Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 31 Issue 2 of Al-Idah

دال و مدلول کا باہمی ربط و تعلق: عصری رجحانات، قرآن و سنت پر اس کے اثرات |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

31

Issue

2

Year

2015

ARI Id

1682060034497_781

Pages

20-43

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/162/154

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/162

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

معلوم چیز سے نامعلوم شے کا جاننا علم الدلالت کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح دلیل کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ مطلوب کی طرف رہنمائی کرتی ہے ’’المرشد الیٰ المطلوب ‘‘، جس طرح دھواں کسی جگہ آگ کے جلنے پر دلیل ہوتا ہے ۔ ابو البقاء ایوب بن موسیٰ (م۔ ۱۰۹۴ھ ) کے نزدیک دلیل کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعے مدلول کی معرفت حاصل ہوتی ہو، یہ دلالت حسی طور پر ہو یا شرعی، قطعی طور پر ہو یا غیرقطعی۔ یہاں تک کہ حواس وعقل، نص وقیاس، خبر واحد وظاہری نصوص ان سب کو دلائل کہا جاتا ہے۔

علامہ راغب اصفہانی (م۔ ۵۰۲ھ - ۱۱۰۸ء ) لکھتے ہیں کہ جس کے ذریعے کسی چیز کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرنا اور اشارات ورموز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا وغیرہ۔ علامہ راغب لکھتے ہیں کہ دلالت عام ہے کہ جاعل یعنی واضع کی وضع سے ہو یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلاً ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر فوراً جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے، قرآن کریم کی آیت کریمہ ہے کہ ( مَا دَلَّهُمْ عَلیٰ مَوتِه الاّ دَاابَةُ الأرضِ ) ۲ ’’تو کسی چیز سے اُن (یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام) کا وفات پانا معلوم نہ ہوا مگر گھُن کے کیڑے سے ۔‘‘۳

انگریزی زبان میں اگرچہ علم الدلالت کے کئی الفاظ مستعمل رہے ہیں مگر آج متداول اصطلاح ’’Semantics‘‘ ہے ۔ عربی اور اردو زبان میں اس کا ترجمہ’’ علم المعانی‘‘ کیا گیا ہے ۔اس کو نظریہِ معنی بھی کہا جا سکتا ہے ۔

علم الدلالت کی بحث اور اس کا دائرہ کار :

علم الدلالت کی بحث علم لغت، لسانیات، علم منطق کے ساتھ ساتھ اسلامی ادب میں علم النحو، علم اصول الفقہ وغیرہ میں متداول ہے ۔

علم منطق میں دلالت کی کچھ یوں وضاحت کی گئی ہے کہ مخصوص مقدمات کا نام دلیل ہے جیسے عالم متغیر ہے اور ہر متغیر حادث ہے:

’’هي المقدمات المخصوصة نحو العالم متغیر وکل متغیر فهو حادث ۔ ‘‘۴

فقہائے اصولیین اس طرح بحث کرتے ہیں

علمائے اصولیین کے ہاں اس کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے کہ صحیح نظر کے ساتھ مطلوب خبر تک رسائی کا نام دلیل ہے ۔

’’والدليل عند الأصولی: هو ما يمکن التوصل به بصيحيح النظر فيه إلى مطلوب خبري‘‘۵

قرآن کریم میں دلالت کے مترادفات:

قرآن کریم میں دال، مدلول اور دلیل کے ساتھ ساتھ دیگر مترادف الفاظ جیسے حجت برہان، آیت، نظر، تمثیل اور اعتبار وغیرہ بھی آئے ہیں ۔

دلیل :

(أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاء لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا ۶

(دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ) ۷

النظر :

(أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ) ۸

(انظُرُواْ إِلِى ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ إِنَّ فِي ذَلِكُمْ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ) ۹

قرآن کریم میں مستعمل لفظ دلیل کا ترجمہ علامت اور راہ نما جیسے الفاظ سے کیا گیا ہے ۔۱۰

(سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ) ۱۱

البرھان :

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ) ۱۲

اس آیت کریمہ میں لفظ ’’برہان‘‘ کا مصداق بعض مفسرین کے مطابق قرآن کریم اوربعض کے نزدیک نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس ہے ۔

ابو البقاء ایوب بن موسیٰ لکھتے ہیں کہ اگر دال اور مدلول دونوں قطعیات سے مرکب ہوں تو اس کو برہان کہا جاتا ہے ۔ ۱۳

اعتبار :

(فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ) ۱۴

تمثیل :

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلاً يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ ۱۵

اس طرح آیات کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں دلیل کے مترادف کے طور پر دیگر الفاظ بھی مستعمل ہیں اور اس سے قرآن کریم کی بلاغت کا پہلو واضح ہوتا ہے کہ ایک ہی بات کہنے اور انسان کو سمجھانے کے مختلف پیرائے اختیار کیے گئے ہیں ۔

علم الوجوہ والنظائر کی رو سے دلالت کی وجوہ :

ابو ہلال عسکری لکھتے ہیں کہ لفظ دلالت عبارت، علامت (امارت)، شبہ وغیرہ کے معنی میں مستعمل ہے ۱۶ ۔

دلالت کی اقسام :

دلالت کی دو اقسام ہیں :

الف۔ دلالت لفظیہ ۔

ب۔ دلالت غیر لفظیہ ۔

دلالت لفظیہ کی تین اقسام ہیں :

الف۔ دلالت وضعیہ ب۔ دلالت طبعیہ۔ ج۔ دلالت عقلیہ ۔

اسی طرح دلالت غیر لفظیہ کی تین اقسام ہیں :

الف۔ دلالت غیر لفظیہ وضعیہ ب۔ دلالت غیر لفظیہ طبعیہ ج۔ دلالت غیر لفظیہ عقلیہ

دلالت لفظیہ وضعیہ کی تین اقسام ہیں :

الف۔ دلالت مطابقہ ب۔ دلالت تضمن ج۔ دلالت التزام

اس طرح دلالت کی کئی اقسام ہیں مگر ذیل میں دلالت لفظیہ پر تفصیلی بحث کی جاتی ہے ۔

دال ومدلول کا باہمی ربط وتعلق :

ابو حامد محمد بن محمد (م۔۱۱۱۱ء - ۵۰۵ھ ) جو امام غزالی کے نام سے معروف ہیں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وجود کے کئی مراتب ہیں جیسے کسی چیز کا وجود پہلے اعیان میں اس کے بعد اذہان میں پھر الفاظ میں اور آخر پر کتابت میں ہوتا ہے ۔ پس کتابت لفظ پر دلالت کرتی ہے اور لفظ معنی پر دلالت کرتا ہے جو انسانی نفس میں ہوتا ہے اور جو نفس میں ہوتا ہے وہ اس کی مثال ہوتا ہے جو اعیان میں موجود ہوتا ہے ۔ اور اعیان کا وجود وضع اور اصطلاح پر دلالت کرتا ہے :

’’الالفاظ من مراتب الوجود : اعلم أن المراتب فيما نقصده أربعة واللفظ فی الرتبة الثالثة، فان للشئ وجوداً فی الأعيان ثم فی الأذهان، ثم فی الألفاظ ثم فی الکتابة، فالکتابة دالة علی اللفظ واللفظ دال علی المعنى الذی فی النفس، والذی فی النفس هو مثال الموجود فی الأعيان، فما لم يکن للشئ ثبوت فی نفسه لم يرتسم فی النفس مثاله ۔‘‘۱۷

دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ ادراک کے اعتبار سے معنی کی تین اقسام ہیں : محسوسات، تخیلات، تعقلات ۱۸ ۔

امام غزالی کا کہنا ہے کہ ہر شے کا ایک وجود خارج میں ہوتا ہے، ایک ذہن میں اور ایک زبان میں ہوتا ہے ۔خارجی وجود اصلی اور حقیقی ہوتا ہے ۔ ذہنی وجود علمی وصوری اور زبان کے لحاظ سے اس کا وجود لفظی ودلیلی ہوتا ہے ۔ ان کو معروف فلسفی ارسطو کے نقطہِ نظر سے بالترتیب اشیاء، تصورات اور اصوات بھی کہا جا سکتا ہے، اشیاء سے خارجی وجود، تصورات سے معانی اور اصوات سے رموز وکلمات مراد ہیں ۔

اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ لفظ ’’ سماء‘‘ یعنی آسمان کاایک وجود فی نفسہ ہے اور ایک وجود ہمارے ذہن میں ہے، کیوں کہ آسمان کی صورت ہماری نگاہوں کے ذریعے سے ہمارے خیالوں میں منطبع ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ اگر آسمان بالفرض معدوم بھی ہو جائے اور ہم سلامت ہوں تو آسمان کی صورت پھر بھی ہمارے خیال میں موجود رہے گی، اسی صورت کو علم کہتے ہیں اور وہ مثال ہوتی ہے جس کے متعلق علم ہوتا ہے، کیوں کہ وہ معلوم شے کی حالت کا پتہ دیتی ہے، وہ ایسی ہے جیسے آئینہ میں شکل دکھائی دیتی ہے، کیوں کہ وہ بھی مقابل کی خارجی صورت کی حالت کا پتہ دیتی ہے اور زبان کے لحاظ سے اس کا وجود لفظ ہے جو چار حروف (سین، میم،الف، ہمزہ ) پر مشتمل ہے اور وہ لفظ ’’سماء‘‘ ہے ۔ پس قول امر ذہنی کی دلیل ہے اور امر ذہنی امر موجود کی صورت ہے ۔ اگر خارجی وجود نہ ہوتا تو ذہن میں صورت منطبع نہ ہوتی اور اگر ذہن میں صورت منطبع نہ ہوتی تو انسان اس سے مطلع نہ ہوتا اور اگر انسان اس سے مطلع نہ ہوتا تو زبان سے اس کا اظہار نہ کرتا ۱۹ ۔

جب اشیاء کا خارجی وجود، تصورات اور اصوات تینوں کی الگ الگ حیثیت مثال کے ذریعے واضح ہو گئی تو اس بحث کا اگلا پہلو یہ ہے کہ لفظ کی اپنے معنیٰ پر دلالت طبعی ہے یا اصطلاحی ؟ کہ کیا واضعِ لفظ نے جس لفظ کو جس معنی کے لیے چاہا بغیر کسی لحاظ کے وضع کر دیا کہ لفظ اور اس کے معنی میں کوئی مناسبت نہیں پائی جاتی ہے ؟ یا لفظ اور معنی کے مابین خاص مناسبت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے لفظ وضع کیا گیا ؟

دلالت طبعی کے قائلین اور ان کا نقطہ نظر:

اہل التوحید والعدل جو فرقہ معتزلہ کے نام سے اسلامی تاریخ میں معروف ہے سے وابستہ عَبّاد بن سلیمان کی طرف یہ رائے منسوب کی جاتی ہے کہ وہ لفظ کی معنی پر طبعی دلالت کے قائل تھے ۔ ابو سہل عباد بن سلیمان بن علی صیمری دو سو پچاس ہجری کے لگ بھگ فوت ہوئے ۔ شہر بصرہ کے معتزلہ میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔ عباد بن سلیمان کا کہنا ہے کہ اگر لفظ ومعنی کے مابین طبعی مناسبت نہ تو یہ بات لازم ٹھہرتی ہے کہ واضعِ لفظ نے کسی لفظ کو کسی معنی کے لیے ترجیح بلا مرجح دے دی ہے ۔

فقہائے اصولیین اور ماہرینِ لغت کے ہاں اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اہل سنت والجماعت کے ہاں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ لفظ کی اپنے معنیٰ پر دلالت وضعی یا اصطلاحی ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ میں علم اصول فقہ کی کتب میں یہ بحث پائی جاتی ہے :

’’ليس بين اللفظ ومدلوله مناسبة طبيعية عندنا وخلافاً لعباد بن سليمان المعتزلي‘‘۲۰

جب کہ لفظ کی معنی پر دلالت وضعی واصطلاحی قرار دینے والوں کا کہنا ہے کہ اگر لفظ کی دلالت باعتبار تقاضائے معنی کے ہوتی تو زبانوں کا اختلاف موجود نہ ہوتا ۔ ہر شخص کے لیے ممکن ہوتا کہ ہر لفظ کے معنی سمجھ لیتا اور لفظ کا ایک معنی سے دوسرے معنی کی طرف انتقال محال ہوتا جیسے لفظ ’’قرء‘‘ حیض اور طہر کے لیے اسی طرح ’’جون‘‘ جو سیاہ اور سفید دونوں معنی کے لیے مستعمل ہے ۔ ان مثالوں میں الفاظ کا متضاد اور مشترک معنی کے حامل ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے جو لفظ کے وضعی واصطلاحی ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔

عہد اسلامی کے علمائے لغت اور لفظ ومعنی کا باہمی ربط :

عہدِ اسلامی کے ماہرینِ لغت لفظ ومعنی کے مابین مناسبت کو ذاتی وطبعی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اس سلسلہ میں ان کی محنت شاقہ تلاش وجستجو اور تحقیق کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طبعی مناسبت کو ثابت کرنے کے لیے علامہ ابو الفتح عثمان بن جنی (م۔ ۳۹۲ھ ) نے اس سلسلہ میں کتاب الخصائص میں چار فصول قائم کی ہیں :

الف: فی تلاقی المعانی على اختلاف الأصول والمبانی .

ب: الاشتقاق الأکبر

ج: تصاقب الألفاظ لتصاقب المعانی

د: امساک الألفاظ أشباه المعانی ۲۱

اسی طرح ابو الحسین احمد بن فارس (م۔ ۱۰۰۴ء ۳۹۵ ھ) نے مقاییس اللغۃ میں اس ذاتی مناسبت کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔

فقہائے اصولیین میں سے اہم نام امام غزالی کا ہے ۔ امام غزالی علمائے اشتقاق کا ردکرتے ہیں ۔ چناں چہ اپنی کتاب المستصفیٰ من علم الاصول میں ’’ان الأسماء اللغویة، هل تثبت قیاساً ؟ ‘‘کے تحت اس مؤقف کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ

’’فثبت بهذا : أن اللغة وضع کلها توقيفا‘‘۲۲

جیسا کہ لفظ ’’خمر ‘‘ کہ جو شراب انگور سے کشید کی گئی ہو اس کو خمر کہا جاتا ہے کیوں کہ وہ عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، پس اسی وجہ سے نبیذ کو بھی انگور کی شراب پر قیاس کرتے ہوئے شراب کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ بھی عقل کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ اسی طرح چور کو چور اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کے مال کو چھپ کر لے لیتا ہے اور یہی علت نباش یعنی کفن چور میں پائی جاتی ہے پس اس پر بھی قیاساًچور کا اطلاق کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ آیتِ سرقہ (والسارق والسارقۃ ) کے عموم میں داخل ہو جاتا ہے۔ امام غزالی لغت میں اس قسم کے قیاس روا رکھنے کے قائل نہیں ہیں وہ لکھتے ہیں جس طرح علامہ زجاج کا کہنا ہے کہ ہر وہ چیز جس میں مائع چیز قرار پکڑے یعنی ٹھہر جائے ’’قارورہ‘‘ کہلاتی ہے یہاں لفظ ’’قارورہ‘‘ قرار سے لیا ہے، اسی طرح ’’قارورہ‘‘ پر قیاس کرتے ہوئے پیالہ اور حوض کو بھی قارورہ کہنا چاہیے تھا کیوں کہ ان میں بھی مائع قرار پاتا ہے مگر اہل لغت ایسا نہیں کہتے، اس طرح اہل لغت کا اس سلسلہ میں قیاس کا قاعدہ درست نہیں ٹھہرتا:

’’وکما سموا الزجاج الذی تقر فيه المائعات قارورة، أخذ من القرار، ولا يسمون الکوز والحوض قارورة ،وان قر الماء فيهما‘‘۲۳

اس سے امام غزالی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ لغت میں قیاس کا اثبات درست نہیں ٹھہرتا :

’’فلا سبيل الى إثباتها ووضعها بالقياس ‘‘۲۴

پھر اس کے بعد لکھتے ہیں کہ لغت کلی طور پر وضعی اور توقیفی ہے اس میں قیاس کی گنجائش نہیں ہے :

’’فثبت بهذا: أن اللغة وضع کلها، وتوقيف، وليس فها قياس أصلاً‘‘۲۵

ابو الحسین احمد بن فارس (م۔ ۳۹۵ھ - ۱۰۰۵ء ) اور ابوالفتح عثمان بن جنی (م۔ ۳۹۲ھ - ۱۰۰۲ء ) سے قبل خلیل بن احمد فراہیدی (م۔ ۱۷۵ ھ - ۷۹۱ء) نے کتاب العین میں اور ابوبکر محمد بن حسن بن دُرَید (م۔ ۳۲۱ھ - ۹۳۳ء) نے کتاب جمھرۃ اللغۃ میں لفظ کی تقلیب کی تو بات کی ہے مگر لفظ ومعنی کی طبعی مناسبت اور قیاس کا ذکر نہیں کیا ۔ ۲۶

دلالت وضعی کے قائلین اور ان کا نقطہ نظر

مسلم فلاسفہ کا رجحان :

لفظ ومعنی کی باہمی مناسبت کے بارے میں مسلم فلاسفہ کا میلان اس طر ف ہے کہ یہ دلالت وضعی ہے ۔ ابو النصر فارابی لکھتے ہیں :

’’فلما کانت الخطوط دلالتها علی الألفاظ باصطلاح کذلک دلالة الألفاظ علی المعقولات التی فی النفس باصطلاح ووَضعٍ وشريعة‘‘۲۷

امام غزالی کا نقطہ نظر :

امام غزالی کا میلان اس طرف ہے کہ لفظ ومعنی کے مابین مناسبت طبعی بھی ہو سکتی ہے اور وضعی بھی :

’’فثبت بهذا : أن اللغة وضع کلها توقیفي ۔‘‘۲۸

امام رازی کا رجحان :

امام فخرالدین محمد بن عمر رازی (م۔ ۱۲۰۹ء- ۶۰۶ھ ) کا رجحان اس طرف ہے کہ مناسبت ذاتی ضروری نہیں، البتہ اس کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ وہ لکھتے ہیں :

’’دلالة الألفاظ علی مدلولها ليست ذاتية حقيقية خلافاً لعباد، لنا أنها تتغير باختلاف الأمکنة والأزمنة، والذاتيات لا تکون کذلک‘‘۲۹

اس کے بعد لکھتے ہیں کہ البتہ بعض کلمات میں لفظ ومعنی کے مابین ذاتی مناسبت پائی بھی جاتی ہے، جس طرح اہل لغت نے لفظ ’’قط ‘‘ اس لیے رکھا کہ یہ لفظ اپنی صوت میں قط سے مشابہت رکھتا ہے ایسے ہی لفظ قلق کے بارے میں کہا جاتا ہے ۔ ایسے ہی تر چیز جو خشک نہ ہو کھانے کو’’ الخضم‘‘ وضع کیا گیا جیسے خربوزہ اور کھیرا وغیرہ اور کھانے والی خشک چیز کے لیے’’ القضم‘‘ وضع کیا گیا جیسے’’ قضمت الدابة شعیرها‘‘ جانوروں کو جَو کا چارہ دیا ۔ کیوں کہ ’’الخضم‘‘ میں حرف ’’خاء ‘‘ تر چیز کھانے کی آواز سے مشابہ ہے اور لفظ ’’القضم‘‘ میں حرف ’’قاف‘‘ خشک چیز کھانے کی صوت سے مشابہ ہے :

’’وقد يتفق فی بعض الکلمات کونه مناسباً لمعناه مثل تسميتهم القطا بهذا الاسم، لأنه هذا اللفظ يشبه صوته، وکذا القول فی اللقلق، وأيضاً وضعوا لفظ الخضم لأکل الرطب نحو البطيح والقثاء ولفظ القضم لأکل اليابس نحو قضمت الدابة شعيرا، لأن حروف الخاء يشبه صوت أکل الشئ الرطب وحرف القاف يشبه صوت أکل الشئ اليابس ‘‘۳۰

اس طرح امام غزالی اور امام رازی لفظ ومعنی کے باہمی ربط کے ذاتی اور وضعی ہر دو کے قائل ہیں مگر کسی ایک کے بارے میں قطعیت کا مؤقف نہیں رکھتے جیسا کہ عباد بن سلیمان کا رجحان تھا ۔

لفظ ومعنی کی باہمی مناسبت میں شاہ عبدالعزیز کا رجحان :

شاہ عبدالعزیز (م۔ ۱۸۲۳ء ) کا کہنا ہے کہ لفظ کی دلالتِ طبعی کے مؤیدین کا کہنا ہے کہ حروف اپنے خواص رکھتے ہیں اور حروف کے خواص مختلف ہوتے ہیں مثلاً جہر ہمیس، شدت، رخاوت، استعلا اور تسفل ۔ اسی طرح ہیئات ترکیبی کے بھی خواص مختلف ہوتے ہیں مثلاً فعلانٌ کا وزن تحریک کے ساتھ حرکت پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ نزان خفقان وغیرہ، فعل کا باب فعلوں پر بطور طبعیہ لازمہ کے دلالت کرتا ہے، اور فعل بالتشدید کثرت پر دلالت کرتا ہے ۔ پس اگر واضعِ لغت ان خواص کے علم کے باوجود وضع کے وقت اس مناسبت کی رعایت ملحوظ خاطر نہ رکھے اور باہمی مناسبت کو ترک کر دے تو گویا اس نے کلمہِ حق ادا نہیں کیا، جب کہ یہ بات حکمت کے منافی ٹھہرتی ہے ۔ یہ بات تو مسلمہ ہے کہ واضعِ لغت ذات باری تعالیٰ ہے جو حکیم ہے ۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا میلان اس طرف ہے کہ الفاظ ومعانی کے درمیان ذاتی مناسبت کی البتہ رعایت رکھی گئی ہے اور جو لوگ اس مناسبت کا انکار کرتے ہیں ان کے اس انکار کی غرض یہ ہوتی ہے کہ یہ مناسبت فقط معانی کے سمجھنے میں کفایت نہیں کرتی ہے بلکہ ذاتی مناسبت کے ساتھ واضع کی وضع بھی معانی کے سمجھنی میں درکار ہوتی ہے، کیوں کہ حروف تہجی جس وقت مختلف ترکیبات میں رکھے جائیں تو باہمی مناسبتیں بھی جدا جدا پیدا ہوتی ہیں اور مختلف مناسبتیں جدا جدا اوضاع کو چاہتی ہیں، جیسا کہ عناصر اربعہ کہ جو تمام جہان کے مرکب اجزاء ہیں اپنی اپنی کیفیات کے جدا جدا ہوتے ہیں ۔ لیکن ان عناصر اربعہ کی کیفیات دوسری کیفیات سے مل جانے کے سبب اور ان عناصر کے باہمی انضمام کے مختلف طریقے اور مقدار کے سبب کسی جگہ کوئی کیفیت غالب ہے تو کسی جگہ اعتدال ہے، اس طرح بحسبِ مراتبِ ترکیب کے بے حد اور بے شمار کیفیات ہو گئیں ۔ مگر ان کیفیات کے آثار عقل ظاہر بین سے پوشیدہ رکھے گئے کہ اس کیفیت کا خاص ترکیب میں کیا اثر ہو گا ؟ مگر بعد تجربہ کے مثلاً افیون میں برودت اور یبوست کی کیفیت پائی جاتی ہے مگر یہ کیفیت پانی اور مٹی سے زیادہ نہ ہو گی اور حال یہ ہے کہ تھوڑی سی افیون مار ڈالتی ہے اور پانی ومٹی اس سے کئی حصے زیادہ بھی ہو مار ڈالنا تو کجا مزاج میں بھی تغیر نہیں لا سکتی ۔ اسی واسطے عقل ظاہر بین اس قسمِ خاص کو صور نوعیہ کی طرف نسبت کر کے اپنی تسلی خاطر کرتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ فعل اس مرکب سے بالخاصیت صادر ہوا،یہ اس مرکب کے اجزا کی کیفیتوں کا تقاضا نہیں تھا وعلیٰ ھذاالقیاس ۔ اس جگہ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ واضعِ لغت نے اپنے کمال علمِ محیط سے الفاظ کے مقابل معنی کی ہر ترکیب میں مناسبت وضع فرمائی۔ لیکن ہر گاہ کہ انسانی عقل ظاہر بین اس کے دریافت کرنے کی مناسبت نہیں رکھتی، اس لیے واضعِ لغت کو ارادہ حوالے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں یعنی اس پر زیادہ غور وخوض سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۳۱ ۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ شاید اسی لیے علمائے اشتقاق نے ترکیب متناسبہ اور ترکیب متقاربہ میں فرق کیا اور ترکیب متناسبہ یعنی لفظ ومعنی کی باہمی مناسبت کی ترکیب پر غور وخوض کی بجائے ترکیب متقاربہ پر زور دیا، جیسے لفظ فصم اور قصم میں فرق کیا ہے کہ فصم کا معنی ہے کہ کسی چیز کا اس طرح توڑنا کہ وہ چیز جدا نہ ہو، جب کہ قصم کا معنی کسی چیز کا ایسے توڑنا کہ وہ اس سے جدا ہو جائے ۔

شاہ عبدالعزیز اس کے بعد لکھتے ہیں کہ معنی تک رسائی کے لیے لفظ ومعنی کے مابین تناسب ذاتی کافی نہیں جیسا کہ عباد بن سلیمان کا مذہب ہے، بلکہ سبب مرجح ہے بیچ نظر واضع حکیم کے یعنی واضعِ لغت کی نظر میں سبب کو مناسبت پر ترجیح دی جائے گی ۳۲ ۔

لفظ ومعنی کی باہمی مناسبت کی مثال کچھ یوں دیتے ہیں کہ جس لفظ میں نون اور فاء جمع ہوتے ہیں تو وہ خروج کے معنی پر دلالت کرتا ہے، یہ خروج خواہ کسی وجہ سے ہو، جیسے لفظ نفر، نفث، نفع، نفق، نفخ اور نقد وغیرہ ہیں۔ اسی طرح جس لفظ میں فاء لام جمع ہوں تو وہ چرنے پر دلالت کرتا ہے، جیسے لفظ فلق،فلج،فلح، فلذ اور فلد وغیرہ ۳۳ ۔

شاہ صاحب کا رجحان اس طرف ہے کہ اگرچہ لفظ ومعنی کے مابین طبعی مناسبت کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا مگر تفہیمِ معنی میں ذاتی مناسبت پر سبب کی اہمیت مقدم ہے ۔

لفظ ومعنی کی مناسبت اور مسئلہِ حسن وقبح :

اس کے بعد شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ اگر لفظ ومعنی میں طبعی واصطلاحی مناسبت کے مسئلہ کی تحقیق کی جائے تو اس کا مسئلہِ حسن وقبحِ افعال سے گہرا تعلق ہے کہ کوئی فعل اپنی ذات میں اچھا ہوتا ہے اس لیے شریعت نے اس کو جانا ہے یا اس فعل کا حکم چوں کہ شریعت نے دے دیا ہے اس لیے اچھا ہے۔ اس مسئلہِ حسن وقبحِ افعال سے متعلق اشاعرہ کی رائے شرعی محض کی ہے کہ افعالِ انسانی کے اچھے اور برے ہونے کا معیار عقل محض نہیں بلکہ شریعت ہے یعنی ذات فعل میں کسی حکمت کا تقاضا پیش نظر نہیں بلکہ شریعت کی وجہ سے وہ فعل اچھا ہے ۔ اس طرح اشاعرہ کے نزدیک اگر بالفرض شارع زنا کو واجب اور نماز کو حرام قرار دے تو اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، اس نکتہ پر علمائے ظاہریہ اور اشاعرہ ایک ہو جاتے ہیں کہ دونوں احکام شرعیہ کے بارے میں محض جذاف اور تحکم کا اعتقاد رکھتے ہیں۔

جب کہ فرقہ معتزلہ نے عقل کو مستقل حاکم گردانا ہے اور حسن وقبحِ افعال کے ذاتی ہونے کے قائل ہیں کہ فعل اپنی ذات میں اچھا یا برا ہوتا ہے، اس بنیاد پر شریعت اچھے فعل کے کرنے کا اور برے سے رُکنے کا حکم صادر کرتی ہے ۔ پھر شاہ صاحب فرقہ معتزلہ کا اس طرح رد کرتے ہیں کہ نسخ وتبدل کی وجہ سے پہلے حکم کا اچھے یا برے سے بدل جانا معتزلہ کے مؤقف کا رد ہے ۔

ان دونوں فرقوں کے مقابل محققین ماتریدیہ کا مؤقف ہے کہ اگرچہ فعل میں حسن وقبح اصلی ہیں مگر اس معنی کے ساتھ کہ اس فعل میں کوئی ایسی چیز ہے کہ وہ فعل اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی حکم کا مستحق ہو جاتا ہے یعنی اس فعل کی شان ترجیح مرجوح کی نہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ مکلفین کے حق میں کوئی حکم صادر نہ فرمائیں کوئی حکم متحقق نہیں ہو تا ہے یعنی کسی فعل کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ حکم ایزدی کے بعد ہی ہو گا ۳۴ ۔

اس طرح شاہ صاحب کا یہ مؤقف سامنے آتا ہے کہ اگرچہ لفظ ومعنی کے مابین ذاتی وطبعی مناسبت کو رد تو نہیں جا سکتا مگر کسی چیز کا معنی صرف اس پر موقوف نہیں ہوتا ہے، بلکہ وہ ذاتی مناسبت پر سبب کو ترجیح دیتے ہیں، جس طرح ماتریدیہ کا حسن وقبح افعال سے متعلق نقطہ نظر ہے ۔ خلاصہ بحث یہ ہے شاہ صاحب کے نزدیک مناسبت ذاتی ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی، کیوں کہ اس میں لزوم نہیں بلکہ امکانِ لزوم ہے ۔

لفظ ومعنی کا باہمی ربط اور اور دیگر علوم پر اثرات:

درج بالا بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ لفظ کی معنی پر دلالت ذاتی اور اصطلاحی دونوں طرح ہو سکتی ہے ۔ لفظ ومعنی کے مابین ذاتی وطبعی اصطلاحی ووضعی مناسبت کا مبدأ اللغۃ یعنی زبان کے آغاز وارتقاء کی بحث پر یہ اثر پڑتا ہے کہ زبان کے آغاز وارتقاء کا خالق باری تعالیٰ سے تعلق یعنی توقیفی ہونا اسی طرح زبان کے آغاز کا انسان سے تعلق یعنی اصطلاحی ووضعی ہونا قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اسلام کی فکری تاریخ میں ابو ہاشم الجبائی معتزلی اور اس کے متبعین ابو الحسین البصری معتزلی اور ابن جنی معتزلی زبان کے اصطلاحی ہونے کے قائل ہیں، جب کہ ابو الحسن اشعری اور ابن فورک اس کے توقیفی ہونے کا رجحان رکھتے ہیں ۳۵ ۔

امام غزالی ’’مبدأ اللغات‘‘ کی بحث میں عقلی ونقلی دلائل سے زبان کے الہامی واصطلاحی ہر دو صورتوں کے امکان کے مؤید نظر آتے ہیں ۔ زبان کے آغاز سے متعلق قطعیت کا مؤقف رکھنے والوں کی نقلی دلیل آیت کریمہ (وَعَلَّمَ آدَمَ الأسماء کُلَّهَا ) ۳۶ کا اس طرح رد کرتے ہیں کہ زبان کے توقیفی ہونے پر یہ آیت قطعی طور پر دلالت نہیں کرتی ہے :

’’قلنا : وليس ذلک دليلاً قاطعاً علىٰ الوقوع ‘‘۳۷

کیوں کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کسی ضرورت کو اپنے بندوں کے دل میں ڈال دیتا ہے پھر انسان اپنی تدبیر اور غور وفکر سے اس کو تعلیم الٰہی کی طرف منسوب کر دیتا ہے، کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی راہ بر اور رہنما اور اس داعیہ کا محرک اول ہوتا ہے ۔ جس طرح انسان کے تمام افعال کا انتساب اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کی طرف کیا جاتا ہے، اسی طرح زبان کا انتساب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف ایسے ہی ہے :

’’ أنه ربما ألهمه الله تعالی الحاجة إلى الوضع، فوضع بتدبيره وفکره، ونست ذلک الی تعليم الله تعالی، لأنه الهادی والملهم ومحرک الداعية، کما تنسب جميع أفعالنا إلى الله تعالی‘‘۳۸

پھر اس بحث کے آخر پرامام غزالی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں غالب رجحان اس طرف ہے کہ اس کا اکثر حصہ اصطلاحی ہے : ’’والغالب أن أکثرها حادثة بعده ‘‘۳۹

زبان کے آغاز وارتقاء سے متعلق امام رازی کا بھی یہی مؤقف ہے، وہ لکھتے ہیں کہ یہ بات قطعیت سے کہنا ممکن نہیں ہے کہ الفاظ کی دلالت کلی طور پر توقیفی ہی ہوتی ہے :

’’لا يمکننا القطع بأن دلالة الألفاظ توقيفية‘‘۴۰

پھر لکھتے ہیں کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ الفاظ کی دلالت اصطلاحی یعنی غیر توقیفی بھی ہو :

’’لا يمکن القطع بأنها حصلت بالاصطلاح خلافاً للمعتزلة ‘‘۴۱

امام رازی کا کہنا ہے کہ الفاظ کے کلی طور پر توقیفی اور قطعی طور اصطلاحی ہونے کے دلائل کا رد کرتے ہیں پھر لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک زبان کے قطعی طور پر توقیفی یا اصطلاحی اسی طرح کچھ حصہ اصطلاحی ہونے کا جواز پیدا ہو جاتا ہے۔

’’لما ضعفت هذه الدلائل جوزنا أن تکون کل اللغات توقيفية وأن تکون کلها اصطلاحية، وأن يکون بعضها توقيفياً وبعضها اصطلاحياً ‘‘۴۲

شاہ عبدالعزیز کا رجحان بھی اسی طرف ہے کہ توقیفی بھی ہے اور غیر توقیفی بھی۴۳ ۔

اسی طرح مشترک لفظ، علم مترادفات اور علم الاضداد پر بھی لفظ ومعنی کے باہمی ربط کی نوعیت کا گہرا اثر پڑتا ہے کہ ایک لفظ کے کئی معنی اور ایک معنی کے کئی لفظ یا ایک لفظ متضاد معنی کا حامل نہیں ہو سکتا ہے، مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے کہ ہر زبان میں مترادف، مشترک اور متضاد معنوں پر مشتمل الفاظ پائے جاتے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ زبان قطعی طور طبعی نہیں ہو سکتی ۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ زبان مطلق طور پر طبعی رجحان رکھتی ہے ۔

علم الدلالت اور عصری رجحانات:

لفظ کی معنی پر دلالت کے طبعی واصطلاحی ہونے کی بحث زمانہ قدیم سے جاری ہے ۔ اہل یونان کے ہاں بھی یہ بحث جاری رہی ۔ معروف یونانی فلسفی افلاطون (م ۔ ۳۴۷ ق۔ م ) اپنے مکالمات ’’ Cratyllus‘‘ میں اس اہم موضوع پر بحث کرتا ہے ۔ افلاطون کا رجحان اس طرف ہے کہ لفظ کی معنی پر دلالت اپنے آغاز کے لحاظ سے تو فطری اور طبعی ہوتی ہے، پھر یہ سلسلہ اسی طرح رواں دواں رہا، مگر آنے والے دور میں اس باہمی مناسبت کو جاننا آسان نہ رہا، جس کی وجہ سے ان کے مابین تعلق کی تلاش مشکل ہو گیا ہے ۔ اس وجہ سے یہ تعلق اپنے آغاز کے لحاظ سے تو قطعی ہے مگر اس مناسبت کو آنے والے دور میں قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں کیا جا سکتا ۔ معروف فلسفی ارسطو سے قبل اس تعلق کے بارے میں ذاتی وطبعی ہونے کا میلان رہا مگر ارسطو نے اس مناسبت کو اصطلاحی اور عرفی قرار دیا ہے ۔ ارسطو کے مسلمان شارح اور معلم ثانی ابو النصر فارابی ارسطو کی کتاب العبارۃ (De Interpretatione) کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’فلما کانت الخطوط دلالتها علی الألفاظ باصطلاح کذلک دلالة الألفاظ على المعقولات التی فی النفس باصطلاح ووَضعٍ وشريعة‘‘۴۴

مغرب کی فکری تاریخ میں سوسیور سے قبل مناسبت کے طبعی ووضعی ہونے کی بحث موجود رہی ہے جیسا کہ بلوم فیلڈ (Bloomfield) لکھتے ہیں کہ اصحاب القیاس (Analogists) اور اصحاب التشذیذ (Anomalists) کے نام سے دو مکاتب فکر موجود رہے ہیں ۔ اصحاب القیاس سے مراد وہ مکتب فکر ہے جو لفظ ومعنی کی باہمی مناسبت کو طبعی وفطری (Natural) باقاعدہ (Regular) اور منطقیانہ (Logical) قرار دیتے ہیں ۔ جب کہ اصحاب التشذیذ کا رجحان اس کے مخالف رہا ہے ۴۵ ۔

جسپرسن کا کہنا ہے کہ مناسبت کے ذاتی وطبعی ہونے کے دلائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ان کے دلائل میں سے ایک دلیل ’’Onomatopoeia‘‘ الفاظ کہا جاتا ہے کہ الفاظ کی آواز کی ذاتی مناسبت کو تلاش کیا جائے مثلاً انگریزی لفظ کویک (Quack) سے بطخ کی آواز، کتے کی آواز کے لیے (Woof)، بھیڑ کی آواز کے لیے (Baa) اور بلی کی آواز ماؤ (Meow/Miaow) وغیرہ ۔ان الفاظ پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان الفاظ کی آواز جانوروں کی فطری آواز کے ساتھ کس حد تک ملتی ہے ۔ اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ انگریزی شاعری میں حروف تہجی میں سے ایس (S) اور (Sh) سے شروع ہونے والے الفاظ میں حزن وملال کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے ۔جسپرسن لکھتے ہیں :

"The idea that there is a natural correspondence between sound and sense, and that words acquire their contents and value through a certain sound symbolism, has at all times been a favourite one with linguistic delettanti, the best-known examples being found in Plato's Kratylos."46

مگر سوسیور کے بعد اس مؤقف کے حاملین کا زبان کے اس پہلو کی طرف میلان کم ہوتا گیا اور رائے سامنے آئی کہ یہ بات زبان کے چند الفاظ کے بارے میں تو کہی جا سکتی ہے مگر زبان کو کلی طور پر طبعی قرار دینا ممکن نہیں ہے ۔

روشن خیالی کے فکری منہاج میں گزشتہ کم وبیش اڑھائی سو سال میں زبان وفلسفہِ زبان سے متعلق تحقیقی کاوشوں کے نتیجہ میں جو مختلف نظریات جنم لیتے رہے ہیں ان میں اہم ترین سوسیور کا نظریہ ہے جو اس حد تک معروف ہے کہ دیگر علوم پر اپنے اثرات مرتب کر رہا ہے ۔ اس فرانسیسی محقق اور ماہر لسانیات کا پو را نام فردی نند دی سوسیور (Ferdinand de Saussure) ہے ۔ اس نے یہ نظریہ اپنی کتاب ’’Cours de linguistique generale‘‘ میں دیا ۔ یہ کتاب سوسیور کے محاضرات ہیں جو اس نے جنیوا میں دیے تھے اور پھر اس کی وفات کے بعد اس کے تلامذہ نے مرتب کرکے ۱۹۱۶ء میں شائع کرایا۔ سوسیور کا یہ نظریہ حقیقی معنوں میں ایک طریقہ کا ر کا نام ہے جس کے ذریعے حقیقت تک رسائی ممکن ہوتی ہے ۔

سوسیور کہتا ہے کہ ذہنی دنیا اور حقیقی دنیا (انسانی ذہن سے باہر کی دنیا ) کے درمیان باہمی ربط فطری نہیں، بلکہ من مانا، خودمختارانہ اور غیر منطقی (Arbitrary) ہے، یعنی لفظ (Signifier) اور وہ معنی جو لفظ پر دلالت (Signified) کر رہا ہے ان کا باہمی ربط فطری نہیں اصطلاحی ہے ۔ اس نظام نشانات کی وجہ سے ہر شے باہمی رشتوں میں گندھی ہوتی ہے اور یہ رشتے کئی قسم کے ہوتے ہیں،کیوں کہ ان رشتوں ہی سے معانی پیدا ہوتے ہیں اور اشیا کی پہچان ممکن ہوتی ہے ۔ اسی طرح ثقافت کے ہر ہر مظہر میں تجریدی رشتوں کا ایک نظام ہوتا ہے جس کی وجہ سے معنی خیزی ممکن ہوتی ہے ۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ زبان فطری نہیں ہوتی بلکہ ثقافت کا مظہر ہوتی ہے ۔ سوسیور کے نزدیک ان رشتوں میں سے دو رِشتے اہم ہیں :

الف ۔ باہمی ربط کا رشتہ ۔ ب۔ تضاد کا رشتہ ۔

مثلاًٹریفک سگنل میں تین رنگ ہوتے ہیں سرخ، پیلا اور سبز ۔ سرخ نشان ’’ٹریفک کے ٹھہرنے‘‘ پر دلالت کرتا ہے، پیلا ’’جانے کے لیے تیار ہونے‘‘ اور سبزلائٹ سے ’’چلے جانے ‘‘ کے معنی ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس مثال میں یہ بات قابل غور ہے سرخ رنگ کا رکنے سے کوئی فطری تعلق نہیں ہے ۔ اسی طرح پیلا رنگ کا ’’تیار رہنے‘‘ سے اور سبز کا ’’چلے جانے‘‘ سے کوئی فطری ربط نہیں ۔ گویا کہ یہ تینوں رنگ کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں ۔ مگر ان میں معنی اس رشتہ سے پیدا ہوئے جو یہ رنگ ٹریفک سگنل آپس میں رکھتے ہیں ۔ اس طرح یہ رشتہ باہمی ربط بھی رکھتا ہے اور تضاد بھی۔ کیوں کہ یہ تینوں ایک رشتہ میں گندھے ہوئے ہیں، اس لیے ان میں باہمی ربط ہے۔ لیکن ان میں تضاد بھی ہے کہ سرخ رنگ جس کے معنی ’’رکیے‘‘ کے ہیں وہ اس لیے ہیں کہ سرخ رنگ سبز رنگ نہیں ہے،ان دونوں کی پہچان فرق پر ہے ۔ اسی طرح سبز رنگ کا معنی ’’جائیے ‘‘ اس لیے ہیں کہ سبز رنگ،سرخ رنگ نہیں ہے ۔ اس طرح یہ بات سامنے آتی ہے کہ معنویت یا معنی ساخت سے پیدا ہوتے ہیں جس ساخت میں وہ واقع ہیں ۴۷۔

بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے سامنے بولی جانے والی زبان کا جن رشتوں کے ادراک کی وجہ سے فہم حاصل کرتا ہے ان میں سے ایک ارتباط وتضاد کا رشتہ ہے ۔ چناں چہ جب وہ زبان کی پہچان حاصل کرتا ہے تو گویا کہ اب وہ فطرت کو خدا حافظ کہہ کر ثقافت کا جامہ اوڑھ لیتا ہے ۔اسی لیے کہا جاتا ہے زبان ثقافتی ضوابط (Cultural Codes) کا نام ہے ۔

اس طریقہ کار کے تحت اس سسٹم کی جستجو کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اور جس کے تحت کوئی مظہر معنی کا حامل ہوتا ہے، لہٰذا اصل اہمیت مظہر کے معنی کو نہیں بلکہ اس کو پیدا کرنے والے نظام (Signifying System) کو ہے، معنی تو پروڈکٹ ہے۔ اس زاویہ سے فرد بھی ایک پروڈکٹ (Product) اور سماجی کنونشن (Social Convention) کی حیثیت رکھتا ہے، وہ معاشرہ کا معنیاتی نظام افراد اور متون کے ذریعے اپنا اظہار کرتا ہے ۔ اس طرح کوئی بھی تصنیف اس نظام کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے ۔

سوسیور زبان کو سماجی مظہر قرار دیتا ہے جس کے قوانین علت ومعلول کے بجائے سماجی رسمیات کے پابند ہوتے ہیں ۔ اشیا کی نمائندگی کے لیے جو لفظ برتے جاتے ہیں، ان کا اشیا کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ سماجی رسمیات یہ لفظ وضع کرتی ہے ۔

سوسیور کے نظام فکر میں’’Signifier‘‘ سے مراد ’’دال‘‘ یعنی ’’لفظ‘‘ ہے اور ’’Signified‘‘ سے مراد ’’مدلول‘‘ یعنی ’’معنی‘‘ ہے ۔

سوسیور نے زبان کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ زبان کے قواعد وضوابط کے نظام کو لسان یا لانگ (Langue) کہتے ہیں ۔ جب کہ جو زبان بولی جاتی ہے وہ پارول کہلاتی ہے، کسی بھی زبان کا فہم لانگ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس طرح نشان زبان کی وہ بنیادی اکائی ہے جو کسی معنی کی حامل ہو یعنی کوئی بھی بامعنی لکھا ہوا یا بولا ہوا لفظ نشان کہلاتا ہے ۔

سوسیور کی فکر کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ لانگ (Langue) کسی بھی زبان کی تجریدی ساخت ہے۔ سوسیور نے لانگ کی صراحت کے لیے ایک اور اصطلاح پار ول (Parole) استعمال کی ہے۔ پارول سے مراد گفتار ہے۔ گفتار کا سارا تنوع اور اس کا ابلاغ لانگ کی وجہ سے ہے، مگر واضح رہے کہ اس سے پارول کی لانگ پر برتری ثابت نہیں ہوتی، اس لیے کہ پارول کے سارے ممکنات اور امکانات لانگ کے مرہون ہیں۴۸ ۔

یوں زبان کا پورا نظام اور اس نظام کو بروے عمل لانے کے سارے اسالیب، سماج کی تخلیق اورمہیا کیے ہوئے ہیں۔ اگر لسانی نظام، سماجی تشکیل ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اسے فرد نے پیدا نہیں کیا بلکہ افراد کے اس اجتماعی معاہدے نے پیدا کیا ہے، جو معرض تحریرمیں تو نہیں آتا، مگر کسی معاشرے کے تمام افرا داس معاملے کی پابندی پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اسے توڑنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ سماجی عمل سے باہر ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فرد زبان پیدا نہیں کرتا بلکہ اسے زبان کے پہلے سے قائم نظام کے اندر اپنا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ یوں پورے کا پورا لسانی اظہار دراصل مستعار ہے۔ دھواں اس بات کا اشارہ دیتاہے کہ آگ جل رہی ہے، یعنی دھویں کی علت آگ ہے، جب کہ لسانی نشان کے معنی نما اورمعنی میں رشتہ نہ مشابہت کا ہے نہ علت کا، بلکہ من مانا اور رواجی (کنونشنل) ہے، مثلاً آگ کو آگ کہنا ثقافتی یا کنونشنل ہے۔ آگ کو آتش، نار یا فائر کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ خود آگ اور اس کو دیے گئے ناموں میں کوئی فطری اور منطقی تعلق نہیں۔’کسی ’شے‘‘ کے لیے ’’لفظ‘‘ کا انتخاب اجتماعی ثقافتی عمل کے ذریعے ہوتاہے، اسی لیے مختلف معاشروں میں ایک ہی شے کے مختلف نام ہوتے ہیں۔ اشیا کو نام دینے کا عمل تو آفاقی ہے، مگر نام دینے میں ہر معاشرہ آزاد ہے، گویا زبان سازی آفاقی چیز ہے لیکن زبان کے قوانین/ کنونشنز مقامی ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ صرف شے اور اسکی نمائندگی کرنے والے لفظ میں تعلق ہی من مانا اور ثقافتی نہیں ہے، بلکہ دال اور مدلول (یعنی شے کے بجائے شے کے تصور) میں رشتہ بھی ثقافتی ہے، یعنی اشیاء کے تصورات قائم کرنا اور انہیں سگنی فائر سے جوڑنا، ہر ثقافت میں اپنے اپنے طور پر ہوتا ہے۔

اس لیے ہر زبان میں کئی ایسے تصورات ہوتے ہیں جو دیگر زبانوں میں نہیں ہوتے اور نہ جنہیں دوسری زبانوں میں تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً لفظ ’’کتاب‘‘ کے جوسگنی فائیڈز ایک مذہبی معاشرے میں ہوتے ہیں، وہ سائنسی صنعتی معاشرے میں نہیں ہوتے، نیز الہامی مذہبی معاشرے اورغیر الہامی مذہبی معاشرےمثلاً ہندو یا بدھ معاشرہ ) میں بھی کتاب کے مدلولات مختلف ہوتے ہیں۴۹ ۔

سوسیور کی فکر نے زندگی کے تمام پہلوؤں پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ انسانی تاریخ میں جو باتیں مسلمات کا درجہ حاصل کر چکی تھیں، ان کو رد کر دیا گیا ۔ اس طرح انسانی فکر میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ۔

  • پہلے ’’ اشیا ء ‘‘ نگاہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں مگر اب اشیا کا ’’باہمی ربط‘‘ اساسی اہمیت کا حامل قرار پایا ہے ۔
  • اس منہج کے تحت یہ کہا گیا کہ انسان سماجی حیوان (Social Animal) نہیں بلکہ انسان ثقافتی حیوان (Cultural Animal) ہے ۵۰ ۔
  • سوسیور کی فکر کے مطابق ہر لفظ کے معنی اس عہد کے پیراڈائیم (Paradigm) سے اخذ کیے جائیں گے۵۱۔
  • زبان فارم (Form) یا ہیئت کا نام ہے، جوہر یا مادہ کا نام نہیں ہے ۵۲ ۔

لفظ ومعنی میں مناسبت اور تفسیر قرآن پر اس کے اثرات:

تاریخ اسلام میں فرقہ معتزلہ سے وابستہ عباد بن سلیمان کا لفظ ومعنی کی طبعی مناسبت کی طرف رجحان تھا جیسا کہ گزشتہ بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے ۔جب کہ زبان کے آغاز وارتقاء کے بارے میں معتزلہ کا مؤقف قطعی طور پر اصطلاحی ہونے کا تھا کہ انسان ہی کے ذریعے زبان کا آغاز وارتقاء ہوا، اس میں ذات باری تعالیٰ کی طرف انتساب درست نہیں ۔ اس کے مقابل علمائے اہل سنت والجماعت کا زبان کے آغاز کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ وہ ذات باری تعالیٰ سے منسلک ہے ۔ البتہ زبان کے ذات باری تعالیٰ سے تعلق کے مستقل اور عارضی ہونے میں اختلاف رہا ہے ۔ اسی طرح لفظ ومعنی کے مابین تعلق کے طبعی ووضعی ہر دو کے امکان کی طرف میلان پایا جاتا ہے کہ تعلق طبعی بھی ہو سکتا ہے اور وضعی بھی، کسی ایک کے ساتھ قطعیت نہیں پائی جاتی ۔

اس بحث کے تفسیر قرآن اور شریعت اسلامیہ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ؟ اس بارے میں علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ اگر لفظ ومعنی کے مابین مناسبت اور زبان کے آغاز وارتقاء میں سے ہر دو کو قطعی طور پر اصطلاحی قرار دیا جائے تو اس سے یہ لازم آتی ہے کہ تفسیرِ قرآن اوراحکاماتِ الٰہیہ کی ہر دور میں اس عہد کے ثقافتی وسماجی پس منظر میں نئی تعبیر کی جائے گی۔ اس نئی تعبیر سے عہد نبوی اور اس دور کے احکامات الٰہیہ معطل ہو کر رہ جائیں گے اور قرآن کریم کی حقیقی تعلیمات مسخ ہو کر رہ جائیں گی ۔ صفی الدین ہندی لکھتے ہیں کہ زبان کے آغاز وارتقاء کو قطعی طور پر اصطلاحی قرار دے دیا جائے تو اس سے کتاب اللہ اور سنت نبویہ میں وارد الفاظ کے مدلولات کے بارے میں زبان ومکان کے اختلاف کی وجہ سے عدم واقفیت اور لاعلمی کا مؤقف لائق حجت بن جائے گا اور ان کے وہ مدلولات تلاش کیے جائیں گے جس عہد میں ان کا مطالعہ کیا جا رہا ہے :

’’ أن اللغات لو کانت اصطلاحية لما حصل القطع بشئ من مدلولات الألفاظ الواردة فی الکتاب والسنة لاحتمال أن يقال أنها کانت فی العصر الأول تدل على معانی غير ما نعرفه الآن، ثم أن الناس اصطلحوا بعد ذلک العصر علی دلالتها علی هذه المعانی التی نعرفها الآن‘‘۵۳

  • اس کی مثال رجم کی سزا سے دی جا سکتی ہے کہ رجم کی سزا کے اثبات کے لیے آج وہ ثقافتی وسماجی پس منظر مفقود ہے،اس لیے یہ سزا معطل کی جا سکتی ہے کہ پہلے ایک مردکو چار بیویوں کے علاوہ لاتعداد کنیزیں رکھنے کی اجازت تھی، لہٰذا کو ئی اس کے باوجود زنا کا مرتکب ہوتا تو اس کو شریعت کی طرف سے سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے تھی جو متعین کی گئی مگر اب غلامی کا دور ختم ہونے سے ثقافتی پس منظر بدل گیا ہے، جس طرح حضرت عمر فاروق نے اپنے عہد خلافت میں قحط سالی کی وجہ سے چوری کی سزا کچھ عرصہ کے لیے معطل کر دی تھی کیوں کہ ثقافتی پس منظر بدل گیا تھا ۔
  • اسی طرح آج کسی مجرم (جیسے کوئی مزارع یا کوئی اور غربت کی زندگی گزارنے والا )کا اپنے آپ کو عدالت کے رُوبرو غلام کہنے سے اس کی سزا میں آزاد مرد کے مقابل نصف سزا نہیں دی جائے گی کیوں کہ ثقافتی وسماجی پس منظر بدل گیا ہے، اب غلامی کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔
  • کسی جرم میں دی گئی قتل یا پھانسی کی سزا کو ختم کر دینا ہے ۔ جیسا کہ آج کل مغرب کی طرف سے اس سزا کو ختم کرنے کا شور اور مطالبہ ہے، مگر اس طرح احکامات الہٰیہ اور شریعت مذاق بن کر رہ جائے گی ۔
  • قرآن کریم کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ ہر تہذیب کے اپنے ثقافتی کوڈز ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔

اسی طرح اس فکر کی رو سے قرآن کریم کا ترجمہ کسی زبان میں نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ ہر ثقافت وسماج اپنے کلچرل کوڈ رکھتاہے جو کسی دوسری ثقافت یا سماج میں نہیں کھولے (Decode) جا سکتے ۔

سوسیور کے نظریہ کے مطابق دال اور مدلول کے مابین تعلق کو قطعی طور پر وضعی یا اصطلاحی قرار دینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر لفظ کی اپنے عہد کے ثقافتی پس منظر میں رکھ کر تعبیر وتشریح اور اس کی وضعیت یا ریفرینٹ (Referent) کو تلاش کیا جائے گا ۔ سوسیور سے منسوب اس نظریہ کو اگرچہ جدید فکر قرار دیا جا رہا ہے مگر علمائے اسلام پہلے ہی اس نظریہ کا دینی وشرعی نقطہ نظر سے ناقدانہ جائزہ لے کر قابلِ رد قرار دے چکے ہیں جیسا کہ صفی الدین ہندی کے حوالے سے بات گزر چکی ہے ۔

شریعت اسلامیہ میں لفظ ومعنی اور لغت کے آغاز وارتقاء کے نظریہ کو طبعی کے ساتھ ساتھ وضعی قرار دے کر احکاماتِ الٰہیہ کا ایک حصہ مستقل ناقابل تغیر اور ایک حصہ حالات وزمانہ کی رعایت سے قابل تغیر قرار دیا گیا ہے، جس کو اسلامی اصطلاح میں ’’عرف‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ثقافتی وسماجی پس منظر میں تغیر وتبدیلی سے ’’عرف‘‘ کو اگرچہ شریعت اسلامیہ کے مآخذوں میں سے ایک مآخذ کی حیثیت حاصل ہے، مگر شریعت اسلامیہ کے مآخذوں میں ’’عرف وعادت‘‘ بطور مآخذِ شریعت آخری درجات میں سے ہے ۔ اسلامی منہاج میں ایسا قطعاً نہیں ہو سکتا کہ ’’عرف وعادت‘‘ کو قرآن وسنت پر فوقیت دے دی جائے، عرف وعادت یا ثقافتی وسماجی تغیر وتبدل کی شریعت اسلامیہ میں جو بھی حیثیت ہو گی وہ قرآن وسنت کے بعد ہو گی اور ان سے متصادم نہیں ہو گی ۔ علمائے اسلام کے لفظ ومعنی میں فطری کے ساتھ وضعیت کے مؤقف سے سوسیور کے نظریہ کا قرآن وسنت پر اطلاق درست نہیں رہتا ۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ہر لفظ کو اس عہد کے ثقافتی پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے گا جس دور میں وہ بولا گیا ہے، اس طرح تو شریعت مذاق بن کر رہ جائے گی ۔

تغیر وتبدل کائنات کا اصول ہے اور اس پس منظر میں آج ’’عرف‘‘ کو ہی اوّل وآخر منبع ومآخذ قانون قرار دینے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ثبات وسکون بھی کائنات کا اصول ہے جس کو مغربی فکر ودانش نظر انداز کیے ہوئے ہے ۔ مغربی فکر وفلسفہ کا مقدمہ یہ ہے کہ کائنات مسلسل حرکت میں ہے اور حرکت کے نتیجہ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اس لحاظ سے کائنات کا اول وآخر اصول حرکت ہی ہے جب کہ دینی نقطہ نظر سے حرکت نہیں بلکہ سکون وثبات کائنات کی اصل ہے، اس طرح حرکت غیر حقیقی اور سکون حقیقی چیز ہے ۔ ۵۴

سوسیور کے نظریہ کے مطابق لفظ ومعنی کے باہمی ربط میں ثقافتی پس منظر اور زمان ومکان کی تبدیلی سے ثقافتی تبدیلی کا لحاظ اس طرح کرنا کہ جس ثقافتی پس منظر میں جو بات کی گئی ہے اس کی اہمیت اس عہد تک تھی،جب کہ آج جو ثقافتی پس منظر موجود ہے اس میں اس کو رکھ کر دیکھا جائے گا، اس طرح گویا سوسیور کی فکر کا بنیادی وصف تغیر وتبدل اور ثقافتی وسماجی فروق ٹھہرتا ہے۔

تغیر وتبدل کا تعلق مادیت سے جڑا ہوا ہے اور مادہ کا تعلق طبیعات سے ہے ما بعد الطبیعات سے نہیں ۔ جب کہ مابعد الطبیعات اس عالم سے تعلق رکھتی ہے جو ماورائے مادہ ہے اور سکون وثبات کا تعلق بھی چوں کہ اسی عالم ما بعد الطبیعات سے ہے اس لیے ان کا درجہ حرکت وتغیر سے بلند ہے ۔ جس طرح مادہ کے تغیر وتبدل سے زندگی میں حرکت وتغیر سے انکار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح ما بعد الطبیعات یعنی ذات باری تعالیٰ کی وجہ سے سکون وثبات کی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔ چوں کہ مغربی فکر وفلسفہ کی بنیاد مادیت پرستی پر رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے ان کے نزدیک سب کچھ مادہ ہی ہے لہٰذا وہ مادہ پرستی کی وجہ سے کائنات میں محض تغیر وتبدل ہی کو حتمی اصول مانتے ہیں اور سکون وثبات کو درخور اعتناء ہی نہیں سمجھتے ۵۵۔ اس کے مقابل شریعت اسلامیہ میں سکون وتغیر ہر دو کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ عقائد وعبادات وغیرہ کا تعلق سکون وثبات سے ہے جب کہ ’’عرف وعادت‘‘ کو مآخذ شریعت قرار دے کر ثقافتی وسماجی تغیرات کو دین نے اپنے اندر سمو لیا ہے جو دین کے فطری اور انسانی طبائع کے مطابق ہونے پر دلالت کرتا ہے مگر مآخذ شریعت میں عرف وعادت کا مقام ترتیب میں دیگر مآخذ کے بعد ہے ۔

خلاصہ بحث :

دنیا کے طول وعرض پر محیط مختلف ثقافتی وسماجی پس منظر کے ساتھ رہنے والے انسان میں زبان وبیان کے اختلاف کے باوجود حرکات وسکنات اور افعال میں اشتراک پایا جاتا ہے ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ انسانی حرکات وسکنات میں بھی اسی طرح اختلاف پایا جائے جس طرح زبان وبیان یا رنگ ونسل کا اختلاف پایا جاتا ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زبان وبیان، ثقافت وتمدن اور رنگ ونسل میں اختلاف کے باوجود ایسے مشترکات بھی ہیں جو بنی نوع انسان کا بشری تقاضا ہیں، جیسے انسانی کردار کے اعتبار سے اس کا اچھا یا برا ہونا، طبائع کے لحاظ سے بھوک اورپیاس وغیرہ کا لگنا، انسانی قبائح میں ظلم وتعدی وغیرہ کا بازار گرم کرنا، اس کے ساتھ ساتھ جرائم کے لحاظ سے جیسے چوری وغیرہ کا مرتکب ٹھہرنا، ان سب کا دنیا کے ہر معاشرہ وثقافت میں لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ قرآن کریم اور شریعت اسلامیہ ان مشترکات اور بشری تقاضوں کو مخاطب کرتا ہے،اس لحاظ سے قرآن کا پیغام کسی خاص علاقہ یا سماج کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اپنے ثقافتی وتمدنی اور لسانی وجغرافیائی اختلاف کے ساتھ تمام انسانیت کے لیے ہوتا ہے ۔ یہ ثقافتی وسماجی، لسانی وجغرافیائی اختلاف ایک حد تک تو احکامات الہٰیہ پر اثر انداز ہو سکتا ہے جس کو ’’عرف وعادت‘‘ جیسے مآخذ شریعت کے تحت لایق اعتناء گردانا جاتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا کہ افرادِ انسانی کے افعال واعمال اور حرکات وسکنات میں ایسا تغیر پایا جائے کہ انسانوں میں باہمی مماثلت کی تلاش کارِ عبث قرار پائے ۔

جس طرح آج مغربی تہذیب اپنی جغرافیائی حدود سے نکل کر ثقافتی ولسانی اختلاف کے باوجود ایشیائی وافریقی مناطقہ سے وابستہ بعض افراد کے دلوں میں نفوذ پذیر ہے ۔ عہد روشن خیالی کے مفکرین ہوں یا عہد ما بعد جدید کے مدبرین ان کی تعبیرات اسی طرح بعض ایشیائی وافریقی لوگوں میں سرایت کیے ہوئے ہیں جس طرح مغربی فرد کے قلب وذہن میں سمائی ہوئی ہیں ۔جس طرح ثقافت وسماج کا فرق اور زمان ومکان کی یہ دُوری تعبیر میں تغیر نہیں لا سکی اسی طرح قرآن کریم اور اس کا پیغام قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے سامانِ ہدایت ہے ۔

اسی طرح عہد ما بعد جدید کے مفکرین اگرچہ متن کے مطالعہ میں ثقافت وسماج کے پس منظر کو بنیادی ومرکزی اہمیت دیتے ہیں مگر جب ان کے افکار کا دنیا کے باقی معاشروں میں ثقافتی وسماجی اختلاف کے باوجود مطالعہ کیا جائے گا تو وہی مطالب سمجھے جائیں گے جو مغرب میں مراد لیے جاتے ہیں جیسا کہ آج مشرقی معاشروں میں مغربی فکر سے وابستہ افراد کا وطیرہ ہے ۔

اسی طرح اس فکر کی رو سے ترجمہ کسی زبان میں نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ ہر ثقافت وسماج اپنے کلچرل کوڈ رکھتاہے جو کسی دوسری ثقافت یا سماج میں نہیں کھولے (Decode) جا سکتے تو آج سب سے پہلے غیر مغربی دنیا میں مغربی مفکرین کی فکری لن ترانیاں اور ان کا مطالعہ کارِ عبث ٹھہرتا ہے ۔ اس کے مقابل شریعت اسلامیہ کی روح اور علمائے اسلام کا رجحان اس طرف ہے کہ ثقافتی وسماجی تغیر کا لحاظ ایک حد تک تو درست ہے مگر ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس کو دیگر مآخذ شریعت پر فوقیت وبرتری اور دین میں بنیادی ومرکزی حیثیت دے دی جائے ۔ چناں چہ شریعت اسلامیہ میں ثقافتی وسماجی تغیر وتبدل کا یقیناً لحاظ رکھا جاتا ہے جس کو ’’عرف وعادت‘‘ کے مآخذ شریعت کے تحت زیر بحث لایا جاتا ہے جو ترتیب کے اعتبار سے آخری ہے۔

ایسا ناممکن ہے کہ مقدس متن قرآن کریم کو قصہِ پارینہ قرار دے کر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا جائے یا ایسی تعبیر عمل میں لائی جائے جو دین کی روح کے خلاف ٹھہرے اور نبی کریم ﷺ اور ا ن کی تعلیمات سے انحراف پر منتج ہو ۔ اس سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ مقدس متن قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو انسانیت کی رہنمائی وہدایت کے لیے نازل ہوا ہے تو جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات زمان ومکان کی قید سے ماورا ہے اسی طرح قرآن جو اس کا کلام ہے وہ بھی زمان ومکان کی قید سے آزاد ہے، اس لیے قرآن کریم بطور متن قیامت تک آنے والے ہر انسان کے لیے مشعل راہ قرار پاتا ہے ۔ ذات باری تعالیٰ کے کلام کو انسانی کلام کی طرح زمان ومکان کی قید میں رکھنا قیاس مع الفارق کے زمرے میں آتا ہے ۔

حواشی وحوالہ جات

۱۔ ابو البقاء، ایوب بن موسیٰ، الکلیات : معجم فی المصطلحات والفروق اللغویة، تحقیق : ڈاکٹر عدنان درویش ومحمد المصری، ناشر : ذوی القربیٰ، قم، ایران، ۱۴۳۳ھ ۔

۲۔ سورۃ السبا : ۱۴ ۔

۳۔ اصفہانی، راغب، المفردات فی غریب القرآن ۔

۴۔ ابو البقاء، الکلیات : معجم فی المصطلحات والفروق اللغویۃ، ص ۳۶۵۔

۵۔ ابو البقاء، الکلیات : معجم فی المصطلحات والفروق اللغویۃ، ص ۳۶۵۔

۶۔ سورۃ الفرقان : ۴۵۔

۷۔ سورۃ السبا : ۱۴۔

۸۔ سورۃ الغاشیۃ : ۱۷۔

۹۔ سورۃ الأنعام : ۹۹۔

۱۰۔ تھانوی، اشرف علی، بیان القرآن ۔

۱۱۔ حم السجدۃ : ۴۱۔

۱۲۔ سورۃ النساء : ۱۷۴۔

۱۳۔ ابو البقاء، الکلیات : معجم فی المصطلحات والفروق اللغویۃ، ص ۳۶۵۔

۱۴۔ سورۃ الحشر : ۲۔

۱۵۔ سورۃ البقرۃ : ۲۶۔

۱۶۔ عسکری، ابو ھلال حسن بن عبداللہ (م۔ ۴۰۰ھ )، الفروق اللغویۃ، مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ، ۲۰۰۰ء ۔

ص ۸۰۔ ۸۱۔

۱۷۔ غزالی، محمد بن محمد، معیار العلم فی المنطق،ص ۶۔

۱۸۔ غزالی، محک النظر فی المنطق ملحقہ کتاب التقریب لحد المنطق لابن حزم،دار الکتب العلمیہ، بیروت، ص ۲۱۲۔

۱۹۔ غزالی، محمد بن محمد، المقصد الأسنیٰ فی شرح معانی أسماء اللہ الحسنیٰ ۔

۲۰۔ مقدسی، شمس الدین محمد بن مفلح، اصول الفقہ، تحقیق وتعلیق : ڈاکٹر فہد بن محمد السدحان، مکتبہ العبیکان، ریاض، سعودی عرب، ۱۴۲۰ھ، ص ۱۴۲۔

۲۱۔ ابن جنی، ابو الفتح عثمان، الخصائص، تحقیق : محمد علی النجار، المکتبۃ العلمیۃ، بیروت، ج ۳ ۔

۲۲۔ غزالی، محمد بن محمد، المستصفیٰ من علم الاصول، الجامعۃ الاسلامیۃ،الکلیۃ الشرعیہ، مدینہ منورہ، ج ۳، ص۱۲۔

۲۳۔ غزالی، محمد بن محمد، المستصفیٰ من علم الاصول، ج ۳، ص ۱۴۔

۲۴۔ غزالی، محمد بن محمد، المستصفیٰ من علم الاصول، ج ۳، ص ۱۴۔

۲۵ ۔ غزالی، محمد بن محمد، المستصفیٰ من علم الاصول، ج ۳، ص ۱۴۔

۲۶۔ ابن درید، محمد بن حسن، جمھرۃ اللغۃ، دار العلم للملایین، بیروت، ۱۹۸۷ء ۔ خلیل بن احمد فراہیدی، کتاب العین ۔

۲۷۔ فارابی، ابو النصر، شرح الفارابی لکتاب ارسطوطالیس فی العبارۃ، تحقیق وتعلیق : ولیہم کوتش الیسوعی وستانلی مارد الیسوعی، المطبۃ الکاثولیکیۃ، بیروت، ۱۹۶۰ء، ص ۲۷۔

۲۸۔ غزالی، محمد بن محمد، المستصفیٰ من علم الاصول، ج ۳، ص ۱۲۔

۲۹۔ رازی، فخرالدین، محمد بن عمر، المحصول فی علم الأصول، دراسہ وتحقیق : ڈاکٹر طہٰ جابر علوانی، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ج ۱، ص ۱۹۱۔ رازی، فخرالدین، مفاتیح الغیب، ج۱، ص ۳۰۔

۳۰۔ رازی، فخرالدین، مفاتیح الغیب، دار الفکر، بیروت، ۱۹۸۱ء، ج۱، ص ۳۰۔

۳۱۔ شاہ عبدالعزیز، تفسیر عزیزی (اردو ترجمہ)، مترجم : مولوی محمد علی چاند پوری، ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی، (س۔ ن )، ج ۱، ص ۱۴۸، ۱۴۹۔

۳۲۔ شاہ عبدالعزیز، تفسیر عزیزی (اردو ترجمہ)، مترجم : مولوی محمد علی چاند پوری، ج۱، ص ۱۵۰۔

۳۳۔ شاہ عبدالعزیز، تفسیر عزیزی (اردو ترجمہ)، مترجم : مولوی محمد علی چاند پوری، ج ۱، ص ۱۵۱۔

۳۴۔ شاہ عبدالعزیز، تفسیر عزیزی (اردو ترجمہ)، مترجم : مولوی محمد علی چاند پوری، ج ۱، ص ۱۵۰۔

۳۵۔ ابو الحسین البصری، المعتمد، ج۱، ص ۱۵۔ ابن جنی، الخصائص،ج ۱، ص ۴۰۔آمدی، سیف الدین، الاحکام فی اصول الاحکام، ج ۱، ص ۵۷ ۔

۳۶ ۔ سورۃ البقرۃ : ۳۱۔

۳۷۔ غزالی، محمد بن محمد، المستصفیٰ من علم الاصول، ج ۳، ص ۱۰۔

۳۸۔ غزالی، محمد بن محمد، المستصفیٰ من علم الاصول، ج ۳، ص ۱۰۔

۳۹۔ غزالی، محمد بن محمد، المستصفیٰ من علم الاصول، ج ۳، ص ۱۱۔

۴۰۔ رازی، فخرالدین، مفاتیح الغیب، دار الفکر، بیروت، ۱۹۸۱ء، ج۱، ص ۳۰۔

۴۱۔ رازی، فخرالدین، مفاتیح الغیب، ج۱، ص ۳۰۔

۴۲۔ رازی، فخرالدین، مفاتیح الغیب، ج۱، ص ۳۱۔

۴۳۔ شاہ عبدالعزیز، تفسیر عزیزی (اردو ترجمہ)، مترجم : مولوی محمد علی چاند پوری، ج ۱، ص ۱۵۰، ۳۱۴۔

۴۴۔ فارابی، ابو النصر، شرح الفارابی لکتاب ارسطوطالیس فی العبارۃ، ص ۲۷۔

45۔ .Versteegh, C. H. M., Greek Elements in Arabic Linguistic Thinking, published by: Leiden: E.J. Brill, 1977, p. 182. Leonard Bloomfield, Language, University of Chicago Press, USA, 1984, p. 4-6

46۔ Jespersen, Otto, Language its Nature, Development and Origin, G. Allen & Unwin, 1922, p. 396

۴۷۔ گوپی چند، نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، سنگ میل، لاہور، ۱۹۹۴ء، ص ۴۳ ۔

۴۸۔ نیر، ناصر عباس، لسانیات اور تنقید، پورب اکادمی اسلام آباد، ۲۰۰۹ء، ص ۶۷۔

۴۹۔ ایضاً ۔

۵۰۔ ابو زید، نصر،حامد، السلطۃ الحقیقۃ، المرکز الثقافی العربی، بیروت، ۱۹۹۵ء، ص ۸۱۔

۵۱۔ المعارف(سہ ماہی مجلہ )، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ص ۷۱، جولائی ۔ستمبر ۲۰۰۳ء۔

52. Petrilli. S., "Structure and Structuralism: Semoitic Approach", in Ency. of Language and Linguistics, 2nd edition, editor-in-Chief: Keith Brown, Elsevier, London, UK, 2006, p. 179

۵۳۔ صفی الدین ہندی، محمد بن عبدالرحیم الأرموی، نھا یۃ الوصول فی درایۃ الأصول، تحقیق : صالح بن سلیمان وسعد بن سالم، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ، سعودی عرب، ۱۹۹۹ء، ج ۱، ص ۹۲۔

۵۴۔ پانی پتی، جمال، اختلاف کے پہلو، اکادمی بازیافت، کراچی، ۲۰۰۲ء، ص ۱۳، ۱۴۔

۵۵۔ ايضاً

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...