Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 36 Issue 1 of Al-Idah

بدھ مت کا تصور امن اور عصری صورت حال |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

36

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060034497_598

Pages

129-147

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/29/23

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/29

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

بدھ مت کی مذہبی و نظری تعلیمات امن وامان اور عفو و درگزرکی داعی ہیں،اس کے علاوہ ہمدردی، غمگساری،دوسروں پر رحم کرنے جیسی اخلاقی صفات کا غلبہ ہے، اس کے برعکس ظلم و جور ، قتل و غارت ، سنگدلی و بے رحمی اور کسی بھی جاندار کو اذیت میں مبتلا کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔چنانچہ اس ضمن بدھ مت کی امن پسندانہ تعلیمات اور مسیحی اخلاقیات کا موازنہ کیا جائے تو ان میں بہت سے اجزاء مشترک نظر آتے ہیں،مثلاََ دونوں مذاہب نے رہبانیت(دنیوی معاملات سے کنارہ کشی کرنا)، اور دوسروں پر رحم کرنے ،فروتنی و تذلل اور پرامن بقائے باہمی کا درس دیا ہے ۔چنانچہ گوتم بدھ اور حضرت مسیحؑ کی تعلیمات میں موجود یکسانیت کے اس عنصر کو بیان کرتے ہوئے "Thomas G. Barnes"لکھتاہے:

"Buddha (the awakened) stands for the name of Siddharta Gautama, the son of a king in nothern India. His story and his sayings, like Christ's, were put in writing long after his death, and it is impossible to separate facts from pious legends. The religion he founded has much in common with Christianity besides basic moral principles: both stress monasticism and universal compassion."(1)

’’یعنی بدھ جس کا مطلب ’بیدارہونا‘کے ہیں جسے سدارتھ گوتم (۲)کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے جو کہ شمالی ہندوستان کے ایک بادشاہ کا بیٹا تھا۔اس کی زندگی کی کہانی اور اس کی تعلیمات بڑی حد تک یسوع مسیحؑ سے مماثلت رکھتی ہیں جو کہ اس کی وفات کے کئی سال بعد تحریری صورت میں محفوظ ہوئیں،لہٰذا اصل حقائق کومن گھڑت روایات سے جدا کرنا ممکن نہیں۔گوتم بدھ نے جس مذہب کی بنیاد رکھی وہ مسیحیت سے ملتا جلتا مذہب ہے،اس کے علاوہ ان دونوں مذاہب کے بنیادی اصول وضوابط بھی بڑی حد تک ایک جیسے ہیں،دونوں مذاہب، رہبانیت (دنیوی معاملات سے کنارہ کشی) اور ہمہ گیر رحمدلی اور ہمدردی پر زور دیتے ہیں۔‘‘ 

گوتم بدھ کی تعلیمات کے مطابق جنگ کرنا تو درکنار میدان جنگ کا نظارہ کرنا یا ان سپاہیوں تک کو دیکھنے میں بھی قباحت سمجھی گئی ہے جو جنگ کیلئے مستعد کھڑے ہوں،جب کہ ان مذہبی تعلیمات کے برعکس بدھ مت کے حاملین نے جس طرح عصر حاضر میں روہنگیا(۳) کے مظلوم مسلمانو ں کو جس بہیمیت و سفاکیت کا نشانہ بنایا ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے بود ھ بھکشوؤں نے گوتم بدھ کی امن پسندانہ تعلیمات پر کہاں تک عمل کیا ؟برما کی آزادی(مارچ ۱۹۹۷) کے ساتھ ہی بودھ بھکشوؤں نے مسلمانو ں کو بدھ مت کیلئے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کی نسل کشی شروع کردی، اس کے علاوہ انھوں نے مساجد پر حملے کرنے ، گھروں کو مسمار کرنے،مسلم خواتین کی عصمت دری کرنے اور یہاں کی مسلم آبادی کو بے جا ہراساں کرنا شروع کیا، جس کے باعث ہزاروں مسلمان اپناگھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے،تشدد و دہشت گردی کے حالیہ واقعات جس کا آغاز جون ۲۰۱۲ء کو ہوا، اس میں برماکا مسلم اکثریتی صوبہ اراکان(اس میں آبا د مسلمان ’روہنگیا ‘سے موسوم ہیں) شدید متاثر ہو ا اور یہاں ہونے والے مظالم دیکھ کر امن پسندانہ تعلیمات کے دعویدار بودھ پیروؤں کا اصل چہرہ بے نقا ب ہواہے ۔بدھ مت کے’ تصور امن ‘کی وضاحت سے قبل لفظ ’امن‘ کی لغوی و اصطلاحی تعریف حسبِ ذیل ہے ۔ 

امن کا معنی و مفہوم

امن کا لفظ بنیادی طور پر عربی زبان سے مشتق ہے۔ مختلف لغات میں اس کے مختلف معنی و مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ ابن منظور افریقی ’امن ‘ کا معنی اس طرح بیان کرتے ہیں۔ 

الأمن : ضد الخوف (۴(

’’یعنی امن ، خوف کی ضد یا خو ف کا تضاد ہے۔‘‘ 

قرآن میں بھی ’امن ‘ کا لفظ خوف کے متبادل کے طور پرمستعمل ہوا ہے ۔چنانچہ اس ضمن میں سورۃالنور میں ارشاد ہوا:

"وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ" (۵(

’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اﷲتعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور ملک کا حاکم بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو حاکم بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناًان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناًفاسق ہیں۔‘‘

المعجم الوسیط میں ’امن ‘کا مفہوم حسب ذیل لکھا گیا ہے ۔ 

أمن: اطمأن و لم یخف، والبلد۔ اطمأن فيه أهله۔(۶(’’امن سے مراد اطمینان ہے جس میں خوف و ہراس نہ ہو اور امن اس بستی کیلئے بھی بولا جاتا ہے جس کے رہنے والے سکون و اطمینان سے رہتے ہو۔‘‘سورۃ البقرۃ میں ’امن‘ کا لفظ’ اطمینا ن‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے:

"وَإِن كُنتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُواْ كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ" (۷(

’’اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤتو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہوتو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کردے اور اﷲسے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔‘‘

"The Oxford English Dictionary"میں ’امن‘ جس کا انگریزی ترجمہ 'Peace'ہے ،اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے:

"Freedom from, or cessation of, war or hostilities; that condition of a nation or community in which it is not at war with another."(8)

’’امن سے مراد ہے جنگ یا کسی بھی قسم کی جارحیت سے آزاد ہونا یا ایسے اقدامات کا خاتمہ کرنا جس میں عوام یا قوم ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو۔‘‘ 

بدھ مت کی نظری اور روایتی تعلیمات

گوتم بدھ کے افکار، خیالات اور ان کے مذہبی لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ بدھ مت ایک امن پسند مذہب ہے اور بدھ مت کی امن پسندانہ تعلیمات کا دائرہ کارصرف نوع انسانی تک محدود نہیں بلکہ ہر قسم کے جانداربشمول چرند، پرند، درند، اور نبات الارض تک کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔اس ضمن میں "Burtt, E. A."لکھتا ہے: 

"As the preceding selection indicates, its culminating that is, its dependably place and bliss producing quality, is love. And by love, here, Buddha meant no dependent attachment to a person or object through whom one hopes to find his longings satisfied, but and unlimited self-giving compassion flowing freely toward all creatures that live."(9)

مذکورہ عبارت میں بدھ مت کی تعلیمات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے نزدیک روئے زمیں میں بسنے والے تمام جاندار زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں اور جو بھی ان کو اس حق سے محروم کرے گا وہ ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کرتاہے یا ایسا جرم جس کی تلافی کرنا ممکن نہیں۔چنانچہ اس مذہب کے امن پسندانہ اور تحفظ جان کے نظریات کو بیان کرتے ہوئے "Edward Conze"لکھتا ہے:

"Taking life' means to murder anything that lives, It refers to the striking and killing of living beings. Anything that lives' ordinary people speak here of a 'living being', but more philosophically we speak of 'anything that has the life-force'. 'Taking life' is then the will to kill anything that one perceives as having life, to act so as to terminate the life force in it, in so far as the will finds expression in bodily action or in speech."(10)

چنانچہ ان کے مذہبی ادب میں جابجا اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ جو کسی جاندار بالخصوص انسانی جان کا خاتمہ کرتا ہے تو ایسا کرنے والا پکتیہ(کبیرہ گناہ) یعنی بڑے جرم کا مرتکب ہوتا ہے ۔پکتیہ دھما"Vinaya Text" (۱۱) کی دفعات۶۱،۶۲کے الفاظ یہ ہیں:

"(61)Whatsoever Bhikshu shall deliberately deprive any living thing of life, that is a Pakittiya. (62)Whatsoever Bhikshu shall, knowingly, drink water with living things in it, that is a Pakittiya."(12)

مذکورہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ جو بھکشوکسی جاندار کو عمداََ ہلاک کرے گاتو وہ پکتیہ جرم کا مرتکب ہوگا۔جو بھکشو ایسی جگہ سے پانی پئے گا جس میں جاندار چیزیں رہتی ہیں یعنی آبی حیات تو یہ بھی پکتیہ (بڑا گناہ) ہے۔‘‘

انسانی جان کی قدرو منزلت

انسانی جان کے تحفظ پر بدھ مت کی تعلیمات بڑی وضاحت سے بیان کی گئی ہیں جن میں کسی انسان کو ہلاک کرنا یا ارادۂ قتل سے بھی منع کیاگیا ہے یا کسی سے اس حد تک ناراض ہونا جو قتل و غارت کا باعث بنے اس کی بھی ممانعت کی گئی ہے یعنی بدھ مت نے انسانی جان کے تحفظ کے لئے ایسی حدود قائم کردی ہیں کہ کسی بھی حالت میں قتل و غارت کی نوبت نہ آئے۔چنانچہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے "Edward Conze"لکھتا ہے:

"In the case of humans the killing is the more blameworthy the more virtuous they are. Apart from that, the extent of the offence is proportionate to the intensity of the wish to kill. "(13)

بدھ مت میں چار ایسے نواہی بیان کئے گئے ہیں کہ جن سے بچنا ہر پیروکا ر کیلئے لازم و ملزوم ہے ،ان میں پہلی بات جس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے وہ یہ کہ کسی بھی جاندار کی جان نہ لی جائے بالخصوص انسانی جان کو ضائع کرنے والا گوتم بدھ کا پیرو نہیں ہو سکتا بلکہ وہ اس مذہب سے اور اس کی تعلیمات سے عاری اور ان کا منکرہے کیونکہ ایساشخص بدھ مت کی بنیادی تعلیمات سے منحرف ہو ا ہے۔ 

اس ضمن میں (Vinaya Texts)کے الفاظ کچھ یو ں ہے کہ :

"A Bhikkhu who has received the upasampada ordination, ought not intentionally to destroy the life of any being down to a worm or an ant. A Bhikkhu who intentionally kills a human being, down to procuring obortion, is no Samana and no follower of the Sakyaputta. As a great stone which is broken in two, cannot be united, thus a Bhikshu who intentionally, abstain from doing so as long as your life lasts.(14)

حشرات الارض اور نباتات کو تلف کرنے کی ممانعت

گوتم بدھ نے اپنے پیروؤں کو یہاں تک نصیحت کی کہ برسات کے دنوں میں ایسی جگہوں پر نہ جایا جائے جہاں پر حشرات الارض یا زمین میں اگنے والاسبزہ تلف ہوتا ہو لہٰذا ان دنوں میں بھکشوؤں کو گوشہ نشین رہنا چاہیے تاکہ ان کی زد میں آکر کسی کیڑے مکوڑے یا نباتات تک کوبھی نقصان نہ پہنچے۔ چنانچہ اس ضمن میں "Vinaya Texts"کی عبارت حسب ذیل ہے: 

"They crush the green herbs, they hurt vegetable life, they destroy the life of many small living things. The Sakyaputtiya Samanas go on their travels alike during winter, summer, and the rainy season, crushing the green herbs, hurting vegetable life, and destroying the life of many small things."(15)

جنگ کی ممانعت

بدھ مت کے مذکورہ نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ ایسے مذہب میں جنگ کی اجازت تو درکنار اس کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں،جب جانداروں کی جان کو اتنا تقدس دیا گیا ہے تو اس مذہب میں ایسے عمل کو شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیاہے جس میں ہزاروں ،لاکھوں جانیں تلواروں اور نیزوں کی زد میں آجائیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس مذہب میں ایک بھکشو کو اس امرکی بھی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ میدان جنگ میں قتل وغارت کا نظارہ ہی کرنے جائے یا وہاں موجود جنگی فوج کودیکھنے جائے اگر وہ ایسا کرے تو گناہ گار ٹھہرے گا۔چنانچہ پکتیہ دھما کی دفعہ ۴۸ میں اس مضمون کو اسطرح بیان کیاگیاہے کہ:

"Whatsoever Bhikkhu shall go to see an army drawn up in battle-array, except for a cause there to sufficient, that is a Pakittiya."(16)

’’جو بھکشو بلاوجہ کسی ایسی فوج کو دیکھنے جائے جو جنگ کیلئے تیار کھڑی ہو’ سوائے کسی معقو ل وجہ کے‘تو وہ پکتیہ جرم کا ارتکاب کرے گا۔‘‘

راجہ اشوک کاامن پسندانہ کردار

گوتم بدھ کی زندگی ہی میں بدھ مت کی خاصی اشاعت و توسیع ہو چکی تھی ،لیکن اس مذہب کو ہندستا ن میں اس وقت زیادہ پذیرائی ملی جب راجہ اشوک(۲۷۳ق۔م۲۳۳ق۔م) نے بدھ مت اختیار کرکے اسے سیاسی قوت عطا کی، چنانچہ اس مذہب کی ترقی اور اشاعت میں راجہ اشوک نے مرکزی کردار ادا کیااور اس کی کوششوں کے نتیجہ میں بدھ مت ہندستان میں رائج ایک مذہبی فرقہ کی حیثیت سے ترقی کرکے ایک بین الاقوامی مذہب بن گیا ۔اس ضمن میں عمادالحسن آزاد فاروقی اپنی تصنیف’’دنیا کے بڑے مذہب‘‘میں لکھتے ہیں:

’’ اشوک جو موریہ خاندان کا تیسرا بادشاہ تھا ،۲۷۳ق۔م میں تخت نشین ہوا۔وہ اپنے ابتدائی دور حکومت میں موریہ خاندان کی پرانی جنگجوئی اور توسیعِ حکومت کی پالیسی پر قائم رہا۔اپنی حکومت کے آٹھویں سال میں ایک خون ریز جنگ کے نتیجہ میں اس کا دل قتل و خون ریزی سے بیزار ہوگیا،اور وہ قلبی طمانیت کی تلاش میں مذہب کی طرف رجوع ہوا ۔کچھ عرصہ بعد اشوک نے تشدد کے خلاف اپنے رد عمل کے نتیجے میں بدھ مت مذہب اختیار کرلیاجو کہ اس وقت ہندوستان میں ایک ابھرتا ہوا مذہب تھااور اپنے اندر اہنسا(عدم تشدد) کا ایک باقاعدہ نظریہ رکھتا تھا۔‘‘(۱۷(

بدھ مت کو اختیار کر لینے کے بعد جہاں راجہ اشوک نے عمومی اعتبار سے ہندوستان کے عوام میں مذہبی اور اخلاقی اقدارو رواداری کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا،وہاں اس نے بدھ مت کی ترقی و اشاعت کے لیے بھی خصوصی اقدامات کئے ۔چنانچہ اس کی طرف سے بدھ مت کے حاملین کوبہت سی ایسی مراعا ت حاصل ہوئیں جن سے یہ محروم تھے،اشوک نے جگہ جگہ بدھ مت کی تاریخ سے وابستہ مقدس مقامات پر عمارتیں بنوائیں اور متعدد عبادت گاہیں تعمیر کروائیں۔

راجہ اشوک سے متعلق’کلیرنس ہملٹن‘ "Clarence H. Hamilton"لکھتا ہے:

"In the third B.C., the religion received a strong new impetus when Emperor Asoka became an adherent and promoted its spread, not only in India, but to other countries as well. This ruler was one of India's greatest. For Buddhist in all lands he stands as a great example of a lay disciple, of one who, although living in the midst of the world's responsibilities, yet promotes Buddha's teaching and devotes himself to good works for the sake of others. Tireless in energy, he possessed both saintly piety and practical wisdom as a monarch."(18)

بدھ مت کا غیر فطری تصورِ امن

بدھ مت نے انسانی جان بلکہ حیوانات و حشرات تک کو مارنے کی ممانعت کی ہے ،یہی اہنسائی فکر ہے جس کے باعث اس مذہب میں جنگ و جدل سے کنارہ کش رہنے کی تلقین کی گئی ہے،یعنی جنگ کرنا تو درکنار کسی بھکشو(بدھ مت کا دین دار طبقہ جو دنیوی معاملات سے الگ تھلگ رہتا ہے ) کو اس کی بھی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ میدان جنگ میں موجود سپاہیوں کو دیکھنے جائے اور جو ایسا کرے وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا،درحقیقت بدھ مت کے جنگ و قتال سے متعلق نظریات فطرت انسانی سے متصادم ہیں، کیونکہ انسانی معاشروں میں ایسی غیر فطری فکر پر کاربند رہناممکن نہیں،یہی وجہ ہے کہ بدھ مت کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے مذہب کی امن و سلامتی ، تذلل و فروتنی اور ظلم و جبر کا مقابلہ نہ کرنے کے نظریات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ماضی و حال میں جنگ و قتا ل میں عملاً حصہ لیاجس کی تفصیل سابقہ بحث میں گزر چکی ہے۔اس کے مقابلے میں اسلام کا تصور امن اعتدال و توازن اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو پرامن رہنے کی تلقین کرتا وہاں اپنے تحفظ کی خاطر تلوار اٹھانے کی بھی اجازت دی گئی ہے تاکہ ظالم کے ہاتھ روکے جائیں اور مظلوم اپنی جان و عصمت کو بچا سکے ۔چنانچہ اس ضمن میں سید مودودی لکھتے ہیں : 

’’اسلام کے نزدیک دنیامیں انسان ایک بہت بڑے مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور اس کی نجات کا راز اسی دنیا کو بہترین اسلوب سے برتنے میں مضمر ہے، اس لیے وہ انسان کو ہر اس طریق عمل کے اختیار کرنے کا حکم دیتاہے جو اس کی اور اس کے ابنائے نوع کی اخلاقی و مادی فلاح اور دنیوی زندگی کے بہترین انتظام کے لیے ضروری و مفیدہے ۔ بخلاف اس کے بودھ مذہب کی نظر میں انسان کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے اوراس کی نجات بس اسی میں ہے کہ اس دنیا او ر اس کے تمام تعلقات حتی کہ خود اپنی ذات سے بھی کنارہ کش ہو جائے۔ اس لیے وہ اس کو کسی ایسی عملی کوشش یا ذہنی دلچسپی کی اجازت نہیں دیتا جس کی بدولت دنیا کی کسی چیز سے اس کا رابطہ و تعلق قائم رہتاہو۔اب عقل سلیم خود فیصلہ کر سکتی ہے کہ آیا اسلام کا جہا د انسانیت کے لیے زیادہ مفید ہے یا بودھ مذہب کی اہنسا؟‘‘(۱۹(

اسلام کا تصور امن وسلامتی

لفظ ’اسلام‘مصدر ہے اور یہ سَلِمَ یسلم سَلَاماََ وسَلَامَۃََ سے ماخوذ ہے،اس کے معنی سلامتی ،امن اور حفاظت و امان کے ہیں۔لہٰذا کسی فرد کے اسلام لانے اور مسلمان ہو جانے کا مطلب سلامتی کے دروازے میں داخل ہو جانا ہے یہاں تک کہ لوگ اس کے شر سے محفوظ ہو جائیں۔اسلام خود بھی امن و سلامتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام کے امن و سلامتی والا دین ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دین کے لیے ’’اسلام‘‘ کا نام پسند فرمایا۔ چنانچہ اس حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ حسب ذیل ہیں: 

(إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللّهِ فَإِنَّ اللّهِ سَرِيعُ الْحِسَابِ) (۲۰(

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا۔ (وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا) (۲۱(

اسی طرح اہل ایمان کے لیے مسلمان کا لقب پسند فرمایا۔  (سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا) (۲۲(

اسلام اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے خود بھی سراپا امن و سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن وسلامتی ، محبت ، بھائی چارہ، اعتدال و توازن اور صبر وتحمل سے رہنے کا حکم دیتا ہے۔جنت کو بھی دارالسلام اسی لئے کہا گیا ہے کہ اس میں نہ کسی کی زندگی کو خطرہ ہوگا نہ کسی کی صحت کو، نہ کسی کی عزت و حرمت کو کوئی اندیشہ۔یہ خالصتاََ امن و سکون، راحت و عافیت اور مسرت وسلامتی کا گھر ہوگا جس میں کوئی خوف و حزن اور رنج و غم نہ ہوگا ۔

جیسا کہ سورۃ الانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : (لَهُمْ دَارُ السَّلاَمِ عِندَ رَبِّهِمْ (۲۳(سورۃ یونس میں ارشاد ہوا: (وَاللّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلاَمِ) (۲۴(

درحقیقت سلامتی جنت میں ہے اور اس کو سلامتی والا ٹھکانہ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ اس میں ایسی بقا ہے جس کے ساتھ فنا نہیں،ایسی عزت ہے جس کے ساتھ ذلت نہیں اور ایسی صحت ہے جس کے ساتھ بیماری نہیں۔

اسی طرح ’السلام ‘کا ایک معنی’’ سر سبزو شاداب درخت‘‘ بھی ہے ۔لسان العرب میں ابن منظور افریقی لکھتے ہیں : السّلام شجرٌ عظیمٌ وهو أبداَ أخْضَرُ۔(۲۵( یعنی یہ ایسا درخت ہے جو ہمیشہ سرسبز و شاداب رہتا ہے ،کیونکہ یہ سوکھنے ،جلنے اور جھڑنے سے محفوظ ہے۔‘‘

مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ اسلام اپنے لفظ،معنی اور عنوان کے لحاظ سے امن و سلامتی ، خیر و عافیت اور حفظ و امان کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام فساد و بگاڑ سے بچنے کا نام ہے۔اسلام میں کسی بھی قسم کی فسادانگیزی،تباہی و بربادی اور تفرقہ وانتشار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات ہر پہلو اور جہت سے انتہا پسندی و دہشت گردی کی نفی کرتی ہیں اور اس کی جگہ بھلائی، سلامتی، عافیت اور امن و امان کی ضامن ہیں اور اس کا دائرہ کا ر صرف اہل اسلام تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام بنی آدم انسان ہونے کے ناطے اسلام کے تصور امن کی رو سے سلامتی و بھلائی کے حق دارہیں بشرطیکہ وہ اسلام یا اہل اسلام کیخلاف کسی تخریبی سرگرمی میں ملوث نہ ہوں ۔ چنانچہ اس ضمن میں امام نسائی اپنی کتا ب’ السنن‘میں حضر ت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت بیان کی گئی ہے کہ :

المسلم من سلم الناس من لسانه و یده۔(۲۶( مسلما ن وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ(مسلم و غیر مسلم) محفوظ رہیں۔‘‘

حدیث مبارکہ میں مطلقاََ لفظ’’ الناس‘‘ استعمال کرکے اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ فرما دیا ہے کہ مسلمان صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جس سے بلاتفریق دین و مذ ہب ہر شخص کی جان ومال اور عزت و آبرو محفو ظ ہو۔لہذٰا جو شخص انسانیت کا احترام ملحوظ خاطر نہ رکھے اور قتل و غارت گری ، فساد انگیزی اور جبر و تشدد کا راستہ اختیار کرے وہ ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا۔

’امن‘پر مبنی تعلیمات کا موازنہ

امن و سلامتی کے حوالے سے اسلام اور بدھ مت کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو ان دونوں مذاہب کے مابین کچھ جہات میں یکسانیت نظر آئے گی اگرچہ اسلامی تعلیمات بدھ مت کے مقابلے میں فطرت انسانی کے زیادہ قریب اورعام فہم ہیں۔بدھ مت میں انسانی جان کی حرمت یہاں تک بیا ن کی گئی ہے کہ کسی انسان کی جان لینا تو درکنار ،کسی کو قتل کرنے کا ارادہ کرنا یا ایسے افعال کا مرتکب ہونا جن میں کسی کی جان جانے کا شائبہ تک پایا جائے ،ان سب سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام بھی انسانی کے تحفظ پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ کسی کی طرف آلۂ قتل سے اشارہ تک کرنے کی ممانعت کی گئی ہے ۔چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت بیان کی گئی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:

لا یشیر أحدکم الی أخيه بالسلاح، فانه لا یدري أحدکم لعل الشیطان ینزع في یده، فیقع في حفرة من النار۔ (۲۷(

’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے ، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ( قتل کرنے کے سبب)جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔‘‘

مذکورہ حدیث میں اشارہ کرنے کی ممانعت اس لئے کی گئی ہے ممکن ہے کہ وہ شخص غصے میں آجائے اور بے قابو ہو کر اس ہتھیار سے کسی کی جان لینے پر آمادہ ہو جائے جوکہ محض کسی کو ڈرانے، دھمکانے یا مذاق کی حد تک اشارہ کرنے کی نیت ہو اور بعد میں شیطان اسے قتل جیسے فعل پراکسائے ،اس لئے ایسے عمل سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔

یہی مضمون ایک اور حدیث میں اس طرح بیان ہو ا ہے:

’’من أشار الی أخيه بحدیده، فان الملائكة تلعنه حتی یدعه، وان کان أخاه لأبيه وأمه۔‘‘(۲۸(

’’جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کو ترک نہیں کرتا خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہو۔‘‘

بدھ مت نے قتل و خون ریزی کی مذمت کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو اس بارے یہ ہدایات دی ہیں کہ کسی کا قتل کبیرہ گناہ اور ایسا جرم ہے جس کی تلافی ممکن نہیں یعنی جیسے پتھردو ٹکڑے ہونے کے بعد پہلے کی حالت میں واپس نہیں آسکتا اسی طرح کسی انسانی جان کو ضائع کرنے والا کبھی بھی اس جرم سے سبکدوش نہیں ہوسکتا،لہذاایک انسان کو چاہیے کہ وہ دوسرو ں کی جا ن کی اس طرح حفاظت کرے جس طرح اپنی جا ن کی کرتاہے۔اس ضمن میں (Vinaya Texts)کی عبارت حسب ذیل ہے:

"A Bhikkhu who intentionally kills a human being, down to procuring obortion, is no Samana and no follower of the Sakyaputta. As a great stone which is broken in two, cannot be united, thus a Bhikkhu who intentionally, abstain from doing so as long as your life lasts."(29)

اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی مذکورہ الفاظ سے ملتے جلتے نظریات بیان کئے گئے ہیں یعنی کسی کا ناحق قتل کرنا ایسا جرم ہے کہ اس سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں اور یہ وہ جرم ہے جو اس کا ارتکاب کرے گا وہ ہلاک و برباد ہو جائے گا۔چنانچہ امام بخاری ؒ کی بیان کردہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ:ان من ورطات الأمورالتي لا مخرج لمن أوقع نفسه فيها سفک الدم الحرام بغیر حله۔(۳۰(’’ہلاک کرنے والے وہ امور ہیں جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کی کوئی سبیل نہ ہو،ان میں ایک بغیر کسی وجہ کے حرمت والا خون بہانا ہے۔‘‘ 

سنن نسائی میں حضرت عبداﷲبن مسعودؓ سے روایت بیان کی گئی ہے جس میں قتل و غارت گری اور خون ریزی سے متعلق رسول اﷲﷺ نے فرمایا:

أول ما یقضی بین الناس یوم القیامة في الدماء۔ (۳۱( ’’قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون ریزی کا فیصلہ سنایا جائے گا۔‘‘

بحیثیت مجموعی اسلامی تعلیمات زیادہ جامع و اکمل اوربالخصوص امن و سلامتی کے ضمن میں اعتدال و توازن کو بھی ملحوظ خاطررکھا ہے۔جبکہ اس ضمن میں بدھ مت کی تعلیمات اعتدال و توازن کے دامن کو چھوڑ کر حد سے زیادہ تذلل و فروتنی کی داعی ہیں،اور ان پر عمل پیر ا ہونا ناممکن نہیں تو بہرحال انسانی معاشروں میں ایسی افراط و تفریط پر مبنی تعلیمات سے مشکلات ضرور پیدا ہوتی ہیں۔ .

بدھ مت کے حاملین کا طرز عمل (عصری تناظر میں)

مذکورہ بحث میں بدھ مت کی امن پسندانہ تعلیمات بیان کی گئی ہیں،جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مذہب میں کسی بھی جاندار کو ہلاک کرنے یہاں تک کہ نباتات کو بھی تلف کرنے سے منع کیاگیاہے،لیکن اس مذہب کے حاملین نے ان ہدایات و احکامات کو پس پشت ڈالتے ہوئے تاریخ کے مختلف ادوار میں قتل و غارت گری اورانسانیت سوز مظالم کی لاتعدادداستانیں رقم کیں۔دور حاضر میں بدھ بھکشوؤں کی دہشت گردی اور تشدد پسندانہ ذہنیت اس وقت سامنے آئی جب برما کے صوبے اراکان میں مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا۔

اراکان(روہنگیا)میں بودھ بھکشوؤں کی دہشت گردی

عالمی نقشے پر برما(میانمار)کی جنوب مغربی ریاست اراکان(روہنگیا)۱۷۸۴ء تک ایک آزاد مسلم سلطنت تھی۔۱۹۸۰ء کے عشرے میں اسے راخائن یا اراکان کا نام دے دیاگیا۔برطانوی دور حکومت میں اس کا رقبہ ۲۰ہزار مربع میل تھا جو اب کم ہو کر ۱۴۲۰۰مربع میل رہ چکا ہے ۔بنگلہ دیش کے ساتھ اس کی ۱۷۶ میل لمبی سرحد ملتی ہے۔۷۰فیصد زمین پہاڑوں اور جنگلات پر مشتمل ہے۔برما کی ۶کروڑ آبادی میں ۸۵ لاکھ کے قریب مسلمان ہیں،جبکہ یہاں کی آبادی کی اکثریت بدھ مذہب سے وابستہ ہے۔ "Encyclopedia Britannica" میں اراکان کے محل وقوع کو حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:

"Arakan, coastal geographic region in southern Myanmar (Burma). It comprises a long, narrow strip of land along the eastern coast of the Bay of Bengal and stretches from the Naf estuary on the border of the Chittagong Hills (in Bangladesh) in the north to the Gwa River in the south. The Arakan region is about 400 miles (640 km) long from north to south and is about 90 miles (145 km) wide at its broadest."(32)

برما کے صوبے اراکان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جن کو موبائل فون تک استعمال کرنے پر فوجی حکومت کی جانب سے پابندی ہے۔ ۳جون ۲۰۱۲ ء میں برماکے دارالحکومت رنگون میں گیارہ مسلمانوں کو بس سے اتار کر بودھ بھکشوؤں نے شہید کیا۔ اس اندوہناک اقدامِ قتل کا بہانہ یہ تراشا گیا کہ انھوں نے ایک بدھ خاتون کی عصمت دری کی ہے۔اسی واقعہ کو بنیاد بنا کر بدھ بھکشوؤں نے یہاں کے افراد (جن کی اکثریت بدھ مت کی پیروکار ہے) کو مسلم اقلیت کے خلاف بھڑکانہ شروع کیا اور اس طرح قتل و غارت گری کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو اب تک ختم نہیں ہوا۔ مسلم اکثریت کے جائے مسکن اراکان(روہنگیا) میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی ،احتجاج کی اس تحریک کو کچلنے کیلئے برمی فوج نے سفاکیت و بے رحمی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ہزاروں مسلمان مظاہرین کو شہید اور زخمی کردیا۔اراکان کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے جب یہاں کے مسلمانو ں نے پناہ لینے کی غرض سے ادھر کا رخ کیا تو بھارت نواز بنگالی حکومت نے ان خستہ حالوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا ، چنانچہ اعداد وشمار کے مطابق مختلف واقعات میں۲ ہزار برمی مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔۳۰۰ بستیاں جلا کر خاکستر کردی گئیں اور ہزاروں مسلم نوجوان تاحال لاپتہ ہیں۔اس ضمن میں "Humanitarian Aid Foundation" كي رپورٹ ملاحظہ ہو:

"More than 300 Muslim villages, Mosques and madrasahs were set on fire on grounds that they were sheltering the criminals. Mosques were besieged by Buddhist fanatics. According to independent human rights organizations, around 1,000 people have been killed and thousands of Muslims have been forced out of their homes and villages and into forests since violence erupted in June. Some Muslims set out with boats into Naf River and the Indian Ocean to reach Bangladesh, but hundreds were drowned to death when the Bangladeshi government denied them entry into the country. It has been reported that some of the wounded have secretly crossed into Bangladesh with their own means to receive treatment. A large number of Arakanese with critical condition have been left to die."(33)

انہی فسادات کے باعث بدھ مت کا متشدد رہنما(شن وراتھو) "Ashin Wirathu" ۲۰۰۳ء میں گرفتار ہوا مختلف مقدمات کے باعث جیل بھیج دیاگیالیکن بدھ بھکشوؤں نے اس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کئے لہذا اس کو ۲۰۱۱ء میں رہاکر دیاگیا ۔ رہا ہونے کے بعد اس نے تمام ملک میں بدھ مت کے پیروکاروں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارااور اس طرح برما میں مسلمانوں کے خلاف ایک فضا ہموار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ (وراتھو) "Wirathu"نے مسلمانوں کے خلاف جھوٹے الزامات کا سلسلہ شروع کیا اور یہ کہا کہ مسلمانوں نے بدھ مت کی عورتوں پر جنسی تشدد کیے ہیں، ان سے زبردستی شادیاں کی ہیں۔ اسی طرح اس متشدد مذہبی رہنما نے اس بات کا بھی برملا اظہار کیا کہ مسلمان کاروبار کے ذریعے اور سیاسی قوت کے ساتھ برمامیں اپنے قدم جما رہے ہیں اور اگر اسی طرح مسلمان مضبوط ہوتے گئے تو ایک وقت آئے گا کہ ہم اسی طرح یہاں سے ختم ہوجائیں گے جس طرح افغانستان اور انڈو نیشیا سے ختم کیے گئے۔ لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اپنے آپ کو مضبوط کیا جائے اور مسلمانوں کو ختم کیا جائے۔ یہی وہ نظریات تھے جن کے باعث برما میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا اور لاتعداد مسلمانوں کی املاک اور کاروبار کو شدید نقصان پہنچایا گیا،لہٰذا۲۰۱۲ء کے فسادات میں’ایشین ویراتھو‘ کا نمایاں کردار نظر آتاہے ۔چنانچہ اس کے متشدد اینٹی مسلم کردار کو یو۔ایس کے ریسرچ آرٹیکل میں اس طرح بیان کیاہے: 

"Ashin wirathu is a firmly anti-Islamic monk who was jailed in 2003 for inciting anti-Muslim violence. He was released last year as part of the broader amnesty for prisoners and admitted being at Meiktila, although insists he played a part in the violence. He urges Buddhists all over the country to boycott Muslim business and hands out stickers printed with the number '969', which symbolize elements of Buddhism.(34)

برما میں اقلیتوں کی حالت زار

بدھ مت کے حاملین کی اکثریت کا خطہ برما میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ یہاں آباد دیگر اقلیتیں بھی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہی ہیں۔برمی حکومت مختلف علاقوں میں موجود اقلیتوں کو کمزور کرنے پر تلی ہوئی ہے تا کہ بدھ ازم کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے، لیکن ان میں سب سے ظلم و ستم کا نشانہ مسلمانوں کو بنایا جاتا ہے ۔۱۹۸۲ء میں شہریت کا ایک نیا قانون منظور کی گیا جس کے تحت اراکان کے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو برمی قومیت کے حق سے محروم کردیاگیا۔اس کے علاوہ طے شدہ منصوبے کے مطابق برما میں بدھ مت کے علاوہ دیگر قوموں کی تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں، بالخصوص مسلمانوں کے مساجد اور مدارس تباہ کئے جارہے ہیں، انتہا یہ ہے کہ ان مظالم پر اگر کوئی بدھسٹ بھی آواز بلند کرتا ہے تو اس پر بھی تشدد کیا جاتا ہے جس کی واضح مثال( آنگ سان سوکیAUNG SAN SUUKY( (135)جیسی لیڈر ہے جس نے برما میں فوجی حکومت کی مخالفت کی اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی،لیکن جب جون ۲۰۱۲ء میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تو اس نے اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے، مخالفت سے بچنے اور دیگر مصلحتوں کے باعث خاموشی اختیار کی ۔آبادی کے لحاظ سے برما کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں پر معیشت کے دروازے بھی بند کئے جارہے ہیں، سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لاکھوں اراکانی مسلمان اب بھی بنگلہ دیشی کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں ،اس کے علاوہ پاکستان ،ملائیشیا اور سعودی عرب میں ہزاروں برمی مسلمانوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔ چنانچہ برمامیں موجود مسلمان اقلیت کی حالتِ زار کو"Humanitarian Aid Foundation" کی جاری کردہ رپورٹ میں حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :

"It is known that a large number of Muslims are currently jailed and are subjected to torture but their identities and exact number cannot be verified. The ongoing travel ban and curfew imposed on the Rohingya population have completely paralyzed life. Mosques, masjids, houses and villages are being set on fire and destroyed. Muslims are deprived of all public services. For instance, when they get sick they cannot go to state hospitals for treatment. Muslims are not allowed into higher education institutions. Muslims are forbidden to work in public sector jobs. Today there is not a single Muslim civil servant in Arakan."(36) 

برمی مسلمان اورعالم اسلام

عالم اسلام نے روایتی بے حسی کا ثبوت دیتے ہوئے برماکے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی البتہ جب عالمی میڈیا میں برمی مسلمانو ں کے قتل و غارت کے واقعات کو اچھالا گیا تو اس پر عالم اسلام بالخصوص ترکی نے پہل کرتے ہوئے در بدر بھٹکتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے لیے دنیا کی توجہ ادھر مبذول کروائی ۔اقوام متحدہ کی( تنظیم برائے مہاجرین )کے ذریعے سے ترکی نے سمندر میں بھٹکتے روہنگیا مسلمانوں کی مدد اور ان کی بحالی کے لیے دس لاکھ ڈالر جاری کئے۔ترک صدر رجب طیب اردگان نے ملائیشین صدر نجیب رزاق سے گفتگو میں کہا کہ ترکی، روہنگیا مہاجرین کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ ترک نیوی کے جہاز اور ہیلی کاپڑ سمندر میں موجود روہنگیا مسلمانوں کے لیے ریسکیو آپریشن میں بھی مصروف عمل ہے ،اس کے علاوہ ترکی نے انڈونیشیا، ملائیشیا ،سعودی عرب اور پاکستان کو بھی برمی مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی طرف مائل کیا۔ترکی کے بعدپاکستان نے بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سرگرم ہوااور وزیراعظم محمد نواز شریف نے برما میں روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے حوالے سے تجاویز دینے کے لیے وفاقی کابینہ کی سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ،لہٰذا روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کا فیصلہ ہوا،پچا س لاکھ ڈالر امدادی رقم کا بھی اعلان ہوا(اس میں سعودی عرب کا تعاون بھی شامل ہے) ،جبکہ جرائم کی عالمی عدالت سے بھی رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خاں نے اس سنگین معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر اقوام متحدہ، اوآئی سی اور دیگر تنظیموں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔‘‘ (۳۷)اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں مسلمانوں پر ہونے مظالم کے خلاف قومی اسمبلی میں مذمتی قرار داد بھی پیش کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

روہنگیا کے مظلوم مسلمانو ں کے حق میں مذمتی قرارداد

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں دس(۱۰) جون ۲۰۱۵ء کو ایک مذمتی قرار داد بھاری اکثریت سے منظور کی ،اس میں میانمار کی حکومت کو روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم بند کرنے اور ان کی حق تلفی کرنے کی پرزور مذمت کی گئی ۔چنانچہ اس قرار داد کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:

"Noting with deep concern the heinous crimes being methodically committed against the Rohingya Muslims in Myanmar by the religious extremists. Observing active support and involvement of the Government of Myanmar in various prejudicial campaigns launched by numerous groups against the Rohingya Muslims. Commending the courage of the Rohingya Muslims who are bravely facing the entrenched genocidal campaigns against them. Takes note particularly of the shameless and horrific acts causing mischief to the properties, rape and abuse of women and children of the Rohingya Muslims. Expresses its deepest sympathy and condolences to the victims of these brutalities and their families. Urges all states and human rights activists, in accordance with their respective obligations and commitments under the international law, to do all the acts necessary to protect the peaceful community of the Rohingya Muslims brutally being extinguished in Myanmar. Calls upon the Government of Pakistan to fully support and provide protection to the Rohingya Muslims by pressing into service all means including emphasis on the Government of Myanmar to immediately abide by its obligations to protect the Rohingya Muslims.(38)

خلاصۂ بحث

مختصر یہ کہ بدھ مت کی مذہبی تعلیمات سے امن، سلامتی اور عفو و درگزر کا درس ملتا ہے۔ اس مذہب میں تشدد، جنگ اور قتل و غارت گری سے منع کیاگیا، اور گوتم بدھ کی’ اہنسائی فکر‘ کا دائرہ کار صرف نوعِ انسانی تک محدود نہیں بلکہ تمام جاندار بشمول نباتات تک کو تلف کرنے کی ممانعت کی گئی ہے، اور جو کوئی کسی جاندار کو اس کی زندگی سے محروم کرے گا تو وہ اس مذہب کی رو سے پکتیہ دھما (کبیرہ گناہ) کا مرتکب ہوگااور ان کے نزدیک یہ ایسا جرم ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔گوتم بدھ کی اہنسا ء میں انسانی جان کے تحفظ کی یہاں تک تاکید کی گئی ہے کہ اگر کسی کے ذہن میں بھی کسی دوسرے انسان کو قتل کرنے کا خیال یا شائبہ تک گزرے تو یہ بھی پکتیہ (بڑاجرم) تصور کیا جائے گا۔گوتم بدھ نے اپنے پیروؤں کو اس عمل کی بھی اجازت نہیں دی کہ میدان جنگ کا نظارہ کیا جائے یا ایسی فوج ہی کو دیکھا جائے جو جنگ کیلئے مستعد کھڑی ہو۔ گوتم بدھ کی امن پسند رجحانات کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ مہاتما بدھ نے جب اپنے ارد گرد وہ کچھ دیکھا ، جو نہ صرف سوہانِ روح تھا بلکہ انسانی قدروں کے بھی منافی تھا،معاشرے میں ظلم کی انتہاتھی،انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا تھا،خود غرضی اور ہوس پرستی کا دور دوراں تھا،اس نے سوچا کہ کیا زندگی اسی کا نام ہے؟ کیا انسان اسی لیے دنیا میں آیا ہے کہ دوسروں کے گلے کاٹے ،مہاتما گوتم پر اس جیسے اور کئی سوالات کی دھند چھا گئی۔ چنانچہ ان سوالات کے کہی سے بھی کوئی تسلی بخش جوابات نہ ملے تو گوتم بدھ نے محلات کی پر تعیش زندگی کو چھوڑ کرجنگل کا رخ کیا اور نروان(۳۹) حاصل کرکے وہ انسانی بستی میں واپس آیا تو امن وآشتی کا پیغام لے کر آیا ،محبت اور پیار ہی اس کی تعلیمات کا خلاصہ اور نچوڑتھااور اس کے بعد اس نے انسانو ں کے مابین باہمی اتفاق اور باہمی سلوک کے پرچار میں اپنی زندگی وقف کردی۔چنانچہ اس نے جس مذہب کی بنیا د رکھی آج وہ دنیا کا چوتھا بڑا مذہب ہے اور اس وقت دنیا میں بدھ مت کے ماننے والوں کی تعداد پینتیس کروڑکے لگ بھگ ہے ،جن میں سے چھ کروڑ برما میں آباد ہیں اور آج وہ مہاتما بدھ کے امن ، محبت، بھائی چارے اور صلح جوئی کی تعلیمات کو بھلا کر سفاکیت و بہیمیت کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں اور برما میں مقیم مسلمانوں کے خون کے پیاسے نظر آتے ہیں ۔برمامیں مسلمانوں کے قتل عام کو اقوام متحدہ نے بھی باہمی جنگ قرار دیا ہے اور حال ہی میں برمی مسلمانوں کی امداد کے لیے دنیا سے یہ کہہ کر اپیل کی ہے کہ بودھوں اور مسلمانوں کی لڑائی میں جو لوگ بے گھر ہوئے ہیں ،ان کی مدد کی جائے ، درحقیقت اقوام متحدہ کا رویہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ بنگلہ دیش کی سرحد قریب ہونے کے سبب کچھ مظلوم برمی مسلمان یہاں پناہ لینے پر مجبور ہیں،لیکن بنگلہ دیشی حکومت اور وہاں کی بحری فوج ان کو پناہ دینے اور اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے،البتہ ترکی نے سمندر میں بھٹکتے روہنگیا مسلمانوں کے لیے دس لاکھ ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے ،اس کے علاوہ ترکی کی کوششوں سے انڈونیشیا،ملائشیااور تھائی حکومت نے بھی ان مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لیے اقداما ت شروع کئے ہیں ۔مختصر یہ کہ بدھ مت کے پیروؤں کو چاہیے کہ وہ اپنی روایتی اور نظری تعلیمات پر عمل پیر ا ہوں تاکہ دنیا میں حقیقی امن قائم ہو،نیز برما کی ریاست اراکان میں موجود روہنگیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو انصاف کے تقاضے پورا کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں زیر بحث لانا چاہیے تا کہ عالمی امن کی راہ ہموار ہو۔ اس کے علاوہ عالم اسلام بالخصوص او ۔آئی۔سی اس معاملے پر غور و خوض کرے تاکہ اسلامی اخوت کا اظہار ہوسکے اور برمی مسلمانوں پر جاری ظلم و تشدد کو ختم کیا جاسکے۔

حواشی و حوالہ جات

1- Barnes, G. Thomas, Civilization - Westren and World, Canada: Little, Brown and Company, 1975, P.72

۲۔ روایات میں اختلاف ہے کہ آیا ان کا ابتدائی نام سدھارتھ تھا یا گوتم۔جدید تحقیقات کے مطابق بھی سدھارتھ مشکوک نام ہے،لیکن اس امر کے شواہدموجود ہیں کہ انہیں بچپن میں گوتم کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ سدھارتھ نام کی بجائے خطاب معلوم ہوتا ہے کیونکہ بعد از وفات گوتم بدھ کے پیرکاروں نے انہیں متعدد خطابات دئیے مثلاََ لوک ناتھ، دھم راج ، جن بھاگوا ، ساکھیہ سنہا، مہاتما اور ساکھیہ منی وغیرہ۔(مزید دیکھئے:گوتم بدھ(راج محل سے جنگل تک)، مصنف:کرشن کمار، لاہور، نگارشات پبلشرز،۲۰۰۷ء،ص:۳۲۷

۳۔ برما(میانمار) کی جنوب مغربی سرحد جو اراکان یا روہنگیاکے نام سے مشہور ہے، اراکان صوبہ کا نام ہے جبکہ روہنگیا یہاں کے بسنے والے مسلمانوں کو کہا جاتا ہے ۔اراکان کا علاقہ برما اور بنگلہ دیش کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے۔اس علاقے میں اسلام عرب تاجروں کے ذریعے آٹھویں صدی عیسوی میں پہنچا۔پندرہویں صدی عیسوی میں اراکان کے بادشاہ نارا میکھلا نے اسلام قبول کیا تو یہاں مسلم حکومت کی بنیاد پڑی۔مسلم حکومت کے قیام سے یہاں اسلام کی جڑیں مضبوط ہوئیں اور آج برما میں یہ علاقہ مسلم اکثریت کا مسکن ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے :معارف فیچر، جلد نمبر:۵،شمارہ نمبر:۱۶،کراچی،ص:ا)

۴۔ ابن منظور، محمد بن مکرم، جمال الدین ، لسان العرب،مادہ’’اَ مِنَ‘‘ ، بیروت: دار الاحیاء التراث العربی، ۱۹۹۵ء،۱۳؍۲۱

۵۔ سورۃالنور،۲۴:۵۵

۶۔ ابراہیم انیس، المعجم الوسیط،مادہ ’’اَمِنَ‘‘ ، القاہرہ: المکتبۃ العلمیۃ، ۱۳۹۲ھ،۱؍۲۸

۷۔ سورۃ البقرۃ،۲:۲۴۳

8- The Oxford English Dictionary, Oxford: Second Edition, Clarendon Press Publishers, London, Vol.XI, 1989, P.383

9- Burtt, E. A., The Teachings of the Compassionate Buddha, New York: Mentor Books, 1961, P.46.

10- Edward Conze(tr). Buddhist Scriptures, Victoria: Penguin Books,1960, P.70.

۱۱۔ ’وینایا ‘بدھ مت کے مذہبی ادب کا وہ حصہ ہے جس میں تزکیہ و اصلاح کی اہمیت پر زور دیاگیا ہے۔جبکہ بدھ مت کا مذہبی ادب ’تری پتاکا‘جو کہ گوتم کی تعلیمات پر مشتمل ہے ،اس میں ’وینایاادب‘اس مذہب کی بنیادی تعلیمات میں شامل کیا گیا ہے۔(مزید دیکھئے:دنیا کے بڑے مذہب،از:عمادالحسن آزاد فاروقی،لاہور، مکتبۂ تعمیر انسانیت،۲۰۰۲ء ،ص:۱۰۴(

12- Rhys Davids & Hermann Oldenberg(tr), Vinaya Texts, Vol.1, Oxford: The Clarendon Press,1881, P.46.

13- Edward Conze(tr). Buddhist Scriptures, Victoria:Penguin Books,1960, P.71.

14- Rhys Davids & Hermann Oldenberg(tr), Vinaya Texts, Vol.1, Oxford: The Clarendon Press,1881, PP.235-236.

15- Ibid, P.298.

16- Ibid, P.43.

۱۷۔ فاروقی،عمادالحسن،آزاد، دنیا کے بڑے مذہب،لاہور، مکتبۂ تعمیر انسانیت،۲۰۰۲ء، ص:۱۰۳۔۱۰۴

18- Hamilton, H. Clarence, Buddhism, New York: The Merrill Company, 1971, PP. 19-20. 

۱۹۔ مودودی، ابوالاعلیٰ،سید، الجہاد فی الاسلام، لاہور،ادارہ ترجمان القرآن،۲۰۱۱ء،ص:۴۰۵۔۴۰۶

۲۰۔ سورۃاٰل عمران، ۳:۱۹

۲۱۔ سورۃالمائدہ، ۵:۳

۲۲۔ سورۃالحج، ۲۲:۷۸

۲۳۔ سورۃ الانعام،۶:۱۲۷

۲۴۔ سورۃ یونس، ۱۰:۲۵

۲۵۔ ابن منظور، محمد بن مکرم، جمال الدین ، لسان العرب،مادہ’’سلم‘‘ ۱۲؍۲۹۷

۲۶۔ نسائی ،ابو عبدا لرحمن احمد بن شعیب بن علی،السنن، کتا ب الایمان و شرائعہ،باب صفۃالمؤمن ،حلب، شام: مکتب المطبوعات الاسلامیہ،۱۴۰۶ھ،رقم حدیث:۴۹۹۵

۲۷۔ مسلم ،ابوالحسین مسلم بن الحجاج نیشاپوری،الصحیح،کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النھي عن اشارۃ بالسلاح،بیروت: داراحیاء التراث العربی،۱۴۰۸ھ،رقم حدیث:۲۶۱۷

۲۸۔ ترمذی،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ضحاک،السنن، کتاب الفتن،باب ماجاء في اشارۃالمسلم الی أخیہ بالسلاح، بیروت: داراحیاء التراث العربی،۱۴۰۹ھ،رقم حدیث:۲۱۶۲

29- Rhys Davids & Hermann Oldenberg(tr), Vinaya Texts, Vol.1, Oxford: The Clarendon Press,1881, PP. 235-36.

۳۰۔ بخاری ،محمد بن اسماعیل ، صحیح البخاری، کتاب الدیات، باب ومن قتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم ، الریاض: دارالسلام للنشروالتوزیع،۱۴۲۰ھ،رقم حدیث:۶۴۷۰

۳۱۔ نسائی،ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی،السنن، کتاب تحریم الدم،باب تعظیم الدم، حلب،شام: مکتب المطبوعات الاسلامیہ،۱۴۰۶ھ،رقم حدیث:۳۹۹۴

32- The New Encyclopaedia Britannica, "Arakan State", vol.1, P.513, Chicago,1973.

33- See more detail in: Humanitarian Aid Foundation: "Arakan, July 24th, 2012.

34- See more detail: Davidicke/artical/2013/05/07/usa

۳۵۔ آنگ سان سوکی کو ۱۹۹۱ء میں ناروے کی نوبل کمیٹی نے نوبل انعام عطا کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمیٹی کی خواہش ہے کہ اس خاتون کو نوبل انعام کا اعزاز بخشا جائے جس نے دنیا کے بے شمار لوگوں کو اس وقت مدد فراہم کی جب یہ لوگ جمہوریت، انسانی حقوق اور نسلی ہم آہنگی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ مگر گزشتہ چوبیس برس سے ظلم برداشت کرتے ہوئے روہنگیا کے مسلمان شاید اس رائے سے متفق نہ ہوں جو پانچ افراد پر مشتمل کمیٹی نے ’آنگ سان سوکی ‘کے متعلق ظاہر کی تھی،کیوں کہ یہ اس وقت میانمار(برما) کی وزیر اعظم ہے اور روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے مظالم سے متعلق خاموشی اختیار کے ہوئے ہے، اس کی بڑی وجہ یہ کہ اپنی سیاسی ساکھ کو بحا ل رکھنے کے لئے اکثریت کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتی۔(ہفت روزہ ۔ تکبیر، جلد:۳۸، شمارہ:۲۴، جون ۲۰۱۵ء کراچی، ص:۳۴)

36- Reported by: Humanitarian Aid Foundation: "Arakan: A big Massacre Witnessed by the Insentive world" July, 2012.

۳۷۔ تکبیر(ہفت روزہ)،کراچی، جلد :۳۸، شمارہ:۲۴، جون ۲۰۱۵ء ص:۱۱

38- See more detail in: National Assembly Diary, Resolution of Rohingya Muslims in Myanmar, 10th June, 2015.

۳۹۔ بدھی افکار کے مطابق نروان(نجات) ہی وہ اعلیٰ ترین منزل اور مقصود ہے جسے پا کر ہر دکھ سے رہائی ممکن ہے ۔ نجات کا یہ تصور تمام مثبت کیفیات کے حصول کی ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ ناپسندیدہ اور منفی کیفیات حیات کے کلی خاتمہ کی بشارت بھی دیتا ہے۔ یہی وہ مقصد ہے جو بدھی طرز حیات میں سب سے بلند درجہ کا حامل ہے۔ نروان کے متعلق گوتم بدھ کے جو اقوال اور بعد کی تشریحات دستیاب ہیں ان کے مطابق یہ ایک ایسی حالت ہے جو عام انسانی ذہن کے احاطہ فکر میں نہیں سما سکتی ۔ چونکہ عام اذہان اس کی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیں لہٰذا اس کے متعلق بھر پور تشریح و وضاحت سے کچھ بیان کرنا بھی نا ممکن ہے۔ حصول نروان اور نئے دریافت شدہ دھرم کی تبلیغ کا عزم صمیم کرنے کے گوتم کے لئے ضروری تھا کہ عوام تک اپنا پیغام پہنچائیں ۔وہ لوگوں کو بتانا چاہتے تھے کہ نروان ہی تمام دکھوں سے چھٹکارا اور ابدی مسرت پوشیدہ ہے نیز یہی انسان کا حقیقی مطلوب ہے۔چنانچہ نروان کی وضاحت کرتے ہوئے گوتم بدھ کے مندرجہ ذیل الفاظ بدھ مت کے ماننے والوں کے لئے سند کا درجہ رکھتے ہیں: ’’پیدائش،بڑھاپا، بیماری، دکھ اور مجموعہ عیوب ہوتے ہوئے اور ان کا شکار ہوچکیں اشیاء کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے میں نے اس کی تلاش آغاز کی جو غیر مخلوق ، غیر تغیر پذیر، بے رکاوٹ ، بے غم ، بے عیب ، محفوظ اور ہر پابندی سے آزاد ہے، یعنی ’نروان‘ اور میں نے اسے پا لیا۔‘‘(تفصیل کے لئے دیکھئے:گوتم بدھ (راج محل سے جنگل تک)،مصنف:کرشن کمار،لاہور،نگارشات پبلشرز،۲۰۰۷ء،ص:۲۵۸۔۲۶۰(

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...