Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 30 Issue 1 of Al-Idah

دینی مدارس پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے الزامات: ایک تجزیاتی مطالعہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

30

Issue

1

Year

2015

ARI Id

1682060034497_787

Pages

23-42

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/193/185

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/193

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

آج کے دو ر میں پوری امت مسلمہ دردوکرب اور مایوسی وپریشانی کا شکار ہے۔ دنیائے کفر پوری آب وتاب اور تمام تروسائل مجتمع کرکے عالمِ اسلام پر ایک منظم طریقے سے حملہ آور ہے۔ دنیا میں ۱۵۷ اسلامی ممالک کے ہوتے ہوئے مسلمان پستی، کمزوری اور زوال کا شکار ہىں۔ خصوصاً 11/9 کے واقعہ کے بعد امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ایماء پر مدارس کی کردار کشی کی جارہی ہے اور انہیں انتہاپسند اور تشدد پسند قرار دیا جارہا ہے، دہشت گردی کا الزام طلبہ اور اساتذہ پر عائد کیا جارہا ہے اور سرکاری ، نیم سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی نصابی کتب سے جہادی آیات نکالی جارہی ہیں۔ یہ صورت حال نہایت المناک ہے۔ انتہاپسندی اور جہاد کی عملی ونظری حیثیت کے مابین فرق نہ کرنااسلام دشمنی ہے، باطل کے خلاف جہاد اسلام کا بنیادی حکم ہے اور اہل اسلام کے اس عقیدے کا لازمی جزو ہے۔ تمام انبیاء کرام اس پر عمل پیرا رہے اور حضورﷺ نے بھی جہاد کے مختلف مراحل سے گزر کر ایک اسلامی ریاست مستحکم فرمائی۔ یہ کسی طورپر ممکن نہیں کہ اسلام کے تصورِ جہاد، اس کی اہمیت اور فلسفے پر انتہا پسندی کا لیبل چسپاں کرکے اس سے صرفِ نظر کیا جاسکے۔ پاکستان میں کم ہی کوئی ایسا مدرسہ ہوگا جو دہشت گردی جیسے مذموم، ناپسندیدہ، قبیح اور گھناؤنے جرم کا مرتکب ہوا ہواور پھر یہ کہ آج تک دہشت گردی کا واضح مفہوم بھی متعین نہیں کیاجاسکا اور نہ سنجیدگی سے دہشت گردی کے عوامل کو ہی سامنے لاکر اس کا سدِباب کا کوئی علاج تجویز کیا جاسکا۔ دہشت گردی کا ازالہ اگردہشت گردی سے ممکن ہوتا تو عراق، افغانستان اورچیچنیا امن کے گہوارے بن چکے ہوتے۔ ان طاقتوں نے متعدد اسلامی ممالک میں دہشت گردی کا بہانہ بناکر وہاں اپنے قدم جمائے اور ہزاروں کی تعداد میں مظلوم اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا ہے ۔ اس مضمون میں دینی مدارس کے بارے میں امریکہ ، برطانیہ اور یورپ کے پروپیگنڈے اور مدارس دینیہ کے ذمہ داران کی آراء کی مختصر سی جھلک پیش کی گئی ہے۔ 

کفر و الحاد کا مسلمانوں کے تعلیمی نظام کے درپے ہونا:

آج کے کفرو الحادمسلمانوں کے تعلیمی نظام کے درپے ہے۔پاکستان کے نظام تعلیم کا قبلہ درست کرنے کیلئے آئے روز ہمارے اخبارات بھرے ہوئے ہیں۔ مسلسل شائع ہونے والی ان خبروں سے ہرذی شعوریہ سوچنے پر مجبورہوجاتا ہے کہ عالمِ کفر، امریکہ وبرطانیہ کو ہمارے دینی نظام تعلیم سے آخر ایسے کون سے خطرات لاحق ہیں جن کی وجہ سے وہ ہماری حکومت کے ذریعے ان میں ہرقیمت پر اصلاح وترامیم کیلئے دباؤ ڈال رہا ہے۔

مسلمانوں کو خالص اسلامی تعلیمات سے دور کرنے اور ملحدانہ افکار ونظریات کا حامل بنانے کے لئے اس وقت دوطریقے اپنائے جارہے ہیں، جن کو جدید استعماری اصطلاح میں ’’ہارڈپاور اور سافٹ پاور‘‘ کہتے ہیں۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مدمقابل کو سختی کے ساتھ کسی نقطہ نظر اپنانے پر مجبور کرنے کی بجائے ایسے طریقے استعمال کئے جائیں جن میں شعور کے بغیروہ از خود ہی ان ترجیحات کو اپنے فکروعمل میں اپنالے جو اس کا حریف اس سے چاہتا ہے۔ گویاآسان الفاظ میں جنگی یاحریفانہ حکمتِ عملی کی بجائے غیر محسوس طریقے سے مقابل کے عقیدہ ونظریہ میں ایسی ترمیم روبہ عمل لائی جائے جس کے بعد وہ اپنے مقابل کے ذہن ہی سے سوچنے لگ جائے اور مزاحمت کی ضرورت ہی نہ رہے۔(1(پاکستان میں افکار ونظریات کی تبدیلی کے لئے آج کل ’’سافٹ پاور‘‘ کا طریقہ اپنایا جارہا ہے۔ ملکی وبین الاقوامی میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے نقطہ نظر کو متاثر کیا جارہا ہے۔ جھوٹے بیانات، منفی پراپیگنڈے، سروے،معلومات اور اعداد وشمار سے مسلمانوں کو ذہنی طور پر مرعوب اور آہستہ آہستہ اپنے نظریات کا قائل بنایا جارہا ہے۔ مختلف سیاسی وفود یا سیاسی بیانات کے ذریعے ملک میں ایک مخصوص فضا سازگار کی جارہی ہے جس سے ملک کی نظریاتی سرحدوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

11/9 کے بعد بیرونی دنیا اور عالم اسلام کو دینی نظامِ تعلیم اور دینی مدارس سے متنفر کرنے کے لئے ملکی وبین الاقوامی میڈیا نے خوب تشہیر کی جس کی ہلکی سی جھلک ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔

امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے کانگرس کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:’’پاکستان سمیت بیشتر ممالک کے دینی مدارس اور سکول بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں۔ امریکہ کو ان کے بارے میں تشویش ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان ممالک کے دینی مدارس کو فنڈز مہیا کئے گئے ہیں۔ ان مدارس میں دی جانے والی تعلیم کا نظریہ تبدیل کیا جاناضروری ہے۔ امریکی حکومت ان دینی مدارس میں کارآمد تعلیم کی فراہمی اور اصلاحات لانے کے معاملے پر صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف سمیت دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں‘‘۔(2(

اس کے علاوہ کچھ اس قسم کا اظہار خیال امریکہ کے سنٹر فارسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ڈائریکٹر انورڈڈی بورک گریونے ایشین ٹائمز کو انٹرویودیتے ہوئے پاکستان کے دینی مدارس کے بارے میں کیا، انہوں نے کہا:

’’امریکہ نے 1980ء کے عشرے میں کوتاہ نظری پرمبنی جوپالیسیاں تشکیل دیں، ان کے نتیجے میں پاکستان میں دینی مدرسوں کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان کے دس ہزارمدارس میں سات لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں اور سعودی عرب اپنے شہریوں کے ذریعے ان کو 30کروڑ کی سالانہ امداد دے رہا ہے‘‘۔(3(

امریکی نائب وزیر دفاع اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ:

’’اسلامی دینی مدارس لاکھوں مسلم بچوں کو انتہاپسندانہ تعلیم پر ابھارتے ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے بجٹ کی ترسیل پر قدغن عائد کردی جائیں، اس سے بھی بہتر ذریعہ یہ ہے کہ مقامی طور پر ان مدارس کے مخالف افراد، رجحانات اور اداروں کو تقویت اور مدد پہنچائی جائے تاکہ وہ انتہاپسندی کے سرچشموں کا مقابلہ کرسکیں‘‘۔(4(

ہارورڈ یونیورسٹی کے کینڈی سکول کی تحقیق کار ڈاکٹر جسیکا سٹرن(Jassica Stern)نے نومبر/دسمبر2000ء میں پاکستان میں جہادی کلچر کے حوالے سے ایک مضمون بعنوان "Pakistan's Jihad Culture" لکھا ذیل میں اس کے مضمون سے دینی مدارس کے حوالے سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔

اپنے آرٹیکل کی ابتداء میں وہ جنرل مشرف کے اس مؤقف کی تائید کرتی ہیں کہ ’’جہاد‘‘ اور ’’دہشت گردی ‘‘ میں فرق ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ : 

Pervez Musharraf, Pakistan's military ruler, calls them "freedom fighters" and admonishes the West no to confuse jihad with terrorism. Musharraf is right about the distinction - the jihad doctrine delineates acceptable war behavior and explicitly outlaws terrorism…………..(5) 

ڈاکٹر جسیکا سٹرن نے دینی مدارس کو "Schools of Hate"کانام دیا ہے اورکہتی ہیں کہ: 

In the 1980s, Pakistani dictator General Mohammad Zia-ul-Haq promoted the Madrasahs ……………….. At the time, many madrasahs were finaced by the Zakat. (6)

’’یہ مدرسے جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں اس لئے تیزی سے پھلے پھولے کیونکہ انہیں حکومتی سطح پر زکوٰۃ فنڈز سے مالی امداد ملتی تھی۔

ڈاکٹر جسیکا سٹرن نے دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کے بارے میں کہتی ہیں کہ:

These schools encourage their graduates, who often cannot find work because of their lack of practical education, to fulfill their "Spiritual obligations" by fighting against Hindus in Kashmir or against Muslims of other sects in Pakistan. (7) 

ان مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ جو کہ عملی تعلیم کی کمی کی وجہ سے معاشرے میں کام حاصل نہیں کرسکتے وہ اپنے ’’روحانی فرض‘‘ کی ادائیگی کیلئے کشمیر میں ہندؤں اور پاکستان میں دوسرے فرقہ کے لوگوں سے لڑتے ہیں۔

پاکستان میں دینی تعلیم کی بجائے سیکولر تعلیم کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحبہ کہتی ہیں کہ:

The most important contribution the United States can make, then, is to help strengthen Pakistan's secular education system……………...Moreover, assisting Pakistan will make the world a safer place.(8) 

دینی مدرسوں کے اس تناظر کے سلسلے میں امریکہ سب سے بڑا تعاون یہ کرسکتا ہے کہ وہ پاکستان کے سیکولر نظامِ تعلیم کو مضبوط بنا نے کیلئے حکومتِ پاکستان کی بامعنی معاونت کرے۔ اس طرح پاکستان کی مدد کرنے سے دنیا کو محفوظ جگہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان کو اپنے جمہوری حق کی بنا پر اپنے نظریے اور عقیدے سے ہم آہنگ تعلیمی نظام تشکیل دینے کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ امریکہ اور اس کے حلیفوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں سیکولر نظام تعلیم کو ہرقسم کی مالی معاونت دے کر مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کردیا جائے، کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے مسلم تشخص کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ملک میں سیکولر نظام کو پروان چڑھانے اور نظریاتی طورپر اپنے اثرات کو گہرا کرنے کے لئے مغربی اقتصادی اداروں اور حکومتوں نے پاکستان میں عورتوں اور بچوں کی تعلیم کیلئے تو سودی قرضے فراہم کئے، لیکن دوسری جانب پاکستان کے اسی سیکولر نظام کے اعلیٰ سائنسی، فنی اور تحقیقی اداروں مثلاً عصری تعلیم کی عام اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے ساتھ PCSIRجیسی تجربہ گاہوں کی مالی امداد اور فنی معاونت کاگلاتک گھونٹ دیا گیا ہے، تاکہ ان اداروں کے افراد تحقیق وترقی کیلئے خودکفالت کی منزل تک نہ پہنچ سکیں۔ گویا سیکولر نظامِ تعلیم کو مضبوط بنانے کے لئے قرضوں کی مدد کا مرکز، تعلیم وتحقیق میں بہتری لانا نہیں بلکہ نظریاتی سطح پر توڑپھوڑ ہے۔ اور اس گرانٹ کا مقصد ملک میں اعلیٰ انگلش میڈیم سکولوں کا جال بچھانا، ٹیکسٹ بک بورڈ پر ریاستی کنٹرول کی گرفت توڑنا اور نصابیات میں من مانی تبدیلی کے ذریعے فکری اثر ونفوذ کی راہ ہموار کرنا ہے۔

ایک امریکی تھنک ٹینک دی بروکنگ انسٹی ٹیوٹ، واشنگٹن ڈی سی کے ڈاکٹرپیٹر ڈبلیو سنگر نے نومبر2001 میں پاکستان کے دینی مدارس پر ایک تجزیاتی مقالہ "Pakistan's Madrassahs: Ensuring a System of Education not Jihad" لکھا جس میں وہ یوں رقمطراز ہیں:

The present danger is that a minority of these schools have built extremely close ties with redical militant groups and pay a critical role in sustaining the international terrorist network. Madrassahs' displacement of a public education system is also worrisome to the stability of the Pakistani state and its future economic prospects. (9) 

]دنیا کو ] موجودہ خطرہ یہ ہے کہ ان مدارس کی ایک قلیل تعداد نے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ گہرے روابط قائم کر لیے ہیں اور یہ (مدارس) بین الاقوامی دہشت گردی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ عوامی نظامِ تعلیم ( سیکولر نظام تعلیم) کی بجائے مدارس کا نظام تعلیم پاکستان کے استحکام اور پاکستان کے مستقبل کی معاشی ترقی کے لئے خطرات کا باعث ہے۔ 

دینی مدارس کے نصاب و نظام کے بارے میں مسٹر سنگر کہتے ہیں کہ:

These schools teach a distorted view of Islam. Hatred is permissible, jihad allows the murder of innocent civilians including other Muslim men, women and children and the new heroes are terrorists. Martyrdom through suicide attacks is also extolled. Many of the radical religious school also including weapons and physical training in their regimen, a swell as weekly lessons on political speechmaking (where anti-American rhetoric is memorized). The students are uneducated, young, dependent on the schools, and cut off from contact with their parents for years at a time, and thus highly susceptible to being programmed towards violence. (10)

مسٹرسنگرمزید کہتے ہیں کہ مدارس اسلام کے تصور کو بگاڑنے کا سبب ہیں، ان مدارس میں نفرت کو پروان چڑھایا جاتا ہے اور جہاد کے ذریعے عام افراد، بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان کے نئے ہیرو دہشت گر دہیں۔ خود کش حملوں کے ذریعے شہادت حاصل کرنے کو مستحسن قدم قرار دیا جاتا ہے۔ بہت سے مدارس میں جدید اسلحہ چلانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اور امریکہ کے خلاف سیاسی تقاریر کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ان مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ غیر مہذب ہوتے ہیں جن کا تمام تر انحصار انہی مدارس پر ہوتا ہے، یہ لوگ کئی کئی سالوں تک اپنے والدین سے دور رہتے ہیں اور (معاشرے) میں اشتعال انگیزی کے پروگراموں میں پیش پیش رہتے ہیں۔

پی ڈبلیو سنگردینی مدارس کے طلبہ کے رویوں کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:

The Madrassahs provide a common pool of protesters, the thousands of students themselves, who are brought to oppose the Pakistani government on almost any issue, ranging from support for the US to new tases on small businesses. (11)

’’یہ مدرسے ایسے ہزاروں احتجاجی طالبعلموں کے عمومی مراکز ہیں، جو پاکستان حکومت کی جانب سے امریکہ کی تائید اور مختلف ٹیکس لگانے کے فیصلوں تک کی مزاحمت کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں‘‘۔

معاشرے میں دینی مدارس کے طلبہ کے کردار کے بارے میں سنگر صاحب یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ 

The graduate of most Madrassahs have no acquaintance with needed subjects like economics, science or computing……………...the school produce a stream of unemployed young men, wholly dependent on the support of others. They have skills only to be imams or assistant at mosques………….(12)

’’دینی مدارس میں پڑھنے والوں کواکنامکس، سائنس اور کمپیوٹر کا فہم حاصل نہیں ہوتا۔ یہ ادارے بے روز گار نوجوانوں کا ہجوم تیار کررہے ہیں، جن کا اور تو کوئی مصرف نہیں، البتہ یہ لوگ صرف مسجد کے امام یاکسی مسجد کے خدمت گارہی بن سکتے ہیں اور بس‘‘۔ مسٹرپی ڈبلیو سنگر دینی مدارس کو امریکی پالیسی کے مطابق ڈھالنے کیلئے یوں اظہارِ خیال کیا کہ:

Any direct operation against the schools themselves cloud undermine the military's unity and, hence, its role as a bulwark of the secular Pakistani state133.following the successful models of other Muslim states such as Jordan, government-supported Alia Madrassahs can be established. Such schools teach the tenets of Islam, but also impart something beyond the solely traditional curriculum, providing education in mathematics, economics etc.(13) 

’’ان دینی مدارس کو راہِ راست پر لانے کیلئے کوئی بھی بلاواسطہ اقدام پاکستان میں تشدد کی لہر کو ابھارے گا، اور پاکستانی فوج کی یکجہتی کو ہلا کر رکھ دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ اردن حکومت کی مانند، حکومت اعانت سے دینی مدارس عالیہ کو پروان چڑھایا جائے، جہاں ریاضی اور اکنامکس کے ساتھ دینی تعلیم کا بھی اہتمام ہو‘‘۔

مسٹر سنگر مزیدکہتے ہیں:

To succeed in countering the negative influence of those madrassahs, which have been hijacked by extremists, the US must provide dedicated aid to education reform efforts.(14)

انتہاپسندی اور دہشت گردی پھیلانے والے مدارس کے منفی اثرات سے بچنے کیلئے امریکی حکومت کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے نظامِ تعلیم کو تبدیل کرنے کیلئے بھاری امداد فراہم کرے۔

جوناتھن پاور(Jonathan Power)نے 8،دسمبر2005 کو "Are the massrasas in Pakistan spreading Hatred"کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا جس میں پاور صاحب نے 7جولائی 2005ء کو لندن میں ہونے والے بم دھماکوں کی تمام تر ذمہ داری پاکستان کے دینی مدارس کے کھاتے میں ڈال دی ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ:

Some of the suicide bombers who exploded the bombs on the London transport system in July were educated in Pakistani madreasas……………..(15) 

جولائی میں لندن میں خود کش حملوں سے لندن کے ٹرانسپورٹ سسٹم کو تباہ کرنے والے تمام افراد پاکستان کے دینی مدارس کے تربیت یافتہ ہیں۔

سیموئیل بیڈ(Samuel Baid)نے "Madrasas in Pakistan"کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا جس میں انہوں نے ’’پاکستان کے دینی مدارس پر الزام لگایا کہ پاکستان کے دینی مدارس بین الاقوامی دہشت گردی کی افزائش نسل کررہے ہیں اور7جولائی کولندن میں ہونے والے بم دھماکوں کا تعلق بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔‘‘

سیموئیل بیڈ(Samuel Baid)کہتے ہیں کہ:

Madrasas in Pakistan continue to be a major source and inspiration for global terrorism as has been once again brought out by the July 7 terror in London's underground railways. Three young Britons of Pakistani origin, who were believed to be behind this attack, had visited Pakistan for three to four months.(16) 

مسٹر سیموئیل بیڈ دینی مدارس کے طلبہ اور نصاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

Some fundamentalist parties insist on running madreasas with outdated anti-social syllabus. This syllabus as also the repeatedly emphasized fact that they were living on alms cannot produce self-respecting citizens. The inferiority complex they acquire during their stay in madrasas gives them a feeling of revenge. And this feeling is exploited by terror lords.(17) 

کچھ بنیاد پرست لوگ ان مدارس میں پرانا اور فرسودہ نصاب پڑھانے پر زور دے رہے ہیں۔ دراصل اس نصاب سے چمٹے رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان مدارس کے لوگ خیرات پر پلتے ہیں اور معاشرے میں اچھے شہری پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ ان مدارس کے طلبہ میں ایک قسم کا احساسِ کمتری پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ان میں انتقام کا جذبہ ابھرتا ہے جس کو دہشت گرد اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔امریکی سینٹ کی11/9پر مقرر کردہ کمیٹی نے اپنی 28سفارشات میں سے26سفارشات میں جس حکمتِ عملی کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا محور تعلیمی اور ابلاغی ذرائع سے امتِ مسلمہ کے ذہن، بلکہ روح کو تبدیل کرنا ہے۔

بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کے رکنStephan Philip Cohenنے ایک مقالہ تحریر کیا جس کا عنوان "The nation and the state of Pakistan"ہے۔ کوہن نے اپنے اس مقالہ میں حالات کے تجزیہ کے بعد امریکہ کو یہ مشورہ دیا ہے کہ انفرادی حیثیت میں فوجی حکمرانوں سے قریبی تعلقات سے آگے بڑھ کر اسے تعلیمی اداروں اور تعلیمی مواد پر توجہ دینی ہوگی۔(18(

امریکی نمائندگان کا ایک مشاورتی حلقے جس کے سربراہ Edward P.Degerjianہیں، نے ایک رپورٹ تیار کی جس کا عنوان"Changing Minds Winning Peace: a new strategic Direction for U,S Public Deplomacy in The Arab and Muslim World"ہے۔ اس رپورٹ میں تفصیلی جائزہ کے بعد بین الاقوامی حکمت عملی کی تشکیل نوکیلئے تجاویز دی گئی ہیں۔ ان تجاویز میں ایک اہم تجویز یہ بھی ہے کہ تعلیم وتعلم سے وابستہ افراد، صحافیوں اور دیگر افراد کو امریکہ بلاکر مہمان داری اور علمی نشستوں کے ذریعے ان پر اثر انداز ہوا جائے اور امریکی اقداروثقافت کو تعلیم اور تعلیمی وظائف کے ذریعے مسلمانوں کے دل ودماغ میں اتارا جائے۔

اس سلسلے میں ایک اہم مشورہ یہ بھی دیا گیا کہ ’’جدیدیت پسند حضرات سے نصابی کتب لکھوائی جائیں اور ان کتب کو اخراجات میں حصہ بٹاتے ہوئے ارزاں قیمت پر طلبہ کو فراہم کیا جائے، جس طرح سابق سوویت یونین نے ساٹھ کے عشرے میں کمیونسٹ فکر کو عالمی پیمانہ پر مختلف زبانوں میں کتابوں، رسائل اور علمی کتب کی اشاعت کثیر کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کئے تھے، بالکل اس طرز پر تجویز کیا گیا کہ جدید اسلام کو جو مغرب کیلئے قابلِ قبول ہو، عوام الناس تک لے جایا جائے۔

امریکی وزیرخارجہ دینی مدارس کے بارے میں کہتے ہیں کہ:پاکستان کے دینی مدارس سے دہشت گردی کی آماجگاہ ہیں‘‘۔(19(

ایک امریکی ماہر بیان کرتا ہے۔

  • ’’پاکستان کے دینی مدرسے سے انتہاپسندی کوفروغ دینے کا بڑا ذریعہ ہیں۔(20(

برطانوی وزیراعظم دینی مدارس کے بارے میں کہتے ہیں کہ:

  • ’’اسلامی انتہاپسندی کے خلاف جنگ ہرقیمت پر جیتنا ہوگی‘‘۔(21(
  • ’’انتہاپسندوں کے نظریات کا مقابلہ کرنا ہے، اس نظریے کی جڑیں پاکستانی مدرسوں، چیچینا کے پہاڑوں اور القائدہ کے کیمپوں میں ہیں‘‘۔(22(
  • ’’پاکستان نے مدارس میں انتہاپسندی کے خاتمے کا یقین دلادیا ہے‘‘۔(23(

برطانوی ہائی کمشنر، مارک لائل گرانٹ نے کہا:

  • ’’تمام دینی مدارس برے نہیں، بعض میں انتہاپسندی کی تعلیم دی جارہی ہے‘‘۔(24(

پاکستان کے دینی مدرسے دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافے کا مؤجب ہیں‘‘۔(25(

اسی طرح بروکنگز انسٹیٹیوٹ، واشنگٹن کے زیرا ہتمام 17دسمبر2001ء کو ’’پاکستان اور افغانستان میں بنیادی تعلیم‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار ہوا۔ جہاں پر متعدد امریکی سکالروں نے اپنے خیالات کا اظہار یکیا۔ وہاں پرپاکستان کے جناب شاہد جاویدبرکی کی تقریر اور مباحث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، کہ ان مناصب پر فائز لوگ معاملات کو کس اندز میں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے دینی نظامِ تعلیم کا تعارف کراتے ہوئے کہا:

The second part of the educational system is made up of several thousand Mudrassahs that provide education to a million or so young people. The graduates of these institutions cannot find jobs in the market, they can only teach in the institutions from which they graduate or go to the mosques and lead prayers and give sermons, or join the groups educational system simply feeds on itself and has become part of what we may call the Islamic Pakistan.(26)

’’پاکستانی نظامِ تعلیم کا دوسرا حصہ کئی ہزار مدارس پر مشتمل ہے جو کہ لاکھوں نوجوانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں ان مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ معاشرے میں ملازمت حاصل نہیں کرپاتے اور ان لوگوں نے جن مدارس سے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے یہ صرف انہیں مدارس میں پڑھاسکتے ہیں یا پھر مساجد کے امام اور خطیب بن جاتے ہیں، یا دنیا کے مختلف خطوں میں برسرپیکار جہادی تنظیموں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی نظام کا یہ حصہ اپنی مدد آپ کے تحت قائم ہے اور اسلامی ریاست کا ایک حصہ ہے‘‘۔

جناب شاہد جاوید برکی مزیدلکھتے ہیں کہ:

The Madrassahs should be allowed to function only if they adopt the state-approved curriculum and use the state-approved textbooks and employ teachers trained in certified institutions. Otherwise they should simply be closed.(27) 

دینی مدارس کو صرف اسی صورت میں کام کرنے کی اجازت دی جائے، جب وہ ریاست کے منظور شدہ نصاب اور ریاست کی متعین کردہ نصابی کتب کو ریاست ہی کے ملازم اساتذہ کے ذریعے، حکومت کے منظور شدہ مدرسوں میں پڑھائیں۔ اس سلسلے میں جو مدارس تعاون نہ کریں انہیں بند کردیا جانا چاہیے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل جو کہ مغربی حکومتوں اور لابیوں کی نمائندہ جماعت ہے کا مؤقف یہ ہے کہ اسلام آج کے دور میں بطور نظامِ زندگی قابل عمل نہیں ہے اور اسلامی احکام وقوانین انسانی حقوق کے منافی ہیں۔ اس لئے عالمِ اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کو ناکام بنانا ضروری ہے، ورنہ قرونِ وسطیٰ کا وحشیانہ دور پھر آسکتا ہے جس سے ویسٹرن سولائزیشن اور تہذیب وترقی سب کچھ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس لئے مغربی حکومتیں اور ان کے مفاد میں کام کرنے والی لابیاں عالمِ اسلام میں دینی بیداری کے سرچشموں کو بند کرنا چاہتی ہیں۔(28(

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خیال کے مطابق پاکستان ایک بنیادپرست ملک ہے اور اس میں بنیاد پرستی کی جڑ اور سرچشمہ یہ دینی مدارس ہیں جو لوگوں میں انتہاپسندی اور جہادی روح کو بیدار کرتے ہیں۔ اس لئے سب سے پہلا کام ان دینی مدارس کے نصاب ونظام کو غیر مؤثر اور ناکام بنانا ہے۔ پھر عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ یہ دینی مدارس موجودہ دور کے عصری تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہیں، تاکہ لوگوں کے ساتھ ان کے اعتماد کے رشتہ کو ختم کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کرام اور دینی مدارس کی کردارکشی اور انہیں منتشر رکھنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان کے غیرمعیاری اور برائے نام دینی مدارس کو بنیاد بناکر ایک رپورٹ دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس کے طلبہ کو آج کے تقاضوں سے بے خبر رکھا جاتا ہے، انہیں مارا جاتا ہے، رنجیروں سے باندھا جاتا ہے، ان سے جبری بیگارلی جاتی ہے، ان کی خوراک، رہائش اور صفائی کا معیار ناقص ہے، انہیں ان مدارس میں آزادی رائے اور دیگر بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں، انہیں جان بوجھ کر ناقص رکھا جاتا ہے تاکہ وہ قومی زندگی کے شعبے میں نہ کھپ سکیں۔ ان کے نام پر چندہ جمع کرکے مدارس کے منتظمین کھاجاتے ہیں اور طلبہ کو انتہائی تنگی کی حالت میں رکھ کر خود عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان مدارس میں طلبہ کو اسلحہ کی ٹریننگ دے کر دہشت گرد بنایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا حصہ ہوتا ہے جو ہرسال منظرِ عام پر آتی ہے۔ اس کیلئے بطور خاص ایسے غیرمعیاری مدارس کو سروے کی بنیاد بنایا جاتا ہے جہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے، تاکہ رپورٹ پر غیر حقیقت پسندانہ اور خلافِ واقعہ ہونے کا الزام عائد نہ کیا جاسکے۔اس سروے مہم میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کوئی ٹیم معیاری دینی مدارس میں نہیں جائے گی اور نہ ہی رپورٹ میں اس کاتذکرہ ہوگا۔ پاکستان کی وزرتِ داخلہ اور دیگر محکمے اس مہم میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے معاون ہیں اور دینی مدارس کے خلاف اس مہم میں ان کے مقاصد بھی ان سے مختلف نہیں ہیں۔

ڈاکٹر جسیکا سٹرن، پی ڈبلیو سنگر، برطانوی وزیراعظم اور دیگر اہم ملکی وبین الاقوامی دانشوروں، مفکروں اور محققوں کے بیانات میں سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس دہشت گردی پھیلارہے ہیں اور ان مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسلحہ چلانے کی عملی تربیت دی جاتی ہے۔

کیا دینی مدارس دہشت گردی کی تربیت کے مراکز ہیں؟

اگر دینی مدارس کے نصاب ونظام پر ایک غیرجانبدارانہ اور حقیقت پسندانہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آئے گی کہ دینی مدارس کے نصاب ونظام میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ مدارس ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

دراصل جدید پروپیگنڈے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ:’’دشمن کو مارنے کے بجائے اسے برانام دو اور برانام دینے کے لئے پروپیگنڈا میں ہرحربہ استعمال کرو‘‘۔ آج بھی استعمار اسی حکمت عملی کو مسلمانوں کی تہذیبی زندگی پر حملہ کرنے کیلئے بروئے کار لارہے ہیں، اور ان کی دینی درسگاہوں کو دنیابھر میں ’’دہشت گردیا دہشت گردوں‘‘ کی پناہ گاہیں قرار دینے میں لمحے بھر کا بھی توقف نہیں کرتے۔ امریکی سکالر جسیکا سٹرن تو اپنے مضمون میں حزب المجاہدین کو’’حزب الٹیررسٹ‘‘ اور حرکت مجاہدین کو ’’حرکۃ الٹیررسٹ‘‘ لکھ کر اپنی نفرت کا اظہار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتیں۔(29) حالانکہ یہی وہ جدید دانش گاہیں اور ان کے محققین ہیں جوتحریر وتقریر میں مہذب الفاظ کے برتاؤ اور غیر جذبانی رویے کو اپنانے کا درس دیتے ہیں۔

وہی افغان مجاہدین، جواشتراکی روس کے خلاف جہاد (1979-1992ء) کے دوران مغرب کی نگاہ میں انسانیت کے نجات دہندہ تھے، وہی افغان مجاہدین ، جن کی مسجدوں کی طرف رخ کرکے امریکی حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر زبگنیوبریزنسکی نے طو رخم میں پاک افغان سرحد کی ایک پہاڑی چوکی پر کھڑے ہوکر بڑے حسرت بھرے لہجے میں کہاتھا: 

’’سرحد کے اس پار روسی ملحدوں کے زیرِ قبضہ مسجدوں سے آذان کی آوازنہ سن کر میرا دل افسردہ ہورہا ہے‘‘۔ 

آج وہی امریکہ ان مساجد اور مدرسوں کو اپنے منفی اور معاندانہ پراپیگنڈے کا ہدف بنائے ہوئے ہے۔اس بات کی تائید سیموئیل بیڈ نے بھی کی ہے افغانستان اور سوویت یونین کی جنگ کے دوران امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور دیگر مغربی ممالک نے مدارس کے طلبہ کو ہرقسم کی معاونت فراہم کی اور ان کو سوویت یونین کے خلاف لڑنے کیلئے کھڑا کیا۔ چنانچہ مسٹر سیموئیل بیڈکہتے ہیں ۔

Until 1979, when the soviet troops entered Afghanistan, Pakistan had only 430 madrasas. These madrasas taught sectarian hatred but there were no reports of militancy training by them until Gen Zia-ul-Haq joined hands with US-led forces against the Soviet Union in Afghanistan. Under Gen Zia, their numbers began multiplying fast with the financial and weapon support from the ISI and foreigners including the united states and Saudi Arabia. Drug money played a major role in the funding of these madrasas. America, Britain and other countries encouraged young Muslims from all over the world to come to Pakistan's madrasas for military training, Jehadi indoctrination and terrorist activities. There are reports that the British Government itself encouraged 3,000 Muslim Britons to join jihad in Afghanistan. After war they returned to Britain with their experience in jihad.(30)

ڈاکٹر عرفان سلجوق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں:

جہاں تک ان مدارس کے خلاف امریکہ ویورپ کے اس پروپیگنڈے کا تعلق ہے کہ دینی مدارس دہشت گردی کی نرسریاں ہیں، تو پاکستان کے معروف اخبار نوائے وقت کے ادارتی شذرے کے مطابق:

’’یہ محض اسلام کے خلاف خبثِ باطن ہے۔ ان دینی مدارس میں قتل وغارت گری کی تعلیم نہیں دی جاتی اور اسلامی تعلیمات میں اس کی اجازت بھی نہیں ہے۔ یہ ان طاقتوں کا، مسلمانوں اور اسلام کے خلاف متعصبانہ رویہ ہے جو مسلمان نوجوان نسل میں دین سے وابستگی کو بطور خطرہ محسوس کررہا ہے۔ جہاں تک اسلامی عقیدے اور جذبہ جہاد کا تعلق ہے اس سے کوئی مسلمان بھی لاتعلقی اختیار نہیں کرسکتا خواہ جنرل پرویزمشرف جیسا لبرل مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ دین کی نرسریوں اور دینی مدارس کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے انگریزی اقتدار میں بھی اسلام کو شدھی اور سنگھٹن جیسی تحریکوں کی نذر نہیں ہونے دیا اور اب بھی وہ اسلامی تعلیمات کے گہوارے ہیں ‘‘۔(32(

ٍ اگر اس الزام پر نظر ڈالی جائے کہ دینی مدارس میں اسلحہ چلانے اور تشدد کرنے کی تربیت دی جاتی ہے،تو حقائق اور واقعات اس کی تائید نہیں کرتے۔اگر کسی مدرسے میں اسلحہ چلانے کی تربیت دی جاتی ہے تو وزرائے اعظم نواز شریف ، بے نظیر بھٹو اور صدر پرویز مشرف اور ان ادوار میں وزرائے داخلہ چوہدری شجاعت حسین، چوہدری اعتزاز احسن، جنرل نصیراللہ بابر، جنرل معین الدین حیدر وغیرہ کو کسی نے نہیں روکا تھا کہ وہ انہیں پکڑ کر بے نقاب نہ کریں۔ اگر پکڑنا نہیں چاہتے تو کم از کم ایسے دینی مدرسے کانام اور تفصیلات شائع کرنے سے اس الزامی مہم کے طرف دارکالم نگاروں اور اخباروں کو کس نے منع کیا ہے؟

== دینی مدارس اور دہشت گردی کے حوالے سے وفاق المدارس العربیۃ کا مؤقف: == دینی مدارس اور دہشت گردی کے حوالے سے وفاق المدارس العربیۃ کا مؤقف بھی ملاحظہ فرمائیے۔

’’مدارسِ دینیہ کے ذمہ داران نے فرقہ وارانہ دہشت گردی کی ہمیشہ مذمت کی ہے۔ وہ دہشت گردی کو خواہ وہ مذہبی ہو یا لسانی اور علاقائی، ملک کی یک جہتی، امن وسکون اور معاشی ترقی اور خوش حالی کے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینے میں اہل مذہب سے زیادہ بیرونی تخریبی عناصر اور ایجنسیوں کا کردار رہا ہے۔ پاکستان میں عدمِ برداشت کی یہ فضا دس بارہ سال سے پیدا ہوئی ہے۔ مدارسِ دینیہ ڈیڑھ سو سال قائم ہیں۔ فرقہ واریت کو مدارس کی پیداوار کہنا سراسر خلافِ واقعہ ہے۔ وفاق کی طرف سے بار بار یہ پیشکش دہرائی جاچکی ہے کہ اگر حکومت کسی مدرسہ کو دہشت گردی میں ملوث سمجھتی ہے تو ٹھوس ثبوت کے ساتھ اسے منظر عام پر لائے۔ ہم حکومتی کاروائی سے پہلے اس کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کریں گے۔ مگر ابھی تک حکومت کسی دینی ادارے کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکی، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مدارس دینیہ کا دامن ہرقسم کی دہشت گردی سے پاک ہے۔بحمداللہ حکومت نے ہماری اس وضاحت کو تسلیم کیا اور 27ستمبر2001 ؁ء کو صدرِ پاکستان نے وفاق کے قائدین کو یقین دہائی کرائی کہ ہم کسی مدرسہ کیخلاف ٹھوس ثبوت اور اس کے متعلقہ وفاق کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی کاروائی نہیں کریں گے۔ اگر صدرِ پاکستان اس وعدے کا پاس کرتے ہیں ہمیں کامل یقین ہے کہ انہیں دہشت گردی میں ملوث کوئی ایک دینی ادارہ بھی نہیں ملے گا‘‘۔(33(

دینی مدارس میں دہشت گردی کی تربیت کے حوالے سے مولانا زاہدالراشدی لکھتے ہیں:

’’جہادی اور عسکری تحریکات میں دینی مدارس کے طلبہ کی کثرت کے ساتھ شمولیت کے بارے میں اس سلسلے میں دو مسئلے قطعی طورپر الگ الگ ہیں۔ ایک مسئلہ جہاد کے بارے میں شرعی احکام اور قرآن وسنت کے فرمودات کی تعلیم کا ہے، وہ یقیناًان مدارس میں ہوتی ہے اور اسی طرح ہوتی ہے جس طرح قرآن وسنت کے احکام وقوانین کے باقی شعبوں کی ہوتی ہے۔ یہ دینی تعلیمات کا حصہ ہے اور کسی دینی ادارے کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قرآن وسنت کی دیگر تعلیمات کا تو اپنے ہاں اہتمام کرے مگر جہاد سے متعلقہ آیاتِ قرآنی احادیث نبویﷺ اور فقہی ابواب کو صرف اس لئے نصاب سے خارج کردے کہ دنیا کے کچھ حلقے اس سے ناراض ہوتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ جہاد کی عملی تربیت اور عسکری ٹریننگ کا ہے۔ یہ ان مدارس میں کسی سطح پر نہیں ہوتی اور نہ ان مدارس میں ایسا کوئی نظام موجود ہے جو طلبہ کو اس طرح کی ٹریننگ دیتا ہو حتیٰ کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں این سی سی طرز کی جو نیم فوجی تربیت عام طلبہ کو دی جاتی دینی مدارس میں وہ بھی باضابطہ طور پر موجود نہیں ہے اس لئے یہ کہنا قطعی طور پر غلط ہے کہ دینی مدارس اپنے طلبہ کو عسکری ٹریننگ دیتے ہیں، البتہ دینی مدارس کے طلبہ یہاں سے فارغ ہوکر چھٹیوں کے دوران اپنی مرضی سے کسی دباؤکے بغیر جہادی تحریکات کے مراکز میں جاتے ہیں، ٹریننگ حاصل کرتے ہیں اور کسی نہ کسی محاذ پر جہاد میں شریک ہوتے ہیں لیکن اس کا مدارس کے نظام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ٹریننگ کے یہ مراکز مدارس کے سسٹم میں داخل ہیں۔ ان کا نظم اور ذمہ داری بالکل مختلف دائرہ سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے لئے دینی مدارس کو ذمہ دار ٹھہرانا قطعی طور پر غلط بات ہے۔ یہ اسی طرح جیسے سرکاری کالجوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ نوجوان مختلف عسکری تنظیموں میں شامل ہوجاتے ہیں، جن میں جہادی تحریکات بھی ہیں، لسانی گروپ بھی ہیں، علاقائی تنظیمیں بھی ہیں اور طبقاتی گروہ بھی ہیں حتیٰ کہ ڈکیتی اور رہزنی کے گینگ بھی ان میں شامل ہیں۔ یہ نوجوان بھی مختلف ٹریننگ سنٹروں میں عسکری تربیت حاصل کرتے ہیں اور اس کی بنیاد پر کاروائیاں کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کسی گروہ کی کاروائیوں کا ذمہ داران کے تعلیمی اداروں کو قرار نہیں دیا جاتا اور انہیں ان کے ذاتی فعل اور پسند پر محمول کیا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی دینی مدارس کے طلبہ بھی اگر تعلیمی نظام اور ڈسپلن سے ہٹ کر جہادی تحریکات میں شامل ہوتے ہیں اور عسکری تربیت حاصل کرکے کسی کاروائی میں حصہ لیتے ہیں تو اس کے لئے دینی مدارس کو ذمہ دار قرار دینا قرینِ انصاف نہیں ہے۔‘‘(34)

دینی مدارس کو دہشت گردی سے منسلک کرنے کے حوالے سے مولانا عبدالرحمن مدنی کہتے ہیں کہ:

’’یہ دراصل اسلام دشمن یہودی لابی کے پراپیگنڈے کا نتیجہ ہے اور وہ سیکولر طبقہ جو یہ پراپیگنڈہ کررہا ہے، وہ درحقیقت پاکستان میں دینی مدارس کی تباہی پر مبنی امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے راہ ہموار کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام دینی مدارس کا بنیاد ی تصور تفقہ فی الدین ہے۔ قرآن مجید میں ’قتال‘ آیات کے درمیان میں ہی اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو دین کی سمجھ حاصل کرے اور یہ دینی مدارس اسی آیت کی عملی نمونہ ہیں، جن کا مقصد صرف تفقہ فی الدین ہے۔ البتہ برصغیر پاک وہند میں برطانوی استعمار نے دینی مدارس کو گوشوں میں محبوس کرکے اور نئی نبوت ایجاد کرکے ان میں مذہبی تعصبات کی پرورش کی، جس کے نتیجے میں مسائل واصول وفروع کی تمیز کئے بغیر مناظروں کے ذریعے عوام کو بھی الجھانے کی سازشیں ہوتی رہی ہیں۔ تاہم ہمارے روایتی نظام تعلیم کو دہشت گردی سے منسلک کرنا سراسر یہودی لابی کا پراپیگنڈہ اور سیکولر، بے دین طقبہ کی کارستانی ہے، کیونکہ یہ چیز اسلامی تعلیم کے بنیادی تصور کے ہی خلاف ہے۔(35(

دینی مدارس اور دہشت گردی کے حوالے سے جناب حمید اللہ حامدی لکھتے ہیں:

عوام کو دین سے بدظن کروانے کے لئے مغربی لابیوں اور ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ ان مدارس عربیہ کے اندردہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مگر یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ دینی مدارس امن ومحبت، خلوص وللہیت اور خداپرستی کے مراکز ہیں۔ یہاں آج بھی استاد اور شاگرد کے درمیان خلوص ومحبت کا لازوال رشتہ زندہ ہے۔ یہاں انسانیت سازی، معاشرے کی تکمیل وتحسین، مثالی معاشرے کے قیام کا درس موجود ہے۔ 

البتہ جہاد کی حقیقت اور جہاد کے فضائل ومسائل سے انکار کرنا صریحاً کفرہے۔ قرآن کے ہرپارے میں جہاد کا ذکر ضرور ہے۔ بلکہ بعض سورتیں مکمل ترغیب جہاد، شوقِ شہادت، کفر سے نبرد آزما ہونے کی دعوت دیتی ہیں اور قرآن تو ہمارے لئے سرچشمہ علوم ہے۔ ظاہر بات ہے جہاد صرف دینی طبقہ پر تو فرض نہیں بلکہ فرض کا اطلاق بغیر کسی تخصیص کے ہرمسلمان پر ہوتا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’قوی مومن بہتر ہے ضعیف مومن سے‘‘ اور دوسری حدیث ہے کہ ’’خبر دار! قوت نشانہ بازی میں ہے‘‘۔ ان احادیث اور اس جیسی دوسری احادیث بلکہ حدیث کی کتابوں میں تو جہاد، تربیتِ جہاد اورہجرت وغیرہ پر لمبے لمبے باب ہیں۔ ان کی روشنی میں دینی مدارس کے طلبہ وعلماء دینی ضرورت کی پیش نظر اس کو کرتے ہیں لیکن اس جہادی روح کو دیکھ کر دینی مدارس کو موردِ الزام ٹھہرانا معترضین کی دین سے دوری اور جہاد سے بے خبری کی کھلی دلیل ہے۔ دینی مدارس پر یہ الزام سراسر تنگ نظری اور انتہائی تعصب کی بنیاد پر لگایا جارہا ہے۔ جس کا حقیقت سے دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔(36(

مولانا عبدالمالک (ناظمِ اعلیٰ رابطۃ المدارس الاسلامیہ) دینی مدارس میں دہشت گردی کے حوالے سے فرماتے ہیں:

’’یہ سازش ہورہی ہے۔ اسلامی نظام کے خلاف ایجنسیاں کام کررہی ہیں مذہب کی آڑ میں لوگوں کو تیار کرتی ہیں تاکہ مدارس کو بدنام کیا جائے (شیعہ،سنی) کے نام سے ایجنسیاں کام کرتی ہیں، شیعہ،سنی اگر لڑتے تو گلی کوچوں میں لڑائی ہوتی۔ یہ تو ایجنسیوں کی کارکردگی ہے۔ بین الاقوامی سازش ہے تاکہ مدارس کو بدنام کیا جائے۔ اسلام تو امن وسلامتی کا دین ہے دہشت گردی تو کفارومشرکین کا طریقہ ہے اسلام میں مذہبی تعصب نہیں ہے۔ اسلام نے عقیدے کے اختلاف پر اپنے مخالفین کو قتل نہیں کیا۔ یہ مذہبی جنون تو ہندوؤں، عیسائیوں اور یہودیوں کے اندر ہے اسلام کے اندر یہ تعصب ہے ہی نہیں یہ عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی تحریک اسلامی کا راستہ روکنے کی ایک سازش ہے۔‘‘(37)

ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی (ناظمِ اعلیٰ تنظیم المدارس، پاکستان) دینی مدارس میں دہشت گردی کے حوالے سے فرماتے ہیں:

’’اتحادتنظیمات دینیہ نے ہر محاذ پر حکومت کے سامنے علی الاعلان کہا ہے کہ اگرآپ یہ سمجھتے ہیں کہ چند دینی مدارس کے اندر دہشت گردی ہوتی ہے اور باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے۔ ہم نے کہا کہ آپ کو کس نے روکا ہے ان مدارس کو بندکردیں تاکہ مسئلہ ختم ہو۔ دہشت گردی ہونے پر کوئی بھی تائید نہیں کرے گا۔ اور نہ دہشت گردی کے خاتمہ پر احتجاج کرے گا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اس کو صرف ایک نعرے کو طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے اور جو بے قاعدہ چھاپے مارے جارہے ہیں وہ فقط عوام کو دین، مدارس اور علماء سے بدظن کرنے کے لئے ہیں۔‘‘(38)

میاں محمد نوازشریف کی حکومت میں وزیرداخلہ شجاعت حسین نے The Nationکے نمائندہ طارق بٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ: ’’پاکستان میں بمشکل تمام، صرف ایک دینی مدرسہ ایسا ہے جہاں طلبہ کو عسکری تربیت دی جاتی ہے۔ ورنہ دینی مدارس میں بنیادی طور پر صرف دینی تعلیم ہی دی جاتی ہے۔‘‘(39(

کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف صاحب کی حکومت میں وزیرداخلہ جنرل معین الدین حیدر نے کہا کہ:

’’پاکستان کے دینی مدرسوں کی اکثریت قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم میں مصروف ہے۔ ان کا تعلق دہشت گردی یا فرقہ وارانہ منافرت سے کوئی نہیں‘‘۔(40(

وزیرداخلہ جنرل معین الدین حیدر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’ہماری تحقیقات کے مطابق ۹۹فیصد مدرسے کسی بھی ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں، اور ان کا دامن صاف ہے۔‘‘(41(

امریکی ٹی وی CNNکو انٹرویودیتے ہوئے صدر جنرل پرویز مشرف کے فوجی ترجمان میجر جنرل راشد قریشی نے کہا کہ:’’دینی مدارس فلاحی اداروں کا کردار ادا کررہے ہیں، جہاں لاکھوں طلبہ کو مفت رہائش، دینی تعلیم اور خوراک مہیا جاتی ہے۔ ہماری تحقیقات کے مطابق کسی ایک مدرسے میں بھی طلبہ کو فوجی تربیت نہیں دی جاتی۔‘‘(42(

اسلام آباد میں دینی مدارس کے ایک بھرپور کنونشن میں پاکستان کے سابق وزیرداخلہ چوہدری شجاعت حسین نے صاف لفظوں میں اعلان کیا ’’کہ انہوں نے اپنے دور میں پورے ملک کے مدارس کی چھان بین کرائی ہے مگر کوئی مدرسہ بھی دہشت گردی میں ملوث نہیں پایاگیا۔ نیز گزشتہ دوسالوں کے دوران ملک کے درجنوں مدارس پر چھاپے مارے گئے ہیں اور اچانک آپریشن کیا گیا ہے۔ لیکن کہیں بھی کوئی ہتھیار یا ٹریننگ کے آلات موجود نہیں پائے گئے۔‘‘ (43(

مولانا ابو عمار زاہد الراشدی اس سلسلے میں لکھتے ہیں ’’کہ جہاں تک دینی مدارس کا تعلق ہے یہ بات ایک سے زائد بار واضح ہو چکی ہے کہ ان پر طلبہ کو دہشت گردی کی تربیت دینے کا الزام قطعی طور پر غلط ہے اور اب تک جتنے چھاپے بھی مختلف مدارس کے خلاف مارے گئے ہیں ایک مدرسہ میں بھی ایسے آلات یا ماحول نہیں پایا گیا جس سے دہشت گردی کی تربیت یا انتہا پسندی کے الزامات کے لیے بنیاد بنایا جا سکے‘‘۔(44)

مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان اپنی کتاب ’’دینی مدارس کا مقدمہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اتحاد تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے اجلاس کے بعد حکومت کو یہ بھی پیش کش کی گئی ہے مدارس اور مذہبی طبقات کی نمائندہ قیادت موجودہ دہشت گردی کے خاتمے، امن وامان کی بحالی اور ناراض لوگوں سے مفاہمت کے لیے ہر ممکنہ کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ ہے ۔ لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ دہشت گردی کی آگ کو بجھانے کے لیے اربابِ مدارس کا تعاون حاصل کرنے کی بجائے مدارس کو تنگ کر کے دہشت گردی کی اس آگ پر تیل چھڑکنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔(45(

پروفیسر ممتاز احمد اپنی کتاب ’’دینی مدارس روایت اور تجدید علماء کی نظر میں‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ 1975میں جب میں نے مدارس کے علماء کرام کے انٹرویو لینا شروع کیے تو مجھے ہرگز اندازہ نہ تھا کہ اب سے 25 برس بعد بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور اسلام کی پہچان مدارس ، علماء اور دہشت گردی سے منسوب ہوں گی۔ لفظ مدرسہ انتہا پسندی ، فرقہ واریت اور تشدد کا ہم معنی بن جائے گا اور امریکی سیکرٹری دفاع رمز فیلڈ، سیکرٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن، نائب صدر جوبا ہائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر مدارس پر ’’مدرسہ ریفارمز‘‘ پر ایسے بات کریں گے جیسے اُن کی ساری زندگی مدارس کے نظام تعلیم کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہی گزری ہے۔ (46(

خلاصہ بحث

مندرجہ بالا بحث اور بیانات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ دینی مدارس صرف دینی علوم کی ترویج واشاعت میں مصروف ہیں اور ہرقسم کی اندرونی وبیرونی دہشت گرد سرگرمیوں سے پاک ہیں۔ مغربی دنیا اورسیکولر ذہن کے لوگوں میں دینی مدارس کے بارے میں جو غلط فہمی پائی جاتی ہے اس کی اصل وجہ ’’جہاد‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ میں فرق نہ کرنا ہے اور دہشت گردی کی واضح تعریف کا نہ ہونا ہے۔

حوالہ جات:

1۔ ماہنامہ محدِث، مارچ، 2005ء، ص3

2۔ روزنامہ انصاف:12مارچ2004ء

3۔ روزنامہ جنگ:10مارچ 2004ء

4۔ محدث، مارچ،2005ء

5۔ Dr. Jassica Stern Nov/ Dec 2000 Candi School Harward university Pakistan's Jihad Culture

6۔ Pakistan's Jihad Culture

7۔ Pakistan's Jihad Culture

8۔ Pakistan's Jihad Culture

9۔ kistan's madrassahs Dr. Patter . W. Singer, The Broking Institute Washington Nov2001 ensuring a system of education not jihad, P.1 Pa 

10۔ Ibid

11۔ Pakistan's madrassahs ensuring a system of education not jihad, P.1 

12۔ Ibid

13۔ Ibid

14۔ Pakistan's madrasshas: ensuring a system of education not jihad15۔ Are the massrasas in Pakistan spreading Hatred Jonathan Power, Dec 2005. 16۔ Sumal Baid Madrasas in Pakistan

17۔ Ibid18۔ Stephen Philip The Nation and the state of Pakistan

19۔ انصاف: 12 مارچ 2004ء

20۔ روزنامہ جنگ:10مارچ 2000ء 

21۔ روزنامہ جنگ 17جولائی،2005ء

22۔ روزنامہ جنگ 21جولائی،2005ء

23۔ ایضاً

24۔ روزنامہ جنگ:13، اگست2005

25۔ روزنامہ جنگ:18،جولائی2005ء

26۔ Basic education in Pakistan and Afghanistan: the Current Crisis and beyond 

27۔ Ibid

28۔ ماہنامہ محدث، لاہور،جنوری2002ء،ص54

29۔ Meeting with the Muj

30۔ Madrasas in Pakistan

31۔ روزنامہ جنگ،24جولائی2002ء

32۔ رونامہ نوائے وقت: اسلام آباد20اگست2001ء

33۔ ماہ نامہ الفاروق،کراچی، اپریل2004ء،ص13

34۔ ماہنامہ المصباح، لاہور، اپریل2004ء،ص57

35۔ ماہنامہ محدث،لاہور فروری2002ء،ص19

36۔ ماہنامہ المصباح، لاہور، اپریل2004ء، ص34

37۔ ماہنامہ المصباح، لاہور، اپریل 2004ء، ص38

38۔ ماہنامہ المصباح، لاہور، اپریل2004ء، ص34

38۔ ماہنامہ المصباح، لاہور، اپریل 2004ء، ص34

39۔ دی نیشن،لاہور،16اکتوبر1999

40۔ روزنامہ ڈان، 6فروری 2000ء

41۔ روزنامہ ڈان، 28جون،2001ء

42۔ روزنامہ جنگ : لاہور 31 اگست 2001ء 

43۔ ماہنامہ الشریعہ ، اگست 2005، ص 6۔ 

44۔ ابو عمار زاہد الراشدی ، دینی مدارس کا نصاب و نظام نقد و نظر کے آئینے میں الشریعہ اکادمی ، گوجرانوالہ ، ص119۔ 45۔ محمد حنیف جالندھری ، مدارس کا مقدمہ ، بیت السلام ، کراچی ، 2011، ص235۔ 

46۔ ممتاز احمد ، دینی مدارس روایت اور تجدید علماء کی نظر میں ، اقبال انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ ، اسلام

آباد، 2012، ص3۔

 

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...