Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 36 Issue 1 of Al-Idah

بلڈ بینک کا قیام اور انتقال خون کے مسئلہ کا ایک تحقیقی جائزہ قرآن و سنت کی روشنی میں |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

36

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060034497_600

Pages

68-81

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/25/18

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/25

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

وضاحت

عربی زبان میں خون کو" دم " اور انگریزی میں" "BLOOD کہتےہیں۔اس کی جمع دماء اور دمی آتی ہے۔(۱)

قرآن میں دس مرتبہ اس کا ذکر آیاہے۔(۲)

انتقال خون کی شرعی حیثیت

انتقال خون کے سلسلے میں کئی قسم کے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

۱۔کیا انتقال خون جائز ہے۔؟

۲۔جواز کی صورت میں ایک وقت میں کتنا خون نکالا جا سکتا ہے۔؟

۳۔کیابلاضرورت خون کا نکالنا اور چھڑانا جائز ہے۔؟

۴۔کیانیک ،بد ،فاسق فاجر ،مسلمان اور کافر کے خون کا حکم ایک ہے۔؟

۵۔کیا انتقال خون سے کوئی حرمت جیسے مصاہرت،نسب اور رضاعت ثابت ہوتی ہے۔؟

۶۔خون کی خریدوفروخت بلاضرورت اور مع الضرورت جائز ہے ۔؟

تمہید

بطور تمہید سب سے پہلے خون کے بارے شریعت کا نقطہ نظر جاننا ضروری ہے کہ خون کی کیا حیثیت ہے؟ بذات خود خون طاہر یا نجس ہے؟حلال یا حرام ہے؟

خون کےمسئلے کی  تحقیق یہ ہے کہ خون کی کئی قسمیں ہیں۔ان تمام اقسام کامختصرذ کر مفید ہوگا۔

قسم اول: حیض کا خون

یہ اتفاقاً ناپاک ہے۔ (۳)

قسم دوم: دم مسفوح

جو کسی حیوان سے نکلتا ہے وہ حرام او ر نجس ہے ۔ (۴)

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿قُل لا أَجِدُ فى ما أوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّ‌مًا عَلىٰ طاعِمٍ يَطعَمُهُ إِلّا أَن يَكونَ مَيتَةً أَو دَمًا مَسفوحًا أَو لَحمَ خِنزيرٍ‌ فَإِنَّهُ رِ‌جسٌ أَو فِسقًا﴾ (۵)

’’آپ کہہ دیجئے کہ  جو احکام بذریعہ وحی میرے  پاس آئے ، ان  میں  تو میں  کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کیلئے جو اس کو کھائے مگر  وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو  یا خنزیر کا گوشت ہو ‘کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے ۔‘‘

قسم سوم:دم مسفوح

وہ جانور جس کا گوشت کھایا جاتا ہے ، اسے شرعی طور پر ذبح کیا گیا ہو اسکا دم مسفوح (بہنے والا خون) ۔

قسم چہارم:انسان سے بہنے والا خون

نجس اور حرام ہے۔ جیسا کہ اما م شافعیؒ نے کتاب الام میں وضاحت کی ہے۔(۶)

قسم پنجم:مچھلی کا خون

مچھلی کا خون اکثر فقہاء کرام کے نزدیک پاک ہے۔ (۷)

قسم ششم :

مکھی ،مچھر اور شہد کی مکھی اور ان جیسی چیزوں کا خون تو یہ پاک ہے ۔(۸)

قسم ہفتم

ذبح شدہ جانور کی جان نکلنے کے بعد جو  خون باقی رہتا ہے۔ت و وہ بھی پاک ہے جسطرح اس جانور کے تمام اجزاء پاک ہیں، شرعی ذبح کے ساتھ اور اسی طرح خون بھی پاک ہے جیسے دل کا خون اور تلی کا خون ۔ (۹)

قرآن مجید کی رو سے

قرآن کی روسے خون بذات خود حرام ہے ۔

سورۃالبقرۃمیں ہے۔

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْـمَ الْخِنزِيْـرِ وَمَآ اُهِلَّ بِه لِغَيْـرِ اللّـٰهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْـرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْـمَ عَلَيْهِ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ ۔(۱۰)

بىشک تم پر مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور اس چیز کو کہ اللہ کے سوا اور کے نام سے پکاری گئی ہو، حرام کیا ہے، پس جو لاچار ہو جائے نہ سرکشی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔

سورۃالمائدہ میں ہے۔

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالـدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْـرِ اللّـٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَـرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُـمْۚ وَمَا ذُبِـحَ عَلَى النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِۚ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ اَلْيَوْمَ يَئِـسَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُـمْ وَاخْشَوْنِ ۚ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِىْ مَخْمَصَةٍ غَيْـرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْـمٍ ۙ فَاِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ ۔(۱۱)

تم پر مردار اور لہو اور سور کا گوشت حرام کیا گیا ہے اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو گلا دبا کر یا چوٹ سے یا بلندی سے گر کر یا سینگ مارنے سے مر گیا ہو اور وہ جسے کسی درندے نے پھاڑ ڈالا ہو مگر جسے تم نے ذبح کر لیا ہو، اور وہ جو کسی تھان (پرستش گاہوں) پر ذبح کیا جائے اور وہ (جن کے حصے) جوئے کے تیروں سے تقسیم کرو، یہ (سب کچھ) گناہ ہے، آج تمہارے دین سے کافر نا امید ہو گئے سو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو، آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے، پھر جو کوئی بھوک سے بے تاب ہو جائے لیکن گناہ پر مائل نہ ہو تو اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔

سورۃالانعام میں ارشادہے۔

قُلْ لَّآ اَجِدُ فِىْ مَآ اُوْحِىَ اِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٝ اِلَّآ اَنْ يَّكُـوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْـمَ خِنزِيْرٍ فَاِنَّهٝ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْـرِ اللّـٰهِ بِهۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْـرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ ۔(۱۲)

کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے یا وہ ناجائز ذبیحہ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، پھر جو بھوک سے بے اختیار ہوجائے ایسی حالت میں کہ نہ بغاوت کرنے والا اور نہ حد سے گزرنے والا ہو تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔

سورۃ النحل میں ہے۔

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالـدَّمَ وَلَحْـمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْـرِ اللّـٰهِ بِهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْـرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ ۔ (۱۳)

تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت حرام کیا ہے اور وہ چیز بھی جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام سے پکاری گئی ہو، پھر جو بھوک کے مارے بے تاب ہو جائے نہ وہ باغی ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

سورۃ البقرۃ کی آیت مذکورہ میں دوسری جو چیز حرام قرار دی گئی ہے وہ خون ہے لفظ دم بمعنی خون اس آیت میں اگرچہ مطلق ہے مگر سورہ انعام کی آیت میں اس کے ساتھ مسفوح یعنی بہنے والا ہونے کی شرط ہے، (آیت) او دما مسفوحا (۱٤۵:٦) اس لئے باتفاق فقہاء خون منجمد جیسے گردہ تلی وغیرہ وہ حلال اور پاک ہیں ۔لیکن بہتا خون حرام اور ناپاک ہے۔

اس پر امام قرطبی نے اپنی  تفسیر میں علماء کا اتفاق  نقل کیا ہے(۱۴) ۔

امام نووی ؒنے شرح  المہذب میں کہا ہے :خون کی نجاست کے دلائل  ظاہر ہیں ‘اور مجھے علم نہیں کہ  مسلمانوں میں سے کسی نے اس میں اختلاف کیا  ہو ‘سوائے بعض متکلمین سے یہ حکایت کرتے ہیں کہ وہ اسے پاک کہتے ہیں (۱۵) ۔جمہور اہل اصول کا صحیح  مذہب یہی ہے ۔

ابن رشد نے بدایۃ المجتہد میں لکھا ہے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ خشکی  کے حیوان کا خون پلید ہے۔(۱۶)

جس طرح خون کا کھانا پینا حرام ہے اسی طرح اس کا خارجی استعمال بھی حرام ہے اور جس طرح تمام نجاسات کی خرید وفروخت بھی اور اس سے نفع اٹھانا حرام ہے اسی طرح خون کی خرید وفروخت بھی حرام ہے اس سے حاصل کی ہوئی آمدنی بھی حرام ہے کیونکہ الفاظ قرآنی میں مطلقا دم کو حرام فرمایا ہے جس میں اس کے استعمال کی تمام صورتیں شامل ہیں ۔

ان آیتوںمیں سور ،مرداراورخون وغیرہ کا بطور غذا استعمال درست نہیں البتہ بوقت ضرورت،بقدر ضرورت اوربحالت مجبوری کو مستثنیٰ کردیاہے۔یعنی اگرکسی کو بھوک لگی ہو اور نوبت ہلاکت تک پہنچےاور مذکورہ چیزوں کےعلاوہ اور کوئی چیزمیسر نہ ہو تو اس کو استعمال کی اجازت ہے۔

اس استثناءسےعلماءکرام نے مختلف اصول مستنبط کئے ہیں۔

انتقال خون کو سمجھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ انسانی جسم میں کئی قسم کے اعضاء اللہ تعالیٰ نے پىدا کئے ہیں ۔ کچھ اعضاء اىسے ہىں جن کے کاٹنے اور نکالنے سے انسانی جسم کو کوئی نقصان بھی نہیں بلکہ فائدہ ہوتا ہے ۔ جیسے بال اور ناخن لہذا ان کے کاٹنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات ان کا کاٹنا ضروری ہوتا ہے۔

۲۔ کچھ وہ اعضاء کہ ان کے نکالنے کے لئے کوئی آ پریشن نہیں کرنا پڑتا اور ان کے نکالنے پر بہت زیادہ نقصان بھی نہیں ہوتا ۔ اس کی مثال دودھ کی سی ہوگئی جو بدنِ انسانی سے بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے نکلتا اور دوسرے انسان کا جزء بنتا ہے اور شریعتِ اسلام نے بچہ کی ضرورت کے پیش نظر انسانی دودھ ہی کو اس کی غذا قرار دیا ہے اور ماں پر اپنے بچوں کو دودھ پلانا واجب کیا، جب تک وہ بچوں کے باپ کے نکاح میں رہے طلاق کے بعد ماں کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا بچوں کا رزق مہیا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے وہ کسی دوسری عورت سے دودھ پلوائے یا ان کی ماں ہی کو معاوضہ دے کر اس سے دودھ پلوائے قرآن کریم میں اس کی واضح تصریح موجود ہے،(آیت) فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ (۱۷)

اگر تمہاری مطلقہ بیوی تمہارے بچوں کو دودھ پلائے تو اس کو اجرت ومعاوضہ دیدو،خلاصہ یہ ہے کہ دودھ جزء انسانی ہونے کے باوجود بوجہ ضرورت اس کے استعمال کی اجازت بچوں کے لئے دی گئی ہے۔

کچھ اعضاء وہ ہیں جو دو دو ہیں ،ان میں سے ہر ایک کی دوقسمیں ہیں ایک نوع وہ ہیں کہ ایک کافی شافی ہوتا ہے اور دوسرا عضو زائد ہوا کرتا ہے ضرورت کے وقت اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے گردے ایک سے کام پورا ہوتا دوسرا گردہ فاضل ہوتا ہے لہذا بوقت ضرورت بقدر ضرورت بحالت مجبوری دوسرے انسان کو خاص شرائط کے بعدہبہ کیا جاسکتا ہے۔دوسری نوع وہ اعضاء ہیں جو دونوں سے بیک وقت کام لیا جاسکتا ہے اور ایک عضو کی صورت میں کمی اور کمزوری آتی ہے جیسے ہاتھ،آنکھیں ،کان اورپاوں وغیرہ ان اعضاء کا کسی کو ہبہ کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔رہی بات خون کی تو خون دودھ کے قبیل سے ہے کہ یہ جسم میں ضرورت سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی ایک خاص مقدار نکالنے پر جسم پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا ہے بلکہ آج کی تحقیق نے ایک خاص مقدار کے نکالنے کو صحت کے لئے مفید قرار دیا ہے اور اس کو بھی نکالنے کے لئے کوئی خاص آپریشن بھی نہیں کرنا پڑتا ہے لہذا فقہاء کرام خون ایک لحاظ سے دودھ کے مشابہ قرار دیتے ہیں۔جس طرح شریعت نے عورت کے دودھ کو جزء انسانی ہونے کے باوجود ضرورت کی بناء پر بچوں کے لئے جائز کردیا ہے اسی طرح ضرورت کی بناء پر خون دینا بھی جائز ہوگا۔رہی بات یہ کہ خون نجس یعنی ناپاک بھی ہے۔ اور نجس چیزوں کا استعمال ناجائز ہے،لیکن اضطراری حالات اور عام معالجات میں شریعتِ اسلام کی دی ہوئی سہولتوں میں غور کرنے سے امور ذیل ثابت ہوئے، اول یہ کہ خون اگرچہ جزء انسانی ہے مگر اس کو کسی دوسرے انسان کے بدن میں منتقل کرنے کے لئے اعضاء انسانی میں کانٹ چھانٹ اور آپریشن کی ضرورت پیش نہیں آتی، انجکشن کے ذریعہ خون نکالا اور دوسرے کے بدن میں ڈالا جاتا ہے ۔جیسا کہ علاج کے طور پر بڑوں کے لئے بھی دودھ کا پینا جائز ہے۔ جیسا کہ عالمگیری میں ہے، ولابأ سَ بان یسعط الرجل بلبن المرأۃ ویشرِبه للدواء (۱۸)

اس میں مضائقہ نہیں کہ دوا کے لئے کسی شخص کی ناک میں عورت کا دودھ ڈالا جائے یا پینے میں استعمال کیا جائے،اور مغنی ابن قدامہ میں اس مسئلہ کی مزید تفصیل مذکور ہے(۱۹)

اگر خون کو دودھ پر قیاس کیا جائے تو کچھ بعید از قیاس نہیں کیونکہ دودھ بھی خون کی ایک منتہی صورت ہے اور جزء انسان ہونے میں مشترک ہے فرق صرف یہ ہے کہ دودھ پاک ہے اور خون ناپاک، تو حرمت کی پہلی وجہ یعنی جزء انسانی ہونا تو یہاں وجہ ممانعت نہ رہی صرف نجاست کا معاملہ رہ گیا علاج ودواء کے معاملہ میں بعض فقہاء نے خون کے استعمال کی بھی اجازت دی ہے،اس لئے انسان کا خون دوسرے کے بدن میں منتقل کرنے کا شرعی حکم یہ معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں تو جائز نہیں مگر علاج ودواء کے طور پر اس کا استعمال اضطراری حالت میں بلاشبہ جائز ہے اضطراری حالت سے مراد یہ ہے کہ مریض کی جان کا خطرہ ہو اور کوئی دوسری دوا اس کی جان بچانے کے لئے مؤ ثر یا موجود نہ ہو اور خون دینے سے اس کی جان بچنے کا ظن غالب ہو، ان شرطوں کے ساتھ خون دینا تو اس نص قرآنی کی رو سے جائز ہے جس میں مضطر کے لئے مردار جانور کھا کر جان بچانے کی اجازت صراحۃ مذکور ہے اور اگر اضطراری حالت نہ ہو یا دوسری دوائیں بھی کام کرسکتی ہوں تو ایسی حالت میں مسئلہ مختلف فیہ ہے بعض فقہا کے نزدیک جائز ہے بعض ناجائز کہتے ہیں جس کی تفصیل کتب فقہ بحث تداوی بالمحرم میں مذکور ہے۔مزید تفصیل مفتی محمد شفیع ؒ کے تصنیف شدہ رسالہ " اعضائے انسانی کی پیوند کاری" مىں کافی تفصیل سے موجودہے۔ علاج کے طور پر نجس سے یعنی حرام کردہ چیز سے بھی علاج کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حفظان صحت کے لیے محرمات سے بھی استفادہ کیاجاسکتاہے:اللہ نے بیماری بھی پیدا کی تواس کا علاج بھی پیداکردیا۔ اور تاکید فرمائی کہ حلال چیزوں کے ذریعہ علاج کرایاجائے۔ مگر بعض وقت ایسا بھی آتاہے کہ مریض کا حلال اشیا کے ذریعہ علاج نہیں ہوپاتا۔ البتہ محرمات کے ذریعہ اس کا علاج آسانی سے ہوجاتا ہے۔ یہی حال حفاظت جان کے لیے حلال چیزیں میسر نہ ہو اور حال یہ ہوگیا ہو کہ اگراسے کھانے پینے کی اشیا نہ ملے تواس کوجان کا خطرہ ہے اوراس وقت اس کے سامنے سوائے حرام اشیا کے کچھ بھی نہیں ہے توایسی بے بسی کے عالم میں اسلام اجازت دیتاہے کہ وہ حرام چیزوں کااستعمال کرکے اپنی جان کو بچالے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا اوراس کی جان ختم ہوجاتی ہے تو اسے خودکشی قرار دی جائے گی اوراس پر خود کشی کے احکام نافذ ہوں گے۔

 ”وقد قال علماء من اضطر الٰی اکل المیتة والدم ولحم الخنزیر فلم یأکل دخل النار الا ان یعفو اللّه عنه“(۲۰)

 علامہ ابوبکر جصاص نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ مضطر کے لیے مردار کا کھانافرض ہوجاتاہے اوراضطرار ممانعت کو ختم کردیتا ہے۔ اس لیے مضطر اگر اسے نہ کھائے اوراس کی موت واقع ہوجائے تو وہ خود اپنا قاتل ہوگا اس شخص کی طرح جس کے مکان میں روٹی اور پانی ہو اور وہ کھانا پینا چھوڑ دے اورمرجائے تواللہ تعالیٰ کا نافرمان اور خودکشی کرنے والاہوگا۔

”أکل المیتة فرض علی المضطر والاضطرار یزیل الحرز ومتٰی امتنع المضطر من أکلِه حتی مات صار قاتلا لنفسِه فمنزلة من ترک أکل الخبز وشرب الماء فی حال الإمکان حتّٰی مات کان عاصیا للِّٰه جانیا علٰی نفسِه “․(۲۱)

اسی طرح فقہائے کرام نے علاج کے مسئلہ میں یہ رعایت پیش کی ہے کہ اگرحلال چیزوں کے ذریعہ علاج ممکن نہ ہو اور تحقیق سے یہ بات عیاں ہوچکی ہو کہ مریض کا علاج حرام اشیا کے ذریعہ ہوسکتا ہے توایسی صورت میں حرام چیزوں کا استعمال جائز ہوجائے گا۔(۲۲)

غیر اضطراری حالت میں خون دینے کا مسئلہ اس لیے مختلف فیہ ہے کہ اگر مریض کی جان کسی دوسری دوا سے بچ سکتی ہو تو پھر ناپاک چیز استعمال کرنے کی ضرورت کیا ہے، اسی لیے بعض فقہاء اضطراری حالت میں تو خون چڑھانے کی اجازت دیتے ہیں۔(۲۳) اس کے علاوہ کی صورت میں اجازت نہیں دیتے، لیکن اکثر فقہاء نے درج ذیل دو صورتوں میں بھی اجازت دی ہے۔ (۱) جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ نہ ہو لیکن اس کی رائے میں خون دئے بغیر صحت کا امکان نہ ہو تب بھی خون دینا جائز ہے (۲) جب خون نہ دینے کی صورت میں ماہر ڈاکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا اندیشہ ہو، اس صورت میں خون دینے کی گنجائش ہے مگر اجتناب بہتر ہے، کما فی الْهندْیةَ:  وان قال الطبیب یتعجل شفاء ک فیه وجهان(۲۴)

جو حضرات حرام اشیاء سے تداوی کے قائل ہیں وہ واقعۂ عرینہ سے استدلال کرتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب عرینہ کو اونٹ کا پیشاب پینے کی اجازت دی تھی

عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : " قَدِمَ أُنَاسٌ مِنْ عُكْلٍ أَوْ عُرَيْنَةَ فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ ، فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلِقَاحٍ ، وَأَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا ، فَانْطَلَقُوا ، فَلَمَّا صَحُّوا قَتَلُوا رَاعِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ ، فَجَاءَ الْخَبَرُ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ، فَلَمَّا ارْتَفَعَ النَّهَارُ جِيءَ بِهِمْ ، فَأَمَرَ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسُمِرَتْ أَعْيُنُهُمْ وَأُلْقُوا فِي الْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ فَلَا يُسْقَوْنَ ، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ : فَهَؤُلَاءِ سَرَقُوا وَقَتَلُوا وَكَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ۔  (۲۵)

اسی طرح حدیث کی کتابوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ ایک صحابی حضرت عرفجہؓ کی ناک سڑ گئی تھی۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت مرحمت فرمائی کی کہ وہ سونے کی ناک لگوالیں ، حالانکہ سونا مردوں کے لیے حرام ہے،ـ(۲۶)

اب اس وضاحت کے بعد کہ دوا کے بہ طور خون چڑھانا جائز ہے یہ سوال اپنی جگہ باقی رہ جاتاہے کہ کیا خون کا عطیہ دینا بھی جائز ہے یااسے بھی انسانی جسم کے دوسرے اعضاء پر قیاس کیا جائے گا جن کا دینا جائز نہیں ہے۔ اس سے مربوط ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی کا خون عطیہ میں نہ ملے تو اسے خریدنے کی اجازت ہے یانہیں اور یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب خون کا خریدنا جائز ہے تو اس کا فروخت کرنا بھی جائز ہے یانہیں؟

جہاں تک اس آخری سوال کا تعلق ہے تو یہ بات بالکل طے شدہ ہے کہ خون کی فروخت قطعًا جائز نہیں ہے، کیوں کہ حدیث شریف میں خون کی فروخت سے صراحتًا منع فرمایاگیا ہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ جو چیزیں نجس العین ہوتی ہیں ان کی بیع جائز نہیں ہے۔ البتہ ضرورۃً ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتاہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص خون فروخت کرتاہے تو بیچنے والے کے لیے اس کی قیمت سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ۔(۲۷) یہ تو خون کی فروخت کا معاملہ ہوا، لیکن اس سلسلے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر بلا قیمت خون نہ ملے تو قیمت دے کر خریدنا جائز ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ نے لکھا ہے ’’ خون کی بیع تو جائز نہیں لیکن جن شرائط کے ساتھ مریض کو خون دینا جائز قرار دیاگیا ہے ان حالا ت میں اگر کسی کو خون بلا قیمت نہ ملے تو اس کے لیے قیمت دے کر خون حاصل کرنا بھی جائز ہے(۲۸) اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ کسی مریض کو خون دیدیا جائے، بشر طیکہ کوئی ماہر ڈاکٹر یہ رائے ظاہر کرے کہ اگر مریض کو خون نہ دیا گیا تو مریض کی جان بچنی مشکل ہے یا وہ یہ کہے کہ اگر چہ مریض کی ہلاکت کا فوری خطرہ نہیں ہے مگر خون دئیے بغیر صحت کا امکان نہیں ہے ۔

کىا انتقال خون سے حرمت نسب ثابت ہوتی ہے؟

انتقال خون سے حرمت نسب ثابت نہیں ہوتی ہے۔اور اگر میاں بیوی ایک دوسرے کو خون دے تو ان کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پرتا ۔(۲۹)

کیا فاسق و فاجر انسان کا خون لینا جائز ہے؟

اگر خون کی شدید ضرورت ہے یعنی کسی مریض کی ہلاکت کا خطرہ ہے اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں اس کی جان بچنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہ ہو، یا ہلاکت کا خطرہ تو نہیں لیکن ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر صحت کا امکان نہ ہو تو دوسرے کے خون کا استعمال کرنے کی مذکورہ بالا تمام صورتیں جائز ہیں، البتہ کافر یا فاسق وفاجر انسان کے خون میں جو اثرات ہیں ان کے منتقل ہونے اور اخلاق پر اثر انداز ہونے کا خطرہ قوی ہے، اس لیے نیک اور صالح انسان کو کافر وفاسق انسان کے خون سے حتی الوسع احتراز کرنا چاہیے۔(۳۰)

کیا خون کی خرید وفروخت جائز ہے؟

خون چونکہ ایک نجس اور حرام چیز ہے لہذا عام حالات میں ان کا استعمال حرام ہے اسی طرح اس کی کسی قسم کی خرید و فروخت بھی ممنوع ہوگا البتہ بوقت ضرورت اگر مفت میں نہیں مل رہا اور ضرورت بھی پوری نہ ہو رہی ہو تو مجبورا خرید ناجائز ہوگا۔

اور علامہ شامی ؒ( جن کی ایک عبارت سے جوازِ انتفاع اور بیع کے جواز میں تلازم کاگمان ہوتا ہے ) نے بھی یہ جزئیہ ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ بھی متعدد جزئیات اس بارے میں ملتے ہیں۔ مثلاً:

فِي الْفَتْحِ عَلَى هَذَا التَّعْلِيلِ بَيْعَ السِّرْقِينِ فَإِنَّهُ جَائِزٌ لِلِانْتِفَاعِ بِهِ مَعَ أَنَّهُ نَجِسُ الْعَيْنِ اهـ. قَالَ فِي النَّهْرِ: بَلْ الصَّحِيحُ عَنْ الْإِمَامِ أَنَّ الِانْتِفَاعَ بِالْعَذِرَةِ الْخَالِصَةِ جَائِزٌ كَمَا سَيَأْتِي - إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى - فِي الْكَرَاهِيَةِ. اهـ أَيْ مَعَ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ بَيْعُهَا خَالِصَةً كَمَا مَرَّ (قَوْلُهُ فَيَبْطُلُ بَيْعُهُ) نَقَلَهُ فِي الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ أَيْضًا عَنْ الْبُرْهَانِ، وَفِيهِ تَوَرُّكٌ عَلَى الْمُصَنِّفِ حَيْثُ عَدَّهُ فِي الْفَاسِدِ، لَكِنْ قَدْ يُقَالُ: إنَّهُ مَالٌ فِي الْجُمْلَةِ حَتَّى قَالَ مُحَمَّدٌ بِطَهَارَتِهِ لِضَرُورَةِ الْخَرْزِ بِهِ لِلنِّعَالِ وَالْأَخْفَافِ تَأَمَّلْ. (قَوْلُهُ لِضَرُورَةِ الْخَرْزِ) فَإِنَّ فِي مَبْدَإِ شَعْرِهِ صَلَابَةً قَدْرَ أُصْبُعٍ وَبَعْدَهُ لِينٌ يَصْلُحُ لِوَصْلِ الْخَيْطِ بِهِ قُهُسْتَانِيٌّ ط (قَوْلُهُ وَكَرِهَ الْبَيْعَ) ؛ لِأَنَّهُ لَا حَاجَةَ إلَيْهِ لِلْبَائِعِ زَيْلَعِيٌّ، وَظَاهِرُهُ أَنَّ الْبَيْعَ صَحِيحٌ. وَفِيهِ أَنَّ جَوَازَ إقْدَامِ الْمُشْتَرِي عَلَى الشِّرَاءِ لِلضَّرُورَةِ لَا يُفِيدُ صِحَّةَ الْبَيْعِ، كَمَا لَوْ اُضْطُرَّ إلَى دَفْعِ مَرْشُوَّةٍ لِإِحْيَاءِ حَقِّهِ جَازَ لَهُ الدَّفْعُ وَحَرُمَ عَلَى الْقَابِضِ، وَكَذَا لَوْ اُضْطُرَّ إلَى شِرَاءِ مَالِهِ مِنْ غَاصِبٍ مُتَغَلِّبٍ لَا يُفِيدُ ذَلِكَ صِحَّةَ الْبَيْعِ حَتَّى لَا يَمْلِكَ الْبَائِعُ الثَّمَنَ فَتَأَمَّلْ۔(۳۱)

’’گوگو برکا بیچنا جائز نہیں ہے، اگرچہ اس سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے (کھاد وغیرہ کے طور پر)

اس سے بھی یہی مفہوم ہوا کہ’’ضرورۃ‘‘ کے طور پر جن چیزوں کے استعمال کی گنجائش شریعت میں دی گئی ہے، ان کی بیع کا جواز لازمی نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ چیز’’ضرورت‘‘ کے وقت بغیر قیمت دئیے نہ ملتی ہو تو اضطرار کی حالت میں مضطرکیلئے اس کی قیمت دینا توجائز ہوگا مگر لینے والے کے لئے وہ قیمت حلال نہ ہوگی، جیسا کہ خنزیر کے بال کے سلسلہ میں فقیہ ابو اللیثؒ نے فرمایاہے:

’’ اگر بغیر قیمت نہ ملے تو خریدنا بھی جائز ہے ‘‘(۳۲)

فتاوی شامی میں ہے:

شَعْرُ الْخِنْزِيرِ فَإِنَّهُ يَحِلُّ الِانْتِفَاعُ بِهِ، وَلَا يَجُوزُ بَيْعُهُ كَمَا يَأْتِي. وَقَدْ يُجَابُ بِأَنَّ حِلَّ الِانْتِفَاعِ بِهِ لِلضَّرُورَةِ، وَالْكَلَامُ عِنْدَ عَدَمِهَا ‘(۳۳)

اوردرمختار میں اس پر ایک بہت مفید اور اہم اضافہ ملتا ہے:

’’ اگربلا قیمت نہ مل سکے تو ضرورۃً خریدنا اور قیمت دینا جائز ہے لیکن یہ بیع مکروہ (تحریمی) ہے، اس لئے اس کی قیمت غیر طیب ہے یعنی اس کا استعمال ناجائزہے‘‘ (۳۴)

اس کے علاوہ اور بھی اس مسئلہ کی نظیریں فقہاء کے کلام میں ملتی ہیں،

اس پر قیاس کرتے ہوئے صورتِ مسئولہ کا بھی حکم یہی معلوم ہوتا ہے کہ’’ اضطرار کی حالت میں انسانی خون اور اس جیسی دیگر اشیاء محرمہ کا استعمال تو جائز ہے مگر خرید و فروخت جائز نہیں، البتہ بوقتِ ضرورت یہ اشیاء اگر بلا قیمت نہ مل سکیں تو ضرورتمند کے لئے قیمت دے کر بھی ان کا استعمال جائز ہوگا، مگر قیمت لینا درست نہ ہوگا۔

بلڈ بینک کےقیا م کا شرعی حکم

بلڈ بینک کا قیام نصوص شرعیہ کے رو سے نہ صرف جائز بلکہ اگر خالصتاً للہ ہو تو موجب اجر و ثواب بھی ہے۔ البتہ چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہو گا ۔

۱۔ خون کی خریدو فروخت سے مکمل اجتناب کریں۔ اسی کو کاروبار نہ بنائیں

۲۔ حتی الامکان کوشش کریں کہ غلط خون نہ کسی کو دیں اور نہ کسی سے لیں۔

۳۔ خون کے محتاط تمام طریقوں کو بروئےکار لائیں۔

۴۔ تمام بیماریوں کی خون کی اسکریننگ کریں تب جا کر کسی مریض کو دیں ۔

۵۔خون دینے والے سے اچھی طرح پوچھ گچھ کریں کہ ان کو بیماری وغیرہ تو نہیں رہی ہے۔

۶۔خون اسٹور کرنے کے لئے جو جو مشینیں درکار ہیں ان کا ہونا ضروری ہیں۔

اگر کوئی بلڈ بینک والے ان شرائط کا لحاظ رکھیے ان کے لئے بلڈ بینک کا قیام جائز ورنہ ثواب کے بجائے گناہ کمانے کے مترادف ہوگا۔

حوالہ جات

(۱)القاموس الوحیدازمولاناوحیدالدین قاسمی ،جلداول،صفحہ۵۴۶،دارالاشاعت کراچی،۲۰۱۲ء

(۲)البقرۃ،مائدہ،الانعام،الاعراف،یوسف،النحل اور الحج میں۔

(۳)فتاویہ ھندیہ،جماعہ،جلداول،صفحہ۵۱،دارالکتب العلمیۃبیروت،۱۹۹۹ء

(۴)سورۃالمائدہ۶:۳

(۵)...سورة الانعام:۷:۳

(۶)بحوالہ جواہرالفقہ،مفتی محمدشفیعؒ،۷جلد،صفحہ نمبر ۲۷،دارالمعارفکراچی۱۹۹۷ء

(۷) ھندیہ، جلد اول، ۴۶۔۔۔المغنی جلد اول ۴۱ءفتاویٰ قاضی خان ، جلد اول،۱۹ البحر الراءق جلد اول، ۲۳۵

(۸)صحیح البخاری ، محمدبن اسماعیل ،کتاب الطب ،۲جلد،صفحہ نمبر ۲۱۸۹،دارالیمامۃبیروت ۱۹۹۹ء، ۱لدر المختار،جلد اول۔۳۱۹۔۳۲۰

(۹) الجامع لاحکام القرآن ، ابو بکر القرطبی ؒ، جلد نبر ۹ ، صفحہ نمبر ۹۵ موسسہ الرسالۃ بیروت ۲۰۰۲ء،وصحیح البخاری ، محمدبن اسماعیل ،کتاب الطب ،۲جلد،صفحہ نمبر ۲۱۸۹،دارالیمامۃبیروت ۱۹۹۹ء

(۱۰)القرآن ۔البقرۃ ، ۲:۱۷۳

(۱۱) القرآن ۔ المائدہ، ۵: ۳

(۱۲) القرٓن ۔ الانعام ، ۶: ۱۴۵

(۱۳)القرآن ۔ النحل، ۱۶: ۱۱۵

(۱۴) الجامع لاحکام القرآن ، ابو بکر القرطبی ؒ، جلد نبر ۹ ، صفحہ نمبر ۹۶ موسسہ الرسالۃ بیروت ۲۰۰۲ء

(۱۵) کتاب الجموع شرح المہذب ، للشیرازی،ابی زکریا النووی ، جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۵۵۷، مکتبۃ الارشاد،جدہ، ۱۹۹۱ء

(۱۶)بدایۃ المجتہد و نہایۃ القتصد، لابن اثیر ، جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر ۱۳۶، مکتبہ رشیدیہ لاہور، بلاسن

(۱۷) القرآن ، الطلاق،۶۵: ۶

(۱۸) عالمگیری جلداول ،صفحہ نمبر٤

(۱۹) مغنی کتاب الصید ص ٦۰۲ج۸

(۲۰) ومواهب الجليل في شرح مختصر خليل: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن محمد بن عبد الرحمن الطرابلسي المغربي، المعروف بالحطاب الرُّعيني المالكي ۳ / ۲۳۳: دار الفكر الطبعة الثالثة، ۱۴۱۲هـ - ۱۹۹۲م

(۲۱) احكام القرآن المؤلف: أحمد بن علي ابو بكر الرازي الجصاص الحنفي ۱ / ۱۴۹، المحقق: محمد صادق القمحاوي - عضو لجنة مراجعة المصاحف بالأزهر الشريف: دار احياء التراث العربي – بيروت تاريخ الطبع: ۱۴۰۵ھ

وبدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن احمد الكاساني الحنفي ۷/ ۱۷۶، : دار الكتب العلمية الطبعة الثانية، ۱۴۰۶هـ - ۱۹۸۶م

(۲۲) اسنى المطالب في شرح روض الطالب ومعه حاشية الرملي الكبير : زكريا بن محمد بن زكريا الأنصاري، زين الدين أبو يحيى السنيكي 1 / 570 : دار الكتاب الإسلامي: بدون طبعة وبدون تاريخ.

(۲۳) آپ کےمسائل اور ان کا حل ، مولانا یوسف لدھیانوی ، جلد نمبر۴صفحہ نمبر ۳۴۲، مکتبہ لدھیانوی ، کراچی ۲۰۱۲ء

(۲۴) آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۹/ ۱۷۵

(۲۵)بخاری: باب الدواء بابوال الابل،کتا ب الوضوء:۵حدیث نمبر ۲۲۸، / ۲۱۶۳رقم: ۵۳۹۵، سنن الترمذی: ۱/ ۱۰۶، رقم: ۷۲

(۲۶) ترمذی: ۱/ ۲۰۶، حدیث مسند احمد ۳۴۲\۴، ۲۳,۲۴\۵، ابو داؤد، ترمذی وغیرہ کتب احادیث میں سند حسن کے ساتھ موجود ہے۔ اسی طرح حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الاصابہ‘‘ میں، ابن الاثیر نے ’’اسد الغابہ‘‘ میں اور ابن عبدالبر نے ’’الاستیعاب‘‘ میں عرفجہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:’’اس حدیث کی وجہ سے علماء نے سونے کی ناک لگوانے اور سونے کی تار کے ساتھ دانت باندھنے کو مباح قرار دیا ہے۔‘‘(تحفۃ الاحوذی ۴۲۷\۵)

(۲۷) آپ کے مسائل اور ان کا حل۴، ۵۴۹، ( عنایۃ علی ہامش فتح القدیر: ۵/ ۲۰۲)

(۲۸) جواہر الفقہ: ۲/ ۳۸

(۲۹) فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ و الافتاء، مرتب احمد بن عبدالرزاق الدرویش، جلد ۲۱ ، صفحہ نمبر ۱۴۶، دارالموءید،الریاض،۱۴۲۴ھ و آ پ کے مسائل اور ان کا حل ،جلد نمبر۶صفحہ نمبر ۲۴۵، مکتبہ لدھیانوی ، کراچی ۲۰۱۲ء

(۳۰)دارالافتاء دارلعلوم دیوبند ، فتویٰ نمبر فتوی(ل):۸۶۸=۶۱۷-۶/۱۴۳۱

(۳۱) رد المحتار على الدر المختار،المؤلف: ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي، جلد۵ ، صفحہ نمبر ۷۲،الناشر: دار الفكر-بيروت،الطبعة: الثانية، ۱۴۱۲هـ - ۱۹۹۲م

(۳۲) جواہر الفقہ: ۲/ ۳۸ (فتح القدیر:۵/۲۰۲)

(۳۳) شامی جلد ۵ ، صفحہ نمبر ۶۹

(۳۴) شامی جلد ۵ ، صفحہ نمبر ۸۳

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...