Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 28 Issue 1 of Al-Idah

آپریشن (سرجری) کا شرعی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

28

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060034497_402

Pages

114-129

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/306/244

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/306

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام محض عقائدو عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات اور دینِ فطرت ہے ۔ اس کے احکام کسی ایک شعبۂ زندگی سے متعلق نہیں ،بلکہ انسانی زندگی سے متعلق تمام شعبہ جا ت کو شامل اور فطرت کے عین مطابق ہیں۔گزرتے زمانے کے ساتھ نت نئے مسائل پیش آتے رہیں ،مگرکوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل شریعتِ اسلامی میں موجود نہ ہو۔فقہا ء نے اجتہاد کی مدد سے نئے پیش آنے والےمسائل کا حل بیان کیا۔

انہی جدید مسائل میں سے ایک آپریشن (سرجری) کے ذریعے علاج بھی ہے ۔آپریشن (سرجری) کو عربی میں الجراحۃ کہاجاتا ہے۔جو عصر حاضر میں مختلف امراض کا بہترین علاج ہے۔

الجراحۃ کے لغوی معنیٰ:

الجراحۃ عربی لغت میں دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے :

(الف) باب فتح سے اسلحہ سے لگنے والے زخم کو کہاجاتا ہے ۔اس کی جمع جراحات اور جرح آتی ہے[1]۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا " العجماء جرحها جبار[2] ‘‘جانوروں کے زخمی کرنے کا تاوان نہیں ہے’’

(ب) زبان کے طعن کے لئے بھی جرح کا لفظ استعمال ہوا ہے : مثلا

جراحات السنان لها التئام ... ولا يلتام ما جرح اللّسان

وجرح السيف تأسوه فيبرا ... وجرح الدهر ما جرح اللسان[3]

’’نیزوں سے لگے زخموں کے لئےبھرناہے ،مگر زبان سے لگے زخم کبھی نہیں بھرتےاور تلوار کے لگائے زخم مندمل ہوجاتے ہیں ،مگر زبان کے زخم ہمیشہ ہرے رہتے ہیں‘‘

یہاں لفظ ِ الجراحۃ کا پہلے معنیٰ میں استعمال زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس میں آلات سے زخمی کرنے کے معنیٰ پائے جاتےہیں اور دوسرا معنیٰ بطور ِ مجازمستعمل ہے۔

الجراحۃ کے اصطلاحی معنیٰ:

اصطلاح میں الجراحۃ (Surgery)کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

Surgery is an ancient medical specialty that uses operative manual and instrumental techniques on a patient to investigate and/or treat a pathological condition such as disease or injury, or to help improve bodily function or appearance. [4]

آپریشن (سرجری) کی شرعی حیثیت:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا [5]

‘‘اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا ’’

اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں محمد بن جریر الطبری[6]نے سیدنا ابن عبا س ؓ [7]اور سیدنا ابن مسعودؓ[8]کا یہ قول نقل کیا ہے:ومن أحياها، فاستنقذها من هلكة فكأنما أحيى الناس جميعًا عند المستنقَذ ‘‘جس نے زندہ کیا یعنی جس نے انسانی جان کو ہلاکت سے بچایا گویا اس نےتمام نوعِ انسانی کو ہلاکت سے بچایا’’ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی جان کو بچانے کی تعریف کی ہےاور آپریشن انسانی جان کو ہلاکت سے بچاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد آپریشن کے جواز پر دلیل ہے۔

سیدنا ابو ہریرۃؓ [9]سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :الفطرة خمس: الختان والاستحدادوقص الشارب وتقليم الأظفار ونتف الآباط[10]‘‘پانچ چیزیں فطرت ہیں: ختنہ کرنا ،زیر ناف بال مونڈھنا،مونچھیں کتروانا،ناخن کاٹنا اور بغل کے بال اکھیڑنا ’’ رسول اللہ ﷺ نے ختنے کو مشروع بلکہ فطرت قرار دیا اور ختنہ بھی آپریشن کی ایک قسم ہے۔

سیدنا ابن عباس ﷺ سے مروی ہے: ’’احتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو محرم[11]‘‘’’رسول اللہ ﷺ نے حالتِ احرام میں پچھنہ لگایا‘‘

سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے : بعث النبي صلى الله عليه وسلم إلى أبي طبيبا فقطع منه عرقا[12]‘‘رسول اللہ ﷺ نے میرے باپ کے پاس طبیب بھیجا،جس نے ان کے رگ کو کاٹا’’

بدن سےعلاج کی غرض سے خون نکالنا حجامہ کہلایاجاتا ہے ۔یہ آپریشن کی ایک صورت ہے۔ اس طرح شہہ رگ کو کاٹنا بھی آپریشن ہے ۔دونوں صورتوں کو رسول اللہ ﷺ نے مشروع قراردیا ہے۔

آپریشن کے انعقادکے شروط:

آپریشن سے بسا اوقات انسانی جان یا اعضاء کو ہلاکت سے بچایا جاتا ہے اس لئے شریعتِ اسلامی نے انسانی فائدے اور الضرر یزال[13](ضرر کو زائل کیا جائے گا)کے قاعدے کو مدنظر رکھ کر آپریشن کی نہ تو مطلقاً اجازت دی اور نہ مطلقاًحرام قرار دیا،بلکہ بعض شروط کے ساتھ اس کی اجازت دی ۔

آپریشن کے شروط میں سے ایک شرط شارع کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ،جب کہ دو شرائط ڈاکٹر(سرجن)،دومریض اور تین نتیجے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں:

پہلی شرط: آپریشن مشروع ہو یعنی شارع کی جانب سے اس کی اجازت ہو کیو نکہ جسمِ انسانی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس میں تصرف کا حق صرف اس کی اجازت سے جائز ہے۔اگر کسی حرام مقصد کے لئے آپریشن ہو(جن کا بیان آگے آ رہا ہے) ،تو اس آپریشن کا کرنا اور کرانا دونوں حرام ہے۔

دوسری شرط: سرجن میں یہ اہلیت موجود ہو کہ آپریشن صحیح طریقے سے کر سکے ۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :من تطبب، ولا يعلم منه طب، فهو ضامن[14](معروف طبیب کے علاوہ ،جس کسی نے کسی کا علاج کیا ،تو (نقصان کی صورت میں)وہ ضامن ہوگا)سیدنا عمرؓ نے فرمایا :من وضع يَده من المتطببين فِي علاج أحد فَهُوَ ضَامِن إِلَّا أَن يكون طَبِيبا مَعْرُوفا[15](طبیب معروف کے علاوہ جو کوئی کسی کا علاج کرے گا ،تو (نقصان کی صورت میں) وہ ضامن ہوگا)جب کہ بدایۃ المجتہد میں فن سے ناواقف طبیب کے متعلق کہا گیا ہے:وإن لم يكن من أهل المعرفة فعليه الضرب، والسجن، والدية[16](اگر طبیب فن طب سے واقف نہ ہو تو سرزنش ہوگی اور قید کی سزا اور دیت واجب ہوگی)۔ ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ سرجن میں آپریشن کے لئے مطلوبہ اہلیت کا ہونا ضروری ہے،ورنہ شرعا ایسے ڈاکٹر سے آپریشن کرانا جائز نہیں ہوگا۔

تیسری شرط: سرجن کو آپریشن کی کامیابی کا ظن غالب ہویعنی آپریشن کی ناکامی سے زیادہ کامیابی کا گمان ہوجیسے فتاویٰ قاضی خان میں ہے :إن كان الغالب على من قطع مثل ذلك الهلاك فإنه لا يفعل لأنه تعريض النفس للهلاك وإن كان الغالب هو النجاة فهو في سعة من ذلك[17](اگر اس جیسے قطع سے جان خطرے میں آجاتی ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے اور اگر غالب گمان صحیح ہونے کا ہو ،تو اس کے لئے اس میں گنجائش ہے) ،اور فتاویٰ ہندیہ میں ہے: إن قيل قد ينجو وقد يموت أو ينجو ولا يموت يعالج وإن قيل لا ينجو أصلا لا يداوى بل يترك كذا[18](اگر کہا گیا کہ ممکن ہے بچ جائے اور ممکن ہے مر جائے یا مرے گا نہیں بلکہ نجات پائے گا،تو علاج کیا جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ بچنے کی کوئی صورت نہیں ،تو علاج نہیں کیا جائے گا)اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپریشن کی کامیابی کا غالب گمان نہ ہو،تو آپریشن کرنا جائز نہیں۔

چوتھی شرط : مریض آپریشن کا محتاج ہو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعتِ اسلامی نے انسانی جسم کے زخمی کرنے کو حرام قرار دیا ہےاور کسی انسان کو زخمی کرنے کو قابلِ سزا جرم قرار دیا ارشادِ ربانی ہے:وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ[19]( سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے)،مگر جب اس میں انسان کو ضرر و نقصان سے بچانا مقصود ہو اور خود انسان اس کا محتاج ہو ،تو اس صورت میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔

پانچویں شرط : مریض آپریشن کی اجازت دیں اور اگر مریض اس قابل نہ ہو ،تو اس کا ولی اجازت دیں،جیسے فتاویٰ قاضی خان میں ہے:و لو فعل ذلك غير الأب و الأم فهلك كان ضامنا لعدم الولاية[20](اگر یہ کام باپ یا ماں کے علاوہ کسی نے کیا ،تو ولایت نہ ہونے کی وجہ سے ضامن ہوگا)، اسی طرح علامہ ابن قدامہ[21]فرماتے ہیں: وإن ختن صبيًا بغير إذن وليه، أو قطع سلعة من إنسان بغير إذن أو من صبي بغير إذن وليه فسرت جنايته ضمن[22](اگر بچے کا ختنہ اس کے ولی کی اجازت کے بغیر کیا یا کسی انسان سے ،اس کی اجازت کے بغیر ٹکڑا کاٹا،تو نقصان کی صورت میں ضامن ہوگا)،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض کی اجازت شرط ہے کیونکہ بغیر اجازت آپریشن کرنے والا سرجن ہلاکت کی صورت میں جنایت کرنے والا ہوگا۔

چھٹی شرط: موجودہ مرض کا آپریشن سے کم کوئی علاج نہ ہو،تو ایسا علاج جو تکلیف و ضرر میں موجودہ مرض کے برابر یا اس سے زیادہ ہو،فقہی قاعدےالضرر لا یزال بمثله(کسی ضرر کا ازالہ اس کے مثل ضرر سے نہیں کیا جائیگا)سے ایسا علاج و آپریشن نا جائز ہوگا۔اس قاعدے سے مراد یہ ہے کہ بڑے مصیبت و تکلیف کو اس سے کم کے ذریعے دفع کیا جا ئے گا[23]۔

ساتویں شرط: آپریشن سے مطلوبہ فائدہ حاصل ہو یعنی مریض کو افاقہ ہو، اگر ایسا نہیں تو یہ محض مریض کو تکلیف پہنچانا ہوگا اور حدیث مبارک لا ضرر ولا ضرار[24](نہ ضرر پہنچے اور نہ ضرر پہنچایا جائے)کی رو سے ناجائز ہوگا۔

آٹھویں شرط: آپریشن سے انسان کو کوئی اور ایسا ضرر نہ پہنچے جو تکلیف ومشقت میں موجودہ مرض سے زیادہ ہو،اگر ایسا ہو تو پھر آپریشن اذا تعارضت مفسدتان روعی أعظمهما ضرراً بارتکاب اخفهما(جب دو خرابیوں میں مبتلا ہو جائے ،تو ان میں آسان کواختیار کیا جائے)یعنی إذا تقابل مكروهان أو محظوران أو ضرران، ولم يمكن الخروج عنهما، وجب ارتكاب أخفهما(جب دو ممنوع چیزیں یا دو ضرر درپیش ہو اور ان سے خلاصی نہ ہو ،تو آسان کو اختیار کیا جائے )سے ناجائزہوگا[25]۔

آپریشن کی اقسام :

آپریشن(سرجری) کی کئی اقسام ہیں ،جن میں بعض خود مریض کی جان یا اعضاءکے تحفظ کےساتھ تعلق رکھتی ہیں اور بعض مریض کے جان کے ساتھ دوسرے انسانی جان کے تحفظ سے بھی تعلق رکھتی ہیں،جب کہ بعض صورتوں میں اگرچہ انسانی جان یا اعضاء کی تحفظ مقصود نہیں ہوتی ،مگر شریعت کے حکم کی وجہ سےیہ سرجری کی جاتی ہے۔اسی طرح بعض صورتوں میں محض حسن و جمال کے حصول کے لئے سرجری کی جاتی ہے ۔

ان اقسام میں سب سے ضروری وہ قسم ہے جس میں انسانی جان یا اعضاء کو ہلاکت سے بچانا مقصود ہوتا ہے اس لئے سب سے پہلے اس کو ذکر کیا جائے گا۔

(۱)جراحت برائے علاج: Operation)):

آپریشن کا اصل مقصد انسانی جان کا تحفظ اور انسان کو تکلیف و ضرر سے بچانا ہے ،یہی وجہ ہے کہ طبیبوں کے نزدیک جراحۃ العلاجیۃ ہی جراحت کی بنیادی قسم ہےاور عام طور پر جراحت (آپریشن) کا اطلاق اسی قسم پر ہوتا ہے۔

اس قسم کے آپریشن میں اگر ایسےمرض کا علاج ہو، جو انسان کی موت کا سبب بنے اور مریض ایسی حالت کو پہنچا ہوتا ہے کہ اگر آپریشن نہ کیا جائے تو اس کی موت واقع ہوجا ئے گی ، جیسے دماغ کی رگ پھٹ جانے کے وقت خون کے بہاؤ کو روکنے کے لئے شہ رگ کو بند کرنا،یا دل کی شریان بند ہونے کی صور ت میں(CABG) ،تو اس قسم کے آپریشن کو الجراحۃ العلاجیۃ الضروریۃ کہا جاتا ہے ۔

اس آپریشن میں اصل مقصد انسانی جان کو بچانا ہوتا ہے اور انسانی جان کو بچانا مقاصد شرعیہ میں ہے ،جیسے امام غزالی فرماتے ہیں: مقصود الشرع من الخلق خمسة، وهو أن يحفظ عليهم دينهم، ونفسهم، وعقلهم، ونسلهم، ومالهم[26](مخلوق سےمقصود شرع پانچ ہیں:یہ کہ ان کے دین، جان، عقل،نسل اور مال کی حفاظت کی جائے)۔

دوسرا یہ کہ ایسی حالت کو پہنچنا کہ موت کا خوف غالب ہو،حالتِ اضطراری ہےاور ایسی حالت میں شرعاً ممنوعہ چیزیں بھی جائز ہوجاتی ہے کیونکہ قاعدہ ہے :الضروراة تبيح المحظوراتجس سے مراد یہ ہے کہ: إن الممنوع شرعاً يباح عند الحاجة الشديدة[27](جو کام شرعاً ممنوع ہیں ،وہ حاجت کے وقت مباح ہو جاتی ہے)۔

ایسی حالت میں سرجن پر بھی سرجری کرنا لازم ہے کیونکہ ہم پر انسانی جان کا تحفظ لازم کر دیا گیا ہے۔

اگر انسانی جان کو خطرہ نہ ہو ،بلکہ اعضاء کو نقصان سے بچانے یا تکلیف کو دور کرنے کے لئے آپریشن ہو،جیسے ایپنڈکس، گردے کی پتری،بواسیریا کینسر زدہ اعضاء کا کاٹنا ٍ،تو ان صورتوں میں ہونے والے آپریشن کا مقصد انسان کو درد و الم سے بچانا ہوتا ہے ۔ یہ آپریشن کی قدیم اقسام میں سےہے اور اس کی مثالیں کتب فقہ میں موجود ہیں،جیسے فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ولا بأس بقطع العضو ان وقعت فيها لاٰکلة لئلا إلى أعضاءأخرى ولمثانة اذا کانت فيها حصاۃ[28](اگر کسی عضو میں سڑن پیدا ہو جائے اور اس کے دوسرے اعضاء کی طرف سرایت کرنے کا ڈر ہو ،تو اسے کاٹنا جائز ہےاور اسی طرح مثانہ میں کنکری کے وقت اس کا چیرنا جائز ہے)، اسی طرح حجامہ کے متعلق وارد احادیث بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے

بعض اوقات حفظ ماتقدم کے طور پر سرجری کی جاتی ہے ،جیسے درد و تکلیف نہ ہو پھر بھی ایپنڈکس کا آپریشن کرنا ،تو اس صورت میں شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی کیونکہ درد کا مستقبل میں آنے کا احتمال ہے اور شریعت میں یقینی صحت کی صورت میں محض ظن سے خود کو تکلیف و ضرر میں مبتلا کرنا کسی صورت جائز نہیں کیونکہ قاعدہ ہے:اليقين لا يزول بالشك[29](یقین کو شک کے ذریعے زائل نہیں کیا جا سکتا)،لیکن جب فی الحال تکلیف ،تو نہ ہو مگر عام طور مرض کی نوعیت ایسی ہو کہ مستقبل میں درد و الم کا سبب بن سکتا ہو ،جیسے ناک میں گوشت کا ہونا (Turbinates) کہ جو وقت کے ساتھ بڑھ کر تکلیف و ضرر کا موجب ہوتا ہے یا آنکھ پر پردے کا آنا (Pterygium)جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہےاور اس کی وجہ سے بتدریج نظر میں کمی واقع ہوتی ہے،تو پھر آپریشن کرنا جائز ہے۔

(۲)جراحت برائے تشخیص امراض(Surgical Diagnosis):

جراحۃ الکشف میں کسی مرض کا علاج نہیں کیا جاتا ،بلکہ ڈاکٹر انسان کے جسم میں موجود کسی پوشیدہ مرض کی تشخیص کے لئے آپریشن کرتا ہے۔اس کے جواز اور عدم جوز میں بھی وہی قواعد جاری ہوں گے جو جراحۃ العلاجیۃ میں جاری ہوئےکہ اگر ایسے مرض کی تشخیص کرنی ہو ،جو اعضاء کو ضرر پہنچاتا ہو یا شدید درد کا سبب بنتا ہو ، جیسے سرطان (Cancer) کہ جو وقت کے ساتھ اس عضو کے ساتھ دوسرے اعضاء میں سرایت کرکے انہیں ناکارہ بنانے کا موجب بنتا ہےاور اس مرض کے تشخیص کے لئے آپریشن کے علاوہ کو ئی طریقہ نہ ہو ،جیسے الٹراساؤنڈ ،ایکسرے وغیرہ،توایسے مرض کے تشخیص کے لئے آپریشن کرنا جائز ہے اور اس کے جواز کے لئے وہی دلائل ہوں گے جو جراحۃ العلاجیۃ کے لئے ہیں اور وہی شرائط بھی لاگو ہوں گے۔

(۳) جراحت برائے ختنہ: (Surgical Phimosiectomy)

جراحۃ الختان سرجری کہ وہ قسم ہے ،جس کو خود شریعت نے لازم قرار دیا ہے ۔اس میں اگرچہ کسی مرض کا علاج نہیں کیا جاتا،مگر شریعت کے حکم کی وجہ سے کیا جاتا ہے ،جیسے حدیث مبارک میں اس کو فطرت کہا گیا ہے:الفطرة خمس: الختان والاستحداد وقص الشارب وتقليم الأظفار ونتف الآباط[30](پانچ چیزیں فطرت ہیں: ختنہ کرنا ،زیر ناف بال مونڈھنا،مونچھیں کتروانا،ناخن کاٹنا اور بغل کے بال صاف کرنا) ۔

لڑکو ں کا ختنہ مسنون ہے اور اس کے لئے آخری عمر بارہ سال کا مقرر کیا گیا ہے ،جب کہ ختنہ کے لئے کم سےکم عمر وہ ہے کہ جب بچے میں اس کی تکلیف سہنے کی قوت پیدا ہواور لڑکیوں کا ختنہ مسنون نہیں[31]۔

ختنہ اگرچہ بطور علاج نہیں کیا جاتا مگر یہ مستقبل میں سرطان سے بچنے میں انتہائی مفید کردار ادا کرتا ہے ،اس لئے اس کو بھی حفظ ما تقدم کے طور پر کی جانے والی سرجری میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

(۴)جراحت برائے ولادت:Surgical Accouchment))

یہ آپریشن کی وہ قسم ہے ،جو دو انسانوں (ماں اور بچے )کی زندگی کے تحفظ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔آپریشن کے اس طریقے میں کبھی ماں اور بچے دونوں اور کبھی کسی ایک کی جا ن کو بچایا جاتا ہے ۔

جراحۃ الولادت(C-Section) آپریشن کے قدیم قسم ہے۔اس کے دلائل فقہ کی کتابوں میں بکثرت موجود ہے، جیسے تخفۃ الفقہاءمیں فرمایا گیا ہے:ولو أن حاملا ماتت وفي بطنها ولد يضطرب فإن كان غالب الظن أنه ولد حي وهو في مدة يعيش غالبا فإنه يشق بطنها لأن فيه إحياء الآدمي[32](اگر حاملہ عورت مر گئی اور اس کی پیٹ میں حرکت کرتا بچہ ہو اور غالب گمان بچے کے زندہ ہونے کا ہو ،تو اس کی پیٹ کو چیرا جائے گا کیونکہ اس میں انسان کی جان کو بچانا ہے) اور بعض نے اس قول کی نسبت امام ابو حنیفہؒ[33]کے طرف کی، جیسے الأشباہ میں آیا ہے:جواز شق بطن الميتة؛ لإخراج الولد إذا كانت ترجى حياته.وقد أمر به أبو حنيفة رحمه الله فعاش الولد[34](جب بچے کی زندگی کی امید ہو ،تو حاملہ عورت کے پیٹ کو چیرا جائے گا اور یہ حکم امام ابو حنیفہؒ نے دیا اور وہ بچہ زندہ رہا)۔

ماں کی زندگی کو خطرہ تب ہوتا ہے ،جب ولادت کے وقت بچے کو خون فراہم کرنے والے رگ(Placenta)بچہ دانی منہ پر آجاتےہیں ، اس حالت کو (Placentaprevia) کہا جاتا ہے ، یا ماں کو ولادت کے وقت جھٹکے شروع ہو، چاہے یہ جھٹکے پہلے سے ہو ہو یا ولادت کے وقت بلند پشار خون(Blood pressure) کی وجہ سے ہو،تو اس وقت بھی ماں کی جان کو خطرہ ہوتا ہے،اس حالت کو (Eclampsia) کہا جاتا ہے ۔

بچے کی زندگی تب خطرے میں ہوتی ہے کہ ایک سےزیادہ بچے ہوں ،یا ماں بچے کی ولادت سے پہلے مر جائے یا ناف(بچے کو خوراک و خون فراہم کرنے والا رگ) بچے کے گردن کے گرد لپیٹ جائے(Card around the neck)۔

ماں اور بچے کی جان کو کئی صورتوں میں خطرہ لاحق ہو تا ہے ،جیسے ولادت کے وقت عام طور پر بچے کا سر نیچے ہوتا ہے ،مگر جب بچے کے پاؤں نیچے ہو(Footting breech presentation) ،تواس کے پیدائش میں مشکل پیش آتی ہے ،جس سے ماں اور بچے دونوں کی زندگیاں خطرے میں آجاتی ہے ،اسی طرح عام حالات میں بچہ سیدھا (طولاً)ہوتا ہے ،مگر جب وہ سیدھا نہیں رہتا بلکہ عرضاًہوتا ہے(Transverse lie)،تو اس حالت میں اس کی پیدائش مشکل ہو جاتی ہے ،تو ماں اور بچے کی زندگیاں ضائع ہونے کا اندیشہ ہوتا ہےاور کبھی بچہ دانی پھٹنے(Uterine Rupture) کی وجہ سے ماں اور بچے دونوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو تا ہے۔

ٍان تمام حالتوںمیں چونکہ انسانی جان کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے ،اس لئے اذا تعارضت مفسدتان روعی اعظمهما ضرراً بارتکاب اخفهما (جب کسى چىز مىں دو خرابىاں پىدا ہوجائىں تو ان میں سے آسان کو اختیار کیا جائے گا)کے قاعدے کی وجہ سے آپریشن کرنا جائز ہےکیونکہ اگرچہ آپریشن بھی ضررہے مگر جان کی ہلاکت کے مقابلے میں ادنیٰ واخف ہے۔

علامہ ابن حزم [35]نے اس صورت میں آپریشن نہ کرنے کو قتل سے تعبیر کیا ہے:ولو ماتت امرأة حامل والولد حي يتحرك قد تجاوز ستة أشهر فإنه يشق عن بطنها طولاًويخرج الولد لقوله تعالى وَمَنْ أحْيَاهَا فَكَأنمَا أحْيَا الناسَ جَمِيعًا ومن تركه عمدًا حتى يموت فهو قاتل نفس[36](اگر حاملہ عورت مر گئی اور حمل کو چھ مہینے گزر چکے ہیں اور بچہ حرکت کررہا ہو ،تو عورت کے پیٹ کو طولاًچیرا جائے گا اور بچے کو نکالا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور جس نے قصداً بچے کو (ماں کی پیٹ میں)چھوڑا یہاں تک کہ وہ مر گیا ،تو وہ نفس انسانی کو قتل کرنے والا ہوگا)،اسی طرح کتب فقہ میں اس کی کثیر مثالیں موجود ہىں اور زمانۂ قدیم سے آپریشن کا یہ طریقہ رائج ہے۔

فوت شدہ حاملہ عورت کی سرجری کے دلائل:

کتب فقہ مىں موجود مذکورہ درج بالا دلائل کى روشنى مىں زندہ حاملہ کی سرجری کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ سنن ابی داؤد کی ایک حدیث كسر عظم الميت ككسره حيا[37](مردے کی ہڈی توڑنا (تکلیف دینے میں) زندہ کی ہڈی توڑنے کے برابر ہے)میں مردے کی تکلیف کو زندہ کو تکلیف دینے کے برابر کہا گیا ۔

(۵)جراحت برائے حسن: (Plastic Surgery)

اس جراحت کی دو قسمیں ہیں: ایک اعضاء میں موجود عیب دور کرنے کے لئے اور دوسرا محض حسن میں اضافے کے لئے۔ انسانی اعضاء میں عیوب دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک پیدائشی طور پر عیب موجود ہو ،جیسے انگلیوں کا آپس میں مل جانا یا انگلی کا زائد ہونا(polydactylism) ،ہونٹوں کا کٹا ہوا ہونا (Cleft lip)وغیرہ۔ دوسرا یہ کہ کسی حادثے کی وجہ سے عیب پیدا ہو گیا ہو ،جیسے آگ سے جلنے سے انگلیاں آپس میں مل جائیں یا ایکسیڈنٹ کی وجہ سے چہرے کی ساخت بگڑ جائے وغیرہ ،تو ان دونوں اقسام کے عیوب میں اگر تکلیف نہ بھی ہو ،مگر یہ حسی و معنوی ضرر ہے اس لئے حاجت کے درجے میں ہے اور حاجت کبھی ضرورت کے درجے میں ہوتی ہے الحاجة تنزل منزلة الضرورة[38]،اس لئے ان صورتوں میں آپریشن کرنا جائز ہے،جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے کہ حاجت و ضرورت کے وقت احکام میں رخصت و نرمی رکھی گئی ہے اور اس کی مثالیں کتب فقہ میں موجود ہیں، جیسے إذا أراد الرجل أن يقطع إصبعا زائدة أو شيئا آخر إن كان الغالب على من قطع مثل ذلك الهلاك فإنه لا يفعل وإن كان الغالب هو النجاة فهو في سعة من ذلك(جب ارادہ کرے کوئی کہ زائد انگلی یا کوئی اور عضو کاٹے اور اس طرح کرنے سے غالب گمان ہلاکت کا ہو ،تو ایسا کرنا جائز نہیں اور اگر غالب گمان نجات کا ہو ،تو ایسا کرنا جائز ہے)۔

اس سرجری کی دوسری قسم بغیر عیب کی موجودگی کے ،محض حسن میں اضافے کے لئے کی جانے والی سرجری ہے،جس میں کبھی بڑھاپے کے آثار چھپانے کے لئے سرجری کی جاتی ہے اور کبھی ویسے ہی اعضاء کی کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے ،جیسے ناک کو خوبصورت بنانے کے لئے سرجری کرنا۔

شریعتِ اسلامی نے اس دوسری قسم کی سرجری کے تمام اقسام کو نا جائز کہا ہے،چاہے بڑھاپے کے آثار چھپانا ہو یااعضاء کو خوبصورت بنانا ہو ۔

بڑھاپے کے آثار چھپانے اور اعضاء کی خوبصورتی کے عدم جواز پر دلیل سورۃ النساء کی آیتِ کریمہ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّه[39](اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا اور یہ سکھاتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیرتے رہیں اور (یہ بھی) کہتا رہوں گا کہ وہ خدا کی بنائی ہوئی صورتوں کو بدلتے رہیں)ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تغیر کی مذمت کی گئی ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں ابن جریر الطبری نے سیدنا ابن مسعودؓ کی صحیح البخاری میں نقل کی گئی حدیث لعن الله الواشمات والمستوشمات، والمتنمصات، والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله[40](اللہ تعالیٰ لعنت فرماتا ہے ان عورتوں پر جوجسم گودتی ہیں اور گودواتی ہیں ، بھنویں اکھڑتی ہے اورخوبصورتی کے لئے دانتوں میں فاصلہ پیدا کرتی ہے ،یہ اللہ تعالیٰ کے خلقت میں تبدیلی کرنے والی ہے)ذکر کی ہے،اور اس کی تشریح کرتے ہوئے علامہ ابن حجر[41] فرماتے ہیں: وقد تفعله الكبيرة توهم أنها صغيرة لأن الصغيرة غالبا تكون مفلجة جديدة السن[42](ایسا اکثر بڑی عمر کی عورتیں کرتی ہیں ،تا کہ وہ کم عمر دکھائی دیں کیونکہ چھوٹی عمر لڑکیوں کے دانتوں میں قدرتی طور پر فاصلہ ہوتا ہے)، تو اس آیت میں واضح طور پر بڑھاپے کے آثار چھپانے سے منع کیا گیا ہے اور اس عمل کو اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تغیر کہا گیا۔

اسی طرح سیدنا ابن مسعود ؓکے روایت میں للحسنکےالفاظ مذکور ہىں اورسیدنا ابن عباسؓ نے بھی یہی تشریح فرمائی ہے:لعنت الواصلة، والمستوصلة، والنامصة، والمتنمصة، والواشمة، والمستوشمة، من غير داء[43](بالوں میں بال جوڑنے والی ،بھوں کے بال اکھیڑنے والی اور اکھڑوانے والی ،جسم گودنے والی اور گودوانے والی پر لعنت کی گئی ہے ،اگر یہ کام بغیر کسی مرض کے(صرف خوبصورتی کے لئے ) ہو)،اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آیتِ کریمہ میں بغیر ضرر و مرض کے اعضاء کے کانٹ چھانٹ کی بھی مذمت بیان کی گئی ہے اور اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تغیر کے مترادف قرار دیا گیاہے۔

(۶)جراحت برائے تبدیلی جنس:

سرجری کبھی جنس کی تبدیلی کے لئے بھی کی جاتی ہے۔سرجری کے اس قسم کا نا جائز ہونا واضح دلائل سے ثابت ہے۔سیدنا ابن عباسؓ نے روایت کیا ہے :لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال[44](رسول اللہ ﷺ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے ،جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور اسی طرح ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے، جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہے)اس حدیث مبارک میں ان عورتوں کی مذمت فرمائی گئی ،جو لباس وغیرہ میں مردوں کی مشابہت اختیارکرتی ہیں،اسی طرح ان مردوں کی بھی مذمت فرمائی گئی ،جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، جب صرف ایک دوسرے کی ہیئت اختیار کرنے کی مذمت آئی ہے ،تو مکمل طور پر جنس کو تبدیل کرنے کی تو بطور ِ اولیٰ ممانعت ہوگی ۔

دوسرا یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدىلى کرنا پہلی صورتوں کے مقابلے میں اظہر ہے،اس لئے ان دونوں وجوہات کی بنا پر یہ سرجری کرنا حرام ہے۔

نتائج:

شریعت اسلامی نے انسانی زندگی بچانے یا انسان کو تکلیف سے بچانے کے لئے سرجری کی مشروط اجازت دی ہے۔اگر اشد ضرورت نہ ہو تو اس کی ممانعت بھی ثابت ہے۔یوں کوئی محض اپنے آپ کو حسین بنانے کے لئے ایسا کوئی عمل کرے یا کوئی مرد یا عورت سرجری کے ذریعے اپنا جنس تبدیل کرنا چاہے تو اسلامی تعلیمات کی رو سے یہ ممنوع تصور ہوگا ۔

حوالہ جات

  1. تہذیب اللغۃ، محمد بن أحمد،۴ : ۸۶،دار إحياء التراث العربي ،بيروت،۲۰۰۱ء
  2. ٍصحیح البخاری، محمد بن اسمٰعیل،کتاب الدیات، باب المعدن جبار والبئر جبار،حدیث: ۶۹۱۲،دار طوق النجاة، بیروت،۱۴۲۲ھ
  3. فصل المقال فی شرح کتاب الامثال، ابوعبید البکری،۱ : ۲۴،موسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ الاولیٰ: ۱۹۸۳ء
  4. http://en.wikipedia.org/wiki/Surgery
  5. المائدۃ،۵ : ۳۲
  6. 5ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیر الطبری ہیں(۲۲۴ھ ۔۳۱۰ھ)عالم،فقیہ،مؤرخ اور محقق تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں تفسیرِ قرآن اور تاریخ الطبری مشہور ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ،محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذہبی ،۲: 201،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۹ھ)
  7. سیدنا عبداللہ بن عباس بن عبد المطلب القرشی (۳ ق م۔۶۸ھ)رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ آپ تفسیر و فقہ میں ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آپ کو ترجمان القرآن اورحبر الامۃکہا جاتا ہے۔آپ سے ۱۶۶۰ احادیث روایت ہے۔(الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب ، ابن عبد البریوسف بن عبد اللہ،۳: ۹۳۳، دار الجیل ،بیروت،۱۴۱۲ھ)
  8. عبداللہ بن مسعود ؓ بن غافل بن حبیب الہذلی ، فقیہ الامت،صاحب نعلین ، رازدار اور خادم رسول ﷺ تھے۔ آپ نے دو دفعہ ہجرت فرمائی۔ غزوہبدر میں بھی شریک ہوئے تھے۔ ۳۲ھمیں وفات پائی۔آپ سے ۸۴۸ احادیث مروی ہیں۔(الاستیعاب ، ۳ : ۱۹۹)
  9. سیدنا ابو ہریرہ ؓ کا نام اسلام قبول کرنے کے بعد عبد اللہ اور اکثر ائمہ کے نزدیک جاہلیت میں آپ کا نام عبد الشمس تھا۔۷ ہجری میں اسلام قبول کیا ۔ آپ سے سب سے زیادہ ۵۳۷۴ روایات مروی ہے ۔(الاستیعاب ،۴ :۱۷۶۸)
  10. صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب تقلیم الاظفار،حدیث:۵۸۹۱
  11. صحیح البخاری،کتاب الحج،باب احجامۃ للمحرم،حدیث:۱۸۳۵
  12. سنن ابی داؤد،سلیمان بن اشعث،کتاب الطب،باب فی قطع العروق ،حدیث:3864، المکتبۃ العصریۃ،صیدا، بیروت
  13. الأشباه والنظائر،تاج الدين عبد الوهاب بن تقی الدين السبكی،۱ : ۴۱، دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۱۱ھ
  14. سنن ابی داؤد،کتاب الدیات، باب من تطبب بغیر علم فاعتنت،حدیث: ۴۵۸۶
  15. العلاج بالاغذیۃ والأشعاب،عبد الملک بن حبیب، ۱ : ۳۰ ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۹۹۸ء
  16. بدایۃ المجتہد ونہايۃ المقتصد، ابن رشد الحفید محمد بن أحمد،۴ : ۱۸،دار الحدیث ،القاہرۃ،۱۴۲۵ھ
  17. فتاویٰ قاضی خان،۳ : ۲۵۱
  18. فتاویٰ عالمگیری،لجنۃ العلماء بریاسۃنظام الدین بلخی،۵ : ۳۶۰،دار الفکر ،بیروت،۱۳۱۰ھ
  19. المائدۃ،۵ : ۳۲
  20. فتاویٰ قاضی خان،حسن بن منصور الفرغانی،۳ : ۲۵۱،
  21. عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامۃ ۵۴۱ ھ میں جماعیل نابلس میں پیدا ہوئے ۔حصول علم کے لئے بغداد تشریف لے گئے۔آپ بڑے عالم،زاہد اور امام تھے۔آپ کی کتابوں میں المغنی الکافی اور العمدۃ مشہور ہیں۔(سیر اعلام النبلاء،محمد بن احمد الذہبی،۱۴۹:۱۶،دار الحدیث ،قاہرہ،۱۴۲۷ھ)
  22. المغنی، عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامۃ ،۵ : ۳۹۸،مکتبۃ القاہرۃ،مصر،۱۳۸۸ھ
  23. الوجيز فی إيضاح قواعد الفقۃ الكلیۃ،محمد صدقی بن احمد،۱ : ۲۵۹،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت،۱۴۱۶ھ
  24. السنن الکبریٰ،احمد بن حسین البیہقی،کتاب الصلح، باب لا ضرر ،حدیث:۱۱۳۸۴، دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۲۴ھ
  25. القواعد الفقہیۃوتطبيقاتہا فی المذاہب الأربعۃ،محمد مصطفیٰ الزخیلی،۱ : ۲۳۰،دار الفکر ،بیروت،۱۴۲۷ھ
  26. المستصفیٰ، محمد بن محمد الغزالی،۱ : ۱۷۴،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۱۳ھ
  27. الوجيز فی إيضاح قواعد الفقۃ الكلیۃ،۱ : ۲۳۵
  28. فتاویٰ عالمگیری،۵ : ۳۶۰
  29. الوجيز فی إيضاح قواعد الفقۃ الكلیۃ،۱ : ۳۶۶
  30. صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب تقلیم الاظفار،حدیث:۵۸۹۱
  31. المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی،برہان الدین محمود بن احمد،۵ : ۳۷۵،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۲۴ھ
  32. تخفۃ الفقہاء، محمد بن احمد السمرقندی،۳ : ۳۴۵،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۴ھ
  33. ابو حنیفہ نعمان بن ثابت زوطی (۸۰ھ- ۱۵۰ھ) کوفہ میں پیدا ہوئے۔ حماد بن ابی سلیمان کے حلقہ درس میں ۱۸ سال گزار کر ایک نامورفقیہ بنے۔ فقہ میں آپ کا اپنا ایک مستقل مسلک ہے۔ جسے مصر، شام، پاکستان، اور وسطی ایشیا کے ممالک میں پذیرائی حاصل ہے۔( تاریخ بغداد، احمد بن علی خطیب بغدادی ،۱۳: ۳۲۳، دارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ)
  34. الاشباہ و النظائر علی مذہب ابی حنیفۃ، ابن نجیم زین الدین بن ابراہیم،۱ : ۷۶،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۱۹ھ
  35. علی بن احمدبن سعید بن حزم الظاہری قرطبہ اندلس میں ۳۸۸ ہجری میں پیدا ہوئے۔ علم حدیث اور فقہ میں انتہائی مہارت حاصل تھی ۔شافعی المسلک ہونے کے باوجود قرآن و حدیث سے استنباط کرتے،پھر ظواہر کے مسلک کو منتقل ہوئے۔(وفیات الاعیان ونباء ابناء الزمان،ابن خلکان احمد بن محمد،۳ : ۳۲۵،دار صادر ،بیروت،۱۹۷۱ء)
  36. المحلی بالآثار، ابن حزم علی بن احمد،۳ : ۳۹۵، دار الفکر ، بیروت
  37. سنن ابی داؤد،کتاب الجنائز،باب فی الحفار یجد العظم ہل یتنکب ذٰ لک المکان ام لا،حدیث: ۳۲۰۷
  38. غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر،احمد بن محمد مکی،۱ : ۲۹۳،دارالکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۰۵ھ
  39. النساء، ۴ : ۱۱۹
  40. صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب المستوشمۃ،حدیث : ۵۹۴۸
  41. أحمد بن علی بن محمدالکنانی العسقلانی ۷۷۳ ھ کو قاہرہ میں پیدا ہوئے ۔آپ نے کثیر تعداد میں کتابیں تصنیف کی۔حدیث،رجال اور تاریخ میں ثانی نہ رکھتے تھے۔(الأعلام،خیر الدین محمود بن محمد الزرکلی،۱: ۱۷۸، دار العلم للملایین،بیروت، ۲۰۰۲ء)
  42. فتح الباری شرح صحیح البخاری، احمد بن علی ابن حجر العسقلانی،۱۰ : ۳۷۲،دار المعرفۃ ،بیروت،۱۳۷۹ھ
  43. سنن ابی داؤد، کتاب الرتجل، باب فی صلۃ الشعر،حدیث : ۴۱۷۰
  44. صحیح البخاری،کتاب اللباس،بابالمتشبهون بالنساء والمتشبهات بالرجال ،حدیث: ۵۸۸۵ مصادر و مراجع
    1. الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب ، ابن عبد البریوسف بن عبد اللہ،دار الجیل ، بیروت،۱۴۱۲ھ
    2. الاشباہ و النظائر علی مذہب ابی حنیفۃ، ابن نجیم زین الدین بن ابراہیم،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۱۹ھ
    3. الأشباه والنظائر،تاج الدين عبد الوهاب بن تقی الدين السبكی، دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۱۱ھ
    4. الأعلام،خیر الدین محمود بن محمد الزرکلی، دار العلم للملایین،بیروت، ۲۰۰۲ء
    5. بدایۃ المجتہد ونہايۃ المقتصد، ابن رشد الحفید محمد بن أحمد،دار الحدیث ،القاہرۃ،۱۴۲۵ھ
    6. تاریخ بغداد، احمد بن علی خطیب بغدادی ،دارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ
    7. تخفۃ الفقہاء، محمد بن احمد السمرقندی،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۴ھ
    8. تذکرۃ الحفاظ،محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذہبی،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۱۹ھ
    9. تفسیر الطبری،محمد بن جریر الطبری، مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت،۱۴۲۰ھ
    10. تہذیب اللغۃ، محمد بن أحمد،دار إحياء التراث العربي ،بيروت،۲۰۰۱ء
    11. سنن ابی داؤد،سلیمان بن اشعث،کتاب الطب،باب فی قطع العروق ،المکتبۃ العصریۃ،صیدا، بیروت
    12. السنن الکبریٰ،احمد بن حسین البیہقی، دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۲۴ھ
    13. سیر اعلام النبلاء،محمد بن احمد الذہبی،دار الحدیث ،قاہرہ،۱۴۲۷ھ
    14. ٍصحیح البخاری، محمد بن اسمٰعیل،دار طوق النجاة، بیروت،۱۴۲۲ھ
    15. العلاج بالاغذیۃ والأشعاب،عبد الملک بن حبیب،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۹۹۸ء
    16. غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر،احمد بن محمد مکی،دارالکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۰۵ھ
    17. فتاویٰ عالمگیری،لجنۃ العلماء برئاسة نظام الدین بلخی،دار الفکر ،بیروت،۱۳۱۰ھ
    18. فتاویٰ قاضی خان،حسن بن منصور الفرغانی
    19. فتح الباری شرح صحیح البخاری، احمد بن علی ابن حجر العسقلانی،دار المعرفۃ ،بیروت،۱۳۷۹ھ
    20. فصل المقال فی شرح کتاب الامثال، ابوعبید البکری،موسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ الاولیٰ: ۱۹۸۳ء
    21. القواعد الفقہیۃوتطبيقاتہا فی المذاہب الأربعۃ،محمد مصطفیٰ الزخیلی،دار الفکر ،بیروت،۱۴۲۷ھ
    22. المحلی بالآثار، ابن حزم علی بن احمد،دار الفکر ، بیروت
    23. المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی،برہان الدین محمود بن احمد،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۲۴ھ
    24. المستصفیٰ، محمد بن محمد الغزالی،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۱۳ھ
    25. معجم الصحابۃ،عبد اللہ بن محمد البغوی،مکتبۃ دار البیان،الکویت،۱۴۲۱ھ
    26. المغنی، عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامۃ ،مکتبۃ القاہرۃ،مصر،۱۳۸۸ھ
    27. الوجيز فی إيضاح قواعد الفقۃ الكلیۃ،محمد صدقی بن احمد،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت،۱۴۱۶ھ
    28. وفیات الاعیان ونباء ابناء الزمان،ابن خلکان احمد بن محمد،دار صادر ،بیروت،۱۹۷۱ء
    29. http://en.wikipedia.org/wiki/Surgery
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...