Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 2 Issue 2 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

فقہی احکام میں تخفیف وسہولت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060025806_1013

Pages

1-7

PDF URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/download/51/46

Chapter URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/view/51

Subjects

Qurʾān Ḥadīth Islamic Education Fiqhī Aḥkām Qurʾān Ḥadīth Islamic Education Fiqhī Aḥkām

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام کی معنی مکمل طور پر خود کو اللہ تبارک وتعالی کے سپرد کردینے کا نام ہے، فرمان باری تعالی ہے کہ اے اہل ایمان آپ اسلام میں پوری طرح داخل ہو جاؤکیونکہ اسلام میں ایک مکمل ضابطہ حیات نظام عطا کرتا ہے ۔

اسلام کے نقطہ نظرسے قوانین بنانےاور حلال و حرام ٹھہرانے کا حق صرف اللہ ہی کے پاسہے ۔ کیونکہ وہی اپنے بندوں کے جذبات، خواہشات ضروریات ، نفع و نقصان سے واقف ہے اور تمام انسانی طبقات سے عدل و انصاف کرسکتا ہے ہماری آخری شریعت میں عقل و حکمت ، توازن و اعتدال کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے جس میں نہ مشکل ہے نہ ہی شہوات نفس کو دخل ہے بلکہ فطرت انسانی کے مطابق اعتدال اور احکام میں سہل وتخفیف ہے کہ ہر انسان عمل کرسکتا ہے ۔فرمان باری تعالی بھی اس طرح ہے کہ خالق کائناتکسی آدمی کواس کیطاقت و قوت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اسی طرح پیغمبر کائناتﷺ کی بعثت کا اصل مقصد یہی بتایا گیا ہےکہوہ ان سے ان کے اوپر بوجھ اور پھندے اتارے گا جو ان کے اوپر ڈالے گئے ہیں کیوں کہ ان پھندوں سے انسان مقید اور جامد بن جاتا ہے حالانکہ دین تو آسان ہے زندگی معطل نہیں کرنے آیا ۔

لیکن دین میں یسر کے حدود کیا ہونگے متعین کرنا علماء اور مجتہدین کا کام ہے تاکہ دین سہل پسندی کے نام پر کھلونا نہ بن جا ئے،مقالہ شریعت کے ان مسائل پر حقیر سی کاوش ہے جو ہمارے لیے آسان اور خفیف کردیے گئے ہیں ۔

قرآنی آیات

1: یرید الله بکم الیسر ولایرید بکم العسر1

اللہ آپ کے ساتھ آسانی چاہتاہے اورنہیں چاہتاتمہارے ساتھ دشواری ۔

2: یرید الله ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا2

اللہ چاہتاہے کہ (بے جا سختیوں کے بجائے )تمہارے بوجھ کوہلکاکرے اور واقعہ یہ ہے کہ انسان کمزور پیداکیاگیاہے ۔

3: لایکلف الله نفسا الا وسعها3

اللہ تعالی کسی کو اسکی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔

قرآن حکیم میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا یہ مقصد بیان کیاگیاہے ۔

4: ویضع عنهم اصرهم والاغلال التی کانت علیهم4

اللہ کا رسول اس بوجھ سے نجات دلائے گاجس کے نیچے وہ دبے ہوئے ہیں اوران پھندوں سے نکالے گاجن میں گرفتار ہوں گے ۔

مطلب یہ کہ بوجھ اورپھندے دین میں غلو کے باعث پیداہوتے ہیں اوردل ودماغ کو مقید وجامدبنادیتے ہیں۔

5: ماجعل علیکم فی الدین من حرج5

اللہ تعالی نے تمہارے لئے دین میں کوئی بھی تنگی نہیں رکھی ۔

احادیث

۱۔حضرت انس بن مالک رضہنے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا :ا ٓسانی کرو،سختی نہ کرو،خوشخبری دواورنفرت نہ دلاؤ6-

۲۔حضرت ابومسعود عقبہ بن عمروبدری بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں صبح کی نماز میں اس لئے پیچھے رہ جاتاہوں کہ فلاں آدمی ہمیں لمبی نماز پڑھاتاہے ـ راوی فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی پیغمبر کائنات ﷺ کو نصیحت فرماتے ہوئے اس قدر غصے میں نہ دیکھا جس قدر آنحضرت ﷺ اس روز غصہ ہوئے ،آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو! آپ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نفرت پیداکرنے والے ہیں جو بھی لوگوں کوامامت کروائے وہ اختصار کرائے کہ اس کے پیچھے بوڑھے اور بچے اورضرورت مند بھی ہوتے ہیں 7۔

مطلب یہ کہ نماز باجماعت کا حکم شرعی یہی ہے کہ امام لوگوں کو معتدل نماز پڑھائے جس سے کسی کی طبعیت میں اکتاہٹ اورملال پیدا نہ ہوتاکہ لوگ نماز سے طوالت کے خوف سے دورنہ ہوجایاکریں ۔

۳۔حضرت ابووائل شقیق بن سلمہ رضہ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیاکہ حضرت عبداللہ ا بن مسعود رضہ ہر جمعرات کو ہمیں واعظ فرماتے تھے کسی نے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن میں چاہتاہوں کہ آپ ہمیں روزانہ نصیحت فرمایا کریں اس کے جواب میں آپرضہ نے فرمایا کہ میرے لئے روزانہ نصیحت سے یہ امر مانع ہیں کہ کہیں میں تمہیں اکتاہٹ میں نہ ڈال دوں میں وعظ ونصیحت میں تمہارا اسی طرح خیال کرتاہوں جیسے ہمارا آنحضور ﷺ خیال رکھتے تھے۔ 8

۴۔حضرت ابوہریرہ رضہ بیان کرتا ہے کہ پیغمبر کائنات ﷺ نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا کہ اےانسانوں ! آپ کے اوپراللہ تبارک وتعالی نے حج کو فرض کیا ہے تو تم حج کے فرائض ادا کرو ان میں سے ایک آدمی نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ کیا ہم پرہر سال حج فرض ہے ؟آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ اس نے تین بارسوال کیا اس پر آپ ﷺ نے فرمایا اگرمیں ہاں کرتاتو واجب ہوجاتااورتم اس کی استطاعت نہ رکھتے 9-

مطلب کہ دین آسان ہے اور اس میں سہولت و وسعت بھی ہے اور یہ تنگی سے خالی ہے آنحضرت ﷺ کی مبارک زبان نبوی ناطق بالوحی ہے اگرہاں کردیتے توحج ہر سال فرض ہوجاتا۔

۵۔حضرت ابن عمر رضہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا اے جماعت خواتین صدقہ کیاکرو اورکثرت سے استغفاکیاکر کروکیونکہ میں عورتوں کی کثرت جہنم میں دیکھتاہوں ۔ایک عورت نے عرض کیا کہ ہماری کثرت سے جہنم میں جانے کی کیاوجہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو ، خاوند کی ناشکری کرتی ہو ،تم ناقص عقل ودین کے باوجود عقل مند آدمی کے عقل پر زیادہ غالب ہوجاتی ہو ۔ اس عورت نے عرض کیا کہ ہماری عقل اوردین کا نقصان کیا ہے ؟آنحضرت ﷺ نے فرمایا دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہونا ، اورکئی کئی دن نمازسے رکے رہنا10-

مطلب یہ ہے کہ عورت مردوں کی بنسبت فطرتا وخلقتا کمزور ہے اس پر شریعت نے زیادہ بوجھ نہیں ڈالابلکہ مخصوص ایام یعنی ایام حیض میں نماز ساقط کردی ہے اور روزے بھی قضاکرنے کی اجازت عطا کی ہے تاکہ ان کے لئے سہولت ہو۔

۶۔ام المؤمنین بیبی عائشہ رضہ روایت کرتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ پر رحم فرماتے ہوئے انہیں صوم وصال سے منع فرمایا 11 -

مطلب یہ ہے کہ امام کائنات ﷺ ان کو زحمت ومشقت میں ڈالنا پسند نہ فرماتے تھے ۔

۷۔اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ رضہ سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول مکرم ﷺ کسی وقت کسی عمل کو چھوڑدیتے حالانکہ آپﷺ اسکو کرنا چاہتے تھے ،اس خیا ل سے کہ لوگ اس پر عمل کریں اور ان پر فرض ہوجائے 12-

مطلب یہ کہ حضور ﷺ کوئی عمل کرناچاہتے لیکن امت پر رحم کرتے ہوئے چھوڑ دیتے تاکہ لوگ عاجز نہ ہوجائیں جیسے آپ ﷺ کا ماہ رمضان کی تین رات تراویح پڑھانا اور چوتھی رات تراویح کی امامت کے لیے باہر تشریف نہ لانا اس اندیشے سے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے ۔

۹۔ حضرت عائشہ رضہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی کونماز پڑھتے ہوئے اونگھ آجائے تو وہ سوجائے یہاں تک کہ نیند پوری ہوجائے بجائے اس کے کہ نیندکے غلبے کے وقت نماز پڑھے اور استغفار کے بجائے اپنے آپ کو گالیاں دے13-

۱۰۔حضرت انس بن مالک رضہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں داخل ہوئے اورمسجد کے دوستونوں کے درمیان رسی بندھی ہوئی دیکھی آپ ﷺ نے پوچھا یہ رسی کس لئے ہے ؟صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یہ حضرت زینب ؓنے باندھی ہے نماز میں تھک جاتی ہیں تو اس کے سہارے کھڑی ہوجاتی ہیں آنحضرت نے فرمایا اسے کھول دو ،آپ میں سے ہر ایک نشاط کے وقت نماز پڑھے جب تھک جائے تو سوجائے 14-

مطلب یہ ہے کہ اسلام میں میانہ روی اور آسانی ہے اور سختی وتنگی نہیں ـعباد ت شوق ونشاط کی حالت میں کرنی چاہیے نفس کو تکلیف نہ دینی چاہیے

اقوال ائمہ

امام شاطبی ؒ فرماتے ہیں :

إن قصد الشارع من وضع الشرائع إخراج النفوس عن أهوائها وعوائدها فلا تعتبر فی شرعیة الرخصة بالنسبة إلی کل من شرعت نفسه أمرا۔

ترجمہ :۔ شارع کا مقصد شریعت کے واضح کرنے سے انسانوں کو نفسانی خواہشوں وعادتوں سے باہر نکالنا ہے اس لئے رخصت وسہولت میں انسان کی ہر مرضی اور خواہش کا اعتبار نہ ہوگا15-

ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ اس حوالے سے فرماتے ہیں :

مقاصد شریعت یعنی تحفظ دین ،تحفظ جان ،تحفظ عقل ، تحفط مال کے ساتھ یہ ہدایات بھی ہیں جو قرآن پاک نے دی ہیں جو ہر فقیہ کو پیش نظر رکھنی چاہیے ۔

۱۔ یسر:۔ یعنی آسانی اصطلاح میں وہ آسانی جو شریعت کے حکم کو انجام دیتے ہوئے اختیار کرنا اس سے مراد یہ نہ ہوگا کہ آسانی کے نا م پر شریعت کے حکم کو چھوڑدیا جائے جیسے سخت گرمی میں آسانی سمجھتے ہوئے روزہ ترک کردینا یسر نہ ہوگاالبتہ روزہ رکھتے ہوئے سخت گرمی میں ایئر کنڈیشنز لگوانا یسر ہے ۔

۲۔دفع حرج :۔ شریعت کے احکام پر عمل کرنے کے لئے آسانی والا راستہ اختیار کرنا اورمشکل راستے سے بچنا۔

۳۔ دفع مشقت :۔ یعنی مشقت کو دور کرنا یہاں مشقت سے مراد اچانک آنے والی پریشانی کو دور کرنا جیسے حجۃ الواداع کے لئے جاتے ہوئے راستے سے آنحضرت ﷺ کو معلوم ہواکہ سخت گرمی میں بعض صحابہ کرام نے روزہ رکھا ہواہے ان میں سے کچھ صحابہ بے ہوش ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے "۔اور اسی طرح مکہ کی فتح کے لئے جاتے ہوئے بعض صحابہ کو روزہ تھا اور جہاد کے لئے جارہے تھے تو حالت روزہ میں کیا جہاد کریں گے ؟اس صورت حال کو سامنے دیکھ کر آپ ﷺ نے تمام صحابہ کے سامنے ٹھنڈا دودھ منگواکر پی لیا یہ دکھانے کے لئے کہ میں روزے سے نہیں 16-

تخفیف وسہولت لانے والے اسباب

قرآن وحدیث سے فقہاء کرام ،حکمت الاہی اور عمومی مقاصد کے تحت مندرجہ ذیل اسباب کے ذریعے فقہی احکام میں تخفیف اورسہولت پیدا کرتے ہیں 17-

۱۔سفر

۲مرض

۳۔اکراہ

۴۔نسیان

۵۔جہل (لاعلمی )

۶۔عسر (تنگی )

۷۔عموم البلوا

۸۔نقص

۱۔سفر

۴۸ میل کی مسافت کا ارادہ کرنے سے مسافر کو شریعت میں مندرجہ ذیل آسانیاں حاصل ہوجاتی ہیں ۔

۱۔ چار کعت والی نماز دو رکعت بن جاتی ہے18

۲۔ سنتوں کی تاکید ختم ہوجاتی ہے ۔

۳۔ روزہ نہ رکھنے کی رخصت میسر آجاتی ہے ۔19

۴۔موزوں پر تین رات تین دن تک مسح کی اجازت ۔

۵۔قربانی ساقط ہوجاتی ہے ۔

۶۔جمعہ ساقط ہوجاتاہے ۔20

۷۔تیمم کی اجازت حاصل ہوجاتی ہے ۔21

۲۔ مرض

مرض کا خطرہ لاحق ہوجائے اور ٹھیک ہونے میں دیر کا اندیشہ ہو تو وضو اور غسل کے بجائے تیمم کی اجازت ہوجاتی ہے اور نماز بیٹھ کر ، لیٹ کر ، اشارے کے ذریعے ادا کرنے کی سہولت حاصل ہوجاتی ہے ۔22

روزے قضا کرنے کی اجازت ، حج میں اپنا قائم مقام بھیج دینے کی اجازت اور حد کے اندر ضرورت اور مجبوری میں نجس اشیاء ،شراب ،پیشاب الکوحل سے علاج کرانے کی اجازت حاصل ہوجاتی ہے ۔

۳۔ اکراہ

جس کام کو نہ کرنا چاہیے اس کے کرنے پر زبردستی مجبور کرلیا جائے جیسے کسی کو کلمہ کفر کہنے پر زبردستی کی جائے اور اسکا قلباطمینان ایمان پر ہو تو اس کو کفر کہنے کی اجازت ہے ۔23

۴۔ نسیان

یعنی بھولنا: بھول کر کوئی کام کرلینے سے گناہ نہ ہوگا حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہتعالی نے میری امت سے خطاء ونسیان معاف کردیاہے جیسے روزے دار بھولے سے کھاپی لے تو روزہ فاسد نہ ہوگا۔

۵۔جہل

جہل اورلاعلمی کی وجہ سے بھی شرعی سہولتیں میسر آجاتی ہیں ۔

۶۔ عسر اور عموم بلوی

عسر سے مراد دشواری کا پیش آنا اور عموم بلوی روزہ مرہ کی زندگی میں عام طور پر اس سے سابقہ پیش آنا اور احتیاط کرنا مشکل ہو۔

جیسے ۱۔ مچھر ،پسوکاخون ،کبوتراور چڑیاکی بیٹ کپڑے یا بدن کو لگ جائے تومعاف ہے ۔24

۲۔ پیشاب یا کسی اور نجاست کے سوئی کی نوک جیسے باریک چھینٹے جسم ،کپڑے وغیرہ کو لگ جائیں تو کپڑا یا بدن ناپاک نہ ہوگا۔25

یہ سب عموم البلوا کی صورتیں ہیں مشقت کی وجہ سے شریعت نے تخفیف فرمادی ہے ۔

۷۔ نقص :

قدرتی طور پر جو آفت یاکمی انسان کو پیش آجائے جو انسان کے بس سے باہر ہو توایسے نقص پر بھی شریعت نے مسائل واحکام میں رعایت دی ہے جیسے جنون ، بے ہوشی ،نیند،کم سنی ، عورتوں کے ایام خاص وغیرہ ۔

الہی شریعت نے ان سب سہولت کی صورتیں نکالی ہیں اور مقصد ابتلاء ودشواری کا ازالہ ہے ۔26

نتائج

حقیقت کے اعتبار سے اگر ارد گرد نظر دوڑائی جائے توانسان بہت حقیر وکمزور پید اکیا گیا ہے ۔اسکو قابل دید رکھتے ہوئے خالق کائنات نے اپنے بندوں پر آسانے کرنے کے لئیےاپنے بہت سارے احکام میں تخفیف کی ہے یہ اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے اپنے بندوں پر رحمت وشفقت کا گہرا ثبوت ہے ۔یہ انسان کے کمزور ہونے کی بنا پر ہے جس کی دلیل قرآن حکیم میں وارد ہے ۔سورۃ البقرہ میں آیا ہے کہ( اللہ تعالی کسی بھی جان پر اسکی طاقت سےزیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ) اوراللہ تعالی نے انسان کے اوپر شفقت ورحمت کرتے ہوئے معراج کے موقعہ پر پچاس نمازوں میں تخفیف کرتے ہوئے صرف پانچ فرض کردیں اور فرمایا نمازیں تم پانچ پڑھو! لیکن تم کو اجر پچاس نمازوں کا ملے گا ۔احادیث میں اس بات ذکر بھی آیا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندو ں سے ایک ماں سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں اس وجہ سے رب تعالی کے شایان شان نہیں کہ وہ اپنے بندوں کو مشقت میں ڈال دے اس با ت کو مدنظر رکھتے ہوئے انسان کواپنے رب کاہر وقت شکر گذار رہنا چاہئیے۔کیونکہ انسان کمزور بنایا گیا ہے اس وجہ سے رب کائنات نے انسان کے ضعف اور کمزوری کی بناپر اس کے لئے اپنے احکامات میں آسانی فرمائی ،تو انسان کوچاہیے کہ اپنے رب کے سامنے ہر وقت سرتسلیم خم ہو اور اسکی اطاعت اور فرمانبرداری کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے۔

حوالہ جات

  1. القرآن البقرۃ : ۱۸۵
  2. القرآن ،النساء :۲۸
  3. القرآن ،البقرۃ :۲۸۶
  4. القرآن ،الاعراف :۱۵۷
  5. القرآن ،الحج : ۷۸
  6. نیشاپوری،مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم ، مترجم محمد یحیی سلطان محمود ،دارالاشاعت دارالسلام ،ج /۳ ،ص /۵۶۴
  7. ایضا ـ ،ج /۱ ، ص ۵۴۳
  8. بخاری ، ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل ،بخاری شریف ،مترجم حافظ عبدالستار حماد ،دارالاشاعت دارالسلام ، ج/۱،ص/ ۱۲۵
  9. صحیح مسلم مترجم محمدیحی سلطان محمود ،ج /۲، ص/۷۳۷
  10. محولا بالا، ج /۱، ص۱۸۵
  11. محولا بالا ،ج /۲، ص/۵۴۳
  12. محولا بالا، ص/۶۰
  13. محولا بالا، ص/۱۲۴
  14. محولا بالا، ص/۱۲۲
  15. شاطبی، ابراہیم بن موسی بن محمد ،الموافقات ،دار ابن عفان ،۱۹۹۷،ج /۱،ص /۳۳۶
  16. غازی، ڈاکٹر محمود احمد ،محاضرات فقہ ،الفیصل ناشران وتاجران کتب لاہور ، ص ۳۲۳
  17. امینی،محمد تقی ، فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر ،اسلامک پبلیکیشنز پرائیویٹ لاہور ،۲۰۰۶۔ ص/ ۳۷۱
  18. اصلاحی ،محمد یوسف ، آسان فقہ اسلامک پبلیکیشنز پرائیویٹ لاہور ،۲۰۱۵،ج /۱، ص/ ۲۷۵
  19. ایضا ـ،ج /۲، ص/ ۱۱۰
  20. ایضا ـ، ج /۱، ص/ ۲۸۵۔
  21. ایضا ـج /۱، ص/ ۱۴۵
  22. ایضا ـ ج /۱، ص / ۲۷۲
  23. القرآن ،النحل : ۱۰۶۔
  24. اصلاحی،محمد یوسف اصلاحی ، آسان فقہ ،ج /۱، ص ۸۵ ۔
  25. ایضا ـ،ج /۱، ص ۸۴۔
  26. امینی، محمد تقی ، فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر ،اسلامک پبلیکیشنز پرائیویٹ لاہور ،۲۰۰۶۔ ص ۳۸۱
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...