Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Basirah > Volume 8 Issue 1 of Al-Basirah

انسانی حقوق کا جدید فلسفہ اسلامی تناظر میں |
Al-Basirah
Al-Basirah

Article Info
Authors

Volume

8

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060032214_399

Pages

41-60

PDF URL

https://www.numl.edu.pk/journals/subjects/157552581303-107-URD-V7-2-18-Transliterated.pdf

Chapter URL

https://numl.edu.pk/journals/subjects/157552581303-107-URD-V7-2-18-Transliterated.pdf

Subjects

God Islam Muslims Human Rights Equality Dignity

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام اور مغرب دونوں انسانی حقوق اور بنيادی آزاديوں کو بہت اہميت ديتے ہيں تاہم انسانی حقوق کے مسئلہ پر ان کازاويہ نظر بنيادی طور پر مختلف ہے۔ اسلامی فکروعمل انسانی حقوق کو انسان کے اللہ تعالیٰ سے تعلق عبديت کے نقطہ نظر سے ديکھتی ہے جبکہ انسانی حقوق کا مغربی تصور لادينی(Secular) ہے جو انسان کے بطور شہری کےرياست سے تعلقات پر مبنی ہے۔ وسيع تناظر ميں دونوں نقطہ ہائے نظر ميں فرق يہ ہے کہ اسلام ميں اقتدار اعلیٰ قانون(Supreme Law) کا درجہ رکھتے ہيں۔ روئے زمين پر انسان اللہ کا نائب ہے۔ اس طرح اسلامی رياست ميں عوام کلی اقتدار کے مالک نہيں بلکہ وہ اجتماعی طورپر اپنے نمائندوں کے ان اختيارات کے ذريعے جن کی حدود کا تعيّن خالقِ کائنات کی طرف سے کيا جاچکا ہے،حکومتی نظم ونسق چلاتے ہيں۔ اہل ايمان قرآن وسنت کو اپنی رياست کا سپريم لاء مانتے ہيں اس کے برعکس مغرب کی سيکولر جمہوری رياستوں ميں عوام کو سرچشمہ اقتدار سمجھا جاتا ہے اور ان کے نمائندوں کے وضع کردہ دساتير کو ملک کا سپريم لاء مانا جاتا ہے۔

 

اس سے قبل کے ہم اس موضوع پر بحث کو آگے بڑھائیں،حقوق کے لغوی اور اصطلا حی معنی کی وضاحت ضروری ہے۔

 

حقوق کے لغوی معانی

 

حقوق عربی میں جمع کا صیغہ ہے جس کا واحد حق ہے جو متعدّد معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلا موافقت، ہم آہنگی،درست، واجب، اور مطابقت، اور ایسا امر جو ثابت ہو چکا ہو۔ دوسرے الفاظ میں” حق“ وہ ہوتا ہےجو کہ فطرت کے عین مطابق ہو، اور جس کا انکار ممکن نہ ہو،امام راغب الاصفہانی(المتوفى:502ھ) نے بھی یہی معنیٰ بیان کیے ہیں۔([1])

 

حقوق کے اصطلاحی معنی

 

اصطلاح میں اس سے مراد وہ ہمہ پہلو واجبات اور ذمہ داریاں ہیں جن کی بجاآوری ہر انسان کے لیے ضروری ہے خواہ ان کا تعلق عقیدہ،نظریہ و ایمان سےہویا دنیاوی معاملات سے ہو۔ ابن منظور افریقی (المتوفی 711ھ) لکھتے ہیں:

 

”ایسا حکم جو حقیقت حال کے مطابق ہو اس کا اطلاق نظریات وتصورات، مذاہب و ادیان پر ہوتا ہے،یہ باطل کی ضد بھی ہے، جس کے معنی درست اور واجب کے ہیں۔“([2])

 

شریعت میں حق وہی امر کہلائے گا،جس کا اسلامی قانون اقرارو اعتراف کرتا ہو۔ ان تعریفات کے تناظر میں آسان الفاظ میں یہ مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حقوق اچھی اور بہتر زندگی کی وہ لازمی شرائط ہیں جن کو افراد معاشرہ طلب کرتے ہیں، اور معاشرہ و ریاست انہیں تسلیم کر لیتے ہیں اور اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر شہری ان سے یکساں طور پر استفادہ کر سکتا ہے۔

 

حقوقِ انسانی کا جامع تصور

 

اسلام حقوق انسانی کے بارے میں ایک جامع تصوّر و نظریے کا حامل ہے۔اسلام حقوق کے ساتھ فرائض کو بھی مضبوط کرتا ہے اور ان دونوں کو لازم ملزوم قرار دیتا ہے۔ گویا ایک کا فرض دوسرے کا حق اور دوسرے کا فرض پہلے کا حق ہے۔ اگر معاشرے میں افراد کو صرف حقوق ہی حاصل ہوں اور ان پر فرائض عائد نہ ہوں تو وہاں امن و سکون قائم نہیں رہ سکے گا اور اگر صرف فرائض بالجبر عائد کیے جائیں اور حقوق کا نام تک نہ لیا جائے تو افراد معاشرہ کی حیثیت محض غلاموں یا مشینوں جیسی ہو جائے گا۔

 

معاشرے کی ترقی، یکجہتی اور سیاست کا انحصار فرائض اور حقوق کے مابین توازن اور تناسب پر ہے۔ افراد کی صلاحتیں صرف حقوق حاصل ہونے سے آشکارہ ہو سکتی ہیں اور ان کی یہی صلاحتیں ان کے فرائض کی بہترین طور پر بجا آوری اور معاشرہ کے عروج کی ضامن بنتی ہیں۔ معاشرہ اور ریاست افراد کے حقوق و فرائض کی بجا آوری اور ادائیگی کروانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ حقوق و فرائض کے بغیر افراد اپنی صلاحیتوں کو ظاہر نہیں کر سکتے اور اس طرح وہ اپنی شخصیت کی تکمیل نہیں کر سکتے جو خود ان کے لیے اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ حقوق و فرائض کے بغیر ایک اچھے اور مثالی معاشرے کے قیام کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور تہذیب و ثقافت کا ارتقاء بھی حقوق و فرائض کے بغیر ناممکن ہے۔

 

مغربی انسانی حقوق کا تصور نامکمل ہے اور اس میں زندگی کے تمام پہلووں کی وضاحت نہیں ہے، لیکن اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے،جو زندگی کے تمام پہلو پرروشنی ڈالتا ہےاور اصول و ضوابط فرہم کرتا ہے۔ اس کی عملی تصویرنبی کریم ﷺ کی سیرت سے ملتی ہے، جس میں تکریم انسان اور انسان کے نفسیاتی رویےاورانسان کی قومی، تہذیبی، معاشی، معاشرتی ضرورتوں کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔اسلام نے حقوق کو اتنا لازم قرار دیا کہ جو شخص اس دنیا وی زندگی میں کسی کا حق نہیں دیتا ، اسے اخروی زندگی میں اس کا بدلہ چکُانا پڑے گا۔ انسانوں کے اندر معاشی مساوات پیدا کرنے کے لیے زکوۃ صدقات خیرات کو لازم قرار دیا تاکہ دولت چند ہاتوں میں مرتکز نہ ہو کے رہ جائے۔([3])

 

اسلامی شریعت اور انسانی حقوق کا جدید تصور

 

انسانی حقوق کا جدید تصور جنگ عظیم دوم کے بعد ترتیب پایا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور کچھ دیگر یورپی ممالک نے اپنے دساتیر میں بنیادی ا نسانی حقوق شامل کئےلیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک میں تحریری دساتیر میں انسانی حقوق کی شمولیت مزید نمایاں ہو ئی۔ 10 دسمبر1948ء کو اقوام متحدہ کا منشور انسانی حقوق جاری ہوا۔ ان حقوق کی وضاحت کی اہم وجہ دو عالمی جنگوں میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع تھا۔اس منشور پر عمل درآمد کی صورت حال کا جائزہ لینے اور نئے حقوق کے تعین کے لیے مستقل کمیشن برائے انسانی حقوق قائم کیا گیا۔ لیکن اس منشور سے قبل بھی دنیا کے کئی خطوں و معاشروں خصوصاَ اسلامی معاشروں میں انسانی حقوق اور ان کے تحفظ کے قوانین اور روایات موجود رہی ہیں جیسے رومی روایات اور اسلامی قوانین بہت اہم ہیں اور بالآخر یہی قوانین مذکورہ منشور کی بنیاد بنے ہیں۔

 

اسلام میں انسانی حقوق ہر انسان کے لیے لازم ہیں اور ان پر عمل بھی واجب ہے ورنہ حق تلفی کرنے والا گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور سزا کا مستوجب بھی ٹھہرتا ہے۔ حقوق انسانی کی پامالی کرنے والا اسلامی سیاسی نظام میں سزا کا مستحق ہو جاتا ہے لیکن معاصر مغربی مفہوم میں انسانی حقوق صرف بلند بانگ نعرے ہیں اورمحض عمومی سفارشات جو کسی پر لازم نہیں، پھر ان کی تطبیق بھی اختیاری ہے اور ان کی خدمات کا بھی سیاست کی بنیاد پر خاتمہ ہو جاتا ہے۔ جب بڑی مغربی ریاستوں کے مفادات کا تقاضا ہو تو انسانی حق تلفی پر چشم پوشی بھی انتہا کو پہنچ جاتی ہے جیسا کہ قید خانوں میں قید یوں کی تعذیب یا قید سے بچنے والو ں کی اجتماعی جلاوطنی یا اہل وطن کی ان کی بستیوں اور شہروں سے ہجرت، جیسا کہ فلسطین اور کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مغربی نظاموں اور صیہونی اور ہندو ریاست کے مابین محض سیاسی مصلحت کی بنیاد پر یہ سب کچھ روا رکھا جاتا ہے ۔

 

حقیقت یہ ہے کہ اسلام طویل صدیاں پہلے انسانی حقوق کو یقینی بنانے اور ان پردست درازی کو حرام قرار دینے اور اس پر مرتب ہونے والی سزاؤں سے متعلقہ تمام اعلانات اور وثیقے،احکامات وقوانین وجود میں لا چکا تھا۔ اگر اسلام اور مغرب کے انسانی حقوق کا مطالعہ کیا جائے تو مشترک حقوق درج ذیل ہیں :

 

1۔زندگی کی حفاظت کا حق

 

اسلام نے انسانی زندگی کومقدس قرار ديا ہے قرآن حکيم نے بے شمار مقامات پر انسانی زندگی کی اہميت اور تقدس بيان کيا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

﴿مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا(0()سورۃالمائدۃ:32 )

 

جو شخص کسی انسان کو ناحق قتل کرے گا (یعنی بغیر اس کےکہ جان کا بدلہ لیا جائے )یا زمین میں فساد پیدا کرنے کی سزا دی جائے،اس نے گویا تمام انسانوں کا قتل کیا، اور جو کسی کی زندگی بچانے کا باعث بنا گویا وہ تمام انسانوں کی زندگی کا باعث بنا۔

 

حضور اکرمﷺ نے بھی اپنے آخری تاريخی خطبہ ميں اس بات کو واضح کرديا کہ اہل ايمان کی جان ومال اور عزت ايک دوسرے کے لیے مقدس ہے :

 

«إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا»(0()قشیری،مسلم بن حجاج،صحیح مسلم،کتاب القسامة والمحاربین والقصاص والدیات،باب تحریم الدماء،حدیث نمبر: 1679،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان،1993ء،2/463)

 

بےشک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن (یوم النحر) تمہارے اس مہینے (ذوالحجہ) اور تمہارے اِس شہر ( ام القریٰ مکہ ) کی حرمت ہے۔

 

اسلام کے نزديک کسی بھی شخص کو قتل کرناانتہائی قبيح ترين جرم ہے اِلّايہ کہ وہ قتل کسی انسانی جان کے بدلے ميں کيا جائے کيونکہ قاتل کو زندگی کی امان دينے کا مطلب معاشرے ميں بدامنی، بغاوت اور اللہ کے قانون سے سرکشی کے رجحانات کو راہ دينا ہے۔

 

اسلامی شریعت نے تمام انسانوں کے لیے لازمی قرار دیا کہ وہ ااپنی جان کو محفوظ بنائیں۔ زندگی و موت کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اللہ تعالیٰ نےانسان کو حالات کا مقابلہ کرنا سکھایا اور زندگی ختم کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی۔قرآن و سنت نے انسان کی حیات کو محفوظ بنانے کے لیے اسے قابل احترام قرار دیا ،اپنے آپ کو یا کسی انسان کے قتل کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔

 

2۔آبرو کی حفاظت کا حق

 

اسلام ميں رنگ، نسل، عقيدہ، مال ودولت،سماجی مرتبہ اور سياسی عزت ووقار سے قطع نظر ہر شخص کو وہ عزت اورمقام حاصل ہے جسے کوئی فرد يا معاشرہ پامال نہيں کرسکتا۔ اسلام نہ صرف حکومت کا فرض قرار دیتا ہے، بلکہ معاشرے کے ہرفرد کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے کہ وہ کوئی ایسا کام سرانجام نہ دے جس سے معاشرے کے کسی بھی فرد کی عزت ووقار مجروح ہو،قرآن مجید میں ارشاد ر ہے:

 

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾(0()سورۃ الحجرات: 11)

 

اے اہل ایمان کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اُڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا تمسخر کریں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں آپس میں ایک دوسرے کے عیب تلاش نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے پکارو، ایمان لانے کے بعد فسق بُرا نام ہے،جو لوگ توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔

 

شخصی عزت ووقار کے تحفظ کو يقينی بنانے کے لیے قرآن حکيم نے کسی پر جھوٹے الزامات اور بہتان تراشی کو بھی جرم اور گناہ قرارديا ہے اور حکم دیا کہ جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور پھر گواہ پیش نہ کر سکیں تو ان کو اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی اک کی گواہی قبول نہ کرو۔(0()دیکھئے:سورۃ النور:4) مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک اگر تہمت لگانے والا شخص توبہ کرلے تو آئندہ اس کی گواہی قبول کی جا سکتی ہے،بصورت دیگر شہادت قابل قبول نہیں۔(0()طبری،محمد بن جریر،جامع البیان فی تاویل القرآن،تحقیق:احمد محمد شاکر،مؤسسۃ الرسالۃ،طبع اول:2000ء،19/102)

 

مذکورہ بالا آيات ميں ان برائيوں کی نشاندہی کی ہے جن کی وجہ سے افراد ِ معاشرہ کی عزت و آبرو متاثر ہوتی ہے، ان برائيوں کے تدارک کے ليے خصوصی اقدامات اٹھا ئے ہيں۔ اسلامی قانون نے رياست کو پابند کيا ہے کہ وہ معاشرے ميں تحفظ عزت وآبرو کے ليے مذکورہ قوانين پرعمل کا اہتمام کرے۔

 

3۔ حفاظتِ مال کا حق

 

اسلام نے تمام حلال ذرائع سے رزق کمانے کا حکم دیا،اس پر انسان کو مالکانہ حقوق بھی دیےتا کہ وہ اسے اپنے تصرف میں لا سکے دوسروں کا مال ناجائز ذرائع سے استعمال کو ممنوع قرار دیا۔

 

حضورِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :

 

«فَإِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا» ([4])

 

بے شک اللہ نے تم پر تمہارے خون و تمارے مال اور تماری عزتیں حرام کر دی ہیں،جس طرح موجودہ دن حرام ہے یہ ماہ اور یہ شہر۔

 

انسان پر جان ومال کی حفاظت لازمی کردی ہے، مال کی حفاظت کرتے ہوئے اگر کسی کی جان چلی جائے تو وہ شہادت کے رتبے پر فائز ہو گا۔

 

 

4۔ حقِ مساوات

 

اسلام نے تمام رنگ و نسل قوم اور وطن کے فرق کو مٹا دیا اور ایک عالمگیر آفاقی مساوات کا درس دیا۔ انسانی وحدت کا درس دیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ تمام انسان بحیثیت انسان برابر ہیں۔ عربی اور عجمی کی تمیز ختم کردی اور عزت کا معیار تقوی کو قرار دیا۔حسب ونسب،رنگ و نسل،قبیلے، ملک ،قوم اور مذہب کی تفریق نہیں، اسلام میں ہر شخص کو معاشی معاشرتی سیاسی برابری ہے۔

 

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :

 

” نہ عرب کو فضیلت ہے عجم پر اورنہ عجم کو عرب پر،نہ سفید کو سیاہ پر اورنہ سیاہ کو سفید پر“۔([5])

 

اسلامی معاشرے میں تمام مسلمانوں اور اقلیتوں کو برابر حقوق حاصل ہیں کوئی بھی انسان اپنی ذاتی جدوجہد سے کوئی بھی عہدہ حاصل کر سکتا ہے، خواہ کسی غریب گھرانے سے تعلق کیوں نہ ہو۔ قانون کی نظر میں تمام انسانوں کو برابر قرار دیتےہوئے آپ ﷺ نے فاطمہ بنت محمد ﷞کو بھی برابر قرار دیا ([6])اور یوں غلام وآقا برابر قرار پائے۔

 

5۔انفرای آزادی کا حق

 

شخصی آزادی کا حق يہ ہے کہ رياست ميں کسی کو بھی بغير قانونی جواز کے نہ ہی تو گرفتار کيا جائےگا اور نہ اس کی شخصی آزادی پر کوئی قدغن لگائی جائے گی۔ کسی بھی فرد معاشرہ کی شخصی آزادی پر کسی قانونی جواز کی بنياد پر باقاعدہ اور شفاف عدالتی اور قانونی کارروائی کے بعد ہی پابندی لگائی جاسکتی ہے۔

 

ابوداؤد کی ايک روايت کے مطابق حضور اکرمﷺ مسجد ميں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ايک شخص اٹھ کھڑا ہوا اور آپﷺ سے سوال کیا کہ يا رسول اللہﷺ ! ميرے ہمسائے کو کيوں گرفتار کياگيا ہے؟ آپ ﷺ خاموش رہے، اس شخص نے دوبارہ سوال کيا تو آپ نے کوئی جواب نہ ديامگر جب اس نے تیسری بار سوال کيا تو حضور اکرمﷺ نے اس شخص کے ہمسائے کو آزاد کرنے کا حکم دے ديا۔سائل کے سوال پر آپ کی خاموشی دراصل مسجد ميں موجود اس حکومتی اہلکار کو اپنی قانونی پوزيشن واضح کرنے کا موقع فراہم کرنا تھی جس نے گرفتار ی کی تھی مگر جب وہ سرکاری اہلکار کچھ بھی نہ بولا تو حضور اکرمﷺ نے بلا جواز گرفتاری کے خاتمے کا حکم دے ديا۔

 

ہر انسان اپنی سوچ میں آزاد ہے، لہذا کسی انسان پر جبر نہیں کیا جاسکتا بشرطیہ کہ اس کی کوئی فعل شریعت اور ملک کے آئین کے مخالف نہ ہو۔سیرت طیبہ سے پتا چلتا ہےکہ ہر انسان کو گھومنے پھرنے کی اجازت دی جائے۔ حکومت کسی مجرم کو جرم ثابت ہونے پر ہی قید کر سکتی ہے کیونکہ آزادی ایک بڑی نعمت ہے۔ حضرت عمر ﷜ نے فرمایا کہ تمام انسانوں کو ان کی ماؤں نے آزاد پیدا کیا ہے، تم کو انہیں غلام بنانے کا اختیار کس نے دے دیا۔([7])

 

6۔مذہبی آزادی کا حق

 

اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر انسان کو معاشرے ميں نظریہ ،عقیدہ اور عبادت کی آزادی ہے۔ ہرشخص کو اپنے شعور اور ضمير کے مطابق مذہبی آزادی کی ضمانت حاصل ہے۔ اسلام کسی بھی فرد پرجبر نہیں کرتا کہ وہ جبرا دین اسلام اختیار کریں، اس لیے کہ قرآن مجید نے واضح کر دیا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔ ([8])

 

قرآن حکيم اس امر کی تشريح کرتا ہے کہ حضوراکرمﷺ کو بنی نوع انسان تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے بھيجا گيا۔ آپ کو بالجبر مسلمان بنانے کے لیے نہيں بھيجا گيا۔ آپ کو بشير اور نذير بنا کر بھيجا گيا کہ انسانيت پیغام ِحق کے ہر پہلو سے آگاہ ہو جائے۔ آپ کے اس منصب کو مختلف مقامات پر بيان کياگياہے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ پر یہ بیان کیا گیا کہ رسولﷺ پر(احکام) پہنچادينے کے سوا (کوئی اور ذمہ داری) نہيں اور اللہ وہ(سب) کچھ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔(0()دیکھئےسورۃالمائدہ:99) دوسرے مقام پر یہ واضح کیا گیا کہ آپ ﷺ کی حیثیت تو داعی کی ہے جو عوام کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔(0()دیکھئےسورۃالاحزاب:46)

 

اسلام نے حجت اور دليل سے ہدايت و گمراہی کا فرق واضح کرديا، مذہب کے معاملات ميں مسلم معاشرے کے اقليتی افراد کو مذہبی آزادی کا حق ديا گیا ہے کہ وہ اسلامی معاشرے ميں رہتے ہوئے دلائل وبراہين کی روشنی ميں قبول اسلام کی راہ اپنائيں يا اپنے مذہب کی پيروی کريں۔ اپنے مذہب اور عقيدہ کے فروغ کے ليے طاقت کے استعمال کی اجازت نہيں دی گئی بلکہ دوسروں کے مذہب اور عقيدہ میں مداخلت کرنے سے بھی منع کياگيا۔

 

7۔آزادئ اظہار رائے

 

اسلام جہاں الوہی اصولوں پر جمہوری معاشرے کے قيام کی تعليم ديتا ہے وہاں وہ ان تمام حقوق وفرائض کا بھی جامع اور واضح انداز سے تعين کرتا ہے جو ايک فلاحی اور جمہوری معاشرے کے قيام کے لیے ضروری ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کے بغير کسی بھی معاشرے ميں جمہوری اقدار اور عدل وانصاف کی روايت تشکيل پذير نہيں ہوسکتی اسی ليے اسلام نے نہ صرف ہر فرد کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی کا حق دیا ہے، بلکہ اہل اسلام کو اپنے اجتماعی معاملات اصول مشاورت پر استوار کرنے کی تعليم بھی دی ہے۔ سورہ شوریٰ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

﴿وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ﴾(0()سورۃالشوری: 38)

 

اور وہ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔

 

رائے کے اظہار کی آزادی ميں حق تقرير حق رائے،اختلاف اور تنقيد کا حق اور جديد الفاظ ميں صحافتی آزادی بھی شامل ہے۔ یعنی شہريوں کے سوچنے، مختلف رائے رکھنے اور اپنی رائے کے برملا اظہار کرنے ميں رياست کبھی مداخلت نہيں کرے گی اسلام نے يہ حق ہر فرد کو عطا کيا ہے۔

 

سيرت نبویﷺ سے ہميں اس امر کی کئی مثاليں ملتی ہيں جہاں حُضور اکرمﷺ نے اپنے صحابہ سے مختلف معاملات پر مشاورت کی۔ غزوہ بدر، اسيران بدر، غزوہ احد، غزوہ اَحزاب اورمُعاہدہ حُديبيہ کے موقع پر حُضور اکرمﷺ نے فيصلہ کرنے کے لیے اپنے صحابہ سے مشورہ کيا ہے۔

 

8۔تعلیم کا حق

 

تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔حکومت کے لیے لازم ہے تمام افراد کے لیے معیاری وعصری ضرورتوں کے مطابق تعلیم و تربیت کا بندبست کرے کیونکہ قوموں کی ترقی کا راز علم حاصل کرنے میں ہے۔ مسلم معاشرے کے لوگوں نے تمام مروجہ علوم حاصل کئے تو دنیا کی سپر پاور بن گئے اور آج مسلمانوں کے زوال کا سبب تعلیمی میدان میں عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم حاصل نہ کرنا ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تمام افراد کی تربیت ریاست پر لازم ہے۔ ا سلام میں تعلیم کی اتنی اہمیت ہے کہ وحی کا پہلا لفظ اقرا سے شروع ہوا، ارشاد ربانی ہے :

 

﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ ([9])

 

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔

 

شریعت اسلامیہ ہر شحص کے لیے تعلیم کو ضروری بلکہ فریضہ قرار دیتی ہے اور ریاست پر لازم ہے کہ تمام افراد کو بلا تفریق مواقع فراہم کرے۔آنحضرت ﷺتعلیم کو اتنا لازم قرار دیتے کہ آپ نے مسجد نبوی میں پہلی اسلامی یونیورسٹی کی ابتداء کی جہاں پر ملکی اور بین الاقوامی طلبہ کو تمام دینی اور دنیاوی علوم سکھائے جاتے تھے اور اسی طریقے پر تمام خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے جب علم کی سرپرستی کی اور تمام متداول علوم سیکھے تو دنیا کی سپر پاور بن گئے،مسلمانوں میں بڑے بڑے سائنسدان پیدا ہوئے جو دین و دنیا کا حسین امتزاج تھے۔

 

9۔عائلی زندگی کا حق

 

اسلام نے بہترین معاشرے کی تشکیل کے لیے ہر شخص کو عائلی زندگی کا حق دیاہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

 

﴿يأیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَ بَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ﴾([10])

 

اےلوگو!اپنے رب سے ڈر و جس ذات نے تم کو ايک نفس سے پیدا کيا اور اسی سے اس کا ايک جوڑا بنا يا، اور ان سے بہت سے مرد اور عورتیں دنيا ميں پیدا کیے۔ ([11])

 

انسانوں کی نسل کو باقی رکھنے اور فروغ دینے کے لیے اللہ تعالی نے دین اسلام کے طریقے کے مطابق عائلی زندگی کی ترغیب دی تا کہ ایک بہترین پاکیزہ معاشرہ تشکیل پا سکے۔ کسی انسان کو بھی عائلی زندگی گزارنے کےحق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔مذہباسلام نےں عورتوں سے حسن سلوک کی بار بار تاکید کی ہے اور مردوں کو گھر کا سربراہ بناکر تمام مالی امور ان کے سپرد کردئے ہیں۔عائلی زندگی مرد وعورت میں اختلافات پیدا ہو جائیں تو طلاق و خُلع کے تحت علحدگی بھی اختیار کر سکتے ہیں۔

 

10۔معاشرتی حقوق

 

اسلام نے ہر شخص کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریاں بتادی ہیں۔قرآن مجید نے ماں باپ سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔([12]) اور حدیث نبوی نے اس کا صلہ جنت بتایا ہے۔([13])رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار پڑوسی، اجنبی ہمسائے، مسافر ساتھی اور نوکروں تک سے احسان کے رویے کی تلقین کی ہے۔([14]) ماں باپ پر اولاد کے حقوق اور اپنے اردگرد رہنے والے تمام عزوں رشتہ داروں ہمسایوں سے اچھا برتاؤ اختیار کرنے کے بارےمیں سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

﴿وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا﴾([15])

 

اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کر ے۔

 

معاشرے میں میاں بیوی خاندان کی بنیاد ہیں ان کی ذمہ داریوں میں توازن رکھتے ہوئے ان کے مساوی حقوق کو بیان کیا گیاہے۔نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم عورتوں کے معاملے پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اس لیے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے عہدوپیمان سے انہیں اپنی زوجیت میں لیا ہے۔([16]) خاتونِ خانہ سے سزا کا سرزد ہو جانا امر بعید نہیں، لہذا اس پر اسے خیر کی تلقین کی جائے۔([17])

 

اسلام نے میاں بیوی رشتہ داروں،یتیموں مسکینوں، کے حقوق متعین فرما دیئے۔اسلام نے بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت والدین کا فرض قرار دیا اور بچوں پر اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کو جنت کےحصول کا ذریعہ بنا دیا۔ اسی طریقے سے رشتہ داروں کے حقوق بھی متعین کر دئیے اس طرح اسلام نے دنیا کا بہترین معاشرتی نظام متعارف کروایا۔

 

معاشرے میں اسلام نے لوگوں کے درمیان محبت ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا کرنے لیے حکم دیا کہ ہر مومن ایک عمارت جیسا ہے، اور حقیقی مومن اس کو قرار دیا جس کا وجود دوسرے انسانوں کے لیے فائدہ مند ہو۔ مسلمان تو ایسا ہوتا ہے کہ ظلم نہیں کرتا، اور مشکل میں بھائی کو اکیلا نہیں چھوڑتا،بدگمانی نہیں کرتا،جھوٹ نہیں بولتا ، حسد نہیں کرتا اور نہ چغلی کھاتا ہے اور دوسروں کے عیب کو چھپاتا ہے اوراپنے نفس پر دوسروں کو ترجیح دیتا ہے۔([18])

 

11۔حق ملکیت

 

اسلام نے سرمایہ دارانہ اور اشتراکیت کے بر خلاف ہر چیز پر اصلی ملکیت کا حق رب ذولجلال کو قرار دیا۔ عوام یا حکومت جس چیز کے مالک ہیں یہ بھی بطور امانت اسے تصرف میں لاسکتے ہیں۔تمام قدرتی اشیاء و معدنیات پر تمام انسانوں کا حق مساوی قرار دیا ہے۔ فرد اپنی محنت کی بنياد پر عام استعمال کی چیزوں کے جس قدر حصّے کو بھی صرف کرے اپنے قبضے ميں لے جس ميں دوسرے کا استحصال نہ ہوا ہو، اس کا وہ مالک ہو جائے گا۔ محنت وقابليت سے حاصل کيا گيا وہ سامان معيشت اس سے چھينا نہيں جاسکتا، جيسا کہ نبی کريمﷺ نے بنجر زمينوں کے بارے ميں ارشاد فرمايا:

 

«مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ» ([19])

 

جس شخص نے کوئی بنجر زمين قابل کاشت بنالی وہی اس کا مالک ہے۔

 

مردہ اور افتادہ زمينوں کے بارے ميں نبی کريمﷺ نے اس قديم اصول کی تجديد فرمائی جس سے دنيا ميں زمين کی ملکيت کا آغاز ہوا ہے۔ انسان کی پيدائش کے وقت يہ اصول تھا کہ جوآدمی جہاں رہ رہا ہے وہ اسی کی ہے اور جس زمين کو اس نے کارآمد بناليا ہے اس کا حقدار بھی وہی زيادہ ہے يہی قانون مالکانہ حقوق کی بنياد ہے۔

 

12۔معاشی حقوق

 

اسلام سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام کے برعکس تمام انسانوں کو ذمہ دار بنا دیتا ہےکہ تمام حلال چیزوں کو خریدوفروخت کرے اور روزی کمانے کے تمام حلال اور جائز ذرائع اختیار کرے،کیونکہ جو چیز حرام ہے تو اس کی خرید وفروخت بھی حرام ہے۔چوری ڈاکہ، غصب،رشوت،رہزنی، وغیرہ حرام ہیں اور ان سے وصول شدہ آمدنی بھی جائز نہیں ہیں۔ اسلام کمائی کرنے کے جائز ذرائع اختیار کرتے ہوئے جتنی بھی دولت اپنے پاس اکٹھی کر لے تو انسان اس پر ملکیت کا اختیار ہو گا۔ اسی طرح اسلا م مال کو ضائع کرنے سے منع فرمایا،دولت کی گردش کے لیے آپ نے زکوۃ اور انفاق فی سبیل للہ کو لازم قرار دیا تا کہ معاشرہ بد امنی کا شکار نہ ہو۔

 

اسلام نے مساوات کا بھی لحاظ رکھا ہے لیکن معاشی مساوات میں اس کا نقطہ نظر دور حاضر میں دیگر نظریات سے مختلف ہے۔اسلام کا نظریہ معاشی مساوات یہ ہے کہ معاشی میدان میں سب کو مساوی مواقع مہیا کیے جائیں اور تقسیم زر میں کوئی امتیاز روا نہ رکھا جائے۔ اجتماعی عدل کا تقا ضا یہ ہے کہ ریاست اور معاشرہ ان افراد کی کفالت کی ذمہ داری لے جن کا کوئی سہارا نہیں یہ ایک اجتماعی حق ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ کا ارشادہے :

 

«وَمَنْ تَرَكَ مَالاً فَلِوَرَثَتِهِ وَأَنَا وَارِثٌ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ أَعْقِلُ لَهُ وَأَرِثُهُ »(0()ابوداود،سلیمان بن اشعث،السنن،كتاب الفرائض،باب في ميراث ذوي الأرحام،حدیث نمبر:2899،دارالفکر، بیروت،1414 ھ، 3/١٤٩)

 

اور جس نے مال چھوڑا وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے، میں اس کا وارث ہوں جس کا کوئی وارث نہیں اس کی جانب سے میں دیت دوں گا، اس کا وارث ہوں گا۔

 

حافظ ابن قیم ﷫نے اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے:

 

”جس نے کوئی وارث نہ چھوڑا ہو حکومت اس شخص کی وارث ہوتی ہے، اس کا قرض ادا کرنے کی بھی ذمہ دار ہے جب کہ وہ کوئی مال چھوڑے بغیر فوت ہوجائےاور اسی طرح اگر اس کی زندگی میں اس کی کفالت کرنے والا نہ ہو تو حکومت اس کی کفالت کی ذمہ دار ہے۔“(0()ابن قیّم الجوزیہ،محمد بن ابی بکر بن ایوب ،زادالمعاد،دار عالم الفوائد للنشر والتوزیع،المکۃ المکرمہ،1428ھ،ص: 45)

 

ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ جس طرح وہ لاوارث کی جائیداد کی مالک بنتی ہے اسی طرح وہ قرض ادا کرنے صورت میں بھی ذمہ دار ہو ۔اگر کوئی شخص بیوی بچے چھوڑ کر مرتا ہے تو ریاست اس کی بھی کفیل ہوگی۔

 

13۔غیرمسلموں کے حقوق

 

اسلامی مملکت میں مسلم اور غیر مسلم شہری کے بنیادی حقوق و فرائض یکساں ہیں۔ مملکت اسلامیہ میں تمام اقلیتوں کے لیے مسلمانوں جیسے حق حاصل ہوتے ہیں ۔ان کے جان و مال ،عزت و آبرو،انفرادی آزادی کا تحفظ حاصل ہو گا، ان کے مال دولت کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات فراہم کیے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ پوری مذہبی آزادی ا ور عباد ت گاہوں کا تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ خلفاء راشدین کے دور میں اقلیتوں کے اپاہج افرادکو بیت المال سے وظیفہ دیا جاتا اور اگر کوئی مسلمان غیر مسلموں سے سخت کلامی سے پیش آتا، تو اسے سزا دی جاتی۔ مسلمانوں کے اس حسن سلوک سے متاثر ہو کر غیر مسلموں نے مسلمانوں کے لے رسد پہنچائی اور لشکر گاہ کا اہتمام کروانے، سڑک اور پل تعمیر کروانے ، جا سوسی اور خبر رسانی کے فرائض بھی سرانجام دئیے۔([20])

 

تعلیمات اسلامی کی روشنی میں بنیادی انسانی حقوق کی خصوصیات

 

اسلامی شریعت و مغرب کے عطاء کردہ بنیادی انسانی حقوق میں ظاہر ا تکریم انسانیت کی تعلیم ملتی ہے۔دونوں میں حقوق جان مال عزت و آبرو انصاف مساوات اخوت وبھائی چارےکی تعلیم دی گئی ہے اور فتنے فساد کو بُرا سمجھا گیا ہے لیکن اسلام کے دئیے گئے حقوق کی خصوصیات ایسی ہیں جو انہیں دوسروں سے منفرد اور ممتاز بناتی ہیں۔سورۃ البقرہ، سورۃ النساء،سورۃ طلاق، سورۃ العصر،سورۃ الانعام، وغیرہ میں معاشرتی احکامات: نکاح وطلاق خلع، حق مہر، وراثت، نان و نفقہ بچوں کی تربیت وغیرہ جیسےاہم نکات بہت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں جن کی مثال دیگر مذاہب میں نہیں ملتی الغرض حیات انسانی کے تمام اجزا ء کی تفصیل سے ہدایات فراہم کردی گئی ہیں ۔ حقوق العباد اتنے ضروری ہیں کہ ان کو حقوق اللہ پر ترجیح حاصل ہے، اگر بندوں کےحقوق پورے نہ کیے جائیں تو اللہ بھی اس شخص سے خوش نہیں ہوتا جو اس کی مخلوق کو فائدہ نہ دے، اور متعلقہ فرد اسے درگزرنہ کرے۔([21])

 

انسانی عظمت و تکریم

 

اسلام میں تصورِ انسان منفرد ہے۔اسلامی تہذیب عظمت و تکریم انسانیت کی علمبردار ہے،یہ وصف دنیا کی کسی دوسری تہذیب میں نہیں پایا جاتا ہے۔ ہندوؤں نے ذات پات کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم کیاہے،عیسائیت میں تو انسان کو پیدائشی طور پر ہی گناہگار قرار دے کر ذلت کا طوق اس کی گردن میں پہنا دیا ہے۔ لیکن اسلام نے عظمت اور تکریم انسان کا تصور دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین تخلیق میں پیدا کیا۔([22]) خالق نے بہترين تخليق ميں پيدا کرنے کے ساتھ اسے دنيا کی تمام مخلوقات پر فضيلت،عزت اور تکريم بھی عطاء کی ہے۔([23])

 

صرف يہی نہيں کہ انسان کو عزت وتکريم بخشی بلکہ تمام تخلیقات عالم کو اس انسان کے لیے ہی پیدا کیا اور اس کی خدمت ميں لگاديا۔(0()سورۃالبقرۃ: 29) اور پھر انسان کو عظیم مقصد اور منصب بھی عطاء کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس دنیا میں اپنا نائب بنا کر بھیجا اور زمین کی خلافت عطا ء کی ہے۔(0()ایضا: 30 )خدا کا نائب ہونے کا تصور دنیا کےکسی اور مذہب یا تہذیب میں نہیں پایا جاتاہے۔اسلام میں انسانی حقوق کے تصور کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کی بنیاد عظمت اور تکریم انسانیّت پہ رکھی گئی ہے۔

 

اسلام کا منفرد تصورِ حرّیت و آزادی

 

اسلام حریت و آزادی کے حوالے سے منفرد وممتاز نظریے کا حامل ہے۔ اس نے انسانوں کو جنگل میں جانوروں کی طرح آزاد بھی نہیں چھوڑااور نہ ہی اتنی پابندیاں عائدکیں کہ وہ مجبورِ محض ہی بن جائے۔ اسلام اس بے لگام آزاد ی کا قائل نہیں جو معاشرے میں افراط و تفریط اور دوسرے انسانوں کے حقوق کے استحصال کا باعث بنے۔اسلام نے بتایا ہے کہ انسان بحیثیت انسان اعلی مقام کا حامل ہےاور تمام مخلوقات پر اسے فضیلت دی گئی ہے، عزت اور تکریم سے نوزا گیا ہے۔(0()سورۃ بنی اسرائیل: 70) لہذا انسانی حریت وآزادی اس کی عزت وعظمت کے ساتھ انسانی اقدار سے مزین ہوتی ہے، اخلاق و کردار اور روحانیت پہ مبنی ان حدود و قیود کی پابند ہوتی ہے جو پاکیزہ انسانی معاشرے کی تشکیل کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ ہر شخص جائز حدود میں قانونِ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فیصلے کرنےمیں آزاد ہے۔کوئی شخص دوسروں پر اپنی پسند وناپسند مسلط نہیں کر سکتا۔اسلام ا عتدال کا درس دیتا ہے،اس نے انسانی حریت میں بھی اعتدال قائم کیا ہے۔

 

عدل وانصاف کا قیام

 

اسلام عدل اجتماعی کے تقاضوں کو بدرجہ اتم پورا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام، رسولوں، اور کتاب و میزان اس لیے بھیجا کہ معاشرے عدل و انصاف قائم ہو (0()دیکھئے:سورۃالحدید: 25) اور یہ حکم دیا گیا کہ اپنی امانتیں،اعتماد، ذمہ داریاں امین افراد کے سپرد کرواور فیصلے عدل و انصاف کے ساتھ کرو۔ (0()سورۃالنساء : ٥٨) یہاں تک کہ اپنے دشمن سے بھی عدل کا حکم دیا گیا۔اہل اسلام کو یہ تعلیم دی گئی کہ کسی قوم کی دشمنی سے مشتعل ہو کر ایسا نہ ہو کہ تم عدل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دو اور زیادتی کر بیٹھو، دشمن کے ساتھ بھی عدل اور انصاف کے ساتھ معاملات کرنے کا حکم دیا ہے۔ (0()سورۃالمائدۃ : ٨)

 

اسلام حکومت و ریاست کو بھی عدل کا پابند بناتا ہے بلکہ اسے تو بدرجہ اوّل پابند ہونا چاہیئے۔ حکم بین الناس کا سب سے زیادہ طاقتور ادارہ وہی ہے اور اگر ریاست عدل نہیں کرے گی تو معاشرے میں عدل کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔ اسلام میں عدل ومساوات کا یہی بنیادی تصور اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ اور ادار ے میں کارفرما ہے۔

 

دین اسلام میں کسی کے لیے کوئی امتیاز نہیں۔قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور بڑے کے لیے الگ حقوق نہیں۔رسول ﷺ نے بحیثیت سربراہ مملکت اور بحیثیت پیغمبر بھی قانون خدا وندی کی اس ہمہ گیری سے مستثنیٰ نہیں کیا۔ قبیلہ بنی مخزوم کی فاطمہ نامی عورت نے جب چوری کی اوراس کی سفارش کی گئی تو فرمایا:

 

”تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ اس لیے تباہ ہوئی ہیں کہ وہ لوگ کمتر درجے کے لوگوں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اور اونچے درجے والوں کو چھوڑ دیتے تھے،قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں محمدﷺ کی جان ہے،اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی پکڑی جاتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا“(0()بخاری،صحیح بخاری، کتاب الحدود،باب القطع السارق الشریف والنّهي عن الشفاعة في الحدود،حدیث نمبر:1688، 2/312)

 

انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عدل و انصاف کا قیام بنیادی حیثیت رکھتا ہے،اس لیےاسلام نے اس کے قیام کو یقینی بنایا ہے۔

 

 

تصور مساوات مردو زن

 

مغربی نظریہِ مطلق مساوات کے تحت ایک فرد کی آزادی سے اگرساری پابندیاں ہٹاتے جائیں تو دوسروں کے کئی حقوق کا استحصال ہو جا تا ہے۔ معاشی آزادی اسی طرح کی ایک الجھن ہے۔ اسلامی تعلیمات نے مرد زن کے الگ دائرہ کار، الگ صلاحیتوں اور جسمانی اور نفسیاتی کیفیات کی بدولت حقوق اور فرائض کی تفصیلات بتائی ہیں۔ جن حوالوں سے دونوں یکساں ہیں وہاں ان کے درمیان مساوات بیان کی گئی ہے(مثلا اعمال کے بدلے اور جزاء کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں) اسی طرح جہاں وہ غیر مساوی ہیں وہاں الگ الگ حقوق و فرائض بیان کیے گئے ہیں (عائلی اور معاشرتی زندگی اس کی مثال ہے)انسان کچھ حوالوں سے برابر ہے۔ جیسے تخلیق، انسانیت، تکریم، وغیرہ، اسی طرح کچھ حوالوں سے غیر مساوی ہے جیسے درجات، اہلیت،قوّت، ساخت، علم، ذمہ داریاں وغيرہ، خود مرد و عورت ہی کی مثال کو لیجئے، قرآن میں ارشاد ہے۔

 

﴿وَلَههُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡهِنَّ دَرَجَةٌ﴾ (0()سورۃالبقرۃ: 228)

 

اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ہیں، معروف طریقے کے ساتھ اور مردوں کے لیے ایک درجہ ہے۔

 

اسلام عورت کے بارے ميں نقطہ نظر کو درست اور صنفی تعلق کو فطری حقائق کی بنياد پر قائم کرتا ہے پھر اس تعلق کے تمام نفسیاتی اور عملی پہلو بيان کرتا ہے، تا کہ نہ تو اضطراب اور عدم استقلال رونما ہو اور نہ مسئلہ کے کسی پہلو ميں کہیں اخفاء باقی رہے۔

 

علامہ سیّد قطب﷫ فرماتے ہیں کہ :

 

”انسان مرد وزن نفس واحد سے پیدا ہوتے ہيں،مگر دو عليحدہ عليحدہ صنفيں ہيں۔اسلام دو صنفوں کو مد نظر رکھ کردونوں کے حقوق مقرر کرتا ہے مگر اسی وقت ان دونوں کے عليحدہ عليحدہ فرائض بھی بتاتا ہے۔۔۔ وہ بے چاری عورت پر يہ بوجھ نہيں لادتا کہ وہ حمل رضا عت وتربيت کی مشقت بھی سہے اور زندہ رہنے کے لیے عمل اور جدوجہد بھی کرے، وہ نہيں چاہتا کہ عورت انسان سازی کا کام چھوڑ کر اشياء کی صناعت ميں مصروف ہو جائے کيونکہ اسلام کی نظر ميں انسان کی قيمت اشياء سے زيادہ ہے۔ “([24])

 

 

 

 

قابل عمل حقوق

 

اسلام نے جو بنیادی حق کے بارے میں بتایا وہ دعوؤں و کاغذی قوانین پر مشتمل نہیں بلکہ انہیں ریاست میں بھی عملی طور پر نافذبھی کیا۔ یہی اس کی خصوصیت ہے کہ اسلام کے دیئے گئے حقوق انسان کی فطرت سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اسی لیے تو قابلِ عمل ہیں۔۔ اس میں قوم وطن رنگ نسل امیر غریب کا فرق کیے بغیر عدل و انصاف معاشی و معاشرتی مساوات عملی شکل میں نظر آتی ہیں،فاطمہ بنت محمد کے لیے بھی وہی قانون تھا جو ریاست کے ہر باشندے کے لیے تھا۔ انسانی مال و جان، عزت و آبروکی حفاظت اور تمام انسانوں کو مکمل مذہبی آزادی اور اظہار رائے کے حق کا تحفط فراہم کیا گیا،تاریخ اس کے قابل عمل ہونے کی گواہ ہے آج بھی مسلمان اس بنیادی انسانی حقوق پر عمل پیرا ہوکر دوبارہ بلند درجے پر فائز ہو سکتے ہیں۔([25])

 

مثالی خاندانی نظام

 

اسلام کے عطا کردہ انسانی حقوق نے منفرد بہترین اور مضبوط خاندانی نظام پر معاشرے کی بنیاد رکھی،تمام لوگوں کی ذمہ داریاں متعین کی، افراط و تفریط کے بجائے اعتدال قائم کیا ،انسان کے فطری تقاضوں کے مطابق مرد کو گھر کا سربراہ و نگہبان مقرر کیا،ہر بالغ مرد عورت کو باہمی رضامندی سے نکاح کے ذریعے عملی زندگی کا حکم دیا،تا کہ آنے والی نسلیں پاکیزہ زندگی گزار سکیں لیکن طلاق کے اختیار کو صرف مرد کے ہاتھ میں دینے کے حکم کو نافذ کیا۔انتہائی مشکل حالات میں جب میاں بیوی کا اکٹھا رہنا مشکل ہو جا ئے تو خواتین کو علیحدگی اختیار کرنے کا بھی قانونی راستہ دیا ۔ خواتین کو تمام گھریلو امور اور بچوں کی پرورش کا ذمہ دار ٹھہرایا او تمام ضرویات کی کفالت مرد کے ذمہ لگا کر مثالی نظام خاندان قائم کیا۔

 

مساوی حقوق

 

اسلام کے تصور حقو ق کا ایک وصف یہ کہ یہ رنگ و نسل،امیر وغریب،وطن و قوم،کا فرق کیے بغیر سب پر لاگو ہوتے ہیں،قانون سب کے لیے برابر قرار دیا،آقاو غلام ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے،مقام کی بلندی کا معیار تقوی قرار دیا ،جس کی وجہ سے بلال حبشی کو بلند مقام ملا، اسلامی ریاست کا سربراہ اور یہودی ایک ہی کٹہرے میں کھڑے ہوئےتو فیصلہ یہودی کے حق میں دیا گیا۔ اسی طرح خلیفہ کے احترام میں کھڑے ہونے پر قاضی کو نااہل قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹا دیا، دور جدید میں مغربی دنیا انسانی حقوق کے تحفظ کی ایسی مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہے۔([26])

 

خواتین کے حقوق کی ضمانت

 

تمام حقوق جو عورت کو عزت و شرف او ر اس کی سعادت سے متعلق ہیں اسلام ان کی ضمانت دیتا ہے۔ اسے بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کسی بھی روپ میں تحسین اور تکریم کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان سے حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے ، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

«خَيْرُكُمْ، خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي»([27])

 

تم ميں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے حق ميں بہتر ہوا اور ميں اپنے گھروالوں کے ليے سب سے بہتر ہوں۔

 

قرآن حکيم ارشاد ہے:

 

﴿وَلَههُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡهِنَّ دَرَجَةٌ﴾ (0()سورۃالبقرۃ: 228)

 

اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ہیں، معروف طریقے کے ساتھ۔

 

قبل از اسلام پوری دنیا میں عورت ظلم کی چکی میں پس رہی تھی پیدا ہوتے ہی درگور ہونے والی عورت کو جینے کا حق دیا۔اس سسکتی بلکتی عورت جس کا کوئی پرساں حال نہیں تھا، اس کو بیٹی ماں،بہن، بیوی ہر روپ میں بلند مقام دیا،تمام برائیوں کی جڑ قرار دی جانے والی عورت کی عفت پاکدامنی کا انتظام کرتے ہوئے اولاد کے لیے بطور ماں جنت اس کے قدموں تلے رکھی اور تعلیم کا حق دے کر آنے والی نسلوں کامستقبل سنوار دیا۔

 

احساس ذمہ داری

 

اسلام نے اجتماعی شعور پیدا کرنے،ایسے بیدار رکھنےاور مؤثر بنانے کے لیے جو اقدامات کیے ان میں بہت اہم فرد کا احساس ہےیہ احساس انسان کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا کر کے اسے ایک کامل انسان بنادیتا ہے۔بے شک ہر شخص نگہبان ہے اور اس کی رعیت کے متعلق اس سےپوچھ گچھ ہو گی،اور کندوں پر ”كِرَامًا كَاتِبِينَ“۔۔بٹھا کر انسان کو اعمال صالحہ کا پابند بنایا روزے میں انسان کھانے پینے سے اللہ کے حکم کے مظابق رکتا ہے، یہی احساسِ زمہ داری ہی تھا کہ حضرت عمر نے فرمایا اگر میری سلطنت میں بکری کا ایک بچہ بھی بھوکا رہ گیا میں اس کا جوابدہ ہوں، یوں انسان کو بےلگام نہیں چھوڑ دیا گیا،بلکہ فرمایا کہ آپ امت وسط ہیں جو اچھے کاموں پر عمل پیراہ ہوتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو۔اور پھر ایسے بھی احساس دلایا گیا کہ تم لوگوں کو وہ کام کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے،یہی اس کا امتیازی پہلو ہے۔

 

 

حقوق کا اخروی پہلو

 

انسان نے اگر اس دنیا میں کسی کو تنگ کیا ظلم و زیادتی کی کسی کا حق مارا تو اس کی سزا اس زندگی میں اور دائمی حیات میں ملے گی،انسان کی آخرت کی حقیقی کامیابی حقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ وابستہ ہے۔ سب سے اچھا انسان وہ ہے کہ اس کے ہاتھ سے دوسر ےمسلمان محفوظ ہوں۔ آخرت میں اچھے اعمال پر جنت اور برے اعمال پر دوذخ کا احساس کی وجہ سے انسان اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتا ہے۔یہی امتیازی وصف ہمیں دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے پر مجبور کرتا ہےکیونکہ قیامت کے دن ہر انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ہوگا۔

 

اسلامی قانون میں حقوق انسانی کو خصوصی قانونی تحفظ

 

اسلام ميں انسانی حقوق اور شہری آزاديوں کو جوشریعت میں واضح طریقے سے متعین کیے گئے ہیں، مقدس اور ناقابل تنسيخ ہيں ان حقوق کو کسی طرح اور چاہيے کوئی بھی حالات ہو ں نہ تو واپس ليا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان ميں کوئی تبديلی ترميم يا تخفیف کی جاسکتی ہے اور نہ ہی انہيں معطل کيا جاسکتا ہے کوئی بادشاہ، سربراہ رياست، حاکم اعلیٰ يا مقننہ ان حقوق کو پامال کرنے کی مجاز نہيں تاہم اسلامی رياستوں کے قانون سازاداروں کو يہ اختيارات حاصل ہيں کہ وہ تبديل شدہ اقتصادی، معاشرتی حالات کے پيش نظر تفويض شدہ حقوق ميں مزيد اضافہ کرسکيں بشرطيکہ اضافہ شدہ حقوق قرآن وسنت کے احکام کے منافی نہ ہوں اسلام کے عطا کردہ حقوق عالمگير نوعيت کے ہيں اوروہ کسی رياست کے شہريوں تک محدود نہيں دنيا بھر کے مسلمان اور غير مسلم شہری بلا امتياز ان سے مستفيد ہوسکتے ہيں۔

 

خلاصہ بحث

 

1۔خالق حقیقی ہی مقصد وجود یا مقصد تخلیق متعین کرتا ہے خالق ومالک جب تخلیق کرتا ہے تو مقصد تخلیق کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی متعین فرماتا ہےیہی ذمہ داری یا فرائض ہیں ایک کے فرائض دوسرے حقوق اور دوسرے کے فرائض سے پہلے کے حقوق قرار پاتے ہیں جن معاشروں میں حقوق اور فرائض کی ادائیگی میں عدم توازن آتا ہے وہاں فتنہ و فساد ایک لازمی نتیجے کے طور پر انسانیت اجتماعیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں، وہاں بنیادی حقوق کا واویلا ہی نہیں مچایاجاتا بلکہ فساد فی الارض کی عملی صورت سامنے آجاتی ہے۔

 

2۔قرآن مجید انسانی حقوق کی بنیاد ہےحدیث اور سنت اس کی قولی اور عملی تصویر ہے اس نے فرد سے جماعت کے حقوق متعین کئے ہیں، خالق کائنات نے تمام کائنات کو انسان کے لیے تخلیق کیا،تمام مخلوقات پر انسان کو فضیلت دی کسی بھی انسان کو اختیار نہیں اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کا حق مارے اور اسے غلام بنائے۔اسلام نے اعتدال و توازن پر مبنی بنیادی انسانی حقوق بغیر کسی مطالبے اور درخواست کے عطاء کیے جبکہ باقی اقوام کو حقوق تحریکیں چلا کر ملے۔

 

3۔اسلام کے دائمی عالمی احکامات کی وجہ سےپوری دنیا جاگ اُٹھی اور ان کے اندر شعور پیدا ہوا جو اس وقت کی ظلم و استبداد کی حکومت ختم کر کے ایک پر سکون اور مکمل طور پر آزاد معاشرے کی تشکیل کی،جہاں گورے کالے کی تمیز ختم کر کے سب کو برابری کی سطح پر حقوق دیےکوئی طاقتور کمزور کے حقوق سلب نہیں کرسکتا تھا۔

 

4۔ریاست مدینہ کا پہلا دستور مثاق مدینہ انسانی تاریخ کاپہلا باقاعدہ تحریری آئین ہےجو تاریخ انسانی کا روشن باب ہے ان اصولوں کی روشنی میں بے مثال اسلامی ریاست قائم کرنے کے ساتھ ساتھ آج بھی پوری دنیا کو امن و سکون اور انسانی فلاح بہبود کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔

 

5۔مغربی تصوّرِمساوات کے تحت جمہور یت نے ایک عورت اور مرد کو ایک میدان میں لا کھڑا کر دیا لیکن اسلامی تعلیمات نے دونوں کے الگ الگ دائرہ کار الگ صلاحتیں جسمانی اور نفسیاتی کفیات کی بدولت حقوق و فرائض متعین کیے۔

 

6۔اسلام میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کو جو قرآن و سنت کی عطاء کردہ ہیں مقدس اور ناقابل تنسیخ ہیں ان حقوق کو کسی طرح اور چاہیےکیسے بھی حالات ہوں نہ تو واپس لیا جاسکتا ہے اور نہ اس میں تبدیلی و ترمیم یا تخفیف کی جا سکتی ہےنہ ہی انہیں معطل کیا جا سکتا ہے ۔کوئی باشاہ سربراہ ریاست حاکم اعلی یا مقنہ ان حقوق کو پامال کرنے کی مجاز نہیں اسلام کے عطا کردہ حقوق عالمگیر نوعیت کے ہیں اور وہ کسی ریاسست کے شہریوں تک محدود نہیں دنیا بھر کے مسلمان اور غیر مسلم شہری بلا امتیاز ان سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

 

الغرض اسلام کے عطاء کردہ انسانی حقوق کے فلسفہ و حکمت کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ حقوق انسانی کے حوالے سے یہی نظام عدل و انصاف وتوازن تناسب کی اس روح کا حامل ہےجو معاشرے کو حقیقی امن اور معاشرتی اطمینان کا گہوارہ بناتے ہوئے ایک فلاحی ریاست کی حقیقی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

 

حوالہ جات

  1. ()اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، مکتبہ مصطفٰی البابی الحلبی، قاہرہ ،1961ء، ص:125
  2. ()ابن منظور افریقی، جمال الدین محمد بن مکرم،لسان العرب، دار الصادر ،بیروت،لبنان، 1956ء، 12/940
  3. ()دیکھئے:سورۃ البقرۃ: 195، 261، 271، 274، سورۃ آل عمران:92،سورۃ الذاريات:19
  4. ()بخاری،محمد بن اسماعيل،صحیح بخاری، کتاب الأدب،باب قوله تعالی لایسخر قوم من قوم،رقم: 5696، دار الحديث، قاہرہ،٢٠٠٤ء، 3/187
  5. ()احمد بن حنبل، المسند، المکتب الاسلامی ،بیروت، 1998ء، 5/411
  6. ()صنعاني، عبد الرزاق بن ہمام بن نافع ،مصنف،المکتب الاسلامی، بیروت، 2001 ء،10 /202
  7. ()ہندی، حسام الدین، کنزالعمال،مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنا ن، 1993ء، 12/661
  8. ()یہ مضمون دیکھنے کے لیے ملاحظہ کریں سورۃالبقرۃ: 256
  9. ()سورۃ العلق: 1
  10. ()سورۃ النساء: 1
  11. () سورۃالنساء: 1
  12. ()دیکھئےسورۃالنساء: 36
  13. ()محمد سلامہ، مسند شہاب،الجنة تحت أقدام الأمهات ،حدیث نمبر:119،تحقیق:حمدی بن عبدالمجیدسلفی،مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، طبع دوم:1986ء،1/102
  14. ()ایضاً
  15. ()سورۃالنساء: 36
  16. ()قشیری،مسلم بن حجاج،صحیح مسلم، حدیث نمبر:1218،دار احیاء التراث العربی، بیروت،2/886
  17. ()مسلم ، صحیح مسلم،حدیث نمبر:1468 ،2/1091
  18. ( )بخاری،صحیح بخاری،کتاب المظالم،باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمه،حدیث نمبر:2442 ، 3/212
  19. ( )ایضا،کتاب المزارعة،باب من أحيا أرضًا مواتًا، حدیث نمبر: 2335، 3/334
  20. ()حسام الدین ہندی، کنزالعمال ،ص: 10/621
  21. ()راغب اصفہانی،المفردات فی غریب القرآن،ص: 111
  22. ()سورۃ التين:1-4
  23. ()سورۃ الاسراء : 70
  24. ()سیّد قطب، ابراہیم حسین الشاذی ،الاسلام و مشکلات الحضارۃ،دارالشروق،قاہرہ،مصر،1986ء،ص:132
  25. ()راغب اصفہانی،المفردات فی غریب القرآن ،ص:111
  26. ()ابن عساکر،ابوالقاسم علی بن حسن الشافعی،تاریخ دمشق،دارالفکر،بیروت،23/24
  27. () تر مذی،محمد بن عیسیٰ ،جامع،کتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب فضل أزواج النبي، حدیث نمبر:3895 ، 5/907
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...