Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 28 Issue 1 of Al-Idah

البدایہ و النہایہ کا ایک مطالعہ مصدر سیرت کی حیثیت سے |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

28

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060034497_447

Pages

1-15

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/299/238

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/299

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

حافظ عمادالدین اسمٰعیل بن عمر وبن کثیرؒ (المتوفی 774 ھ/1372ء )آٹھویں صدی ہجری کے ایک ممتاز عالم دین تھے ۔آپ کو تفسیر ،فقہ،تاریخ،سیرت اور تراجم کے فنون میں ماہرانہ فنی ادراک تھا اور ان فنون میں اپنے ہم عصر علماء میں امتیازی حیثیت کے حامل تھے۔آپ کی تفسیری عظمت اور تاریخی شہرت ان کی تفسیر القراٰن الکریم اور عام اسلامی تاریخ البدایہ والنہایہ جیسے عظیم علمی کارناموں کی مرہون منت ہے ۔آپ کى سیرت نبوی کا حصہ عام تاریخی کتاب البدایہ والنہایہ کے تقریباً انیس سو صفحات پر مشتمل ہے(1)

بطور ماٰخذ سیرت کسی کتاب کا مقام اور اس کى اہمیت اس وقت تک آشکارا اور متعین نہیں ہو سکتی جب تک اس کی خصوصیات ومحاسن پر بحث نہ کی جائے اور اس کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی نہ کی جائے تاکہ دونوں پہلوؤں کو اجا گر کر کے بحیثیت ماخذ سیرت اس کے صحیح مقام کا تعین ہو سکے ۔اس لیے ہم اس تحقیقی مقالے میں البدایہ والنہایہ میں سیرت نبوی سے متعلق ابواب کی خصوصیات اور ان کے محاسن اور آخر میں ان کے کمزور پہلوؤں كی نشاندہی کریں گے تا کہ مصدر سیرت کی حیثیت سےالبدایہ والنہایہ کے مناسب مقام کا تعین کیا جا سکے ۔

البدایہ النہایہ میں وارد سیرت نبوی سے متعلق ابواب کی ترتیب وتدوین میں حافظ ابن کثیر کامنہج کچھ حوالوں سے سابقہ سیرت نگاروں سے مختلف ہے ۔آپ کا یہ امتیاز ہے کہ سیرت نبوی کا ذکر کرتے وقت سب سے پہلے قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں۔سیرت نبوی کی ابتداء سورہ انعام کی آیت " الله أعلم حيث يجعل رسالته"(2 )سے کیا ہے۔مغازی رسول میں غزوہ بدر کے واقعات شروع کرنے سے پہلے یہ آیت کریمہ "وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ " (3) درج کی ہے۔ اسی طرح آپ نے سیرت نبوی اور انبیاء کرام کے واقعات وحالات میں تقریباً چھ ہزار مقامات پر مختلف آیات ذکر کی ہیں۔اسی طریقہ کار سے ایک طرف تو حافظ ابن کثیرؒ کی قرآن فہمی کا بھر پور احساس ہوتا ہے تو دوسری طرف سیرت نبوی کے واقعات سے گہری واقفیت کا پتہ چلتا ہے۔

حافظ ابن کثیؒر کی سیرت کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس میں سیرو مغازی اور تاریخ کی معروف کتابوں ،مشہور تفاسیر ،سابق آسمانی کتابوں،فن جرح وتعدیل ،تراجم اور نقد رجال کی فنی کتابوں کے علاوہ حدیث کے وسیع ذخائر صحاح اور مسانید و سنن کےمجموعوں سے مواد اخذ کیا ہے ۔ انہوں نے علم حدیث کے فنی اختصاص کی روشنی میں اپنے مصادر سیرت کا انتخاب کیا ہےاور عام طور پر ان مورخین اور سیرت نگاروںکو چنا ہےجن کی فن حدیث میں علمی اور تصنیفی حیثیت مسلّم تھی ،بالخصوص ابن اسحاق،ابن ہشام ،سہیلی،ابن جریرطبری، محمد بن عمر واقدی اور ابن عساکر ان میں نمایاں ہیں۔شمائل کے حصے کا خاکہ آپ نے امام ترمذی سے حاصل کیا اور دلائل النبوۃ کے حصہ میں امام بیہقی اور امام ابو نعیم الاصفہانی کا اتباع کیا۔چنانچہ رسول اللہؐ پر پہلی وحی کےمتعلق(4) سب سے پہلے تاریخ طبری سے عبداللہ بن عباس اور سعید بن مسیّب کے اقوال سے بحث شروع کرتے ہیں۔(5) اس کےبعد صحیح بخاری سےبروایت ابن شہاب زہری عن عروۃ عن زبیر عن عائشہ طویل روایت (6) اور جابر بن عبداللہ کی روایت (7) نزول وحی کے متعلق ذکر کرتے ہیں اس ضمن میں یہ تحقیق بھی فرماتے ہیں کہ نزول وحی کا واقعہ منامی (خواب) کا تھا یا بیداری کا۔ اس بارے میں سب سے پہلے ابن اسحٰق کا قول نقل کرتے ہیں کہ یہ خواب کا واقعہ تھا(8)،اس کے بعد بحوالہ مغازی موسیٰ بن عقبہ امام زہری سے نقل کرتے ہیں کہ پہلے یہ واقعہ رسول اللہؐ نے خواب میں دیکھا تھا اور پھر یہی واقعہ دوبارہ بحالت بیداری پیش آیا(9)۔ پھر اس دوسرے قول کی تائید میں حافظ ابو نعیم کی کتاب سے روایت نقل کرتے ہیں(10)۔ نزول وحی کی ابتداء کے وقت رسول اللہؐ کی عمر کے بارے میں عامر الشعبی سے روایت نقل کرنے کے بعد غار حرا میں نزول وحی سے پہلےرسول اللہؐ کی عبادت کی تحقیق کے سلسلے میں ابن ہشام (11)،وغیرہ سے نقل کرتے ہیں اور اس کے ساتھ پہلے نازل ہونے والی آیت ،نزول کا دن اور مہینے کے بارے میں تفصیلات ابو قتادہ، ابن عباس، ابو جعفرالباقر، حضرت جابر، عبید بن عمیر ، محمد بن اسحٰق ، محمد بن عمر الواقدی، امام بخاری اور امام مسلم سےنقل کرتے ہیں(12)۔ورقہ بن نوفل کے ایمان کے بارے میں امام احمد(13)، حافظ ابوبکر البزار(14)،ابن عساکر(15)وغیرہ سے روایات نقل کرنے کے بعد ایک عجیب وغریب روایت جو کہ حافظ ابو بکر البیہقی نے نقل کی ہے، (16) ذکر کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ پر پہلے نازل ہونے والی وحی سورۃ فاتحہ تھی۔

حافظ ابن کثیؒر کی سیرت نبوی کی تیسری خوبی یہ ہے کہ آپ نے تاریخ اور علم الحدیث میں عجیب امتزاج کے حامل ایک جدید اسلوب کی بنیاد ڈالی ہے۔اور محدثین و مورخین کے دو مختلف فنون کو یکجا کیاہے۔ نمونے کے طور پر ذیل میں دو مقامات کی طرف توجہ دلانا مناسب رہے گاتاکہ تاریخی واقعات کو پیش کرنے میں حافظ ابن کثیر کا انداز معلوم ہو جائے ۔

آپ نے واقعہ معراج کے زمانے کے بارے میں ابن عساکر اور حافظ بیہقی سے اختلافی روایات نقل کی ہیں، اس کے بعدابن اسحٰق کی طویل روایت جو سیرت ابن ہشام میں بکائی کے واسطے سے منقول ہےذکر کی ہے (17)۔پھر ابن اسحاق کی وہ روایت جس کو امام بیہقی نے یونس بن بکیر سے روایت کی ہے ،نقل کرنے کے بعد رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں دونوں گروہوں کے علماء یعنی عبداللہ بن عباس اور دیگر صحابہ و تا بعین حضرات اور حضرت عائشہ ، عبداللہ بن مسعود اور انکے پیروکار وں کا نقطہ نظر پیش کیاہے(18)۔ اس کے بعد یہ "اختلاف کہ کیا یہ واقعہ خواب کاہے یا بیداری کا بىان کرتے ہىں"(19)۔ اس کے بعدامام بخاری کی وہ مفصل روایت جو معراج کے باب میں ہے،ذکر کی ہے(20)۔ اس ضمن میں دوسرا واقعہ بیعت عقبہ ثانیہ کا ہے۔ اس بارے میں آپ ابن اسحٰق کی وہ روایت جو سیرت ابن ہشام میں مذکور ہے پہلے نقل فرماتے ہیں(21)۔اس کے بعد امام احمد کی وہ روایت جو امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ذکر کی ہے نقل فرماتے ہیں(22)۔ پھر اس واقعہ میں اس اختلاف کو جو امام احمد ، امام بیہقی اور البزار سے منقول ہے بیان فرماتےہیں(23)۔آپ عروہ عن زبیر اور موسیٰ بن عقبہ سے ان حضرات کی تعداد نقل کرتے ہیں جو بیعت عقبہ ثانیہ میں مسلمان ہوئے تھے(24)۔اس کے بعد ابن اسحٰق کی روایت کی طرف پھر رجوع کرتے ہیں اور ان تفاصیل کی طرف لوٹتے ہیں جو ابن اسحٰق نے ذکر کی ہیں ۔عقبہ ثانیہ میں شریک بعض افراد کے اسمائےگرامی میں اختلاف ابن ہشام سے نقل کرتے ہیں اور اس بارے میں کعب بن مالک کے بعض اشعارکوبطور استشہاد پیش کرتے ہیں(25)۔شرائط بیعت کےبارے میں حافظ بیہقی کی روایت ذکر کرنے کے بعد ابن اسحاق کی روایت ، جو شیطان کے اعلان اور حضرت سعد کی گرفتاری کے بارےمیں ہے،(26)نقل کرتے ہیں۔ان مذکورہ بالا مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ ابن کثیر کی سیرت کے بنیادی ماخذ کتب حدیث،سیر ومغازی اور کتب تاریخ ہیں۔

ابن کثیر کی سیرت نبوی کی چوتھی بڑی خوبی یہ ہے کہ صحیح احادیث کی روشنی میں واقعات سیرت کو بیان کرتے ہوئے ان کے ساتھ سند حدیث اور متن کی تحقیق کرتے ہیں ۔آپ نے سند ومتن کی بھی تحقیق و تنقیح کے سلسلے میں جرح وتعدیل کے ماہر علماء کے اقوال بکثرت نقل کئے ہیں۔ا ن کی تاریخ کے ابتدائی حصے سے سیرت نبوی کی انتہاء تک حدیث کا گہرا رنگ نظر آتا ہے۔وہ ایک تاریخی خبرنقل کرکے حدىث کے مختلف مصادر سے ان کےلئے شواہد ونظائر پیش کرتے ہیں اور اسی دوران اگر متن حدیث میں راوی سےکہیں کمی و بیشی واقع ہوئی تو اس پر بھر پور نقد کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر سند حدیث میں کہیں مجروح راوی آیا ہو تو علم جرح وتعدیل کی روشنی میں اس کا بھر پور جائزہ لیتے ہیں اور اسکے بعد اکثر اس پر حکم لگاتے ہیں۔ مثلاًحافظ ابن کثیر رسول اللہ ؐ کے اسراء و معراج کے بیان میں ایک حدیث (27)بروایت "’’امام مسلم عن هارون بن سعد الايلى قال حدثنا ابن وهب قال اخبرنى سليمان وهو ابن بلال قال حدثنى شريك بن عبد الله بن أبى نمر قال سمعت أنس بن مالك.... الحديث" (28) نقل کرتے ہیں۔ پھر اس روایت کے متن پر نقد کر کے فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے متن میں متعدد وجوہ سے غرابت ہے۔ پھر قارئین کو اپنی تفسیر میں اس پر سیر حاصل بحث کی طرف متوجہ کرتے ہیں(29)۔

اسی طرح اسراء و معراج کے واقعات میں ایک اور جگہ اسی شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کی روایت کے ان الفاظ "ثم دنا الجبار رب العزة " (اللہ تبارک وتعالیٰ رسول پاک صلى الله عليه وسلم کے قریب ہوا)کی تصحیح فرماتے ہیں کہ یہ محض راوی کا اپنا خیال ہےجو اس نے حدیث میں درج کر دیا ہے(30)۔

معراج کے واقعات بیان کرتے ہوئےحافظ ابن کثیر جب یہ ذکر فرماتے ہیں کہ معراج منامی (خواب کی حالت میں)تھی یا جسد اطہر کے ساتھ حالت بیداری میں،تو اس بحث میں آ پ اسی شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کی روایت کے ان الفاظ "ثم استيقظت وانا فی المسجد الحرام"( پھر میں نیند سے بیدار ہوا اور اپنے آپ کو مسجد حرام میں پایا)پر گرفت فرما کر لکھتے ہیں کہ ان الفاظ کا شمار شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کی ان چند غلطیوںمیں ہوتاہےجو شریک سے روایت نقل کرتے وقت سر زد ہوئی ہیں(31)۔

رسول اللہؐ کے نسب اطہر کے بارے میں حافظ بو بکر البیہقی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے بر سر ممبر اپنا شجرہ نسب عرب کے جد امجد عدنان تک ذکر کیا ہے (32)۔آ پ اس حدیث کی سند پر بحث کرکےلکھتے ہیں:

"هذا حديث غريب جدّا من حديث مالك تفرد به القدامى وهو ضعيف" (33)

یعنی یہ امام مالک سے منقول روایات میں انتہائی غریب روایت ہے کیونکہ یہ روایت صرف قدامی راوی کے واسطے سےمنقول ہے اور قدامی بالاتفاق ضعیف راوی ہے

حافظ ابن کثیر کی سیرت نبوی کی پانچویں خوبی یہ ہے کہ انہوں نے متقدمین علماء کے مرتبہ اور مقام کو ملحوظ خاطر رکھنے کے باوجو دان پر کھل کر گرفت کی ہے اور ان کی بھول چوک،مغالطہ اور غلط رائےپر خاموش نہیں رہے ،مثلاً ابن ہشام نےذکر کیا ہے : "ان أعشي بن قيس خرج إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد الإسلام فلما كان بمكة أو قريباً منها، اعترضه بعض المشركين من قريش فسأله عن أمره فأخبره أنه جاء يريد رسول الله فقال له يا أبا بصير، أنه يحرم الزنا، فقال الأعشى والله أن ذلك لأمر مالى فيه من أرب، فقال له يا أبا بصير فانه يحرم الخمر، فقال الاعشى اما هذه فو الله ان فى النفس منها لعلالات ولكني منصرف فأتروي منها عامى هذا ثم آتيه فأسلم، فانصرف، فمات فى عامه ذلك، ولم يعد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم" (34) اعشی بن قیس بن ثعلبہ رسول اللہؐ کی خدمت میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی خاطر روانہ ہوئے ، جب مکہ کے قریب پہنچے تو کسی مشرک قریشی نےا ن سےپوچھا کہ کیونکر آنا ہوا۔ تو اس نے کہا کہ وہ رسول اللہ ؐ کےپاس مسلمان ہونے کے لئے آیا ہے۔ قریشی نے اعشی کو پکار کر کہا اے ابو بصیر! وہ تو زنا کو حرام کہتا ہے تو اعشیٰ نے کہا مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ،قریشی نے کہا وہ شراب کو بھی حرام کہتاہے"اعشیٰ نے کہا اس کے دل میں ہوس ہےواپس جاتا ہوں ۔امسال جی بھر کے پی لونگا۔پھر آئندہ سال آکرمسلمان ہو جاؤں گا۔چنانچہ وہ واپس چلا گیا اور اسی سال مر گیا اور رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکا)۔ابن ہشام نے اعشی کا یہ واقعہ ہجرت سے قبل کے واقعات میں ذکر کیا ہے حافظ ابن کثیر اس پر گرفت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ابن ہشام کی خطا ہے کہ اعشی کا قصہ اس نے یہاں بیان کیا ہے کیونکہ شراب کی حرمت کا حکم ہجرت نبوی کے بعد غزوہ بنو نظیر کے واقعہ کے بعد نازل ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ اعشی کا مسلمان ہونے کے لیے سفر، ہجرت کے بعد ہوا ہے۔ ابن ہشام کو چاہئےتھا کہ اس واقعہ کو ہجرت کے بعد درج کرتا (35)۔اسی طرح حافظ ابن کثیؒر ابو طالب کے مشہور قصیدہ لامیہ کے بارے میں ابن ہشام کے رائے سے متفق نہیں جس کے بارے میں ابن ہشام کا خیال ہے کہ اکثر ماہرین شعراء نے اس قصیدہ کے اشعار کا انکار کیا ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ کہتے ہیں: "هذه قصيدة عظيمة بليغة جداً لا يستطيع يقولها إلا من نسبت إليه، وهى أفحل من المعلقات السبع، وأبلغ فى تأدية المعنى فيها جميعها" (36)۔(کہ یہ عظیم الشان قصیدہ نہایت فصیح و بلیغ ہے اس قصیدہ کا قائل وہی ہو سکتا ہے جس کی طرف منسوب ہے یہ قصیدہ سبعہ معلقہ سے الفاظ کے لحاظ سے اعلیٰ اور معا نی کی حیثیت سے نہایت فصیح وبلیغ ہے)۔

حافظ ابن کثیر ؒ " صحابہ میں اولین مسلمان کے عنوان "سے ابن اسحٰق سے روایت نقل کرتے ہیں"أن أبابكر الصديق لقي رسول الله فقال: أحق ما تقول قريش يا محمد؟ من تركك آلهتنا، وتسفيهك عقولنا، وتكفيرك آبائنا؟ فقال رسول الله بلى ان رسول الله ونبيه بعثنى لا بلغ رسالة وأدعوك إلى الله بالحق فو الله انه للحق، أدعوك يا أبابكر إلى الله وحده لا شريك له، ولا تعبد غيره والموالاة على طاعته وقرأ عليه القرآن، فلم يقر ولم ينكر فأسلم" (37) "ابو بکر صدیق نے رسول اللہؐ سے ملاقات کے دوران عرض کی کہ قریش آپ سے جو باتیں منسوب کرتے ہیں کیا وہ درست ہیں؟وہ یہ کہ آپ ہمارے معبودوں کو باطل ، ہماری عقلوں کو ناقص اور ہمارے آباؤ اجداد کوگمراہ کہتے ہیں۔ رسول پاکؐ نے فرمایا کہ ابو بکر میں اللہ کا رسول اور اس کا نبی ہوں۔اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے کہ میں اس کا پیغام پہنچا دوں اور تجھے اللہ کی طرف سچی دعوت دوں۔ واللہ یہ بالکل سچ ہے اے ابو بکر!میں آپ کو اللہ وحدہ ٗلا شریک کی طرف دعوت دیتا ہوں،پھر ان کو اللہ تعا لٰی کے بغیر کسی کی پرستش نہ کرنے اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی تلقین کی اور ان کو قرآن کریم کا کچھ حصہ سنایا تو حضرت ابو بکر صدیق نے فلم یقر ولم ینکر( یعنی نہ اقرار کیا اور نہ انکار بلکہ متذبذب تھے،کوئی فیصلہ نہ کر پائے اور بعد میں آپ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے)۔حافظ ابن کثیرؒنے ابن اسحٰق کے مذکورہ الفاظ فلم یقر ولم ینکر "یعنی نہ اقرار کیا اور نہ انکار" کے ساتھ اتفاق نہیں کیااور لکھاہے کہ ابن اسحٰق کے مذکورہ الفاظ صحیح نہیں کیو نکہ دیگر آئمہ کے علاوہ خود ابن اسحٰق سے بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ میں نے جس کو بھی دعوت دی تو اس نے تامل اور تردد کیا مگر ابو بکر نے کچھ جھجک اور دیر نہ کی اورفوراً اسلام قبول کر لیا۔

حافظ ابن کثیرؒ کی سیرت نبوی کی چھٹی خصوصیت اختصار و جا معیت ہے ۔ تاریخ و سیرت نگاری کا یہ اولین اصول ہے کہ موضوع کے متعلق جس قدر کتابیں دستیاب ہوں ان کامطالعہ کیا جائے ،لیکن ان میں سے صرف وہی واقعات اخذ کئے جائیں جو معیار تحقیق پر پورے اتریں ،بلا ضرورت نقل حر فی سے کام نہیں لینا چاہئے ۔ سیرت نبوی کی تشکیل کے وقت حافظ ابن کثیر ؒ نے یہی اصول سامنے رکھا ہے۔ انھوں نے اپنے مصادر سیرت میں سے کسی کو بھی آنکھ بند کرکے قبول یا رد نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے ہمیشہ حتی المقدور مسلسل اور مربوط سیرت نگاری کا لحاظ رکھتے ہوئے ان سے معلومات حاصل کی ہیں اور بوقت ضرورت ان پر گرفت بھی کی ہے۔ ایک واقعہ کے متعلق تمام روایات اپنے سامنے رکھ کر اختصار و تلخیص ، حذف واضافہ،تقدیم و تاخیر سے کام لیتے ہوئے تکرار سے حتی لامکان گریز کیا ہے لیکن جب کسی روایت میں کوئی خاص بات مقصود ہو وہاں روایت کو مکرر ذکر فرماتے ہیں۔

حافظ ابن کثیر کی سیرت نبوی کی ساتویں خصوصیت بیان نوع الحدیث ہے۔آ پ سند و متن دونوں کی تحقیق کرکے حدیث کی صفت ، صحیح ، حسن ،غریب، منکر، موقوف ، مرسل وغیرہ کہہ کر حدىث کى نوعىت کو ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً آپ نے شمائل نبوی کے ذکر میں حافظ ابو یعلیٰ الموصلی کے واسطے سے اس سند سے حدیث نقل کی ہے۔ حدثنا بسر، حدثنا جليس بن غا لب، حدثنا سفيان الثوری ، عن ابی الزناد، عن الاعرج ،عن ابي هريرة (الحديث)( 38)۔اس کو نقل کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں :هذا حديث غريب جداً ( یہ حدیث انتہائی غریب ہے)۔اسی طرح یہ روایت"قال الحافظ ابن عساكر قال أخبرنا أبو محمد عن طاؤس أخبرنا عاصم بن الحسن أخبرنا أبو عمروبن مهدى أخبرنا أبو العباس ابن عقدة، حدثنا أحمد بن يحي الصوفي حدثنا عبد الرحمن بن شريك، حدثني أبى عن عروة بن عبد الله بن قشير قال دخلت على فاطمه بنت علي، (الحديث)(39)۔ حافظ ابن کثیر اس کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔"هذا حديبث منكر وفيه غير واحد من مجاهيل" (یہ روایت منکر ہے کیونکہ اس میں متعدد مجہول راوی ہیں)۔ مشہور محدث ابن شاہین کا بیان ہے کہ یہ روایت ابن عقدہ کا ہے جو کہ خود روایات گھڑتاتھا ، انتہائی سخت رافضی تھا اور صحابہ کرام پر نکتہ چینی کرتا تھا (40)۔ اسی طرح معجزات کے بیان میں امام احمد سے اس سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔"حدثنا امام احمد، حدثنا يحى بن حماد، حدثنا أبو عوانه عن الاسود بن قيس عن نبيح العزي أن جابر بن عبد الله قال (الحديث) (41)۔

اس کو نقل کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں"هذا اسناد جيد تفرد به أحمد"(اس حدیث کی سند درست ہے مگر اس میں امام احمد متفرد ہیں)۔ اسی طرح ایک حدیث کی اگر کئی اسناد ہوں تو آپ وہ بھی بیان کرتے ہیں ،نیز متن حدیث میں اگر رواۃ کا اختلاف ہو تو اس کی بھی نشاندہی کرتے ہیں ۔

حا فظ ابن کثیرؒ کی سیرت نبوی کی آٹھویں خصوصیت جمع و تطبیق بین الروایات ہے ۔حافظ ابن کثیر نے گہرے تفکر و تدبر اور تحقیق و جستجو کے بعد البدایہ والنھایہ میں بہت سی متعارض و متناقض روایات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے درمیان مطابقت پیدا کی ہے۔ متضاد روایات کی نشاندہی اور ان کے درمیان مطابقت پیدا کرنا مؤلف کی دقت نظر اور بصیرت پر دال ہے۔یہ علم حدیث کا نہایت اہم فن ہے اور اس فن کا مقصد یہ ہے کہ دو بظاہر متضاد المعنی احادیث میں جمع و توفیق کی کوشش کی جائے یا ایک کو راجح اور دوسری کو مرجوح قرار دیا جائے ۔مثلاً صحیحین کی روایت جو جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ رسول اللہؐ پر پہلے وحی سورۃ المدثر کی ابتدائی آیتیں"يأيها المدثر سے والرجز فاهجر تک نازل ہوئی تھی(۴۲) اس کے بر عکس دیگر مشہور روایتوں میں سورۃ علق کی ابتدائی چار آیتوں کا ذکر ہے(43)۔ حافظ ابن کثیر ان متضاد روایات میں تطبیق کرکے فرماتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ کی متفق علیہ روایت فترة وحی یعنی بندش وحی کے بارے میں ہے،یہ مطلقاً پہلی وحی نہ تھی بلکہ وحی کی بندش کے بعد پہلے نازل ہونے والی سورت، سورۃ مدثر تھی(44)۔

حافظ ابن کثیرؒ کی سیرت نبوی کی نویں خصوصیت یہ ہے کہ آپ سیرت نگاری کے ساتھ ضمناً بعض اوقات حسب موقع دلچسپ معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔ تفسیر و حدیث ،ناسخ و منسوخ ،فقہ، کلام، اشعار و قصائد اور دیگر مختلف علوم و فنون پر سابق مؤلفین کے جمع کئے ہوئے لا متناہی مواد کو سمونے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً غزوہ بنو نظیر کے واقعات کے ذکر میں شراب کی حرمت کا ذکر (45) ،غزوہ بنو لحیان بمقام عسفان میں نماز خوف کا بیان (46)،غزوہ خندق کے ضمن میں صلوٰۃ الوسطیٰ کی تعیین اور عین لڑائی کے دوران اگر نماز کا وقت ہو جا ئے تو نماز ادا کرنے یا مؤخر کرنے کے بارے میں آئمہ کرام کے مختلف اقوال بھی غزوہ خندق کے واقعات کے ضمن میں بیان کئے ہیں(47)۔ غزوہ خندق اور غزوہ بنو قریظہ کی تفصیلات ذکر کرنے کے بعد آپ نے ان دونوں غزوات کے بارے میں مختلف شعراء کے قصائد اور اشعار نقل کئے ہیں(48)۔غزوہ خیبر کے بیان میں گدھے کے گوشت کے حرام ہونے پر جمہور سلف کا اجماع نقل کرنے کے ساتھ بعض ان علماء کی آراء کو بھی ذکر کیا ہے جو کہ اس کے مباح ہونے کے قائل ہیں ۔اس کے بعد گھوڑے کا گو شت کھانے میں رخصت یا کراہت اور کچے لہسن کے کھانے کی حرمت یا کراہت کا ذکر کیا ہے(49)۔اس کے ساتھ نکا ح متعہ کی حرمت یا اباحت کے بارے میں تفصیلاً ذکر کیا ہے(50)۔ ہجرت کے دسویں سال کے واقعات میں دور دراز تک مبلغین اسلام کا بھیجنا بھی ذکر کىا ہے، اسى طرح کافر بھائی کی وراثت کا مسئلہ اور اس بارے میں مجتہدین کرام کا اختلاف بمع ادلہ ذکر فرماتے ہیں(51)۔ حا فظ ابن کثیر ؒ کے اس طریقہ کار سے اسلام کی مرحلہ وار تشریعی تشکیل کے بارے میں قارئین کو اہم معلومات مل سکتی ہیں۔

حافظ ابن کثیر کی سیرت نبوی کی دسویں خصوصیت یہ ہے کہ سیرت نبوی کے واقعات و حالات کا تذکرہ سن وار ہے ۔ سال بہ سال حالات و حوادث،غزوات اور اہم شخصیتوں کے حالات جیسے جیسے پیش آتے گئے ،بیان کئے گئے ہیں، جس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک واقعہ سے متعلق تمام مواد ایک جگہ مل جاتے ہیں۔

یہ تو ان پہلوؤں کا بیان تھا جن کو البدایہ والنہایہ کے محاسن کے فہرست میں شامل کیا جا سکتاہے لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ البداية والنهاية میں کثرت سے ضعیف روایات در آئی ہیں جن میں سے بعض تو ایسی ہیں جن پر خود حافظ ابن کثیر ؒ نے گرفت کی ہے لیکن بعض ایسی روایات بھی ہیں جن پر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی ہے ،اس قسم کی روایتیں البداية والنهاية میں جا بجا ملتی ہیں،مثلاً رسول اللہ ؐ کے نسب مبارک کے بیان میں آپ نے سولہ روایات باقاعدہ سند کے ساتھ ذکر کی ہیں جن میں سے سات روایات قوی اور نو روایات مجروح ہیں۔ ان مجروح روایات میں سے چھ روایتوں پر آپ نے خود جرح کی ہے جبکہ تین روایات ایسی ہیں جن پر آپ نے سکوت اختیار فرمایا ہے۔وہ ضعیف روایات جن پر آپ نے سکوت اختیار فرمایا ہے درج ذیل ہیں:

"1. رواه البيهقى عن الأصم عن محمد بن اسحاق الصنعانى عن يحى بن أبى بكير عبد الغفار بن القاسم عن جعفر بن محمد عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن الله أخرجنى من النكاح ولم يخرجنى من السفاح" (52)۔

امام بیہقی نےاصم سے روایت نقل کی ہے،انھوں نے محمد بن اسحٰق الصّنعانی سے،انھوں نے یحییٰ بن ابی بکیر سے،انھوں نے عبدالغفار بن القاسم سے انھوں نے جعفر بن محمد سے،انہوں نے اپنے والد سے بیان کیا کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرا ظہور نکاح سے کیا ہے زنا سے نہىں)۔

اس حدیث کی سند میں ضعیف راوی عبدالغفار بن القاسم ہیں۔ان کی کنیت ابو مریم الانصاری ہے۔حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ نہیں بلکہ رافضی ہیں۔امام علی بن المدینی جو فن رجال میں امام بخاری،ابو داوَد اور امام نسائی کے استاذ ہیں فرماتے ہیں یہ شیعیوں کے رئیس(مجتہد)تھے،احادیث وضع کرتے تھے۔ یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ یہ کچھ نہیں ۔امام بخاری کہتے ہیں یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں۔امام شعبہ کا بیان ہے کہ میں نے ابو مریم کی ایک بات پر سماک الحنفی کو یہ الفاظ کہتے سنا ہے، "اللہ کی قسم تو جھوٹ بولتا ہے"۔ عبدالواحد بن زیاد کا بیان ہے کہ ابو مریم نے ایک روز لوگوں کے سامنے قرآن کی ایک آیت کی تفسیر کرتے ہوےَیہ دعویٰ کیا کہ رسول اللہؐ اپنی امت کے اعمال دیکھنے کے لیےدنیا میں تشریف لائیں گے،میں نے اس سے کہا تو جھوٹ بولتا ہے۔تو وہ ڈھیٹ بن کر بولا کہ تو مجھے جھٹلاتا ہے۔ابو داؤد طیالسی کا بیان ہے کہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابو مریم جھوٹے ہیں،میں ان سے ملا ہوں اور میں نے اس کی باتیں سنی ہیں اس کا نام عبد الغفار بن قاسم ہے۔امام احمد بن حنبل کا بیان ہےکہ ہم ابو عبیدہ سے احادیث سننے جایا کرتے تھے لیکن جب کبھی ابو مریم کی روایات بیان کرنا چاہتے تھے،تو لوگ شور مچا دیتے تھے،یعنی کوئی ان کی روایات سننا نہیں چاہتا تھا،نیز امام احمد یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ حضر ت عثمان کی برائیوں میں روایات بیان کیا کرتا تھا ۔ابو حاتم اور امام نسائی کہتےہیں یہ متروک الحدیث ہے۔عفان نے بھی اس کی روایات قبول نہیں کیں(53)۔امام شعبہ نےاس سے ابتداء میں روایات سنی تھیں لیکن جب ان پر اس کا جھوٹ کھلا تو انہوں نے اس سے روایات لینا چھوڑ دیا۔ابن عدی فرماتے ہیں کہ یہ احادیث وضع کیا کرتے تھے(54)۔

2.رواه ابن عساكر من حديث أبى عاصم عن شبيب عن عكرمه عن ابن عباس فى قوله تعالى وتقلبك فى الساجدين.(55). قال من نبى إلى نبى حتي خرج نبيا(56)۔ (ابن عساکر نے ابی عاصم سے روایت نقل کی ہے۔انہوں نے شبیب سے،انہوں نے عکرمہ سے،انہوں نے ابن عباس سے،کہ ابن عباس وتقلبك فى الساجدين کی تفسیر میں بیان کرتے تھے کہ آپﷺ آغاز دنیا سے نبیوں کی نسل میں چلے آئے حتی کہ آپ نبی پیدا ہوئے)۔اس حدیث کی سند میں شبیب بن بشر مجروح راوی ہے۔ مشہور محدث ابن معین نے کہا ہےکہ وہ ثقہ ہیں لیکن ابی عاصم کے علاوہ اور کسی نے ان سے روایات نہیں لیں۔ابو حاتم کہتے ہیں کہ وہ حدیث میں نرم تھے۔ابن حبان نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے لیکن کہاہے کہ وہ اکثر غلطي كرتےتھے(57)۔

3. وروى الحاكم والبيهقى من حديث موسی بن عبيدة، حدثنا عمر بن عبد الله نوفل عن الزهرى عن أبى أسامة أو أبى سلمة عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لى جبريل قلبت الأرض من مشارقها ومغاربها فلم أجد رجلاً أفضل من محمد وقلبت الأرض مشارقها ومغاربها فلم أجد أفضل من بن هاشم (58)۔ (امام حاکم اور امام بیہقی نے موسیٰ بن عبیدہ سے نقل کیا ہے کہ انہیں حدیث بیان کی عمر بن عبداللہ بن نوفل نے،انہیں امام زہری نے، انہیں ابی اسامہ یاابی سلمہ نے،انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جبریلؑ نے کہا کہ میں نے روئے زمین کو مشرق تا مغرب چھان مارا لیکن محمدﷺ سے افضل کسی کو نہ پایا اور میں نے دنیا کا مشرق و مغرب خوب ٹٹولا،بنی ھاشم سے کسی کو بہتر نہ پایا)۔اس حدیث کی سند میں موسیٰ بن عبیدہ الربذی ضعیف راوی ہے ان کے بارے میں حافظ یوسف المزی نے محدثین کے یہ اقوال نقل کئے ہیں:محمد بن اسماعیل الصائغ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا ہے جو کہہ رہے تھے کہ جائز نہیں کہ موسیٰ بن عبیدۃ الربذی سے روایت نقل کی جائے۔ابو ذرعہ نے کہا ہے کہ حدیث میں قوی نہیں تھے۔ابو حاتم کہتے ہیں کہ وہ منکر روایتیں بیان کرتے تھے۔امام ترمذی نے کہا ہے کہ وہ حدیث میں انتہائی ضعیف تھے۔امام نسائی نے کہا ہے کہ وہ ثقہ نہیں تھے۔محمد بن سعد نے کہا ہے کہ وہ ثقہ اور کثیر الحدیث تھے لیکن حجت نہیں تھے۔یعقوب بن شیبہ نےکہا ہے کہ وہ سچے تھے لیکن حدیث میں انتہائی ضعیف تھے۔بہت سے لوگ ان سےحدیث میں خلط ملط ہونے کی وجہ سے روایات نقل نہیں کیا کرتے تھے(59)۔

اس پوری علمی بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ البدایہ والنھایہ میں سیرت کے بارے میں ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے ۔اس کتاب میں سیرت کے واقعات مربوط طریقے سے تحریر کئے گئے ہیں ،جن کے اندراج کیلئے ان کی صحت کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے۔کتاب کے منتخب مندرجات سے تاہم اس بات کا اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس علمی کام میں ضعیف روایات سے کلی طور پر گریز نہیں کیاگیا،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں اور اس سے کتاب کی افادیت پر کو ئی حرف نہیں آتاحافظ ابن کثیر نے سیرت نگاری میں جس تحقیقی منہج کو اختیار کیا ہے اس کو مختصرًا درج ذیل نکات کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے:

1:محدثین اور اہل سیر کی روایات کا حسین امتزاج۔

2:ضعیف روایت پر نقد و جرح۔

3: متعارض و متناقض روایات میں جمع و تطبیق۔

4:صحیح روایات کی روشنی میں واقعات سیرت کو بیان کرنا ۔

5:روایات و درایت کے اصولوں کے مطابق واقعات سیرت پر نقد و جرح۔

6:شواہد حدیث(حدیث کی تقویت دوسری حدیث سے)۔

7:بیان نوع الحدیث۔

8:اختصار و جامعیت۔

9:روایات میں ابہام کا ازالہ۔


حواشی وحوالہ جات

1۔ البدایۃ والنھایۃ،ج2،ص120 تا ج4،ص722 میں سیرت نبوی کے بارے میں معلومات یکجا کی گئی ہیں.

2۔ القرآن ،سورۃ الانعام:124

3۔القرآن ،سورۃ الانعام،122

4۔ البدایۃ والنھایہ،ج2،ص333۔

5۔ ابن جریر الطبری، تاریخ طبری،ج1،ص 301-302

6۔محمد بن اسماعیل بخاری،الجامع الصحیح، ذکر بدء الوحی الی ٰرسول اللہﷺ،ج1،ص3

7۔ایضاً،باب ذکر بدء الوحی الی رسول اللہﷺ،ج1،ص5

8۔البدایۃ والنھایۃ،ج2،ص335

9۔ایضاً

10۔البیہقی ،احمد بن حسین،دلائل النبوۃ، ج2،ص132

11۔ابن ھشام،عبدالملک بن ھشسام،الحمیری،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،ج1،ص251

12۔البدایۃ والنھایۃ،ج2،ص335۔338

13۔امام ترمذی،محمد بن عیسیٰ،سنن الترمذی،کتاب الرؤیا،باب ماجاء فی رؤیا النبی المیزان والدلوا،ج4،ص540

14۔البدایۃ والنھایۃ ،ج2،ص342

15۔ابن عساکر،علی بن حسین،تاریخ دمشق،ج2،ص274

16۔البیہقی،احمد بن حسین ،دلائل النبوۃ ،باب اول سورۃ نزلت من القرآن،ج2،ص158

17۔ابن ھشام۔السیرۃ النبویۃ لا بن ھشام،ج2،ص34۔44

18۔ ام المئومنین عائشہ صدیقہ، عبداللہ بن مسعود اور ان کے پیروکار اس طرف گئے ہیں کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺکوظاہری آنکھوں سے دیدار خداوندی نہیں ہوئی ۔ تاہم عبد اللہ بن عباس اور دىگر صحابہؓ کى آراء اس کے برعکس ہىں۔

19۔البدایۃ والنھایۃ ،ج2،ص477۔478

20۔ امام بخاری الجامع الصحیح بخاری ،باب المعراج ،ج5،ص146

21۔ابن ھشام ،السیر ۃ النبویۃ لابن ھشام،ج2،ص8

22۔البیہقی،دلائل النبوۃ،باب ذکر عقبۃ الثانیۃ،ج2،ص442

23۔ابن کثیر البدایۃ والنھایۃ،ج2،ص537

24۔ایضاً

25۔ایضاً۔ج2،ص539

26۔ایضاً،ج2،ص542۔543

27۔ایضاً،ج 2،ص574

28۔امام مسلم ،الجامع الصحیح مسلم ،کتاب الایمان،باب الاسراء برسول اللہﷺ ،ج1،ص102

29۔ابن کثیر ،البدایۃ والنھایۃ،ج2،ص474

30۔ ایضاً،ج2،ص475

31۔ ایضاً ،ج2،ص477

32۔البیہقی ،دلائل النبوۃ،ج1،ص174

33۔ ابن کثیر،البدایۃ والنھایۃ،ج2،ص208

34۔ ابن ھشام ،السید ۃ النبوۃ لابن ھشام،ج 2،ص 25۔27

35۔ ابن کثیر ،البدایۃ والنھایۃ ،ج2،ص،462

36۔ ایضاً،ج 2،ص405

37۔ ایضاً، ج2،ص464۔465

38۔ایضاً،ج4،ص 394

39۔ایضاً،ج4،ص460

40۔ ایضاً

41۔ ایضاً،ج4،ص473

42۔ امام بخاری ،الجامع الصحیح بخاری،ج6،ص283۔284۔وامام مسلم،صحیح مسلم،ج1،ص99

43۔البدایۃ والنھایۃ، ج 2،ص333، و امام بخاری،الجامع الصحیح بخاری،ج1،ص3-2،کتاب بدء الوحی،بیان کیفیۃ الوحی۔

44۔ البدایۃ والنھایۃ، ج2،ص351

45۔ایضاً،ج3،ص218

46۔ایضاً ج،4،ص226

47۔ایضاً،ج3،ص260۔261

48۔ایضاً،ج3،ص286۔294

49۔ایضاً،ج3،ص366۔367

50۔ایضاً،ج3،ص،367۔369

51۔ایضاً،ج،4،ص10۔11

52۔ایضاً،ج2،ص209

53۔حافظ ذھبی،میزان الاعتدال ،ج2،ص640

54۔ابن عدی،الکامل،ج،5ص1964

55۔القرآن،

56۔ البدایۃ والنھایۃ،ج2،ص،209

57۔ابن حجر،تهذيب التهذيب،ج2،ص478

58۔ البدایۃ والنھایۃ،ج2،ص211۔212

59۔حافظ یوسف المزی،تہذیب الکمال ،ج29، ص104۔113،رقم 6280،و ابن عدی، الکامل، ج6، ص2333۔2336

مراجع و مصادر:

1۔ القرآن الکریم

2۔ ابن کثیر،عماد الدین اسمعٰیل بن کثیر،البدایۃ والنھایۃ دارلفکر بیروت،1997ء

3۔ الطبری،محمد بن جریر،تاریخ طبری،مکتبہ خیاط بیروت سن طباعت نامعلوم

4۔ البخاری،محمد بن اسمٰعیل،الجامع الصحیح بخاری،مکتبۃ الثقافۃ بیروت،سن طباعت نامعلوم

5۔البیہقی،احمد بن حسین ،دلائل النبوۃ،دارلکتب العلمیہ بیروت 1985

6۔ ابن ھشام،عبدالملک بن ھشام،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،مطبعہ مصطفیٰ البانی منشورات مصطفوی قم ایران1936

7۔ الترمذی ،محمد بن عیسیٰ ،سنن الترمذی، مطبع دار عمران بیروت سن طباعت نامعلوم

8۔ابن عساکر،علی بن حسین،تاریخ دمشق،دارالفکر بیروت 1997ء

9۔ امام مسلم،ابوالحسن مسلم بن حجاج،الجامع الصحیح مسلم ،دارالجیل بیروت،سن طباعت نامعلوم

10۔الذھبی،شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، میزان الا عتدال، مکتبہ الاثر یہ شیخوپورہ پاکستان سن طباعت نامعلوم۔

11۔ ابن عدی،عبداللہ بن عدی الجرجانی، الکامل فی ضعفاء الرجال، المکتبہ الاثریہ شیخوپورہ پاکستان سن طباعت نامعلوم

12۔ابن حجر،احمد بن علی بن حجر،تہذیب التھذیب، داراحیاء التراث العربی بیروت 1993ء

13۔المزی،جمال الدین یوسف ،تہذیب الکمال،موسستۃ الرسالہ بیروت 1992

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...