Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 1 Issue 1 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

کارڈز میں بیعِ صرف کی شرعی وفقہی حیثیت اور اس کی عملی تطبیق |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060025806_1271

Pages

60=69-60=69

PDF URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/download/13/11

Chapter URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/view/13

Subjects

Bay Sarf Cards Bay Sarf Cards

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

کارڈز کے ذریعے معاملات کرنے میں"بیع صرف " کاتعلق بھی ہوتاہے، اسی بناء پرمندرجہ ذیل میں بیع صرف کے شرعی وفقہی احکامات کوبیان کیا جا رہاہے:

بیع صرف کی لغوی واصطلاحی معنی اور فقہا کی آرا

زیادتی اوراضا فہ ،پھیرنا ،خرچ کر نا ،کسی کو چھوڑنا اور کئی معنی میں استعمال ہو تا ہے ۔صرف کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں عام طور پر ارادہ زیادہ نفع کمانے کاہو تا ہے۔ اصطلاحاًتمام فقہاء کے ہاں صرف کا معنی مندرجہ ذیل بیان کیاجاتا ہے:

علامہ وہبۃ الزحیلیؒ بیع صرف کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ لکھتے ہیں :

هو بیع النقد بالنقد جنساً بجنس أو بغیر جنس أ ی بیع الذهب بالذهب أو الفضة بالفضة أو الذهب بالفضة مصوغاً أو نقداً 1

ترجمہ:نقد کو نقد کے عوض اتحاد مع الجنس اور خلاف جنس کے ساتھ یعنی سونے کو سونے کے عوض ،چاندی کو چاندی کے عوض ،سونے کو چاندی کے عوض اورسونے کے برتن کو سو نے کے برتن کے عوض بیچنے کوبیع صرف کہا جاتا ہے ۔

علامہ علاؤالدینؒ السمرقندی "صرف" کی تعریف لکھتے ہیں :

الصرف اسم لبیع الذهب والفضة والتبر والمضروب والمصوغ فی ذلک سواء وکذلک الجنس وخلاف الجنس والمفرد والمجموع مع غیره یسمی هذا العقد صرفا لاختصاصه بالتقابض والصرف من ید إلی ید وحکمه حکم سائر الموزونات والمکیلات فی جریان ربا الفضل والنسا وذلک عند اتحاد الجنس والقدر...الخ2.

ترجمہ:صَرف اس بیع کو کہا جاتا ہے کہ جس میں سونے ،چاندی ،ڈھلی، ڈھلا ہو ا سکہ اور اسی سے بنا ہوا برتن برابر سرابر ایک ہی جنس یا خلافِ جنس کو الگ الگ یا مجموعے کو غیر جنس کے سا تھ بیچنے کو صرف کہا جاتاہے ،لیکن قبضہ یداََ بیدِِ اور ایک ہی مجلس میں ہو اس کا حکم بھی وہی ہے جو کہ تمام مکیلی اور موزونی اشیاء کا حکم ہے ربا الفضل اور ربا النسیئۃ کے اجراء میں اور اس کے ساتھ جنس مع القدر ایک ہو ۔

علامہ حصکفی ؒ "صرف" کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

الصر ف هو لغة : الزیادة وشرعاً: بیع الثمن بالثمن أی ماخلق للثمنیة ومنه المصوغ جنساً بجنس کذهب بفضة 3.

ترجمہ: شرعاًبیع صرف اس بیع کو کہا جاتا ہے کہ جس میں ثمن کا ثمن کے ساتھ بیع وشراء کی جائے یعنی جن کو خلقی طور پر ثمن کہا جاتا ہو اور ان ہی سے بنایا گیا برتن کا بھی یہی حکم ہے ،چاہے جنس ،جنس کے مقابلے ہو یا خلافِ جنس کے مقابلے ہو۔

علامہ کاسانیؒ "صرف" کی تعریف میں لکھتے ہیں:

قبض البدلین فی بیع الدین بالدین وهو عقد الصرف ....الخ فالصرف فی متعارف الشرع اسم لبیع الأثمان المطلقة بعضها ببعض وهو بیع الذهب بالذهب والفضة بالفضة وأحد الجنسین بالآخر فاحتمل تسمیة هذا النوع من البیع صرفاً لمعنی الرد والنقل، یقال: صرفته عن کذا إلی کذا سمی صرفا لاختصاصه برد البدل ونقله من ید إلی ید، ویحتمل أن تکون التسمیة لمعنی الفضل، إذ الصرف یذکر بمعنی الفضل، کما روی فی الحدیث (من فعل کذا لا یقبل الله منه صرفا ولا عدلا) فالصرف الفضل وهو النافلة والعدل الفرض، سمی هذا العقد صرفاً لطلب التاجر الفضل منه عادة لما یرغب فی عین الذهب والفضة4.

ترجمہ:دین کو دین کے عوض بیچنے کو بیع صرف کہا جاتا ہے ،شرعاً اثمانِ مطلقہ کے بعض کو بعض کے عوض بیچنے کا نام صَرف ہے۔ وہ ہے سونے کو سونے کے عوض ،چاندی کو چاندی کے عوض انمیں سے ایک جنس کو دوسرے جنس کے مقابلے بیچنے کو بیع صرف کہا جاتاہے ۔اس قسم کے بیع صرف کے نا م رکھنے میں ردوبدل کے معنی کاا حتمال ہے۔ جیسا کہ کہاجاتا ہے کہ میں یہاں سے وہاں منتقل ہو گیا ،اسلئے بیع صرف میں بھی ایک ثمن ایک آدمی کے ہاتھ سے نقل ہو کر دوسرے آدمی کے ہاتھ چلا جاتا ہے ۔صرف میں خرچ کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے ، جیسا کہ حدیث میں مذکو ر ہے کہ جس شخص نے اس طرح کیا اللہ سبحانہ وتعالی اسکے خرچ کرنے اور عدل کو قبول نہیں فرمائیں گے اور زیادتی کے معنی میں بھی استعمال ہو تا ہے اسی وجہ سے صرف کو صرف کہا جاتا ہے کہ اسمیں بھی تاجر پیسے بڑھا نے کی کوشش کرتا ہے ۔

علامہ مرغینانی "صرف "کی تعریف لکھتے ہیں :

الصرف هو البیع إذا کان کل واحد من عوضیه من جنس الأثمان سمی به للحاجة إلی النقل فی بدلیه من ید إلی ید۔ والصرف هو النقل والرد لغة، أو لأنه لا یطلب منه إلا الزیادۃ إذ لا ینتفع بعینه ، والصرف هو الزیادة لغة کذا قاله الخلیل ومنه سمیت العبادة النافلة صرفا۔ قال: فإن باع فضة بفضة أو ذهبا بذهب لایجوز إلامثلا بمثل وإن اختلفا فی الجودة والصیاغة لقوله علیه الصلاة والسلام: الذهب بالذهب مثلا بمثل وزنا بوزن یدا بید والفضل ربا الحدیث۔ وقال علیه الصلاة والسلام:جیدها وردیئها سواء الخ. وغالب الغش لیس فی حکم الدراهم والدنانیر فیصح بیعها بجنسها متفاضلاً والتبایع والاستقراض بما یروج عددا أو وزناً أبهما ولایتعین بالتعیین لکونها ثمنا5.

ترجمہ: صرف اس بیع کو کہا جاتا ہے جس میں دونوں اطراف اثمان کی بیع ہو اور اس میں دونو ں بدلین ایک کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ۔صرف لغۃً ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو نے کو کہا جا تا ہے ،یا یہ کہ اس بیع سے مقصد ہی زیادہ کمانا ہو تا ہے ۔ لغۃً بھی صرف زیا دتی کو کہا جاتا ہے ،اسی سے علامہ خلیل نے نوافل کو صرف کہا ۔فرمایا کہ آپ ؐ کے اس فرمان کے مطابق سونے اور چاندی کو ایک دوسرے کے بیچنے کے سا تھ برابری اور ہاتھوں ہاتھ بیع ہونا ضروری ہے اور زیادتی اس صورت میں ربا ہو گا۔ عمدہ اور خستہ اس میں برابر ہیں۔کھوٹ غالب ہو نے کی صورت میں یہ دراہم ودنانیر کے حکم سے نکل جائیں گے ،تو اس صورت میں زیادتی کے ساتھ بیع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے عرف کے حساب سے بیع و شراء اور عدد وزن کے حساب سے قرض کے معاملہ میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور یہ اثمان ہو نے کی وجہ سے متعین بالتعیین نہیں ہوسکتے۔

علامہ ابن نجیم نے "صرف "کی تعریف یہ کی ہے:

الصرف فی الدراهم فضل بعضه علی بعض فی القیمة وکذلک صرف الکلام، وأما الصرف فی الحدیث "لایقبل الله صرفا ولا عدلا" فالصرف التوبة والعدل الفدیة أو هو النافلة والعدل الفریضة أو بالعکس أو الوزن والعدل والکیل أو الاکتساب والعدل الفدیة أو لحیل۔ وفی الصحاح یقال صرفت الدراهم بالدنانیر وبین الدرهمین صرف أی فضل لجودة فضة أحدهما علی الآخر۔ والثانی: فی معناه الشریعة: وقد أفاد بقوله "هو بیع بعض الأثمان ببعض" کالذهب والفضة إذا بیع أحدهما بالآخر أی بیع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض۔ ولا یتعین بالتعیین لکونها أثماناً یعنی ما دامت تروج، لأنها بالاصطلاح صارت أثماناً فما دام ذلک الاصطلاح موجوداً لا تبطل الثمنیة لقیام المقتضی6.

ترجمہ: دراہم کو دراہم کے عوض زیادتی کے ساتھ بیچنے کو صرف کہا جاتا ہے ، صرف توبہ کے معنی میں بھی استعمال ہو تا ہے زیادہ کے معنی میں بھی آتا ہے الخ۔لوگوں کی عرف ِعام کیوجہ سے انہیں اثمان کہا گیا ہے جب تک یہ عرف باقی رہے گا۔ انکی ثمنیت پر بھی کوئی اثر نہیں پڑیگا، اسی وجہ سے یہ متعین کرنے سے متعین نہیں ہو تے ہیں مذکو رہ عرف ہی انکا مقتضی ہے ۔

مفتی تقی عثمانی صاحب فقہ البیوع میں "بیع صرف" کی تعریف لکھتے ہیں:

"الصرف" اسم لبیع الأثمان المطلقة بعضها ببعض، وهو بیع الذهب بالذهب والفضة بالفضة وأحد الجنسین بالآخر7.

ترجمہ:مطلق اثمان کو آپس میں بیچنا اور وہ ہے سونے کو سونے کے ساتھ بیچنا ،چاندی کو چاندی کے ساتھ بیچنا اور ان میں سے ایک جنس کو دوسرے کے ساتھ بیچنے کانام صرف ہے۔

حنفیہ کے نزدیک صرف کہا جاتا ہے ثمن کو ثمن کے عوض بیچنا اور اس ثمن سے مراد سونا اور چاندی ہے۔لیکن حضراتِ شافعیہ اور حنابلہ نے صرف کی تعریف نقد سے کیا ہے کہ نقد کو نقد کے عوض بیچنا اور انکے ہاں بھی نقد سے مراد سونا اور چاندی ہے۔

مذکورہ بالا ابحا ث سے معلوم ہوا کہ ائمہ ثلاثہ کے ہاں عقدِصرف کے احکام صرف ثمن خلقی میں لاگو ہونگے ۔وہ سونا اور چاندی ہی ہے ،لیکن ان میں کھوٹ غالب ہو تو یا دونوں طرف سے رائج الوقت نقد فلوسہ ہوں تو ان میں عقدِصرف کے احکام جاری نہیں ہونگے۔

سوائے امام مالک کے ہاں عقدِصرف کیلئے تین اصطلاحات استعمال کی جا تی ہیں،مراطلہ ،مبادلہ اور صرف۔صرف کی تعریف توگذرچکی ہے،مبادلہ رائج سکوں کاآپس میں تبادلہ کو کہا جاتا ہے۔مراطلہ کااطلاق، ثمن خلقی پر کیا جا تا ہے کہ ان کو آپس میں تول کر بیچا جائے یعنی سونے کو سونے کے ساتھ اور چاندی کو چاندی کے ساتھ اس شرط کے ساتھ کہ جنس ایک ہو۔

شافعیہ اور حنابلہ کے مسلک کی تائید صاحبِ مغنی المحتاج کے مندرجہ ذیل عبارت سے ہوتی ہے:

هو بیع النقد بالنقد من جنسه وغیره 8.

ترجمہ: بیع صرف ثمن کو ثمن کے عوض اتحادِ جنس کے ساتھ بیچنے کو کہا جاتا ہے ۔

بیع صرف کی شرائط اور ائمہ مذاہب

ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی فرماتے ہیں "بیع صرف" میں بنیادی چار شرائط ہیں:

۱۔پہلی شرط تقابض فی المجلس

التقابض قبل الافتراق بالأبدان بین المتعاقدین یشترط فی عقد الصرف قبض البدلین جمیعاً قبل مفارقة أحد المتصارفین للآخر افتراقاً بالأبدان، منعاً من الوقوع فی ربا النسیئة ولقوله صلي الله عليه وسلم: الذهب بالذهب مثلاً بمثل یداً بیدٍ والفضة بالفضة مثلاً بمثلٍ یداً بیدٍ وقوله صلي الله عليه وسلم: لا تبیعوا نهما غائباً بناجزٍ فإن افترق المتعاقدان قبل قبض العوضین أو أحدهما فسد العقد عند الحنفیة وبطل عند غیرهم لفوا ت شرط القبض ولئلا یصیر العقد بیعاً للکالئ بالکالئ أی الدین بالدین فیحصل بالربا وهو الفضل فی أحد العوضین والتقابض شرط سواء اتحد الجنس أو اختلف9.

ترجمہ :مجلس عقد کے ختم ہو نے سے پہلے پہلے بیع صرف میں بدلین میں سے کسی ایک بدل پر قبضہ کرنا ضروری ہے، تاکہ ربا النسیئہ لازم نہ آ ئے ۔آپ ؐ کے اس ارشاد کی وجہ سے ’’کہ جب سونے کی بیع سونے کیساتھ اور چاندی کی بیع چاندی کے ساتھ کی جائے تو برابر سرابر اور ہاتھوں ہاتھ کی جا ئے۔ اور آپ ؐ کے اس مبارک ارشاد کی وجہ سے بھی کہ ان دونوں میں سے کسی بھی ایک حاضر کی بیع غائب سے نہ کی جائے‘‘۔اگر متعاقدین عوضین پر یا ان میں سے کسی ایک پر قبضہ کئے بغیر جدا ہو گئے، تو بیع حنفیہ کے ہاں فاسد اور دوسروں کے ہاں قبضہ کی شرط نہ پائے جانے کیو جہ سے باطل ہو جائےگی ،تا کہ دین کی بیع دین کے ساتھ لازم نہ آئے ۔اور قبضہ اتحادِ جنس اور اختلاف ِ جنس دونوں صورتوں میں شرط ہے۔

علامہ ابو الحسن السغدی الحنفی لکھتے ہیں:

فأما إذا کان الجنسان مختلفین کالذهب بالفضة والفضة بالذهب فلا تجوز فیه ثلاثة أشیاء:١۔ النسیئة ٢۔ والخیار ٣۔ والافتراق قبل القبض. وأما إذا کان أحدهما أکثر من الآخر جاز ذلک وسواء أکان مع أحدهما عرضا ولم یکن10.

ترجمہ:جب تبادلہ مختلف الاجناس سے ہو ،جیسا کہ سونے کا تبادلہ چاندی سے کیا جا ئے اور چاندی کا تبادلہ سونے سے کیا جا ئے تو اس میں تین اشیا ناجائز ہیں ١۔ ادھار جائز نہیں ہے ۔۲۔خیار جائز نہیں ہے۔۳۔ احد البدلین پر قبضہ کر نے سے پہلے جدا ہو نا جا ئز نہیں ہے ۔

۲۔دوسری شرط اتحاد جنس

التماثل عند اتحاد الجنس: إذا بیع الجنس بالجنس کفضة بفضة أو ذهب بذهب فلا یجوز إلا مثلاً بمثل وزناً وإن اختلفا فی الجودة والصیاغة بأن یکون أحدهما أجود من الآخر أو أحسن صیاغة لقوله صلي الله عليه وسلم فی الحدیث السابق: الذهب بالذهب مثلاً بمثل أی یباع الذهب بالذهب مثلا مثل فی القدر، لا فی الصفة، للقاعدة الشرعیة: جیدها وردیئها سواء11.

خلاصہ: اتحادِ جنس میں برابری ضروری ہے چاہے چاندی ہو یا سونا ،لیکن عمدہ اور ادنی کا اس میں کوئی فرق نہیں ہے سب برابر ہے۔ اس حدیث کی وجہ سے جس کی تشریح گذر چکی ہے۔

علامہ ابو الحسن السغدی الحنفی لکھتے ہیں :

فأما إذا کان الجنسان متفقین مثل الذهب بالذهب والفضة بالفضة فإن ذلک أیضا علی وجهین: أحدهما أن یکون الجنس بالجنس من غیر أن یکون مع أحد الجنسین عرض مثل الذهب بالذهب والفضة بالفضة مفردین فإنه لا یجوز فیه خمسة أشیاء: ١۔التفاضل ٢۔والنسیئة ٣۔والخیار ٤۔والجهالة ٥۔والافتراق قبل القبض والجهالة أن لا یعلما أیهما أکثر. وإذا کانَ مع أحد الجنسین عرض مثل الخاتم فیه فضة ....فإذا اشتری خاتما فیه فضة فإنه لَایجوز فی ذلک ستة أشیاء: أحدهما أن تکون الفضة أقل من فضة الخاتم. والثانی أن تکون مثل فضة الخاتم لأن الفضة یکون فیه ربا.والثالث الجهالة أن لا یعلم أ فضة الخاتم أکثر أم الفضة الأخری. والرابع الخیار فیه لا یجوز. والخامس النسیئة فیه لا تجوز. والسادس الافتراق قبل الافتراق لا یجوز12.

ترجمہ: اگرتبادلہ ایک جنس کے ساتھ ہے تو اس میں پانچ اشیاء ناجائز ہیں (١)تفاضل جائز نہیں ہے۔ (٢)ادھار جا ئز نہیں ہے۔(٣) کوئی خیار جائز نہیں ہے۔(٤) کسی بھی قسم کی جہالت جائز نہیں ہے ۔(٥)اتحاد جنس کے ساتھ تبادلے کے وقت احد البدلین پر قبضہ کرنے سے پہلے الگ ہو نا جا ئز نہیں ہے۔اور اگر تبادلہ کے وقت دو اجناس میں سے ایک جنس عرض یعنی سامان ہو تو مثلاً کسی نے چاندی خریدی اور اس میںنگینہ بھی ہے تو اس میں چھ اشیاء ناجائز ہیں،۱۔انگوٹھی کی چاندی سے اصل چاندی کا وزن میں کم ہو نا ۔۲۔انگو ٹھی کی چاندی برابر ہو ،کیونکہ نگینہ اس میں زیادہ ہے۔۳۔ جہالت ناجائز ہے کیونکہ معلوم نہیںانگوٹھی کی چاندی زیادہ ہے یا دوسری چاندی زیادہ ہے۔ ۴۔ خیار جا ئز نہیں ہے۔۵۔ادھار جائز نہیں ہے۔۶۔ قبضہ کرنے سے پہلے جدا ہونا جا ئز نہیں۔

٣۔تیسری شرط: خیارِ شرط نہ ہو

أن یکون العقد باتا أو ألا یکون فیه خیار شرط: لا یجوز فی عقد الصرف اشتراط الخیار لکل من المتعاقدین أو لأحدهما، لأن القبض فی هذا العقد شرط وخیار الشرط یمنع ثبو ت الملک أو تمامه الخ والخیار یخل بالقبض المشروط: وهو القبض الذی یحصل به التعیین، فلو شرط هذا لخیار فسد العقد۔ ولو أسقط صاحب الخیار خیاره فی المجلس ثم افترق المتعاقدان عن تقابض ینقلب العقد إلی الجواز خلا فا لزفر، فاذا بقی حتی افترقا تقرر الفساد۔ هذا بخلاف خیار الرؤیة والعیب، فان کلاً منهما لا یمنع ثبوت الملک فی المبیع، فلا یمنع تمام القبض، فلو افترق العاقدان، و فی الصرف خیا ر عیب أو رؤیة جاز إلا أنه لا یجوز فی بیع النقد وسائر الدیون خیار رؤیة لأن العقد ینعقد علی مثلها لاعینها 13.

ترجمہ: خیار ِشرط عقدِصرف میں اسلئے جائز نہیں کہ یہ شرط قبضہ میں مخل بنتا ہے،بخلاف خیارِ عیب اور خیار ِ رؤیت کے یہ دونوں مبیع میں ثبوتِ ملک اور قبضہ کے تام ہو نے میں مخل نہیں بنتے ہیں۔ اگر متعاقدان خیار عیب اور خیار ِ رؤیت بیع صرف میں لیکر اور عوضین پر قبضہ کئے بغیر جدا ہو گئے تو یہ جائز ہے ،لیکن نقد کوبیچنے اورتمام دیون میں خیارِ رؤیت جائز نہیں ہے کیو نکہ ان میں بیع مثل پر منعقد ہوتی ہے نہ کہ عین پر ۔

٤۔چوتھی شرط: ادھار نہ ہو

التنجیز فی العقد أو أن لا یکون فیه أجل: یشترط أن یکون عقدا لصرف خالیاً عن الأجل لکل من المتعاقدین أو لأحدهما وإلا فسد الصرف لأن قبض البدلین مستحق قبل الافتراق، والأجل یؤخر القبض فیفسد العقد فإن أبطل صاحب الأجل أجله قبل الافتراق ونفذ ما علیه ثم افترقا عن تقابض ینقلب العقد جائزاً 14.

ترجمہ: متعاقدین کی جانب سے اس میں کسی بھی قسم کی تأجیل کی شرط لگائی نہ گئی ہو،ورنہ عقد ِ صرف باطل ہوجائیگا،کیونکہ بدلین پر قبضہ دونوں کے جدا ہو نے سے پہلے لازمی ہے اور تأجیل قبضہ کو مؤخر کردیتی ہے۔اگر تأجیل متعین کرنے والے نے علیحد گی اختیار کر نے سے پہلے تأجیل کی شرط ختم کردی، تو یہ عقدجواز میں تبدیل ہوجائیگی۔

احادیث سے صرف کی شرائط کااثبات

اگر قبضہ ایک جانب سے ہو تو مساوات اور برابری کی قید مفقود ہو جائےگی ،جیساکہ مندرجہ ذیل احادیث سے یہ بات ثابت ہے اور ،جس طرح علامہ علی احمد آلوس بھی اپنی کتا ب میں اس بار ے میں لکھتے ہیں:

فمنها قبض البدلین قبل الافتراق لقوله عليه السلام فی الحدیث المشهور عن عبادة بن الصامت رضی الله عنه عن الرسول صلي الله عليه وسلم أنه قال: الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلاَ بمثلِ سواء بسواء یدا بید، فإذا اختلفت هذه الأصناف فبیعوا إذا شئتم إذا کان یدا بید۔ وما رواه أبو سعید الخدری رضي الله عنه عن الرسول صلي الله عليه وسلم أنه قال: لاتبیعوا الذهب بالذهب إلا مثلاً بمثل، ولا تشفعوا بعضها علی بعض، ولا تبیعوا الورق بالورق إلا مثلاً بمثلِ ولا تشفعوا بعضها علی بعضِ، ولا تبیعوا منها غائباً بناجز وما رواه أبوبکرة رضي الله عنه قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن الفضة بالفضة والذهب بالذهب إلاسواء بسواء، وأمرنا أن نشتری الفضة بالذهب کیف شئنا، ونشتری الذهب بالفضة کیف شئنا۔ وما روی عن عمر بن الخطاب رضی الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ: الذهب بالورق رباً إلا هاء وهاء۔ وعن أ بی ھریرة رضی الله عنه أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال :الدینار بالدینار لا فضل بینهما والدرهم بالدرهم لا فضل بینهما 15.

ترجمہ: بدلین پر افتراق سے پہلے قبضہ کرنا ضروری ہے ،آپ ؐ کی مشہور احادیث کی وجہ سے ایک ہی جنس ہو نے کی وجہ سے بیع صرف کا معاملہ کرنے کے وقت مماثلت اورقبضہ ضروری ہے ۔خیار ِشرط اور ادھار دونوںجائز نہیں ہیں۔

علامہ ابنِ نجیم صرف کے شرائط کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ چار ہیں:

الأول قبض البدلین قبل الافتراق بالأبدان، والثانی أن یکون باتا لاخیار فيه فإن شرط فیه خیار وأبطله صاحبه قبل التفرق صح وبعده لا، وأما خیار العیب فثابت فیه، وأما خیار الرؤیة فثابت فی العین دون الدین، إذا رده بعیب انفسخ العقد سواء رده فی المجلس أو بعده وإن کان دینا فردها فی المجلس لم ینفسخ، فإذا رد بدله بقی الصرف وإن رد بعد الافتراق بطل، الثالث أن لا یکون بدل الصرف مؤجلاً فإن أ بطل صاحب الأجل الأجل قبل التفرق ونقد ما علیه ثم افترقا عن قبض من الجانبین انقلب جائزا وبعد التفرق لا، الرابع التساوی فی الوزن إن کان المعقود علیه من جنس واحد فإن تبایعا ذبا بذهب أو فضة بفضة مجازفة لم یجز فإن علما التساوی فی المجلس وتفرقا عن قبض صح، وکذا لو اقتسما الجنس مجازفة لم یجز إلا إذا علم التساوی فی المجلس لأن القسمة کالبیع ...الخ 16.

ترجمہ:بیع صرف کی چار شرائط ہیں:پہلی شرط :جسماً مجلس سے اٹھنے سے پہلے بدلین پر قبضہ ضروری ہے۔ دوسری شرط: بیع یقینی ہو اس میں کوئی اختیا ر نہ ہو ۔ عاقدین میں سے کسی ایک نے جدا ہو نے سے پہلے بیع صرف کو ختم کردیا تو بیع صرف ختم ہو جائیگی اور اگر جدا ہونے کے بعد بیع صرف ختم کی تو اس صورت میں بیع ختم نہ ہو گی ،لیکن خیارِ رؤیت اعیان میں تو معتبر ہو گا اس عین میںاگر عیب پا ئی گئی اور اس وجہ سے واپس کیا تو بیع صرف ختم ہو جائیگی، چاہے وہ چیز مجلس میں واپس کی جائے یا بعد میں ۔اگر مبیع دین ہو اور عیب کی وجہ سے مجلس میں واپس کی گئی تو بیع صرف ختم نہ ہو گی ۔ تیسری شرط: اس میں ادھار منع ہے ۔ چوتھی شرط: وزن میں برابر ہو۔

علامہ حصکفیؒ بیع صرف کی شرائط کے بارے میں لکھتے ہیں:

ویشترط عدم التأجیل والخیار والتماثل أی التساوی وزناً والتقابض بالبراجم لا بالتخلیة قبل الافتراق وهو شرط بقائه صحیحاً علی الصحیح 17.

ترجمہ: اس میں یعنی بیع صرف میں چار شرائط ہیں: اول: بیع صرف میں ادھار نہ ہو ۔ دوئم: خیار نہ ہو۔سوئم: وزناًمماثلت اور برابری ہو۔چہارم: دونوں بدلین پر" تقابض فی المجلس" ہو۔

صاحبِ ہدایہ بیع صرف کی شرائط کے بارے میں لکھتے ہیں:

ولابد من قبض العوضین قبل الافتراق لما روینا ولقول عمر رضي الله عنه: وإن استنظرک أن یدخل بیته فلا تنظره، ولأنه لابد من قبض أحدهما لیخرج العقد عن الکالئ باالکالئ ثم لابد من قبض الآخر تحقیقا للمساواة فلا یتحقق الربا....الخ 18.

ترجمہ: بیع صرف میں مجلس ختم ہونے سے پہلے عوضین پر قبضہ کر نا ضروری ہے ،جیسا کہ حضرت عمر ؒ کی حدیث کہ بیع صرف کے وقت کوئی آپ سے گھر میں داخل ہو نے کی مہلت مانگے تو اتنی مہلت بھی کسی کو مت دو،اس وجہ سے دو بدلین میں سے کسی ایک پر قبضہ کر نا ضروری ہے ،تاکہ عقد بیع الکالی بالکالی سے نکل جائے۔ برابری پیدا کرنے کیلئے کسی ایک بدل پر قبضہ کرنا ضروری ہے تا کہ سود اس میں نہ پائی جائے ۔

علامہ عبد الو ھاب المالکی التلقین فی الفقه المالکی میں لکھتے ہیں :

ویجوز اقتضاء الذهب من الورق والورث من الذهب إذا حلا وتطارحا صرفاً ولا یجوز فی الذهب بالذهب ولا الفضة بالفضة أن یکون مع أحدهما یره قلیلاً کان أو کثیراً۔ وکذلک کل جنس فیه الربا فلا یجوز إذا بیع بجنسه أن یکون مع الجنسین أو مع أحدهما غیره کان ذلک الغیر مما فیه الربا أو مما لا ربا فیه ولا یجوز دینا ذهب عال ودینار دون بدینارین ویجوز وسط بدل الدینار الناقص بالوزن علی وجه المعروف والرفق یدا بید19.

اثمان میں خلافِ جنس کی صورت میں جس طرح چا ہو بیع درست ہے ،لیکن ایک جنس ہونے کی صورت میں چاہے قلیل مقدار ہو یا کثیر دونوں صورتوں بیع صرف ربا پائے جا نے کی وجہ سے ناجائز ہو گی ،اسلئے بیع صرف میں معاملہ ہاتھوں ہاتھ کرنا ضروری ہے ۔

مفتی تقی عثمانی صرف کے شرائط کے با رے میں لکھتے ہیں،

ویجب التقابض فی المجلس لکونه صرفاً یجب أن یکون التقابض فی الصرف بالقبض الحسی، ولا تنوب عنه التخلیة،کما تنوب عنه فی غیر الصرف۔ لا یجوز خیار الشرط فی الصرف20.

ترجمہ:بیعِ صرف ہونے کی بناء پر مجلس میںقبضہ حسی کرنا ضروری ہے۔تخلیہ کو اس کا قائم مقا م نہیں بنایا جا سکتا ہے جس طرح دوسری بیوعات میں ہوتاہے۔اور خیار بھی بیعِ صرف میں جائز نہیں ہے۔

کا ٖغذی نوٹ میں صرف کاحکم

النقود الورقیة لا یجوز مبادلتها بالتفاضل أو النسیئة فی جنس واحد، فلا یجوز بیع ربیة واحدة بربیتین، أو بیع ربیة بربیة مؤجلة فإنه رباً۔ أما إذا ختلف جنسهما مثل أن تباع الربیات الباکستانیة بالریالات السعودیة فیجوز فیها التفاضل، ویجوز فیه النسیئة بشرط أن یقبض أحد العاقدین ما اشتراه وإن کا ن الآخر مؤجلاً، وبشرط أن یکون التبادل بسعرِ یوم العقد.دارالسلام ودار الحرب سواء فی حرمة الربوا۔21

ترجمہ:ایک ہی جنس کی کرنسی کا تبادلہ کمی بیشی کے سا تھ جائز نہیں ہے ،البتہ اگر مختلف الأجناس کی کرنسی ہے تو پھر اس صورت میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنے میں شرعاً کوئی حر ج نہیں ہے ،مثلاً پاکستا نی روپیہ ہو اور سعودی کے ریال کے سا تھ کمی بیشی کے سا تھ بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور بیچنے کی صورت میں اگر متعاقدین میں سے کسی ایک نے ایک طرفہ قبضہ کر لیا تو اس میں ادھا ر بیچنے میں تبادلے کے دن کی قیمت مقرر کرکے بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

قبضہ و ملکیت میں آنے سے پہلے کوئی بھی معاملہ درست نہیں ہو سکتا ہے اس لیے قبضہ کی حقیقت کو مندرجہ ذیل میں بیا ن کیا جا رہا ہے۔اور قبضہ کی حقیت جاننا اسلئے بھی ضروری ہے کہ صرف میں قبضہ کئے بغیر عاقدین جدا ہوگئے تو معاملہ کا سود کی طرف جانا کا بھی امکان ہے۔

عصرِ حاضر میں کارڈز کے ذریعے لین دَین کی صورت میں "بیع صرف" اور اس کی عملی تطبیق

علامہ خالد سیف اللہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ بیرونِ ملک کارڈ سے استفادہ کرنے کی صورت میں کارڈ ہولڈر مقامی کرنسی میں تاجر وغیرہ سے معاملہ کرتا ہے ،اس کو بینک اداکرتا ہے اور عالمی کارڈ کا ادارہ ڈالر میں رقم وصول کرتا ہے ، اس طرح یہ ایک کرنسی کی دوسری کرنسی سے خریدوفروخت ہوئی ، جس کو بیع صرف کہتے ہیں22 ۔

حواشی وحوالہ جات

۱۔ الزحیلی، ڈاکٹروہبۃ ، مکتبہ حقانیہ پشاور،الفقہ الاسلامی وادلتہ ۵/۳۶۵۹

۲۔السمر قندی، محمد بن احمد بن احمد ابو بکر علا ء الدین ( المتوفی: ٥٤٠ھ)بیروت لبنانالطبعۃ الثانیۃ ١٤١٤ھ، ١٤٩٤م،تحفۃ الفقھاء ۱/۲۷

۳۔الحصکفی، محمد بن علی بن محمد الحصنی المعروف بعلاء الدین (المتوفی:١٠٨٨ھ) دارالکتب العلمیۃ الطبعۃ الأولی١٤٢٣ھ٢٠٠٢م،الدر المختار ۱/۴۴۶

۴۔الکاسانی، علاء الدین ابو بکر بن مسعود بن احمد (المتوفی:٥٨٧ھ) دارالکتب العلمیۃ الطبعۃالثانیۃ١٤٠٦ھ١٩٨٦م،بدائع الصنائع ۵/۲۱۵

۵۔ المرغینانی، علی بن ابی بکر بن عبد الجلیل (المتوفی:٥٩٣ھ)دار احیا ء التراث العربی بیروت لبنان ،الہدایۃ فی شرح البدایۃ المبتدی ۶/۸۱، ۲۶۱

۶۔زین الدین بن ابراہیم بن محمد (المتو فی :٩٧٠ھ)دارالکتاب الاسلامی ،البحر الرائق شرح کنز الدقائق ۶/۲۱۰

۷۔ عثمانی، مفتی محمدتقی ،مکتبہ معارف القرآن کراچی پاکستان ،فقہ البیو ع ۱/۱۱۷۵

۸۔ الشربینی، شمس الدین محمد بن احمد الخطیب ( المتوفی: ٩٧٧ھ) دار الکتب العلمیۃ الطبعۃ الالی ، ١٤١٥ھ١٩٩٤م،مغنی المحتا ج ۲/۳۶۸

۹۔ الزحیلی، ڈاکٹروہبۃ ، مکتبہ حقانیہ پشاور، الفقہ الاسلامی وادلتہ ۵/۳۶۶۰

۱۰۔ السغدی،ابوالحسن علی بن الحسین بن محمد (المتوفی: ٤٦١ھ) دار الفرقان بیروت لبنان،الطبعۃ الثانیۃ١٩٨٤م١٤٠٤ھ، النتف فی الفتاوی ۱/۴۹۲

۱۱۔ الزحیلی، ڈاکٹروہبۃ ،مکتبہ حقانیہ پشاور،الفقہ الاسلامی وادلتہ ۵/۳۶۶۰

۱۲۔ السغدی، ابو الحسن علی بن الحسین بن محمد (المتوفی: ٤٦١ھ)دار الفرقان / مؤسسۃ الرسالۃ - عمان الأردن / بیروت ، لبنان،الطبعۃ: الثانیۃ، ١٩٨٤م۔١٤٠٤ھ، النتف فی الفتاوی ۱/٤٩٢

۱۳۔ الزحیلی، ڈاکٹروہبۃ ، مکتبہ حقانیہ ،پشاور،الفقہ الاسلامی و ادلتہ۵/٣٦٦٠

۱۴۔ الزحیلی، ڈاکٹروہبۃ ، مکتبہ حقانیہ ،پشاور،الفقہ الاسلامی و ادلتہ۵/٣٦٦٠ ،۳۶۱

۱۵۔ السالوس،علی احمد، دارالثقافۃ الدوحۃ ،مؤسسۃ العیان للطباعۃ والنشر والتوزیع،الاقتصاد الاسلامی و القضایاالفقھیۃ المعاصرۃ ٥٠٣،٥٠٤

۱۶۔ ابن نجیم، زین الدین بن ابراہیم بن محمد (المتوفی : ٩٧٠ھ) دا رلکتا ب الاسلامی ،البحر الرائق شرح کنز الدقائق ۶/۲۰۹

۱۷۔ الحصکفی، محمد بن علی بن محمد الحصنی المعروف بعلاء الدین (المتوفی:١٠٨٨ھ) دارالکتب العلمیۃ ١٤٢٣ھ٢٠٠٢م ، الدر المختار ۱/۴۴۶

۱۸۔ المرغینانی، علی بن ابی بکر بن عبد الجلیلالفرغانی (المتوفی:٥٩٣ھ) دار احیا ء التراث العربی بیروت لبنان، الھدایۃ فی شرح البدایۃ المبتدی ۳/۸۱

۱۹۔ الثعلبی، ابومحمد عبد الوھاب بن علی بن نصر (المتوفی:٤٢٢ھ) دار الکتب العلمیۃ ،الطبعۃ : الأولی ١٤٢٥ھ/٢٠٠٤م،التلقین فی الفقہ المالکی ۲/۱۴۹

۲۰۔ العثمانی، محمد تقی ،مکتبہ معارف القرآن کراچی پاکستان،فقہ البیوع ۲/۱۱۷۵ ،۱۱۷۶

۲۱۔ العثمانی، محمد تقی ،مکتبہ معارف القرآن کراچی پاکستان،فقہ البیوع ۲/۱۱۷۵ ،۱۱۷۶

۲۲۔ رحمانی، مولانا خالد سیف اللہ ۔جدید مالیاتی ادارے فقہ کی روشنی میں،ص: ٣٦ ، ۔ناشر: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند،سہارنپور،یوپی

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...