Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 29 Issue 2 of Al-Idah

جدید علوم کی تدریس اسلامی تعلیمات کے تناظر میں |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

29

Issue

2

Year

2014

ARI Id

1682060034497_703

Pages

1-16

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/224/212

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/224

Subjects

Keywords=

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام میں دین ودنیا کی کوئی تفریق نہیں۔ اسلامی نظام زندگی میں دینی ضروریات اور عصری تقاضوں کو ایک ساتھ چلانے پر زور دیا جاتا ہے دونوں ذمہ داریوں میں سے اگر ہم ایک کے لئے ہم تن مصروف ہوجائیں اور دوسرے سے بے فکر رہیں تو اس سے معاملہ توازن واعتدال سے ہٹ کر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوجائے گا۔

 

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’خيركم من لم يترك دنياه لآخرته‘‘[1]. ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی دنیا کو آخرت کی وجہ سے نہیں چھوڑتا‘‘ (یعنی دونوں کو ساتھ لیتا ہے)۔

 

ایک اور روایت میں ہے ’’دنیا پر سوار ہوکر آخرت تک پہنچو‘‘[2] ۔

 

ان روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کے ساتھ دنیوی فرائض وذمہ داریاں نبھانا چاہئے۔ اسلام ہمیں یہ حکم نہیں دیتا کہ ہم دنیوی ضروریات سے بے فکر ہوکر دن رات مسجد کے کونے میں بیٹھ جائیں۔ ابو قلابہؒ ایک مشہور محدث ہیں۔ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جومسجد کے کونے میں بیٹھ کر تلاوت اور عبادت کرتا تھا۔ انہوں نے پوچھا۔ تم کیا کرتے ہو؟ اور تمہارے آمدنی کیا ہے؟ اس عبادت گزار نے جواب دیا ۔ ذریعہ آمدنی کچھ بھی نہیں۔ لوگ ہدیہ دیتے ہیں وہ استعمال کرتا ہوں۔ اور اپنا وقت عبادت میں صرف کرتا ہوں۔ ابو قلابہؒ نے فرمایا:

 

’’لأن أراك تطلب معاشك أحب إلی من أن أراك فی زاوية المسجد‘‘[3] ’’میں تمہیں معاشی زندگی اور رزق حلال کے حصول میں سرگرم دیکھوں۔ یہ مجھے زیادہ پسند ہے بنسبت اس کے کہ میں تمہیں مسجد کے گوشے میں بیٹھے دیکھوں (اس لئے کہ عبادت کا اپنا وقت ہے اور معاشی سرگرمی کا اپنا وقت۔ ایک کو دوسرے کے لئے قربان کردینا توازن اور اعتدال کے خلاف ہے۔

 

حقیقت یہ ہے کہ اسلام دین ودنیا کو دو الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ اس لئے جدید وقدیم، دینی ودنیوی اور عصری ومذہبی علوم کی تقسیم کی اصطلاح غلط اور بے بنیاد ہے۔ اسلام نے علم کی دو طرح کی تقسیم کی ہے۔ ایک علم نافع جو انسان کے لئے مفید اور کارآمد ہو۔ اور دوسرا غیر نافع جو انسانیت کے لئے غیر نافع ہو۔ آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے علم نافع کی دعا مانگی اور علم غیر نافع سے پناہ مانگی۔ آپ صلي اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 

’’اللهم اني أعوذبك من علم لا ينفع ومن دعاء لا يسمع ومن قلب لا يخشع ومن نفس لا يشبع‘‘[4] ’’اے اللہ میں آپ سے غیر نافع کی پناہ مانگتا ہوں اور ایسی دعا کی جو نہ سنی جائےاور ایسے دل کی جس میں خوف نہ ہو اور ایسی خواہشات کی جو پوری نہ ہوں‘‘ ۔

 

اسلامی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب مسلمان دینی ودنیوی تعلیم کے حسین امتزاج پر قائم رہے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ قرآن وسنت کی بے مثال خدمت کی بلکہ انہوں نے علم جغرافیہ، تاریخ، ریاضی، ہیئت، نجوم، کیمیا، مساحت، ہندسہ، جبرومقابلہ، علم مثلث، طلب، طبیعات، فلسفہ، منطق، فنون حرب، جہازرانی، انجینئرنگ، فن تعمیر غرض تمام علوم کو ترقی دے کر ان کو اس معیار پر پہنچایا جس پر انییسویں صدی میں یورپ نے پایا۔[5]

 

 

جدید علوم میں مسلمانوں کی خدمات:

عالم اسلام پر مغربی تسلط سے پہلے مسلمانوں کا نصاب تعلیم ایک تھا۔ جس میں دینی اور دنیوی تعلیم کی تفریق نہ تھی۔ اسی نصاب تعلیم سے جو لوگ فارغ ہوتے تھے۔ تو وہ ایک طرف مفسر، محدث اور فقیہ ہوتے تو دوسری طرف وہ مایہ ناز سائنسدان اور جدید علوم کے ماہر ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید علوم میں مسلمانوں کے ان گنت خدمات ہیں۔ مسلمان سائنسدانوں نے ان جدید علوم میں سے کچھ تو خود ایجاد کئے۔ اور بیشتر علوم انہوں نے ابتدائی حالت میں پایا۔ اور ترقی دے کر انہیں اس عروج پر پہنچایا جہاں وہ آج ہیں۔ محمد بن موسىٰ الخوارزمی (م۰۵۸ء) نے ریاضی میں بڑا کام کیا۔ اشاریہ اور صفر کا تصور انہوں نے پیش کیا۔ ریاضی، فلکیات اور مثلثات کے ماہر جانے جاتے تھے۔ جابر بن حیان (م۶۷۷ء) نے طب اور کیمیا پر کام کیا۔ آپ کو کیمیا کا باپ (Father of Chemistry) کہا جاتا ہے۔ آپ نے Minerals اور تیزاب Taratic دریافت کئے۔ کیمیادان اس پر متفق ہیں کہ آج کی کمسٹری جابر بن حیان کے کام کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ابوبکر محمد الرازی (م۴۶۷ء) تجربہ کار ڈاکٹر اور فزیشن تھے۔ چیچک اور خسرہ پر سب سے پہلا تحقیقی کام انہوں نے کیا۔ میڈسن کی تحقیق پر دس جلدوں میں (م۱۰۳۹) نے بصریات پر سب سے پہلا کام کیا۔ آپ کی تصنیف ’’کتاب المناظر‘‘ اس کا مظہر ہے۔ یورپ میں آپ کو Alhazeen کےنام سے پہچانا جاتا ہے۔ ابو ریحان البیرونی (م۱۰۳۹) بیک وقت تاریخ دان، سیاح، جغرافیہ دان، ماہر لسانیات، ریاضی دان، ماہر فلکیات، شاعر اور ماہر طبیعات تھے۔ مشہور مذاہب کے تہواروں اور کیلنڈروں پر آپ کا کام اثار البقیہ (Vestige of the past)بہت مشہور ہے۔ ابو علی الحسین ابن سنیا (م ۱۰۳۷ء)سائیکالوجی، منطق، سیاسات، تصوف، تعسیر، ادب، موسیقی اور جراحت کے ماہر تھے۔ آپ بابائے طب (Father of medicine) اور اساتذہ کے شہزادہ (Prince of all teachers) کے القابات سے یاد کئے جاتے ہیں۔ نصیر الدین طوسی (م۱۲۴۷ء) نے مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ انجینئرنگ میں مہارت حاصل کی۔ ابو القاسم الزہراوی (م۱۰۱۳ء) نے سرجری کے کئی اوزار ایجاد کئے اور کئی میڈیسنز کی تیاری کے طریقوں کو ترقی دی۔ ابو النصر الفارابی (م۰۵۹ء) بیالوجی اور معاشیات کے میدان میں شہرت رکھتے تھے۔ علی بن ریان التیباری (م۸۷۰ء) خوش نویسی میں شہرت رکھتے تھے۔ اور سریانی اور یونانی زبانوں کے ماہر تھے۔ ابو الفتح الخوزینی (م ۲۲۱۱ء) نے لیور کے قوانین، ٹھوس اور مائع چیزوں کی گریوٹی اور زمین کی کشش ثقل پر تحقیق کی۔ اس کے علاوہ ابن رشد (م۸۹۱۱ء) فلسفہ، ابن الیطار (م۰۴۲۱ء) نباتات، ابومروان ابن ظہر (م۲۶۱۱ء) طب، عمر خیام (م۱۱۶۲ء) فلکیات اور شاعر ی میں مہارت رکھتے تھے۔[6]

 

قابل غور بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان علوم وفنون میں اس قدر ترقی کیونکر پائی۔ اور اس قدر حیرت انگیز کارنامے کیسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان حضرات کے ذہن میں تعلیم کی تقسیم کا یہ موجودہ تصور نہ تھا۔ وہ اخلاص اور للٰہیت کےجہالت کا ازالہ کرنا چاہتے تھے۔ چاہے وہ تعلیم کے کسی شعبے میں بھی ہو۔ دینی ضرورت ہو یا عصری تقاضا۔ دینی یا دنیوی ہر ایک سرگرمی میں ان کا بنیادی مقصد رضائے الٰہی تھا۔ جس کی وجہ سے اس دور کے مسلمان نہ صرف یہ کہ دنیاوی علوم میں غیر معمولی منہمک اور مشغول تھے۔ بلکہ دینی علوم کی نشروشاعت میں بھی بام عروج پر تھے۔ آج جس طرح ہم دنیوی علم میں پیچھے جارہے ہیں۔ اسی طرح دینی علوم میں بھی بتدریج زوال پذیر ہیں۔

 

قرآن اور دنیوی علوم:

اسلام کسی بھی علم اور زبان کا مخالف نہیں بلکہ قرآن مجید نے بہت سے ایسے حقائق پر روشنی ڈالی ہے جو دنیوی علوم کے زمرے میں آتے ہیں۔ قرآن مجید کے بہت سے آیتوں سے مختلف علوم مستنبط ہو رہے ہیں۔ مثلاً قصص واخبار سے علم تاریخ، نصف، سدس، ثلث، ربع اور خمس سے ریاضی، سورج، چاند ستاروں سے فلکیات اور علم مواقیت، فیہ شفاء اللناس سے میڈیکل مناظرہ ابراہیم علیہ السلام ونمرود سے علم الجدل والمناظرہ، اوائل السور سے الجبروالمقابلہ جیل کے قیدی کے خواب سے علم تعبیر الریا، ’’أأنْتُمْ تَزْرَعُوْنَه أمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ‘‘سے علم زراعت، ’’عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘‘سے Writing،الحواریون سے دھوبی فن، تحذیر وتبشیر سے علم مواعظ، ایات مواریث میں حصوں کی تفصیل سے علم فرائض، وطفق يخصفان سے کپڑوں کی سلائی کا ہنر، آتونی زبر الحديد سےعلم اہنگری، واصنع الفلك سےصنعت وحرفت، أفرأيتم ما تحرثون سے زمينداري، آيات صيد سے شکار، كل بناء وغواص سےعلم غوطه زني، واتخذ قوم موسي من بعدهم من حليهم جسداًسے سنارسازی، المصباح فی الزجاجة سے شیشہ سازی، فاوقد لی ياهامان علی الطين سے کہارسازی (ٹھیکری)، أما السفينة فكانت لمساكين سےجہازرانی، فوق راسي خبزاً سے(روٹی پکانے کا ہنر)، بعجل حينئذ سےCooking، آیات البیوع سے خریدوفروخت، صبغة الله سے رنگ سازی، وتنحتون من الجبال بيوتاً سےسنگ تراشی اور اوفوالكيل والميزان سےناپ تول وغیرہ[7]۔ قاضی ابوبکر بن العربی قرآن سے مستنبط علوم کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرآن تین لاکھ نو ہزار آٹھ سو علوم کی بنیاد ہے۔[8] پس ان دنیوی علوم کا حاصل کرنا جن سے کائنات کے اسرار ورموز کو جانا جاسکے۔ اور جس کے ذریعے دنیوی زندگی کا پہیہ چلایا جاسکے۔ یہ علوم قرآن کے عین مطلوب ہیں۔

 

سیرت طیبہ اور دنیوی علوم:

جدید علوم کی تعلیم وتدریس کے حوالے سے جب ہم رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ پر نظر ڈالتے ہیں۔ تو آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے دینی علوم کے علاوہ اس کا اہتمام فرماتے۔ مثلاٍ علم میراث سیکھنے کا آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ وراثت کا علم سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ۔[9] لکھائی Writingكے بارے میں فرمایا۔ اپنے ہاتھ سے مدد لو۔[10] غزوہ کے موقع پر قید ہونے والے ان کفار سے جو فدیہ نہیں دے سکتے تھے۔ ان سے یہ فدیہ قبول کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کی لکھائی سکھائی[11]۔ علم الانساب کے بارے میں آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ سلسلہٴ نسب کا علم سیکھو تاکہ تمہارے درمیان محبت بڑھے۔[12]

 

غیر ملکی زبانیں، حساب، شعروشاعری، میراث، مغازی، کتابت، انساب اور دیگر دسیوں علوم تھے۔ جس کا آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ اہتمام کیاتھا۔ آپ صلي اللہ علیہ وسلم کی ان ہمہ جہت تعلیمات کی وجہ سے صحابہ کرام کی ایک جماعت تیار ہوگئی تھی۔ جو مختلف علوم وفنون میں مہارت رکھتے تھے۔ عبد اللہ بن عباسؓ، تفسیر، حدیث، مغازی اور اشعار میں مہارت رکھتے تھے۔ ایک ایک مقرر دن پر ان سب علوم وفنون کا علیحدہ علیحدہ درس دیتے تھے۔ ابو درداؓ فقہ، فرائض اور حساب پر عبور رکھتے تھے۔[13] ام المؤمنین حضرت عائشہؓ میراث، حساب، طب اشعار عرب اور انساب عرب میں ماہر تھیں۔ حضرت عقبہ بن عمر جہنی، قرات شعروشاعری، کتابت اورفصاحت وبلاغت میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔[14] صہیب بن سنانی رومىؓ مغزی اور اسفار طور طریقوں کا علم رکھتے تھے۔[15] اس کے علاوہ سیکنڑوں صحابہ کرامؓ مختلف علوم وفنون میں مہارت رکھتے تھے۔ رسولؐ نہ صرف یہ کہ ان کو ان علوم وفنون کی ترغیب دیتے تھے۔ بلکہ موقع کی مناسبت سے ان ماہرین کے تجربات اورمشاہدات سے بھرپور استفادہ کرتے تھے۔ جنگی معاملات میں جنگجو ماہرین کی رائے تسلیم کرتے، اقتصادیات میں ماہرین اقتصادیات کی رائے قبول کرتے، دعوت وتبلیغ میں مختلف ماہر دعاة کی رائے کا احترام کرتے۔ مثلاً غزوہ بدر میں حضرت حباب بن منذر انصارىؓ کے مشورے کو تسلیم کرتے ہوئے اس علاقے پر پڑاؤ ڈالا جس سے چشمہ پر قبضہ ہوگیا۔ چونکہ حباب بن منذر اس واقعے سے پوری واقفیت رکھتے تھے۔ اس وجہ سے آپؐ ان کے رائے کو قبول کیا۔ غزوہٴ بدر میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے بھی ایک ماہرانہ تجویز دی کہ ایک اونچا سائبان بنائیں۔ جہاں سے آپ صلي اللہ علیہ وسلم جنگ کا خاتمہ کرسکیں۔ آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے اس مشورے کو قبول کرتے ہوئے اجازت دی۔[16]

 

مختصر یہ کہ رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسے علم اخذ کرنے پر صحابہ کرامؓ کو ابھارا جس سے اسلام اور اہل اسلام کو فائدہ ہو۔ چاہے وہ علم غیر مسلموں کے پاس ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ غزوہٴ بدر کے مشرک قیدیوں سے فائدہ اٹھاکر مسلمانوں کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا۔

 

زندگی کے علوم وفنون جو لوگوں نے اپنی عقل اور تجربات سے حاصل کئے ہیں۔ وہ تو سارے انسانوں کی ملکیت ہے۔ جس چشمہ سے بھی نکلے ہوں۔ ہم انہیں اخذ کریں گے۔ مغرب ومشرق ہر جگہ ان کی جستجو کریں گے۔ اور مسلم ومشرک سب سے لیں گے۔ [17]جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: ’’علم مؤمن کی متاع گم گشتہ ہے۔ اسے حاصل کرو چاہے مشرکین کے ہاتھوں ہی سے حاصل کرنا پڑے۔[18] رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’الحكمة ضالة المؤمن فمن حيث وجدها فهو أحق بها‘‘[19] ’’حکمت مؤمن کا گم شدہ سرمایہ ہے۔ جہاں بھی ملے وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔

 

ذیل میں ان چند جدید علوم وفنون کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جن کا آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ ترغیب دی۔ بلکہ خود اس کی نگرانی کی اہم ذمہ داری بھی نبھائی۔ جس کی وجہ سے عہد نبوىؐ میں مسلمان کسی بھی معاملے میں غیر مسلموں کے محتاج نہ رہے۔

 

غیر ملکی زبانیں:

اسلام کسی بھی زبان سیکھنے سے منع نہیں کرتا بلکہ دین کی دعوت وتبلیغ کے لئے مختلف زبانوں کے سیکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس مختلف زبانوں کے جاننے والے موجود تھے۔ جو دعوت کے موقع پر ترجمے کے فرائض انجام دیتے تھے۔ یہودیوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لئے آپؐ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا۔ حضرت زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سریانی زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اپنی کتاب کے سلسلے میں یہودیوں کی طرف سے مطمئن نہیں ہوں۔ نصف مہینہ گزرا تھا کہ میں سریانی زبان میں مہارت حاصل کرلی اور آپؐ کی طرف سے یہودیوں سے خط وکتابت کرنے لگا۔[20] حضرت سلمان فارسىؓ اور حبشی دونوں زبانوں کے ماہر تھے۔ فارسی تو ان کی مادری زبان تھی۔ ایک دفعہ اہل فارس نے ان سے سورہٴ فاتحہ کے فارسی ترجمے کی خواہش کی۔ تو انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ کرکے آپ صلي اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ اس کی بعد اہل فارس نے اس ترجمہ کو پڑھنا شروع کردیا۔عبد اللہ بن زبیر کے پاس سینکڑوں غلام تھے۔ ان میں ہر ایک الگ الگ زبان میں بات کرتا تھا۔ اور عبد اللہ بن زبیر ہرایک کے ساتھ ان کی زبان میں بات کرتے۔[21] اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرامؓ غیر ملکی زبانوں کے سیکھنے میں کس قدر دلچسپی لیتے تھے۔ اور اب وہ ان زبانوں پر کس قدر عبور رکھتے تھے۔

 

سائنسی علوم:

رسول اللہ ﷺ نے قدیم سائنسی علوم کی بھی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اس وقت جو جدید ٹیکنیک تھی۔ آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اس کو دین کا منافی تصور نہیں فرمایا۔ مثلاً مدینہ کے لوگ زراعت پیشہ تھے۔ اور اسلام سے پہلے کھجور کے نر اور مادہ درخت میں اختلاط کی ایک خاص صورت اختیار کرتے تھے۔ جس کو تابیر یعنی (Crosspollination)کہا جاتا تھا۔ آپؐ نے ابتدا سے اسے بے فائدہ تصور کرتے ہوئے منع فرمایا۔ لیکن جب اس سال پیداوار کم ہوئی اور لوگوں نے آپؐ سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے اپنی رائے کو چھوڑ کر آئندہ ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا۔

 

’’أنتم أعلم بامور دنياكم‘‘[22] ’’تم اپنے دنیا کے امور کے بارے میں زیادہ واقف ہو‘‘۔

 

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں منجنیق کا استعمال ایک جدید علم تھا۔ ہم منجنیق کو آج کے ٹینک کا پیش رو کہہ سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے چند صحابہ کو یمن کے عیسائیوں سے اس کی تعلیم سیکھنے کے لئے بھیجا اور پھر اس مہارت کو طائف کے معرکے میں استعمال فرمایا۔ پیغمبرؐ نے خود بھی اس معرکہ میں منجنیق استعمال فرمایا۔[23]

 

غزوہٴ خندق میں سلمان فارسىؓ کے مشورہ پر آپؐ نے ایک طویل وعریض خندق کھدوائی۔ یہ عربوں کے لئے بالکل نیا تجربہ تھا۔ جب مشرکین کے گھوڑے خندق کے پاس پہنچے تو انہیں وہاں رک جانا پڑا۔ خندق کی فنی مہارت کو دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ عربوں کی چال نہیں کوئی بیرونی چال ہے۔[24]

 

علم جغرافیہ:

رسول اللہ ﷺ علم جغرافیہ کو اہمیت دیتے تھے۔ بالخصوص جنگی حالات میں مختلف مقامات کی جغرافیائی پوزیشن معلوم کرنے کے لئے آپ صلي اللہ علیہ وسلم اس علاقے کے جغرافیائی حدود کے ماہرین سے مشاورت کرتے تھے۔ مثلاً غزہٴ بدر میں خباب بن منذر سے بدر کے جغرافیائی پوزیشن کے حوالے سے وضاحت طلب کی۔ جب انہوں نے اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر تجویز پیش کی تو آپؐ نے نہ صرف یہ کہ اس کو تسلیم کیا بلکہ اس پر عملدرآمد بھی کی۔

 

عہد نبوی میں اس فن کی ترغیب دی گئی۔ خلافت راشدہ اور بالخصوص حضرت عمرؓ کے دور میں یہ فن بام عروج کو پہنچا۔ آپؓ کے دور میں علم جغرافیہ کی خصوصی تربیت کے شواہد ملتے ہیں۔ مفتوحہ ممالک میں جغرافیہ سروے کرنے کے لئے ماہرین کی جماعتیں بھیجتے رہتے تھے۔ ایک طرح ایک سروے رپورٹ حضرت عمر ابن العاصؓ نے بھیجی تو وہ اس قدر جامع اور مفصل تھی کہ حضرت عمرؓ پکار اٹھے۔ اے عاص کے بیٹے! خدا تم کو جزائے خیر دے۔ تم نے تو ایسی رپورٹ بھیجی ہے جیسے میں خود مصر دیکھ رہا ہوں۔ اس رپورٹ کا ترجمہ مشہور فرانسیسی اخبار ’’فگارو‘‘ نے شائع کیا اور لکھا تھا کہ اس کو بلاغت، جامععیت اور واقفیت کے اعلٰی نمونےکے طور پر تعلیمی اداروں میں لازمی مطالعہ میں شامل کیا جائے۔[25]

 

معاشی فنون:

رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں جہاں روحانی پہلو کو اہمیت دی۔ وہاں اقتصادی پہلو کا بھی پورا پورا لحاظ رکھا۔ چنانچہ آپؐ نے خالص اسلامی بازار قائم کرکے یہودیوں کے تسلط کو ختم کیا۔ آپؐ نے خود اس کا نظام مرتب کیا۔ اور اس کی نگرانی فرماتے رہے۔ اس بازار کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ فریب، ناپ تول میں کمی، ذخیرہ اندوزی اور دوسروں کو نقصان پہنچانے والی باتوں سے بالکل پاک تھی۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اصحاب رسول ﷺ میں ماہر تجارت، کاریگر، کاشتکار اور ہر کام اور پیشہ کو اختیار کرنے والے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک ماہر تاجر تھے۔ برابر تجارت میں لگے رہے۔ اور دوڑ دھوپ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جس دن خلیفہ بنائے گئے اس دن بھی بازار جانے کا ارادہ کیا۔ [26]حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہ حکم دیا تھا کہ بازار میں کوئی ایسا شخص کاروبار نہ کرے جو علم معاشیات نہ جانتا ہو۔ آپؓ ایسے لوگوں کو سزا دیتے تھے جو فقہ نہ جاننے کے باوجود بازار میں بیٹھیں۔ اس طرح آپ نے بازاروں کو تجارت گاہوں کے ساتھ ساتھ درسگاہیں بھی بنادیا۔ جہاں لوگ باتوں باتوں میں فقہ سیکھتے تھے۔[27]

 

مردم شماری کا فن:

اعداد وشمار کا طریقہ جدید سائنٹیفک طریقہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف یہ کہ اس علم کی حوصلہ افزائی کی بلکہ مدینہ منورہ میں اپنی ریاست کے قیام کے آغاز ہی میں اس طریقے سے فائدہ اٹھایا۔ اور صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ مسلمانوں کی مردم شماری کریں۔ روایت یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت جاری فرمائی کہ کلمہ گو حضرات شمار کیا جائے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے پندرہ سو مردوں کے نام لکھے۔[28]

 

اسلامی ریاست کے آغاز ہی میں اعداد وشمار کے طریقے کو اختیار کرنا اور آسانی سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچانا یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام سائنٹیفک طریقوں کا کس حد تک خیر مقدم کرتا ہے۔[29]

 

میڈیکل میں مہارت:

رسول اللہ ﷺ نے قول وعمل سے طب وعلاج کی طرف رہنمائی کی۔ خود بھی اپنا علاج کرایا اور دوسروں کو بھی علاج کرانے کی ہدایت دی۔ آپؐ نے حضرت ابی بن کعبؓ کے پاس علاج کے لئے ایک طبیب بھیجا۔ جنہوں نے ان کی جراحی (اپریشن) کی۔[30] حضرت سعد بن وقاصؓ کو آپؐ نے اس دور کے مشہور ڈاکٹر حارث بن کلدہ کے پاس بھیجا حالانکہ اس وقت حارث اسلام نہیں لائے تھے[31]۔ اس واقعہ سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ غیر مسلم ڈاکٹر سے علاج کرانا جائز ہے۔ (مثلاً رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی ضرورت کا فیصلہ کرنا وغیرہ) کی وجہ سے کسی مسلمان ڈاکٹر سے علاج کرانا زیادہ بہتر ہے۔[32] ایک صحابىؓ کے زخم سے خون بہنے لگا تو آپؐ نے بنی انمار کے دو اشخاص کو بلایا اور دریافت کیا کہ تم دونوں میں علاج کا زیادہ ماہر کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا علاج میں بھی بھلائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ اسی نے دوا بھی نازل کی ہے جس نے مرض نازل کیا۔[33] امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر علم وفن میں سب سے زیادہ ماہر کی طرف رجوع کرنا چاہئے کیونکہ کامیابی کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔[34]

 

جسمانی تعلیم:

رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کی تفریح طبع، ذہنی بشاشت، سرورونشاط اور جسمانی صحت افزائی کے لئے تفریح اور کھیل کود کی کئی قسمیں نہ صرف یہ کہ جائز قرار دیئے بلکہ خود ان کا حصہ بنے۔ پیغمبر صلي اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوڑ میں مقابلہ کرتے تھے۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جسمانی لحاظ سے چست وچوبند تھی تو وہ دوڑ میں اول آتیں۔ رسول اللہ ﷺ ان کی تحسین فرماتے۔ ایک عرصے بعد جب حضرت عائشہؓ کا وزن بڑھ گیا تو آپؐ نے مقابلہ جیت لیا۔ آپؐ نے خوش مزاجی سے حضرت عائشہؓ سے فرمایا، یہ اس کا جواب ہے۔[35] تیر اندازی ایک فنی کھیل اور جنگی مہارت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بچپن میں تیر اندازی کی مشق کی تھی اور بطور تفریح استعمال بھی کیا تھا۔[36] آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا۔ تیر چلاؤ اور میں تمہارے ساتھ ہوں۔[37] کشتی لڑنے کا کھیل بھی فنون حرب سے تعلق رکھتا ہے۔ آپؐ نے مشہور پہلوان رکانہ بن عبد بن یزید سے نبوت کے بعد کشتی لڑی اور ان کو کئی بار پچھاڑ دیا۔[38] گھڑ سواری ایک ٹریننگ ہے۔ آپ ﷺ صحابہ کرام کے درمیان گھڑسواری کا مقابلہ کرواتے اور خود بھی اس میں شریک ہوتے۔[39]

 

مختصر یہ کہ گھڑ سواری، دوڑ، تیر اندازی، نیزہ بازی، کشتی اور دیگر رائج الوقت کھیلوں کی آپ ﷺ نے حوصلہ افزائی کی بلکہ آپ صلي اللہ علیہ وسلم کی نگرانی اور سرپرستی میں کھیلے گئے۔ اور اول آنے والوں کو خود دربارِ رسالت سے انعامات بھی ملتے تھے۔

 

عربی ادب:

ادب انسان کی زبان کی زینت ہے۔ سب سے بہترین اور جامع ادبی کتاب ’’قرآن مجید‘‘ ہے۔ رسول اللہ ﷺ عربی ادب کی ترویج میں دلچسپی رکھتے تھے۔ صحابہ کرامؓ سے اشعار پوچھتے ، سنتے اور اچھے اشعار پر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتے۔ کعب بن زبیر نے جب آپ صلي اللہ علیہ وسلم کی مدح میں ایک طوفانی قصیدہ کہا [40]تو آپ ﷺنے بطور انعام اپنی چادر انہیں مرحمت فرمائی۔[41] حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی مجلس میں سو سے زیادہ بار بیٹھا ہوں۔ آپ صلي اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مسجد میں اشعار پڑھتے اور زمانہ جاہلیت کی واقعات بیان فرماتے۔ آپؐ انہیں سن کر بعض اوقات تبسم فرماتے۔[42]

 

شرید بن سوید ثقفی فرماتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت ﷺ نے مجھ سے امیہ بن ابی الصلت[43] کے اشعار سنانے کی فرمائش کی۔ میں نے سنانے شروع کئے آپ ﷺ ’’مزید‘‘ ’’مزید‘‘ فرماتے رہے۔ حتی کہ میں نے اس کے ۱۰۰ شعر سناڈالے۔[44]

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں عربی ادب کی ترویج واشاعت میں خصوصی دلچسپی لی۔ مشاعروں کا اہتمام فرماتے تھے۔ شاعروں کو بلا بلاکر ان کے اشعار سنتے اور فرماتے۔

 

كان الشعر علم قوم لم يكن لهم علم أصح منه[45]

 

اشعار کسی بھی قوم کا بہترین سرمایہ ہوتا ہے۔

 

اسی طرح حضرت علىؓ کے دور میں عربی گرائمر کے اصول آپ کی ذاتی نگرانی میں مرتب ہوئے۔ اور غیر عرب طلبہ کے لئے نصاب تعلیم میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔[46]

 

قومی اور بین الاقوامی قوانین کی تعلیم:

رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کو قانون کی تعلیم دیتے تھے۔ قانون کے لئے سب سے پہلا ماخذ کتاب اللہ ہے۔ پھر سنت رسول اللہ ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر بناکر بھیجا توان سے فرمایا۔ ’’اگر تمہارے سامنے کوئی مقدمہ پیش ہوسکے تو کیسا فیصلہ کروگے۔ انہوں نے عرض کیا۔ ’’کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اگر کتاب اللہ میں اس کا حکم موجود نہ ہو تو؟ عرض کیا ’’میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔[47]

 

پیغمبر صلي اللہ علیہ وسلم جس علاقے کو قاضی بھیجتے۔ تو اس کی علمی استعداد معلوم کرتے۔ اس سے قضاء کے بارے میں انٹرویو لیتے۔ اور کامیاب ہونے پر وہ عہدہ اس کو تفویض کرتے۔ اسی طرح خلفاء راشدین کا بھی یہی طرز عمل رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح کو خط لکھا کہ اگر تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے۔ تو جس کا حکم نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول میں تو اس رائے کے مطابق فیصلہ کیجئے۔ جس پر لوگوں کا اجماع ہے۔[48]

 

رسول اللہ کی تعلیمات کی وجہ سے صحابہ کرام میں قانون کے بڑے بڑے ماہرین پیدا ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ نے جو قوانین وضع کئے ترقی یافتہ ممالک میں وہی قوانین آج بھی Umer Laws سے مشہور ہیں۔

 

جديد علوم كي تدريس هر دور كي ضرورت:

جديد علوم اور فني مهارتوں کی تعلیم وتدریس ہر دور میں وقت کا اہم تقاضا ہوا کرتا ہے۔ عہد حاضرکے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے جدیدعلوم کی تحصیل ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ بعض اوقات کسی چیلنج کا مقابلہ کرنا خاص فنی مہارت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس چیلنج کا مقابلہ ایک دیندار اور پرہیزگار شخص کے نسبت ایک فنی ماہر جو زیادہ دیندار نہ ہو اچھا کرسکتا ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ سے کسی نے مشورہ کیا کہ فلاں جگہ جہاد کا معاملہ درپیش ہے۔ مختلف علاقوں سے فوجیں، رضاکاروں اور مجاہدین کے دستے جارہے ہیں۔ ایک فوجی کمانڈر کی سربراہی میں ایک بڑا دستہ تیار ہورہا ہے۔ وہ کمانڈر بڑا متقی اور پرہیزگار ہے۔ بڑا نمازی اور تہجدگزار ہے۔ لیکن عسکری وسیاسی معاملات میں وہ خاص ماہر نہیں ہے۔ البتہ ایک دوسرا شخص ہے جو زیادہ دیندار اور نیک تو نہیں لیکن اس کی عسکری مہارت بڑی مسلمہ ہے۔ تو فرمایئے کہ ہمیں کس کے ساتھ جانا چاہئے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا جو شخص بڑا متقی اور پرہیزگار ہے۔ لیکن عسکری مہارت میں کم درجہ رکھتا ہے۔ اس کی نیکی اور تقوی کا فائدہ اس کی ذات کو ہوگا اور اس کی عسکری عدم مہارت کا نقصان پوری قوم اور اسلامی فوج کو ہوگا۔ جو شخص زیادہ نیک نہیں ہے۔ اس کی نیکی کی کمی کا جو نقصان ہے تو وہ صرف اس کی ذات کو ہوگا۔ لیکن اس کی عسکری مہارت کا فائدہ پوری مسلمان امت کو ہوگا۔ اس لئے ثانی الذکر کو فوجی کمانڈر مقرر کیا جائے۔[49] اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے۔ کہ ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لئےجس طرح دینی اور شرعی علوم کی ضرورت ہے اسی طرح جدید علوم کی تحصیل بھی وقت کا اہم تقاضا ہے۔

 

امام غزالىؒ اور امام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے کہ ایسی تمام مہارتوں اور تخصصات کا حاصل کرنا مسلمانوں کے ذمے فرض کفایہ ہے جن کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان غیر مسلموں کے محتاج بن کر رہیں۔ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محتاجی سے بچانا اور ان کو اپنے تمام دینی ودنیوی معاملات میں خود کفیل بنانا یہ مسلمانوں کے ذمے فرض کفایہ ہے۔[50] جو علوم مسلمانوں کے ذمے فرض کفایہ ہیں۔ ان کے بارے میںؑ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

 

فرض کفایہ ہر وہ علم ہے جس سے انسان دنیوی معاملات میں بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے۔ جیسا طب کہ بقائے جسم کے لئے ضروری ہے۔ اور حساب کہ معاملات اور وصیت ومیراث کی تقسیم کے لئے ضروری ہے۔ اور ایسے علوم ہیں کہ اگر کوئی شہر ان کے جاننے والوں سے خالی ہوجائے تو لوگ تکلیف میں پڑ جائیں گے۔ اور جب کوئی شخص ان کاموں میں لگ جاتا ہے۔ تو دوسری ذمہ داری ساقط ہوجاتی ہے۔ اس لئے ہماری رائے میں اس بات پر تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ طب اور حساب فرض کفایہ ہیں اور بنیادی نوعیت کے کام اور صنعتیں بھی فرض کفایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً زمین جو تنام کیڑے بنانا، جانوروں کی دیکھ بال کرنا بلکہ پچھنے لگوانا اور اسلامی کا کام کرنا بھی۔ اگر کوئی شہر پچھنے لگانے والوںسے خالی ہوجائے۔ تو ہلاکت تیزی کے ساتھ لوگوں کی طرف بڑھے گی۔ کیونکہ جس نے بیماری پیدا کی ہے اور اس کے استعمال کی طرف رہنمائی بھی کی ہے۔ نیز اس کی فراہمی کے اسباب بھی مہیا کئے ہیں۔ اس لئے ان کو ترک کرنا اپنے آپ کو ہلاکت کے لئے پیش کرنا جائز نہیں ہوسکتا۔ [51]

 

خلاصہٴ بحث:

۱۔اسلام نے تعلیم کی دینی اور دنیوی تقسیم نہیں کی ہے۔ یہ خالص مغربی اصطلاح ہے۔ اسلا می تاریخ میں مسلمانوں نے دونوں قسم کے علوم میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اگروہ ایک طرف دینی علوم میں اپنے مثال آپ تھے۔ تو دنیوی علوم میں بھی قابل تقلید نمونہ تھے۔

 

۲۔اسلامی عہد میں عصری اور سائنسی علوم کو نہ صرف یہ کہ قبول کیا گیا بلکہ ان علوم کا ترجمہ اور ان پر مزید ریسرچ وتحقیق کی ترغیب دلائی گئی جس کے نتیجے میں مسلمانوں نے معاشرے کو وہ سائنسدان دیئے جن کے ذکر کے بغیر سائنس ادھوری رہے گی۔

 

۳۔قرآن جو ایک جامع کتاب ہے۔ اس سے بھی ایسے سینکڑوں علوم مستنبط ہوتے ہیں۔ جن کا تعلق خالص دنیوی معاملات سے ہے۔ گویا دنیوی معاملات کے بارے میں ضروری علوم وفنون سیکھنا قرآن کا مطلوب ہے۔

 

۴۔رسول اللہ ﷺ نے قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے رائج الوقت مختلف علوم وفنون کی بھی ترغیب دی۔ جس کی ضرورت اس وقت کے سوسائٹی نے محسوس کی۔ غیر ملکی زبانیں قدیم سائنسی علوم، علم جغرافیہ، معاشی فہون، مردم شماری، طب، جسمانی تعلیم، عربی ادب اور قانون جیسے اہم علوم کی نہ صرف یہ کہ حوصلہ افزائی کی۔ بلکہ خود ان ہی مجالس کا حصہ رہے۔

 

۵۔رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کی ایک ایسی جماعت تیار کی جو مختلف علوم وفنون میں مہارت رکھتے تھے۔ اور بوقت ضرورت درپیش مسائل ومشکلات کے حل میں اپنا کردار ادا کرتے۔

 

حوالہ جات

  1. ابو غدہ، ابو الفتاح، الرسول المعلم واسالیبہ فی التعلیم، ص۵۴ٹ بیروت، دارالبشائر الاسلامیہ، ۱۹۹۷، بحوالہ الفردوس الدیلمىؒ، ج۲، ص۳۵۱۔
  2. ایضاٍ۔
  3. غازی، محمود احمد، محاضرات معیشت وتجارت، ص۳۵۳، اسلام آباد، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، ۲۰۰۹۔
  4. البانی، ناصر الدین، صحیح نسائی، الدول الخلیج، مکتبہ التربیہ، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۱۱۱۳۔
  5. جدون، سعید الحق، ہماری تعلیمی زبوں حالی اسباب اور تدارک، ص۳۸، صوابی، جدون پبلی کیشنز، ۲۰۱۱۔
  6. فضل اللہ، قاضی، ماہنامہ پیام حق نوشہرہ، فروری ۲۰۱۱، ج۴، شمارہ۲، مقالہ نگار قاضی فضل اللہ، کائنات میں تفکر وتدبر، ص۳۴۔
  7. سیوطی، علامہ جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، ج۲، ص۱۲۷، ۱۲۸، مصر، مطبعة الازھریہ، ۱۹۶۵۔
  8. ایضاٍ۔
  9. الکتانی، مولانا عبد الحئ بن عبد الکبیر الاندلسی، نظام حكومة النبوية، لبنان، دار الکتب بیروت، ۱۹۹۹، ج۲، ص۳۱۳۔
  10. البانی، ناصر الدین، سنن ابی داؤد، الدول الخلیج، مکتبہ التربیہ، ۱۴۰۹، ج۱، ص۴۹۰۔
  11. ایضا
  12. ابن حنبلؒ، امام احمد، مسند احمد، لبنان، مطبوع بیروت،۱۹۸۷، ج۲، ص۳۴۷۔
  13. مبارکپوری، قاضی اظہر، خیرالقرون کی درسگاہیں، ص۱۷، لاہور، ادارہ اسلامیات، ۲۰۰۰ بحوالہ الجرح التعدیل، ج۲،ص۷۳۔
  14. مبارکپوری، قاضی اطہر، خیرو القرون کی درسگاہیں، ص۱۱۷، لاہور، ادارہ اسلامیات، ۲۰۰۰، بحوالہ کتاب الثعات، ج۴، ص۲۷۵۔
  15. مبارکپوری، قاضی اطہر، خیرون القرون کی درسگاہیں، ص۱۱۷، لاہور، ادارہٴ اسلامیات ۲۰۰۰، بحوالہ کتاب الثقات، ج۴، ص۳۱۴۔
  16. القرضاوی، یوسف، الرسول والعلم، مترجم ابو مسعود اظہر ندوی، ص۷۵، لاہور، اسلامک بک ڈپو۔ ۱۹۹۸۔
  17. ایضاٍ، ص۷۶، ۷۷
  18. ایضاٍ، بحوالہ جامع بیان العلم وفضلہ۔
  19. القرضاوی، الرسول والعلم، ص۷۶، بحوالہ ترمذی، لاہور اسلامک بک ڈپو۔
  20. السجستانی، ابوداؤد وسلیمان بن الاشعث، سنن ابو داؤد، ج۲، ص۷۲۴، حدیث نمبر۳۳۷۹، مقبول اکیڈمی لاہور، ۲۰۰۰۔
  21. مبارکپوری، قاضی اطہر، خیرالقرون کی درسگاہیں، ص۱۱۷، لاہور، ادارہٴ اسلامیات، ۲۰۰۰۔
  22. القرضاوی، یوسف، الرسول والعلم، ص۷۴، بحوالہ مسند احمد، لاہور، اسلامک بک ڈپو، ۱۹۹۸۔
  23. غازی، محمود احمد، مسلمانوں کا دینی اور عصری نظام تعلیم، ص۲۶، گجرانوالہ، الشریعہ اکادمی، ۲۰۰۹۔
  24. القرضاوی، یوسف، الرسول والعلم، مترجم، مسعود اظہر ندوی، ص۷۴، لاہور، اسلامک بک ڈپو، ۱۹۹۸ء۔
  25. غازی، محمود احمد، مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم، ص۸۷، گجرانوالہ، الشریعہ اکادمی، ۲۰۰۹۔
  26. القرضاوی، یوسف، الحلال والحرام فی الاسلام، ص۱۷۲، ۱۷۳، لاہور، اسلامک پبلی کیشنز، ۲۰۰۸۔
  27. غازی، محمود احمد، مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم، ص۷۹، گجرانوالہ، الشریعہ اکادمی، ۲۰۰۹۔
  28. ایضا
  29. القرضاوی، یوسف، الرسول والعلم، مترجم، ابو مسعود اظہر ندوی، ص۶۸، لاہور، اسلامک بک ڈپو، ۱۹۹۸ء۔
  30. السجستانی، ابو داؤد، سلیمان بن الاشعث، سنن ابی داؤد، ج۲، ص۵۰۳، حدیث نمبر ۳۵۹۳، مقبول اکیڈمی لاہور، ۲۰۰۰
  31. الجستانی، ابو داؤد وسلیمان بن الاشعث، سنن ابی داؤد، ج۲، ص۸۰۴، حدیث نمبر ۳۶۰۴، مقبول اکیڈمی لاہور، ۲۰۰۰۔
  32. القرضاوی، یوسف، الرسول والعلم، مترجم ابو مسعود اظہر ندوی، ص۸۲، لاہور، اسلامک بک ڈپو، ۱۹۹۸۔
  33. ایضاٍ۔
  34. القرضاوی، یوسف، الرسول والعلم، مترجم ابو مسعود اظہر ندوی، ص۸۲، بحوالہ زاد المعاد، لاہور اسلامک بک ڈپو، ۱۹۹۸۔
  35. السجستانی، ابو داؤد سلیمان بن الاشعث، سنن ابی داؤد، الخلیل پبلشنگ ہاؤس راوالپنڈی، ۱۳۱۴ھ، ج۱، ص۳۵۵
  36. صدیقی، پروفیسر یاسین مظہر، عہد نبوی کا تمدن، دار النوادر، لاہور، ص۲۰۱۱، ص۷۰۷
  37. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، اصح المطابع، دہلی ۱۹۳۸، ج۱، ص۴۰۶،
  38. صدیقی، پروفیسریاسین مظہر، عہد نبوی کا تمدن، دارالنوادر، لاہور، ۲۰۱۱، ص۷۱۳۔
  39. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، اصح المطابع، دہلی، ۱۹۳۸، ج۱، ص۴۰۲۔
  40. فی النقد والادب، ج۲، ص۱۵۲۔
  41. عباسی، ابن الحسن، مقدمہ توضیح الدراسہ، ص۱۸، مکتبہ عمر فاروق کراچی، ۲۰۰۵، بحوالہ العصر الاسلامی، ج۲، ص۸۵۔
  42. ایضاٍ، بحوالہ طبقات ابن سعد، ص۳۸۲، ج۱۔
  43. امیہ بن ابی الصلت مخضرمی ہیں۔ لیکن اسلام نہیں لایا۔ ان کے اشعار کو رسول اللہ ﷺ بہت زیادہ پسند فرماتے تھے۔ ایک موقع پر اس کے اشعار سننے کے بعد آپؐ نے فرمایا: ’’آمن شعره وكفر قلبه‘‘ یعنی اس کے شعر نے ایمان لایا لیکن اس کے دل نے کفر کیا۔
  44. (ایضاً بحوالہ الاغانی، ج۳، ص۱۹۱)۔
  45. ایضاً، بحوالہ طبقات فحول الشعراء، ص۲۲
  46. غازی، محمود احمد، مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم، ص۲۹، گجرانوالہ، الشریعہ اکادمی، ۲۰۰۹۔
  47. جوزیہ، ابن قیم، اعلام الموقعین، ج۱، ص۱۷۵، مطبوعہ دمشق، ۱۹۸۸۔
  48. الدسوقی، ڈاکٹر محمد، امام محمد بن الحسن الشیبانی، اور ان کی فقہی خدمات، ص۳۹
  49. غازی، محمد احمد، مسلمانوں کا دینی وعصری نظامی تعلیم، ص۲۶، گجرانوالہ الشریعہ اکیڈمی، ۲۰۰۵۔
  50. غزالی، امیر محمد بن محمد بن احمد، احیاء العلوم، ج۱، ص۳۲، لاہور، ملک سراج الدین، اینڈ سنز پبلشرز۔
  51. ایضاً۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...