Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 2 Issue 2 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

قرآن مجید اور سائنس کے تعلق کی نوعیت، اہمیت و ضرورت |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

تعارف

اسلام کے لفظی معنی اطاعت کے ہیں ،اسلام کامل اور مکمل ضابطۂ حیات ہےاور فطرت کا دین ہے اسلام کائنات کے ظاہری اور چھپے ہوئے وجود کے ظاہر ہونے اور انسان کے متعلق سارے احوال اور تبدیلیوں پر نظر رکھنے والا دین ہے ۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اسلام نے یونانی فلسفوں کے ارد گرد بھٹکنے والے انسانوں کو علم کی روشنی سے منور کرتے ہوئے سائنسی علوم کی بنیادیں مہیا کیں۔ اسلامی تعلیمات کا اہم اور بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے اور انسان قرآن مجید کا بنیادی موضوع ہے، انسان کو بار بار اس بات کی دعوت دی گئی کہ وہ ارد گرد میں پیش آنے والے واقعات، حالات اور تغیرات سے باخبر رہے اور ان پر تفکرو تدبر کرے ـ اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کردہ علم وعقل اور قوت و شعور سے کائنات کے ظاہری و باطنی رازوں پر سوچے ۔ اللہ تبارک وتعالی نے کامل مسلمان کے صفات قرآن مجید کے اندر کچھ یوں ارشاد فرمائی ہے :

ان في خلق السماوات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب الذين يذكرون الله قياما وقعودا وعلى جنوبهم ويتفكرون في خلق السموات والأرض ربنا ما خلقت هذا باطلا سبحانك فقنا عذاب النار 1

"زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور دن اور رات کے باری باری سے آنے میں ان ہوشمند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں ) پروردگار ! یے سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے ،تو پاک ہے اس سےکہ عبس کام کرے –پس اے رب ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔2

سائنس اور مذہب کے باہمی ربط کو سمجھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سوال کے دونوں ہی جز انسانی زندگی اور خصوصا عصر حاضر میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں، ایسی اہمیت جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس بیان میں کوئی مبالغہ نہیں کہ دونوں ہی چیزیں آج کے ہر انسان کے لئے ناگزیر ہیں، ا ور اگر کوئی اس حقیقت سے ناواقف یا کسی سبب سے اس بدیہی حقیقت کو قبول کرنے سے صرف نظر کرتا ہے، تو وہ خود اپنی زندگی کو نامکمل بنانے اور ناقص رکھنے کی سعی نا مشکور کرتا ہے، خواہ اسے خود اس کا علم تک نہ ہو-قرآن حکیم نے ایمان والوں کی بنیادی صفات و شرائط کے ضمن میں جو اوصاف ذکر کئے ہیں ان میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر اوت تفکر و تدبر (علم تخلیقیات (Cosmology) کو بنیادی اہمیت حاصل ہوئی۔3 موجودہ دور سائنسی علوم کے عروج کادور کہلایا جاتا ہے۔ سائنس کو بجا طور پر عصری علوم (Contemporary Knowledge) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لہذا دؤر جدید میں دین کی صحیح اور نتیجہ خیز اشاعت کا کام سائنس کے جدید بنیادوں پر ہی بہتر طریقے سے پورا کیا جا سکتے ہے اس دور میں اس کام کی اہمیت پچھلے صدیوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے کہ مسلم معاشروں میں جدید سائنسی علوم کی ترویج کو فروغ دیا جائے اور دینی تعلیم کو سائنسی تعلیم سے ربط جوڑ کر حقانیت اسلام کا بول بالا کیا جائے۔ دور حاضر کے مسلمان طالب علم کے لئے اس ربط کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھنا اہم ہے۔4 مذہب خالق(Creator ) پربحث کرتا ہے اور سائنس اللہ تعالی کی پیدا کردہ خلق (Creation ) پر، یعنی کہ مذہب کا موضوع خالق اورسائنس کا موضوع خالق کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہےاگر اللہ تبارک و تعالی کی بنائی ہوئی کائنات میں تفکر وتدبر اور سوچ و بچار درست اور مثبت انداز میں کی جائے تو اس مثبت تحقیق پر لامحالہ انسان کو خالق کی معرفت نصیب ہوگی اور وہ بے اختیار پکار اٹھے گا۔5

ربنا ما خلقت هذا باطلا 6

ترجمہ : اے ہمارے رب! تو نے یے سب کچھ بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔

اس آیت کی تفسیر حافظ صلاح الدین یوسف نے تفسیر احسن البیان میں اس طرح کی ہے : یعنی وہ لوگ جو زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرارورموز پر غور وفکر کرتے ہیں ، انھیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانروا کی معرفت حاصل ہو جاتی ہےاور وہ سمجھ جاتے ہیں کے اتنی طویل وعریض کائنات کا یے لگابندھا نظام جس میں ذرا خلل نظر نہیں آتا ، یقینا اس کے پیچھے ایک اعلی ہستی ہے جو اس نظام کوایک منظم طور پر چلارہی ہےاور اس کی تدبیر کر رہی ہے اور وہ ہے اللہ رب کائنات کی ذات7۔ یہ گفتگو اس اعتبار سےکی جاتی ہے کہ سائنس مذہب کا انکار کرکے جن خطرات سے دوچار ہورہی ہے، ان سے  بچنے کا محفوظ طریقہ مذہب کے زیرسایہ آجانے کے سوا کچھ نہیں ہے، یہی فطرت کا تقاضابھی ہے۔ لیکن ایک اور پہلو سے بھی سائنس کو مذہب کی چھتری درکار ہے، سائنس نے انکشافات و اکتشافات کے میدان میں تو یقینا بے حد ترقی کرلی ہے، مگر وہ اخلاقیات اور نفسیات کے میدان میں بہت پیچھے ہے، ان میدانوں میں اس کے انحطاط پر یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ سائنس جیسے جیسے نئی نئی ترقی سامنے لارہی ہے، اخلاقیات کے میدان میں اس کا تنزل اور انحطاط اسی رفتار سے زیادہ ہورہا ہے۔8

اہمیت و ضرورت

اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ کائنات، حیات اور انسان سے بارے میں سائنس جو حقیقتیں سامنے لاتی ہے، ان سے قرآن کی بعض ان آیات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے جن میں کسی نہ کسی طرح ان حقائق سے تعرض کیا گیا ہوتا ہے جیسے قرآن مجید میں فرمان باری تعالی ہے:

سنریهم ایتنا فی الآفاق وفی انفسهم یتبین حتی لهم انه الحق.9

ترجمہ : "جلد ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق (دنیا) میں بھی اور خودان کی ذات میں بھی دکھائیں گے حتی کہ ان کے لیے واضح ہو جائے گا کہ بے شک یہ (قرآن ) حق ہے "۔

اس آیت میں اللہ رب العزت نے انسان کی داخلی نشانیوں (Internal Signs) اور کائنات کے اندر مختلف جگہ بکھری ہوئی باہری نشانیوں (External Signs) کو دکھائیں گے ۔ جن کو دیکھ کر بندہ خود ہی بے تحاشہ پکار اٹھے گا کہ جو چیز اللہ تبارک وتعالی نے بتادی ہے وہ سب حق ہے۔10قرآن مجید کی چاہت اور مقصد انسان ذات کی ہدایت اور اس کی دنیاوی اور اخروی زندگی درست کرنا ہے ۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو قرآن مجید کا طریقہ سائنسی اور معروضی ہے ـ وہ اپنے پیش کردہ نظریوں اور دعوائوں پر آنکھیں بند کرکے ایمان لانے کے بجائے اللہ رب العزت کی کائنات کی قدرت کے اشتکار اور کمالات کو دیکھ کر تجربےپہ تفکر وتدبر اور ان کا مشاہدہ و تجربہ کرکے ایمان لانے کی بات کرتا ہے۔ سائنس بھی تو ان قدرتی کمالات کو دیکھنے اور تجربے کا نام ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائنس ایک ایسی چیز کا نام ہے جو قرآن حکیم کے مقصد کا حاصل اور غرض کا ذریعہ ہے۔ قرآن مجید رب کائنات کا کلام ہے ۔ اس میں ایسی باتوں کا کا پایا جانا محال ہے جو مشاہدہ سے حاصل ہوتی ہوں مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہو۔ قرآن مجید میں ایسی چیزوں کا پایا جانا بھی نا گزیر ہے کہ مختلف ادوار میں لوگوں کو اللہ رب کائنات ، پیغمبر اور اس کے کلام کی حقانیت کی طرف توجہ دلانے کا ذریعہ بنیں ۔ چنانچہ جس جگہ کچھ نئی سائنسی حقیقتیں قرآن مجید کے کچھ بیانوں کی زیادہ سمجھ کا سبب بنتے ہیں ، اس جگہ سائنسی نوعیت اور پیش گوئیوں کے قبیل کے بیانات قرآنی معروضی رویے کے حامل غیر مسلم جو اہل علم اور سائنس کی تعلیم کے حامل ہیں ۔ ان کو قرآن حکیم کی طرف توجہ دلانے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ـ

قرآن نے ان علوم کی طرف جو دعوت دی ہے وہ کائنات کے مظاہرمیں تفکر و تدبر اور دنیا کی نعمتوں سے مفید ہونے اوراس کی چیزوں سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت پر مشتمل ہے۔ ارشاد ربانی ہے:انظروا ماذا فی السموت والأرض11

ترجمہ : ان کو بتا دو "جو کچھ زمین اور آسمانوں میں ہے اس کو آنکھیں کھول کر دیکھو"۔12

ایک اور جگہ آیا ہے:

والأرض مددنها وألقینا فیها رواسی وأنبتنا فیها من کل شیء موزون۔13

ہم نے زمین کو پھیلایا، اس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی۔

اس آیت میں لفظ "موزون" (ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار) بڑی گہری اور عجیب و غریب تعبیر ہے۔ علم کیمیا (CHEMISTRY) اور علم نباتات (BOTANY) میں مہارت رکھنے والوں نے ثابت کیا ہے کہ کوئی نبات جن عناصر پر باندھی ہوئی ہوتی ہے، ہر عنصر ان میں سے ایک متعین مقدار میں شامل ہوتا ہے۔ اس مقدار کا صحیح اندازہ ناپ تول کی گہری مشینوں کے ذریعے، جن سے سینٹی گرام اور ملی گرام بھی ناپاجاتا ہے، کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہرنبات میں یہ عناصر ایک خاص تناسب سے رہتے ہیں ۔ آیت میں کل شئ (ہرچیز) کہا گیا ہے، جس میں انتہائی عام طور پرپائےجاتے ہے اور ان کی صفت "موزون" لائی جاتی ہے۔ ان ذرائع سے ایسے فنی سائنسی مسائل کی طرف اشارہ دیا جاتا ہے جو اس دور سے پہلے کسی انسان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتے تھے ـ

جب سے انسانی زندگی زمین پر شروع ہوئی ہے تب سے انسان نے ہمیشہ تخلیق کے اس عظیم منصوبے میں اسکی اپنی حیثیت اور خود زندگی کے مقاصد سمجھنے کی سعی کی ہے۔ سچ کی اس تلاش میں صدیوں کے اس عرصے میں اور مختلف تہذیبوں نے منظم طور پر مذہب کو مستقل زندگی کی تشکیل دے دی ، اور اعلی حدود تک انسانی تاریخ کا راستہ متعین کیا ۔ اسی طرح بعض مذاہب کی بنیاد لکھی ہوئی کتب پر مشتمل ہے ـ

انسان کے ذہن میں اب یے سوال آتا ہے کہ قرآن حکیم اور جدید سائنس میں یکسانیت اور مطابقت ملتی ہے یا نہیں۔اس کے جواب میں سب سے پہلے یہ بات انسان کو ذہن نشین کرنی چاہئے کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں بلکہ یہ نشانیوں یعنی آیات کی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں چھ ہزار دو سو  چھتیس آیات ہیں، جن میں ایک ہزار سے زائد آیات سائنسی علوم کےبارے میں بتاتی ہیں اور سائنس کی معلومات فراہم کرتی ہیں 14ـ

قرآن کریم میں جہان سائنس کا ذکر ملتا ہے وہاں مذہب کا تذکرہ بھی موجود ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائنس اور مذہب کا اکٹھا ذکر ملتا ہے ، مگر یہ دورحاضر کا المیہ ہے کہ سائنس اور مذہب دونوں کی سربراہی ایک دوسرے سے نا آشنا لوگوں کے پاس ہےـ اسی طرح ان دونوں قسم کے لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں دوسرے علم سے دور ہونے کی وجہ سے اسے دوسرے علوم کو اپنے علوم سے مخالف اور ان علوم کو آپس میں ربط و تعلق سے علحدگی تصور کرتے ہیںـ جسے عام لوگ ناقص علم اور کم فہمی کے باعث سائنس اور مذہب میں تضاد سمجھتے ہیں ۔

قرآن مجید میں مستقبل کی سائنسی ترقی کا ذکر

قرآن مجید کے بیان کندہ اسلوب سے اس بات کاثبوت ملتا ہے کہ قرآن مجید میں مستقبل کی باتوں کا ذکر اشارات کی صورت میں ملتا ہے اور سائنس کی ترقی کے اتنے زیادہ اشارات قرآن حکیم میں موجود ہیں کہ قرآن اور سائنس کا ایک ساتھ علم رکھنے والےآدمی کو قرآن شریف سائنسی تحقیق کا انسائیکلوپیڈیا محسوس ہوگا- قرآن مجید میں تفکر وتدبر کرنے کی بیحد اہمیت اور ضرورت ہے جسے قرآن مجید نے بہت مرتبہ فرمایا ہے، قرآ ن مجید میں بہت سے ایسی مثالیں موجود ہیں لیکن کچھ مختصر طور پر ذکر کرتے ہیں۔ حضرت موسی ؑ کے معجزات کے حوالے سے دو علوم یعنی علوم نجوم اور علم جادو کا تذکرہ آیا ہے ، جن سے مراد قوم فرعون کے لوگ ہیں اور وہ ان علوم میں ماہر تھے اور اتنی اہمیت کے حامل تھے کہ اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں ان کا تفصیل سے کئی بار ذکر فرمایا- اور تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یے علوم آجکل اتنی ترقی کی منزل پربالکل نہیں ہیں جتنی ترقی ان علوم کو فرعون کے عہد میں تھی۔ یعنی اس علم میں ترقی کی ابھی کافی گنجائش ہوسکتی ہے اور اس لحاظ سے مستقبل میں اس کے ترقی کے کافی امکانات ہو سکتے ہیں ۔اسی طرح اس جیسا ایک اور مثال حضرت یوسفؑ کی زندگی وحالات کے واقعے میں رؤیا کی تعبیر اور باتوں کا انجام نکالنے کا ذکر کیا گیا ہے ۔اللہ تبارک وتعالی نے یے علم دوسرے انبیاء کے علاوہ حضرت یوسف ؑ کو خود سکھایا اسی وجہ سے اس علوم کے جواز میں کسی قسم کے کوئی شک و شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جیسا پہلے ذکر کیا گیا کہ آجکل کے زمانے میں اس علم کو سائنس کی حیثیت حاصل نہیں ہے بلکہ جو بزرگ خواب کی تعبیر بتاتے ہیں وہ اپنی دل کے خلوص سے اندازہ بتاتاہے ۔ اگر یے باقاعدہ علم ہوتا تو اس کو سکھایا جاسکتا اور اس پردوسرے علوم کی طرح کئی مستند کتب بھی لکھی ہوئی ہوتیں اور علمی مراکز میں بھی اس کی درس وتدریس کا بھی باقاعدہ نظام بنایا جاتا۔15

قرآن مجید اور علم الطب ((Holy Qurʾān and Medical Science

علاج ومعالجہ اور طبعی خدمات سماجی خدمات کی فہرست میں آتی ہیں اگر ایک ڈاکٹر نیت کے خلوص کے ساتھ کسی مریض کا علاج کرے ۔اور وہ مریض صحتیاب ہوجائے تو اس ڈاکٹر کے لئے ایسا یہ عمل ہے جیسا کہ اس نے پوری دنیا کے انسانوں کو زندگی عطا کی اور اگر اس کی کسی غفلت ،کام چوری یا سستی یا غلط تشخیص یا غلط دوائی تجویز کرنے سے کوئی مریض فوت ہوجاتاہے تو یے ایسا ہے جیسا کہ اس نے پوری دنیا کے انسانوں کی جان لی-

من قتل نفسا بغير نفس أو فساد في الأرض فكأنما قتل الناس جميعا ومن أحياها فكأنما أحيا الناس جميعا16

تخلیق کائنات (The Big Bang)

فلکیات کے ماہرین نے کائنات کی تخلیق کی وضاحت ایک مقبول نظریے بگ بینگ سے کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کائنات شروع میں ایک بڑی کمیت (Primary Nebula) تھی پھر بگ بینگ (دوسری علیحدگی) ہوئی، جس کے باعثس کہکشائیں (Galaxies) ظہور پذیر ہوئیں ۔ پھر یہ کائنات ستاروں ،سیاروں ،شمس و قمر کی صورت میں منقسم ہو گئیں17۔ کائنات کی شروعات بلکل اچھوتی تھی اور ایسا اتفاقیہ ہوجانے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا، کائنات کی ابتدا سے متعلق مندرجہ ذیل آیت ہمیں بتاتی ہے کہ

اولم یر الذین کفروا ان السموت والارض کانتا رتقا ففتقنهما18

ترجمہ :" کیا کفار نے دیکھا نہیں کہ بے شک آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے، تو ہم نے جدا جدا کردیا "

شعبہ تقابل ادیان کا مشہور ماہر ڈاکٹر محمد ذاکر نائیک اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی اس آیت اور بگ بینگ کے نظریے کے درمیان مطابقت سے انکار کرنا ناممکن ہے۔ چونکہ ایک کتاب جو کہ چودہ سو سال پہلے عرب میں نمودار ہوئی ، اس عمیق سائنسی حقیقت کی حامل کیسے ہو سکتی ہے؟

مذہب اور سائنس کے بنیاد میں فرق

مذہب اور سائنس دونوں میں عدم تضاد کا سب سے پہلا سبب یہ ہے کہ دونوں کی بنیادیں ہی الگ الگ ہیں۔ حقیقت میں سائنس کا موضوع "علم"ہے اور علم کا موضوع "ایمان" ہے- علم ظن پر ہوتا ہے اسی بنا پر اس میں خطا کا اندیشہ پایاجاتاہے اور سائنس کی تمام پیش رفت اقدام و خطاء (Trial & Error) لمبی کوشش و کاوش سے عبارت ہے ـ جبکہ ایمان کی بنیادشبہات کے برعکس یقین پرہوتی ہے، اسی لئے اس میں غلطی کاکوئی اندیشہ موجودنہیں- جبکہ قرآن حکیم کی سورۃ البقرۃ میں اللہ رب العزت نے ایمان والوں کو اپنی خوشخبری ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:

الذین یومنون بالغیب19

ترجمہ : جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔

گویا ایمان مذہب کی بنیاد ہے ،جس کو تجربہ اورمشاہدہ کے بنیاد پرحاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے کسی مشاہدے کے بغیریقین پر نصیب ہوتا ہے ـ یعنی ایمان کے لیئے کسی مشاہدے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے بھروسہ کہ ذریعے حاصل کیا جاتا ہے ۔ ایمان اس حقیقت کو سچی دل سے قبول کرنے کا نام ہے جو مشاہدے میں نہیں آتے اور غیب کے پردہ میں رہتے ہیں ـ اس کو ہم اپنے خود ساختہ علم کے ذریعے سے معلوم نہیں کر سکتے بلکہ انہیں تجربات اور مشاہدات کے بغیر صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے حکم سے تسلیم کیا جاتاہے ، مذہب ان حقائق کی بنیاد پر مبنی ہے ، جو اوپر بیان ہو چکے ہیں ـاس کے برعکس ہمیں جو چیزیں مشاہدے میں آرہی ہیں جن کے بارے میں حقائق اور مشاہدات روز مرہ کی زندگی میں ہمارے تجربے میں آتے رہے ہیں ، ان مشاہدات و حقیقت کا علم سائنس کہلاتا ہے ـچنانچہ سائنس انسان کے ہاتھوں سے تشکیل پانے والا علم (Human acquired Wisdom)ہے، جبکہ مذہب اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے عطاکردہ علم(Allah-Gifted Wisdom) ہے۔اسی لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سائنس کا سارا علوم امکانات پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ مذہب میں کوئی امکانات نہیں بلکہ وہ(Human acquired Wisdom) سراسر قطعیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ مذہب کی ساری حقیقت ووثائق اور حتمیت ( ( Certainty & Finalityپر باندھی ہوئی ہیں یعنی مذہب کی ہر بات حتمی اور واجب حکم کی حیثیت رکھتی ہےاس کہ بالمقابل سائنس کا آغاز اور اس کی بنیاد ہی مفروضوں ((Hypothesisپر مبنی ہے اسی لئے سائنس میں امکان کا درجہ (degree of probability) زیادہ تر مشتمل ہوتا ہے ـ مفروضہ، مشاہدہ اور تجربہ کے مختلف مرحلوں سے طئی کر کہ کوئی شی قانون (law) کے درجہ پر پہنچتی ہے اور اس کے بعد جاکر اس کا علم ’حقیقت‘ کے زمرے میں تصور کیا جاتا ہے، سائنس کی تحقیقات کی ساری پیش رفت میں درحقیقت صورتحال اس نتیجے پر ہے کہ جن حقائق کو ہم بارہا اپنی عقل کی کسوٹی پر جانچنے اور مشاہدے کرنے کے بعد سائنسی قوانین تسلیم کرتے ہیں ان میں بھی زیادہ تر تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ان حقائق کی بناء اور اس زائد تفریق کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذہب اور سائنس میں ٹکراؤ کا امکان ہی خارج از بحث ہے۔20 قرآن اور سائنس کے تعلق کے بارے میں جو علوم پائے جاتے ہیں ان کو مختصر طور پہ جائزہ لینا بہت اہم ہیں۔

1: علم الطب (Medical Science)

طب کے علوم میں تاریخ اسلامی بھی عدیم المثال مقام کی حیثیت رکھتی ہے، اس علوم کےتحقیقی میدان میں ابو القاسم، ابن رشد، الکندی ،الرازی زہراوی اور ابن سینا کے نام فہرست میں شمار ہوتے ہیں ۔مسلمان سائنس دانوں نے اسلام کے پہلے زمانے میں ہی اعلی قسم کے طبی ادارے (Medical Colleges)اور ہسپتالیوں کی بنیاد ڈالی تھی ، جہاں علم الادویہ (Pharmacy) اور علم الجراحت (Surgery) کی درس وتدریس بھی ہوتی تھیں۔21

ابو الحسن بن سینا (Avicenna) (1037ء) نے "القانون"(Canon of Medicine) جیسی تصنیف لکھ کر طب کی دنیا مین ایک عظیم دور کی بنیاد ڈالی - اس تصنیف کے تراجم عربی، لاطینی اور دوسری زبانوں میں بھی کیا گیا ، اسی طرح یہ تصنیف سن 1650ء میں اتنی ترقی پذیر ہوئی کہ یے کتاب یورپ کے مختلف یونیورسٹیز کے نصاب میں بھی شامل رہی 22ـ

دنیائے اسلام کے نامور طبیب الرازی (930ء) نے علم الطب (Medical Science) پر دو سو سے زائد کتابوں کی تصنیف کی تھیں ، ان کتب میں سے بعض کتب کا لاطینی، انگریزی اور اس کے علاوہ دوسری جدید زبانوں میں ان تراجم کئے گئے اور انھیں صرف 1498ء سے 1866ء تک تقریبا چالیس مرتبہ چھاپا گیا smallpox اور Measles پر سب سے اول الرازی نے ہی متعارف کرواکر پیش کئے۔23

البیرونی ابو ریحان (1048ء) نے pharmacology کی تصنیف کی۔ علی بن عیسی بغدادی اور عمار الموصلی کی امراض چشم اور ophthalmology پر لکھی گئی کتب اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف اول تک یورپ اور فرانس کےطبی کالیجز (medical colleges ) میں textbooks کے طور پر ان کے نصاب میں شامل تھیں۔ ایک مغربی مفکر E. G. Browne جو غیر مسلم تھے، وہ مسلمانوں کی ان باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے: "جب عیسائی یورپ کے لوگ اپنی صحتیابی کے لئے اپنے بتوں کے سامنے اپنا سر جھکاتے تھے اس وقت مسلمانوں کے ہاں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز، معا لجین، ماہرین اور شاندار ہسپتال موجود تھے"۔

"اسلامی دنیا میں دسویں صدی عیسوی سے ہی طب کے علوم اور علم الادویہ کا باقائدہ نظام رکھا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جس وقت سنان بن ثابت نے بغداد میں ممتحنین کے بورڈ کے رئیس تھے۔ ادویہ سازوں کو بھی باقاعدہ منظم کیا گیا تھا اور عربوں نے ہی سب سے پہلے میڈیکل سٹورز قائم کئے حتی کہ طبی نقطۂ نظر سے حجاموں کی دکانوں کا بھی معائنہ کیا جاتا تھا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں سفری (mobile) ہسپتالوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ 1284ء کے قریب دمشق میں قائم شدہ عظیم الشان ’المنصور ہسپتال‘ موجود تھا۔ جس کے دروازے امیر و غریب، مرد وخواتین، غرض تمام مریضوں کے لئے کھلے تھے اور اس ہسپتال میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ وارڈ موجود تھے۔ ایک وارڈ مکمل طور پر بخار کے لئے (fever ward) ایک آنکھوں کی بیماریوں کے لئے (eye ward) ایک وارڈ سرجری کے لئے (surgical ward) اور ایک وارڈ پیچش (dysentery) اور آنتوں کی بیماریوں (intestinal ailments) کے لئے مخصوص تھا۔ علاوہ ازیں اس ہسپتال میں باورچی خانے، لیکچر ہال اور ادویات مہیا کرنے کی ڈسپنسریاں بھی تھیں اور اسی طرح طب کی تقریبا ہر شاخ کے لئے یہاں اہتمام کیا گیا تھا"۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ مسلمانوں کی طبی تحقیقات و تعلیمات کے تراجم یورپی زبانوں میں کئے گئے جن کے ذریعے یہ سائنسی علوم یورپی مغربی دنیا تک منتقل ہوئے۔ خاص طور پر ابوالقاسم الزہراوی اور المجوسی کی کتب نے طبی تحقیق کی دنیا میں انقلاب بپا کیا۔

"ان کے طبی علم اور معلومات والی کتب جن کا بعد ازاں لاطینی اور یورپی زبانوں میں تراجم ہوئے، ان کی انسانی جسم میں خون کی گردش کے متعلق علم کی و سعت کا انکشاف سامنے آتا ہیں۔ ’ابوالقاسم الزہراوی‘ کی جراحی پر تحقیق ’کتاب التصریف لمن عجز عن التالیف‘ اس کتاب کا ترجمہ Cremona کے Gerard نے لاطینی زبان میں کیا، اور اس کی ایک صدی بعد Shem-tob ben Isaac نے بھی عبرانی زبان میں اس کا ترجمہ کیا۔ اس طبی علوم کے میدان میں ایک اور اہم ترین کام المجوسی (وفات 982ء) کی تصنیف ’کتاب الملیکی‘ ہے، ’براؤن‘ کے مطابق ان اشیاء سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مسلمان طبیبوں کو شریانوں کے سسٹم کے متعلق بنیادی معلومات اورتصورات معلوم تھیں اور ’میکس میئرہوف‘ کے الفاظوں میں ’ابن النفیس‘ (وفات 1288ء) وقت اور مرتبے کے لحاظ سے ’ولیم ہاروے‘ کا پیش رو تھا۔ درحقیقت انھیں ’مائیکل سرویٹس‘ سے تین صدیاں قبل سینے میں پھیپھڑوں کی حرکت اور خون کی گردش کا سراغ لگایا تھا۔ خون صاف کئے جانے کے بعد بڑی بڑی شریانوں میں وہ یقینا پھیپھڑے کی شریانوں میں بلند ہونا چاہئے تاکہ اس کا حجم بڑھ سکے اور وہ ہوا کے ساتھ مل سکے تاکہ اس کا بہترین حصہ صاف شفاف ہو جائے اور وہ نبض کی شریان تک پہنچ سکے جس سے یہ دل کے بائیں حصے میں پہنچتا ہے"۔24

نتیجہ

قرآن مجید ایک ایسا منبع علوم ہے جو مختلف الجہات (ہمہ جہت) ہونے کے علاوہ تمام علوم کا جامع بھی ہے۔ قرآن مجید کے علاوہ کوئی الہامی کتاب (بیک وقت) ان ہمہ وصف خاصیتوں کی حامل نہیں ہو سکتی۔ سائنسی ترقی کے آغاز سے لے کر ترقی کی موجودہ اوج ثریا تک کے ادوار میں جب ہم قرآنی تعلیمات اور انسانی (کاوشوں کی زائیدہ) سائنس کی دریافتوں اور تجربات کے مابین نسبت قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو قرآنی تعلیمات پر ہمارا ایمان پہلے سے بھی مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ مزید برآں قرآن حکیم خود اپنی آیات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے سائنسی بنیادوں پر تفکر و تدبر کی درس دیتا ہے۔

قرآن حکیم کائنات کے جن حیا تیا تی اور طبعی حقائق کو بیان کرتا ہے، جدید سائنسی علوم کا فیض عام ہونے سے قبل انسانیت انہیں جاننے سے قاصر تھی۔ اب جبکہ قرآن مجید کے ان بیانات کی بلا شک و شبہ کاملا تصدیق میسر آ چکی ہے، لہذا کسی بھی غیرمتعصب شخص کو اس کی باقی تعلیمات کے قبولنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیئے۔ خاص طور پر جب ان تعلیمات کی عملی توجیہہ دنیا میں موجود ہر چیز سے بالا و برتر ہے۔

اگرچہ (اقدام و خطاء کے) امکانات اور سائنسی مشاہدات کی مختلف تعبیرات کا پہلو بھی (شکوک و شبہات پیدا کرتے ہوئے) ذہن پر چھایا رہتا ہے مگر پھر بھی مذکورہ بالا وجوہات سائنسی تناظر میں قرآن مجید کے مطالعہ کو ناگزیر قرار دیتی ہیں، جس کا سبب یہ ہے کہ سائنسی مشاہدات کی توضیح و تشریح میں پائے جانے والے اختلافات منطق، گرامر اور دوسرے لسانی قواعد کے ماہرین میں پائے جانے والے اختلافات ہی کی طرح (معمولی نوعیت کے حامل) ہیں۔

حوالہ جات

  1. آل عمران، 3 : 190، 191
  2. مودودی،ابو الاعلی سید، تفہیم القرآن (ترجمہ سورہ آل عمران آیت نمبر 190،191) لاہور ترجمان القرآن
  3. القادری، ڈاکٹرمحمد طاہر، اسلام اور جدید سائنس، صفحہ 52، فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ ،منہاج القرآن پرنٹر لاہور،جولائی 2012ع
  4. محولہ بالا، صفحہ 57
  5. محولہ بالا، صفحہ 58
  6. آل عمران، 3/191
  7. القرآن، حافظ صلاح الدین یوسف، تفسیر احسن البیان، دارالسلام ، صفحہ 125،( تفسیر آل عمران :191)
  8. سائنس اور آج کی دنیا، ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور،دسمبر 1994ء
  9. ( 41 : حم السجدۃ :53 ) ، تفسیر احسن البیان، ص:787
  10. القادری،اسلام اور جدید سائنس صفحہ58،59
  11. یونس، آیت :100
  12. ترجمہ تفہیم القرآن
  13. الحجر: ۱۹
  14. نائیک،ڈاکٹرمحمد ذاکر،قرآن اور جدید سائنس، صفحہ 70،مطبع: زاہد بشیر پرنٹر لاہور
  15. جاہ حشمت ڈاکٹر ، قرآن اور جدید سائنس،لاہور اردو بازار صفحہ 88،89
  16. المائدہ ، آیت 32
  17. نائک،ڈاکٹر محمد ذاکر عبدالکریم ۔ قرآن اور جدید سائنس،صفحہ 71،72
  18. الانبیآء ،آیت : 30
  19. البقرۃ : آیت 2،3
  20. القادری، ڈاکٹر محمد طاہر،اسلام اور جدید سائنس صفحہ61
  21. محولا بالا
  22. محولا بالا، صفحہ94،95،
  23. محولا بالا، صفحہ،95
  24. (Ibn al-Nafis and his Theory of the Lasser Circulation, Islamic Science, 23 : 166, June, 1935)
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...