Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 1 Issue 2 of Al-ʿILM

معاصر تعلیمی نظام میں |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060040263_1162

Pages

31-42

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/3/3

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/3

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

عصر حاضر میں پاکستانی تعلیمی نظام میں "مار نہیں پیار"کے نعرہ(Slogan)کو بہت شدومد سے نافذکیا گیا ہے اور حکام بالا کی اس نعرہ کی پذیرائی کا عالم یہ ہے کہ تقر یباًہر سرکاری سکول کے باہر اسے نمایاں آویزاں کر دیا گیا ہے۔شروع شروع میں والدین نے بھی اسے بہت پسند کیا حتی کہ صرف ڈانٹ کو بھی قبول نہ کرتے اور شکایت لے کر پہنچ جاتے یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ پوری دنیا میں سہولت اور حق کے حصول کی جنگ جاری ہےاسی سبب قانون میں موجود سخت سزاؤں میں تخفیف کا عمل شروع کیا گیا ہے ۔

 

لہذا بعض ممالک میں سزائے موت کو ختم کر دیا گیا اور اسی تخفیف کے غیر معقول اصول کو تعلیمی نظام میں بھی رائج

 

کرتے ہوئے اسکی مدح سرائی میں تمام میڈیا کو استعمال کیا گیا والدین کی سوچ کو یکسر بدل ڈالا اور حالات کا دھارا اس

 

صورت حال کو پہنچ گیا کہ والدین اپنے بچوں کی زندگی میں بے ادبی کا زہر خود ہی بھرنے لگے۔

 

اور اب یہ بچے جوان ہو کر خود انکے بھی نافرمان ہو گئے ایسے شتر بے مہار بچوں کو سمجھانے کےلیے اساتذہ بھی کام نہ آسکے جن کی عالی حیثیت والدین نے ہی خراب کر دی تھی اس لا علاج خود سری کے نتائج پورا معاشرہ اور قوم بھگت رہی ہے۔اس بظاہر خوبصورت نعرہ"مار نہیں پیار"کے نفاذسے پیش آمدہ منفی اثرات میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔

 

1 ۔استاد کی عالی حیثیت کا خاتمہ

استاد معاشرے میں عزت واحترام کی نشانی ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ قوموں کے سنوارنے میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے انسان کو انسانیت کا درس دینے والا بھی استاد ہے تعلیمی وتر بیتی پرورش کرنے والا استاد ہے بچوں کو سیدھی راہ دکھانے والا بھی استاد ہے اور ایسی بے شمار خوبیوں کا مالک استاد معاشرے میں اعلیٰ مقام ومرتبہ رکھنے والا آج اس بلند مقام سے گرا دیا گیا ہے اور ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے جیسے ہی مار نہیں پیار کی صدا بلند ہوئی ما حول بدل گیا حالانکہ سکول وہی ،اساتذہ وہی مگر والدین کا مار اور سختی کا واویلا بچوں کے ذہنوں سے اساتذہ کی قدر ختم کر چکا کیونکہ بچوں کے سامنے اساتذہ کی سختی پر انہیں بے عزت کیا گیا جس کےنتیجہ میں اساتذہ کا احترام ختم ہو گیا۔

 

2-استاد قوم کا معمار

ہر قدیم و جدید قوم میں استاد کو قوم کے معمار کی حیثیت سے بھی عزت وشرف کا مقام دیا جاتا ہے اور یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ جس قوم کے اساتذہ خلوص وجانفشانی سے تعلیم دیتے ہیں اور طلبہ بھی ادب واحترام کا حق ادا کرتے ہیں وہی قوم شاندار ترقی کی منازل طے کرتی ہے اور اپنے دور کی غالب قوت بن کر دنیا کے نقشہ پر ابھرتی ہے لیکن اگر سازش کے تحت استاد کی تعمیری حیثیت کو ہی ختم کر دیا جائے اور طلبہ کو بے ادب بنا دیا جائے تو قوم کی تعمیر وترقی نہ صرف رک جاتی ہے بلکہ وہ قوم زوال پذیر ہو ہو کر قومی حیثیت کھو دیتی ہے ۔

 

3۔استاد کی مفید نصیحتیں بیکارہو گیئں

استاد جو باپ کی حثیت میں خیر خواہی اور ہمدردی کا منبع و مجسمہ ہوتا تھا اور والدین واعظ و نصیحت کے لیے استاد ہی کو درخواست کرتے تھے کیونکہ بچوں میں استاد کا ایک اعلیٰ مقام و مرتبہ ہوتا تھا اور رعب و وجا ہت کے سبب بچے بھی ان کی بات مانتے تھے مگر عصر حاضر میں معاشرہ استاد کے مقام کو ختم کر چکا ہے لہذا اساتذہ کی بہترین نصیحتیں بھی کار آمد نہیں تعلیمی خامیوں سے آگاہ کرنے والے استاد کو آج کوئی پسند نہیں کرتا سب اچھا کی رپورٹ والدین سننا چاہتے ہیں کوئی استاد ہمت کر کے انہیں انکے بچے کی خامی سے آگاہ کرے تو والدین بچے اور سکول انتطامیہ کے سامنے استاد پر جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں مزید یہ کہ گھروں میں بچوں کے سامنے استاد کی شخصیت میں بے بنیاد خامیوں کا ذکر کر کے اسکی حثیت کو بے وقعت بنادیاجاتا ہے جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے استاد کی اچھی اور مفید نصیحتوں کو بیکار اور غیر مفید سمجھتے ہوئے کوئی پرواہ نہیں کرتے۔

 

4۔اولاد کی تربیت میں والدین کے مضبوط سہارے کا خاتمہ

صدیوں سے والدین اپنے بچوں کی تربیت کےلیے استاد کو ایک مضبوط سہارا اور ستون سمجھتے رہے ہیں مگر موجودہ دور میں والدین نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑا مار دیا ہے کہ استاد کی سختی پر سکول انتظامیہ سے بے عزت کرواکر اس کی اعلیٰ شخصیت کو مسل دیا ہے اب والدین استاد کے ذریعہ سے اپنے بچوں کی غلط عادات کی اصلاح نہیں کروا سکتے حالانکہ بچوں کی تربیت و اصلاح کا یہ کار آمد اور مسلمہ سہارا ہوا کرتا تھا یہی استاد والدین کی امیدوں کا آخری سہارا بنا کرتا تھا کیونکہ استاد کی کوششوں میں کامیابی کا تناسب تقریباً سو فیصد ہوتا تھا۔

 

5۔بے ادبی کو خود اعتمادی کا نام دے دیا

جب مار نہیں پیار کی فضاء قائم ہوئی تو استاد کے ہاتھوں کو باندھ دیا گیا تو ایسے میں طلباء کی ز بانیں لمبی ہو گئیں اساتذہ کی کردار کشی کرنے والے بچوں کی منہ زورزبان کو خود اعتمادی کا نام دے کر بچوں کی غلط حوصلہ افزائی کی گئی جس کا نتیجہ بچوں کی یہ بے ادبی سکول میں پروان چڑھ کر گھروں میں داخل ہو گئی اور اب یہ صورت حال ہے کہ والدین اپنی بے ادبی اور بے عزتی کی شکایت کریں تو کس کوکریں اور اصلاح کے لیے کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔

 

6۔بچوں سے والدین کی بے جا حمایت

مار نہیں پیار کے اصول میں والدین نے بچوں سے پیارزیادہ جتلانا شروع کر دیا ذرا سی با ت پر بے دھڑک شکایت کر دینا اور ثابت کرنا کہ استاد کی بجائے باپ زیاد ہ محبت کرتا ہے لیکن اس بے جا لاڈ پیار اور حمایت نے بچوں کو ان کے اصل مقصد سے ہٹا دیا اور اپنی شان وشوکت کے اظہار کے ساتھ بدتمیز بھی بنا دیاایک دفعہ ایک بچے کے ہاتھ میں ایک ہزار کا نوٹ دیکھ کر استاد نے اس کے گھر اطلاع کی کے والد صاحب سکول آئیں جب وہ سکول آئے تو انہیں بتایا کہ شائد بچہ آپ کی اجازت کے بغیر اتنے زیادہ پیسے سکول لے آیا ہے تو والد نے بچے کو بلوایا اور اس کے سامنے استاد کو بے عزت کردیا کہ اتنی سی بات کے لیے آپ نے مجھے بلا کر میرے وقت کو ضائع کیا ہے میں تو اس سے زیادہ بھی اس کو دے سکتا ہوں اور ایک نوٹ مزید اسکے ہاتھ میں تھما دیا اور بچے کی ا صلاح کے لیے کوشش کو بیکار کردیا ۔ اس کے برعکس اگر استاد کے ہاتھ مار نہیں پیار کے نعرہ سے نہ باندھے جاتے تو یقیناً استاد اپنے طریقے سے اس بچے کو ایسا سبق سکھاتا کہ آئندہ وہ اتنے پیسے سکول میں لے کر نہ آتا اور نہ مقصد تعلیم کو بھول کر شان وشوکت کے اظہار میں لگ جاتا اور نہ ہی دوسرے بچوں میں طبقاتی فرق کے بیج کو بو کر معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتا۔

 

7۔تعلیمی معیار کو زوال

مار نہیں پیار کے ماحول میں جب استاد کا اہم کردار کمزور پڑ گیا اور اصلاح و تربیت کا جذبہ سرد ہو گیا اور نصیحتیں بیکار ہو گئیں تو نتیجہ یہ نکلا کہ طلباء و طالبات غفلت کا شکار ہو گئے تعلیمی سر گرمیاں سست ہو گئیں لاتوں کے بھوت مزے کرنے لگے اور دیکھا دیکھی محنت کا شوق ختم ہو گیا کیو نکہ ما ر نہ ہونے کی خوشی میں اپنی ذمہ داری بھول گئے مقابلہ بازی کا جوش جاتا رہا اور بمشکل پاس ہونے کو ترقی وکامیابی کاراستہ سمجھ لیا لہذا معیار تعلیم گر گیا اور تمام بچے الا ماشاء اللہ علم کی مضبوط بنیاد پانے کی بجائے سطحی علم پر اکتفاء کر بیٹھے جس کی وجہ سے بچوں کی اردو اچھی نہ انگلش ایک درخواست لکھنی پڑ جائے تو ایم اے کا طالب علم بھی سوچ میں پڑ جاتا ہے اور لکھنے کے لیے نمونہ کا مطالبہ کرتا ہے اس بات سے بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ معیار تعلیم کس درجہ کا ہے اور کس وجہ سے زوال تعلیم کا سامنا ہے۔

 

8۔تعلیمی نظام میں قابل اساتذہ کی کمی

 

مار نہیں پیار کے بے لگام ماحول میں پروان چڑھنے والے جب ڈگریاں حاصل کر کے پسندیدہ شعبہ میں نہ پہنچ پانے پرآخری شعبہ یعنی تعلیم میں آگئے تو ان کی علمی بنیادیں کھوکھلی تھیں اور انکا علم چند منتخب کردہ سطحی سوالوں کے جوابات تک محدود رہ گیا تھا اور ماحول کے اثرات نے ان کو سکھا دیا تھا کہ ہر بچے کی "سب اچھا ہے"کی رپورٹ ماں باپ کو تھما دینی ہے کیونکہ والدین جھوٹی رپورٹ پر تو استاد کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں اور انعام بھی دیتے ہیں جبکہ حقیقی رپورٹ دینے پر استاد کا شکریہ کہنا یا احسان مند ہونے کی بجائے اسے بے عزت کرتے ہیں۔

 

قابل اساتذہ میں کمی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جو بچے الا ما شاء اللہ میں شمار ہوتے تھے وہ جب قابل ہوئے تو انہوں نے تعلیمی شعبہ کو اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ مسلسل استاد کی حیثیت کو سکول میں دیکھ چکے تھے اور اپنی پروفیشنل ایجوکیشن کے انتخاب میں ہی انہوں نے سوچ لیا تھا کہ شعبہ تعلیم میں نہیں آنا کیونکہ استاد کی قدرنہ حکومت کرتی ہے نہ خود شعبہ تعلیم والے کرتے ہیں اور نہ ہی والدین اور بچوں میں استاد کی کوئی قدر دکھائی دیتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم سب ہی شعبہ تعلیم میں زوال کے ذمہ دار ہیں۔

 

9-بے ادب بے نصیب ڈگری ہولڈرز میں اضافہ

 

صدیوں سے یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کے با ادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب یعنی ادب واحترام بجا لانے والا ہی اچھے نصیب والا ہوتا ہے کیونکہ ادب کے سبب وہ ہر ایک سے دعا لیتا ہے جس کا ثمر اسے کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے اور یہی اصول دین اسلام میں بھی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سچے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے آگے سر تسلیم خم کیا اور ان کی نصیحتوں پر عمل کیا اور سب سے بڑے معلم انسانیت کا سب انسانوں سے بڑھ کر ادب واحترام کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو دونوں جہانوں کے لیے کامیابی کی خوشخبری سنا دی جبکہ موجودہ تعلیمی ماحول "مار نہیں پیار "کےسبب بے ادبی کو رواج دے رہا ہے اور بے ادب طلبہ ڈگریاں حاصل کر لینے کے باوجود بے نصیب رہتے ہیں کیونکہ استاد کی بات نہ مانتے ہوئے علم کو پوری طرح سے حاصل نہیں کرتے اور عملی میدان میں ناکامی انہیں بے نصیب بنا دیتی ہے۔

 

پیار اور مار کے امتزاج اور ترغیب و ترہیب کا نبوی منہج:

دور جدید میں نظام تعلیم کی اس گراوٹ اور بگاڑ کی اصلاح و درستگی نہایت ضروری ہےنظام کی اصلاح و ترقی کے لیے ہمارے پاس نبوی منہج موجود ہے جو سب سے بہتر ین اور اس کی یہ حیثیت مسلمہ اور ثابت شدہ ہے کہ اس منہج کی بدولت بگڑی ہوئی قوم آنے والے تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ بن گئی اور بڑے بڑے نقاد بھی دور رسالت اور بعد میں صحابہ کرام کے نظام تعلیم و تربیت کی تعریف کیے بغیر رہ نہ سکے ۔اس نظام تعلیم و تربیت کا نمایاں پہلو ترغیب و ترہیب کا نبوی منہج ہے جس میں پیار اور ما ر کے امتزاج کی حکمت عیاں ہے جو درج ذیل امور کی عکاس ہے۔

 

۱۔تعلیم مقصد نبوت:

 

منصب نبوت کا ایک بڑا مقصد لوگوں کو تعلیم دینا ہے اور اس تعلیم کی خوبصورتی یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئےہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

[1]"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا"

 

"اے نبی ﷺ یقیناً ہم نے آپ کو شاہد اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔"

 

بشارت اور ڈرانے میں ترغیب و ترہیب کا امتزاج نظر آرہا ہے جزا اور سزا کی خبر دی جا رہی ہے کیونکہ اطاعت و فرمانبرداری میں بشارت و ڈرانے کے دونوں پہلو ہی کار گر ہوتے ہیں کچھ لوگ انعام کا سن کر کوشش شروع کردیتے ہیں اور کچھ انعام کے حصول میں بھی سستی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے لیے سزا کا خوف کار گر ہو سکتا ہے۔

 

۲۔استاد کا مقام و مرتبہ:

 

معاشرے میں استاد کا اعلیٰ مرتبہ و حثیت ہے کیونکہ وہ علمی شخصیت ہے اور علم والوں کو انبیاء کا وارث کہا جاتا ہے فرمان رسول ﷺ ہے:

 

"العلماء ورثۃ الانبیاء"[2]

 

علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں لہذا علم کی بنیاد پر استاد کا اعلیٰ مرتبہ ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد معلم ہونا بیان فرمایا ہے۔

 

" كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ"[3]

 

"جس طرح ہم نے تم میں ایک رسول تمہی میں سے بھیجا ہے ،جو تم پر ہماری آیات پڑھتا اور تمھیں پاک کرتا اور تمھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور تمھیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ "

 

اس اعتبار سے استاد کا مقام پانا بڑے شرف و اعزاز کی بات ہے ۔کیونکہ یہ انبیاء ؑ کا عمل ہے اور نبی مکرم ﷺ کی خاص خوبی ہے لہذا اس خوبی کا حصول بزرگی کی علامت ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے:

 

" إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا"[4]

 

"میں تو صرف معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔"

 

اس حدیث سے استاد کا اعلیٰ مقام و مرتبہ مزید واضح ہوتا ہے کیونکہ اساتذہ انبیاء ؑ کے مقصد کو آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں

 

اسی طرح قرآن میں عالم کو متقی لوگوں یعنی اللہ سے ڈرنے والے لوگوں میں شامل کر کے اللہ کی پسند کا اظہار کیا گیا ہے۔

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

" إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ"[5]

 

کہ بے شک اللہ کے بندوں میں سے علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں یعنی اساتذہ اور علماء جو علم پھیلانے میں سر گرم ہیں ان کا مقام و مرتبہ معاشرے میں بھی اعلیٰ ہے اور خالق و مالک کے ہاں بھی بلند وبرتر ہے لہذا یہی مقام و مرتبہ جب استاد کو دیا جائے گا تو ہماری نسلیں با ادب با نصیب کے مصداق ترقی وکامیابی پائیں گی اس کے ساتھ استاد کو روحانی باپ کا بھی درجہ دیا جائے کیونکہ وہ اپنے شاگردوں کو اپنے بچے سمجھتا ہے اور شفقت کرتا ہے اور ان کی ترقی پر بغیر حسد کے خوش ہوتا ہے یعنی بچوں کی تعلیم وتربیت میں اخلاص سے محنت کرتا ہے تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کر کے انہیں انسانیت کی معراج تک پہنچاتا ہے لہذا جواباً استاد کا ادب واحترام ہونا چاہیے۔

 

۳۔پیا راور ما ر کا تناسب:

 

معاشرتی زندگی کا ایک خوبصورت اصول اعتدال اور میانہ روی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس اصول کی وضاحت اس طرح سےفرمائی :

 

[6] وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا

 

"اور جو خرچ کرتے وقت نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل راہ پرہوتے ہیں۔"

 

اس آیت میں عباد الرحمٰن کی ایک خوبی بیان کی جا رہی ہے کہ وہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں مزید انہیں میانہ روی کا سبق اس طرح دیا گیا ہے کہ امید اور خوف کی دونوں کیفیتوں کے ساتھ رہنا ہے نہ امید اتنی حاوی ہو کہ غفلت آجائے اور نہ خوف اتنا حاوی ہو کہ مایوسی آجائے بلکہ درمیانی راہ ہی مفید اور سیدھی راہ ہے ۔

 

اسی طرح پیار اور ما ر کا امتزاج ایک تناسب کے ساتھ ہو تو فائدہ دیتا ہے ورنہ مزید ہٹ دھرمی کا باعث ہوتا ہے آپ ﷺ نےنماز کی تعلیم کے عمل کی بہترین مثال دی ہے آپ ﷺ نے فرمایا:

 

" مُرُوْا أوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَائُ سَبْع سِنِینَ وَاضْرِبُوھُمْ عَلَیہَا وَھُم أَبْنَائُ عَشْرِسِنینَ"[7]

 

’’جب تمہاری اولاد سات سال کی عمر کو پہنچ جائے توانہیں نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو (نماز میں کوتاہی کرنے پر) انہیں مارو۔‘‘

 

اس مثال میں واضح ہے کہ تعلیم کاآغاز پیار و محبت اور خیر خواہی کے جذبہ سے ہو اوراگر یہ رویہ کارگر نہ ہوتو پھرمار کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے ضروری ہیں تاکہ علم و عمل مکمل ہو ۔ لیکن اگر پیار اور مار میں سےایک ہی رویہ پر مسلسل عمل ہو تو خرابی ہو سکتی ہے جیسے سات سال کے بچے کو نماز سیکھائی جائے اور وہ نہ سیکھے پھر بھی مسلسل پیار ہی ہوتا رہے تو کامیابی نہیں ہوسکتی اسی طرح اگر شروع میں ہی مار کا رویہ اپنالیا اور اس کے باوجود نماز نہ سیکھے اور مار کا عمل چلتا رہے تو صرف ہٹ دھرمی پروان چڑھے گی اسی لیے آپﷺ نے دونوں رویوں کو حسب ضرورت اپنانے کا اختیار دیا تاکہ میانہ روی کے ساتھ بہتر نتائج حاصل کیئے جائیں کیونکہ عملی میدان میں تعلیم و تربیت کے لیے پیار اور ما ر کا امتزاج ہی کامیاب رویہ ہے۔

 

استاد ایک رول ماڈل :

 

انسان اپنے اخلاق و اچھی عادات کے سبب اللہ کو بھی محبوب ہوتا ہے اور لوگوں میں بھی پسندیدہ ہوتا ہے جیسے آپ ﷺ کا فرمان ہے :

 

"احب عباداللہ الی اللہ احسنھم اخلاقا "[8]

 

"اللہ کے بندوں میں اللہ کاسب سے پیارا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھےہیں ۔"

 

اسی طرح فرمایا :

 

"ان من خیارکم احسنکم اخلاقا "[9]

 

"بے شک تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں ۔"

 

جس کے اخلاق اعلی ہوں وہ قیامت کے دن اپنے بھاری اعمال کے سبب کامیاب ہوگا اور پھر نبی کریم ﷺکے ساتھ بھی ہو گا جیسے آپﷺ کا فرمان ہے :

 

"ما شیء اثقل فی المیزان الموءمن یوم القیامۃ من خلق حسن"[10]

 

"قیامت کے دن مومن کے ترازو میں حسن خلق سے بھاری کوئی چیز نہ ہو گی "۔

 

اسی طرح قرب کے حوالے سے فرمایا :

 

"ان من احبکم الی و اقربکم منی مجلسا یوم القیقمۃاحاسنکم اخلاقا"[11]

 

میرے نزدیک تم میں سے (دنیامیں) سب سے زیادہ محبوب اورقیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں "۔

 

یعنی وہ بہت بڑا آدمی ہو گا جو اعلیٰ اخلاق کا مالک ہو گا اسی اعتبار سے استاد اپنے اعلی اخلاق کے سبب بڑا انسا ن ہوتا ہے وہ اپنی اچھی گفتگو کے سبب نمونہ ہوتا ہے وہ دوسروں سے بے لوث محبت کرتا ہے وہ دوسروں کی خوشی میں خوش ہوتا ہے اپنے شاگردوں کی ترقی پر حسد نہیں کرتا بلکہ ان کے لیے ترقی کی مزید دعائیں کرتا ہے اچھے اخلاق کے سبب وہ معاشرے میں ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے لہذا اگر استاد کے اس مقام کو بچوں کے سامنے مثبت انداز میں پیش کیا جائے تو یقینابچے استاد کو اپنا رول ماڈل بنائیں اور کامیابیاں پائیں۔

 

۵۔دعوت و تبلیغ اور اصلاح وتربیت کا نبوی منہج

 

نبی مکرمﷺ دعوت وتبلیغ میں نرم لہجہ رکھتے تھے اللہ تعالی نے بھی آپکومجسمہ رحمت بنایا جس کا اظہاران الفاظ میں کیا :

 

" وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ "[12]

 

" اور نہیں ہم نے بھیجا آ پکو مگر جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ۔"

 

اس رحمت کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ ﷺ نرمی سے لوگوں کو دین کی آسان آسان باتیں بتاتے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کہ بعض سخت باتوں میں بھی رحمت ہوتی ہے جیسے کسی کو برائی سے روکنے کے لیے سختی کرنا لہذاآپ ﷺ نے سچ بولنے کے لیے سخت بات فرمائی ہےکہ :

 

"قل الحق ولو کان مرا"[13]

 

"سچ بات کہو چاہے وہ تلخ ہی کیوں نہ ہو "

 

موجودہ ماحول میں اپنے خلاف سچی بات بیان کرنا آسان نہیں لیکن چونکہ اسی میں اللہ کی رحمت ہے اس وجہ سے رحمتہ للعالمین نے یہ سخت بات کی تلقین فرمائی اسی طرح نماز کی تلقین میں دس سال کے بعد مارنے کا حکم بھی سخت معلوم ہوتا ہے مگر اسی میں رحمت ہے ۔کیونکہ جب وہ نماز کی پابندی کرے گا تو وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرے گا جیسے آپ ﷺ کا فرمان ہے:

 

" ان بَيْنَ الرجل وَبَيْنَ الشرک والْكُفْرِ تَرْک الصَّلاةِ "[14]

 

"بے شک آدمی اور شرک و کفر میں فرق نماز کا ترک کرنا ہے۔"

 

اسی طرح نماز پڑھنے سے اللہ کا فرمان بھی پورا ہوتا ہے کہ "واقیموا الصلاۃ"(اور نماز قائم کرو) اور اس عمل سے اللہ کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے لہذا نماز کو قائم کرنے کے حکم اور نہ پڑھنے والے کو مارنے کے سخت حکم میں یقیناً اللہ کی رحمت ہے تا کہ انسان اللہ کے عذاب سے بچ جائے اور ہمیشہ کا انعام پائے۔

 

نبوی منہج سے متعلق قرآن میں بھی ہے :

 

"ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ"[15]

 

اس آیت میں حکمت سے مراد نرمی سے اور مناسب وقت پر دعوت دینا اور اچھی نصیحت سے مراد ضرورت کے مطابق نصیحت کرنا اور عموما نصیحت سخت بات کو ہی کہتے ہیں کیونکہ اس میں معمول کی زندگی میں تبدیلی کی تلقین ہوتی ہے اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ نبوی منہج میں پیار اور مار کا امتزاج رکھا گیا ہے اور اسی میں اچھے نتائج کا حصول یقینی ہے ۔

 

نبوی منہج کی ایک اور خوبصورتی امربالمعروف و نہی عن المنکر ہے دعوت و تربیت کے لیے یہ لازوال اصول ہے یعنی نیکی کاْ حکم کرنا اور برائی سے روکنا اس شاندار اصول میں دو الگ الگ کرنے کی باتیں ہیں اور دونوں میں یقینی نتائج پیار ا اور مار کے امتزاج سے ہی ممکن ہیں یہ حقیقت ہمارے سامنے واضح ہے کہ جو سب سے بڑا حکیم ہے رحمان ،رحیم اور جبار و قہار بھی ہے انسانوں کو پیداکرنے کے بعد ان کی نگرانی بھی کرتا ہے اور اپنے انبیاء ؑ کے ذریعے ہر دور میں بہترین رہنمائی بھی کرتا ہے اسی نے ہمیں نبی محترم ﷺ کے ذریعے سے ایسا لازوال اصول دیا کہ اصلاح انسانیت کے لیے نیکی کا حکم اوربرائی سے روکنے کی تلقین کرو اور نتائج کے حصول میں پیار اور مار کے امتزاج کے ساتھ مطلوبہ نتائج یقینی بناؤ۔

 

اساتذہ جو دینی علم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم بھی سیکھاتے ہیں ان کے اس تعلیمی عمل میں مقصد سمجھانا اور سیکھانا ہے لیکن اگر صرف پیار کے سبب بچوں میں سستی اورغفلت پڑرہی ہو اور اصل مقصد حاصل نہ ہو تو یہ تعلیمی عمل بیکار ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ وسیع النظر میں یہ ہو گا کہ پوری قو م کی بنیادیں کھوکھلی ہو جائیں گی اور اس کا مشاہدہ ہم اپنےلوگوں کے اخلاقی انحطاط کی صورت میں کر رہے ہیں اس بڑی اور خطرناک صورت حال میں عوامی سطح پر تعلیم و تربیت کے نبوی منہج کو اپنانا ضروری ہے والدین اور اساتذہ کی سطح پر پیار اور مار کے امتزاج کے ساتھ تعلیم وتربیت کا عمل لے کر چلنا چاہیے اور اس دوران کے تمام سوالوں کا جواب نبوی منہج میں موجودہے کہ اعتدال کی راہ ہو نرمی حد سے زیادہ ہونہ سختی حد سے زیادہ ہو اسی طرح استاد کی حیثیت کو بھی واضح کیا جائے کہ استاد روحانی باپ کادرجہ رکھتا ہے لہذا اس کی مار میں بھی شفقت و مہربانی ہے اور استاد کا ادب واحترام والدین کے رویہ سے ظاہر ہو اور جس کی نقل انکے بچے کریں تاکہ مضبوط بنیادوں پر بچوں کو اساتذہ کا ادب واحترام سیکھایا جائے اور ان کا رعب ودبدبہ بنایا جائے جسکا فائدہ کل کو انکے والدین نے بھی اٹھاناہے جو بچے فیملی یا علاقائی ماحول کے سبب نافرمانی کی طرف مائل ہورہے ہوں انکی اصلاح کا حقیقی سہارا اساتذہ ہی ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے بگڑے بچوں کی اچھی تربیت ممکن ہوسکتی ہے تا کہ سب بچے خاندان کی عزت کا باعث ہوں اور پوری قوم کی ترقی کے لیے مفید شہری ثابت ہوں اور اس نظریہ کو بدل ڈالیں جو آج ہمارے بارے میں ہے کہ ہم ایک بھیڑ یعنی لوگوں کا ایسا اجتماع ہیں جس میں کوئی ترتیب نہیں بلکہ عالمی سطح پر من حیث القوم ہمارا تذکرہ ایک اعلیٰ قوم کی حیثیت سے ہو۔انشاء اللہ۔

حوالہ جات

  1. ۔ الاحزاب،45:33
  2. ۔ ترمذی ،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ،سنن الترمذی ،کتاب العلم ،باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ،رقم:2682
  3. ۔ البقرہ،151:2
  4. -ابن ماجہ،محمد بن یزید،سنن،کتاب العلم باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم،رقم:220
  5. فاطر،28:35
  6. ۔ الفرقان،67:25
  7. ۔ابو داؤد،سلیمان بن اشعث السجستانی،سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،باب متی یؤمر الغلام باالصلاۃ، رقم :495
  8. ۔البانی، صحیح الجامع الصغیر،رقم:179
  9. بخاری، الجامع الصحیح ،کتاب الادب،باب البر والصلۃ،رقم:6035
  10. -ترمذی،جامع الصحیح ،ابواب البر والصلۃ عن رسول اللہﷺ،باب ما جاءفی حسن الخلق،رقم:2002
  11. -ترمذی،جامع الصحیح ،ابواب البر والصلۃ عن رسول اللہﷺ،باب ماجا ء فی معالی الاخلاق،رقم:2018
  12. ۔ الانبیاء،: 107: 21
  13. ابن حبان، ابن حبّان،کتاب البر والاحسان،باب ذکر الاستحباب للمرء ان یکون لہ من کل خیر حظ ،رقم:361
  14. مسلم،کتاب الایمان،باب کفر من ترک الصلاۃ،رقم:134
  15. ۔سورہ النحل،:125: 16
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...