Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 32 Issue 1 of Al-Idah

تفسیر قرآن میں ام المؤمنین سیدۃ عائشه کا مقام |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

32

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060034497_648

Pages

144-155

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/142/134

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/142

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

قرآن اور سنت کی روشنی میں انبیاء کے بعد صحابہ کرام کا مقام ہے۔سارے انبیاء اللہ کے مقربین ہیں لیکن ان کے درمیان مراتب میں تفاوت مو جود ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعا لی ہے" تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ،،(سورۃ البقرۃ2: 253) یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضلیت عطا کی ہے ،، اسی طرح تمام صحابہ کرام قابل احترام ہیں لیکن مراتب کے لحاظ سے ان کے درمیان تفاوت ہے ان میں بعض سابقین الاولین ہیں جب کہ دوسروں کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے ۔ ان میں سے بعض کو غزوہ بدر میں شمولیت کا موقع ملا ہے جب کہ سب کو یہ موقع حاصل نہیں ہوا۔ بعض صحابہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرنے کا اعزاز حاصل ہے اور دوسروں کو یہ مقام حاصل نہیں ہے اسی طرح ان میں سےبعض نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا اور دوسرے فتح مکہ کے بعد مشرف باسلام ہو ئے تھے۔ اللہ تعا لی کا ارشاد ہے: "لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى (سورۃ الحدید57: 10)تم میں وہ لوگ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے انفاق کیا ہے اور قتال کیا ہے وہ دوسرں کے برابر نہیں ہیں بلکہ ان کا درجہ ان سے بڑا ہے جنہوں نے بعد میں انفاق اور قتال کیا ہے اور اللہ تعا لی نے ان سب کے ساتھ بھلائی کا وعدہ کیا ہے ،،

اسی طرح صحابہ کرام میں امہات المؤمنین کا امتیازی مقام ہے جن کے بارے میں اللہ تعا لی کا ارشاد ہے يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء" (سورۃ الاحزاب33: 6)اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج تمھارا مقام عام عورتوں کی طرح نہیں ہے ،، اور ایک جگہ ارشاد ہے؛ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ "(سورۃالاحزاب33: 6)،،نبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنین کے لئے ان کی جا نوں سے بھی زیادہ اولی (معزز) ہےاور آپ کی ازواج مؤمنوں کی مائیں ہیں ،،لیکن ازواج مطہرات میں سیدۃ عائشه الصدیقۃکو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔آپ کی ولادت شوال بمطابق جولائی 614ء مکہ مکرمہ میں ہوئی ،ان کے والد خلیفہء اول ابوبکر الصدیق ہیں جب کہ آپ کی والدہ کا نام ام رومان ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا نکاح نبوت کے دسویں سال ہوا تھا۔ سیدۃ عائشه نے مسلمان ماں باپ کے گود میں آنکھیں کھولیں اور رسول اللہ کی محبوب ترین رفیقہء حیات تھیں([1]) سیدۃعائشه نہایت ذہین،فطین،عقل مند اور بارک بین تھیں آپ کو دینی مسائل کےاجتہاد واستنباط میں ایک منفرد مقام حاصل تھا۔احادیث کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت عائشه کوحدیث میں بہت مہارت حاصل تھی۔عام طور آپ کو حدیث میں مہارت کے طور پر ما نا جا تا ہے لیکن تفسیرِقرآن کو مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات منکشف ہوجا تی ہے کہ آپ ایک بہترین مفسرہء قرآن بھی ہیں ۔ اسی لئے رسول اللہ نے ارشاد فر مایا "فضل عائشة علی النساء کفضل الثرید علی سائر الاطعمة،([2]) " عائشه کو دیگر تمام عورتوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسا کہ ثرید کو دیگر تمام کھانوں پر فوقیت حاصل ہے.

اس مقالہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ سیدہ عائشه کو قرآن مجید کی تفسیر میں جو مقام حاصل ہے وہ واضح ہو جا ئے اور وہ نکات اور اجتہادات منکشف ہو جائیں جو سیدۃ عائشه سے قرآن کی تفسیر میں منقول ہیں ۔ بعض قرآنی آیات کی تفسیر میں آپ کو تفرد بھی حاصل ہے۔

سیدۃ عائشه کی تفسیری نکات

خشیتِ الٰہی: سورۃ مؤمنون کی ایک آیت میں اللہ تعا لی کا ارشاد ہے(وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ) (سورۃ المؤمنون23 :60) آپ نے اس کی تشریح میں فر ما یاہے هُمُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ اللّهَ وَيُطِيْعُوْنَه" ([3])

"یہ وہ (ایما ندار)لوگ ہیں جو اللہ تعا لی سے ڈرتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں،، ۔ یہاں انہوں نے وَجِلَةٌ ،، کا معنی صرف خشیت نہیں بیان کیا بلکہ اس کے ساتھ اطاعت کو بھی مشروط کیا ہے ، کیوں کہ وہ خشیت جس میں اطاعت نہ ہو یہ تو شیطن کو بھی حاصل ہے جس کا ذکر سورۃ الانفال کی آیت 48میں آیا ہے۔ یہاں حضرت عائشه نے باریک نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نجات کے لئے صرف خشیت کا فی نہیں ہے بلکہ اس کےساتھ اللہ تعا لیٰ کی اطاعت بھی ضروری ہے۔قرآن میں وجلۃ،، کا لفظ صرف خوف کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس جب فرشتے آئے اور انہوں نے آپ سے کہا لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ" (الحجر:53) آپ خوف زدہ نہ ہوبے شک ہم آپ کو ایک علیم بیٹے کی خوشخبری دینے والے ہیں،، لیکن سورۃ المؤمنون میں سیدۃعائشه نے اس لفظ کا جو مفہوم بیان کیا ہے وہ جامع ہے جس میں عموم ہےاور قرآن کے عمومی تعلیمات کے عین مطابق ہے کیوں کہ صرف خوف نجات کا ذریعہ نہیں بلکہ وہ خوف مفید اور نجات کا ذریعہ بن سکتاہے جس میں طیبِ خاطر اور حقیقی محبت کے ساتھ اللہ کی اطاعت بھی ہو۔

پردہ کے متعلق آپ کی رائے

سورۃ نور کی آیت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا،،(سورۃالنور:31 ) کی تفسیر میں آپ نے ارشاد فر ما یا ’’مَا ظَهَرَ مِنْهَا:الوجہ والکفین،، کہ عورت کے لئے چہرہ اور دونوں ہاتھ حجاب کے حکم سے مستثنیٰ ہیں یعنی عورت کے لئے غیر محرم سے ان کا چھپا نا لازم نہیں ہے۔[4] حنفیہ کے نزدیک بھی عورت کے لئے حجاب کا یہی حکم ہے جس کی تفصیل فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ" كتاب الكراهية میں موجود ہے۔لیکن علماء نے اس کے ساتھ یہ تصریح بھی کی ہے کہ جہاں فتنہ کا خوف ہو تو وہاں چہرے کا پردہ بھی لازم ہے۔[5] واقعہء افک میں سیدہ عائشه کےاپنے عمل سے بھی یہ ثابت ہو تا ہے کہ غیر محرم سےچہرے کو چھپانا شریعت کا حکم ہے۔ کیونكه ایک سفر سے واپسی پر جب حضرت عائشه قافلہ سے پیچھے رہ گئی تھیں اور بعد میں حضرت صفوان آئے اور انہوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو حضرت عائشہ نے ان سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا ۔[6] جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ جہاں فتنے کا ڈر ہو توعورت کے لئے غیر محرم سےچہرے کو چھپا نا چاہئے۔یہاں تک کہ عورت کے لئے یہ بھی جائزنہیں کہ خوشبو لگا کر گھر سے با ہر نکلے کیونكه اس میں فتنہ ہے اور فتنہ سے بچنا لازم ہے۔

سورۃ الکوثر میں ’’ الکوثر‘‘ کی تفسیر میں حضرت عائشه کی تفسیر

"هو نهر أعطي نبيكم صلى الله عليه وسلم في الجنة"([7])

یہ کوثرجنت میں ایک نہر کا نام ہے جو کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا ہے ،، لیکن بعض روایات کے مطابق کوثر کا معنیٰ خیرِکثیرہے جب کہ بعض روایات کی روشنی میں اس سے ہر خیر مراد ہےاور بعض کے مطابق کوثر محشرکے میدان میں پانی کا ایک خاص حوض ہوگا۔کوثر کے لفظ میں اگر چہ عموم ہے لیکن اکثر احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ جنت میں ایک خاص نہر کا نام ہے اورمیدان محشر میں حوض کوثر کا پانی بھی اسی نہر کاپانی ہے۔

حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیو ں کے ناموں کے متعلق استفسار

سورۃ التحریم میں حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیو ں کے نام کا ذکر آیا ہے لیکن ان کے ناموں کا تذکرہ اللہ تعا لیٰ نے نہیں کیا ، اس لئے سیدۃ عائشه نے اس کی وجہ دریافت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا" ليغضهمااس لئے کہ اللہ ان کےنام ظاہر نہیں کر نا چا ہتا،، اس کے بعد سیدۃ عائشه نے پو چھا کہ ان کےکیا نام ہیں؟ جواب دینے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل امین حاضر ہو ئے اور فرما یا کہ نوح علیہ السلام کی بیوی کا نام والغۃ ،، تھا اور سیدنا لوط کی بیوی کا نام والھۃ،، تھا۔ اس سے سیدۃ عائشہ کاقرآن کی تفسیر کے متعلق شغف کا بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے اور اس سے آپ کا رُتبہ اور مقام بھی واضح ہو گیا کہ ان کے استفسار پر اللہ تعا لی کی جا نب سے جبریل کو ارسال کیا گیا ۔([8])

باری تعالیٰ کے ساتھ ہم کلام ہو نے اورعلم غیب کےبارےمیں تفسیر

اللہ تعا لی کے دیدارکے بارے میں سیدۃ عائشه کا بیان ہے کہ جس نے یہ کہا کہ رسول اللہ نے اللہ کا دیدار کیا ہے تو اس نے اللہ تعا لی ٰکے متعلق بڑا جھوٹ کہا حالاں کہ اللہ تعا لی کا ارشاد ہے ’’ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا‘‘(سورۃ الشوری42: 51) یعنی کسی بشر کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ اللہ تعا لی سے ہم کلام ہو جا ئے سوائے وحی کے ،، اور جس نے یہ کہا کہ رسول اللہ نے اللہ کا کوئی حکم چھپا یا ہے تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھ لیا کیوں کہ اللہ تعا لیٰ کا بیان ہے کہ ’’يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ‘‘ (سورۃ النمل27: 65) اے رسول جو کچھ آپ کی طرف نازل ہو تا ہے اس کو لو گوں تک پہنچا دے ،، اور جس نے یہ کہا کہ رسول اللہ کو آئیندہ آنے والےکل کا علم ہے تو اس نے اللہ کے بارے میں بڑا جھوٹ کہا کیوں کہ اللہ کا ارشاد ہے " قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ" (سورۃ المائدۃ 5: 67) کہو! کہ آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ کے سِواکوئی نہیں جانتا اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ انہیں کب اُٹھا یا جا ئے گا؟،،([9])

سیدۃعائشه کی تفسیر کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعا لی کا دیدار انسان کے لئے نا ممکن ہے البتہ انبیاء اللہ تعا لی سے وحی کے ذریعے ہم کلام ہو تے ہیں ،اور یہ کہ دینِ اسلام کے وہی طریقے معتبر ہیں جس کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مو جود ہے ۔ یہاں سیدۃ عائشه نے ان خیا لات کو مسترد کر دیا جو علم غیب کے بارے میں اختلافات ،خرافات اور توہمات کا شکار ہیں اور اس مسئلہ کی مکمل وضاحت کردی کہ غیب کا کلی اور ذاتی علم صرف اللہ تعا لی کا خاصہ ہے ۔حضرت عائشه نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ دین اسلام مکمل اور نا قابل تغیر ہےلہذا جو بھی اس میں اپنی طرف سے اضافہ یا ترمیم کرے گا وہ بدعت ،ضلالت اور نا قابل قبول ہے۔کیوں کہ دین کےتمام احکامات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں تک پہنچا دئے ہیں اور اس سلسلے میں آپ نے قطعا کوئی کو تا ہی نہیں برتی ۔

میدانِ حشر کے بارے میں استفسار

سیدۃ عائشه نےایک دفع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی:{يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ وبرزوا لله الواحد القهار}(سورۃ ابراھیم14: 48)جس دن زمین اور (تمام) آسمانوں کو تبدیل کر دیا جا ئے گا اور لوگ اللہ جو کہ (خدائی میں ) اکیلا اور غالب ہے ،کے سامنے پیش کر دئے جا ئیں گے ،، حضرت عائشه نے پو چھا کہ پھر لوگ کہاں ہوں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ اس آیت کی استفسارمیں آپ نے دوسروں پر سبقت حاصل کرلی ہے۔ پھر رسول اللہ نے فرمایا کہ، يَا عَائِشَةُ، النَّاسُ يومئذٍ عَلَى الصِّرَاطِ، فَمِنْهُمْ من يمشي منكباً عَلَى وَجْهِهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صراط المستقيم، وَيُعْطَى كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُنَافِقٍ نُورًا، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَبْقَى فَيُضِيءُ لَهُ نُورُهُ حَتَّى يُدْخِلَهُ الْجَنَّةُ، وَأَمَّا الْكَافِرُ وَالْمُنَافِقُ فَيُغَطَّى نُورُهُ وَيُخْتَطَفُ. عائشه لوگ اس دن صراط پر ہوں گے ان میں سے بعض لوگ منہ کے بل چلتے ہوں گے جب کہ بعض صرا ط مستقیم پر ہوں گے ،اور ہر مومن اور منافق کو نور عطا کیا جا ئے گا ،مومن کا نور باقی رہے گا اور اس کے لئے روشنی فراہم کر ےگا یہاں تک کہ اس کے روشنی میں وہ جنت میں داخل ہو جا ئے گا جب کہ کافر اور منا فق کی روشنی بجھ کر ختم ہو جا ئے گی۔ ([10])

اس واقعے سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسسلم نے بھی سیدۃ عائشه کی علمی معیار،ذہانت اور فطانت کی تعریف کی اور یہ کہ علم کے حصول میں سیدۃ عائشه کو سبقت حاصل ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ام المؤمنین سیدۃ عائشه نہایت بارک بین اور دوراندیش تھیں قرآن کی آیات میں غور فرماتی تھیں اور ان سے استنباط اور استدلال کیا کرتی تھیں جس کی ایک مثال میدانِ حشر کے بارے میں آپ کا یہ استفسارہے۔

اخلاق نبی کی تفسیر

ایک دفع کسی نےسیدۃ عائشه سے{وإنك لعلى خلقٍ عظيمٍ}،(سورۃالقلم68: 4) کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فر مایا؛ خلقه القرآن والعمل بما فيه. آپ کے اخلاق قرآن اور اس پر عمل کر نا ہے ،، ([11])

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران کی عملی شکل اپنے اخلاق کی صورت میں پیش کر دی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت در حقیقت قرآن کی عملی تفسیر ہے اگر کسی نے قرآن پر عمل کر نا ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ آپ کی سیرت کا مطالعہ کرے اوراس کی روشنی میں قرآن پر عمل شروع کرے ۔==قران کے مطابق زندگی گذارنا در حقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کر نا ہے۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر قرآن پرعمل پیرا ہو نا ممکن نہیں ہے۔جیسا کہ قرآن کے بغیر کسی کا ایمان معتبر نہیں اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بغیر قرآن پر عمل کر نا صرف نامکمل ہی نہیں بلکہ اس عمل کا اعتبار ہی نہیں ہے۔

ختم نبوت کی تشریح میں آپ کا قول:

{وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ}(سورۃ الاحزاب33: 10)) اس آیت کی تفسیر میں حضرت عائشه نے ختم نبوت کی تشریح میں فر ما یا کہ یوں نہ کہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی نہیں بلکہ یو کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں . ([12]) آپ نےختم نبوت کے متعلق تمام شبہات کا ازالہ کر دہا، جیساکہ ماضی میں بعض متنبیوں (جھوٹے مدعیان نبوت)نے ظلی اوربروزی نبی ہو نے کا دعویٰ کیا تھا اس تفسیر سے اس طرح کے تمام جھوٹے مدعیانِ نبوت کی ہمیشہ کے لئےتردید کر دی گئی۔

حالتِ حیض کے متعلق آپ کی رائے

(وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ ) کی تفسیر میں یہ روایت نقل کی گئی ہے " أن ابن عمر رضي الله عنهما أرسل إلى عائشة رضي الله عنها يسألها: "هل يباشر الرجل امرأته وهي حائض؛ فقالت: لتشدد إزارها على أسفلها ثم يياشرها إن شاء؛([13]) " سیدنا ابن عمر نے سیدۃ عائشه کے پاس پیغام بیھج کر استفسار کیا کہ کیا شوہراپنی بیوی کے ساتھ حیض کی حالت میں مباشرت کر سکتا ہے تو آپ نے جواب میں ارشاد فر ما یا کہ شوہر کو چا ہئے کہ ازار باندھ لے توپھر ایسا کر نا جا ئز ہے،، یعنی جماع کے علاوہ اس کے ساتھ لیٹنے میں کو ئی حرج نہیں ہے ۔اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ بڑے جلیل القدر صحابہ کرام بھی قرآن کی تفسیر میں سیدۃ عائشه کی طرف رجوع کرتے تھے۔یہاں ام المؤمنین نے ان عقائد کو مسترد کر دیا ہے جن کے مطابق حیض کی حالت میں عورت کو چھوت سمجھا جا تا ہے۔ احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ حیض کی حالت میں بیوی کے ساتھ جماع کے علاوہ اختلاط جائز ہے۔اس میں نصاریٰ پر رد ہے جو کہ افراط کا شکارتھے اور یہود پر بھی رد ہے جو اس معاملہ میں تفریط کا شکار تھے۔اسلام کی تمام تعلیمات اعتدال پر مبنی ہیں ۔ان میں نہ بے جاشدت ہے اورنہ بےدریغ آزادی بلکہ فطرت کے عین مطابق ہدایات ہیں۔

قرآن میں یمین لغو کے بارے میں سیدۃ عائشه کا قول:

قرآن میں یمین لغو کا ذکر آیا ہے اس کی تشریح میں سیدۃ عائشه نے فر ما یا ہے ۔ "لغو اليمين قول الإنسان: لا والله، وبلى والله.

" لغو یمین یہ ہے کہ کوئی آدمی یو ں کہے ؛واللہ نہیں ، ہاں نہیں،،۔ ([14]) قسم کی تین قسمیں ہیں ایک کا نام یمینِ غموس ہے یہ جھوٹی قسم کو کہا جا تا ہے جوکہ ایک عظیم گناہ ہے کیوں کہ ایک طرف یہ جھوٹ پر مشتمل ہے اور دوم اس میں نا جائز قسم ہے،اس لئے شرعا یہ بڑا جرم ہے ۔دوم یمینِ منعقد ہے جس میں آئندہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا ذکر ہو اس قسم(یمین) کے مطابق عمل لازم ہے اور قسم کوتوڑنے کی صورت میں کفارہء یمین لازم ہے۔سوم یمینِ لغو ہے جس کا ذکر مذکورہ با لا روایت میں آیا ہے۔یہ وہ قسم ہے جس میں کوئی شخص بلا ارادہ واللہ باللہ وغیرہ کہے ۔ ان الفاظ کے کہنے سے اس کا مقصد قسم نہیں ہے بلکہ ویسے ہی آدمی کی زبان سے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں ۔اس صورت میں آدمی پر گناہ ہے اور نہ کفارہ بلکہ یہ لغو یمین کہلا تا ہے۔

رضاعت کی آیت کی تفسیر میں سیدہ عائشه کی رائے

رضاعت کی آیت کی تفسیر میں سیدہ عائشه کی رائے یہ ہے کہ ایک بڑا انسان بھی اگر کسی عورت کا دودھ پی لے تو اس سے حرمتِ رضاعت ثابت ہو تی ہے ۔اس مسئلہ میں آپ کی یہ رائے منفرد ہے جس کے ساتھ دوسری امہات المؤمنین نے اتفاق نہیں کیا۔ ([15]) عام صحابہ کرام اور سلف صالحین کے نزدیک دو سال کی عمر کے بعد کسی عورت کا دودھ پینے سےحرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی ۔ اس مسئلہ میں سیدہ عائشه منفرد ہیں ان کے ساتھ دیگر صحابہ اور امہات المؤمنین کا اتفاق نہیں ہے۔ سیدۃ عائشه آیت کے ظاہری الفاظ سے استدلال کرتی ہیں لیکن دوسرے صحابہ دیگر روایات کی بنیاد اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔جمہور صحابہ کرام کے نزدیک بچے کے لئےرضاعت کی مدت دو سال کی عمر ہے جس کے بعد رضاعت کا حرمت پر اثر نہیں ہو تا۔

ازواج مطہرات کے تخییر کےبارے میں سیدۃ عائشه کا رویہ

ازواج مطہرات کے تخییر کےبارے میں جب یہ آیت{إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} (33: 2) نازل ہو ئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندرداخل ہوئےاور فرمایا «يَا عَائِشَةُ إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي فِيهِ حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ» قَالَتْ: قَدْ عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ , قَالَتْ فَقَرَأَ عَلَيَّ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا، فَقُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ؟ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ "

" عائشه میں آپ کے سامنے ایک مسئلہ پیش کر تا ہوں لیکن آپ نے جلدی نہیں بلکہ اپنے ماں باپ سے مشورہ کر نا، عائشه فر ماتی ہیں کہ رسول اللہ کو معلوم تھا کہ میرے والدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میری جدائی پر راضی نہیں ہوں گے ، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا} (سورۃ الاحزاب:33: 28)== عائشه فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ کیا میں اس معاملہ میں بھی ولادین سے مشورہ کروں گی؟ بے شک مجھے اللہ اور اس کا رسول اور آخرت مطلوب ہے ۔یہاں سیدۃ عائشہ کا رُتبہ واضح ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات میں سب سے پہلےان سے مشورہ کیا اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سیدہ عائشه نے کس خوبصورت انداز میں جواب ارشاد فرمایا۔([16])

حرام سے بچنے کے بارے میں سیدۃ عائشه کا قول:

حرام سے بچنے کے بارے میں سیدۃ عائشه نے درج ذیل آیت کی تفسیر میں ارشاد فرما یا؛الا مَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صالِحاً فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ وَكانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً (سورۃ الفرقان25: 70) : لا تصح التوبة لأحدكم حتى يدع الكثير من المباح، مخافة أن يخرجه إلى غيره، كما قالت عائشة رضي الله عنها: اجعلوا بينكم وبين الحرام ستراً من الحلال، كان رسول الله صلّى الله عليه وسلّم يدعنا بعد الطهر ثلاثاً حتى تذهب فورة الدم.

مگر جس نے تو بہ اور ایمان لا یا اور عمل صالح کیا پس ان لو گوں کے برائیوں کو اللہ نیکیوں میں تبدیل کر دے گا اور اللہ تعا لی بخشنے والا مہربان ہے ،، تشریح میں ذکر کیا گیا کہ تم میں سے کسی کا توبہ اس وقت تک قبول نہیں ہو تا جب تک کہ بہت سی مبا حات سے اجتناب نہ کیا جا ئے ، اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں حرام میں مبتلا نہ ہو جا ئے ، جیساکہ سیدۃ عائشه کا قول ہے کہ حرام اور حلال کے درمیان حلال کا پردہ قائم کرو کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طہر شروع ہو نے کے بعد بھی تین دن تک ہمارے قریب نہیں آیا کرتے تھے یہاں تک کہ خون کا جوش مکمل ختم ہو جا ئے ،،

یعنی حرام کے معاملہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے جس کی مثال میں سیدہ عائشه نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو پیش کیا۔([17])

صفا اور مروۃ کے طواف کے بارے میں سیدۃ عائشه کا قول:

عروة بن الزبير قال، سألت عائشة فقلت لها: أرأيتِ قول الله:"إنّ الصفا والمروة من شعائر الله فمن حَجّ البيتَ أو اعتمر فَلا جُناح عليه أن يطَّوَّف بهما"؟ وقلت لعائشة: وَالله ما على أحدٍ جناح أن لا يطوف بالصفا والمروة؟ فقالت عائشة: بئس ما قلت يا ابن أختي، إنّ هذه الآية لو كانت كما أوَّلتها كانت: لا جُناح عليه أن لا يطوَّف بهما، ولكنها إنما أنزلت في الأنصار: كانوا قبل أن يُسلموا يُهلُّون لمَناةَ، ، وكان من أهلَّ لها يتحرَّج أن يَطُوف بين الصفا والمروة، فلما سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك - فقالوا: يا رسول الله إذا كنا نتحرج أن نَطُوف بين الصفا والمروة - أنزل الله تعالى ذكره:"إنّ الصفا والمروَة من شعائر الله فمن حَجّ البيتَ أو اعتمرَ فلا جُناح عليه أن يطَّوَّف بهما". قالت عائشة: ثم قد سَن رَسول الله صلى الله عليه وسلم الطواف بينهما، فليس لأحد أن يَترك الطواف بَينهما. (۱۸)

عروۃ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدۃ عائشه سے پو چھا کہ اس آیت:"إنّ الصفا والمروة من شعائر الله فمن حَجّ البيتَ أو اعتمر فَلا جُناح عليه أن يطَّوَّف بهما" کا کیا مطلب ہے؟ میرے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی صفا ومروۃ کا طواف نہ کرے تو اس پر کو ئی گناہ نہیں ہے۔ سیدۃ عائشه نے کہا کہ اے بھا نجے تو نے بہت غلط تفسیر بیان کی ، اگر آیت کا یہی مطلب ہو تا جو کہ تم نے بیان کیا ہے تو پھر یوں کہنا چا ہئے تھا لا جناح علیہ الا یطوف بھما ،،حقیقت میں یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ اسلام سے قبل وہ صفا اور مروۃ کے درمیان رکھے گئےمناۃ بت کی پو جا کرتے تھے تو اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو صفا و مروہ کے درمیان طواف کے بارے حرج محسوس ہوا توانہوں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اس پریہ آیت نازل ہوئی اور اس کے بعد ان دونوں کا طواف سنتِ رسول قرار پایا لہذا کسی کے لئے یہ جا ئز نہیں ہے کہ صفا اور مروہ کے طواف کو ترک کردے،،

باطنی گنا ہوں کے بارے میں سیدۃ عائشه کی تفسیر :

وإن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله"، (سورۃ البقرۃ2: 284) قال: كانت عائشة تقول: كل عبد يهمّ بمعصية، أو يحدّث بها نفسه، حاسبه الله بها في الدنيا، يخافُ ويحزن ويهتم. ارشاد فر ما یا ہے ؛ جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے اس کو ظاہر کرو یا مخفی رکھو ،اللہ تم سے اس کا محاسبہ کرے گا،، سیدۃ عائشه نے کہا ہے ہر وہ بندہ جس نے گناہ کا عزم کیا اور دل میں گناہ کی بات کی اللہ دنیا ہی میں اس کا اس پرمحاسبہ کرے گا، کہ وہ خوف ،غم اور اندیشے کا شکار ہو گا،،۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دل میں اگر کوئی گناہ کا عزم کر لے لیکن اس نے گناہ کا ارتکاب نہیں کیا تو اس وجہ سے دنیا ہی میں اس کی گرفت ہو گی اور آخرت میں اس پر گرفت نہیں ہوگی کیوں کہ اس نے عملا گناہ نہیں کیا۔([18])

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کےموقع پر اللہ کا دیدار کیا تھا؟

اس بارے میں سیدۃ عائشہ نے فرمایا ہے

جس نے یہ کہا کہ کسی اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ بو لا کیوں کہ اللہ تعا لی کا ارشادہے لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار"۔ وہ کسی کی نظر میں نہیں آسکتا اور وہ(اللہ) نظروں کا ادراک رکھتا ہے،،۔([19]) واقعہء معراج کے متعلق بہت سی روایات ہیں ۔اس موقع پر اللہ تعا لیٰ کے دیدار کے بارے میں صحابہ کے درمیان اختلاف رائے پا یا جا تا ہے۔ سیدۃ عائشہ مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں فر ماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شب اللہ کا دیدار نہیں کیا تھا بلکہ جہاں رؤیت کا ذکر ہے اس سے جبریل کا دیدار مراد ہے۔

جہری ذکرودعا کے بارے میں آپ کا قول :

سورۃ بنی اسرائیل کی اس آیت(وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا) (سورۃ بنی اسرائیل17: 110) کی تفسیر میں سیدۃ عائشه کی رائے دوسرے صحابہ کرام سے مختلف ہے۔

عن عائشة، قالت: نزلت في الدعاء.وقال آخرون: بل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بمكة جِهارا، فأمر بإخفائها([20]) سیدہ عائشه سے مروی ہے کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہو ئی ہے لیکن دیگر لوگ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکۃ میں جہرا نماز پڑھتے تھے تو اللہ تعا لی نے اخفاکا حکم دیا،، سیدۃ عائشه کی تشریح کے مطابق مذکورہ آیت کامفہوم یہ ہےکہ ذکراللہ کےموقع پر اعتدال سے کام لینا چا ہئے۔بہت اونچی آواز میں ذکر سے اجتناب کیا جا ئے۔اس کی تائید میں دیگر روایات بھی ہیں۔

حج کے قربانی کے جانور کے بارے میں آپ کی رائے :

عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُمَا «كَانَا لَا يَرَيَانِ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ إِلَّا مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ» سیدۃ عائشه اور سیدنا ابن عمر کے نزدیک حج میں ھدی کے لئےصرف اونٹ اور گائے قابلِ قبول ہیں۔لیکن دیگر صحابہ اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔([21]) دیگرصحابہ ہدایا (دم تمتع اور دم قِران)میں اونٹ اورگائے کے علاوہ بھیڑ اور بکری کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ جب کہ فقہآء کا تقریبااس پر اجماع ہے کہ حج کے موقع پر ہدی میں بھیڑ اور بکری ذبح کرناجا ئز ہے۔

خلاصہ

اسلام میں انسان کو رتبہ اور مقام صلاحیت اور عملِ صالح کی بیناد پر حاصل ہے ، حسب اور نسب اور یا جنس کی بنیاد پر نہیں۔ چنانچہ ابو لہب اگرکہ نسبی لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےقریب تھا لیکن تعلق میں آپ سے بعید ترین شخص تھا جب کہ بلال حبشی پردیسی اور رنگ کے لحاظ سے کا لے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین لو گوں میں شمار ہو تے تھے۔اسی طرح سیدۃ عائشه ایک عورت تھی لیکن بڑے بڑے صحابہ کرام ان سے قرآن کی تفسیر پو چھنے کے لئے حاضر ہوا کرتےتھے۔ازواج مطہرات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے زیادہ تعلق تھا ،اس گہرے تعلق کی وجہ علم وعمل تھا۔ سیدہ عائشه کے مقام کو بیان کرنے کے لئے ایک مقالہ کا فی نہیں ہے لیکن نمونہ کے طور پر قرآن کے متعدد مقامات سے چند نکات کوقارئین کے سامنے پیش کیا گیاتاکہ قرآنن کےمتعلمین کو معلوم ہو جا ئے کہ سیدہ عائشه کو صرف احادیث میں مہارت حاصل نہیں بلکہ اللہ تعا لی نے آپ کو قرآن فہمی سے بھی نوازا تھا۔

حوالہ جات

  1. -دائرۃ معارف اسلامی ج12 ص 708، دانش گاہ پنجاب لاهور طبع اول1973ء
  2. -احمدبن حنبل المتوفی241ء:مسنداحمد،محقق:عادل مرشد،موسسۃ الرسالۃ،طبعۃ اولی 1421ھ-2001ء
  3. - مجاھدبن جبیرالتابعی المتوفی104ھ،تفسیرمجاھدج1ص486 ،محقق:محمدعبدالسلام،دارالفکربیروت،1410ھ-
  4. - تفسیر مجاھد ص491
  5. -برہان الدین المرغینانی:ھدایۃ،کتاب الکراہیۃ ج4 ص 442 ،طبعہ لا ہور بدون تاریخ
  6. -مفتی محمد شفیع:معارف القرآن ج6ص365 ،دارالعلوم کراچی1983ء
  7. -تفسیر مجاھد ص756
  8. -مقاتل بن سلیمان المتوفی 150ھ،تفسیر مقاتل ج4ص380 ،محقق:عبداللہ بن محمود،بیروت طبعہ اولی1430ھ
  9. مقاتل بن سلیما ن:مصدرنفسہ ج1 ص78-
  10. - مقاتل بن سليمان:مصدر نفسہ ج2 ص32
  11. - مقاتل بن سليمان مصدر نفسہ ج2 ص 156
  12. - مقاتل بن سليمان : مصدر نفسہ ج2 ص732
  13. -محمدبن ادریس الشافعی المتوفی 204ھ:تفسیر الامام الشافعی ج1ص 337،دارالتدمیریہ السعودیہ،2006ء
  14. - تفسیر الامام الشافعی ج2 ص 768
  15. - مصدر نفسہ ج1ص384
  16. - مصدر نفسہ ج3 ص 36
  17. - محمد سعد بن عبد اللہ التستری المتوفی283ھ:تفسیر التستری،ج1ص114 ،بیروت،طبعہ اولی1423ھ
  18. - تفسیر الطبری، ج6 ،ص117
  19. - مصدر نفسہ ،ج12، ص 17
  20. - تفسیر الطبری، ج20، ص160
  21. - عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر المتوفیٰ327ھ:تفسیر لابن ابی حاتم ج1 ص336، مکتبہ نزار ۔ السعودیہ
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...