Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 2 Issue 1 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

اصلاح معاشرہ و طریقہء تربیت کا نبوی اسلوب |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060025806_486

Pages

1-9

PDF URL

http://arjish.com/wp-content/uploads/2020/01/v2-i1-1.pdf

Chapter URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/view/22

Subjects

Reformation Society Rights Manners Discipline Reformation Society Rights Manners Discipline

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

لفظ "تربیت" کا معنی و مفہوم

لفظ "تربیت "کے معنی ہیں:

"التربية هی تبليغ الشيء إلي کماله شيئا فشيئا"

تربیت سے مراد کسی چیز کو بتدریج اس کے کمال (انتہا ) تک پہنچانا ہے۔ 1

تاج العروس کے مصنف لفظ تربیت کے متعلق رقمطراز ہیں :

لفظ "تربیت" باب نصر ینصر سے مصدر ہے ، یعنی رب یرب ربا سے جس کے معنی انتظام کرنا ، بالادست ہونا ہے ، اور باب تفعیل سے ربا یربی تربیۃ اسی سے کہا جاتا ہے ، "ورب ولده والصبی یربه ربا رباء رباه أی أحسن القیام عليه ووليه حتی أدرک أی فارق الطفولية کان ابنه أو لم یکن" یعنی اس نے اپنے بچے کی نگرانی دیکھ بھال اور اس وقت تک پرورش کی کہ وہ جوان ہوگیا ، رب الولد2 سے مراد لڑکے کے سن بلوغت پہنچنے تک پرورش کرنا ۔

صاحب مصباح اللغات لفظ " تربیت" کے متعلق فرماتے ہیں:

"لڑکے کی بلوغت تک دیکھ بھال کرنا ، تدریج بتدریج انتہا تک"3

مفردات القرآن میں" تربیت" کا مفہوم

مفردات القرآ ن میں چند اقوال درج ذیل ہیں:

(۱)"ربانی " "ربان " کی طرف منسوب ہے ، لیکن عام طور پر فعلان فعل سے آتا ہے جیسا کہ عطشان ، سکران وغیرہ، (۲) یہ "رب" کی طرف نسبت ہے ، "ربانی" جو علم کو پروان چڑھائے یعنی ( حکمت کو فروغ دے ) (۳) "رب" کی اور "ربانی" جو شخص علم سے اپنی پرورش کرتا ہے ، لہذا یہ دونوں معنی باہم متلاز م ہیں کیوں کہ جس نے علم کو پروان چڑھایا اس نے اپنی ذات کی بھی تربیت کی ، اور جو انسان اس کے ذریعے اپنی تربیت کرے گا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ 4

بعثت انبیا کے تربیتی عناصر

پیغمبروں کے بھیجنے کا بنیادی مقصد سورہ جمعہ کی آیت سے واضح ہوجاتا ہے ۔

وہی ہے جس نے (عرب کے) ان ان پڑھوں میں ان ہی میں سے ایک ایسا عظیم الشان رسول بھیجا جو کہ پڑھ پڑھ کر سناتا (سمجھاتا) ہے ان کو اس کی آیتیں اور وہ سنوارتا (نکھارتا) ہے ان کے باطن کو اور سکھاتا (پڑھاتا) ہے ان کو کتاب و حکمت (کے مطالب و معانی کے انمول خزانے) جب کہ یہ لوگ اس سے قبل یقینا پڑے تھے کھلی گمراہی میں ۔ 5

آیت بالا میں تین باتیں موجود ہیں :(۱) تلاوت آیات(۲)تزکیہ نفس (۳)تعلیم کتاب وحکمت

اور یہ تینوں باتیں کسی نہ کسی درجہ میں تربیت سے تعلق رکھتی ہیں ، اصلاح وتربیت کے لئے پہلے آیات قرآنیہ سناکر دعوت دی حاتی ہے، پھر اسلام قبول کرنے والوں کی بھر پور تربیت کرکے ان کے قلوب کو مصفی ومزکی کیا جاتا ہے، نیز تربیت کے لئے اسلامی احکام وفرائض کی تعلیم بھی ضروری تمام انبیاء کرام نے تربیت انسانی کا فریضہ انجام دیا، چونکہ پیغمبر ساری انسانیت کے مربی اور رہبر و رہنما ہوتے ہیں ، اس لئے اللہ تعالی ان کی شروع سے خصوصی تربیت فرماتے ہیں ، ارشاد نبویﷺ ہے:

أدبنی ربی فأحسن تأدیبی 6

میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور بہترین سکھایا۔

ہر نبی منجانب اللہ تربیت یافتہ ہوتا ہے، اور ان میں انسانوں کی تربیت کی بہترین صلاحیت ہوتی ہے،آخری پیغمبر خاتم الانبیاءﷺ کو تمام پیغمبروں پرفضیلت حاصل ہے، آپ کی رسالت زمان ومکان کے حدود سے ماورا ہے، اس لئے اللہ تبارک وتعالی نے آپ کی سیرت کو انتہائی جامع اور مکمل بنایا ہے، آپ معلم انسانیت اور مربیٔ اعظم ہیں ، ایک کامیاب مربی کے لئے جن اوصاف وخصوصیات کا پایا جانا ضروری ہے،وہ آپ کی ذات مبارکہ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ، آپ کو اللہ تعالی نے حکمت وبصیرت عطا فرمائی ۔

مربی سارے افراد سے یکساں برتاؤ نہیں کرتا، اس لئے کہ زیر تربیت سارے افراد علام وعمل، سوچ وفکر، اور ذہنی سطح کے اعتبار سےبرابر نہیں ہوتے، جو جس سطح کا ہو اسی طرح برتاو کرنا ہوتا ہے،لوگوں کی دینی سطح کو سامنے رکھ کر نمونہ تربیت کا ایک وقعہ درج ہے ، جیسا کہ متفق علیہ حدیث ہے :

ایک بار اللہ کے تاجدار کائنات ﷺ اپنے اصحاب سے باتیں کررہے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی مسجد میں اس حال میں داخل ہوا کہ پہلے دائیں بائیں کا جائزہ لیا ،پھر مسجد کے ایک گوشے کی طرف بیٹھا، سب لوگ اسے حیرت سے تکنے لگے، کہ یہ کیا کرنے والا ہے؟ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنا تہبند اٹھایا، اور بیٹھ کر اطمینان سے پیشاب کرنے لگا،چند افراد جلدی سے اٹھے تاکہ اس کو اس عمل سے باز رکھیں ، نبی مختار ﷺ نے انہیں روکااور تحمل سےکہنے لگے : چھوڑدیں مت روکیں ، اعرابی پیشاب کرکے اٹھا تو اللہ کے رسول ﷺ نے اسے بلایا، وہ آیا، آپ نے اسے نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا:مساجد اس کام کے لئے تعمیر نہیں کی گئیں ،انہیں اللہ کا ذکر کرنے، نماز ادا کرنے اور قرآن مجید تلاوت کرنے کے لئے تعمیر کیا گیا ہے۔ 7

اس حدیث کی مزید وضاحت اس طرح آتی ہے:

نہایت مختصر نصیحت کرنے کے بعد آپ خاموش ہوگئے، و آدمی چلا گیا،نماز کا وقت ہوا تو پھر آیا، اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کیا تاجدار کائنات ﷺ نے بعد قرات رکوع کیا ، اور رکوع سے سراٹھاکر "سمع الله لمن حمده" تو سب نے "ربنا ولک الحمد"، اعرابی نے بھی یہ الفاظ کہے، لیکن مزید الفاظ کا اضافہ کیا:"اےاللہ! ہم پر اور محمدﷺ رحم فرما،ہمارے ساتھ کسی پر رحم نہ کر" بعد نماز کےنبی کریم روف الرحیم ﷺ نے اسے آواز دی، تو وہ قریب آیا، پتا چلا یہ آدمی تو وہی ہے جس نے کچھ دیر پہلے مسجد میں پیشاب کیا تھا،آپ کا اس کے ساتھ برتائو،اور آپ کا ناصحانہ انداز اس پر اتنا اثر کر گیاتھا کہ وہ آپ کی محبت کا اسیر ہوگیاتھا،اور آپ سے اس کو اس قدر محبت ہوگئی کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کے اور رسول اللہﷺ کے علاوہ کسی پر رحمت نازل نہ ہو، آپ نے اسے تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: "لقد حجرت واسعا"تم نے ایک وسیع شئی کو تنگ کردیا۔8

مشاورانہ لب ولہجہ

کامیاب مربی کی خصوصیت کہ جب وہ اپنے زیر تربیت افراد کو کسی بات کی نصیحت کرتا ہے تو اس کا لب ولہجہ تحکمانہ نہیں ہوتا، بلکہ مشاورانہ ہوتا ہے، نبیﷺ کی نصیحت اسی انداز کی ہوتی تھی، ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ نے دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نماز تہجد کی ترغیب دلارہے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا:

نعم الرجل عبد الله لو كان يصلي من الليل 9

"عبداللہ تم فلاں کی طرح نہ ہونا، وہ رات کو قیام کرتا تھا،پھر اس نے رات کا قیام ترک کردیا"۔

انسانی سماج کی نجات کا نبوی نسخہ

اس ہمہ گیر معاشرتی بگاڑ سے مسلم اور انسانی سماج کو کیسے نجات دلائی جائے؟ اس کا حل صرف اور صرف اس مصلح اعظم اور پیغمبر انقلاب کی سیرت میں مل سکتا ہے جس نے ایک ایسے وقت انسانی معاشرہ کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا تھا جب فساد پھیلنے لگا ،اخلاقی ومعاشرتی صورت حال اس قدر دگر گوں تھی کہ دور دور تک اصلاح کے آثار ناپید تھے۔ حضرت جعفر طیاررضی اللہ عنہ نے شاہ حبش کے سامنے زمانۂ جاہلیت کا منظر کھینچا ہے ،انہوں نے نجاشی کے روبرو خطاب کرتے ہوئے کہا: اے بادشاہ !ہم بتوں کو پوجتے ، نجاست میں آلودہ مردار کھاتے تھے، بیہودہ بکا کرتے تھے، ہم میں انسانیت اور ایمان داری کا نشان نہ تھا،ہمسایہ کی رعایت نہ تھی، کوئی قاعدہ اور قانون نہ تھا،ایسی حالت میں خدا نے ہم میں سے ایک بزرگ کو مبعوث کیا جس کے حسب و نسب، سچائی ، ایمانداری و دیانتداری تقوی ،پاکیزگی سے خوب واقف تھے،اس ذات نے ہم کو توحید کی دعوت دی۔ 10

ایسے ہمہ گیر معاشرتی بگاڑ کے حالات میں نبیٔ رحمتﷺ نے قلیل عرصہ میں جزیرۃ العرب کی کایا پلٹ دی، معاشرہ کی اصلاح کے وہ گراستعمال فرمائے کہ انسان نما بھیڑئیے آپس میں شیر وشکر ہوگئے اور اعلی انسانی صفات کے ایسے کامل نمونے بن گئے کہ رہتی دنیا تک انسانیت ان کانمونہ پیش نہیں کرسکتی، درج ذیل سطور میں اصلاح معاشرہ کے ان نبوی نسخوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے، جن سے موجودہ بگڑے ہوئے انسانی معاشرہ کی بھر پور اصلاح ہوسکتی ہے، دورحاضر کے سارے دانشور اور اصحاب قلم کا اتفاق ہے کہ آج معاشرہ پھر جاہلی معاشرہ کے طرف لوٹ رہا ہے، وہ ساری خرابیاں جو جاہلی معاشرہ کا طرۂ امتیاز سمجھی جاتی تھیں موجودہ معاشرہ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ایسے میں عصر حاضر کے معاشرتی بگاڑ کی اصلاح بھی اسی طریقہ سے ممکن ہے جوطریقہ مصلح اعظمﷺ نے اپنا یاتھا، اس کے بغیر کوئی تدبیر کار گر نہیں ہوسکتی۔

ایمان راسخ اور یقین کامل

پہلا قدم جو آپﷺ نے اٹھایا وہ ایمان راسخ اور یقین کامل کی محنت ہے، ۱۳/سالہ مکی زندگی میں حضرات صحابہ کے قلوب میں ایمان کو ایسا راسخ کیا گیا کہ ان کا ایمان پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہوگیا، اطاعت وفرمانبرداری پر آخرت میں اللہ تعالی کے انعامات کا حصول اور معصیت ونافرمانی پر اخروی سزائوں کا ایسا یقین ان میں جاگزیں تھا کہ بڑی سی بڑی حقیقت کو جھٹلا سکتے تھے، لیکن نبی آخر الزماں ﷺ کی جانب سے کئے گئے خدائی وعدے اور وعیدوں کے متعلق ذرہ برابر بھی شک نہیں کرتے تھے،حضرات صحابہ کے ایمان کا یہ حال تھا کہ اگر وہ جنت وجہنم کوبھی دیکھ لیتے تب بھی ان کے ایمان میں اضافہ نہ ہوتا،بن دیکھے ان کی کیفیت مشاہدہ سے بڑھ کر تھی، ایک صحابی فرمانے لگے میرا حال یہ ہے کہ میرے دائیں جانب جنت ہے اور بائیں جانب جہنم،اور ایسا لگتا ہے کہ میں پل صراط پر کھڑا ہوں ، اس ایمان راسخ کا نتیجہ تھا کہ وہ خدا اور رسولﷺ کی نافرمانی سے حد درجہ احتیاط کرتے تھے اور گناہوں سے بالکلیہ اجتناب کیا کرتے تھے، ان کے لئے گناہوں سے پرہیز ممکن نہیں تھا صحابہ سے تواول شاذ ونادر ہی حکم عدولی ہوتی تھی اور جب کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا تو جب تک سچی توبہ نہ کرلیتے چین کا سانس نہ لیتے تھے، موجودہ معاشرے میں معاملات واخلاقیات اور معاشرتی زندگی میں جو حکم عدولیاں ہورہی ہیں اس کی بنیادی وجہ ایمان بالغیب میں کمزوری اور وعیدوں کے تعلق سے بے یقینی ہے،۱۳/سالہ مکی زندگی میں صرف ایمان پر محنت کا نتیجہ تھا کہ پاکیزہ مدنی معاشرہ وجود میں آیا، ہجرت مدینہ کے بعد جب تفصیلی ہدایات اور اوامر ونواہی اترنے لگے تو مسلمان ان پر خوشی خوشی عمل کرنے لگے،شراب کی حرمت جب نازل ہوئی تھی تو برسہا برس کی شراب ایسی بہائی گئی کہ مدینہ کی نالیوں میں شراب ہی شراب بہنے لگی، اصلاح معاشرہ کا آغاز درستگیٔ ایمان سے ہونا چاہئے۔

احساس جواب دہی

اصلاح معاشرہ کے لئے آپ نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ ہر مسلمان کی تربیت اخروی جواب دہی کی بنیاد پر فرمائی، آسمانی ہدایات میں انسانوں کو بتایا کہ دنیا ان کے لئے دارالامتحان ہے، یہاں کئے جانے والے ہر ہر عمل کا انہیں آخرت میں حساب دینا ہے، قیامت کے دن ہرشخص کے اعمال کا دفتر اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور اعلان ہوگا

اقرا كتبك كفى بنفسك اليوم عليك حسيبا11

تو خود اپنا نامہ ٔ اعمال پڑھ لے،انسان جو کچھ اچھا یا برا عمل کرتا ہے اس کا آخرت میں بدلہ ملنے والا ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہے :

فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره، ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره12

آخرت میں جواب دہی کا احساس آدمی کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر مجبور کرتا ہے ، دور حاضر میں جرائم میں اضافہ کی بنیادی وجہ احساس جواب دہی کی کمی ہے، لوگ دوسرے کی حق تلفی، یادوسرے پر ظلم وزیادتی کا احساس نہیں کہ آخرت میں ہر صاحب حق کو اس کا حق دلایا جائے گا۔

اخوت وبھائی چارگی کی روح

حقوق العباد میں ہر قسم کی کوتاہیوں سے معاشرہ کو پاک رکھنے کے لئے نبیٔ رحمتﷺ نے ایمانی بھائیوں کے درمیان اسلامی اخوت کو خوب فروغ دیا کہ کلمہ کی بنیاد پر ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،آپﷺ نے فرمایا:

المسلم اخو المسلم13

ایک مسلمان ہی دوسرےمسلمان کا بھائی ہے۔

اور فرمایا:

"تری المؤمنین فی تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم کالجسد الواحد إذا اشتکی له عضو تداعی له سائر الجسد بالسهر والحمی"14

آپسی رحمت اور مودت میں تم مسلمانوں کو ایک جسم کی طرح پائوگے ، جس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے توسارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔

مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد آپ نے ان تمام جڑوں کو اکھاڑ پھینکا جس سے اسلامی مواخات متأثر ہوتی ہے، چنانچہ حسد، کینہ، بغض، عداوت، غیبت اور چغلخوری جیسے رذائل سے بچنے کی تاکید فرمائی، جو آپسی محبت کو ختم کردیتے ہیں ۔

"لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال"

آپس میں حسد نہ کرو، آپس کے تعلقات نہ توڑو اور بھائی بھائی بن جاو، اور اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق نہ رکھو۔ 15

اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے پڑوسیوں اور اہل قرابت کے متعلق فرمایا:

"إذا طبخ أحدكم قدرا فليكثر مرقها"

جب تم سالن پکاؤتو چاہئے کہ شوربہ زیادہ کردو اور کچھ پڑوسی کو بھیجو ۔ 16

مزید فرمایا:

"ليس المؤمن الذي يشبع وجاره جائع إلى جنبه"

وہ ایمان والا نہیں جو ایسے حالت میں پیٹ بھر کر سوجائے کہ اس کے پہلو میں رہنے والا پڑوسی بھوکا اور پیٹ بھر کرسوجانے والے کو علم ہو کہ پڑوسی بھوکا ہے۔ 17

مسلم معاشرہ میں اخوت وبھائی چارگی کے یہ جذبات فروغ پائیں تو کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی کیوں کر حق تلفی کرے گا،اس وقت ظلم وتعدی قتل وغارت گری اور حق تلفی کی جتنی شکلیں معاشرہ میں عام ہیں وہ اسلامی اخوت سے روگردانی کا نتیجہ ہے، ایک خاندان سے وابستہ افراد تک باہم دست وگریباں ہیں ۔

رشتہ انتخاب کے موقع پر بچوں کے لئے نیک ماں کے انتخاب کی تاکید فرمائی تاکہ اس کی گود میں پلنے والی اولاد نیک وصالح بن سکے،پھر اس کی بھی تاکید فرمائی کہ جب میاں بیوی کا ملاپ ہونے لگے تو اس سے پہلے دعا کا اہتمام کریں جو دراصل ہونے والی اولاد کو شیطانی اثرات سے محفوظ رکھنے کی درخواست ہے، پھر جب بچہ پیدا ہوجائے توسب سے پہلے کانوں میں اذان واقامت کے کلمات بلوانے کی تاکید فرمائی، شیر خوار نواسہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب ایک مرتبہ گھر میں پڑا ہوا کھجور منھ میں ڈالنے لگا تو آپ نے فورا تنبیہ فرمائی اور کہا کہ حسین! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ہم اہل بیت کے لئے صدقہ حلال نہیں اور منہ سے کھجور نکلوایا۔ ایک موقع پر والدین کو تربیت اولاد اور ماتحتوں کی دینی نگرانی پر توجہ دلاتے فرمایا:

ہر شخص سے اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے پوچھا جائے گا۔18

موجودہ معاشرہ کے نوجوان کے بگاڑ اور بے راہ روی کی بنیادی وجہ پچپن میں دینی تربیت کا فراہم نہ ہونا اگر ہمیں معاشرہ کی اصلاح مطلوب ہے تو تربیت اولاد پر توجہ دینی ہوگی جلسوں اور اصلاحی پروگراموں سے وقتی ہلچل تو پیدا ہوسکتی ہے لیکن ٹھوس کام ممکن نہیں ۔

اصلاح خواتین پر زور

خواتین معاشرہ کا نصف بہتر ہیں اور انسانی معاشرہ پر اثر انداز ہونے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں کسی بھی معاشرہ کی اصلاح خواتین کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں خواتین کی اصلاح اور فساد دونوں متعدی ہیں ایک خاتون کا بگڑنا پورے خاندان کا بگڑنا ہے جب کہ ایک خاتون کے راہ راست پر آنے سے پورا معاشرہ شاہ راہ دین پر گامزن ہوجاتا ہے، لہذا سرکار دوجہاں ﷺ نے شروع سے اصلاح خواتین پرزور دیا، ہفتہ میں ایک روزخواتین کے لئے مختص کردیا تھا، عیدین کے موقع پر خواتین سے بھی خطاب فرماتے تھے:

ایک مرتبہ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن پر اللہ کے نبی عیدگاہ تشریف لائے توعورتوں کی ایک جماعت کے پاس بھی تشریف لائے اور فرمایا!تم صدقہ خیرات کیا کرو ، میں نے اکثر کو دوزخ میں دیکھا ہے ، کچھ عورتوں کی جانب سے آواز آئی ، اس کے سبب کیا ہیں ؟ فرمایا ’’تکثر ن اللعن ‘‘لعن طعن ، شوہروں کی نافرمانی ،میں نے عقل ودین میں کمزور ہونے کے باوجود ہوشیار مرد کو بے وقوف بنادینے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا ، کہا ! اے اللہ کے نبی ﷺ! ہماری عقل اور ہمارے دین میں کس چیز کی کمی ہے؟ فرمایا کہ ایک مسلمان عورت کا گواہی دینا آدھے مرد کی گواہی کے برابر نہیں ؟ کہا ہاں! ارشاد فرمایا: اسکی وجہ عورت کی عقل کی کمزوری ہے،اور کیا ایسا نہیں ہوتا کہ جس وقت عورت حالت حیض میں ہوتی ہے تونہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے انہوں نے کہا ہاں ، فرمایا یہ اس کے دین میں نقصان کی وجہ ہے ۔19

موجودہ معاشرہ میں بے پردگی، چست لباس، فیشن پرستی اور مردوں سے اختلاط عام ہے، جس کے برے اثرات مرتب ہورہے ہیں خواتین کو شرم وحیا کا پابندبنانا ضروری ہے۔

کسب حلال کی تاکید

معاشرہ کی اصلاح کے لئے ایک کلیدی اقدام معاشرہ کو حرام خوری سے محفوظ رکھنا ہے، حرام غذا کا عادی معاشرہ کبھی نیک اور صالح نہیں بن سکتا، قرآن مجید میں پیغمبروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا:

يايها الرسل كلوا من الطيبت واعملوا صالحا انى بما تعملون عليم 20

اے رسولو ! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرتے رہو، بیشک تم جو بھی کام کرتے ہو میں اس کو خوب جاننے والا ہوں۔

آیت میں صاف اشارہ ہے کہ نیک بننے کے لئے حلال اور پاکیزہ غذا ضروری ہے، عصر حاضر میں اصلاحی کوششوں کی ناکامی کی ایک وجہ حرام غذا کا ہونا ہے والدین اولاد کی بے راہ روی پر فکر مند ہوتے ہیں لیکن وہ اس پر غور نہیں کرتے وہ خود اپنے بچوں کی حرام غذا سے پرورش کررہے ہیں ۔

اصول اصلاح کی رعایت

نبوی اصلاح معاشرہ مہم کی کامیابی کی ایک اہم وجہ اصول اصلاح کی رعایت ہے، اصلاح کے خواہشمندوں کو چاہئے کہ وہ اصول اصلاح کی مکمل رعایت کریں آپﷺ اصلاح میں تدریج کا لحاظ فرماتے تھے، سارے احکام ایک ہی دفعہ لاگو نہیں کرتے تھے، نیز مخاطب کے حالات اور نفسانیات بھی ملحوظ رکھتے تھے، سارے افراد کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکتے تھے، ہر ایک کے ساتھ اس کے حسب حال گفتگو فرماتے تھے، فرد کی اصلاح جماعت کی موجودگی میں نام لے کرنہیں فرماتے تھے، کتب احادیث میں رسول اکرمﷺکی تربیت کے نمونے بکثرت پائے جاتے ہیں ۔

ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہوا اور کھڑے ہوکر پیشاب کرنے لگا صحابہ نے کہا ارے ارے کیا کرتا ہے آپﷺ نے فرمایا: چھوڑدو، اسے چھوڑدیا، وہ فارغ ہوچکا پھر آپﷺ نے بلایا کر فرمایا: مسجد پیشاب اور نجاست کی جگہ نہیں ہے، یہ تو اللہ کا ذکر نماز اور قرآن کی تلاوت کے لئے ہے پھر ایک شخص کوحکم دیا جوایک ڈول پانی لایا اور اس پر بہادیا۔ 21

نتائج:

نفس کا تزکیہ او راخلاق کی تہذیب ایک کٹھن اور صبر آزما عمل ہے، یہ ایک ایسا بے آب وگیاہ صحرا ہے جہاں گرم ہواؤں کے جھونکے ہیں، بھورے رنگ کے پتھر اور گرم ریت ہے، اس دشوار گذار صحرا کو عبور کرنے کے لیے ایک طرف عزم پیہم اور جہد مسلسل ضروری ہے تو دوسری طرف صحرا کے نشیب وفراز سے بھی واقف ہونا ناگزیر ہے، کیوں کہ نفس کی تربیت او راخلاق وکردار کی تہذیب وہ شجر طوبی نہیں ہے، جو چند دنوں کی محنت کے بعد برگ وبار لاتا ہے، بلکہ اس کے لیے سالہا سال کی محنت وجاں فشانی او رمضبوط عزم وارادہ کی ضرورت ہوتی ہے اورجب تک تربیت اور تزکیہ نفس کے اسلوب اور اس کے طریق کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے میں کی جانے والی کوششیں فضول اور بے فائدہ ثابت ہوں گی، حضور اکرم ﷺ کی سیرت سے راہ نمائی لینے کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ طریق کار کو اسوہ اور نمونہ بنانا ضروری ہے۔ آپ کے طریق تربیت میں حکمت ودانائی تھی اگر بعض لوگوں کی کچھ کوتاہیوں سے آپ ﷺ باخبر ہوتے تو اجتماعی طور پر خطاب کرتےاور نا مناسب عمل کی اصلاح فرما دیتے، اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ عام حضرات کے سامنے بھی اسلام کا صحیح طریقہٴ عمل آجاتا اگر کبھی اس بات کی ضرورت ہوتی کہ غلطی پر فورا براہ راست متنبہ کر دیا جائے تو انتہائی نرمی او رنہایت دل سوزی او رمحبت کے انداز میں سمجھاتے، تاکہ مخاطب حق بات قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے لہذا عصر حاضر مربی حضرات خواہ وہ کسی بھی طبقے یا پیشے سے تعلق رکھتے ہوں آپ ﷺ کے تربیت کے طریقوں کو ذہن نشین کریں اور ان طریقوں کے مطابق نسل نوکی تربیت او ران کے اخلاق وکردار کی تہذیب کا عمل انجام دیں، اس سے ان شاء الله ایک صالح اور خوش گوار معاشرہ وجود میں آئے گا او راس کے زیر سایہ پوری انسانیت کو امن وسکون او رچین واطمینان کی سانس نصیب ہو گی.

حوالہ جات

  1. العمادی، ابو سعود ، محمد بن محمد بن مصطفی ،تفسيرابی السعود،جلد 1 ص 13، دار إحياء التراث العربي - بيروت
  2. الزبیدی ، ابو الفیض محمد بن عبد الرزاق ، تاج العروس ، جلد 1 ، ص 506 ، دار الہدایہ
  3. ابو الفضل ، مولانا عبد الحفیظ ، مصباح اللغات ، ص 272 ، المیزان لاہور
  4. اصفہانی ، علامہ راغب ، المفردات فی غریب القرآن ، ص 336 ، دار القلم، الدار الشامية
  5. القرآن سورۃ الجمعہ آیت 2
  6. الھندی ، علاء الدین علی بن حسام الدین ، کنز العمال جلد ، 7 کتاب الشمائل ، باب الشمائل الاخلاق ، ص 214، حدیث نمبر 18673 ، الناشر: مؤسسة الرسالة
  7. القشیری ، مسلم بن الحجاج ،صحیح مسلم کتاب الطہارۃ ، جلد 1، ص 236، حدیث نمبر 285 ، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت
  8. بخاری ، محمد بن اسماعیل ، صحیح البخاری ، جلد 8، ص 10 ، حدیث نمبر 6010، الناشر: دار طوق النجاة
  9. القشیری ، مسلم بن الحجاج ،صحیح مسلم ، جلد 4،ص 1927، حدیث نمبر 2479، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت
  10. رحمۃ للعالمین۱/۵۷
  11. القرآن :17:14
  12. القرآن 99:8
  13. بخاری ، محمد بن اسماعیل ، صحیح البخاری ، جلد 3، ص 128 ، حدیث نمبر 2442، الناشر: دار طوق النجاة
  14. بخاری ، محمد بن اسماعیل ، صحیح البخاری، جلد ، 8 ، ص 10، حدیث نمبر 6011، الناشر: دار طوق النجاة
  15. بخاری ، محمد بن اسماعیل ، صحیح البخاری، جلد ، 8 ، ص 20، حدیث نمبر 6073، الناشر: دار طوق النجاة
  16. الہیثمی ، ابو الحسن نور الدین علی بن ابی بکر ،مجمع الزوائد، جلد 8، ص 165 حدیث13546، الناشر: مكتبة القدسي، القاهرة
  17. التمیمی ، احمد بن علی المثنی ،مسند ابی یعلی،جلد 5 ،ص 92 ، حدیث نمبر 2699، الناشر: دار المأمون للتراث - دمشق
  18. سجستانی ، ابو داود محمد بن سلیمان ، ابو داود ، جلد 3، ص 130 ، حدیث نمبر 2928 ، الناشر: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت
  19. بخاری ، محمد بن اسماعیل ، صحیح البخاری، جلد ، 1 ، ص 68، حدیث نمبر 304، الناشر: دار طوق النجاة
  20. القرآن 23:51
  21. القشیری ، مسلم بن الحجاج ،صحیح مسلم ، جلد 1،ص 236، حدیث نمبر 285، الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...