Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 1 Issue 1 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

طلب معاش کی اہمیت اور اس کی ترقی کے اسباب قرآن اور سنت کی روشنی میں |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060025806_912

Pages

52-59

PDF URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/download/12/9

Chapter URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/view/12

Subjects

Trade live hood principles dealings Market Trade live hood principles dealings Market.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

آج پوری دنیا ایک گاؤں(Global Village) بن چکی ہے، خرید وفروخت کی ایسی نت نئی صورتیں سامنے آرہی ہیں جو زمانہ ماضی میں پیش نہیں آئیں۔مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگوں کے درمیان خرید وفروخت جدید سے جدید طریقوں جیسے Internet, Telephone, Email, اور Faxوغیرہ سےہورہی ہے۔ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ، بن دیکھے لاکھوں ڈالروں کے سودے کررہے ہیں ۔ مصنوعات (Products) کے مارکیٹ میں آنے سے پہلے دنیا کو اس تعارف ہونے کےساتھ ساتھ اس کے فوائد اور نقصانات کا علم بھی ہو جاتا ہے۔مصنوعاتکے مارکیٹ میں آنے سے پہلے بلکہ بسا اوقات اس کے وجود سے بھی پہلے اس کی خرید وفروخت شروع ہو جاتی ہے۔ایسے حالات میں بہت سے ایسے معاملات ہو رہے ہیں جو شریعت کی رو سے ناجائز اور ممنوع ہیں۔ ان معاملات کا عوام کو تو کیا خواص کوبھی اس کے عدم ِجواز کا ادراک تک نہیں ہوتا ۔ایسے ناجائز معاملات کرنے اور ان سے آمدنی کھانے کی وجہ سے ایک طرف ہم مسلسل قہرِ الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں، دوسری طرف ان معاملات کا براہ راست اثر ہماری عبادات اور دعاؤں پر بھی پڑ رہا ہے،جس کے باعث مسلمان دنیا اور آخرت کے خسارے سے دوچار ہیں۔ایسے حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ طلب معاش اور اس کی ترقی کے اسباب امت کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ حرام خوری اور اس کے نتائج سے حفاظت ہواور امت حلال وطیب کواستعمال کرکے اللہ تبارک تعالی کی خوشنودی حاصل کرے ۔

تجارت کی معنی

بیع کا ہم معنی لفظ تجارت ہے۔تجارت باب نصر سے آتاہے ، اسی معنٰی میں باب افعال سے اتجر يتجر اِتجارا آتا ہے۔ تاجر کی جمع تَجر، تِجار اور تُجار آتی ہے۔عرب اصل میں تاجر شراب فروش کو کہتے ہیں۔تاج العروس میں ہے:

"أصل التاجر عندهم الخمار يخصونه من بين التجار، ومنه حديث أبي ذر(كنا نتحدث أن التاجر فاجر)"[1]

ترجمہ: عرب کے ہاں تاجر کی اصل خمار فروش ہے، وہ اس کو دوسرے تاجروں سے ممتاز رکھتے ہیں اور اسی سے حضرت ابو ذر کی حدیث ہے کہ ہم آپس میں باتیں کرتے کہ تاجر فاجر ہے۔

علامہ زبیدیؒ نے تجارت کی تعریف ان الفاظ سے فرمائی ہے: "التجارة تقليب المال لغرض الربح"[2]

ترجمہ: نفع کی غرض سے مال کو تبدیل کرنے کو تجارت کہتے ہیں۔

مجازا تجارتِ رابحہ عمل صالح کو اور تجارتِ خاسرہ معاصی کو کہا جاتا ہے۔ اسی سے اللہ تعالی کا ارشاد :"أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ"[3]

ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی خرید لی ہدایت کے بدلے سو نہ تو ان کی تجارت ہی سود مند ہوئی نہ وہ ہدایت پانے والے ہوئے آتی ہے۔

"البيع ضد الشراء، والبيع: الشراء أيضا، وهو من الأضداد وبعت الشيء شريته، قال أبو عبيد: كان أبو عبيدة وأبو زيد وغيرهما من أهل العلم يقولون إنما النهي في قوله لا يبع على بيع أخيه إنما هو لا يشتر على شراء أخيه، فإنما وقع النهي على المشتري"[4]

اور ایسے ہی اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ"[5]
ترجمہ: "اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضاجوئی کے لیے اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں "۔

بیع میں خرید اور فروخت دونوں واقع ہوتی ہیں، اسی بات کی طرف علامہ علی حیدر ؒنے "مبادلة الشئی بالشئ"[6] میں مبادلہ کی لفظ سےاشارہ کیاہے جو کہ جانبین کا وظیفہ ہے۔ لفظِ بیع کے اشتقاق کے بارے میں الانصاف میں ہےکہ بیع کا لفظ باع سے مشتق ہے ، باع کی معنیٰ بازو کےہیں اور بیع کو بھی بیع اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس میں فروخت کنندہ اور بیچنے والوں میں ہر ایک دوسرے کی طرف لینے اور دینے کے لیے اپنی بازؤوں کو پھیلاتے ہیں۔[7]

بیع کی مشروعیت

بیع کی مشروعیت قرآن ،سنت ،اجماع اور قیاس سے ثابت ہے ۔قرآن مجید کی بہت آیات خرید و فروخت کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"احل الله البيع وحرم الربوا"[8]

ترجمہ: اللہ تعالی نے خرید و فروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔

طحاوی شریف کی درجِ ذیل روایت سے بھی بیع کی اباحت کا علم ہوتا ہے جوحضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ تعالی عنہ سےمروی ہے : "عکاظ،مجنہ اورذوالمجازجاہلیت میں بازاریں تھیں جنمیں لوگ تجارت کرتےتھے،پھرجب اسلام آیاتولوگوں نےان میں تجارت کرناگناہ سمجھا،انھوں نےآپﷺسےاسکےمتعلق دریافت فرمایاتوسورہ بقرہ کی آیت لیس علیکم جناح الخ آیت نازل ہوئی کہ حج کی موسم میں تجارت کرنےمیں کچھ حرج نہیں۔"[9]

اجماع سے بھی خرید و فروخت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ بیع کے جواز پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔[10] قیاس سے بھی خرید و فروخت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے کہ انسان مختلف انواع کی اشیا کا محتاج ہوتا ہے ،ان تمام اشیا کو بذات خود حاصل کرنے پر وہ قادر نہیں مثلا زمین میں بیج ڈالنا،اس کی خدمت کرنا،حفاظت کرنا ،کٹائی ،گہائی ،پسائی کا کام کرنا،ایسے ہی اپنے ہاتھ سے کپڑےبنانے کےجومراحل ہیں ان سب کو اکیلا انسان عبور نہیں کر سکتا،ان اشیا کا حصول یا بیع کے ذریعے ہوگا یا سوال اور غصب سے ہوگایا پھر انسان اپنی سب ضروریات کو دبا کر صبر کرے ،بیع کےعلاوہ باقی طریقوں میں بڑا فساد ہے ،تو بیع ہی کسی چیز کے حصول کا بڑا ذریعہ ہوا۔

خرید و فروخت کے مسائل کا علم

خرید و فروخت کا ایک ادب یہ ہے کہ تجارتی مسائل کا علم حاصل کیا جائے، علم کے بغیر اگر تجارت کی جائے گی تو ایسا آدمی سودی،غرر، قمار وغیرہ جیسے معاملات کرنے لگے گا، جس سے وہ اللہ تعالی کی پکڑ کا مستحق بن جائے گا۔زمانہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں اورارباب حل وعقدکی یہ کوشش ہوتی تھی کہ تجارمعیشت کے احکام سیکھ کرتجارت کریں؛تاکہ سود اور دیگر ناجائز و حرام معاملات سے بچ سکیں ۔حضرت عمر ؓنے حکم جاری فرمایا کہ ہماری بازار میں صرف وہ شخص تجارت کرے جس کو دین میں تفقہ حاصل ہو۔[11] امام غزالی تجارت کی اہمیت کو اجاگر کرکے لکھتے ہیں کہ کھانے کے بغیر دنیا میں رہناناممکن ہے ،اس لیے طلب معاش کے طرق کو سیکھنا بھی لازم ہے۔[12]

تجارت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے آئے اس وقت مدینہ میں یہود کی بازاریں اور ان کے تجارت زوروں پر تھی۔ آپ ﷺ نے مسلمانوں کے لیے الگ بازار قائم کرنے کی فکر فرمائی۔ آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں مختلف جگہوں کا خود سے معاینہ فرمایا ۔ ایک جگہ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ جگہ مسلمانوں کی بازار کے لیے مناسب نہیں۔ اس طرح دوسری جگہ کا معاینہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ جگہ بھی مناسب نہیں۔ اس کے بعد تیسری جگہ کا جب معاینہ فرمایا اور اس کا چکر لگایا تو کہا کہ یہ جگہ مناسب ہے ۔ اس میں کمی بھی نہیں ہوگی اور اس میں ٹیکس بھی نہیں لگایا جائے گا۔ مسند ابن ماجہ کی روایت ہے:

"أن رسول الله صلى الله عليه و سلم ذهب إلى سوق النبيط . فنظر إليه فقال ( ليس هذا لكم بسوق ) ثم ذهب إلى سوق. فنظر إليه فقال ( ليس هذا لكم بسوق ) ثم رجع إلى هذا السوق فطاف فيه ثم قال ( هذا سوقكم. فلا ينتقصن ولا يضربن عليه خراج )"[13]

یہ بات بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہےکہ انسانی ضروریات کاعمومی تعلق انسانی معیشت کےساتھ جوڑاگیاہے۔ اللہ رب العزت کاارشادہے:

وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ[14]

ترجمہ: ہم نے تم کو زمین میں اختیار دیا ہے اور اس میں تمہاری معیشت رکھی ہے۔

معاش میں کامیابی اور برکت کے منصوص اصول

قرآن اور حدیث اور نصوص میں اگر غور اور فکر کیاجائے تو کچھ ایسی ہدایات اور نصوص سامنے آتی ہیں جو انسان کے معاش میں کامیابی اور برکت کی خبر دیتی ہیں۔ تتبع اور غور و فکر کرنے سے معیشت میں حصولِ برکت کے درج ِ ذیل اصول سامنے آتے ہیں:

1۔ تاجر کا مؤمن اور پرہیزگار ہونا ضروری ہے ، تقوٰی کو قرآن مجید میں برکت کا سبب بتایا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ"[15]۔ اس آیت کا مفہوم ہے کہ اگر زمین والے تقوی اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے زمین اور آسمان سے برکت کے دروازے کھول دیں گے۔

2۔ سچائی اور خریدار کی خیر خواہی کرنا برکت اور خوشحالی کا باعث ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

"البيعان بالخيار ما لم يفترقا، فإن صدقا وبينا بورك لهما فيبيعهما"[16]۔

ترجمہ: بائع اور مشتری کے الگ ہونے سے پہلے ان میں سے ہر ایک کو اختیار ہوتا ہے، اگر انھوں نے سچ بولا اور درست بات بیان کی تو ان کو برکت دی جائے گی ۔

3۔ صبح جلد کاروبار شروع کرنے کو بھی برکت کا سبب بتایا گیا ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

"اللهم بارك لأمتي في بكورها"[17] یعنی اللہ میری امت کے صبح میں برکت دیں۔

4۔ اللہ تعالی کے دیئے پر رضامند ہونا اور اس پر شکر کرنا رزق میں بر کت کا سبب ہے ۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

"فمن رضي بما قسم الله له، بارك الله له فيه، ووسعه، ومن لم يرض لم يبارك له "[18]

ترجمہ:جو شخص اللہ تعالی کی تقسیم پر راضی ہوا تو اللہ تعالی اس کو برکت دیں گے اور جو راضی نہ ہوا تو اس کو برکت نہ دی جائے گی۔

5۔ زکات کو ادا کرنا اور صدقہ ،خیرات کرنا طہارت اور برکت کا سبب ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا"[19]۔

یعنی ان سے صدقہ خیرات لے کر ان کو پاک کریں۔

6۔ حرام اور مشتبہ معاملات سے پرہیز کرنا بھی مال میں اضافے کا سبب ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ"[20]۔ سود سے مال میں کمی آتی ہے اور اور صدقے سے مال بڑھتا اور برکت آتی ہے۔

7۔ غیر منقولہ جائیداد کو آدمی بغیر کسی مجبوری کے نہ بیچے، اگر کسی مجبوری کے باعث غیر منقولی چیز دکان، گھر وغیرہ کو بیچے تو اس سرمایہ کو دوبارہ غیر منقولی اشیاء کی خریداری میں لگانے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

"من باع دارا أو عقارا، فلم يجعل ثمنها في مثله،كان قمنا أن لا يبارك له فيه"[21]۔

ترجمہ:جس نے گھر یا دوسری غیر منقولی چیز بیچی پھر اس نے اس کے ثمن کو اس کے مثل غیر منقولی چیز نہ خریدی تو مناسب ہے کہ اس کے لیے اس میں برکت نہ دی جائے۔

کاروباری معاملات میں توکل

کاروبار میں دلیری اور توکل کو بہت ہی زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ توکل کی معنی ٰ سے بہت سے افرا د بے خبر ہوتے ہیں۔ڈاکٹر محمود احمد غازی توکل کی معنیٰ ان الفاظ میں فرماتے ہیں :

" توکل کی معنی ہیں ان تمام جائز اسباب اور جائز وسائل و ذرائع کو شریعت کی حدود کے اندر استعمال کرنا جو حصول رزق کے لیے نا گریز ہیں اور پھر نتیجہ کو اللہ پر چھوڑ دینا "[22]

بڑی تباہی اس توکل میں ہےجس میں آدمی کام کو چھوڑ کر بیکار بن کر بیٹھ جاتا ہے۔کام اور محنت کا مددگارصحیح شرعی توکل ہے جو محنت ، حرکت اور چستی سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت آپ ﷺ نے اس اعرابی کو ارشاد فرمائی جب اس نے ارادہ کیا کہ اپنی اونٹنی کو کھلا چھوڑ دےاور اللہ تعالی پر توکل کرے تو آپ ﷺ نے اس کو ارشاد فرمایا:

"اعقلها وتوكل"[23]

ترجمہ: اونٹنی کو باندہو اور توکل کرو۔

اس حدیث میں آپ ﷺ نے مختصر الفاظ میں توکل کی تفسیر فرمادی کہ دونوں کاموں کو ساتھ کرو کہ سبب بھی اختیار کرو اور اللہ تعالی پر اعتمادبھی کرو۔اللہ تعالی اس سبب کو اونٹنی کی حفاظت کا ذریعہ بنائیں گے کہ کوئی چور بھی نہیں پہنچے گا اور کوئی بچہ بھی اس کی رسی نہیں کھولے گا۔یہ ہی صحیح شرعی توکل ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہر کام اسباب اختیار کرنےکے ساتھ کیا جائے پھر اللہ تعالی پر توکل کیا جائے۔ جب اس طرح سے عمل کیا جائے گا تو پھر درست نتائج سامنے آئیں گے۔ اگر صرف توکل بغیر عمل کے ہو یا عمل بغیر توکل ہوتو اس سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔

حلا ل کا استعمال اور حرام سے اجتناب

انسانی جسم سےجس طرح مادی غذا کا تعلق ہے اور اسی پر انسانی زندگی موقوف ہےکہ اگر اچھی غذا استعمال کی جائے تو صحت اچھی رہتی ہے اور اگر خراب اور سڑی ہوئی غذا استعمال کی جائے تو صحت خراب ہوتی ہے، اسی طرحغذاکا انسانی جسم کے ساتھ روحانی تعلق بھی ہے کہ اگر حلال اور پاکیزہ غذا استعمال کی جائے تو انسانی جسم سے نکلنے والے اعمال بھی اچھے ہوتے ہیں اور اگر حرام اور نجس اشیاء استعمال کی جائیں تو انسان کے اعمال اور کردار بھی عمدہ نہیں رہتا۔اللہ تباک و تعالی نے انسانوں کے لیے طیب اشیاء کو حلال اور خبیث اشیاء کو حرام قرار دیا ہے۔ جب کسی چیز کو اللہ تعالی نے حرام فرمایا تو مخلوقپراس کے خبث اور ضرر کے سبب اس کو حرام قرار دیا ہے، پھر چاہے مخلوق کو اس نقصان معلوم ہو یا نہ ہو،البتہ بعض اہل ادیان پرکچھ چیزیں سزاکےطورپربھی حرام کی گئیں جیسےیہودکےلیے ناخن والےجانور،چربی وغیرہ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سےحرام قراردی گئیں۔

حرام اشیاء کا خبث کبھی واضح ہوتا ہےکہ اس کو ہر کوئی جانتا ہے جیسے شراب اور مردار کو استعمال کرنے سےعقل، مال اور بدن کونقصان پہنچنے کو ہر کوئی جانتا ہے اور کچھ حرام چیزوں کا خبث اور ضرر مخفی ہوتا ہے اس کو ہر کوئی نہیں جانتا جیسے خنزیر کی قباحت کو ہر کوئی نہیں جانتا۔ انسان پر ضرورت کے بقدرحلال رزق کا حصول اور اس کے متعلق علم حاصل کرنا فرض ہے۔

حلال اور حرام کے اثرات

حلالاورحرام کےاثرات کےحوالےسےسائنس سےبھی یہ بات ثابت ہوچکی ہےانسان کی غذاکااثراسکےجسم کےعلاوہ اس کی عادات اوراطوارپربھی پڑتاہے۔اگرانسان حلال غذااستعمال کرےتواس سےاچھی صفات پیداہوں گیں مثلاحلال کھانےسےدل میں نورانیت پیدا ہوتی ہےجس کےباعث عبادات میں شوق پیداہوتاہےاورانسان میں اخلاقِ حسنہ مثلا صبر، شکر، تواضع، بردباری اورسچائی وغیرہ جیسی صفات پیداہونےکےساتھ ساتھ انسان میں آخرت کی فکرپیداہوتی ہےاوراگرانسان کاکھاناپیناحرام ہوگاتوسب سےپہلااثرانسان کی دل پرپڑتاہےاوردل تاریک اورسخت ہوجاتی ہےجس کےباعث اللہ تعالی کاخوف انسان سےختم ہوجاتاہےجس کی وجہ اچھےاعمال کی توفیق بندےسےچِھن جاتی ہےاوراسپربرےخیالات مسلط ہوجاتے ہیں اوراس پرہروقت نفسانی خواہشات کاغلبہ رہتاہےاوراس کی زندگی برےاخلاق کامجموعہ بن جاتی ہےاوریہ شخص لالچ اورپریشانی میں مبتلاہوجاتاہے۔

نیا کاروبار شروع کرنے میں کا اصول: بنیادی ضروریات کی تکمیل

ہر انسان کو زندہ رہنے کے لیے کچھ ضررویات ہوتی ہیں۔اسلامی معیشت کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ عوام کو ضرورت کی اشیاء فراہم ہوں، لیکن اس یہ مقصد نہیں کہ حکومت مطلوبہ خدمات اور اشیاء عوام کو ان کے گھر کی دہلیز پر پہچائے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حکومت روزگار، اشیاء و خدماتِ ضروریہ وغیرہ کا انتظام کرے تاکہ معاشرے کے تمام افراد اپنی ضرورت کے مطابق اس سے انتخاب کرسکیں، البتہ اگر کوئی معذور ، مریض،بوڑھا ہو یا کوئی بےروزگار یا کسی حادثے کی وجہ سے معذور ہوجائےاور اس کا کوئی کفالت کرنے والا نہ ہو تو حکومت پر لازم ہے کہ ایسے افراد کی ضروریات زندگی کی تکمیل کرے۔

مسلمان تاجر کے لیے ضروری ہے کہ کہ وہ اس حلال کاروبار کو اختیار کرے جس سے لوگوں کی زیادہ ضروریات پوری ہوں اور جس میں دنیا و آخرت کا فائدہ ہومثلاً ایک سونے، زیورات اور زرگری کا کاروبار ہے، دوسری طرف سستے گھر، فلیٹ بنانے کا عمل ہے۔ایک اچھے تاجر اور سرمایہ کار کی شان یہ ہے کہ وہ دوسرے کاروبار کی طرف متوجہ ہو تا کہ لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہوں ۔ایسے ہی نقش ونگار، اشیاء تکبرو اسراف اورلگزری مصنوعات کے کاروبار سے حتی الامکان پرہیز کرے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں:

"إنى وهبت لخالتى غلاما أرجو أن يبارك لها فيه وقلت لها لا تسلميه حجاما ولا قصابا ولا صائغا"[24]

ترجمہ: میں نے اپنی خالہ کو غلام ہبہ کیا، دعا ہے کہ اللہ تعالی اس میں برکت عطا فرمائیں اور میں نے خالہ کو کہا کہ اس غلام کو حجام، قصائی اور سنارے کے حوالے نہ کرنا۔

مطلب کہ اگر آپ اس کو کوئی ہنر سکھانا چاہیں تو کوئی اچھا ساہنر سکھانا، اس کو ایسے ہنر نہ سکھانا ۔ اسی وجہ سے علماء ان حرفتوں کو مکروہ تنزیہی فرمایا ہے۔

ضرورت شدیدہ کے علاوہ قرض لینا

خوشحال زندگی گذارنے کے لیے اسلام کا ایک معاشی ادب قرض سے دور رہنا ہے ،آپ ﷺ کا ارشاد ہے :

"أَقِلَّ من الدين تکن حرا"[25]

ترجمہ:قرض کم کریں اور آزاد زندگی گذاریں۔

قرض کم کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ کم زیادہ قرض نہ ہو اگر کم قرض کو تو کوئی مسئلہ نہیں، اس حدیث شریف ک مقصد قرض والے ہر معاملے سے دور رہنا ہے ۔اسلام محنت اور ہمت سے کام کرنے کی ترغیب کے ساتھ آمدنی اور مصرف میں موازنہ رکھنے کا حکم دیتا ہے کہ قرض سے خود کو بچائیں وگر نہ قرض خواہ پریشان کریں گےاور آدمی ان کا غلام بن کر رہے جائے گا۔

نتائج

1۔ اسلام نے طلب معاش کے جائز اصول قرآن اور سنت میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمائے ہیں جو تاقیامت انسانوں کی رہنمائی کے لیے ایک خدائی انعام ہے۔

2۔طلب معاش کا ایک مسلم اصول مستقل مزاجی ہے، تنگ دلی اور بے زاری سے بچاجائے ۔ تھوڑا کام اگر ہمت،چستی، مستقل مزای اور محنت سے ہواس سے کامیابی سے ہمکنار ہونا آسان ہوجاتا ہے۔

3۔ طعام کا اثر اور عکس انسان کے اخلاق اور صفات پر پڑنے کی وجہ سے اچھےاور پاکیزہ کھانوں کا اثر انسان پر اچھا پڑتا ہے اور برے کھانے کا اثر انسان پر برائی سے پڑتا ہے۔ اسی حکمت کی وجہ سے مضر اور خبیث اشیاء انسان پر حرام قرار دی گئی ہیں۔

 

حوالہ جات

  1. الزَّبيدي مرتضى محمّد بن محمّد:تاج العروس، الکويت دار الهداية، طبع بدون طبعة 1972م، ج10، ص 278
  2. المصدر نفسه، ج10، ص 279
  3. سوره البقره: 16
  4. ابن منظورمحمد بن مكرم الإفريقى: لسان العرب، بيروت دار صادر، الطبع الثالث 1414ه، ج8، ص24
  5. سوره البقره:207
  6. علي حيدر: درر الحکام شرح مجلة الأحکام العدليه، بيروت دارالکتب العلميه ،الطبعةالثانية 1414ه، ج1، ص 93
  7. أبو الحسن علي بن سليمان: الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف، بيروت دار إحياء التراث العربي،ج4،ص 260
  8. سوره البقره: 275
  9. الطحاوي، أحمد بن محمد: شرح مشكل الآثار، بيروت مؤسسة الرسالة، الطبعة الأولى 1415 هـ، ج9،ص 232
  10. الكوسج، إسحاق بن منصور: مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه، المدينة المنورة عمادة البحث العلمي، الطبعة الأولى 1425هـ، ج6، ص 2553
  11. الترمذي محمد بن عيسى: سنن الترمذي، مصر شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، الطبعة الثانية، 1395هـ،ج2، ص 357
  12. غزالی ، کیمیائے سعادات ، ص 622
  13. ابن ماجة، محمد بن يزيد: سنن ابن ماجه، بيروت دار الرسالة العالمية، الطبعة الأولى 1430 هـ،ج3، ص 337
  14. سوره الأعراف: 10
  15. سوره الأعراف: 96
  16. السجستاني، أبو داود سليمان بن الأشعث: سنن أبي داود، بيروت، دار الرسالة العالمية، الطبعة الأولى 1430هـ، باب خيار المتبايعين، ج5، ص 324
  17. المرجع السابق، باب في الابتكار في السفر، ج4، ص 247
  18. أبو عبدالله أحمد بن محمد بن حنبل: مسند الإمام أحمد بن حنبل، المحقق: شعيب الأرنؤوط وآخرون، بيروت، مؤسسة الرسالة، الطبعة الأولى 1421 هـ، ج33، ص 403
  19. سوره التوبة: 103
  20. سوره البقرة: 276
  21. أحمد بن حنبل: مسند الإمام أحمد بن حنبل، المرجع السابق، ج31، ص 36
  22. غازی ،محمود احمد، ڈاکٹر،محاضراتِ معیشت وتجارت،اپریل 2010، لاہور،الفیصل ناشران و تاجران ِ کتب ، ص 24-25
  23. الدارمي، محمد بن حبان: الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان، بيروت مؤسسة الرسالة، الطبعة الأولى 1408ه،ج2، ص 510
  24. البيهقي، أبوبكر أحمد بن الحسين: السنن الكبرى، بيروت دار الكتب العلمية، الطبعة الثالثة 1424 ه،ج6، ص 210
  25. البيهقي، أبو بكر أحمد بن الحسين: شعب الإيمان، الرياض مكتبة الرشد للنشر والتوزيع، الطبعة الأولى، 2003 م، ج7، ص385
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...