Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Basirah > Volume 8 Issue 1 of Al-Basirah

حدیث افتراق اور اتحاد امت عصر حاضر كے تناظر ميں تجزياتى مطالعہ |
Al-Basirah
Al-Basirah

Article Info
Authors

Volume

8

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060032214_718

Pages

81-96

PDF URL

https://www.numl.edu.pk/journals/subjects/156775301905-05-112-URD-V7-2-18-Formatting.pdf

Chapter URL

https://numl.edu.pk/journals/subjects/156775301905-05-112-URD-V7-2-18-Formatting.pdf

Subjects

Sectarian sect prediction polemics divisions

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اللہ تعالیٰ نے ملتِ اسلامیہ کو خیر الامت کے خطاب سے نوازاہے۔نبى كريمﷺ کی ذات بابرکات ہى کا فیض تھا کہ مسلمان متحد تھے لیکن جیسے بتدريج كبار صحابہ کرام دار فانى سے رخصت ہوتے چلے گئے اور زمانہ ٔ نبوت سے بُعدواقع ہوتا چلا گيا ،ویسے ویسے جديد فتنوں نے سر اٹھانا شروع كرديے اور امت ِ واحدہ جس کی بنیادیں حبل اللہ کے قرآنی اصول پر قائم تھیں وہ آہستہ آہستہ جماعتوں ،گروہوں ، اور فرقوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔ ذخیرہ احادیث میں ایک روایت امت محمدیہﷺ كے اختلاف وانتشار اور فرقہ بندی کی پیشین گوئی پر مبنی ہے جس کو محدثین عام طو پر حدیث افتراق امت کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ زیر ِ نظر مقالہ میں اس حدیث کا تحقیقی تجزیہ کر کے اس کے مفہوم کو سمجھنے کی سعی کی گئی ہے۔

 

امت كا معنى ومفہوم

 

امت كى جمع امم ہے۔قرآن حكيم ميں لفظ امت مختلف معنوں ميں استعمال كيا گيا ہے،جوكہ اس كے لغوى اور اصطلاحى معنى كو سمجھنےميں مددگار ثابت ہو تے ہيں ۔جب اس لفظ كا اطلاق انسانوں كے ليے ہو تو اس سےمراد ہم عقيدہ لوگ ہوتے ہيں۔

 

اللہ تعالىٰ كا ارشاد ہے:

 

﴿ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ﴾ ([1])

 

(پہلے تو سب) لوگوں كا ايك ہى مذہب تھا۔

 

عرف عام ميں امۃ كا لفظ ان لوگوں كى جما عت كے ليے بولا جاتاہے جسےكونبى يا رسول تشكيل ديں۔

 

اللہ تعالى فرماتے ہيں:

 

﴿ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾([2])

 

تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔

 

اسى طرح امۃ كا لفظ قرآن مجيد ميں حضرت ابراہيم ﷤فرد واحد كے ليےبھى استعمال كيا۔ارشاد بارى تعالىٰ ہے:

 

﴿ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً﴾([3])

 

بےشك ابراہيم ﷤ايك پورى امت تھے۔

 

حضرت ابراہيم ﷤كےليے امۃ كا لفظ استعمال كرنے كى وجہ يہ ہے كہ انہوں نےاكيلےہى اعلائےكلمۃ اللہ كے ليے اتنا كام كيا جتنا ايك امت كرتى ہے، اسى طرح امت كا لفظ امام اور رہنما كےليےبھى استعمال ہوتا ہے۔

 

"و الأُمَّة جماعة من الناس أكثرهم من أَصل واحد، وتجمعهم صفات موروثة، ومصالح وأَمانيّ واحدة، أو يجمعهم أمر واحد من دين أو مكان أو زمان"([4])

 

لوگوں كى ايسى جماعت جن كى بنياد ايك ہو، ان ميں موروثى صفات جمع ہوں ،اور ان كى خواہشات ، مصالح ايك ہوں يا دين ، جگہ يا زمانے كى اعتبار سے ايك ہوں۔

 

فرقہ كا معنى ومفہوم

 

فرقہ كا معنى پھاڑنا يا الگ كرنا ہے۔لوگوں كا كسى بڑى جماعت سے الگ حصہ،كسى قوم يا جماعت سے جداشدہ كثير تعداد يا ہم خيال لوگوں كا گروہ۔([5]) اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

 

﴿فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنهُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ﴾([6])

 

پھر کیوں نہ ایسا ہوا کہ ہر فرقہ ميں سے كچھ لوگ دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لئے نکلتے۔

 

فرقہ اور فريق تقريبا ہم معنى ہيں۔ فريق اس وقت استعمال ہوتاہےجب اس كے مقابلےميں كوئي اور فريق اور گروہ بھى موجو د ہو يا دو مختلف گروہوںميں تقابل مقصود ہو ۔ ارشارد ربانى ہے:

 

﴿فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ﴾([7])

 

ایک گروہ تو جنت میں جائے گا اور دوسرا دوزخ میں۔

 

امام راغب اصفہانى فرماتے ہيں :

 

"أن يأخذ كل واحد طريقا غير طريق الآخر في حاله أو قوله، والخلاف أعم من الضد، لأن كل ضدين مختلفان، وليس كل مختلفين ضدين، ولما كان الاختلاف بين الناس في القول قد يقتضي التنازع استعير ذلك للمنازعة والمجادلة"([8])

 

اختلاف كا مطلب كہ ہر ايك كادوسرے سے قول وفعل ميں مختلف ہونا،خلاف متضاد سے عام ہے كيونكہ ہر متضاد مختلف ہوتا ہے ،ليكن تمام خلاف متضاد نہيں ہوتے او رجب بھى لوگوں كے درميان كسى بات پر اختلاف ہوتاہے تو جھگڑے اور مجادلے كا سبب بنتا ہے یہ مستعار لیا گیا ہے منازع اور بحث کے لیے۔

 

 

 

 

ابن منظور بيان كرتے ہيں:

 

"والخلاف: المضادة، وقد خالفه مخالفة وخلافا. وفي المثل: إنما أنت خلاف الضبع الراكب أي تخالف خلاف الضبع لأن الضبع إذا رأت الراكب هربت منه"([9])

 

خلاف كا مطلب مخالفت اسى سے مخالفت او رخلاف ہے مثلا تو گوہ كى طرح مخالفت كرتا ہے كيونكہ وہ جب شكارى كو ديكھتى ہے تو بھاگ كھڑى ہوتى ہے۔

 

حدیثِ افتراقِ امت

 

امام ترمذی ﷫ اپنى كتاب ميں حضرت ابو ہریرہ ﷜سے روايت کرتے ہیں کہ نبى كريم ﷺ نے فرمایا :

 

«تَفَرَّقَتِ اليَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ أَوْ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَالنَّصَارَى مِثْلَ ذَلِكَ، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً»([10])

 

يہود ونصارى ٧١ يا ٧2 فرقوں ميں بٹ گئے اور میری امت ۷۳ فرقوں ميں تقسيم ہو گی۔

 

يہى حديث امام ترمذى ﷫نے حضرت عبد اللہ بن عمر ﷜ سے بھى روايت كى ہے نبى كريم ﷺنے فرمایا :

 

«لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلاَنِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي» ([11])

 

ميرى امت بھى وہى سب كچھ كرے گى جو قوم بنى اسرائيل نے كيا،يہاں تك كہ اگر كسى بنى اسرائيل كے شخص نے اعلانيہ اپنى والدہ سے بدكارى كى ہوگى تو ميرى امت ميں بھى ايسا كيا جائے گا ،اور بنى اسرائيل گروہوں ميں بٹ گئے اسى طرح ميرى امت بھى بٹ جائے گى ،تما م گروہ جہنمى ہوں گے ماسوائے ايك كے،صحابہ نے پوچھا كہ اے اللہ كے رسول وہ كونسا گروہ ہوگا؟آپ نے فرماياجس پر ميں اور ميرے اصحاب ہيں۔

 

ان دونوں مرويات کو امام ترمذی کے علاوہ ابو داؤد، ابن ماجہ اور احمد بن حنبل﷭ وغیرہ نے بھی الفاظ کے اختلاف كے ساتھ اپنى كتب ميں ذكر کیا ہے جبکہ فہم کے اعتبار سے وہ ایک ہی ہیں ۔

 

حدیث افتراق کی سند او رمتن محدثین کی آراء کی روشنی میں

 

اس حدیث مبارکہ کی اسنادی حیثیت کو محدثین نے بڑے احسن انداز سے ذکر کیا ہے ذيل میں مشہور محدثین کی آراء كو بيان کیا گيا ہے:

 

امام زیلعی﷫

 

تخريج الاحاديث الكشاف ميں امام زیلعی ﷫نےمذكورہ حدیث کے تقريبا تمام طرق کو جمع فرمایا ہےجس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حدیث افتراق 18صحابہ کرام ﷢سے مروی ہے۔([12])

 

اس حديث مباركہ كا كثرت طرق سے مروى ہونا اس كے بعض طرق كو بعض كے ساتھ قوى كرنےكا سبب ہے ۔اس ليے من جملہ يہ كہا جاسكتا ہے كہ يہ حديث صحت كے اعتبار سے صحيح يا كم ازكم مشہور كے درجےكى ہے۔

 

صاحب تفسیر الکشاف اس روايت كے بارےميں اپنى رائے كا اظہار اس انداز ميں كرتےہيں:

 

”یہ روايت حضرت علی ، و سلیم بن قیس و انس بن مالک و ابوہریرہ و ابودرداء ،وجابر بن عبد اللہ انصاری و عبداللہ بن عمر اور عمر وبن عاص ﷢کے واسطہ سے مختلف الفاظ و مقامات پر پیغمبر اکرم ﷺسے نقل ہوئی ہے“([13])

 

حافظ سخاوی﷫

 

حافظ سخاوى ﷫نے اپنى كتاب المقاصد الحسنۃ ميں اس حديث كو صحيح تسليم كيا ہے۔ ([14])

 

امام شاطبی﷫

 

امام شاطبی ﷫نے کتاب الاعتصام میں ابوہریرہ﷜کی روایت پر کئی جگہ صحت کا حکم لگایا ہے۔([15])

 

امام ابنِ تیمیہ ﷫رقمطراز ہیں :

 

"حديث صحيح مشهور في السنن والمسانيد قد أخرجها أكثر المحدثين منهم أصحاب السنن إلا النسائي وغيرهم"([16])

 

یہ روايت درجے كے اعتبار سے مشہور،صحیح ہے اورامام نسائى اور كچھ دوسرے محدثين كے علاوہ اكثر محدثين نے اس كواپنى سنن ميں روایت كيا ہے۔

 

امام خطابى ﷫اسى حديث كى تشريح كرتےہوئے رقمطرازہيں :

 

” يہ تمام گروہ دين سے خارج نہيں ہيں جبكہ خود نبى اكر م ﷺ نے فرما يا ہے كہ وہ ميرى امت ميں سے ہوں گے۔“([17])

 

ابنِ تیمیہ﷫ فرماتے ہيں:

 

”نبى كريم ﷺ نے انہيں اسلام سے نہيں نكالابلكہ فرمايا ميرى امت ميں سےہيں“ ([18])

 

امام شاطبى ﷫فرماتے ہيں:

 

”ايسى كوئى بھى قطعى نصوص نہيں ہيں جن كى بنياد پر ہم كہ سكيں كہ يہ اسلام سے خارج ہيں جبكہ اصل ان كا باقى رہنا ہے اور اگر ہم ان كى تكفير كى بات كرتے ہيں تو انہيں فرقوں ميں شمار نہيں كيا جاسكتا جنہيں ان كى بدعات كفر تك لےجا ئيں او ران ميں وہ اوصاف موجود ہيں جو ان كے اسلام كى بنياد ہيں جيساكہ حديث خوارج ميں ان كے قتل كا حكم ان كے كفر كى دليل نہيں ہےكيونكہ يہ قتل ان كے محارب اور باغى فرقہ ہونے كى وجہ سے ہے۔اس اعتبار سے بنيادى بات يہى ہے كہ ان تمام فرقوں كو اس حديث كے تحت شامل كرنا ايك مشكل كام ہےبلكہ ايك اجتہادى مسئلہ ہے۔“([19])

 

ان تمام طرق حديث اور اسانيد حديث كى بحث سے واضح ہوتا ہے كہ يہ حديث صحيح ہے ليكن علماء امت كے اقوال ميں غور طلب بات يہ ہے كہ كيا صرف يہ ايك حديث ان تمام نصوص قرآنيہ اور احاديث مباركہ سے كفايت كرتى ہے جس ميں نبى كريم ﷺ نے اجتماعيت اور اتحاد امت كا درس ديا ہے۔اس ليے لازم ہے كہ يہ سمجھا جائےكہ يہ حديث تنبيہ ہے نہ كہ اصول ۔

 

ان تمام احادیث میں نبى كريم ﷺنےبذاتِ خود صراحتا فرمايا ہے کہ یہ فرقے جہنم كے راستے پر ہوں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ آپﷺنے یہ بھی صراحت فرما دى کہ كاميابى صرف ايك كے مقدر ميں لكھى جائےگى۔سوال کئے جانے پر آپﷺنےاس کانام بتانےکی بجائے ایک وصف ذكر كيا :

 

«مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي»([20])

 

جو (لوگ) ميرى اور ميرے صحابہ كے راہ پر ہوں گے۔

 

محدثين كا نكتہ نظر "كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً"

 

حديث مباركہ كے مذكورہ بالا الفاظ كےبارے ميں كوئى ابہام نہیں ہے بلكہ يہ بات روز روشن كى طرح عياں ہے كہ كاميابى كا راستہ آپ او رآ پ کے صحابہ كا ہے،البتہ"كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً" كے الفاظ مختلف احادیث مباركہ ميں نقص اور زيادتى کےساتھ آئے ہيں جن پر علماء امت نے صحت و ضعف کے اعتبار سے بحث كى ہے۔یہاں یہ بات قابل ِ غور ہے کہ سنن میں، جن تین محدثين ترمذی، ابو داؤد اور ابن ِ ماجہ ﷭نے ابو ہریرہ ﷜سے جو روايت کی ہے ،اس میں یہ الفاظ نہیں ہيں اور جن روایات میں يہ الفاظ موجود ہيں، انہيں تھوڑے بہت اختلاف كےساتھ بيان كيا گيا ہے، ليكن مفہوم كے اعتبار سے ایک ہى ہيں۔

 

مثلاً:

 

«فِى النَّارِ وَوَاحِدَةٌ فِى الْجَنَّةِ وَهِىَ الْجَمَاعَةُ»([21])

 

آگ ميں (ہوں گے) ايك جنت ميں ہوگا اور وہى جماعت ہے۔

 

«وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ، وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ»([22])

 

ايك جنت ميں ہوگا اور باقى ٧٢آگ ميں ہوں گے۔

 

«اثْنَتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ، وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ»([23])

 

٧٢ آگ ميں ہوں گے اور ايك جنت ميں ہوگا۔

 

«كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً»([24])

 

تمام آگ ميں ہوں گے ما سوائے ايك ملت كے۔

 

«فِرْقَةً، فوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ، وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ»([25])

 

فرقوں ميں سے ايك جنت ميں ہوگا اور باقى ٧٢ آگ ميں ۔

 

اس سلسلےميں عبداللہ بن عمر﷜ سے جو روايت بيان كى گئى ہے اس كى سند كےبارےميں امام ترمذى﷫بيان كرتےہيں:

 

"هَذَا حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ"([26])

 

جس طريق سے ہم نے ا س كو بيان كياہے يہ حديث مفسر غريب ہے اس كے علاوہ باقى دوسرےطرق كے بارےميں ہميں علم نہیں ۔

 

مذكورہ حدیث كبار صحابہ﷢ سے مروى ہے،اس کے راویوں میں جليل القدر اہل علم وفضل صحابہ ابن مسعود، علی بن ابوطالب،ابو موسی اشعری، جابر بن عبداللہ، ابوہریرہ، معاویہ بن سفیان، انس بن مالک، عوف بن مالک اشجعی،ابوامامہ الباہلی، سعد بن ابی وقاص، عمرو بن عوف المزنی، عبداللہ بن عمرو بن العاص، ابودرداء، واثلہ ابن الاسقع ﷢ كا شمار ہوتاہے۔ ان عظيم صحابہ كى طرف جھوٹ كا منسوب كيا جانا خلاف عقل ونقل ہے۔ اس طرح یہ حدیث سنداً حد تواتر يا اس كى مثل ہے، ان اصحاب رسول﷢ سے روايت کرنے والوں راویوں کے بعد والے راویوں میں ضعف كا تذكرہ ملتا ہے مگر وہ ضعف بھى شديد نوعيت كا نہيں ۔

 

علامہ شاطبی ﷫نے حضرت علی﷜کی روایت نقل کرکے لکھا ہے:

 

"لَا أَضْمَنُ عُهْدَةَ صِحَّتِهِ"([27])

 

میں اس کی صحت کی ذمہ داری نہیں لیتا۔

 

مگر کوئی خاص جرح بھی نہیں فرمائی۔

 

المستدرک میں ابوہریرہ﷜ کی حدیث نقل کرکے حاکم﷫ فرماتے ہیں:

 

"هذه أسانيد تقام بها الحجة في تصحيح هذا الحديث"([28])

 

یہ اسانید ایسی ہیں کہ ان کی بناپر حدیث کو صحیح کہا جاسکتا ہے۔

 

مزید برآں ان روايات كى تصحیح ہونے کی بابت ابنِ عاصم،امام سیوطی ،امام حاکم،امام ذہبی،امام شاطبی، مناوی،اور امام البانی ﷭جيسے ائمہ احادیث نے کی ہے۔

 

امت اجابت و دعوت کی تحقیق

 

مذكورہ روايت میں لفظ أُمَّتِي بيان ہوا ہے۔ (امتى ) ميں ياء متكلم ہے جو كہ اس بات كى دليل ہے كہ ان تمام كو اسلام كے تحت ہى ذكر كيا جائے۔اگر حديث افتراق كے علاوہ باقى احاديث كا مطالعہ كيا جائے تو يہ بات سمجھنا نہايت آسان ہو جائے گى كہ اس مراد امتِ اسلام ہى ہے۔

 

٥٠ مقامات پر لفظ امت قرآن مجيد ميں مختلف معانى ميں بيان كيا گيا ہے ،مثلا دین ، قوم ،اور جماعت کے لئے،یہاں امت كے معنى قوم اور جماعت پر بحث مقصود ہے۔

 

جس قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا جائےوہ اس كى امت کہلاتى ہے۔ امت كے وہ لوگ جو اس رسول پر ایمان لائيں وہ امت ِ اجابت اور امت كےجو افراد اپنے كفر پر قائم رہتےہيں ان کا امت ِ دعوت ميں شمار کیا جاتا ہے۔ زمان و مکان کی قید سے ماورا خاتم الانبیاء صرف حضرت محمدﷺ ہيں ،لہٰذا نبى كريم ﷺكے اعلان نبوت سے قیامت كے بپا ہونے تك جو بھی اپنے كفر پر قائم رہا یا مرتد ہو گیا ،وہ آپﷺکی امت ِ دعوت کافر ہے، اور اس كےبرعكس جو لوگ آپﷺ كى تعليمات سے نور ايمان سےمنور ہوئے اور قيامت تك ہوتےرہيں گے ،وہ سب امت ِ اجابت كہلائيں گے۔

 

فرقوں کی تعداد

 

اس روایت میں ذکر کردہ ۷۲ یا ۷۳ كو كثرت عدد كے مجازى معنى ميں استعمال كيا گيا ہے نہ کہ حقیقی میں۔كيونكہ مختلف ادور كے علماء امت نے ان فرقوں كو شمار كيا ہے جيسا كہ عبدالقادربن طاہر البغدادى (متوفى : ٤٢٩ھ) نے ا پنى كتاب الفرق بين الفرق([29]) ميں ان كوتفصيل سے شمار كيا ہے۔

 

امام ابو الحسن اشعری بيان كرتے ہيں:

 

"اختلف الناس بعد نبيهم صلى الله عليه وسلم:فی أشياء كثيرة،ضلّل بعضهم بعضا، وبرئ بعضهم من بعض، فصاروا فرقا متباينين، وأحزابا متشتتين، إلا أن الإسلام يجمعهم ويشتمل عليهم."([30])

 

نبی مكرم ﷺکےبعدلوگوں میں اختلاف بے شمار چیزوں ميں واقع ہو گیا، بعض نے بعض کو ہدايت سے دور قرار دیا اوربعض نے بعض سے برأت كا اظہار كيا، تو یہ عليحدہ عليحدہ فرقوں اور مختلف گروہوں میں بٹ گئے، مگر یہ سب اسلام پر جمع ہیں اور اسلام ان میں سے ہر ایک پر مشتمل ہے۔

 

 

امام ابن تيميہ ﷫فرماتے ہيں :

 

”فرقوں كى تعيين كے بارےميں بہت سےلوگوں نے كتابيں اور مقالات لكھے ہيں ليكن يہ تما م باتيں ظن اور ہوائے نفس پر مبنى ہيں يہاں تك كہ كئى گروہوں نے اپنےتمام مخالفين كو اہل بدعت ميں شمار كركے ان گروہوں كو شمار كيا ہے۔“([31])

 

عبدالکریم شہر ستانی اپنى كتاب ميں رقمطراز ہيں :

 

"اعلم أن لأصحاب المقالات طرقا فی تعديد الفرق الإسلامية لا على قانون مستند إلى أصل ونص و لا على قاعدة مخبرة عن الوجود، فما وجدت مصنفين منهم متفقين على منهاج واحد فيی تعديد الفرق"([32])

 

ان فرقوں كو شمار كرنے كے اعتبار سےعلماء امت نے مختلف ادوار ميں مختلف بيان كيےہيں ، اس كے ليے كوئى ايسا قانون يا قاعدہ يا طے شدہ اصول ضوابط نہيں بيان كيے جاسكتے،اس ليے (تاريخى اعتبار) سے جن مصنفين نے بھى ان فرق كو شمار كيا ہے وہ اپنے خاص اصول وقواعد ركھتے ہيں اس ليے كسى ايك طريقہ پر متفق نظر نہيں آتے۔

 

عبدالکریم شہر ستانى نے ان تمام مسائل كا احاطہ كرنے كے ليے چارقواعد بنائے ہيں، جن سے اصولى اختلاف كيا جاسكتاہے، پھر فرماتے ہیں:

 

"فإذا تعينت المسائل التي هي قواعد الخلاف، تبينت أقسام الفرق الإسلامية، وانحصرت كبارها في أربع بعد أن تداخل بعضها في بعض.كبار الفرق الإسلامية أربع: القدرية. الصفاتية. الخوارج. الشيعة.ثم يتركب بعضها من بعض، ويتشعب عن كل فرقة أصناف، فتصل إلى ثلاث وسبعين فرقة."([33])

 

جن پر اختلافات مبنى ہيں وہ مسائل متعين ہوجائيں اور فرق اسلاميہ كى قسموں كى نشاندہى بھى ہوجائےتو يہ مجموعى طور پر چار فرقوں تك ميں بٹ جائےگا۔اگرچہ يہ ايك دوسرے ميں شامل ہوتے نظر آتے ہيں وہ چار فرقےيہ ہيں:1۔ الشیعہ ٢۔الصفاتیہ ٣ ۔الخوارج ٤۔ا لقدریہ، ٧٣ فرقوں تك پہنچ جاتے ہيں جو كہ مزيد مختلف اقسام اور شاخوں ميں تقسيم ہوتے چلےگئے ہيں ۔

 

 

 

 

شبلی نعمانی﷫ اپنی کتاب میں بيان كرتے ہیں:

 

” باحثين تسلیم كرتے ہيں کہ فرقوں کی یہ کثرت حقيقت پر مبنى نہيں ہے۔ بنيادى طورپر چند فرقے ہيں اور پھر انہي كى بہت سى مختلف شاخيں فرق كى صورت اختيار كرچكى ہيں۔“([34])

 

ان اقوال ائمہ كى روشنى ميں يہ واضح ہوتا ہے كہ تقريبا ہر دور كے علماء امت نے ان كى تعداد اپنے دور كےمطابق بيان كى ہے جو اس بات كا بين ثبوت ہے كہ يہ عدد كثرت پر دلالت كرتا ہے نہ كہ فرقوں كى تعداد پر كيونكہ اگر اس كو فرقوں كى تعداد پرمحمول كر ليا جائےتو عبدالقادر البغدادى كى بحث كے بعد آنے والے ادوار او رقيامت تك آنے والے فرقوں کو كس پر محمول كيا جائےگا۔ مذكورہ حدیث یہ نہیں بيان كرتى كہ امت ہمیشہ ٧٢فرقوں ميں بٹى رہے گے اور ان میں كسى طرح كى كوئى کمی يا زيادتى نہیں ہو گی۔ كچھ شارحين كا نكتہ نظر تو يہ ہے كہ ٧٢ سے خاص عدد مراد نہيں بلكہ يہ تو محض كثرت كو بيان كرنے كے ليے ايك عدد بيان كيا گيا ہے، اور اس سے مرادیہ ہے کہ میری امت بہت سے چھوٹے بڑے گروہوں ميں بٹ جائے گى جو ميرى سنت اور صحابہ كے راستے كو لازم نہيں پكڑيں گے،البتہ فلسفیانہ خیالات پر مبنى ہوائے نفس كو اختيار كريں گے۔

 

کلها في النار کا مفہوم

 

محققین علماء جیسے امام عبد اللہ ابن مبارک، امام بیہقی، امام اشعری، امام ابن تیمیہ﷭ وغیرہ آئمہ کے اقوال سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ ۷۲ فرقے جو جہنم میں داخل كيے جائيں گے وہ ہميشہ جہنم ميں نہيں رہيں گے بلكہ جہنم ميں داخل كيے جائيں گے۔ کیونکہ یہ بدعتى فرقےتو كہلائے جائيں گے مگر كافر نہيں ۔ جب تك كہ كوئى گروہ اس حد تك گمراہى اختيار كرےكہ كفر تك پہنچ جائے، اس وقت تك كسى بھى اعتبار سے ان پر ہميشہ جہنمى كا حكم نہيں لگايا جاسكتا۔ اس اعتبار سے ہميشہ جہنم اور جہنم ميں داخل كيے جانے كو ان نكات كے اعتبار سے سمجھا جاسكتاہے:

 

كلھا فى النار كا ظاہرى مفہوم تو يہى ہےكہ ٧٣ ميں سے ٧٢ فرقے جہنمى ہوں گے ليكن كسى بھى گروہ كے جہنمى ہونے كى دو صورتيں ہيں :

 

1۔ ايسا گروہ جس كو ہميشہ ہميشہ كے لئے جہنم ميں ڈال ديا جائے گا۔ قرآن وسنت ميں اس كے لئے خلود فى النار كى اصطلاح استعمال كى گئى ہے۔

 

2۔ايسے لوگ جنہيں جہنم ميں ڈالا جائے او ران كےگناہوں كى سزا كے بعد جہنم سے نكال ديا جائے،يا جہنم ميں داخل كيے جانے كےبعد اللہ تعالى اپنے فضل وكرم يا شفاعت كے ذريعے جہنم سےنكال ديں۔

 

ان دونوں ميں سے دوسرى صورت ايسے اہل ايمان كى ہوگى جو شيطان كے بہكاوےكى وجہ سے گناہ كا ارتكاب كربيٹھے يا گمراہ ہوگئے،ايسےلوگوں كے ليے ہميشگى جہنم كا عذاب نہيں ہوگا بلكہ وہ ا پنے گناہوں كى پاداش ميں سزا پا كريا اللہ تعالى كے فضل وكرم كےسبب جہنم سےنكالے جائيں گے،جيساكہ متعدد احاديث مباركہ اللہ تعالى كى رحمت غضب پر سبقت لے جانے پر دلالت كرتى ہيں،يہاں تك كہ اگر كسى كے دل ميں رائى كے دانے كے برابر ايمان ہوگا وہ بھى جنت ميں داخل كر ديا جائے گا۔يہى اس كى بہترين شكل ہے۔ جبكہ پہلى صورت صرف ان كفار اور مشركين كے ليے ہے جو ايمان كى دولت سےمحروم رہے يا ان كى گمراہى اس حدتك پہنچى كہ كفر كا ارتكاب كربيٹھے۔

 

زیر بحث روايت میں "کلها في النار"سے مراد کیا ہے؟ اگر اس روايت ميں "في النار" سے مرادجہنم ميں داخلہ ہے تو وہ گروہ بدعتى ، گمراہ تو كہلائے جاسكيں گے مگر ملت كفر نہيں ، اوركفر كى حد تك نہ پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ ايمانيات سے يہ جتنا بُعد اختيار كرتے جائيں گے اسى اعتبارسے ان کو جہنم میں عذاب ديا جائے گا اور پھر بالآخر جہنم سے يہ لوگ بہشت میں داخل كئے جائيں گے ۔

 

بعض سخت رو لوگوں نے یہاں جہنم ميں داخلے كے مطلب سے یہ مراد لیا ہے کہ ی ہ فرقے کفار میں شمار ہوں گے،مزید یہ کہ انہوں نے فرقوں كو كافر قرار دينا اور اس دائرہ كا ركو بہت زيادہ وسیع کرنے كى سعى کی ہے، لیکن كبار علمائے اہل سنت نے كمال احتياط كا دامن تھامتے ہوئے يہ بات بيان كى ہے كہ یہاں صرف جہنم ميں داخلہ مراد لیا جائےاور ان کے نزدیک یہ گروہ بدعتى اور گمراہ ہوں گے، اور انہيں کافر نہيں سمجھا جائے گا۔

 

بعض علماء كى رائےميں نارى ہونے سےمراد جہنم ميں ہميشگى ہے تو يہ بات صحيح احاديث مباركہ كے مخالف ہےكيونكہ اسلام كا كوئى گروہ بھى جہنم ميں ہميشہ نہيں رہےگااور اگر نارى سے مراد كچھ عرصہ جہنم ميں رہےگا او رپھر اس سے خلاصى حاصل كركے جنت ميں داخل ہو گا تو يہ بات حقيقت حال كے عين مطابق ہے۔

 

خالد بن عبد الله بن محمد ﷫بیان کرتے ہیں :

 

”تمام اسلامى فرق نجات پانے والےہيں اور حدیث میں” ناجیہ “سے مراد ناجیہ بلا شفاعت ہے ۔يعنى اسلام كےسارے گروہ ، كامياب ہونے والوں ميں سے ہوں گے، کہ بقدر ِ گناہوں كى سزا کےجہنم میں رہ کر بالاآخر اس سے چھٹكارا حاصل كريں گے اور بہشت میں داخل ہوں گے ۔“([35])

 

اس اعتبار سے يہ بات پايہ ثبوت كو پہنچتى ہے كہ وہ فرقے جو اسلام كى بنياد پر قائم ہيں اور ان ميں مختلف بدعات كو رواج ديا جاچكا ہے، مخلد في النارنہيں ہوں گے جبكہ اس كا اطلاق صرف ان فرقوں،جماعتوں اور لوگوں پر ہوگا جو اسلام كى اساس سے بہت دور چلے جائيں گے ۔

 

اس اعتبار سےحديث سے صرفِ نظر کرلینا درست نہیں بلكہ اس کی روشنی میں ہمیں آنے والے فتنوں سے متنبہ کیا جارہا ہے کہ اگر اتحاد کا دامن چھوڑ دیا گیا تو امت فرقہ بندى ميں بٹ جائے گی اور گروہ بندی کی صورت میں امت کی مرکزیت کو پہنچنے والے خطرات و خدشات سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ اس ليے يہ بات ذہين نشين رہنى چاہيےكہ قرآن مجيد اور احاديث مبار كہ كى متعدد نصوص مسلسل اتحاد امت كا حكم ديتى ہيں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

﴿وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ﴾([36])

 

او راگر تمہار ا رب چاہتا تو تمام لوگوں كو ايك ہى جماعت كر ديتا ليكن وہ ہميشہ اختلاف كرتے رہيں گے مگر جن پر تمہاراپروردگار رحم كرے او راسى لئے اس نے ان كو پيد ا كياہے۔

 

مجموعى طور پر ان دلائل كے مطالعہ سےيہ بات بخوبى واضح ہوتى ہے کہ اہل اختلاف قرآنى تعليمات كى روشنى ميں اس فہرست میں داخل نہیں ، نجات اسى جماعت کے ليے ہے جو ﴿اِلَّا مَنْ رَّحِمَ﴾كےراستوں پر چلے ،كيونكہ دوسرى صورت ميں وہ تمھيں خدا کے راستے سے جدا کرکے تتر بتر کر دیں گے۔نبی كريم ﷺنےاسے مثال سے سمجھانےکے لیے صحابہ کے سامنے ایک سيدھى لكير كھنچى اور اس كے دائيں بائيں بہت سى لكيريں كھینچيں اور بيان كيا یہ سیدھاصراط مستقیم ہے اور اس کے دائیں بائیں ناپسندیدہ راہیں ہيں ۔

 

﴿وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِه ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِه لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾([37])

 

اور يہ كہ ميرا سيدھا رستہ يہى ہے توتم اسى پرچلنا اور اور راستوں پر نہ چلنا كہ ( ان پر چل كر) اللہ كے راستے سے الگ ہو جاؤ گے ان باتون كا اللہ تمہيں حكم ديتاہے تاكہ تم پرہيزگاربنو۔

 

 

 

 

 

 

امام سيوطى ﷫ بيان فرماتے ہيں :

 

”صراط مستقیم کو واحد کے صیغہ سے بیان فرمایا کیونکہ اللہ کی اور قرآن اور رسول کی اور صحابہ کی راہ ایک ہی ہے یہی ملت اسلامیہ کی وحدت و اجتماع کی بنیاد ہے، اگر امت مسلمہ اس واحد صراط مستقیم سے ہٹی تو مختلف گروہوں میں بٹ جائے گی۔“([38])

 

اگر سورہ ہود و سورہ انعام کی ان دونوں آیات کے نتائج پر غور كريں تو حدیث افتراق امت کا پورا مفہوم سامنے آجاتا ہے کہ صراط مستقیم صرف ایک اور سبل متفرقہ بہت ہیں اور صرف ایک جماعت کے لئےنجات باقى اختلاف كرنے والوں کے لئے نجات نہیں ہے۔

 

اللہ تعالی نے اختلافات کو ختم كرنے كے ليےرسولوں کو بھیجا تاكہ اجتماعیت کو پیدا کردے اور یکجہتی کے قانون پر عمل کیا جائے جو کہ الكتاب كى صورت میں تھا مگر افسوس کہ اسی سامان اتحاد کو بھی سامان اختلاف بنا لیا اور اس طرح بعثت رسل كا اصل مقصد ومنشاء سے دوری اختیار کر لی۔

 

نبی كريم ﷺ نے دعا فرمائی کہ میری امت کو پہلی امتوں کی طرح ہلاک نہ کرنا وہ دعا قبول ہوئی اور عذاب استحصال ہمیشہ کے لئے اٹھا لیا گیا مگر آپ كى امت ميں افتراق وتشدد کا مقدر عذاب پھر بھی باقی رہا۔حضرت ابن عباس﷜ بيان كرتے ہیں کہ فرقوں سے خواہشات نفس کا اختلاف مراد ہے،اور اس اختلاف كى بنياد پر فرقےوجود ميں آتے ہيں اور آپس میں بھڑکانے کا معنى ایک دوسرے کو کافر کہا جائے۔جب يہ عمل شروع ہو گا تو تاريخ اسى طرح اپنے آ پ كو دہرائے كى جیسا حضرت علی ﷜اور خوارج كا معاملہ ہوا۔

 

يہ قرآنى احكامات واضح دليل ہيں کہ دین میں ملت کی ماہیت کو ٹکڑے ٹکڑے نہ ہونے دیا جائے يہى اختلاف مذموم ہے اور کسی بھی طرح محبت و مؤدت تعاون ہمدردی اور سازگاری کے سارے رشتے نہ ٹوٹے اور جماعتی شیرازہ کسی بھی طرح سے منتشر نہ ہو یہ اختلاف گروہ بندی دین میں ایک لمحہ کے لئے برداشت نہیں ہے بلكہ اس كے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا جاسکتا ہے ۔

 

اگر دین میں اشترا ك کے بعد اس کے بعض اصول و کلیات میں اختلاف ہو جائے تو یہ اختلاف البتہ اختلاف دين وملت کی طرح افتراق قلوب کا موجب بن جاتا ہے جیسے معتزلہ، خوارج ،اہل سنت، ایک ہی دین سے وابستہ ہیں،مگر بعض اصول و کلیات میں اختلاف کی وجہ سے اس طرح گروہ در گروہ ہوگئے ہیں۔

 

 

 

 

خلاصہ ٔ بحث

 

امت كے ٧٣ فرقوں ميں بٹ جانے والى حدیث تقریباً ۱۸كبارصحابہ کرام ﷢كى مرويات ميں سے ہے اور تقريبا تمام اہل علم نے اس كو صحيح كہا ہے ۔اس کو امام ترمذی ،ابن ِ ماجہ ،ابو داؤد،امام احمد اور حاکم نیشا پوری نے روایت کیا ہے، حدیث کے اس جزء " کلها في النار إلا واحدا"پر كچھ اہل علم نے سندا اعتراضات كيے ہيں۔مذكورہ حديث ميں بعض حضرات نے لفظ امت سے امت ِ اجابت اور بعض نے دعوت مراد لیا ہے ۔ حدیث میں 73 کے عدد سےبعض کے نزدیک بعینہ ٧٣ہى ہے اور كچھ كہتے ہيں كہ اس سے كثرت عدد مراد ہے۔الفاظ حدیث میں " كلها في النار"سے "خلود في النار" مرادنہیں بلکہ "دخول في النار" ہے۔ اس لحا ظ سے وہ فرقے جو باجماع امت دين كى بنيادوں كا انكار كركے کافر يا مرتد ہوئے وہ بنيادى طورپر امت ِ اجابت كے دائرے سے نكل كر امت ِ دعوت بن گئے ہيں ،وہ بوجہ انكار ہميشہ عذاب كے مستحق رہيں گے،ایسے گروہ مسلم امہ ميں شامل نہيں ہيں اور نہ ہى انہيں اسلامی فرق كہا جائےگا اور اسى طرح يہ ٧٣ فرقوں ميں بھى شامل نہيں كيے جائيں گے۔

 

حديث مباركہ فرقہ بندی کو جائز قرار نہیں دیتی بلکہ فرقہ بندی سے متنبہ كرتى ہے جبكہ مجموعى طور پر قرآن حكيم فرقہ بندی كى نہ صرف مذمت كرتاہے بلكہ مختلف حوالوں سے تفریق امت پر وعيد كا ذكر ملتاہے اس اعتبارسے "وحدة الکلمة" اور "توحید الأمة" کو بنياد بنا کر انبياء ورسل کی آمد کا مقصد بعثت قرار دیتاہے ۔آپﷺ کے ارشادات اتحاد امت كى روشن مثال ہيں۔ اس حدیث مبارک میں مسلم امہ کى تفریق و گروہ بندی کی جو خبر دى گئى تھی وہ خالصتا تنبیہ و نصیحت کے تھی ۔جبكہ اختلاف مسالك دين كى فروعات ميں مختلف الرائے ہونے كى وجہ سے ہے،ليكن اس سب كےباوجود بنيادى عقائد اللہ تعالى،كتابوں،رسولوں،فرشتوں،قيامت اور تقدير كےاچھے اور برے ہونے پر سب ايمان ركھتے ہيں،اور نبى كريم ﷺ كو خاتم الانبياء مانتےہيں۔ يہ بات بھى ثابت شدہ ہے كہ فروعى مسائل ميں كم فہمى اور ايك بات كےايك سےزيادہ معانى كا متحمل ہونا مختلف مكاتب فكر كے وجود كا بنيادى سبب بنا ہے،كيونكہ اللہ تعالى نے تمام انسانوں كو نہ تو يكساں فہم دين عطا كيا ،اور نہ ہى اس كو سمجھنے كى طاقت مختلف طبائع اور صلاحيتوں كے اعتبار سے يكساں ہے۔

 

تجاویز و سفارشات

 

مجموعى طور پر ہميں اختلاف و انتشار كى مذمت كرتے ہوئے امت كو مزيد فرقہ واريت سے بچانے كے ليے باہمى اتحاويگانگت اور بھائى چارے كو فروغ دينا ہوگا۔ اس کے لیے نجی اور حکومتی سطح پر درج ذیل امور کو پیش نظر رکھنے سے اس کے بہتر ثمرات حاصل ہو سکتے ہیں:* ان نصوص قرآنيہ اور احاديث مباركہ كو كثرت سے بيان اور واضح كرنا چاہيے جن ميں اتحاد امت اور اجتماعيت كا حكم ديا گيا ہے۔

  • حديث افتراق تحذير ہے نہ كہ اصول اس ليے اس كو بنياد بناكر امت كو تقسيم كرنے كى بات نہ كى جائے۔
  • امت كو اپنے مشتركات پر توجہ دينى چاہيےكيونكہ مشتركات بہت زیادہ ہیں اور اختلافات و افتراقات بہت کم ہیں۔
  • مسلمان علماء اور دانشوروں اور مفکرین پر واجب ہے کہ وہ دین اور ملت کی حفاظت کے لیے ملت کو مشترکہ دشمن اور اس کی چالوں سے آگاہ کریں اور مشترکہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک واحد بلکہ متحدہ محاذ تشکیل دیں۔
  • فروعى اختلافات كى بنياد پر مختلف فرقوں كو كافر كہنے اور فتوےلگانے سے بنيادى طور پر بچنےكى ضرورت ہے۔

 

 

 

مختلف فرقوں كے مدارس اور علماء كے ليے ايك ايسا نصاب ترتيب ديا جائے جو ادب الاختلاف كے اصول وضوابط كو ان كے ليے واضح كرے۔

 

حوالہ جات

  1. () سورۃ البقرة: 213
  2. () سورۃ آل عمران: 110
  3. () سورۃ النحل: 120
  4. () ابراہيم مصطفى واحمد الزيات،المعجم الوسيط،باب الہمزه،دارالدعوة ،1995م،ا/27
  5. () كيلانى،عبدالرحمن،مترادفات القرآن،مكتبۃ السلام،سٹريٹ ٢٠وسن پور ،لاہور، 2009م،ص :٦٨١
  6. () سورۃ التوبۃ: 122
  7. () سورۃ الشورى:7
  8. () اصفہانى،حسين بن محمد،المفردات فى القرآن،باب خلف،دار القلم دار الشاميۃ ،دمشق،طبع اول: ١٤١٢ھ، 1/294
  9. () ابن منظور،محمد بن مكرم،لسان العرب،فصل الخاء المعجمہ،دار صادر،بيروت،طبع ثالث: 1414ھ ،9/90
  10. () ترمذی، محمد بن عيسى، سنن،أبواب الإيمان عن رسول الله،باب ما جاء فيمن يموت وهو يشهد أن لا إله إلا الله، حديث نمبر: ٢٦٤٠، دار الغرب الاسلامى ، بيروت،1998ء،4/322
  11. () ایضاً، حدیث نمبر:2641، 4/323
  12. ()زيلعى،عبدالله بن يوسف،تخريج الاحاديث والآثار الواقعۃ في تفسير الكشاف للزمخشري،باب سورة الانعام،دار ابن خزيمہ، رياض،طبع اول:1414ھ،1/447
  13. ()زمخشری،محمود بن عمرو بن احمد،الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل،دار الكتاب العربی،بيروت، طبع ثالث:1407ھ،2/83
  14. ()سخاوى،محمد بن عبدالرحمن،المقاصد الحسنۃفي بيان كثير من الاحاديث المشتہرة على الالسنۃ،حرف التاء المثناة،دار الكتاب العربى،بيروت،طبع اول:1985ء، 1/259
  15. ()شاطبی، ابراہيم بن موسى بن محمد ،الموافقات فی اصول الاحکام ، دار الفکر ، 2008ء،4/177
  16. ()ابن تیمیہ، مجموع الفتاوى ، مجمع الملك فہد لطباعہ المصحف الشريف ، المدينہ المنورہ، المملكہ العربيۃ السعوديۃ ،١٤١٦ھ، ٣/٣٤٥
  17. () خطابى،حمد بن محمد،معالم السنن،كتاب شرح السنۃ،مطبعۃ علميۃ،حلب،طبع اول :1932ء،4/294
  18. () ابن تیمیہ،احمد بن عبد الحليم ،منہاج السنۃ النبويہ فى نقص الكلام الشيعۃ القدريۃ،جامعہ الامام محمد بن سعودالاسلاميۃ ، ١٩٨٦ء، ٥/٢٤١
  19. ()شاطبی،الموافقات،٤/١٩٣-١٩٤
  20. ()ترمذی،سنن،ابْوَابُ الْإِيمَانِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ يَمُوتُ وَهُوَ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ،حدیث نمبر:2641، 4/323
  21. ()ابو داؤد، سليمان بن اشعث،سنن،باب شَرْحِ السُّنَّةِ، حدیث نمبر: ۴۵۹۹،دار الكتاب العربی، بيروت،2009ء، ۴/324
  22. ()ابن ماجہ، ابو عبدالله ، محمد بن يزيد،سنن ابن ماجہ، كِتَابُ الْفِتَنِ، باب افتراق الأمم ،حدیث نمبر:۳۹۹۲ ،دار الرسالۃ العالميہ، 2009ء، ۵/128
  23. ()دارمی،عبدالله بن عبد الرحمن،سنن الدارمى،باب في افتراق هذه الأمة،حدیث نمبر:۲۵۱۵،دار الكتاب العربی، بيروت، طبع اول:1407ھ،۲/314
  24. ()ترمذی،سنن،أبواب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ،باب مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ، حدیث نمبر:2641، 5/26
  25. () ابن ماجہ،سنن ابن ماجہ ، کتاب الفتن،بَابُ افْتِرَاقِ الْأُمَمِ، حديث نمبر: 3991، 5 /129
  26. () شاطبی،ابراہيم بن موسى ،الاعْتِصَام، دار ابن الجوزی للنشر والتوزيع، المملكۃ العربيۃالسعوديہ ،طبع اول: 1429 ھ ، 3/122
  27. ()شاطبی،الاعتصام، 2/750
  28. ()حاكم،محمد بن عبد الله،المستدرک،دار الکتب العلمیہ، بیروت،طبع اول:1990ء، 1/218
  29. () بغدادى،عبد القادربن طاہر،الفرق بين الفرق وبيان الفرقہ الناجيہ،دار الآفاق الجديدہ ،بيروت،طبع سوم:١٩٧٧ء، ص: 352
  30. ()ضميريہ،عثمان جمعۃ، مدخل لدراسۃ العقيدة الاسلامی،مكتبۃ السوادی للتوزيع ،طبع دوم: 1417ھ،1/52
  31. () ابن تیمیہ،مجموع الفتاوى ،٣/٣٤٦
  32. ()شہرستانی ،محمد بن عبد الكريم،الملل والنحل ، مؤسسۃالحلبی، س ن ، 3/13
  33. () ایضا
  34. ()شبلی نعمانی، علم الکلام اور الکلام، نفیس اکیڈمی ،کراچی ،۱۹۷۹،ص:۲۷
  35. ()مصلح ،خالد بن عبد الله،شرح العقيدہ الطحاويۃ ،دروس صوتيۃقام بتفريغها موقع الشبكۃالاسلامیۃ، 16/2 ،يہ كتاب بنيادى طور پر مؤلف كے ليكچرز ہيں جنہيں بعد ميں كتابى شكل ميں مرتب كياگيا مزيد تفصيل كےليے ديكھيں http://www.islamweb.net
  36. ()سورۃ ہود: ١١٨
  37. ()سورۃ الانعام: 153
  38. ()سيوطى،جلال الدين،تفسير جلالين،دارالحديث ،قاہره،طبع اول، س ن ،ص:١٩٠
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...