Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 2 Issue 1 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

حاجی رسول بخش بطور شارح شاہ عبد اللطیف بھٹائی: ایک مطالعاتی جائزہ |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

سندھ برصغیر ایشیا پاک و ہند کا باب الاسلام ہے۔ یہ سر زمین اسلام کے خدمتگاروں کی سر زمین رہی ہے۔ اس کی مٹی سے بڑے بڑے شہپاروں نے جنم لیا ہے۔ کچھ ایسے اللہ لوک انسان اپنی ناقابل فراموش خدمات سرانجام دے گئے ہیں کہ آج بھی صدیوں بعد ان کا فیض جاری ہے۔ علم شریعت کے ظاہری علوم کے بھی علامہ پیدا ہوئے تو علم طریقت کے بھی نایاب گوہروں نے جنم لیا ہے۔ ایسی انمول اور بے بہا شخصیات کی صف اول میں ایک چمکتا ہوا نام بھٹ شاہ کی معزز اور صدیوں بعد بھی عوام کی دلوں میں زنده رہنے والی شخصیت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمہ اللہ (1689_1752) کا بھی ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی شریعت و تصوف و طریقت و معرفت کے علوم کے ماہر، قرآن مجید کے ایک بہت بڑے عالم، مفسر اور ایک عظیم شاعر تھے۔ شاہ صاحب نے شریعت اور طریقت کو اپنی شاعری میں کھول کر بیان کیا ہے اور شریعت و طریقت کے رموز کو بھی واضح کیا ہے۔ اس کے ساتھ معاشرے کی بہت ہی اچھے طریقے سے عکاسی بھی کی ہے۔ شاہ صاحب نے قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ اور تفسیر اپنی شاعری میں بیان کی ہے۔ الحاد اور باطل کی نفی کرکے توحید کا صحیح فلسفہ بیان کیا ہے۔1

آپ کی شاعری توحید کے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے۔ اپنی شاعری کے بارے میں خود ہی واضح کیا ہے. "جي تو بيت ڀانئيا سي آيتون آهين"  جس کو تم نے اشعار سمجھا ہے وہ آیتیں ہیں۔ اس بات کی صداقت ان کی شاعری کو پڑھ کر ہو جاتی ہے۔ شاہ صاحب کی شاعری میں قرآنی آیات کا ترجمہ، تفسیر، احادیث رسول ﷺ کا مفہوم اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین مضمر ہیں۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری کے ذریعے اسلام کا حقیقی مطلب بیان کیا ہے۔شاہ صاحب نے اپنی شاعری کے ذریعے اسلام کا حقیقی مفہوم اور مطلب بیان کیا ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری کے اندر تصوف اور طریقت کے روح کو بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کے باطنی امراض کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ کون کون سے امراض لاحق ہوتے ہیں، ان امراض کا کس طرح علاج کیا جاسکتا ہے، کس طرح اخلاق مذمومہ کو ختم کرکے اخلاق حمیدہ کو اپنایا جا سکتا ہے۔ شاہ صاحب نے تصوف میں نفس پرست صوفیوں کی طرف سے پیدا کردہ بدعات اور خرافات کو بھی واضح کیا ہے۔ اہل حق مشائخ اور صوفیوں کی طرف رہنمائی بھی کی ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی صرف شاعر ہی نہ تھے بلکہ آپ ایک ولی اللہ، سالک کامل، اپنے وقت کے بڑے زاہد اور متقی، صاحب الشریعۃ، متوکل علی اللہ، واصل باللہ، بڑے پرہیزکار، جامع الکمالات، اخلاق ممدوحہ سے بھرپور شخصیت، نابغہ روزگار اور کامل مسلمان تھے۔آپ کے کلام کو اللہ رب العزت نے مقبولیت عام و خاص کا مرتبہ عطا فرمایا۔ آپ کے کلام کو قبولیت کا درجہ ملنا آپ کے اخلاص اور اہل دل سالک ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ آپ کا کلام توحید رسالت، حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، توکل، انسانیت کا جذبہ، انسانیت سے محبت، صبر اور اس کا پھل، رضاالہی، جستجو، خود کی پہچان، باطن کی صفائی، اہل بیت سے محبت، اپنے مرشد سے عقیدت، خودی کی فنائیت وغیرہ جیسے دروس پر مبنی ہے۔ آپ ایک کامل ولی، سچے صوفی اور سالک تھے۔آپ کے کلام کو اسلامی تعلیمات کی تفسیر و تشریح کہنا بے جا نہ ہوگا۔ آپ کا پورا کلام عشق حقیقی پر مبنی ہے۔ آپ کا کلام پڑھنے سے بندے کے دل میں اللہ رب العزت کی محبت ، رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت اور نیک اعمال کرنے کی ترغیب جیسے اخلاق حمیدہ نصیب ہو جاتے ہیں۔ آپ کے کلام میں ایک عجیب سی کشش اور جذبہ رکھا ہوا ہے۔ عشق مجازی والے لوگ بھی آپ کے کلام سے اپنے دل کا درد سناتے ہیں۔ آپ کے استعار کو عشق مجازی پر موقوف کرتے ہیں، جو کہ آپ کی ذات اور آپ کے کلام کی حقیقت اور روح کی بے ادبی ہی ہے۔ آپ کا کلام آپ کا اللہ رب العزت سے عشق، رسالت سے محبت، اہل بیت پر فدا ہونے کی تمنا اور انسانیت کا خادم ہونے کا ایک زندہ جاوید ثبوت ہے۔ آپ کا کلام مردہ دلوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ آپ کے کلام کو یزدانی قبولیت حاصل ہوئی۔ جس وجہ سے کافی شارحوں نے آپ کے کلام کی شرحیں مرتب اور تحریر کیں۔ عام طور پر یہی مشہور ہے کہ شاعر کے شعر کا مفہوم اور تفسیر خود شاعر ہی جانتا ہے۔ شاعر ہی اپنے کلام کے بارے میں صحیح اور حقیقی طور پر شرح بیان کرسکتا ہے۔وہ خود ہی بتا سکتا ہے کہ اس نے کس جذبے کے تحت لکھا۔ اس شعر کو کس پس منظر میں لکھا ہے۔ اس طرح شاہ صاحب نے شاعری اور کلام کو کن خیالات اور جذبات کے تحت لکھا ہے، اس طرح آپ کے کلام کا اصل مفہوم اور مقصد تو خود آپ ہی جانتے تھے۔ باقی حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ آپ کے کلام کا اصل منشا و مقصد کیا ہے۔ البتہ کچھ شارحین نے تشریح کرنے کی کوشش کی ہے پھر وہ اصل مفہوم تک پہنچ پائے یا اس کے قریب اس بات کی کوئی بھی توثیق نہیں کر سکتا۔

سندھ کا ہر حصہ اپنے اپنے نصیب کی خدمت کر چکا ہے اورکررہاہے۔ضلع دادو کے تعلقہ میہڑ نے بھی اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کیا ہے۔ میہڑ کی سرزمین کافی سرسبز و شاداب رہی ہے۔ اس سرزمین پر بڑے بڑے علماء کرام، ولی اللہ، مفتیان، حفاظ، مفسرین، محققین، محدثین، سیاستدان، سماجی خدمتگار اور خدمت خلق سے سرشار جوانوں نے جنم لیا ہے۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے الگ الگ خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اس علاقے میں بہت سی نامی گرامی شخصیات نے دین متین کی خدمت کی ہے۔ میہڑ شہر سے تقریبا 40 کلومیٹر کی مسافت پر فریدآباد جیسا پسماندہ علاقہ موجود ہے۔ اس علاقے کے رئیس حاجی رسول بخش ڈیرو نے بھی دین متین کی خدمت اپنے نصیب کے حصے کے مطابق کی۔

پیدائش اور تعلیم

حاجی رسول بخش صاحب گاؤں فریدآباد تحصیل میہڑ ضلع دادو میں فروری 1901ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد اصل میں بھٹ شاہ کے مغرب میں ڈیرو قوم کے ایک گاؤں “ ڈیرا” کے رہنے والے تھے۔ یہ گاؤں آج بھی اس جگہ موجود ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی صاحب کے زمانے سے بھی پہلے حاجی رسول بخش صاحب کے آباء و اجداد اس گاؤں سے ہجرت کرکے فرید آباد میں آکر رہائش پذیر ہوئے۔ میاں علی نواز ایک دیندار، نیک سیرت، متقی، پرہیزگار، علم کا بے حد شوق رکھنے والا اور اکثر مطالعے میں مستغرق رہنے والا انسان تھا۔ علی نواز صاحب کو مطالعے کا جنون کی حد تک شوق اور عشق تھا۔ جس کے نتیجے میں اس کے پاس کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا۔رسول بخش کے بچپن ہی میں علی نواز صاحب کی وفات ہوگئی۔ رسول بخش صاحب بچپن ہی میں یتیم ہو چکے تھے۔ آپ کو اپنے  والد کی طرف سے میراث میں بہت ساری زمین اور بہترین کتابوں کا ایک بڑا ذخیرا ملا۔ شفقت پدری کی محرومی نصیب ہونے کے بعد آپ کی پرورش اور پالنا کا ذمہ آپ کی والدہ صاحبہ نے اپنے کاندھوں پر لیا۔ اس عظیم عورت کو اپنی سرتاج کی طرف سے داغِ مفارقت ملا اور اس معصوم بچے کی پرورش کا وزن اس کے نازک کندھوں پر آ پڑا۔ اپنے جیون ساتھی کے جدائی کا غم پہاڑ بن کر گرا مگر پھر بھی اس عظیم عورت نے ان دکھوں کے ساگر کو پار کرکے رسول بخش کی پرورش ایک ماں اور ایک باپ کے روپ میں بہترین نمونے سے کی۔ اس عظیم ماں نے دل شکستہ ہونے کی بجائے بڑی ہمت اور استقامت سے چھوٹے رسول بخش کی پرورش کی۔ زمانے کے دکھوں اور تکالیف سے لڑتی رہی اور امید کا دامن پکڑے رکھا۔ چھوٹے رسول بخش کی پالنا اور پرورش پر خاص توجہ دینے لگی۔ ایسا کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اپنے جیون کی سفلتا اور منزل چھوٹے رسول بخش کی تربیت کو ہی سمجھا اور اپنے پورے جیون اور اپنی سموری کاوشوں، ساری خواہشوں، ساری امیدوں اور سب تمناؤں کو اس بچے کی تربیت اور تعلیم پر وار دیا۔ اس عظیم ماں نے  اپنے بیٹے کو قرآن مجید اور دینی تعلیم سے آراستہ کیا۔ اس بچے نے سندھی کے چھے (6) درجے پڑھے مگر فائنل کا امتحان نہ دے پایا۔ میاں علی نواز کے اندر جو خداداد صلاحیتیں اور مطالعہ کا عشق تھا اس عشق کی انتہا اس کی تدفین کے ساتھ دفن نہ ہوئی بلکہ اس عشق کی جڑیں اس نئی زرخیز زمین جو چھوٹے رسول بخش کے دل کی تھی میں مضبوط ہو چکی تھیں۔ یہ عشق رسول بخش کے بڑے ہونے کے ساتھ بڑھتا گیا اور آخر کار ایک قدآور درخت بن کر رئیس حاجی رسول بخش ڈیرو صاحب کی صورت میں نمودار ہوا۔ مطالعے کا عشق میاں علی نواز کی رگ رگ میں سمایا ہوا تھا۔ اس کا بیج خون پدری کی صورت میں حاجی رسول بخش کے خون میں بھی شامل ہو چکا تھا۔

حالات زندگی

راقم الحروف نے آج کے زندہ عمر رسیدہ اہل علم حضرات جن میں مولانا امداداللہ چانڈیو (پيدائش 1945ء) فریدآباد، مولانا محمد بچل چانڈیو (پيدائش 1932ء) سیدپور، خان محمد تنیو لونگ تنیو، مولانا عبدالقیوم المعروف جوہر بروہی (پيدائش 1950ء) فرید آباد اور مولانا عبداللہ چانڈیو (پيدائش 1956ء) میہڑ سرفہرست ہیں سے حاجی رسول بخش صاحب کے بارے میں جب پوچھا تو ہر ایک نے ٹھنڈی آہ بھر کر یہ بتایا کہ بہت زیادہ وسیع مطالعہ رکھنے والے انسان تھے۔حاجی رسول بخش صاحب جیسا وسیع مطالعہ رکھنے والا جو جنون کی حد تک ہو ایسا شاید ہی کوئی انسان آس پاس کے علاقے میں گزرا ہو۔ حاجی رسول بخش  صاحب کو اس وقت کے کامل ولی، عالم باعمل، استاذالعلماء والصلحاء، عالم ربانی، زاہد زماں اور فرشتہ صفت انسان حضرت مولانا عبدالکریم دیروی ڈیرو صاحب (1897_1954) کی بہت زیادہ صحبت نصیب ہوئی۔ حاجی رسول بخش صاحب نے اس صحبت کو غنیمت جانتے ہوئے دینی تعلیم کے سلسلے میں ان سے بہت کچھ حاصل کیا۔ مولانا دیروی صاحب کو فارسی اور سندھی صوفی شعراء کے کلام سے گہری دلچسپی اور لگاؤ تھا۔ ان کی صحبت کی وجہ سے حاجی رسول بخش صاحب کو بھی سندھ کے صوفی بزرگوں کے کلام سے دلی لگاؤ پیدا ہوا۔ خاص کرکے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمہ اللہ کے شعر پڑھنے اور ان پر غور و فکر کرنے سے گہری دلچسپی ہونے لگی۔ حاجی رسول بخش صاحب کسی مدرسے سے باقاعدہ فارغ تحصیل عالم یا فاضل تو نہ تھے مگر بچپن ہی میں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی تھی اور سندھی کی بھی تعلیم حاصل کی تھی اور ساتھ میں اس وقت کے کامل ولی اللہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب کی رفاقت اور صحبت سے بہت کچھ حاصل کر چکے تھے۔ جب تک حاجی رسول بخش صاحب کے کندھوں پر زمینداری کا بوجھ نہ تھا تب تک اکثر اوقات مولانا دیروی صاحب کی صحبت کو غنیمت سمجھتے ہوئے دینی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ حاجی رسول بخش صاحب مولانا عبدالکریم صاحب کے شاگرد اور ایک اچھے دوست کے ناطے ان سے بہت کچھ حاصل کرتے رہے۔ آپ کو مطالعے کا جنون وراثت ہی میں ملا تھا۔ آپ کا مطالعہ اتنا وسیع ہوا کرتا تھا کہ جب آپ بات کرتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے آپ کے لبوں سے علم کی شعاعیں نکل رہی ہوں۔ ایسا لگتا تھا جیسے آپ علم کے سمندر ہوں۔آپ ایک زمیندار خاندان کے فرد اور اپنے دور کے بہترین زمیندار بھی تھے۔ اس کے ساتھ بہت دیندار اور متقی انسان بھی تھے۔ زمیندار ہونے کے باوجود آپ قرآن مجید کی تلاوت باقاعدگی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ پنجگانہ نماز باجماعت، تہجد اور ذکر کی بھی پابندی کیا کرتے تھے۔ اپنے ان معمولات میں کبھی بھی ناغا نہ ہونے دیا اور حالات کی وجہ سے کبھی بھی اپنے معمولات میں کوئی فرق بھی نہ آنے دیا۔ آپ تصوف میں دلچسپی لینے والے زمیندار تھے۔ آپ اکثر دینی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کیا کرتے تھے۔ احیاء العلوم، کیمیائے سعادت، مثنوی مولانا روم، قرآن مجید کی مختلف تفاسیر، احادیث اور فقہ کی مختلف کتب آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔

آپ کو مطالعے کا جتنا جنون تھا اتنا ہی تصوف کے ساتھ آپ کو لگاؤ بھی تھا۔ آپ ایک اچھے زمیندار اور صوفی بزرگ بھی تھے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمہ اللہ کے کلام سے آپ کو قلبی نسبت تھی۔آپ کی دلجوئی اور مصروفیت عام رواجی وڈیروں، زمینداروں اور چودھریوں سے ہٹ کر اہل اللہ کا تذکرہ اور اہل علم کی مجالس ہوا کرتی تھی۔ شاھ عبداللطیف بھٹائی سے آپ کا روحانی تعلق تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اصل نصیحت اور ہدایت تو قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر تصوف بھی ان کی تشریح اور وضاحت ہے اور بزرگوں کے اقوال اور افعال بھی ان ہی کی شرحیں ہیں۔ آپ کی اس چاہت اور عشق کا نتیجہ یہ نکلا کے آپ شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمہ اللہ کے کلام کے صحیح اور حقیقی شارح بن گئے۔ شاہ صاحب کے کلام کی شرح شریعت مطہرہ کی روشنی میں ایسی کی کہ ہر زبان سے آفرین کی آواز بلند ہونے لگی۔ آپ بڑے شخصیت شناس انسان بھی تھے اور خداداد صلاحیتوں سے سرشار ہستی بھی تھے۔ آپ فطرت انسانی سے اچھی طرح واقف تھے۔ آپ کو اللہ رب العزت نے بہترین خوبیوں اور مَلکوں سے نوازا تھا۔ آپ دانا بزرگ اور حکیم شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کو دین سے بے حد لگاؤ تھا۔ آپ علما، صلحا اور اولیائے کرام سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ علماء اور صوفیاء کی بہت زیادہ عزت و اکرام کیا کرتے تھے اور ان کی خدمت اور استعانت کے لئے ہر وقت تیار رہا کرتے تھے۔ آپ ہاتھ کے بھی کشادہ انسان تھے۔ صدقات اور خیرات میں بھی نمایاں رہے۔

آپ کو ہمیشہ یہ احساس شدت سے رہا کہ آپ باقاعدہ دستاربند عالم نہ بن سکے۔ آپ نے اپنے گاؤں فریدآباد میں ایک بہترین مدرسہ "مدرسہ محمدیہ" کے نام سے قائم کیا۔ جہاں پر مولانا قاری عبدالکریم بروہی صاحب کو مدرس مقرر کیا ۔مدرسے کا سارا اہتمام آپ ہی کے ذمے ہوا کرتا تھا اور اس کے سارے اخراجات بھی آپ ہی کی جیب سے ہوا کرتے تھے۔ اس مدرسے سے بڑے بڑے علماء کرام کے علم سے فرید آباد اور اڑوس پڑوس کے گاؤں اور علاقوں کے لوگوں فیضیاب ہوتے رہے۔ یہ مدرسہ اس علاقے میں دینی خدمات بہت احسن طریقے سے سر انجام دیتا رہا۔ آج بھی یہ مدرسہ فریدآباد میں “مدرسہ محمدیہ” کے ہی نام سے قائم ہے۔ اس مدرسے کے موجودہ مہتمم اور صدر مدرس مولانا عبدالقیوم المعروف جوہر بروہی صاحب ہیں۔مولانا جوہر بروہی صاحب نے ایک مجلس میں بتایا کہ مجھے شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ سے واقف کروانے والے اور ان کے کلام کو سمجھانے والے انسان حاجی رسول بخش صاحب ہی تھے۔ راقم الحروف نے مولانا جوہر بروہی صاحب سے ایک ذاتی سوال پوچھا کہ جب آپ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی تو آپ نے اولاد کی خاطر دوسری شادی کیوں نہ کی؟ اس سوال کے جواب میں مولانا جوہر بروہی صاحب نے ٹھنڈی آہ بھر کر بتایا کہ بھائی اس بارے میں اب میں کیا بولوں؟ حاجی رسول بخش صاحب کی پہلی دفعہ نظر جب مجھ پر پڑی تو نظر پڑتے ہی فرمانے لگے کہ بیٹا آپ کو اولاد نہیں ہوگی۔ میں نے متعجب ہو کر پوچھا کہ حاجی صاحب ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ میں نے تو ابھی تک شادی بھی نہیں کی اور آپ ایسے کیسے فرما سکتے ہیں؟ کیا میرے اندر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے یا میرے اندر اولاد پیدا کرنے کے جراثیم نہیں ہیں؟ میرے ان سوالات پر حاجی صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ بیٹا ایسی بات نہیں ہے کہ آپ کے اندر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے، مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ سچل اور بھٹائی رحمہما اللہ کی راہ کے مسافر ہیں۔میرے علم کے مطابق آپ کو اولاد کی خوشی نصیب نہیں ہوگی۔ حاجی رسول بخش صاحب کو میں نے  بہت قریب سے دیکھا ہے میرا ان کے ساتھ بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ مجھے ان کی کافی صحبت نصیب ہوئی۔ مجھے اس انسان نے بہت کچھ سیکھایا ہے۔ وہ بہت بڑے دور اندیش، نفسیات کے ماہر اور قابل انسان تھے۔ جس کا مجھے بخوبی اندازہ ہے۔ ان کی زبان سے جو بھی نکلا آج تک میں نے روز روشن کی طرح اس بات کو عیاں دیکھا۔ میرے متعلق ان کی یہ بات سننے کے بعد مجھے یقین تھا کہ میری قسمت میں اولاد کی نعمت مقدر نہیں ہے ، پھر چاہے میں دو تو کیا چار شادیاں بھی کر لیتا تو بھی مجھے یہ سعادت نصیب نہ ہوتی۔

مولانا میر حسن بروہی(پيدائش 1956ء) مہتمم جامعہ مصباح العلوم وارہ سے ایک ملاقات کے دوران جب حاجی رسول بخش ڈیرو صاحب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا حاجی رسول بخش صاحب بڑے دانا، بڑے ذہین اور فطین انسان تھے۔ سندھی اور فارسی کے ماہر اور بڑے قابل تھے۔ عربی زبان  کے بھی عالم تھے۔ نماز پنجگانہ باجماعت کے پابند اور تہجد گزار تھے۔ بڑی حشمت والے زمیندار بھی تھے۔ جب تک حاجی صاحب فریدآباد میں زندہ رہے تب تک لوگوں نے کبھی اپنے گھر کے دروازے بند نہ کیے۔ سب بے فکر رہا کرتے تھے۔ جب تک حاجی صاحب زندہ تھے تو آپ کی پوری زندگی میں آپ کی تعمیر کردہ جامع مسجد میں عید اور جمعہ کی نماز ایک ہی ہوا کرتی تھی۔ آپ کی پوری زندگی میں فریدآباد میں کبھی بھی کسی کی بھی چوری نہ ہوئی۔ سب لوگ حاجی صاحب سے مطمئن رہا کرتے تھے۔ آپ کی دل سے عزت و احترام کیا کرتے تھے۔ حاجی صاحب کی صبح کی شروعات فجر کی نماز باجماعت سے ہوا کرتی تھی۔ نماز کے بعد تلاوت کلام پاک لازمی طور پر اور مستقل کیا کرتے تھے۔ ان دنوں چائے کا رواج نہیں تھا۔ باجهر کی روٹی گڑ کی ڈلی اور مکھن کے ساتھ یا لسی کے ساتھ کھا کر گھر سے باہر نکلا کرتے تھے۔ لوگ آپ کی محبت اور اشتیاق میں آپ کے پیچھے پیچھے چلتے تھے۔ آپ سے ملنے والوں کی ہر وقت ایک بڑی تعداد موجود ہوا کرتی تھی۔ لوگ بڑی دور دور سے آپ سے ملنے اور اپنے دکھ درد سنانے کے لیے آپ کی بیٹھک میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ صبح صبح لوگوں کا ایک ہجوم آپ سے ملنے کے اشتیاق میں آپ کے گھر کی گلی سے باہر آپ کے آنے کے انتظار میں موجود ہوا کرتا تھا۔ حاجی صاحب کا اپنا چاولوں کا ایک کارخانہ ہوتا تھا۔ اس میں بیٹھ کر لوگوں کے ساتھ محفل کیا کرتے تھے۔ میرے ساتھ بھی آپ کو دلی محبت تھی۔ میں نے خود اپنی ابتدائی دینی تعلیم آپ ہی کے قائم کردہ مدرسے “مدرسہ محمدیہ” سے حضرت مولانا امداداللہ چانڈیو صاحب سے حاصل کی۔ اس کے بعد پڑھنے کے لئے بیر شریف حضرت مولانا عبدالکریم قریشی رحمہ اللہ (1923_1999) کے مدرسہ میں حاضر ہوا۔ میں وہاں پر پڑھا کرتا تھا۔ جب چھٹیاں ہوتی تھیں تو چھٹیوں میں اپنے گاؤں فریدآباد جایا کرتا تھا۔ جب میں چھٹیوں میں فریدآباد اپنے گھر میں موجود ہوتا تھا تو آپ اپنے کسی نوکر کو بھیج کر مجھ کو بلوایا کرتے تھے۔ آپ نے عوام کی خدمت کے لیے چالیس سے پچاس بھینسیں، تیس سے چالیس اونٹ اور دس گھوڑے ہر وقت اپنے پاس رکھے۔ آپ بڑے مہمان نواز ہوا کرتے تھے۔ آپ سے ملنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوا کرتی تھی اور جو بھی بندہ آپ سے ملنے کے لیے آیا کرتا تھا تو اس کی مہمان نوازی بھی خوشی خوشی کی جاتی تھی۔ آپ کے پاس زمین بھی کافی تعداد میں موجود تھی۔ آپ اہل علم لوگوں سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے۔ پھر چاہے ان کی مجلس میں بیٹھتے ہوئے آپ کا پورا دن ہی کیوں نہ گذر جائے ،لیکن آپ بڑے شوق سے ان کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ آپ بڑے اثر ورسوخ والے زمیندار ہوا کرتے تھے، مگر علم والوں کے ساتھ آپ کی بہت زیادہ صحبت رہی ہے۔ بدکردار اور برے لوگوں سے آپ کی بالکل بھی نہ بنتی تھی۔آپ کی بیٹھک میں ہر وقت مسافر لوگ بھی آیا کرتے تھے۔ ان کو رہائش اور کھانا میسر کیا جاتا تھا۔ آپ صدقات اور خیرات بھی کثرت سے کیا کرتے تھے۔ آپ کی بیٹھک ہر وقت لوگوں سے بھری رہتی تھی اس میں غریب کسان اور اہل علم حضرات کی بہت بڑی تعداد ہوا کرتی تھی ۔آپ کھانا کھلانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ اکثر دیگیں پکوایا کرتے تھے۔ میں نے آپ جیسا دوسرا کوئی زمیندار نہیں دیکھا جس کو علم کے ساتھ اتنی زیادہ محبت ہو۔ شاہ صاحب کے کلام کے تو دیوانے تھے۔ اتنے ادب اور محبت سے شاہ صاحب کا کلام سنا کرتے تھے گویا کہ تلاوت کلام پاک سن رہے ہوں۔ شاہ صاحب کے کلام کے بہت بڑے جاننے والے تھے۔ شاہ صاحب کے کلام کی قرآن مجید، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور اولیاء کرام کے اقوال و افعال اور ان کے قصوں کی روشنی میں ایسی شرح کی ہے کے شاید ہی کسی اور نے ایسی شرح لکھی ہو۔ ایسی شرح کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی کسی عام عالم کے بس کی بات ہے، مگر حاجی صاحب کو یہ رب کی طرف سے ادا کردہ دَین ہی تھی۔ وہ فارسی ،عربی اور سندھی لغت کے ایک ماہر انسان تھے۔

مولانا میر حسن صاحب کی مذکورہ باتوں کی تصدیق دوسرے اہل علم عمر رسیدہ بزرگوں نے بھی کی ہے۔ حاجی رسول بخش صاحب نے جو شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمہ اللہ کے کلام کی شرح لکھی ہے، ان میں سے کچھ سُروں کی شرح چھپی ہوئی ہے۔ ان میں سے سر کلیان، سر یمن کلیان،  سر  آسا سر مومل رانو، شرح لطیف، شاہ جوشان وغیرہ شامل ہیں۔ رئیس حاجی رسول بخش صاحب نے 27 جولائی سنہ 1982ء میں  وفات پائی۔ آپ کے آخری دیدار کے لیے موجود ہر آنکھ اشک بار تھی۔ لوگ اس دن خود کو بے سہارا اور یتیم محسوس کرنے لگے۔ ایک علم کا باب بند ہوگیا۔ ایک اہل علم بزرگ ہستی ان کو داغ مفارقت دے کر ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئی۔

شاہ صاحب کے کلام سے عشق

حاجی رسول بخش صاحب نے شاہ صاحب کے کلام کو محض شاعری کی حیثیت سے نہیں پڑھا بلکہ اس کلام کو دعا سمجھ کر اس کی تفسیر و تشریح میں سرگردان رہے۔ شاہ صاحب کے رسالے کی کافی شروحات لکھی جا چکی ہیں۔ ان شروحات کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہر ایک شارح نے وہ تشریح کی ہے جو اس نے خود سمجھا ہے یا جو بات اس کے ذہن میں تھی اس کے مطابق شاہ صاحب کے کلام کا مقصد بیان کیا ہے۔ ہر ایک شارح اپنے اپنے راستے پر چلا ہے۔ ایک اصول بیان کیا جاتا ہے کہ اگر کسی بھی شاعر کے کلام کی تشریح کرنی ہو تو شاعر کی زندگی کے وقت، ماحول، رسم و رواج، لوگوں کے اطوار، مذہبی رجحانات، سیاسی اور سماجی حالات وغیرہ کو مطالعہ کرکے کلام پر اس پس منظر میں غور و فکر کرکے تشریح کی جائے۔ شاہ صاحب کے کلام کی ساری جملہ شروحات اپنی جگہ پرمگرسندھ کے پسماندہ علاقے فریدآباد تحصیل میہڑ کے گمنام بزرگ رئیس الحاج رسول بخش ڈیرو صاحب نے جو شرح کی ہے اس شرح کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ  “جي تو بيت ڀانئيا سي آيتون آهين”  کے دعوی کو سچ کرکے دکھاتی ہے۔حاجی رسول بخش صاحب اہل دل اور اہل علم بزرگ تھے۔ آپ کو فارسی اور عربی لغت کا بہت زیادہ علم حاصل تھا۔ سندھی لغت کا تو آپ کو ساگر کہا جاتا تھا۔ آپ سندھی زبان کے بہت بڑے ماہر تھے۔ آپ کو مولانا عبدالکریم دیروی صاحب کی صحبت میں رہ کر صوفی شعراء کے کلام خاص کر کے بھٹائی صاحب کے کلام سے دلی لگاؤ پیدا ہوا۔ مولانا عبدالکریم دیروی صاحب خود بھی شاہ صاحب کے کلام کا زیادہ مطالعہ کرتے تھے اور بھٹائی صاحب کے کلام کے بڑے شارح بھی تھے۔ ان کی رفاقت میں حاجی رسول بخش صاحب کو شاہ صاحب کے کلام سے جنون کی حد تک عشق ہوگیا2۔ فریدآباد اور آس پاس کے علاقے کے بزرگ اہل علم حضرات اور عمر رسیدہ لوگوں سے راقم الحروف نے جب بھی حاجی رسول بخش صاحب کا شاہ صاحب کے کلام سے عشق کے بارے میں پوچھا تو سب نے یہی جواب دیا کہ حاجی صاحب کو شاہ صاحب کے کلام سے دیوانہ وار محبت تھی، عشق کا جنون تھا، آپ کی اکثر اوقات شاہ صاحب کے کلام پر مبنی مجالس ہوا کرتی تھیں۔ دور دراز سے شاہ صاحب کے کلام کو جاننے والے لوگوں کو دعوت دے کر محفلیں منعقد کرواتے رہتے تھے۔ جب بھی محفل شروع ہوتی تھی تو آپ ایسے باادب ہو کر بیٹھ جاتے تھے گویا تلاوت کلام پاک سن رہے ہوں۔ جب محفل میں شاہ صاحب کا کلام پڑھا جاتا تھا تو آپ غور سے سنتے تھے اور اس کلام کی گہرائی میں ڈوب جاتے تھے۔ محفل میں موجود لوگوں کی زبانی کلام کی تفسیر بھی سنتے تھے۔ آخر میں خود اس کی تشریح کرتے تھے۔ جب آپ تشریح کرنے لگتے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بہت بڑے علامہ، بہت بڑے محقق، لغت کے بہت بڑے ماہر، بہت بڑے فلسفی بات کر رہے ہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ کلام خود انہی کا ہے اور صحیح تشریح کر رہے ہیں۔حاجی رسول بخش صاحب نے شاہ صاحب کے کلام کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا۔ کافی زیادہ مطالعہ کرنے کے بعد آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ شاہ صاحب کی شاعری میں قرآن مجید، احادیث رسول ﷺ اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اسرار و رموز سمجھائے گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے شریعت کے علوم کو شاعری کی زبان میں سمجھایا گیا ہے۔ بہت زیادہ مطالعے  اور کلام سے عشق کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ صاحب کے کلام کی تفسیر و تشریح قرآن مجید، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور بزرگوں کے اقوال و افعال کی روشنی میں کی جائے۔ اس شوق و تمنا کومدنظر رکھتے ہوئے شاہ صاحب کے کلام کو جاننے والے لوگوں کی محفل بہت کثرت سے منعقد کروانے لگے اور بڑے بڑے شہروں میں اور دور دراز کے علاقوں میں منعقد ہونے والی مجالس میں بھی اکثر جایا کرتے تھے۔ آپ دور دراز علاقوں سے شاہ صاحب کے کلام کو جاننے والوں کے ساتھ کلام پر بڑی علمی بحث کرنے لگے۔ بڑے شوق سے ان کی تشریحات بھی سنتے تھے۔ قرآن مجید، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فقہ، تفسیر قرآن مجید، اکابر صوفیہ کے کلام، سیر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور بزرگان دین کے اقوال، افعال اور قصص وغیرہ کا بڑا دقیق مطالعہ کرنے لگے۔ 1953ء سے شاہ صاحب کے کلام کی شرح مذکورہ چیزوں کے مطالعہ کی روشنی میں کرنی شروع کی۔ تقریبا پورے کلام کی شرح لکھی۔ اس میں سے کچھ سُروں کی شرح مختلف ناموں سے الگ الگ جلدوں میں شائع ہوئی۔ باقی مواد قلمی مخطوطوں کی صورت میں رہ گیا۔ زندگی کے ایام پورے ہوجانے کے بعد وہ سارا مواد آپ کی اولاد کے رحم و کرم پر موقوف رہا اور زمانہ کی ستم ظریفی کی وجہ سے وہ مواد آج ناپید ہے یا کسی کونے میں کتابوں تلے دبا ہوا بےمقصد پڑا ہوا ہے۔

اہل علم کے تاثرات

علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی (1924_2003)

رئیس حاجی رسول بخش کے ساتھ ہماری علمی اور ادبی محفلیں ہوتی رہی ہیں۔ ہم نے ان کو سندھی لغت کا مہاساگر سمندر پایا اور سندھی لغت کی پرانی رسم الخط کا بہت بڑا جاننے والا پایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دل پر اپنا ایسا فیض نازل فرمایا ہے کہ ہر بیت کی وہ شرح کی ہے جو قرآنی آیات کے مطابق مطابقت رکھتی ہے۔ یہ  وہبی فیض کا اثر ہے جو کلام کی تشریح اور آیات کا ترجمہ بھی صحیح کرتے گئے ہیں اور ان کا ترجمہ بھی پرانی سندھی زبان کے رنگ میں پیش کیا ہے۔ آپ کی عبارت نہایت سادہ اور آسان زبان میں ہے، جس کو کم پڑھا لکھا یا بہت زیادہ پڑھا لکھا ہر ایک اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔

سید محمد صالح شاہ بخاری

حاجی رسول بخش ڈیرو صاحب نے شاہ صاحب کے کلام کی شرح قرآن اور سنت کی روشنی میں لکھی ہے۔ اس شرح سے پہلے شاہ صاحب کے کلام کی جو شروحات لکھی گئی ہیں وہ شاہ صاحب کے کلام کی کم بلکہ خود شارحین کے خیالات کی زیادہ شروحات ہیں بلکہ ایسا کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کا شاہ صاحب کے کلام کے مفہوم سے ذرا برابر بھی واسطہ مشکل ہے3۔

مولانا غلام محمد گرامی (1920_1986)

حاجی رسول بخش صاحب کو اللہ تعالی کی طرف سے ایسی دَین عطا ہوئی ہے کہ وہ شاہ صاحب کے کلام اور اشعار کو درست اور صحیح نمونے سے پڑھ کر سمجھ سکے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ان کا مطلب اور مفہوم اسلامی تصوف اور قرآن و حدیث کی روشنی میں کرپائے ہیں۔ اس بات میں کوئی بھی مبالغہ نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ شاہ صاحب کے شارحین میں حاجی رسول بخش صاحب ایک خاص مقام حاصل کر چکے ہیں۔ شاہ صاحب کے ہر ایک شعر کو صحیح طور پر پڑھنے اور اس کا صحیح مفہوم بیان کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ حاجی صاحب نے نہ صرف شاہ صاحب کے کلام کا پورا متن درست کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ شاہ صاحب کے کلام کی شرح پر بہت بڑا مواد تیار کیا ہے۔ 4

مولانا مولوی درمحمد خاک

شاہ صاحب کا کلام فیض کا مقالہ ہے۔ جس کے اندر شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے کروڑوں ہیرے، لال اور جواہرات موجود ہیں، مگر کوئی ایسا شخص ہو جو اس کے اندر ڈوب کر غوطے لگا کر جناب حاجی رسول بخش ڈیرو صاحب کی طرح بڑی محنت اور جفاکشی کے ساتھ ان جواہرات اور ہیروں کو لا سکے۔5

مولانا درمحمد پنھور (1902_1976)

مولانا صاحب حاجی رسول بخش ڈیرو صاحب کے قائم کردہ مدرسہ “مدرسہ محمدیہ ” فریدآباد میں کئی سال مدرس کی حیثیت سے خدمت سرانجام دیتے رہے ہیں۔ مولاناصاحب فرماتے ہیں کہ حاجی رسول بخش صاحب شاہ صاحب کے رسالے سے دلی شغف رکھتے ہیں۔ رسالے کے سر کلیان اور سر یمن کلیان کی دو فصول میں شرح کی ہے۔ اس کے علاوہ سر آسا کے تین فصول لکھ کر پورے کئے ہیں اور چوتھی فصل شروع ہے۔ سر مومل میں سے ایک فصل پوری کی ہے اور سر سویراگ سے ایک بیت سوداگر والے پر بھی دو جلدیں پوری کی ہیں مگر بیت کی شرح چل رہی ہے۔ مولانا صاحب آگے فرماتے ہیں کہ جناب رئیس رسول بخش صاحب اگر کوئی دستار بندمولانا نہیں ہیں مگر تصوف کے اردو، سندھی اور عربی کتابوں کا مطالعہ کرکے، خاص کرکہ احیاءالعلوم، کیمیاۓسعادت، مثنوی مولانا روم اور تصوف کی دوسری کتب اور قرآن مجید کی تفاسیر، حدیث کی کتب اور فقہ کی کتب ہمیشہ ان کے زیر مطالعہ رہتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے اور ان کی معلومات خاص ادیبوں سے کم نہیں۔ شاہ صاحب کے رسالے کی معلومات حاصل کرنے کے لئے خاص خاص ادیبوں سے مل کر اچھی معلومات حاصل کر چکے ہيں۔ اس کے ساتھ اللہ رب العزت نے ان کو ذہن اور ذکاوت، فہم و فراست کا ایک وہبی علم عطا فرمایا ہے۔ انہوں نے ہر ایک مشکل لفظ کی معنی لفظ بلفظ دی ہے، گویا کہ عربی اور فارسی سے سندھی میں ترجمہ کیا ہے۔ ان مشکل الفاظ کی مشکلات کو حل کرنے کی وجہ سے رسالے کے اکثر مقامات از خود حل ہو جاتے ہیں۔ اشعار کے ربط اور آپسی میل کو اچھی طرح سے سمجھایا گیا ہے جو ناظرین کو ان کی شرح کے مطالعے سے معلوم ہوجائے گا۔ اشعار کےمطالیب کو قرآن مجید کی آیات، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،  آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، سلف سالحین کے اقوال اور امثال سے تطبیق دی ہے، جو ہر اہل علم،  اہل ادب،  خاص کر مبلغین اور واعظین کے لئے کافی مفید نظر آئے6۔

ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ (1917_2011)

ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: شاہ صاحب کے کلام اور ان کے اشعار کی معنی اور شرح کے ساتھ حاجی رسول بخش صاحب کا اتنا شغف دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا کہ بھٹ شاہ سے کافی دور کاچھے جیسے دیہاتی علاقے میں فریدآباد شہر میں اپنی قوم کا وڈیرہ اور زمیندار تن تنہا، شارحین سے بھی دور شاہ صاحب کے کلام میں کتنا مشغول ہے۔ حاجی صاحب کی شرح شریعت اور طریقت کے عین مطابق ہے۔ آپ نے شاہ صاحب کے کلام کی شرح قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں کی ہے۔ تفصیل کے لحاظ سے یہ شرح اس نوعیت کی پہلی محنت ہے جو حاجی صاحب کے قلم سے نکلی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی محنت کا کام ہے۔ شاہ صاحب کے کلام کے ساتھ آپ کی محبت، ذاتی علم کے مطابق اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے مسلسل محنت کا نتیجہ ہے۔7

تشریح کرنے کی وجوہات

حاجی رسول بخش صاحب نے شاہ صاحب کے کلام کی تشریح کرنے کی وجوہات خود تحریر فرمائی ہیں۔ وہ یہ ہیں

پہلی وجہ: اس کو مطالعہ کرنے سے لوگوں کو دینی نفع حاصل ہوسکتا ہے۔ نفع حاصل ہونے کے بعد وہ میرے حق میں دعائے مغفرت کریں اور اللہ رب العزت قبر میں میرے ساتھ آسانی کا معاملہ فرمائیں۔

دوسری وجہ: اہل اللہ کی باتیں سننے سے بھی دو فائدے حاصل ہوتے ہیں. چاہے کوئی ان باتوں پر عمل کرے یا نہ کرے۔1۔ اللہ رب العزت سے محبت کی طلب بڑھ جاتی ہے اور محبت پختہ ہو جاتی ہے۔2۔ اگر کسی کے دل میں بھی تکبر اور عجب ہوگا تو اس کو اپنے اندر یہ برائی محسوس ہوگی۔ اگر کوئی زندہ دل ہوگا تو اس کے ثمرات خود مشاہدہ کرے گا۔

تیسری وجہ: مشائخ اور صوفیاء کرام کی حکایات اور اقوال سننے سے بندہ کا کمزور دل مضبوط ہو جاتا ہے۔

چوتھی وجہ: ہمارے نبی کریم صل وسلم کا فرمان ہے کہ جس جگہ صالحین کا ذکر ہوتا ہے، وہاں پر اللہ رب العزت کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ تو اولیاء کرام کا تذکرہ کرنا بھی رحمت سے خالی نہیں ہوتا۔

پانچویں وجہ: جیسے قرآن مجید اور حدیث شریف کے بعد بزرگانِ دین کے اقوال اور اعمال کو سب سے زیادہ دیکھا۔ شاہ صاحب نے جو بھی فرمایا ہے اس کو قرآن مجید اور احادیث کے مطابق دیکھا۔ جیسے خود اپنے رسالے میں فرمایا ہے”بيت نه ڀائنجو ڀائرو، اهي آيتون آهين_ نيون من لائين پريان سندي پار ڏي“ آیت کا مطلب نشانی ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اے بھائیو!  یہ تُک بندی نہیں ہے،  مگر نشانیاں اور اشارے اللہ رب العزت،  حقیقی معشوق اور اس کے پیارے رسول اور خاص اللہ کے بندوں کی حقیقتوں، احوال، اقوال اور امر و نہی کی طرف ہیں،  کہ یہ نشانیاں اس طرف کا سن کر دل کو بھی اس طرف لے جاتی ہیں۔ تب اس ضعیف بندے نے بھی اس کام کے لکھنے کو اختیار کیا۔ حالانکہ یہ کمزور بندہ ان جیسا نہیں ہے پھر بھی ان اللہ رب العزت کے پیارے بندوں کی محبت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔

چھٹی وجہ: قرآن مجید اور احادیث شریف کو سمجھنے کے لئے علم صرف، نحو اور لغت کے علم کا ماہر ہونا لازمی ہے۔ بہت سے لوگ ان علوم سے بے خبر ہیں۔ بزرگوں کے اقوال اور اعمال ان کی شرح ہیں۔ اس واسطے میں نے سندھی زبان میں ان کو رقم کیا ہے تاکہ سب خاص و عام سمجھ سکیں اور سب لوگ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔

ساتویں وجہ: اگر کوئی شخص طریقت کو ماننے والا نہ بھی ہو تو بھی شاہ صاحب کے کلام کی شرح کو پڑھنے سے کچھ اثر ضرور ہوگا۔ جس طرح کوئی بندہ دوائی کھا لے اور اس کو خبر ہی نہ ہو کہ کیا کھایا ہے، مگر دوائی اثر ضرور کرتی ہے۔ اس طرح اس کا بھی اثر ہوگا۔

آٹھویں وجہ: میں کامل لوگوں کے بارے میں سننا پسند کرتا ہوں۔ دوسری بات سننا پسند نہیں کرتا۔ شاہ صاحب کے کلام میں کاملین کی باتیں اشاروں میں بیان کی گئی ہیں۔ مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں کاملین کے بارے میں بولتا جاؤں تو مجھے کوئی سننے والا ہو یا کوئی کاملین کی باتیں کرتا رہے اور میں ان کو سنتا رہا ہوں۔ اس شرح لکھنے سے شاید مجھے اس میدان میں کوئی ہم نوا اور ہم خیال بندہ مل جائے۔

نویں وجہ: حضرت امام یوسف ہمدانی رحمہ اللہ (1062_1141) سے لوگوں نے پوچھا کہ جب یہ زمانہ گذر جائے اور اہل اللہ سب چلے جائیں۔ تب ایسی صورت میں ہم کو کیا کرنا چاہیے، جس سے ہم کو سلامتی حاصل ہو؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ہر روز ان اللہ والوں کے بیان کے آٹھ اوراق پڑھ لیا کرنا۔ میں نے بھی اس ارشاد پر عمل کرتے ہوئے اہل غفلت واسطے اہل اللہ کے اقوال اور احوال لکھے ہیں۔دسویں وجہ: مجھے کافی وقت سے صوفیاء کرام اور اہل اللہ سے محبت ہے۔ ان کے سلوک والی باتوں سے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

گیارہویں وجہ: موجودہ دور کے لوگوں کی حالت خراب نظر آرہی ہے۔ بدکردار لوگوں نے اہل اللہ کو اپنے دلوں سے اتار دیا ہے۔ اس وجہ سے اللہ والوں کا ذکر لکھا گیا اور ان پر اللہ رب العزت کا جو فضل و کرم اور لطف ہوا ہے اس کو بھی کچھ لکھا ہے۔ گمراہ لوگ بھی اس حقیقی لطیف کے لطف سے فیض و برکت حاصل کرکے ابدی سعادت اور ثواب دارین حاصل کریں۔

بارویں وجہ:ان اللہ والوں کی نیک خصالتوں کو پڑھنے اور دیکھنے سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ دنیا سے محبت کرنے والوں کے دل ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ دنیا بے وفا اور بے بقا ہے۔ جیسے دنیا کے بارے میں شاہ صاحب نے فرمایا ہے (ڏينهن مڙئي ڏون، اُٿي لوچ لطيف چئي) ایک دن پیدا ہونے کا دوسرا مرنے کا۔ بس دنیا اتنا سا ہی وقت ہے۔ ان اہل اللہ کے تذکرے سے آخرت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور اللہ تعالی کی محبت دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔ جو شخص ان بابرکت باتوں کو سنے گا تو ضرور بضرور آخرت اور عاقبت کا ثمر جمع کرے گا۔ اللہ والوں کے دل میں ایک اصلاحی درد تھا۔ اس درد کو سنانا فائدہ مند ہوگا۔8

شرح کی خصوصیات

1۔ شاہ صاحب کے شعر کو لکھ کر اس کا آسان الفاظ میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

2۔ شعر کی تھوڑی سی وضاحت کرکے تشریح کی گئی ہے اور اس شعر کا پس منظر بیان کیا گیا ہے اور اس کی مطابقت میں آیات قرآنی یا آیت کو لکھ کر اس کا ترجمہ اور تھوڑی سی تفسیر کر کے شعر کی اس کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔

3۔ شعر کی معنی و مطلب کو حدیث سے سمجھایا گیا ہے کہ دراصل شاہ صاحب کا یہ شعر اس حدیث کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

4۔ سلف صالحین، صوفیاء کرام اور محدثین وغیرہ کے اقوال و اعمال اور احوال کو پیش کرکے شعر کا مطلب بیان کیا گیا ہے۔

5۔ ہر ایک شعر کے رموز جو اس کے اندر مضمر ہیں ، ان کو تصوف وسلوک کے رنگ میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

6۔ ہر شعر کی تمثیل اور استعارے کو تصوف کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

7۔ ہر شعر کا دوسرے شعر سے ربط بیان کیا گیا ہے۔

8۔ ہر شعر سے معنی و مفہوم میں ملتے جلتے کسی دوسرے شعر کو بھی ساتھ ہی بیان کیا گیا ہے۔

9۔ ہر شعر کی شریعت و تصوف کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے اور تمثیل اور استعارے کا اصل مفہوم بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔

10۔ ہر سُر کے سارے شعروں کے آپسی ربط اور تعلق کو جوڑا گیا ہے۔

حاجی رسول بخش صاحب کی شرح کرنے کا انداز

ٿورا نه ٿورا مون تي ماروءَ جي ڪيا،

ڀلائي جا ڀيرا ڳڻي ڳڻيان ڪيترا.

یعنی "مارو"کے احسانات مجھ پر تھوڑے نہیں ہیں مگر بہت زیادہ ہیں۔ وہ زیادہ رحیم ہے اور اس کی بھلائی کے جتنی دفعہ یعنی مرتبہ بار بار مجھ پر بھلائیاں کی ہیں وہ بھی گِن نہیں سکتا۔ گِن کر کتنے گنوں؟ جسے اللہ رب العزت نے اپنے کلام میں فرمایا ہے: و ان تعدوا نعمة الله لا تحصوهاؕ ان الله لغفور رحیم ﴿۱۸﴾ 9 ترجمہ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو (کبھی بھی) گن نہیں سکوگے۔ بیشک اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اب اس آیت شریف اور شاہ صاحب کے بیت (شعر) کا ایک ہی اور وہی مطلب ہے کہ اللہ رب العزت کی نعمتیں اور بھلائیاں گننے سے زیادہ ہیں، جو آپ کے اعمال کی بدولت نہیں دی گئیں بلکہ اس کے لیے کہ وہ غفور و رحیم یعنی زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ تب آپ پر اپنی رحمت کے بڑے خزانے سے رحم کیا ہے۔ جیسے شاہ صاحب نے فرمایا ہے:

هڏ نه پڙان هيڪڙي ٿوري ٿر ڄاين،

مون کي مارئڙن ميري ڪري نه مٽيو.

تھر ہے یہ دنیا۔ اس دنیا میں اللہ رب العزت نے جو بھی چیزیں انسانوں کی بھلائی کے لیے تخلیق کی ہیں یا پیدا کی ہیں، ان میں سے ایک چیز کے احسان کے بدلے میری جان بھی کم ہے (هڏ نه پڙان هيڪڙي ٿوري ٿر ڄاين) مگر یہ اس رب کریم کی مہربانی ہے کہ مجھے گدلا یعنی گنہگار سمجھ کر ختم یا نابود نہیں کیا اور ان نعمتوں سے جو اپنے پیارے دوستوں اور اچھے لوگوں کو دی ہیں، مجھے بھی دی ہیں۔ جس میں سے ایک گنہگار کو بھی اس نعمت سے دور یعنی رد نہ کیا۔ جس طرح آگ اور پانی اللہ رب العزت کی لاکھوں نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اس میں سے اپنے دوستوں کو بھی دیا اور مجھ گناہگار کو بھی اس نعمت سے برابر دیا (مون کي مارئڙن ميري ڪري نه مٽيو) ایسا کہ اللہ رب العزت زیادہ رحیم ہے، تبھی تو شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ: تُو پہلے اللہ وہ بول جس کی یہ تعریف یا اللہ کے نام کی شرح ہے کہ :“والي واحد وحدهٗ رازق رب رحيم”  اور تک نمبر چار میں ہے“ سو ساراھ سچو ڌڻي چئي حمد حڪيم” یعنی اس سچے مالک یعنی حقیقی مالک کی تعریف کرو جو بڑی حکمتوں والا اور تعریف کے لائق ہے۔ جس طرح اللہ رب العزت نے اپنے پاک کلام کی سورۃ سبا کے اول میں فرمایا ہے۔ الحمد للّٰه الذی له ما فی السموت و ما فی الارض وله الحمد فی الاخرة ؕ وهو الحکیم  الخبیر ﴿۱﴾ یعلم ما یلج فی الارض و ما یخرج منها و ما ینزل من السماء و ما یعرج  فیها ؕ وهو الرحیم  الغفور ﴿۲﴾10 ترجمہ : تمام تر حمد اور تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس کی صفت یہ ہے کہ جو کچھ زمین اور آسمانوں میں ہے سب اسی کا ہے اور آخرت میں بھی تعریف اسی کی ہے اور وہی حکمت والا اور مکمل طور پر باخبر ہے۔ وہ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو زمین کے اندر جاتی ہیں اور ان کو بھی جو اس سے باہر نکلتی ہیں،  اور ان کو بھی جو آسمان سے اترتی ہیں اور جو اس میں چڑھتی ہیں اور وہی ہے جو بڑا مہربان ہے اور بہت بخشنے والا ہے۔

یہ اوپر والی تُک گویا اس آیت کا ترجمہ ہے۔ جیسے آیت شریف میں بیان ہوچکا ہے کہ حمد ہے یعنی تعریف ہے اس خدا کی جس کی سب ملکیت ہے آسمان اور زمین میں۔ یعنی وہ اس کا حقیقی مالک ہے۔ اس طرح بیت (شعر) کی تُک میں بھی ہے کہ تعریف کرو اس سچے مالک کی۔ یعنی حقیقی مالک وہی ہے جس کی یہ سب چیزیں ہیں۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، زمین میں بھی اور آسمانوں میں بھی۔ اور تُک میں ہے "چئي حمد حڪيم"  اس طرح آیت شریف میں ہے “حکیم الخبیر” یعنی وہ دانا اور خبردار ہے اور جیسے شعر میں ”رب رحيم“ کا لفظ آیا ہے، اس طرح آیت میں بھی ”رحیم الغفور“ کا لفظ ہے۔ یعنی رحیم وہ ہے جو زیادہ رحم والا ہو اور زیادہ رحم والا وہ ہے جو خطاؤں کو بھی بخشے تو عطائیں بھی عطا کرے۔ بیت کی پانچویں تُک میں ہے ”ڪري پاڻ ڪريم جوڙون جوڙ جهان جون“ یعنی جہان کو بنایا۔ خود کو کریم کرکے یعنی اپنی کریمی کی صفت پر آکر اور احسان فرما کر دنیا کی بناوت جوڑ دی ہے۔ جوڑ کی معنی بناوت بھی ہے اور جوڑ کی معنی جوڑا بھی ہے۔ یہ جوڑا جوڑنے کی طرف جو اشارہ ہے اس میں بھی بے حد تعریف ہے۔ یعنی اللہ رب العزت نے جو مخلوق پیدا کی ہے وہ جوڑے جوڑے یعنی نر و مادہ کرکے تخلیق کی ہے۔ جیسے سورۃ الذاریات میں ہے ومن کل شیء خلقنا زوجین لعلکم  تذکرون ﴿۴۹﴾11 ترجمہ:  ہم نے سب چیزیں جوڑا جوڑا بنا کر پیدا کی ہیں۔اگر دنیا کی بناوت اس طرح نہ بناتا تو بھی کوئی پوچھنے والا نہ تھا، مگر خود احسان فرما کر کریمی صفت پر خود کو ظاہر فرما کر دنیا کی بناوت کی۔

جوڑ کے معنی خوشی بھی ہے۔ خوشی سے مراد یہ ہے کہ اللہ رب العزت کو دنیا (جہان) پیدا کرنے سے اس وجہ سے خوشی ہوئی کہ اس کا خاص ارادہ یہ تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا معشوق یا عاشق کے بلند درجہ پر پیدا کروں۔ جس طرح جوڑا کے لفظ سے جوڑا یعنی نر و مادہ کی طرف اشارہ ہے۔ جیسے سورۃ زخرف میں ہے والذی خلق الازواج کلها12 ترجمہ: وہی ہے جس نے ہر چیز کے جوڑے بنائے۔تب شاہ صاحب نے فرمایا کہ: تم پہلے اس اللہ کا بولو جس نے دنیا کے جوڑے پیدا کئے ہیں اور جب پہلے جہان کی تخلیق کی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، رحمۃ اللعالمین اور اپنا محبوب بنا کر پیدا کیا اور ہم پر احسان کیا کہ ہمارے حصے میں ایسا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیا۔اس طرح حاجی رسول بخش صاحب نے پورے رسالے کے ہر ایک شعر کا آپس میں ربط لکھ کر سمجھایا ہے۔ بات سے بات نکلتی رہی اور پورے رسالے کی شرح اس طرز پر کردی ہے۔ یہ عبارت حاجی رسول بخش صاحب کی شرح کی کتاب نئين شرح لطيف سے بطور مثال پیش کی گئی ہے۔ نئين شرح لطيف کے صفحہ نمبر 14 سے 17 کی عبارت کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو حاجی صاحب کی شرح کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہو سکے۔

تصانیف1۔ شرح سُر ڪلياڻ 2۔ شرح سُر يمن ڪلياڻ 3۔ شرح سُر آسا ۽ سُر مومل راڻو 4۔ شرح سُر سامونڊي ( سوداگر سمنڊ جا) 5۔ شاھ جو شان 6۔ نئين شرح لطيف۔

باقی آپ نے سارے کلام کی شرح کی ہے، مگر وہ مواد قلمی مخطوطوں کی صورت میں رہ گیا۔ اس قلمی مواد میں بھی ہر سُر کے کئی کئی سؤ صفحات کے دفتر لکھے ہیں ۔

نتائج

1۔ شاہ صاحب کے کلام کی کافی شروحات لکھی جاچکی ہیں۔ شاہ صاحب کے کلام کو قبولیت کا درجہ حاصل ہے۔ اس کی جملے شروحات سے حاجی رسول بخش صاحب کی شرح منفرد اور جدا ہے، جو تصوف وسلوک کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔

2۔ حاجی صاحب نے شاہ صاحب کے کلام کی حقیقت اور روح کے قریب پہنچنے کی سعی کی ہے اور آپ اس سعی میں کافی حد تک کامیاب نظر آتےہیں۔ 3۔ حاجی صاحب نے عام رواجی زمینداروں اور وڈیروں سے ہٹ کر اپنا ایک الگ مقام بنایا اور ان باقیوں سے اپنا ایک الگ شوق رکھا۔ 4۔ حاجی صاحب کوئی باقاعدہ دستاربند عالم نہ تھے پھر بھی ایسی شرح کرنا آپ کی کرامت سے کم نہیں۔ یہ وہبی علم تھا۔ جس کا پتہ آپ کی شرح پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس سے آپ کا علمی مرتبہ اورمقام ظاہر ہوتا ہے۔

حوالہ جات

  1. ميمڻ، فضل الرحمٰن، شاھ جو فڪر ۽ فلسفو، مضمون، شاھ عبداللطيف ڀٽائي رحمة الله عليہ جي ڪلام ۾ ذات باري تعالى، ڊاڪٽر عبدالرحمٰن جسڪاڻي، ڇاپو پهريون، ص284، ڪراچي، سنڌيڪا اڪيڊمي 2017
  2. ڏيرو، رسول بخش، حاجي، شرح سُر آسا ۽ سُر مومل راڻو، ڇاپو پهريون،ص 21، شڪارپور، مهراڻ اڪيڊمي 2011
  3. ڏيرو، رسول بخش، حاجي، شرح سُر ڪلياڻ، ڇاپو ٽيون،ص 41، شڪارپور، مهراڻ اڪيڊمي 2005
  4. ڏيرو، رسول بخش، حاجي، نئين شرح لطيف، ڇاپو پهريون،ص19،20، فريدآباد، ميهڙ، لطيف پبليڪيشن1973
  5. ايضاً ص26
  6. ايضاً ص29،30،31
  7. ڏيرو، رسول بخش، حاجي، شرح سُر ڪلياڻ، ڇاپو ٽيون،ص 30،31، شڪارپور، مهراڻ اڪيڊمي 2005
  8. ڏيرو، رسول بخش، حاجي، نئين شرح لطيف، ڇاپو پهريون،ص35 کان 41، فريدآباد، ميهڙ، لطيف پبليڪيشن1973
  9. النحل : 18
  10. سبا : 1،2
  11. الذاريات : 49
  12. الزخرف : 12

 

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...