Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 33 Issue 2 of Al-Idah

خواتین کی دینی تعلیم: روایت، مسائل اور عصری تحدیات |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060034497_764

Pages

111-131

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/95/88

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/95

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

ہالت اور بے خبری سے نکلنے کے لئے علم کا حصول فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ اسلام اس حوالے سے مرد اورعورت میں امتیاز نہیں برتتا۔ بلکہ نورعلم ایک ایسی ضرورت ہے کہ جس کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف تاکید فرمائی بلکہ مردوں کے ساتھ خواتین کی تعلیم وتربیت کے لیے خصوصی اہتمام فرمایا کرتے۔ امہات المومنین نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست تعلّم اورتفقّہ کا شرف پایا جبکہ صحابیات نے براہ راست آپ سے سنا اور سیکھا اورامہات المومنین سے بھی استفادہ کیا۔ بعدازاں خواتین میں تعلیم وتعلّم کی یہ روایت انہی کے توسط سے جاری اورساری رہی۔ حقیقت یہ ہےکہ علم، انسانیت کے لیے تحفہء ربانی ہے۔ قرآنِ وحی کا آغاز ہی قلم وقرطاس کے تذکرے سے ہوتا ہے۔ (اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ)۔ 1 یہی دیگر مخلوقات پر اس کی وجہ فضیلت ہے۔ مذاہب عالم اور تہذیب ِ انسانی کی تاریخ میں یہ بلند پایہ اعزاز صرف اسلام کو حاصل ہے کہ علم اور اس کی تعبیروتشریح نہ تو یونانیوں کی طرح کسی طبقے کی میراث رہی مثلاً اشرافیہ، نہ اس پر کسی نسلی گروہ کا اجارہ قائم ہواجیسے برہمن اور بنی لاوی اور نہ کلیسا کی انجمن (Church Council)اور پاپائیت جیسا ادارہ یہاں پنپ سکا۔ 2

اقرأ کے اولین پیغام کے ساتھ ہدایت ِ الٰہی کے جس آخری اورتکمیلی منصوبہء عمل کاآغاز ہوا، اس میں علم کا سحابِ رحمت کمزوروں، غلاموں، مردوں اور عورتوں ،عرب اور عجم پر یکساں برسا۔ وہ طبقات ، جوانسانی تاریخ میں ہمیشہ پس ماندہ رکھے گئے تھے، انھیں جب اپنی صلاحیتوں کے آزادانہ اظہار کا موقع ملا تو تاریخ کے صفحات پر کتنے ہی کارہائے نمایاں ثبت کرگئے۔ علم کے ہر شعبے میں غلاموں نے وہ کمال پایا کہ اس حوالے سے دریافت کرتے کرتے ایک اموی خلیفہ چلاّ اٹھا،کہ کیا عرب ماؤں نے اہل علم جننے بند کردیے ہیں۔ 3 " غلاموں کے علاوہ طبقہ ء نسواں بھی اس حوالے سے بڑا نمایاں ہوا۔ خواتین بڑی تیزی سے علمی میدان میں آگے بڑھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ حوصلہ دیا کہ وہ اپنی جداگانہ حیثیت کی مالکہ ہیں اور طلبِ علم کا ویسا ہی حق رکھتی ہیں جیسا کہ مرد۔ 4یہی وجہ ہے کہ جمعہ وعیدین کے خطابات سننے اور مسجد کی نمازوں میں شرکت کرنے کے علاوہ بھی ان کی حصول علم کی کاوشوں کے تذکرے ملتے ہیں۔ وہ مردوں کے دروس کی سامع ہوتیں۔ خود اپنے حلقہ ہائے درس قائم کرتیں جن میں صرف خواتین شریک ہوتیں اور بعض اوقات مرد بھی ان کے مستقل شاگرد ہوتے یاکسی خاص معاملے میں ان سے استفسارات کرتے اورحتی کہ فتویٰ طلب کرتے۔ 5

دینی تعلیم کی روایت میں امّہات المومنین کا کردار

امہات المؤمنین اس نسائی علمی تحریک کی قائد تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات، معاشرت، عائلی زندگی، باہمی تعلقات اور اخلاق وآداب کے بارے میں معلومات کا بڑاحصہ ان بلند مرتبہ خواتین کے واسطے سے امت کو ملا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں مشہورگواہی دی تھی کہ کان خلقه القرآن۔ 6 اس کے علاوہ بھی عالمِ نسواں کے خصوصی مسائل اور ان کی جذباتی کشمکش میں توازن قائم کرنے کے حوالے سے بعض بڑے اہم سبق انہیں جلیل القدر خواتین سے روایت ہوئے۔ امہات المؤمنین صرف کثرت سے روایت کرنے والوں ہی میں شامل نہیں،بلکہ انھوں نے خواتین کے علاوہ مردوں کے لیے بھی تفقہ اور تدبر کی مثالیں قائم کیں۔ 7 دنیا کی مذہبی روایت کا سرسری مطالعہ رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ یہاں بس "روایات" کافی سمجھی جاتی ہیں۔ کسی روایت کی "معقولیت" کا سوال مذہبی ادب کی تاریخ میں کم ہی اٹھایا گیا لیکن امہات المؤمنین کے ہاں ہم دیکھتے ہیں کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عبداللہ بن عمر  جیسے صحابی کی روایت کوقبول نہیں کیاجب انھوں نے یہ فرمایا کہ میت پر بین کرنے سے مرنے والے کو عذاب ہوتا ہے۔ یہ بھی واضح کردیا کہ وہ غلط بیان کرتے ہیں نہ اپنے پاس سے گھڑتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ سماعت بھی تو خطا کرسکتی ہے۔ اس روایت کے معنی کھول کر بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ اس مرنے والی کو عذاب ہورہا ہے اور اس کے گھر والے اس کے دنیاسے رخصت ہونے پر رو رہے ہیں۔ 8

مسلم تاریخ کے بعد کے ادوار میں بھی خواتین کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ وہ مفسّرات ومحدّثات تھیں۔ فقہ اور اصول فقہ کی ماہر تھیں۔ شاعری ،ادب ،تاریخ اور طب، ہر میدان میں انھوں نے اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑے۔ مکہ ومدینہ ہو یا شام اورکوفہ، بغداد اور اندلس ہوں یا برّصغیر ،مسلم خواتین کی علمی تگ وتاز ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔

پاکستان میں دینی تعلیم وتدریس کی روایت

برّصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کے عرصہ ءحکمرانی کے دوران خواتین کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا لیکن خواتین کے علیحدہ مدارس یا اقامتی مدارس کم از کم اس خطے میں بہت پرانی روایت نہیں رکھتے۔ مردوں کے لیے ایسے قدیم مدارس بھی بہت تھے اور بعد میں اصلاحات اورترامیم کے ساتھ بھی بہت سے مدارس نے فروغ پایا مثلاً دیوبند، ندوۃ العلماء، مدرسہ الاصلاح وغیرہ۔ اگرچہ خواتین کے لیے سکول اور کالج انگریزوں کے دور میں شروع ہوگئے تھے اور قیام پاکستان کے بعد بھی تسلسل سے قائم ہوتے گئے،لیکن اقامتی دینی مدارس میں بہت بعد میں بننا شروع ہوئے۔ 1980کی دہائی میں خواتین کے دینی مدارس کے قیام کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا اور اگلی دو دہائیوں میں اس سلسلے میں بہت تیزی دیکھنے میں آئی۔ مدارس کے وفاق بنے، رجسٹریشن اور باقاعدہ ڈگریوں کا نظام بنا۔

پاکستان میں دینی مدارس کے پانچ وفاق boardsہیں جن سے سینکڑوں مردانہ وزنانہ مدارس منسلک ہیں۔ وفاق المدارس السلفیہ ،اہل حدیث مدارس کاوفاق ہے۔ وفاق المدارس العربیہ اورتنظیم المدارس بالترتیب دیوبندی اور بریلوی مکتب فکر کے نمائندہ ہیں۔ وفاق المدارس الشیعہ اہل تشیع مدارس کا بورڈ ہے۔ رابطۃ المدارس الاسلامیہ جماعت اسلامی کا نمائندہ وفاق ہے جو مسلکی تفریق کے بغیرقائم کیاگیا ہے۔ 2014 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق ان تمام وفاقوں سے وابستہ رجسٹرڈ مدارس ِ طالبات کی تعداد 7654 ہے۔ 9 ہزاروں بچیاں یہاں حفظ، ناظرہ اور مختلف درجات کی دینی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ مدارس میں صرف غریب بچیوں کے علاوہ اب آسودہ حال گھرانوں کی بچیاں بھی تعلیم حاصل کررہی ہیں گوکہ ان کی تعداد دس سے بیس فیصد کے درمیان ہے۔ 10

۱۔ مدارسِ دینیہ کی فقیدالمثال خدمات

دینی مدارس بچوں کے ہوں یا بچیوں کے، برصغیر کے خصوصی تناظر میں ہر محب وطن اور محب دین انھیں"اسلام کا قلعہ " کہتا ہے۔ اس "خطاب" کی ایک تاریخ ہے۔ برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کے بعد، جب مسلمانوں کے ہاتھوں سے حکومت نکل گئی تو یہ بڑا نازک مرحلہ تھا۔ مسلمان،ہندوستان میں ہمیشہ سے اقلیت تھے۔ سلطنت اورحکومت کی قوت ان کے لیے دینی ،سیاسی اورمعاشرتی ہراعتبار سے مضبوط ڈھال تھی۔ برطانوی راج میں عربی وفارسی کی تعلیم کے لیے صرف سرکاری ملازمتوں کے دروازے ہی بند نہیں کیے گئے بلکہ وہ بڑے بڑے اوقاف ،جن پر مدارس کی زندگی کا دارومدار تھا، مختلف حیلوں بہانوں سے ضبط کرلیے گئے۔ 11؎ ان حالات میں اس بات کا امکان موجود تھا کہ یہاں کے مسلمانوں کا انجام سپین کے مسلمانوں جیسا ہو جہاں سلطنت وحکومت کے خاتمے کے ساتھ مسلمانوں کا بھی صفایا کردیاگیاتھا۔ اس اندیشے کا اظہار شاہ ولی اللہ (1762۔ 1703) نے اپنے زمانے میں ہی کردیا تھا جن کی وفات کے تین سال بعد بنگال پر قبضے سے انگریزوں نے اپنی فتوحات ہند کا آغاز کیاتھا۔ 12

1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی برصغیر میں مدارس کی تاریخ کا ایک اہم موڑ(Turning point)تھا۔ پورا برصغیر اس استعماری طاقت کی غلامی میں چلاگیا تھا جس کے اولین حریف مسلمان تھے۔ ایسے میں کچھ پرعزم لوگ اٹھے۔ عوام الناس کی مدد سے انھوں نے اسباب ووسائل کی کم یابی کے باوجود اس خطے کی مسجدوں کو آباد اور نئی نسلوں کو قرآن وحدیث اورتعلیماتِ دین سے وابستہ رکھنے کا بیڑا اٹھایا۔ بقول ایک مؤرخ ان کوششوں کی وجہ سے استعماریت کے اس" سیلابِ بلا میں جہاں سب کچھ بہہ گیا وہاں کم ازکم تسبیح وسجادہ تو سلامت رہے اور سیاسی زوال کے ساتھ قوم کادینی انحطاط نہ شروع ہوگیا"۔ 13

قیامِ پاکستان کے بعد بھی مدارس سرکاری سرپرستی سے عام طور پر محروم ہی رہے لیکن اس کے باوجود یہ قافلہ سخت جاں نہ صرف اپنے وجود کو باقی رکھے ہوئے ہے بلکہ اپنے "متعین کردہ" اہداف ومقاصد کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

2۔ خواندگی اورخودانحصاری کی رفاہی تنظیم

مدارسِ دینیہ کو پاکستان میں سب سے بڑی NGOبھی قرار دیاجاتا ہے۔ وہ ملک جس کی 60.19% آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسرکررہی ہو۔ 14 اور بچوں کی خوراک اور دواؤں کی ضرورت بھی پوری نہ کرسکتی ہو،وہاں بچیوں کی تعلیم کاسوچنا اور اہتمام کرنا دور کی بات ہے۔ ان دینی مدارس کا فیضان ہے کہ ہزاروں مستحق بچیاں یہاں اقامت پذیر ہوتی ہیں اور ان کے کھانے پینے ،لباس اور رہائش کی فراہمی کی ذمہ داری مدارس اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 2014-15کے اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق 6%ہے۔ 15 ان مدارس میں اساتذہ ،منتظمین اور ورکرز کی صورت میں سینکڑوں لوگ کسی نہ کسی درجے کے روزگار سے وابستہ ہوجاتے ہیں اور یوں بے روزگاری کی شرح کم کرنے میں بھی یہ مدارس مددگار ہیں۔

3۔ دعوتی اورتربیتی ماحول کی تشکیل

ان مدارس میں ،خاص طور پراقامتی ماحول میں زندگی کا کچھ حصہ گزارنے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ زندگی بھر اس کے اثرات باقی رہتے ہیں۔ شعائر اسلامی کے احترام اورفرائض دینی کی پاسداری کے اہتمام کا احساس دیگر اداروں سے وابستہ بچوں کی نسبت مقابلتاً زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے عوام عام طور پردینی علوم کے حاملین پر شرعی وفقہی مسائل میں اعتماد کرتے ہیں۔ مدارس سے فارغ التحصیل مردحضرات مساجد ومدارس کا انتظام سنبھال لیتے ہیں اورخواتین عام طور پر اپنے گھروں میں دعوتی مراکز قائم کرتی ہیں یا کسی دینی مدرسے سے وابستہ ہوجاتی ہیں۔ وہ بچیاں،جو یہاں تعلیم حاصل کرتی ہیں، ان کے گھروں کی دیگرخواتین بھی ان مدارس سے تعلق رکھتی ہیں اور دروسِ قرآن اور مدرسے کی دیگر تقریبات میں شریک ہوتی رہتی ہیں یوں مدارس کا ایک معاشرتی دائرہ (social circle) تشکیل پاجاتا ہے۔

4۔ عصری تعلیم کااہتمام

اکثر مدارس میں میٹرک ،ایف اے ،بی اے وغیرہ کی تعلیم کا انتظام بھی ہونے لگا ہے۔ طالبات عربی اور دینی علوم کے ساتھ ساتھ لازمی مضامین،انگریزی ،مطالعہ پاکستان اور اردو وغیرہ کے ساتھ وہ عربی اسلامیات کا امتحان دے لیتی ہیں اور اس سے ان کے قومی دھارے میں آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

دینی مدارس کامعاشرتی کردار توجہ طلب پہلو

خواتین کے دینی مدارس کی ان ساری خدمات کے باوجود بہت سے پہلو ایسے ہیں جو فوری توجہ اور بنیادی اصلاحات کے متقاضی ہیں تاہم درج ذیل مطالعے (study)میں صرف معاشرتی مسائل اورضروریات کے حوالے سے تحقیق کی کوشش کی گئی ہے۔

خواتین کی درسگاہوں سے اس خصوصی مطالعے کے لیے حاصل کی جانے والی معلومات (data)کے مطابق یہاں سے گزشتہ سالوں میں فارغ التحصیل طالبات کی تعداد لاکھوں میں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تعداد میں اکثریت ان طالبات کی ہے جو یہاں جزوقتی ناظرہ قرآن کی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ باقاعدہ تعلیم ان کی سکولوں میں ہوتی ہے ۔ پھر بھی مدارس کی اقامتی اور خالص دینی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی تعداد بھی سالانہ ہزاروں میں ہے۔ 16 مدارس کی فارغ التحصیل ، علم دین کی حامل خواتین کی اس تعداد کو دیکھا جائے اورپاکستانی معاشرے کی دینی حالت کو۔ ۔ ۔ تو ان خواتین کا معاشرے میں متحرک اورجاندار کردار دکھائی نہیں دیتا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ:* علومِ نبوت کی وارث یہ خواتین معاشرے میں قائدانہ کردار ادا کرتیں۔

  • معاشرتی اعتبار سے ،علم وفہم اورتدبر کے اعتبار سے ان کا مقام نمایاں ہوتا۔ ان کی فکرودانش سے استفادے کی ضرورت محسوس کی جاتی اورانھیں نظرانداز کرنا ممکن نہ ہوتا۔
  • فیصلہ سازی کے عمل میں ہر سطح پر ان کی رائے کواہمیت دی جاتی ۔
  • معاشرتی رجحانات کی تشکیل (trend setting)میں ان کا حصہ ہوتا۔
  • گھریلو اورمعاشرتی زندگی میں مدارس کی فارغ التحصیل طالبات کے کردار اور عمل سے متاثر ہوکر اور لوگ بھی دینی تعلیم کی طرف راغب ہوتے۔ اس کے نتیجے میں یا تو مدارس کی شرح داخلہ کئی گنا بڑھ جاتی یا عوام حکومت پر زور دیتے کہ عمومی تعلیمی نصابات میں دینی تعلیم کا حصہ بڑھا یا جائے کیونکہ اس کے نتائج عام دنیاوی تعلیم سے کئی گنابہتر ہیں۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک طرف دین کی غربت واجنبیت کے لیے حدیث ِ نبوی ﷺکی پیشن گوئی ہے۔ بدأ الاسلام غریبا وسیعود غریبا کما بدأ۔ 17 دوسری طرف عالمگیریت globalization کے دورکے اپنے سے فتنے ہیں۔ سیکولر فکر کی پذیرائی، لادینی نظریات کی یلغار، میڈیا کے ذریعے دجّالی(دجل وفریب پر مبنی) پراپیگنڈہ ،اسلامی شعائر ، حتی کہ کتاب ،رسول اور بنیادی عقائد تک نشانے پر ہیں۔ اسلامی معاشرے ، ان کے نوجوان طبقات اور خواتین خاص طور پر اس تہذیبی یلغار کا ہدف ہیں۔ مشہور انگریزی کہاوت کے مطابق فوجوں کی یلغار تو رو کی جاسکتی ہے، افکارونظریات کی یلغار کو نہیں روکا جاسکتا۔

(An invasion of armies can be resisted but an invasion of ideas cannot be resisted.)

ہماری معاشرت، اقدار، ثقافت، روایات، باہمی تعلقات اور حقوق وفرائض کے سارے تصورات، حقیقی دینی تعلیمات سے دن بدن دور ہوتے جارہے ہیں۔ یہ وقت کے معاشرتی چیلنج ہیں۔ دوسری طرف دیکھاجائے تو 90% مدارس نے اس قسم کے مقاصد کو پیشِ نظر رکھا ہی نہیں ہے۔ (14مدارس سے بروشرلیے گئے تھے)کسی ایک مدرسے نے بھی اپنے فکری وعملی مقاصد (vision or mission)میں یہ نہیں لکھا کہ آج کے تہذیبی چیلنج کے مقابلے کے لیے نئی نسلوں کی تیاری ان کا مطمع نظر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو فصل (product) ان مدارس سے برآمد ہورہی ہے ، اپنے اردگرد کی دنیا سے نہ صرف آگاہ نہیں ہے بلکہ ایک درجہ بے گانہ وبے نیاز ہے۔

ہماری معاشرتی ضروریات اور تقاضے ،دینی مدارس کے مطلوب کردار، اورموجودہ عملی صورتِ حال کو جانچنے کے لیےزیرِ نظر تحقیق study چند براہ راست جائزوں کی مدد سے لی گئی۔ * مدارس کی فارغ التحصیل10 طالبات سے ان کی آراء لی گئیں ۔ (انٹرویو اور بالمشافہ تفصیلی گفتگو کے ذریعے سے ۔ )

  • ہر مکتب فکر سےتعلق رکھنے والے مدارس کی مہتممات اور اساتذہ سے سروے کروایاگیا(تقریباً 25خواتین ) تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیا ان کی ترجیحات میں یہ بات موجود ہے کہ ان کی فارغ التحصیل طالبات معاشرے میں دین کی اجنبیت دور کرنے اور دینی اقدار کے فروغ کا باعث بنیں۔ اور کیا اساتذہ میں طالبات کے اندر قائدانہ کردار ادا کرنے کی سپرٹ (spirit) پیدا کرنے پر توجہ ہے؟
  • انھیں نکات کے تحت بعض مدارس میں خود جاکر، اور ان کی اہم اساتذہ سے ملاقاتیں کرکے اور ان کی سالانہ تقریبات میں شرکت کرکے براہ راست مشاہدات اورگفتگو سے نتائج اخذ کیے گئے۔ واضح رہے کہ ان خواتین کو مطلع نہیں کیاگیا کہ آنے کا مقصد کیا ہے؟
  • ان خواتین سے آراء لی گئیں جو مدارس کی فارغ التحصیل خواتین کے قائم کردہ حلقہ ہائے درس میں شرکت کرتی ہیں۔ (100خواتین سے سروے)یوں qualitative & quantitative research methodology استعمال کرتے ہوئے مندرجہ بالا چاروں ذرائع سے جو مسائل سامنے آئے، اور جن کے بارے میں محسوس ہوا کہ عصرِ حاضر کے مطلوب کردار کو پیدا کرنے میں بڑی رکاوٹ ہیں، ان میں سے بعض اہم نکات درج ذیل ہیں۔

مسلک ومذہب کی مرکزیت

خواتین کے مدارس کی عالمات تیار کرنے کی کلاسوں کے لیے ہاسٹل میں قیام لازمی شرط ہے۔ (جیسا کہ بروشرز سے ظاہر ہوا۔ ) یہ بات ذہن میں رہے کہ ہمارے 90% مدارس مسلکی بنیادوں پر قائم شدہ ہیں۔ (پانچ میں سے چار مسلکی وفاقوں سے وابستہ ) طالبات وہیں پڑھتی اور مقیم رہتی ہیں۔ جو فقہی آراء انھیں پڑھائی جاتی ہیں، اپنے اس محدود ماحول میں وہ انھیں پرسو فیصد عمل ہوتا دیکھتی ہیں۔ دو یا چار سال مدرسے میں قیام کے عرصے میں وہ اس ماحول کی اتنی عادی ہوجاتی ہیں کہ عام طور پر کسی دوسرے نقطہء نظر یا طریقہ ء عمل کو قابل اعتنا بھی نہیں سمجھ سکتیں۔ جبکہ معاشرے میں، جہاں باہر نکل کر انھیں پبلک کو مخاطب کرنا ہے، وہاں سب مسالک کے لوگ ملے جلے رہتے ہیں۔ جمہور علمائے امت کی رائے کو بیان کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ کے عامۃ الناس کے لیے چاروں فقہی مسالک میں سے کسی ایک کی پیروی اختیار کرنے کو عین صواب قرار دیا ہے 18 اور پاکستانی معاشرے کا عمومی طرز عمل بھی یہی ہے۔

ہمارے مدارس کا بہت بڑا المیہ ہےکہ یوں تو وحدتِ امت کے پر چار سے زبانیں نہیں تھکتیں، لیکن مسلکی تعصبات کا معاملات پر اثر بڑا واضح اورنمایاں ہے۔ کل پانچ اور صرف اہل سنت کے چار وفاق خود اس تفریق کی گواہی دیتے ہیں۔ خود اہل مدرسہ اس معاملے کو چھپانے کی بھی بہت کوشش نہیں کرتے۔ مثلاً مسلکی معاملات پر اظہار خیال کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ایک سینئر استاذہ نے لکھا کہ "مسلکی غیرت بعض اوقات " اظہار ِ حق " کا تقاضا کرتی ہے۔ " ایک مدرسے کی انتظامیہ نے سروے میں اپنی طالبات کی معاشرتی خدمات کے بارے میں سوال پر ایک ہی نکتہ بیان کیا۔ " ہماری طالبات نے فلاں فلاں شہر میں ۔ ۔ ۔ (مسلک کا نام لکھاتھا) کے خلاف جہاد کیا۔ " مدارس کی طالبات سے جو آراء لی گئیں ان کے مطابق مدرّسات ناظرہ پڑھنے کے لیے آنے والی جزوقتی طالبات پر بھی مسلکی حوالوں سے طنز سے باز نہیں رہتیں۔ فارغ التحصیل طالبات اپنے قیام مدرسہ کے عرصے میں اس طرزِ عمل کی اتنی عادی ہوجاتی ہیں کہ بعد ازاں ان حوالوں سے کسی تلخ تبصرے سے اپنے آپ کو روک نہیں پاتیں۔

دوسری طرف ہمارامعاشرہ عام طور پر اس طرزِ عمل سے بے زار ہے۔ جب مدرّسات کی طرف سے عمومی اجتماعات، دروسِ قرآن اور قرآن وحدیث کی کلاسوں میں کسی فقہی نقطہء نظر کو "واحد قابل قبول" رائے کے طور پر پیش کیاجاتا ہے تو لوگوں کی اکثریت بے چینی اور لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔ دوسرے نقطہ ء نظر کی حامل خواتین ایسے حلقہ ءدرس کو چھوڑ دیتی ہیں یادفاعی (defensive)پوزیشن اختیار کرتے ہوئے " اپنے مسلک " کاحلقہ ء درس تلاش کرنے لگتی ہیں ۔ یوں ہمارا پہلے سے تقسیم شدہ معاشرہ (split society) مزید تقسیم کی طرف آگے بڑھنے لگتا ہے۔

یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ عام لوگوں کی اکثریت نماز کی پابند نہیں ہے۔ انھیں وضو اور غسل کے فرائض تک کی واقفیت نہیں ہے۔ طالبات کے کالجوں میں روزہ رکھنے والی طالبات کم نظر آتی ہیں۔ زکوٰۃ کے بارے میں یونیورسٹی کی 40طالبات کی ایک کلاس میں پوچھاگیا اور بچیاں گھروں سے پتہ کرکے آئیں۔ معلوم ہوا پانچ سات گھرانوں کو نصاب کا علم تھا اور حساب کرکے زکوٰۃ نکالنے کا۔ باقی لوگوں کو شرح زکوٰۃ تک معلوم نہیں تھی۔ اب یہ عجیب نہیں کہ ان کی اساتذہ محلے کے درسِ قرآن یاقرآن کلاس میں انھیں رفیع الیدین کی فضیلت اور عدم فضیلت یا وترپڑھنے کے طریقوں میں سے افضل اورمفضول سکھانے پر مصر ہیں حالانکہ یہ معاملات ہر دوطرح سے نبی کریم ﷺ کی سنتِ ثابتہ ہیں۔

مطالعہ کی محدودیت

جدید طرز تدریس کاایک مثبت پہلو یہ ہے کہ کسی بھی مضمون کے نصاب پر مقررہ کتب کے علاوہ مجوزہ کتب (recommended books) کی ایک فہرست طلبہ واساتذہ کو مہیا کی جاتی ہے جو اس موضوع کی مختلف جہات سے آشنا کرواتی ہیں۔

ہمارے مدارس ِ دینیہ میں مقررہ نصاب پرتو بہت زور ہے، تفصیلی اور ہمہ جہت مطالعے کی طرف تو جہ نہیں ہے۔ مدارس کی انتظامیہ اور اساتذہ سے سروے میں سوال کیا گیا کہ تدریس کے لیے علوم وفنون کی ایک ہی کتاب مقرر کی جاتی ہے یا طالبات سے یہ تقاضا کیاجاتا ہے کہ وہ دیگر کتب کا مطالعہ بھی کریں۔ 90% رائے یہ سامنے آئی کہ صرف ایک کتاب مقرر کی گئی ہے۔ اس سے زیادہ کتابیں پڑھنے کی نہ ضرورت ہے، نہ وقت میسر ہے۔ ایک صدر مدرسہ نے لکھا" جب طالبات مدرسے سے فارغ ہوں گی تو وہ خود اورکتابیں دیکھ سکتی ہیں۔ مدرسے میں تعلیم کے دوران اس کی اجازت نہیں ہے۔ " ایک اور مدرّسہ نے لکھا "ہم طالبات سے کہتے ہیں کہ پہلے کتاب ہمیں دکھائیں ۔ اگر وہ اس "قابل" ہو کہ طالبات اسے پڑھ سکتی ہیں تو انھیں اجازت دیتے ہیں ورنہ نہیں۔ "

دوسری طرف یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ عام طور پر مدارس میں بڑی لائبریریاں موجود نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو بھی تو اپنے محدوداور مسلکی نقطہ ءنظر کے علاوہ کوئی کتاب وہاں نہیں رکھی جاتی۔ یہ معاملہ مدارس میں انفرادی سطح پر نہیں، وفاق او ر بورڈ کی سطح پر ایک طے شدہ پالیسی کے تحت باقاعدہ متعین ہے۔ سلیم منصور خالد لکھتے ہیں:

"دینی مدارس کے نصاب میں بظاہر کوئی فرقہ وارانہ چیز دکھائی نہیں دیتی۔ اکثر کتب علم وفن پر مبنی ہیں۔ البتہ چاروں مسالک کے مختلف مدرسوں کی انتظامیہ کے ذوق اورترجیحات کے تابع ہدف متعین ہوتا ہے۔ بعض مدارس تو اس حوالے سے اپنے تخصص میں شہرت بھی رکھتے ہیں مثلاً وفاق المدارس العربیہ پاکستان (دیوبندی) نے 1983میں جو نصاب منظور کیا اس کے مطابق درجہ عالمیہ سال اول کے لیے اسی نوعیت کی کتب کے نام متعین طور پر دیے گئے ۔ کتب کی تعداد اس طرح ہے: ردّ رفض۔ 09کتب، ردّ بدعات (بریلوی) ،19کتب ،

ردّ جماعت اسلامی ۔ 03کتب ،ردّ اہلحدیث۔ 10کتب، اسی طرح دیگر مسالک بھی حسب ضرورت غیر اعلان شدہ کتب پڑھاتے ہیں۔ یہ کتب درسِ نظامی کی امتحانی ضرورت کے لیے نہیں ہوتیں البتہ ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ "19

مسلکی مطالعات کی اس طویل فہرست نے وقت کے تقاضوں اور چیلنج سے اہل مدرسہ کی نظر ہٹا دی ہے۔ سائنسی علوم کی مبادیات تو معلوم ہونا چاہئیں،جو آج کے الحادی فکر کی اصل بنیادہیں، لیکن مدارس کے لوگ اس کے قائل نہیں ہوتے نہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ یہ میدان ہی دوسرا ہے۔ لیکن ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اہل مدرسہ کو علومِ معاشرت کی طرف بھی متوجہ کیاتھاجومدرسے کا حقیقی میدانِ کار ہے:

" اہل علم اور علماء کرام کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغربی علوم وفنون کا تنقیدی انداز میں مطالعہ کریں۔ ان کے پانچ علوم ایسے ہیں جو اس وقت سب سے زیادہ غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔ جتنا کفر والحاد اس دور میں پھیلا ہے، وہ انھیں پانچ علوم کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ (1) علم نفسیات،(2) علم بشریات، (3)علم عمرانیات،(4) علم سیاسیات، (5) علم معاشیات۔ علماء کرام کو ان علوم کا مطالعہ کرکے ان میں موجود غلط اساسات وتصورات کی تردید عقلی انداز میں دلائل وشواہد کے ساتھ کرنی چاہیے۔ "20

وہ صاحبان ِ علم ِ دین ،جنھوں نے دینی علوم میں درک اور عالمی پہچان حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دنیا دیکھ رکھی ہے، اہل مدرسہ کی توجہ اہم مسائل کی طرف کرواتے ہیں لیکن یہاں "مناظرہ" اور "ذہن سازی " اور "دلائل کا توڑ" وقت کے چیلنجز سے مقابلے کے لیے نہیں(جیسا کہ غزالیؒ اور رازی ؒنے اپنے وقت میں کیا)مسلکی برتری کے لیے ہے۔ جن موضوعات پر ڈاکٹر غازی صاحب نے توجہ دلائی، معاشرت کے بنیادی سوالات آج وہیں سے اٹھ رہے ہیں۔ مطالعے کی محدود یت کی وجہ سے مدارس کی فارغ التحصیل خواتین ،جدید تعلیم یافتہ خواتین کے نہ تو سوال سمجھ پاتی ہیں، نہ جواب دینے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں۔

تفقّہ اوراستدال کی تربیت

اسلام کی تعلیمات انتہائی معقولیت پر مبنی ہیں۔ علماء نے ایک عمومی قاعدہ مقرر کیا ہے کہ نقلِ صحیح ،عقل ِصریح کی مخالفت نہیں کرتی۔ قرآن مجید نے بھی دلائل کے لیے استقراء کا طریقہ استعمال کیا ہے۔ ہر ایک کونظرآنے والی عمومی اشیاء کی مثالوں سے مجرد عقائد اور مابعد الطبعیات پر استدلال کیاگیا ہے مثلاً زمین، آسمان ،بادل ،بارش اور ہوائیں، اور ان عام مشاہدات پر غورفکر سے توحید اور آخرت کا اثبات ۔ شاہ ولی اللہ کے مطابق اس طریقے سے قرآن مجید انسانیت کے ہر طبقے اور ہر دور کے لیے آسان اور قابلِ فہم ہوگیا۔ 21 (وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ) 22

ہمارے عمومی تعلیمی نظام میں بچوں کو ضروری دینی معلومات مہیا کرنے کا مناسب اور مؤثر انتظام موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف انھیں بچوں پر پرنٹ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی یلغار ہے۔ انھیں عالمی سطح پر جاری فکری اور عام طور پر اسلام مخالف مباحث تک رسائی حاصل ہے۔ اس پر مستزاد مادیت پرستی اور افادیت پرستی (Materialism & Utilitarianism) کے رجحانات ، جو غبار کی طرح ہرشخص کو متاثر کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں نئی نسل کو واجبات ِ دین کی ادائیگی پر قائل کرنے کے لیے بھی غیرمعمولی ذہنی مشق درکار ہے۔ قرآن مجید میں یہ انداز اختیار کرکے احکامِ دینیہ کی کئی جگہ حکمتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ مثلاً نماز کی حکمت یوں بتائی: إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ 23 تقسیم دولت کی حکمت یہ بیان فرمائی:كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنكُمْ 24 حج کے بارے میں فرمایا: لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ 25

مدارس کے نظام تعلیم میں "نقل" اور دلائلِ نقلیہ" پر زور ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل خواتین عوام الناس میں دلائل نقلیہ کے ساتھ آتی ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث ِ نبویہ کو دورِ حاضر پر منطبق کرنے، عام لوگوں کے ذہن میں اتارنے اورجدید جاہلیت کو جدید طریقے سے رد کرنے کے حوالے سے عام طور پر کافی معلومات نہیں رکھتیں۔ نتیجۃً عوام الناس اورخاص طور پرتعلیم یافتہ نوجوان نسل ان تبلیغی اوراصلاحی سرگرمیوں سے دور رہتی ہے جہاں محض "جبر" کی تعلیمات ہیں۔ انسانی ضروریات ،اس کی نفسیات ،اس کے زمانے اوردنیاوی حکمتوں سے جس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

توسّع اوریسر کی ضرورت

فتویٰ بڑا نازک میدان ہے۔ ایک عام آدمی بھی اس کا احساس رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے لوگ بڑے معاملات (نکاح وطلاق ووراثت وغیرہ) میں شہر کے بڑے علمی مراکز سے رجوع کرتے ہیں۔ دینی تعلیم یافتہ خواتین سے دروسِ قرآن اورفہم قرآن کلاسوں میں خواتین بڑے مسائل نہیں، عمومی معاملات کے بارے میں استفسارات کرتی ہیں۔ زیادہ تر یہ سوالات نماز، روزہ ،زکوٰۃ، معاشرتی معاملات مثلاً لباس، تقریبات وغیرہ، اسی طرح پردہ،مشترکہ خاندانی نظام، تعدّد ازدواج اور آرائش وزیبائش وغیرہ کے بارے میں ہوتے ہیں۔

شریعت اسلامی کا عمومی معاملہ یہ ہے کہ عقائد وعبادات میں تو کسی اضافے کی گنجائش نہیں دی گئی لیکن معاملاتِ زندگی کے میدان کو وسیع رکھاگیا ہے۔ حکمتِ تشریع کے اہم اصولوں میں عدمِ حرج ،قلت تکلیف، تدریج اوریسر قابل ذکر ہیں۔ عرف وعادت اگر مقاصد ِشریعت سے نہیں ٹکراتی اور باہمی تعاون کے مقصد کو پورا کرتی ہے تو اس کی رعایت کی گئی ہے۔ اسی طرح احکام کے درجات ہیں۔ فرض، واجب، مستحب، مباح اور مکروہ۔ یوں ایک عام معاشرتی معاملے میں کسی استفسار کا جواب دینے کے لیے بہت سے امور کو مدنظررکھنا ضروری ہے۔ 26 شاہ ولی اللہ اسے "حکمتِ عملی " یعنی معاملات کی سوجھ بوجھ اورفہم سے تعبیرکرتے ہیں۔ 27

اس سلسلے کے بعض مشاہدات بڑے تلخ تھے۔ استئذان کے احکام بتاتے ہوئے، ایک مشہور مدرسے کی فارغ التحصیل معلّمہ نے اسلام کے اس سیدھے سادے حکم کو ایسا"ہفت خواں" بناکر پیش کیا کہ ساری مجلس مبہوت تھی کہ اس حکم پر بھلا عمل کیونکر ممکن ہوسکتا ہے۔ اسی طرح قرآنی کلاس کے اختتام پر جب سوالات شروع ہوئے تو بعض مباح امور کو مدرّسہ نے بلاتکلف حرام قرار دے دیا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب کوئی معاملہ آتا تو آپ اس کے آسان پہلو کو ترجیح دیاکرتے تھے۔ 28 عصرِ حاضر کے مشہور فقیہ علامہ یوسف القرضاوی اپنی مشہور کتاب "فی فقہ الاولویات" (جس کا ترجمہ " دین میں ترجیحات " کے نام سے کیاگیا ہے۔ ) میں لکھتے ہیں کہ مفتی کو کسی معاملے میں "احوط" یعنی زیادہ مبنی براحتیاط لیکن مشکل معاملے کی بجائے "ایسر" یعنی زیادہ سہولت والے معاملے پر فتویٰ دینا چاہیے۔ 29 معاشرتی میدان میں اہلِ دین کے سخت فتاوٰی نے یہ ماحول پیدا کررکھا ہے کہ لوگ استفسار کی جرات ہی نہیں کرتے کہ "مولوی" سب کچھ منع کردیں گے۔ یوں ایک عالم کے الفاظ میں گناہ جانتے ہوئے ایک کام کرتے رہنے سے یہ صفت نفسیات کا حصہ بننے لگتی ہے اور دیگر گناہ بھی آسان ہوجاتے ہیں۔ 30

فنون اورہنرمندی کی تعلیم

اسلامی تاریخ میں مدارس کی یہ روایت رہی کہ علوم دینیہ کے ساتھ فن اور ہنر کی تعلیم بھی دی جاتی تھی تاکہ طلبہ عملی زندگی میں آزادانہ معاش کا انتظام کرسکیں۔ طب، کتابت، جلد سازی ،گھڑی سازی وغیرہ کی تعلیم ہندوستان کے مدارس میں بھی عام تھی۔ معاش کی آزادی اورفراخی ،عامۃ الناس سے مالی معاملات میں ایک درجہ استغناء اور بے نیازی ایک صاحب علم کو وقار اورجرات عطا کرتی ہے۔

طالبات کے مدارس میں اس حوالے سے اچھی خاصی غفلت نظرآتی ہے۔ ایک صدرمعلمہ نے بتایا کہ انھوں نے عام گھر داری کے، (ہنرمندی نہیں ) مثلاً کچھ کھانے بنانا اور ابتدائی سلائی کے کچھ اسباق ٹائم ٹیبل میں رکھے ہیں لیکن " جان پر کھیل کر " کیونکہ " وقت ہی نہیں ہوتا ان کاموں کے لیے ۔ " سوال یہ ہے کہ میٹرک کے بعد ایک طالبہ اگرچار سال کے لیے اقامتی مدرسے میں آئے،اس کی سالانہ چھٹیاں بھی مختصر ہوں، اور یہاں وہ بنیادی گھر داری بھی بمشکل سیکھ پائے، تو اپنی مستقبل کی گھریلو زندگی ،یااگر معاشی ضروریات آن پڑیں ،تو ان تقاضوں کو کس طرح نبھاسکے گی؟ مدارس کی اساتذہ سے جوسروے کیاگیا، اس میں پوچھاگیا کہ طالبات معاشی ضرورت اگر پیش آجائے تو کیاکرتی ہیں۔ 95% جواب آیا کہ مدارس بناتی ہیں،یامدرسے سے تدریس سے وابستہ ہوجاتی ہیں، یاپھر رضاکارانہ تدریس کرتی ہیں۔

یہ ہزاروں طالبات مدارس میں ہی نہیں کھپ جاتیں۔ مدارس کی 80%یا90% طالبات اگر کم آمدنی کے طبقے سے آتی ہیں، اپناخرچ بھی برداشت نہیں کرپاتیں تو ظاہر ہے لوٹ کر بھی وہیں جاتی ہیں۔ کم آمدنی والے طبقات میں اگریہ خواتین صرف درس ِ قرآن وحدیث کے ساتھ ہنر سکھانے والی بھی ہوں تو اپنے گردوپیش کے لیے زیادہ بابرکت ثابت ہوں گی۔ افریقی ممالک،جہاں مسیحیت نے تیزی سے قدم بڑھائے، اور جومغربی یونیورسٹیوں میں تحقیق کا مستقل موضوع ہے، وہاں مشنری کام کرنے والوں نے اس کا اہتمام کیا۔ 31 ایک تبیشری پادری سے ملاقات کرنے والا اس کو ڈھونڈتا ہوا پہنچا تو وہ گاڑی کے نیچے گھسا اپنے شاگرد کو کام سکھارہا تھا۔ طریقِ کار یہ تھا کہ وہ بچوں کو مکینک کاکام سکھاتا،تبلیغ کرتا اور عیسائی بناتا۔ اس کے بعد ورکشاپ کھولنے کے پیسے دے کر اگلے گاؤں کا رخ کرتا۔

ہمارے مدارس میں زیرتعلیم طالبات کتنے ہی ہنرسیکھ کر، اپنے گھروں کو ان کا مرکز بناسکتی ہیں۔ کم پیسوں میں،مشنری جذبے کے ساتھ سکھائیں تو عام آبادی کا ان کی طرف رجوع بڑھے گا۔ لوگ دین بھی سیکھیں گے اور دنیاوی فائدے بھی پائیں گے۔ یہی میدان دین بے زار این جی اوز نے سنبھال رکھے ہیں۔ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأَرْضِ32مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے آج سے عشروں پہلے خواتین کے لیے جو کتاب "بہشتی زیور" لکھی، اس میں گھریلو ہی نہیں، تجارتی پیمانے پر بھی بعض اشیائے ضرورت بنانے کے طریقے سکھائے۔ حساب کتاب لکھنے کے اسباق شامل کیے اور گھرداری ،سلیقے اور اہل خانہ کا خیال رکھنے کے حوالے سے پوری تربیت کا اہتمام کیا۔

احوال ِ عالم سے بے اعتنائی

دنیا آج عالمی گاؤں global villageکی صورت اختیارکرچکی ہے۔ ایک تو خبر سرعت سے پھیلتی ہے کہ میڈیا طاقتور اورتیز رفتار ہے ،دوسرے دنیا کے کسی گوشے میں پیش آنے والا مسئلہ یا واقعہ پوری دنیا کو فکری اور عملی طور پر متاثر کرتا ہے۔ معاملہ یہ بھی ہے کہ میڈیا کی یہ طاقت مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے، اس لیے عام طور پر ایسے اثرات مسلمانوں کے حق میں نہیں ہوتے۔

ادھر ہمارے مدارس ِ دینیہ کی عمومی صورتِ حال یہ ہے کہ اخبار پڑھنا وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے۔ خبروں کے دیگر ذرائع مثلاً ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ تک عام طور پر طالبات کو رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ مدرسے کی محدود چار دیواری کے اندر دیکھا جائے تو بچیاں گو مطمئن نظر آتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے گردوپیش کے حالات سے بے خبر ہوتی ہیں۔ خواتین اساتذہ بھی عام طور پر مدرسے میں قیام پذیر ہوتی ہیں، اور اسی ماحول کا حصہ، چنانچہ ان کا حال بھی وہی ہے۔ احوال عالم سے دلچسپی پیدا کرنے کاایک اہم ذریعہ تاریخ اور جغرافیہ ہوسکتا ہے لیکن یہ ہمارے مدارسِ دینیہ کے نصاب کا حصہ نہیں ہے۔ کہیں اگر تاریخ اسلام شامل نصاب ہے بھی تو عہدنبوی اورعہدخلافت راشدہ سے آگے نہیں جاتی، جبکہ آج کے مسائل وہ ہیں جو ہماری تاریخ سے بھی جڑے ہیں اور جغرافیے سے بھی۔ برصغیر کی تاریخ معلوم نہ ہو تو کشمیر اوربرما کے مسائل سمجھے نہیں جاسکتے۔ یہودیت کی تاریخ معلوم نہ ہو تو فلسطین کا مسئلہ کیسے سمجھا جاسکتا ہے۔ کروسیڈز کی تاریخ معلوم نہیں تو کسی کو کیا پتہ کہ عراق جنگ میں اتحادی افواج کے سرخیل،امریکی صدر کی زبان سے یہ لفظ کیوں پھسلا۔ قیام پاکستان کے مقاصد ، تاریخ اورپس منظر کاپتہ نہ ہو تو موجودہ حالات کا گلہ بنتا ہی نہیں۔ مشرقی تیموراورجنوبی سوڈان کے الگ ہونے میں تبشیری سرگرمیوں کا بھی کردار تھا، اگر چہ عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں یہ مسلم ممالک دولخت ہوئے۔ دینی تعلیم کے وہ ادارے ، تبلیغی سرگرمیاں جن کے اہداف ومقاصد میں سرفہرست ہیں، اپنے طلبہ وطالبات کی ان احوالِ عالم سے بے خبری کا کیا جواز پیش کرسکتے ہیں؟ یونیورسٹی میں ایم فل کے داخلے کے لیے آنے والی ایک طالبہ سے جو ایک مشہور دینی مدرسے سے "عالمہ" کی تازہ سند لائی تھیں اور ایم اے کا جزوی امتحان بھی پاس کرچکی تھیں، پوچھا گیا کہ "شام " میں کیا ہورہا ہے؟ شام وہ مسئلہ ہے جس پر دنیا چیخ پڑی ہے، لیکن طالبہ کوکچھ بھی معلوم نہ تھا۔ آسان سوال پوچھا کہ اس دفعہ منیٰ میں کیاحادثہ ہوا ہے۔ وہ اس سے بھی بے خبر تھیں۔

احوال عالم سے یہ بے خبری اچھی خاصی بے حسی معلوم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ ڈھونڈیں تو بلاشبہ وہ نصاب میں بھی ملتی ہے۔ یونیورسٹیوں کے ایم اے اسلامیات کے نصاب سے رہنمائی لی جاسکتی ہے جہاں عالمِ اسلام کے وسائل ومسائل کے نام سے ایک مضمون موجود ہے۔ "تاریخ اسلام" مکمل نصاب کا حصہ ہے۔ اسی طرح جدید فکری چیلنج ،نصاب کا اہم حصہ ہونے چاہیئں۔ خواتین کے مدارس میں حقوقِ نسواں کے مغربی تصورات کا تقابلی مطالعہ کروایاجاسکتا ہے۔ مغربی لادینی تصور پر مبنی حقوق نسواں کی تنظیموں کے یہ ایجنڈے آج اقوام متحدہ کے اگلے ہزاریے کے اہداف میں شامل ہیں۔ سارے مسلم ممالک کے ساتھ پاکستان بھی ان پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ 33 اس کنونشن پر دستخط کرنے کے بعد سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی طالبات کو مدارس کے "جزیروں " تک محدود رکھ کر کوئی بڑے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے۔ جس دنیا میں انھیں نکلنا اور کام کرنا ہے، اس کی درست معلومات بروقت ان تک پہنچانے کا اہتمام ضروری ہے۔

تدریسی طریقہٴ کار میں بہتری کی ضرورت

کوئی شعبہ ،علم بجائے خود کتنا ہی اہم اور نافع کیوں نہ ہو، مؤثر تدریس کے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ صدیوں کے تدریسی تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اس حوالے سے آج جو تحقیقات ونظریات پیش کیے جارہے ہیں، اور جن کی روشنی میں تعلیمی وتدریسی عمل میں انقلابی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں، ان میں سے اکثر کی افادیت مسلّم ہے۔ وہ مدرس، جو تھوڑا سا بھی ذوق وشوق رکھتا ہو، ان مہارتوں کو سیکھنا اور استعمال کرنا اس کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے، البتہ اس معاملے کی اہمیت تسلیم کرنا ضروری ہے۔

خواتین کے مدارس کی انتظامیہ اور اساتذہ سے جو معلومات حاصل کی گئیں ان کے مطابق تدریسی معاونت کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ عام طور پر بیانیہ تدریس ہے۔ (85فیصد تک) صرف پندرہ فیصد نے بتایا کہ وہ کلاس میں بورڈ اور مارکر استعمال کرتے ہیں۔ صرف دس فیصد نے آڈیو ویڈیو معاونات کی بات بھی کی۔ رجسٹرڈ مدارس کو جب سے کمپیوٹر ملنے لگے ہیں، ان کا تھوڑا بہت رجحان اس طرف ہوا ہے لیکن طلبہ کے مدارس کی نسبت طالبات کے ہاں ابھی بھی اس حوالے سے بہت توجہ نہیں ہے۔ کہیں کہیں کلاس میں بحث ومباحثہ کی اجازت دی جاتی ہے لیکن "حدوں کے اندر۔ " قابل توجہ بات یہ ہے کہ 75فیصد اساتذہ اپنی تدریس سے مطمئن تھیں۔ صرف 25فیصد نے اظہار کیا کہ وہ کسی تدریسی ورکشاپ یا اساتذہ کی تربیت کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔

درحقیقت دینی مدارس میں اساتذہ کے اس رویے کو ایک اور جہت سے دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ سرکار کے ہاں تو پرائمری سکولوں میں بھی استاد کی تقرری کے وقت کسی پیشہ ورانہ ڈگری کی ضرورت ہے، لیکن دینی مدارس میں اساتذہ یا تو مدرسے کے منتظمین کے خاندان کی ارکان ہوتی ہیں۔ (بہنیں، بیویاں، بیٹیاں وغیرہ) یا ان کے قریبی تعلق کے واسطے سے تدریسی ذمہ داریاں سنبھالیتی ہیں۔ ایسی اساتذہ کی تقرری میں اہلیت اورمیرٹ کا کوئی تصور عام طور پر موجود نہیں ہے۔ تدریس کا بنیادی تصور بھی بس اتنا ہے کہ کتاب کا متن پڑھانا اور "سبق " یاد کرواناہے۔ "اتنی سی تدریس" کے لیے اہل مدرسہ بہت توجہ اور اہتمام (bother)بھی نہیں کرتے۔ چونکہ استاد بننے کے لیے کوئی مقابلہ نہیں ہے، اس لیے اساتذہ کو بھی نہ مدرسہ بننے سے قبل ،نہ دوران تدریس کسی تربیت یا اپنے کام کو بہتر بنانے کا خیال آتا ہے نہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

اس ساری صورت حال میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کسی بھی فن کی تحقیق ، تفہیم ،تجزیہ اور اطلاق، اخذ نتائج اورگزشتہ تعلیمی تجربے کی روشنی میں آئندہ اس عمل کو بہتر بنانے کی کوششیں اگر "جدید تعلیمی عمل" کا حصہ ہیں تو ان کے قبول کرنے میں کون سی قباحت ہے؟ دینی تعلیم میں سب کچھ وہ شامل ہے جس کا عملی زندگی میں اطلاق ہوتا ہے۔ اگر طالبات کو اس حوالے سے عملی سرگرمیوں میں مشغول کیاجائے، معاشرتی رجحانات کا ان سے تجزیہ کروایا جائے اوربدلتی صورت حال میں اصولِ دین کو قائم کرنے کے حوالے سے رہنمائی دی جائے تووہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد معاشرے کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوں گی بہ نسبت ان طالبات کے، جو صرف ونحو میں تو بڑی ماہر ہوں،لیکن عملی معاملات کی سوجھ بوجھ میں بہت پیچھے۔ عامۃ الناس کو دین کا پیغام اس کی اصل روح کے ساتھ پہنچانا انھیں " عالمات" کے لیے ممکن ہے جنھیں روح دین سکھانے کی کوشش کی گئی ہو۔ صرف "علوم آلیہ" کی واقفیت معاشرے کی ضرورت کو پورا نہیں کرتی، خاص طور پر حلقہ ء نسواں میں۔ 34؎سروے کے نتائج کے مطابق فہم قرآن مجید کی کلاسوں کی مستقل شرکاء میں سے صرف آٹھ فیصد خواتین عربی گرامر سیکھنا چاہتی تھیں، باقی بانوے فیصد (92%)اس بات کو کافی سمجھتی ہیں کہ انھیں قرآن وحدیث کا پیغام سمجھ آجائے۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس جدید تعلیمی اسلوب کی ساری مفید "مہارتیں" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہء تعلیمی میں جابجا ملتی ہیں۔ اگر اہل مدرسہ جدید ماہرین تدریس کے سامنے نہیں تو مدرسہ ء نبوت کے سامنے ہی زانوےتلمذتہ کرلیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تدریس کو مشن سمجھا اور اس راہ میں اپنی ساری توانائیاں صرف کیں۔ عام فہم مثالیں دے کر دین سے بالکل ناآشنا عربوں کوعلومِ دین ودنیا میں امام بنایا۔ پانچ نمازوں سے گناہ دور ہونے کی مثال پانچ بار ندی میں نہانے سے دی، 35؎ایک ہاتھ کی دوانگلیوں کو جوڑ کر جنت میں اپنی معیت کی خوشخبری کی "محسوس" مثال دی۔ 36 زمین پر ایک مربع بناکر اور کچھ خط مربع سے باہر کھینچ کر سمجھایا کہ یہ زندگی ہے انسان کی، اور یہ باہر نکلتے خط اس کی امیدیں ہیں جو حد زندگی سے باہر نکل پڑتی ہیں۔ 37؎نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طلبہ کے سامنے اپنا مثالی کردار پیش فرمایا، رسوخ فی العلم کی اہمیت کو اجاگر کیا، ان سے پرخلوص محبت کے ذریعے انھیں اس راستے کا راہی بنایا جو انبیاء کرام علیہم السلام کا مشن تھا۔ انھیں بلند مقاصد اوربڑے اہداف دیے اور حکمت کے ساتھ ان کے حصول کی کوشش کرنا سکھایا۔ "فیضانِ نظر اور مکتب کی کرامت" دونوں کو جمع کیا اور دینی ودنیاوی اعتبار سے وہ بہترین نتائج پیدا کیے جن کا اعتراف دشمنوں نے بھی کیا۔

نصیب ِ مدرسہ یارب یہ آبِ آتش ناک!

عملی اقدامات کی ضرورت

مدارس کے کردار کی بہتری کے حوالے سے تحقیق، مطالعات، مشاہدات اورتجاویز کی کمی نہیں ہے۔ حکومتی بھی، اور ہمدردان مدرسہ کی سطح پر بھی اس حوالے سے اہل مدرسہ کے ساتھ تعاون کے لیے لوگ تیار ہیں۔ اہل علم انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔ 38 اس حوالے سے تو ان کی معاشرتی ذمہ داریاں بڑی وسیع ہیں ہی، لیکن پاکستان کے تناظر میں اس لیے بھی یہ معاملہ اہم ہے کہ مدرسے کی مالی ضروریات مکمل طور پر ہمارا معاشرہ ہی پوری کرتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا" اس دین کا پیغام ہر کچے اور پکے گھر میں پہنچے گا۔ جہاں دن اور رات پہنچتے ہیں۔ " 39۔ یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری امت کو اس کا ذمہ دار بنایا تھا لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آج اس دین کی اجنبیت میں اہل مدرسہ کا کردار کتنا ہے؟ اس دین کی ساری خیراور سارے منافع، خیرالقرون ہی کے لیے مخصوص نہیں تھے۔ جس دورِ تاریخ اور جس زمانے کے انسان اس پر عمل اور اس کے نفاذ کی مطلوب کوششیں کریں گے، ہر اس دور اور زمانے کو اس برکات حاصل ہوں گی، نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق : "میری امت کی مثال باران رحمت کی سی ہے، نہیں معلوم کہ اس کے اول میں خیر ہے یا آخر میں۔ " 40 اس دورفتن میں جو معاشرہ مدارس کی مالی ضروریات خوش دلی سے پوری کررہا ہے ، وہ اہل دین کی تعلیم پر بھی کان دھر سکتا ہے اگر داعی نمونہ عمل بنیں اور دین کی دعوت اخلاص، محبت اورحکمت کے ساتھ ان کے دلوں میں جاگزیں گرنے کے لیے اپنے اندر فکرمندی پیدا کریں۔ طبقہ ء نسواں اس تبدیلی کی تمہید ہوسکتا ہے۔

طبیب ِ عشق نے دیکھا مجھے تو فرمایاتیرا مرض ہے فقط آرزو کی بے نیشی

حواشى وحوالہ جات

1۔ سورۃالعلق 96: 3۔ 5

2۔ یونانیوں میں افلاطون ،سقراط کا شاگرد اور ارسطو کا استاد تھا۔ اس نے ایک مثالی ریاست کا جونقشہ پیش کیا ہے، اس میں تعلیم وتعلم صرف حکماء اور اعلیٰ فوجی قیادت کے لیے ضروری ہے۔ ریاست کے باقی باشندوں کے لیے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ (ملاحظہ ہو تاریخ فلسفہ، الفرڈ ویبر ، مترجم خلیفہ عبدالحکیم، ص 84، نفیس اکیڈمی کراچی، 1987ء اسی طرح تاریخ فلسفہ ء یونان، نعیم احمد ،ص 14،علمی کتاب خانہ اردو بازار لاہور1981،

(i)۔ ہندوؤں کے مطابق برہمن، برہما کے سر سے پیدا ہوئے تھے، اس لیے ویدوں کا سیکھنا، سمجھنا، پڑھنا پڑھانا بس انھیں کی ذمہ داری ہے۔ منودھرم شاستر، ترجمہ ارشد رازی، ص 37،نگارشات پبلشرز ، لاہور2007

(ii)۔ بنی لاوی حکمِ تورات کے مطابق منصب کہانت پرفائز تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے دینی اور علمی مقام کے بارے میں، جو انھیں یہود میں حاصل تھا، بڑی دلچسپ معلومات ،عہد نامہء قدیم سے اخذ کرکے لکھی ہیں۔ خیمہ ء عبادت میں میں صرف بنی لاوی داخل ہوسکتے تھے۔ یہود کو جس معاملے میں مشکل پیش آتی، کاہن اعظم تابوت کے پاس جاکر خدا کے فیصلے معلوم کرلیتا ۔ مجرد تابوت کے سامنے حاضری حصول الہام کے لیے کافی تھی۔ یہ کاہن معصوم اور ملہم خیال کیے جاتے ۔ اس طریقے کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بنی لاوی "اربابا من دون اللہ " بن بیٹھے اور ان کے ہرقسم کے اوہام اورخیالات نے قانون کا درجہ حاصل کرلیا۔ (امین احسن اصلاحی، حقیقت شرک، ص 67، مکتبہ انجمن خدام القرآن ،لاہور،1980)

3۔ تدوین حدیث، سیدمناظر احسن گیلانی،215 تا225،مکتبہ العلم، اردوبازار ،لاہور

4۔ صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل، کتاب العلم ، باب ھل یجعل للنساء یوما، حدیث/ دارالسلام للنشر والتوزیع، ریاض 1999ء

5۔ الطبقات الکبریٰ، محمد بن سعد بن منیع، 7/962۔ 317،داراحیاء، التراث العربی، بیروت ۔ لبنان

6۔ صحیح مسلم ،مسلم بن حجاج ،کتاب صلاۃ المسافرین۔ باب جامع صلاۃ اللیل۔ حدیث 1739 دارالسلام للنشرالتوزیع ریاض 2000

7۔ صحیح مسلم ،مسلم بن حجاج، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا، باب اثبات الحساب، حدیث 7225، 7227

8۔ صحیح بخاری، حدیث 1286

9۔ خواتین کے دینی مدارس کا قومی ترقی میں کردار، نورین خالدہ، (تحقیقی مقالہ ایم فل ۔ لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی) 2014،ص 36

10۔ ایضاً ص 46

11۔ برعظیم پاک وہند کی ملت اسلامیہ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ، ص 167، شعبہ ء تصنیف وتالیف وترجمہ۔ کراچی یونیورسٹی ،کراچی 1999ء

12۔ شاہ ولی اللہ نے نجیب الدولہ کے نام اپنے مکتوب میں لکھا" اگر غلبہء کفر معاذ اللہ اسی انداز پر رہا تو مسلمان اسلام کو فراموش کردیں گے اور تھوڑا ہی زمانہ گزرے گا کہ یہ مسلم قوم ایسی قوم بن جائے گی کہ اسلام اور غیراسلام میں تمیز نہ کرسکے گی۔ " شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات، خلیق احمد نظامی، ، ص 22،23،اردوبازار لاہور۔ 1978ء

13۔ رود کوثر ،شیخ محمد اکرام، ص 533، ادارہ ثقافت اسلامیہ ،لاہور۔ 1997

14۔ [i] http://www.dailytimes.com.pk/business/03-Jun-2014/earning-2-a-day-60-19-population-live-below-poverty-line

15۔ [i] Pakistan Economic Survey 2014-15,Economics and Social indicators,http://www.finance.gov.pk/survey/chapters_15/Economic_Indicators.pdfretrieved 06 August 2015

16۔ دینی مدارس میں تعلیم۔ کیفیت، مسائل ،امکانات، سلیم منصور خالد، ص 163، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز ،اسلام آباد۔ 2002ء

17۔ صحیح مسلم ، باب بیان ان الاسلام بدأغریبا،حدیث384

18۔ عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید شاہ ولی اللہ، ص 101، شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد۔ 2000ء

19۔ دینی مدارس میں تعلیم ۔ ص228، 229

20۔ اکیسویں صدی میں پاکستان کے تعلیمی تقاضے ،ڈاکٹر محمود احمد غازی ،ص 115، پاکستان اسلامک ایجوکیشنل کانگرس۔ 2001ء

21۔ الفوز الکبیر، شاہ ولی اللہ ،ص 43، 44، قرآن محل، مولوی مسافر خانہ، کراچی ، 1982ء

22۔ القمر54: 32

23۔ العنکبوت 29: 35

24۔ الحشر 7:59

25: الحج 22: 28

26۔ محاضرات فقہ، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ص 66تا70، الفیصل ناشران کتاب، اردوبازار،لاہور

27۔ انفاس العارفین ،شاہ ولی اللہ ، ص 83، شاہ ولی اللہ اکیڈمی ۔ حیدر آباد، سندھ 1966ء

28۔ صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل ،کتاب الادب، حدیث نمبر6126، دارالسلام للنشر والتوزیع، ریاض، 1999ء

29۔ دین میں ترجیحات، یوسف القرضاوی، ص 23، ادارہ منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ 2008

30۔ تفہیم القرآن، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، 1/145، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور،1994ء

31۔ ہمارا اسلام قبول کرنا، پروفیسر خالد حامدی فلاحی، ص 232، منشورات، ملتان روڈ، لاہور۔ 2009ء

32۔ الرّعد13: 17

33۔ http://www.unmillenniumproject.org/goals/gti.htm

34۔ التفہیمات الالٰہیہ، شاہ ولی اللہ، شاہ ولی اللہ اکیڈمی،حیدر آباد سندھ، 1966

35۔ صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ ، حدیث 528

36۔ صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ، باب فضل الاحسان الی البنات، حدیث 2631،

37۔ ابن ماجہ ،کتاب الزھد۔ باب الامل والاجل، حدیث: 4231، دارالسلام للنشروالتوزیع، ریاض 1999ء

38۔ الترمذی ،کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقه علی العبادۃ،حدیث: 2682، دارالسلام للنشر والتوزیع، ریاض 1999ء

39۔ مسند احمد،ا حمد بن حنبل، حدیث 16509،تمیم الداری، 5/73،دار احیاء التراث العربی، بیروت،1991ء

40۔ الترمذی، باب مثل امتی مثل المطر ،حدیث 2869

  1. اسسٹنٹ پروفیسر ،لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی ،جیل روڈ ،لاہور
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...