Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 36 Issue 1 of Al-Idah

اسلامى بىنکارى مىں تنگدست مقروض سے وصولیابی کے شرعی اختیارات |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

خلاصہ

اسلام میں معاشرتی عدل، غریبوں کی معاشی سرگرمیوں میں شمولیت اور محروم طبقے تک وسائل کی فراہمی پر زور دیا گیا ہے۔ اس متوازی معاشرے کے قیام میں قرض کی فراہمی ایک مثبت کردار ادا کرتی ہے جس میں کسی مالیاتی چیز کو بطورِ تعاون دوسرے کی ملکیت میں واپسی کی شرط سےدےدیا جاتا ہے۔

شرعا قرض سے کوئی اضافی رقم یا فوائد مشروط نہیں کیے جاسکتے کیونکہ یہ سود کے زمرے میں آجاتا ہے۔ لہذا کسی قرض کی مدت میں توسیع یا مطالبہ میں تاخیر کے عوض کسی اضافے کا مطالبہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ نیز اسلام ٹال مٹول کرنے والوں اور ازراہِ مجبوری بروقت واپسی نہ کرنے والوں میں تفریق کا قائل ہے۔دوسری قسم کے مقروض کو قرآنِ کریم نے ادائیگی کی قدرت تک مہلت دینے کی فرمائش کی ہے۔اس تناظر میں ایک دیندار قرض خواہ اپنے مقروض کے دیوالیہ یا مفلس ہوجانے کی صورت میں خود کو کسی بھی شرعی چارہ جوئی سے مجبور پاتا ہے اور اپنے قرض کی واپسی کے بارے میں شکوک کا ہی شکار رہتا ہے۔

اس تحقیق میں اسی صورتِ حال کا حقیقی حل تلاش کیا گیا ہے اور مفلس مقروض سے قرض کی واپسی کے بعض شرعی اقدامات کو موضوعِ تحقیق بنایا گىا ہے۔ آیاتِ قرآنیہ، احادیثِ نبویہ اور تحقیقاتِ فقہیہ کے باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ۔ نتائجِ تحقیق نے اس مفروضے کو درست ثابت کیا کہ اسلام نے ہر معاملے کی طرح اس صورتحال میں بھی دونوں فریقین کی رعایت رکھى ہے ، جہاں مقروض کی مفلسی کے پیشِ نظر اسے مہلت دیے جانے کی تعلیم دی ہے وہاں اپنے قرض کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے قرض خواہ کو بھی چندمؤثر اقدامات کی اجازت دی ہے جس سے سے معاشرے میں بڑھتے ہوئے قرضو ں کی عدمِ واپسی کے خطرات اوربتاخیر ادائیگی کے خدشات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

تعارف (Introduction)

اسلام میں نادار مقروض سے مساہلت کی اخلاقی تعلیم دی گئی ہے۔سورۃ البقرۃ میں سود کی مذمت کے متصل ارشاد ِ ہے:

﴿وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ١ؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾

ترجمہ:"اور اگر کوئی تنگدست (قرض دار) ہو تو اس کا ہاتھ کھلنے تک مہلت دینی ہے۔ اور صدقہ ہی کردو تو یہ تمہارے حق میں کہیں زیادہ بہتر ہے، بشرطیکہ تم میں سمجھ ہو"[1]

سودی اداروں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ اگر کوئی مدیون مفلس ہے اور میعادِ مقررہ پر وہ قرض ادا نہیں کرسکتا تو سود کی رقم اصل میں جمع کرکے سود در سود کا سلسلہ چلاتے ہیں اور سود کی مقدار بھی بڑھادیتے ہیں جبکہ یہاں قرآن یہ تعلیم دے رہا ہے کہ غریب و لاچار مقروض کو تنگ نہ کرو، بلکہ اس کو وسعت تک مہلت دے دو۔ یعنی محض مہلت ہی کافی نہیں بلکہ یہ مہلت ادائیگی کی استطاعت تک ہونی چاہیے۔

نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی دعوت و تعلیم میں اس مساہلت پر زور دیا ہے اور تنگ دست کو مہلت دینے کی متعدد عنوانات سے ترغیب دی ہے۔مثلاً:

صدقہ کا ثواب

مسندِاحمد کی ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی مفلس مقروض کو مہلت دے گا ، اسے ہر روز اتنی رقم کے صدقہ کا ثواب ملے گا جتنی اس مقروض کے ذمہ ہے۔ یہ اجر میعادِ قرض پورا ہونے سے پہلے مہلت دینے کا ہے۔ جب میعادِ قرض پوری ہوجائے اور وہ شخص ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس وقت مہلت دینے کی صورت میں ہر روز اس کی دوگنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔[2]

دعا کی قبولیت اور دنیاوی مصائب کا خاتمہ

حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے : جو شخص چاہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور مصیبت دور کی جائے ، وہ تنگدست پر آسانی کرے۔[3]

دوزخ کی گرمی سے نجات

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضور ﷺ سے براہِ راست سنا ہوا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس بندہ نے کسی غریب تنگدست کو مہلت دی یا(اپنا مطالبہ کل یا اس کا حصہ) معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کی گرمی سےاسے نجات عطا فرمائیں گے۔[4]

عرشِ الٰہی کی مہمانی

حضرت ابو الیسر رضی اللہ عنہ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے رسولِ کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے (عرش کے) سائے میں جگہ پانے والا وہ شخص (بھی) ہوگا، جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی ہوگی یہاں تک مقروض ادئیگی کے لیے کوئی سبب پالے، یا اس کو یہ کہتے ہوئے معاف کردے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر تمہارے واجب الذمہ میرا مال تجھ پر صدقہ ہے، اور قرض کی دستاویز بھی جلا دے۔ [5]

ان فضائل کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غریب مقروض کی مکمل رعایت فرماتے اور اپنے عمل سے ان احادیث پر یقین کی گواہی دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابو الىسر رضی اللہ عنہ ایک شخص کو اپنا قرضہ طلب کرنے کے لیے تلاش کر رہے تھے لیکن وہ چھپ رہا تھا۔ آخر انہوں نے اسے پالیا اور اس فرارکی وجہ پوچھی۔ اس نے تنگ دستی کا عذر پیش کیا۔ آپ نے تصدیقِ حال کے لیے اسے قسم اٹھانے کا کہا تو اس نے قسم بھی اٹھالی۔ اس پر حضرت حضرت ابو الیسررضی اللہ عنہ نے قرض کی دستاویز اس مقروض کے حوالہ کی اور معاملہ ختم کرتے ہوئے یہ حدیث سنائی کہ جس بندہ نے کسی غریب تنگدست کو مہلت دی یا(اپنا مطالبہ کل یا اس کا حصہ) معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دِن کی تکلیفوں سے اس کو نجات عطا فرمائیں گے۔ [6]

مسئلہ کا بیانیہ(Problem Statement)

تنگدست کے ساتھ مساہلت کی اہمیت مندرجہ بالا احادیث میں بیان کی گئی ہے۔اس سلسلے میں مزید روایات بھی ذخیرہ احادیث میں ملتی ہیں جنہیں محدثینِ کرام رحمۃ اللہ علیہم ،مثلاََ علامہ ہیثمی،[7] امام بیہقی،[8] وغیرہ نے مستقل ابواب میں ذکر کیا ہے اور موجودہ دور میں مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ [9]ا اور ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب [10]نے ان کے استیعاب کی کوشش کی ہے۔ لہذا اس میں شک نہیں کہ اسلام کی اخلاقی تعلیم یہی ہے اور وہ اپنے متبعین کو اسی اخلاقی بلندی پر دیکھنا چاہتا ہے کہ مال کو اپنا مقصودِ اصلی نہ بنائیں ، بلکہ انسانی اقدار کو اتنی اہمیت دیں کہ اس کی خاطر اپنا حق سے دستبردار ہوجائیں یا وقتی طور پر اس کے مطالبہ کو چھوڑدیں۔

تنگدست مقروض کو مہلت دے دینا اسلام کی تعلیم ہے۔ مہلت کا ظاہری مطلب قرض کے واپسی کے مطالبہ سے وقتی دستبرداری لیا جاتا ہے۔ یہ نقطہ نظر بلاشبہ مقروض کے لیے ایک خوشگوار اثر رکھتا ہے لیکن قرض خواہ کی مجبوری میں کسی کمی کے بجائے اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔وہ پہلے سے اپنے قرض کی واپسی کے فکر میں مبتلا ہے اور اسے مطالبہ سے بھی روک دیا جائے تو وہ اپنے آپ کو مجبورِ محض پاتا ہے۔ اسلام جب تمام طبقوں کے لیے رحمت ہے تو اس سلسلے میں یک رخی تعلیمات کیسے ہوسکتی ہیں؟ یقینا حقیقی تعلیمات نظروں سے پنہاں ہیں جنہیں تلاش کرنا میدانِ تحقیق کی پکار ہے۔

تحقیق طلب سوالات(Research Questions)

لہذا مندرجہ ذیل سوالات تحقیق کے مقتضی ہیں:* معسر مقروض کو مہلت دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

  • کیا یہ مہلت دینا قانونِ اسلامی میں لازمی درجہ رکھتا ہے اور معسر مقروض کا حق ہے؟
  • کیا یہ مہلت محض ضابطۂ اخلاق کی حیثیت رکھتا ہے جو خالص قانونی نقطۂ نظر میں وجوبی نہیں ہے؟
  • کیا مقروض کے تنگدست ہوجانے کے بعد قرض خواہ کے لیے صرف انتظار ہی واحد راستہ ہے یا وہ اس دوران شرعا دیگر اقدامات بھی کرسکتا ہے؟

فوائدِ تحقیق(Significance Of The Study)

قرض خواہ کو کو اپنے قرض کی وصولیابی کے لیے قانونی تحفظ ملنا وقت کی ضرورت اور شرعی تقاضا ہے، اس سے معاشرے میں بڑھتے ہوئے قرضو ں کی عدمِ واپسی کے خطرات( (Risk Of Defaultیا بتاخیر ادائیگی کے خدشات (Risk Of Late Payment) کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔بالخصوص ادھار اقساط پر خریدو فروخت کرنے والے تاجروں اورقرض فراہم کرنے والے مالیاتی اداروں کو شرعی حقوق ملنے چاہیے جن کے ذریعہ وہ اپنے ہر گاہک کی بقیہ اقساط وصول کرسکیں۔

بحث (Discussion)

اس سلسلے میں فقہی مآخذ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فقہا ئے کرام رحمۃ اللہ علیہم کی اکثریت( مالکیہ ، شوافع، حنابلہ) اس امہال کو غریب مقروض کا ذاتی حق سمجھتی ہے۔ مقروض کی مالی حالت خراب ہوتے ہی اسے یہ مہلت مل جاتی ہے ، جس کی بنیاد پر عدالت اسے گرفتار یا سزا دینے کا حکم نہیں دے سکتی ہے۔ قرض خواہ اپنا حق فوری وصول نہیں کرسکتا بلکہ مقروض کو مزید مہلت دینے کا پابند ہے ۔ اس مسلک میں قرآنِ کریم میں مہلت کا ذکر و جوبی حکم ہے۔علامہ زحیلی رحمۃ اللہ علیہ نے ائمہ ثلاثہ کا یہی مذہب نقل کیا ہے:

وقال زفر والمالكية والشافعية والحنابلة: إذا ثبت إعسار المدين عند الحاكم، لم يكن لأحد مطالبته وملازمته، بل يمهل إلى أن يوسر لأنه إذا ثبتت العسرة استحق النَّظِرة إلى الميسرة، كما لو كان الدين مؤجلاً، لقوله تعالى: وإن كان ذو عسرة، فنَظِرة إلى ميسرة[11]

تاہم ہماری تحقیق یہ ہے کہ مذکورہ مہلت اعسار کا لازمی تقاضا نہیں ، غریب مقروض مزید مہلت کا بطورِ استحقاق مطالبہ نہیں کرسکتا۔ مہلت دینا قرض خواہ کا صوابدیدی اختیار ہے ، جس کے مثبت استعمال پر اسے متعدد فضیلتیں میسر ہوں گی ،لیکن اگر وہ مزید مہلت دینے پر آمادہ نہ ہو تو اسے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔وجہ یہ ہے کہ اجر تو کسی نیک کام کو اپنے اختیار سے انجام دینے پر ملتا ہے، اگر مقروض کو یہ مہلت اس کی تنگدستی سے ہی مل گئی تو قرض خواہ مہلت دینے کی فضیلت کا مستحق کیسے بن سکتا ہے؟۔ یہی وجہ ہے کہ متعلقہ احادیث میں بار بار من أنظر معسرا ( جو تنگدست کو مہلت دے) [12]کی تعبیر اختیارکی گئی ہے جس سے واضح ہے کہ یہ مہلت قرض خواہ کا اختیاری فعل ہے۔علامہ جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان احادیث سے یہی مطلب لیا ہے:

فَقَوْلُهُ فِي الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ ( مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ ) يُوجِبُ أَنْ لَا يَكُونَ مُنْظَرًا بِنَفْسِ الْإِعْسَارِ دُونَ إنْظَارِ الطَّالِبِ إيَّاهُ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ مُنْظَرًا بِغَيْرِ إنْظَارِهِ لَمَا صَحَّ الْقَوْلُ بِأَنَّ مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ ؛ إذْ غَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يَسْتَحِقَّ الثَّوَابَ إلَّا عَلَى فِعْلِهِ ، فَأَمَّا مَنْ قَدْ صَارَ مُنْظَرًا بِغَيْرِ فِعْلِهِ فَإِنَّهُ يَسْتَحِيلُ أَنْ يَسْتَحِقَّ الثَّوَابَ بِالْإِنْظَارِ . [13]

نیز قرآن بھی اس مہلت کی درجہ بندی سے خاموش ہے۔ صرف اتنا ذکر ہے کہ اگر مقروض تنگدست ہو تو اسے مہلت دینی ہے۔ لیکن یہ مساہلت کتنی ضروری ہے، اس کا ذکر نہیں۔ اگرچہ بعض مفسرین نے فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ [14]کی تقدیری عبارت فالأمر نظرة [15]بیان کی ہے ، لیکن امر ہمیشہ وجوب کے لیے نہیں ہوتا، استحباب کے لیے بھی ہوتا ہے۔[16]

الغرض تنگدست مقروض کے لیے صرف مہلت ہی کا حکم نہیں بلکہ قرض خواہ اپنا حق وصول کرنے کے لیے اور بھی صورتیں اختیار کرسکتا ہے۔مثلا:

.1قید:

وقت پر قرض ادا نہ کرنے والے شخص کو تحقیقِ حال کے لیے قید کیا جاسکتا ہے جس کے بعد اس کی قرض ادا کرنے کی اہلیت کے بارے میں معلومات حاصل کی جائے۔ اگر وہ واقعی مشکلات کا شکار ہے تو اتنی سزا پر ہی اکتفا کیا جائے گا اور جلد ادائیگی کے وعدہ پر اسے رہا کردیا جائے گا۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اس قیدوبند کی مثالیں ملتی ہیں۔ عہدِ فاروقی سے اموی دور تک چیف جسٹس رہنے والے قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ ایسے مقروض کو قید میں ڈال دیا کرتے تھے اور تنگدست کو بھی رہا نہیں کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ہر مقروض کو مہلت دینے کا حکم نہیں، یہ آیت سودی قرضوں کے سیاق میں ہے اسلیے صرف سودی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے مقروض کو مہلت دی جاسکتی ہے( باقی مقروض ہر حال میں قرض ادا کرنے کے پابند ہیں، انہیں ادائیگی تک قید کیا جاسکتا ہے) [17]

علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے پناہ دیجیے۔ آپ نے پوچھا : کس چیز سے؟ اس نے کہا: قرض سے۔ آپ نے فرمایا: تمہاری پناہ گاہ قید خانہ ہی ہے۔ [18]

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے اور فقہ حنفی میں معسر مدیون کی گرفتاری کی بھی شق رکھی گئی ہے جس کی مدت قاضی کی صوابدید پر موقوف ہے۔ وہ چاہے تو تحقیقِ حال کے بعد رہا کردے ، چاہے تو تنبیہ کے لیے مزید مدت تک رکھے۔[19] نیز اگر اس مقروض کی دینی یا مالی حالت مشکوک ہو تو تنگدستی ثابت ہونے تک امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھی اسکی قید کے قائل ہیں۔ [20]

. 2مسلسل نگرانی:

اس قید کے بعد بھی قرض خواہ کا حق ختم نہیں ہوجاتا ۔ رہائی کے بعد قرض خواہ مقروض کی کڑی نگرانی رکھ سکتا ہے اور اس کی کمائی سے اس کی معمولی غذائی اور فوری ضروریات کے علاوہ جو کچھ بچے، اس سے طلب کرسکتا ہے۔ اس مسلسل طلب کے حق کو فقہی اصطلاح میں " حَقُّ الْمُلَازَمَةِ " کہتے ہیں جس کی رو سے قرض خواہ اپنا حق وصول ہونے تک مقروض کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔[21]

ائمہ ثلاثہ اور احناف میں امام ابو یوسف، محمد اور زفر رحمۃ اللہ علیہم اس" الْمُلَازَمَةِ " کے قائل نہیں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب تنگدست کو قرآن نے مہلت دے دی تو اس مہلت کے دوران اسے تنگ کرنا جائز نہیں ہونا چاہیے،لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات ہمیں مناسب لگتی ہے کہ قرآنِ کریم نے یہ مہلت ہمیشہ کے لیے نہیں دی تھی، بلکہ صرف ادائیگی کی استطاعت میسر آنے تک عارضی مہلت دی تھی۔ اور یہ مالی استطاعت مکمل طور پر حاصل ہونا شرط نہیں، جتنی جتنی استطاعت مقروض کو میسر آتی جائےگی ، اتنی مقدار قرض خواہ وصول کرتا رہے گا۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ مقروض اپنی آمدنی کو چھپائے، اسلیے مسلسل نگرانی بھی جائز ہے۔ [22]اگرچہ حنفی مجتہدین کی اکثریت اس " الْمُلَازَمَةِ " کی قائل نہیں تھی لیکن بعد کے فقہا ئے احناف نے دلائل کی قوت کو دیکھتے ہوئے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر ہی فتویٰ دیا ہے اور ملازمہ کوجائز رکھا ہے۔[23]

اس " الْمُلَازَمَةِ " کی سند قرآن و حدیث دونوں سے ملتی ہے۔قرآنِ کریم اہلِ کتاب کی مالی بد دیانتی کو ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:

﴿وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِيْنَارٍ لَّا يُؤَدِّه اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآىِٕمًا﴾

ترجمہ:"اور انہی میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اگر ایک دینار کی امانت بھی ان کے پاس رکھواؤ تو وہ تمہیں واپس نہیں دیں گے، الّا یہ کہ تم ان کے سر پر کھڑے رہو"[24]

"تم ان کے سر پر کھڑے رہو" کی تعبیر سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے استدلال کیا ہے کہ اپنا حق وصول کرنے کے لیے مسلسل سوال اور نگرانی کرنا جائز ہے۔[25]

نیز احادیث سے بھی اس ملازمۃ کا جواز ثابت ہوتا ہے۔عہدِرسالت میں ایک شخص کا دوسرے پر دس دینار کا قرض تھا، وہ وقتِ مقررہ پر ادا نہ کرسکا تو قرض خواہ اس سے چمٹ ہی گیا ، مقروض نے بارہا کہا کہ اس کے پاس ادائیگی کے لیے کچھ بھی نہیں لیکن قرض خواہ یہی کہتا کہ

فو الله لا أفارقك حتى تقضي أو تأتي بحميل يحمل عنك ترجمہ:"میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا ، یہاں تک کہ تم میری رقم ادا کردو یا مجھے کوئی ضامن دو"۔

بالآخر مقروض یہ معاملہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں لے گیا اور درخواست پیش کی کہ اے اللہ کے رسول!

"هذا واستنظرته شهرا واحدا فأبى حتى أقضيه أو آتيه بحميل فقلت:و الله ما أجد جميلا و لا عندي قضاء اليوم "

ترجمہ"یہ شخص میرے پیچھے پڑ گیا ہے حالانکہ میں نے اس سے ایک ماہ کی مہلت طلب کی لیکن اس نے مسترد کردیا ، بس ادائیگی یا ضمانت ہی مانگ رہا ہے، میرا کہنا ہے کہ میرے پاس نہ ادائیگی کے لیے کچھ ہے ، نہ ہی کوئی ضمانت لے رہا ہے۔"

آپ ﷺ نے بھی اس شخص سے ایک ماہ کی مہلت دینے کی سفارش کی لیکن اس نے معذرت ظاہر کی۔ اس پر آپ ﷺ نے خود اس کی ضمانت لے لی" [26]اس حدیث میں اس شخص نے مہلت طلب کرنے پر بھی مہلت نہیں دی اور مسلسل ساتھ رہنے کے عزم کا بھی اظہار کیا اور نبی کریم ﷺ نے بھی اس پر اعتراض نہیں فرمایا۔ اس سے دونوں باتیں ثابت ہوئیں کہ مہلت مدیون کا استحقاق نہیں اور قرض خواہ کے لیے مقروض کی مسلسل نگرانی جائز ہے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: إِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ الْيَدَ وَاللِّسَانَ. ترجمہ:" بلا شبہ حق والے کے لیے ہاتھ اور زبان کا استعمال جائز ہے" [27]

فقہا ئے احناف رحمۃ اللہ علیہم نے اس حدیث میں ہاتھ سے لزوم اور زبان سے تقاضا کرنا مراد لیا ہے۔[28]

امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بدو سے ذخیرہ شدہ عجوہ کھجوروں کے ایک وسق کے بدلہ میں کچھ اونٹیاں ادھار خریدیں۔ ادائیگی کے وقت آپ اپنے گھر تشریف لائے ، اس کے لیے کھجور تلاش کیں لیکن نہ ملیں۔ رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے اور فرمایا: اے اللہ کے بندے ! ہم نے انہیں ڈھونڈا ہے لیکن وہ نہیں ملیں۔ بدو چلانے لگا: ہائے بے وفائی! حاضرین نے جھڑکا کہ اللہ کے رسول سے بےوفائی کا خدشہ ہے؟ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا: دَعُوهُ ، فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا "اس کو چھوڑدو، بلاشبہ صاحبِ حق کو بات کرنے کا حق ہے" وہ بدو یہ بات دہراتا رہا ِ ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جھڑکتے رہے،لیکن حضور ﷺ اس بدوکی تائید فرماتے رہے، حتی کہ آپ ﷺ نے خویلہ بنتِ حکیم رضی اللہ عنھا سے قرض لے کر موعودہ کھجوریں دے دیں۔ بدو کہنے لگا کہ اللہ آپ کو بہترین جزا دیں ، یقیناََ آپ نے عمدگی سے مکمل حق ادا کیا ہے"[29]

اس حدیث میں بھی حضور ﷺ نے قرض خواہ کے بار بار مطا لبہ کرنے کو منع نہیں فرمایا بلکہ مطالبہ کو اس کا حق قرار دیا۔ لہذ مہلت دینے یا مقروض کے تنگدست ہوجانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک مدت کے لیے آزاد ہوگیا ہے ، بلکہ قرض خواہ اپنی رقم کی وصولیابی کے لیے مہلت کے دوران بھی مطالبہ کر سکتا ہے اور جتنی آمدنی ہوتی رہے گی ، اتنی وصولی کرتا رہےگا۔ تنگدستی اور مہلت کا فائدہ صرف قید سے آزادی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔

.3استسعیٰ:

نیز قرض خواہ اس بات کا بھی حق رکھتا ہے کہ وہ ادائیگیٔ قرض کے سلسلے میں مقروض کی کوششوں کا جائز ہ لیتا رہے ۔ مقروض کو ادائیگیٔ قرض کے وسائل جمع کرنے کے لیے ہی مہلت دی جاتی ہے اسلیے اس کو کمانے پر مجبور کرنا مہلت دینے کے خلاف نہیں۔ مقروض اس بات کا پابند ہے کہ وہ کشادگی کے حصول کے لیے تگ ودو میں لگا رہے۔ اگر اس سلسلے میں سستی یا غفلت نظر آتی ہے تو قرض خواہ شرِعاً اسے کمانے پر مجبور کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں عدالت سے بھى رجوع کرسکتا ہے۔

امام زھری، فقیہ لیث بن سعد[30]اوربعض حنفی فقہائے کرام رحمۃ اللہ علیہم [31]کا یہی مذہب نقل کیا گیا ہے۔ اگر ایک مقروض صلاحیت کے باوجود کسبِ معاش نہیں کر رہا اور مالی استطاعت کو جان بوجھ کر حاصل نہیں کر رہا ہے تو درحقیقت وہ جان بوجھ کر ٹال مٹول کرنے والے کے برابر ہے۔ اسے نادار اور لاچار مقروض کی فہرست سے نکل کر لاپروا مقروض کی صف میں کھڑا کردیا جائے گا جسکے بارے میں حدیث ہے:

لَىُّ الْوَاجِدِ يُحِلُّ عِرْضَهُ وَعُقُوبَتَهُ ترجمہ:"ادائیگی کے وسائل پانے والے کا ٹال مٹول اس کی بے عزتی اور سزا کو حلال کردیتا ہے"[32]

نیز اسلام کا مزاج بھی یہی ہے کہ وہ کسی نادار کی محض اس کی غربت کی وجہ سے رعایت ہی نہیں دیتا بلکہ اس کو اپنی غربت کے خاتمہ کے لیے عملی قدم اٹھانے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ مسجد تشریف لاتے ہیں اور حضرت ابو امامہ انصاری رضی اللہ عنہ کو مسجد میں غمگین بیٹھا دیکھ کر حال دریافت کرتے ہیں، وہ اپنے قرضوں کا ذکر کرتے ہیں تو آپ ﷺ انہیں ایک دعا سکھاتے ہیں جس کا ایک حصہ یہ ہے:

وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ ترجمہ:"اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں نکمے پن اور سستی سے"[33]

اس دعا میں اشارہ ہے کہ قرضوں کی نجات کے لیے صرف مسجد میں بیٹھے نہیں رہنا چاہیے بلکہ عملی اقدامات کرنے چاہیے۔ سستی اور نکمے پن کے بجائے چستی اور عقلمندی کے ساتھ بھر پور کوشش کرتے رہنے سے اللہ تعالیٰ جلد قرضوں سے نجات کا وسیلہ بنادیتے ہیں۔ اسلیے مقروض کو مہلت مل جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اس دوران کسی بھی قسم کی کوششوں سے آزاد ہوگیا ہے ۔ قرض خواہ اس دوران اس کو اسبابِ معیشت تلاش کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔

نتائجِ بحث (Conclusion)

اس تمام بحث سے ثابت ہوا کہ تشریعِ اسلامی میں اعتدال کی خوبی ہر جگہ ملحوظ رکھی گئی ہے۔ تنگدست مقروض کے مسئلہ میں بھی شریعت نے دونوں طرف کی رعایت رکھتے ہوئے نہایت معتدل احکامات دیے ہیں۔ ایک طرف تنگدست کو فوری ادائیگی سے محفوظ رکھتے ہوئے وقتی مہلت دی گئی ہے تو دوسری طرف قرض خواہ کے حق کی رعایت رکھتے ہوئے اسے تین چیزوں کا اختیار دیا گیا ہے:

۱۔اگر قرض خواہ مقروض کی مالی حالت بہتر سمجھتا ہے اور مقروض کی تنگدستی کو مشکوک قرار دیتا ہے تو تحقیقِ حال کے لیے عدالتی کاروئی کرسکتا ہے جس میں عدالت تنگدستی ثابت ہونے تک اسے قید میں رکھے گی۔

۲۔تنگدستی ثابت ہوجانے کے بعد رہائی تو مل جائے گی لیکن قرض خواہ اس کا مسلسل پیچھا رکھ سکتا ہے اور اس کی ہر کمائی میں سے اپنا قرض وصول کرتا رہے گا۔

۳۔اس دوران اگر مقروض کی کوتاہی دیکھے تو اسے کمانے پر مجبور بھی کرسکتا ہے۔

 

حوالہ جات

  1. البقرۃ: ۲۸۰
  2. ابن حنبل ،أحمد ، مسند أحمدبن حنبل، بیروت، مؤسسة الرسالة ، طبع دوم ۱۴۲۰ھـ ۱۹۹۹م، حَدِيثُ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ،۳۸:۶۸
  3. حواله بالا، مسند عبدالله بن عمر بن الخطاب، ۸:۳۷۲
  4. حواله بالاَ، مسند عبد الله بن عباس، ۵:۱۴۹
  5. الهيثمی ، نورالدین علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، بیروت، دارالفکر ، ۱۴۱۴ھ - ۱۹۹۴م، کتاب البیوع، باب فیمن فرج عن معسر، ۴:۲۴۱
  6. البيهقي ،أحمد بن الحسين، السنن الكبرى ، حیدر آباد ہند، مجلس دائرة المعارف النظامية ،طبع اول ۱۳۴۴ھ ، کتاب البیوع، باب ماجاء فی انظار المعسر،۵:۳۵۶
  7. الهيثمی ،نورالدین علی بن ابی بکر ، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، محولہ بالا، کتاب البیوع، باب فیمن فرج عن معسر، ۴: ۲۳۹ تا ۲۴۲
  8. البيهقي ،أحمد بن الحسين ، السنن الكبرى وفي ذيله الجوهر النقي، محولہ بالا، کتاب البیوع، باب ماجاء فی انظار المعسر، ۵:۳۵۶ تا ۳۵۷
  9. نعمانی ،محمدمنظور ، معارف الحدیث،کراچی، دارالاشاعت،۲۰۰۵م،۷:۴۹۲ تا ۴۹۵
  10. فضل الٰہی، ڈاکٹر،قرض کے فضائل ومسائل ،اسلام آباد، دار النور، مئی ۲۰۰۸م، ۶۱ تا ۸۴۔
  11. الزحیلی ،وهبة، الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ الشَّامل للأدلّة الشَّرعيَّة والآراء المذهبيَّة وأهمّ النَّظريَّات الفقهيَّة وتحقيق الأحاديث النَّبويَّة وتخريجها، دمشق، دار الفکر ، طبع دوم:۱۴۰۵ھ، القسم الثالث: العقود او التصرفات المدنیہ المالية، الفَصْلُ الثَّامن عَشَر: الحَجْر، ۵:۴۶۲
  12. ابن حنبل ،أحمد، مسند أحمدبن حنبل ، محوله بالا، حدیث بریدہ الاسلمی، ۳۸:۶۸
  13. الجصاص، احمد بن علی الرازی ، احکام القرآن،لاہور، سہیل اکیڈمی، طبع دوم ۱۴۱۲ھ ، ۱:۴۷۸
  14. البقرۃ: ۲۸۰
  15. الرازي، أبو عبد الله محمد بن عمر التيمي ، مفاتيح الغيب او التفسير الكبير ،بیروت ،دار إحياء التراث العربي، طبع سوم،:۱۴۲۰ھ۷:۸۶
  16. الزركشي، بدر الدين محمد بن عبد الله بن بهادر ، البحر المحيط فی اصول الفقه،بیروت، دار الكتبي، طبع اوّل:۱۴۱۴ھ، الْمَبْحَثُ الثَّالِثُ صِيغَةُ الْأَمْرِ، ۳:۲۶۹
  17. الطبری ،محمد بن جریر ، جامع البیان فی تاویل القرآن ،بیروت، دار الکتب العلمیۃ،طبع چہارم ۱۴۲۶ھ، ۳:۱۱۰
  18. السرخسی ،محمد بن احمد بن سہل ، کتاب المبسوط،بیروت، دار الکتب العلمیۃ،طبع اوّل:۱۴۲۱ھ، کتاب الکفالہ، باب الحبس فی الدَین، ۲۰:۹۶ حا ھ
  19. حواله بالا، ۲۰:۹۷
  20. المدني ،مالك بن أنس بن مالك ، المدونۃ الكبرى،مصر، مطبعۃ السعادۃ،طبع ۱۳۲۳، کتاب المدیان،فصل فی حبس المدیان، ۱۳:۲۰۴
  21. السرخسی ،محمد بن احمد بن سہل ، کتاب المبسوط، محولہ بالا، کتاب الکفالہ، باب الحبس فی الدَین، ۲۰:۹۶
  22. ابنِ نجیم، زين الدين بن إبراهيم بن محمد ، البحر الرائق شرح کنز الدقائق ،کوئٹہ، مکتبہ ماجدیہ،سن و طبع ند،کتاب القضاء، فصل فی الحبس،۶:۲۸۷
  23. حوالہ بالا
  24. آل عمران: ۷۵
  25. القرطبي ،محمد بن أحمد بن أبي بكر ، الجامع لأحكام القرآن،رياض ،دار عالم الكتب، طبع اوّل: ۱۴۲۳ھ،۴:۱۱۷
  26. حاکم ،محمد بن عبد الله نیساپوری، المستدرک علی الصحیحین، قاہرہ، دار الحرمین للطباعۃ والنشر والتوزیع، طبع اوّل: ۱۴۱۷ھ، کتاب البیوع، ۲:۳۷
  27. الدارقطنی ،علی بن عمر ،سنن الدارقطنی،بیروت، دار المعرفہ، طبع اوّل:۱۴۲۲ھ، کتاب فی الاقضیہ والاحکام، باب فی المراۃ تقتل اذا ارتدت، ۳:۴۷۴
  28. ابنِ نجیم، زين الدين بن إبراهيم بن محمد ، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، محولہ بالا، کتاب الاجارہ،باب ما یجوز من الاجارۃ، ۷؛۳۱۰
  29. الهيثمی ،نورالدین علی بن ابی بکر ، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، محولہ بالا ،کتاب البیوع، باب حسن القضاء، ۴:۱۷۷
  30. الجصاص ،احمد بن علی الرازی ، احکام القرآن،محولہ بالا، باب البیع، ۱:۴۷۸
  31. ابن عابدين، محمد أمين بن عمر ، حاشیۃ رد المحتار علی الدر المختار،کراچی، ایچ ایم سعید کمپنی، ۱۴۰۶ھ، کتاب القضاء، مطلب : لا تحبس زوجتہ معہ،۵:۳۷۹
  32. ابوداؤد، سلیمان بن اشعت سجستانی، سنن ابی داؤد،بیروت، دارابِنِ حزم ، طبعہ اول : ۱۴۱۸ھ، کتاب القضاء، باب في الحبس في الدين وغيره ، ۴:۳۱
  33. حوالہ بالا،کتاب الوتر، باب فی الاستعاذہ،۲:۱۲۸
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...