Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 30 Issue 1 of Al-Idah

اسلام میں امن اور دہشت گردی کا تصور: ایک علمی اور تحقیقی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

30

Issue

1

Year

2015

ARI Id

1682060034497_420

Pages

87-104

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/197/188

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/197

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

(Introduction of the problem) مسئلے کا تعارف:

مخالفین اسلام خاص کر انتہا پسند مغرب اور یہود و ہنود دین اسلام کو بدنام کرنے کے لیے مختلف پروپیگنڈے کررہے ہیں اور شکوک و شبہات پھیلا رہے ہیں ، جس میں آج کل سر فہرست یہ ہے کہ اسلام دہشت گردی، تخریب کاری اور بدامنی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض قرآنی آیات اور احادیث کو بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں۔ کبھی مظلوم مسلمانوں کی تحرىکات آزادی کوکچلنے اور دبانے کے لئے جہاں منفی پروپیگنڈہ اور ظلم کے دیگر ہتھکنڈے استعما ل کرتے ہیں وہاں مجموعی طور پر اسلام کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کبھی مسلمان تنظیموں اور تحاریک کے وہ افعال بطور مثال پیش کرتے ہیں جس کی اجازت اسلام نہیں دیتا مگر وہ اصل اسلام دیکھنے یا ان تحریکوں کی اصل وجوہات اور اسباب تلاش کرنے کی بجائے اسلام کے خلاف زبان طعن دراز کرنے لگتے ہیں۔اس سلسلے میں ایک منصوبے کے تحت مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واردات خود یا اپنے ایجنٹوں سے کرواکر اس کے تانے کسی مسلمان ملک یا جماعت سے ملا دیتے ہیں، پھر میڈیا کے ذریعے اسے سچ ثابت کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے کہ اسلام دہشت گردی، درندگی، سفاکی، بدامنی، آتشزدگی، تباہی و بربادی اور تخریب کاری کا مذہب ہے۔

مطالعے کى اہمىت(Significance of the Study) :

اس آرٹیکل میں اسلامی نظام کے بنیادی مآخذ قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کا جائزہ لیں گے اور اسلام کے اصل تعلیمات، ہدایات اور احکامات واضح کرنے کی کوشش کریں گے، جس سے نہ صرف اسلام کے متعلق شکوک وشبہات کے ازالے، پروپیگنڈے کا سدباب ہوگا بلکہ عام مسلمانوں اور لوگوں کے لئے راہنمائی کا سبب بھی بنے گا۔

اسلام اور مسلمانوں کا تعارف:

سب سے پہلے اسلام اور مسلمان کے لفظی اور اصطلاحی مفہوم پر غور کریں گے کہ کیا واقعی اسلام دہشت گردی، بدامنی اور فساد کا دین ہے اور مسلمان دہشت گرد اور فسادی ہے؟لفظ اسلام عربی زبان کا لفظ ہے جو ‘سلم ‘سے نکلا ہے جس کا لغوی معنٰی سلامتی و تابعداری، صلح اور رضامندی ہے (۱)

اصطلاح میں اسلام سے مراد وہ خدائی دین(نظام) ہے، جو دنیا میں امن، سلامتی کے قیام کے لئے نازل کیا گیا ہے جس میں فرد اور اجتماعیت دونوں کی دنیا وآخرت کا فلاح ہے (۲) اسلام کے ماننے والے کو مؤمن یا مسلم کہا جاتا ہے۔ مؤمن لفظ امن سے نکلا ہے، جس کے معنٰی حفاظت، عافیت، آرام اور آسائش ہیں۔ اور مسلم ’سلم‘ سے جس کے معنٰی اسلام کی طرح سلامتی وصلح، امن و سکون ہے(۳)۔گویا دین اسلام کو ماننے والے صلح جو، امن کے داعی، بے ضرر، راست باز اور راہ راست پر ہوتے ہیں۔ یہ بات قرآن حکیم نے کچھ اس طرح بیان کی ہے؛ اور میں ابراہیم ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اﷲکے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھرایا ہے جن پر اﷲ تعالٰی نے کوئی دلیل نازل نہیں کی، سو ان دو جماعتوں(مؤمنوں اور مشرکوں) میں امن کا زیادہ مستحق کون ہے؟یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔ ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں(۴) اسلام اور مسلمان کا مختصر مفہوم بیان کرنے کے بعد اب ہم قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کا جائزہ لیں گے کہ یہ زمین پر فتنہ وفساد، خوف و ہراس، بدامنی، دہشت گردی وتخریب کاری اور خون ریزی چاہتا ہے یاامن و امان، عدل و انصاف، راحت و چین اور صلح و سلامتی ؟

1۔ اسلام، سلامتی ہی کاداعی:

اس کارگاہ حیات میں زندگی بسر کرنے کے لئے امن و سلامتی انتہائی ضروری ہے۔ بغیر امن و سلامتی کے، نہ انفرادی زندگی اطمینان کے ساتھ بسر کی جا سکتی ہے اور نہ اجتماعی زندگی ہی باقی رہ سکتی ہے۔ چونکہ اسلام اﷲ کا دین ہے جو انسانوں کی راہنمائی وہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہے ۔ اس لئے یہ نظام سلامتی کا ہے۔ اﷲتعالٰی خود سلامتی کا داعی ہے۔ سورۃ یونس میں ارشاد ہے؛ وَاﷲُ يدْعُوْا اِلٰی دَارِالسَّلَاَمِ (۵) (اﷲ تعالٰی سلامتی کے گھر کی طرف تمہیں بلاتا ہے)۔

2۔ نبیؐ تمام انسانوں کے لئے رحمت:

پیغمبر اسلام تمام انسانوں کے لئے امن و سلامتی کا پیغام لے کر مبعوث ہوئے۔ سورۃسبا ء میں ہے کہ: ’’اور ہم نے تم (نبیؐ) کو تمام انسانوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ہوشیار کرنے والا بناکر بھیجا‘‘ (۶)اسی طرح قرآن نے یہ بھی فرمایا کہ وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمَين (۷) ’’اور ہم نے تم کو پوری عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘) ۳)۔

3۔ اسلام فساد کو پسند نہیں کرتا :

اسلام نہ فساد چاہتا ہے اور نہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے،

وَاﷲ لَا يحِبّ’ الْفَسَاد (۸) ’’اور اﷲتعالٰی فساد کو پسند نہیں کرتا وَاﷲ لَايحِبّ’الْمفْسِدِين‘‘(۹)

4۔ اسلام انسانوں کو فتنہ و فساد برپا کرنے سے منع کرتا ہے:

اسلام انسانوں کو زمین میں فتنہ اور فساد برپا کرنے سے منع کرتا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے، وَلَا تَعْثَوْ ا فَی الْاَ رْضِ مفْسِدِين (۱۰)’’اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔‘‘

جب معاشرے کے اندر برائی اور فساد کا دور دورہ ہوجاتاہے اور فساد سے منع کرنے والے نہیں ہوتے تو پھر اﷲ تعالٰی فساد کرنے والے اور منع نہ کرنے والے دونوں کو سزا دیتا ہے۔ سورۃ الانفال میں ارشاد باری تعالٰی ہے، وَاتَّقْوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوْامِنْکُمْ خَاصَّة(۱۱) اور تم ایسے وبال سے بچو کہ جو خاص کر صرف ان ہی ظالموں پر واقع نہ ہوگا۔

اور سورۃ ہود میں ہے کہ تم سے پہلے جو قومیں گزر چکی ان میں ایسے اہل خیر کیوں نہ پیدا ہوئے جو دوسروں کو زمین میں فساد کرنے سے روکتے۔البتہ بہت تھوڑے لوگ ان میں ایسے بھی تھے جو خود بھی فساد نہیں کرتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے جنہیں ہم نے نجات دی (۱۲)

5۔ فتنہ و فساد پھیلانے والوں کے لئے اسلامی قانون میں سخت سزا مقرر ہے:

سورہ المائدہ میں زمین میں فساد برپا کرنے والوں کی سزا اس طرح بیان کی گئی ہے۔ ان کی سزا جو اﷲ تعالٰی سے اور اس کے رسولؐ سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں، یہی ہے کہ وہ قتل کردئے جائیں یا سولی چڑھادئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئے جائیں یا انہیں جلا وطن کردیاجائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت وخواری اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے(۱۳)

6۔ جنت فسادیوں اور امن وسلامتی کے دشمن پر حرام ہے:

جنت دنیا کے اندر عدل وانصاف قائم کرنے اور خود امن سے رہنے والوں کے لئے ہے، زمین میں فساد برپا کرنے والے متکبر اور دہشت گردوں پر حرام ہے۔ سورہ القصص میں ہے، یہ دار آخرت (جنت) تو ہم ان لوگوں کے لئے مخصوص کردیتے ہیں جو زمین میں بڑائی یا فساد نہیں چاہتے اور(بہتر) انجام تو متقین کے لئے ہے (۱۴)

7۔ اﷲاحسان کرنے والے، صلح کرنے والے، معاف کرنے والے اور عدل و انصاف قائم کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں:

سورۃ المائدہ میں ہے کہ انہیں معاف کیجئے اور ان سے درگزر کیجئے، بے شک اﷲ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے (۱۵)

اسی سورۃ میں ایک دوسرے مقام پر ہے کہ ہاں اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو پھر انصاف سے فیصلہ کیجئے کیونکہ اﷲ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتاہے (۱۶)

اسی طرح سورۃ الحجرات میں ہے کہ تو ان کے درمیان انصاف سے صلح کر۔ یقیناًاﷲ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتاہے (۱۷)

8۔اسلام فتنہ و فساد، ظلم وسرکشی، دہشت گردی اور زیادتی کو پسند نہیں کرتا:

اس لیے ان تمام امور کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے جس سے ظلم یا فساد پھیلتا ہو(۱۸)

قرآن کریم میں اﷲتعالیٰ کے بے شمار ارشادات موجود ہیں جن میں ظلم و زیادتی اور سرکشی کی مذمت کی گئی ہے۔جیسا کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہوتاہے، وَاﷲ لاَيحِب کُل کَفار اثيم (۱۹)۔

اور اﷲتعالیٰ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ اور سورۃ آل عمران میں ہے کہ واﷲ لاَ يحب الظالمين (۲۰)۔

اور اﷲ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔سورۃ النساء میں ارشاد ہے اِن اﷲ لاَ يحب مَنْ کاَنَ مُخْتالاً فَخوْراً (۲۱)يقیناًاﷲ تعالیٰ مغرور اور خودپسند بننے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح سورۃ المائدہ میں ہے کہ وَلاَتَعْتَدُوْا اِن اﷲَ لاَ يحِب الْمُعْتَدِين (۲۲) ’’اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ اﷲ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف میں ہے کہ وَلاَتُسْرِفُوا اِنَّهُ لاَ يحِبُّ الْمُسْرِفِين (۲۳)اور تم اسراف نہ کرہ کیونکہ اﷲ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

سورۃ الانفال میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اِنَّ اﷲَ لاَ يحِبُّ الْخَاءِنِين (۲۴) یقیناًاﷲ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ سورۃ النحل میں ہے کہ اِنَّه لاَ يحِبُّ الْمُتَکَبِّرِين (۲۵) بے شک اﷲ تعالیٰ تکبر(سرکشی) کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ’’لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ‘‘ (۲۶) نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے۔ اسی طرح سورۃ المائدہ میں ا ﷲ تعالیٰ نے ایک کلیہ بیان فرمایا ہے کہ وَلاَتَعَاوَنُوْا عَلیَ الْاِثْمِ وَالْعُدْوَان (۲۷) اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ سورۃ ابراہیم میں ارشاد ربانی ہے کہ اِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابُ اَلِيم (۲۸) بے شک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اور سورہ الانعام میں ہے کہ اِنَّهُ لاَ يفْلِحُ الظَّالِموْنَ (۲۹) بے شک ظالم فلاح نہیں پائیں گے۔

9۔ اسلام قتل انسان کو حرام قرار دیتا ہے:

اﷲ تعالیٰ نے سورہ الانعام اور سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا ہے کہ وَلاَ تَقْتُلُوْاالنَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اﷲُ اِلاَ بِالْحَقّ (۳۰) اور قتل نہ کرو اس نفس کو جس کو اﷲ نے حرام قرار دیا ہے، مگر حق کے ساتھ۔

اسلامی قانون میں صرف چھ صورتوں میں قتل کی اجازت ہے اور وہ بھی مجاز عدالت کے ذریعے۔ انفرادی طور پر سوائے اپنی حفاظت کے کسی کو سزا دینے یا قتل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اسلام میں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ وہ چھ صورتیں یہ ہیں۔

۱۔ قاتل کو قصاص میں قتل کرنا

۲۔ جنگ کی حالت میں مد مقابل حربی دشمن کو قتل کرنا

۳۔ اسلامی حکو مت و ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کرنے والے کوقتل کرنا

۴۔ شادی شدہ زانی کو (سنگسار کے ذریعے قتل کرنا)

۵۔ مرتد کو قتل کرنا جو اسلامی قانون کی بغاوت کرے

۶۔ عام راستوں پر ڈاکہ زنی، قتل وغارت کرنے اور فساد برپا کرنے والے کو قتل کرنا ان کے علاوہ کسی بھی انسان کو قتل کرنے کو قرآن کریم پوری انسانیت کی قتل قرار دیتاہے۔ سورۃ المائدہ میں ارشاد ہے، جس نے کسی کو بغیر قصاص کے یا بغیر زمین میں فساد پھیلانے کی سزا کی قتل کردیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا سارے انسانوں کی جان بچائی(۳۱)

10۔ اسلام ایک معتدل اور میانہ رو دین ہے:

اسلام ایک معتدل ، میانہ رو اور متوازن دین ہے۔ ہر قسم کی افراط و تفریط اس میں نہیں۔ وہ انتہا پسندی کے خلاف ہے۔ اس کی تمام تعلیمات اعتدال اور توازن پر مبنی ہے۔ سورۃ البقرہ میں ایک کلیے کے طور پر ارشاد ہے کہ اِنَّ اﷲ لاَ يحِبُّ الْمُعْتَدِين (۳۲) بے شک اﷲ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتااس آیت میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ اسلام میں ہر قسم زیادتی، انتہا پسندی اور حد سے تجاوز کی قطعاً گنجائش نہیں حتیّٰ کہ جنگ کے میدان میں اور دشمن کے ساتھ لڑائی میں بھی کسی قسم کی زیادتی اور اعتدال و توازن سے ہٹ کر سلوک ، عمل اور رویے کی اجازت نہیں ہے۔ ہر صورت اور ہر معاملے میں اعتدال اور انصاف کا حکم ہے (۳۳)

یہی وجہ ہے کہ اسلام خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور کفایت شعاری کا حکم دیتا ہے، جبکہ انتہا پسندی اور زیادتی کی بجائے میانہ روی مسلمانوں کی فطری خصلت قراردیتاہے۔ سورۃ الفرقان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،

اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں، بلکہ اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں (۳۴)

اسی طرح سورۃ لقمان میں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وَاقْصِدْ فِیْ مَشْيکَ (۳۵) ’’اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو‘‘۔

اسلام کے اسی اصول کے مطابق معاملات تو کیا عبادات میں بھی اﷲ تعالیٰ نے اعتدال کی راہ اپنانے کا حکم دیا ہے۔ اور اس میں افراط و تفریط، بے اعتدالی اور انتہا پسندی سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ مثلاً لگاتار روزے رکھنے، مدام نوافل پڑھنے، تہجد پڑھنے اور لمبی نماز پڑھنے وغیرہ سے منع کیا گیا ہے (۳۶)

حضرت عبداﷲ بن عمروبن العاص رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا،اے عبداﷲ! مجھے بتایا گیاہے کہ تو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات بھر قیام کرتا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں اے اﷲ کے رسول ﷺ! آپ ؐ نے فرمایا ایسا نہ کر، روزے رکھ اور افظا ر بھی کر (یعنی کبھی روزے رکھو اور کھبی نہ رکھو) ، قیام بھی کر اور نیند بھی کر، کیونکہ تجھ پر تیرے جسم کا بھی حق ہے، تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے، تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے۔ اس شخص کا کوئی روزہ نہیں جس نے ہمیشہ روزے رکھے۔ ہر مہینے میں صرف تین روزے رکھ ، ہر مہینہ صرف ایک بار قرآن پاک ختم کر۔ میں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، تو آپؐ نے فرمایا (پھر بھی مسلسل روزے رکھنے اور تلاوت قرآن پاک کرنے سے پرہیز کر) تم افضل روزہ رکھو ، وہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے، ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن ناغہ کر اور (روزانہ قرآن ختم کرنے کی بجائے) سات راتوں میں ایک بار قرآن کی تلاوت ختم کر اور اس پر اضافہ نہ کر (۳۷)

حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ خطبہ فرما رہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص کو دیکھا جو دھوپ میں کھڑا تھا۔ آپ ؐ نے اس کے بارے میں خطبے کے دوران ہی پوچھا تو لوگوں نے کہا، یہ ابو اسرائیل ہے، اس نے نذر مانی ہے کہ یہ کھڑارہے گا، بیٹھے گا نہیں، نہ سائے میں آئے گانہ کسی سے بات کرے گا، نہ کھائے گانہ پیے گابلکہ روزہ رکھے گا۔(آپؐ نے یہ سن کر) انہیں سختی سے منع کرتے ہوئے فرمایا،اسے کہو کہ وہ بات بھی کرے، سائے میں بھی بیٹھا کرے اور اپنا روزہ بھی پورا کرلے (۳۸)ان کے علاوہ بھی قرآن وسنت سے سینکڑوں دلائل اور تعلیمات پیش کئے جا سکتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ایک اعتدال پسند دین ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی انتہا پسندی کی گنجائش نہیں ہے، اس میں توازن ہے اور کوئی افراط و تفریط نہیں ہے۔

11۔ اسلام کے جملہ احکام حلال وحرام کا مقصد قیام امن ہے:

اسلام کے تمام احکام، اوامر ونواہی، جائز وناجائز اور حلال وحرام وغیرہ سب امن وسلامتی کے فروغ کی خاطر ہی ہیں۔ انہی تعلیمات و احکامات کی پیروی سے انصاف اور رواداری کی فضا قائم ہوتی ہے اور امن کا قیام عمل میں آتا ہے۔مثلاًنماز سے قرب الٰہی اور روحانی تسکین کے علاوہ نظم و ضبط، مساوات، برابری اور پابندی وقت کی تربیت ہوتی ہے۔ انسان فحاشی وعریانی سے منع ہو جاتا ہے اور ایک پرامن شہری بن جاتا ہے۔روزے سے مساوات کے علاوہ ضبط نفس کی تربیت ہوتی ہے تاکہ انسان نفسانی خواہشات کی رو میں بہہ کربدامنی پھیلانے کا باعث نہ بنے۔ ادائیگی حج سے اجتماعیت کی اہمیت، ایثار وقرنانی کا جذبہ، تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ ابھرتا ہے۔ زکواۃ تو غربت کے خاتمے، انسانیت کے ساتھ ہمدردی وتعاون، مال و دولت کی گردش اور باہمی تعلقات کی بہترین استواری کے لئے فرض کی گئی ہے۔ اسی طرح عدل وانصاف ، مساوات، رواداری، عفو و درگزر، ایثار وقربانی، بھائی چارہ و محبت ،سب وہ تعلیمات ہیں جن سے معاشرے میں امن وامان، خوشحالی اور قربانی کا ماحول جنم لیتا ہے اور خوشیوں کی بہار شروع ہونے لگتی ہے۔

اسلام نے جن چیزوں کو حرام قراردیا ہے ان کے کرنے سے فساد فی الارض پھیل جاتا ہے۔ مثلاً غیبت، بہتان، چغلی، تجسس،تمسخر، دھوکہ دہی، قتل و غارت گری، گالم گلوچ، سودخوری، ڈاکہ زنی، قماربازی، زنا، شراب نوشی، خیانت کا ارتکاب، ناپ تول میں کمی، چوری کرنا وغیرہ، ان امور کو اسلام نے اس لئے حرام قراردیا ہے کہ ان کے ارتکاب سے معاشرہ میں بگاڑ اور فساد رونما ہوتا ہے جو فرد ومعاشرے دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور بدامنی وفساد فی الارض کا سبب بن جاتا ہے۔اسلام کے تعلیمات صرف مسلمانوں ہی کے لیے نجات اور فلاح کا ضامن نہیں بلکہ هُدًى لِلْمُتَّقِين (۳۹)

(متقیوں کے ہدایت ہے) کے ساتھ ساتھ هدًى لِلنّاس (۴۰) (تمام انسانوں کے لیے ذریعہ ہدایت ہے) بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب مغرب نے اسلامی تعلیمات کا جائزہ لے کر ان پر عمل کرنا شروع کیا تو ان پر ایمان رکھے بغیر بھی پوری دنیا پر حکمرانی کا جھنڈا گاڑ دیا، جبکہ خود مسلمانوں نے ان تعلیمات سے روگردانی اختیار کی تو خلافت و حکومت سے محروم ہوگئے، ظلم و بدامنی اور مغرب کی غلامی کا شکار ہوگئے۔۱۱۔ امن وسلامتی، سنت رسول ؐ کی روشنی میں: اب ہم درج ذیل سطور میں رسولﷺ کے سنت کی روشنی میں امن وسلامتی کا جائزہ لیں گے کہ سنت میں اس حوالے سے کیا کیا تعلیمات ملتے ہیں۔مسلمان ہی امن کا داعی ہے اسلام اپنے پیروکاروں یعنی مسلمانوں کی تعریف ہی یہ کرتا ہے کہ ان کی شر سے مسلمان محفوظ ہو، تمام پڑوسی محفوظ ہوں، غیر مسلم اور مخالف بھی محفوظ ہو۔ نہ صرف خود پرامن ہو بلکہ امن کا داعی بھی ہو۔

حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا،مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں (۴۱)

حضرت ابو شریح ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا، بخدا وہ مومن نہیں، بخدا وہ مومن نہیں، بخدا وہ مومن نہیں۔ عرض کیا گیا کون مومن نہیں اے اﷲ کے رسول ﷺ! آپؐ نے فرمایا، جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔

پڑوسی میں مسلم، غیر مسلم، دور اور نزدیک سب پڑوسی شامل ہیں، اسی طرح ریاستوں اور حکومتوں کی سطح پر بھی یہی حکم ہے۔ایک اور روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایاکہ،کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں سے بہترین کون ہے اور بدترین کون ہے؟ راوی کا بیان ہے کہ لوگ خاموش ہوگئے۔ آنحضرت ﷺ نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی۔ پھر ایک صحابی نے عرض کیا، جی ہاں اﷲ کے رسولﷺ آپ ہمیں ضرور بتایئے کہ ہم میں سے اچھا کون ہے اور برا کون ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع کی جائے اور اس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں ، اور تم میں سے بدترین شخص وہ ہے جس سے کسی خیر کی امید نہ رکھی جائے اور اس کے شر سے لوگ محفوظ نہ ہوں(۴۲)

اسلامی تعلیمات صرف یہ نہیں کہ مسلمان بذات خود شریف اور پرامن ہو اور اس کے شر سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں ، بلکہ وہ امن کا پرجوش داعی بھی ہو۔معاشرے میں قیام امن کے لیے جدوجہد بھی کررہا ہو، اورمظلوم کا ساتھ دینے اور ظالم کا ہاتھ روکھنے کا اہتمام بھی کررہا ہو۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲ! ہم مظلوم کی تو مدد کرسکتے ہیں، لیکن ظالم کی ہم کیسے مدد کریں۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ روک لو (یہی اس کے ساتھ مدد ہے) (۴۳)

12۔ ظلم و تشدد ، دہشت گردی اور فساد کی حرمت:

نبیﷺ کا مشن معاشرے کے اندر سے ظلم وتشدد ، فساد، سرکشی اور دہشت گردی کا خاتمہ اور امن وامان کا قیام تھا۔اور یہی ہدایات مسلمانوں کو بھی دئیے کہ وہ معاشرے میں قیام امن کا فریضہ سر انجام دیتے رہیں۔اس حوالے سے جو تعلیمات آپ ؐ نے دئیے ہیں ان میں سے کچھ کا ذکر درج ذیل سطور میں کیاجائے گا۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایاکہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر بھی ظلم کو حرام کر رکھا ہے اور تمھارے لیے بھی اس بات کو حرام کر دیا ہے کہ تم کسی پر ظلم کرو (۴۴)

حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف روانہ کیاتو فرمایا، مظلوم کی بددعا سے بچتے رہناکہ اس کے اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا(۴۵)حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، ظلم وسرکشی قیامت کے روز بہت سی تاریکیوں کا سبب ہوگا (۴۶)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اگرکسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پرہو یا کسی بھی طریقہ سے ظلم کیا ہو تو اسے آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے پہلے معاف کرالے جس دن نہ دینار ہوں گے اور نہ درہم بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل اس کے پاس ہوگاتو اس کے ساتھی (مظلوم) کی برائیا ں اس پر ڈال دی جائیں گی (۴۷)

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ،اﷲ تعالیٰ ظالم و سرکش (اور فسادکرنے والے) کو دنیا میں چند روزمہلت دیتے رہتے ہیں، لیکن جب پکڑتے ہیں تو پھر نہیں چھوڑتے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی ’’اور تیرے رب کی پکڑ اس طرح ہے جب وہ بستی والوں کو پکڑتا ہے جو ظلم کرتے رہتے ہیں۔ بے شک اس کی پکڑ بڑی تکلیف دہ اور بڑی سخت ہے (۴۸)

13۔ قتل و غارت کی ممانعت:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاسات تباہ کرنے والے (گناہوں) سے بچو۔۔۔ جن میں سے ایک کسی کی ناحق جان لینا ہے، اس سے بچوجسے اﷲ تعالیٰ نے حرام قراردیا ہے (۴۹)

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں کشادہ رہتا ہے جب تک وہ ناحق خون نہ کرے (۵۰)

حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہلاکتوں کا بھنور جس میں گرنے کے بعد نکلنے کی امید نہیں وہ ناحق قتل وغارت ہے، جس کو اﷲنے حرام کیا ہے (۵۱)

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو (۵۲) حضرت عبداﷲ بن عمرؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ؑ نے فرمایا،جس نے کسی ذمی (غیر مسلم شہری) کو ناحق قتل کیاوہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پاسکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت کی راہ سے بھی سونگھی جاسکتی ہے (۵۳)

14۔انسانوں کے ساتھ رحمت وشفقت کا سلوک:

حضرت جریر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اﷲ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا (۵۴)

حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ان پر رحم کرتا ہے جو خود رحم دل ہوں (۵۵)

حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، لَيسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يرْحَمْ صَغِيرِنَا وَ يوَ قِّرْ کَبِيرِنَاوَياْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ ينْهَ عَنِ الْمُنْکَرِ (۵۶)

جو شخص چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا اور نیکی کا حکم نہیں کرتا اور برائی سے منع نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔

15۔ جانوروں اور ذی روح کے ساتھ رحمت وشفقت:

چونکہ اسلام دین رحمت ہے، اس لیے نہ صرف انسانوں کے ساتھ بہتر سلوک کا درس دیتا ہے بلکہ جانوروں کے لیے بھی اسلام سراپا رحمت و امن وسلامتی ہے۔ جانوروں پر بھی ظلم وزیادتی کو برداشت نہیں کرتا، اس حوالے سے چند بنیادی اسلامی تعلیمات کا ذکر کریں گے۔

۱۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا، ایک شخص راستے پر چل رہاتھا کہ اسے شدت کی پیاس لگی ۔ اسے ایک کنواں نظر آیا اور اس نے اس میں اتر کر پانی پیا۔ جب وہ باہر نکلا تو وہاں ایک کتا دیکھا جو ہانپ رہا تھا اور پیا س کی شدت کی وجہ سے گیلی مٹی چاٹ رہاتھا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ کتا بھی اتنا ہی زیادہ پیاسا معلوم ہوتا ہے جتنا کہ میں تھا۔ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترااور اپنے موزے میں پانی بھر کر اسے منہ سے پکڑ کر اوپر لایا اور کتے کو پانی پلایا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو پسند فرمایا اور اس کی مغفرت فرمادی۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ؐ ! کیا ہمیں جانوروں کے ساتھ رحمدلی اور نیکی کرنے پر بھی ثواب ملتاہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ہر تازہ کلیجے والے (یعنی ذی روح، جس میں حیوانات و نباتات دونوں شامل ہیں) کے ساتھ نیکی کرنے پر ثواب ملتا ہے (۵۷)

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا، ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں جا پہنچی، اس نے بلی کو باندھے رکھا اور اسے نہ کھانا دیا اور نہ ہی چھوڑا کہ وہ کیڑے مکوڑے کھا کر اپنی جان بچا لیتی (۵۸)

حضرت ابو ہریرہؓ سے رویت ہے کہ اﷲ کے نبی ؐ نے فرمایا، نبیوں میں سے کوئی نبی کسی درخت کے سائے میں اترے، وہاں انہیں کسی ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں نے حکم دیا اور ان کا سارا سامان اس درخت تلے سے اٹھالیا گیا۔ پھر چیونٹیوں کا سارا چھتا انہوں نے جلوادیا۔ انہیں ڈانٹتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تمہیں تو ایک چیونٹی نے کاٹاتھا اور تم نے تمام چیونٹیوں کو جلا کر رکھ دیا، حالانکہ یہ بھی اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرنے والی ایک امت ہے (۵۹)

حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نبیؐ ایک شخص کے پاس سے گزرے جس نے بکری کے پہلو پر پاؤں رکھا ہواتھا اور اسی حالت میں چھری تیز کررہا تھا، جبکہ بکری آنکھیں پھاڑے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ تو نبیﷺ نے فرمایا کہ تم نے اس سے پہلے ہی چھری تیز کیوں نہ کی؟ کیا تم اس جانور کو دو مرتبہ موت سے دوچار کرنا چاہتے ہو .(۶۰)

حضرت عبدالرحمٰن بن عبداﷲؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور ان کے والد فرماتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے ۔ آپ اپنی حاجت کے لیے نکلے تو ہم نے دیکھا کہ ایک سرخ چڑیا اپنے دو بچوں کے ساتھ ہے۔ ہم نے اس کے بچے اٹھالیے تو وہ چڑیا ہمارے اوپر چکر کاٹنے لگی۔ نبی اکرمؐ جب آئے تو یہ دیکھ کر فرمانے لگے کہ کس شخص نے اس چڑیا کو اس کے بچوں کی وجہ سے دکھ پہنچایا ہے؟ اس کے بچے واپس لوٹا دو۔ اسی طرح آپ ؐ نے چیونٹیوں کی ایک بل دیکھی جسے ہم نے جلایا تھا۔ آپ ؐ نے پوچھا کہ اسے کس نے جلا دیا؟ ہم نے جواب دیا کہ ہم نے اسے جلایا ہے۔ تو آپ ؐ نے فرمایا کہ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کو آگ کی سزا دے سوائے آگ کے پیداکرنے والے(خدا) کے (۶۱)حضرت سعید بن جبیرؓ فرماتے ہیں کہ میں عبداﷲ بن عمرؓ کے ساتھ تھا، آپؓ چند آدمیوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک مرغی باندھ رکھی تھی اور اس پر تیر کا نشانہ لگارہے تھے۔ جب انہوں نے ابن عمرؓ کو دیکھا تو وہاں سے بھاگ گئے۔ ابن عمرؓ نے کہا کہ یہ اس طرح (نشانہ بازی) کون کر رہا تھا؟ ایسا کرنے والوں پر نبی ؐ نے لعنت بھیجی ہے (۶۲)

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے فرمایا کہ نبی اکرم ؐ نے کسی بھی چوپائے اور جانور وغیر ہ کو باندھ کر مارنے سے منع کیا ہے (۶۳)

حضرت سہل بن حنظلہؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جو بھوکے پیاسے رہنے کی وجہ سے اس کی پشت اس کے پیٹ سے لگ رہی تھی، آ پ ﷺ نے فرمایا ، ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اﷲ سے ڈرو، ان پر مناسب سواری کیا کرو اور انہیں مناسب حالت میں چھوڑو (۶۴)

حضرت عبداﷲ بن جعفرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن اﷲ کے رسول ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے سواری پر سوار کیا۔پھر آپ ؐ ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوگئے تو وہاں ایک اونٹ تھا۔ جب اونٹ نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا تو غمگین ہو کر بلبلانے لگااور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں۔ آپ ﷺ اس کے پاس گئے اور اس کے سر پا ہاتھ پھیرنے لگے اور وہ خاموش ہوگیا۔ آپ ؐ نے پوچھا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ اونٹ کس کی ملکیت ہے؟ تو ایک انصاری آدمی آیا اور کہا اے اﷲ کے رسول ﷺ ! یہ اونٹ میراہے۔ آپ ؐ نے فرمایا، کیا تم اس جانور کو جسے اﷲ تعالیٰ نے تمھاری ملکیت میں دے دیا ہے، کے بارے میں اﷲ سے نہیں ڈرتے؟ اس اونٹ نے میرے سامنے شکایت کی ہے کہ تم اسے تکلیف پہنچاتے ہو اور اس پر خوب مشقت ڈالتے ہو (۶۵)

ان تعلیمات نبویؐ سے اسلام کا تصورِ رحمت و رافت، امن وسلامتی اور پر سکون زندگی روزروشن کی طرح عیاں ہے۔ جو دین کسی جانور اور تمام ذی روحوں پر ظلم و زیادتی اور جبروتشدد کا قائل نہ ہو، جو کسی پرندے کو تکلیف دینا گوارا نہ کرتا ہو، حتّٰی کہ بے جان اشیاء کے ساتھ زیادتی سے منع کرتا ہو، پودوں اور درختوں کو کسی وجہ کے بغیر کاٹنے سے باز رہنے کا حکم دیتاہو۔۔۔۔۔ ایسے دین سے زیادہ امن، رواداری، عدل وانصاف اور مساوات پر مبنی دین ہوسکتا ہے؟ کیا ایسے دین کے علمبردار دہشت گرد، انتہا پسند اور غیر مہذب ہو سکتے ہیں؟

16۔ جہادکا حکم قیام امن کے لیے:

اسلام دنیا کو انسانیت کی اصلاح وفلاح کا عظیم اور بلند مقصد پیش کرتاہے، اور اسی مقصد کے حصول کے لیے نیکی کے فروغ، برائی کے سدّباب، ظلم وزیادتی، جبرواستحصال اور فساد کا قلع قمع کرنے اور حقوق وفرائض کا تعین کرتاہے، اور اپنے ماننے والوں سے اس پر سختی کے ساتھ کاربند رہنے کا مطالبہ کرتاہے۔

انسانیت کی اصلاح وفلاح اور احترام کی خاطر اگر جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑے تو پھراسے جہاد فی سبیل اﷲ اور مقدس عبادت سمجھ کر جان کی بازی لگادی جاتی ہے۔ اسلام کے اس جنگ میں احترام آدمیت، حقوق کی پاسداری، ظلم وبربریت کے خاتمے اور قیام امن کے علاوہ کوئی اور نفسانی خواہش شامل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے جہاد، ’’جنگ‘‘ نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت ہے۔ اسلام میں جہاد کی غرض وغایت ظلم وجور کا قلع قمع کرنا (خواہ یہ ظلم مسلمان کررہا ہویاغیر مسلم)(۶۶)، عدل و انصاف کی فراہمی اور امن کا قیام ہے (۶۷)

17۔ اسلام کے علاوہ دیگر ادیان میں فساد ہی فساد ہے:

پورے کائنات کا خالق، مالک ، منتظم اور حاکم اﷲ جلّ جلالہ ہے۔ جس طرح تکوینی نظام اﷲ تعالیٰ کے حکم اور قانون کے مطابق چلتاہے، اسی طرح تشریعی نظام بھی اﷲ تعالیٰ نے مقرر فرمایاہے، جس کا نام اسلام ہے۔ تاکہ دنیا کانظام حق، عدل وانصاف اور امن وسلامتی کے سات چلتا رہے۔ ظاہر ہے کہ اس نظام کے علاوہ ہر ایک نظام فساداور ظلم ہی کا سبب ہوگا۔ قرآن حکیم نے اس بات کی تصریح کئی مقامات پر کی ہے۔ سورۃ عنکبوت میں قوم لوط ؑ کے حوالہ سے ارشاد ہے کہاور حضرت لوط علیہ السلام کو یاد کرو جبکہ انہوں نے اپنی قو م سے فرمایا کہ تم تو اس بدکاری پر اتر آئے ہو اور راستے تبدیل کرتے ہو ، اور اپنی عام مجالس میں بے حیائی کے کام کرتے ہو۔ اس کے جواب میں اس کی قوم نے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہا کہ بس جا اگر سچا ہے تو ہمارے پاس اﷲ کا عذاب لے آ (۶۸)

قوم کے اس جواب میں حضرت لوط علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی کہ رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِين (۶۹)

اے رب! فسادی قوم کے مقابلے میں میری مدد فرما۔ اسی طرح قوم شعیب علیہ السلام کے بدامنی اور فساد کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ الاعراف میں ہے کہ اور لوگوں کو چیزیں کم کرکے مت دو، اور روئے زمین پر اس کے بعد کہ اس کی درستگی کردی گئی، فساد مت پھیلاؤ (۷۰)

فرعون کے برپا کردہ فساد، دہشت گردی اور بدامنی کا نقشہ سورۃ القصص میں اس طرح کھینچا گیا ہے، یقیناًفرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھاتھا، اور ان میں سے ایک فرقہ یعنی بنی اسرائیل کو کمزور کر رکھا تھا، اور ان کے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتا تھا، اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتاتھا۔ بے شک وہ تھا مفسدین میں سے (۷۱)

یہودیوں کی فسادات، بدامنی پھیلانے، مکروفریب اور دہشت گردی سے پورا قرآن اور خود بائبل اور تاریخ بھی بھری پڑی ہے۔آج عملاً دنیا میں بدامنی، فساداور دہشت گردی میں اسی قوم کا بڑاہاتھ ہے۔ اس کا ذکرقرآن کریم میں یوں آیاہے،اور جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے، یہ ملک بھر میں شروفساد مچاتے پھرتے ہیں اور اﷲتعالیٰ فسادیوں سے محبت نہیں کرتا (۷۲)اسی طرح منافقین کے فساد برپاکرنے کا ذکر سورۃ البقرہ میں یوں ہے، اور جب ان سے کہاجاتاہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردارہو! یقیناًیہی لوگ (منافقین) فساد کرنے والے ہیں، لیکن شعور نہیں رکھتے (۷۳)

خلاصہ ونتیجہ:

اسلام، انسان کا مقررکردہ نظام نہیں ہے بلکہ یہ اﷲ تعالیٰ ہی کا مقررکردہ نظام ہے، جس کامقصد دنیا وآخرت کی زندگی پرامن، خوشحالی اور کامیابی سے بسرکرنا ہے۔ اس لئے یہ نظام عدل وانصاف اور امن کے قیام کا واحد ضامن ہے، جس میں انسانیت سے کیا حیوانات، نباتات اور جمادات کے ساتھ بھی زیادتی اور ظلم کے ارتکاب سے منع کیا گیا ہے۔ انسان کا وضع کردہ نظام، نہ اسلام کا مقابلہ کرسکتاہے، نہ دنیا وآخرت میں امن کا ضامن بن سکتا ہے۔

حوالہ جات:

(۱) اصفہانی امام راغب، المفردات القرآن، ترجمہ محمد عبدہ، اہل حدیث اکادمی، لاہور، لفظ ’’اسلام‘‘(۲) شاہ، زاہد، اسلام کا دستوری نظام، پاکستان کے حوالے سے، پی۔ایچ ڈی مقالہ، وفاقی اردو ،یونیورسٹی،

کراچی، شعبہ اصول الدین، ص ۲۵

(۳)امام ابن منظور، لسان العرب، المطبعة الأثرية، ۱۳۹۱ھ، لفظ ’’مسلم‘‘

(۴) الانعام۶/ ۸۱۔۸۲

(۵) یونس ۱۰/۲۵

(۶) سباء ۳۴/۲۸

(۷) انبیاء ۲۱/۱۰۷

(۸) البقرہ ۲/۲۰۵

(۹) المائدہ ۵/ ۶۴

(۱۰) البقرہ ۲/۰ ۶

(۱۱) الانفال ۸/ ۲۵

(۱۲) ھود ۱۱/ ۱۱۶

(۱۳) المائدہ ۵ /۳۳

(۱۴) القصص ۲۸/۸۳)

(۱۵)المائدہ ۵/۱۳

(۱۶) المائدہ ۵/۲۴

(۱۷) الحجرات ۴۹/ ۹)

(۱۸)الحجرات۴۹/۱۱

(۱۹) البقر ہ ۲/ ۲۷۶

(۲۰) آل عمران ۵۳/۳

(۲۱) النساء ۴/۳۶

(۲۲) المائدہ ۵/ ۸۷

(۲۳) انعام ۶/۱۴۱، الاعراف ۷/۳۱

(۲۴) الانفال ۸/ ۵۸

(۲۵) النحل ۱۶/ ۲۳

(۲۶) البقرہ ۲۰/۲۷۹

(۲۷) المائدہ ۵/۲

(۲۸) ابراہیم ۱۶/۲۲

(۲۹) الانعام ۶/ ۲۱

(۳۰) الانعام ۶/۲۵۱، بنی اسرائیل ۳۳/۱۷

(۳۱) المائدہ ۵/۳۲

(۳۲) البقرہ ۲/۱۹۰

(۳۳) البقرہ ۲/۱۹۰۔۱۹۴، المائدہ ۵/۸

(۳۴) الفرقان ۲۵/۶۷

(۳۵) لقمان ۳۱/۱۹

(۳۶) بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح ، استنبول، دار صادر ، ۱۹۹۲، کتاب النکاح،

(۳۷) ایضاً

(۳۸) صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذر، حدیث نمبر ۶۷۰۴

(۳۹) البقرہ ۲/۲

(۴۰) البقرہ ۲/۱۸۵

(۴۱) بخاری ، کتاب الرقاق، باب الانتھاء عن المعاصی، حدیث نمبر ۶۴۸۴، ابوالحسن مسلم نیشاپوری، صحیح مسلم، مصر ۱۹۹۳، کتاب الایمان، باب بیان تفاضل الاسلام، حدیث ۴۱

(۴۲) ترمذی، محمد بن عیسیٰ بن سورہ ترمذی، جامع ترمذی، استنبول دارالدعوہ، ۱۴۰۱ھ (۴۳) ایضاً، حدیث ۲۲۵۵، بخاری، کتاب الظالم، باب اعنی اخاک الظالم او مظلوم، حدیث نمبر ۲۴۴۴، مسلم،

کتاب البروالصلتہ، باب نصرالاخ ظالماً او مظلوماً، حدیث نمبر ۶۵۱۵

(۴۴) مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم ، حدیث نمبر ۲۵۷۷

(۴۵) بخاری، کتاب المظالم، باب الاتقاء والحذر من دعوة المظلوم، ۲۴۴۸، مسلم، کتاب الایمان، باب الدعاء الیٰ الشی، ۱۲۱، ابوداؤد، ۱۵۰۴

(۴۶) بخاری، کتاب المظالم، باب الظلم ظلمات یوم القیامۃ، حدیث نمبر ۲۴۴۷

(۴۷) احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، دارالفکر، بیروت، ۱۹۸۱، ۲/۵۰۶، بخاری، کتاب الظالم، باب من

کانت له مظلمة عندالرجل محلها ۔۔۔ ۲۴۴۹

(۴۸) بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ وکذالک اخذ ربک ۔۔۔۔۔ ۴۶۸۶

(۴۹) بخاری کتاب الوصايا، باب قول اﷲ تعالیٰ ان الذين ياْکلون أموال اليتامیٰ، حدیث نمبر ۲۷۶۶، مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الکبائر واکبرھا، ۲۸۵

(۵۰)بخاری،کتاب الدیات، باب قول اﷲ تعالیٰ ومن قتل مؤمناً متعمداً، حدیث نمبر ۶۸۶۲(۵۱)ایضاً، حدیث نمبر۶۸۶۳

(۵۲)ایضاً، باب من احیاء، حدیث ۶۸۶۹

(۵۳) بخاری، کتاب الجزیہ، باب اثم من قتل معاہداً، ۳۱۶۶

(۵۴) بخاری ، کتاب التوحید، باب قول اﷲتعالیٰ، قل ادعواﷲ اودعوالرحمان،۷۳۷۷، مسلم، کتاب الفضائل، باب رحمہ، ۲۳۱۹، احمد ۴۰/۳

(۵۵) ایضاً، حدیث نمبر ۷۳۷۷، مسلم کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت، ۹۲۳

(۵۶)سجستانی، ابوداؤد، سنن ابوداؤد، فرید بک سٹال، اردو بازار لاہور، ۱۹۵۱، حدیث نمبر ۴۹۳۵

(۵۷)بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الناس والبھائم، حدیث نمبر ۶۰۰۹

(۵۸) بخاری، کتاب بداء الخلق، باب اذاوقع الذباب۔۔۔۔ حدیث نمبر ۳۳۱۸

(۵۹)بخاری، کتاب الجہاد، باب ۱۵۳، حدیث نمبر ۳۰۹۱

(۶۰) الحاکم، المستدرک، دارالفکر، بیروت، تاریخ اشاعت ندارد، جلد ۴/۴۳۱

(۶۱) ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی کراھیۃ حرق العبد با لنار، حدیث نمبر ۲۶۷۲

(۶۲) بخاری، کتاب الذبائح والصید، باب یکرہ من المثلہ والمصبورۃ۔۔۔۔۔ ۵۵۱۵

(۶۳) ایضاً، حدیث نمبر۱۴ ۵۵

(۶۴) ابوداؤد ، کتاب الجہاد، حدیث نمبر ۲۵۲۵

(۶۵) ایضاً، حدیث نمبر ۵۲۴۶

(۶۶) الحج ۲۲/۳۹ ۔۴۰ البقرہ ۲/۱۹۰، الحجرات ۳۹/۹

(۶۷) المائدہ ۵/۳، آل عمران ۳/۱۹

(۶۸) عنکبوت ۲۹/۲۸۔۲۹

(۶۹) عنکبوت ۲۹/۳۰

(۷۰) الاعراف ۷/۸۵

(۷۱) القصص ۲۸/۴

(۷۲) المائدہ ۵/۶۳

(۷۳) البقرہ ۲/۱۱۔۱۲

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...