Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Basirah > Volume 7 Issue 1 of Al-Basirah

اسلامی ریاست میں قیادت کے راہنما اصول اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
Al-Basirah
Al-Basirah

دنیا میں موجود مسلم ریاستوں کے اندراضطرابی کیفیت پائی جاتی ہےکیونکہ ان میں رعایا کےحقوق کوتحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ اس کی وجوہات اورکمزوریاں کیاہیں؟ اوروہ کون کون سےاصول ہیں ؟ جن کا پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا،جس کی وجہ سےان ریاستوں کوہمہ جہت سماجی وتہذیبی اوراخلاقی وسیاسی چیلنجز درپیش ہیں، جس کی جہ سےرعایا اضطرابی کیفیت سے دوچارہے۔

 

چونکہ اسلامی ریاست مسلمانوں کے تحفظ کا ذریعہ ہے، اس لیےاس کاقیام ایک ناگزیر عمل ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں امت مسلمہ پر جو اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ان کو پورا کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے تاکہ امت کی اخلاقی اور تہذیبی اقدار کی حفاظت ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے اسلامی ریاست میں احتساب کے ادارے کا قیام لازمی ہے۔امت اور ریاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور ہر ایک اپنے قیام کے لیے دوسرے کی مرہون منت ہے۔ امت کے بغیر ریاست، اور ریاست کے بغیر امت کا تصور بے کار ہے۔ اسی وجہ سے اکثر متکلمین کے نزدیک اسلامی ریاست کا قیام صرف معاشرتی ہی نہیں بلکہ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے۔لہذا اس کی قیام کی ذمہ داری مجموعی طورپر تمام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، جہاں وہ اپنے خالق و مالک کے بتائے ہوئے نظام ِ زندگی کو اجتماعی مفاد ِ عامہ کے لیے بروئے کار لاسکیں ۔اس نظام ِ اجتماع کو قرآن مجیدمیں دین کا نام دیا گیاہے، ارشاد ِ باری تعالی ٰ ہے :

 

﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ﴾ ([1] ( اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

 

اسلام کے علاوہ مسلمانوں کے لیے کوئی اور نظام قابلِ قبول نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کا طرزِ معاشرت ہی جداگانہ ہے۔ جس میں خودساختگی، پیوندکاری کی ا جازت نہیں۔([2] (یہ نظام جامع ہونےکےساتھ ہر طرح سے کامل بھی ہےاورمسلمانوں کی اجتماعیت کی ضامن بھی ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ ([3] (

 

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔

 

سید ابوالاعلی مودودی﷫ لکھتے ہیں:

 

”دین کومکمل کرلینے سے مراد اس کو ایک مستقل نظامِ فکرو عمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدن بنا دینا ہے ،جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصلاً یا تفصیلاً موجود ہواور ہدایت و راہنمائی حاصل کرنے کےلیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے “([4] (

 

ایک ایسا صالح اجتماعی نظام جس میں رعایا کو ہر قسم کے حقوق حاصل ہوں، کا دارومدار ان افرادِ کار کے طرز ِ عمل پر مبنی ہے ، جو اس نظام کو چلاتےہیں ،جس کو اردو زبان میں قیادت کہا جاتاہے اور عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔عربی زبان میں اسےعرفاء کہا جاتاہے جو عریف کی جمع ہے،جن کےبارے میں آپ ﷺ نےفرمایا :

 

« إِنَّ الْعِرَافَةَ حَقٌّ وَلاَ بُدَّ لِلنَّاسِ مِنَ الْعُرَفَاءِ وَلَكِنَّ الْعُرَفَاءَ فِى النَّارِ»([5] (

 

علاقائی نمائندگی حق ہے اور لوگوں کےلیے نمائندے مقرر کرنا لازم ہے لیکن برے نمائندے جہنم میں ہوں گے۔

 

عریف راہنما ، سردار اورقائدکےمعنی میں آتا ہے ([6] (جس کو نقیب بھی کہا جاتاہےاوراس کی جمع نقباء ہے۔ موسی﷤نے بنی اسرائیل کےلیے بارہ نقیب([7] ( مقرر کئےتھے جو اپنے قبیلوں کے نمائندگی اورقیادت کرتے تھے،جوعربی میں قاد يقود سے مصدر کا صیغہ ہے([8] (جس کے معنی سیادت اور تدبیر کے ہیں ، معجم الرائد میں ہے :

 

"قاد يقود: قيادة (قود) الجيش: كان رئيسا عليه يدبر خططه وشؤونه"([9] (

 

کسی لشکر کی قیادت ،اس کی منصوبہ سازی اور معاملات کی تدبیر کرنا ہے۔

 

ریاستی ادارہ کی نظم و ضبط کنٹرول کرنا ایک تنظیم کا متقاضی ہے ،جس کے لیےعربی میں ادارۃاور انگریزی میں administration کا لفظ مستعمل ہےجس کے عمل میں دوام اور تسلسل کا پایا جانا ضروری ہے، حسن بن محمد لکھتے ہیں:

 

" هي عمل متواصل يبداُ بتحديد الهدف وينتهي بتحقيقه. وهي ليست فرداً وإنما هي علاقة مصمم ومنفذين ومنظم ومتعاونين وموجه ومتجاوبين ومرشد ومطيعين"([10])

 

یہ ایک مسلسل عمل ہے جو ہدف کے تعین سے شروع ہوکرمقصد کے حصول پر ختم ہوتا ہے۔ یہ انفرادی نہیں بلکہ یہ ایک ادارہ کے نافذ کرنے والا قابل ِ توجہ ،لائق تعاون ایک منظم کام اورمرشد ومطیع کے درمیان مضبوط تعلق کا نام ہے۔

 

اس عبارت میں مرشد اور مطیع کے تعلق سے نہ صرف قانون اورضابطے کا تصور نکلتا ہے بلکہ اس سے ایک قانون ، اصول اور معروف طریقہ کار بھی ملتاہے ، جو ریاست کے نظم وضبط کے لیے ضروری ہے ،جیسا کہ کہتے ہیں:

 

"نظم الأمر: رتبه وجعله خاضعا لقانون أو قاعدة" ([11])

 

اس نےکام کو منظم کیا اور قانون و قاعدےکاپابند بنایا۔

 

نظم وضبط کے تصور کو اجاگر کرنے کے لیےقرآن مجید میں نظام، ملک،خلیفہ ، شرعۃاور ائمہ وغیرہ کے الفاظ ملتے ہیں ،جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلامی ریاست ایک ادارہ ہے ،جس کا ایک عقیدہ ، نصب العین،پروگرام، کچھ راہنما اصول اوراخلاقیات کا ایک جامع نظام ہے۔ جس میں حاکم اوررعایا کاباہم ایک سوچ اورفکرو عمل کے تحت متحد ہونااورانتظامی سرپرستی اورنگہداشت کےلیے آپس میں تعاون کرنا نہایت ضرورت ہے۔ا س کے ساتھ ساتھ حکومت کےتمام اداروں اور افراد کا اولی الامرکےساتھ باہم مربوط ومتعاون ہونا اس کی کامیابی کے لیے از بس ضروری ہے،لیکن ان سب کا دارو مدارقیادت کےفعالیت پر مبنی ہےتا کہ قوم کو مشکل اور آڑےوقت میں گرداب سے نکالا جاسکے۔ارشد احمد بیگ کہتے ہیں:

 

”قیادت کا اصل مفہوم ایسی صلاحیت ہے جس سے دوسروں پر اثرانداز ہوا جاسکے،اور جس سے افرادِکار میں تحریک ،فعالیت اور جزبہ عمل پیدا کیا جائے،اور اس کے نتیجے میں مطلوبہ معیارکےمطابق طے اہداف کا حصول ممکن ہوسکے“ ([12])

 

مقالہ ہٰذا میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وہ راہنما خطوطِ کارفراہم کرنےکی کوشش کی گئی ہے جو ایک قائد کےلیےاپنی ذمہ داریوں سے بطریق ِ احسن عہدہ براں ہونےکےلیےمدّ ِنظررکھنا ضروری ہے، تاکہ ملک و ملت کو صحیح خطوط پرگامزن کیاجاسکے ۔

 

اصول نمبر ۱ : نصب العین کی پاسدار ی

اسلامی ریاست کا واضح نصب العین عقیدہ توحید ہے،جواپنے تین بنیادی اجزاء:توحید فی الذات ، توحید فی الصفات اور توحید فی الالوہیت کے لحاظ سے ازلی وابدی ہے۔جس طرح وہ اپنی ذات اور صفات میں یکتا اور لا مثال ہے ، اسی طرح اپنی الوہیت اور معبودیت میں بھی یکتا ہے۔وہ حاکم اورہم اس کے بندےاورغلام ہیں ۔ اس کے احکام کی غیر مشروط اطاعت کرنا عبادت ہے([13])۔اس عقیدے کے لحاظ سے قیادت کے لیے لازم ہے کہ وہ اسلام کے تمام احکامات کا نہ صرف پابندہو بلکہ اس کی ترویج کے لیے ہمہ جہت اپنے منصب کو بروئے کار لاکر زمین پر اپنے خلیفہ اور نائب([14]) ہونے کے تقاضےپورا کرے۔ حاکمیت الٰہی کےقیام کو اپنا نصب العین بناکراس کےلیے سرتوڑ جدوجہد کرے۔یہ ایک اصولی ریاست قرار پائے گی،جس کی بنیاد عقیدہ توحید پرہے ۔ جس کے بارے میں سید مودودی﷫ لکھتے ہیں:

 

”ایسی (اصولی)ریاست کو صرف وہ لوگ چلاسکتے ہیں جو اس کے دستور پر ایمان رکھتے ہوں، جنہوں نے اس کے مقصد کو اپنی زندگی کا مقصدبنایا ہو، جو اس کے اصلاحی پروگرام سے نہ صرف پوری طرح متفق ہوں، نہ صرف اس میں کامل عقیدہ رکھتے ہوں بلکہ اس کی اسپرٹ کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہوں اور اس کی تفصیلات سے بھی واقف ہوں“ ([15] (

 

ریاست کے افراد کومتحد رکھنے کےلیےاس عقیدے کے تحت جدو جہد کا فائدہ یہ ہوگا کہ تمام قوم اتحاد کی لڑی میں پروتی چلی جائیگی ۔اس طرح قوم کو منظم کرنےکےلیے زیادہ توانائی نہ صرف کرناپڑےگی۔ اس طرح ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾([16]) کے تقاضے بھی پورے ہوجائیں گے۔

 

لیکن یہ اثر اس وقت ظاہر ہوگا جب اسلامی ریاست کی قیادت خوداوررعایا ،اسلامی تعلیمات پرعمل پیراہوں جومسلمانوں کےلیےقوت کا سرچشمہ اور سرمایہ افتخار ہے۔اس طرح اس سے خواہشاتِ نفس کا قلع قمع بھی ہوجائے گا۔ نظام کی بہتری کا اصل قائدہ بھی یہی ہے۔ داود﷤کو اللہ تعالی نے حکم دیا ہے:

 

”اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے ، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہش نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقینا ان کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے“ ([17])

 

دینِ اسلام کی تعلیمات کو مدِ نظر رکھنااور اس کی تذکیر وتعمیل اللہ کی راہ سے نہ بھٹکنے میں انسانوں کےلیےممد و معاون ہیں۔اس کے طے شدہ اخلاق پر کاربند رہنےمیں اجتماعی فلاح و بہبود([18]) کا راز مضمر ہے۔

 

”اسلام خیر خواہی کا دین ہے“یہ جملہ دہراتےدہراتےہم مسلمان تھکتے نہیں لیکن خود قیادت کواس کاعملی

 

نمونہ بنناکس قدر اہم ہے؟ اس کا اندازہ اس آیت سے لگایاجائے،جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہودکو تنبیہ فرمائی تھی:

 

﴿اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ﴾([19])

 

کیاتم دوسروں کو نیکی کا حکم کرتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو کیا تم عقل سے بالکل کام نہیں لیتے ؟

 

اس معمہ کےحل کا تقاضا ہے کہ قیادت اسلام کی تعلیمات کاعملی نمونہ بن جائے تو سوسائٹی سےاس کےنفاذ کا مطالبہ آسان ہوجاتاہے ۔قول و فعل کے تضاد سے بچنے کے لیےاللہ تعالی نے حضرت شعیب﷤ کے طرز ِ عمل کا حوالہ دے کر فرمایا کہ میں اس چیز کی طرف کیسےجھک سکتاہوں جس سے تم کو روک رہاہوں([20]) اورقرآن مجید میں ہم کواس تضاد سے بچنے کا حکم ہے :

 

﴿ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾ ([21]) اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔

 

خود رسول اللہ ﷺ آپ ﷺکےبعدخلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق﷜ نے اس طرزِ عمل کا ثبوت دیا جوایک قائد کے لیے نمونہ عمل ہے۔ آپ﷜ کو جب خلیفہ بنایا گیا تو فرمانےلگے:

 

”تم میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں،لیکن اگر مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد ہو، جس سے اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا پہلو نکلتا ہو تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں “([22])

 

دنیا کی تاریخ میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺکے خلفائے راشدین سے بہتر حکمرانی کسی نے نہیں کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے خلفاء احکامات الہی کے سب سے زیادہ پاسدار تھے، اوریہی رعایا کی خیر خواہی تھی ۔ آپ ﷺنے فرمایا:

 

«الدِّينُ النَّصِيحَةُ (قال ثلاثاً) قَالُوا: لِمَنْ؟ قَالَ:« لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُؤْمِنِينَ وَعَامَّتِهِمْ »([23])

 

دین میں خیر خواہی ہے،یہ بات آپﷺنے تین بار دہرائی صحابہ ﷢نے پوچھا کس کےلئے ؟ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی ٰ کےلئے اس کے کتاب ، اس کے رسول، مسلمانوں کے لیڈرشپ اور عام رعایا

 

کےلئے یہ خیر خواہی ہے۔

 

جب اسلامی قیادت نے دین کے احکامات کو حرزِ جان بنایا تورعایا نے بھی اس کو اپنانےمیں دیرنہیں کی اور یوں بہترین حکمرانی ممکن ہوئی۔ لہذا قیادت کے لیے بہترین اصول یہ ہے کہ نظام اسلام کوممکن العمل بنانےکی کوششیں کرے۔

 

اصول نمبر۲ : خدا خوفی

دنیا کےلیے حکمرانی کا بہترین اورقابل ِتقلید نمونہ خلافت ِ راشدہ ہے ۔حکمران اوّل حضرت محمد ﷺ ہیں جو ایک برگزیدہ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درویش حکمران بھی ہیں ۔وہ کس قدر اللہ سے ڈرنے والے تھے ؟

 

حضرت عروہ بن زبیر﷜ؓ بیان کرتے ہیں کہ :

 

” خولہ بنت حکیم جو عثمان بن مظعون﷜ کی بیوی تھیں، حضرت عائشہ ﷞ کی پاس پراگندہ حالت میں آئی تو حضرت عائشہ﷞ نے پوچھا : یہ آپ کی کیا حالت ہے ؟ تواس نے جواب دیا میرا شوہرقائم اللیل اور صائم النہار آدمی ہے ۔اس کے بعد نبیﷺ حضرت عائشہ ﷞ کے پاس آئے تو آپﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔پھرآپﷺابن مظعون﷜سے ملے اور فرمایا :

 

« إِنَّ الرَّهْبَانِيَّةَ لَمْ تُكْتَبْ عَلَيْنَا ، أَفَمَا لَكَ فِيَّ أُسْوَةٌ، فَوَ اللَّهِ إِنِّي أَخْشَاكُمْ لِلَّهِ، وَأَحْفَظُكُمْ لِحُدُودِهِ»([24])

 

”ابن مظعون ! ہمارے اوپر رہبانیت فرض نہیں ہے ۔کیا آپ کے لیے میری اسوہ کافی نہیں ہے ؟قسم بخدا میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہوں اور اللہ کے حدود کا زیادہ محافظ ہوں “

 

رسول اللہﷺکے بعدخلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق ﷜نے ریاست کی ذمہ داری سنبھالی اور قیادت وحکمرانی کی اس طرزکو اپنایا، جو رسول اللہﷺنے اختیار کیا تھا۔ خداخوفی کی یہ حالت تھی کہ ریاست کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ گھریلو مصارف اٹھانے کے لیےاپنے تجارتی پیشے کو بھی چلا تےرہے تاکہ ریاست پر اضافی بوجھ نہ پڑے جو ان کے پاس مسلمانوں کی امانت تھی ،لیکن دیگر صحابہ کرام کے اصرار پر اس کام کو ترک کیا اور ہمہ جہت ریاستی امور کو توجہ دی اور حد سےبڑھ کر رعایا کی خدمت سرانجام دی۔

 

اس کے بعد خلیفہ دوم کا زمانہ آیا،جن کی خلافت دنیا کے لیے مثالی نمونہ ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک نے اس ماڈل کے بیشتر پروگرام اورنظام کو اپنایا بھی ہے ۔اسلام کے احکامات پر عمل اورمخلوق کی خدمت میں آپ﷜ کی خداخوفی کی حالت یہ تھی کہ راتوں کو رعایا کی خیر گیری کے لیے گشت فرمایاکرتے تھے ۔فرماتےکہ اگر دجلہ کے دور دراز علاقے میں بھی کسی خچر کو راہ چلتے ٹھوکر لگ گئی تو مجھے ڈرلگتا ہے کہ کہیں اللہ تعالی مجھ سے یہ سوال نہ کرے، اے عمر ﷜ تو نے وہ راستہ درست کیوں نہیں کیا ؟ اوراگر فرات کے کنارےبھیڑ کا کوئی بچہ گھم ہوکر ہلاک ہوجائے تو عمر﷜ کو خدشہ ہے کہ اللہ اس سے پوچھے گا ۔([25])

 

خلیفہ ثالث عثمان غنی ﷜کےخداخوفی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ آپ﷜نے شہادت کو قبول کیا لیکن کسی پر اس خوف سے تلوار نہیں اٹھائی کہ ایسے لوگوں کو میں کیونکر قتل کر سکتا ہوں جنہوں نے مجھے قتل نہیں کیا ہےکہ ایسا کرناان کو بےگناہی میں قتل کرنے کے مترادف ہیں۔رعایاپر حد درجہ مہربان اور ان کے خیرگیر تھے ۔عزیز و اقارب پر جیب سے خرچ کرنےوالے تھے۔

 

اسی طرح خلیفہ رابع حضرت علی ﷜اتنےخداخوف تھے کہ انہوں نے خوارج جیسےشدت پسندوں سےمذاکرات کو تلوار پرترجیح دی۔

 

علاوہ ازیں اسلامی ریاست کےگورنر جہاں جہاں مقرر تھے ، اس فکرکے ساتھ رعایا کی خدمت میں مصروف ِ عمل رہتے تھے کہ کہیں مخلوق کی خدمت میں کوتاہی کے مرتکب نہ ٹھہریں جس کی پاسداری کا عہد وہ ریاست کے ساتھ کر چکے ہیں ۔ اس خدا خوفی کا نتیجہ تھا کہ رعایا مطمئن اور اللہ تعالی ٰ کی مدد بھی شامل ِ حال رہتی ،جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے :

 

﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾)[26](

 

جو شخص اللہ سے ڈرتا ہو وہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لئے وہ کافی ہے ۔

 

اصول نمبر۳ : اصول پسندی

قیادت کی اصول پسندی ریاستی نظم وضبط ، استحکام اورقیادت و رعایا کے مابین بہتر تعلقات کے لیے کےلیے ناگزیر ہے۔اصول پسندی عقیدہ توحید کا لازمی نتیجہ ہے کہ جس نے ہمیں اصولوں کا پابند بنایا ہے۔ اصول کی پاسداری سے ریاست میں رعایا کے اندرہم آہنگی وہم رکابی پیدا ہوتی ہے اورامن وسلامتی میں استحکام بھی رہتا ہے،ارشاد باری تعالی ٰ ہے :

 

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ﴾)[27] (

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔

 

اللہ اور رسول کی اطاعت کے نتیجے میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔اگرقیادت خودپابندِقانون ہےتو آمر و مامور کا تعلق بہتر ہوگااور فرمان برداری کا جذبہ Grass root level تک کارفرما رہے گا،لیکن یہ سب کچھ جذبہ اطاعتِ الہی اور اطاعتِ رسول اللہﷺ میں مضمر ہے،چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

 

«السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى المَرْءِ المُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ»)[28] (

 

ایک مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے خواہ برضا و رغبت ہو یا بکراہت، تاوقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے، پھر جب اس کو معصیت کاحکم دیا جائے تو نہ سمع ہے نہ طاعت۔

 

ایک ایسی ریاست جہاں اللہ کے دین کا دور دورہ ہو،تو ریاست میں آمر اور مامورسب گویا اللہ تعالی ٰ کے دین کےمددگار ہوتے ہیں،جیسا کہ حضرت عیسیٰ﷤ سےفرمایا:

 

﴿قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ﴾)[29] (

 

کون ہےاللہ کی راہ میں میرا مددگار ؟ حواریوں نے جواب دیا ہم اللہ کے مددگار ہیں ۔

 

یہ مدداس معنی میں نہیں کہ گویا یہ لوگ اللہ تعالی ٰ کی کوئی ضرورت پوری کرتے ہیں ، جس کے لیے وہ ان کی مدد کا محتاج ہے، بلکہ یہ اتنا عظیم کام ہےجس میں یہ لوگ حصہ لیتے ہیں جسے اللہ تعالی ٰ اپنی قوت ِ قاہرہ کے ذریعے سے کرنے کےبجائےاپنے انبیاء﷩اور کتابوں کے ذریعہ سے کرنا چاہتاہے ([30] (گویامخلص قیادت اللہ تعالی ٰ کے دین کے معین و مددگارہوتی ہیں ۔ ایسی ہی قیادت اجتماعیت اورنظم وضبط کوبرقرار رکھ کرریاست کو شاہراہِ ترقی پر گامزن کرسکتی ہے۔ایک طرف ان پر اللہ کے رحمت کا سایہ)[31] ( ہوگا اوردوسری طرف پوری قوم اس کے ساتھ دیتی ہے،جہاں امارت کا کوئی جھگڑا نہیں ہو گا ۔ آپ ﷺنےاس ضمن میں فرمایاہے:

 

« أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ »)[32] (

 

اہل قیادت سے امارت واپس نہیں لیا جائے گا۔

 

کیونکہ لالچی ،اصول پامال اورنا اہل قیادت بہادری اورقربانی کے جذبوں سے سرشارقوم کو تباہی کےدھانے پرلا کھڑا کرتی ہے اورانتشار پیدا ہوتا ہے۔ لہذااہداف کا تعین ، اصولوں کی پابندی اور مخلص قیادت آج مسلم ریاستوں کی اہم ضرورت اور عصرِ حاضرکا تقاضاہے ۔

 

اصول نمبر۴ : خودغرضی سے جتناب

اسلامی تعلیمات میں بطورِ خاص قیادت کوخودغرضی سےاجتناب برتنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ اس روش سےوہ ساری کاوشیں بے اثر ہوکر رہ جاتی ہیں جو ریاست اور رعایا کی بہتری کے لیے بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺنے قیادت کےلیے تحائف کا لینا ممنوع قرار دیا ہے جوبالآخر لالچ اورشوت کا دروازہ کھول دیتے ہیں،چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:

 

”کیا حال ہے اس عامل کا جس کو میں مقرر کرتا ہوں پھر وہ کہتا ہے یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ ملا۔ وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا پھر دیکھتے کہ اس کو ہدیہ ملتا یا نہیں“۔

 

«وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَأْتِي أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا بِشَيْءٍ إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ»([33] (

 

قسم بخدا کوئی تم سے ایسا مال نہ لے گا مگر قیامت کے دن اپنے گردن پر لادکر اس کو لائے گا ۔اونٹ ہو گا تو وہ بڑبڑاتا ہو گا ۔ گائےہوگی تو وہ چلاتی ہوگی ۔ بکری ہوگی تو وہ میں میں کرتی ہوگی ، پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ بغلوں کی سفیدی ہم کو نظر آئی ۔ آپ ﷺنے فرمایا : یا اللہ میں نے تیرا حکم پہنچا دیا ۔

 

اس حدیث کی شرح میں امام شافعی ﷫ فرماتے ہیں :

 

”اس حدیث سے واضح ہے کہ عمال حکومت اور دیگر آفسران ِ حکومت اور اہم شخصیات کےلیےہدایا قبول کرنا جائز نہیں ۔حقیقتاً یہ ہدیہ کی صورت میں رشوت ہے۔اور ہدیے عمال پر اس لیےحرام ہیں کہ حکومت کے حقوق، امت کے اموال اورافرادکےحقوق کوان کےفضول خرچیوں سے بچایا جائے ۔تاکہ وہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی کا حق دوسرے کو نہ دیں۔اور یوں ہدیے والےکوخصیم کا مال حوالہ نہ کریں“

 

"ولولا طمع المهديين في الظفر بحق خصومهم أو بحق من حقوق الدولة ما بذلوا تلك الهدايا ولهذا حرمت الرشا والهدايا على أصحاب الحكم والنفوذ"([34](

 

اگر ہدایا دینے والے کواپنے مدِ مقابل کے حق،یا حکومت کےحق میں سے کچھ حقوق کے حصول کا طمع اورلالچ نہ ہوتی تو وہ یہ ہدیے نہ دیتا۔اس وجہ سے اولی الامر اور باثرحضرات کے لیےرشوت اور ہدیے حرام کردیے گئے ہیں ۔

 

لہذااسلامی ریاست کی قیادت حدیث کےمطابق راعی ہیں ،جورعایا کو ان کےحقوق کے تحفظ کےساتھ بیرونی و اندرونی دشمنوں سے حفاظت فراہم کرتےہیں۔حدیث سے بصراحت ثابت ہے کہ مسلمان عوام کے حقوق کاتحفظ اسلامی ریاست کی مخلص قیادت کےبغیر ممکن نہیں ہے، ([35] (جو رعایا کے لیےاللہ کے رحمت کا سایہ اور ڈھال ہے([36] ( لیکن اگر وہ خود غرض اور لالچی بن جائے تو ریاست اور رعایا کا وجوداور تحفظ خطرے میں پڑجاتا ہےاور بیرونی دشمنوں کےریشہ دوانیوں سے تحفظ فراہم نہیں کیاجا سکتا،، جیسا کہ آج اکثر اسلامی ریاستوں کی حالت ہے۔اس لالچ اور خود غرضی کا دروازہ بند کرتے ہوئے آپ ﷺ نے عبد الرحمن بن سمرہ ﷜کو مخاطب کرکےفرمایا:

 

«لاَ تَسْأَلِ الإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُوتِيتَهَامِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَ»)[37] (

 

امارت کو طلب نہ کرو۔اگردرخواست پر تجھے سرداری مل گئی ، تو اسی کےحوالےکردیے جاؤ گے۔ اور اگر وہ بن مانگے دی گئی تو اس سےعہدہ برآ ہونے کےلئے(اللہ کی طرف سے)تیری مدد کی جائے گی ۔

 

چنانچہ امام رازی﷫ لکھتےہیں:

 

”جو شخص سیاسی قائد ہو اور اپنی ذاتی اغراض اور مفاد کےلیے حکومت کرتا ہو تو اس کے نتیجے میں خرابی پیدا ہوگی اور آخر کار یہ حکمران خود بھی تباہ ہوجائے گا ، لیکن جو حکمران اور سیاسی لیڈر شریعت حقہ کا پابند ہو تو مصالح اور بھلائیاں پھیلیں گی اور ریاست کا نظام احسن طریقے سے چلتا رہے گا “)[38] (

 

لہذاخود غرض لوگوں کوقیادت سے دور رکھنا چاہئے تاکہ ریاست کی ناکامی پر ندامت کے آنسوبہانے اورپچھتاوے سے بچ جائیں،جس کی طرف نبی کریمﷺ نے ان الفاظ میں راہنمائی فرمائی ہے :

 

«إنَّكُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَى الإمَارَةِ، وَسَتَكونُ نَدَامَةً يَوْمَ القِيَامَةِ »)[39] (

 

عنقریب تم میں امارت کی حرص پیداہوگی، لیکن وہ قیامت کے دن ندامت کا باعث ہوگی۔

 

عبد الغفارحسن﷫تشریح میں لکھتے ہیں:

 

” انسان منصب کے عہدے پربر اجماں ہوکر خوب مزے لوٹتا ہے ، لیکن جب موت یا معزولی کی وجہ سے یہ منصب چھینا جاتاہے تو پھر ان لذتوں اور مسرتوں کی یاد حسرت و اندوہ کی شکل میں اس کو ستاتی ہے“)[40] (

 

اصول نمبر۵ : عدل ومساوات کی پاسداری

نظم وضبط کوبرقرار رکھنا ہویامعاشرہ میں استقرار و استحکام ،ان سب کا عدل وانصاف اورمساوات سے بڑا گہرا تعلق ہے۔جہاں عدل وانصاف اور مساوات پرتوجہ دی جاتی ہے ،تومعاشرے میں نظم وضبط قائم رہنےمیں آسانی رہتی ہے،جوحکومت کے لیےسب سے بڑا مسئلہ ہے۔اس لیےاسلام میں” عدل واحسان“ )[41] (پر سب سے زیادہ زور دیا گیاہے۔ اس کومعاشرے کا ایک اہم ستون اوراخلاقی وصف قرار دیاہے۔جس سے معاشرہ امن وسلامتی کاگہوارہ بنتا ہے۔اس کےلیےاہل ایمان کو عدل و انصاف سے کام لینے کاحکم ہے ،خواہ جانی دشمن سے معاملہ کیوں نہ ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

” اے ایمان والو ! اللہ کے لیےانصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہوجایاکرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ عدل چھوڑ دو ۔عدل کیاکرو کہ یہ تقویٰ کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو “ )[42] (

 

لہذا قیادت اس سلسلے میں بالکل کوتاہی نہ کرےتاکہ امن و سلامتی کو برقرار رکھا جاسکے۔یہ اس قدر ضروری امر ہے کہ اسلام میں باپ کابدلہ بیٹے سے لینے کی بھی گنجائش نہیں، آپﷺنے فرمایا:

 

«اَلَا لَایُحْنیٰ وَالِد عَلیٰ وَلَدِه»)[43] ( خبردار باپ کابدلہ بیٹے سے نہ لیاجائے ۔

 

عدل وانصاف اور مساوات معاشرےکی اجتماعی ضرورت ہیں۔جواس عظیم خدمت کوسرانجام دیتاہے ، نبی کریمﷺ نےاسےعظیم الشان خوشخبری سنائی ہے :

 

«اِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عَلیٰ مَنَابِرَ مِنْ نُّوْرٍ عَلیٰ یَمِیْنَیْنِ الرَّحْمٰنُ الَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِي حُکْمِهِمْ»)[44](

 

عدل وانصاف کرنے والے لوگ اللہ کے نزدیک دائیں جانب نور کے مسندوں پر بیٹھے ہونگے ( کیونکہ) وہ فیصلوں میں انصاف سے کام لیاکرتے تھے ۔

 

قیادت کے دائرہ کارکو بیان کرتے ہوئےامام ابن حجر ﷫لکھتے ہیں :

 

”اما م عادل سے مراد وہ ذمہ دارانِ حکومت اور سربراہان ریاست ہیں جن کومسلمانوں کےمصالح اور بہبود کے کام سپردکئے گئے ہوں ۔ امام عادل کا جو رتبہ ہے اس آدمی کو بھی ملے گا جو مسلمانوں کے کسی کام کا ذمہ دار بنایا گیا ہو اور عدل و انصاف کے ساتھ کام کرتا ہو“)[45] (

 

انصاف کرنے والوں سے اللہ تعالی نےاپنی محبت کا اظہار اس لیےفرمایا ہے کہ ان کی اس عمل سےنہ صرف مخلوق خداکے حقوق کی پاسداری ہوتی ہےبلکہ نظم و ضبط کا قیام بھی عمل میں آتا ہے۔لہذا ایسی ریاست کاقیام اسلام کی نظر میں ایک جہادِعظیم ہے۔اس کی خاطرتمام اداروں کو اپنی قابلیتیں ، صبرازما کوششیں اورغورو فکرکی تمام صلاحیتیں بروئےکارلانی چاہئے تاکہ انسانوں کو ان کے حقوق دلائے جا سکے۔ عدل وانصاف اور مساوات اس قدر اہم معاشرتی عمل ہے کہ اس کی تاکیدبائبل میں بھی آئی ہے:

 

”خداوند تمہارے خداکے تمہیں دیے ہوئے ہرشہر میں اپنے ہرقبیلے کے لئے قاضی اور حاکم مقرر کرلوجوسچائی سے لوگوں کاانصاف کریں ۔تم انصاف کاخون نہ کرنااور غیرجانبدار رہنا،تم رشوت نہ لیناکیونکہ رشوت دانشمند کی آنکھوں کواندھا کردیتی ہے اور راست بازوں کی باتوں کوتوڑ مروڑ ڈالتی ہے۔ہمیشہ ہمیشہ انصاف پر قائم رہناتاکہ تم جیتے رہو“ )[46] (

 

ایک دوسری جگہ ذکر ہے:

 

”تم خداکاکلام سنو!خداوند فرماتاہے کہ انصاف اور راست بازی کے کام کرو،مظلوم کو اس پر ظلم کرنے والے کے ہاتھ سے چھڑاو،بیگانہ ، یتیم اور بیوہ کے ساتھ براسلوک نہ کرو“ )[47] (

 

رہبر ِ انسانیت محمدِمصطفیٰ ﷺ نےاس وقت مساوات کادرس دیا ،جس وقت انسانیت لفظ مساوات سے ناآشنا ہوچکی تھی ،چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا :

 

”سوائے تقویٰ کےکسی عربی کوعجمی پر اور کسی گورےکوکالے پر اور کسی کالے کوگورے پر کوئی فضیلت نہیں“)[48] (

 

اسلام نے مصنوعی امتیازات کومٹایااور فطری وعملی مساوات کونافذ کیا اوراس کا حصول بھی ممکن بنایا۔ ایسے نہیں جن کے لیے انسانوں کی آزادی سلب کر لی جائے ۔اس لیے تمام الہامی مذاہب میں اس کےقیام پر زور دیا گیا ہے ۔

 

انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدل ومساوات کی عملی صورت اس وقت ظاہر ہوئی ،جس وقت آقائے دوجہاں ﷺنے امیروفقیر ، غلام وآقا کے درمیان سارے امتیاز ات کو مٹایا ۔جس کی ترجمانی اقبال نے ان الفاط میں کی ہے:

 

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایازنہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

 

بندہ وصاحب و محتاج وغنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے)[49] (

 

اسلام نے اس قدر مساوات کا اہتمام کیا کہ غلاموں کا درجہ بلند کرکے ان کے حقوق کوریاست کے ہر فرد بشمول خلیفہ کے برابر کردیا۔اس قانونی مساوات کی تاکید آقائے دوجہاں ﷺنے ان الفاظ میں فرمائی ہے:

 

«مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ وَمَنْ اَخْصیٰ عَبْدَهُ اَخْصَیْنَاهُ»)[50](

 

جو اپنے غلام کوقتل کرے گااسے ہم قتل کریں گے،جو اس کی ناک تراشے گا اس کی ناک تراش لی جائی گی اور جو اس کو خصی کرے گا ، ہم اسے خصی کریں گے۔

 

اسلامی شریعت کی نظر میں تمام لوگ برابر اورمساوی ہیں اور سب کے ساتھ برابری کےسلوک کاحکم ہے،کیونکہ اس کونظراندازکرنےسےظلم کی راہیں کھلتی ہیں،جواسلام بند کرنا چاہتاہے ۔خود نبی کریم ﷺ کااسوہ ٔحسنہ ہمیں یہی بتاتا اورسکھاتاہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے امتیں اس لیےتباہ ہوئیں کہ وہ کم تر درجہ کے مجرموں کوقانون کے مطابق سزادیتے تھے اور برتر کو چھوڑ دیتے تھے ۔

 

« وَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِه لَوْ اَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَهَا»)[51] (

 

خدا کی قسم ! اگر فاطمہ (بنت محمد ﷺ)بھی چوری کرتی تو میں اس کاہاتھ کاٹتا۔

 

اصول نمبر ۶ : گروہی ، قومی، اورقبائلی عصبیت سےاجتناب

ریاستی قیادت کو عصبیت کی تمام اقسام سے پاک ہونا ضروری ہے، البتہ اسلامی و قومی غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوکیونکہ اسلام وحدت واخوت کو فروغ دیتا ہے اور تفریق کےایسے سلوگن اور نعرے جس سےعصبیت اور رنگ و نسل کی بد بوآتی ہو،کی نفی کرتا ہے۔ اس کو کلمہ خبیثہ اور منتنہ قرار دیتا ہے۔ایک موقعہ پر انصار و مہاجرین کے درمیان ایسی کیفیت پیداہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا:

 

«دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ» وفي رواية «دَعُوهَا فَإِنَّهَا خَبِيثَةٌ»)[52] (

 

یہ بدبودار اور خبیث کلمہ ہے اسےچھوڑو ۔

 

اسلامی ریاست اجتماعیت کا مظہراوراس کی قیادت وحدت کی علامت ہے ۔ان کے لئے عصبیت اور رنگ و نسل کے تفریق کےبتوں کو کسی قیمت پر اپنے معاشرے میں پنپنے نہیں دینا چاہئے ۔اقبال نے خوب کہا ہے :

 

تمیز رنگ و بو برما حرام است کہ ما پروردہ یک نو بہاریم )[53] (

 

دوسری جگہ لکھتے ہیں:

 

بتانِ رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا نہ تورانی رہے باقی ،نہ ایرانی ،نہ افغانی )[54] (

 

بلکہ اسلامی ریاست کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ تعصب کے ان بتوں کو پاش پاش کریں اور اسلامی اخوت کو فروغ دیں ۔مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔اللہ تعالی کا حکم ہے کہ دین اسلام کی رسی کو سب مل کرمضبوطی سےتھام لیں۔)[55] (

 

موجودہ حالات میں اسلامی ریاستیں گروہی ،شخصی ،قبائلی، مسلکی اور رنگ و نسل کی عصبیت اوران جیسی دیگر سرگرمیوں کی قطعاً متحمل نہیں ہوسکتی ۔ اس قسم کی سرگرمیاں ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کردیتی ہیں اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتاہے۔ دینِ اسلام خطرے میں پڑ جاتاہے،چنانچہ آپ ﷺ نےفرمایا:

 

”وہ ہم میں سے نہیں جوعصبیت کی طرف بلائے،عصبیت کےلئے لڑےاور عصبیت کےنظریے پر مرے “ )[56] (

 

اصول نمبر ۷ : امانت و دیانت کا حامل

فریب کاری و بددیانتی سے اجتناب اس لیےضروری ہے کہ یہ صفات نہ صرف ایک فرد کی ساکھ کو متاثر کردیتی ہیں ، بلکہ پوری ریاست اور ملت کو بددیانت اور خائن بنادیتی ہیں۔ خاص کرجب ریاست کا سربراہ اور کلیدی عہدےداربددیانت اور خائن ہو۔اسلامی ریاست کے تمام قیادت کو امانت دیانت کی صفات سے مزین ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالی ٰ نے ریاستی عہدوں اور اہم ذمہ داریاں اہل اور امانت دارافرادکو سپردکرنے کا حکم دیاہے :

 

﴿اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الىٰ اَهْلِهَا ﴾)[57] (

 

بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو ۔

 

عوام الناس میں نظم وضبط کےقیام اور ریاست میں انتظامی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اہلیت کو مد نظر رکھاجائےاور امین افراد ِ کار کو اہم ذمہ داریاں دی جائیں ،تاکہ مفاد عامہ میں بہتر ی لائی جاسکے ۔اقبال نے کہا تھا:

 

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا)[58](

 

امانت و دیانت آج ہماری ریاست کابہت بڑا مسئلہ ہے ۔نااہلی اور بد دیانتی کی وجہ سے نہ صرف افرادی قوت اور سرمایہ کاضیاع ہورہاہے بلکہ ملک و قوم اجتماعی تباہی سے دوچار ہے ۔قیامت کی رسوائی اس کےعلاوہ ہے۔حضرت ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ ” ایک روز رسول اللہ ﷺ ہم کو نصیحت کرنے کےلیے کھڑے ہوئےاورمال ِ غنیمت میں چوری کرنےکوبڑا گناہ قراردیا ، پھر فرمایا :قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ آئے اور اس کی گردن پر ایک اونٹ بڑبڑارہا ہو۔وہ کہے یا رسول اللہﷺ ! میری مدد کیجیے، میں کہوں گامجھے کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن اپنی گردن پر ایک بکری لیے ہوئےہو،جو میں میں کر رہی ہو اور کہے : یا رسول اللہ ﷺ ! میری مددکیجیے، میں کہوں گامجھے کچھ اختیار نہیں ہے۔ میں نے تجھے اللہ تعالی کا حکم پہنچا دیا تھا ۔ میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اپنی گردن پر کوئی جان لیے ہوے ،جوچلاّ رہی ہو ،پھر کہے : یا رسول اللہ ﷺ ! میری مدد کیجیے ۔ میں کہوں گامجھے کوئی اختیار نہیں ہے، میں نے تجھے اللہ کا حکم پہنچا دیا تھا ۔ میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آے اپنی گردن پر کپڑے لیے ہوے،جو اوڑھے ہوں یا چندیاں کا غذ کی جو اڑ رہی ہوں یا اور چیزیں جو ہل رہی ہوں ، پھر کہے : یا رسول اللہﷺ ! میری مدد کیجیے

 

«فَأَقُولُ لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ فَيَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي فَأَقُولُ لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ» )[59](

 

میں کہوں مجھے کوئی اختیار نہیں ہے میں تجھے خبر کر چکا تھا ۔ میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اپنی گردن پر سونا چاندی وغیرہ لیے ہوئے اور کہے :یا رسول اللہﷺ ! میری مدد کیجیے۔میں کہوں گا مجھے کوئی اختیار نہیں ہے۔میں تجھے خبر کرچکا تھا۔

 

رعایا کا حق ضائع کرنا بد دیانتی ہے اوراس قدر خطرناک معاملہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺاس شخص کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جس پر کسی کا قرض ہوتاتھا ، چہ جائےکہ کوئی اجتماعی (ریاست اور عوام کے ساتھ) بددیانتی کامرتکب ہواہوجواس کےلیے جنت سے محرومی کا سبب بنے ۔ چنانچہ رسول اللہﷺنے فرمایا:

 

«مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ، وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ»)[60] (

 

جس بندےکو اللہ حکمرانی دے اوروہ اس میں خیانت کرکے جب مرے گا،اللہ تعالی اس پر جنت حرام کرےگا۔

 

قوم و ملک کو کامیابی سے ہم کنار کرنےکےلیےامین و صادق قیادت ہونی چاہئےکیونکہ یہ صفات انسان کو ہردلعزیزبنادیتی ہیں،جن پر لوگ اعتبار کرتے ہیں ۔یہی ہمارےنبیﷺاورخلفائے راشدین کی زندگی کا اثاثہ تھا ۔ جوآخرت میں سرخروئی کاسبب بھی ہے۔ ان صفات کو شعار بنالینا اس قدر اہم ہےکہ آپﷺ نے فرمایا:

 

«لَا يَغُرَّنَّ صَلَاةُ امْرِئٍ، وَلَا صِيَامُهُ، مَنْ شَاءَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ صَلَّى، وَلَكِنْ لَا دِينَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ»)[61] (

 

کسی کی نماز ،روزہ سے دھوکہ نہ کھاؤ،جو چاہے روزہ رکھیں ،نماز پڑھے ، لیکن اس شخص کا دین ہی نہیں جو امانت دار نہیں۔

 

قیادت امانت ودیانت کی صفات سے متصف ہوتو رعایا سے اس کی وفاداری کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ بین الاقوامی طور پر اسلامی ریاست کےوقار قائم رکھنے کےلیےبھی مفید ہے۔امانت کے وسیع تصور کو سامنے رکھتے ہوئے ہرقسم کے وسائل ہمارے پاس امانت ہیں ۔ قائد کے پاس انسانی، مالی اور مادی تمام وسائل امانت ہیں ۔ اسی طرح اختیارات بھی امانت ہیں۔ چنانچہ قیادت کا اجلا پن اس میں ہے کہ وہ انسانی وسائل کا درست استعمال کرے۔ اپنے پیچھے چلنے والوں کی فکر کرے۔ مالی لحاظ سے سادگی اور میانہ روی کا مظاہرہ کرے۔ مالی معاملات میں شفافیت کو برقرار رکھے اوراسی طرح ذاتی،تنظیمی اور ریاستی حوالے سے مادی وسائل کے استعمال میں فرق ملحوظ رکھے۔ یہ سب اعلی اوصاف اوربہترین قدریں ہیں اور دین میں مطلوب بھی ہیں([62])

 

اصول نمبر ۸ : ملنساری اورشگفتہ مزاجی

ملنساری اور شگفتہ مزاجی اسلامی اخلاقیات اور مومن کی صفات میں سے ہیں ۔تاہم یہ صفات ایک قائد میں اس لیےلازمی ہیں کہ رعایا کو اس سے انس اور محبت ہو اور یوں تعاون و تناصر سےپورا معاشرہ بنیان ِ مرصوص)[63] ( بن جائے ۔آپ ﷺ نے مومن کو شگفتہ مزاج اور محبت و الفت کامحور قرار دیا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا:

 

«الْمُؤْمِنُ مَأْلَفٌ، وَلَا خَيْرَ فِيمَنْ لَا يَأْلَفُ، وَلَا يُؤْلَفُ»)[64] (

 

مومن محبت و الفت کی جگہ ہےاوراس شخص میں کوئی خیر نہیں جو الفت رکھتا ہے اور نہ اس سے کوئی محبت کرتاہے۔

 

نبی کریم نہ صرف ایک رسول تھے بلکہ آپ ﷺ ایک حکمران بھی تھے ۔آپ کس قدر خوش مزاج تھے۔ ایک صحابی عبد اللہ بن حارث ﷜بیان فرماتے ہیں :

 

«مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ »)[65] (

 

میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کوتبسم فرمانے والا نہیں دیکھا۔

 

راست گفتاری، رزق کی پاکیزگی اور خوش خلقی مومن کاعظیم سرمایہ ہے۔چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ چار چیزیں تمہیں میسر ہوں تو دنیا کی کسی چیز سے محرومی تمہارے لئے نقصان دہ نہیں ہے۔۔۔ ان میں سے ایک خوش خلقی ہے )[66] (

 

خوش خلقی اورخندہ پشانی معروفات میں سے ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے صدقہ قرار دیا ہے، فرمایا :

 

« كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ،وَمِنَ الْمَعْرُوفِ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ »)[67] (

 

ہرمعروف صدقہ ہے ،اور اپنی بھائی سے خندہ پیشانی سےملنا بھی ایک صدقہ ہے۔

 

لہذا اسلامی ریاست کے لیڈرشپ کو ایسے صفات سے مزین ہونا چاہیے جو اسے ہر دلعزیز بنا دیں ۔

 

اصول نمبر ۹ : نرمی برتنا ،خیرخواہی چاہنا اور دھوکہ دہی سے پرہیز کرنا

نرم خوئی اورخیرخواہی وہ صفات ہیں جوقیادت اور رعایا دونوں کے مابین اچھے تعلقات استوار کرنےکےلئے ضروری ہیں۔آپ ﷺ نے رعایا پر بےجاسختی سے منع کیا اور ان سےسختی برتنے والوں کےلیےجہنم کی وعید اور نرمی کرنےوالوں کےلیے دعائےخیرفرمائی ہے:

 

«اللهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَاشْقُقْ عَلَيْهِ، وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ، فَارْفُقْ بِهِ»)[68] (

 

اےاللہ جس شخص کومیرے امت کی ذمہ داریوں میں سے کوئی ذمہ داری دےدیں اوروہ ان پر سختی کریں تو بھی ان پر سخت ہوجا اورجوان داریوں میں سے کوئی ذمہ داری لےلیں اور پھر ان سےنرمی کا معاملہ کرلیں تو بھی ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرما لیں۔

 

نرم خوئی سے محرومی کوآپ ﷺ نے خیر سےمحرومی قرار دیا ہے :

 

«مَنْ يُحْرَمِ الرِّفْقَ، يُحْرَمِ الْخَيْرَ» )[69] (

 

جو انسان نرم خوئی سے محروم ہوا وہ خیر سے محروم ہے۔

 

اسی طرح اسلامی ریاست کی قیادت کورعایا کےساتھ خیرخواہی کاجذبہ اور رویہ برتنابھی خیر کا باعث ہوتا ہے۔اس جذبہ سےمحروم قیادت قیامت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہے گی ۔چنانچہ نبی کریم ﷺنےفرمایا:

 

”جو حاکم مسلمانوں کی حکومت کا کوئی منصب سنبھال لیں پھر اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کےلیے جان نہ لڑائے اور خلوص کے ساتھ کام نہ کریں، وہ مسلمانوں کے ساتھ جنت میں قطعاً داخل نہ ہوں گے“ )[70] (

 

ایک اور حدیث میں اپنی رعیت کو دھوکہ دینےوالوں کے بارے میں آپ ﷺنے یہ خبر دی ہے :

 

«مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنَ المُسْلِمِينَ، فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ، إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الجَنَّةَ» )[71] (

 

جو مسلمانوں کا سربراہ بنے، اور اس حال میں مرے کہ وہ ان کو دھوکہ دیتا تھا تو اللہ تعالی اس پر جنت حرام کردیتا ہے۔

 

کوئی بھی قائد اپنے کام میں سرخروہونےکےلیے رعایا کےاعتماد اورتعاون کا محتاج ہوتا ہے۔ان کایہ تعاون ان کے ساتھ نرمی اور خیرخواہی برتنےاوران کے ساتھ دھوکہ دہی سے اجتناب کرنے سے حاصل کیاجاسکتاہے۔ان جیسےاصولوں کا خیال کرنے والی قیادت اپنی قوم کو کامیابی سے ہمکنار اور آخرت میں سرخرو کرسکتی ہے۔

 

اصول نمبر ۱۰ : شوریٰ کی پاسداری

اجتماعی معاملات میں مشاورت اوراسلام کی جمہوری روح کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے ۔چنانچہ ڈاکٹر عباس مدنی﷫ شوریٰ کی اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں:

 

”قائد خواہ کتنا ہی بااختیار ہو،نازک پوزیشن میں مبتلا ہوجاتاہے، بلکہ بڑے بڑےاہل عقل ودانش اپنی عقل و تدبر اور حکمت وتجربے کے باوجود ان مسائل و مشکلات کے آگے سراسیمہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ان مسائل ومشکلات کے بارے میں کوئی موقف اختیار کرنے کے بعد حکمران کو ندامت سے بچانے اور قوم کو بدانجامی سے محفوظ رکھنے کے لیے اسلام میں مشورہ لازم کردیا گیا ہے “ )[72] (

 

شوریٰ کی اس اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا :

 

«إِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ خِيَارَكُمْ، وَأَغْنِيَاؤُكُمْ سُمَحَاءَكُمْ، وَأُمُورُكُمْ شُورَى بَيْنَكُمْ فَظَهْرُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ بَطْنِهَا»)[73] (

 

جب تمہارے امراء اچھے لوگ ہوں ، تمہارے معاشرے کے خوشحال افراد فیاض ہوں،اورتمہارے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہوں ،تو یقیناً تمہارے لیےزمین کی پشت زمین کی گود سے بہتر ہے۔

 

اس حدیث میں تین امور کو مسلم معاشرے کےلیے دنیا و آخرت کی سعادت کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں یہ تینوں اجتماعی امور موجود ہوں تو وہ فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہوگا:

 

۱۔ خداترس قیادت و حکومت۲۔ فیاض اورغریبوں کے ہمدرد اصحابِ دولت

 

۳۔ اورتمام اجتماعی معاملات میں مشاورت و جمہوریت کی روح کا رفرماہو )[74] (

 

اسلام میں شوریٰ کی بڑی اہمیت ہے،اس لیےاللہ تعالی نےنبی ﷺ کواپنے صحابہ کرام﷢ سے مشاورت کا حکم دیاہے۔نیزعمومی انتظامی معاملات مشورے سے طے کرنے کا حکم صادرفرمایا ہے :

 

﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾)[75] (

 

اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔

 

﴿وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ ﴾)[76] (

 

اوران(مسلمانوں) کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے۔

 

حضرات مفسرین لکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو مشورہ لینےکا حکم اس لیے دیاگیا ہے کہ امت کےلیے شورائیت کی سنت قائم ہوجائے اور آئندہ امت آمریت کے راستے پر نہ چلے۔ شوریٰ کے شرعی قاعدے پر سختی کے ساتھ قائم رہے اور آپ ﷺ کی سنت کونمونہ عمل بنائیں۔ آلوسی ﷫لکھتے ہیں:

 

” اللہ تعالی کو معلوم تھا کہ آپ ﷺ کو ان کے مشورے کی حاجت نہیں لیکن اس نے چاہا کہ آنے والوں کےلیے یہ سنت رہے “ )[77] (

 

مولانا گوہر رحمانٰ﷫ لکھتے ہیں :

 

” خلفائے راشدین ،صحابہ اورتبع تابعین کی یہ مستقل پالیسی تھی کہ اجتماعی امور میں ذاتی رائے کی بجائے شوری کی رائے کو ترجیح دیتےتھے۔۔۔ اور خلافت راشدہ کے دور میں امناء اور اہل ِ علم کی مجلس ِ شوری موجود تھی “ )[78] (

 

دینی امور میں حکمران پر اہل ِعلم سےمشورہ لینا واجب ہے۔جنگی امورمیں ماہرین جنگ سے ،عوام کی بہبود کے کاموں میں عوامی نمائندوں سےاور ملکی مصالح یعنی تعمیروترقی کےکاموں میں سیکٹریوں، وزیروں اور ماتحتوں سے مشورہ لینا چاہئیے )[79] (کیونکہ ملک و ملت کی ترقی کا راز اسی میں ہے کہ اجتماعی امور میں مشاورت کا طریقہ اپنایا جائے ۔ تاکہ قوم کی اجتماعی دانش سےفائدہ اٹھاکربعد میں ناکامی کاسبب لیڈر کو قرار نہ دیاجائے۔ سب کو مل کر قوم کومشکل سے نکالنے کےلیے غور و خوض سے کام لینےکا موقعہ دیا جائے۔ جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا:

 

«مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ، وَلَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ»)[80] (

 

جس نے استخارہ کر لیا وہ نامراد نہیں ہوگا اور جس نے مشورہ کرلیا وہ نادم نہیں ہوگا ۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ ہروہ کام جومشورہ سے انجام پاتا ہے اس میں ضرورخیر و بھلائی ہوگی ۔

 

اصول نمبر ۱۱ : عرف عام (رعایا اور ریاست کے مزاج) سے واقفیت

چونکہ ریاستی قیادت ذمہ دار افرادہوتے ہیں اور معاملاتِ ریاست میں دخیل اور اہم فیصلوں کا اختیار ان کے ہاتھ میں ہوتاہے ۔ان کارعایا اور ریاست کے احوال ، عرف اور رسم ورواج سے باخبر ہونا ضروری ہے،تاکہ کسی بھی معاملے میں کوتاہی کے مرتکب ہو کر ریاست و رعایا کا نقصان نہ کریں ۔ قیادت رعایا کےلیے بمنزلہ وکیل ہے۔کامیاب وکیل وہی ہوتا ہے جو کیس کی تمام تر تفصیلات سے واقف ہو۔چنانچہ مشارق الأنوارمیں ہے:

 

"النقیب العریف وهو شاهد القوم و ضمینهم" )[81] (

 

نقیب عریف کو کہتے ہیں جو قوم کے معاملات نگران اور ذمہ دار ہوتا ہے۔

 

مولاناگوہر رحمان ﷫لکھتے ہیں:

 

” جو شخص نہ لوگوں کے رسم ورواج اور عرفِ عام سے واقف ہو ، نہ حالاتِ حاضرہ کا علم رکھتا ہو اور نہ بین الاقوامی امور سے واقف ہو وہ ریاست کے اس اہم ترین قانون ساز اور پالیسی ساز ادارے کے فرائض پورے نہیں کرسکے گا “ )[82] (

 

لہذا اسلامی ریاست کی قیادت کو رعایا کے حالات اورمعاملات سے باخبر رہنےکے ساتھ ساتھ گہری بصیرت کابھی حامل ہوناچاہئیے۔

 

اصول نمبر ۱۲ : ریاست اور رعایا کا اعتماد

مسلمانوں اور اسلامی ریاست کا وقار اس وقت بلند ہوتا ہے،جب ان کی اجتماعیت قائم ہےاوراجتماعی بقا کےلیےریاستی قیادت کواکثریت کا اعتماد بھی حاصل ہو۔ اس سلسلے میں مولانا گوہر رحمان ﷫لکھتے ہیں :

 

” عرفاء اور نقباء وہی ہوسکتے ہیں جو اہلیت کے ساتھ معتمد بھی ہو، جس طرح کوئی شخص صرف اہلیت اور قابلیت کی بناء پر از خود کسی کا وکیل نہیں بن سکتا جب تک کہ موکل نے اس پر اعتماد کرکے اپنا وکیل نہ بنایا ہو۔اسی طرح نقیبِ قوم اور عریف ِ قوم یعنی قومی نمائندہ صرف اپنی ذاتی قابلیت کی وجہ سے رکن شوریٰ نہیں بن سکتا جب تک کہ اسے اپنی علاقے کے لوگوں کا اعتماد حاصل نہ ہوجائے “ )[83] (

 

بہترین قائد اسےقرار دیا گیا ہے، جس سے ریاست کےعوام الفت و محبت رکھتے ہو اور وہ رعایا سے محبت رکھتا ہو۔چنانچہ ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا :

 

«خِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ»)[84] (

 

تمہاری بہترین قائدوہ لوگ ہیں جن سے تم محبت کرواور وہ تم سے ۔ تم ان کےلیےدعائے خیراور وہ تمہارےلیےدعائے خیر کریں ۔

 

ان راہنماؤں کی حیثیت اور شخصیت ایسی ہونی چاہئیے کہ جمہورامت ان کی پیروی کررہی ہو ں اور ان کے ارد گرد جمع ہوسکیں۔ اس سلسلے میں امام شاہ ولی اللہ دہلوی ﷫لکھتے ہیں:

 

”سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگ خلیفہ سے خوش ہوں، اس کے ارد گرد جمع ہوں، اس کی عزت کریں اور یہ کہ وہ حدود کو جاری کرے۔ ملت کا دفاع کرے اور احکام نافذ کرے “)[85] (

 

یہ بات طےشدہ ہےکہ ایک فعال اور پائیداراقتدار اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک زمانے کے ایک معتبر اکثریت اس کا ساتھ نہ دے، جو ہر زمانے میں معتبرسمجھے جاتے ہیں ۔

 

ریاستی قیادت کے انتخاب میں ایسے افراد کو ترجیح دینی چاہئیے جوچاہےزیادہ پرہیز گار نہ ہوں، تاہم قوم کو متحدکرنے اور مصالح ِامت کی اچھی طرح محافظت کرسکتے ہوں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی﷫ لکھتے ہیں :

 

” صحابہ﷢ میں بہت سے ایسے لوگ تھے جو اپنی نیکی، عبادت گزاری اورزہد و جانثاری کے باعث اپنے ساتھیوں میں ممتاز تھے ۔تاہم نہ تو وہ نظم ونسق اور حکومتی معاملات کا طبعی رجحان رکھتےتھے نہ تجربہ ۔لہذا نہ تو انہیں کوئی عہدہ دیا گیا ،نہ کوئی اور سرکاری ذمہ داری۔اس کے برخلاف حضورنبی کریم ﷺنے سرکاری عہدے ایسے لوگوں کودیے جو یقیناً نیکی، دینی علم اور اللہ سے ڈرنے میں حضرت ابوہریرہ، عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن مسعود ﷢ کے ہم پلہ نہیں تھے “ ([86] (

 

اصول نمبر ۱۳ : اجتہادی بصیرت کا حامل ہونا

کسی بھی ریاست کےقائد اور تحریک سےوابستہ افراد میں بیک وقت علم و دانش اور جذبہ صادقہ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔نہ تو محض ِجذبے سے سرشار ہجوم فائدہ مند ہے اور نہ محض ِ مجلسِ ہائے دانش سے ہی انقلاب کشیدہ ہوتے ہیں۔قیادت کو چاہئیے کہ جذبہ ودانش میں خلیج کو پاٹنے کےلیے حکمتِ عملی بنائے۔بصیرت، حکمت،پختہ سوچ، تجزیہ، اصابت رائے، اگر قوتِ عمل میں نہ ڈھلے تو سرگرمیاں ہوں گی، مگر ثمرآور نہ ہوسکیں گی۔ جذبہ تو ہوگا مگر موثر نہ ہوسکے گا۔ تحریک تو ہوگی مگر پیش قدمی نہ ہوگی۔([87]) ان سب کا تعلق اجتہادی بصیرت سے ہے۔

 

علم ودانش کے ساتھ ساتھ جذبہ صادقہ وہ حرکی قوت ہے ،جس سے نبی ﷺ اوران کے ساتھیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔اسلام کو چاردانگ عالم میں پھیلایا اور اصول و ضابطے کی حکمرانی ممکن بنائی۔ یہی انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے۔جس سےانسانیت ناواقف ہوچکی تھی۔اس پاکیزہ تحریک کی قیادت نے مختلف المزاج،خصوصیات اور اصحاب ِ بصیرہ افراد کی ایک عالمی تحریک برپا کی ،جو انسانیت کی نجات)[88] ( کا سبب بن گئی ۔ قیادت پر فائز افراد ریاست، تحریک اور جماعتوں کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔ سوچنے سمجھنے والے افراد اس کا دماغ ہیں۔ دونوں کی ہم آہنگی اجتہادی بصیرت کا مظہر ہے۔

 

اصول نمبر ۱۴ : سادگی اور تواضع

ظاہر وباطن کی پاکیزگی ،تصنع سے اجتناب اور وضع وقطع کی سادگی وہ عوامل ہیں ،جو انسانی اور دیگرمادی وسائل کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں ۔ دنیا کی عظیم شخصیات نے سادہ زندگی گزارکر قیادت کی ذمہ داریاں خوب نبھائی اورزندگی کے پرپیچ راستوں پر سفر کرتے ہوئے، افراط وتفریط کے شکار انسانوں کو پاکیزہ تحریک کا حصہ بنایا۔ جس سےقوم نےکامیاب زندگی گزارنے کاسلیقہ سیکھا۔محمدِ مصطفی ﷺ ایسےہی دور میں تشریف لائے کہ دنیا افراط وتفریط کی شکار ،آقا وغلام ،کالے گورے، شاہ وگدااورعربی و عجمی کے بندھنوں میں گرفتار تھی ۔آپ ﷺ کی تحریک نےان کو مٹاکر جانثار و پاکباز صحابہ کرام﷢ میں تبدیل کیا ۔جن کی سادہ زندگی رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے منارہ نور اور اعلی معیار بن گئی۔صحابہ نےتمام شعبہ ہائے زندگی میں کمال سادگی سے کام لیا۔ رسول اللہﷺ کی سادگی تو ہےہی مثالی ۔ایک دن کسی نےکھانے کی کوئی چیز بھیجی، رکھنے کےلیے کوئی چیز نہ ملی تو فرمایا کہ زمین پر رکھواور ساتھ فرمایا :

 

« فَإِنَّمَا هُوَ عَبْدٌ يَأْكُلُ كَمَا يَأْكُلُ الْعَبْدُ، وَيَشْرَبُ كَمَا يَشْرَبُ الْعَبْدُ» )[89] (

 

میں تو اللہ کاایک غلام(بندہ) ہوں، اوربندؤں کی طرح کھاتا اور پیتا ہوں ۔

 

خلفائے راشدین نےآپﷺکے نقش ِ قدم پر چل کر امت ِ مسلمہ اوراس کےسربراہوں کےلیےسادگی کا اعلی معیارقائم کیا۔ رعایا کی خبر گیری ہو یا ان کی حقوق کی حفاظت و نگہداشت ، بیت المال یا ریاست کی حدود کی حفاظت ،نہایت خلوص ِ دل سے ان ذمہ داریوں کو نبھاکر ان کا حق ادا کیا ۔ ان کے نقش ِ قدم پر چل کرقائدین امت کو سادہ زندگی اپنانا وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ اس وقت خود پسندی اور تصنع نے امت کوتباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔اس بات کی نشاندہی آقائے دوجہاں ﷺ نے ان الفاظ میں کی ہے :

 

«مَنْ تَوَاضَعَ لِلهِ دَرَجَة ،رَفَعَهُ اللهِ دَرَجَة ،حَتى يَجْعَلَهُ فِي عِلِّيينَ، وَمَنْ تَكبرَ عَلَى اللهِ دَرَجَة، وَضعه اللهِ دَرَجَة، حَتَّى يَجعَلَهُ فِي أَسفَلِ السافِلِينَ»)[90] (

 

جس نے اللہ کےلئے ایک درجہ تواضع اختیار کی، اللہ اسے ایک درجہ بلند کرے گا، یہاں تک کہ اسے اعلی ٰ علیین میں پہنچائے گا ۔ اور جس نے ایک درجہ تکبر اختیار کیا ،اللہ اسےایک درجہ ذلیل کرے گا ، تاوقتیکہ اسے اسفل السافلین میں پہنچادے۔

 

حضرت قیس﷜یبان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ﷜جب شام میں اپنے اونٹ پرسوار ہوکرتشریف لائے، تو آپ ﷜کا استقبال کرکےلوگوں نے کہا کہ امیر المومنین اگر آپ ﷜ ترکی گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور اس حال میں سردارانِ قوم اورزعماءآپ ﷜سے ملاقات کریں (تو اچھا ہوگا) ۔آپ ﷜نےسخت سرنزش کرتے ہوئےفرمایا :

 

«لاَ أَرَاكُمُ هَاهُنَا ، إِنَّمَا الأَمْرُ مِنْ هَا هُنَا ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى السَّمَاءِ خَلُّوا سَبِيلَ

 

جَمَلِي»)[91] (

 

میں تم کو یہاں نہ دیکھوں ،آسمان کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا :فیصلے وہاں سے آتے ہیں ، میرے اونٹ کا راستہ چھوڑو۔

 

خلاصہ بحث

آج امت مسائل کےگرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ان مسائل سے خلاصی کےلیےمضبوط انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔یہ انتظامی ڈھانچہ قائم کرنا سیاست دانوں اور وقت کے حکمرانوں کا کام ہے۔ اس وقت تک یہ ممکن نہ ہوگا،جب تک حکمران خود اور اپنا طرز ِ حکومت اسوہ حسنہ اور خلفائے راشدین کے طرزِحکمرانی کے موافق نہ کرلیں۔ اس مقالہ میں اسلامی تعلیمات،اسوہ حسنہ اور خلفائے راشدین کے طرزحکومت سے چند اصول اخذ کیے گئے ہیں ۔یہ اصول آج امتِ مسلمہ کے حکمرانوں کےلیے رہنمائی فراہم کرنے کا ذریعہ ہوسکتے ہیں ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ حکمران ان اصولوں کواپنائیں۔جتنا جلد وہ شرعی طرزِحکومت اپنائیں گے، اتنا جلدامت کے مسائل کم اور وسائل بڑھیں گے۔ آج مسلم ممالک غلط طرزِ حکمرانی کے باعث باہم دست و گریبان ہیں۔غیر مسلم حکمرانوں کی سادگی اور مسلم زعماء کی شاہ خرچیوں کی امثلہ زبان زدعام ہیں۔عوام کو سیاسی اور معاشی مسائل میں الجھا کر حکمران اپنے مسائل پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ اغیار ہمارے نبی کی طرزِ حکمرانی اپنا کر ترقی کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔

 

الغرض ! اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قیادت کےلیےدرج ذیل تجاویز پیش خدمت ہیں :

  1. حاکمیت الٰہی کےقیام کی پاسدار ی کریں ،یہی عقیدہ توحید کا تقاضا ہے ۔
  2. رنگ ونسل اور دیگر امتیاز ات وعصبیتوں کو مٹائے اوررعایامیں اسلامی وحدت واخوت کو فروغ دیا جائے۔
  3. امانت ودیانت کی رَوِش کو فرغ دیاجائے تاکہ استحکامِ ریاست اور نظم وضبط کے قیام میں آسانی ہو۔
  4. عدل و انصاف اور مساوات جیسےمعاشرتی عوامل کومد نظر رکھاجائےاوراس کےعملی نفاذ کی سعی کی جائے۔
  5. خودغرضی اورلالچ سے دور اور عرف عام سے باخبر رہےتاکہ تمام اجتماعی کوششیں بےاثر ہوکر نہ رہ جائیں۔
  6. اطاعت ِشریعت کومدنظر رکھیں تاکہ ریاست میں امن و سلامتی اوراستحکام ہواوررعایا میں نظم وضبط قائم رہے۔
  7. اجتماعی طور پرریاست میں خدا خوفی کا ماحول پیداکیاجائے اوررعایا کی خدمت اخلاص کے ساتھ کی جائے۔
  8. ریاست میں اصول پسندی کو رواج دیاجائے تاکہ رعایا میں ہم آہنگی وہمکاری کو ممکن بنایاجاسکے ۔
  9. ملنساری ، شگفتہ مزاجی ، نرم خوئی اورخیرخواہی ، سادگی اور تواضع جیسی صفات کو فروغ دیاجائے۔
  10. دھوکہ دہی جیسے رذائل ِ اخلاق کی حوصلہ شکنی کی جائے اور رعایا کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی جائے۔
  11. علم ودانش کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ جذبہ صادقہ سے قوم کوسرشارکرنے کی کوشش کی جائے۔

 

حوالہ جات

  1. ()سورۃ اٰل عمران:۱۹
  2. ()﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔(سورۃ اٰل عمران:۸۵ )
  3. ()سورۃ المائدہ: ۳
  4. ()مودودی، سید ابو الاعلی ،تفہیم القرآن، ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور،۲۰۰۰ء، ۱/ ۴۴۳، ۴۴۴
  5. ()ابو داود ، سليمان بن اشعث ،سنن،باب فی العرافۃ،حدیث نمبر:2934، دار الكتاب العربی ، بيروت ،۳/ ۹۲ شیخ البانی نے اس حدیث کو (عن رجل عن أبيہ عن جده)ایک نامعلوم راوی کی وجہ سےضعیف قرار دیا ہے(شرح سنن ابی داود،عبدالمحسن العباد، 1/2)
  6. ()فیروز اللغات،فیروز سنز،لاہور، راولپنڈی، کراچی ،ص:۵۱۹
  7. ()سورۃالمائده:۱۲
  8. ()حريری،قاسم بن علی،درة الغواص فی اوہام الخواص،تحقيق : عرفات مطرجی،مؤسسۃ الكتب الثقافيۃ ،۱۹۹۸ء،۱/ ۲۶۷
  9. ()جبران مسعود،معجم الرائد،۱/ ۱۶۸
  10. ()شریف، حسن بن محمد ،ادارۃ عمر الفاروق،ادارۃ المطبوعات،المكۃ المكرمۃ،۱۴۰۱ھ ،ص: ۴۹
  11. () معجم الرائد ،۱/ ۱۴۴۳
  12. () ارشد احمد بیگ ،ماہنامہ ترجمان القرآن،لاہور،نومبر ۲۰۱۴ء،ص:۵۳
  13. () مولانا گوہر رحمان ،علوم القرآن ،مکتبہ تفہیم القرآن،مردان،۲۰۰۳ء،۲/۳۴
  14. () إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (سورۃ البقرہ:۳۰ )
  15. ()مودودی، سید ابو الاعلی،اسلامی ریاست،اسلامک پبلی کیشنز ، لاہور،۲۰۰۳ء، ص : ۱۴۸
  16. () سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو)سورۃ ال عمران :103)
  17. () سورۃ ص:۲۶
  18. () سورۃ اٰل عمران:۱۳۹
  19. () سورۃ البقرہ:۴۴
  20. () سورۃہود: ۸۸
  21. () سورۃالصف:3
  22. () ازدی،معمر بن راشد،الجامع،بَابُ لَا طَاعَۃ فِي مَعْصِيَۃ،تحقیق: حبيب الرحمن اعظمی، المكتب الاسلامی،بيروت،1403ھ، 11/336، ابن ہشام،السيرة النبويۃ،خطبہ ابوبکر،2/661، محمد حسین ہیکل،حضرت سیدنا ابوبکر صدیق، ترجمہ: انجم سلطان شہباز،بک کارنر شوروم، بک سٹریٹ جہلم،ص: ۱۰۰
  23. () احمد بن حنبل،مسند ،تحقیق: شعيب الأرنؤوط،مؤسسۃ الرسالۃ،طبع اول:۲۰۰۱ء ، ۲۸/ ۳۸ ۱
  24. () صنعانی،عبد الرزاق بن همام،مُصَنَّفُ ،تحقق:حبيب الرحمن اعظمی،المكتب الاسلامی،بيروت،طبع دوم، ۷/۸۷
  25. () خَلَّال ،ابو بكر احمد بن محمد ،السنۃ،تحقیق: د عطيہ الزہرانی ، دار الرايۃ ،رياض،طبع اول:۱۹۸۹ء ، ۲/ ۳۱۷
  26. ()سورۃ الطلاق:۲- ۳
  27. () سورۃ النساء:۵۹
  28. () بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،بابُ السمع وَالطاعۃ للامام،حدیث نمبر:۷۱۴۴،ترقيم:محمد فؤاد عبد الباقی، دار الشعب، قاہرہ، طبع اول
  29. ()سورۃ اٰل عمران:۵۲
  30. ()تفہیم القرآن،۵/۴۸۰
  31. ()حميد بن مخلد ابن زنجويہ،الاموال،حدیث نمبر:815،تحقيق :الدكتور شاكر ذيب فياض،مركز الملك فيصل للبحوث والدراسات الاسلاميۃ، السعوديۃ ،1986ء
  32. ()صحیح بخاری،كتابُ بدءالوحی،حدیث نمبر:۷۰۵۶
  33. ()مسند احمد،حدیث نمبر: ۲۳۵۹۸، ۳۹/۷
  34. ()شافعی، امام محمد بن ادريس،مسند ،دار الكتب العلميۃ ،بيروت ،۱۹۵۱ء ،۱/ ۲۴۶
  35. ()مولانا گوہر رحمان، اسلامی سیاست ،ادارہ تفہیم القرآن مردان،۱۹۹۱ء ، ص:۱۲۴
  36. ()الاموال،بَابٌ: فِی وجُوبِ السَّمْعِ وَالطَّاعَۃ عَلَى الرَّعِيَّۃ وَمَا فِي مُنَازَعَتِہمْ، وَالطَّعْنِ عَلَيْہِمْ،حدیث نمبر: 32، ۱/ ۷۷
  37. ()صحیح بخاری،كِتَابُ الأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ،حدیث نمبر:۶۶۲۲
  38. ()رازی،محمد بن عمر ،التفسیر الکبیر، دار احياء التراث العربی، بيروت،۲۶/ ۱۹۹
  39. ()البانی،محمد ناصر الدين ،مُخْتَصَر صَحِيحُ بُخَارِی،باب ما يكره من الحرص على الامارة، مكتَبہ مَعارف ،رياض، ۲۰۰۲ء ، ۴/ ۲۸۵
  40. ()عمر پوری ،عبد الغفارحسن ،انتخاب ِ حدیث ، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور ، ۲۰۰۳ء ،ص:۳۰۷
  41. () سورۃ النحل: ۹۰
  42. ()سورۃ المائدہ :۸
  43. ()دار قطنی،علی بن عمر، السنن ، کتاب البیوع ، مکتبہ قدوسیہ ،لاہور ، ۳/ ۴۵
  44. ()نسائی ، احمد بن شعيب ،سنن ، حدیث نمبر:۵۳۸۱،دار السلام ،ریاض،۱۹۹۹ء
  45. ()ابن حجر عسقلانی،احمد بن علی،فتح الباری شرح صحيح البخاری ، دار المعرفہ ، بيروت ، ۱۳۷۹ھ ،۲/ ۱۴۴
  46. ()استثناء ۱۶ :۱۸-۲۰ ، بائبل ، پاکستان بائبل سوسائٹی ،انار کلی لاہور،2007ء
  47. ()یسعیاہ ؛ ۲۲: ۲-۳
  48. ()مسند احمد ، ۵/۱۴۴
  49. () علامہ محمداقبال ،بانگ ِ درا، شکوہ ،رابعہ بک ہاوس، کریم مارکیٹ، لاہور،ص:۱۴۹
  50. () ترمذی،محمد بن عیسی،سنن، أَبْوَابُ الدِّيَاتِ،بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّجُلِ يَقْتُلُ عَبْدَهُ،حدیث نمبر:۱۴۱۴، تحقيق:احمد محمد شاكر، شركہ مكتبہ ومطبعہ مصطفى البابی الحلبی، مصر،طبع دوم: 1975ء،4/26
  51. ()صحیح مسلم، بَاب قَطْعِ السَّارِقِ الشَّرِيفِ وَغَيْرِهِ وَالنَّهْی عَنْ الشَّفَاعَۃ فِي الْحُدُودِ، حدیث نمبر:3169،دار الجيل ، بيروت
  52. ()صحیح بخاري ،بَابُ مَا يُنْهَى مِنْ دَعْوَةِ الجَاهِلِيَّۃ،حدیث نمبر:۴۹۰۵
  53. () ماہنامہ، ترجمان القرآن ،نومبر ۲۰۱۴،ص: ۷۶
  54. ()بانگ ِ درا،ص: ۲۹۰
  55. ()سورۃ اٰل عمران :۱۰۳
  56. ()بيہقی،احمد بن الحسين،الآداب ، تعلیق: السعيد المندوه، مؤسسۃ الكتب الثقافيۃ، بيروت، طبع اول: ۱۹۸۸ء ، ۱/ ۶۹
  57. ()سورۃ النساء:۵۸
  58. () بانگ ِ درا،ص:۲۹۰
  59. () صحیح مسلم،حدیث نمبر : ۴۸۳۹
  60. ()طيالسى،سليمان بن داود، مسند ، حدیث نمبر:۹۷۱،تحقیق: د.محمد عبد المحسن تركی، دار ہجر،مصر ،طبع اول:۱۹۹۹ء
  61. ()جامع معمر بن راشد، حدیث نمبر: ۲۰۱۹۲، ۱۱/ ۱۵۷
  62. () ماہنامہ ترجمان القرآن ،ارشد احمد بیگ ،نومبر ۲۰۱۴ء،ص:۵۹
  63. ()سورۃ الصف:۴
  64. () مسند احمد،۱۵/ ۱۰۶
  65. ()عبد الله بن مبارك،الزهد والرقائق ،تحقیق: حبيب الرحمن اعظمی، دار الكتب العلميہ، بيروت، ۱/ ۴۷
  66. ()عبد الله بن وہب،الجامع فی الحديث ،تحقیق:د مصطفى حسن، دار ابن الجوزی،رياض،۱۹۹۵ء،۱/ ۶۴۱
  67. () مسند ،احمد،۱۵/ ۱۰۶
  68. ()مسلم بن حجاج،صحیح مسلم ،باب فضیلۃ الامام العادل، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی ،دار احياء التراث العربی بيروت،۳/۱۴۸۵
  69. ()صحیح مسلم،باب فضل الرفق،حدیث نمبر :4694، ۴/ ۲۰۰۳
  70. ()ابو نعيم احمد ، مسند مستخرج على صحيح مسلم،قال محقق:إِسْنَاده حَسَنٌ، دار الكتب العلميہ، بيروت ، ۱۹۹۶ء، ۱/ ۲۰۹
  71. ()صحیح بخاری ، بَابُ منْ استرَعْی رعيَّۃ ،حدیث نمبر: ۷۱۵۱،9/ 80
  72. ()عباس مدنی ،ڈاکٹر،جدید نظریات کی شکست اور اسلامی نظام کی ضرورت ، ادارہ معارف اسلامی ، لاہور،۱۹۹۹ء ، ص:۱۶۱
  73. ()سنن ترمذی ،حدیث نمبر:2266،۴/ ۵۲۹
  74. ()انتخاب ِ حدیث ، ص:۳۳۲
  75. () سورۃ اٰل عمران:۱۵۹
  76. () سورۃ الشورى:۳۸
  77. () آلوسی ، امام محمود ،روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی ، دار احياء التراث العربی، بيروت، ۴/ ۱۰۶
  78. () اسلامی سیاست ،ص: ۲۸۹
  79. () ابو عبد الله، محمد بن احمد بن ابی بكر،تفسیر قرطبی ،دار الاحیاء التراث ، بیروت ۴/ ۲۴۹
  80. ()طبرانی، سليمان بن احمد،المعجم الاوسط،تحقیق: طارق عوض الله وغيره،دار الحرمين،قاہرہ،۶/ ۳۶۵
  81. ()سبتی،عياض بن موسى ،مشارق الانوار على صحاح الآثار ، المكتبۃ العتيقۃ ،دار التراث،۲/ ۲۳
  82. ()اسلامی سیاست ،ص: ۳۰۱
  83. ()اسلامی سیاست ،ص: ۳۰2
  84. ()صحيح مسلم ،باب: خِيَارُ أَئِمَّۃ وشرارہم، حدیث نمبر: ۳۴۴۷
  85. ()شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ، دار احياء العلوم ، بيروت ،لبنان ،۱۹۹۲ء، ۲/۳۹۸
  86. () منتخب مقالات،ص: ۳۴
  87. () ماہنامہ ترجمان القرآن ،مقالہ ارشد احمد بیگ ،نومبر ۲۰۱۴ء،ص:۵۳
  88. ()سورۃ اٰل عمران:۱۰۳
  89. () ابو بكر بن ابو شيبہ،مسند ،حدیث نمبر:۹۶۳، تحقیق: عادل يوسف،دار الوطن، رياض ،طبع اول: ۱۹۹۷ء ، ۲/۴۲۴
  90. ()ابن حجر،احمد بن علی عسقلانی،الامالی المطلقۃ ،تحقیق: حمدی عبد المجيد ،المكتب الاسلامی، بيروت ،طبع اول: ۱۹۹۵ء ، ۱/۸۹
  91. ()السنۃ ، ابو بكر احمد بن محمد الخلال ،تحقیق: عطيہ بن عتيق الزہرانی) دار الرايۃ رياض ،طبع دوم: ۱۹۹۴ء ،۲/ ۳۱۷
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...