Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 34 Issue 2 of Al-Idah

خلع میں شوہر کی رضامندی و عدم رضامندی: یک طرفہ فیصلے کی شرعی حیثیت |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060034497_761

Pages

59-72

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/65/60

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/65

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

شرعی معاملات کی طرح خُلع بھی ایجاب و قبول کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ تمام فقہاء اور مجتہدین کااتفاق ہے کہ خلع شوہر اور بیوی کاایک باہمی معاملہ(Transaction)ہے جو فریقین کی رضا مندی پر موقوف ہے۔ چنانچہ کوئی فریق دوسرے کو اِس پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اگر شوہر زیادتی کا مرتکب ہو تو تقریبًا تمام فقہاء کا اتفاق ہے، اِس صورت میں اِسے چاہیے کہ وہ معاوضہ کے بغیربیوی کو طلاق دے دے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً‘‘[1]

ترجمہ: اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو اور پہلی عورت کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اِس میں کچھ مت لینا،  بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اِس سے واپس لو گے؟

ا للہ تعالیٰ نے اِس آیت میں مہر کو واپس لینے سے منع فرمایا جو شوہر اِسے دے چکا ہو اور پھر اللہ تعالیٰ نے اِس نہی کی اپنے اِس ارشاد سے تاکید کی:

أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً. [2]

اور پھر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلاَّ أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ‘‘ [3]

ترجمہ: جوکچھ تم نے اِن کو دیا ہے اِن میں سے کچھ لے لو انہیں(گھروں میں) مت روک رکھنا، ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہو ں (تو روکنا نامناسب نہیں)

فقہاء اور مجتہدین کا اتفاق ہے کہ یہ ایک باہمی معاملہ ہے ایسے مقدمات جن میں شوہر خلع دینے پر رضا مند نہ ہو تو ایسے معاملات پر فقہاء کے مابین اختلاف رائے پایاجاتا ہے کہ آیا شوہر کی رضا مندی شرط ہے یا بغیر شوہر کی رضا مندی میں سے یک طرفہ عدالتی فیصلہ سے خلع حاصل کیا جا سکتا ہے۔جب کہ آیتِ خلع:

’’أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ‘‘[4]

’’اگر زوجین کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (شوہر ) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اِن سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گناہ گار ہوں گے‘‘۔

اِس آیت کی تفسیر میں فقہاء اور مفسرین نے اپنے اپنے اقوال پیش کئے ہىں: آیت فيما افتدت کے الفاظ بھی قابلِ غور ہیں ۔ اس میں بدل خلع کو فدیہ اورعورت کی ادائیگی کو افتداء کہا گیا ہے۔ابنِ قیم کی رائے میں خلع ایک عقدِ معاوضہ ہے۔ جس میں فریقین کی رضا مندی شرط ہے۔یہ معاملہ بہ اتفاق اىک معاوضہ ہوتا ہے۔ جس میں فریقین کی رضا مندی لازمی شرط ہے اور کوئی فریق دوسرے کو اس پر مجبور نہیں کرسکتا۔ ابن قیم لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے جو خلع کا نام فدیہ رکھا، یہِ اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں معاوضہ کے معنی پائے جاتے ہیں۔ اِس لیے اس میں زوجین کی رضا مندی کو لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔[5]

مولانا اشرف علی تھانویؒ اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اور تمہارے لیے یہ بات حلال نہیں کہ( بیویوں کو چھوڑتے وقت اِن سے) کچھ بھی لو ( گو وہ لیا ہوا)اس (مال) میں سے کیوں نہ ہو۔ جو تم ہی نے ان کو مہرمیں دیا تھا مگر ایک صورت میں البتہ حلال ہے۔ وہ یہ کہ کوئی میاں بیوی ایسے ہوں کہ دونوں کو احتمال ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ضابطوں کو ادائے حقوقِ زوجیت مىں قائم نہ کر سکیں گے، سو اگر تم لوگوں کو(یعنی میاں بیوی کو) ىہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کو قائم نہ کر سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہو گا ۔اِس( مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑا لے۔[6]

ابو بکر جصاصؒ فرماتے ہیں: اگر خلع کایہ اختیار حاکم کوہوتا کہ وہ جب دیکھے کہ زوجین حدود اللہ کو قائم نہ کریں گے ( تو خود نکاح فسخ کر دے) خواہ زوجین چاہیں یا نہ چاہیں تو آپ جمیلہ اور ان کے شوہر سے اس معاملے میں کچھ نہ پوچھتے اور نہ شوہر سے یہ کہتے کہ تم اُن سے خلع کرلو بلکہ خود خلع کر کے شوہر کاباغ اُن کو لوٹا دیتے، چاہے وہ دونوں انکار کرتے یا اُن میں سے کوئی ایک انکار کرتا۔[7]

امام سرخسیؒ کی رائے میں ’’خلع حاکم کے پاس بھی جائز ہے اورحاکم کے بغیر بھی، اِس لیے کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی ساری بنیاد باہمی رضامندی پر ہے اور یہ معاوضہ لے کر طلاق دینے کے حکم میں ہے، شوہر کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے۔[8]

اگر زوجین کے مابین خلع کے معاملات گھر میں ہی طے ہو جائیں تو جو کچھ طے ہواتھا وہی نافذ ہو گا لیکن عدالت صرف اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اس مرد سے اس حد تک متنفر ہو چکی ہے کہ اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی تو اس کی تحقیق ہوجانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے تجویز کرے اور اس فدیہ کو قبول کر کے شوہر اسے طلاق د ے دے۔[9]

فقہاء و مجتہدین کی آراء اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ خلع صرف میاں بیوی کی باہمی رضا مندی سے ہو سکتا ہے اور ان میں سے کوئی فریق دوسرے کو اس پر مجبور نہیں کرسکتا جىسا کہ امام شافعیؒ کی رائے میں خلع طلاق کے حکم میں ہے، لہذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے کی طرف سے طلاق دے چنانچہ باپ، آقا، سرپرست اور حاکم کو یہ حق حا صل نہیں۔[10]

ابو اسحٰق شیرازی ؒ لکھتے ہیں کہ اس لیے کہ یہ (خلع) باہمی رضا مندی سے عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام ہے جو ضرر دور کرنے کے لیے مشروط ہوا ہے لہذاجہاں کسی فریق کو ضرر نہ ہو وہاں( بدرجہ اولیٰ) جائزہے۔[11]

خلع کا جواز اور عدم جواز

جمہور فقہاء کا اتفاق ہے کہ خلع باہمی رضا مندی کے ساتھ جائز ہے بشرطیکہ عورت کے مال کی ادائیگی پر راضی ہونے کا سبب مرد کی طرف سے اسے تنگ کرنا نہ ہو۔[12]

ابنِ قدامہؒ کی رائے میں یہ عقدِ معاوضہ ہے۔ لہذا اِس کے لیے حاکم کی ضرورت نہیں جیسا کہ بیع اور نکاح دوسرى طرف خلع باہمی رضا مندی سے عقد کو ختم کرنے کا نام ہے لہذا یہ اقالہ(فسخ بیع) کے مشابہ ہے۔[13]

خلع میں شوہر کی رضا مندی اور عدم رضا مندی پر فقہاء کے دلائل ذکر کئے گئے ہیں۔ وہ فقہاء جو خلع میں شوہر کی رضا مندی کو مشروط قرار دیتے ہیں تو وہ دوسرے معاملات کی طرح خلع کارکن بھی ایجاب(offer)اور قبول(acceptance)کو قرار دیتے ہیں۔ مثلًا امام کاسانی ؒ کی رائے میں ’’خلع کا رکن ایجاب و قبول ہے۔ کىونکہ یہ معاوضہ کے ساتھ طلاق کا معاملہ ہے۔ لہذا بغیر قبول کے علیحدگی واقع نہیں ہو گی۔[14]

خلع میں شوہر کی رضا مندی کا مسئلہ مختلف فیہ ہے ۔ پاکستان کے عدالتی فیصلوں میں خورشید بی بیPLD 1976 سپریم کورٹ پر جسٹس ایس اے رحمان نے اِس اختلاف پر تبصرہ کیا اس میں جن فقہاء کے اقوال سے استدلال کیا ہے اِن کی روشنی میں مندرجہ ذیل آراء سامنے آ ئیں۔

(i) تمام ائمہ کااس پر اختلاف ہے کہ اگرعورت اپنے شوہر کی بدصورتی یا سوئے معاشرت کی بناء پر نا پسند کرتی ہو تو اِس کے لیے جائز ہے کہ وہ شوہر سے معاوضہ پر خلع کا معاملہ کرے اور اگر نا پسندیدگی کی کوئی وجہ نہ ہو اورزوجین بلا وجہ راضی ہو جائیں تب بھی جائز ہے اور مکروہ نہیں، البتہ اس میں امام زہری، امام عطاؒ اورامام داؤدؒ کااختلاف ہے۔ ان کی رائے میں اِس حالت میں خلع صحیح نہیں ہے۔ اِس لیے وہ عبث ہے غیرمشروع ہے۔[15]

جسٹس ایس اے رحمان نے عمدۃ القاری کے حوالے سے امام مالکؒ ، امام اوزاعیؒ اور امام اسحق ؒ کا یہ مسلک نقل کیا ہے کہ اِن کے نزدیک زوجین کے مابین مصالحت کرانے کے لیے جو حَکَم بھیجے جاتے ہیں اِن کو تفریق کابھی اختیار ہوتا ہے اور اگر وہ مناسب سمجھیں تو شوہر کی اجازت کے بغیر بھی تفریق کرا سکتے ہیں۔[16]

آیت خلع میں لفظ فان خفتم میں خطاب أولی الأمر منکم سے مراد قاضی یا تم میں اختیار رکھنے والے لوگ مراد ہیں۔ جواس طرح کے نزاعی معاملات کاحل پیش کریں۔[17]

امام شوکانی ؒ کی رائے میں اگر خلع طلاق کی قسم ہے تویہ قسم شوہر کی رضا مندی پر منحصر نہیں ہے۔[18]

اِن فقہی آراء سے ثابت ہوتا ہے کہ خلع کے حصُول میں شوہر کی رضامندی لازمی نہیں ہے۔جسٹس ایس اے رحمان نے جن فقہاء و مفسرین کے اقوال سے استدلال کیاہے ان کے استدلال پر جسٹس تقی عثمانی تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ امام مالکؒ نے حکمین کو یہ اختیار دیا ہے لیکن امام ابو حنیفہ، ؒ اما م شافعی،امام احمد بن حنبلؒ اور دوسرے تمام فقہاء کامسلک بھی یہی ہے کہ جب تک شوہر حکمین کو اپنا وکیل مختار بنائے اس وقت تک ان کو شوہر کی مرضی کے بغیر تفریق کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ ان حضرات کا استدلال یہ ہے کہ قرآن کریم میں حکم بھیجنے کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں کیا گیا ہے۔

’’وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا ‘‘ [19]

ترجمہ: اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑ جانے کااندیشہ ہو تم ایک حکم مرد کى طرف سے اور اىک عورت کی طرف سے بھیجو، اگر وہ دونوں اصلاح کا ارادہ کریں گے تو اللہ تعالی زوجین کے اندر موافقت پیدا فرما دے گا۔

مولانا تقی عثمانی لکھتے ہیں کہ اِس آیت کاآخری جملہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ حکم زوجین کے درمیان تفریق اورعلیٰحدگی کے لیے نہیں بلکہ دونوں میں موافقت پیدا کرنے اور پھوٹ سے بچانے کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔[20]

تقی عثمانی امام شافعیؒ کی رائے کاحوالہ دیتے ہیں کہ جب زوجین کے درمیان پھوٹ کااندیشہ ہو اور وہ حاکم کے پاس اپنا معاملہ لے جائیں تو اِس پرواجب ہے کہ ایک حکم شوہر کی طرف سے اورایک حکم بیوی کی طرف بھیجے، یہ حکم اہلِ قناعت اور اہلِ عقل میں سے ہوں تا کہ اِ ن کے معاملے کی تحقیق کریں اور حتی المقدور مصالحت کرائیں لیکن حاکم کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ حکمین کو اپنی رائے سے شوہر کے حکم کے بغیر تفریق کاحکم دے اورنہ وہ عورت کا کوئی مال اس کی اجازت کے بغیر شوہر کو دے سکتے ہیں۔ پس اگر زوجین میں مصالحت ہو جائے تو بہتر ورنہ حاکم پر یہ واجب ہے کہ وہ فریقین میں سے ہر ایک پر دوسرے کے جانی، مالی، اور ادبی حقوق واجبہ کی ادائیگی کا فیصلہ کرے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہ ذکر فرمایا ہے کہ ’’إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا ‘‘ ا (اگر وہ دونوں اصلاح کا ارادہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ دونوں میں موافقت پیدا فرما دے گا)اور تفریق کا کوئی ذکر نہیں فرمایا۔ ہاں البتہ حاکم کے لیے میں پسند کرتاہوں کہ وہ زوجین سے کہے کہ وہ حکمین کے ہر فیصلے پر راضی ہوجائیں اوردونوں انہیں اپنا وکیل بنا دیں شوہر حکمین کو اس بات کا وکیل بنائے کہ وہ اگرمناسب سمجھیں تواپنی رائے کے مطابق کچھ لے کر یا بغیر کچھ لئے تفریق کر دیں۔[21]

موخر الذکرُ فقہاء اورُ علماء کے تبصرہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شوہر خلع کو قبو ل کر لے اور باہمی رضا مندی سے یہ مسئلہ حل ہو جائے تو اسلامی معاشرہ میں احسن طریقہ یہی ہو گا مگر ایسے حالات جہاں شوہر معاملات خلع پررضا مند نہ ہو اور نہ ہی طلاق دینے پر آمادہ ہو اورعورت اپنی ازدواجی زندگی کو شوہر کے ساتھ جاری رکھنے پررضا مند نہ ہوتو اِن فقہاء کی آراء جو شوہر کی رضا مندی کو شرط قرار نہیں دیتے۔ اِس پر قیاس کرتے ہوئے اِس مسئلہ کا حل پیش کیاجا سکتاہے۔ قانون جس کا کام اشخاص کے حقوق متعین کرنا ہے اِس پہلو سے بحث نہیں کرتا۔ وہ جس طرح مرد کو شوہر ہونے کی حیثیت سے طلاق کا حق دیتا ہے۔ عورت کو بھی حقِ خلع دیتا ہے تاکہ دونوں کے لیے بوقتِ ضرورت عقد نکاح سے آزادی حاصل کرناممکن ہو۔ اور کوئی فریق بھی ایسی حالت میں مبتلا نہ کر دیا جائے کہ دل میں نفرت ہے۔ اِس و قت مقاصد نکاح پورے نہیں ہوتے جب رشتہ ازدواج ایک کلفت بن جا ئے جہاں عورتوں کے لیے تنگی ہو وہاں شریعتِ اسلامیہ شوہروں کوہدایت کرتی ہے کہ جب عورتیں خلع کرناچاہیں تو انہیں روکا نہ جائے۔خلع کا سب سے مشہور مقدمہ وہ ہے جس میں ثابتؓ بن قیس سے اُن کی بیویوں نے خلع کیا ہے۔ ان کی ایک بیوی جمیلہ بنت ابی بن سلول تھیں، انہیں ثابتؓ کی صورت نا پسند تھی۔ انہوں نے نبی کریمﷺ کے پاس خلع کے لیے مرافعہ کیا اور اِن الفاظ میں اپنی شکایت پیش کی:

وما أعتب عليه فی خلق ولا دین و لکني أکره الکفر فی الاسلام,[22]

ترجمہ: میں اس کے دین اور اخلاق پرکوئی حرف نہیں رکھتی مگر مجھے اسلام میں کفر کاخوف ہے۔

جب نبی کریمﷺ نے یہ شکایت سنی اور فرمایا کہ’’اتردين عليه حديقته التي أعطاک‘‘ جو باغ تجھ کو اس نے دیا تھا وہ تو واپس کر دے گی؟ انہوں نے عرض کیا ہاں! یا رسول اللہ، بلکہ وہ زیادہ چاہے تو زیادہ بھی دوں گی حضورﷺنے فرمایا ’’أما الزياده فلا ولکن حديقته‘‘زیادہ تو نہیں مگر تو اس کاباغ واپس کر دے۔ پھر ثابتؓ کو حکم دیا کہ ’’أقبل الحديقة وطلقها تطليقة‘‘ باغ قبول کر لے اور اس کو ایک طلاق دے دے۔[23]

اِسی طرح ثابت کی ایک اور بیوی حبیبہ بنت سہیل الانصاریہ تھیں۔ ابن ماجہ نے حبیبہ کے جو الفاظ نقل کئے ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ حبیبه کو بھی ثابت کیخلاف جوشکایت تھی وہ مار پیٹ کی نہیں بلکہ بد صورتی کی تھی۔ اِسی طر ح ربیع بنت معُوذ بن عفراء نے اپنے شوہر سے اپنی تمام املاک کے معاوضہ میں خلع حاصل کرناچاہا، شوہر نہ مانا، حضرت عثمانؓ کے پاس مقدمہ پیش ہواحضرت عثمانؓ نے اِس کو حکم دیا کہ اِس کی جائيداد ميں سے کچھ لے لے اور اس کو خلع دے دے۔[24]

اِن روایات سے یہ امر متحقق ہو گیا کہ اِن عورتوں کے دِل میں شوہر کی طرف سے نفرت و کراہت بیٹھ چکی ہے تو آپ نے اِن کی درخواست کو قبول فرما لیا کیونکہ نفرت وکراہت کے ساتھ ایک عورت اور مرد کو جبراً ایک دوسرے سے منسلک رکھنے کے نتائج دین اور اخلاق و تمدن کے لیے طلاق وخلع کی نسبت زیادہ خراب ہیں۔ اِن سے تومقاصد شریعت ہی کے فوت ہو جانے کاخوف ہے۔ نبی کریمﷺ کے عمل سے یہ قاعدہ نکلتا ہے کہ خلع کاحکم نافذ کرنے کے لیے محض اس بات کاتحقیق ہو جانا کافی ہے کہ عورت اپنے شوہر کوقطعی ناپسند کرتی ہے اور اِس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔

آثار وقرائن سے ثابت ہوتا ہے کہ نفرت وکراہت کی تحقیق کے لیے قاضی شرعاً کوئی مناسب تدبیر اختیار کر سکتاہے تا کہ کسی شبہ کی گنجائش نہ رہے اور بالیقین معلوم ہو جائے کہ زوجین میں اِس رشتہ کاقائم رہنا ناممکن ہے۔ عورت کواپنے شوہر سے بہت سے ایسے اسباب کی بناء پر نفر ت ہو سکتی ہے جس کوِ کسی کے سامنے بیان نہیں کیا جا سکتا تو سننے والا نفرت کے لیے کافی نہ سمجھے گا، لیکن جس کو اِن اسباب سے رات دن سابقہ پیش آتا ہے اِس کے دل میں نفرت پیدا کرنے کے لیے وہ اسباب کافی ہوتے ہیں۔

اُمتِ مسلمہ کے تمام افراد افہام وتفہیم کے لحاظ سے یکسانیت نہیں رکھتے، ایسے معاملات میں شرعی عدالتیں اپنے فرائض سر انجام دے سکتی ہیں۔قاضی یا حکمین کا کردار مسلم معاشروں میں اہم کردار ادا کر تاہے۔ ایسے مقدمات جن میں زوجین باہمی رضا مندی سے خلع کا اطلاق نہ کرسکیں، تو قاضی کاکردار اِس قا نون کے اطلاق میں معاون ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ شریعت میں عائلی معاملات کی نزاعی صورت میں قاضی سے رجوع کی سہولت رکھی گئی ہے۔ شوہر کی خلع میں رضا مندی کی صورت میں کوئی متنازعہ صورت موجود نہیں ہوتی۔ مگروہ نزاعی معاملات جن میں زوجین معاملات طے نہ کرسکیں توعدالت سے رجوع کرنے کا جواز موجود ہے۔

ہر ذی شعور میں طبائع اختلاف موجود ہے جو بسااوقات شدید ترینُ صورتِ حال کاپیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں اِس لیے عورت کے حقِ خلع کو بھی کسی اخلاقی لحاظ سے مقید نہیں ہوناچاہیے۔ کوئی طالب خلع عورت دوحال سے خالی نہ ہو گی۔ یا وہ فی الحقیقت خلع کی جائزضرورت رکھتی ہوگی یامحض ذواقہ ہو گی۔ اس لیے شوہر کی عدم رضامندی پر عدالتوں کو عورت کے داخلہ دعویٰ خلع پر حقائق کی بنیاد پر یک طرفہ فیصلہ جاری کرنے کا اختیاررکھنامعاملات کے سلجھاؤ کی طرف ایک قدم ہو گا۔ عورت کے میلانِ طبع اس طرف مائل نہ ہو تو بجز اس یک طرفہ عدالتی فیصلے کے اورکیاراستہ ہو سکتاہے۔ حضرت عمرؓ کے دور میں ایک عورت کو آپ ﷺ کے پاس لایا گیا جواپنے شوہر سے خلع کی طلب گار تھی، آپؓ نے اسے سمجھایامگر وہ مسلسل خلع کی طلب گار رہی، حضرت عمرؓ نے اسے تین دن کے لیے بہت سے اونٹوں والے باڑے میں بند کر دیا۔ پھر اسے بلا کو پوچھا، اب تمہاری کیا رائے ہے۔ وہ بولی اے امیر المومنین! مجھے یہی تین دن تو آرام کے میسر آئے ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اِس کے شوہر سے فرمایا کہ اس سے خلع کر لو خواہ اس کے کان کے بُندے پر کرو۔[25]

ان حقا ئق سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے ایسے حالات میں جہاں نفرت و کراہت اس درجہ موجود ہو اورشوہر کی عدم رضا مندی کی صورت میں اگر یک طرفہ عدالتی فیصلوں یاقاضی کی مداخلت کو کلیۃ کاَ لعدم قرار دے دیاجائے توپھر عورت مجبورہوجائے گی کہ وہ اِس تعلق میں بندھی رہے۔ خواہ حدودا للہ پرقائم رہنا اِس کے لیے محال ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اورمناکحت کے شرعی مقاصد بالکل ہی کیوں نہ فوت ہو جائیں۔ کیاشریعتِ اسلامیہ پر اِس بے انصافی کا الزام عائد ہو سکتا ہے؟

نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے پاس خلع کے دعویٰ لے کر عورتوں کاآنا اورآپﷺ کااِن کی سماعت کرنا اِس بات کی دلیل ہے کہ جب زوجین میں خلع پر راضی نامہ نہ ہو سکے توعورت کا قاضی سے رجوع کرنے کا جواز موجود ہے۔نبی کریمؐ اور خلفائے راشدین کے جتنے فیصلے منقول ہیں ان سب میں یاتو صیغۂ امر آیا ہے جیسے طلقها(اسے طلاق دے) فارقها ( اسے سے جدُا ہو جا) اور خل سبيلها. ( اس کو چھوڑ دے) یا یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺنے مرد کو حکم دیا کہ ایساکرے۔[26] ابن جریر ؒ نے ابن عباسؓ سے جوروایت نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ففرق بينهما پھر آپ ﷺنے اُن کوُ جدا کر دیا۔ اوریہی الفاظ اِس روایت میں بھی ہیں جو خود جمیلہ بنت ابی بن سلول سے منقول ہے اِس کے بعد یہ شبہ کرنے کی گنجائش نہیں رہتی کہ قاضی خلع کے معاملہ میں حکم دینے کامجاز نہیں۔در حقیقت خلع کے معاملہ میں عدالت کی اجازت کے جائز نہ ہونے کے جوُ فقہاء قائل ہیں اِن کے نزدیک خُلع کامعاملہ زوجین کی باہمی رضا مندی کے ساتھ اور دونوں میں سے ایک کے ایجاب اور دوسرے کی قبولیت کے ساتھ ہے۔ اِسی پرقیاس کرتے ہوئے اِس کے جواز اور ضمانت کے لیے قاضی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ جس طرح دوسرے معاہدوں کے جواز کے لیے کوئی حاجت نہیں جیسے وہ خلع کے جواز اور اِس کے درست ہونے کے لیے قاضی کی اجازت کی شرط نہیں لگاتے۔ امام احمدؒ کے نزدیک خلع سلطان کے بغیر جائز ہے۔ امام بخاریؒ نے اِس کو حضرت عمرؓ اور عثمانؓ سے روایت کی اور شریحؒ و الزهریؒ ،امام مالکؒ اور امام شافعیؒ و اسحاقؒ اور اہل الرائے اسی رائے پر متفق ہیں۔[27]حسنؓ اور ابن سیرین ؒ سے روایت ہے کہ خلع سلطان کے ذریعہ سے جائزہے۔

جصاص نے أحکام القرآن میں سعید بن جبیرؒ سے روایت کیاہے کہ خلع اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ( شوہر) اس کو نصیحت نہ کرے اگروہ نصیحت مان لے تو درست ہے ورنہ فریقین حاکم یاسلطان کے پاس معاملہ لے جائیں پس وہ ایک ثالث بنائے اِس (شوہر) کے خاندان میں سے اور ایک اِس(بیوی) کے خاندان میں سے وہ دونوں حاکم کے سامنے بیان کریں جو کچھ وہ سنے اِس کے بعد اگر وہ فیصلہ کرے علیحدگی کا تو علیحدگی کرا دے۔ اگر مفاہمت کافیصلہ کرے تومفاہمت کرا دے۔[28] ابنِ حزم ؒ کی رائے میں بھی خلع صرف سلطان کے ذریعہ جائز ہے۔[29] ابن حجرعسقلانی ؒ نے ابوعبید ہؓ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ خلع کے جواز کے لیے قاضی کی اجازت کی شرط لگانے کے لیے ایک آیت سے استدلال کیا ہے۔ 

’’وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا‘‘ [30]

’’اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں عدمِ نبھاؤ ہے تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کر و وہ اگر صلح کرا دینی چاہیں گے تو خدا ان میں موافقت پیدا کر دے گا ‘‘۔

خوف کالفظ زوجین کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے آیا ہے۔[31]

جمہورُ فقہاء جو سلطان یا اس کے نائب قاضی کی اجازت کے بغیر خلع کو جائز قرار دیتے ہیں وہ اس بات سے استدلال کرتے ہیں کہ طلاق حاکم کے بغیر جائز ہے۔ تو اسی طرح بھی جائز ہے۔ آیت کریمہ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ اس آیت میں مراد ائمہ کی اجازت ہے کہ زوجين ميں نزاع کى صورت مىں ان کو واجبات کی ادائیگی اور دیگر معاملات خلع طے کر دینے چاہئیں زوجین میں نزاعی صورت میں لیکن اِس سے یہ مراد نہیں ہے کہ معا ملہ ان تک لے جانے کی وجہ ان کی اجازت لینا ہے کہ خلع جائز ہو جائے۔[32]

رہا یہ سوال کہ شوہر اس حکم کو محض مشورہ سمجھ کر ماننے سے انکار کر دے تو کیا عدالت اِسے جبراً اپنا حکم منوا سکتا ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے عہد میں تو ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ آپ نے کوئی فیصلہ صادر کیا ہو اور کسی نے اس کی سرتابی کی ہو۔نزاعی معاملات میں قاضی کو اختیارات دینے سے تمام معاملات کا ایک مستحکم حل نکلتا ہے تو پھر ایک خلع ہی کا مسئلہ ایسا ہے جسے عدالت کے اِس حق سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ فقہ ا سلامی میں متعدد جزئیات ایسے ملتی ہیں جن میں عدالت کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر شوہر اِس کے حکم سے طلاق نہ دے تو عدالت یک طر فہ ڈگری کاا جراء کرسکتی ہے۔ تو خلع کے مسئلہ میں عدالت کو اختیارات دینے سے گریز کیاجائے۔ عنین ،محبوب،خصی، جذامی اور مبروص اور مجنون شوہروں کے مسئلہ میں فقہاء کرام نے جو ضوابط بیان کئے ہیں اور اِسی طرح خیار بلوغ اور بعض دوسرے مسائل میں جو اجتہادی قوانین مقرر کئے گئے ہیںِ ان پر قیاس کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ عورتوں کو خلع دلانے کے پورے اختیارا ت عدالت کو حاصل ہوں۔ ورنہ جوعورتیں ایسے حالات میں مبتلا ہو جائیں ان کے لیے بجز اِس کے اور کوئی صورت ہی نہیں رہتی کہ یا تو وہ تمام عمر مصیبت کی زندگی بسر کریں یاخود کشی کر لیں۔ یا اپنے داعیاتِ نفس سے مجبور ہو کر فواحش میں مبتلا ہو جائیں۔ یا مجبوراً مرتد ہو کر نکاح سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

مذکورہ پانچ عیوب کی بنیاد پر عدالت کو تفریق کا اختیار دیا گیا ہے۔ انہی آراء کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسے شوہر مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں عام معاشرتی لین دین میں اِن عادات کا ظاہر ہونا اتناعام نہیں ہوتا۔اِن حالات میں شوہر کی رضا مندی کاحصول عورت کے لیے ایک سنگین مرحلہ ہے۔ مگر ان کاجارحانہ رویہ عورت کے ساتھ بدستور رہتا ہے تو اِن مخصوص حالات میں عورت خلع کے لیے عدالت سے رجوع کرتی ہے تو اِس ضابط کے تحت خلع دینے یا نہ دینے کو مرد کی رضا مندی کے ساتھ مشروط نہیں رکھا جا سکتا۔قا نونِ ا سلا می میں عورت اور مرد کے حقوق کے ما بین توازن و استحکام ر کھا گیا ہے ۔ عورت خُلع حا صل کرنا چا ہے تو عدالت کے یکطرفہ فیصلہ میں کوئی حرج واقع نہیں ہوگا۔

فقہی تصریحات کی روشنی میں اصول شرع کے تحت یہ ضابطہ بنایا جا سکتا ہے کہ اگر خلع کی طالب اپنے شوہر کا نشوز ثابت کر دے یاخلع کے لیے ایسے وجوہ ظاہر کرے جوقاضی کے نزدیک معقول ہوں تو مرد کی رضا مندی کے ساتھ اس مسئلہ کومشروط نہیں رکھاجا سکتا ،اورمرد اپنی خود غرضی کی بناء پرخلع نہ دیناچاہے توعورت کے لیے کوئی چارہ کار نہیں رہتا۔ شارع کا منشاء ہر گز ىہ نہىں ہوسکتا کہ معاملہ نکاح کے ایک فریق کوبالکل بے بس کر کے دوسرے فریق کے ہاتھ میں دے دے اگر ایسا ہوتا تووہ بلند اخلاقی و تمدنی مقاصد فوت ہو جائے جو اس نے مناکحت کے ساتھ وابستہ کئے ہیں۔ البتہ قضائے شرعی کی شرائط میں سب سے پہلی شرط عدالت لازماً اسلامی ہوناہے۔ جن مسائل کا تصیفہ عدالت کے فیصلہ پر چھوڑا گیا ہے اگر چہ اِن کے لیے شریعت میں مفصل قوانین موجود ہیں۔ لیکن شخصی معاملات میں ہر ہر مقدمہ کے مخصوص حالات کو پیش نظررکھ کر ان قوانین کی صحیح تعبیر و تنفیذ اور اصول قانون سے حسب موقع جزئیات کا استنباط اورروحِ قانون کے مطابق فصل خصومات کے جملہ شرائط کا لحاظ کئے بغیر ممکن نہیں، جج میں قوتِ اجتہاد ہو، اور اِس کے ساتھ اِس کے دل میں اعتقاداً اِس قانون کا احترام بھی موجود ہو ،جس کو نافذ کرنے کے لیے وہ منصبِ قضاء پر مامور ہوا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اِسلامی معاشرے میں دینی افہام و تفہیم اتنی وُسعت کے ساتھ جاری رہے کہ فکر اور رویہ میں تبدیلی آئے۔ فکر اوررویہ جب تک اِسلامی تناظر میں جنم نہیں لے گا، جرائم ،معاشرتی اقدار کا زوال، عائلی ادارے کی بیخ کنی ہوتی ر ہے گی۔

 

حوالہ جات

  1. ۔سورة النساء: ۲۰
  2. ۔سورة النساء: 20
  3. ۔ سورة النساء: 19
  4. ۔سورة البقره: ۲۲۹
  5. ۔ زادالمعاد ،الجوزیہ ،ابن قیم ،موسستہ الر سالۃ،بیروت،:۲/۲۳۸
  6. ۔ بیان القرآن، مولانا اشرف علی تھانوی:۱؍۷۵ 
  7. ۔احکام القرآن:۱؍۴۶۸
  8. ۔المبسوط:۶؍۱۷۳
  9. ۔تفہیم القرآن:۱؍۱۷۶
  10. ۔کتاب الام:۵؍۲۰۰
  11. ۔المہذب:۲؍۷۱
  12. ۔بدایۃ المجتہد:۲؍۶۸
  13. ۔زاد المعاد:۲؍۲۳
  14. ۔بدائع الضائع:۳؍۱۴۵
  15. ۔All Pakistan legal decisions, vo / xix, supreme court, PLD 1967
  16. ۔ایضًا 
  17. ۔الجامع الاحکام القرآن، قرطبی
  18. ۔نیل الاوطار:۳؍۲۶۰
  19. ۔ سورة النساء: ۳۵
  20. ۔فقہی مقالات:۲؍۱۶۹
  21. ۔کتاب الاُم:۵؍۱۹۵
  22. ۔سنن نسائی،کتاب الطلاق:۲؍۴۹۷
  23. ۔ایضاً
  24. ۔ا لمصنف عبدالرزاق:۶؍۵۰۴
  25. ۔ا لمصنف عبدالرزاق:۶؍۵۰۵،سنن البیہقی:۷؍۳۱۵
  26. ۔حقوق الزوجین: ۷۵
  27. ۔المغنی:۴؍۵۲
  28. ۔احکام القرآن:۱؍۳۹۵
  29. ۔المحلیٰ:۱۰؍۲۳۷
  30. ۔سورة النساء: ۳۵
  31. ۔شرح ابن حجر عسقلانی الصحیح البخاری:۹؍۳۹۷
  32. ۔فتح القدیر:۳؍۲۰۲
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...