأۃ اذا بلغت المحیض لم یصلح لھا انیری منھا الا ھذا و ھذا و اسار الی وجھہ وکفیہ، اسماء جب عورت بالغ ہوجائے تو جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے۔

 

پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہےاور اس سلسلے میں عورتوں کے بھی وہی احکام ہیں جو مردوں کے ہیں تاہم عورت کے ستر کی حدود مردوں سے مختلف ہیں۔

 

زیبائش کی ممانعت:

 

آیت میں مذکور ایک حکم یہ ہے کہ عورت اپنی زینت کا اظہار نہ کرے سوا اس کے جو خود ظاہر ہوجائے۔زینت دو قسم کی ہے، ایک ظاہری زینت ہے وہ عورتوں کا لباس ہے اور ایک مخفی زینت ہے وہ عورتوں کے زیورات ہیں۔

 

امام ابن کثیر لکھتے ہیں:

 

" اجنبی غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں ہاں جس کا چھپانا ممکن ہی نہ ہو، اس کی اور بات ہے

 

جیسے چادر اور اوپر کا کپڑا وغیرہ جنکا پوشیدہ رکھنا عورتوں کے لئے ناممکنات سے ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرہ، پہنچوں تک کے ہاتھ اور انگوٹھی ہے۔"[50]

 

سینے کے پردے کاحکم:

 

زنا سے حفاظت کا ایک ذریعہ سینے کا پردہ ہے یعنی ایمان والی عورتوں کو یہ بھی لازم ہے کہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں

 

ڈال لیں تاکہ ان کے سر اور گردنیں اور سینے چھپے رہیں ۔

 

زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ اس زمانہ کی عورتیں سینہ کھول کر اور گردن اور بالیوں کو ظاہر کر کے چلتی پھرتی تھیں اور سینہ کھولے ہوئے مردوں کے سامنے سے گزرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والی عورتوں کو سینہ اور گردن کے پوشیدہ رکھنے کا حکم دے دیا۔ کما قال تعالیٰ یایھا النبی قل لازواجک وبنتک ونساء المومنین یدنین علیہن من جلا بیبھن۔

 

وہ لوگ جن کے سامنے زینت کو ظاہر کرنا جائز ہے:

 

۱۔خاوند ۲۔سسر ۳۔ باپ،دادا،پردادا ۴۔بیٹے ۵۔شوہر کے بیٹے ۶۔بھائی (جن میں حقیقی سوتیلے اور رضاعی شامل ہیں) ۷۔بھتیجے ۸۔بھانجے ۹۔عورتیں ۱۰۔لونڈیاں ۱۱۔عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے مرد

 

۱۲۔نابالغ بچے۔

 

یہ سب محارم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محارم کی فطرت میں ایک طبعی نفرت رکھ دی ہے کہ مرد اپنی ماں اور خالہ اور بہن کو دیکھتا ہے مگر دل میں برا خیال نہیں آتا۔ اور ان محارم کی طرف سے فتنہ کا بھی اندیشہ نہیں۔سو عورت ان لوگوں میں اپنی زینت کا اظہار کر سکتی ہے۔

 

عورتوں کو پاؤں کی زینت کا اظہار کرنے کی ممانعت:

 

پاؤں کی زینت سے مراد پازیبیں ہیں پس عورت کو ایسی پازیبیں بھی نہیں پہننی چاہییں جن سے جھنکار یا آواز سنائی دے کیونکہ یہ بھی مردوں کو متوجہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

 

پردے کے احکام میں حکمت:

 

اسلام نے عورت کے لیے پردے سے متعلق جو احکام نازل کیے ہیں ان کی واضح حکمت یہ ہے کہ یہ معاشرے کی پاکیزگی اور خود عورت کی حفاظت کے لیے ہیں ۔آیت میں لعلکم تفلحون کے الفاظ واضح کر رہے ہیں کہ فلاح کا حصول اسی صورت ممکن ہے کہ ان احکامات الٰہی پر عمل کیا جائے اور اب تک اس معاملے میں جو غلطیاں ہو چکی ہیں ان کی معافی اللہ سےمانگ لی جائے۔

 

عصری اطلاق:

 

موجودہ دور جسے ایک انقلاب آفرین دور کہا جاتاہے اس دور میں ہر فرد چاہے وہ مسلم معاشرے سے ہو یا غیر مسلم

 

معاشرے سے وہ یورپ اور مغرب کی نقالی کرنے میں مصروف ہے۔بلکہ یورپ اور مغربی کلچر کا بھوت اور ناسور مسلم معاشرے کے اندر تیزی سے پھیل رہا ہے

 

آج کا مسلم معاشرہ ان تمام برائیوں میں مبتلا ہے جسے قیامت کی نشانیوں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔مسلم قوم کی بیٹی کا لباس ،ان کی مخلوط تعلیم ،ان کا آزادانہ گھومنا پھرنا یہ مسلم لبرل خاندان میں عام سمجھا جا تا ہے۔ یہ چیزیں ہیں جنہوں نے معاشرے میں بے حیائی،زنا،جنسی زیادتی اور عورتوں پر تشدد جیسے واقعات کو بڑھا دیا ہے ۔

 

پاکستان میں بھی مغربی تقلید عورتوں میں بڑھتی جا رہی ہے تاہم اس بے پردگی کے بڑھتے ہوئے رجحان سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل نے پردے کے بارے میں سفارشات دیں مگر اس پر بھی میڈیا نے بہت تنقید کی ۔سفارشات یہ تھیں کہ" پردہ او رحجاب شرعی حکم ہے جس کی پابندی ضروری ہے۔ جہاں تک چہرے کے پردے کا تعلق ہے تو جہاں فتنہ کا اندیشہ ہو جیسے دفاتر ،تعلیمی ادارے، ہسپتال و دیگر ایسے موقعوں پر پردہ واجب ہے البتہ ضرورت اور فتنہ کے نہ ہونے کی صورت میں چہرہ ، ہاتھ او ر پاؤں سے پردہ ہٹانے کی گنجائش ہے [51]

 

بہرحال ہم ایک مسلم معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں اور پردے کے احکام عورت کے اپنے تحفظ اور معاشرے کی پاکیزگی سے تعلق رکھتے ہیں سو ان پر عمل ضروری ہے۔

 

نتائج بحث

قصاص میں سب کی زندگی کی حفاظت کا سامان ہے اور یہی ہولناک انجام سے بچاؤ کا زریعہ ہے۔ ==

  • حکم استیذان میں فرد کی نجی زندگی کا تحفظ مضمر ہے لہذا دوسروں کے گھروں یا کمروں میں اجازت لے کر داخل ہونا ضروری ہے۔

 

  • معذور لوگ اپنی بھوک رفع کرنے کےلیے دوسروں کے گھروں سے کھا سکتے ہیں کیونکہ ان کی معذوری بجائے خود سارے معاشرے پر ان کا حق قائم کرتی ہے۔
  • گھروں میں داخل ہوتے وقت سلام کہنا خیر و سلامتی کا باعث بنتا ہے۔
  • عدل و احسان اور رشتہ داروں سے حسن سلوک معاشرے میں خیر وبھلائی کو ٖفروغ دینے کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا کا باعث بننے والی عادات ہیں۔
  • پختہ قسموں کو پورا کرنا ضروری ہے کیونکہ ان پر اللہ کی ذات مواخذہ فرمائےگی تاہم اگر قسم کو پورا نہ کیا جا سکے

 

 

 

تو کفارہ ادا کرکے اللہ کی گرفت سے بچا جا سکتا ہے۔

*

مومن بھائیوں میں صلح کرانا اللہ کی رحمت کے حصول کا باعث بنتا ہے۔
  • تفرقہ بازی کو فروغ دینے والے فلاح نہیں پا سکتے۔
  • پردہ عورت کے تحفظ اور معاشرے کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

 

 

 

تجاویز و سفارشات

قرآنی لفظ ِ لعلکم جیسے دیگر عنوانات کے تحت آرٹیکلز لکھے جائیں تاکہ قرآن کریم سے براہ راست استفادہ کیا جاسکے۔

  • قرآنی لفظِ لعلکم کے تحت بیان کردہ مضامین کے اسرارو حکم کو سمجھا جائے۔
  • قرآنی لفظ ِ لعلکم کے تحت بیان کردہ معاشرتی احکامات میں موجود ت تذکیری و اصلاحی پہلوؤں پر عمل کیا جائے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی مل سکے۔

حوالہ جات

  1. الرحمٰن،۴:۵۵
  2. الشوری،۴: ۱۷
  3. ابن منظور،محمد بن المکرم(۶۳۰ م۔۷۱۱ھ) لسان العرب،دار احیاٗ، التراث العربی،بیروت،۱۲: ۲۹۱
  4. زبیدی،محمد بن مرتضیٰ،تاج العروس من جواہر القاموس ،دار احیاء بیروت،لبنان ،۸ :۱۰۸
  5. ایضا
  6. ابن ھشام،الانصاری،جمال الدین بن یوسف(۷۶۱ھ) مغنی اللبیب ،مکتبہ ومطبعہ محمد علی صبیح،مجیدان الازھرت،ا:۲۸۷
  7. ا مغنی اللبیب۲۸۸:۱
  8. راغب اصفہانی، ابو القاسم الحسین بن محمد(م۵۰۲ھ)المفردات فی غریب القرآن، کتاب الام،مکتبہ دار المعرفہ ،بیروت،لبنان
  9. زین العابدین،قاضی،بیان اللسان،دار الاشاعت مقابل مولوی مسافر خانہ اردو بازار کراچی،:۷۰۰
  10. کیرانوی،وحید الزمان قاسمی،القاموس الجدید،ادارہ اسلامیات،انار کلی لاہور:۸۲۸
  11. البقرہ، ۲: ۱۷۹
  12. راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، مطبوعہ المکتبہ المرتضویہ ایران ۲: ۲۹۲
  13. پانی پتی،قاضی ثناء اللہ(۱۲۲۵ھ)تفسیر مظہری،دارالاشاعت اردو بازار،لاہور، ۱: ۲۳۲
  14. البقرہ، ۲: ۱۷۹
  15. "اکیسویں صدی میں قصا ص "https://ur.wikipedia.org
  16. ایضا
  17. النور،۲۴: ۲۷
  18. بخاری،محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)،الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسولﷺ وسننہ وایامہ ،کتاب تفسیر القرآن،باب من اطلع فی بیت قوم ففقئوا عینہ،فلا دیۃ لہ، مکتبہ دار طوق النجاۃ رقم الحدیث۶۹۰۲
  19. تفسیرالقرآن العظیم ۳: ۳۷۹
  20. ابو داؤد،سلیمان بن اشعت(۲۷۵ھ)،السنن، کتاب الأدب، باب کیف الاستئذان ؟،المکتبہ العصریہ ،صیدا ،بیروت۔، رقم الحدیث۵۱۷۷
  21. النور،۲۴: ۲۷
  22. النور،۲۴: ۶۱
  23. بخاری،الجامع الصحیح، کتاب الأطعمۃ، باب طعام الواحد یکفی الإثنین ، رقم الحدیث۵۳۹۲
  24. النور۲۴: ۶۱
  25. بخاری،الجامع الصحیح، کتاب الإیمان، باب إطعام الطعام من الإسلام ،رقم الحدیث۱۲
  26. أبوداوٗد، السنن،کتاب الأدب، باب کیف السلام ؟،رقم الحدیث۵۱۵۹
  27. النور،۲۴: ۶۱
  28. النحل،۱۶: ۹۰
  29. مفردات القرآن۲: ۱۱۴
  30. بخاری،الجامع الصحیح،کتاب الادب،باب فضل صلۃالرحم،رقم الحدیث۵۹۸۳
  31. بنی اسرائیل،۱۷: ۲۳
  32. الاعراف۷: ۳۳
  33. مسلم بن حجاج، القشیری ۔الجامع الصحیح، کتاب البرو الصلۃ، باب تحریم الظلم ، رقم الحدیث ۲۵۷۷
  34. المائدہ،۵: ۸۹
  35. مریم،۱۹: ۶۲
  36. تفسیر مظہری،۴: ۱۸
  37. المائدہ،۵: ۸۹
  38. النحل، ۱۶: ۹۱
  39. الحجرات،۴۹: ۱۰
  40. بخاری،الجامع الصحیح،کتاب المظالم والضصب،باب لا یطلم المسلم المسلم ولا یسلمہ،رقم الحدیث۲۴۴۲
  41. بخاری،الجامع الصحیح،‏‏‏‏ بخاری، کتاب الصلح، باب قول الإمام لأ صحابہ : إذھبوا بنا نصلح ،رقم الحدیث۲۶۹۳
  42. تفسیر القرآن العظیم،۴: ۳۲۹
  43. آل عمران۳: ۱۰۳
  44. تفسیر القرآن العظیم ۱: ۴۶۴
  45. مسلم،الجامع الصحیح، کتاب الأقضیۃ، باب النھی عن کثرۃ المسائل من غیر حاجۃ،رقم الحدیث۱۷۱۵
  46. ایضا
  47. https://www.samaa.tv/urdu/pakistan/2017/04/7
  48. النور،۲۴: ۳۱
  49. ترمذی،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ(۲۷۹ھ)،السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال،دارالغرب الاسلامی،بیروت، رقم الحدیث۲۷۷۸
  50. تفسیر القرآن العظیم ۳: ۳۸۲۔۳۸۳
  51. الجمعیۃ شمارہ نومبر۲۰۱۵
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...