Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 31 Issue 2 of Al-Idah

اسلامی حکومت میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کا جائزہ: معاہدات نبوی کی روشنی میں |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

31

Issue

2

Year

2015

ARI Id

1682060034497_426

Pages

158-187

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/170/162

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/170

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

سرورِ کائناتؐ کی حیاتِ طیبہ آئینہ کی طرح شفاف اور روزِ روشن کی طرح منور ہے جس میں آپؐ کی ذات کو پورے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔تاریخ انسانی یہ ثابت کرنے سے قاصر ہے کہ وہ کسی نبی، رسول، ہادی، کسی دانا و حکیم یا فلاسفر کے احوالِ شب و روز اس سند اور صحت کے ساتھ پیش کرسکے جس طرح رسالت مآبؐ کی ذات بابرکات کے مکمل حالات تاریخ عالم کے اوراق میں محفوظ ہیں، یہ شرف صرف اور صرف آنحضرت محمد ﷺ کی ذات کو ہی حاصل ہے۔

رسول پاک ﷺ کی مذہبی رواداری اور تدبر واضح طور پر عیاں ہے۔ آپؐ کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ اور اُن سے تعلقات، صلہ رحمی، رواداری کی عجیب مثالیں سامنے آتی ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی مشرکینِ مکہ، منافقینِ مدینہ، یہود و نصاریٰ اور عرب کے صحرا نشین بدوؤں کے درمیان بسر ہوئی اور آپ ﷺنے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کرکے اُنہیں سیاست کے اس بلند ترین مقام پر پہنچایا، جس سے آگے کا کوئی تصور بھی ممکن نہیں۔

عہدِ نبویؐ کے آغاز میں دنیا کے نقشے پر بڑی بڑی متمدن سلطنتیں موجود تھیں۔ مائن کے ایرانی، قسطنطنیہ کے بزنطیینی اور خانبانع کے چینی دنیا کے تین بڑی سلطنتوں پر مشتمل تھے ۔ توریت کی گرمی بھی دنیا میں آچکی تھی انجیل کی نرمی بھی۔ وید کی (ذات پات کی) تقسیم انگیزی کا بھی انسان تجربہ کرکے نتیجہ دیکھ چکا تھا۔اورکنفیوشش کی تعلیم کے مطابق ایک سو ایک پشت تک رشتہ داری کو یاد رکھنے کی کوشش بھی کرچکا تھا۔ کاویٹیا کی ارتھ شاستر بھی لکھی جا چکی تھی، اور ارسطو کی پالیٹکس بھی، ہندو کی مہا بھارت بھی۔ تاہم یہ انتہائی ضروری ہے کہ تاریخی حقائق اور شواہد کی روشنی میں یہ دیکھیں کہ داعئ اسلام حضرت محمد ﷺنے غیر مسلم ذمیوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور اپنے عہدِ حکومت میں ان کے حقوق کا کس طرح تحفظ فرمایا۔

رسول پاک ﷺ نے اپنی سیاسی زندگی کے ابتدائی دور میں غیر مسلموں سے تعلقات قائم کرلئے تھے۔ اور اُن سے مختلف امور پر صلح نامے کئے۔ جو کہ پوری اُمت مسلمہ کے لئے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات اور صلح ناموں کے حوالے سے مستقل رہنما خطوط کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ہجرتِ مدینہ (۱۔ھ) کے بعدرسالت مآب نے یہودِ مدینہ کے ساتھ عرب کی تاریخ کا ایک تاریخ ساز معاہدہ "میثاقِ مدینہ" فرمایاجو غیر مسلم رعایا کے ساتھ پیغمبرِ اسلام کا پہلا معاہدہ ہے۔

اگرچہ اس وقت مدینے کی آبادی کا اندازہ دس ،گیارہ ہزار کیاجاتا ہے جن میں آدھے کے قریب یہودی تھے۔مدینے میں ابھی نراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا۔ عرب اوس اور خزرج بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے۔ اسی طرح یہودی بنو نضیر وبنو قریظہ وغیرہ دس قبائل میں، کچھ عرب یہودیوں کے ساتھ حلیف ہو کر باقی عربوں اور ان کے حلیف یا یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے اور اکثر آپس میں نبرد آزما رہتے تھے لیکن ان مسلسل جنگوں سے اب دونوں فریقین بھی تنگ آچکے تھے۔

اس سے قطع نظر وہاں کے ہر قبیلے کاالگ راج تھا۔ یہ قبیلے اپنے اپنے سقیفے یاسائبان میں اپنے امور طے کیا کرتے تھے ۔ کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا۔ تربیت یافتہ مبلغو ں کی کوشش سے تین سال کے اندر شہر میں متعدد بہ لوگ مسلمان ہوچکے تھے۔مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھااس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی اور ایک ہی گھرمیں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے۔

مندرجہ بالا صورت حال میں آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے سب سے پہلے فوری طور درج ذیل اقدامات کئے۔

  1. مہاجرین مکہ کی آباد کاری اور گزر بسر کاانتظام
  2. اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق وفرائض کا تعین
  3. شہرکے غیرمسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ
  4. شہرکی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کاانتظام
  5. قریش مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے جانی ومالی نقصانات کا بدلہ[1]

معروضی حالات کو مد نظررکھتے ہوئے آنحضور ؐ نے ہجرت کے پہلے ہی سال میں ایک دستاویز مرتب فرمائی جسے مدنیہ کے لوگوں نے تسلیم کیا۔ یہ معاہدہ طرفین کے رفاہیت اور حقوق کی نگہبانی میں جامعیت کے اعتبار سے تاریخ کا اہم ترین باب ہے[2]۔

اس تاریخ ساز دستاویز میں صراحت کے ساتھ یہ بتایاگیا ہے کہ مدینہ کے تمام مقامی قبائل اور مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین کی اس مرکزائی ہوئی زبردست قوت سے انصار کے مشرک رشتہ داروں کو متمتع ہونے کا صرف اس شرط سے موقع دیا جاتا ہے کہ وہ سیاسی حیثیت سے مرکزی حکومت کی پالیسی میں رکاوٹیں نہ ڈالیں۔ چنانچہ معاہدہ میں صراحت کی گئی ہے کہ مکہ کےقبائل میں جو غیر مسلم یا یہودی المذہب لوگ ہیں وہ مسلمانوں کے تابع اور جنگ میں معاون ہوں گے اور وہ قریش مکہ کی جان ومال کو نہ تو خود کوئی امان دیں اور نہ اس بات میں آڑے آئیں۔ یہ عربی غیر مسلموں کا ذکر تھا[3]۔

یہ معاہدہ مذہبی رواداری اور فراخ دلی کی ایک ایسی مثال ہے جس پر دنیا فخر کرسکتی ہے۔ موجودہ دور کی اقوامِ متحدہ بھی فریقین میں اس سے بہتر رواداری اور غیر مسلموں کے حقوق پر مبنی معاہدہ نہیں کراسکتی[4]۔

میثاق مدینہ کے اصل عربی متن اور دستورکے مواخذ کو درج ذیل کتب میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:

  1. سیرة ابن هشام (طبع یورپ)ص۳۴۱تا۳۴۴۔
  2. سیرة ابن اسحاق(ترجمہ فارسی)مخطوطہ پار س ص۱۰۱
  3. کتاب الامول ،مؤلفہ ابو عبیدہ قاسم بن سلام(طبع مصر) فقہ نمبر۵۱۷
  4. البدایه والنهایه ،مؤلفہ ابن کثیر ،جلد:۳،ص:۲۲۴تا۲۲۶
  5. الوثائق السیاسیه فی العهد النبوی والخلافة الراشدة ،ڈاکٹر محمد حمید اللہ،قاہرہ،۱۴۹۱ء،لجنته التالیف وترجمه،ص ۱تا۷

میثاق مدینہ کے اقتباسات کا ترجمہ:

شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔

  1. یہ ایک حکم نامہ نبی اور اللہ کے رسول محمد ﷺ کا قریش اور اہل یثرب میں سے ایمان اور اسلام لانے والوں اور ان لوگوں کے مابین ہے جو ان کے تابع ہوں اور ان کے ساتھ شامل ہوجائیں اور ان کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیں۔
  2. تمام(دنیاکے)لوگوں کے بالمقابل ان فریقین کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت(امت)ہوگی۔
  3. قریش سے ہجرت کرکے آنے والے اپنے محلے پر (ذمہ دار)ہوں گےاور اپنے خون بہا باہم مل کردیا کریں گے اور اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائیں گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
  4. اور بنی عوف اپنے محلے پر(ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کردیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا ۔
  5. اور بنی الحارث بن خزرج اپنے محلے پر(ذمہ دار) ہوں گے اور جب سابق اپنے خون بہامل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا ۔
  6. اور بنی ساعدہ اپنے محلے پر(ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخود فدیہ دے کر چھڑائے ۔
  7. اور بنی جشم اپنے محلے پر(ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخود فدیہ دے کر چھڑائے گا ۔
  8. اوربنونجار اپنے محلے پر(ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخود فدیہ دے کر چھڑائے ۔
  9. اور بنی عمروبن عوف اپنے محلے پر (ذمہ دار)ہوں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا
  10. اور بنی النبیت اپنے محلے پر(ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا ۔
  11. اور بنی الاؤس اپنے محلے پر(ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گےاورہرگروہ اپنے ہاں کے قیدی کوخود فدیہ دے کر چھڑائے ۔
  12. (الف)اور ایمان والے کسی قر ض کے بوجھ سے دبے ہوئے کو مدد دیئے بغیر چھوڑ نہ دیں گے ۔

(ب )اور یہ کہ کوئی مومن کسی دوسرے مومن کے مولا(معاہداتی بھائی) سے خود معاہدہ برادری نہیں پیدا کرے گا۔

  1. اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو ان میں سرکشی کرے یا استحصال بالجبرکرنا چاہے یا گناہ یا تعدی ارتکاب کرے، یا ایمان والوں میں فساد پھیلانا چاہے اور ان کے ہاتھ سب مل کر ایسے شخص کے خلاف اٹھیں گے، خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
  2. اور کوئی ایمان والا کسی ایمان والے کو کسی کافر کے بدلے قتل نہ کرے گا، اور نہ کسی کافرکی کسی ایمان والے کے خلاف مدد کرے گا۔
  3. اور خداکا ذمہ ایک ہی ہے۔ ان (مسلمانوں میں) کاادنیٰ ترین فرد بھی کسی کو پناہ دے کر سب پر پابندی عائد کر سکے گا اور ایمان والے باہم بھائی بھائی ہیں(ساری دنیا کے )لوگوں کے مقابل۔
  4. اوریہ کہ یہودیوں میں سے جو ہماری اتباع کرے گا تو اسے مدد اور مساوات حاصل ہوگی ،نہ ان پر ظلم کیا جائے گا اور نہ ان کے خلاف کسی کو مدد دی جائے گی۔
  5. اور ایمان والوں کی صلح ایک ہی ہوگی۔ اللہ کی راہ میں لڑائی ہوتو کوئی ایمان والا کسی دوسرے ایمان والے کو چھوڑ کر (دشمن سے)صلح نہیں کرے گا، جب تک کہ (یہ صلح) ان سب کے لئے برابر اور یکساں نہ ہو۔
  6. اور ان تمام ٹکڑیوں کو جو ہمارے ہمراہ جنگ کریں باہم نوبت بہ نوبت چھٹی دلائی جائے گی۔
  7. اور ایمان والے باہم اس چیز کا انتقام لیں گے جو خدائی راہ میں ان کے خون کوپہنچے۔
  8. (الف) اور بے شبہ متقی ایمان والے سب سے اچھے اور سب سے سیدھے راستے پر ہیں۔

(ب) اور یہ کہ کوئی مشرک(غیر مسلم رعیت)قریش کی جان اور مال کوکوئی پناہ نہ دے گا اور نہ اس سلسلے میں کسی مومن کے آڑے آئے گا۔

  1. اور جوشخص کسی مومن کو عمداً قتل کرے اور ثبوت پیش ہوتو اس سے قصاص لیا جائے گا بجز اس کے کہ مقتول کاولی خون بہا پرراضی ہوجائے۔ اور تمام ایمان والے اس کی تعمیل کے لئے اٹھیں گے اور اس کے سوا انہیں کوئی اور چیز جائز نہ ہوگی۔
  2. اور کسی ایسے ایمان والے کے لیےکے لئے جو اس دستورالعمل(صحیفہ) کے مندرجات(کی تعمیل) کااقرار کرچکا اورخدا اور یوم آخرت پر ایمان لاچکا ہو، یہ بات جائز نہ ہوگی کہ کسی قاتل کو مدد یا پناہ دے۔ اور جو اسے مدد یا پناہ دے گا تو قیامت کے دن اس پر خدا کی لعنت اور غضب نازل ہوں گے اور اس سے کوئی رقم یا معاوضہ قبول نہ ہوگا۔
  3. اوریہ کہ جب کبھی تم میں سے کسی چیز کے متعلق اختلاف ہوتو اسے خدا اور محمد سے رجوع کیا جائے گا۔
  4. اوریہودی اس وقت تک مومنین کے ساتھ اخراجات برداشت کرتے ہیں گے جب تک وہ مل کر جنگ کرتے رہیں۔
  5. اور بنی عوف کے یہودی ، مومنین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت(یا امت)تسلیم کئے جاتے ہیں۔ یہودیوں کو ان کادین اور مسلمانوں کو ان کا دینموالی ہوں کہ اصل۔ہاں جو ظلم یا عہد شکنی کاارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوا کوئی مصیبت میں نہیں پڑے گا۔
  6. اور بنی النجار کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کوحاصل ہوں گے ۔
  7. اور بنی الحارث کے یہودیوں کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو حاصل ہوں گے ۔
  8. اور بنی ساعدہ کے یہودیوں کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو حاصل ہوں گے ۔
  9. اور بنی جشم کے یہودیوں کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو حاصل ہوں گے ۔
  10. اور بنی الا وس کے یہودیوں کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو حاصل ہوں گے۔
  11. اور بنی ثعلبہ کے یہودیوں کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو حاصل ہوں گے ۔ہاں جو ظلم یاعہد شکنی کا ارتکاب کرے تو خود اس کی ذات یا گھرانے کے سوائے کوئی مصیبت میں نہیں پڑے گا۔
  12. اور جفنہ کوبھی، جو(قبیلۂ) ثعلبہ کی ایک شاخ ہے، وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اصل کو حاصل ہوں گے ۔
  13. اوربنی الشطیبہ کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو۔ اور وفا شعاری ہونہ کہ عہد شکنی۔
  14. اور ثعلبہ کے موالی کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اصل کو حاصل ہوں گے ۔
  15. اوریہودیوں(کے قبائل) کی ذیلی شاخوں کوبھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اصل کو حاصل ہوں گے ۔
  16. (الف) اور یہ کہ ان میں کوئی بھی محمدؐ کی اجازت کے بغیر (فوجی کارروائی کے لئے) نہیں نکلے گا۔

(ب) اور کسی مار، زخم کا بدلہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اور جو خونریزی کرے تو اس کی ذات اور اس کا گھرانہ ذمہ دارہوگاورنہ ظلم ہوگا اور خدا ا س کے ساتھ ہے جو اس (دستور العمل) کی زیادہ سے زیادہ وفاشعارانہ تعمیل کرے۔

  1. (الف) اور یہودیوں پر ان کے خرچے کا بار ہوگا، اور مسلمانوں پر ان کے خرچے کابار۔

(ب) اور جوکوئی اس دستور والوں سے جنگ کرے تو ان (یہودیوں اور مسلمانوں) میں باہم امداد عمل میں آئے گی اور ان میں باہم حسن مشورہ اور بہی خواہی ہوگی، اوروفا شعاری ہوگی نہ کہ عہد شکنی۔

  1. اور یہودی اس وقت تک مومنین کے ساتھ اخراجات برداشت کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ مل کر جنگ کرتے رہیں۔
  2. اور یثرب کا جوف(یعنی میدان جو پہاڑوں سے گھرا ہوا ہو) اس دستور والوں کے لئے ایک حرم (اورمقدس مقام) ہوگا۔
  3. پناہ گزین سے وہی برتاؤ ہوگا جو اصل (پناہ دہندہ) کے ساتھ کیا جائے گا، نہ اس کو ضرر پہنچایا جائے اور نہ خود وہ عہد شکنی کرے گا۔
  4. اور کسی پناہ گاہ میں وہاں والوں کی اجازت کے بغیر کسی کو پناہ نہیں دی جائے گی (یعنی پناہ دینے کا حق پناہ گزین کو نہیں)
  5. اور یہ کہ اس دستور والوں میں جوکوئی قتل یا جھگڑا رونما ہوجس سے فساد کا ڈرہوتو ایسی صورت میں خدا اور خدا کے رسول محمدؐ سے (جن پر خدا کی توجہ اور سلامتی ہو) کی طرف رجوع کیا جائے گا اور خدااس شخص کے ساتھ جواس دستور کے مندرجات کی زیادہ سے زیادہ احتیاط اور زیادہ سے زیاد ہ وفاشعاری کے ساتھ تعمیل کرے۔
  6. اور قریش کو کوئی پناہ نہیں دی جائے گی اور نہ اس کوپناہ دی جائے گی جو انہیں مدد دے۔
  7. اور ان( یہودیوں اور مسلمانوں) میں باہم مدددہی ہوگی، اگر کوئی یثرب پر ٹوٹ پڑے۔
  8. (الف) اور اگر ان کو کسی صلح میں مدعو کیا جائے تو وہ بھی صلح کریں گے اور اس میں شریک رہیں گے اور اگر وہ کسی ایسے ہی امر کے لئے بلائیں تو مومنین کا بھی فريضہ ہوگا کہ ان کے ساتھ ایسا ہی کریں، بجز اس کے کہ کوئی دینی جنگ کرے۔

(ب) ہر گروہ کے حصے میں اسی رخ کی (مدافعت) آئے گی جو اس کے بالمقابل ہو۔

  1. اور(قبیلہ) اوس کے یہودیوں کو موالی ہو کہ اصل، وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اس دستوروالوں کو اور وہ بھی اس دستور والوں کے ساتھ خالص وفا شعاری کا برتاؤ کریں گے اور وفاشعاری ہوگی نہ کہ عہد شکنی۔ جو جیسا کرے گا ویسا خود ہی بھرے گا۔ اور خدا اس کے ساتھ ہے جو اس دستور کی مندرجات کی زیادہ سے زیادہ صداقت اور زیادہ سے زیادہ وفاشعاری کے ساتھ تعمیل کرے۔
  2. اور یہ حکم نامہ کسی ظالم یا عہد شکن کے آڑے نہ آئے گا اور جو جنگ کو نکلے تو بھی امن کا مستحق ہوگا اور جومدینے میں بیٹھ رہے تو بھی امن کا مستحق ہوگا،ورنہ ظلم اور عہد شکنی ہوگی اور خدا بھی اس کا نگہبان ہے جو وفاشعاری اور احتیاط(سے تعمیل عہد) کرے اور اللہ کا رسول محمدؐ بھی جن پر خدا کی توجہ اور سلامتی ہو۔

"میثاقِ مدینہ" کی پہلی ۳۲ دفعات مہاجرین و انصار (مسلمانوں) کے متعلق ہدایات پر مشتمل ہیں، اور بقیہ حصہ یہود مدینہ کے حقوق و فرائض سے متعلق ہے[5]۔

یہودیوں کے ساتھ مذہبی رواداری، آزادی اور اُن کے حقوق کے تحفظ کی یہ تاریخ ساز دستاویز اور اس کی دفعات اپنی حقیقت پر آپ گواہ ہیں۔ مذہبی رواداری، امن و سلامتی، آزادی اور انصاف کا ہر جوہر اس میں موجود ہے[6]۔

آپؐ نے یہود اور غیر مسلم اقلیتوں کو وہ حقوق اور مراعات دیں جن کا کوئی اورتو کجا خود یہودی بھی تصور نہیں کرسکتے تھے کہ یہ غیر مسلموں کے حقوق کی ادائیگی اور تحفظ کی کس قدر بے نظیر اور بلند مثال ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہود نے کبھی بھی اس معاہدے پر سنجیدگی سے عمل نہیں کیا۔ اور ہمیشہ اندرونِ خانہ سازشوں میں مصروف رہے لیکن اس کے باوجود رسالت مآب ﷺ نے انہیں کبھی بھی اس معاہدے سے خارج قرار دے کر کوئی تادیبی کار روائی نہیں کی بلکہ تحمل و برداشت کا ہی مظاہرہ فرماتے رہے ۔

"میثاقِ مدینہ" میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں اس امر کی صراحت کردی گئی کہ غیر مسلم یہودیوں کو ان کے دین کی پوری آزادی ہوگی۔ چنانچہ ایک دفعہ کے الفاظ یہ ہیں:]’’ للْمُسْلِمِیْنَ دِیْنُھُمْ وَلِلْیَھُوْدِ دِیْنُھُمْ ‘‘[یعنی مسلمانوں کے لئے مسلمانوں کا دین اور یہودیوں کے لئے یہودیوں کا دین ہے۔ یعنی مدینہ میں جتنے لوگ بھی بستے تھے ان کو دینی، عدالتی اور قانونی آزادی کا اطمینان دلایا گیا تھا۔[7]

نامور عرب محقق اور سیرت نگار محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:

"یہ وہ تحریری معاہدہ ہے جس کی بدولت حضرت محمد ﷺنے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا باضابطہ انسانی معاشرہ قائم کیا جس سے شرکاء معاہدہ میں ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدہ و مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔ انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی۔"[8]

قرآن کریم میں یہودیوں کی بدعہدی کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا رسول اللہ ﷺ کو اپنی عملی زندگی میں اس کا ثبوت ملتا رہا مگر آپ ﷺ کا دل یہودیوں کے بُرے برتاؤ کے باوجود سخت ہونے کے بجائے نرم ہوتا رہا۔ غزوۂ خیبر میں جو مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا اس میں توریت کے متعدد نسخے تھے۔ یہودیوں نے درخواست کی کہ وہ انہیں عطا کردیئے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ یہ تمام صحیفے ان کے حوالے کردیئے جائیں۔یہودی فاضل ڈاکٹر اسرائیل نفسون اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتاہے:

"اس واقعہ سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان مذہبی صحیفوں کا رسول اللہ ﷺ کے دل میں کس درجہ احترام تھا۔ آپ کی اس رواداری اور فراخ دلی کا یہودیوں پر بڑا اثر پڑا۔ وہ آپ ﷺ کے اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتے کہ آپ ﷺ نے ان کے مقدس صحیفوں کے ساتھ کوئی ایسا سلوک نہیں کیا جن سے ان کی بے حرمتی لازم آتی ہو۔ اس کے مقابلہ میں ان کو یہ واقعہ بھی خوب یاد ہے کہ جب رومیوں نے یروشلم کو ۷۰ ؁ء ق م قبل مسیح میں فتح کیا تو انہوں نے ان مقدس صحیفوں کو آگ لگا دی اور ان کو اپنے پاؤں سے روندا۔ اسی طرح متعصّب نصرانیوں نے اندلس میں یہود پر مظالم کے دوران توریت کے صحیفے نذرِ آتش کئے۔ یہ وہ عظیم فرق ہے جو دیگر فاتحین اور پیغمبر اسلام کے درمیان ہمیں نظر آتا ہے۔[9]"

فرامین رسولؐ پر مبنی غیر مسلم ذمیوں کے حقوق:

آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں قریب قریب پورا جزیرۃ العرب زیر نگین ہوچکا تھا۔نجران یمن کے علاقے میں زرخیز اور شاداب بستی تھی جہاں بنی حارث آباد تھے جس میں عیسائی راہب رہا کرتے تھے۔سن۱۰ھ میں حضور ﷺ نے خالد بن ولید کو تبلیغ اشاعت کے واسطے وہاں بھیجا اور حکم دیا کہ تین مرتبہ بلند آواز سے تبلیغ اسلام کرنا جو اسلام قبول کرلیں انہیں مذہب کی تعلیم دینا اورجو نہ مانیں اور مقابلے پر اتر آئیں ان سے مقابلہ کرنا چنانچہ تمام لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔

عیسائیوں نے البتہ مباہلہ کے واسطے حضور ﷺ کی خدمت میں اپنے ایک وفد کے ساتھ عاقب اور سعیدنامی دو راہبوں کو بھیجا ۔ حضور ﷺ نے اس وفد کومسجد نبوی میں ٹھہرایا اور مباہلہ کے واسطے اہل بیت کو بلایا لیکن دونوں راہب حضور ﷺ کی اعلیٰ صفات سے اتنے متاثر ہوچکے تھے کہ خود ہی مباہلہ سے دستبردارہوگئے اور صلح کی درخواست کی۔ان شرائط پر صلح ہو گئی کہ یہ لوگ مسلمانوں کو ہر سال دوہزار قبائیں دیا کریں گے۔سود کا کاروبارچھوڑ دیں گے اور مسلمان قاصدوں کی مہمان نوازی کیا کریں گے۔ اس کے مقابلے میں حضور ﷺ نے ان کے دینی مراسم کی آزادانہ بجاآوری کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس کا ذمہ لیا۔[10]

آنحضرت محمد ﷺ کا اہل نجران کے ساتھ معاہدہ:

نجران کے عیسائیوں کے ساتھ جو معاملہ طے ہوا اُسے احمد بن یحیی بلدزری اپنی کتاب " فتوح البلدان " میں درج ذیل الفاظ میں بیان کرتا ہے :

" ولِنَجْرانَ وحَاشِیَتها جِوَارُاللّهِ وَذَّمة مُحَمَّدِنالنَّبِیِّ رَسُوْلِ اللّه عَلٰی أَنْفُسهِمْ وَمِلَّتهِمْ وَأَرْضهِمْ وَأَمْوَالهمْ وَغَائبهم وَشَاهدهم وَغَیْرهم وبَعْثهم وأَمْثِلَتهُمْ لَا یُغَیَّرُ مَا کَانُوا عَلَیهِ ولَا یُغَیِّرُ حَقُّ مِنْ حُقُوْقهم وَأَمْثِلهم وَلَا یُفْتَنُ اُسْقُفٌ مِنْ اُسْقُفِیَّته وَلَا راهب مِن رهبَانِیَّته وَلَا وَاقةٍ مِنْ وَقَاهيَّته عَلٰی مَا تَحْتِ اَیْديهِمْ مِنْ قَلِیْلٍ اَوْ کَثِیْرٍ وَلَیْسَ عَلَیهم رهق وَلَا دَمُ جَاهلِیّة وَلَا یُحْشَرُوْنَ ولَا یُعْشَرُوْنَ وَلَا یَطاءُ اَرْضهم جَیْشٌ مَنْ سَاَلَ مِنهم حَقّاً بينهم النَصفُ غَیْرَ ظَالِمِیْنَ وَلَا مَظْلُوْمِیْنَ بِنَجْرَانَ۔ وَمَنْ أَکَل مِنهم رِبًا من ذی قبل فَذِمَّتِیْ منهُ بَرِیئةٌ ولایُوخذُ مِنهم رَجُلٌ بِظُلْمِ آخَرَ وَلهم عَلٰی مَا فِی هذه الصَّحِیْفةِ جِوارُاللّه وذمةُ مُحَمّدِ النّبیٍ أبداً حَتَّی یَأتِیَ أَمْرُاللّهِ مَا نَصَحُوْا وَأصْلَحُوْا فِیْمَا عَلَیهمِ غَیْرَ مُکَلَّفِیْنُ شَیْاً بِظُلْمٍ "[11]

نجران اور اس کے اطراف کے باشندوں کی جانیں، ان کا مذہب، ان کی زمینیں، ان کا مال، ان کے حاضر و غائب، ان کے قافلے، ان کے قاصد، ان کی مورتیں، یہ سب اللہ کی امان اور اس کے رسول کی ضمانت میں ہیں۔ ان کی موجودہ حالت میں کوئی تغیر نہ کیا جائے گا۔ نہ ان کے حقوق میں سے کسی حق میں دست اندازی کی جائے گی اور نہ مورتیں بگاڑی جائیں گیکوئی پادری اپنی پادریت سے، اسقف اپنی اسقفیت سے، کوئی راہب اپنی رہبانیت سے اور نہ ہی کنیسہ کا کوئی منتظم اپنے عہدہ سے ہٹایا جائے گا اور جو بھی کم یا زیادہ ان کے قبضہ میں ہے اسی طرح رہے گا۔ ان کے زمانہ جاہلیت کے کسی جرم یا خون کا بدلہ نہ لیا جائے گا نہ ان کو ظلم کرنے دیا جائے گا اور نہ ان پر ظلم ہوگا، ان سے جو شخص سود کھائے گا وہ میری ضمانت سے بری ہے۔ اس معاہدہ میں جو لکھا گیا ہے اس کے ایفاء کے بارہ میں اللہ کی امان اور محمد النبیؐ کی ذمہ داری ہے، یہاں تک کہ اس بارہ میں خدا کا کوئی دوسرا حکم نازل ہو ۔جب تک وہ لوگ مسلمانوں کے خیرخواہ رہیں گے، ان کے ساتھ جو شرائط کئے گئے ہیں ان کی پابندی کریں گے، ان کو ظلم سے کسی بات پر مجبور نہ کیاجائے گا۔

اس معاہدہ سے حسبِ ذیل حقوق متعین ہوتے ہیں:

  1. ان کی جان محفوظ رہے گی۔
  2. ان کی زمین، جائیداد اور مال وغیرہ ان کے قبضہ میں رہے گا۔
  3. ان کے کسی مذہبی نظام میں تبدیلی نہ کی جائے گی۔
  4. مذہبی عہدے دار اپنے اپنے عہدہ پر برقراررہیں گے ۔
  5. صلیبوں اور مورتوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔
  6. ان کی کسی چیز پر قبضہ نہیں کیا جائے گا۔
  7. ان سے فوجی خدمت نہیں لی جائے گی۔
  8. پیداوار کا عشر نہیں لیاجائے گا۔
  9. ان کے ملک میں فوج نہیں بھیجی جائے گی۔
  10. ان کے معاملات و مقدمات میں پورا انصاف کیا جائے گا۔
  11. ان پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہونے پائے گا۔
  12. سود خوری کی اجازت نہیں ہوگی۔
  13. کسی مجرم کے بدلہ میں غیر مجرم کو نہیں پکڑا جائے گا۔
  14. اور نہ کوئی ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔

اس زمانہ کی مہذب حکومتیں بھی اس سے زیادہ حقوق اور کیا دے سکتی ہیں۔ ان حقوق میں وہ ساری چیزیں آگئی ہیں جو ایک محکوم کے حقوق کے تحفظ اور اس کی باعزت زندگی کے لئے ضروری ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ حقوق خود اپنی حکومت بھی اپنےعوام کو نہیں دے سکتی تھیں[12]

سینٹ کیتھرین کے راہبوں کو، بلکہ سارے عیسائیوں کو ایک سند نامہ حقوق (Charter) عطا فرمایا، جس کے بارے میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ دنیا کی تاریخ روشن خیالی اور رواداری کی جو اشرف ترین یادگاریں پیش کرسکتی ہے یہ ان میں سے ایک ہے۔ یہ دستاویز، جسے مورخین اسلام نے حرف بحرف قلم بند کیا ہے، وسعت نظری اور آزاد خیالی کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔ اس دستاویز کی رو سے عیسائیوں کو چند ایسی استثنائی مراعات حاصل ہوئیں جو انہیں اپنے ہم مذہب حکمرانوں کے تحت بھی نصیب نہیںہوئی تھیں۔

عیسائیوں سے یہ وعدہ کیا گیا کہ :

(۱) ان پر کوئی ناجائز ٹيكس نہیں لگائے جائیں گے۔

(۲) ان کا کوئی پادری اپنے علاقے سے نہ نکالا جائے گا۔

(۳) کسی عیسائی کو اپنا مذہب ترک کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔

(۴) کسی راہب کو اس کے راہب خانے سے خارج نہیں کیا جائےگا۔

(۵) کسی زائر کو سفر زیارت سے نہیں روکا جائے گا۔

(۶ ) مسجدیں یا مسلمانوں کے رہنے کے مکان بنانے کے لئے کوئی گرجا مسمار نہ کیا جائے گا۔

(۷) جن عیسائی عورتوں نے مسلمانوں سے شادی کر رکھی تھی ان کو یقین دلایا گیا کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہنے کی مجاز ہوں گی اور اس بارہ میں ان پر کوئی جبر و اکراہ نہ کیا جائے گا۔

(۸) اگر عیسائیوں کو اپنے گرجاؤں یا خانقاہوں کی مرمت کے لئے یا اپنے مذہب کے کسی اور امر کے بارے میں امداد کی ضرورت ہوگی تو مسلمان انہیں امداد دیں گے۔

(۹) اس امداد کو ان کے مذہب میں شریک ہونے سے تعبیر نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے حاجت مندوں کی حاجت براری اور خدا اور رسولؐ کے ان احکامات کی اطاعت سمجھا جائے گا جو عیسائیوں کے حق میں صادر کئے گئے ۔

(۱۰) اگر مسلمان کسی بیرونی عیسائی طاقت سے برسرِ جنگ ہوں گے تو مسلمانوں کے حدود کے اندر رہنے والے کسی عیسائی سے اس کے مذہب کی بناء پر حقارت کا برتاؤ نہ کیا جائے گا۔ اگر کوئی مسلمان کسی عیسائی سے ایسا برتاؤ کرے گا تو وہ رسولؐ کی نافرمانی کا مرتکب تصور ہوگا[13]۔

(برخلاف اس کے) عیسائیوں سے اس امر کی توقع نہیں رکھی جاتی۔ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کے دشمنوں سے مقابلہ کریں۔ اس لئے کہ غیر مسلم اقلیتوں کو مسلم حکومت کے غیر مسلم حکومتوں کے ساتھ جنگ و جدل سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمانوں کی عیسائی بیویاں اپنے مذہب پر قائم رہتیں اور اس بناء پر ان کو کسی قسم کی تکلیف و ایذا نہیں دی جاتی تھی۔ پیغمبر اسلامؐ کے اس مشہور معاہدہ میں یہ بھی درج تھا کہ:

"اگر عیسائیوں کو گرجاؤں، صومعوں کی تعمیر میں یا اپنے کسی مذہبی امر میں مدد کی ضرورت ہو تو مسلمانوں کو ہر طرح ان کی اعانت کرنی ہیےچاہیے۔ تم یہ خیال نہ کرو کہ اس سے ان کے مذہب میں شرکت ہوتی ہے بلکہ یہ صرف ان کے احتیاج کو پورا کرنا ہے۔ اور رسولِ خدا کے ان احکام کی پیروی کرنا ہے جو خدا کے حکم سے ان کے حق میں تحریر کئے گئے ہیں۔ جنگ کے وقت یا اس زمانہ میں جب کہ مسلمان اپنے دشمنوں سے برسرِپیکار ہوں۔ کسی عیسائی سے اس لئے نفرت یا عداوت نہیں رکھنا ہیےچاہیے کہ وہ مسلمانوں میں رہتا ہے۔ جو کوئی مسلمان کسی عیسائی سے ایسا سلوک کرے گا تو وہ غیر منصف اور رسولؐ کا نافرمانبردار اور سرکش خیال کیاجائے گا"۔

یہ اس سند نامہ کی شرائط تھیں جو پیغمبر اسلام ؑ نے عیسائیوں کو عطا کیا تھا۔ یہ ایک نہایت وقیع اور عظیم الشان پروانۂ آزادی اور دنیا کی تاریخ میں اعلیٰ درجہ کی مساوات حقوق کی ایک شریفانہ اور قابلِ وقعت یادگار ہے۔

ماضی اور حال کی تاریخ ہمیں اور بھی بہت سے فاتحوں اور کشور کشاؤں کے نام بتاتی ہے۔ وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان فاتحوں کا برتاؤ اپنے محکوموں کے ساتھ کیا تھا۔ حاکم رعایا کو کس طرح کی آزادی دیتے تھے۔ ان باتوں کا اگر اسلام کی رواداری اور مساخت سے موازنہ کیاجائے تو زمین آسمان کا فرق معلوم ہوگا۔

جو شخص بدی کا بدلہ بدی سے دینے کی طاقت رکھتا ہو، لیکن اس کے باوجود عفو کے خدائی اصول کی نہ صرف تلقین کرے بلکہ اس پر عمل بھی کرے، اس کی سیرت سے متعلق انسانوں کے دل میں ہمیشہ عظمت و بزرگی کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ جب آنحضرتؐ رئیس مملکت اور رعایا کی جان و آزادی کے محافظ کی حیثیت سے عدل کرتے تھے تو آپؐ ہر مجرم کو اس کے جرم کی پوری پوری سزا دیتے تھے لیکن رسول خدا اور معلم اسلام کی حیثیت سے اپنے بدترین دشمنوں سے بھی نرمی اور رحم کا سلوک کرتے تھے۔ آپؐ کی ذات میں وہ افضل ترین صفات جن کا تصور انسان کرسکتا ہے، یعنی عدل اور رحم،بدرجہ اتم مجتمع تھیں۔

آنحضرت ﷺ کا اہل یمن کے لیے امان نامہ:

سلیمان بن اشعث سجستانی سنن ابوداؤد میں بیان کرتے ہیںکہ رسول اکرم ؐ نے اہل یمن کو ایک امان نامہ لکھ دیا جس کی عبارت درج ذیل ہے:

حَدَّثَنا هنَادُ بْنِ السَّرِیّ عَنْ اَبِیْ اُسَامة عَنْ اَبِیْ مُجَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِیْ عَنْ عَامِرٍ بْنِ شهرٍ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلَ الله ﷺ فَقَالَتْ لِیْ همدَان هل اَنْتَ اٰتٍ هذا الرُّجُلَ وَمُرْنَا دِلَنَا فَاِنَّ رَضِیْتَ لَنَا شَیْئاً قَبِلْناهُ وَاِنْ کرهْتَ شَیْئاً کَرهناه قُلْتُ نَعَمْ فَجَءْتَ حَتّٰی قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّه ﷺ فَرَضِیْتُ اَمَره وَاَسْلَمَ قَوْمِ وَکَتَبَ رَسُوْلَ الله هذا الْکِتَابَ عَلٰی عُمَیْرً ذِیْ مَزَانَ قَالَ وَبَعَثَ مَالِکُ ابْنُ مَرَارة الْزهایِ اِلَی الْیَمْنِ جَمِیْعاً فَاَسْلَمَ عَأٌ ذُوْخَیْوَانَ قَالَ فَقِیْلَ لَعَکَ انْطَلَقْ اِلٰی رَسُوْلَ الله ﷺ فَخُذْ مِنه الْاَمَانَ عَلٰی قَرْیَتِکَ وَمَالِکَ فَقَدِمَ فَکَتَبَ لهُ رَسُوْلَ الله ﷺ ۔ بِسْمِ الله الْرَحْمٰنِ الْرَّحِیْم مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللّه ﷺ لِعَکٍّ ذِیْ خَیْوَانَ اِنْ کَانَ صَادِقاً فِیْ اَرْضه وَمَاله وَرَقِیْقه فَله الْاَمَانُ وَذِمّةُ الله وَذِمّةُ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ الله ﷺ وَکَتَبَ خَالِدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْعَاصِ[14]۔

ترجمہ: ۔ہنا دبن سری ابواسامہ ،مجالد، شعبی،عامر بن شھرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نکلے تو مجھ سے ہمدان(ایک قبیلہ کانام) کے لوگوں نے کہا کہ کیا تم سے یہ ہوسکتا ہے کہ اس شخص کے پاس جاؤ(یعنی آنحضرت ﷺ کے پاس) اور ہماری طرف سے گفتگو کرو۔ اگر تم کسی بات پر راضی ہوجاؤ گے ہم اس کو قبول کریں گے اور جس بات کو تم برا جانو گے ہم بھی اس کو برا جانیں گے۔ میں نے کہا ہاں میں جاؤں گا۔ پھر میں چلا گیا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ ﷺ کے حکم کو پسند کیا اور میری قوم کے لوگ مسلمان ہو گئے۔راوی نے کہا رسول اللہ ﷺ نے مالک بن مرارہ رھاوی کواسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے یمن والوں کے پاس بھیجاایک شخص جس کا نام ذوخیوان تھا وہ مسلمان ہوگیا۔میں نے اس سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جااوراپنی اور بستی والوں کے لیے اور اپنے مال کے لیے امان لے کر آ(تاکہ آئندہ کوئی تجھ پر اور تیری بستی والوں پر زیادتی نہ کرے)۔وہ شخص (یعنی عک ذوخیوان) آیا رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک امان نامہ لکھ دیا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدﷺ کی طرف سے جواللہ کے رسول ہیں عک ذی خیوان کو لکھاجاتا ہے، اگروہ سچا ہے تو اس کو امان ہے۔ اس کی زمین اور مالوں میں اور غلاموں میں اور وہ ذمہ میں ہیں۔اللہ کے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے یہ پروانہ خالد بن ولید بن سعید بن العاص نے لکھا ۔

پیار ے رسول اللہ ﷺ نے ذمی تو ذمی ہے ،اگر کسی کافر کوبھی کسی عورت تک نے پناہ دی تو اس کو بھی امان میں سمجھا، ذیل کی روایت ملاحظہ ہو :

حَدَّثَنَا اَحْمَدٌ بْنِ صَالِحٍ نَاابْنُ وهب اَخْبَرَنِیْ عِیَاضُ بْنُ عَبْدِاللّه عَنْ مَحْزَمة بْنَ سُلَیْمَانَ عَنْ کُرَیْبٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّ ثَتْنِیْ اُمُّ هانِیْ ءٍ بِنْتُ اَبِیْ َالِبْ اَنّها اَجَارَتْ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ یَوْمَ الْفَتْحِ فَاَتَتِ النَّبِیَّ ﷺ فَذَکَرَتْ ذَالِکَ لهُ قَالَ فَقَالَ قَدْ اَجَرْنَامَنْ اَجَرْتِ وَآمَنَّا مَنْ آمَنْتِ[15]

ترجمہ: احمد بن صالح ابن وھب،عیاض بن عبداللہ محزمہ بن سلیمان،کریب ابن عباس ام ھانی بنت ابوطالب سے روایت ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے دن ایک مشرک کو پناہ دی پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس اس کا ذکرکیا۔تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم نے پناہ دی جس کو تونے پناہ دی اور ہم نے امن دیا جس کو تونے امن دیا۔

آنحضرت ﷺ کا مجوس سے معاہدہ:

ہجر کے مجوس سے آپؐ نے درج ذیل معاہدہ فرمایا،

بسم الله الرحمٰن الرحیم

مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ رَسُوْلِ اللّهِ إلٰی أهل هجَرَ۔]سِلْم اَنْتُمْ۔ فَإنِّیْ اَحْمَدُ إلَیْکُمُ اللّهَ الَّذِیْ لَا اِله اِلَّا هو۔ اَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّیْ اُوْصِیْکُمْ بِاللهِ وَبِاَنْفُسِکُمْ؛ أَنْ لَّا نَضِلُوْا بَعْدَ اِذ هدیْتُمْ، وَاَنْ لَّا تَغُرُّوْا بَعْدَ إذْ رَشَدْتُّمْ۔أَمَّا بَعْدُ: فَقَدْ جَاءَ نِیْ وَفْدُکُمْ، فَلَمْ آتِ اِليهِمْ إلَّا مَا سَرّهم ، وَإنِّیْ لَوْ جهدْتُّ حَقِّیْ فِیْکُمْ، کُلّه اَخْرَجْتُکُمْ مِن هجَرَ، فَشَفَعْتُ غَاءِبَکُمْ، وَاَفْضَلْتُ عَلٰی شَاهدکُمْ، فَاذْکُرُوْا نِعْمةَ اللّهِ عَلَیْکُمْ۔أمَّا بَعْدُ: فَقَدْ اَتَانِیَ الَّذِیْ صَنَعْتُمْ وَإِنه مَنْ یُّحْسِنْ مِنْکُمْ لَا یُحْمَلْ عَلَیهِ ذَنْبُ الْمُسِیْ۔ فإذَا جَاءَکُمْ أمْرَأْنِیْ فَاَطِیْعُوهمْ، وَأَنْصُرُوهُمْ عَلٰی اَمْرِاللّهِ وَفِیْ سَبِیْله، فَإِنّه مَنْ یَّعْمَلَ مِنْکُمْ عَمَلاً صَالِحًا؛ فَلَنْ یَّضِلَّ له عِنْدَاللّهِ وَلا عِنْدِیْ۔[16]

ترجمہ :رسول اللہ ﷺ نے اہلِ ہجر (بحرین کے مجوس) کو تحریر فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ محمد النبی ﷺ کی جانب سے اہلِ ہجر کے نام، تمہیں امن دیا گیا ہے۔ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔امابعد: میں تمہیں اللہ کے لئے اور خود تمہاری ذات کے لئے نصیحت کرتا ہوں کہ ہدایت پانے کے بعد گمراہ نہ ہونا اور رُشد حاصل کرنے کے بعد غلط روی اختیار نہ کرنا۔ تمہارا وفد میرے پاس آیا اور میں نے اس سے کوئی ایسی بات نہیں کی جو ناخوش کرنے والی ہو، حالانکہ اگر میں اپنا پورا حق لینے کی کوشش کرتا تو تمہیں ہجر سے نکال دیتا۔ میں نے تمہارے غائب کی رعایت کی ہے اور حاضر کے ساتھ مہربانی برتی ہے۔پس تم سب کو اللہ کی نعمت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے

مجھے تمہارے چال چلن کی روئیداد ملی۔ تم میں سے جو شخص نیک چلن رہے گا اُس پر کسی بدکردار کے متعلق گرفت نہ ہوگی۔ میرے عامل جب تمہارے ہاں آئیں تو ان کی اطاعت کرو اور احکامِ خداوندی میں تبلیغ پر اُن کی اعانت کرو۔ تم میں سے جو شخص حسن کردار دکھائے وہ نہ ہی میرے نزدیک قابلِ مواخذہ ہوگا، اور نہ اللہ کے حضور[17]۔

نجران کے عیسائی، اہلِ کتاب تھے، یعنی کافر تھے، مشرک نہ تھے۔ لیکن یہ مجوس تو بالکل مشرک تھے۔ رحمت للعالمینؐ کی رواداری ان کے ساتھ بھی وہی تھی، جو اہلِ کتاب کے ساتھ تھی۔ یہی اسلام کی وہ روش تھی جس سے غیر مسلم اسلام کے حلقہ میں آتے گئے تھے۔

ایک قوم کی اخلاقی بلندی اور اس کے کردار کی عظمت کا اندازہ زیادہ صحیح طور پر اس سے ہوتا ہے کہ فریق محارب کے ساتھ جنگ میں اس کا برتاؤ کیا ہوتا ہے، اس پر اس کو بزورِ شمشیر فتح حاصل ہوتی ہے تو اس وقت وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اور اگر فریق محارب مغلوب ہوکر صلح کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو اس کی طرف سے صلح کی شرائط کی نوعیت کیا ہوتی ہے اور وہ ان شرائط کی پابندی کس حد تک کرتی ہے۔

قدیم زمانہ میں ایران اور روم کی حکومتیں دُشمنوں کے ساتھ جنگ میں کیا معاملہ کرتی تھیں۔ اس قدیم تاریخ کو دیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں یہ دیکھو کہ اس دور تہذیب و تمدن میں بھی گذشتہ دو عالمگیر جنگوں میں دولتِ متحدہ نے جرمنی کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟اٹلی اور جاپان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا گیا؟ اور جب ان سے صلح کی گئی تو اس کے شرائط کیا تھے؟ ان مفتوح اقوام کی شہری آزادی کس حد تک باقی رکھی گئی، ان کی قومی انفرادیت کہاں تک آزاد رہی؟ اور ان کے انسانی حقوق کا احترام کس درجہ تک ملحوظ رکھا گیا

اہلِ مقنا و حنین اور خیبر، تینوں کے لئے ہے (تاقیامت) امان نامہ

حضرت محمد ﷺ نے اہلِ کتاب خصوصاً غیر مسلموں کو جو اہلِ مقنا و حنین اور خیبر میں آباد تھے اُن کو امان نامہ بھیجا، جو کہ غیر مسلموں کے بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور بڑی حیران کن بات ہے کہ اس امان نامہ کی میعاد تا قیامت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں، جسے ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے الوثائق سیاسیۃ میں لکھا ہے:

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

هذا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ الله لِحُنَیْنَا، وَلِأهل خَیْبَرَ وَالْمَقْنَا وَلُذَرا رِيهم ، مَا دَامَتِ السَّمٰواتُ عَلَی الْاَرْض۔ سَلَامٌ اَنْتُمْ، إنَّیْ اَحْمَدُ إِلَیْکُمُ اللهَ الَّذِیْ لَا اِلهَ اِلَّاهو ۔ اَمَّا بَعْدُ: فَإنه أنْزَلَ عَلَی الْوَحْیَ؛ أنَّکُمْ رَاجِعُوْنَ إِلٰی قُرَاکُمْ وَسُکْنٰی دِیَارِکُمْ، فَارْجِعُوْا آمِنِیْنَ بِأمَانِ الله وَأمَانِ رَسُوْله، وَلَکُمْ ذِمّةُ الله وَذِمّةُ رَسُوْله عَلٰی اَنْفُسِکُمْ، وَدِیْنَکُمْ، وَأَمْوَالِکُمْ، وَرَقِیْتِکُمْ، وَکُلُّ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ اَدَاءُ جِزْيةٍ، وَلَا تُجَزَّلَکُمْ نَاصِية، وَلا یَطَا اَرْضَکُمْ جَیْشٌ، وَلا تُحْشَدُوْنَ وَلا تُحْشَرُوْنَ وَلا تُعْشَرُوْنَ وَلا تُظْلَمُوْنَ، وَلا یَجْعَلُ اَحَدَ عَلَیْکُمْ رَسْمًا، وَلا تُمْنَعُوْنَ مِنْ لِبَاسِ الْمَشَقَّقَاتِ وَالْمُلَوَّنَاتِ، وَلَا مِنْ رُکُوْبِ الْخَیْلِ وَلِبَاسِ اَصْنَافِ السَّلاحِ۔ وَمَنْ قَاتَلَکُمْ فَقَاتِلُوهُ، وَمَنْ قُتِلَ فَیْ حَرْبِکُمْ فَلا یُقَادُ به اَحَدٌ مِّنْکُمْ وَلا له دِية۔ وَمَنْ قَتَلَ مِنْکُمْ اَحَدَالْمُسْلِمِیْنَ تَعَمُّدًا فَحُکْمه حُکْمُ الْمُسْلِمِیْنَ۔ وَلا یُفْتَرٰی عَلَیْکُمْ بِالْفَحْشَاءِ، وَلَا تُنْزَلُوْنَ مَنْزِلة أهل الذِّمّةِ، وإنِ اسْتَعْنِتُمْ تُعَانُوْنَ وَإنِ اسْتَرْفَدْتُّمْ تُرْفَدُوْنَ۔ وَلَا تُطَالَبُوْنَ بِبِیْضَاءَ وَلا صَفْرَاءَ وَلَا سَمْرَاءَ وَلَا کُرَاعَ وَلَا حَلَقةَ وَلا شَدَّالْکِْشْتِیْزِ وَلا لِبَاسَ الْمُشهرَاتِ، وَلا یُقْطَعُ لَکُمْ شِسْعَ نَعْلٍ، وَلَا تُمْنَعُوْنَ دُخُوْلَ الْمَسَاجِدِ، وَلَا تُحْجَبُوْنَ عَنْ وُلاة الْمُسْلِمِیْنَ، وَلَا یُوَلّٰی عَلَیْکُمْ وَالٍ إِلَّا مِنْکُمْ أَوْ مِن أهلِ بَیتِ رَسُوْلِ اللّهِ۔ وَیُوْسَعُ لِجَنَاءِزِکُمْ إِلَّاإلٰی) أنْ تَصْیِرَ إِلٰی مَوْضِعَ الْحَقِّ الْیَقِیْنِ۔ وَتُکْرِمُوْا لِکَرَامَتِکُمْ وَلِکَرَامةِ صَفِیّةِ ابْنة عَمِّکُمْ۔ وَعَلٰی أهل بَیْتِ رَسُوْلِ الله وَعَلَی الْمُسْلِمِیْنَ أنْ تُکْرَمَ کَرِیْمُکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ مُسِیْءِکُمْ۔ وَمَنْ سَافَرَ مِنْکُمْ وهو (فهو) فِیْ اَمَانِ الله وَأمَانِ رَسُوْله۔ وَلَا إِکْراهَ فِی الدِّیْنِ، وَمَنْ مِنْکُمُ اتَّبَعَ مِلةَ رَسُوْلِ الله وَوَصِیَّته، کَانَ له رُبْعُ مَا أمَرَ به رَسُوْلُ الله لِأهْلِ بَیْته، تُعْطَوْنَ عِنْدَ عَطَاءِ قُرَیْشٍ وهو خَمْسُوْنَ دِیْنَارًا، ذٰلِکَ بِفَضْلٍ مِنِّیْ عَلَیْکُمْ۔ وَعَلٰی أهل بَیْتِ رَسُوْلِ الله وَعَلَی الْمُسْلِمِیْنَ الْوَفَاءُ بِجَمْعِ مَا فِی هذا الْکِتَابِ۔ فَمَنْ أطْلَعَ لِحُنْیَنَا وَأهل خَیْبَر وَالْمَقَا بِخَیْرٍ فهو أَخْیَرُ له وَمَنْ أَطْلَعَ لهم به فهو شَرٌّ له۔ وَمَنْ قَرَءَ کِتَابِی هذا، أوْ قُرِئَ عَلَیه وَغَیَّرَ أَوْ خَالَفَ شَیْءًا مِمَّا فِیه، فَعَلَيهِ لَعْنةُ الله وَلَعْنة اللَّاعِنِیْنَ مِنَ الْمَلاءِکةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ، وهوَ بَرِئٌ مِنْ ذِمَّتِیْ وَشَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامةِ وَأنَا خَصْمه، وَمَنْ خَصَمَنِیْ فَقَدْ خَصَمَ اللّهَ، وَمَنْ خَصَمَ اللّه فهووَ فِی النَّارِ، وَبِْئسَ الْمَصِیْرُ۔ الَّذِیْ لَا إله اِلَّا هوَ وَکَفٰی به شهيْدًا وَمَلاءِکَته حَمَلة عرشه وَمَنْ حَضَرَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔۔ شهدَ (عَمَّارُ) بْنِ یَاسِرٍ وَسَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ مَوْلٰی رَسُوْلِ الله وَأبُوْذَرٍّالْغَفَّارِیِّ۔[[18]

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان او ر نہایت رحم والا ہے۔ یہ امان نامہ خدا کے رسول محمدؐ کی طرف سے ہے، مندرجہ ذیل طبقات کے لئے:

)الف) اہل حنین (ب) اہلِ خیبر(ج) اہل مقنا

اور ان سب کی ذریت کے لئے تا قیامت میعاد امان

میں انہیں اس خدا بے ہمتا کی حمد و ثنا کے ساتھ سلامتی کی بشارت دیتا ہوں جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔بعد ازیں یہ کہ مجھے وحی الٰہی کے ذریعے تینوں طبقات کے اپنے اپنے گھروں میں لوٹنے کی اطلاع ہوئی ہے سو ضرور لوٹ جایئے سب کے لئے خدا اور خدا کے رسول کی طرف سے پناہ ہے۔ نہ صرف تمہاری جانوں کے لئے امان ہے بلکہ

(ا) تمہارے دین کے لیے (ب) تمہارے اموال کے لیے

(ج) تمہارے غلاموں کے لیے (د) تمہاری جملہ املاک کے لیے

اِن سب میں خدا اور اُس کے رسولؐ کا ذمہ ہے۔

ماسوائے مذکورہ بالا رعایتوں کے یہ مراعات بھی دی جاتی ہیں:

  1. جزیہ کی معافی دی جاتی ہے
  2. پیشانی کے بال نہیں ترشوائے جائیں گے (جو عمل آزاد کردہ غلاموں کے لئے ایک مرتبہ کیا جاتا ہے)۔
  3. اسلامی لشکر تم پر حملہ نہیں کرے گا۔
  4. بیگارنہیں لی جائے گی۔
  5. فوجی مہم میں شرکت سے استثناء ہوگا ۔
  6. فوجی ضرورت کے لئے تمہارے گھر خالی کرانے کی معافی ہوگی۔
  7. لباس اور اُس کی رنگت میں ذمیوں کی سی پابندی معاف ہے۔
  8. گھوڑے پر سواری کی اجازت ہے۔
  9. مسلح ہوکر نکلنے کی اجازت ہے۔
  10. تم خود پر حملہ آور کے خلاف جنگ کرسکتے ہو۔ ایسی لڑائی میں تمہارے مخالف کے مقتولوں کی دیت یا قصاص تم سے نہیں دلوایاجائے گا۔
  11. لیکن جب تم میں سے کوئی شخص کسی مسلمان کا ناحق خون کردے تب جس طرح مسلمان قاتل پر قصاص یا دیت لازم کردی جاتی ہے تم پر بھی لازم ہے۔
  12. تم پر ناحق بے حیائی کا افتراء نہیں کیا جائے گا۔
  13. نہ تمہیں عام ذمیوں کے درجہ میں سمجھا جائے گا ۔
  14. تمہاری درخواست کرنے پر تمہاری مدد کی جائے گی۔
  15. تمہارے ورود پر تمہاری مہمانی کی جائے گی۔اور حقوقِ ریاست میں تم پر مندرجہ اشیاء ساقط ہیں:
  16. تم سے سونا، چاندی، گندم، مویشی، زرعین ادا کرنے اور کمر میں پٹکا باندھے رہنے کا مطالبہ نہ کیاجائے گا۔
  17. تمہارے لئے تم ہی میں سے سردار مقرر کیا جائے گا۔ یا اہلِ بیت رسولؐ خدا میں سے۔
  18. تمہارے جنازے لے جانے کی راہ میں رُکاوٹ نہ ہوگی۔

تمہاری یہ تعظیم اُم المؤمنین (صفیہ، تمہاری عم زاد بہن) کی بدولت ہے۔

  1. اھلِ بیت رسولؐ اور جملہ مسلمانوں پر تمہارے شرفاء کی تعظیم واجب ہے۔
  2. تمہارے معمولی مسامحات معاف کردیئے جائیں گے۔
  3. تم میں سے جو شخص سفر میں ہو، وہ خدا اور اُس کے رسولؐ کی پناہ میں ہے۔
  4. اسلام میں کسی کو جبری طور پر مسلمان کرنا روا نہیں۔
  5. تم میں سے جو شخص رسولؐ کے دین میں داخل ہوکر اُن کے احکام پر چلے اُس کے لئے رسولؐ کے اہلِ بیت کے موجب میں سے ایک چوتھائی وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے جو قریش کے مقرر کردہ موجب کے ساتھ عطا ہوگا۔ یہ رقم پچاس دینار ہے۔ تمہارے لئے یہ وظیفہ میری طرف سے عنایت ہے۔
  6. رسولؐ کے اہلِ بیت اور تمام مسلمانوں پر اس وثیقہ کی پابندی لازم کی جاتی ہے۔
  7. جو شخص اہلِ حنین و خیبر اور مقناہ میں رہنے والوں کے ساتھ بھلائی کرے اُسے اس کے احسان سے بہتر معاوضہ دیا جائے۔
  8. اور جو شخص ان (ہر سہ) میں سے کسی کے ساتھ برائی کرے اس سے بدلہ لیا جائے۔
  9. جو شخص میرا خط پڑھے یا اسے سنے اور اس میں تغیر یا اس کی مخالفت کرے ایسے شخص پر اللہ اور ملائکہ اور تمام جہان کی طرف سے لعنت ہے۔ ایسا ملعون قیامت کے روز نہ صرف میری شفاعت سے محروم ہوگا بلکہ میں خدا کے سامنے اُس کا دشمن ہوں گا اور جس کا دشمن میں ہوں گا خدا بھی اُس کا دشمن ہوگا۔ اور جس کا خدا دُشمن ہوگا اس کا ٹھکانہ جنہم ہے ۔ جہنم بہت تکلیف دہ مقام ہے جس کی شہادت خدائے یکتا، ملائکہ، عرش برداران اور مسلمان دیتے ہیں۔

گواہان:

(۱) عمار بن یاسر (۲) سلمان فارسی مولی رسول اللہؐ(۳) ابوذر غفاری[19]

آپؐ نے اہلِ ایلہ کو جو امان نامہ عطا کیا وہ تاریخ اسلامی میں ایک ایسی شاہکار دستاویز سمجھی جاتی ہے کہ جس میں آپؐ نے اُن کو دعوت اسلام بھی دی اور یہ بھی لکھا کہ اے اہلِ ایلہ! اگر یہ قبول نہیں تو پھر اسلامی اصول اور حکم ربی کے تحت اپنی حفاظت کی خاطر ہمیں (اللہ اور اس کے رسولؐ) کو جزیہ دو۔

مؤرخین نے اپنی کتب میں اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے اپنے تحقیقی مقالہ "الوثائق السیاسیۃ"میں اس معاہدہ کو مصادرِ اصلیہ سے یوں نوٹ کیا ہے:

اہلِ ایلہ کے لئے امان نامہ:

هذا آمَنة مِنَ الله وَمُحَمَّدٌ النَّبِیٌ رَسُوْلَ الله ﷺ یُوحنا بِنْ رَوْیة وَأهْلِ اِیْله سَفَنهم وَسِیَارَتهم فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ لهُمْ ذِمّةَ الله وَمُحَمَّدٌ النَبِیَ ﷺ وَمَنْ کَانَ مَعهمْ مِنْ أهْلِ الشامِ وَأهْلِ الْیَمْنِ وَأهلِ الْبَحْرِ مِمَّنْ اَحْدَثَ مِنْهم حَدَثاً فَاِنّه لاَیَحُوْلُ مَاله دُوْنَ نَفْسه وَاِنّهُ لِمَنْ اَخَذه مِنَ النَّاسِ وَاِنّهُ لاَیَحِلُّ اَنّ یَمْنَعُوْ مَا یَرُدُّوْنهُ وَلاَ طَرِیْقًا یَرُدُّوْنه مِنْ بَحْرٍاَوْبَرٍ[20]۔

یہ امان نامہ ہے اللہ تعالیٰ اور محمد النبیؐ رسول اللہ کی جانب سے یوحنابن رویہ اوراہلِ ایلہ دونوں کے لئے۔

اُن کے لئے تری اور خشکی دونوں قسم کے راستوں کی ذمہ داری خدا اور اُس کے رسول محمد ﷺ پر ہے۔

اس ذمہ داری میں اُن کے ساتھ اُن کے وہ حلیف بھی شامل ہیں جو شام و یمن اور بحیرہ قلزم کے ساحل پر آباد ہیں۔ اگر ان معاہدین کی طرف سے وعدہ شکنی ہو تو اُن پر حملہ کیا جائے گا۔

نہ اُن کے آدمیوں سے تعرض ہوگا، البتہ اُن کے مال مباح ہوں گے۔

ان معاہدین کے لئے خشکی اور سمندر کی راہیں جن پر وہ پہلے سے گزرتے ہیں بدستور کھلی رہیں گی۔

احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں غیر مسلموں (ذمیوں) کے حقوق:

حضورؐ اس قدر رحم دل اور احترام پسند تھے کہ آپؐ ایک بار ایک یہودی کے جنازہ کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔

امام بخاریؒ صحیح بخاری میں اس واقعہ کو ایک حدیث مبارکہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

عَنْ جابر بن عبداللّه رضی اللّه عنهما قال مربنا جنازة فقام لها النّبِیُّ ﷺ وَقَنَا لَقَلَنَا یا رسول الله انها جنازة يهودی فقال اذا رأیتم الجنازة فَقُوْمُوا[21]۔

حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی ﷺ کھڑے ہوگئے اور ہم لوگ بھی کھڑے ہوگئے۔ پھر ہم لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہؐ! یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو۔

ایک بار یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا السامُ علیکم (یعنی تم پر موت ہو) ، حضرت عائشہؓ سمجھ گئیں اور اُنہوں نے جواب میں کہا: وعلیکم السام ولعنة عنی (تم پر موت اور لعنت ہو) رسول اللہؐ نے سنا تو فرمایا: عائشہ ٹھہر جاؤ۔ خدا تمام کاموں میں نرمی پسند کرتا ہے۔[22]

رسولِ اکرم ﷺ کافروں کو بددُعا دینے کی بجائے دُعائیں دیا کرتے تھے۔ جب کہ اس کے مقابل میں کفار آپ کو گالیاں تک دیتے تھے۔ حضرت امام سیوطیؒ الخصائص الکبریٰ میں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ کی والدہ کافرہ تھیں۔ جہالت کی وجہ سے آنحضرتؐ کی شان میں گستاخیاں کرتیں۔ ابوہریرہؓ نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا تو بجائے بددعا دینے کے آپؐ کے دست مبارک ہدایت کی دُعا کے لئے اُٹھ گئے۔[23]

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک بار آنحضرتؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ ایک مجمع میں تشریف فرما تھے۔ ایک دیہاتی بدو (یہودی) آیا اور آپؐ کی چادر کھینچتے ہوئے کہنے لگا کہ تم نہ اپنے مال سے مجھے دیتے ہو نہ اپنے باپ کے مال سے۔ میرے یہ دونوں اونٹ (غلے) سے لاد دو۔ اُس نے چادر اس زور سے کھینچی تھی کہ آپؐ کی گردن مبارک لال ہوگئی لیکن آپؐ نے اس کو اس قدر گستاخی پر جس میں جسمانی تکلیف بھی شامل تھی اسے کچھ نہ کہا حتیٰ کہ ڈانٹا تک نہیں، اس سے باز پرس تک نہیں کی۔ بلکہ اُس کا مطالبہ پورا کردیا اور اُسے خوش کرکے لوٹا دیا[24]۔

حضورِ اکرمؐ کی زندگی شاہد ہے کہ آپؐ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ چاہے کوئی مشرک کافر ہے یہودی یا منافق ہے یا کوئی غیر مسلم ذمی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے کبھی کسی سے ذاتی معاملے میں انتقام نہیں لیا۔ سوائے اس کے کہ کسی نے احکام الٰہی کی خلاف ورزی کی ہو اور اللہ کی حدود میں سے کسی حد کو توڑا ہو۔[25]

امام بخاریؒ نے الجامع الصحیح بخاری میں رسول پاک ﷺ کے ایک فرمان کو نقل کیا ہے کہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ جن کافروں، غیر مسلموں، ذمیوں کو امان دی جائے (اپنے ذمہ لیا جائے) تو اُس امان (ذمہ) کو پورا کیا جائے

حَدَّثَنَا آدم بْنُ ابی ایاسٍ حَدَّثَنَا شُعْبة حَدَّثَنَا ابوحَمْزة قَالَ سَمِعْتُ جُوَیْرِيرة بْنَ قُدَامة التَّمِیْمِیْ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَبْن الخطاب قَلْنَا اَوصِیْنَا یَا اَمِیْرَالْمُؤْمِنِیْنَ قَالَ اُوْصِیْکُمْ بِذِمّةِ الله فَاِنّه ذِمّة نَبِیِّکُمْ وَرِزْقُ عَیَالِکُمْ[26]

ترجمہ: (ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے کہاکہ ہم سے ابوحمزہ نے کہا: میں نے جویریہ ابن قدامہ تمیمی سے سُناکہ وہ کہتے تھے کہ میں نے حضرت عمرؓ سے (جب وہ زخمی ہوئے) کہا: ہم کو وصیت کیجئے۔ اُنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ذمہ قائم رکھو، وہی پیغمبر کا ذمہ ہے (یعنی ذمیوں کو نہ ستاؤ)اور تمہارے بال بچوں کا رزق ہے (جزیہ کے روپے سے تمہارے بال بچے پلتے ہیں)۔

ایک ادنیٰ مسلمان کسی کافر کو پناہ دے تو سب مسلمانوں کو قبول کرنا چاہیے:

امام بخاریؒ نے اپنی جامع الصحیح (بخاری شریف) میں ایک حدیث بیان کی ہے جس کا عنوان ہے کہ مسلمان(غیر) مسلمان سب برابر ہیں، الفاظِ حدیث ملاحظہ ہوں:

حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدْ اخْبَرَنا وکیعٌ عَنِ الاعمشِ عنْ اِبْرَاهيمَ التَّمِیِّ عَنْ اَبِیهِ قَالَ خَطَبْنَا عَلِیُّفَقَالَ مَا عَنْدَنا کِتَابٌ نَقْرَءه اِلَّا کِتَابُ الله وَمَا فِیْ هذه الصَّحِیْفةِ فَقَالَ فِیها الْجَوَاهاتُ وَاسْنَانُ الاِ بِلِ وَالْمَدِیْنةُ حَرَمٌ مَا بَیْنَ عِیْرٍ اِلٰی کَذَا فَمَنْ اَحْدَثَ فِیها حَدْثًا اَوْ اٰوٰی فِیها مُحْدِثًا فَعَلَیهِ لَعْنة الله وَالْملائكة وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ لَا یُقْبَلُ مِنها صَرْفٌ وَلا عَدْلٌ وَمَنْ تَوَلّٰی غَیْرَ مَوَالِیهِ فَعَلَیه مِثْلُ ذٰلِکَ وَذِمّة الْمُسْلِمِیْنَ وَاحِدة فَمَنْ اَخْفَرَ مُسْلِماً فَعَلَیه مِثْلُ ذٰلِکَ[27]

مجھ سے محمدبن سلام نے بیا ن کیاکہ کہا ہم کو وکیع نے خبر دی، انہوں نے اعمش سے، اُنہوں نے ابراہیم تیمی سے، اُنہوں نے اپنے باپ یزید بن شریک تمیمی سے۔ اُنہوں نے کہا کہ حضرت علیؓ نے ہم کو خطبہ سنایا تو فرمایا :ہمارے پاس قرآن کے سوا اور کوئی کتاب نہیں جس کو ہم پڑھتے ہوں۔ ایک یہتحریر ہے اس میں زخموں کے قصاص کا، اونٹوں کی عمروں (جو دیت میں دیئے جاتے ہیں)کا بیان ہے۔ اور یہ بیان ہے کہ مدینہ (عیر پہاڑ سے لے کر فلانے مقام تک) حرم ہے۔ جو کوئی اس مقام حرم میں دین میں کوئی نئی بات نکالے یا بدعتی کو قرار دے اُس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی پھٹکارہو۔ نہ اس کا فرض قبول ہوگا نہ نفل اور یہ بیان ہے جو کوئی (لونڈی، غلام) اپنے مالک کے سوا دوسرے کسی کو مالک بنائے اس پر بھی ایسی پھٹکارہو اور مسلمان مسلمان سب برابر ہیں۔ ہر ایک کا ذمہ یکساں ہے۔ جو کوئی مسلمان کا ذمہ توڑے اس پر بھی ایسی ہی پھٹکارہو۔

محدثین کرام نے اس حدیث مبارکہ کی وضاحت میں لکھا ہے کہ اگر کوئی ایک ادنیٰ سا مسلمان بھی کسی ذمی (کافر یا کافرہ) کو پناہ دے تو سب مسلمانوں کو قبول کرناچاہیے اور اُس کی ذمہ داری پر کسی قسم کی آنچ نہ آنی چاہیے۔ کیونکہ اب اُس شخص نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد اور مسندِ امام احمد بن حنبل میں انسانی حقوق اور خصوصاً کسی غیر مسلم کے حقوق کے حوالہ سے اس قدر زور دار الفاظ میں شرف انسانی کو اُجاگر کیا گیا جس کی مثال اقوامِ عالم کے کسی قانون اور آئین میں نہیں ملتی۔ بلکہرسالت مآب ﷺنے احترامِ آدمیت اور تکریم انسانیت کوہر ایک مسلمان پر فرض قرار دیا ہے اس سلسلے میں درج ذیل حدیث ملاحظہ ہو

حَدَّثَنَا اُسامةُ بِنْ زَیدٍ قالَ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ الله ﷺ سَرِیّةً اِلی الْحُرُقَاتِ فَنَذَرُوْا بنَا فهرَبُوْا فَأَدْرَ کْنَا رَجُلاً فَلَمَّا غَشِیْنَاهُ قَال: لَا اِلهَ اِلَّا اللّه فَضَرَبْنَاهُ حَتّٰی قَتَلْنَاه فَذَکُرْتهُ النَّبِیَّ فَقَالَ: مَنْ لَکَ بلَا اِلهَ اِلَّا اللّه یَوْمَ الْقِیَامة فَقُلْتُ یا رسول اللّه اِنَّمَا قَالهَا مَخََافةَ السِّلاح، قال اَفَلا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبه، حَتّٰی تَعْلَمَ مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ قَالهَا أم لَا مَنْ لَکَ بَلا اِلهَ اِلَّا اللّه یَوْمَ الْقِیَامة فَمَا زالَ یَقُوْلها حَتّٰی وَدِدْتُّ اَنِّی لَمْ اَسْلِمْ اِلَّا یُوْمئذ [28]

حضرت اُسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ایک چھوٹے لشکر میں ہم کو حرقات (چند قبیلوں کا نام ہے) کی طرف بھی بھیجا۔ اُنہوں نے ہماری خبر سن لی اور بھاگ گئے۔ ایک آدمی کو ہم نے پکڑ لیاتو وہ لا الٰہ الا اللہ پڑھنے لگا۔ مگر ہم نے اُسے مار مار کر قتل کر ڈالا۔ یہ واقعہ میں نے حضورؐ کی خدمت میں بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا روزِ قیامت کلمہ گو کے مدِّمقابل تیری مدد کون کرے گا؟ رسول پاک ﷺ مسلسل یہ فرماتے رہے کہ روزِ قیامت ایک کلمہ گو کے سامنے تیری مدد کون کرے گا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے اسلحہ کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا۔ رسول پاک ﷺ نے فرمایا :کیا تو نے اس کا دل چیر کر یقین حاصل کرلیا تھا کہ اُس نے اسلحہ کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا؟ رسول پاک ﷺ مسلسل یہی فرماتے رہے کہ ایک کلمہ گو کے مقابلے میں کون تیری مدد کرے گا؟ یہاں تک کہ میں نے یہ آرزو کی کہ کاش میں نے آج ہی اسلام قبول کیاہوتا ’’تو ایک کلمہ گو کے قتل کے گناہ سے محفوظ رہتا (کیونکہ اسلام حالتِ کفر کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے)۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ رسالت مآب ﷺ نے کس قدر ایک انسان کی عزت و توقیر اور اُس کی جان کی حفاظت کا احساس کیا اور ایک مسلمان کو کسی بھی غیر مسلم کو اس طرح کی صورت میں قتل کرنے پر قیامت میں بدلے کی اور گناہ کے جرم میں سزا کی وعید سنائی تاکہ کل کلاں کوئی بھی شخص ایسی صورت میں کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔

تمام علماء غیر مسلم اقلیتوں کے بارے میں متفقہ طور پر لکھتے ہیں:

وَیَجِبُ کَفُّ الْاَذٰی وَتَحْرِیْمُ غِیْبَته کَالْمُسْلِمِ[29] (مسلمان کی طرح غیر مسلم کوبھی تکلیف سے بچانا واجب ہے اور اس کی غیبت اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت)۔

حضورؐ نے فرمایا :ہمسایہ کو تکلیف دینے والا شخص مومن نہیں ہوسکتا۔ذیل کی حدیث ملاحظہ ہو

عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ رَضِیَ اللّه عَنه قَالَ قَالَ النَّبِیُّ ﷺ والله لَا یُؤْمِنُ وَالله لَا یُؤْمِنُوالله لَا یُؤْمِنُ قِیْلَ وَمَنْ یَا رَسُوْلَ الله قَالَ الَّذِیْ لَا یَأْمَنُ جَاره بَوَاءِقه۔[30]

"حضرت ابوشریح خزاوی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم مومن نہیں، خدا کی قسم مومن نہیں، خدا کی قسم مومن نہیں۔ دریافت کیاگیا یا رسول اللہ! وہ کون شخص ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جس کا پڑوسی اُس سے تکلیف پاتا ہو"۔

محدثین کرام نے اس حدیث مبارکہ کی وضاحت میں یہ فرمایا ہے کہ چہ جائیکہ وہ پڑوسی کافر، غیر مسلم، یہودی، عیسائی اور ذمی ہی کیوں نہ ہو۔ بحیثیت انسان وہ مخلوق خدا کے دائرے میں آتا ہے، لہٰذا اُس کے بطور ہمسایہ کے وہی حقوق ہیں جو کہ ایک مسلمان ہمسایہ کے۔

رسولِ اکرم ﷺ کے پڑوس میں یہودی رہتے تھے۔ اگر ان کے یہاں کوئی بچہ بھی بیمار ہوجاتا تو آپ ﷺ اس بچہ کی عیادت کے لئے اس کے گھر جایا کرتے۔ بنی عریض نامی ایک یہودی قبیلہ مدینہ میں رہتا تھا۔ اس کی کسی بات سے خوش ہوکر رسولِ اکرم ﷺ نے ان کے لیےکچھ سالانہ وظیفۂمعاش مقرر فرمایا۔ یہ مختلف واقعات ہیں جو غیر مسلموں سے برتاؤ کے سلسلہ میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ ایک اور چیز کہ مسلمان کا ہی نہیں بلکہ یہودیوں کا جنازہ بھی شہر کی گلیوں سے گزرتا اور اتفاق سے رسولِ اکرم ﷺ وہاں موجود ہوتے تو جنازہ کو دیکھ کر آپ ﷺ کھڑے ہوجاتے، تاکہ اس کے ساتھ ہمدردی اور رواداری کا مظاہرہ ہو۔[31]

حضور اکرم ﷺ مریضوں کی عیادت گیری کے سلسلے میں کبھی بھی مسلم اورغیرمسلم میں فرق نہیں کرتے تھے جسے امام ابن القیم الجوزی نے اپنی کتاب زاد المعاد فی ھدیۃ الخیر العباد میں ایک غیر مسلم کافرنوکرکی عیادت کا تذکرہ کیاہے۔

کان یعود من مرض من أصحابه وعاد غلاما کان یخدمه من أهل الکتاب وعاد عمه وهو مشرک وعرض عليهما السلام فأسلم اليهودی[32]۔

ترجمہ: صحابہ میں سے جو بیمار ہوجاتا آپ ﷺ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے اہل کتاب میں سے ایک آپ کا خادم تھا۔ آپ ﷺ نے اس کی بھی عیادت کی، آپ ﷺ نے اپنے چچا کی عیادت کی حالانکہ وہ مشرک تھے ان دونوں پر آپ ﷺ نے اسلام پیش کیا چنانچہ یہودی مسلمان ہوگیا۔

مولانا جلیل احسن ندویؒ اپنی تصنیف "راہِ عمل" میں لکھتے ہیں کہ: پڑوسیوں کے حقوق، بیمار کے حقوق، مہمان کے حقوق، سفر کے ساتھیوں کے حقوق کے معاملہ میں مسلم اور غیر مسلم برابر ہیں۔[33]

اسلام کا ہر قانون اپنے اندر اخلاقی روح رکھتا ہے۔ آنحضرتؐ نے اخلاقی نصائح میں اس کو اور بھی مؤثر فرمایا۔

اَلامَنْ ظَلَمَ مُعَاهدًا أَوِانْتَقَصه اَوْ کَلَّفه فَوْقَ طَاقة اَوْ اَخَذَ مِنهُ شَیْئاًبِغَیْرِ طِیْبِ نَفْسِ فَاَنَا حَجِیْجه یَوْمَ الْقِیَامهِ [34]

"خبردار اگر کسی نے کسی غیر مذہب (غیر مسلم معاہد) رعیت پر ظلم کیا یا اُس کی تنقیص کی یا اُس کی کوئی چیز زبردستی لے لی، اگر ایسا ہوا تو میں اُس کی طرف سے قیامت کے دِن خُدا کے سامنے جھگڑوں گا"۔

حضورؐ نے مستامن اور ذمی (غیر مسلموں) کے حقوق کی بڑی تاکید کی ہے۔ اگر کوئی مسلمان غیر مسلموں میں سے کسی کو قتل کر ڈالے تو ثبوت کے بعد قصاص میں اُس مسلمان کو قتل کیا جائے گا۔ اور اسی طرح معاہد (ذمی یا مستامن) غیر مسلم کے قتل کے بارے میں آپؐ نے بڑے سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔

آپؐ نے ارشاد فرمایا:

عَنْ عَبدِالله بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِي صلى الله عليه وسلم قَالَ مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا لَمْ یَرِحْ رَائحةَ الْجَنّةِ وَاِنَّ رِیْحها لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرةِ اَرْبَعِیْنَ عَاماً[35]

"حضرت عبداللہ بن عمرؓ رسول اللہؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: جس نے غیر مسلم معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم ہوگا۔ حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوگی"۔

دوسری روایت میں ہے کہ جس نے کسی معاہد (غیر مسلم) پر ظلم کیا یا اُس کے حقوق میں کمی کی یا اُس کی طاقت سے زیادہ اُس پر دباؤ ڈالا یا اُس کی مرضی کے خلاف اُس سے کوئی چیز لی تو قیامت کے دن میں خود اُس کے خلاف فریاد رسی عرض کروں گا۔ [36]

حدیث شریف میں ہے، حضورؐ نے فرمایا:

حَدَّثَنَا عُثْمَان بِنْ اَبِی شَیْبة نَا وَکِیْعٌ عَنْ عُیَیْنة بِنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ عن أبيه عَنْ أبی بکرة قَالَ قَالَ رسول اللّه ﷺ مَنْ قَتَلَ معاهدًا فی غیر کُنهه حَرَّمَ اللّه عليهِ [37]

"عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، عیینہ بن عبدالرحمن، اُن کے والد ابوبکرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا جس نے عہد والے کو مار ڈالا (یعنی اُس کافر کو جو دارالاسلام میں رہتا ہے جزیہ دے کر) بغیر کسی وجہ کے تو حرام کردے گا اللہ اُس پر جنت کو"۔

رسول کریمؐ نے اپنے عہد رسالت میں رعایا پروری کے سلسلے میں فرمایا: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَسْءُوْلٍ عَنْ رَعَیَّته[38] (تم میں سے ہر ایک راعی کی حیثیت رکھتا ہے اور اُس سے اس کی رعیت متعلقین کے بارے میں سوال ہوگا)۔

رسولِ کریمؐ نے اپنی آخری وصیت میں بھی ان کو یاد رکھا۔ فرمایا: اِحْفَظُوْا فِیْ ذِمَّتِیْ[39] (یعنی جو لوگ میرے ذمہ ہیں ان کی حفاظت کرو)۔

رسولِ اکرمؐ کے اس ارشاد کے مطابق غیر مسلم معاہد ذمی ہمیشہ اپنے حقوق معیشت و مذہبی آزادی کے ساتھ مسرور و مطمئن رہے گا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ[40] (اور جب لوگوں کے معاملات میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو)۔

یہاں پر اللہ رب العزت نے بَیْنَ النَّاسِ فرمایا، بین المُسْلِمِیْنَ نہیں فرمایا۔ کیونکہ خدا صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام دنیائے انسانیت کا خدا ہے۔

خلاصۂ بحث :

عہدِ رسالت میں غیر مسلم رعایا کو عدل کے ساتھ وہ تمام حقوق دیئے جن کو آج کل شہری حقوق بھی کہا جاتا ہے۔ اُن کی جان و مال، عزت و آبرو اور مذہبی عبادت گاہوں کی حفاظت کا اہتمام فرمایا۔ حتیٰ کہ غیر مسلم اقوام سے ذرہ برابر تعصب و عناد نہ رکھا۔ بلکہ غیر مسلم و مسلم سب کے حقوق امن و عدالت و راحت وغیرہ یکساں تھے۔ وہاں اقلیت و اکثریت کا کوئی سوال نہ تھا۔ نہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے کسی پر ظلم روا تھا، نہ منصب و اقتدار کی بنا پر غیر مسلم فرقوں کے ساتھ تعصب و نفرت تھی۔ عدالتِ اسلامیہ اور فیصلہ محمدیؐ کے سامنے نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان، نہ یہودی ہے اور نہ عیسائی۔ نہ عرب کو عجم پر فضیلت ہے، نہ عجم کو عرب پر ترجیح۔ ایشیائی اور یورپین کالے گورے سب کے لئے ایک ہی قانون عدل ہے۔

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ اقوام عالم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی وہ کامل نمونہ ہے کہ جس سے عظمت انسان اور حقوق انسانی کے متعلق مسلم اور غیر مسلم کے حقوق کے تعین بارے واضح ہدایت اور روشنی ملتی ہے۔ اسلامی ریاست میں غیر مسسلم شہری کو جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری کی یقین دہانی کرائی گئی ہے بلکہ اسن سے سماجی تعلقات رکھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ مسلمانوں اور کفار کے درمیان تعلقات برابری اور مساوات کی بنیاد پر قائم ہوں گے جس سے تجارتی اور سفارتی تعلقات وغیرہ شامل ہیں ۔ اسلامی ملک میں آنے والے ہر شخص کو اسلامی شریعت جان، مال ، عزت اور آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔ اس لیے سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں غیر مسلم بھی عزت و تکریم کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات میں سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں ذمیوں یعنی غیر مسلموں کے حقوق کا خاص خیال رکھا جائے۔ مسلم حکومتوں کے حکمرانوں اور تمام مسلمانوں کے لئے سیرت رسول ؐ اور آپ کے معاہدات میں ایک واضح روشنی ہے جس کے تحت ہمیں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی پاسداری کی سختی سے تلقین ملتی ہے ، ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے کہ غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآنی احکامات اور فرامین رسول ﷺ پر عمل کریں ، امت مسلمہ کی کامیابی کا دارو مدار اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت ہی میں ہے۔

References

  1. حمیداللہ، محمد، ڈاکٹر، عہد نبویؐ میں نظامِ حکمرانی، کراچی، ۱۹۸۱ء، اردو اکیڈمی سندھ، ص۷۹، ۸۰
  2. ہیکل، محمد حسین، حیاتِ محمد، قاہرہ، ۱۹۴۷ء، مطبعۃ النھضۃ العصریۃ، ص۴۸۵
  3. عہد نبویؐ میں نظامِ حکمرانی، ص۴۸، ۵۸
  4. ثانی، محمد حافظ، ڈاکٹر؛ رسولِ اکرمؐ اور رواداری، کراچی، ۱۹۹۸ء، فضل سنز، ص۵۷
  5. عہد نبوی میں نظامِ حکمرانی، ص ۸۴
  6. غازی، حامد الانصاری، اسلام کا نظامِ حکومت، لاہور، ۱۹۸۷ء، مکتبہ عالیہ، ص۳۶۴
  7. حمیداللہ، ڈاکٹر، خطباتِ بہاولپور، ص۲۳۶
  8. ہیکل، حسین محمد؛ حیاۃِ محمدؐ (عربی)، ص۲۲۷
  9. ندوی، سید ابوالحسن علی؛ نبی رحمت، کراچی، ۱۹۸۸ء، مجلس نشریاتِ اسلام، ص۴۱۴
  10. ڈاکٹر عبدالوحید (چیف ایڈیٹر اُردو انسائیکلوپیڈیا، لاہور) فیروز سنز، طبع اوّل، ص ۱۵۰۱
  11. بلاذری، احمد بن یحییٰ، فتوح البلدان، القاھرہ، ۱۹۵۷ء، دارالنشر، ص۳۶۴؛؛ حمیداللہ، محمد، ڈاکٹر؛ الوثائق السیاسۃ للعھد النبویؐ، القاہرہ، ۱۹۴۱ء، مطبعة لجنة التالیف والترجمة، ص۸۰، ۸۱
  12. ثانی، محمد حافظ، ڈاکٹر؛ رسول اکرمؐ اور رواداری، کراچی، ۱۹۹۸ء، فضل سنز، ص۱۹۲۔۱۹۳
  13. فتوح البلدان، ، ص۳۶۴
  14. سلیمان بن اشعث سجستانی، سنن ابی داؤد، مترجم، علامہ وحیدالزمان، لاہور، (۱۹۸۳ء) اسلامی اکادمی، اُردو بازار، ج دوم، باب ۵۲۷، حدیث نمبر ۱۲۵۳، ص۵۰۷، ۵۰۸
  15. سنن ابوداؤد،جلد دوم ،باب ۴۲۲،حدیث نمبر۹۹۰۔
  16. الوثائق السیاسیہ،للعھدی النبوی والخلافۃ الراشدہ القاہرہ، ص؛80،81
  17. حمیداللہ، محمد، ڈاکٹر؛ سیاسی وثیقہ جات، (مترجم ابویحییٰ امام خاں نوشہروی)، لاہور، ۱۹۶۰ء، مجلس ترقئ ادب (خط نمبر ۶۰)، ص۷۸، ۷۹
  18. الوثائق السیاسیہ،للعھدی النبوی والخلافۃ الراشدہ القاہرہ۔
  19. سیاسی وثیقہ جات، ص۵۹ تا ۶۳
  20. الجوزی، ابن قیم، ذادالمعاد فی ھدیۃ خیرالعباد (مترجم رئیس احمد جعفری) بیروت، دارالکتاب العربی، الجزء الثالث، جلد ثانی، ص۵
  21. البخاری، ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل، (صحیح البخاری)، تلخیص البخاری لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ص۴۶۶
  22. جامع صحیح بخاری، کتاب الادب، باب الرفق فی الامر کلہ
  23. السیوطی، الخصائص الکبریٰ، بیروت۶، ج۲، ص۱۶۹
  24. ابن کثیر، ابوالفدا، اسماعیل بن عمر، امام؛ السیرۃ النبویہ، بیروت، ۱۹۸۷ء، دارالفکر، ج۳، ص۶۸۱؛ابوداؤد، السنن، کتاب الادب، باب فی الحلم واخلاق النبی ﷺ، قدیمی کتب خانہ، کراچی
  25. قاضی، ابوالفضل، عیاض بن موسیٰ؛ الشفاء، بیروت، ج۱، ص۱۴۰
  26. الجامع الصحیح بخاری، (مترجم)، لاہور، ۱۹۸۵ء، مکتبہ رحمانیہ، ج۲، ۲۲۴
  27. صحیح بخاری شریف،( مترجم)، ج۲، ص۲۳۰
  28. القشیری، مسلم بن حجاج، الجامع صحیح مسلم (بشرح النووی)، بالتحریم قتل الکافر بعد قولہ لا الٰہ الا اللہ، ج۱، ۹۹ ؛ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر ۸۷۱
  29. مودودی، ابوالاعلیٰ، مولانا؛ الجہاد فی الاسلام، لاہور، ادارہ ترجمان القرآن، ص۲۸۹
  30. البخاری، ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل، (صحیح البخاری)، تلخیص البخاری لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۲۵۱
  31. حمیداللہ، خطباتِ بہاولپور، ص۴۱۶
  32. ابن القیم الجوزیہ، زادالمعاد فی ھدیۃخیرالعباد، دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، ج اوّل، ص ۱۳۸
  33. ندوی، جلیل احسن، مولانا؛ راہِ عمل، لاہور، اسلامک پبلیکیشنز، ص۱۹۱
  34. سنن ابی داؤد، ج۲، ص۷۷
  35. تلخیص البخاری، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۹۴۳؛ الحدیث، تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص۱۹۳
  36. صحیح بخاری شریف،( مترجم)، ج۲ ص۲۲۶
  37. سنن ابو داؤد شریف ، ج۲، ص۳۹۱
  38. بخاری، ج:1، پ:4، ص:122
  39. الماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص۱۳۷
  40. القرآن الکریم ۴ : ۸۵
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...