Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 29 Issue 2 of Al-Idah

دور جدید میں کرائے کی ماں (Surrogate Mothering) کا تصور اور اسلامی نقطہ نظر |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

29

Issue

2

Year

2014

ARI Id

1682060034497_784

Pages

61-91

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/227/215

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/227

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

پس منظر:

ہر جاندار کے اندر زندہ رہنے اور باقی رہنے کی خواہش فطری طور پر موجود ہوتی ہے، اسی وجہ سے ہر انسان کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا تحفظ کرے لیکن فانی ہونے کے ناتے ایک محدود عرصے تک ہی جی پاتا ہے اس لیے دیگر جانداروں کی طرح کم از کم اپنی نسل کی بقا کے لیے عملِ تولید کا سہارا لیتا ہے۔ یہ اضافہ نسل ایک فطری عمل ہے جس کی ہر مذہب اور اخلاقی ضابطہ میں (چند انتہاؤں کو چھوڑ کو) نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس طرح سے ہر جاندار اپنی نسل بڑھا کر اپنا وراثتی مادہ کا اگلی نسل کو منتقل کر کے اس کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات ہے جو کہ در حقیقت حیاتِ جاوداں پانے کی بے انتہاء خواہش کا نتیجہ ہے۔ اسی نفسیاتی تسکین کا ایک بڑا ذریعہ اس کی بیوی اور اس کی اولاد ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے بیوی کے بارے میں فرمایا

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً۔[1]

اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں بنائی ہیں تاکہ تم ان کی طرف سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی ہے۔

بعض اوقات ایسی شاذ صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں جب ایک انسان اپنی بقاء نسل کی صلاحیت نہیں رکھتا ، یہ صورتحال اس کے لیے نفسیاتی مسائل کا باعث بنتی ہے، جس کی وجہ سے شعوری یا غیر شعوری طور پر عدم کے خطرے سے دوچار ہونے کے باعث پرىشانى کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے وہ شخص طبی ذرائع کے ذریعے سے حصولِ اولاد کی کوشش کرتاہے۔

تعقیم شرح عصرِ حاضر میں:

Infertility اور sterility یہ دونوں مسائل عصرِ حاضر میں بہت زیادہ بڑھے ہیں، اور ان کی نسبت ان ممالک میں زیادہ ہے جنہوں نے مصنوعی تہذیب کو اپنایا ہے اور فطری طرزِ عمل کو ترک کر دیا ہے۔ عالمی سطح پر تعقیم کی شرح 7 فیصد ہے، اگر اس میں ان لوگوں کو شامل کر لیا جائے جو خود بھی بچے نہ چاہتے ہیں تو ان کی تعداد 12 فیصد سے 28 فیصد تک ہے، یہ فرق علاقوں کا فرق ہے ۔ امریکہ میں یہ شرح جوڑوں میں 7 فیصد ہے، سویڈن میں یہ شرح 10 فیصد تک پہنچ جاتی ہے، اور مردوں اور عورتوں کا تناسب اگر نکالا جائے تو برطانیہ میں 25 فیصد بے اولاد جوڑوں میں مرد میں فرٹیلیٹی کی صلاحیت نہیں ہوتی، اور 50 فیصد خواتین میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔ جبکہ 25 فیصد واقعات کے وجوہات کا علم نہیں ہو سکتا۔ [2]۔ یہ تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے 1976 سے 1984 تک ہر چھ میں سے ایک بانجھ پن کا شکار تھا، لیکن گذشتہ 20 سالوں کے دوران یہ عدم خصوبت اور عقم کی شرح امریکہ میں 300 فیصد بڑھ گئی ہے۔

تعقیم اور عدم خضوبت کے اسباب:

تعقیم اور عدم خضوبت کے اسباب میں اہم اسباب مردوں میں سپرم کا نہ بننا، عورتوں میں بیضہ کا نہ بننا، عورتوں میں رحم کی خرابی یا موجود نہ ہونا، ہارمونز کا عدم توازن ، جنسی بے راہروی کی وجہ سے جنسی امراض کا شیوع، غیر فطری اندازِ زندگی ، بعض ادویات کا استعمال ، آلاتِ تعیش کا استعمال اور ان میں استعمال ہونے والے کیمیکلز ، ماحول میں جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے پھیلنے والی ایکس ریز اور تابکار شعاعیں، بڑی عمر میں شادی کرنے کا رحجان ، بعض بیماریوں کے علاج، جیسے کینسر وغیرہ ، سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور دیگر منشیات کا استعمال ، اور اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ہیں اور ابھی بہت سی وجوہات صیغہ راز میں ہیں۔ [3]

بانجھ پن کے علاج کی کوششیں اور اس کی جہتیں:

انسانی فطرت کی تقاضوں کو سمجھتے ہوئے بانجھ پن کا علاج دریافت کرنے میں طب ابتدائے آفرینش سے ہی کوششوں میں لگی ہوئی ہے، اور ہر دور میں اس میدان میں کامیابیوں کے حصول کی کوششیں جاری رہی ہیں۔ زمانہ حال میں جہاں بانچھ پن بڑھا ہے وہیں بانجھ پن کے علاج کے لئے بھی بہت سی نئی جہات متعارف ہوئی ہیں لیکن ان میں سے اسلام صرف انہی صورتوں کو قبول کرتا ہے جن سے اختلاطِ نسب لازم نہیں آتا اور جو مقاصدِ شرعیہ سے ٹکراتی نہیں ہیں۔

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعے سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی، اور سائنسدانوں کی کوششوں سے 1984 میں لوئزا براؤن نامی پہلی بچی اس طریقہ سے پیدا ہوئی، [4]رفتہ رفتہ یہ طریقہ کافی مقبول ہوا اور 1987 تک ایک ہزار بچے اس طریقے سے پیدا ہو چکے تھے اس قسم کی مراکزِ ولات پوری دنیا میں قائم ہونا شروع ہوئے، صرف 125 مراکز امریکہ میں، دو مراکز جدہ میں، ایک ریاض میں بھی قائم ہوا[5]۔ اس طرح سے فطری طریقے کے علاوہ مصنوعی تلقیح (فرٹیلائزیشن) کے طریقوں کی تعداد اب 16 سے بھی تجاوز کر چکی ہے [6]اور یہ سبھی طریقے فطرت کے خلاف ہیں۔ کیونکہ ان میں مرد و عورت کا طبعی طریقے سے اتصال نہیں ہوتا۔ اور ان میں سے اکثر طریقے اسلامی شریعت کی رو سے قابلِ تعزیر بھی ہیں۔

تلقیح الاصطناعی (Artificial Fertilization) کے مروجہ طریقے:

  1. میاں بیوی کے علاوہ کسی تیسرے فرد کی منی سے خاتون کے بیضہ کو فرٹیلائز کرنا جبکہ اس مرد کی منی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو۔ اس کی ایک مثال نکاح الاستبضاع [7]ہے۔
  2. اگر بیوی بیضہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو تو کسی تیسری خاتون کا بیضہ لے کر خاتون میں ٹرانسپلانٹ کر دینا۔
  3. میاں بیوی دونوں سے کرمِ منی اور بیضہ لے کر فرٹیلائز کر کے کسی تیسری خاتون کے رحم کو اجارہ پر لے کر اس میں جنین کی پرورش کرنا۔
  4. مرد میں خصیہ کی پیوند کاری کرنا۔
  5. عورت میں مبیضہ کی پیوند کاری کرنا۔
  6. پہلے سے منجمد شدہ جنین سے عورت کو حاملہ کر دینا۔
  7. شوہر کے مرنے کے بعد اس کی محفوظ شدہ منی سے عورت کے بیضہ کو فرٹیلائز کرنا۔ [8]

یہ تمام طریقے بے حد مہنگے ہیں اورا ن کی کامیابی کا تناسب بھی ابھی 30 فیصد سے زائد نہیں ہے۔ روپیہ کمانے کی دھن میں ڈاکٹرز، دھوکہ دہی سے یا زوجین کی مرضی سے، عورت کے بیضہ کو اس کے شوہر کے علاوہ کسی اور شخص کی منی سے فرٹیلائز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان طریقوں پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ اسلامی اصولوں کے مطابق اس قسم کی قبیح حرکات میں ملوث افراد پر ان کے جرم کی نوعیت کے مطابق مناسب تعزیر مجامع فقہی نے تجویز کی ہے [9]۔

بیرونی فرٹیلائزیشن میں بعض اوقات ایک سے زائد بیضے ٹرانسپلانٹ کر دینے سے عورت کو جڑواں بچے جننے میں اضافی تکلیف اور مشقت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اور سائنسدان ان اضافی جنین پر بعض اوقات سائنسی تجربات کرتے ہیں جو کہ انسانی جنین کی حرمت اور انسانی کرامت کے خلاف ہے۔ اس طرح سے بننے والے اضافی جنین ترقی یافتہ ممالک میں Stem Cells اور مصنوعی اعضاء کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، جو کہ انسانی سپیئر پارٹس کی دکانداری کے مترادف ہے، اسی طرح سے جنین کی تجارت شروع ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ خواتین کسی مشہور مرد کی منی سے سیمن بنک کے ذریعے حاملہ ہو جائیں اور پھر اس جنین کے کلون بنوا کر متعدد جنین بنا کر خود Surrogate Mother بن کر ان اجنہ کی تجارت میں ملوث ہو جائیں اور اس طرح سے صاحبِ منی کے جینیاتی ورثہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع ہو جائے، جس سے غیر فطری مخلوقات جنم لے سکتی ہے اور خطرہ ہے کہ کہیں یہ نادانوں کے ہاتھوں خطرناک کھلونا بن کر نہ رہ جائے۔ یہ سب امور تکریمِ انسانیت کے خلاف ہىں۔

کرائے کی ماں(Surrogate Mother):

تعقیم اور عدم خضوبت کے مسئلہ کے حل کی ایک صورت جو زیرِ بحث ہے وہ یہ ہے کہ رحم کسی تیسری خاتون کا کرایہ پر لے کر اس سے اولاد پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مسئلہ کو Rental Womb, Alternative Mother, surrogate mother [10]جیسے نام دیئے جاتے ہیں۔ یہ حل اطباء اس وقت تجویز کرتے ہیں جب خاوند کی منی میں کرمِ منی موجود ہوں اور بیوی کا مبیضہ بھی بیضہ پیدا کر رہا ہو، لیکن یا تو خاتون کے اندر رحم سرے سے موجود ہی نہ ہو جس میں بیضہ کے فرٹیلائز ہونے کے بعد جنین نشو نما پائے یا پھر اس میں کوئی ایسی خرابی موجود ہو جو جنین کی پرورش میں رکاوٹ ہو تو ایسی حالت میں خاوند سے کرمِ منی لے کر اس کی بیوی کے بیضہ سے اس کو فرٹیلائز ٹیسٹ ٹیوب میں کرنے کے بعد جنین کو کسی تیسری خاتون کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی دوسرے کے لیے بچے کو جنم دے۔ ایسی حالت میں ایک تیسرا فریق بھی اس بچے میں حصہ دار بن جاتا ہے اور اصولِ شریعت میں نسب میں کسی بھی تیسرے فریق کا حصہ دار بننا کسی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے اور ایسا اختلاطِ نسب سے بچنے کے لیے ہے۔ اگرچہ اس کی کچھ صورتیں جائز بھی ہو سکتی ہیں اور کچھ صورتیں ناجائز بھی ہو سکتی ہیں، اس لیے شریعتِ اسلامیہ کا موقف معلوم کرنا ضروری ہے۔ فقہی قاعدہ ہے کہ کسی چیز کی حرمت اس کے واقع ہونے کے بعد کے آثار سے متعلق احکامات کی تلاش سے مانع نہىں چاہئے۔ اس لئے حرام امور اگر واقع ہو جائیں تو بھی ان کے نتائج سے پیدا ہونے والے اثرات و واقعات کے متعلق شریعت کا حکم دریافت کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جیسا کہ زنا حرام امر ہے لیکن اگر یہ ہو جائے تو بچے کے نسب، اس کی وراثت، اس کی زندگی سے متعلق تمام امور کے بارے میں شریعتِ اسلامی کے فیصلے موجود ہیں۔

تاجیر ارحام کا مسئلہ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل:

یہ مسئلہ مغرب سے اسلامی ممالک میں آیا ہے اس کے شرعی احکام معلوم کرنے سے قبل اس کے دیگر پہلؤوں سے واقفیت ضروری ہے۔ جب ہم اس کے فوائد و نقصانات کو میزان میں رکھتے ہیں تو واضح طور پر نقصانات کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے، اور جب تک اس کا نفع اس کے ضرر سے بڑھ نہ جائے اس وقت تک اس کے بارے میں کوئی نرم گوشہ شریعتِ اسلامی اپنے دامن میں نہیں رکھتی کیونکہ قواعدِ شرعیہ کے مطابق ایک ضرر سے دوسرا اس کے برابر کا ضرر دفع نہىں کیا جا سکتا ۔ الضَّرَرُ لَا يُزَالُ بِمِثْلِهِ.[11] اور يُخْتَارُ أَهْوَنُ الشَّرَّيْنِ. [12]کے اصول پر کم تر درجہ کا شر اختیار کیا جائے گا۔ اگر شر بڑھا ہوا ہو تو اس کے جواز کا فتویٰ بہرحال نہیں دیا جا سکتا۔

  1. مغرب میں تو خاندانی نظام پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے، اگر اس طرح کے امور کا سدباب نہ کیا گیا تو یہاں بھی خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر سکتا ہے، بے اولادی کے باعث عدم تحفظ کو نکاحِ ثانی کے ذرىعے بطریقِ احسن دور کىا جاسکتا ہے۔
  2. اسلام نے فرج اور اس کے تحت رحم کو محترم قرار دیا ہے جس کا تحفظ ضروری ہے اور اسی کی بنا پر اسلام جنس سے متعلق تمام اخلاقی اقدار کو کنٹرول کرتا ہے، تاجیرِ ارحام سے اس کی حرمت داغدار ہوتی ہے ۔
  3. بچے سے دونوں قسم کی ماؤں کا تعلق کامل نہیں ہوتا ۔ بیضہ والی ماں کا رشتہ بچے سے صرف بیضہ کی وجہ سے اس قدر قوی نہ ہو پائے گا اور رحم والی ماں میں بچے کی حرکات، کے باعث رحم والی ماں کے دل میں بچے کی محبت طبعاً اور نفسیاتی اعتبار سے پیدا ہو جاتی ہے، اس کے لیے بچے سے جدائی مشکل ہو گی۔
  4. اختلاطِ نسب کا اندیشہ بہت قوی ہے اور اسی وجہ سے اس کی اکثر صورتیں کسی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دی جا سکتیں۔
  5. اس سے معاشرتی مسائل پیدا ہوں گے، کیونکہ خاندانی نظام کی کمزوری معاشرتی تباہی کا پیش خیمہ ہوگی، مغرب میں بیضہ والی ماں اور رحم والی ماں کے درمیان عدالتی چارہ جوئی عام ہے۔
  6. انسانی رحم کو کرایہ پر دینا، اخلاقی اعتبار سے معیوب ہے اور کرامتِ انسانی کے خلاف ہے اس عمل سے انسانی اعضاء کی خرید و فروخت کا دروازہ کھلنے کا خدشہ ہے اس لیے بھی اس سے پرہیز ضروری ہے۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ انسانی کرامت کا سبق ہمیں دیتے ہیں۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ[13] (اور تحقیق ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ہے)۔
  7. یورپی ممالک اور امریکہ میں بعض عورتوں نے اسے کمائی کا ذریعہ بنایا، ابھی وہ مسئلہ زیرِ بحث تھا کہ اس سے زیادہ بڑی خرابی ہندوستان جیسے غریب ممالک میں پیدا ہوگئی، جہاں غربت کے باعث بے عورتیں پوری دنیا کے انسانوں کے لیے رحم کرایہ پر دینے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ جو کہ جہاں انسانیت کے لیے ایک خطرناک صورتحال ہے کہ لوگ محض غربت کی وجہ سے اپنی عزت و آبرو داؤ پر لگائیں، وہیں ہندوستانی معاشرے پر بھی اس کے نہایت گھناؤنے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انٹر نیٹ پر تاجیرِ ارحام کے اشتہارات اور اس کے جواب میں ہندو قوم پرستوں کی دھمکیاں اہلِ دانش سے پوشیدہ نہىں ہیں۔ اقتصادی مسائل کا اس قسم کا حل نہایت شرمناک ہے کہ عورت دوسروں کے بچوں کے لیے اس قدر تکلیف اور مشقت برداشت کرے محض چند ٹکے کی خاطر اور اس کو ماں کا فطری، قانونی اور مذہبی حق بھی دینے میں بحث ومباحثہ اور عدالتی کاروائی کی جاتی ہو جو کہ اس رشتے کے باعث ایک نفسیاتی تسکین کا باعث ہوتا ہے وہ رشتے سے بھی بعض حالات میں محروم قرار دی جائے۔ بیضہ والی خاتون چونکہ جنین کے وراثتی مادے کا ماخذ ہے وہ وراثتی اعتبار سے ماں کہلاتی ہے، اور چونکہ وہ رحم والی کو رقم ادا کر چکی ہو گی تو اس کا حقِ امومت تسلیم نہ کرنے کے باعث عدالتی چارہ جوئی تک معاملات جا پہنچتے ہیں۔
  8. یہ بھی ممکن ہے بعض لوگ زیادہ اولاد کے لیے زیادہ خواتین کے رحم کرایہ پر لے کر محدود وقت میں زیادہ بچے پیدا کر لیں جو کہ فطری ڈیموگرافک سچویشن کو بہت تیزی سے خراب کر سکتا ہے۔ جیسا کہ یورپ اس وقت اپنی سفید فام نسل کی تعداد میں اضافے اور دوسری نسلوں (کلرڈ، بلیک) کی تعداد کو کم کرنے کے حوالے سے بہت متحرک ہو چکا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک عورت صرف بیضے دے کر اور دوسروں کے رحم استعمال کر کے ایک ہی سال میں کئی بچوں کی ماں بن جائے ۔ بہت سے یورپی ادارے اس عمل میں متحرک ہو چکے ہیں کہ گوری رنگت والی نسلوں کے جنین کو افریقہ کی کالی خواتین کے رحم استعمال کرتے ہوئے یا ہندوستان کی کلرڈ خواتین کے رحم استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ گوری نسلیں پیدا کی جائیں تاکہ یورپ اور امریکہ میں اقلیت میں تبدیل ہونے کے خطرے سے بچ سکیں نیز پوری دنیا میں نسلی برتری کے لیے اپنے ہم جنس افراد کی تعداد میں اضافہ کر سکیں۔
  9. دو قسم کی مائیں (بائیولوجیکل ماں اور حمل سے ماں) بننے سے ماں کا روایتی تقدس اور مجروح ہوگا اور بچے کی شخصیت پر بھی بعد ازاں برے اثرات مرتب ہوں گے۔
  10. اس طریقے سے پیدا ہونے والے بچے چونکہ غیر فطری اثرات کے تابع ہوتے ہیں اور طبعی پیدائش سے مر جاتے ہیں، ان کے لیے بالعموم سرجری کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ حمل والی ماں کو خواہ مخواہ مشقت میں ڈالنے کا سبب بنتی ہے۔
  11. اسلام میں رحم کی حرمت طے شدہ ہے، اس کے علاوہ بھی اعضاء کو کرایہ پر دینا مناسب نہیں ہے کہ یہ تکریمِ انسانیت اور قرآنی نصوص کے خلاف ہے، رحم تبعاً فرج میں داخل ہے، جس طرح فرج کی حرمت کا خیال رکھنا ضروری ہے اسی طرح رحم کی حرمت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی وجہ سے اس کا کرایہ پر لینا جائز نہیں ہے۔
  12. لوگوں کی نفسیاتی تسکین کے لیے لوگوں سے پیسہ بٹورنا اس طرح کی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کا شعار ہے، یہ رحم والی ماں کو چند سو ڈالر دیتے ہیں اور باقی خود رکھ لیتے ہیں۔ اس طرح سے کئی بلین ڈالرز یہ لوگ کما رہے ہیں۔ تاجیر رحم کے ایک کیس پر 50 ہزار ڈالر سے زیادہ اخراجات آتے ہیں ان میں سے سب سے بڑا حصہ انہی کمپنیوں کو ملتا ہے۔ امِ بدیلہ کو اس میں سے صرف پانچواں حصہ ملتا ہے جو کہ استحصالِ انسانی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ [14]امریکہ جیسے ممالک میں رینٹل وومب کے کاروبار میں امِ بدیلہ کوفقط 15 ہزار سے 20 ہزار ڈالر تک رقم ملتی ہے۔ جبکہ ہندوستان میں کل قیمت 20 ہزار ڈالر پڑتی ہے جس میں سے ہندوستانی ماں کو تین لاکھ سے چار لاکھ روپے ملتے ہیں جو کہ تقریباً 3 ہزار سے 4 ہزار ڈالر ہی بنتے ہیں [15]۔ امریکہ برطانیہ میں قانون surrogate mother کو عوض نہ لینے سے روکتا ہے جبکہ انڈیا میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ [16]یہ مشقت اور اس کے مقابلہ میں ریٹ اور طے شدہ انسانی حقوق کے مقابلے میں حقوق کی تباہی انسانیت کے چہرے پر ایک بد نما داغ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

رضاعت اور امِ بدیلہ میں اشتراک و افتراق:

دونوں صورتوں میں بچے کے نسب میں اشتراک نہیں ہوتا۔ اس کا جینیٹک فنگر پرنٹ اپنے والد (جس سے کرمِ منی حاصل ہوا تھا) اور اپنی ماں (جس سے بیضہ لیا گیا تھا) سے ہی مرکب ہوتا ہے، اس میں نہ تو رضاعی ماں کی طرف سے اشتراک ہوتا ہے اور نہ ہی کرایہ کے رحم والی ماں کی طرف سے اشتراک ہوتا ہے، اس طرح سے اختلاطِ نسب کا خطرہ جو کہ شریعتِ اسلامی کا مطمع نظر ہے نہیں ہوتا۔ [17]

دونوں صورتوں میں تغذیہ (غذا حاصل کرنا) ثابت ہوتا ہے۔ رضاعت میں ماں کے دودھ سے غذا حاصل کرتا ہے اور رحم میں ماں کے خون سے غذا حاصل کرتا ہے۔ اور جیسا کہ حدیث میں واضح ہے: لاَ رَضَاعَةَ إِلاَّ مَا فِي الْمَهْدِ، وَإِمَا أَنْبَتَ اللَّحْمَ وَالدَّمَ.[18] (رضاعت گود کے سوا نہیں ہے، اور یہ کہ اس سے گوشت اور خون پیدا ہو)۔ واضح رہے کہ رضاعت ، تغذیہ سے ثابت ہوتی ہے جس سے گوشت اور ہڈیاں بنیں۔ اور یہ عمل رحم میں خون کی صورت میں بدرجہ اولیٰ ہو رہا ہوتا ہے، اور یہ قیاسِ اولیٰ کی قبیل سے ہے۔

دونوں صورتوں میں غذائى مادہ نئی صورت اختیار کرتا ہے، (گوشت، خون اور ہڈیاں وغیرہ) اور اس صورت میں بھی دودھ کی نسبت خون کو زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ اس صورت میں خون ہڈیوں اور خون کو عدم سے وجود میں لانے کا باعث بنتا ہے جبکہ دودھ پہلے سے موجود اعضاء کی نشونما میں ہی مدد دیتا ہے۔ دودھ بھی خون سے ہی وجود میں آتا ہے، اس طرح سے خون کا تغذیہ زیادہ اولیٰ طریقہ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بغیر سیکنڈری پراسس کے بچے کو دستیاب ہو جاتا ہے۔

نفسیاتی اور محبت کا ربط بھی رحم کی صورت میں بچے سے زیادہ ہوتا ہے، بنسبت رضاعت کے۔ کیونکہ امِ بدیلہ نے حمل کی تکلیف اور مشقت اور وضع حمل کی تکلیف کو بھی اٹھایا ہے۔ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ۔ [19]

مرضعہ کے حقوق اور Surrogate Mother کے حقوق میں مشابہت و فرق:

فطری طور پر عملِ تولید کرمِ منی اور بیضہ کے ملنے سے شروع ہوتا ہے، اور یہ عمل جنسی عمل کے ذریعے فطری طور پر ہوتا ہے۔ اس طرح سے 23 – 23 کروموسومز والے ہیپلائیڈ سیلز[20] سے ایک ڈپلائیڈ [21]46 کروموسومز والا سیل وجود میں آتا ہے جو کہ زائیگوٹ [22]کہلاتا ہے، اور یہی سیل پورے جنیاتی فنگر پرنٹ پر مشتمل ہوتا ہے، یہاں پر وراثتی مادے کا انتقال تمام ہو چکا ہوتا ہے اور اب اس میں اختلاطِ نسب کا خطرہ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی سیل بار بار تقسیم کے عمل سے گزر کر بالاخر رحم میں انسانی شکل اختیار کرکے بالآخر ولادت کے ذریعے سے اس دنیا میں وجود پذیر ہوتا ہے۔

بچے کے والدین سے تعلق کی نوعیت و اقسام:

ہر بچے کا اپنے باپ سے تکوین و وراثت کا تعلق ہوتا ہے۔ باپ سے یہ تعلق بذریعہ کرمِ منی قائم ہوتا ہے ۔

ماں سے یہ تعلق دو قسم کا ہوتا ہے

اول: تکوین و وراثت کا تعلق، جو کہ بیضہ سے قائم ہوتا ہے۔

دوم: تعلقِ حمل، ولادت اور حضانت۔ اور یہ تعلق بذریعہ رحم قائم ہوتا ہے۔

اس طرح سے ہر لحاظ سے بچے کا اپنے والد سے تعلق تو کرمِ منی کے آنے سے ہی مکمل ہو جاتا ہے اور اسی لیے شریعت میں بچے کو باپ کی طرف نسبت کی جاتی ہے، اسی لیے شریعت نے اصولِ فراش قائم کیا ہے، فالولد للفراش وللعاهر الحجر۔[23] (کہ بچہ صاحبِ فراش کے لیے ہے اور زانی کے لیے سزائے سنگسار ہے)۔

اگر بیضہ یا رحم میں سے ایک ایک طرف سے ہو اور ایک باہر سے ہو تو ماں کا تعلق آدھا ہو جاتا ہے۔ بیضہ والی کا تعلق تکوین و وراثت کا قائم رہتا ہے، لیکن رحم والی کا تعلق حمل، حضانت اور ولادت کا قائم ہو جاتا ہے۔ یہ فطری اصولوں کے خلاف ہے۔ لیکن جب رحم کرایہ پر لے کر ایک فرٹیلائزڈ ایگ اس میں رکھ دیا جائے تو یہ صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔

= ماں سے تعلق کی کمزوری اور قانونی و اخلاقی نزاع: =

اگر دونوں قسم کے تعلق قائم ہوں تو وہ طبعاً، واقعتاً اور شرعاً ماں ہے، لیکن اگر ایک قسم کا تعلق قائم ہو اور دوسری قسم کا تعلق نہ ہو تو یہی صورت محلِ نزاع ہوتی ہے۔ اس طرح کے واقعات کی وجہ سے امریکہ میں قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور بعض اوقات امِ بدیلہ پیدائش کے بعد بچہ بیضہ والی ماں کو دینے سے انکار کر دیتی ہے۔[24]۔[25]

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْأِنْسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ * ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ .[26]

(اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے ‏۔پھر اس کو اس کو مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا ۔)

اس فرمان کے مطابق نطفہ انسانی محترم ہے، اور یہاں جو قرارِ مکین قراردی گئی ہے وہ جگہ رحمِ مادر ہے، جو کہ فطری حالات میں واقعتاً صحیح ہے۔اسی طرح سے جہاں نطفہ محترم ہے وہاں ماں کا پیٹ بھی مکرم قرار پایا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئاً وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔ [27]

(اور خدا ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اس نے تم کو کان اور انکھیں اور دل (اور انکے علاوہ اور) اعضا بخشے تاکہ تم شکر کرو۔)

اور بنصِ قرآنی ماں وہی ہے جو جنم دیتی ہے اور تکلیفِ حمل اور وضع حمل برداشت کرتی ہے۔ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ [28](ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے ہیں)۔ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْناً عَلَى وَهْنٍ۔[29] (اس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے)۔

ان آیات میں جہاں ماں کا ذکر آتا ہے یہ ماں شرعی ہے، جو کہ فطری تولید کےعمل میں ہوتی ہے اور اسی طرح باپ شرعی مراد ہے۔ اور یہ تعلق اور رشتہ فراشِ شرعی سے حاصل ہو جاتا ہے اور اس فراشِ شرعی میں اختلاط شریعت کو کسی صورت میں قبول نہیں ہے اسی وجہ سے زانی کے لیے سزا مقرر کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ فقہی قاعدہ فتویٰ کے بارے میں یہ ہے:

’’مفتی کا فتویٰ، اگر لازمی نہ ہو تو، حکمِ عام ہے جس کا تعلق مستفتی اور اس کے علاوہ دوسروں سے بھی ہو، پس مفتی عمومی اور کلی حکم دیتا ہے یہ کہ جو ایسا کرے اس پر یہ حکم لاگو ہوگا۔ اور جو یہ کہے گا اس پر یہ لاگو ہوگا۔ بخلاف قاضی کے کہ اس کا حکم کسی خاص جزئی پر ہوتا اور شخصِ معین پر ہوتا ہے، اس کے علاوہ دوسروں پر وہ فیصلہ لاگو نہ ہوگا‘‘۔[30]

یہ بھی فقہی قاعدہ ہے کہ جہاں حاجت اور ضرورت ہو تو وہاں پر عام فتویٰ نہىں دیا جائے گا، بلکہ جو فتویٰ طلب کرے اس کے خاص حالات کے مطابق اسے فتویٰ دیا جائے گا۔ اور اس فتویٰ میں بھی شریعت کی حدود و قیود کا خیال رکھا جائے گا اور شریعت جہاں تک اجازت دے گی وہاں تک ہی رعایت دی جائے گی، سوائے حالتِ اضطرار کے۔

حفاظتِ نسب کو ضروریاتِ شرعیہ میں شمار کیا جاتا ہے، جو کہ تعداد میں پانچ ہیں[31] اور یہ مقصد تبھی حاصل ہو سکتا ہے کہ جب بیضہ انسانی نکاحِ شرعی اور فراشِ شرعی کے ساتھ فرٹیلائز ہو اور اس میں کسی قسم کی آمیزش شامل نہ ہو۔ اسی کے تحفظ کے لیے شریعت نے زنا کو حرام قرار دیا، اس پر حد رکھی ، قذف کی حد قائم کی اور ان تمام ذرائع کو بند کر دیا جو اس میں مبتلا کرنے والے تھے۔

اصل والدین کون ہوں گے؟

اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ پیدا ہونے والے بچے کی اصل ماں کون ہو گی بیضہ والی خاتون؟ یا جس خاتون کا رحم استعمال ہوا؟ اور اصل باپ کون ہوگا؟ منی والا شخص؟ جس خاتون کا رحم استعمال ہوا اس کا شوہر؟ ماں باپ کے حقوق کس کو حاصل ہوں گے؟ وراثت اور ولایت کے حقدار کون ہوں گے؟ اپنی اکثر صورتوں میں یہ امر ناجائز ہونے کے باوجود اگر یہ امر پیش آجائے تو اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟

پہلی قسم: امِ بعیدہ:

یہاں کئی نوعیت کی ماؤں نے اپنے رحم کرایہ کے لیے پیش کئے۔ پہلی قسم کی وہ خواتین ہیں جنہوں نے بغیر کسی رشتہ داری اور تعلق کے صرف مالی مفادات کے لیے امِ بدیلہ کا کردار ادا کرنے کی حامی بھری۔

دوسری قسم: امِ قریبہ:

امِ قریبہ ماں کی ماں یا دادی، ماں کی بہن وغیرہ قریبی رشتہ دار ہیں کہ جب اصل ماں (بیضہ والی) کی ماں، دادی یا بہن وغیرہ اپنا رحم اپنی عزیزہ کے بچے کی پرورش کے لیے حوالے کر دیں، اس میں امِ بدیلہ کو کسی قسم کے نفقات نہىں دیئے جاتے ہیں۔

تاجیرِ رحم کی حرام صورتیں:

تاجیرِ رحم ایک حرام چیز کا اجارہ ہے جو کہ حرام ہے۔ کیونکہ رحم محترم ہے اس کا اجارہ جائز نہىں ہے یہ فرج کے تابع ہونے کے باعث اور نسب کو اختلاط سے بچانے کے لیے نصِ قرآنی کے مطابق [32]محترم ہے، اسی وجہ سے شریعت نے عدت کا حکم دیا ہے تاکہ استبراءِ رحم ہو جائے اور کسی قسم کے نسب کے اختلاط کا خطرہ باقی نہ رہے۔

پہلی صورت:

منی زوجین میں سے خاوند کی ہی ہو، اور بیضہ بیوی کا ہی ہو، لیکن رحم کسی تیسری خاتون کا ہو۔ یہ صورت حرام ہے کیونکہ اس میں تیسری طرف سے اختلاط ہوتا ہے جو کہ اپنے مفاسد کی وجہ سے شرعاً حرام ہوگا۔

رحم کی حرمت نصِ قرآنی سے ثابت ہے، اس سے نسب میں اختلاط کے خطرہ کی وجہ سے اس کو قطعاً جائز قرار نہ دیا جا سکتا ہے اور اس عمل کو رضاعت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق [33]ہے، کیونکہ رضاعت کی صورت میں نسب کے اختلاط کا خدشہ بہرحال نہیں ہوتا لیکن رحم کی صورت میں اختلاطِ نسب کا خطرہ ہے۔ دودھ جسم سے باہر نکلنے والی رطوبت ہے جو کہ طاہر ہے اور یہ جسم میں پیدا ہی اس لیے ہوتا ہے کہ اس کو باہر نکالا جائے، نیز اس کے بچے پر فزیالوجیکل اثرات مرتب نہیں ہوتے جبکہ اس کے برعکس رحم تخلیق کا مقام ہے، اس میں موجود خون جو بچے کی غذا بنتا ہے وہ جسم سے نکالے جانے کے لیے پیدا نہیں ہوتا نیز رحم کے ماحول کے بچے پر فزیالوجیکل اور نفسیاتی اثرات رضاعت سے زیادہ قوی ہوتے ہیں۔

امِ بدیلہ کو دورانِ حمل بچے سے محبت کا شعور پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک نفسیاتی تعلق پیدا ہوتا ہے اس کے لیے وہ قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتی ہے جبکہ رضاعت میں یہ جذبہ اس سے کم تر درجہ پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رحم کو رضاعت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے ۔

اس کے علاوہ حرام چیز کا اجارہ بھی حرام ہے۔ رحم کو بغرضِ حمل اجارۃً دینا قطعاً جائز نہىں ہے۔[34] رضاعت میں پستانوں کا اجارہ زوج اور مرضعہ کے درمیان عقد کا محتاج نہىں ہے۔ اور اس میں بچے کے والد کے ساتھ نکاح بھی رضاعت میں ضروری نہىں ہے لیکن امِ بدیلہ بننے کے لئے ضروری ہے۔

حرمت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ابتداء میں یہ عمل اجارہ رحم نظر آتا ہے لیکن در اصل یہ اجارہ رحم اپنے انجام کے اعتبار سے نہیں رہتا بلکہ آخر میں بچے کی خرید و فروخت کا معاملہ بن جاتا ہے اور کسی آزاد کو فروخت کرنا حرام ہے۔ [35]

دوسری صورت:

دوسری صورت یہ ہے کہ والدین کی زندگی میں ان کے جنسی سیلز کو فرٹیلائز کر کے جنین حاصل کر کے منجمد کر لیا جاتا ہے، اور ان کی وفات کے بعد اس منجمد جنین کو امِ بدیلہ کے رحم میں ڈالا جاتا ہے۔ یہ صورت بھی حرام ہے کیونکہ اس صورت میں بھی تیسرے فرد کی طرف سے اختلاطِ نسب ہوتا ہے۔ یہ صورت بھی پہلی صورت والی تمام خرابیوں کو متضمن ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس میں والدین کے وفات پانے کے بعد میں جنین کا نشونما پا کر مکمل بچہ بننے میں بہت سی شرعی اور قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ مثال کے طور پر والدین کی جائیداد تقسیم ہونے کے کئی سال کے بعد ان کا ایک اور بچہ دنیا میں آ جائے تو یہ صورتحال اس کے حقِ وراثت میں مسائل پیدا کرے گی اور دیگر ورثاء کے لیے بھی ان کی زندگی کے سکون میں تلاطم پیدا ہو جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے اپنے بڑے بہن بھائیوں کی اولاد کی اولاد کے برابر وہ بچہ ہو جو کہ اخلاقاً بھی صحیح نہیں ہے۔

تیسری صورت:

بعض اوقات جوڑوں میں ایسا مسئلہ بھى پیش آتا ہے کہ مرد اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں عورت کے بیضہ کو منی بنک سے کسی اجنبی مرد کی منی لے کر فرٹیلائز کر کے اس جنین کو کسی تیسری خاتون کے رحم میں رکھا جائے۔ اس صورت کی حرمت بھی کسی سے خفیہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں اختلاطِ نسب بالکل واضح ہے بلکہ اس میں نکاحِ شرعی کے بغیر اختلاط ہونا اور بھی زیادہ اقبح ہے کیونکہ حفاظتِ نسب ضروریاتِ شرعیہ میں سے ہے۔ اس صورت میں مرد کے لئے ایسے بچے کو اپنی طرف منسوب کرنا بھی نصِ قطعی کے خلاف ہے، بلکہ اس کا اپنے نسب سے انکار کرنا واجب ہے بلکہ از روئے حدیث اس کی نسبت صاحبِ منی کی طرف کرنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ اس میں نکاحِ شرعی نہىں ہوا ہے۔ آپ ؐ سے پوچھأ گىا کہ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ کس کی طرف منسوب ہوگا؟ تو آپ ﷺ نے فرماىا:

’’بچہ باپ کی طرف منسوب نہىں ہو گا، جب جس باپ کی طرف وہ منسوب ہے وہ اس کا انکار کر دے اور اگر کسی ایسی لونڈی سے جو اس کی ملکیت نہ ہو، یا کسی آزاد سے ہو جس سے اس نے زنا کیا ہو، پس وہ نہ تو اس سے منسوب ہوگا اور نہ ہی اس سے وراثت پائے گا۔ اگرچہ جس کی طرف وہ منسوب کیا جاتا ہے وہ بھی اس کا دعویٰ کرے، پس وہ ولد الزنا ہے آزاد سے ہے یا لونڈی سے‘‘[36]۔

ایک اور روایت میں ہے : لِأَهْلِ أُمِّهِ مَنْ كَانُوا، حُرَّةً أَوْ أَمَةً۔[37] (کہ وہ اپنی ماں کے اہل میں سے ہے وہ جو بھی ہوں، خواہ ماں آزاد ہو یا لونڈی)۔

چوتھی صورت:

منی تو عورت کے خاوند کی ہی ہو لیکن بیضہ اس خاوند کی بیوی کا نہ ہو بلکہ کسی تیسری خاتون کا ہو، اور رحم اس کے علاوہ کسی اور خاتون کا ہو۔ یہ صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ عورت کے مبیضہ میں کوئی خرابی ہو اور وہ بیضہ پیدا کرنے کا اہل نہ ہو، اسی طرح اس میں رحم بھی اس قابل نہ ہو کہ حمل ٹھہر سکے۔ یہ صورت بھی سابقہ صورتوں کی طرح بالکل جائز نہیں ہے، کیونکہ صاحب بیضہ سے صاحبِ منی کا نکاحِ شرعی ثابت نہیں ہے اور نہ ہی صاحب رحم کے ساتھ اس کا نکاحِ شرعی ثابت ہے۔

تاجیرِ رحم کی مختلف فیہ صورتیں:

اگر منی خاوند کی ہی ہو، اور بیضہ اس کی بیوی کا ہو، لیکن اس بیوی کے رحم میں حمل قرار پانے کی صلاحیت نہ ہو، یا اس میں سرے سے رحم ہی نہ ہو، لیکن اسی مرد کی دوسری بیوی موجود ہو جس کا رحم ٹھیک ہو، خاوند کی منی سے ایک بیوی کے بیضہ کو فرٹیلائز کر کے دوسری بیوی (پہلی بیوی کی سوتن) کے رحم میں جنین کی پرورش کی جائے۔ اس صورت میں دو فریق بن گئے ، پہلا فریق اسے بھی اوپر والی صورتوں کی طرح حرام قرار دیتا ہے کیونکہ اس میں بھی دوسری بیوی کی طرف سے نسب کی سلامتی پر سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ نیز یہ معلوم نہىں ہو سکتا ہے (نصِ قطعی سے) کہ اصل ماں کس کو قرار دیا جائے گا؟

اس کے جواب کا فتویٰ المجمع الفقهي نے اپنے ساتویں اجلاس میں 1404ھ میں اس شرط پر دیا تھا کہ اس میں مکمل احتیاط کی جائے اور یہ کہ صرف اشد ضرورت کے وقت ہی ایسا کیا جائے[38]۔[39]

لیکن المجمع الفقہی نے ہی 1405 میں ہونے والے اجلاس میں اپنے اس جواز کے فتویٰ سے رجوع کر لیا۔ [40]اور اس رجوع کے پیچھے جو وجوہات تھیں :

  1. دوسری بیوی جس کا رحم استعمال ہوا ہے، اس کے انسداد رحم سے قبل اس کے رحم میں جنین ڈالنے سے دوہرا حمل قرار پا سکتا ہے، کیونکہ خاوند اس سے مباشرت کر سکتا ہے اور اس کا مبیضہ بھی بیضہ پیدا کر سکتا ہے، پھر دو جڑواں بچے پیدا ہوں گے، اور ان دونوں کے بارے میں معلوم نہىں ہوگا کہ کونسا کس ماں کے بیضہ سے پیدا ہوا ہے؟
  2. اگر ان دونوں بچوں میں سے ایک مر جائے تو کونسا مرا؟ سوکن کے بیضہ والا یا اپنے بیضہ والا؟ اس بارے میں شکوک و شبہات رہیں گے۔ چونکہ اس سلسلے میں امِ حقیقی کی طرف سے اختلاط کا خدشہ رہتا ہے اور اس لیے اس سے بہت سے فقہی احکامات میں شکوک و شبہات پیدا ہو جائیں گے ۔ [41]

اطباء کی رائے یہ ہے کہ اس صورت میں ایک حمل خاوند کی مباشرت سے قرار پا سکتا ہے اور دوسرا حمل بیضہ لقیحہ سے ہو چکا ہوتا ہے اگرچہ ایسا احتمال بہت کم ہوتا ہے لیکن علمی اعتبار سے ممکن ہے۔ البتہ اس صورت میں اگر زوج جماع سے رک جائے یا عازل ذکر استعمال کرے تو اس دوسرے حمل سے بچنا ممکن ہے جس سے شبہات کم ہو جائیں گے۔ مجوزین کے نزدیک خاوند کا مکمل عزل کرنا اس کے جواز کے لیے کافی ہے۔

جو اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں انہوں نے ایک عورت کے بیضہ کو دوسری کے رحم میں ڈالنے کو سحاق کی حرمت سے تعبیر کیا ہے کہ ایک عورت کا پانی دوسری عورت سے ملانا چونکہ جائز نہیں ہے اس لئے علمی اعتبار سے اس کے جوار کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔ جو اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ سحاق میں مقصود حصولِ اولاد نہىں ہے بلکہ محض لذت رانی ہے، نیز سحاق میں بیضہ بھی ایک عورت سے دوسری میں منتقل نہیں ہوتا جبکہ امِ بدیلہ کے اندر بیضہ اور وہ بھی فرٹیلائزڈ بیضہ بذریعہ جراحت منتقل کیا جاتا ہے۔

مجوزین کے پاس ایک قوی دلیل یہ ہے کہ چونکہ دونوں بیویاں ایک ہی خاوند کے نکاح میں ہیں اور سوتن اپنی سوتن کا حمل برداشت کر رہی ہے، اس صورت میں ابوۃ کے واحد ہونے سے عائلی نظام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا، بچے کے سر پر خاندان کا سایہ قائم رہے گا، نیز دونوں سوتنوں میں پیار محبت میں اضافہ ہونے سے اور دونوں کے درمیان بچے کے اشتراک سے ان کے درمیان اور بھی زیادہ محبت قائم ہونے کے توقعات ہیں اس لیے اس کو مباح قرار دینا چاہئے۔ اسی وجہ سے رابطہ عالمِ اسلامی کے مجمع الفقہی نے اس کو اپنے ساتویں اجلاس میں جائز قرار دے دیا۔ [42]لیکن اس جواز میں انہوں نے یہی شرط رکھی کہ مکمل احتیاط کی جائے کہ نطفہ کا اختلاط نہ ہو اور ایسا صرف شدید حاجت کی صورت میں ہی کیا جائے۔ احتیاط سے مراد ایسی احتیاط ہے جو انسانی بس میں ہو، اور جو انسانی دائرہ اختیار سے باہر ہے وہ احتیاط مطلوب نہیں ہے۔ تولید کا عمل بھی مقاصدِ شرعیہ میں سے ہے، اور اس کو محض غلطی کے امکان کی بنا پر روکنا صحیح نہیں ہے جبکہ وہ امکان بھی مبہم ہو۔ ہسپتالوں میں بچے بعض اوقات غلطی سے تبدیل ہو جاتے ہیں تو اس بنا پر ہسپتال میں جا کر وضع حمل کے خلاف فتویٰ کوئی بھی صاحبِ عقل و شعور نہیں دے سکتا۔ نیز حلال کو حرام ٹھہرانے میں خواہ مخواہ کا تشدد بھی فقہاء کے ہاں کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہا ہے۔ [43]اور یہ عمل (تلقیحِ اصطناعی) تو ویسے بھی عند الحاجۃ ہی کی جاتی ہے۔

دوہرے حمل کی شناخت DNA ٹیسٹ کے ذریعے سے آج کل کچھ مشکل بھى نہیں ہے اس لیے اس کے جواز کی صورت نکل سکتی ہے۔ اسلام کےایک سے زائد شادیوں کی اجازت کا ایک مثبت پہلو دنیا کے سامنے لایا جا سکتا ہے جس سے بہت سے اعتراضات کم ہو جائیں گے۔

سوتن کے رحم میں لقیحہ کا ڈالنا زیادہ راجح محسوس ہوتا ہے، اس سلسلے میں مسلم ممالک کو قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ غیر مسلم ممالک کے لیے دلیل بن سکے، نیز یہ تعدد ازواج کی بھی ایک یورپی معاشرے میں دلیل بن سکتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے محض اس نیت سے دوسری شادی نہ کرے کہ اس کو امِ بدیلہ بنانے کے بعد اسے طلاق دے دے گا، ایسا کرنا ظلم ہے ، اپنی نیتوں کوصاف رکھنا ضروری ہے۔ اس صورت میں بچہ دونوں ماؤں کے پاس رہ سکتا ہے کیونکہ خاندان ایک ہی ہے۔ اقوامِ مغرب میں تنازعات کی وجہ رقم بنتی ہے کیونکہ امِ بدیلہ اتنی مشقت برداشت کرنے کے بعد صرف رقم لے کر حقِ امومت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہىں ہوتی ہے۔ اس صورت میں رقم وجہ نزاع نہ بنے گی اور انسانی تحریم اور خرید و فروختِ انسان جیسے شکوک بھی پیدا نہىں ہوں گے۔

اس کے علاوہ رحم کی تاجیر (کرایہ) کے حرام ہونے کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں رحم کا اجارہ نہیں ہوتا بلکہ یہ از قبیلِ ہدیہ ہو سکتا ہے جس سے تکریمِ انسانی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں صرف ایک قباحت ہے کہ بعض ممالک میں نکاحِ ثانی پر پابندی ہے جس کے باعث ان ممالک میں رہنے والے افراد کو قانونی طور پر محتاط رہنا پڑے گا۔

حرام چیز کے اجارہ کا حکم:

فقہاء کی رائے حرام کے اجارہ کے بارہ میں:

فقہاء کے ہاں عقدِ اجارہ کی صحت کے لیے شرط ہے کہ اس اجارہ سے حاصل ہونے والا نفع مباح ہو، اگر نفع حرام ہو تو اس پر عقدِ اجارہ جائز نہیں ہوگا۔ [44]

فقہاء کی نصوص کے مطابق حرام اجارہ کے سلسلہ میں رقم کا خرچ کرنا بھی حرام ہے، صرف امام ابو حنیفہ نے اس میں مخالفت کی ہے کہ ان کے نزدیک شراب اٹھانے کے لیے حمال سے عقدِ اجارہ کرنا صحیح ہے۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ لونڈی سے زنا کے لیے اسے اجرت پر دینے کا عقد ان کے ہاں بھی درست نہیں ہے [45]۔ شراب کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ شراب کو اٹھانا معصیت نہیں ہے کہ اسے شراب سے سرکہ بنانے کے لیے بھی اٹھایا جا سکتا ہے اس صورت میں اس کا اٹھانا جائز ہے۔ کیونکہ اس کا فی نفسہ اٹھانا حرام نہىں ہے اس لیے اسے مباح قرار دیتے ہیں[46] ۔تو اس بحث سے یہ نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ

  1. رحم کا اجارہ حرام ہے، اس لئے ام بدیلہ کے لئے اس کی اجرت لینا بھی حرام اور بچے کی والدہ یا والد کی طرف سے اجرت دینا بھی حرام ہے۔
  2. اگر اجرت لے لے تو اس اجرت کو مساکین پر خرچ کرنا ضروری ہے، جیسا حطاب المالکی کا قول ہے۔[47]

اس مسئلہ کا اثر احکامات پر:

مولود کا نسب:

شریعتِ اسلامیہ نے نسب کو بہت اہمیت دی ہے اور اسے انسانوں کی شرافت اور معاشرتی امن وسکون کے لیے محکم دیوار بنایا ہے، اسی وجہ سے شریعت نے لے پالک کو بھی اس کے اصل باپ کے نام سے پکارنے کا حکم دیا ہے، تاکہ کہیں بعد ازاں اس کا نسب غلط طور پر کسی اور کی طرف منسوب نہ ہو جائے۔ اسی لیے حدیث شریف میں ہے۔ مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ[48]، (جس نے اپنے باپ کے غیر کی طرف خود کو منسوب کیا جبکہ وہ جانتا بھی ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے)۔

ثبوتِ نسب سے والدین کے حقوق اور اولاد کے تمام حقوق ثابت ہوتے ہیں۔

باپ پر مرتب ہونے والے احکامات:

رضاع، حضانت اور رعایت والدین پر واجب ہے۔ اگر قطعی یقین سے معلوم نہ ہو کہ اس بچے کے والدین کون ہیں تو اس کی پرورش اور رضاعت اور اس کے اخراجات کے احکامات مختلف فیہ ہو جائیں گے۔ اگر جنین کے مصدر کا قطعی اور یقینی علم ہو تو امِ بدیلہ کی طرف اس کی نسبتِ نسب درست نہىں ہے۔ مثال کے طور پر اگر شادی کے چھ ماہ کے بعد بچہ پیدا ہوا یا خاوند ابھی نابالغ تھا کہ بچہ پیدا ہو گیا تو ان صورتوں میں بچے کی نسبت والد کی طرف جائز نہیں ہے۔ اگر ظاہراً منسوب ہو بھی جائے تو حقیقتاً وہ اس کی طرف منسوب نہ ہوگا اور نہ باپ کے لیے یہ جائز ہے کہ اس بچے کو باوجود علم کے اپنی طرف منسوب کرے اور نہ بچے کو جائز ہے کہ باوجود علم کے خود کو اپنے اصل باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے۔

اسی طرح وہ خاتون جس کا رحم برائے حمل استعمال ہوا ہے جبکہ بیضہ اس کا نہ تھا اور باہر سے بیضہ اور منی دونوں سے فرٹیلائز کر کے اس کے رحم میں ڈالے گئے تھے تو اس رحم والی کے خاوند کی نسبت بھی اس بچے کی طرف درست نہ ہے کیونکہ اس نے اس خاتون کے خاوند سے کچھ بھی جینیٹک فنگر پرنٹ حاصل نہىں کیا ہے ۔ اس لیے اس کی نہ تو اس سے نسبت ثابت ہو گى اور نہ ہی صرف نسب سے ثابت ہونے والا کوئی اور حکم ثابت ہوگا۔

البتہ اگر جنین کے مصدر اور اس کی منی کے مصدر میں شک ہو تو حدیث شریف کے مطابق بچہ صاحبِ فراش کے ذمہ ہوگا اور اس کا نفقہ بھی صاحبِ فراش پر ہوگا الا یہ کہ صاحبِ فراش اس کا انکار کر دے۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے، «الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الحَجَرُ»[49] (کہ بچے صاحبِ فراش کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں)۔

نفقات:

اگر رحم سوتن کا استعمال ہوا ہے تو اس صورت میں دو جہات میں نفقات ہوں گے۔

امِ بدیلہ کا نفقہ دورانِ حمل: ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب کی رائے کے مطابق رحم والی امِ بدیلہ کا نفقہ بچے کے جنین کو فرٹیلائز کرنے والے باپ کی طرف ہے یا اس کے ولی کے ذمہ ہے۔ کیونکہ اس کے خون سے اس کا غذا حاصل کرنا تو معتبر ہے، اور یہ نفقہ حمل اور نفاس کی ساری مدت تک جاری رہے گا۔ ان کا استدلال قرآن پاک کی آیت وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ۔[50] سے ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن نے مرضعہ کے بارے میں فرمایا ہے ، وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔ [51]

تو اس بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ

  1. تمام احکامِ رضاعت اور اس کے تمام آثار امِ بدیلہ پر ثابت ہوتے ہیں بطریقِ قیاسِ اولیٰ، کیونکہ یہ رضاعت سے بڑھ کر ہے۔
  2. انکوبیٹنگ مدر (امِ بدیلہ) کا خاوند رضاعی باپ نہیں کہلائے گا کیونکہ رضاعت میں دودھ میں اس کے خاوند کا حصہ ہوتا ہے جبکہ تاجیرِ رحم کے اس عمل میں اس کے خاوند کا حصہ خون میں شامل نہىں ہوتا ہے۔
  3. بہتر یہ ہے کہ امِ بدیلہ اس بچے کو دودھ بھی پلائے کیونکہ اس کے پستانوں میں پیدا ہونے والا دودھ اس خاتون کو طبی اور نفسیاتی طور پر نقصان دے سکتا ہے اس طرح سے ام بدیلہ کے خاوند کے حقوق وفرائض بھی بچے سے متحقق ہو جائیں گے۔
  4. اس صورت میں جو امِ بدیلہ بنے گی اس کے لیے حقوق رضاعی ماں سے بڑھ کر ہوں گے وہ اگر حاجت مند ہو تو اس کو نفقات اس بچے سے دلائے جائیں گے۔ [52]

کیا امِ مستاجرہ پر حدِ زنا ہو گی؟

جس طرح زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا اسی طرح سے امِ بدیلہ بننے سے بھی نسب ثابت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ایک مختلف فیہ صورت کے سوا تمام ام بدیلہ بننے کی صورتیں بالاتفاق حرام ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس صورت میں جبکہ وہ خاتون کسی اور کے بچے کو جنم دیتی ہے تو کیا مستوجبِ حدِ زنا ہوگی؟

زنا اور زرع لقیحہ میں فرق:

یہاں زنا اور زرع لقیحہ میں فرق کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ زنا میں اتصالِ جنسی ہوتا ہے جبکہ جنین کے رحم میں ڈالنے میں اتصالِ جنسی نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ عمل بالعموم عملِ جراحت سے ہوتا ہے۔ اس وجہ سے زنا کی حد بھی نہ لگے گی اور باوجود گناہ کبیرہ ہونے کے یہ امر زنا کے زمرے میں نہىں آئے گا۔ البتہ اس پر مناسب تعزیر لگائی جا سکتی ہے۔ انجام کے اعتبار سے اگر ہم دیکھیں تو مشابہ زنا ضرور ہے کیونکہ دونوں صورتوں میں عورت اپنے خاوند کے بچے کے علاوہ کسی اور کے بچے کو جنم دے رہی ہے بلکہ امِ بدیلہ بننے میں تو خود اس بچے سے اس کا اپنا تعلق بھی کامل ثابت نہیں ہوتا۔

زیادہ بہتر اور سائنسی رائے یہ ہے کہ اگر منی کو اس عورت کے رحم میں داخل کر کے اسی کے بیضہ کو فرٹیلائز کیا گیا تو اختلاطِ نسب ہوگا، لیکن اگر باہر ٹیسٹ ٹیوب میں منی اور بیضہ کو فرٹیلائز کر کے اسے رحم میں داخل کیا گیا تو اختلاطِ نسب نہ ہوگا کیونکہ فرٹیلائزیشن کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے زائیگوٹ یا جنین کا جینیاتی کوڈ مکمل ہو چکا ہوتا ہے اس میں اب باہر سے کسی قسم کے وراثتی مادے کے اختلاط کا امکان نہیں ہوتا۔ تو اس صورت میں (امِ بدیلہ بننے میں) نسب کا اختلاط نہیں ہوتا اس وجہ سے زنا کا کوئی حکم اس میں نہىں لگے گا۔

ہم اس امر کو رضاعت پر قیاس کر تے ہیں، رضاعت میں خاتون دودھ پلا کر اس کے جسم کی نشو نما تو کر سکتی ہے لیکن اس کو وراثتی خصوصیات منتقل نہ کر سکتی ، اسی طرح امِ بدیلہ بھی اس کو رحم میں رکھ کر انکو بیٹر کا کردار ادا کر سکتی ہے اور اس کو اپنے خون سے غذا فراہم کر سکتی ہے لیکن اس کو کسی قسم کا وراثتی مواد منتقل نہىں کر سکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو زنا پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔

جدید جینیٹک ٹیسٹ بھی اس بات کو ثابت کر چکے ہیں کہ مرد کے خلیہ منی میں 23 کروموسومز ہوتے ہیں اور اسی طرح عورت کے بیضہ میں بھی 23 کروموسومز ہوتے ہیں جب ٹیسٹ ٹیوب میں انہیں فرٹیلائز کیا جائے تو یہ دونوں ہیپلائیڈ سیلز مل کر ایک ڈپلائیڈ سیل بنتا ہے جو کہ زائیگوٹ کہلاتا ہے اور اس میں 46 کروموسومز ہوتے ہیں، اب اس زائیگوٹ کو جس میں 23+23=64 کروموسومز ہیں، جب امِ بدیلہ کے رحم میں داخل کیا جاتا ہے تو اس میں کسی ایک بھی کروموسوم کا اضافہ نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی جینیٹک ٹیسٹ میں اگر اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی تو امِ بدیلہ کا اس بچے کے ساتھ کسی قسم کا تعلق ثابت نہىں ہو سکے گا کیونکہ وراثتی مادہ رحم میں منتقل ہونے سے پہلے ہی مکمل ہو چکا تھا۔[53]

لیکن اس سب کے باوجود رحم فرج کے تابع ہونے کے باعث اور فرج کی حرمت کے باعث رحم کی حرمت بھی طے شدہ ہے اور اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔

امِ بدیلہ کی صورت میں حقیقی ماں کون ہے؟ اور مصنوعی ماں کون ہے؟

شرعی ماں وہ ماں ہے جس کو میراث، نفقہ، حضانت کا حق حاصل ہوگا، اور اب شرعی ماں کسے قرار دیا جائے؟ آیا وہ ماں ہوگی جس نے بیضہ دیا ہے یا وہ ماں ہوگی جس کا رحم استعمال ہوا، اس نے حمل اٹھایا اور وضع حمل کی تکلیف برداشت کی؟ تو اس صورت میں ایک ماں کو جو کہ بیضہ والی ہوگی اسے ہم بائیولوجیکل ماں کہتے ہیں جس کی طرف سے وراثتی مادہ بچے کو منتقل ہوا ہے۔ دوسری ماں وہ ہے جس کا رحم استعمال ہوا ہے اور اس کے خون سے بچے نے نشونما پائی ہے، اور اسی نے اس کو جنم بھی دیا ہے۔ اس مقام پر محققین کے دو گروہ ہو گئے ہیں۔

فریقِ اول:

پہلا فریق یہ کہتا ہے کہ رحم والی ہی حقیقی ماں ہے کیونکہ اسی نے حمل اٹھایا اور جنم بھی وہی بچے کو دے رہی ہے اس صورت میں وہ کہتے ہیں کہ بیضہ والی حکماً ماں ہے جیسا کہ رضاعی ماں ۔ یہ لوگ انجام کے اعتبار سے دیکھتے ہیں کہ بچہ جس عورت کے ہاں پیدا ہوگا اسی کی طرف منسوب ہوگا۔ ان لوگوں کے ہاں اگر اس رحم والی کا خاوند اس بچے کو قبول کر لے یا شہود حاصل ہو جائے تو اس کا نسب بھی اس رحم والی کی خاوند کی طرف ہوگا اور یہ لوگ بعد کے تمام احکامات میں حقیقی ماں کا درجہ اسی ماں کو دیتے ہیں دوسری ماں کو رضاعت کا درجہ دىتے ہیں۔ ان کی دلیل قاعدہ شرعیہ اور حدیث ہے کہ نسب کا تعلق فراشِ شرعی سے ہے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے متعدد آیات سے بھی استدلال کیا ہے جن میں سے ، إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ۔ [54]، (کہ بے شک ان کی مائیں وہ ہیں جنہوں نے انہیں جنم دیا ہے)۔

یہاں پر اﷲ تعالیٰ نے ولادت کے بغیر امومت کی نفی کلمہ حصر کے ساتھ کر دی ہے اس اعتبار سے یہ آیت قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہے۔ اسی طرح اگر ہم غور سے دیکھیں تو کلمہ والدہ بھی اسم فاعل ہے جو کہ فعل ولادۃ سے نکلا ہے، تو اس کے علاوہ کوئی اور والدہ کیسے ہو سکتی ہے؟ ویسے بھی عربوں کے ہاں نفی کی طریقے سے اثبات کرنا زیادہ قوی طریقہ ہے جیسا کہ کلمہ توحید میں ہے۔

حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا۔ [55](اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا)۔

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ امومت کے لیے کرہ کا ہونا ضروری ہے جبکہ یہ صفت بیضہ والی کو حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ صفت صرف رحم والی کو حاصل ہو گی۔

وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ۔ [56](اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں)۔

بیضہ عطیہ کرنے سے دودھ نہىں اترتا ، لیکن وضع حمل کے بعد دودھ اتر آتا ہے۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ حقیقی ماں صاحبہ رحم ہوگی۔

يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقاً مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلاثٍ۔[57] (وہی تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں (پہلے) ایک طرح پھر دوسری طرح تین اندھیروں میں بناتا ہے)۔

وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ[58] (اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین تھے)۔

وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئاً[59] ۔ (اور خدا ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے)۔

وَوَصَّيْنَا الْأِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْناً عَلَى وَهْنٍ[60] (اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے)۔

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا [61](جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا بہت اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی۔ یہ حصے (خدا کے) مقرر کیے ہوئے ہیں)۔

یہاں والدان کا صیغہ تثنیہ کا ہے، جو کہ حقیقی ماں اور باپ کو ظاہر کرتے ہیں اور تیسری طرف کا اختلاط تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

پس جو شخص عورت کا وارث بنتا ہے وہ وہی بچہ جسے اس نے جنم دیا ہوتا ہے اور اس طریقہ سے وہی حقیقی والدہ ہوگی نہ کہ بیضہ والی۔

اس فریق کے یہ دلائل نصوصِ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہیں، اسی پر انہوں نے اپنے تمام مسائل کی بنیاد رکھی ہے۔ ان کے نزدیک بچہ ولادت کے تعلق سے ہوتا ہے، اور جب وہ ماں سے متعلق ہو جاتا ہے تو اس کے فراشِ شرعی کے ذریعے سے اس خاتون کے شوہر کی طرف منسوب ہو جائے گا، اس طرح سے وہ اس کا شرعی باپ بھی بن جائے گا۔ اسی کی نسبت سے ساری وراثت، نفقات، حضانت، اصول و فروع کی حلت و حرمت کے اصول وغیرہ مرتب ہوں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس فریق کا استدلال غیر موضع پر ہے، ان آیات اور احادیث کا تعلق اس صورتحال سے بنتا ہی نہیں کیونکہ یہ آیات اس فطری اور قدرتی عمل کی نشاندہی کرتی ہیں جس کا مشاہدہ آدم علیہ السلام سے آج تک ہم بالعموم دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ بچہ بالعموم اپنی ماں کے پیٹ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ جب قرآن نازل ہوا تو ماں کی یہی ایک قسم تھی۔ بلکہ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ تمام ادیان میں اسی کو ماں تصور کیا جاتا تھا۔ ہمارے زیرِ بحث جو موضوع ہے وہ بالکل جدید موضوع ہے اس کا تعلق ان آیات سے ثابت کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں ہے، کیونکہ ہر بچے کا اپنی ماں سے دو تعلق ہوتے ہیں:

پہلا تعلق: تکوین و وراثت کا تعلق، جس کی اصل بیضہ ہے۔

دوسرا تعلق: ولادت اور حضانت کا تعلق ہے، اس کی اصل رحم ہے، جس کے ساتھ شرعاً اور طبعاً مولود منسلک ہوتا ہے۔[62]

ان آیات میں جنم دینے سے مراد بچے کو جنم دینا نہیں بلکہ بیضہ کو جنم دینا ہے کیونکہ وہ مصدرِ اصلی ہے تو اس صورت میں مبیضہ سے بیضہ کے پیدا ہونے سے اس کو ماں کہلانے کا استحقاق پیدا ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے اس کو ماں قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے ان لوگوں کا استدلال درست نہیں ہے۔

إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ [63]، اس آیت سے بطریقِ حصر جنم دینے والی کے علاوہ امومت کا انکار کرنے کی کوشش کرنا بھی اس لیے غلط ہے کہ یہ آیت ظہار کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ بیوی کو ماں کہنا غلط ہے۔ یہ ایک مخصو ص واقعہ کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے اس لیے اس کا اطلاق اس موضوع پر جائز نہىں ہے۔ نیز اگر اس کا اطلاق یہاں کیا جائے تو پھر رضاعی ماں کا حکم بھی ختم ہو جائے گا، اسی طرح سے ایک جگہ پر ازواجِ نبیﷺ کو بھی امت کی مائیں قرار دیا گیا ہے۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [64]۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک جدید قضیہ ہے اور اس پر آیتِ ظہار کا انطباق کرنا تحمیل للنص ما لا یحتمل بنے گی۔

اس کے جواب میں مذکورہ فریق یہ کہہ سکتا ہے کہ شرعی قاعدہ ہے، ان العبربعموم اللفظ لا بخصوص السبب، کہ ہم یہاں عموم کا خیال رکھیں گے خصوص کا نہیں۔ جبکہ اس آیت کی تخصیص تو آیت رضاعت میں خود فرما دی گئی ہے اس وجہ سے اس کو اس طرح سے عموم میں نہیں رکھا جا سکتا۔[65]

دوسرا فریق:

ان کے ہاں نسبی اور حقیقی ماں تو وہی ہے جس نے بیضہ دیا ہے، اسی کا جینیٹک کوڈ بچے نے ورثے میں پایا ہے، اسی کی خصوصیات بچے میں ظاہر ہوں گی۔ رحمِ مستاجرہ والی حقیقی نہىں بلکہ رضاعی ماں کی طرح ہوگی، اگرچہ اس کا تعلق رضاعت سے زیادہ قوی ہے لیکن اس سے نسب ثابت نہ ہوگا۔ حکمِ رضاعت اس وجہ سے لگایا جائے گا کہ بیضہ پہلے ہی رحم سے باہر فرٹیلائز ہو چکا تھا، جنین بن چکا تھا جبکہ صاحبِ منی اور صاحبہ بیضہ کے درمیان نکاحِ شرعی موجود تھا تو یہ بچہ اسی باپ اور ماں کی طرف نسباً منسوب ہوگا۔ رحم والی ماں نو ماہ تک اسے غذا فراہم کرتی ہے اور رضاعی ماں اسے دو سال تک دودھ مہیا کرتی ہے۔ یہاں غذا کی وجہ سے نمو ہوتی ہے، ولادت ہوتی ہے، اس لیے اس پر احکامِ رضاعت ثابت ہوں گے۔ اس کی مثال بیج اور زمین کی ہے۔ جب بیج زمین میں ڈالا جاتا ہے تو اس پر بیج کے اثر سے درخت پیدا ہوتا ہے نہ کہ زمین کے اثر سے۔ اگر بیج لیموں کا ہوگا تو درخت بھی لیموں کا ہی پیدا ہوگا، خواہ زمین کوئی سی بھی استعمال کر لی جائے۔

اگر کل کلاں مصنوعی رحم [66]تیار کر لیا جاتا ہے، یا طب اتنی ترقی کر جائے کہ انسانی جنین کو بندریا وغیرہ کے رحم میں پرورش کیا جائے تو اس صورت میں آیا وہ بچہ اس ٹیسٹ ٹیوب یا بندریا کی طرف منسوب ہوگا؟ نہیں ہر گز نہیں، بلکہ وہ صاحبہ بیضہ کی طرف ہی منسوب ہوگا۔

خون سے پرورش پانے پر رضاعت کا حکم کس طرح لگانا جائز ہے؟

دو سال سے قبل جس صورت میں بھی بچے کے لیے تغذیہ ہو وہ رضاعت کی صف میں آئے گا بشرطیکہ وہ ماں کے جسم کی رطوبات سے تغذیہ ہو۔ یہی قرار دار بالاتفاق المجمع الفقہی الاسلامی نے اجماع کے ساتھ پاس کی تھی۔ [67]

رحم کا تغذیہ اس اعتبار سے زیادہ کامل ہے کیونکہ اس سے تمام ٹشوز اور سیلز بنتے ہیں، ہڈیاں اور گوشت بھی اس سے ہی بنتا ہے جبکہ باہر دودھ کی وجہ سے ہونے والا تغذیہ اس سے کم تر درجے کا ہے کہ یہ اضافی حجم میں اضافہ کا باعث بنتا ہے، جبکہ تخلیقی عمل پہلے ہی مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لیے اسے رضاعت کا درجہ از قسم قیاسِ اولیٰ دیا جائے گا۔

تجزیہ آراء :

محققىن کے خیال میں سوتن کے رحم کو حالتِ نکاح میں بطور حاضنہ استعمال کرنا تو جائز ہونا چاہئے کیونکہ اس میں مطلقاً نسب میں کسی قسم کی آمیزش از روئے جدید طبی تحقیقات ممکن نہىں ہے۔ لیکن کسی تیسری خاتون سے رحم کو کرایہ پر یا عطیۃً حاصل کرنا، محلِ بحث ہے۔ حرمتِ نسب کی وجہ سے اختلاط جنین کے کروموسومز میں خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو، بنیادی شرعی قواعد کے خلاف ہے۔ لیکن امِ بدیلہ یا امِ حاضنہ کی صورت میں چونکہ بىضہ پہلے سے فرٹیلائز ہو چکا ہوتا ہے اور فرٹیلائزیشن کے ساتھ ہی اس کا جینیاتی وراثتی کوڈ مکمل ہو جاتا ہے خواہ یہ ایک سیل پر ہی مشتمل کىوں نہ ہو۔ اس لیے اس چیز پر اس کی حرمت کی بنیاد رکھنا کہ اختلاطِ نسب کا خطرہ ہے بالکل غلط ہے۔ اس میں کسی قسم کا اختلاطِ نسب نہیں ہے ہاں البتہ اسے قیاسِ اولیٰ کی قبیل سے لیتے ہوئے رضاعت پر اسے بدرجہ اولیٰ قیاس کیا جا سکتا ہے۔

البتہ انجام کے اعتبار سے بہرحال یہ عمل حرام ہی رہے گا کیونکہ یہ عمل اپنے انجام کے اعتبار سے شبہِ زنا کی ایک صورت بنتا ہے، کہ جس میں ایک خاتون کسی اجنبی مرد کی منی سے فرٹیلائز ہونے والا بىضہ، (بلکہ بىضہ بھی کسی تیسری طرف سے آیا ہو) سے حاملہ ہوجاتی ہے جس سے معاشرے میں عزت و عفت کے معاملات سوالیہ نشان بن جاتے ہىں۔ بعض اعتبار سے عام زنا کے انجام سے بھی یہ عمل زیادہ قبیح محسوس ہوتا ہے کیونکہ زنا میں 64 میں سے 32 کروموسومز غیر شرعی طریقہ سے ماں کے پیٹ میں آتے ہیں جبکہ اس صورت میں پورے 64 کروموسومز ہی پیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ البتہ اسے شرعاً زنا تصور نہ کیا جائے گا کیونکہ یہ آغاز کے اعتبار سے زنا کا مسئلہ نہیں ہے، محض شبہِ زنا ہونے کی وجہ سے اس پر حد جاری کرنے کا فیصلہ نہىں کیا جائے گا۔ لیکن شبہ زنا ہونے کی وجہ سے اسے ہم ایسے چھوڑ بھی نہیں سکتے،اس لیے اس پر تعزیر کا فیصلہ بجا طور پر کیا ہے۔ اس کے علاوہ انسانی حرمت داؤ پر لگنے کی وجہ سے اور رحم کی خرید و فروخت اور پھر اس کی آڑ میں بچوں کی خرید و فروخت کا سوال، دنیا کی ڈیموگرافک سچویشن تبدیل ہونے کا خطرہ وغیرہ ایسے مسائل ہیں کہ ان کے باعث اس عمل کو کسی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا اس لیے اس کے بارے میں حرام کا فتویٰ ہی ہوگا۔

جب ہم فقہی قواعد کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں حرام دو قسم کے ملتے ہیں، (1) حرام لذاتہ اور (2) حرام لغیرہ۔

حرام لذاتہ: اور وہ جسے شارع نے ابتداء سے اور اصالۃً حرام کیا ہو جیسا کہ شراب، زنا، جوا، خون پینا ۔

حرام لغیرہ : ایسا امر جو اپنی اصل کے اعتبار سے تو جائز ہو لیکن اس کے ساتھ ایک اور امر ملا ہوا ہو جو کسی مفسدہ کا باعث ہو یا تکلیف کا باعث ہو تو وہ بھی حرام ہو جائے گا[68]۔

محرم لغیرہ کی مثالوں میں روزہ رکھنا جو کہ اپنی مشروعیت میں حلال ہے، لیکن عید کے دن حرام ہے۔ اسی طرح غصب شدہ کپڑے میں نماز پڑھنا، مغضوب مال میں سے زکوٰۃ ادا کرنا سب اصل میں مشروع ہیں لیکن انہیں حرام تصور کىا جاتا ہے۔

اس قاعدہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ امِ حاضنہ کا رحم استعمال کرنا محرم لعینہ نہیں ہے، کیونکہ موجبِ اختلاطِ نسب نہیں ہے، لیکن محرم لغیرہ ہے، کیونکہ یہ موجبِ مفاسدِ شرعیہ ، مفاسدِ معاشرہ اور مفاسدِ صحت پر مبنی ایک عمل ہے جسے اپنے سے کم تر فائدہ کے لیے کسی صورت میں بھی اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ محرم لغیرہ قرار دینے سے مستقبل میں اس کی کوئی ایسی صورت وجود میں آجائے کہ جس میں اس قسم کے مفاسد نہ رہیں تو اس کے مطابق اس وقت کے علماء اس کے جواز کا فتویٰ دینے کے اہل ہوں گے.

 

حوالہ جات

  1. ۔ الروم: 21
  2. ۔ http://en.wikipedia.org/wiki/Infertility#World_Health_Organization
  3. ۔ http://chealth.canoe.ca/channel_section_details.asp?text_id=4446&channel_id=2048&relation_id=43283
  4. ۔ http://history1900s.about.com/od/medicaladvancesissues/a/testtubebaby.htm
  5. ۔ دکتورہ، حصۃ بنت عبدالعزیز السدیس، استئجار الارحام دراسۃ فقہیۃ مقارنۃ۔ من موقع http://www.almoslim.net/node/139515
  6. ۔ http://www.medicinenet.com/infertility/article.htm
  7. ۔ الاِسْتِبْضَاعُ فِي اللُّغَةِ: مِنَ الْبُضْعِ، بِمَعْنَى الْقَطْعِ وَالشَّقِّ، وَيُسْتَعْمَل اسْتِعْمَالاً مَجَازِيًّا فِي النِّكَاحِ وَالْمُجَامَعَةِ. وَالْبُضْعُ - بِالضَّمِّ - الْجِمَاعُ، وَالْفَرْجُ نَفْسُهُ۔ (محمّد بن محمّد بن عبد الرزّاق الحسيني، ابوالفيض، الملقّب بمرتضى، الزَّبيدي (المتوفى: 1205هـ)، تاج العروس من جواهر القاموس، مجموعة من المحققين، دار الهداية، مادة (ب ض ع)استبضاع لغت میں بضع سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں کاٹنا یا پھاڑنا، اور اسے مجازی معنوں میں نکاح اور جماع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور اگر ضمہ سے البُضْعُ ہو تو معنیٰ جماع اور خود فرج کے ہوتے ہیں۔ فَالاِسْتِبْضَاعُ هُوَ: طَلَبُ الْجِمَاعِ، وَمِنْهُ نِكَاحُ الاِسْتِبْضَاعِ، الَّذِي عَرَّفَهُ ابْنُ حَجَرٍ بِقَوْلِهِ: وَهُوَ قَوْل الرَّجُل لِزَوْجَتِهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ: " أَرْسِلِي إِلَى فُلاَنٍ، فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ " أَيِ اطْلُبِي مِنْهُ الْمُبَاضَعَةَ،وَهُوَ الْجِمَاعُ . وَهَذَا كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَدْ أَبْطَلَهُ الإِسْلاَمُ. (وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية – الكويت، الموسوعة الفقهية الكويتية، 1404 - 1427 هـ 3/174)استبضاع جماع کا طلب کرنا ہے، اس سے نکاح الاستبضاع ہے جس کی تعریف ابن حجرؒ نے اس طرح سے کی ہے، ’’ یہ آدمی کا اپنی بیوی سے زمانہ جاہلیت کا کلام ہے، کہ وہ کہتا تھا کہ تو فلاں کے پاس چلی جا اور اس سے استبضاع کر، یعنی اس سے مباضعۃ طلب کر، اور وہ جماع ہے۔ یہ کام جاہلیت میں ہوتا تھا اور اس کو اسلام نے باطل قرار دے دیا ہے۔
  8. . http://www.almoslim.net/node/139515
  9. . http://www.almoslim.net/node/139515
  10. ۔ http://en.wiktionary.org/wiki/surrogate_mother
  11. ۔ لجنة مكونة من عدة علماء وفقهاء في الخلافة العثمانية ، مجلة الأحكام العدلية، نجيب هواويني، نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي، 1/19
  12. ۔ مجلة الأحكام العدلية، 1/19
  13. ۔ الاسراء: 70
  14. ۔ جریدۃ ، المسلمون، 28 مارچ 1997، عدد 634
  15. http://www.delhi-ivf.com/india_surrogacy.html
  16. http://www.wikihow.com/Decide-on-Surrogacy-in-India
  17. ۔ واضح رہے کہ جینیٹک فنگر پرنٹ کا تعین کرنا ایک طبی معاملہ ہے، اور جدید تحقیقات نے بہت سی غلط فہمیوں سے پردہ اٹھایا ہے اور یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ جینیٹک فنگر پرنٹ پہلے خلیہ میں (زائیگوٹ) ہی مکمل ہوجاتا ہے اور اس میں موجود 46 کروموسومز (وراثتتی مادہ) میں سے 23 باپ کی طرف سے ہوتے ہیں اور 23 ماں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس دوران بعض جینز کے اندر (جینز کروموسومز پر موجود وراثتی کوڈنگ کے یونٹس کو کہتے ہیں) میوٹیشن کی وجہ سے بڑی تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں جس کے باعث بعض اوقات بچہ ماں اور باپ دونوں سے زیادہ مختلف ہو سکتا ہے، لیکن بہر حال جینیٹک ٹیسٹ سے 99 فیصد درستگی کے ساتھ اس کے والدین کا علم چلایا جا سکتا ہے، خواہ جینز میں میوٹیشن ہو چکی ہو یا نہ، زیادہ ہو یا کم۔
  18. ۔ مالك بن أنس المدني (المتوفى: 179هـ)، موطأ الإمام مالك، مؤسسة الرسالة، 1412 هـ، 2/9 رقم الحدیث 1746
  19. ۔ لقمان: 14
  20. ۔ A haploid cell is a cell that contains one complete set of chromosomes. Gametes are haploid cells that are produced by meiosis. http://biology.about.com/od/geneticsglossary/g/haploid_cell.htm
  21. ۔ A diploid cell is a cell that contains two sets of chromosomes. One set of chromosomes is donated from each parent. http://biology.about.com/od/geneticsglossary/g/diploid_cell.htm
  22. ۔ A zygote is the initial cell formed when two gamete cells are joined by means of sexual reproduction. http://en.wikipedia.org/wiki/Zygote
  23. أخرجه البخاري 5/192، في كتاب الحدود، باب للعاهر الحجر، حديث رقم (6318)؛ ومسلم 2/1080، في كتاب الرضاع، باب الولد للفراش وتوقي الشبهات، حديث رقم 2645
  24. ۔ هل الرحم قابل للتأجير، The Time Magazine سے عربی ترجمة إيمان عكور، الرأي الأردنية، تاريخ 23/1/87. بدعة غريبة في طريقها إلينا، حمدي رزق، جريدة الوطن، العدد (5486)، تاريخ 25 مايو 1990م، ص6؛
  25. ۔ د. محمد علي البار، طفل الأنبوب الصناعي، ص 77
  26. ۔ المؤمنون:12-13
  27. ۔ النحل:78
  28. ۔ المجادلة:2
  29. ۔ لقمان:14
  30. ۔ محمَّد بنْ حسَيْن بن حَسنْ الجيزاني ، معالم أصول الفقه عند أهل السنة والجماعة، دار ابن الجوزي، 1427 هـ، 1/505
  31. ۔ الضَّرُورِيَّةُ الْخَمْسَةُ، الَّتِي هِيَ حِفْظُ الدِّينِ وَالنَّفْسِ وَالنَّسَبِ وَالْعَقْلِ وَالْمَالِ۔ پانچ ضروریات یہ ہیں، (1) حفظ الدین، (2) حفظ النفس (3) حفظ نسب (4) حفظ عقل (5) حفظ مال محمود بن عبد الرحمن ابن أحمد بن محمد، أبو الثناء، شمس الدين الأصفهاني (المتوفى: 749هـ)، بيان المختصر شرح مختصر ابن الحاجب، دار المدني، السعودية، 1406هـ / 1986م، 3/402
  32. ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ۔( المؤمنون 5، المعارج 29)
  33. ۔ قياس مع الفارق، أي هناك فرق بين الاصل المقيس عليه والفرع المقيس، وهذا ما يمنع القياس. قیاس مع الفارق یہ ہے کہ یہاں اصل مقیس علیہ فرع مقیس میں فرق ہے جو کہ قیاس کو مانع ہے۔ محمد رواس قلعجي - حامد صادق قنيبي ، معجم لغة الفقهاء، دار النفائس للطباعة والنشر والتوزيع، 1408 هـ - 1988 م 1/344
  34. ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (6) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (7) (المؤمنون آیت 5-7)
  35. ۔ د حصۃ بنت عبدالعزیز السدیس، استئجار الارحام دراسۃ فقہیۃ مقارنۃ، من موقع http://www.almoslim.net/node/140361
  36. ۔ ابو داود سليمان بن الأشعث السِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)، سنن أبي داود، المكتبة العصرية، صيدا – بيروت، رقم الحدیث 2265، 2/279
  37. ۔ ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني(المتوفى: 273هـ)، سنن ابن ماجه، دار إحياء الكتب العربية، 2/917 رقم الحدیث 2746
  38. ۔ منظمة المؤتمر الاسلامي بجدة ، مجلة مجمع الفقه الإسلامي، المقال، الشیخ عبداللہ البسام، اطفال الانابیب، عدد 2 / 166
  39. ۔ مجلة مجمع الفقه الإسلامي التابع لمنظمة المؤتمر الإسلامي بجدة، محمد علی البار، التلقیح الصناعی و اطفال الانانیب، 2/195
  40. ۔ مجلة مجمع الفقه الإسلامي التابع لمنظمة المؤتمر الإسلامي بجدة، وثائق مقدمة للمجمع الحكم الإقناعي في إبطال التلقيح الصناعي وما يسمى بشتل الجنين الشيخ عبد الله بن زيد آل محمود،2/238
  41. ۔ قرار مجمع المجلس الفقهي الإسلامي في دورته الأولى حتى دورته الثامنة عام 1985م، ص 150-151.
  42. ۔ مجلة المجمع الفقهي، العدد الثاني 1/300-307.
  43. ۔ قضايا طبية معاصرة في ضوء الشريعة الإسلامية 1/81، جمعية العلوم الطبية الإسلامية المنبثقة عن نقابة الأطباء بالأردن، دار البشير، 1995.
  44. ۔ البدائع، 4/189؛ القوانين الفقهية 274؛ مغني المحتاج 2/335؛ الروض المربع 214.
  45. ۔ البدائع 4/191؛ كفاية الأخبار 1/191؛ مواهب الجليل 5/419؛ المبدع 5/74.
  46. ۔ البدائع 4/190
  47. ۔ مواهب الجليل 5/419
  48. ۔ محمد بن إسماعيل البخاري الجعفي ، الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري، دار طوق النجاة، الأولى، 1422هـ، 5/156 رقم الحدیث 4326
  49. ۔ صحیح البخاری، رقم الحدیث 2053، 3/54
  50. ۔ الطلاق 6
  51. ۔ البقرۃ 233
  52. ۔ المسائل الطبیۃ المستجدۃ، 317-319
  53. ۔ http://en.wikipedia.org/wiki/Human_genetic_variation
  54. ۔ المجادلۃ: 2
  55. ۔ الاحقاف: 15
  56. ۔ البقرۃ: 233
  57. ۔ الزمر:6
  58. ۔ النجم: 32
  59. ۔ النحل: 78
  60. ۔ لقمان: 14
  61. ۔ النساء: 7
  62. ۔ د. بكر أبو زيد عبد الله، فقه النوازل، ص 50.
  63. ۔ المجادلۃ: 2
  64. ۔ الاحزاب: 6
  65. ۔ أكثر المالكية على أن العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب، كما حكى ذلك القرافي في كتابه "شرح تنقيح الفصول" ص"216"، كما حكي عن الإمام مالك روايتين. والقول بأن العبرة بخصوص السبب عن الإمام مالك، هو الذي نقله كثير من الأصوليين، كالآمدي في كتابه "الإحكام": "2/219"، والإسنودي في كتابه "نهاية السول": "2/477". (القاضي ابو يعلى (المتوفى : 458هـ)، العدة في أصول الفقه، جامعة الملك محمد بن سعود الإسلامية، 1410 هـ - 1990 م، ھامش 2/608)
  66. ۔ An artificial uterus (or womb) is a theoretical device that would allow for extracorporeal pregnancy or extrauterine fetal incubation (EUFI) ایک مصنوعی رحم ایک ایسی نظری آلہ ہے جو کہ بیرونی حمل یا رحم کے باہر بچے کی پرورش کو یقینی بناتی ہے۔ Bulletti, C.; Palagiano, A.; Pace, C.; Cerni, A.; Borini, A.; De Ziegler, D. (2011). "The artificial womb". Annals of the New York Academy of Sciences : 124–128
  67. ۔ قرار المجمع الفقهي الإسلامي في دورته الحادية عشرة بمكة المكرمة في الفترة من 19 فبراير إلى 26 فبراير 1989م حول الموضوع الخاص بنقل الدم من امرأة إلى طفل دون سن الحولين، هل يأخذ حكم الرضاع المحرم، أو لا؟.: (الدكتور عبد الوهاب إبراهيم أبو سليمان، فقه الضرورة وتطبيقاته المعاصرة، آفاق وأبعاد، ص 90)
  68. ۔ محمد حبش ،شرح المعتمد في أصول الفقه ،مع مقدمة: للدكتور محمد الزحيلي، 1/78
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...