Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Basirah > Volume 7 Issue 1 of Al-Basirah

سیرت طیبہ میں بلدیاتی نظام (میونسپلٹی) اور بنیادی عوامی سہولیات کے خدوخال |
Al-Basirah
Al-Basirah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

بلدیہ عوامی نمائندوں کی منتخب جماعت کو کہا جاتا ہے، جس کا تعلق عوامی فلاح و بہبود اور خدمات کی فراہمی کے ساتھ ہو۔ ان خدمات میں صفائی کا انتظام، راستوں اور سڑکوں کی تعمیر، صحت و علاج معالجے کے مراکز کا قیام، اور صاف پانی کی فراہمی کا نظام وغیرہ شامل ہیں۔ ایسے شہری اداروں کو انگریزی میں "میونسپلٹی" کہا جاتاہے۔

 

تمام ممالک اپنے شہریوں کے بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ آئین ِ پاکستان 1973ء کے آرٹیکل /a 140 کے تحت بھی ایسے عوامی اداروں کے قیام کا تذکرہ کیا گیا ہے، جو عوامی خدمات اور سہولیات کو یقینی بنانے میں معاون ہوں۔بلدیاتی نظام (میونسپلٹی) اور بنیادی عوامی سہولیات کی فراہمی کو عصرِحاضر میں ترقی کے ناپنے کے پیمانے کے طور پر دیکھا جاتا ہے،اور سہولیات کی فراوانی جتنی زیادہ ہوتی ہے اس شہر، علاقہ کو ترقی یافتہ سمجھا جاتاہے۔ اس مقالہ میں ریاستِ مدینہ کے بلدیاتی نظام (میونسپلٹی) اور بنیادی عوامی سہولیات کی فراہمی کا جائزہ لیا گیا ہے، اور اس سے عصرِ حاضر کے بلدیاتی نظام اور سہولتوں کی فراہمی کے لیے استنباط کیا گیا ہے۔

 

اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ کو پوری اُمت کے لیے بہترین نمونہ بناکر بھیجا تھا، اور آپﷺ کی زندگی کے ہر گوشہ میں اُمت کے لیے عملی رہنمائی موجود ہے۔ آپﷺ کی ذاتی اور خانگی طرزِ حیات ایک کامیاب گھریلو زندگی کے لیے بہترین نمونہ ہے، تو تمدن اور اجتماعی طرز زندگی کے لیے سیرت طیبہ میں انسانوں کے ہر طبقہ اور صنف کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں۔

 

دینِ اسلام فقط عبادات ہی کا نام نہیں، بلکہ اس کی تعلیمات اور احکام فرد کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ، اس کے معاشرتی تعلقات اور سیاسی و سماجی زندگی کے ساتھ بھی تعلق رکھتے ہیں۔ بلکہ جس ماحول اور علاقہ میں اس کی بودو باش اور سکونت ہو، اس کے متعلق بھی واضح ہدایات فراہم کرتا ہے۔ دینِ اسلام کے اسی ہمہ گیری کی وجہ سے اس کو دیگر ادیان پر امتیاز حاصل ہے اور اس کو دینِ فطرت قرار دیا گیا ہے۔

 

عوامی خدمات اور سہولتوں کی ایک طویل فہرست ہے ، مگر زیرِ نظر مضمون میں بلدیاتی نظام کی طرف سے شہریوں کو فراہم کی جانے والی چیدہ چیدہ سہولیات اور بلدیاتی حکومتوں کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ سیرتِ نبوی ﷺ میں ان امور کے بارے میں کیا رویہ اور رجحان ملتا ہے۔ بلدیاتی حکومت کی چیدہ چیدہ ذمہ داریاں درجِ ذیل ہیں:* تمام سرکاری اداروں کی کارکردگی کو جانچنا اور ان کی نگرانی کرنا۔

  • قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا تاکہ امن و امان میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔
  • اراضی کی پیمائش کرنا، نئی آبادیوں کو بسانے کے لئے عوام کی رہنمائی کرنا اور آبادیوں کو جملہ سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا جن میں پانی وغیرہ شامل ہیں۔
  • بازاروں کی نگرانی کرنا، اشیاء کی کوالٹی اور قیمتوں پر نظر رکھنا،گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرنا۔
  • نئے ترقیاتی منصوبہ جات مثلاً نئی سڑکیں بنانا، کا اجراء کرنا اور پرانے منصوبہ جات کی دیکھ بھال کرنا۔
  • شہریوں کے لئےتعلیم کا بندوبست کرنا۔ (تعلیمِ اطفال و تعلیمِ بالغاں)
  • قدرتی وسائل کا تحفظ کرنا، مثلاً جنگلات کی حفاظت کرنا وغیرہ۔([1])

 

 

 

درج بالا تمام امور کی رعایت رکھنا ایک بلدیاتی حکومت کی ذمہ داری ہے کیوں کہ یہ تمام امور وہ ہیں جن کا ایک فرد کی زندگی سے براہِ راست تعلق ہوتا ہے۔ درج ذیل سیرتِ نبوی میں ان امور کے بارے میں اختیار کی جانے والی تدابیر اور حکمتِ عملیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

 

مسجد بطورِ مرکز

بلدیاتی نظا م میں میونسپل ایڈمنسٹریشن آفس کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس آفس میں متعلقہ افراد ہر وقت موجود ہوتے ہیں اور انتظامی امور میں درپیش مشکلات کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحصیل اور گاؤں کی سطح پر متعدد کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں جن کے لئے مختص عمارات کو کمیونٹی سنٹر کا نام دیا جاتا ہے۔ دورِ رسالت ﷺ میں بلدیاتی حکومت کے مرکزی دفتر اور ذیلی کمیونٹی سنٹرز کی مثال مسجد کی صورت میں نظر آتی ہے۔

 

اسلامی معاشرہ میں مسجد کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ عبادت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے افراد کے باہمی ربط و تعلق کے لیے مرکزی محور مسجد ہی ہے، جو مادی اور معنوی طور پرمعاشرے کے تقویت کا باعث بنتی ہے ۔ اسی اہمیت کی وجہ سے مسجد کو دیگر عوامی سہولیات میں سرفہرست رکھا گیا ہے۔

 

معاشرے کے لیے مسجدکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے جو کام سرانجام دیا، وہ مسجد کی تعمیر تھی۔([2])

 

مسجد کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لئے عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ آپ ﷺبنفس نفیس مسجد نبوی کی تعمیر میں شریک ہوئے ، خود اینٹیں لاتے، سیدنا طلق بن علی ﷜ کو گارا گھولنے کا حکم دیتے([3]

 

مسجد کی اس اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے شہری نظام کی اصلاح کے لیے چند نکات اخذ کئے جاسکتے ہیں:

 

۱۔مسجد مروجہ متعدد کمیونٹی سنٹرز کابہترین نعم البدل ہے ،اس کو بیک وقت کئی ایسے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جو معاشرے کی تعمیر و ترقی اور درست سمت میں سفر کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔مسجد جہاں ایک طرف عبادات کے ساتھ تعلیم وتعلم کا ذریعہ بنتی ہے وہیں دوسری جانب لوگوں کی اصلاح کے لیے وعظ ونصیحت اور باہمی ربط و اتفاق کا ذریعہ بھی ہوتی ہے۔([4])

 

۲۔مسجد کے ذریعے معاشرے میں تعاون اورایک دوسرے کے احوال سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ﷫ فرماتے ہیں:

 

"كانت مواضع الأئمة ومجامع الأمة هي المساجد فإن النبي ﷺ أسس مسجده المبارك على التقوى: ففيه الصلاة والقراءة والذكر وتعليم العلم والخطب وفيه السياسة"([5])

 

مساجد مسلم قيادت اور امت مسلمہ كى اجتماع گاه ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے اپنى مبارک مسجد کی بنیاد تقوی پر رکھی، جہاں نماز، تلاوت، ذکر، تعلیم وتعلم، وعظ ونصیحت اور سیاسی سرگرمیاں ہوتیں۔

 

۳۔مسجد کی تعمیر میں آپﷺ کی عملی شرکت آپﷺ کی تواضع ، انکساری کاعملی نمونہ ہے، جس میں مسلمانوں کے سربراہان اور بڑوں کے لیے ایک عمدہ ترغیب ہے کہ مسجد کی مادی و معنوی تعمیر میں سب سے کلیدی کردار اُنہی کا ہونا چاہیے۔

 

موجودہ دور کی ضلعی انتظامیہ کو دیکھا جائے تو اس میں کام کرنے والے افراد کو ان خدمات کا باقاعدہ معاوضہ دیا جاتا ہے جبکہ دورِ رسالت میں ایسا کوئی انتظام نہ تھا بلکہ ان امور کی طرف لوگوں کو راغب کرنے کے لئے ترغیب و تحریض سے کام لیا جاتا تھا اور ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ترغیب و تحریض کا یہ پہلو مالی منفعت کے بغیر خدمت کرنے کے جذبے کو ابھارنے کا نہایت عمدہ طریقہ ہے کیونکہ احساسِ ذمہ داری ہی وہ واحد چیز ہے جو کسی بھی معاشرے کو درست سمت میں گامزن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے نیز دنیاوی منفعت کا حصول پیشِ نظر نہ ہو تو نہ صرف مفادات میں ٹکراؤ کا امکان معدوم ہو جاتا ہے بلکہ معاشرے کی ترقی میں ہر شخص بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔

 

امن وامان کا قیام

کسی بھی معاشرے میں امن وامان کو برقرار رکھنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔معاشرہ امن وا مان کے بغیر نہیں چل سکتا، بدامنی کے ہوتے ہوئے ، کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے باہمی بھائی چارہ ،محبت و اعتماد اور خیرخواہی کی فضا کا ہونا بے حد ضروری ہے کیونکہ جب تک اہلِ علاقہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص نہ ہوں اور ان میں باہمی تعاون نہ ہو، نظام کی کامیابی کے لیے جتنے بھی جتن کئے جائیں، وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔([6])

 

باہمی محبت و اعتماد اور خیرخواہی کے علاوہ دوسرا بنیادی عنصر مذہبی آزادی اور رواداری ہے تا کہ مختلف عقائد و نظریات کے حامل افراد اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے میں آزاد ہوں نیز ہر فرد کو اس بات کا یقین ہو کہ اس کی جان اور اس کا مال دونوں محفوظ ہیں۔

 

ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے آنحضرتﷺ نے دو اقدامات کئے:* مہاجرین و انصار کے درمیان عقدِ مواخات کیا۔

  • یہود اور دیگر غیر مسلم قبائل کے ساتھ معاہدۂ امن کیا۔

 

 

 

امن وامان کے قیام کے لیے پہلا قدم: عقدِ مواخات

عقدِ مواخات کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارگی،باہمی اعتماد و محبت اور خیرخواہی کی فضا قائم ہوئی بلکہ بہت سے دیگر مسائل کے حل میں بھی اس کا کردار نمایاں رہا۔ لیکن اس معاہدہ کا اصل مقصد کیا تھا، اس ضمن میں حافظ ابن کثیر﷫ فرماتے ہیں:

 

"أن هذه المؤاخاة إنما شرعت لأجل ارتفاق بعضهم من بعض وليتألف قلوب بعضهم على بعض"([7])

 

اس مواخات کا مقصد یہ تھا کہ صحابہ کرام ﷢ایک دوسرے کی مدد کریں، اور آپس میں قلبی انس و محبت پیدا ہو سکے۔

 

اسى ضمن ميں علامہ سہیلی﷫ فرماتے ہیں:

 

"آخى رسول الله ﷺ بين أصحابه حين نزلوا المدينة، ليذهب عنهم وحشة الغربة ويؤنسهم من مفارقة الأهل والعشيرة ويشد أزر بعضهم ببعض" ([8])

 

رسول اللہﷺ نے مدینہ آنے کے بعد اپنے صحابہ کرام ﷢میں مواخات قائم کی، تاکہ اجنبیت کی وحشت اور گھر اور خاندان کے چھوڑنے کی قلق ختم ہوجائے، اور صحابہ کرام ﷢آپس میں ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں۔

 

گویا مواخات کا مقصد باہمی الفت و محبت کا فروغ اور اجنبیت و نامونوسیت کی دیوار کو گرا کر ایک كردینا تھا۔ یہی کام بلدیاتی حکومت گلی،محلے کی سطح پر کمیٹیاں یا کمیونٹیز بنا کر کرتی ہے تاکہ معاشرے میں امن او ررواداری قائم رہ سکے۔

 

سیرتِ طیبہ میں کثیر تعداد میں ایسی روایات موجود ہیں جو باہمی تعاون اور الفت و محبت کی تلقین کرتى ہیں([9])، جب کہ اِن ہدایات کے برعکس ہمارے معاشرے میں اسی چیز کا فقدان ہے اور معاشرتی فساد کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ یہاں قوی ، کمزور کا حق دباتا ہے، اور دوسروں کے ساتھ تعاون اور بھلائی کرنے کے بجائے ، صرف ذاتی خواہشات کی تکمیل میں ساری توانائیاں خرچ ہو جاتی ہیں۔

 

امن و امان کے قیام کے لیے دوسرا قدم : معاہدۂ امن

رسول اللہﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو اسلام کے علاوہ دیگر ادیان ، بالخصوص یہودی بھی آباد تھے۔چنانچہ پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے آپﷺ نے مسلمانوں اور یہودیوں میں باہمی تعلقات قائم کرنے کے لیے ایک تحریری معاہدہ فرمایا۔([10])

 

اس معاہدہ میں یہودیوں کو اپنے دین اور اموال پر برقرار رکھا گیا۔ قصاص اور خون بہا کے قدیم طریقوں کو بدستور قائم رکھا گیا۔ جس میں تحریر تھا کہ ظلم اور فساد میں کسی کی رعایت نہیں ہوگی۔ معاہدے کے تمام فریقوں پر لازم ہےکہ وہ مدینہ منورہ میں فساد برپا نہ کريں۔ یہودیوں کی جان ومال کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہوگی اور ہر فریق اپنے اخراجات کا خود ذمہ دار ہوگا۔مدینہ پر حملے کی صورت میں سب باہمی تعاون کریں گے اور ہر فریق دشمن کے مقابلے میں دوسرے کی مدد کرے گا۔([11])

 

اِس معاہدے سے شہری نظام کی کامیابی کے لیے مندرجہ ذیل نکات اخذ کئے جاسکتے ہیں:

 

۱۔معاشرہ کا ہر فرد بلا تفریق مذہب و نسل اہمیت رکھتا ہے، اور ان تمام افراد کا باہمی تعلقات کو استوار کرنا انتہائی ضروری ہے، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔اس معاہدے سے ان لوگوں کی غلط فہمی کا بھی ازالہ ہوتا ہے جو اسلام کو صرف عبادات میں منحصر سمجھتے ہیں،حالانکہ رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ آنے کے بعد دیگرعبادات کے قیام سے پہلے معاشرے کے افراد کا باہمی ربط قائم فرمایا۔([12])

 

۲۔اِس معاہدے سے ایک طرف مسلمان یہودیوں کی شرارتوں سے محفوظ رہے، تو دوسری طرف یہودی بھی اِس معاشرے میں امن اور اطمینان کی زندگی بسر کرنے لگے۔ اِس معاہدے میں اقلیتوں کے حقوق کی طرف بھی اشارہ ہے۔

 

۳۔رسول اللہﷺ نے اِس معاہدے میں مسلمانوں اور یہودیوں میں سے ہر ایک پر یہ بات لازم کردی، کہ بیرونی دشمن کے حملے کی صورت میں ایک فریق دوسرے کے ساتھ تعاون کرے گا۔([13])

 

شہر کی حفاظت:

شہری نظام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے، کہ وہاں کے باشندے اندرونی امن کے ساتھ بیرونی دشمن سے بھی محفوظ ہوں، اور ہر شہری اپنے علاقے کی حفاظت کے جذبے سے سرشار ہو۔اندرونی امن کے قیام کے لئے موجودہ دور میں پولیس کا محکمہ موجود ہے اور اس محکمہ کی معاونت کے لئے دیگر سرکاری ادارے بھی موجود ہیں۔ دورِ رسالت میں اندرونی امن و امان کے قیام کے لئے باقاعدہ پولیس کا محکمہ قائم نہیں تھا کہ وہ لوگوں کے اعمال و افعال کی نگرانی کرتا اور ناقضِ امن معاملات میں ملوث ہونے پر ان پرگرفت کرتا بلکہ ہرشخص انفرادی طور پر اس بات کی کوشش کرتا کہ اس سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہوجائے جو نقضِ امن کا باعث بن کر انتشار پھیلانے والا ہو۔

 

بیرونی دشمن سے مدینہ کے شہریوں کی حفاظت کے لئے آنحضرت ﷺ نے درج ذیل دو اقدامات کئے:* یہود كے علاوه گرد و نواح کے قبائل سے بهى امن کا معاہدہ کیا جس کی رو سے ہر فریق کسی بیرونی حملہ کی صورت میں دوسرے فریق کی مدد کرنے کا پابند تھا۔

  • آپ ﷺ بذاتِ خود مدینہ منورہ کا گشت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرت انس ﷜کی روایت ہے کہ ایک رات اہلِ مدینہ ایک آواز کی وجہ سے ڈر گئے اور لوگ اس آواز کی طرف روانہ ہوئے تو سامنے سے نبی اکرم ﷺ، جو لوگوں سے پہلے ہی اس آواز کے تعاقب میں نکل پڑے تھے، گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر، گلےمیں تلوارلٹکائے، یہ کہتے ہوئے تشریف لائے کہ پرواہ مت کرو، یہ آواز سمندر کی طرف سے آئی تھی۔([14])

 

 

 

درج بالا واقعہ سے شہريوں كے جان ومال كے تحفظ كا جو تصور ملتاہے،خلافت راشده ميں اس كا باقاعده اہتمام نظر آتا ہے اور آج كے نظام بلديات ميں اس كے پيش نظر شعبہ پوليس كے رات كو گشت كو مزيد فعال بنانے كى ضرورت ہے تاكہ امن وامان ا ور تحفظ جان ومال كو يقينى بنايا جا سكے۔

 

رہائش اور کھانے کی سہولیات مہیا کرنا

کسی بھی بلدیاتی نظام اور شہری حکومت کے لیے یہ بات ضروری ہے، کہ وہ اپنے باشندوں کے لیے رہائش کا معقول انتظام کرے۔کیوں کہ جب تک رعایا کو آرام کے ساتھ رہنے کی جگہ میسر نہ ہو، تب تک وہ دوسرے اہم امور کے لیے فارغ نہیں ہوتے۔ بلدیاتی نظام میں رہائش کی فراہمی اس طور پر کی جاتی ہے کہ آبادکاری کے اس عمل میں ایک ترتیب اور نظم برقرار رکھا جائے تاکہ مزید رہائشی منصوبوں کے اجراء کی صورت میں قدیم آبادیوں کو فراہم کردہ سہولیات میں کمی واقع نہ ہو۔ رہائش کی اہمیت کے پیشِ نظر رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ میں تمام صحابہ کرام ﷢ کے لیےرہائش کا انتظام بھی کیا ۔ انصار مقامی باشندے ہونے کی وجہ سے پہلے سے گھروں کے مالک تھے اور صاحبِ جائیداد بھی تھے، جبکہ مہاجرین بڑی تعداد میں مکہ مکرمہ سےہجرت کرکے آئے ہوئے تھےان کے پاس نہ تو ذاتی گھر تھے اور نہ ہی جائیدادیں۔ ([15])

 

ہجرتِ رسول ﷺ سے مدینہ منورہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی تو اس میں رہائش اختیار کرنے کی غرض سے آنے والوں میں صرف مہاجرین ہی نہیں تھے بلکہ عرب کے دوسرے قبائل کے لوگ بھی مختلف اطراف سے مدینہ منورہ کی طرف امڈ آئے۔ محدود وسائل کے ساتھ اتنی بڑی تعداد کے لیے رہائش کا انتظام کرنا آسان کام نہیں تھا۔ لیکن آپﷺ نے اُن کے رہائش کا ایسا زبردست بندوبست کردیاجو عمرانیات کے ماہرین کے لیے سیرتِ طیبہ کا انتہائی دل چسپ موضوع ہے۔

 

اس مسئلے کا حل نکالتے ہوئے آپﷺ نے بعض مہاجرین کے لیے ابتدائی رہائش کے طور پر مسجد نبوی میں ایک خیمہ لگایا، جس کو صفہ کہا جاتا تھا، یہ اُن لوگوں کا گھر ہوتا تھا جن کے پاس رہائش کا کوئی انتظام نہیں تھا۔([16])

 

اصحابِ صفہ کی رہائش کے انتظام کے ساتھ ساتھ اُن کے کھانے کا انتظام بھی رسول اللہﷺ کیا کرتے تھے۔([17]) چنانچہ آپ ﷺنے بعض مہاجرین کی رہائش کا انتظام کسی مال دار انصاری کے ذمہ لگا دیا تاکہ قیام و طعام دونوں ضروریات بآسانی پوری ہو سکیں اور معاشرے میں توازن برقرار رہے نیز اصحابِ صفہ کو روزانہ رات کے وقت صحابہ کرام ﷢کے درمیان تقسیم فرما دیتے تاکہ ان کے ساتھ کھانا کھا سکیں۔([18]) نیز آپ ﷺ دوسروں کی مدد کی ترغیب دیتے رہتے۔ ایک مرتبہ فرمایا:

 

»لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ، وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِهِ«([19])

 

وہ کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جو خود سیر شکم ہو کر سوئے ، جب کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔

 

اس عمل سے آپ ﷺ نے امت کو یہ پیغام دیاکہ معاشرے کے مالدار افراد غریب اور نادار افراد کے لئے نہ صرف رہائش کی فراہمی کے ذمہ دار ہیں بلکہ ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔

 

کھانے کا انتظام اس بات کا بھی تقاضہ کرتا تھا کہ مسلمانوں میں تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ حاصل ہو۔ اس مقصد کے لئے طویل مدتی منصوبے کے طور پر باقاعدہ بازاروں اور تجارتی مراکز کا قیام عمل میں آیا جس کی تفصیل آئندہ عنوان کے تحت درج کی جا رہی ہے۔

 

بازاروں اور تجارتی مراکز کا قیام

مدینہ منورہ كى جانب ہجرت کے وقت مدینہ میں تجارت پر یہود کی اجارہ داری تھی اور ان کا اپنا ایک بازار تھا جس کا نام "سوق قینقاع" تھا۔ عقدِ مواخات کے بعد متعدد صحابہ کرام ﷢نے اس بازار کا رخ کیا۔حضرت انس ﷜ فرماتے ہیں:

 

«قدم عبد الرحمن بن عوف المدينة فآخى النبي صلى الله عليه وسلم بينه وبين سعد بن الربيع الأنصاري فعرض عليه أن يناصفه أهله وماله، فقال: عبد الرحمن بارك الله لك في أهلك ومالك دلني على السوق» ([20])

 

عبد الرحمن بن عوف ﷜جب مدینہ آئے، اور آپﷺ نے آپ اور سعد بن ربیع ﷜کے درمیان بھائی چارگی قائم کی، تو حضرت سعد ﷜نے اُسے اپنا مال اور اہل آدھا آدھا کرنے کے لیے پیش کیا۔ عبد الرحمن بن عوف ﷜نے فرمایا: اللہ تعالی آپ کے اہل اور مال میں برکت عطا فرمائے، مجھے تو بازار کا راستہ دکھاؤ۔ (تاکہ میں اپنے لیے خود کماؤں) ۔

 

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ﷜کا اپنے انصاری بھائی سے بازار کا راستہ پوچھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مہاجرین تجارتی امور اور سرگرمیوں میں حصہ لینے سے غافل نہ تھے۔

 

آپ ﷺ نے یہود کی تجارتی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لئے الگ سے بازار کا قیام عمل میں لایا۔ ایک روایت کے مطابق:

 

ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے بازار قائم کرنے کے لئے ایک جگہ دیکھی ہے، کیا آپ ﷺ اسے دیکھنا پسند فرمائیں گے؟ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ پھر اس کے ساتھ اس جگہ تشریف لے گئے اور وہ جگہ اتنی پسند آئی کہ آپ ﷺ نے اپنے پاؤں وہاں پر زور زور سے مارتے ہوئے فرمایا: یہی تمہارا بازار ہے،اب تم کوئی کوتاہی نہ کرنا اور نہ ہی اس پر کوئی ٹیکس مقرر کرنا۔([21])

 

اس روایت سے بلدیاتی حکومت کی درج ذیل ذمہ داریاں سامنے آتی ہیں:

 

1۔نئے بازار قائم کرنا۔

 

2۔ضرورت كے مطابق تاجروں کو اس بازار کے آباد کرنے کی ترغیب دینا۔

 

3۔نئے قائم کردہ بازار میں ٹیکس نہ لگانا۔

 

ان تینوں امور کو دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ حکومت کے لئے یہ کافی نہیں کہ وہ صرف بازار قائم کر دے بلکہ اس پر لازم ہے اس بازار کو آباد کرنے کے لئے تاجروں کو سہولیات بھی فراہم کرے۔ ٹیکس نہ لگانا تاجروں کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں سے ایک اہم سہولت ہے کیونکہ ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے تاجر اس بازار میں بغیر کسی خوف اور ڈر کے تجارتی سرگرمیاں سرانجام دیں گے۔

 

معیاری اشیاء کی فراہمی

انسانی زندگی کا تحفظ مقاصدِ شریعت میں سے بنیادی مقصد ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے اسلام کی تعلیم انتہائی سادہ ہے۔ »المسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ«([22]) کا ارشادِ نبوی تمام دقیق اور گنجلک ابحاث اور فلسفوں کو نہایت مختصر الفاظ میں بیان کردیتا ہے اور زبان اور ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچانے کو اصل ایمان قرار دیتا ہے۔

 

کھانے پینے کی اشیاء کا ملاوٹ سے پاک بالکل خالص صورت میں افراد تک پہنچایاجانا ،تعلیماتِ نبوی ﷺ کا اصل منشا ہے۔ اس بارے میں آنحضرت ﷺ کا طرزِ عمل درج ذیل حدیث سے واضح ہو جاتا ہے:

 

»أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَرَّ عَلَى صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلاً، فَقَالَ: يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ، مَا هَذَا؟، قَالَ: أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ: أَفَلاَ جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا«([23])

 

حضرت ابو ہریرہ ﷜سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے اور اس ڈھیر میں اپنا ہاتھ داخل کیا تو انگلیوں میں نمی کو محسوس کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے غلہ والے! یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس ڈھیر پر بارش پڑ گئی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے اسے غلہ کے اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگ بھی اسے دیکھ لیتے۔ پھر ارشاد فرمایا: دھوکہ دینے والا ہم میں سے نہیں ہے۔

 

اس روایت سے دو امور کا استنباط کیا جا سکتا ہے:

 

1۔بازار میں فروخت کی جانے والی اشیاء کی جانچ پڑتال کرنا درست ہے۔

 

2۔اسلام میں دھوکہ دہی اور فراڈ کرنے کی اجازت بالکل نہیں ہے۔

 

بازار میں اشیاء کی جانچ پڑتال کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اس بارے میں ظاہر سی بات ہے کہ حکومتِ وقت یا اس کی طرف سے مقرر کردہ کوئی فرد ہی اس کا ذمہ دار ہو سکتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی ذاتِ عاليه اپنی حیاتِ مبارکہ میں مسلمانوں کے تمام معاملات میں ذمہ دار تھی اور آپ ﷺ کا بازاروں میں جانا اور وہاں پر فروخت ہونے والی اشیاء کی جانچ پڑتال کرنا بحیثیت حکمران تھا۔موجودہ دور میں یہ ذمہ داری حکومت کی طرف سے مقرر کردہ عامل یا افسر کی ہےکہ بازار میں جائے اور وہاں پر موجود اشیاء کا جائزہ لے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ عوام تک پہنچنے والے اشیائے خوردنی بغیر کسی ملاوٹ کے پہنچ رہی ہیں۔

 

»مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا« کے الفاظ عام ہیں اور اس میں دھوکہ دہی کی تمام صورتیں شامل ہوجاتی ہیں جن میں عیب دار اشیاء کو فروخت کرنا،جھوٹی قسمیں کھا کر فروخت کرنا،عمدہ چیز دکھا کر گھٹیا چیز دے دینا،اشیاء کی معیادی تاریخ (Expiry Date) ختم ہونے پر تاریخ کو مٹا دینا یا اس پر نئی تاریخ لگا کر فروخت کر دینا، ناپ تول میں کمی کر دینا وغیرہ شامل ہیں۔ دھوکہ دہی کی یہ تمام صورتیں ایسی ہیں جن میں سے ہر ایک کے بارے میں قرآن و سنت سے مستقلاً دلائل موجود ہیں۔

 

دوسری بات جس کی طرف اس حدیث میں اشارہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ آیا دھوکہ دہی کے مرتکب شخص کو اس پر کوئی سزا بھی دی جائے گی یا نہیں؟ حدیث اس بارے میں خاموش ہے۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ حاکمِ وقت کو اگر مصالحِ عامہ اور مفادِ عامہ کی رعایت رکھنی ہے تو اسے اس بات کا اختیار بھی ہے کہ وہ دھوکہ دہی سے بچاؤ کی ہر ممکنہ صورت اختیار کرے جس میں فراڈ کرنے والوں کو سزا دینا بھی شامل ہے۔

 

دھوکہ سے بچنے کی کیا صورت ہو گی؟ اس بارے میں آنحضرت ﷺ کی ایک اور حدیث سے رہنمائی ملتی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

«إِذَا تَبَايَعَ الرَّجُلَانِ فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا«([24])

 

جب دو آدمی خرید و فروخت کا معاملہ کریں تو ان میں سے ہر ایک کو اس وقت تک اختیار حاصل ہے جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں۔

 

قیمتوں کو کنٹرول کرنا

بازاروں میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور کمی ہونا ایک لازمی امر ہے جس سے بچنا ممکن نہیں ہے لیکن اگر قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا جائے کہ وہ اشیاء عام شخص کی قوتِ خرید سے باہر ہو جائیں یا مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتوں کو بڑھا دیا جائے تو حکومت اس میں مداخلت کر کے قیمتوں کو مقرر کر سکتی ہے۔ قیمتوں کو مقرر کرنا "تسعیر" مستقل بحث کا متقاضی ہے، یہاں صرف اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ سیرتِ طیبہ میں قیمتوں کو مقرر کرنے کے بارے میں دو طرح کی روایات ملتی ہیں، کچھ روایات میں قیمتوں کو مقرر کرنے کی بظاہر ممانعت معلوم ہوتی ہے جیسے:

 

»غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالُوا:يَا رَسُولَ اللَّهِ!سَعِّرْ لَنَا،فَقَالَ:"إِنَّ اللَّهَ هُوَ المُسَعِّرُ القَابِضُ البَاسِطُ الرَّزَّاقُ وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَطْلُبُنِي بِمَظْلِمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَال«۔([25])

 

نبى ﷺ كے زمانے ميں قيمتيں بڑھ گئيں، صحابه كرام رضى الله عنهم نے كها اے الله كے رسول ﷺ همارے لئے قيمتيں مقرر فرماديں تو رسول الله ﷺ نے فرمايا: يقينا الله تعالى قيمتيں مقرر فرمانے والا هے، تنگى و كشادگى كرنے والا هے،بهت زياده رزق عطاكرنے والا هے، اور ميں اميد كرتا هوں كه ميں اپنے رب سے اس حالت ميں ملوں كے تم ميں سے كوئى بھى ايسا نه هو جو مجھ سے مال اور خون كے ظلم كے بارے ميں طلب كرنے والا هو۔

 

البتہ مصنوعی گرانی کے وقت قیمتیں مقرر کرنے کی طرف روایات میں اشارہ ملتا ہے، جیسےكہ ايك حدیث ميں ہے :

 

»مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ، فَكَانَ لَهُ مَالٌ يَبْلُغُ ثَمَنَ العَبْدِ قُوِّمَ العَبْدُ عَلَيْهِ قِيمَةَ عَدْلٍ، فَأَعْطَى شُرَكَاءَهُ حِصَصَهُمْ، وَعَتَقَ عَلَيْهِ العَبْدُ، وَإِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ«([26])

 

وہ شخص جس نے غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا (تو دیکھا جائے گا)اگر اس کے پاس اتنا مال ہے جو غلام کی قیمت کو کفایت کرجاتا ہے،تو غلام کی قیمت لگوائی جائے گی اور ہر شریک کو اس کے حصے کے بقدر اس مال میں سے قیمت ادا کردی جائے گی اور غلا م آزاد تصور ہوگا وگرنہ غلام صرف اُسی کی جانب سے آزاد ہوگا اور باقیوں کی جانب سے اس کی عبدیت برقرار رہے گی۔

 

درج بالا حدیث میں عتاق کے ایک مسئلہ کی صورت بیان کی گئی ہے۔ وجۂ استدلال یہ ہے کہ روایت میں مالک کو زائد قیمت وصول کرنے کا حق نہیں دیا گیا جو درحقیقت تسعیر ہی ہے۔

 

الغرض اشیائے ضروریہ کا مناسب قیمتوں میں ملنا ہر فرد کا حق ہے، کوئی بھی شخص کسی سے یہ حق نہیں چھین سکتا۔ اگر بازار میں مہنگائی پیدا کر دی جائے تو اس کے اصل اسباب کو جان کر ان کا ازالہ کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ نیز یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ حکومتی سرگرمی کی وجہ سے آئندہ کے لئے بھی گراں فروشی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔چند تاجروں کو نفع پہنچا کر ہزاروں لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرنا کسی بھی طرح قرینِ انصاف نہیں ہے۔البتہ بازاروں میں اگر قدرتی عوامل کی بناء پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس میں مداخلت کرنا درست نہیں لیکن اگر مصنوعی طور پر قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تو اس میں مداخلت کرنا حکومتی فريضہ ہے۔

 

ذخیرہ اندوزی کی ممانعت

مصنوعی گرانی کے عوامل میں سے ایک سبب ذخیرہ اندوزی بھی ہے جس کی شناعت اور ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہے۔احادیث میں ذخیرہ اندوز کو خطاکار کہا گیا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:

 

»لَا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ«([27])

 

ذخیرہ اندوزی صرف خطا کار ہی کرتا ہے۔

 

ایک روایت میں ذخیرہ اندوز ی کرنے والے کے افلاس و غربت اور جذام جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کی وعید مذکور ہے([28])جبکہ ایک اور روایت میں چالیس دن تک ذخیرہ اندوزی کرنے والے سے اللہ کی براءت کا تذکرہ ہے([29])۔ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہیے تاکہ شہریوں کو اس کے نقصانات سے بچایا جا سکے۔

 

پینے کے لیے صاف پانی کا انتظام:

پانی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اس لیے شہری نظام میں اربابِ اختیار کے لیےضروری ہے، کہ وہ لوگوں کے لیے صاف پانی کا انتظام کریں۔ آيت ﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ﴾([30])كے مطابق پانی کو انسانی حیات کی بقا کا اساسی ذریعہ قرار ديا گيا ہے۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آپﷺ نے اہلِ مدینہ کے لیے صاف پانی کی فراہمی کا انتظام کرنے کا ارادہ فرمایا تونظرِ انتخاب مدینہ منورہ میں ایک یہودی کےکنویں پر پڑی جس کا نام "رومہ" تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مدینہ میں صاف اور میٹھے پانی کا واحد ذریعہ یہی کنواں تھا۔آپ ﷺ نے ایک دن فرمایا:

 

»مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ، فَيَكُونُ دَلْوُهُ فِيهَا كَدِلاَءِ المُسْلِمِينَ«([31])

 

بیرِ رومہ کون خرید لے گا؟ (تاکہ پھر وہ اُس کے لیے خاص نہ ہو)، بلکہ دوسرے مسلمان بھی اُس میں برابر کے شریک ہو۔

 

آپﷺ کے کہنے پر حضرت عثمان ﷜نے وہ کنواں بیس ہزار درہم میں خریدلیا، اور نہ صرف مسلمانوں کے پینے کے لیے وقف کردیابلکہ مدینہ کے دیگر باشندوں کو بھی اس سے اپنی ضرورت پوری کرنے کی عام اجازت تھی([32]

 

صرف صاف پانی کی فراہمی تک ہی یہ معاملہ محدود نہیں رہتا بلکہ ایسے انتظامات کرنا کہ پانی کی فراہمی کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہے اور پانی مضرِ صحت بھی نہ بنے، بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ اس مقصد کی غرض سے آپ ﷺ نے پانی کو غلاظت اور گندگی سے پاک رکھنے کی ہدایات بھی دی ہیں۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

 

»لاَ يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي المَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لاَ يَجْرِي«([33])

 

تم میں سے کوئی بھی ٹھہرے ہوئے پانی میں پاخانہ نہ کرے۔

 

ٹھہرے ہوئے پانی میں پاخانہ کی ممانعت کی وجہ بیان کرتے ہوئے ابنِ بطال﷫ لکھتے ہیں:

 

آپ ﷺ نے انھیں ٹھہرے ہوئے پانی میں پاخانہ کرنے پر زجر اس وجہ سے کی ہے کہ کہیں پانی خراب نہ ہو جائے اور لوگوں کی صاف پانی تک رسائی دشوار نہ ہو۔([34])

 

نیز آپ ﷺ نے دیگر ارشادات میں پانی کی فراہمی کی ترغیب دی اور اس کو ان صدقہ جاریہ میں شمار فرمایا جس کا ثواب انسان کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔

 

سیوریج سسٹم:

انسانى طبعی حوائج میں پیشاب پاخانہ کی حاجت بھی شامل ہے ، جس کے لیے ایک کار آمد سیوریج سسٹم کا نظام از حد ضروری ہے تاکہ بول و براز کے تعفن اور اس کی گندگی سے رہائشی آبادیوں کو بچایا جا سکے۔ 

 

سیرتِ طیبہ ﷺ میں قضائے حاجت کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کے دو پہلو ہیں:

 

پہلا پہلو آپ ﷺ کا اس بارے میں ذاتی طرزِ عمل ہے اور دوسرا پہلو وہ آداب وتعلیمات ہیں جو آپ ﷺ نے امتِ مسلمہ کو سکھائے ہیں۔ 

 

اس بارے میں آپ ﷺ کا طرزِ عمل یہ تھا کہ آپ ﷺ قضائے حاجت کی خاطر آبادی سے دور تشریف لے جاتے تھے([35])اور قضائے حاجت کے لئے نرم اور نشیبی زمین کا انتخاب فرماتے تھے([36])۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانی فضلے کو ڈمپ کرنے کا نظام آبادی سے دور ہونا چاہیے نیز ایسی زمین کا انتخاب کرنا چاہیے جس میں ان فضلہ جات کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ قدیم دور میں انسان خود آبادی سے دور جاتا تھا جبکہ آج کے دور میں سیوریج سسٹم کی پائپ لائنز کے ذریعے انسانی فضلے کو آبادی سے دور لے جا کر تلف کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔

 

انسانی آبادی کو اس تعفن و گندگی سے بچانے کے لیے آنحضرت ﷺ نے امتِ مسلمہ کو براہ راست احکامات بھی ارشاد فرمائے ہیں جن میں درج ذیل تین مقامات پر قضائے حاجت نہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں:* راستوں میں۔

  • سایہ دار جگہوں میں۔
  • موارد یعنی ایسی جگہ جہاں پانی کا انتظام ہو اور لوگوں کی آمد و رفت لگی رہتی ہو۔

 

 

 

آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

 

»اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ،قَالُوا:وَمَا اللَّعَّانَانِ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ:"الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ«([37])

 

دو لعنت كا سبب بننے والى چيزوں سے بچو، صحابه كرام ﷢نے كها اے الله كے رسول ﷺ دو لعنت كا سبب بننے والى كيا چيزيں هيں؟ فرمايا: لوگوں كے راستے ميں پيشاب كرنا يا ان كى سايه دار جگهوں ميں پيشاب كرنا۔

 

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

 

»اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ«([38])

 

معاذ بن جبل ﷜سے روايت ہے وه فرماتے هيں رسول ا لله ﷺنے فرمايا: تين لعنت والى جگهوں سے بچو، گھاٹ پر پيشاب كرنا ، راستوں پر اور سايه دار جگه ميں پيشاب كرنا۔

 

لہذا سیوریج سسٹم کی پائپ لائنز بچھانے میں اس بات کو ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے کہ ان کا گزر صاف پانی کے چشموں،نہروں یا پائپ لائنز کے قریب سے نہ ہو کیونکہ سیوریج کے اثرات اس پانی میں منتقل ہونے کے اندیشہ کا خدشہ موجود ہے نیز عام شاہراہوں میں بچھائی جانے والی پائپ لائنز میں بھی اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ ان میں کسی وقتی خرابی کی وجہ سے عام لوگوں کو کسی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

 

شاہراہوں اور راستوں کا انتظام:

ملکی ترقی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب کشادہ سڑکیں اور شاہراہیں ہے۔ جدید دنیا میں مواصلات کی ترقی کی وجہ سے شاہراہوں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ رش اور ازدحام کو ختم کرنے کے لیے مختلف تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ آپﷺ نے مدینہ منورہ کی تعمیر اور ترقی کے لیے راستوں سے رکاوٹیں ختم کرنے کا حکم دیا ، اور لوگوں کو راستوں میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا ۔

 

آپﷺ نے صحابہ کرام ﷢کو ایک مرتبہ فرمایا:

 

کہ جب تمہارا آپس میں راستے پر اختلاف ہو، تو راستے کی چوڑائی سات گز رکھا کرو۔([39])

 

علامہ عینی﷫ فرماتے ہیں:

 

یہ حکم اِس لیے دیا، تاکہ گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔([40])

 

مصروف راستوں کو بند کرنا، اور اُن میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے بھی آپﷺ نے منع فرماتے۔بعض صحابہ کرام﷢ راستوں میں بیٹھتے تھے، آپﷺ نے انہیں منع فرمایا:

 

»إِيَّاكُمْ وَالجُلُوسَ عَلَى الطُّرُقَاتِ«([41]) خبردار!راستوں میں مت بیٹھو۔

 

آپﷺ صحابہ کرام﷢ کو راستوں کو کشادہ اور کار آمد رکھنے کی ترغیب دینے کے لیے اِس عمل کی فضیلت بھی بیان فرماتے تھے، ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:

 

»لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَتَقَلَّبُ فِي الْجَنَّةِ، فِي شَجَرَةٍ قَطَعَهَا مِنْ ظَهْرِ الطَّرِيقِ، كَانَتْ تُؤْذِي النَّاسَ«([42])

 

میں نے جنت میں ایک آدمی کو مزے کرتے ہوئے دیکھا، کیوں کہ اُس نے راستے سے ایسے درخت کو کاٹا تھا، جو لوگوں کی تکلیف کا باعث تھا۔

 

اِس حدیث سے بلدیاتی نظام کا یہ اہم نکتہ بھی ثابت ہوتا ہے، کہ شہر میں جگہ جگہ ناجائز تصرفات پر پابندی ہونی چاہیے، اور ناجائز تصرفات کی صورت میں نہ صرف اُن کو ہٹانا چاہیے بلکہ ایسا کرنے والے افراد کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

 

فقہاء کرام کا اِس بات پر اتفاق ہے، کہ شارعِ عام میں ایسے تصرفات کرنا ناجائز ہے، جو گزرنے والوں کے تکلیف کا سبب بنیں۔ ([43])

 

شہرکی صفائی کا انتظام:

ہر علاقہ میں شہروں کی صفائی کا اہتمام کیا جاتا ہے، بلکہ اِس مقصد کے لیے مستقل مہم چلائی جاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ کے گلی کوچوں کی صفائی کا بھی انتظام کیا ہوا تھا، اور اِس مقصد کے لیے صحابہ کرام ﷢ کو مستقل ترغیب دیا کرتے تھے، بلکہ اِس کو ایمان کا شعبہ قرار دیا۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:

 

»الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ-أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ-شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ«([44])

 

ایمان کے 70 یا كچھ 60 يا كچھ شعبے ہیں۔ سب سے افضل توحید کا اقرار ہے، اور سب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے، اور حیاء بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

 

ابن بطال﷫ فرماتے ہیں:

 

"إماطة الأذى وكل ما يؤذى الناس فى الطرق مأجور عليه"([45])

 

گندگی اور لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث بننے والی ہر چیز کو راستے سے ہٹانا باعثِ اجر ہے۔

 

ایک حدیث میں آپﷺ نے راستوں سے گندگی ہٹانے کو صدقہ قرار دیا ہے۔([46]) ایک مرتبہ ابوبرزہ ﷢نے پوچھا:اے اللہ کے رسول مجھے کوئی نفع بخش عمل سکھائے، تو آپﷺ نے فرمایا:مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹایا کرو۔([47])

 

شہری نظام میں اربابِ اختیار پر لازم ہےکہ وہ راستوں سے ایسی اشیاء جو لوگوں کی تکلیف کا باعث بنے،کوہٹانے کا انتظام کریں۔ بلدیاتی نظام میں اِس مقصد کے لیےمستقل صفائی والے مقرر ہوتے ہیں لیکن رسول اللہﷺ نے اِس کام کے لیے ہر شہری کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے، اور ایسا کرنے کو صدقہ قرار دیا۔ علامہ مناوی﷫ فرماتے ہیں:

 

"وفيه فضل إزالة الأذى من الطريق كشجر وغصن يؤذي وحجر يتعثر به أو قذر أو جيفة وذلك من شعب الإيمان" ([48])

 

اِس حدیث میں راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کی فضیلت ہے، جیسے درخت، تکلیف دہ کانٹا، پتھر جس سے لوگ ٹھوکر کھائیں، گندگی یا مردار۔ اور یہ ایمان کے حصوں میں سے ہے۔

 

نتائج بحث

اِس مقالہ سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں:

 

۱۔عصرِ حاضر میں بنیادی شہری حقوق یا بلدیاتی نظام (میونسپلٹی) کے عنوان سے جو سہولیات حکومت کی ذمہ داری میں شمار کی جاتی ہیں، اُن کی فراہمی اور فروغ عصرِ نبوی ﷺ ہی میں مدینہ منورہ کے قیام کی ساتھ کر دی گئی تھیں۔

 

۲۔مساجد کا قیام اور نظم و نسق حکومت کی اولین فرض منصبی میں سے ہے۔

 

۳۔معاشرے کے تمام افراد میں بلا تفریق مذہب و نسل باہمی تعاون ، بھائی چارہ اور فلاح و بہبود کا فروغ ، کامیاب بلدیاتی نظام کا ضامن ہے۔

 

۴۔نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کے باشندوں کے لیے کھانے ، پینے اور رہائش کا انتظام کرکے ، شہریوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی عملی مثال قائم فرمائی۔

 

۵۔لوگوں کی معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے نئے بازاروں کا قیام بے حد ضروری ہے لیکن ان بازاروں کے قیام سے پہلے ان کے لئے مناسب جگہ کو ڈھونڈا جائے اور پھر اس کو آباد کرنے کے لئے تاجروں کو سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔

 

۶۔پانی کی ضرورت کو پورا کیا جائے تو اس میں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ فراہم کردہ پانی میں گندگی اور نجاست کا حلول نہ ہونے پائے کیونکہ اس سے بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

 

۷۔سیوریج لائنز بچھا کر ان کے گٹر آبادی سے دور بنائے جائیں اور ان کے لئے ایسی جگہ کا بندوبست کیا جائے جہاں پر وہ جذب ہو سکیں تاکہ بدبو اور تعفن فضا میں آلودگی پھیلانے کا باعث نہ بن سکے۔

 

۸۔راستوں اور شاہراؤں کو کشادہ اور صاف رکھنا ، نیز ان سے تجاوزات اور تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے کے لیے سیرتِ طیبہ میں واضح ہدایات دی گئی ہیں ، اور عصر حاضر میں ان تعلیمات کو فروغ دینے سے متعلقہ مسائل کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

 

۹۔دور نبوى ميں انسانى فلاح وبہبود كے تمام كاموں كے انجام دہى كے لئےمساجد كااستعمال ايك طرف سادگى كى طرف اشاره ہے تو دوسرى طرف فلاح وتربيت معاشره كے تمام امور سرانجام دينا عبادت كا درجہ ركھتے ہيں۔

حوالہ جات

  1. (1)www۔lgkp۔gov۔pk ,Retrieved on May 28, 2018
  2. ()ابن ھشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، مکتبہ مصطفی البابی، مصر،۱۳۷۵ھ،۱/۴۹۴
  3. ()ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، دارالکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۰ھ، ۱/۱۸۵
  4. ()زید ان، عبدالکریم، ڈاکٹر، فقہ السیرۃ، دار التدمریۃ، سعودی عرب،۱۴۲۴ھ، ص:۳۳۴
  5. ()ابن تیمیہ، احمد بن عبدالعلیم، مجموع الفتاوی، مجمع الملک فہد، سعودی عرب،۱۴۱۶ھ، ۳۵/۳۹
  6. ()فقہ السیرۃ، ص:۳۴۲
  7. ()ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، دار احیاء التراث العربی، بیروت،۱۴۰۸ھ، ۳/۲۷۸
  8. ()سہیلی، عبدالرحمن بن عبداللہ، الروض الانف، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۲۱ھ، ۴/۱۷۸
  9. ()مثلاً:رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:»لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ« (بخاری، محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحب لاخیہ مایحب لنفسہ، حدیث نمبر:۱۳،تحقیق:محمد زہیر بن ناصر،دار الطوق النجاۃ، ۱۴۲۲ھ)
  10. ()البدایۃ والنہایۃ،۳/۲۷۸
  11. ()السیرۃ النبویۃ، ۱ /۵۰۲-۵۰۴
  12. ()فقہ السیرۃ، ص:۳۵۲
  13. ()السیرۃ النبویۃ، ۱ /۵۰۲- ۵۰۴
  14. ()صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر،باب الحمائل و تعلیق السیف بالعنق،حدیث نمبر:۲۹۰۸،تحقیق:محمد زہیر بن ناصر،2/39
  15. ()الطبقات الکبری، ۱/۱۸۴
  16. ()ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، دار الفکر، بیروت،۱۴۱۵ھ، ۲/۲۸
  17. ()ابن اثیر، علی بن ابو الکرم، اسد الغابۃ، دار الفکر، بیروت،۱۴۰۹ھ، ۲/۴۸۰
  18. ()حلبی،علی بن برہان الدین،سیرۃ حلبیۃ (اردو)،مترجم:مولانا محمد اسلم قاسمی،دارالاشاعت کراچی،مئی، ۲۰۰۹ء،۲/۲۱۶
  19. ()بیہقی،احمد بن حسین،السنن الکبری،کتاب الضحایا،باب صاحب المال لا یمنع المضطرفضلا،حدیث نمبر: ۱۹۶۶۸، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۲۴ھ، ۱۰/۵
  20. ()صحیح بخاری،کتاب المناقب، باب کیف آخی النبیﷺ بین اصحابہ، حدیث نمبر:۳۹۳۷،۵/۶۹
  21. ()طبرانی،سلمان بن احمد بن ایوب،المعجم الکبیر،حدیث نمبر:۵۸۶،باب المیم، الزبیر بن ابی اسید عن ابیہ،تحقیق:حمدی بن عبدالمجید، مکتبہ ابن تیمیہ ،قاہرہ،طبع دوم:۱۹۹۴ء
  22. ()صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ،حدیث نمبر:۱۰
  23. ()ترمذی،محمد بن عیسیٰ، سنن ترمذی،ابواب البیوع، باب ما جاء فی کراہیۃ الغش فی البیوع،حدیث نمبر:۱۳۱۵،تحقیق:بشار عواد معروف،دارالغرب الاسلامی،بیروت،۱۹۹۸ء،قشیری،مسلم بن الحجاج،صحيح مسلم، کتاب الایمان،باب قول النبیﷺ:«من غشنا فليس منا» حدیث نمبر:۱۰۲،تحقیق:محمد فواد عبدالباقی،دار احیاء التراث العربی، بیروت
  24. ()صحیح مسلم، کتاب البیوع، باب ثبوت خیار المجلس للمتبایعین، حدیث نمبر:۱۵۳۱
  25. ()سنن ترمذی، ابواب البیوع، باب ما جاء فی التسعیر، حدیث نمبر:۱۳۱۴۔ایسی روایت مصنف عبد الرزاق میں بھی موجود ہے،صنعانی،عبدالرزاق بن ھمام بن نافع،المصنف،حدیث نمبر:۱۴۸۹۹، کتاب البیوع، باب: ھل یسعر؟،تحقیق:حبیب الرحمن اعظمی،المجلس العلمی،انڈیا،طبع دوم:۱۴۰۳ھ
  26. ()صحيح بخارى،حديث نمبر: ۲۵۲۲
  27. ()صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب تحریم الاحتکار فی الاقوات،حدیث نمبر: ۱۶۰۵
  28. ()»مَنِ احْتَكَرَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ طَعَامَهُمْ،ضَرَبَهُ اللهُ بِالْإِفْلاسِ،أَوْ بِجُذَامٍ«احمد بن حنبل،مسند احمد، مسند عمر بن الخطاب،حدیث نمبر:۱۳۵،مسند الخلفاء الراشدین،تحقیق:شعیب ارنوؤط،مؤسسۃ الرسالۃ بیروت،طبع اول: ۲۰۰۱ء
  29. ()مسند احمد،مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند عبداللہ بن عمر،حدیث نمبر:۴۸۸۰
  30. ()سورةالانبیاء:30
  31. ()صحیح بخاری، کتاب المساقاۃ، باب فی الشرب، ۳/۱۰۹
  32. ()حلبی، علی بن ابراہیم، السیرۃ الحلبیۃ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۲۷ھ، ۲/۱۰۴
  33. ()صحیح بخاری،کتاب الوضوء،باب البول فی الماء الدائم،حدیث نمبر:239،۱/۵۷
  34. ()ابن بطال،علی بن خلف،تحقیق:ابو تميم ياسر بن ابراہيم،مكتبۃ الرشد،السعوديۃ،رياض،طبع دوم:2003ء، ۱/۳۵۳
  35. ()دیکھیے: ابوداود، سليمان بن اشعث،سنن ابو داود، کتاب الطھارۃ،باب التخلی عند الخلاء،حدیث نمبر:۲،تحقیق:محمد محیی الدين عبد الحميد،المكتبۃ العصريۃ، صيدا،بيروت
  36. ()»إِنِّي كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ فَأَرَادَ أَنْ يَبُولَ،فَأَتَى دَمِثًا فِي أَصْلِ جِدَارٍ فَبَالَ،ثُمَّ قَالَ ﷺ:"إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَبُولَ فَلْيَرْتَدْ لِبَوْلِهِ مَوْضِعًا«۔( سنن ابو داؤد،کتاب الطھارۃ،باب الرجل یتبوأ لبولہ،حدیث نمبر:۳)
  37. ()صحیح مسلم،کتاب الطھارۃ،باب النھی عن التخلی فى الطرق والظلال،حدیث نمبر:۲۶۹
  38. ()سنن ابو داود، کتاب الطھارۃ، باب المواضع التی نھی النبی ﷺ عن البول فیہا، حدیث نمبر:۲۶
  39. ()صحیح بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب اذا اختلفوا فی الطریق المیتاء، حدیث نمبر: ۲۴۷۳
  40. ()عينى،محمود بن احمد، عمدۃ القاری،دار احياء التراث العربی ،بيروت،۱۳/۲۴
  41. ()صحیح بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب افنیۃ الدور والجلوس فیھا،حدیث نمبر:۲۴۶۵، ۳/۱۶۵
  42. ()صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل ازالۃ الاذی عن الطریق،حدیث نمبر:۱۹۱۴
  43. ()الموسوعۃ الفقھیۃ الکويتیۃ، دارالسلاسل، کویت،۱۴۰۴ھ، ۲۸/۳۵۰
  44. ()صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب شعب الایمان ، حدیث نمبر:۳۵، ۱/۶۳
  45. ()ابن بطال، علی بن خلف، شرح صحیح البخاری، مکتبۃ الرشد، سعودی عرب،۱۴۲۳ھ، ۶ /۶۰۰
  46. ()صحیح بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب اماطۃ الاذی، ۳/۱۳۳
  47. ()ابن ماجہ،محمد بن یزید قزوینی،سنن ابن ماجہ،کتاب الادب،باب اماطۃ الاذی عن الطریق،حدیث نمبر:۳۶۸۱،دار احیاء التراث العربی، بیروت،۲/۴۹۱
  48. ()مناوی، زین الدین محمد عبدالروف، فتح القدیر شرح الجامع الصغیر، المکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر،۱۳۵۶ھ، ۵/۲۷۹
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...