Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 1 Issue 2 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کی روشنی میں خانگی نظام: ایک تحقیقی جائزہ |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

خاندان کی اہمیت

خاندان سماجی زندگی کی اکائی ہے ۔ سماجی ڈھانچے میں خاندان کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ خاندان خونی رشتوں پر مشتمل ایک گروہ ہے جو کہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ جس میں میاں ، بیوی ۔ ماں ، باپ ۔ بیٹا ، بیٹی ۔ بھائی ،بہن اور اسی طرح کے اور خونی رشتے شامل ہیں ۔ اس تمام گروہ کے مفادات بھی تقریبا ً مشترک ہوتے ہیں ۔ یہ گروہ ان مفادات کے علاوہ اپنے ممبران کو جذباتی ، سماجی اور معاشرتی تحفظ بھی دیتا ہے ۔ یہ تمام ممبران مل کر خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں ۔1

اللہ تعالی نے دنیا کے کسی بھی حیوان کو اکیلا پیدا نہیں کیا ۔اللہ نے آدم اور حوا علیھما السلام دونوں کو بھی اسی لیے تخلیق فرمایا وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور بوقت ضرورت ایک دوسرے کے کام آئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

"ہم نے مرد اور عورت کو جوڑوں میں پیدا کیا ۔" 2

ہماری اسی ضرورت نے ہی ہمیں ایک دوسرے کے قریب کیا اور یوں خاندان وجود میں آیا ۔

خاندان،معاشرہ اور ریاست کی ابتدا و ارتقاشاہ ولی اللہ کی نظر میں

شاہ ولی اللہ خاندان،معاشرے اور ریاست کی ابتداء کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

"انسان کو اپنی بقاء اور بو دو باش کے لیے اللہ تعالیٰ نے خصوصی الہامات طبیعہ سے نوازا ہے ۔ وہ ظرافت ، لطافت اور نفاست پیدا کر کے لذتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔ وہ خوبصورت بیوی ، لذیذ غذا ، لباس فاخرہ ، بلند وبالا ایوان اور کوٹھیوں کا خواہش مند ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ طرح طرح کی تحقیقات اور تدابیر میں لگے رہتے ہیں ، کچھ لوگ افلاس اور کچھ فاقہ میں گزارہ کرتے ہوئے زراعت اور آب رسانی پر محنت کرتے ہیں پھر قریہ ،قصبہ اور شہر کے تمام باشندے مل کر جماعت ترتیب دیتے ہیں جن سے قومیں بنتی ہیں پھر جب بہت ساری جماعتیں اور قومیں بن گئیں تو جنگ و جدال شروع ہوئی ۔ جنگوں کے ہونے سے بے حساب زرو مال اور قوت ضائع ہونے لگی تو صالح امتوں نے توازن قائم کیا یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات کو جاری کیا ۔"3

خانگی نظام کی بنیادیں

شاہ صاحب مختلف پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خانگی نظام کی تشکیل میں چار اجزا شامل ہیں ۔ (1) نکاح یعنی مرد و عورت کا جائز وقانونی طریقے سے ساتھ رہنا (2) اولاد (3) ملکیت (4) باہمی محبت اور معاشرت ۔

شاہ صاحب فرماتے ہیں :

" گھر صرف چار دیواری ، دروازے اور کھڑکیوں کا نام نہیں بلکہ گھر تو ان گہرے اور پائدار تعلقات کا نام ہے جو ایک چھوٹی سی جگہ میں رہنے کے سبب سے چند لوگوں میں پیدا ہو جاتے ہیں "۔ 4

اسی پیرائے سےشاہ صاحب کے بیان کردہ وہ چار اجزاء ثابت ہو گئے جو کہ خانگی یا عائلی نظام کی بنیاد ہیں ۔

اسی سے نکاح ثابت ہوا ، اس میں چند لوگوں سے مراد اولاد ، گھر سے مراد ملکیت بھی ۔ انسان کیونکہ معاشرت پسند ہے ,،وہ معاشرہ کے تعاون کے بغیر کسی صورت زندگی نہیں گزار سکتا، اسے دوسرے لوگوں کی ضرورت کسی نہ کسی صورت میں پڑتی رہتی ہے اس لیے بہت سے افراد نے مل کر خاندان کی بنیاد رکھی اور انہی خاندانوں کی بدولت سماج وجود میں آئے ۔

مثالی خاندان کیسے وجود میں آتا ہے؟

شاہ صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں ایک خوبصورت، پرسکون اور مثالی خاندان تب ہی معرض وجود میں آ سکتا ہے جب اس کی تشکیل کے لیے مندرجہ ذیل اہم پہلووسں کا خیال رکھا جائے ۔ وہ اہم پہلو یہ ہیں :

1: نکاح کی حیثیت و مقصد

2: محرمات

3: ایک سے زیادہ شادیوں کا مسئلہ

4: گھر کا سربراہ اور اس کی حیثیت

5: عورت کا اصل مقام

6: میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے باعث سکون واطمینان

7: مرد اور عورت کے حقوق و فرائض

8: اولاد کے حقوق و فرائض

9: گھر چلانے کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت و اہمیت

10: خانگی جھگڑوں کا فیصلہ

11: مفاہمت اور صلح کی کوشش

12: طلاق ، خلع یا عدت

13: صلۂِ رحمی و قرابت داری

نکاح کی حیثیت و مقصد

شاہ صاحب کی تعلیمات کے حساب سے خانگی نظام میں سب سے پہلی اور بنیادی شرط نکاح ہے ۔ نکاح کا بھی ایک مقصد ہے اور اس کے بہت سے فوائد ہیں ۔ کیونکہ نکاح سے انسان بد کاری ، آوارگی اور بہت سی برائیوں سے بچ جاتا ہے ۔

جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

" اے جوانوں کے گروہ ! جوشخص تم میں سے نکاح کی طاقت رکھتا ہو تو نکاح کرے ۔ کیونکہ نکاح کرنے سے نگا ہ پست رہتی ہے اور شرم گاہ محفوظ رہتی ہے اورجو شخص اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کو روزہ رکھنا چاہیے ۔ "6

اس سے صاف ظاہر ہے کہ جوانی میں برائی سے بچنے کے دو طریقے ہیں ، یا تو نکاح کر لیا جائے اور اگر اس کی قدرت نہیں تو روزہ کو بے حیائی میں ڈھال بنا لینا چاہیے ۔ کیونکہ روزہ رکھنے سے انسان جہاں جنسی خواہشات سے بچتا ہے وہاں اس کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔

حدیث نبوی ﷺ ہے :

و من لم یستطع فعلیه بالصوم فإنه له وجاء

" اور جو شادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے اس طرح اس کی جنسی خواہش قابو میں رہے گی ۔ "7

شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ جب انسان عیش و عشرت کی زندگی گزارے گا تو اس کے خیالات بھی بھٹکیں گے اور جب انسان کھائے پیے گا تو جسم میں طاقت اور حرارت آئے گی جو کہ جنسی بے راہ روی کا باعث بن سکتی ہے ۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ روزہ رکھا جائے ۔ جب آدمی اپنے کھانے پر کنٹرول رکھے گا تو جذبہ پر بھی کنٹرول ہو گا یا پھر آدمی عیش کی زندگی نہ گزارے تو اس سے جذبات قابو میں رہیں گے ۔اس لیے نکاح جہاں بے راہ روی اور بدکاری سے بچاتا ہے وہاں باعثِ ثواب بھی ہے ۔

شاہ صاحب فرماتے ہیں :

فصل ما بین الحلال و الحرام الصوت و الدف فی النکاح

"حلال اور حرام میں یہی فرق ہے کہ نکاح میں آواز اور دف ہے "8

ایک اور جگہ فرمایا : اعلنوا هذا النکاح واجعلوه فی المساجد واضربوا بالدفوف ۔

" اس نکاح کا اعلان کرو اور یہ مسجدوں میں کیا کرو اور اس پر دف بجایا کرو ۔"9

اس سے دو باتیں ظاہر ہوئیں؛ ایک یہ کہ نکاح کا اعلان ضروری ہے تاکہ معلوم ہو کہ فلاں مرد و عورت جائز اور حلال زندگی بسر کر رہے ہیں اور دوسری یہ کہ خوشی میں آواز ، شور، دف وغیرہ سے اسلام نے منع نہیں کیا ۔

ابن سیرین رحمۃاللہ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ سے روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

" امیر المومنین اگر کسی گھر سے شوروشغب اٹھتا ہوا سنتے تواسے معیوب سمجھتے لیکن اگر یہ شور تقریبِ ولیمہ یا ختنہ کے موقعہ پر ہوتا تو سنتے اور درگزر فرما دیتے"۔10

اسی لیے شاہ صاحب بھی نکاح کو اجر و ثواب کا باعث قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: نکاح کا ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ نکاح بذات خود ایک معاہدہ ہے جس میں مرد و عورت گواہوں کی موجودگی میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا تسلیم کرتے ہیں ۔ اس معاہدے کی رو سے مرد سب کی موجودگی میں عورت کی حفاظت اور کفالت کا عہد کرتا ہے جبکہ عورت اس بات کا عہد کرتی ہے کہ وہ اس معاہدے کے دوران اس قسم کے تعلقات کسی اور کے ساتھ قائم نہیں کرے گی اور اس چار دیواری میں اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے ہر طرح سے اپنے شوہر کی مدد کرے گی ۔ اس طرح ایک خاندان کا آغاز ہوتا ہے ۔ 11

2۔ محرمات

بعض عورتیں مردوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں پرورش پاتی ہیں جیسا کہ ماں ، بہن اور بیٹی ۔ انسان ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ا س قسم کے تعلقات نہیں رکھ سکتا ہے جو کہ بیوی سے ہوتے ہیں ۔ان کو محرمات یعنی حرمت والی عوتیں قرار دیا گیا ہے ۔ اگر انسان کا اخلاق اور عقل سلیم قائم ہو تو محرمات سے اجتناب اس کی جبلت ہوتی ہے ۔ اور فطرتِ انسانی بھی یہی ہے کہ مرد ان سے نکاح نہ کرے ۔

شاہ صاحب فرماتے ہیں :

اگر ان محرمات کی طرف رغبت کو روکا نہ جاتا تو چونکہ ان کے ساتھ ہر وقت گھر میں میل جول رہتا ہے اس لئے خانگی معاشرت میں فساد پھیل جاتا ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام قوموں میں ماں ، بہن اور بیٹی کو محرمات قرار دیا گیا ہے اور ان سے نکاح نہ کرنا معاشرتِ انسانی کا مسلمہ اصول بن چکا ہے ۔ 12

3۔ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت

ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے حوالے سے شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام نے مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دی ہے ۔ تعداد کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ چار کی اجازت حالتِ جنگ کی وجہ سے دی گئی تھی کیونکہ جنگوں کے دور میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے تھے کہ مردوں کی تعداد کم ہو جاتی تھی ، اگر ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی لگتی تو کئی بیوائیں شادی کرنے سے رہ جاتیں ۔ اس لیے اسلام نے یہ اجازت دی کہ اگر مرد چاہے تو چار تک بیویاں رکھ سکتا ہے ۔ اسلام نے حالتِ جنگ کے بعد بھی اس اجازت کو جاری رکھا مگر عدل و انصاف کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

وان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلاث و ربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ او ما ملکت ایمانکم ذلک ادنی الا تعولوا ۔

"اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم (رشتہ دار)یتیم لڑکیوں کے معاملے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو (ان کے ساتھ نکاح نہ کرو بلکہ)نکاح کرو ان عورتوں سے جو تمہیں اچھی لگیں ۔دو دو،تین تین ، چار چار ۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ(ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں) تم (ان کے مابین)عدل نہیں کرسکو گے تو ایک(بیوی) پرہی اکتفا کرو یا (کنیز پر اکتفا کرو)جو تمہاری ملک یمین میں ہوں ۔اس طرح امید ہے کہ تم ناانصافی سے بچ جاو گے ۔ "13

گھر کا سربراہ اور اس کی حیثیت

اسلام نے مرد اور عورت کو مساوی حقوق دئیے ہیں ۔ شاہ صاحب کے نزدیک بھی گھر کا سربراہ صرف مرد ہے ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ: خاندان کی تعمیر و ترقی میں مرد و عورت دونوں شریک ہیں مگر جس طرح ایک ریاست بغیر بادشاہ کے نہیں چل سکتی بلکل اسی طرح گھر کا نظام بھی بغیر مرد کے یا مرد کومکمل اختیار دیے بنا نہیں چل سکتا ۔ کیونکہ ہر ادارے کے لیے ایک سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی بھی ادارہ بغیر سربراہ کے نہیں چل سکتا ۔ اسی لیے اسلام نے مرد کو یہ اختیار دیا ہے ۔ قرآن پاک میں فرمایا :

الرجال قوامون علی النساء بما فضل الله بعضهم علی بعض و بما انفقوا من اموالهم ۔

" مرد عورتوں پر قوام ہیں یعنی ان کے نگران و سربراہ ہیں، اس بناء پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض (مردوں)کو بعض (عورتوں) پر فضیلت دی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں "14

شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ مرد نہ صرف مضبوط اعصاب کا مالک ہوتا ہے بلکہ اس میں عورت کی نسبت عقل و فہم کا مادہ بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ اس لیے ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی شہادت قابلِ اعتبار ہے ۔مرد محنت اور مشقت کے میدان میں بھی دلیری دکھاتا ہے اور اپنی ننگ و ناموس کی حفاظت کی پوری طاقت رکھتا ہے ۔ جبکہ عورت کام سے جی چراتی ہے ۔ اس لیے گھر کےسربراہ کی حیثیت صرف مرد کو حاصل ہے۔اور دوسرا یہ کہ وہ گھر پر خرچ کرتا ہے اور گھر والوں کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے ۔

5۔ عورت کا اصل مقام گھر

شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ عورت کا اصل مقام گھر ہے ۔ خاندانی نظام بھی اسی صورت بہتر طور پر چل سکتا ہے جب عورت سچے دل سے مرد کی حیثیت کو تسلیم کرے اور اس کی اطاعت کرے ۔ ایسی عورتوں کے بارے میں قرآن پاک میں ارشادہے : فالصلحت قنتت حفظت للغیب بما حفظ الله ۔

"پس نیک عورتیں شوہر کی اطاعت شعار ہوتی ہیں ، حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں ۔ ان کے پیچھے اللہ نے ان کی حفاظت کی ہے ۔ " 15

مطلب کہ اگر نیک عورتیں خلوصِ نیت سے مرد کی غیر موجودگی میں اپنی عزت اور گھر کا خیال رکھتی ہیں تو اللہ بھی ایسی عورتوں کی حفاظت فرماتا ہے ۔

6۔میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے باعثِ سکون

دینِ اسلام نے میاں اور بیوی کے آپس کے تعلق کو ایک دوسرے کے لیے باعثِ سکون و اطمینان بنایا ہے ۔ میاں اور بیوی ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے سب مسائل ایک دوسرے سے کہتے ہیں اور ایک دوسرے سے قرار حاصل کرتے ہیں ۔

قرآن پاک میں ہے ۔

هن لباس لکم و انتم لباس لهن

"عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو ۔"16

مرد اور عورت کوایک دوسرے کے بہترین ساتھی ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے ۔ جس طرح ایک لباس عیب ڈھانپ لیتا ہے اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کی شخصیت کے عیب چھپاتے ہیں اور ایک دوسرے کی زینت کا باعث بنتے ہیں ۔ وہ ہر پریشانی میں ایک دوسرے سے سکون اور اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔

اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب جبرائیل امین وحی لے کے آئے تو انہوں نے اپنی بے چینی اور الجھن سب سے پہلے اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے ہی بیان کی اور انہوں نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ۔ 17

اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فترت الوحی کا دور آیا تو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس پریشانی کا ذکر بھی اپنی بیوی ہی سے کیا جنہوں نے ایک بار پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ۔

مرد اور عورت کے حقوق و فرائض

دینِ اسلام نےمرد اور عورت کو مساوی حقوق دیئے ہیں ایک کا حق دوسرے فریق کے لئے فرض بن جاتا ہے ۔ جس طرح مرد کا حق ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں عورت نہ صرف اپنی عزت کی اور اس کے گھر کی حفاظت کرے بلکہ اس کے بچوں کی فطری ضروریات کا بھی خیال رکھے اور اس کے ساتھ ساتھ شوہر کی پسند و ناپسند کو اپنی پسند و ناپسند پر فوقیت دے ۔ کیونکہ یہ رتبہ مرد کو اسلام نے عطا کیا ہے ۔ اسی طرح مرد کا بھیی فرضض ہے کہ وہ ببوی بچوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اداکرے اور ان کی ہر ضروررت کا خیا ل رکھے ۔

شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں ۔

"جیسا کہ یہ فطری تقاضا ہے کہ عورت کی زندگی مرد کے بغیر اور مرد کی زندگی عورت کے بناء نامکمل ہے ۔ اسی لیے عورت اپنے خاندان میں معزز ہوا کرتی ہے ، اسی لیے نکاح ، منگنی اورمہر وغیرہ مرد کی ذمہ دای قرار پائی ۔18

یہ بھی عورت کا حق ہے کہ مرد اس کو ڈر ، خوف اور پریشانی سے آزاد ماحول میں رکھے ۔ تاکہ وہ اپنے حقوق احسن طریقے سے پورے کر سکے ۔

اولاد کے حقوق و فرائض

شاہ ولی اللہ اولاد کے حقوق و فرائض بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اولاد کا سب سے پہلا حق یہی ہے کہ کسی اچھی عورت سے شادی کی جائے ۔ اگر آپ گھر بسانے کے لیے کسی اچھی ، دین دار ، سلیقہ شعار عورت کا انتخاب نہیں کرتے ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنی اولاد کا حق مارا ۔

حدیث نبوی ہے ۔

" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! رشتہ چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ حسب نسب ، مال و دولت ، خوبصورتی اور دین داری ۔ اور سب سے اچھا رشتہ وہ ہےجو آپ دین داری کی بنیاد پر کریں ۔ "19

کیونکہ اگر بیوی دین دار ہو گی تو وہ بچوں کی پرورش بھی اسی انداز سے کرے گی ۔ اور اسی صورت میں اولاد کا حق پورا ہو سکتا ہے ۔

اس کے علاوہ یہ بھی اولاد کا حق ہے کہ ان کی ماں محبت کرنے والی ہو ۔ اسی لیے فرمایا شادی کے لیے باکرہ یعنی کنواری اور کم عمر عورت کا انتخاب کرو ۔ یوں تو بیوہ یا مطلقہ سے شادی کرنے میں کوئی قباہت نہیں اور اجر و ثواب کا بھی باعث ہے مگر باکرہ اور کم عمرعورت مطلقہ یا بیوہ عورت کی نسبت زیادہ پیار اور محبت کرنے والی ہوتی ہے اور زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہوتی ہے ۔ اور اس میں جلد ماحول میں ڈھلنے کی خوبی ہوتی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے صرف حضرت عائشہ باکرہ تھی ۔ وہ خود بھی بہت پیار کرنے والی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان سے بہت پیار تھا ۔ اسی لیے شاہ صاحب بھی دلیل میں وہ حدیث نبوی پیش کرتے ہیں جس میں نبی ﷺ نے فرمایا ۔

نکاح کرہ ایسی عورتوں سے جو زیادہ جننے والی اور زیادہ محبت کرنے والی ہوں ۔ 20

اس کے علاوہ پیدائش کے بعد بچوں کا اولین حق یہ ہے کہ ان کا اچھا بامعنی نام رکھا جائے اور ان کا عقیقہ کیا جائے ۔

شاہ صاحب کے نزدیک اولاد پر توجہ ، محبت اور ان کی اچھی تربیت لازمی سنت ہے ۔

شاہ صاحب نکاح و شادی کے لیے بچوں کی پسند و ناپسند کو بھی ان کا حق قرار دیتے ہیں ۔کیونکہ خود سے شادی کی خواہش کا اظہار کرنے میں شرم و حیا مانع ہوتی ہے ۔خصوصا عورت اپنی اس خواہش کا اظہار نہیں کر سکتیں ۔ چونکہ یہی باتیں اس کی حیا کی پیداوار ہیں اسی لیئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بر خود نہ تلاش کریں بلکہ ان کے اولیاء ان کے لیئے اچھے رشتے تلاش کریں مگر ان کے ساتھ مشورہ کر لیا جائے ۔ 21

قرآنِ پاک میں بچے کی نسبت ماں اور باپ دونوں کی طرف کی گئی ہے ۔ فرمایا ۔

والوالدات یرضعن اولادهن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة و علی المولود له رزقهن و کسوتهن بالمعروف لا تکلف نفس الا وسعها لا تضار والدة بولدها و لا مولود له بولده

"اور مائیں اپنی اولاد کو دو سال تک دودھ پلائیں ۔ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو پوری مدت دودھ پلانا چائیں اور جس کی اولاد ہے وہ ان کے کھانے کپڑے کا بندوبست دستور کے مطابق کرے ۔ کسی شخص کو اس سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا جائے گا نہ ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے گا ۔ "22

اس کا مطلب جہاں نان و نفقہ کی ذمہ داری باپ پر ہے وہاں یہ بھی واضح ہوا کہ کسی بھی ماں کو اس کی اولاد کی وجہ سے بلیک میل نہ کیا جائے ۔ اور نہ کبھی اولاد کو ماں باپ کی کمزوری سمجھتے ہوئے ایذاء پہنچایا جائے ۔

قرآن پاک میں فرمایا ۔

یایها الذین امنوا قوا انفسکم و اهليکم نارا

" اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ "23

یعنی کہ آدمی اپنے اعمال میں دوسروں کے لیے عملی نمونہ ہو ۔ پہلے تو وہ خود آگ سے بچے اور پھر اپنے گھر والوں ، بیوی بچوں کو بھی آگ سے بچائے ۔

شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ بچوں کو وہ علوم سکھائے جائیں جو کہ دنیوی اور اخروی زندگی میں کام آ سکیں ۔ 24

دینِ اسلام نے جہاں اولاد کے حقوق متعین فرمائے ہیں وہاں ان پر کچھ حقوق بھی عائد فرمائے ہیں ۔ یہ اولاد کا فرض قرار دیا گیا کہ جب وہ بڑے ہو جائیں تو اپنے والدین سے ادب و آداب اور عزت و احترام سے پیش آئیں ۔ ان سے حسنِ سلوک سے پیش آئیں اور ان کی ضروریات کو ہر ممکن طریقے سے پوری کرنے کی کوشش کریں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔

و قضی ربک الا تعبدوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صغیرا

"اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں تو ان سے اف تک نہ کہو ۔ اور نہ انہیں جھڑکو ۔ اور ان سے ادب کے ساتھ بات کرو اور ان کے سامنے عجز و نیاز سے جھکے رہو اور کہو ! اے رب ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی ۔"25

اس سے ظاہر ہوا کہ والدین سے سخت بات یا بدتمیزی تو دور کی بات ان سے اف تک بھی کہنے سے اسلام نے منع فرمایا ہے ۔

کتاب السنت میں حجۃاللہ البالغہ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ سب سے بڑھ کر صلہ رحم والدین کے حقوق کی حرمت و عزت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔

من الکبائر عقوق الوالدین

"سب کبائر میں بڑھ کر گناہ کبیرہ والدین کی نافرمانی ہے ۔ "26

والدین کی طبیعت میں چڑچڑا پن اور بدمزاجی وقت کے ساتھ آ ہی جاتی ہے ۔ اس پر ان کو ڈانٹنا یا ان سے بدتمیزی سے پیش آنا کسی طور درست نہیں ۔ بلکہ ان کی عمر کا تقاضیٰ ہے کہ ان سے حسنِ سلوک سے پیش آیا جائے جس طرح انہوں نے ہم پر بچپن میں رحم کیا اب وہ بھی اسی رحم کے مستحق ہیں ۔

9۔ گھر چلانے کے لیے باہمی تعاون کی اہمیت و ضرورت

مرد اور عورت کو گاڑی کے دو پہیوں سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اگر مرد اپنے حصے کے فرائض منصبی پورے کر رہا ہو سب ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہو اور عورت گھر پر توجہ نہ دےتو اس صورت میں بھی بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔ اس لیے مرد اور عورت دونوں کو اپنے اپنے فرائض منصبی تعاون کے ساتھ پورا کرنا ہوں گے ۔ کسی بھی مسئلہ میں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا ہو گا ۔ اور اگرگھر میں کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو ان دونوں کو مل کر اس کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈنا ہو گا ۔

شاہ صاحب میاں بیوی کے آپس کے تعاون سے چلنے والے اس سسٹم کو خانہ داری یعنی (House keeping) کا نام دیتے ہیں۔27

10۔ خانگی جھگڑوں کا فیصلہ

ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ دو لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوں اور ان میں کسی بھی بات پر اختلافِ رائےنہ ہو ۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے آپس میں کسی بھی بات پر اختلاف ممکن ہے اور اسی اختلاف کی بناء پر میاں بیوی کے درمیان نوک جھونک اور تلخ کلامی بھی ہو سکتی ہے ۔ اسی تلخ کلامی کی بناء پر ازدواجی تعلقات خراب بھی ہو سکتے ہیں ۔ اگر ایسا کوئی معاملہ درپیش ہو جائے تو مرد کو چاہیے کہ عقل و فہم اور صبر و ضبط سے کام لے ۔آپس میں اختلافات کو باہم رضامندی اور پیار محبت سے نمٹانے کی کوشش کریں ۔

شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ موافقت کی ہرممکن کوشش کی جائے ۔ مرد اپنے افہام و تفہیم کو استعمال کرتے ہو ئے بیوی پر کسی حد تک سختی بھی کر سکتا ہے ۔ اور ا گر مرد میں کوئی برائی ہے تو عورت اس کی اصلاح کے لیے کوشش کرے ۔ بہرکیف میاں بیوی کو اعتدال پر قائم رہنا چاہیئے اور ایک دوسرے پر ظلم و جور نہیں کرنا چاہیئے ۔ 28

11۔مفاہمت اور صلح میں ثالث کا کردار

شاہ صاحب کے نزدیک باہمی جھگڑوں کو نمٹانے کا سب سے سنہرا اصول یہ ہے کہ میاں اور بیوی دونوں کی طرف سے ایک حاکم مقرر کیا جائے جو کہ ان دونوں کی طبیعت اور مزاج کو سمجھتے ہوئے ثالث کا کردار ادا کرے ۔ اور وہ ثالث اخلاص کے ساتھ مسئلے کے حل کی کوشش کرے ۔

قرآن پاک میں ہے ۔

و ان خفتم شقاق بینهما فا بعثوا حکما یو فق الله بینهما ان الله کان علیما خبیرا

" اگر تمہیں ڈر ہو دونوں میں اختلاف رائے اور ہٹ دھرمی کا تو ایک حکم عورت کی طرف سے اور ایک حکم مرد کی طرف سے بھیجو ۔ اگر وہ اصلاح کا ارادہ کریں تو اللہ میاں بیوی کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا ۔ بے شک اللہ سب کچھ جا ننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے ۔ "29

اگردور ِ حاضر کو دیکھا جائے تو اس آیت سے یہ بھی دلیل ملتی ہے مسلم معاشرہ بھی دونوں کےدرمیان صلح کی کوشش کر سکتا ہے ۔ اور اگر معاملہ عدالت تک پہنچے تو بھی عدالت فریقین کو مشورہ اور فیصلہ کا حق دیتے ہوئے زوجین کو راضی کر سکتی ہے ۔

12۔ طلاق ، خلع اور عدت

شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوشش کے باوجود فریقین ازدواجی تعلق کو قائم نہ رکھنا چاہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ نہ رہنا چاہیں اور اپنی راہیں جدا کرنا چاہیں تو اسلام نے مرد کے لیے طلاق اور عورت کے لیے خلع کا راستہ دیا ہے ۔

باوجود اس کے کہ طلاق اللہ کے نزدیک جائز ہونے کے باوجود سب سے ناپسندیدہ فعل ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ۔

"اللہ عزوجل کی بارگاہ میں سب سے ناپسندیدہ حلال کام طلاق دینا ہے ۔ "30

پہلے تو آخری حد تک صلح صفائی کی کوشش کی جائے لیکن اگر نوبت اس حد تک شدت اختیار کر جائے تووہ چاہیں تو اپنے راستے الگ کر سکتے ہیں۔

جاہلیت میں کیونکہ طلاق کی کوئی حد نہ تھی ۔ شوہر اپنی بیوی کو کئی کئی بار طلاق دیتا اور جب چاہتا دوبارہ رجوع کر لیتا اس طرح وہ زندگی بھر عورت کو تنگ کرتا رہتا ۔ شاہ صاحب نے قرآن کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے بتایا کہ طلاق کا طریقہ کیا ہے ؟ مطلقہ یا بیوہ اپنے شوہر سے علیدگی یا اس کے مرنے کے بعد کس طرح عدت گزارے ؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے ۔

الطلاق مرتن فامسک بمعروف او تسریح باحسان

"طلاق دو مرتبہ ہے اس کے بعد یا تو معروف طریقے سے روک لے یا پھر احسن طریقے سے چھوڑ دے ۔ "31

اور عدت کے بارے میں ہے کہ

والمطلقات یتربصن بانفسهن ثلاثة قروء

" اور مطلقات اپنے آپ کو تین حیض یا تین طہرتک روکے رکھیں۔ " 32

ان دونوں آیات میں یہی مراد ہے کہ اگر مرد نے طلاق کا حق استعمال کر لیا تو عدت بھی اسی لیے ہے کہ اگرکوئی اپنی غلطی پر پچھتاے تو ووہ مقررہ وقت میں رجوع کر لے اور اگر وقت گزر بھی جائے تو پھر اس عورت کو اپنانے کے لیے ایک اور مشقت طلب راستہ ہے جو کہ حلالہ ہے ۔ قرآن میں فرمایا ۔

فان طلقها فلا تحل له من بعد حتی تنکح زوجا غیره ۔

" پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو اب وہ اس کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ دوسرے مرد سے نکاح کرے۔"33

14۔ صلہ رحمی اور قرابت داری

دین اسلام نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ دوسرے خونی رشتوں سے بھی پیار اور محبت کی تاکید کی ہے ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے گھر والوں سے عزت اور احترام سے پیش آئے اور اسی طرح لیے عورت کا فرض ہے کہ شوہر کے خونی رشتوں کو عزت اور پیار دے اور انہیں کبھی بھی حقیر نا جانے ۔ قرآن پاک میں فرمایا ۔

و آت ذا القربی حقه والمسکین وابن السبیل و لا تبذر تبذیرا

"اور رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی اور فضول خرچی نہ کرو ۔"34

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

" تمہارے صدقہ کا حق دار تمہارے اپنے گھر والے ہیں ۔ "35

حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

" کسی حاجت مند کو صدقہ دینا صرف ایک صدقہ ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا دو صدقات کے برابر ہے ۔ ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی ۔ " 36

نتائج

اسلام چونکہ ایک عالمگیر مذہب ہے جو کہ ہر معاملے میں ہماری ہدایت و رہنمائی کرتا ہے ۔ اگر ہم اپنے خانگی نظام کو اسلام کے اصولوں پر چلائیں گے تو یہی چند تربیت یافتہ دو چار افراد بڑھتے بڑھتے بہت سی برائیوں کو ختم کر دیں گے ۔ کیونکہ پورے معاشرے پر تو کنٹرول نا ممکن ہے مگر ہم اپنے گھر کی چار دیواری میں رہنے والے چندلوگوں کوتو ایک با اصول اور پرخلوص انسان بنا سکتے ہیں ۔ شاہ صاحب نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے کہ مرد اور عورت دونوں مل کر اپنے گھر کو مثالی اور جنت کا نمونہ بنا سکتے ہیں ۔ اس لیے ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ایسی باتوں سے خاص طور پر پرہیز کریں جن سے دلوں میں رفتہ رفتہ نفرت پیدا ہو جایا کرتی ہے ۔ اس لیے خاندان کے چھوٹے سے دائرے میں اگر گھر میں بچوں کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کی جائے تو رفتہ رفتہ گھرسے باہر بھی تمام معاشرہ پر اسلامی اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔

حوالہ جات

1 : Indus Journal of Management and Social Sciences, Vol. 2, No. 1:29-49 (spring 2008)

2: سورہ روم : 21

3: فخری، سید رضی الدین احمد ،تلخیص حجۃ اللہ البالغہ ، دارالاشاعت دہلی ، 1995، ص 43

4: سندھی، مولانا عبید اللہ ،شرح حجۃاللہ البالغہ ، حکمت قرآن انسٹیٹیوٹ کراچی ، 2010 ، ص 262

5 : Indus Journal of Management and Social Sciences, Vol. 2, No. 1:29-49

6 : البخاری، محمد بن اسماعیل ۔ الجامع الصحیح البخاری ۔ دار الاسلام ریاض ۔ طبع دوم ۔ 1999۔کتاب النکاح

7 :صحیح بخاری و مسلم ،کتاب النکاح

8 : دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث مترجم مولانا ابو یحیٰ امام خان نوشہروی ، فقہ حضرت عمر ، ، ادارہ ثقافت اسلامیہ ، کلب روڈ لاہور ، طبع دوم ، 1960۔ ص 172

9 : مولانا خلیل احمد بن مولانا سراج احمد ، کتاب السنت حجۃ اللہ البالغہ ، کتب خانہ شان ِ اسلام ، راحت مارکیٹ ، اردو بازار لاہور ، 1909 ، ص 495

10: دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث مترجم مولانا ابو یحیٰ امام خان نوشہروی ، فقہ حضرت عمر ، ص 172

11: سندھی، عبیداللہ ، شرح حجۃاللہ البالغہ ، ص 263

12: سندھی، عبیداللہ ، شرح حجۃاللہ البالغہ ، ص 264

13: سورۃالنسا ء : 3

14: سورۃالنساء : 34

15: سورۃالنساء : 34

16: سورۃالبقرۃ :187

17: مبارک پوری، صفی الرحمٰن ، الرحیق المختوم ، المکتبۃالسلفیہ ، شیش محل روڈ ، لاہور ، 2000، ص 99

18: فخری، رضی الدین احمد ، تلخیص حجۃاللہ البالغہ ، ص 45

19: صحیح بخاری و صحیح، مسلم کتاب النکاح

20: خلیل احمد بن مولانا سراج احمد ، مترجم کتاب السنت حجۃ اللہ البالغہ ، ص 489

21: سندھی، عبیداللہ ،شرح حجۃاللہ البالغہ ، ص 265

22:سورۃالبقرۃ :233

23: سورۃ التحریم : 6

24: سندھی، عبیداللہ ، شرح حجۃ اللہ البالغہ ، ص267

25: سورۃ الاسراء : 23 تا 24

26 : خلیل احمد بن مولانا سراج احمد ، مترجم کتاب السنت حجۃ اللہ البالغہ ، ص 523

27: سندھی، عبیداللہ ، شرح حجۃاللہ البالغہ ، ص 266

28: سندھی، عبیداللہ ، شرح حجۃاللہ البالغہ ، ص 266

29: سورۃ النساء : 35

30: سلمان بن اشعث ۔ السنن ابو داؤد ۔ دارالاسلام ریاض ۔ 1999۔ کتاب النکاح

31: سورۃ البقرۃ : 229

32: سورۃالبقرۃ : 228

33: سورۃالبقرۃ : 230

34: سورۃالاسراء : 26

35: صحیح بخاری ،کتاب الایمان

36: جامع ترمذی، کتاب الزکات ، سنن ابنِ ماجہ شریف کتاب الزکاۃ

37: سندھی، عبیداللہ ، شرح حجۃاللہ البالغہ ، ص 267

38: سندھی، عبیداللہ ، شرح حجۃاللہ البالغہ ، ص 267

39: خلیل احمد بن مولانا سراج احمد ، مترجم کتاب السنت حجۃ اللہ البالغہ ، ص 531

 

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...