Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 2 Issue 2 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

دور جاہلیت میں عرب کے معاشی حالات کا ایک جائزہ |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

اسلام سے پہلے اہل عرب شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھے۔ اس وقت عرب میں کوئی مرکزی حکومت نہ تھی۔ مختلف قبائل کے اپنے اپنے سردار تھے جو اکثر کسی بادشاہ کے تابع تھے۔ قبیلے کا سردار وہی ہو سکتا تھا جس کے حامی افراد زیادہ ہوں اوراہل عرب کی قومی خصوصیات بہادری، مہمان نوازی اورفیاضی میں بھی ممتاز ہو۔اہل عرب بالعموم اور قریش بالخصوص

تجارت پیشہ تھے۔ صنعت و حرفت میں پسماندہ تھے۔ یہ لوگ اپنے قومی اخلاق، مہمان نوازی، ایفائے عہد، بہادری اور فیاضی کے ساتھ بعض برائیوں میں بھی مبتلا تھے۔ مثلاً شراب خوری، قمار بازی، دختر کشی اور معمولی جھگڑے پر مسلسل لڑائی جیسی عادات موجود تھیں۔اسلام کے تجارتی پہلو ؤں کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے موجود اقتصادی حالات کا جائزہ لیا جائے تاکہ معلوم ہوکہ اس معاشرہ کے معاشی نظام میں کون سی خرابیاں تھیں جن کی آپ ﷺ نے اصلاح فرمائی اور وہ کون سی چیزیں تھیں جن کو آپ ﷺ نے برقرار رکھا۔

عربوں کے معاشی حالات کاجائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ قدیم عرب کامعاشی نظام آج کے جدیدمعاشی نظامو ں کی طرح کوئی مکمل نظام نہ تھا ،لیکن چوں کہ وہ بھی انسانوں کاوضع کردہ ایک نظام تھا، اس میں ایک معاشی نظام کے تمام بنیادی عنصرپائے جاتے تھے،جن کی بنیادوں پرتہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ نئے معاشی نظاموں کی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ اسلامی معاشیات تا قیامت پورے عالم کے سارے مسائل کو حل کرنے میں مددگار ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لیے اس زمانے کے اقتصادی حالات اور اصطلاحات کو جاننا ضروری ہے جو جاہلی معاشرہ میں جاری تھیں، خاص طور پر جزیرہ عرب جہاں آپ ﷺ کی بعثت ہوئی ۔اس لیے ضروری ہے کہ اسلام سے قبل عرب کے معاشی پر نظر کی جائے تاکہ معلوم ہوسکے کس ماحول میں آپ ؤٓﷺ کی بعثت ہوئی اور کس طرح اسلام نے ان عرب بدوؤں کو یکسر تبدیل کر رکھ دیا۔

عربوں کے مال خرچ کرنے کے حالات

یہ بات ثابت ہے کہ اہلِ جاہلیت میں خَسیْس و رَذیل عادتیں عقل سلیم کے خلاف باتیں پائی جاتی تھیں لیکن ان میں ایسے پسندیدہ اخلاقِ فاضلہ بھی تھے جنہیں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ان اوصاٖ ف میں سے ایک وصف سخاوت ہے ۔ یہ اہل جاہلیت کا ایسا وصف تھا جس میں وہ آگے نکل جانے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور اس پر فخر کرتے جس کے باعث عرب کے آدھے اشعار اسی کی نذر ہو گئے ہیں۔ اس وصف کی بنیاد پر کسی نے خود اپنی تعریف کی ہے تو کسی نے کسی اور کی۔ان کی حالت یہ تھی کہ سخت سردی اور بھوک کے زمانے میں کسی کے گھر کوئی مہمان آ جاتا اور اس کے پاس اپنی اس ایک اونٹنی کے سوا کچھ نہ ہوتا جو اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی کا واحد ذریعہ گذران ہوتی تو بھی ایسی سنگین حالت کے باوجود اس پر سخاوت کا جوش غالب آ جاتا اور وہ اٹھ کر اپنے مہمان کے لیے اپنی اونٹنی ذبح کر دیتا۔ ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑی بڑی دیتیں اور مالی ذمہ داریاں اٹھا لیتے اور اس طرح انسانوں کو بربادی اور خونریزی سے بچا کر دوسرے رئیسوں اور سرداروں کے مقابل فخر کرتے تھے۔1

اسی کرم کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ یہ بذاتِ خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ اس لیے کہ یہ کرم و سخاوت کو آسان کر دیتی تھی کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ اس لیے یہ لوگ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے۔ جاہلی اشعار کے دَوا وین پر نظر ڈالیے تو یہ مدح و فخر کا ایک اہم باب نظر آئے گا۔ عنترة بن شداد الكامل اپنے معلقہ میں کہتا ہے:

ولقد شربت من المدامة بعدما ... ركد الهواجر بالمشوف المعلم

بزجاجة صفراء ذات أسرة ... قرنت بأزهر في الشمال مفدم

فإذا شربت فإنني مستهلك ... مالي وعرضي وافر لم يكلم

وإذا صحوت فما أقصر عن ندى ... وكما علمت شمائلي وتكرمي2

ترجمہ:میں نے دوپہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام بلوریں سے جو بائیں جانب رکھی ہوئی تابناک اور منہ بند خُم کے ساتھ تھا، نشان لگی ہوئی صاف شفاف شراب پی۔ اور جب میں پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا ہوں۔ لیکن میری آبرو بھرپور رہتی ہے اس پر کوئی چوٹ نہیں آتی۔ اور جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت میں کوتاہی نہیں کرتا اور میرا اخلاق و کرم جیسا کچھ ہے تمہیں معلوم ہے۔

عربوں کے عام معاشرتی حالات

عربوں میں معمولی سی باتوں پر چالیس چالیس سال تک جنگیں ہوتی رہتی تھیں، اس سے یہودیوں کا قومی بزنس ترقی کرتا جاتا تھا ، یہودی منظم طریقے سے عربوں کی جہالت اور قبائلی عصبیت کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کو آپس میں لڑواتے رہتے تھےاور عرب اپنا سارا سرمایہ اسلحہ کی خرید اور دشمنی نبھانے میں صرف کرتے رہے تھے ۔ان کے سرمایہ دار طبقہ زندگی کے ہر شعبہ پر حکمرانی کر رہا تھا۔ غریب افراد کو گذران کے لئے یا تو بھیڑ بکریوں کے دودھ پر گذارا کرنا پڑتا یا پھر وہ خالی کھجوریں کھاکر وقت گذار لیتے تھے ۔تجارت کے لئے اگر کسی سرمایہ دار سے قرض لیتے تو تجارت میں منافع کی کثیر رقم سود کی شکل میں سرمایہ دار کے پاس چلی جاتی اور غریب افلاس سے بھی نیچے زندگی گذارنے پر مجبور تھے ۔دولت کی فراوانی اور اولاد کی کثرت پر ایک قبیلہ دوسرے پر قبیلہ حسد کرتا ۔بسااوقات قبرستان میں جاکر اپنے قبیلے کی قبریں شمار کرکے کثرت تعداد پر ناز کر نا عام بات تھی ، لیکن کثرت تعداد پر فخرو مباہات کا دائرہ صرف مردوں تک ہی محدود تھا ۔وہ عورت کے مقدس وجود کو اپنے لئے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے اور اسکے بدن کو فقط ایک آ لہ تلذذ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے ۔یہاں تک کہ اسے آزادی رائے کا بھی حق حاصل نہیں تھا ۔ بیٹیوں کوزند ہ در گور کرنا انکی قبائلی تہذیب کا حصہ تھا ۔محققین کے مطابق لڑکیوں کا زندہ در گور کردینے کی رسم اس لئے عام تھی کیونکہ عرب کا سرمایہ دار طبقہ فقر و تنگ دستی سے ہمیشہ خوف زد ہ رہتا تھا۔3

اسلام سے قبل عرب کے معاشی حالات

اسلام سے قبل عرب کی ایک محدود اقتصادی حیثیت تھی ، جزیرہ عرب جس کو تین جانب سے سمندر ہے اور اس کے اطراف میں بڑے بڑے صحراء پائے جاتے ہیں جس کے باعث اس خطے کی معاشی حالت کچھ زیادہ اچھی نہ تھی۔ اس وقت کچھ علاقوں کی پیداوار جیسے کھجور،پھل،جانوروں کے چمڑےوغیرہ کی تجارت ہوتی تھی۔ اہل ِعرب کو جس چیز سے زیادہ آمدنی(Income) ہوئی تھی وہ جنگوں کے اموالِ غنیمت اور غلام تھے جو جنگوں اور لوٹ کھسوٹ کے بنیاد پر حاصل ہوتے تھے۔اس کے ساتھ اس زمانے میں درج ذیل معاشی سرگرمیاں ہوتی تھیں:

1۔تجارت

2۔ زراعت

3۔صنعت گری

4۔ جنگیں

5۔ غارت گری

ان کی تفصیل درجِ ذیل ہے:

1۔تجارت

آپ ﷺ کی بعثت تجارتی معاشرہ میں ہوئی۔ دنیا کی دوسری اقوام میں عرب قوم کا تعارف ایک تجارت پیشہ قوم کےتھا، اگرچہ وہاں کاشت کاری، صنعت اور حرفت بھی پائی جاتی تھی مگر عرب کے پہاڑوں اور ریگستانوں نے وہاں کے باسیوں کو تجارت کی طرف پھیر دیا۔ مدینہ منورہ اور طائف اپنے باغات کے پھلوں اور اناج کی کاشت کاری کی تجارت کی وجہ سے مشہور تھے، مکہ مکرمہ جوکہ مرجع ِخلائق تھا، بہت سارے لوگ دنیا کے دور دراز علاقوں سے حج اور زیارت کے لیے یہاں آتے اور اپنے ساتھ اپنے علاقے کی اشیاء لاکر بیچتے اوریہاں سے اپنے ساتھ مختلف اشیاء خرید کر اپنے علاقے لےجاکر بیچتے، اس لحاظ سے مکہ مکرمہ کو ایک بین الاقوامی تجارتی منڈی کا درجہ حاصل تھاخصوصاً اشہرحرم میں جب جنگ بندی ہوتی تو لوگ بازاروں کا رخ کرتے تاکہ اپنی ضرورت کی اشیاء خریدسکیں، حج کے زمانے میں یہ تجارت بہت بڑی شکل اختیار کرلیتی ۔ مکہ مکرمہ ایک متمدن علاقہ ہونے کی وجہ سے اس میں تمام اشیائے ضرورت موجود تھیں۔ ضرورت کی اشیاء میں سے اہم اشیاء کی الگ سے بازاریں لگتی تھیں جن کے نام تاریخ کی کتب میں محفوظ ہیں، مثلاً سوق العطارین (Perfumes Market)،سوق الفاکہہ (Fruit Market) ،سوق الرطب (Dates Market) ،سوق البزازین (Cloth Market) ،جوتے (Shoes) بیچنے والوں کے الگ سے تھلے ہوتے،اجناس بیچنے کا الگ سے ایک میدان مختص تھا،جس سے اہل مکہ کے تجارتی کاروبار کے عروج کا علم ہوتا ہے۔4

قریش کی تجارت

قریش ایک تجارت پیشہ قوم تھی ،قریش لفظ کی لغوی معنی جمع کرنا ہے ، کہا جاتا ہے : فلان يتقرش المال أي يجمعه۔ یہ لوگ بھی تجارت کے ذریعے مال اور دولت جمع کرنے میں مشہور تھے اس لئے ان کو قریش کہا جاتا۔ بعض نے کہا قریش کے مختلف شہروں میں متفرق ہونے کے بعد مکہ میں جمع ہونے کے بعد ان کو قریش کہا جاتا ہے ،نیز قریش سمندر کی ایک مچھلی کا نام بھی ہے جو چھوٹی چھوٹی دوسری مچھلیوں کو کھا جاتی ہے اورقریش کی تجارت بھی دوسری قوموں کی تجارت پر غالب تھی اس لئے ان کو قریش کہا جاتا تھا ۔5

قریش کے مرد تو تجارت میں بے مثال تھے ہی، مگر اس قوم کی عورتیں اور بچے بھی تجارت میں پیش پیش تھے۔ حضرت خدیجہؓ مکہ کی مشہور تاجرہ تھیں، وہ کئی کئی آدمیوں کو اجرت پر رکھتیں ، مضا ربت پر مال دیتیں،ان کےتجارتی قافلے مکہ سے شام اور بصرٰی تک جاتے۔ ابوجہل کی ماں حنظليہ کا عطر کا بڑا کاروبار تھا ۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ ہندہ ملک شام کے قبیلہ بنو کلب کو تجارتی مال فراہم کرتی تھیں، انہوں نے حضرت عمرؓ سے ان کی خلافت کے زمانے میں بیت المال سے ۵۰۰۰ درہم تجارت کے لئے قرض لیے تھے، جس سے اس زمانے کی تجارت کی وسعت کا پتا چلتا ہے۔6

قریش کے جس تجارتی قافلہ پر مسلمانوں کا حملہ کرنا غزوہ بدر کا سبب بنا تھا، اس قافلہ میں ایک ہزار اونٹوں اور پچاس ہزار دینار کا مال موجود تھا۔اس تجارتی قافلہ میں مکہ کےتقریبا تمام عورتوں اور مردوں کی بچت کا سرمایہ لگا ہوا تھا یہاں تک کہ مکہ کا کوئی قریشی مرد اور عورت ایسا نہ تھا جس کے پاس نصف اوقیہ یا زیادہ مال ہو مگر اس نے اس قافلہ میں مال روانہ نہ کیا ہو۔ قریش میں رات کے قصوں میں تجارت اور قافلوں کے اسفار کی باتیں ہوتیں، ہر ایک عرب یا تو تجارت میں مشغول تھا یا وہ تجارتی دلال تھا، عرب میں جوتاجرنہ ہوتا اس کی کوئی خاص عزت نہ ہوتی تھی۔

قریش کی بیرونی دنیا سے تجارت

قریش کی تجارت کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ذکر فرمایاہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

لايلاف قريش ايلافهم رحلة الشتاء والصيف7

ترجمہ: قریش کے لوگ عادی ہیں ۔ یعنی وہ سردی اور گرمی کے موسموں میں (یمن اور شام کے) سفر کرنے کے عادی ہیں۔

قریش کے دو بڑے تجارتی سفر یعنی گرمیوں میں شام اور سردیوں میں یمن کی طرف ہوتا جس میں وہ خوشبوء، ہتھیار، چمڑے اور کھجور کو برآمد اور تیل، مصالحہ جات وغیرہ کو درآمد کرتے تھے ۔ان اسفار میں وہ سونے کو بہت حد درجے کی اہمیت دیتے تھے اور وہ روم کے سونے کے دینار، فارس کے چاندی کے درہم سے کا معاملہ کرتے ۔عرب تاجر افریقہ سے گوند،ہاتھی دانت، آبنوس کی لکڑی اور یمن سے چمڑا، بخور، کپڑا اور عراق سے مصالحہ جات ، ہندستان کے جزائر سے سونا، قیمتی پتھر،عاج، صندل کی لکڑی، زعفران اور مصر اور شام سے تیل، اسلحہ، ریشم اور شراب درآمد کرتے۔

قبیلہ قریش شام، یمن اور عراق کے ساتھ تجارت میں مشہور تھا، اہلِ مکہ بڑے بڑے تجارتی معاہدے کرتے اور بڑے تجارتی اسفار میں اپنے قافلوں کی حفاظت کے لیے رشوت دیتے۔ اس زمانے میں سب سے زیادہ مشہور تجارت شراب کی ہوتی تھی، یہاں تک کہ اگر مطلق لفظِ تجارت بولا جاتا تو اس سے خمر کی تجار ت مفہوم ہوتی۔ شراب خانےہر وقت کھلے اور شرابیوں سے بھرے رہتے۔ شراب بڑی مہارت اور اعتماد سے مختلف شکلوں اور رنگوں کا بنایا جاتا ۔ اس پس منظر کی وجہ سے جاہلیت کے اشعار میں کثرت سے شراب کا ذکر پایا جاتاہے۔ان میں شراب کے مختلف نام ، صفات اور وصفیں بیان کی جاتیں۔ مکہ میں سود کا کاروبار عروج پر تھا،حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا بہت سارا سرمایہ سودی کاروبار میں لگا تھا مگراس سودی کاروبار کو اچھی نظروں سے نہ دیکھا جاتا اور سود سے حاصل شدہ آمدنی کو ناپاک خیال کیا جاتا۔ تعمیرِ کعبہ کے وقت کفار ِمکہ نے غصب، قطع رحمی اور ناجائز طریقے سے آنے والے ہر سرمایہ کوتعمیرات میں استعمال کرنے سے منع کیا تھا۔ تعمیر ِ کعبہ کے وقت انھوں نے یہ اعلان کیا:

ولا تجعلن في نفقة البيت شيئا أصبتموه غصبا، ولا قطعتم فيه رحما، ولا انتهكتم فيه ذمة بينكم وبين أحد من الناس8

ترجمہ: بیت اللہ کی تعمیر کے چندے میں ایسی چیز نہ دو جو تم نے غصب، قطع رحمی یا وہ جو تمہارے اور لوگوں کے درمیان ذمہ کو خراب کرنے سے حاصل ہوئی ہو۔

قریش خانہ کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، ان کے تجارتی قافلے پوری دنیا میں امن اور سلامتی سے سفر کرتے ، یہ قافلے عرب کے ایک سرے یمن سے لے کر دوسرے سرے غزہ، بیت المقدس، دمشق تک جاکر بحراحمر پارکر حبشہ جاتے ۔ اس زمانے میں جدہ کی بندرگاہ حبشہ،بحرین، عمان اور مکہ کے درمیان تجارتی واسطہ ہوتی تھی ۔9

شام اور یمن جانے والے تجارتی قافلے براعظم افریقہ کے ممالك مصر ،سوڈان، براعظم ایشیا کے ممالک ہندستان، ایران اور روم جاتے ، یہ منظم قافلے ہوتے جن میں تمام اشیاءِضرورت اور قافلہ کی وسعت کے مطابق محافظ دستے اور راستہ دکھانے کے لیے دلیل اور رہنما ہوتے۔عرب لمبے زمانے تک تجارت کو جاری رکھنے کے لئے مختلف اقوام سے تجارت معاہدے کرتے۔ ہاشم کی درخواست پر شام، روم، غسان کے بادشاہوں نے عرب کو "تجارتی امن" دیا ۔ ان معاہدوں کی بعد میں کافی وقت تک تجدید ہوتی رہی۔ عبدالشمس نے حبشہ کے نجاشی اور مطلب نے یمن اور حمیرکے سرداروں اور نوفل نے ایران کے کسراؤں سے تجارتی امن کے معاہدے کئے۔10

عرب بادشاہ اورسردار تجارتی راستوں میں آنے والے سرداروں کو امن دینے کے عوض بیش قیمت تحائف دیتے، ان کی مہمان نوازی اور ان سے اچھا سلوک کرتے۔ عرب کے ہاں تجارتی راستوں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی، حضرت ابوذر غفاریؓ نے جب اسلام کی قبولیت کا اعلان کیا تو یہ سنتے ہی کفار ان پر حملہ آور ہوئے، کفار نے ان کو اتنا شدید مارا کہ وہ قریب المرگ ہوگئے۔ اس وقت حضرت عباس ؓ کی یہ بات الستم تعلمون انه من غفار طريق تجارکم الی الشام11 یعنی کہ "کیا تم کو خبر نہیں کہ یہ قبیلہ غفار کا آدمی ہے اور تمہارے تاجر بنو غفار سے گذر کی ہی شام کی طرف جاتے ہیں۔" سن کرانھوں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو چھوڑا ۔ مطلب اگر اس شخص کو نقصان پہنچا تو تمہارا تجارتی راستہ بند ہو سکتا ہے۔تجارتی راستوں کی اہمیت کی بناء پر حضور ﷺ نے مدینہ میں کفارِ مکہ کا تجارتی قافلہ جو شام کی طرف جارہا تھا اس کا تعاقب فرمایا جس کے باعث وہ راستہ بدلنے پر مجبور ہوا اور بدر کا معرکہ پیش آیا۔

تجارتی بازاریں

عرب میں آج کے زمانے کی طرح پورا سال ایک جگہ پر کوئی بازار اورمنڈی نہیں ہوتی تھی ۔ مختلف اوقات اور مختلف جگہوں پر میلے کی شکل میں یہ بازاریں قائم ہوتیں تھیں۔ ان تجارتی منڈیوں میں سے مشہوربازار صُحار حضرت موت کی بازاریکم رجب سےپانچ رجب تک قائم ہوتی۔ دومتہ الجندل جو شام، عراق اور حجاز کے درمیان جگہ ہے وہاں یہ بازار یکم ربیع الاول سے پندرہ ربیع الاول تک قائم ہوتی۔ مشقر حضر موت کی بازار جمادی الاولی کے شروع سے آخر تک جاری رہتی۔ دَباکی بازار رجب کے آخر میں لگتی جس میں سندھ، ہند،چین،مشرق اور مغرب کے تاجر شریک ہوتے، شِحر کی بازار اس پہاڑ کے سایہ میں لگتی جس پرحضرت ہود علیہ السلام کی قبر ہے ،یہ بازار شعبان کے وسط میں لگتی اور اس میں تجارت پتھر پھنکنے (القاء الحجر) سے ہوتی۔ عدن کی بازار یکم رمضان سے بیس رمضان تک قائم ہوتی اور پھر صنعاء کی بازار نصف رمضان سے آخر تک لگتی، اس کے بعد را بیہ (حضرت موت) ،عکاظ کی بازار عرفات کے قریب پندرہ ذی القعدہ کو، ذوالمجاز کا میلا یکم ذوالحج سے یوم ِ ترویحہ یعنی آٹھ ذی الحجہ تک لگتا اور حجر کی بازار یمامہ میں دس محرم سے آخر ماہ تک قائم ہوتی۔12

عربستان اور ہندستان کی تجارت

عرب کے ساتھ ہندستان جس میں موجودہ دور کے انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش وغیرہ سب ممالک شامل ہیں کی معروف تجارت ہوتی تھی۔ مناسب یہ ہے ہم اپنے علاقے کی عرب کے ساتھ تجارت کا بھی مختصر جائزہ لیں۔ عرب اور ہندستان دونوں ملک اپنی اپنی قوموں کے ہاں عظیم الشان مذہبی، پاک اور مقدس ریاستیں ہیں۔ حجاز جیسے مسلمانوں کے ہاں مقدس علاقہ ہے ایسے ہی ہندستان ہندؤں اور بدھؤوں کے نزدیک ایک مقدس جگہ ہے۔سید سلیمان ندوی ؒنے میر آزاد بلگرامی سے نقل کیا ہے کہ" حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے ہندستان میں اترے اور ان پر یہاں وحی اتری تو سمجھنا چاہئے کہ یہ وہ ملک ہے جہاں پر سب سے اول وحی نازل ہوئی اور چونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیشانی میں نورِ محمدی ودیعت تھا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا سب سے اول ظہور اسی سرزمین پر ہوا۔" ہندستان سے مسالے اور خوشبوئیں پوری دنیا میں جاتی تھیں ،اس لئے عربوں میں یہ بات مشہور تھی کی ان کے والدآدم علیہ السلام یہ اشیاء جنت سے یادگار کے طور پر یہاں لائے تھے۔ یہاں کھجور کے علاوہ جنت کا دوسرا پھل کیلا اور امرود وغیرہ بھی پایا جاتا ہے جس سے یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کہ ہندستان سے مسلمانوں کا تعلق محمود غزنویؒ کے دور سے شروع ہوتا ہے۔ مسلمان اس ملک کو اپنا مفتوحہ علاقہ نہیں بلکہ موروثی اور پدری علاقہ سمجھتے ہیں۔13 ہندستان اور عربستان سمندر کے واسطے سے پڑوسی ملک ہیں، دریا کے کنارے کے ممالک فطرتاً تجارتی ملک ہوتے ہیں ۔ ہزاروں برس پہلےعرب تاجر ہندستانی ساحل پر آتے اور وہ شام، مصر اور عدن کے راستے اپنی پیداوار کو جزائر ِ ہندستان، چین، جاپان، افریقہ اور حبشہ بھیجتے تھےاور وہاں سے عمان،بحرین، حضرموت اور عراق کے کناروں سے گذر کر بلوچستان کی بندرگا ہ پر لنگر ڈالتے اور پھر سندھ میں دیبل (کراچی) کی بندرگاہ کی طرف چلے آتے، اس تجارتی آمد و رفت سے عربوں کے جہاز ہندستان کے تمام جزیروں اور دریائی راستوں پر چکر لگاتے رہتے۔سندھ کی درآمد کے متعلق علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں " نویں صدی عیسوی میں یہاں طلائی سکوں،مرجان اور ایک قیمتی پتھر دھنج کی بڑی طلب تھی ، یہاں مصر سے شراب، روم سے پوستین اور ریشمی کپڑے آتے، فارس سے عرقِ گلاب ، بصرہ سے کھجور اور عرب سے کارومندل میں گھوڑے آتے۔"14

2۔ زراعت

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر مکہ بے آب وگیاہ علاقہ تھا۔ قریش تجارت کرتے اور وہ تاجروں کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ لوگ دستکاروں اور زراعت سے وابستہ افراد کو حقیر جانتے تھے، اسی وجہ سے غزوہ بدر کے موقع پر آپ ﷺ نے جب اسلامی لشکر کی جانب سے تین انصاری نوجوان حضرت معوذ، حضرت معاذ اور حضرت عوف رضی اللہ تعالی عنہم کو میدان جنگ میں قریش کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا تو انھوں نے ان کی شناخت دریافت فرمانے کے بعد آپ ﷺ سے کہا:

يا محمد أخرج إلينا أكفاءنا من قومنا15

ترجمہ: اے محمد ! ہمارے مقابلے میں ہماری برادری سے ہمارے درجے کے جوانوں کو بھیجیں۔

چنانچہ آپ ﷺ نے ان کے مقابلے میں حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضر ت عبیدہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہم کو بھیج دیا۔ مدینہ منورہ "کسانو ں کی بستی" کے نام سے مشہور تھا، یہاں کے اکثر لوگ کسان اور باغبان ، کھیتوں اور باغات کے مالك تھے جن میں کھجور کے علاوہ جو ،گندم، انار، کیلا، انگور اور انجیر پیدا ہوتے۔ یہاں پانی کا نظام بارش، کنوؤں اور نہروں کے ذریعہ ہوتا۔ مدینہ کے اردگرد سر سبز وادیاں اور باغات تھے جن میں سے وادی عقیق مشہور تھی۔ طائف ،يثرب ،يمن، یمامہ ، تہامہ اور یثرب پانی کی کثرت کی وجہ سے زرعی اور سر سبز علاقے تھے ۔ طائف پھلوں اور شہد کی پیداوار میں مشہور تھا۔عرب کسان اونٹوں،گدھوں اور جانوروں سے ہل جوتتے،چشموں اور کنوؤں سے پانی نکال کر کھیتوں اور باغات کو آباد کرتے۔یمن کا علاقہ ڈیم بنانے اور پانی کی تنظیم سازی میں مشہور تھا۔ یمن، عمان، حضر موت، تہامہ، طائف اور یثرب کی پیداوار دور دراز علاقوں کو برآمد (Export) کی جاتی۔ طائف اور یمن والے شام، افریقہ، ہندستان اور دوسرے دور دور کے ممالک سے مختلف قسم کے پھل دار درخت منگواتے اور اپنے علاقوں میں اس کی کاشت کاری کرتے۔ انصار کے متمدن ہونے کے باعث ان کے کاشتکاری کے اصول متعین تھے، یہود کے زیر اثر ہونے کے زمانہ میں ان کو خراج دیتے اور خود مالك ہونے کے وقت زمینوں کو تقسیم کرکے کاشت کیا۔

مدینہ منورہ میں کھجور اس قدر افراط اور تنوع سے پیدا ہوتی کہ عرب کے کسی دوسرے علاقے میں اتنی کھجور پیدا نہ ہوتی، چناچہ مولانا سعید انصاریؒ نے زرقانیؒ کے حوالے سے لکھا ہے مدینہ منورہ میں کھجور کی ایک سو بیس قسمیں پیدا ہوتی تھیں ۔16

طائف کا علاقہ عرب کا زرخیزترین علاقہ متصور ہوتا، یہ علاقہ میٹھے پانی، مناسب آبہوا اور زمین کی زرخیزی کی وجہ سے مشہور تھا۔ عرب کے مالدار اور سردار گرمیوں کا زمانہ یہاں گذارنے آتے، یہاں کی زرعی پیداوار میں اناج، انگور،کھجور اور پھل مشہور تھے۔ یہاں کی زرعی پیداوار دوسرے علاقوں کو برآمد کی جاتی۔ طائف کے اصل باشندے بنوعامر اس سبزہ اور گھاس کی وجہ سے جانور پالتے۔ابن الاثیرؒ کے مطابق قبیلہ بنو ثقیف نے بنو عامر کی اجازت سے طائف کی اراضی پرنصف پیداوار کے عوض کھیتی باڑی اور باغات لگانا شروع کیا مگر زمینوں پر مکمل قابض ہونے کے بعد بنو ثقیف نے لگان دینے سے انکار کردیا، نتیجتاً جنگ ہوئی جس میں بنو عامر کو شکست ہوئی اور طائف بنو ثقیف کے زمین داروں کےتسلط میں آگیا۔17

3۔صنعت گری

زمانہ جاہلیت میں عرب کا علاقہ جنگوں کی کثرت کی وجہ سے اسلحۂ سازی میں مشہور تھا۔ تلواریں، نیزے، زرہیں، گھوڑوں کی زینیں وغیرہ بڑی فخر کی چیزیں سمجھی جاتیں۔ مکہ کے تجارتی مراکزمیں بڑی دیگیں،ٹب، لوٹے اور گھریلو استعمال کے برتن بنائے جاتے۔ جانوروں،غلاموں کا کاروبارا ورفنِ علاج و معالجہ بھی عروج پر تھا۔ طائف زمانہ جاہلیت میں تحفہ کی اشیاء،اسلحہ سازی اور شراب کی صنعت میں مشہور تھا۔

زمانۂ جاہلیت میں مکہ مکرمہ کو عالمی تجارتی منڈی کا اعزازحاصل ہونے کے بعد اس کا دوسرا بڑا پیشہ گلہ بانی تھا،جس کی وجہ سے دودھ اور چمڑے کا کاروبار وسیع حجم رکھتا ۔ اہل مکہ گلۂ بان ہونے کی وجہ سے کثرت سے مویشی پالتے اور ان جانوروں کی کھالوں کو مہارت اور عمدگی کے ساتھ تیار کرتے جس کے باعث ان کو پوری دنیا میں پسند کیا جاتا اور ان سے بنی اشیاء کو تحفہ (Gifts)کے طور پر استعمال کیا جاتا۔یہاں کھالوں کے علاوہ دوسری دستکاری جیسے مٹی کے برتن، جنگوں کی آلات ،تیر کمان، نیزے، ڈھالیں اور پالان وغیرہ تیار کئے جاتے۔ طائف بھی چمڑہ سازی میں مشہور تھا، وہاں کثرت سے دباغت کی وجہ سے آس پاس کا ماحول اکثر بدبودار رہتا،اسی لئے اس شہر کو "بلدالدباغ" کہا جاتا، یہاں پر کثرت سے انگور ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں شراب خانے اور قحبہ گری ہوتی۔

مدینہ منورہ کی صنعتوں میں لکڑی کے سامان کی تیاری، اینٹوں کے بھٹے اور کپڑے بنانے کے صنعت موجود تھی، اس علاوہ زرگری اور سنار کے پیشہ پر یہود کا قبضہ تھا اور یہود میں سے بنو قینقاع کا قبیلہ زیورات کے کاروبار میں مشہور تھا۔طائف کی مالدار عورتوں میں کثرت سے زیور پہننے کے رواج کے باعث زیورات کا کاروبار عام تھا۔اس کے علاوہ طائف، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں لوہار،حجام اور بڑھئی وغیرہ بھی موجود تھے۔

قریش کے اشراف کی تجارت اور صنعت

اہلِ عرب بڑی بڑی اور دور کے ممالک سے تجارت کرتے ، کوئی بھی پیشہ کمتر یا حقیر نہ سمجھا جاتا۔ قریش کے اشراف تجارت اور صنعت سے منسلک تھے ۔ابوطالب گیہوں اور عطر کا کاروبار کرتے، حضرت ابوبکرؓ ،حضرت طلحہؓ،حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت عثمانؓ کپڑے کا کاروبار کرتے، سعدبن ابی وقاصؓ تیر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ تیر ساز بھی تھے، حضرت زبیر ؓ ، عمرو بن العاصؓ اور عامر بن كريزؓ قصاب تھے، حضرت عثمان بن طلحہ ؓ ،حضرت زبیر ؓ کے والد عوام اور قيس بن مخرمہ درزی تھے، حضرت خباب ؓ اور وليد بن مغيرہ لوہاراور حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ عطر فروش، ابو سفیانؓ چمڑے اور تیل کا کاروبار کرتے۔ عقبہ بن ابی وقاص بڑھئی، امیہ بن خلف پھل فروش ،سخی سردار عبداللہ بن جدعان جانوروں کا کاروبار کرتے، عاص بن وائل حیوانوں کے معالج اور نضربن حارث اور حكم بن أبى العاص رباب پر گانے والے اور عقبہ بن ابی معیط شراب فروش تھے۔18

4۔ جنگیں

عربوں کے ہاں جنگیں بھی مستقل معاشی آمدن کا ذریعہ شمار ہوتیں۔عرب قبائل میں جاہلیت کی عصبیت، نخوت، تکبر اور عجب عروج پر تھا جس کے باعث جنگوں کا لگنا ایک معمولی سی بات تھی۔ زمانۂ جاہلیت میں عرب قبائل ایک دوسرے پر شب خوری مارتے اور جنگیں کرتے، خون بہاتے، عورتوں اور اموال پر قبضہ کرتے۔ نوجوانوں کو قبیلے کی رونق اور بقا کا سبب سمجھا جاتا ۔معمولی سے باتوں پر سالوں تک جنگیں شروع ہوجاتی تھیں۔ اس کے برعکس عورت سامان کی طرح ایک استعمال کی چیزہوتی جس کی کوئی قیمت اور قدر نہ ہوتی، عورت کے ساتھ بھیڑ اور بکریوں کی طرح سامان تجارت کی طرح معاملہ کیا جاتا۔عورت کو حرص پورا کرنے کا سامان سمجھا جاتا۔قبیلہ بنو طئی کی شاخ بنو جدیلہ کے ایک آدمی کی اونٹنی بنی ثعل بن غوث کی کھیت میں آگئی، جس کو انھوں نے روک لیا، اونٹنی کو جب طلب کیا گیا تو انھوں نے دینے سے انکار کردیاجس کی وجہ سے دونوں قبیلوں کے درمیان پچیس سالوں تک جنگ جاری رہی اور سیکڑوں لوگ قتل ہوئے۔ بالآخر بنو جدیلہ کو شکست ہوئی اور وہ بنی کلب میں دس سال تک پناہ گزین ہوئے جس کے دوران لڑکے اور لڑکیوں کا نامناسب واقع پیش آیا۔ اس پورے منظر کو بنی طئی کا شاعر برج بن المسہر الطائی بنی کلب کی ہجا کرتے ہوئے اس طرح بیا ن کرتا ہے:

فنعم الحي كلبٌ غير أنا ... رأينا في جوارهم هنات

ونعم الحي كلبٌ غير أنا ... رزينا من بنين ومن بنات

فإن الغدر قد أمسى وأضحى ... مقيماً بين خبت إلى المسات

تركنا قومنا من حرب عام ... ألا يا قوم للأمر الشتات

وأخرجنا الأيامى من حصونٍ ... بها دار الإقامة والثبات

فإن نرجع إلى الجبلين يوما ... نصالح قومنا حتى الممات19

ترجمہ: بنو کلب اچھا قبیلہ ہے، سوائے اس کے ان کی ہمسائگی میں رہتے ہوئے برے واقعات دیکھے ہیں،

اور بنو کلب اچھا قبیلہ ہے، لیکن ہمیں وہاں اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کے بارے میں تکلیف پہنچائی گئی ہے،

بیشک دھوکہ بازی صبح اور شام خبت اور مسات (نہروں) کے درمیان مقیم رہتی ہیں،

ہم نے اپنی قوم کو جنگ کے سال چھوڑ دیا، اے میری قوم ان متفرق امور پر تعجب کرو

اور ہم نے ان عورتوں کو ان قلعوں سے نکال دیا ہےجن میں ہماری اقامت تھی

پس جب ہم اپنے وطن میں جب دوبارہ لوٹیں گے ان دو پہاڑوں (آجاء اور سلمی) کی طرف کسی دن تو ہم اپنی قوم سے مرتے دم تک صلح کریں گے۔(کیونکہ ہم نے جنگ کا برا حال دیکھ لیا ہے)

5۔ غارت گری

زمانہ جاہلیت میں اہلِ عرب کا ایک بہت بڑا معاشی ذریعہ لوٹ مار تھا، جس سے سوائے حدودِ حرم کے کوئی دوسرا علاقہ محفوظ نہ تھا۔ اس بات کو قرآن مجید میں اس طرح ذکر کیا گیاہے:

اولم يروا انا جعلنا حرما آمنا ويتخطف الناس من حولهم20

ترجمہ: کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو امن کا گہوارہ بنایا ہے اور اس کے اردگرد سے لوگ اچک لئے جاتے ہیں۔

بدامنی کی وجہ سے کوئی بھی تجارتی قافلہ حفاظتی دستے کے بغیر سفر نہ کرسکتا تھا۔ اشہر حرم یعنی حج کے مہینوں کو بھی لوٹ مار کی وجہ سے آگے پیچھے کرلیتے تھے۔ اس کی وجہ علامہ سعیدؒ امالي القالي سے نقل فرماتے ہیں:

كانوا يكرهون أن تتوالى عليهم ثلاثة أشهر ذو القعدة وذو الحجة والمحرم لا تمكنهم الإغارة فيها؛ لأن معاشهم كان من الإغارة21

ترجمہ: عرب یہ بات ناپسند کرتے تھے کہ ان پر مسلسل تین مہینے ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم ایسےگذریں کہ وہ لوٹ مار کرنے پر قادر نہ ہو سکیں، اس وجہ سے کہ ان کے گذر بسر کا ایک ذریعہ لوٹ مار ہوتا تھا۔

ڈاکٹر جواد علی تحریر کرتے ہیں:

إذا كانوا في ثورة جامحة من جوع وحاجة وتألم بما حل بهم وبما هم فيه من سوء حال، هاجوا فكفروا بكل شيء، وثاروا على كل شيء وعلي كل أحد، وصاروا لا يبالون بعرف ولا سنة يقتلون لأتفه الأسباب ثم إن القتل لا شيء بالنسبة إلى تلك الأيام22

ترجمہ :عرب قبائل کو جب حادثاتی ضرورت ،بھوک ،کوئی ضرورت ، پریشانی اور بدحالی پیش آتی تو وہ شدت سے ہر چیز سے انکار کرتے اور ہر چیز اور ہر انسان پر حملہ کرتے ۔اس وقت وہ کسی عرف اور رواج کی پرواہ نہ کرتے، معمولی سامان کے لیے قتل کرتے، ان ایام ِحرمت میں بھی قتل کرنا ان کے لئے کوئی بڑی بات نہ ہوتی۔

اشہر حج اور احرام کی حالت میں بھی نہتے حجاج ان کے شرسے محفوظ نہ رہتے، مکہ کے آس پاس رہنے والے بنو اسلم اور بنوغفار لوٹ مار میں اپنی مثال آپ تھے۔قبیلہ بنی طے نے جہاں ایک طرف حاتم طائی کی سخاوت سے مشہوری حاصل کی تو دوسری طرف بنوطے کے ڈاکؤوں اور چوروں نے بھی بڑی شہرت حاصل کی۔ سلیک بن السلکہ،الاعلم ہذلی ، جعفر بن علبہ،صخر الغي،اور تابط شراً عرب کے بڑے مشہور شاعر تھے، ان کی شاعری کا بڑا حصہ چوری اور ڈاکہ زنی کے تذکروں پر مشتمل ہے۔ تاریخ کی کتب میں صعالیک الشعراء کے عنوان سے کثیر تعداد میں یہ قصے موجود ہیں۔عروة بن الورد کے اردگرد ڈاکوؤں کا مجمع رہتا، یہ طاقتور لوگوں پر ڈاکہ ڈالنے کے بعد اس کےپاس مال لاتے اور وہ اپنے قبیلے کے غریبوں اور ان لوگوں کے درمیان مال تقسیم کرتا جن میں ڈاکہ زنی کی ہمت نہ ہوتی۔عرب دن کو ڈاکے مارکررات کو قصہ گوئی کی مجالس میں اشعار کے اندر یہ باتیں پروکردار وصول کرتے۔ زمانہ جاہلی کے شعرا کی شاعری کا مجموعہ لاميۃ العرب، دیوان ِحماسہ اوردیوانِ متبنی کابڑا حصہ غارت گیری کے تذکروں سے پر ہے۔

نتائج

1۔سر مایہ داروں کے عظیم الشان بازار عکاظ میں شعرو شاعری کی مقابلہ آرائی ہوا کرتی تھی اور جس کا قصیدہ زبان و بیان کے لحاظ سے معاصر شعرا ء سے بہتر ہوتا تھا اسے فخریہ خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا جاتا تھا تا کہ پورا سال تما، علاقوں سے آنے والے لوگ بھی اس شاعر کی عظمت اور کلام کی علویت کا اندازہ کرسکیں۔

2۔اس وقت مدینے کا اقتصادی نظام جاگیردارانہ یا سرمایہ دارانہ نظام سے ملتا جلتا تھا۔ جاگیردار طبقہ زمینوں کا مالک تھا اور غریبوں کا استحصال کیا جاتا تھا۔ عرب کی معاشی زندگی کا دوسر ابڑا عنصر تاجر تھے۔ ان تاجروں نے اپنی تجارت میں ان تمام طریقوں کو رواج دے رکھا تھا جن کے ذریعے یہ طبقہ صارفین اور خام اشیا کے فروخت کرنے والوں کا استحصال کرتا تھا۔عرب کی معاشی زندگی کو جس عنصر نے سب سے زیادہ مفلوج کر رکھا تھا وہ یہودی سرمایہ کار اور ساہوکار تھے، اور وہ غریبوں اور محتاجوں کو من مانی شرائط پر قرضہ دے کر سود در سود وصول کرتے تھے۔

3۔زمانہ جاہلیت میں اہلِ عرب کا ایک بہت بڑا معاشی ذریعہ لوٹ مار تھا، جس سے سوائے حدودِ حرم کے کوئی دوسرا علاقہ محفوظ نہ تھا۔

حوالہ جات

  1. ابو عبداللہ صغیر : جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں، ‏ستمبر 10, 2011 مجلس علمی و تعلیمی فورم ویب http://www.urdumajlis.net/threads
  2. أبو زيد محمد بن أبي الخطاب القرشي (المتوفى: 170هـ): جمهرة أشعار العرب، حققه وضبطه وزاد في شرحه: علي محمد البجادي، نهضة مصر للطباعة والنشر والتوزيع، ج1، ص 361
  3. http://www.fikrokhabar.com/ur/content-details/48682/news/harword-univercity--news.html
  4. أبو الحسن علي بن عبد الحي: السيرة النبوية، دمشق دارابن كثير، الطبعة الثانية عشرة 1425 هـ، ص 139
  5. ابن الأثير المبارك بن محمد: النهاية في غريب الحديث والأثر، بيروت المكتبة العلمية، 1399هـ ،ج4، ص40
  6. نورمحمد غفاری پروفیسر: نبیﷺ کی معاشی زندگی ،کراچی شیخ الہند اکیڈمی، طبع جدید مارچ 2008ع، ص۲۹
  7. سوره، قريش (106)،آيت:01،02
  8. البيهقي أحمد بن الحسين: دلائل النبوة، بيروت دار الكتب العلمية، الطبعة الأولى 1405 هـ، ج2، ص 60
  9. خليل محسن، الاقتصاد الاسلامي في عهد الرسول ﷺ، بغداد دارالکتب العربيه ،الطبع الاول 1998ء ،ص۶۳
  10. الطبري محمد بن جرير: تاريخ الرسل والملوك ، بيروت دار التراث، الطبعة الثانية 1387 هـ،ج2،ص 252
  11. البخاري أبو عبدالله محمد بن إسماعيل: الصحيح البخاري، بيروت دار طوق النجاة ، الطبعةالاولي 1422ھ ،ج 5، ص 47
  12. أبوجعفر محمد بن حبيب بن أمية :المحبر، بيروت دار الآفاق الجديدة، طبع بدون طبعة و سنة، ص 268
  13. ندوی سید سلیمان مولانا: عرب و ہند کے تعلقات،یوپی ہندستانی اکیڈمی،طبع اول 1930ع، ص 3
  14. ندوی سید سلیمان: عرب و ہند کے تعلقات، محولہ ،ص 81
  15. ابن هشام عبد الملك بن هشام: السيرة النبوية، مصر مكتبة ومطبعة مصطفى البابي، الطبعة الثانية 1375هـ،ج1، ص625
  16. سعید انصاری مولانا: سیر انصار، اعظم گڑھ انڈیامطبع معارف ، طبع دوم 1367ھ،ج1،ص 70
  17. ابن الأثير علي بن محمد: الكامل في التاريخ، بيروت دار الكتاب العربي،الطبعة الأولى 1417هـ،ج1، ص 604
  18. الدينوري عبد الله بن مسلم: المعارف، القاهرة الهيئة المصرية العامة للكتاب، الطبعة الثانية 1992 م، ج1،ص 576
  19. محمد نور حسین مولانا، محمد صدیق مولانا : مطر السماء شرح متنبی، کراچی دارالاشاعت، اکتوبر 2009ء ، ص 195
  20. سوره،العنکبوت(29)،آيت:67
  21. سعيد بن محمد الأفغاني: أسواق العرب في الجاهلية والإسلام، بيروت دار الفكر، الطبعة الجديدة 1424هـ ،ص 85
  22. جواد علي الدكتور: المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، بغداد دارالساقي، الطبعةالرابعة 1422هـ ،ج18،ص 180
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...