Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 2 of Al-ʿILM

نصاب سازی میں تربیتی واخلاقی جہات: عصری ترجیحات اور فقہ السیرۃ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060040263_1220

Pages

129-146

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/32/29/30

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/32

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

انسان جسم وروح کا مرکب ہے اور کامل مسلمان وہی ہوسکتا ہے جو اپنے ظاہر کے ساتھ باطنی تعمیر و ترقی کیلئے بھی فکر مند ہو ، جب کہ باطنی و روحانی ارتقاء کا مدار سنت ِنبویہ اور شریعت ِاسلامیہ کے مطابق عمل پر ہے۔اس لیے ایک مسلم معاشرے کے قیام کیلئے تمام افراد ِ معاشرہ کا دینی مزاج و مذاق اور شرعی احکام سے آراستہ ہونالازمی امر ہے۔جس کیلئےافرادِ معاشرہ کے تربیتی واخلاقی جہات کو عصری ترجیحات اور فقہ السیرہ کے دائرے میں منحصرکر کے نصاب کی تشکیل سے ہی یہ امرممکن ہے ۔اور یہ بھی ایک مسلم اور معروف حقیقت ہے کہ نصابِ تعلیم کو نئی نسل کی ذہنی تشکیل وتعمیر اور ملک و ملت کی قیادت ورہنمائی کی صلاحیت عطاء کرنے اور قدیم ذخیرہ علوم وتصنیفات سے فائدہ اٹھانے اورعصری ترجیحات کے مطابق فائدہ پہنچانے ، بلکہ ملک وملت کی رہنمائی وذہن سازی کی صلاحیت پیداکرنےمیں خاص اور بنیادی دخل ہے ۔ اسی سے انسان کی تعلیم وثقافت ،تہذیب وتمدن ،علم وعمل اور حسن کردار وحسن عمل کی تشکیل ہوتی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی عنصر مفقود یا ناقص یا مرکزِ توجہ نہ ہو تو یقینی طور پر انسان سازی ،مردم گری اور صالح انسانی معاشرہ کی تعمیر میں خلل واقع ہوجائے گا۔اسلام کے دنیا میں آنے کے بعد اس کی پہلی وحی میں پڑھنے ،سیکھنے ، سکھانے اور قلم کا تذکرہ اس انداز میں کیا گیا ہے کہ تعلیم وتعلم مسلمانوں کیلئے بنیادی اعمال میں سے ہیں۔قرآن کریم میں جگہ جگہ علوم وفنون کے قسموں کا ذکر کرتے ہوئے تعلیم وتعلم ،معرفت وتربیت ، عقل وتفکیر اور تدبر وبصیرت کا ذکر کیاگیا ہے۔ اس کو مزید مفید وکارآمد اور مؤثر وسحر انگیز شکل دینے کیلئے قدرت بیان، حلاوت لسان، خوش کلامی اور واضح اوصاف گفتگو کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے ۔یہ سب کچھ اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اسلام نے روز اول سے ہی تعلیم وتعلم کی نہ صرف ہمت افزائی کی ہے بلکہ اس کا نصاب اور نظام تعلیم مقرر کرکے عصری ترجیحات

 

کو متعین کیا ہے۔

 

یہ بھی ایک مسلم بات ہے کہ نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم کوئی منزل من اللہ حقیقت نہیں کہ

 

اس میں کسی تغیر وتبدل کی گنجائش نہ ہو۔ اصل مقصد دین کے داعی،ملت کے سپاہی ،شارح شرع متین اور معلم عقیدہ ودین کی تیاری ہے ، ان داعیوں اور سپاہیوں کو عصری ترجیحات مدنظر رکھتے ہوئے ہی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔لہذانصاب سازی کےمرحلےمیں نظریاتی حدودوقیودکومدنظررکھتےہوئےقوم کےافراد کی ذہنی تعمیروتشکیل میں حالات حاضرہ اورزمانےکےتقاضوں کی رعایت ازحدضروری ہےورنہ وہ اپنےکردارکی ادائیگی اوراپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے اہل نہیں ہونگے۔ بہر حال زیر نظر مقالے میں نصاب سازی میں تربیتی واخلاقی جہات اور اس کی عصری ترجیحات کوفقہ السیرۃ کی روشنی میں تفصیلاً بیان کرنا مقصود ہے۔

 

نصاب ِ تعلیم کی بنیاد:

 

رسول اللہﷺنے حصول تعلیم پر بڑا زور دیاہے ، تاریخِ اسلا م میں پہلا نصابِ تعلیم رسول اللہ ﷺنے ہی ترتیب دیا۔ اللہ کے رسول ﷺنے مسجد ِنبوی کی تعمیر کے وقت ایک چبوترہ بناکر اسلام کی پہلی اقامتی درسگا ہ کی بنیاد ڈالی تھی، جہاں آپ ﷺخود درس دیاکرتے تھے، اپنے دورِ خلافت میں حضرت عمر نے مسجد میں مکتب قائم کرکے ان کی نگہداشت و اخراجات کا ذمہ دار بھی حکومت کو بنایا ،آج دورِ جدید میں شہری حکومت کی ذمہ داریوں میں تعلیم کی اشاعت اور فنون کی تربیت بھی شامل ہے ۔اللہ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے کہ علم انبیاء کا ورثہ ہے ، مسلمان کو چاہئے کہ جہاں سے ملے لے لے۔

 

اسلامی نصاب ِ تعلیم کی اہم نفسیاتی بنیادیہ ہے کہ ساری دنیا دین کا موضوع ہے اور دین درحقیقت انسان کی بنیادی فطری ضرورت ہے۔اسلام کا پورافلسفہِ نصاب اسی نکتہ میں پنہاں ہے۔ یہ نہ ترک دنیا کی تعلیم دیتاہے اور نہ غلوفی الدنیاکی۔ چنانچہ متوازن اسلامی نصاب کی تشکیل کا مقصدِ اعلیٰ ایسے متوازن اور صحت مند افراد کی تیاری ہے جوصرف قرآن حکیم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی طرف متوجہ ہوں،اور ہردور اور ہر شعبہ زندگی میں صراطِ مستقیم یا دینِ فطرت کے مطابق چلنے اور دوسروں کی رہنمائی کے قابل ہوں۔

 

نصاب کی بنیادیں،اس کے اجزا ومواد اور اس کےمشمولات کیا ہونے چاہئے، اس نصاب کے ذریعہ قوم وملت کو کیا پیغام ملنا چاہئے،اس کے پڑھنے والے اس کو پڑھ کرکن افکار وخیالات اور نظریات سے بہرہ مند ہونے چاہئے، ان کی نظروں میں کس قدر وسعت اور گہرائی پیدا ہونی چاہئے؟اس کےلئے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کی کتاب” اسلام اور علم“سےذیل کے اقتباس کو نقل کرنا بالکل حسب مکان ہوگا، وہ لکھتے ہیں کہ:

 

”اگر دنیا میں انصاف کے ساتھ تاریخ لکھی جائےاور یہ تحقیق کی جائے کہ علم نے کب اپنا راستہ بدلا؟ وہ کب تعمیر کے بجائے تخریب کا ذریعہ بنا؟ توایک منصف آدمی یہ بتائے گا کہ جب سے علم کا رشتہ خالق ، مالک ،رب کائنات سے ختم ہوگیا، جب ہی سے یہ تباہی اور بربادی آئی۔جوعلم اللہ کے نام سے الگ ہوکرچلا وہ قابلِ اعتبار نہیں رہا، اس علم سے خداکی پناہ مانگنی چاہئے۔لہٰذا پہلی بات تو یہ معلوم ہو کہ ہمارا خالق کون ہے؟ ہمارا مالک اور پالنہار کون ہے؟ بڑے بڑے دانشوروں، معلموں اور فلسفیوں کو جب یہ نہیں معلوم کہ ان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ نیکی اور بدی میں کیا فرق ہے؟ ہمارا خالق ہم سے کیا چاہتا ہے؟ وہ ہمیں کس راستہ پر لگانا چاہتا ہے؟وہ ہمیں کونسا عقیدہ دیتا ہے؟ اس کائنات ،عام انسانوں اور اس دنیا اور اس کے انجام کے متعلق اور اپنی ذات کے متعلق ہمارا کیا طرزِعمل ہونا چاہئے؟ جب ان بنیادی سوالات کاعلم نہ ہوتو پھر اس علم کا کیا فائدہ؟ہم کو یہ تو معلوم ہو کہ اس زہرمیں یہ خاصیت ہے کہ وہ ایک منٹ میں سینکڑوں انسانوں کو تباہ وبرباد کرسکتاہے۔لیکن یہ نہ معلوم ہوکہ ہمارا پیداکرنے والا کون ہے؟ ہماری صلاحیتیں اور ارادےسب اس کےقبضے میں ہیں،وہ عالم الغیب ہے،تواس علم کاکوئی فائدہ نہیں“۔[1]

 

نصاب سازی یا کتاب سازی:

 

اگرنصاب کی نظریاتی اساس اور فکری بنیادمیں کھوکھلاپن ہواور مذکورہ امور ومقاصد سے ہٹ کر ایک الگ نظریہ پر علمی بنیادوں کو استوار کرنے کی کوشش کی جائےاورغرض نصاب سازی کے بجائے کتاب سازی ہو تواس سے نکلنے والے نتائج کیاہوں گے؟ اس بارے میں مولاناعبد الماجددریا آبادیؒ کا تبصرہ ملاحظہ جوانہوں نے کسی زمانہ میں ہندوستان کے علمی حلقہ کے علمی افلاس اورذہنی پسماندگی میں تحریرکیاتھا،چنانچہ وہ کہتے ہیں:

 

”سرکاری اعدادشائع ہوئے ہیں کہ پچھلے سال چھپنے والی کتابوں کی کل تعداد19 ہزاررہی ہے،اور اخباروں نے اس پر خوب لےدے کی ہے کہ اتنا بڑا ملک ،50کروڑآبادی والاملک اور اس کی کل مطبوعات کی تعداد کروڑوں کی نہیں، لاکھوں کی نہیں ہزاروں کی ،اور ہزاروں میں بھی 90،80 ہزارکی نہیں کل انیس ہزار کی،اور یہ دلیل ہے ملک کے علمی افلاس کی ، ذہنی پسماندگی کی، دماغی پستی کی۔ گویا ترقی کاپیمانہ صرف کتابوں کی تعدادہے، ان کی نوعیت نہیں،یعنی اس سے کوئی بحث ہی نہیں کہ کتابیں کیسی نکلیں؟کن کن موضوعوں پر نکلیں؟کس گہرائی کی نکلیں؟ بلکہ دیکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ کتنی نکلیں ہیں!۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے میزپر کاغذ اور روشنائی کے پہاڑکےپہاڑ،ہمالئے کے ہمالئے کھڑے ہوگئے۔ان سے انسان نے کیاپایااور کیا کھویا؟ اس سے کچھ روشنی بڑھی یا تاریکی کی گھٹا اور بھی گھنگھور ہوگئی؟دنیامیں مقدار خیروصلاح کی بڑھی یاشروفسادکی؟دلوں میں نور کی جلا پیدا ہوئی یا اور زنگ پر زنگ لگتے چلے گئے؟یہ شعروغزل، ناول،ڈرامے ،افسانےاور افسانچے جو بے شمار شائع ہوئے،یہ آخر کس طرف لےجارہے ہیں؟ فنونِ لطیفہ کی دعوت کا رخ کیا رہاہے؟خودجو بڑے سنجیدہ علوم وفنون کہےجاتے ہیں فلسفہ اور سائنس،تاریخ ومعاشیات ان میں سےبھی بیشتر کاماحصل اورلب لباب کیارہا ہے؟خدا طلبی،یادِآخرت،نیک چلنی،حسنِ معاشرت،خیر اندیشی،تحمل،صبر، ضبطِ نفس، صلح جوئی اور ہمدردی یا اس کے برعکس غفلت وانانیت، خدافراموشی اور آخرت بیزاری،خودغرضی اور دنیا طلبی، حرص وہوس،ظلم ونفس پرستی؟! حقیقت پسندی کے نقطہٴ نظرسے ایک سرسری جائزہ لے ڈالئے،اور خود سوچئے کہ اس ترقی اور وسعتِ کتاب سازی کےکیا نتیجے نکل چکے ہیں؟کیا نکل رہے ہیں؟اور آئندہ کیا نکلنے والے ہیں؟“۔[2]

 

اسلام میں دین ودنیاکی تفریق نہیں،اوراسلامی نظامِ حیات دین ودنیا دونوں کی صلاح وفلاح اور

 

کامیابی وکامرانی پر مشتمل ہے،آخرت کا راستہ دنیاہی سے ہوکر گزرتاہے،اسی بناپر احادیثِ مبارکہ میں دنیاکو آخرت کی کھیتی اور میدانِ عمل بتایاگیاہے۔لہٰذا اسی عقیدہ اور نصب العین سے اسلامی نظامِ تعلیم کو بھی مستثنیٰ نہیں،لہٰذا نصاب کے اجزا میں ان دونوں انتہاؤوں کو یکجاکئے بغیرصحیح اور مطلوبہ ہدف تک رسائی مشکل ہے۔”چنانچہ اس نصاب کے پڑھنے والے تہذیبی اور تمدنی لحاظ سے اتنے مستحکم اور مضبوط ہونے چاہئیں کہ وہ کسی باطل نظام سے مرعوب نہ ہوں،اور ہمیشہ تنقیدی صلاحیتوں سے کام لیکر اسے اسلام کی کسوٹی پر پرکھیں۔وہ دوسروں کے علوم وفنون کو حاصل بھی کریں، لیکن مرعوب ومغلوب ذہن سے نہیں بلکہ غالب اور ناقدانہ ذہن سے۔اس رہنما نقطے کے تناظرمیں تعلیم کی ہرسطح اور ہرشاخ میں نفسیاتی اصول کے حوالے سے نصاب میں ایسا لوازمہ شامل کیاجائے جس کے نتیجے میں طلبہ کو توحید ،نبوت،وحی،اخروی جزاوسزا،خیروشرکا علم اور اس پرایمان،پھرخدا کی نازل کردہ الہامی ہدایت کاعلم اور اس کے ساتھ اسوہ ٴنبوت یا کتاب اللہ کی اس قولی وعملی تشریح کاعلم جسے سنت رسول اللہ کہتے ہیں۔آخر میں تفسیر وحدیث سے متعلق علوم اور فقہ اجتہاد کے اصول وطریقہ کا علم حاصل ہوجائے“۔[3]

 

طریقہ تعلیم وتشکیلِ نصاب میں تغیروتبدل کوروارکھتےہوئےاس امرسےقطعاًصرفِ نظرنہیں کیاجاسکتا کہ نصاب محض ڈرائنگ کاسادہ خاکہ نہ ہوکہ جورنگ آنکھوں کوبھاجائےوہی اس میں بھردیاجائے،بلکہ زمانہ کےحالات کےمطابق عصری ترجیحات اور جدیدو ضروری مضامین کالحاظ رکھتےہوئےایسے موادواجزاءکا انتخاب کرناضروری ہےجونسلِ نوکی ذہنی وفکری تعمیروتشکیل میں اہم اورکلیدی کردارادا کرکےاس کوایسی منزل کی طرف گامزن کرسکےجہاںوہ اپنےاسلاف کےعظیم کارناموں،ان کی کوششوں،ان کی صلاحیتوں اوراس سےبڑھ کرمقصدِتخلیقِ کائنات سے بےبہرہ نہ رہ سکیں،اوراپنےخالق ومالک کی صحیح معرفت حاصل کرکےاس کی مرضی کےمطابق زندگی گزارسکیں۔مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ رقمطراز ہیں کہ :

 

”ضرورت ہےکہ خاص توجہ اورتربیت سےطلبہ میں علمی ذوق پیداکیاجائے،نصاب کےسواطلبہ کواچھااسلامی لٹریچردکھایاجائے، اوران ائمہ اورمفکرینِ اسلام کی تصانیف کاذوق پیداکیاجائےجن کی کتابوں میں اسلام کی صحیح روح ملتی ہے،علم واجتہادکےچشمےابلتے ہیں،اسلام کی بنیادیں قلب ودماغ میں مستحکم ہوتی ہیں۔کتابوں کاصحیح انتخاب اوران کی صحیح ترتیب کےمتعلق مشورہ مدرسین کےاہم فرائض میں سےہے،اورذہنی اورمذہبی تربیت کیلئےنہایت ضروری ہے۔اسلام کےمستندماضی کےاہم اشخاص سےواقف ہونا،ان کےمراتب کوپہچاننا،ان کی خدمتوں سےواقف ہونااور اعلیٰ ومجتہدانہ اسلامی تصنیفات سےروشناس ہوناتعلیم کااہم جزوہے“[4]۔ایک اور مقام پراسی پس منظرمیں لکھتے ہیں کہ: ”اب اس امت کےلئے جو دانش گاہ تعمیر کی جائے، جو نظامِ تعلیم مرتب کیا جائے،اس میں جو بنیادی چیزہو،جواصل کارفرما اور راہنما اصول ہے،وہ یہ ہے کہ یہ علم،یہ نظامِ تعلیم ان اقدارپر، ان حقائق پر اور ان عقائد پر ایمان کو راسخ کرے،اور یہ پختگی صرف دل کی راہ سے نہیں بلکہ دماغ کی راہ سے بھی ہو،یعنی دل ودماغ دونوں مطمئن ہونے چاہئیں۔ اگر دل و دماغ دونوں مطمئن نہیں ہیں تو فرد کی زندگی میں کشمکش پیدا ہوگی،اور یہ کشمکش پھر وسیع ہوتی جائے گی۔پہلے وہ اپنے اندر ایک دوسرے سے دست بگریباں پھر جماعت سے دست بگریباں ہوگا“۔[5]

 

جبری طرز تعلیم:

 

جبری نظامِ تعلیم جس میں ہر قسم کے رطب ویابس شامل ہوں اوراس سے نسلِ نو کے ذہن پر پڑنے والے منفی اثرات کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں کہ:”کسی جبری نظامِ تعلیم میں جس کا پڑھنا مسلمان بچوں کےلئے ضروری ہو،ایسی کتابوں کا داخلِ نصاب ہونا مسلمانوں کےلئے سخت تکلیف دہ امر ہے جس سے انہیں اپنے مذہب، اپنے وجودِملی، اپنے عقیدہ اور اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کےلئے شدید خطرہ لاحق ہوتاہو“[6]۔اس طرزِ تعلیم کے نتائج وعواقب پرتبصرہ کرتے ہوئے مولانا ندویؒ لکھتے ہیں کہ:”مسلمانوں کو اپنے بچوں کےلئے ذہنی اور دینی ارتداد کا جوخطرہ نظرآرہاہے وہ محض وہم وتخیل پرمبنی نہیں، واقعات اور آثار اس کی تصدیق کرتے ہیں،ان حلقوں میں جہاں موجودہ نظامِ تعلیم کا گہرا اثرپڑاہے اور اسلامی تہذیب وثقافت سے جن کا تعلق نہیں رہ سکا اس تعلیم کے اثرات نمایاں ہونے لگے ہیں۔خاندانوں کے معصوم بچے اور بچیاں غیراسلامی اور صریح مشرکانہ عقائد ورسوم سے متاثر نظر آنے لگی ہیں،جو مسلمانوں کےلئے بڑی تشویش اور کشمکش کا سبب ہے“۔[7]

 

اسی ذہنی انتشاروکشمکش اورفکری پراگندگی کونئی نسل کی نونہالوں میں قریب سے دیکھنے اوراس کے اثرات کوصرف محسوس ہی نہیں بلکہ ملاحظہ کرنےکے بعد مشہوریگانہٴروزگار ادیب ومفسر مولانا عبدالماجد دریابادیؒ بڑی افسردگی اور ملتِ اسلامیہ سے بڑی مایوسی کےساتھ اپنے تاثرات لکھتے ہیں کہ:

 

”مسلمان والدین کی 12سال کی بچی کوسرے سے یہ خبرہی نہیں کہ عیدہے کیا چیز؟اور اس کی کیا اہمیت ایک مسلمان کےلئے ہے؟اور روزہ اور رمضان کا تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس نے نام ہی نہیں سناہے۔عید گاہ یا مسجد کاکوئی تصور اس کے ذہن میں نظر نہیں آتا،اس کا باپ مع کچھ اور باپوں کے بس ایک کرایہ کے چرچ ہال میں جاکر(prayer) کرآتے ہیں،اور جیسے اس عبادت کا تعلق بجز کچھ باپوں کے اور کسی سے ہے ہی نہیں، معانقہ اس کی نظرمیں صرف ایک دوسرے کی شانوں پہ گرپڑنا ہے،اور درودوسلام یا کلمہٴ شہادت یا کلماتِ تکبیرکے بجائے اس کے کان صرف(very happy Christmas) سے آشناہیں“۔ ایک اور جگہ پر وہ رقم طراز ہیں کہ:”آہ! وہ امت جو اپنے ہاں کی تعلیمات وروایات کو یوں بھلا چکی ہے، دنیا کی ہوس میں پڑکر آخرت کو اپنے ذہن سے یوں خارج کرچکی ہے،اور اپنی اولاد کو اپنے ہاتھ سے قصرِ جہنم کی طرف یوں دھکیلتی جارہی ہے،اور پھرانتہائی ڈھٹائی سے فریاد بھی یہ برپا کرتی جارہی ہے کہ دوسری قوموں نے اس پر دنیا تنگ کررکھی ہے،اور وہ سراسر مظلوم اور ہرنعمت سے محروم ہوکر رہ گئی ہے، ایک اس برطانوی مثال کو چھوڑئے، ہندوستان ہی میں کتنے بچوں کو صحیح اسلامی تعلیم دی جاتی ہے؟!۔“[8]

 

نصاب کے بارے میں ایک ضروری امر یہ ہے کہ غیرضروری اور غیر مفید تعلیم سے اسے بھاری بناکر طالب علم کو اس کے بوجھ تلے دبا نہ دیاجائے۔ یہ مسئلہ انتہائی غوروفکر، مہارت اور لکیر پیٹنے کی ذہنیت سے آزادہوکر اقدامات کرنے کا طالب ہے۔یہ طرزِ فکر کہ ہر قومی مسئلے کا حل یہ ہے کہ فلاں چیز نصاب میں شامل کردی جائے ،مناسب نہیں۔ اس طرح طالب علم کو غیر ضروری بوجھ سے لادنے سے اس کی دلچسپی سرے سے حصولِ علم میں ختم ہوجاتی ہے۔ نصابی حکمتِ عملی کا ایک اہم جزو یہ ہونا چاہئےکہ نصابات کی مسلسل چھانٹی کی جاتی رہے، ثانوی جماعت تک کے لازمی نصاب سے اس طرح کی تمام باتیں نکال دینی چاہئیں جو نوے فیصد افراد کی ساری زندگی کسی کام نہیں آتیں، لیکن وہ باتیں ضرور شامل ہونی چاہئیں جو کام آتی ہیں۔[9]

 

غیرضروری مواد کی گنجائش نصابات کی تیاری میں ہرگزنہ رکھنی چاہئے،ایسے موادجن کا نہ کوئی دنیو ی نفع ہو نہ اخروی، متعدد احادیث میں اس کو اختیار کرنےاوراس کے بارے میں بحث ومباحثہ کرنے سے نہ صرف یہ کہ منع کیا گیا ہے بلکہ ان کو آخرت میں قابلِ مؤاخذہ وگرفت بتایا گیاہے۔ چنانچہ مشکوٰۃ المصابیح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی گئی ہے،جس سے اس بارے میں بڑی رہنمائی ملتی ہے۔

 

عن ابی ھریرۃ قال:خرج علینا رسول اللہ علیہ وسلم ونحن نتنازع فی

 

القدر فغضب حتی احمرّ وجھہ حتی کانما فقئ فی وجہہ حب الرماّن،فقال :ابھذا امرتم ام بھذا ارسلت الیکم؟ انّما ھلک من کان قبلکم حین تنازعوا فی ھذاالامرفاذاعزمت علیکم عزمت علیکم ان لاتنازعوا فیہ۔[10]

 

مظاہر حق میں نواب قطب الدین خان اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:

 

صحابہ آپس میں تقدیر کے مسئلہ پر بحث کررہے تھے ،بعض صحابہ تو یہ کہہ رہے تھے کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سےنوشتہ تقدیر کےمطابق ہیں،تو پھرثواب وعذاب کا ترتب کیوں ہوتا ہے؟جیساکہ معتزلہ کا مذہب ہےاورکچھ حضرات یہ کہہ رہے تھے کہ اس میں خدا کی کیا مصلحت و حکمت ہےکہ بعض انسانوں کوتو جنت کیلئے پیدا کیا اور بعض انسانوں کو دوزخ کیلئے پیدا کیا ہے؟کچھ صحابہ نے اس کا جواب دیا کہ یہ اس لئے ہے کہ انسانوں کو کچھ اختیارات بھی اعمال کے کرنے اور نہ کرنےکے دے دئے ہیں۔ کچھ نے کہا کہ یہ اختیار کس نے دیا ہے؟بہرحال اس قسم کی گفتگوہورہی تھی اور اپنی عقل ودانش کے بل بوتے پر خداکے اس راز ومصلحت کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ سرکارِدوعالم ﷺنے جب ان کو اس بحث ومباحثہ میں مشغول پایا تو غصہ وغضب سے چہرہ مقدس سرخ ہوگیا، اس لئے صحابہ کو بتلادیا گیاکہ یہ تقدیرکا مسئلہ خداکا ایک راز وبھید ہے جو کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے ۔لہذا اس میں اپنی عقل لڑانااور غوروتحقیق گمراہی کی راہ اختیار کرنا ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ میں اس لئے دنیا میں نہیں بھیجا گیا ہوں کہ تقدیر کےبارے میں بتاؤں اورتم اس میں بحث و مباحثہ کرو،میری بعثت کا مقصدصرف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام تم لوگوں تک پہنچادوں،اور اطاعت وفرمان برداری کی راہ پر تمہیں لگاؤں، دین وشریعت کے فرائض واعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں،لہٰذا ایک سچے ومخلص ہونے کے ناطےپر صرف اتناہی فرض ہے کہ تم ان احکام وفرائض پر عمل کرو اور جن اعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں اس کی بجا آوری میں لگے رہو،تم اس تقدیر کے مسئلے میں مت پڑو، پس اتناہی اعتقاد تمہارے لئے کافی ہے کہ یہ خداکا ایک راز ہے جس کی حقیقت ومصلحت وہی جانتا ہے،اس کو اس کی مرضی پر چھوڑو۔[11]

 

اس حدیث میں ایک عمومی اصول وضابطہ بیان کیاگیاہےاورصالح ومفید اور مؤثراور غیرمفید

 

وغیرضروری کےدرمیان ایک حدِفاصل بیان کی گئی ہے،ایک قانون دیاگیاہےکہ ہراس

 

گفتگو، مباحثے،مواد،اورلٹریچرکودیکھنے،پڑھنے ،سننے اور سنانے سے احتراز برتنا چاہئےکہ جوانسان کےلئے باعث گمراہی اور دنیوی واخروی ہلاکت کاسبب ہو۔لہٰذااس حدیث میں جہاں مسئلہ تقدیرمیں غوروخوض کرنے سے باز رہنے کی تلقین وتاکید کی گئی ہے وہاں ہراس چیزسے بھی سختی کے ساتھ روکاگیاہے جواس مسئلے میں پڑنے کےلئے وسیلہ اور سبب بن سکتی ہو۔اب اس بات کی تعین کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی اور اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ ان مسائل میں پڑنے یا نہ پڑنے کا تعلق نصاب کی صحت یا فسادسے کس قدر گہری ہے۔اور اگر اس طرف التفات نہ کی گئی تو اس عدمِ توجہی کے کیسے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟

 

جہاں نصاب کی صحت وافادیت کو اہمیت حاصل ہے وہاں یہ بات بھی انتہائی قابلِ توجہ ہے کہ واضعینِ نصاب ونظام ایسےافرادہونےچاہئیں جوملک وملت کےفرزندوں کی بہی خواہی کےجذبہ سےسرشارہونےکےساتھ ساتھ خودبھی فکر کی سلامتی،عقیدہ کی درستگی،اخلاق کی برتری اور نگاہ کی بلندی جیسےتمام عالی اوصاف سےآراستہ وپیراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ عصری تحدیات سے بھی واقف ہو۔اگرواضعین نصاب کےافکاروخیالات فاسداورکھوکھلےہوں تواس کےجرثومےنہ صرف یہ کہ نونہالان ملت کےذھنوںمیں پھیل جائیں گےبلکہ وہ اس طرح سےپیوست ہوجائیں گے کہ ان کوالگ کرنامشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائےگا۔ اس سلسلےمیں مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں کہ:

 

”اہل نظرجانتےہیں کہ انسانی وجودکی طرح نظامِ تعلیم بھی اپنی ایک روح اورضمیررکھتاہے،یہ روح اورضمیردراصل اس کےواضعین ومرتبین کےعقائدونفسیات،زندگی کےمتعلق ان کےنقطہ نظر،مطالعہ کائنات وعلم اسماءکی اساس ومقصداوران کےاخلاق کاعکس اورپرتوہوتاہے،جواس نظام کوایک مستقل شخصیت،ایک مستقل روح اورضمیر عطاکرتاہے۔یہ روح اس کےپورے ڈھانچہ، ادب وفلسفہ،تاریخ،فنونِ لطیفہ،علومِ عمرانیہ،حتی کہ معاشیات وسیاسیات میں اس طرح سرایت کرجاتی ہےکہ اس کواس سےمجردکرنابڑا کٹھن کام ہے“۔[12]

 

ہم فکر افراد کا انتخاب:

 

نصاب کےپڑھانےوالوں کی ذہنی وفکری درستگی اور سلامتی کونصاب کی اساس ،اس کی

 

افادیت ونافعیت اور اس کی صالحیت کو نمایاں اور اجاگرکرنےمیں بہت کچھ داخل ہے۔کسی بھی نصاب کی روح اس وقت تک صحیح طرح اس کے پڑھنے والوں کے ذہن ودماغ اور افکار وخیالات میں منتقل نہیں ہوسکتی جب تک اس نصاب ونظام کے موافق وہم خیال افراداس کو میسر نہ ہوں۔لہٰذا نصاب کی افادیت ونافعیت کوآشکارا کرنے کیلئےاس کے ہم فکر افراد کا انتخاب انتہائی ناگزیرہے۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں کہ:

 

”نصابِ درس کسی جماعت کے پیداکرنے کا تنہا ضامن نہیں، وہ ان ذرائع میں سے ایک ذریعہ

 

ہے جو کسی جماعت کے پیدا کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔۔۔ایسی جماعت کے پیدا ہونے کا بہت کچھ انحصار اس نصاب کے اساتذہ اور مدرسہ کے موافق ماحول پر ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اساتذہ کی خوبی نصاب کے نقائص کی بہت حد تک تلافی کرسکتی ہے، لیکن بہترسےبہتر نصاب معلمین کا قائم مقام نہیں ہوسکتا“[13] ۔

 

مولانا ابوالحسن علی ندویؒ مزید لکھتے ہیں کہ:

 

”دوسری بنیادی ضرورت ان اساتذہ کی تیاری اور تربیت ہے جو اس تحریک اور ادارہ کے تعلیمی نقطہ نظر اور تخیل سے نہ صرف یہ کہ پورا اتفاق رکھتے ہوں، بلکہ اس کے پر جوش داعی اور اس کا عملی نمونہ ہوں، اور جو اپنی علمی اور تدریسی صلاحیت، ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ اس طریقہ تعلیم کو کامیاب بنانے میں صرف کریں، اور دوسرے نظامہائے تعلیم کے مقابلہ میں اس کا متیاز ثابت کرسکیں“۔[14]

 

اگرنصاب کی بنیادوں میں صالح اور مفید وصحت مند اجزا نہ ہوں تو نہ صرف یہ کہ ساری جدوجہد اور کاوشیں ” کوہ کندن وکاہ برآوردن“کے مصداق ہوں گے ،بلکہ پوری نسل اس کوتاہی اورغفلت کا شکار ہوکر روبزوال ہوجائے گی،اورپھر کوئی بڑی سے بڑی دانش گاہ اس کی تلافی سے قاصر ہوگی۔دانش گاہوں میں ہوتے ہوئے دانستہ بے دانشی کا ارتکاب وہ جرم ہے جس نے ہمیشہ”یک لحظہ غافل بودم وصد سال را ہم دورشد“ کی کرشمہ سازیاں دکھائی ہے۔مولانا ندوی لکھتے ہیں:

 

”اب کسی ملک کی یہ تعریف نہیں کہ وہاں کتنی یونیورسٹیاں ہیں، یہ کوتاہ نظری اب بہت پرانی ہوگئی ہے،بلکہ قابلِ قدر بات یہ ہے کہ علم کے شوق میں ،ریسرچ کی راہ میں اور علم کے پھیلانے کے جذبہ سے کتنے آدمی اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں۔ اپنی قوم کو صاحب ِشعور، مہذب اور باضمیر قوم بنانے کیلئے کتنی تعدادمیں وہ نوجوان موجود ہیں جو اپنی ذاتی سربلندی اور ترقی سے آنکھیں بند کرکےاس مقصدکیلئے اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں۔اصل معیار یہ ہے اور یہی ہونا چاہئے۔کتنے نوجوان ایسے ہیں کہ جو دنیا کی تمام آسائشوں اور ترقیوں سے آنکھیں بند کرکے کسی گوشہ میں ٹھوس علمی کام کررہے ہیں، ملت کی سربلندی کیلئے یاکسی نظریہ کی دریافت کیلئے یا کسی علمی تحقیق کےلئےاور اپنے ملک کو طاقت ور بنانے کیلئے۔یہی دو حقیقی مقصد ہیں، باقی صرف پڑھا لکھا دینا اور ملازمت کے قابل بنا دینا میں سمجھتاہوں اب کسی جامعہ کیلئے قابلِ تعریف نہیں“۔[15]

 

فکرونظراور قلبی میلان کی درستگی اور قوم ملت کے ساتھ ہمدردی کے جذبہ سے حصولِ تعلیم کے فقدان پر اپنی گہرے رنجیدگی کا اظہارکرتے ہوئے مولاناعبدالماجد دریابادیؒ لکھتے ہیں کہ:

 

”کاش یہ ہنر آپ نہ سیکھے ہوتے، کاش ان علوم وفنون سے آپ جاہل ہی رہتے، کاش یہ ننگِ انسانیت” معززپیشے“ آپ کی شرکت سے محروم رہتے،کاش ان آمدنیوں سے آپ کی جیبیں بوجھل نہ ہوتیں،دوسرے انسانوں،اپنے ہم جنسوں کے خون چوسنے سے قبل کاش ہماراہی خون خشک ہوگیا ہوتا!!“۔[16]

 

تربیتی واخلاقی جہات:

 

تربیت واخلاق کا تہذیب وتمدن سے گہرا تعلق رکھتا ہےاور اسلامی تہذیب وتمدن کی گویا بنیاد ہی تربیت واخلاق پر ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:

 

اِنَّمَابُعِثتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الاَخلاَقِ۔[17] "میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں"

 

لیکن بدقسمتی سے جب اہل اسلام کے ہاتھوں اسلامی تہذیب کمزور ہوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی قدربھی اپنی اہمیت کھو بیٹھی۔اب برابر ی کا ڈھنڈو را پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابرکھڑے ہوگئے جبکہ شاگرداستاد کے برابر ۔جس سے وہ سار ی خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔یہ مسلمانوں کیلئے کسی المیہ سے کم نہیں۔اس کے برعکس جاپان کی مثال لیں جہاں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھایا جاتا ہےاور وہ ”اخلاقیات“ و”آداب“ ہیں۔علامہ عبداللہ سراج الدین لکھتے ہیں کہ:الأخلاق الفاضلة والآداب الكاملة،لهامنزلتها الرفيعة[18] ”اخلاق فاضلہ اور آداب کاملہ(کے حاملین) کیلئےبلند منزلیں ہیں“ پتہ نہیں کہ جاپان والے اس کتاب اور صاحب کتاب کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی؟بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہےجوبلند منزلوں کے حاملین بھی بنے ہیں اور ہم ابھی تک خواب غفلت کے شکار ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ایک پروفیسر جاپان گئےتھے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کچھ عرصے سے گردش میں ہے جسے پڑھ کر ہر ایک انسان ورطہ حیرت میں پڑ جاتا ہے ۔ اس پوسٹ میں لکھا ہے کہ:ایک ڈاکٹر اکثر نسخے پر ڈسپنسر کو لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینے اور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لیے؟ تو وہ کہتے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ جس کا نام صدیق ہو ، عمر ہو ،عثمان ہو، علی ہو یا خدیجہ ،عائشہ اور فاطمہ ہو تو میں اس سے پیسے لوں۔ ساری عمر انہوں نے خلفائے راشدین ، امہات المومنین اور بنات رسولﷺکے ہم نام لوگوں سے پیسے نہ لیے ۔ یہ ان کی محبت اور ادب کا عجیب انداز تھا۔[19]

 

ادب واحترام اورتربیتی واخلاقی جہات کے باب میں حضورﷺ کےایک صحابی سےیہ فرمان ملاحظہ ہو۔جب صحابیسے رسول اللہﷺنے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا میں؟ (عمر پوچھنا مقصود تھا):

 

اَنتَ اَکبَرُ اَم اَنَا ،فَقَالَ یَا رَسُول اللہ اَنتَ اَکبَرُ مِنِّی وَاَنَا اَقدَمُ مِنکَ۔[20]

 

"(صحابی نے کہا) یا رسول اللہﷺبڑے تو آپ ہی ہیں البتہ عمر میں ،میں آگے ہوں۔(یعنی عمرمیری زیادہ ہے)"

 

صحابی نے کمال تربیت و ادب کاخیال رکھتے ہوئے حضورﷺکیلئے اَکبَرُ اور اپنے لئے اَقدَمُ کا لفظ استعمال کیا۔یہ ہے رسول اللہ ﷺکی تربیت واخلاقی تعلیم کا وہ مظہر جس سے ہر ایک شاگرد منور دکھائی دیتا ہے۔

 

امام احمدبن حنبلؒ دریائے دجلہ کے کنارے وضو فرما رہے تھے کہ ایک اور شخص بھی وضوکرنے آئے، لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑےہوکر امام صاحبؒ سے آگے نیچے کی طرف جا کر وضو کرنے لگے۔پوچھنے پر کہا کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپؒ کی طرف آ رہا ہے،مجھے شرم آئی کہ امام ؒ میرے مستعمل پانی سے وضوکرے ۔کسی شخص نے اس آدمی کو وفات کے بعد خواب میں دیکھ کرپوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ اس نے کہا کہ وضو کرنے میں امامؒ کی تعظیم کرنے

 

کے باعث اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بخش دیا۔[21]

 

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ رات کو سوتے ہوئے یہ احتیاط کرتے کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ہوں اور بیت الخلا جاتے ہوئے یہ احتیاط کرتے کہ جس قلم سے لکھ رہا ہوں اس کی کوئی سیاہی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے ۔چنانچہ ایک دن آپؒ اسرار و معارف تحریر فرمارہے تھے ناگاہ ضرورت بشری کی وجہ سے بیت الخلاء تشریف لے گئے، تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ باہر تشریف لائے اور پانی طلب کرکےبائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے ناخن کو دھویا اور فرمایا:

 

ناخن پر سیاہی کا دھبہ تھا اور سیاہی حروف قرآنی کے اسباب کتابت میں سے ہے بنابریں لائق ادب نہ سمجھا کہ اس دھبہ کے ہوتے ہوئے طہارت کروں ۔[22]

 

ادب کے یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہاہے اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ہوئی جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اہمیت حاصل تھی کیونکہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہےکہ :

 

لَیسَ مِنَّا مَن لَم یَرحَم صَغِیرنَا وَلَم یُوَقرکَبِیرنَا۔[23]

 

"جوبڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیا ر نہیں کرتاوہ ہم میں سے نہیں"

 

ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا، ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے اور اُن کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے ۔ اس کے صدقے اللہ انہیں نوازتا بھی تھا۔ اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی کہ جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے رزق میں اضافہ کرے وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے اور جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کاادب کرے۔

 

والدین کی طرح استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی اور اس کا تسلسل بھی صحابہ کے زمانے سے چلا آر ہا تھا۔ حضور ﷺکے چچا زاد حضرت عبداللہ بن عباسؓ اساتذہ کے سامنے تواضع اور انکساری کا اظہار کرتے تھے ۔کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر ان کے گھروں کی دہلیز پر بیٹھ جاتے اور استاد کے نکلنے کا انتظار کرتے ۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے اور جب وہ صحابی خود ہی باہر نکلتے تو ان سے حدیث پوچھتے۔ آپ استاد کے سامنے یوں گویا ہوتے کہ میں علم کا طالب ہوں، میرادل نہ چاہا کہ آپ میری وجہ سے اپنی ضروریات سے فارغ ہونے سے پہلے آئیں۔اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا ، لو چلتی رہتی مگر آپ برداشت کرتے رہتے ۔ [24]

 

کتنی ہی مدت ہمارے نظام ِتعلیم میں یہ رواج رہا (بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ہے ) کہ ہر مضمون کے استاد کا کمر ہ مختص ہوتا ، وہ وہیں بیٹھتے اور شاگر د خود چل کر وہا ں پڑھنے آتے۔ جبکہ اب شاگر د کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ہے ۔مسلما ن تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ہی محدود نہ تھا بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ہی احتیاط کی جاتی تھی۔ وہاں چھوٹا ، چھوٹا تھا اور بڑا ، بڑا ۔ چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ہی رہتا تھا۔جب کہ اب یہ معاملہ مسلمانوں کے بجائے یورپین اقوام نے اپنایاہےاسی وجہ سے وہ ترقی کے منازل طے کرتےجارہے ہیں۔ اشفاق احمد صاحب کا ایک واقعہ مشہور ہے جسے ہر ایک بطور مثال پیش کرتا ہے کہ ان کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے۔ استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے۔لہذا اگر اپنے نوجوان نسل کو کامیابی سے ہمکنار دیکھنا چاہتے ہیں تو عصری ضروریات سے ہم آہنگ نظریاتی نصاب سازی کے ساتھ ساتھ تربیتی واخلاقی پہلوؤں کواجاگر کرنے کو اولیت دینا ہوگا ورنہ تمام ترکوششیں سعی لاحاصل کے زمرے میں آئیں گے۔

 

عصری ترجیحات سے چشم پوشی:

 

ابھی تک تو ہم نصاب تعلیم ،اس کی بنیاد ،اس کے تقاضے،جبری طرز تعلیم،نصاب سازی یا کتاب سازی اورنصاب کے حوالے سے ہم فکر افراد کے انتخاب وغیرہ کے حوالے سے بحث کر رہے تھے اب ذرا اسالمیہ کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو تمام تر ناکامیوں کی جڑ ہے۔

 

آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان برصغیر پاک و ہندمیں 1858ء میں ہوا،اور

 

برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ برصغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں،اس لیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس “ 65 ہیں تو برصغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کر دیے گئےاور ہم 2018 ءمیں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں[25]۔جاپان میں معاشرتی علوم ” پڑھائی“ نہیں جاتی ہے۔کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کیلئے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں۔صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے،ہمارے بچے ” پبلشرز “ بن چکے ہیں۔کیا یہ المیہ نہیں کہ جو کچھ کتاب میں لکھا ہوتا ہےاساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں،بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں،اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں۔اکثر وبیشترخود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں۔ بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کر دیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں۔جن کے بچے فیل ہو جاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو ”کوڑھ مغز“ اور”کند ذہن“ کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔اب ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا۔سوائے نقل کرنے اور چھاپنے کے؟۔ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرتے وکرواتے ہیں۔جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے،قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے ۔ہم پہلی سے لے کر دسویں تک اپنے بچوں کو ” سوشل اسٹڈیز “ پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ ہم نے کتنا ”سوشل“ ہونا سیکھا ہے؟۔اسکول میں سارا وقت سائنس ”رٹتے“گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ”سائنس دان“ نامی چیز نظر نہیں آئے گی۔کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ”سیکھنے“ کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی ”رٹّا“ لگواتے ہیں۔لہذا اہل علم ودانش سر جوڑ کر بیٹھیں،اس ”گلے سڑے“ اور ”بوسیدہ“ نظام ونصاب تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں، بچوں کو ”طوطا“ بنانے کے بجائے ”قابل“بنانے کے بارے میں سوچیں اورنوجوان نسل کو عصری تقاضوں کے مطابق اعلیٰ نظریاتی، تربیتی واخلاقی نصاب تعلیم حوالہ کریں ۔

 

 

خلاصہ بحث:

 

خلاصہ یہ کہ ایک نظریاتی مملکت کے باشندوں کیلئے نصاب تعلیم بھی نظریاتی اساس کا حامل ہونا لازمی امر ہے۔ کتاب سازی کی ذہنیت سے نکل کر عصری ترجیحات،تربیتی واخلاقی نظریات پر مبنی نصاب سازی میں ہی قوم وملت کی کامیابی مضمر ہےلہٰذا یہ نکتہ اولین فرائض میں سے جان کر اس پر عمل کرنا چاہئے۔ نظریاتی نصاب کی اساس قرآن کریم اور سیرت طیبہ کی تعلیمات پر مبنی ہونی چاہئے تاکہ ہم ہر دور اور ہر شعبہ زندگی خصوصاً اخلاقی وتربیتی اعتبار سے عصری ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے صراط مستقیم کے مطابق چلنے اور ملک وقوم کی رہنمائی کے قابل ہو سکیں۔ نظریاتی نصاب میں قرآن کریم اور سیرت طیبہ کے ساتھ ساتھ ہمارے اسلاف کے علم واجتہاد سے بھر پور بیش بہا کتابوں سے بھی بھرپور استفادہ لازمی ہے تاکہ طلبہ میں علمی ذوق کے ساتھ ساتھ اپنے اسلاف کے مستند ماضی،تربیت واخلاق اور خدمات ومراتب سے واقفیت حاصل ہو اور طلبہ اعلیٰ ومجتہدانہ اسلامی ذخیرہ تصنیفات سے روشناس ہوں۔ اس سے ایک تو طلبہ میں عقائد،ایمانیات، حقائق اور اقدار پر ایمان راسخ ہوجائے گا اور دوسرا یہ کہ ان میں پختگی دل ودماغ پیدا ہوجائے گی اور وہ نو پیدا ذہنی انتشاروکشمکش اور فکری پراگندگی سے محفوظ ہوں گے۔

 

نظریاتی نصاب کے ساتھ ساتھ اس کے پڑھانے والے بھی نہ صرف نظریات کے موافق وہم خیال ہونے چاہئیں تاکہ نصاب کی افادیت ونافعیت آشکارا ہو، بلکہ ان کا نظریاتی تعلیمی نقطہ نظر اور تخیل سے نہ صرف اتفاق ہو بلکہ اخلاقی وتربیتی اعتبار سے عصری ترجیحات کومدنظر رکھتے ہوئے اس کے پرجوش داعی اور اس کا عملی نمونہ ہوں۔تاکہ وہ اپنی خداداد علمی وتدریسی صلاحیتوں ،ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ عصری تقاضوں کے مطابق اسے نسل نو میں منتقل کرسکیں اور انہیں دنیا میں مثالی کردار کا حامل بنا سکیں تب جاکر ہم مغربی دنیا کا مقابلہ کرسکیں گے اور اپنے آپ کواخلاقی اعتبار سے عصری ترجیحات وضروریات کے مطابق ایک کامیاب معاشرے کا حصہ قرار دے سکیں گے ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو جدیدترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئےعصری تقاضوں کے مطابق اعلیٰ نظریاتی، تربیتی واخلاقی نصاب تعلیم حوالہ کریں ورنہ آنے والے اوقات ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گے۔

حوالہ جات

  1. ندوی،مولانا سید ابوالحسن علی،اسلام اورعلم، سیداحمدشہیداکیڈمی، بریلی،1433ھ ،ص36
  2. دریابادی،مولانا عبدالماجد،ملتِ اسلامیہ اور عصرِ حاضر کے تقاضے، سندھ نیشنل اکیڈمی ،حیدرآباد، 2006ء، ص:193-192
  3. شاہد،ایس ایم،اسلامک سسٹم آف ایجوکیشن، مجیدبک ڈپواردوبازار،لاہور،س ن،ص 202-201
  4. ندوی،مولانا سید ابوالحسن علی، مدارس اسلامیہ، مجلس نشریا ت اسلام، کراچی،س ن ،ص38
  5. ندوی ،مولانا سیدابوالحسن علی،حدیثِ پاکستان، مجلس نشریا ت اسلام، کراچی،س ن ،ص94
  6. ندوی ،مولانا سیدابوالحسن علی، ہندوستانی مسلمان، مجلس نشریا ت اسلام، کراچی،س ن،ص189
  7. ایضاً
  8. حوالہ سابق،ملتِ اسلامیہ اور عصرِ حاضر کے تقاضے،ص119
  9. حوالہ سابق، اسلامک سسٹم آف ایجوکیشن ،ص205-206
  10. الخطیب العمری،ابوعبداللہ ولیّ الدین محمدبن عبداللہ،مشکوٰۃ المصابیح، مکتبہ رشیدیہ ،کوئٹہ،2001ء ،22:1
  11. دہلوی،علاّمہ نواب محمدقطب الدین خانؒ،مظاہرِحق،لاہور،المصباح،سن ندارد ،ص172-173
  12. ندوی ،مولانا سیدابوالحسن علی ،مسلم ممالک میں اسلامیت اورمغربیت کی کشمکش، مجلس نشریا ت اسلام، کراچی،1976ء ،ص242-243
  13. حوالہ سابق ،مدارس اسلامیہ، ص38-39
  14. ندوی ،مولانا سیدابوالحسن علی،کاروانِ زندگی، مجلس نشریا ت اسلام، کراچی،1983ء،200:1
  15. حوالہ سابق،حدیثِ پاکستان،ص96
  16. حوالہ سابق،ملتِ اسلامیہ اور عصرِ حاضر کے تقاضے،ص243
  17. البیہقی،ابوبکراحمدبن حسین بن علی،سنن کبری للبیہقی، باب بیان مکارم الاخلاق، کتب خانہ رشیدیہ،محلہ جنگی،پشاور،س ن، ،10 :356
  18. سراج الدین،عبداللہ ،علامہ، الهدي النبوي والإرشادات المحمدية إلى مكارم الأخلاق ومحاسن الآداب السنية،مشکاۃ الاسلامیہ، 15-12-1433ھ، عددالقراء 3166
  19. http://www.urdudost.in/?p=1292#comment-323
  20. عسقلانی،شہاب الدین ابوالفضل احمد بن علی، الاھابۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،3:102
  21. عطار،فریدالدینؒ،تذکرۃ الاولیاء، شمع بک ایجنسی،لاہور،س ن،ص146
  22. مجددی،غلام مصطفیٰ،رسائل مجدد الف ثانیؒ، قادری رضوی کتب خانہ، لاہور،1430ھ/2009ء،ص31
  23. ترمذی،ابوعیسی محمدبن عیسی، السنن ،ابواب البروالصلۃ،باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان، مکتبہ رشیدیہ ،کوئٹہ ،2 :14
  24. تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو: الدارمي،التميمي السمرقندي،أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمن بن الفضل بن بَهرام بن عبد الصمد،مسند الدارمي المعروف بـ سنن دارمی،دارالمغني للنشر والتوزيع،السعودية،الطبعة الأولى، 1412 هـ - 2000 م،مبحث الادب
  25. https://www.facebook.com/Shaheenplus/posts/1929993930416827?
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...