Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Basirah > Volume 7 Issue 1 of Al-Basirah

فتح مکہ میں آنحضرت ﷺ کی حربی حکمت عملی |
Al-Basirah
Al-Basirah

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

جنگی حکمت عملی سے مراد دشمن کے مقابلے میں فتح کو یقینی بنانے اور شکست کے اسباب کو کلیتًاختم کرنے کے لئے اقتصادی، نفسیاتی اور خالص فوجی بنیادوں پروضع کی گئی ایسی منصوبہ بندی اور طریقہ کار ہےجو حالتِ خوف و امن ہر دو حالتوں میں قابل عمل ہو۔([1])

 

آنحضرتﷺرحمۃللعالمین ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت کے منبع بھی تھے۔ہر جنگ میں آپﷺکی جنگی حکمت عملی بہترین اور بے مثال ہوتی تھی ۔ آپﷺکی فتح کا راز شخصی شجاعت، بے مثال اعصابی قوت اور حربی مہارت تھی۔آپ ﷺ نے میدان جنگ میں انتہائی منصوبہ بندی، حکمت عملیوں اوربہترین حربی صلاحیتوں سے دشمنوں کا مقابلہ کیا۔آپ ﷺ نے جنگوں میں دشمن کیخلاف جس بہادری کا مظاہرہ کیا تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ ﷺنے تلوار صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور دین اسلام کی ترویج و اشاعت کیلئے اٹھائی۔

 

آپﷺکی حربی زندگی میں بہترین حکمت عملیاں وہ ہیں جو آپﷺنے مکہ فتح کرنے کے لئے اختیار کیں۔ فتح مکہ میں آپﷺنےاپنی عسکری طاقت کو اتنا مضبوط کردیاکہ دشمن ہیبت سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ ہتھیار اٹھانے کی جرأت نہ کرسکے ۔آپﷺکی بہترین حربی حکمت عملیوں اور تدابیر نے ہی اہل مکہ کو بغیر کسی خون ريزی کےہتھيار ڈال دينےپرمجبورکرديا ۔ یہ تاريخِ اسلامی کا پہلا واقعہ ہے جس میں مکہ کے اندر دس ہزار مجاہد حضرت محمدﷺ کی قيادت ميں بھرپورعسکری تياری کےساتھ داخل ہوتے ہيں اور وہ بغیر کسی بڑے نقصان کے فتح حاصل کرتے ہیں ۔مکہ کو فتح کرنے کے بعدآپﷺاپنے بدترین دشمنوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں۔ فتح مکہ میں آپﷺکا حربی کردارہر لحاظ سے برتر، امن پسند، خون ریزی سے نفرت، دور اندیش، محتاط اور انسان کے خیر خواہ کے طور پر نظر آئے گا۔

 

فتح مکہ کا پس منظر

حدیبیہ کے مقام پر قریش مکہ اور مسلمانوں کے درمیان دس سال کے لئے صلح کا معاہدہ طے پایا۔اس کی دیگر شرائط کے علاوہ ایک شرط یہ تھی کہ عرب کے دیگر قبائل کو اجازت دی گئی کہ وہ جس فریق کے ساتھ چاہیں دوستی کا معاہدہ کر سکتے ہیں۔چنانچہ بنوبکرنےقريش کےساتھ اوربنوخزاعہ نےنبی اکرمﷺکےساتھ دوستی کا معاہدہ کرليا۔بنوبكراوربنوخزاعه کے درمیان پرانی دشمنی چلی آرہی تھی۔بنوبکر نے بنوخزاعه سے اپنا بدلہ لینے کے لئے ان پررات کےوقت حملہ کیااوران کے کئی آدمی مار دیئے۔([2])اس طرح صلح حدیبیہ کے بائیس مہینے بعدقریش نے معاہدے کی خلاف ورزی کر دی ۔اس زيادتی کے بعد بنی خزاعہ کے لوگ آپﷺکے پاس مدینہ میں فریاد لے کر پہنچے۔آپﷺنے ان سے مدد کا وعدہ کیا ۔([3]) آپﷺ نے اپنے قاصد کو مکہ والوں کی طرف روانہ کيا اور تین شرطیں پیش فرمائیں کہ ان میں سے کوئی ایک شرط قریش قبول کر لیں ۔قریش مکہ نےحدیبیہ کا معاہدہ توڑنےوالی شرط مان لی ۔ قاصد کے چلے جانے کے بعد قریش مکہ کو اپنے عمل پر ندامت ہوئی اور وہ اپنی غلطی پر خوف زدہ ہوئے۔قریش مکہ نے معاہدے کی تجدید کےلئےحضرت ابو سفیان﷜ کوآپﷺکے پاس مدینہ بھیجا۔مگر آپﷺ نے ان کی درخواست کو قبول نہیں کیا۔([4])

 

آپﷺنے ابوسفیان کےمکہ جانے کے بعد رازداری کے ساتھ جنگ کی تیاری شروع کر دی اور فوج کی روانگی قريش سے پوشیدہ رکھی۔ اس لیے آپ ﷺچاہتے تھے کہ مکہ والوں کو آپ ﷺکی آمد کا پتہ نہ چلے اورآپ ﷺ اچانک ان پر حملہ کر ديں۔

 

آپﷺدس رمضان المبارک آٹھ ہجری کو اپنےدس ہزارسپاہیوں([5])کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے، نامعلوم اور غیرمعروف راستوں سے گزرتے ہوئے فوراً مرالظہران([6])کے مقام پر پہنچ گئے اور اپنی فوج کے ہر سپاہی کو الگ الگ آگ روشن کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح آگ سے تمام صحرا روشن ہو گيا۔([7])قریش کو رات کے وقت آگ کی روشنی سے پتا چلا کہ کوئی لشکر ان کے سر پر پہنچ چکا ہے ۔انہوں نےحضرت ابو سفیان بن حرب اور حکیم بن حزام﷜([8])کو خبریں معلوم کرنے کے لئے روانہ کیا، راستے میں انہیں بدیل بن ورقاء﷜([9])بھی مل گئے۔جب یہ تینوں مرالظہران کے قریب پہنچے تو انہوں نے میلوں تک آگ ہی آگ دیکھی۔([10]) یہ منظر دیکھ کر یہ تینوں پریشان ہوگئے اور وہ آپس میں لشکر کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے۔حضرت عباس ﷜نے ان کی آوازیں پہچان لیں اور انہیں رسول اکرمﷺ کےلشکر کےبارے میں بتایا ۔حضرت عباس ﷜ حضرت ابو سفیان﷜ کورسول کریمﷺکی خدمت میں امان طلب کرنے کے لئے لے گئے۔ حضرت ابو سفیان﷜ نے اسلام قبول کر لیا۔([11]) اسلامی لشکر کو مکہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دینے سے پہلے آپﷺنےمکہ والوں کے لئےامان کے مقام مقرر کیے۔([12])

 

بیس رمضان آٹھ ہجری ذی طوی([13])کے مقام پر آپﷺنے لشکر کی تقسیم و ترتیب فرمائی اور لشکر کو چار حصوں میں تقسیم فرمایا ۔آپ ﷺ نے اپنے سالاروں کو مکہ میں ہتھیار استعمال کرنے سے منع کیا اورسوائے چندلوگوں کے کسی شخص کوبھی قتل نہ کرنے کا حکم دیا ۔([14])خالد بن ولید﷜ کی فوج کے سوا تمام لشکر بغیر مزاحمت کے شہر میں داخل ہوئے۔ خالد بن الولید ﷜کوخندمہ([15])کے مقام پر قریش کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑااور دونوں فوجوں کے درمیان لڑائی ہوئی ۔قریش کو شکست ہوئی اور یہ لوگ بھاگ گئے۔ اس لڑائی میں دو مسلمان شہید ہوئے([16])۔مشرکین کے بارہ یا تیرہ آدمی مارے گئے([17])۔بیس رمضان آٹھ ہجری کورسول اکرمﷺ نے مکہ فتح کر لیا۔آپﷺسوره فتح کی تلاوت کرتے ہوئے مسجد حرام کے اندر داخل ہوئے۔آپﷺنے حجر اسود کوبوسہ دیا اور بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپﷺنے بیت اللہ کوبتوں سے پاک کرنے کے بعدخانہ کعبہ میں موجود حضرت ابراہیم ﷤ اورحضرت اسمٰعیل﷤ کی تصویروں کو مٹا دیااور نماز ادا فرمائی۔([18])پھراس کےبعدآپ ﷺنے اہل مکہ کو ایک بلیغ خطبہ دیا، جس میں بہت سے شرعی احکام، اخلاقی نصیحتیں، امورِ جاہلیت کا خاتمہ اوراسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد کی زندگی میں فرق کو بیان کیا ۔([19])خطبے کے بعد آپﷺنے سوائے گيارہ مردوں اور چار عورتوں کے سب لوگوں کو معاف کر دیا۔([20]) فتح مکہ سےمکہ والوں پر حق واضح ہو گیا۔وہ اس حقیقت کو جان گئے کہ اسلام کے سوا کوئی کامیابی کی راہ نہيں۔اس ليے وہ اسلام لانے کے لئے آپ ﷺکے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کے لئے جمع ہو گئے ۔آپ ﷺ نے کوہ صفا پر چڑھ کران سے بیعت لی۔ آپ ﷺ نے مکہ میں پندرہ([21])یا انیس([22])دن قیام کیا۔آپ ﷺ نے مکہ کا نظم و نسق اور انتظام چلانے کے لئے حضرت عتاب بن اسید﷜ ([23]) کو مکہ کا عامل بنایا جو لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے اور حضرت معاذ بن جبل ﷜ کونو مسلموں کو مسائل و احکامِ اسلام کی تعلیم دینے کے لئے مامور فرمایا۔([24])

 

یہ ایک ایسی عظیم الشان فتح تھی جس نے لوگوں کو اسلام کے قریب کر دیااور اس فتح کے بعد عرب کے دینی اور سیاسی میدان میں مسلمانوں کو مقبولیت حاصل ہوئی۔اس کے بعد عرب کے قبائل کے لوگ قریش کے بجائے مسلمانوں کو عرب کی سب سے بڑی سیاسی اور مذہبی طاقت سمجھنے لگےاور وہ آپﷺکی قیادت میں ایک قوم بن گئے۔

 

فتح مکہ میں آنحضرتﷺکی حربی حکمت عملی

میدانِ جنگ میں اترنے سے پہلے ایک کامیاب سپہ سالار ایسی حکمت عملی اپناتا ہے جس سے کم وسائل کے ساتھ مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں۔ اگر جنگی حکمت عملی معیاری نہ ہو توسپہ سالار کے اوصاف و کمالات اور فوج کی بہترین تربیت بے اثر ہو جاتی ہے۔جنگی حکمت عملی سے ہی سپہ سالار کی صلاحیتیں اور فوج کی قوت کھل کر سامنے آتی ہےاور ان کو نتیجہ خیز بناتی ہے۔بعض اوقات اعلی ترین حکمت عملی فوج کی بڑی بڑی غلطیوں کو چھپا دیتی ہے اور اسی جنگی حکمت عملی سے وہ کامیاب ہوتے ہیں۔آپﷺکی ہر جنگ میں حربی حکمت عملی ہر طرح سے بہترین اور بے مثل ہوا کرتی تھی ۔آپ ﷺ نے جتنی لڑائیاں لڑیں، ان میں آپﷺنےشرکت سے پہلے اپنے محدود وسائل کے ساتھ بھرپور انتظامات کیےاور جنگوں کی ایسی منصوبہ بندی کی کہ قلت کے باوجود کثرت پر فتح حاصل کر لی ۔فتح مکہ میں آپﷺ نےجوحربی حکمت عملی اورتدابیر اختیار کیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

 

رازداری

جنگ میں کامیابی کے حصول کے لئے رازداری کے اصول کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ عصر حاضرمیں ہر ملک کو اپنے ارادوں کے بارے میں رازداری کا خاص انتظام کرنا چاہیئے، کیونکہ اپنے ارادےکوخفیہ رکھنے کی وجہ سے ہی ان کے مخالفین تک ان کےارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے تک کوئی خبر نہیں پہنچ سکےگی۔

 

عبدالرحمن کیلانی﷫([25])رازداری کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

”رازداری کی اہمیت یہ ہے کہ بعض دفعہ محض ایک راز لیک آ‎‎ؤٹ ہو جانے سے جنگ کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے اورلینے کے دینے پڑجاتے ہیں۔“ ([26])

 

رسول اکرم ﷺنے چودہ سو سال پہلے اس اصول کو اپنایا۔فتح مکہ میں بھی آپﷺنےرازداری کا خاص اہتمام کیا۔آپﷺنےفتح مکہ میں تمام امور کو مکمل طور پرخفیہ رکھااور ساری کاروائی رازداری سے مکمل کی تاکہ دشمن کی متوقع کاروائی کا بروقت توڑ تیار نہ کر لے۔آپﷺنے قریش کی وعدہ خلافی کی وجہ سے مکہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو اس چیز کا خاص خیال رکھا کہ کسی کو آپﷺکے ارادے کا علم نہ ہو سکے۔آپ ﷺنے جنگ کے لئے سامان تیار کرنے کا حکم دیالیکن آپﷺکے اکابر صحابہ کرام﷢ اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو بھی اس بات کا علم نہیں تھا کہ آپﷺ کا ارادہ کس طرف جانے کا ہے۔اس چیز کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب حضرت عائشہ﷞ آپﷺ کے سامان کی تیاری کررہیں تھیں توحضرت ابوبکرصدیق ﷜ آئے اورحضرت عائشہ﷞سےاس کے بارے میں پوچھا ۔حضرت عائشہ﷞ نے انہیں یہ جواب دیا:

 

«وَاللّهِ مَا أَدْرِي»([27])

 

اللہ کی قسم مجھے یہ معلوم نہیں ہے۔

 

حضرت عائشہ ﷞نے لاعلمی اس لئے ظاہر کی کیونکہ وہ خود اس بات سے بے خبر تھیں کہ آپﷺنےکن کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے۔نبی اکرم ﷺنے مدینہ سے مکہ کی طرف نکلتے وقت یہ دعا فرمائی:

 

«اللّهُمّ خُذْ عَلَى قُرَيْشٍ الْأَخْبَارَ وَالْعُيُونَ حَتّى نَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً»([28])

 

اے باری تعالی! آنکھوں اور خبروں کو قریش سے پکڑ لے یعنی نہ قریش کو ہماری تیاری کی خبر ہو اور نہ ہماری تیاری کو دیکھ سکیں۔

 

رسول اکرمﷺنےیہ الفاظ اس لئے ادا فرمائےکیونکہ آپﷺچاہتے تھے کہ آپﷺکی مکہ کی طرف روانگی کی خبر قریش مکہ کو نہ ملے اور آپﷺمکہ کوبغیر خونریزی کے فتح کر لیں۔

 

رسول اکرمﷺکی رازداری کا یہ عالم تھا کہ آپﷺنے بارہ صحابہ کرام ﷢ ([29])کو اپنے حلیف قبائل کی طرف جنگ کی تیاری کی اطلاع دینے کے لئےروانہ فرمایا۔([30])

 

آپﷺنےاپنے حلیف قبائل کی طرف اتنی رازداری سے اپنے خفیہ پیغامات بھیجے کہ دوسرےمسلمانوں کو بھی اس کی خبر نہیں تھی۔آپﷺنے اپنے حلیف قبائل کویہ نہیں بتایا کہ کن کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ ہے، اورساتھ ہى انھيں راستے میں اپنے ساتھ شامل ہونے کا حکم دیا۔آپﷺنےراستوں کی نگرانی کا کام حضرت عمر﷜ کے سپرد کیا، جنہوں نےمدینہ کے آس پاس اور مکہ کے راستےمیں اپنے محافظ کھڑے کر دئیے۔محافظ کسی بھی مشکوک آدمی کو مکہ کی طرف سفر نہیں کرنے دیتے تھے۔اس وجہ سےقریشِ مکہ کو آپﷺکی نقل وحرکت کا علم نہ ہوسکا۔([31]) آپﷺنے مکہ کی طرف جانےکا پروگرام اتنا خفیہ رکھا کہ کسی کو اس کا پتا ہی نہ چل سکا۔حاطب بن ابی بلتعہ﷜ ([32])نےرسول اکرمﷺکی مکہ آمد کی اطلاع ایک عورت کے ذریعےقریش کو بھیج دی ۔حضرت علی﷜، حضرت مقداد ﷜ ([33])، حضرت زبیر﷜اور حضرت ابو مرثد غنوی﷜ ([34])کی مؤثر ناکہ بندی کے ذریعے وہ عورت راستے میں پکڑی گئی۔([35])

 

نبی اکرم ﷺنے مکہ کی طرف اپنی روانگی کی خبر کو قريش سے پوشیدہ رکھنے کے لئے ایک اور اقدام کیا کہ رمضان آٹھ ہجری کے شروع میں بطن اضم([36])کی طرف ابو قتادہ ربعی﷜ ([37])کے زیر قیادت ايک سريہ روانہ کیا ۔ ان کو بھيجنے کا مقصد یہ تھاکہ لوگ یہ گمان کريں کہ آپﷺ مکہ کے بجائےاس علاقے کی طرف رخ کريں گے ۔ اس کے بارے میں صفی الرحمن مبارکپوری یوں لکھتے ہیں:

 

"وزيادة في الإخفاء والتعمية بعث رسول الله ﷺ سرية قوامها ثمانية رجال، تحت قيادة أبي قتادة بن رِبْعِي، إلى بطن إضَم، فيما بين ذي خَشَب وذي المروة، على ثلاثة بُرُد من المدينة، في أول شهر رمضان سنة 8 هـ ؛ ليظن الظان أنه ﷺ يتوجه إلى تلك الناحية، ولتذهب بذلك الأخبار" ([38])

 

پھرکمال اخفاء اور رازداری کی غرض سے رسول اللہ ﷺنے شروع ماہ رمضان آٹھ ہجری میں حضرت ابو قتادہ بن ربعی﷜ کی قیادت میں آٹھ آدمیوں کا ایک سریہ بطن اضم کی طرف روانہ کیا، یہ مقام ذی خشب اور ذی المروۃ کے درمیان مدینہ سے تقریبا چھتیس میل کے فاصلےپر واقع ہے ۔اس کا مقصد یہ تھا کہ سمجھنے والے سمجھيں کہ آپﷺاسی علاقے کا رخ کریں گےاور یہیں خبریں ادھر ادھر پھیلیں۔

 

قریش سے مکہ کی طرف اپنی آمد کو خفیہ رکھنے کے لئے آپﷺلشکر کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف جنوب جانے کے بجائے شمال کی جانب روانہ ہوئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپﷺشام کی طرف حملہ کرنے جارہے ہیں۔ راستے میں آپﷺ اپنے حلیف قبائل کو ساتھ لے کرسمت بدلتے بدلتےاورغیر معروف اور نامعلوم راستوں سے ہوتے ہوئے مکہ کے قریب پہنچ گئے۔آپﷺدس ہزار کا لشکر لے کر نہایت رازداری سے مرالظہران کے مقام تک پہنچ گئے ([39])اور قریش کو اسلامی لشکر کی روانگی کا علم ہی نہ ہوسکا۔

 

موجودہ دور میں رازداری کا انتظام کرنا ہر ملک کے لئے ضروری ہو گیا ہے۔جس طرح آپﷺنے فتح مکہ میں اپنے منصوبوں کو مخفی رکھا اور ہر مرحلہ پر مکمل رازداری سے کام لیا ۔اسی طرح ہر سپہ سالار کورازداری کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

 

معلومات کا حصول

جنگ میں ایک سپہ سالار کی بہترین حربی حکمتِ عملی یہ ہونی چاہیئے کہ اسے دشمن کی نقل و حرکت، تعداد اور ارادوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہو۔ کوئی بھی ملک خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، اسے دشمن سےباخبر اور چوکنا رہنا پڑتا ہے اور اس کام کیلئے ضروری ہوتاہے کہ دشمن کےہر کام سےباخبر رہا جائےکیونکہ دشمن کی جنگی صلاحیت سے باخبر ہوکر اور اپنی قوت میں اضافہ کی بدولت دشمن ملک کے خطرناک عزائم کو ناکام بنایا جا سکتاہےاور انہیں آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے۔ہر ملک کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان کا دشمن ان کے حالات اورنقل و حرکت سے بے خبر رہے۔ عبدالرحمن کیلانی﷫ اس کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:

 

”جس طرح دشمن کی نقل وحرکت اور اس کے حالات سے آگاہ رہنا ضروری ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اپنے حالات اور نقل وحرکت سے دشمن کو حتی الوسع بے خبر رکھا جائے ۔لہذا ایسے"فوجی راز"سوائے گنتی کے چند مشیروں اور معتمد خاص کے کسی کو معلوم نہيں ہونے چاہیے۔“ ([40])

 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کی ہر بات کی خبر رکھنی چاہیئے اور اپنی خبروں سے اسےبے خبر رکھنا چاہیئے۔ رسول کریمﷺمندرجہ ذیل طریقوں سےاپنے دشمنوں کی معلومات حاصل کرتے تھے:

 

ا۔ جنگی طلایہ گرد دستوں کے ذریعے۔

 

ب۔جاسوسوں کے واسطے سے۔

 

ج۔شخصی اطلاعوں سے۔

 

د۔قیدیوں سے۔

 

ه۔عقلمند لوگوں سے مشورہ کے ذریعے۔([41])

 

فتح مکہ کی مہم میں رسول کریمﷺنے جنگی طلایہ گرد دستوں اورشخصی اطلاعوں کے ذریعے قریش مکہ کی معلومات حاصل کیں۔ آپﷺ قریش کی عہد شکنی کی تمام معلومات بنوخزاعہ کے دووفودعمرو بن سالم بن کلثوم خزاعی([42])کے وفد اور بدیل بن ورقا‏ء خزا‏عی ﷜کےوفدسے سن چکے تھے([43])اور آپﷺکو ان لوگوں کے ذریعےاس بات کا علم ہو چکا تھا کہ قریش مکہ اس حملے کے بارے میں لاعلم ہیں۔آپﷺنے قریش مکہ کی معلومات کے حصول کے لئے حضرت عمر﷜کی نگرانی میں جنگی طلایہ گرد دستے مقرر کئے ہوئے تھے ۔ابو سفیا ن کی حضرت عباس﷜کےساتھ رسول اکرمﷺکی خدمت میں آمد کی اطلاع حضرت عمر﷜نےآکررسول اکرمﷺکو دی۔ ان ذرائع کے ذریعے آپﷺ کوقریش مکہ کی اطلاعیں بالکل صحیح وقت پہ مل جاتی تھیں۔

 

قریش مکہ کو مسلمانوں کے بارے میں کوئی اطلاع مہیا نہ ہو سکی۔ حضرت ابو سفیان﷜ نے بہت کوشش کی کہ رسول اکرمﷺکے ارادوں کے بارے میں اپنی بیٹی حضرت ام حبیبہ ﷞سے معلومات حاصل کر سکیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔پھر حضرت ابو سفیان﷜ نے مدینہ کے مسلمانوں سے معلومات حاصل کرنی چاہيں لیکن انہیں کچھ معلومات حاصل نہ ہو سکيں۔مدینہ سے مکہ کے راستےمیں حضرت ابو سفیان﷜ کی بنوخزاعه کے وفد سے ملاقات ہوئی اور حضرت ابو سفیان﷜ نےان سے مسلمانوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہی لیکن انہوں نے حضرت ابو سفیان﷜ کے سامنے جھوٹ بولا کہ وہ مدینہ نہیں گئے تھے۔([44]) اس طرح قریش مکہ مکمل طور پر اندھیرے میں رہے اور انہیں مدینے والوں کی کوئی اطلاع نہیں مل سکی۔یہاں تک کہ آپﷺتین سو میل کا فاصلہ طے کر کے ان کے سر پر پہنچ گئے اور قریش کو خبر ہی نہ ہو سکی۔اسلامی فوج کے کیمپ کی روشنیاں اور آگ دیکھ کر انہیں پتا چلا کہ کوئی لشکر ان کے سر پر پہنچ چکا ہے اور ان سے مقابلہ کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔

 

فتح مکہ میں جس طرح آپﷺنےاپنی خبروں سے دشمن کو بے خبر رکھا اور دشمن کی خبروں سے خود آگاہ رہے۔ اسی طرح عصر حاضر میں ہرمسلمان ملک کو اپنے دشمنوں کی خبروں کو حاصل کرنے کا مؤثر انتظام کرنا چاہیے تاکہ کوئی ملک بے خبری میں بھاری نقصان نہ اٹھا لے۔

 

سریع الحرکت فوج

ایک سپہ سالار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے لشکر کی نقل و حرکت کواتنا تیز رکھے کہ وہ اپنی منزل مقصود میں بہت تیزی کے ساتھ پہنچ سکےاور اس کے دشمن کو اس کی نقل و حرکت کا علم ہی نہ ہو سکے۔موجودہ دور میں ہر ملک نےانتہائی سریع الحرکت فورسزکو متعین کیا ہوا ہے، تاکہ جلدی دشمن کے خطرات اور چالوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔رسول کریمﷺ نےاس اصول کو ہمیشہ مد نظر رکھا اور مسلمان فوجیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تیزی سے حرکت کرتی تھیں اور اپنی منزل مقصود پر مناسب وقت پر پہنچتی تھیں۔اس طرح دشمن کی تیاریاں مکمل ہونے سے پہلے اور اپنے ارادے میں کامیاب ہونے سے پہلے ہی ان کی سرکشی کو ختم کر دیا جاتا تھا۔آپﷺکی فوج کی نقل و حرکت بے حد سریع تھی ۔آپﷺاپنی افواج کی نقل و حرکت مناسب وقت پر کرواتےاور ان سے مناسب جگہ پر پہنچ کر صحیح عمل کرواتے۔اسی لئےمسلمانوں نے ہمیشہ کامیابی حاصل کی۔([45]) اس کے بارے میں ڈاکٹرخالد علوی یوں بیان کرتے ہیں:

 

”رسول اللہﷺ کی قوت، مرونت اور آپﷺکی فوج کی نقل و حرکت بے حد سریع تھی۔ایسی تیزی جو اس زمانے کے نہایت طاقتور لشکر کی تیز رفتاری سے کم نہیں ہے۔“ ([46])

 

فتح مکہ کی مہم میں رسول اکرمﷺنےاسی بہترین حربی حکمت عملی سے فائدہ اٹھایا۔آپﷺمکہ کی طرف دس رمضان المبارک آٹھ ہجری بدھ کے دن عصر کے بعد مدینہ سے روانہ ہوئے۔([47]) آپﷺ اپنی فوج کو اتنی تیزی سے حرکت میں لاتے ہوئے بغیر کسی توقف کے طائف کی وادی عرج کے راستے سےہوتے ہوئےکدید([48])، جحفہ([49])، ذی الحلیفہ، ابواء([50])، قدید([51])کے علاقوں سےتیزی سے گزرتے ہوئے مکہ کی طرف بڑھتےرہے۔ یہاں تک کہ مدینہ سے مکہ کا راستہ تقریباایک ہفتہ میں طے کر کےرات کے وقت مکہ سے بائیس کلومیٹر شمال کی جانب مرالظہران پہنچ کر وہیں خیمہ زن ہوگئے۔

 

آپﷺ اپنی سریع الحرکت فوج کے ساتھ دشمن کے سر پر پہنچ گئے اور انہیں پتا ہی نہ چل سکا۔ آپ ﷺاپنی فوج کے ساتھ سترہ رمضان المبارک کومرالظہران سے مکہ کی طرف روانہ ہوئےاوربیس رمضان آٹھ ہجری کو مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہو گئے۔ آپﷺكى فتح مکہ میں اسلامی فوج کی سریع الحرکت حکمت عملی کی بدولت قریش مکہ کو موقع ہی نہیں مل سکا کہ وہ اپنے حلیفوں سے رابطہ کرکے ان سے مدد حاصل کر سکیں ۔

 

عصر حاضر میں ایک مسلم سپہ سالار کے لئے ضروری ہوگیاہے کہ وہ اپنی جنگی قوت کی نقل و حرکت کو اتنا تیز رکھے کہ وہ اپنی منزل مقصود پر بغیر کسی دشواری اور رکاوٹ کے پہنچ جائیں۔

 

نظم و ضبط

حربی امور میں نظم وضبط کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ اگر جنگ میں نظم وضبط کا مظاہرہ نہ کیا جائے تو افراتفری اور غلط نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سپہ سالارکوکامیابی حاصل کرنے کے لئے جنگی کاموں میں نظم و ضبط اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔لہذا اسے عقل و بصیرت اورمنظم طریقے سے نیز اپنے اختیار میں جو وسائل و ذرائع ہیں انہیں مدنظر رکھتے ہوئے، صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے اہداف کی جانب قدم بڑھانا چاہیے۔ محمد یسین سروہی فوج میں نظم و ضبط کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

”نظم و ضبط ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے بغیر کوئی لڑائی نہیں لڑی جا سکتی ۔“ ([52])

 

آپﷺنےفتح مکہ میں فوج کے نظم و ضبط کا خاص خیال رکھا۔فتح مکہ میں مسلمانوں کے لشکر کی تعداد دس ہزار تھی اور ان کا تعلق مختلف قبائل ([53])سے تھا ۔ ان سب لوگوں کے درمیان اتحاد تھا اور ان کا مقصد ایک تھا، اسی لئے کفار کو ان سے مقابلے کی جرأت نہ ہو سکی۔آپ ﷺنے تمام قبائل کی فوجوں کو حکم جاری کیا کہ وہ بغیر کسی نقصان اور خون ریزی کے جبل ہند پر پہنچیں۔تمام فوج آپﷺکےحکم پر عمل کرتے ہوئے جبل ہند کے مقام پر اکٹھی ہو گئى اور سارے مکہ کو محاصرے میں لے لیا ([54]

 

فتح مکہ میں فوج نےنظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اور کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح موجودہ دور میں فوج کے اندر نظم ضبط ہونا چاہیے تاکہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں۔

 

راستوں کو کنٹرول کرنے کے لیے چیک پوسٹ

ہر ملک میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے جاتے ہیں اور ملک کے داخلی اور خارجی راستوں پر، اہم مقامات اور چوراہوں پر فوجی اہلکاروں، رینجرز اور پولیس کی مشترکہ ٹیموں پر مشتمل اہلکاروں کی چیک پوسٹیں قائم کی جاتیں ہیں، کیونکہ ان چیک پوسٹوں سے ملک میں داخل ہونے والوں کی چھان بین کرنا آسان ہو جاتا ہے۔آپﷺ نے فتح مکہ میں راستوں کو کنٹرول کرنے کے لئے انتظامات کیے۔آپﷺدشمن کو غافل رکھنے کے لیے نہایت خفیہ طریقہ سے قدم اٹھا رہے تھے اور بہت باریک بینی سے کام لے رہے تھے۔ اس کام کے لیے آپ ﷺکے حکم سے حضرت عمر﷜کی نگرانی میں مدینہ کے آس پاس اور مدینہ سے مکہ کے تمام راستوں پر پہرے بیٹھا دیئے گئے تھے اور مشکوک افراد کی آمداور روانگی پر کڑی نگاہ رکھی جا رہی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قریش کے جاسوس لشکر اسلام کی روانگی سے آگاہ ہو جائیں۔([55])

 

موجودہ دور میں سیکورٹی کے خدشات کے پیش نظر راستوں کو کنٹرول کرنے کے لئے انتظامات کرنا بہت ضروری ہو گئے ہیں، تاکہ کوئی دشمن ملک میں داخل ہو کر آپ کی معلومات نہ حاصل کر سکے۔

 

نفسیاتی دباؤ

موجودہ دور میں روایتی جنگ سے زیادہ نفسیاتی جنگ کی اہمیت ہے کیونکہ نفسیاتی طور پر دشمن کے ذہن کو مختلف حربوں سے متاثر کرکے مفلوج اور ان کے عزم و حوصلوں کو کمزور کر دیا جاتا ہے۔اس طرح دشمن کو بے بس کر کےفتح حاصل کی جاتی ہے۔اس میں جانی اور مالی نقصان سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔نفسیاتی جنگ سے دشمن کی مادی اور معنوی طاقت کا خاتمہ کیا جاتاہے۔اس کے بارے میں محمد بن مخلف یوں بیان کرتے ہیں:

 

” نفسیاتی جنگ کا بنیادی مقصد تومعنوی طاقت کو ختم کرنا ہی ہوتا ہے۔ لیکن معنوی طاقت کے مفلوج و مسدود ہوجانے سے مادی طاقت ازخود مفقود ہو جاتی ہے۔“ ([56])

 

آپﷺنےفتح مکہ میں دشمن پر نفسیاتی دباؤ کا حربہ اختیار کیا کیونکہ آپﷺکا مقصد تھا کہ طاقت کے استعمال کے بغیر نفسیاتی محاذ پر دشمن کو شکست دی جائے۔ ان کے اندرمقابلہ کرنے کی روح ختم کی جائےاور وہ بغیر لڑائی کے ہتھیار ڈال دیں۔اسی وجہ سےمرالظہران پہنچ کر نبی اکرم ﷺنےاپنی فوج کے ہر سپاہی کو کہا کہ وہ الگ الگ آگ روشن کريں۔([57]) اس طرح دشمن پر مسلمانوں کی تعداد زیادہ ظاہر ہو ۔آگ سے تمام صحرا روشن ہو گيا۔ ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء﷢ تحقیق کے لئے باہر نکلے اور جب انہوں نے دس ہزار چولہوں کو روشن دیکھا توان پر سکتہ طاری ہو گیا ۔ حضرت عباس ﷜ حضرت ابو سفیان﷜ کو اپنے خچر میں سوار کر کے رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر کیا تو آپ ﷺنے ان کو امان دے دی۔([58]) دوسرا رسول اکرم ﷺنے حضرت ابو سفیان﷜ پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کےلئے اس پہاڑ کے ناکے پر وادی کی تنگ جگہ پر کھڑا کرادیاتا کہ وہ لشکر اسلام کو دیکھ سکیں ۔([59])اس طرح کے اقدامات سے ان کے حوصلے پست ہو گئے ۔

 

آپﷺنے مصلحت اسی میں سمجھی کہ ان کو رہا کر دیں تاکہ وہ اپنی قوم میں جا کر ان کے حوصلوں کو متزلزل کریں۔حضرت ابو سفیان﷜ نے اس کام کو بخوبی انجا م دیا۔رسول اکرم ﷺکا حضرت ابوسفیان﷜پر اختیار کردہ نفسیاتی وار خالی نہیں گیااور جب یہ مکہ گئے تو انہوں نے مکہ جا کر لوگوں کو رسول کریم ﷺ کے لشکر کے بارے میں اطلاع دی۔ ان کی بیوی ہند بنت عتبہ([60])نے لوگوں کو حضرت ابو سفیان﷜ کی باتوں پر یقین نہ کرنے کو کہاتو حضرت ابو سفیان﷜نے غصے سے قریش مکہ کو کہا:

 

"وَيْلَكُمْ لَا تَغُرّنّكُمْ هَذِهِ مِنْ أَنْفُسِكُمْ فَإِنّهُ قَدْ جَاءَكُمْ مَا لَا قِبَلَ لَكُمْ بِهِ فَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ قَالُوا: قَاتَلَك اللّهُ وَمَا تُغْنِي عَنّا دَارُك، قَالَ وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ فَتَفَرّقَ النّاسُ إلَى دُورِهِمْ وَإِلَى الْمَسْجِدِ" ([61])

 

اس کے بہکاوے میں آکر دھوکے میں مبتلا نہ ہو، محمد ﷺ لشکر لے کر آگئے ہیں ۔ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے، اسے امان ہے۔تو لوگوں نے کہاکہ اللہ تجھے مارے، تیرےگھر کتنے آدمی سما سکتے ہيں ؟ حضرت ابو سفیان﷜ نے کہا جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے، اسے بھی امان ہے اور جو مسجد حرام میں داخل ہوجائے، اسے بھی امان ہے۔یہ سنتے ہی لوگ تیزی سے اپنے گھروں کو اور بہت سے مسجد حرام میں داخل ہوئے ۔

 

ان الفاظ میں ابوسفیان ﷜نے مکہ والوں کو اپنی بیوی کی باتوں پر یقین نہ کرنے کا کہا اور اسلامی لشکر اوررسول اکرم ﷺکے مقرر کردہ امن کے لئےمخصوص کیے گئے مقامات کے بارے میں بتایا۔

 

آپﷺکے اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے مکہ میں قریشیوں کو ہراساں کرنے اور بغیر خونریزی کے ہتھیار ڈال دینے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔اس طرح نفسیاتی طور پر ان کے حوصلے کمزور ہو گئے اور مسلمانوں کی ہیبت سے ان کے خلاف کوئی بھی اقدام نہ کر سکے۔فتح مکہ میں جس طرح آپﷺنے ایسے اقدامات کیے کہ جس سے قریش مکہ کے حوصلے پست ہو گئے اورانہوں نے مسلمانوں سے لڑائی کرنے کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا ۔اسی طرح عصر حاضر میں مسلم امہ کے سپہ سالاروں کو چاہیے کہ وہ اپنے مخالفین کے حوصلے پست کرنے کے لئےنفسیاتی حربے استعمال کریں۔

 

دوراندیشی

سپہ سالار کی بہترین حربی حکمت عملیوں میں سےایک اس کی دور اندیشی کی صفت ہوتی ہے۔یہ حربی حکمت عملی سپہ سالار کے لئے بے حد ضروری ہے ۔ اس کے ذریعہ سپہ سالار کو مساعد اور نا مساعد حالات کا صحیح احساس ہوتا ہےاوروہ ہرقسم کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی تیاری پہلے سےکرلیتا ہے۔([62])سپہ سالار کودشمن پر فتح حاصل کرنے کے لئے دوراندیشی سے کام لے کر منصوبے بنانے چاہیئں کیونکہ اگر دوراندیشی سے کام نہیں لیا جائے گا تواہداف و مقاصدصرف خواب اورآرزوہی بن کر رہ جائیں گے۔ سپہ سالار کےلئے دوراندیشی کی صفت سے متصف ہونا ضروری ہے۔محمود خطاب شیت اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

” کامیاب سپہ سالار وہ ہوتا ہے جو دوسری خوبیوں کے علاوہ دور اندیشی کی صفت سے موصوف ہو اور ہر احتمال کے لئے ضروری تدابیر اختیار کرے، یہ نہ ہو کہ تمام معاملات تقدیر کے حوالے کر دے“۔ ([63])

 

فتح مکہ میں رسول کریمﷺنے دوراندیشی کا ثبوت دیا۔ آپ ﷺکو اس چیز کا اندازہ تھا کہ قریش مقابلہ نہیں کریں گے اور وہ ہتھیارڈال دیں گے۔لیکن اس کے باوجودآپﷺنے دوراندیشی سے کام لے کر یہ تدبیر اختیار کی کہ آپ ﷺنےبد ترین حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی فوج کو منظم کیا اور شہر کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔آپﷺنے حضرت خالد بن ولید ﷜کو حکم دیا کہ وہ کدیٰ([64])کے راستے مکہ میں زیریں حصے سے داخل ہوں۔حضرت زبیر﷜ کو حکم دیا کہ وہ کداءکے راستے بالائی حصے سے مکہ میں داخل ہوں۔حضرت ابو عبیدہ﷜ کو حکم دیا کہ کہ وہ اذاخرکی طرف سے مکہ کی بلندی پر آئیں ۔رسول اکرمﷺاذاخر ([65])کی پہاڑی کے راستے آئے۔ سعد بن عبادہ﷜([66]) کو آپﷺ نے حکم دیا کہ وہ مغرب کے راستے مکہ میں داخل ہو۔ آپﷺ نے ہر سمت میں اتنی فوج متعین کر دی کہ وہ خودبغیر کسی کی مدد کے ان کا مقابلہ کر سکیں۔فتح مکہ میں آپﷺنے دوراندیشی کا ثبوت دے کر عظیم الشان کامیابی حاصل کی۔اسی طرح موجودہ دور میں مسلمان سپہ سالار کواپنےدشمن کو شکست دینے کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالی کامیابی اس کو عطا کرتے ہیں جو اس کے لئے پوری تیاری کرتا ہے۔

 

فوج کے دستوں کی تقسیم اور افسروں کا تعین

جس طرح موجودہ دور میں فوج کو بٹالین میں تقسیم کیا جاتا ہےاوران دستوں کے افسران مقررکیے جاتے ہيں۔ آج سے چودہ سو سال پہلےآپ ﷺنے اپنے لشکر میں سے افسران کا تعین کیا تھا۔

 

فتح مکہ کے دوران مدینہ سے مکہ کی طرف اسلامی لشکر بغیر ترتیب کے روانہ ہوا تھا۔کیونکہ بعض قبائل راستے میں آکر آپ ﷺکی فوج میں شامل ہوئے ۔جب قدید کے مقام پرپوری فوج اکٹھی ہو گئی تونبی اکرمﷺنے قدیدکے مقام پر پڑاؤ کیا تاکہ لشکر اسلام کچھ دیر آرام کرلے۔یہاں پر آپﷺنےفوج کی تیاری کی اور فوج کو دستوں میں تقسیم کیا اور دستوں کے افسران مقرر کئے۔آپﷺ نے فوج کی تیاری قبائلی بنیادوں پر کی اورہر قبیلےکے مختلف خاندانوں کے دستے بنائے اور اسی خاندان کے فرد کو اس دستے کاافسرمقرر کیا۔

 

بنو اوس کے چھ دستے بنائے اوران کے افسران ابو نائلہ([67])، قتادہ([68])، ابو بردہ([69])، جبر بن عتیک([70])، ابو لبابہ بن عبدالمنذر([71])اور مبیض﷢([72])مقرر کئے، بنو خزرج کے چھ دستے تشکیل دئیے اوران کے افسران ابو اسید الساعدی([73])، عبداللہ بن زید([74])، قطبہ بن عامر([75])، عمارہ بن حزم([76])اور سلیط بن قیس﷢ ([77])مقرر فرمائے۔مہاجرین کے تین دستے بنائے اوران کے افسران علی بن ابی طالب، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص﷢مقرر کئے، بنو مزنیہ کو تین دستوں میں تقسیم کیا اوران کے افسران نعمان بن مقرن﷜([78])، بلال بن حارث اور عبداللہ بن عمرو﷜مقرر کئے۔بنو جہینہ کے چار دستے بنائے اوران کے افسران سوید بن صخر([79])، رافع بن مکیث([80])، ابو زرعہ([81])اور عبداللہ بن بدر﷢([82])مقرر ہوئے، بنو سلیم کے تین دستے بنائے اوران کے افسران عباس بن مرداس([83])، خفاف بن ندبہ([84])اور حجاج بن علاط﷢([85])مقرر کئے۔

 

بنوخزاعہ تین دستوں میں تقسیم ہوئے بنائے اوران کے افسران بسر بن سفیان([86])، ابن شریح([87])اور عمروبن سالم﷢ مقرر کئے گئے۔ بنو اسلم کےدو دستے بنائے اوران کے افسران بریدہ بن حصیب([88])اور ناجیہ بن اعجم﷞([89])قرار پائے۔بنو غفار کا ایک دستہ بنایا اور ان کا افسر ابو ذر غفاری ﷜ کو بنایا۔بنو لیث کا ایک دستہ بنایا اور ان کا افسر صعب بن جثامہ﷜ ([90])کو مقرر کیا۔بنو اشجع کے دو دستے بنائے اور ان کے افسران نعیم بن مسعود([91])اور معقل بن سنان﷞([92])کو بنایا۔بنو تمیم کا ایک دستہ بنایا اور ان کا افسر اقرع بن حابس﷜ ([93])کو بنایا۔([94])

 

جس طرح فتح مکہ میں رسول کریم ﷺنے اپنے لشکر میں سے افسران کا تعین کیا۔اسی طرح موجودہ دور میں محنتی اور ذہین افسران متعین کرنے سے اہل اسلام اپنی فوج کو کامیابیوں سے روشناس کرا سکتے ہیں۔

 

حصولِ مقصد کے لئےکم سے کم جانی نقصان

عصر حاضر میں ایک عظیم سپہ سالار کی حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ فتح کا مقصد بھی حاصل ہو جائے اور جانی نقصان بھی کم سے کم ہوخواہ یہ نقصان اپنی فوج کی طرف سے ہو یا دشمن کی۔اگر دشمن کے بے دریغ لوگوں کو قتل کرکے فتح حاصل کی جائے تو ایسی فتح کا تعلق فوج کی بہادری سے تو ہو سکتا ہے لیکن سپہ سالار کی حکمت عملی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔جنگ کااصل مقصد قتل وغارت نہیں بلکہ علاقہ کو فتح کرنا ہوتا ہے۔ایسی فتح سپہ سالار کی عظمت کی دلیل اور اس کی اہم خوبی ہوتی ہے جس میں کم سے کم نقصان ہو اور مقصد بھی حاصل ہو جائے۔ غلام غوث ہزاروی([95])اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

 

”اس سے بڑھ کر کوئی خوبی کسی فوجی جرنیل میں نہیں ہو سکتی کہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے کم سے کم انسانی جانیں ضائع کرے۔“ ([96])

 

فتح مکہ میں رسول اکرمﷺکی حکمت عملی یہ تھی کہ آپﷺ مکہ کو بغیر کسی جانی نقصان کے پر امن طور پر فتح کرنا چاہتے تھے۔آپﷺنےطے کر لیا تھا کہ مکہ میں اسلامی لشکر بغیر خون ریزی کے داخل ہو گا اور قریش کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔آپ ﷺ نے اپنے سالاروں کو مکہ میں ہتھیار استعمال کرنے سے منع کیا اور چند لوگوں کے سواکسی شخص کو قتل نہ کرنے کا حکم دیا۔([97]) آپ ﷺ نےحجاز کے مرکزی شہر مکہ کو فتح کیا تو صرف دو مسلمان شہید ہوئے([98])اور بارہ مشرکین مکہ مارے گئے([99]

 

درج بالا تحقیق سے معلوم ہوتا ہےکہ کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی جا سکتیں ہیں۔ موجودہ دور کے سپہ سالاروں کو ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے کہ کم سے کم نقصان ہو اور مقصد کو بھی حاصل کیا جا سکے۔

 

شہر کے محاصرہ کی ترکیب

محاصرہ ایک جنگی حربہ ہوتاہے جس میں دشمن کے علاقے کا گھیراؤ کیا جاتا ہے اور تمام ذرائع آمدو رفت بند کر دیے جاتے ہیں۔رسول اکرمﷺنے فتح مکہ میں اسی جنگی حربے کو اختیار کیا تھا۔آپﷺنےچاروں طرف سے مکہ کا محاصرہ کر دیا تھا اور اپنی فوج کو اکٹھے ایک ہی سمت سے مکہ میں داخل ہونے کا حکم نہیں دیا بلکہ سپاہیوں کو چار دستوں میں تقسیم فرمایا اور ہر ایک دستہ کو ایک سمت سے شہر کے اندردا خل ہونے کا حکم دیا۔ میسرہ کی قیادت حضرت زبیر﷜کوتفویض کی اور انہیں حکم دیا کہ شمال کی جانب سے مکہ میں داخل ہوں۔میمنہ لشکر کا سالار حضرت خالد بن ولید﷜کومقرر کیا اور انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ جنوب کی جانب سے مکہ میں داخل ہوں۔انصار کی قیادت حضرت سعد بن عبادہ ﷜ کو سونپی اور انہیں نے حکم دیا کہ وہ مغرب کے راستے مکہ میں داخل ہوں۔مہاجرین کی قیادت حضرت ابو عبیدہ﷜کو سونپی اور انہیں فرمان ملا کہ وہ شمال مغرب کی جانب سے جبل ہند سے گزرتے ہوئے مکہ میں داخل ہوں۔([100])آپ ﷺکالشکر کی ترتیب و تقسیم کے بارے میں سر ولیم میور([101])یوں لکھتا ہے:

 

’’محمد نے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کر کے مختلف راستوں سے شہر میں داخلہ کا حکم دیا اور سختی سے ہدایت کی کہ سوائے انتہائی مجبوری اور خود حفاظتی کے جنگ نہیں کرنی‘‘۔([102])

 

رسول کریمﷺنےچاروں طرف سے شہر کے محاصرہ کی ترکیب اپنا کر مشرکین کے فرارہونے کی کوشش کو ختم کرلیا اوراس طرح ان کے پاس صرف ایک راستہ باقی رہ گیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔گویا کہ دشمن کا محاصرہ کرنے سے اس پرقابو پایا جاسکتا ہے اور وہ بھاگ نہیں سکتا ۔یہ ایک کامیاب جنگی حربہ ہے ۔اس لئے عصر حاضر میں اس سے کام لے کر دشمن کو گرفتار کیا جائے۔اس ترکیب سے جہاں جنگی مقاصد حاصل ہوتے ہیں وہاں بڑے پیمانے پر قتل و غارت سے بھی بچا جا سکتا ہے۔اہلِ ایمان کا مقصد دین کا پرچار اور کلمہ حق کا غلبہ ہے نہ کہ قتل و غارت، لہٰذا اس حکمت اپنی کو اپنانا ہر مسلمان جرنیل کی اشد ضرورت ہے۔

 

غیر متوقع حملہ

غیر متوقع حملہ جنگ کے میدان میں سب سے موثر، طاقتور اور دیرپا حربہ ہوتا ہے۔جنگ میں غیر متوقع حملہ کرنا چاہیے، جس کی دشمن کو توقع نہ ہو اور وہ اس کے لئے تیار ہی نہ ہو ۔جنگ میں ہمیشہ وہ سپہ سالار کامیاب ہوتا ہے جو غیر متوقع کاروائی کرتا ہے ۔ غلام غوث ہزاروی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

 

’’جب دو قوموں میں حالت جنگ قائم ہے تو کامیاب اور قابل قائد کی خوبی اور لیاقت یہ ہے کہ دشمن کو خبر ہی نہ ہونے دے اور وہ اسے جادبوچے۔‘‘([103])

 

عصر حاضر میں سپہ سالار کو اس جنگی حربہ سے کام لینا چاہیے۔رسول اکرمﷺ کی حربی حکمت عملی ہمیشہ اس حربہ پر منحصر رہی۔ کامیاب غیر متوقع حملے کے لئے مندرجہ ذیل امور ضروری ہیں:

 

ا۔جنگی ضروریات کے لئے اپنے ارادے اور طاقت کو مخفی رکھنا چاہیے۔

 

ب۔ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف تیزی سے حرکت کرنا چاہیے۔

 

ج۔غیر متوقع راستوں پر چلنا چاہیے۔

 

د۔غیر متوقع وقت کا انتخاب کرنا چاہیے۔

 

ه۔غیر متوقع ہتھیاروں کا استعمال کرنا چاہیے۔

 

و۔نئے جنگی اسلوب اپنانے چاہیے۔([104])

 

رسول کریمﷺنے فتح مکہ میں اپنے ارادوں کو مخفی رکھ کر، سریع الحرکت فوج اور غیر متوقع راستوں پر چلتے ہوئےغیر متوقع حملےکے حربے کو استعمال کیا اور کامیابی حاصل کی۔آپﷺ نے فتح مکہ میں بھی اپنے ارادے کو مخفی رکھا([105])کیونکہ آپﷺ دشمن پر ناگہانی حملہ کرنا چاہتے تھے تاکہ دشمن حیرت زدہ ہو جائےاور وہ سوچ ہی نہ سکے کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔دشمن لڑائی کے بارے میں سوچے بغیر ہتھیار ڈال دے ۔قریش مکہ نے اسی طرح کیا اور ہتھیار ڈال دیئے۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ کی حیات طیبہ منبع الکمالات ہے اور اس میں ایک کمال لاجواب، بے نظیر و بے مثال سپہ سالار ہونا بھی ہے جس کا ثبوت غزوات النبیﷺ میں بہترین دادِ شجاعت اور لازوال کامیابیاں ہیں۔ان غزوات اور بالخصوص فتح مکہ کے مطالعہ کی روشنی میں درج ذیل سفارشات پیشِ خدمت ہیں:

 

سفارشات

۱۔امت مسلمہ کو اپنے حربی و دفاعی معاملات کا حل اور حربی مسائل کو ختم کرنے کے لئےفتح مکہ میں آپﷺ کی حربی حکمت عملی سےسبق حاصل کرنا چاہیے۔

 

۲۔کسی اسلامی سلطنت کا غير اسلامی ممالک کے ساتھ معاہدہ ہو ۔وہ معاہدہ توڑ دیں تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ جس طرح ممکن ہو اس سے باز پرس کرے۔ان کے عمل کی وجہ سے انہیں سبق سکھانا چاہیے۔

 

3۔عسکری قوت کا زیادہ سے زیادہ اہتمام و انتظام نہ صرف دشمن پر خوف طاری کرنے کے لئے بلکہ حملے سے باز رکھنے کے لئے بھی ضروری ہے۔

 

4۔سپہ سالار کو فتح کے دن ذاتی انتقام سے گریز اور عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

 

5۔تمام مسلم ممالک اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اسلحہ سازی میں مکمل خود کفالت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔انہیں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا چاہیے۔

 

۶۔مسلمان سپہ سالاروں کو جنگ میں دور جاہلیت کے اختیار کردہ وحشیانہ اصولوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

 

۷۔اگر جنگی صورت حال ہو تو سپہ سالار کو جنگی کاروائیوں، قیدیوں اور عام شہریوں کے سلسلے میں اسلام کی ہدایات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

 

۸۔آپﷺمیں بحیثیت سپہ سالار جو ذاتی اوصاف و کمالات تھے۔موجودہ دور میں ہر مسلمان سپہ سالار کو اپنے اندر پیدا کرنے چاہیے۔

 

9۔دشمن کو جنگ کے بغیر مطیع کرنا چاہیے۔

 

۱۰۔دشمن کو خوفزدہ کرنے کے لئے فو جی مظاہرہ کرنا چاہیے۔

حوالہ جات

  1. (1)A Dictionary of US Military Term, (Washington DC: Public Affair Press), 205
  2. ()ابن ہشام، ابو محمد عبد الملك، سیرۃ ابن ہشام، دار الصحابہ، التراث، طنطا، مصر ، طبع اول:1995ء، 4/5
  3. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/10
  4. ()مبارکپوری، صفی الرحمن، الرحيق المختوم، ادارہ الشؤون الاسلامیہ، قطر، 2007ء، ص:396
  5. ()بخاری، محمد بن اسماعيل، صحیح بخاری، باب غزوۃالفتح فی رمضان، حدیث نمبر :4276، محقق : محمد زہير بن ناصر الناصر، دار طوق النجاة، طبع اول:1422ھ، 5/146
  6. ()مرالظہران: مکہ کے نواح میں واقع ہے۔مرالظہران اور بیت اللہ کے درمیان سولہ میل کا فاصلہ ہے(ابو عبيد البکری، معجم ما استعجم، ادارة الثقفۃ من جامعۃ الدول العربيۃ، قسطنطینیہ، 1949 ء، 1/329)
  7. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/21
  8. ()حکیم بن حزام: آپ کا تعلق قریش سے تھا، کنیت ابو خالدتھی۔ آپ حضرت خدیجہ ﷞کے بھتیجےتھے۔ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔ ایک سو بیس برس زندہ رہے۔ 54 ہجری میں وفات پائی(ابن الاثير، ابو الحسن علی بن ابی الكرم محمد، اسد الغابۃ، دارالکتب العلمیہ، بیروت، طبع اول:1415ھ، 2/358)
  9. ()بدیل بن ورقاء ﷜:آپ کا تعلق بنو خزاعہ سے تھا۔آپ صحابی تھے اور مکہ کے رہنے والے تھے۔ فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا تھا(ابن حجر عسقلانى، احمد بن علی بن حجر، الاصابة فی تمييز الصحابۃ، تحقيق: علی محمد البجاوی، دار الجيل، بيروت، 1992ء، 1/275)
  10. ()صحیح بخاری، حدیث نمبر :4280، 5/146
  11. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/22
  12. ()قشیری، مسلم بن الحجاج، صحيح مسلم، باب فتح مکہ، حدیث نمبر:86، تحقیق:محمد فواد عبد الباقی، دار احياء التراث العربی، بيروت، 3/1407
  13. ()ذی طوی:مکہ کے ایک علاقے کا نام ہے جوحرم کی حدود میں واقع ہے (نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، نشر صدوق، تہران، 1397ھ، ص:182)
  14. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/ 3
  15. ()خندمہ:مکہ معظمہ کا ایک پہاڑ ہے(معجم ما استعجم، 1/146)
  16. ()صحیح بخاری، حدیث نمبر :4280، 5/146
  17. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/ 28
  18. ()الرحيق المختوم، ص: 404
  19. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/34
  20. ()ایضا، 4/30
  21. ()ایضا، 4/30
  22. ()صحیح بخاری، حدیث نمبر :4299، 5/150
  23. ()حضرت عتاب بن اسید ﷜:آپ کا تعلق قریش سے تھا۔ کنیت بعض کے نزدیک ابو عبد الرحمن اور بعض کے نزدیک ابو محمد تھی۔ فتح مکہ کےواقعہ میں اسلام قبول کیا اور حضور اکرم ﷺنے آپ کو مکہ کا عامل بنا دیا۔ حضرت عتاب بن اسید﷜ حضرت صدیق اکبر﷜کے عہد خلافت میں بھی والی مکہ کے منصب پر برقرار رہے اور جس دن حضرت ابو بکر﷜کی وفات ہوئی اسی دن حضرت عتاب﷜ نے بھی اس دار فانی کو کوچ کیا (اسد الغابۃ، 2/238)
  24. () ابن سعد، ابو عبداللہ محمد، الطبقات الكبرى، دار صادر، بيروت، 1968، 2/137
  25. ()عبدالرحمن کیلانی: آپ 11 نومبر 1923ء کوضلع گوجرانوالہ کے علاقہ کیلیانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ عالم دين اور مصنف تھے۔آپ 18 دسمبر 1995ء کو فوت ہوئے(سعید، عاکف، مولانا عبدالرحمن کیلانی، اردو چوپال فورم، 3ستمبر2010ء)
  26. ()عبد الرحمن کیلانی، نبی اکرمﷺبحیثیت سپہ سالار، مکتبہ السلام، لاہور، جون2010ء، ص:52
  27. ()طبرانی، سليمان بن احمد، المعجم الصغیر، تحقیق: محمد شكور محمود الحاج، المكتب الاسلامی، دار عمار، بيروت، طبع اول: 1985ء، 2/168
  28. ()واقدی، ابو عبد الله محمد بن عمر بن واقد، المغازی، تحقیق:مارسدن جونس، عالم الكتب، بيروت، 2/796
  29. ()اسماء بن حارثہ ﷜، ہندبن حارثہ﷜، رافع بن مکيث الجہينی﷜، جندب بن مکيث الجہينی﷜، ایماء بن رحضہ﷜، ابوہم کلثوم الحصين﷜، معقل بن سنان﷜، نعيم بن مسعود﷜، بلال بن حارث﷜، عبداللہ بن عمروالمزنی﷜، حجاج بن علاط اسلمی ﷜اورعرباض بن ساريہ﷜
  30. ()المغازی، 2/800
  31. ()باشمیل، محمد احمد، اسلام کے فیصلہ کن معرکے فتح مکہ، متر جم:اختر پوری، نفیس اکیڈمی، کراچی، دسمبر1984ء، ص/136
  32. ()حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ﷜:آپ بنی اسد کے حلیف تھے۔آپ کا تعلق بنی خالفہ سے تھااور وفات تیس ہجری میں ہوئی۔اس وقت ان کی عمر پینسٹھ سال تھی۔( اسد الغابۃ، 1/229)
  33. ()حضرت مقداد﷜ :آپ کے باپ کا نام عمرو بن ثعلبہ تھا، کنیت ابوالاسودتھی اور بعض کے مطابق ابو عمر یا ابو سعید تھی۔آپ قدیم الاسلام تھے۔ 33ھ میں انتقال ہوا۔( الاصابة فی تمييز الصحابۃ، 7/ 203)
  34. ()حضرت ابو مرثد غنوی ﷜:آپ کے نام کے بارے میں مختلف آراء ہیں ۔بعض کے نزدیک کناز بن الحصين اور بعض کے نزدیک حصين بن كناز اور بعض کے نزدیک ايمن تھا۔آپ شام کے رہنے والے تھے۔ غزرہ بدر میں شریک ہوئے۔(الاصابة فی تمييز الصحابۃ، 7/ 369)
  35. ()صحیح بخاری، حدیث نمبر:4274، 5/145
  36. () بطن اضم:یہ مقام ذی خشب اور ذی المروہ کے درمیان مدینہ سے تقریبا23میل کے فاصلے پر واقع ہے(الرحيق المختوم، ص:397)
  37. () ابو قتادہ ربعی ﷜:آپ کا نام بعض کے نزدیک حارث، بعض کے نزدیک نعمان اوربعض کے نزدیک عمروتھا۔ احد اور بعد کے غزوات میں شریک ہوئے۔آپ﷜ کو نبی اکرمﷺ کا شہسوار کہا جاتا تھا۔ 54ھ میں وفات پائی اور اس وقت آپ کی عمر 72 سال تھی۔ (الاصابة فی تمييز الصحابۃ، 7/327۔329)
  38. () الرحیق المختوم، ص:397
  39. () ابن کثیر، ابو الفداء عماد الدین اسماعيل بن عمر، البدایہ والنہایہ، دار الکتب العلمیہ، بیروت، 4/288۔284
  40. ()نبی اکرمﷺبحیثیت سپہ سالار، ص:52
  41. ()علوی، خالد، ڈاکٹر، انسان کاملﷺ، الفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور، 1974ء، ص:317
  42. ()عمرو بن سالم بن کلثوم خزاعی:آپ کا تعلق بنو خزاعہ سے تھا۔آپ ایک شاعر تھے(اسد الغابۃ، 2/349)
  43. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/11
  44. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/13
  45. ()سروہی، محمد یسین، نبی کریمﷺ کی فوجی حکمت عملی، مشتاق بک کارنر، لاہور، ص:61
  46. ()انسان کامل، ص:341
  47. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/ 18
  48. ()کدید:مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے، امج اور عسفان کے درمیان ایک چشمہ ہے(معجم ما استعجم، 1/306)
  49. ()جحفہ:مکہ اورمدینہ کے راستے میں ایک بستی کا نام ہے(معجم ما استعجم، 1/106)
  50. ()ابواء:مدینہ کے مضافات ميں سے ايک بستی ہے اس کے اور جحفہ کے درمیان تیئس میل کا فاصلہ ہے۔بعض نے کہاہے کہ آرہ اور مصعد کی دائیں جانب مکہ کی طرف پہاڑ ہے (حموی، یاقوت، معجم البلدان، دار صادر، بيروت، طبع دوم:1995ء، 1/79)
  51. ()قدید: مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے ایک آبادی ہے(معجم ما استعجم، 1/291)
  52. () نبی کریمﷺ کی فوجی حکمت عملی، ص:64
  53. ()مہاجرین، انصار، بنی مزینہ، بنی اسلم، بنی جہینہ، بنوکعب بن عمرو، بنی سلیم، بنوخزاعہ، بنوغفار، بنواشجع، بنولیث، بنوکنانہ، بنوضمرہ، بنو سعد اور بنوتمیم
  54. ()عین الحق، محمد، سیرت النبی تمام سیرت نگار، عبداللہ برادرز، لاہور، ص:234
  55. ()مغازی، 2/822
  56. ()مخلف، محمدبن مخلف بن صالح، الحرب النفسیۃ فی صدر الاسلام، دارعالم الکتب، الریاض، 1992ء، ص:497
  57. ()طبقات كبرىٰ، 2/135
  58. ()مغازی، 2/818
  59. ()صحیح بخاری، حدیث نمبر:4280، 5/146
  60. ()ہند بنت عتبہ﷞:آپ معاویہ بن ابو سفیان کی والدہ تھیں۔آپ غزوہ احد میں شریک تھیں اور حضرت حمزہ ﷜کی شہادت کے بعد ان کا مثلہ کیا۔ مسلمانوں کے بہت خلاف تھیں ليكن فتح مکہ کے دن اسلام قبول کرلیاتھا۔ حضرت عثمان﷜کی خلافت میں وفات پائی(الاصابہ فی تمييز الصحابہ، 8/155)
  61. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/24
  62. ()انسان کامل، ص:319
  63. ()شیت، خطاب محمود، آنحضرتﷺبحیثیت سپہ سالار، ترجمہ:سید رئیس احمد جعفری، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز، لاہور، 1969ء، ص:419
  64. ()کدی: مکہ معظمہ میں کداء کے قریب ایک پہاڑ ہے(معجم ما استعجم، 1/306)
  65. ()سعد بن عبادہ﷜:آپ کا تعلق بنو خزرج سے تھا۔آپ کی والدہ کا نام عمرہ بنت مسعود﷞تھا اوروہ صحابیہ تھیں ۔آپ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل تھے۔آپ نےحوران میں پندرہ ہجری اور بعض کے نزدیک سولہ ہجری میں وفات پائی(تہذيب التہذيب، 3/412)
  66. ()اذاخر:مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک گھاٹی ہے(معجم ما استعجم، 1/39)
  67. ()ابو نائلہ﷜ :آپ کا نام سلکان بن سلامہ تھا۔آپ کا تعلق انصار سے تھا۔آپ بہترین تیرانداز اور شاعر تھے۔آپ غزوہ احد اور بعد کے غزوات میں شریک ہوئے(الاصابة فی تمييز الصحابہ، 7/409)
  68. ()قتادہ﷜: آپ کا نام قتادہ بن نعمان اور کنیت ابو عمروتھی۔آپ کاتعلق قبیلہ اوس سے تھا۔ نبی اکرم ﷺکے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ 23ھ میں فوت ہوئے۔( اسد الغابہ، 2/407)
  69. ()ابو بردہ﷜: آپ کا نام ہانی بن نیارتھا۔ انصار کے حلیف تھے اور تمام غزوات میں شریک ہوئے۔آپ معاویہ ﷜کے دور خلافت میں شہید ہوئے۔(اسد الغابہ، 3/143)
  70. ()جبر بن عتیک﷜:آپ کاتعلق انصار سے تھا۔ کنیت ابو عبداللہ تھی۔ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔آپ نے 71 ہجری میں وفات پائی۔(اسد الغابہ، 1/163)
  71. ()ابو لبابہ بن عبد المنذر﷜:آپ کانام رفاعہ بن عبدالمنذرتھا۔ بیعت عقبہ میں شریک تھے۔ انصار کےبارہ نقیبوں میں سے تھے۔ آپ کا انتقال حضرت علی ﷜کے دور خلافت میں ہوا (اسد الغابہ، 3/236)
  72. ()مبیض﷜:آپ کا نام مبیض یا نبیض تھا۔آپ کا تعلق انصار سے تھا(الاصابة فی تمييز الصحابۃ، 3/589)
  73. () ابو اسید﷜:آپ کا نام مالک بن ربیعہ تھا۔ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔60 ہجری میں وفات پائی(الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ، 5/723)
  74. ()عبداللہ بن زید﷜:آپ بیعت عقبہ اور غزوہ بدر میں شریک ہوئےاورر غزوہ احد میں شہید ہوئے (اسلام کے فیصلہ کن معرکے فتح مکہ، ص:174)
  75. ()قطبہ بن عامر﷜: آپ کی کنیت ابو زیدتھی۔ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔ آپ کا انتقال حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوا ۔(اسد الغابہ، 2/412)
  76. ()عمارہ بن حزم﷜:آپ کاتعلق انصار سے تھا۔ بیعت عقبہ میں شریک تھے۔ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔آپنے جنگ یمامہ میں شہادت پائی (اسد الغابہ، 2/311)
  77. ()سلیط بن قیس﷜: آپ کاتعلق انصار سے تھا۔ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔ جنگ جسر میں شہادت پائی(الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ، 3/163)
  78. ()نعمان بن مقرن﷜:آپ کاتعلق بنو مزینہ سے تھا۔آپ نے اصبہان فتح کیا۔ 61 ہجری میں وفات پائی(الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ، 6/453)
  79. ()سوید بن صخر﷜:آپ کاتعلق بنو جہینہ سے تھا۔ قديم الاسلام تھے۔ حدیبیہ اور فتح مکہ میں شریک ہوئے ۔(اسدالغابۃ، 1/94)
  80. ()رافع بن مکيث الجہينی ﷜:آپ بیعت رضوان میں شریک تھےاور فتح مکہ کے دن جہینہ کا پرچم اٹھائے ہوئےتھے۔ (الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ، 2/445)
  81. ()ابو زرعہ﷜:آپ کا نام زید بن خالد تھا۔ بنو جہینہ سے تھے ۔ بیعت رضوان میں شریک تھےاور فتح مکہ کے دن بنوجہینہ کا پرچم اٹھائےہوئے تھے، 78ہجری کو مدینہ میں وفات پائی(الاصابة فی تمييز الصحابۃ، 2/603)
  82. ()عبداللہ بن بدر﷜:آپ کانام عبد العزی تھا جسے رسول اکرم ﷺنے تبدیل کیا۔آپ نے غزوہ احد میں شرکت کی۔ فتح مکہ کے دن بنوجہینہ کا پرچم اٹھائےہوئے تھے۔ معاویہ ﷜کے دور خلافت میں فوت ہوئے۔(الاصابة فی تمييز الصحابۃ، 4/19)
  83. ()عباس بن مرداس ﷜:آپ کی کنیت ابو الہیثم یا ابو الفضل تھی۔آپ نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا(اسدالغابۃ، 2/77)
  84. ()خفاف بن ندبہ﷜: آپ کی کنیت ابو خراشہ تھی۔ مشہور شاعر تھے۔ فتح مکہ کے دن بنوسلیم کا ایک پرچم اٹھائےہوئے تھے۔ غزوہ حنین اور طائف میں شریک ہوئے۔ 78ہجری کو مدینہ میں وفات پائی۔ (اسدالغابۃ، 1/327)
  85. ()حجاج بن علاط ﷜۔ مدینہ میں رہتے تھے۔خیبر میں آپ نبی اکرم ﷺ کےساتھ تھے۔(اسدالغابۃ، 1/241)
  86. ()بسر بن سفیان﷜:آپ کا تعلق بنو خزاعہ سے تھا۔آپ نے 6 ہجری میں اسلام قبول کیا۔(الاصابة فی تمييز الصحابۃ، 1/292)
  87. ()ابن شریح﷜: آپ کا نام خویلد بن عمرو تھا۔ فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا۔آپ نے 68 ہجری میں وفات پائی(اسدالغابۃ، 3/195)
  88. ()بریدہ بن الحصیب ﷜:آپ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ بیعت رضوان میں شریک تھے ۔ مدینہ کے رہنے والے تھےمگر بعد میں بصرہ چلے گئے اور مرو میں وفات پائی۔(اسدالغابۃ، 1/110)
  89. ()ناجیہ بن اعجم﷜: آپ بیعت رضوان میں شریک تھے۔ معاویہ ﷜کے دور خلافت میں فوت ہوئے۔( الاصابة فی تمييز الصحابۃ، 6/398)
  90. ()صعب بن جثامہ﷜:آپ کا تعلق بنو لیث سے تھا۔آپ کی والدہ ابو سفیان بن حرب کی بہن تھی۔ فتح اصطخر میں شریک ہوئے۔ حضرت عثمان ﷜کے دور خلافت میں وفات پائی (الاصابة فی تمييز الصحابۃ، 3/426)
  91. ()نعیم بن مسعود﷜:آپ کا تعلق بنوغطفان سے تھا۔ کنیت ابو سلمہ تھی۔ غزوہ خندق کے موقع پر اسلام قبول کیا اور غزوہ خندق کے موقع پر بنو قریظہ، غطفان اورقریش میں بدگمانی پیدا کر کے ایک دوسرے کا مخالف بنا دیا ۔ آپ نے حضرت عثمان ﷜کے دور خلافت میں وفات پائی۔(اسدالغابۃ، 3/72۔73)
  92. ()معقل بن سنان﷜:آپ پہلےاسلام قبول کرنے والوں میں سےتھے۔ جنگ حنین اورفتح مکہ کےموقع پراپنی قوم کاپرچم اٹھائےہوئےتھے، آپ نے 63 ہجری میں مدینہ میں وفات پائی۔(الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ، 6/181)
  93. ()اقرع بن حابس﷜:آپ کا تعلق بنو تمیم سے تھا۔آپ فتح مکہ، غزوہ حنین اور غزوہ طائف میں شریک ہوئے۔ جوزجان میں شہید ہوئے (الاصابة فی تمييز الصحابۃ، 1/101)
  94. ()اسلام کے فیصلہ کن معرکے فتح مکہ، ص:171-182
  95. ()غلام غوث ہزاروی :آپ بفہ (ضلع مانسہر ہ )میں پیدا ہوئے ۔آپ نے چند سالوں میں جمعیت علماءاسلام کو ملک کی بڑی سیاسی جماعت بنا دیا۔آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ میں متحرک کردار ادا کیا تھا اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں ۔آپ کو بفہ میں دفن کیا گیا۔ (الراشدی، زاہد، غلام غوث ہزاروی، ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ، جون 1993ء)
  96. ()ہزاروی، غلام غوث، جنگ سیرۃ نبوی ﷺکی روشنی میں، مکی دار الکتب، لاہور، دسمبر 1996ء، ص:20
  97. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/28
  98. ()طبقات كبرى، 2/ 136
  99. ()سیرۃ ابن ہشام، 4/ 29
  100. ()طبری، محمد بن جرير، تاريخ الامم و الرسل والملوك، دار الكتب العلميہ، بيروت، طبع اول : 1407ھ، 2/ 159
  101. ()سر ولیم میور: آپ ایک اعلی تعلیم یافتہ انگریز تھے۔ برطانوی حکومت کے دور میں غیرمنقسم ہندوستان کی ایک ریاست کے گورنر تھے ۔ آپ کی مشہور کتاب" لائف آف محمد"تھی (خان، وحید الدین، دفاع یا دعوت، الرسالہ، جون 2015ء)
  102. ()میور، ولیم، لائف آف محمد، انگریزی ایڈیشن، لندن، ص:46
  103. () جنگ سیرۃ نبوی ﷺکی روشنی میں، ص:23
  104. () نبی کریمﷺ کی فوجی حکمت عملی، ص:52
  105. () سیرۃ ابن ہشام، 4/15
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...