Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 32 Issue 1 of Al-Idah

ریاست کے اداراتی مقاصد کے تناظر میں نظریہ انفرادیت اور اجتماعیت پسندی |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

32

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060034497_816

Pages

95-118

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/140/132

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/140

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اﷲ تبارک و تعالی کے حکم کے نتیجے میں کرّہِ ارض پر ہبوطِ آدم علیہ السلام وقوع پذیر ہوا۔اُس کے بعد سے انسانی تاریخ کی اجتماعیت پسندی کی داستان رَقم ہونا شروع ہوئی اَور وقت گزرنے کے ساتھ عمرانیاتی اور اِجتماعی زندگی کے مختلف النوع مظاہر وجود پذیر ہوتے رہے۔ مدنی الطبع ہونے کی بناء پر انسان ہمیشہ اپنے ہم جنسوں کے ساتھ اجتماعی معاشرت کے وسیع تر تقاضوں کی تکمیل میں مستعد رہا ۔اورتاریخ ِ انسانی اِس اَمر کے شواہد فراہم کرتی ہے کہ انسانی زندگی کی مختلف ضروریات کی تکمیل اور نشو و ارتقاء کی تنظیم و ترتیب کے لئے مختلف ادارے تشکیل دیے جاتے رہے، جن میں سے ایک اہم اِدارہ ریاست کے عنوان سے زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔اجتماعی زندگی کے سیاسی پہلو سے متعلق ہونے کے حوالے سے نہ صرف مغربی افکار میں ریاست کے مقاصد ، دائرہِ کار اور ذ مہ داریوں کے بارے میں تفصیل سے خیالات کا اظہار کیا گیا بلکہ فرد اور اجتماعیت کے درمیان تعلق کے تناظر میں بھی سیاسی مفکرین نے اپنے افکار کو بیان کیا اور ریاست کے ادارہ کے مقاصد کو اپنے اپنے دلائل کے سا تھ بیان کیا۔ یہ تمام عنوانا ت قرآن حکیم اور احادیثِ نبوی ﷺمیں بھی تفصیلا زیرِ بحث لائے گئے ہیں لیکن اس مقالہ میں مغربی سیاسی مفکرین کی آراء کی روشنی میں ریاست کے مقاصد کے حوالے سے عصری اِصطلاحات میں معروف اُن دو نظریات کو بیان کرنے کی کاوش کی جائے گی ، جو عمرانیاتی اور سیاسی تناظر میں باہم متقابل انداز میں پیش کیے جاتے ہیں۔ 

i ) نظریۂ اِنفرادیت پسندی (Individualism) او ر

(ii) نظریۂ اِجتماعیت پسندی (Socialism/Collectivism)

i) ( نظریۂ اِنفرادیت پسندی (Individualism) :

جہاں تک نظریۂ اِنفرادیت (Individualism) کا تعلق ہے ، یہ انسانی اِجتماعیت کی ترکیب اور عمرانی و تہذیبی اَجزاء کی ساخت سے متعلق ہے۔ لنڈسے (Lindsay) کا کہنا ہے کہ انفرادیت پسندی (Individualism) ایک نئی اصطلاح ہے۔ آکسفورڈ ڈ کشنری کے مطابق اِس کے استعمال کی پہلی مثال ہنری رِیو (Henery Revee) کے ہاتھوں ملتی ہے جو اُس نے ڈی ٹوکو ول ایلیکس * Tocqueville,de,Alexis ) ( کی مشہور کتاب 'De La Democratie en Amerique ' کا ترجمہ تحریر کرتے ہوئے 1840ء میں اس معذرت کے ساتھ بیان کیا کہ اس نے فرانسیسی مصنف کے مفہوم کا کوئی صحیح متبادل انگریزی میں متداول نہ پایا تھا۔

de Tocqueville Alexis کا بھی یہ خیال ہے کہ انفرادیت پسندی (Individualism) ایک نئی ترکیب اور اسلوب بیان ہے جس نے ایک نئی فکر کو انگیخت دی ہے۔ ہمارے أجداد صرف انا نیت پسندی (Egotism) سے واقف تھے۔ جو مبالغہ کی حد تک اپنی ذات سے محبت کا نام ہے۔ جس کی بناء پر انسان ہر چیز کو اپنی ذات کے ساتھ جوڑ لیتا ہے اور اپنے آپ کو اور اپنے مفادات کو دنیا کی ہر چیز کے مقابلے میں ترجیح دیتا ہے ۔ انفرادیت پسندی ایک پختہ اور پرسکون إحساس کا نام ہے۔ جس کے مطابق کمیونٹی کا ہر رکن نوعِ بشر کی اکثریت سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنے پر تیار ہوجاتا ہے۔ و ہ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ دُوری اور علیحدگی اختیار کرکے اپنا ایک چھوٹا سادائرہ بنا لیتا ہے اور اجتماعیت کو بڑے پیمانے پر اپنی رضامندی سے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ انفرادیت پسندی کا تصور اپنی نوعیت کے اعتبار سے ڈیمو کریٹک ہے اور یہ حالات کی مناسبت سے جس قدر وہ اجازت دیں اتنا ہی پھیلنے کے خدشات سے ملحق ہے۔ (1)

انسائیکلو پیڈیا ا میریکا ناکے مقالہ نگار کے مطابق فرد کی اہمیت اور قدر و قیمت انفرادیت پسندی کہلاتی ہے ۔ انفرادیت پسندی سوشلزم کی مخالف ہے اور جان سٹورٹ مل اور ہربرٹ سپنسر کے نظریات نے اس کا دفاع کیا ہے۔ اس تصور کی روشنی میں ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ فرد کے معاملے میں مداخلت نہ کرے ، سوائے اس کے کہ جب عمل کے مواقع بہم پہنچانے کیلئے ضروری ہو۔ چنانچہ نشو و ارتقاء میں ریاست کے فرائض کو مصنوعی پا بند یاں تصور کیا جاتا ہے جبکہ فرد کی قوتِ تحریک (Initiative) کو قدرتی عنصر شمار کیا جاتا ہے۔ (2)

مقالہ نگار لنڈسے (A.D.Lindsay) لکھتا ہے کہ اس اصطلاح کا بنیادی مفہوم ایسی ذ ہنی کیفیت یا رحجان سے عبارت ہے جو ایک مخصوص نوعیت کی اجتماعیت یا سوسائٹی میں قدرتی طور پر وجود پذیر ہوسکتی ہے۔ ایسے معاشرہ کو منفی اصطلاحات میں بیان کرنا آسان ہے۔ ایسے معاشرہ مىں روایت یا اتھارٹی کو بہت کم احترام دیا جاتاہے اور قدىم طرز کی معاشرتی تنظیموں سے اس کو کافی زیادہ دُور رکھا جاتا ہے۔ جہاں قبائلی رسوم اور روایت کی وجہ سے انفرادی اختراع اور دلچسپی کیلئے بہت کم مواقع باقى رہتے ہیں اور قبیلہ کے ارکان جماعتی نوعیت میں اتنے گم ہوتے ہیں جس کو ماہرین علم انسا نیات (Anthropologists)کی رُو سے قبائلی شخصیت (Tribal Self) کہا جاسکتا ہے جبکہ مثبت طو رپر انفرادیت پسند معاشرہ اُسے کہا جاسکتا ہے ، جہاں لوگ اس خیال کی بنیاد پر کہ ان کے مفادا ت او رمعاملات ان کے اپنے ذاتی ہیں ۔ اس لیے وہ اپنے متعلق خود سوچ سکتے ہیں اور اپنے مفادا ت کے بہترین جج سمجھتے جا تے ہیں۔ یہ ایسا معاشرہ ہوتا ہے جہاں ( Maine ) کے خیال کے مطابق (Movement from Status to Contract) یعنی منصب سے معاہدہ تک کی تحریک جو ترقی پذیر معاشرہ کی علامت سمجھی جاتی ہے نے کافی طویل فاصلہ طے کیا ہے۔(3)لارنس ہیزل ر گ (Lawrence Hazelrigg ) کا کہنا ہے کہ اس لفظ (Individualism) یعنی انفرادیت پسندی سے جو بنیادی فکر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ فرد ، اِجتماعیت کے مدِ مقابل زیادہ مقتدر یعنی طاقتور (Sovereign) ہے اور یہ ایک مستحکم نظام کے خاتمے اور دوسرے کے وجود پذیر ہونے کی علامت کا مظہر ہے۔(4) گویااِن سیاسی مفکرین نے انفرادیت پسندی پر مبنی معاشرے میں فرد کی ذاتی اہمیت کو بہت اُجاگر کیا۔ جبکہ کرس وادی کا کہنا ہے کہ ہماری عصری دنیا میں سرمایہ دارا نہ اور کمیونسٹ کیمپ کے حمائتی ، فرد اور کمیونٹی کے حقوق کے ما بین تضاد کا شکار ہیں۔ سرمایہ دارا نہ معاشرے ، فرد اور اس کے حقوق کو تحفظ دیتے ہیں اور اس کو بڑھاتے ہوئے اس مقام پر لے جاتے ہیں جہاں وہ کمیونل بہبود کی حدود سے بھی تجاوز کرجاتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کیمونسٹ ممالک کلی حیثیت میں معاشرے کے مفاد کی آڑ میں فرد کی اِنفرادیت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، چنانچہ دونوں کے نتائج تسلی بخش نہیں ہیں۔ (5) 

انفرادیت پسندی کے نظریہ کے حوالے سے مفکرین نے تنقیدی خیالات کا بھی اظہار کیا ہے۔ مثلا سٹیون لیوکس (Steven Lukes) انفرادیت پسندی کے بارے میں کوئی مثبت رائے نہیں رکھتا۔ وہ اس نظریہ پر ناقدانہ نگاہ ڈالتے ہوئے رقمطراز ہے کہ نظریۂ انفرادیت پسندی انسانوں میں اطاعت اور ذ مہ داری کے طرزِ فکر کو تباہ کردیتا ہے اور اس طرح طاقت اور قا نون بھی تباہی کا شکار ہونے سے نہیں بچ سکتے ۔ جبکہ اس کے بعد کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ مفادات اور جذبات کا دہشتناک تذبذب اور متضا د آراء باقی رہ جاتی ہیں۔ (6)

نظریۂ انفرادیت پسندی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے گِل کرائسٹ (Gil Christ) رقمطراز ہے کہ اس کو نظریۂ عدم مداخلت (*Laissez-faire Theory ) بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک فرانسیسی ترکیب ہے جس کے معنی آزاد چھوڑنے ’ Leave Alone‘ کے طورپر مستعمل ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق حکومت کو ہر فرد پر ممکنہ حد تک کم پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔ کیونکہ وہ حکومت کو انسانیت کیلئے ایک ناگزیر برائی Evil ) (Necessary کا درجہ دیتے ہیں ۔ تشد د اور دھوکہ بازی پر قابو پائے بغیر کوئی سوشل یونین ممکن نہیں ہوسکتی چنانچہ حکومت کو صرف شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے تک محدود رہنا چاہیے اور اس کے آگے فرد کو تنہا آزاد (Alone) چھوڑ دینا چاہیے ۔ وہ انفرادیت پسندی کی پوزیشن واضح کرنے کیلئے جان سٹورٹ مل (John Stuart Mill) کی کتاب (On Liberty 1859) میں سے کلاسیکل تبصرہ کا حوالہ دیتے ہیں:

The sole end for which mankind are warranted, individually or collectively, in interfering with the liberty of action of any of their number, is self –protection. The only purpose for which power can be rightfully excercised over any member of a civilised community against his will, is to prevent harm to others.His owngood, either physical or moral, is not sufficient warrant….The onlypart of the conduct of anyone, for which he is amenable to society, is that which concerns others.In the part which merely concerned himself, his independence is, of right absolute over himself, over his own body and mind, the individual is sovereign.(7)  

اس نقطۂ نظر کے مطابق حکومت کی وہ تمام ایجنسیاں جو حفاظتی نوعیت کی حامل ہیں ۔ مثلاً افواج، پولیس، قانونی عدالتیں وغیرہ قابلِ جوا ز ہیں۔ جبکہ دوسرے ادارے جو حفاظتی نوعیت کے حامل نہیں ہیں مثلا ، محکمہ ڈاک، ٹیلی گراف، ریلوے ، تعلیم وغیرہ حکومت کی ناقابلِ جواز سرگرمیوں کے دائر ہ کار کی نشان دہى کرتے ہیں۔ نظریۂ انفرادیت پسندی کے اِس تناظر میں گل کرائسٹ حکومت کے فرائض کا خلاصہ اس طرح بیان کرتے ہیں:

iخارجی جارحیت سے ریاست اور افراد کا تحفظ ،

ii ا فراد کو ایک دوسرے سے تحفظ دینا مثلا فزیکل نقصان، قتل و غارت یا پرسنل پابندیوں سے ،

iiiجائیداد کا تحفظ ، ڈاکہ یا نقصان سے،

iv افراد کو جھوٹے معاہدوں یا معاہدوں کو توڑنے سے تحفظ دینا،

v معذوری (Unfit) کے خلاف تحفظ،

vi افراد کا تحفظ ، اُن برائیوں سے مثلاً طاعون، ملیریا وغیرہ جن کی روک تھام ممکن ہے ۔ 

(مؤخر الذکر دو اجزاء کو تمام انفرادیت پسند قبول نہیں کرتے ) (8) 

لاسکی آزادی (Liberty) کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ایک مثبت چیز ہے۔ اس کا مفہوم پابندیوں کی عدم موجودگی (Absence of Restraint) نہیں ہے۔ پابندی اُس وقت برائی (Evil ) سمجھی جائے گی ، جب وہ روحانی تقویت کی زندگی Enrichment) (Life of Spiritual کو فاسد کرے گی ۔ لاسکی کے خیال میں :

Liberty consists in nothing so much as the encouragement of the will based on the instructed conscience of humble man. In such a background, we can not accept Mill’s famous attempt to define the limits of state interference. (9)

لارنس ہیزل رگ (Lawrence Hazelrigg) کا کہنا ہے کہ نظریۂ انفرادیت پسندی کے عوامل کی موجودگی کا عملی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ بارہویں صدی عیسوی کی نشأۃِ ثانیہ کے دوران مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس نظریہ کے متعلق کم و بیش مربوط قسم کی وضاحت 1600ء کے دوران منظرِ عام پر آئی، جب رینے ڈسکارٹ (Rene Descartes) تھامس ہابز (Thomas Hobbes) اور جان لاک (John Locke) جیسے مفکرین نے یہ کہا کہ کسی کل یعنی (Society) کو سمجھنے کیلئے اُن اجزاء کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے جس سے وہ بنا ہوا ہوتا ہے۔ سوسائٹی کے مقابلے میں اس کے بلڈ نگ بلاکس افراد (Individuals) تھے ۔۔۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخر تک تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی اداروں کے تناظر میں ڈیوڈ ہیوم David Hume، آدم سمتھAdam Smith) اورعما نویل کانٹ (Immanuel Kant کی نظریہ انفرادیت کے حق میں کی گئی پختہ وضاحتیں منظر عام پر آئیں۔ جن میں خود اپنی نمائندگی کرنے والے فرد کی مرکزیت (Centerality of self-representing individual) پر زور دیا گیا۔ (10)

جوڈ ہرمن کا خیال ہے کہ انیسویں صدی عیسوی میں انڈسٹریل سرمایہ داری نے مغربی یورپ بالخصوص انگلینڈ میں بہت معرکہ آرائیاں کیں وہ لوگ جو یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ معاشیات میں

’Laissez Faire‘ اُصول کے تحت صنعتی ترقی سے پیدا ہونے والے کثیر الجہتی مسائل کو حل کیا جاسکے گا کیلئے یہ بڑا اہم دور تھا۔ (11) جبکہ گل کرائسٹ کے خیال کے مطابق اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخر میں نظریہ ا نفرادیت پسندی سیاسی قوت کے طور پر اجاگر ہوا۔ اس کی ابتداء لاک اور بینتھم کے افکار سے ہوئی اور افادىت پسندوں (Utilitarians)نے ان پر عمل درآمد کیا۔ آدم سمتھ سے لے کر کابڈن (*Cobden)اور برائٹ (*Bright) جیسے معاشی مفکرین جو پولیٹیکل اکانومی اور پولیٹیکل سائنس کے اہم نام ہیں، نے اس کی حمایت کی۔ اکثرسیاسی نظریات کی طرح اس کی ابتداء بھی تاریخی اسباب کی مرہونِ منت ہے ۔ حکومتی تجاوز یعنی حکومت کی ان معاملات میں مداخلت جن کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ وہ افراد کی پرائیویٹ زندگی اور سرگرمیوں کے قانونی دائرہ کار سے تعلق رکھتی ہے نے اس نظریہ کو وجود بخشا، جس نے حکومت کے مقابلے میں فرد کی اہمیت پر زور دیا۔ اس نظریہ کی گرفت اگرچہ لوگوں پر زیادہ نہ ہوسکی لیکن عملی سیاسیات میں یہ ایک نمایاں قوت کے طور پر ابھرا، اس کی وجہ سے خصوصاً تجارت اور صنعت میں حکومتی مداخلت کے پرانے قوانین کا خاتمہ ہوا ، اور حکومتی کنٹرول کی نئی شکلیں ظاہر ہوئیں ۔ نظریۂانفرادیت پسندی پر عمل کے نتیجے میں جو خرابیاں ظاہر ہوئیں ، کی وجہ سے اِن کی اصلاح کی شدید ضرورت بھی اجاگر ہوئی۔۔ ۔گل کرائسٹ کے نزدیک انفرادیت پسندی کی حمایت تین دلائل کی بنیاد پر کی گئی*: 

I اخلاقی دلیل (Ethical Basis) 

ii معاشی دلیل (Economic Basis) 

iiiحیاتیاتی یا علمی دلیل (Biological / Scientific Basis)

.Iاخلاقی د لیل (Ethical Basis) :

اخلاقی دلیل کا لبِّ لباب یہ ہے کہ فرد میں موجود تمام قوتوں کی ہم آہنگ نشو و ارتقاء بنیادی مقصد ہے ۔ اس لیے ہر فرد کو اس مقصد کے حصول کیلئے آزادانہ مواقع دستیاب ہونے چاہئیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد دوسرے افراد کے مقابلے میں آزادانہ طور پر اپنی موزونیت ثابت کرسکے ، میں ہی بہترین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اگر حکومت خاص حد سے زیادہ مداخلت کرتی ہے تو فرد کی صلاحیتیں مفلوج ہوجاتی ہیں۔ اس کی قوتوں کو اظہار کا موقع نہیں ملتا ۔جس کی وجہ سے معاشرے کوکلی طور پر أفرادی قوت کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

انفرادیت پسندوں کا کہنا ہے کہ اپنی مدد آپ (Self-Help)انسانی ترقی کا سرچشمہ ہے۔ ایک دفعہ جب حکومت مداخلت شروع کرتی ہے تو فردسُست پڑجاتا ہے ۔ وہ دوسروں سے اس کام کی توقع وابستہ کرلیتا ہے جو اس کو خود کرنا چاہیے۔ حکومتی پشت پناہی پر مبنی ایسے معاشرے میں اوسط درجہ کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اس میں ذہانت و فطانت کی پیش رفت اور بالیدگی کیلئے کوئی محرک نہیں ہوتا۔ اس نظریہ کے مطابق ریاست کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی انفرادیت کو کامل بنانے کی کوشش کرے۔ کامل انفرادیت کامطلب یہ ہوگا کہ حکومت کی مزید ضرورت نہیں، ہر فرد اپنے لیے خود ہی قانون کا درجہ رکھے گا۔ ریاست ایک معاہدہ (Contract) ہے یا جیسا کہ سپنسر (Spencer) اسے Joint Stock Protection Society -قرار دیتا ہے یعنی بے جا مداخلت پر مبنی سوسائٹی کا نام ہے ۔ ہر فرد کا قدرتی حق اپنی قوتوں کو انتہائی صورت تک پروان چڑھانا ہے اور حکومتی مداخلت جو اِس نشو ونما کیلئے ضروری ہو ، کم سے کم ہونی چاہیے۔ یہ اخلاقی عنصر کے حق میں دی جانے والی تفصیل کا ماحصل ہے۔ 

.II معاشی دلیل (Economic Basis) : 

انفرادیت پسندوں کے خیال کے مطابق ہر فرد اپنے مفاد کا خیال رکھتا ہے ۔ اگر حکومت کی طرف سے کسی رکاوٹ کے بغیر اس کو ایسا کرنے دیا جائے تو سوسائٹی کو بحیثیت مجموعی فائدہ پہنچے گا۔ اگر ہر ایک کو اُس کا سرمایہ ایسی جگہ لگانے کی اجازت ہو۔ جہاں سے اُس کو زیادہ منفعت حاصل ہوسکے، اگر ہر مزدور کو زیادہ سے زیادہ اُجرت قبول کرنے کا آزادانہ موقع حاصل ہو تو اجتماعیت کو فائدہ حاصل ہوگا۔ آزادانہ مقابلہ (Free Competition) سے زیادہ نفع حاصل ہوگا ، طلب اور رسد (Demand and Supply) ان راہوں کو ہموار کریں گے جن میں سرمایہ اور محنت (Capital and labour ) رواں دواں ہوں گے۔ قیمتیں (prices) بھی دباؤ سے آزاد ہوں گی۔ بڑھتی ہوئی طلب کا مطلب بڑھتی ہوئی رسد ہوگا اور قیمتوں میں معمول کے قانون کے مطابق اتار چڑھاؤ ہوگا۔ بیرونی تجارت بھی آزاد ہونی چاہیے کیونکہ ہر ملک صرف ان چیزوں کی پیداوار کرے گا جن کا مبا دلہ (Exchange) اُسے زیادہ ملے گا اور ان چیزوں کی درآمد کرے گا جو بہتر طریقے سے مہیا کرنے کی اہلیت کی حامل ہوں گی۔ صنعت و حرفت میں ہر چیز قدرتی طور پر اپنی مطابقت پیدا کرے گی اور یہ مطابقت پذىرى سب کے مفاد میں ہے۔ قیمتوں کی نگرانی کرنے ، محصولات مقرر کرنے ، عطیات دینے، لیبر کے حالات پر پابندیاں لگانے کے ضمن میں حکومتی مداخلت گویا مشین کی کارکرد گی میں مزاحم ہوتی ہے جس کو اگر آزاد چھوڑ د یا جائے تو زیادہ منظم طریقے سے کام کرتی ہے۔ 

نظریۂ انفرادیت پسندی کے اثرات معاشی دائرۂ حیات سے زیادہ اور کہیں بھی مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔ اس نظریہ کو اٹھارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں عالمگیر طور پر قبول کیا گیا۔ آدم سمتھ کی نسبت سے اس کو خاص شہرت ملی۔ اس کے علاوہ اس نظریہ کو ریکارڈو (*Ricardo)اور مالتھس (*Malthus) وغیرہ کی تائید بھی حاصل تھی۔ انگلینڈ میں اس کے اثرات سرعت سے مرتب ہوئے جہاں انفرادیت پسندی کے مخالف قوانین کی طویل فہرست کو منسوخ کردیا گیا تاکہ برطانیہ میں آزادصنعت وحرفت کو فروغ دیا جاسکے۔ Laissez Faire اُصول کے تحت اقتصادیات کے میدان میں حکومتی قواعد وضوابط کی گنجائش ختم ہوگئی۔ کیونکہ لیبر یا کامرس کو مصنوعی سہارا دینے کا مطلب مضبوط کے مقابلے میں کمزور کو فائدہ دینا قرار دیا گیا جس کا خمیازہ عمومی بہتری اور فلاح وبہبود کے نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔  انفرادیت پسندی کے تصور کا اطلاق معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)کی شکل میں ظاہر ہوا ۔ رابرٹسن کے خیال کے مطابق اس کے دو بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں جن میں سے پہلا ....پرسنل منافع پر مبنی ہے ۔ جو تمام تر معاشی سر گرمیوں کا مقصد ہوتا ہے ۔ جبکہ دوسرا ....مارکیٹ کا مقابلہ ہے، جس میں یہ اصول طے پاتے ہیں کہ کون سی پیداوار کس قیمت پر کون سے صارفین کیلئے بنائی گئی۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ طلب اور رسد کی مارکیٹ کی قوت یقینی طور پر کم قیمت پر بہترین پیداوار مہیا کرے گی۔ نفع کا لالچ انفرادی سرمایہ دار کو محرک مہیا کرے گا کہ وہ ایسی اشیائے صرَف پیدا کرے جو لوگ چاہتے ہیں ۔ سرمایہ داروں میں مقابلہ سے لوگوں کو یہ موقع مل سکے گا کہ وہ اشیا ء کی کوالٹی اور قیمت کا موازنہ کرىں۔ چنانچہ جو پروڈىوسر غیر مستعد ہوگا یا جو زیادہ قیمت وصول کرے گا و ہ کاروبار سے خودبخود باہر ہوجائے گا۔ مارکیٹ کی قوتوں کا اَن دیکھا ہاتھ اچھی اشیائے صرَف پورے معاشرے کیلئے پیدا کرنے پر مجبور کر دے گا۔ اچھے پروڈیوسر ز کو منافع اور صارفین کوَ ارزاں نرخ پر اشیائے صرَف دستیاب ہوجاتی ہیں۔ تاہم اس سسٹم کو رواں رکھنے کیلئے کم سیاسی مداخلت لازمی ہے۔ چنانچہ حکومت کو عدم مداخلت یعنی ’ Laissez Faire‘کی پالیسی اپنانا پڑتی ہے۔ (12)

III . حیاتیاتی / علمی دلیل (Biological / Scientific Basis):

علمی دلیل تمثیلی استدلال (Analogy) پر مبنی ہے۔ نظریۂ انفرادیت پسندی کے اس پہلو کو آشکار کرنے والا ہر برٹ سپنسر (Herbert Spencer) ہے ، جس نے حیاتیاتی استدلال کے حوالے سے بات کی۔ زندگی کی ادنیٰ اقسام میں پائے جانے والے ارتقاء کا مطلب بقا ئے أ صلح (Survival of the Fittest)

ہے۔ سپنسر کے خیال میں اس کا اطلاق انسانی سوسائٹی پر بھی ہونا چاہیے۔ ترقی کے قدرتی طریقے کا مطلب یہ ہے کہ غریب، کمزور اور فاتر العقل کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے۔ انفرادی طور پر اس أصول کا اِطلاق اگرچہ بہت گراں محسوس ہوتا ہے مگر سپنسر کے نزدیک انسانیت کے مفادات کا تقاضا یہی ہے ۔ کیونکہ یہ انسانی مفادات مجموعی حیثیت میں افراد کے مفادات کی نسبت زیادہ اہم ہیں اور انفرادی معاملات میں برداشت کی جانے والی مشکلات عام فلاح و بہبود کے تحفظ کیلئے ادا کی جانے والی قیمت ہیں۔ 

گل کرائسٹ ان تینوں دلائل کو سمیٹتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ نظریۂ انفرادیت پسندی ایک اہم سچائی کا انتہا پسندانہ استحضار یا بیان ہے۔ اُس دور میں جب حکومتی مداخلت سے صنعت و حرفت اور انفرادی کاروبار متاثر ہورہے تھے ،نظریہ انفرادیت پسندی نے معاشرتی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کی قیمت پر صِرف ایک پہلو پر اپنا زور صرَف کیا۔ خصوصاً انگلینڈ میں حد سے زیادہ ریاستی قواعد و ضوابط کی وجہ سے بے جا دخل اندازی پر مبنی قانون سازی ،کی فضا نے اس نظریہ کو پروان چڑھایا اورعملی انتہا پسندی نے نظریاتی انتہا پسندی کو جنم دیا۔ اس نظریہ کے حامیوں کا یہ اعتراض کہ حکومتی مداخلت سے اپنی مدد آپ کے مواقع کم ہو جاتے ہیں، درحقیقت مبالغہ پر مبنی ہے کیونکہ اکثر اوقات حکومت کی مداخلت کو منفی قرار دینے کی بجائے کمیونٹی کے مفاد کیلئے لازمی تصور کیا جاتا ہے اورازخو د یہ حکومتی قوانین اپنی مدد آپ کا ذریعہ بن جاتے ہیں کیونکہ معاشرے کے کئی حصے دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ گل کرائسٹ انفرادیت پسندی کی بنیاد کو ناقص تصور کرتا ہے جس میں فرد کو ذات پرست یا انانیت پسند سمجھا جاتا ہے اور ذاتی مفاد کے حصول کو قدرتی طریقِ کار کا عنوان دیا جاتا ہے ۔

وہ تجزیہ کرتے ہوئےرقمطراز ہے کہ انسان معاشرے میں پیدا ہوتا ہے ۔ وہ اپنی جسمانی بقاء اور نشو و ارتقاء کیلئے اس کا حاجت مند ہوتا ہے۔ معاشرے سے علیحدہ اس کا کوئی معنی نہیں ہوتا اور سیاست یا حکومت اس فرد کا دشمن ہونے کی بجائے اس کا ایک حصہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ ریاست کا وجود فرد پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ خود سے علیحدہ کسی چیز کا نام نہیں۔ ریاست اور حکومت معاشرے کی ایک نوعیت ہیں جس کا فرد بھی رکن ہوتا ہے ۔ انسان ،جبلتیں، مفادات اور قوت رکھتا ہے لیکن یہ سب معاشرت کے اندر وجو د پذیر ہوتی ہیں اور یہیں سے ہی اس کی معاشرتی زندگی کی بنیادی حقیقت یعنی ریاست اُستوار ہوتی ہے۔ چنانچہ فرد کو محض ذات پرست سمجھنا درست نہیں ۔ گل کرائسٹ حقوق کے معاملہ پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فرد کے حقوق ریاست کے ساتھ ملحق ہیں۔ وہ ریاست میں اور ریاست کے ذریعے وجود میں آتے ہیں۔ ریاست، انسانی فلاح کے مقاصد کیلئے قائم ہوتی ہے اور یہ اپنے تنظیمی ڈھانچہ کے ذریعے اخلاقی مقاصد کو نشو وترقی دینے کی خاطرمتحرک رہتی ہے ۔ ہر فرد کو اپنی تکمیل کی کوشش کرنی چاہیے اوردوسرے افراد بھی اس کوشش میں مصروف ہوتے ہیں۔ لیکن فرد کو ایک کنٹرول کرنے والی طاقت کے ماتحت ہونا چاہیے جو لامحا لہ ریاست کو ہی حاصل ہونی چاہیے۔ تاکہ فرد کو اپنی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی تکمیل کا موقع بھی مل سکے۔ یہ ریاستی کنٹرول ایک برائی نہیں بلکہ ایک مثبت اچھائی (Positive Good) قرار دی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی قانون خراب ہے تو وہ عدم مداخلت (Laissez Faire) کے نظریے کی وجہ سے خراب نہیں ہوتا بلکہ اس لیے کہ وہ معاشرے کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے اور اعلیٰ اخلاقی مقاصد کی تکمیل کیلئے زندگی کے موافق حالات پیدا نہیں کرپاتا۔ اسی طرح حکومت کی تمام پابندیاں بری نہیں ہوتیں ، جبکہ یہ ممکن ہے کہ حکومتی افسران اُن کو غلط طریقے سے نافذ کرنے والے یا غلطیاں کرنے والے ہوں۔ لیکن اِن جزوی خرابیوں کی وجہ سے آپ پورے سسٹم کو غلط یا خراب نہیں کہہ سکتے۔ اِس طرح وہ حیاتیاتی یا علمی دلیل کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بقائے أصلح (Survival of the Fittest) کا مطلب بہترین کی بقاء (Survival of the Best) نہیں ہوتا اور انفرادیت پسندی نے اس تناظر میں ادنیٰ حیوانات اور انسان کے درمیان بنیادی فرق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ انسان بڑی حد تک اپنے ماحول پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ وہ اس کو کئی مقاصد کیلئے استعمال کرسکتا ہے ،اور دوسرے لفظوں میں اس اصول کا انسانوں پر اطلاق کرتے ہوئے اخلاقی اَفکار بھی بقائے أصلح کے تصور میں شامل ہوجاتے ہیں۔ انسان اپنے ماحول کو بہتر بنا سکتا ہے اور تاریخ کے راستے کا رُخ معیّن اخلاقی مقاصد کی روشنی میں متعیّن کرسکتا ہے ۔انسان میں اِخلاقی اقدار کا عُنصر کبھی اس بات پر رضامند نہیں ہوسکتا کہ کمزور کو ضائع ہونے دیا جائے اور اس سفّاکی پر بھی رضامند نہیں ہوسکتا کہ زندگی میں ناکام ہونے والے کے ساتھ ظلم ہو، جیساکہ ’بقائے أصلح ‘کے اصول کا تقاضا ہے سرکاری یا نجی طور پر دوسروں کی مالی مدد کرنا اس حیاتیاتی دلیل کی روشنی میں ممنوع ہے ، لیکن یہ انسان کی فطری خوبیوں میں شامل ہے۔ اس تجزیہ کا خلاصہ گِل کرائسٹ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ نظریہ انفرادیت پسندی کی وجہ سے ناروا مداخلت کے کئی قوانین کا خاتمہ ممکن ہوا، اور ماڈرن سسٹم کی نشو و ارتقاء میں حصہ لیا، لیکن اس نے ریاستی کنٹرول کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا اور اس أمر کو فراموش کردیا کہ ریاست کے بُرے کاموں کی نسبت اچھے کاموں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔ (13)

مقالہ نگار لنڈسے (Lindsay)بھی اپنے آرٹیکل کا خلاصہ اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ نظریۂ انفرادیت پسندی کو معاشرتی زندگی کا ایک ٹھوس اور تسلسل والا فلسفہ سمجھنا مناسب نہیں کیونکہ کوئی بھی مطلق انفرادیت پسند نہیں ہوسکتا جیسا کہ کوئی مطلق سوشلسٹ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ فرد اور معاشرہ دونوں ایک دوسرے پر اثر اندازہوتے اور ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں اور انفرادیت کو پروان چڑھانے کیلئے معاشرہ اور اداروں کے کردار کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔(14) نظریۂ انفرادیت پسندی کی اس بحث کے دوسرے رُخ کو سمجھنے کے لئے مد مقابل نظریہ اجتماعیت کو زیرِ بحث لانا بھی ضروری ہے۔

(ii) نظریۂ اِجتماعیت پسندی (Socialism / Collectivism):

نظریۂ اجتماعیت پسندی (Theory of Collectivism) نظری ۂ انفرادیت پسندی کے مد مقابل زیر بحث لائی جاتی ہے۔نظرىہٴ انفرادیت پسندی میں فرد کو اس کی ذات کے نشو و ارتقاء کی خاطر بے لگام آزادی کا حاجت مند قرار دیا گیا اور اس نے بالخصوص معاشی سرگرمیوں کے میدان میں زیادہ نمایاں طریقے سے اپنا مقام بنایا اور سرمایہ دارانہ نظام انفرادیت پسندی کا مظہر بن کر اس طرح سامنے آیا کہ دونوں کو لازم و ملزوم کی حیثیت سے زیر بحث لایا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہا تھی ۔ اس کے جوابی ردِعمل میں اجتماعیت پسندی (Collectivism) کا نظریہ وجود پذیر ہوا۔ لہٰذا یہ ضروری سمجھا گیا کہ فرد کی لامحدود آزادی کو محدود کردیا جائے۔ چنانچہ فرد کے اِجتماعی مفاد اور فلاح کی آڑ میں اسے اِجتماعیت کے نام پر پابندِ محض کرنے کی کوشش کی گئی اور نظریۂ اجتماعیت پسندی کا مظہر اشتراکیت کا فلسفہ قرار پایا۔ جس کا محور حیاتِ اِجتماعی کے رویّوں کے ساتھ ساتھ خالص معاشی سرگرمیوں کی خصوصی بحث تھی۔ یہ ایک دوسری اِنتہا تھی۔ جس کے حامیوں کا خیال تھا کہ زمین اور وسائلِ پیدا وار و تقسیم کو لوگوں کی اِجتماعی ملکیت ہونا چاہیے .تاکہ ناجائز اِ نتفاع کو ختم کر دیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ افراد کی حقیقی فلاح و بہبود اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کو آزاد مقابلہ (Free Competition) کی برائیوں اور نقصانات سے نہ بچایا جائے۔

گل کرائسٹ کے خیال کے مطابق نظریۂ اجتماعیت یا اشتراکیت ، نظریۂ انفرادیت پسندی کا متضاد (Anti-Thesis) ہے۔ جس میں افراد اور سوسائٹی کی فلاح و بہبود کیلئے حکومتی کنٹرول کو نہ صرف ضروری سمجھا گیا بلکہ اسے ایک مثبت اچھائی (Positive Good) قرار دیا گیا یہ انفرادی ملکیت کی جگہ ریاستی ملکیت کا نام ہے ۔ یہ موجود معاشی نظام کی جگہ دوسرے معاشی نظام کے ذریعے چند افراد کے مفاد کی بجائے اجتماعیت کیلئے فلاحِ عامہ کے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس میں پرائیویٹ پراپرٹی کے خاتمہ پر زور نہیں دیا گیا بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ پرائیویٹ پراپرٹی فرد کی نشو و ارتقاء کیلئے بہت ضروری ہے ۔ لیکن وہ موجودہ تقسیم کو غیر مساوی سمجھتے تھے۔ ان کے خیال کے مطابق وسائلِ پیداوار کی اجتماعی ملکیت کا مطلب اجتماعی فلاح و بہبود کیلئے ان کا اجتماعی بندو بست کرنا ہے۔ جبکہ انفرادی ملکیت اور انفرادی بندوبست نے معاشی طور پر توازن کو خراب کیا ہے ۔ بے فائدہ مقابلہ کی وجہ سے ایک ہی مقصد کیلئے مشینوں کی تکثیر وجود میں آئی جس کو متبادل قوت کے ذریعے سے ختم کیا جاسکتا ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے اِرتباط اور ہم آہنگی پیدا کرنے والی ہو۔ حکومت پیداواری قوت کو غلط راہوں میں جانے سے روکے گی اور صحیح سمت کی طرف اس کی نشاندہی کرے گی۔ وسیع پیمانے پر بچتوں کو مزید پیداواری صورتوں میں چند افراد کی بجائے اجتماعیت کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ اس نظام کے تحت فرد اجتماعیت کی ذیلی حیثیت رکھتا ہے تاکہ سب کو ان کا جائز معاوضہ ملے۔(15)

اجتماعیت پسندی یا جسے اشتراکیت (Socialism) کے عنوان سے بھی زیر بحث لایا جاتا ہے ۔ اس اِصطلاح کا استعمال پہلی مرتبہ 1826ء میں(16) لندن کو آپریٹو میگیزین London Co operative Magazine)) میں رابرٹ اوون (Robert Oven)کے ساتھیوں کیلئے استعمال کیا گیا۔ لیکن نظریۂ انفرادیت پسندی کی مخالفت میں ایک نظریہ کے طور پر سوشلزم کے عنوان سے پہلا آرٹیکل 1835ء میں Leroux and Reynaudنے Encyclopedia Nouvella میں تحریر کیا۔ فرانسیسی رسالہ Le Globeمیں سوشلسٹ (Socialists) کی اصطلاح 13 فروری 1832ء میں سینٹ سائمن کے پیروکاروں کیلئے استعمال کی گئی تھی۔ 1840ء کے بعد سے یہ اصطلاح عام استعمال ہونے لگی۔اسے جس نظریہ کے ساتھ وابستہ کیا گیا وہ ذرائعِ پیداوار کی ملکیت اور کنٹرول کا معاملہ ہے۔ یعنی سرمایہ ، زمین یا ملکیت کلی طور پر کمیونٹی کی ملکیت ہو، جس کا انتظام بھی سب کے مفاد میں ہوناچاہیے۔ یورپ میں اس اِصطلاح کے متعارف ہونے کے تقریبا 120سالوں کے اندر کئی ممالک کی حکومتیں اپنے آپ کو سوشلسٹ کہلانے لگیں۔(17)Szonja Szeleny نے اپنے آرٹیکل سوشلزم میں اس نظریہ کا تاریخی تجزیہ کرتے ہوئے پہلےمرحلے کے مثالی سوشلسٹوں (Utopian Socialists) کا تذکرہ کیا ہے ۔ جن کے نزدیک اشتراکیت ایک سہانا خواب اور رومانوی تصور تھا جو ضروری نہیں کہ پایۂ تکمیل کو پہنچے لیکن جس کا وجود سرمایہ دارانہ نظام کی برائیوں کا جائزہ لینے کیلئے ایک آئیڈیل کی حیثیت سے ضروری تھا۔ ان مثالیت پسندوں کے مطابق اس کا پہلا جزو کمیونٹی کا تصور تھا۔ رابرٹ اوون( * ( Owenکے ذریعے فوریئر Fourier) * (سے کیبٹ (Cabet (اور سینٹ سائمن تک سب نے ایک نئے عمرانی نظام کی نشاندہی کی، جو چھوٹی کمیونٹیوں کے گرد مرتب ہوگا ۔ یہ کمیونٹیاں شراکت، ہم آہنگی اور ایثاریت (Fellowship, Harmony and Altruism) کے اوصاف کی حامل ہوں گی ، جو بورژوائی انفرادیت پسندی Bourgeois Individualism)) کے مقابلے میں اخلاقیاتی بنیادوں کی نشاندہی کریں گی۔ ان کے مطابق دوسرا جزو یہ خیال تھا کہ صنعتی سرمایہ دارانہ نظام کی تبدیلی کے عمل میں معاشرتی ہم آہنگی کا سنہرا دَور متروک ہوگیا اور اس کی جگہ انفرادیت پسندی کے نظریہ پر مبنی اجزاء میں منقسم اور مقابلے سے متّصف وہ معاشرتی نظام وجود میں آیا جو انسانی ضروریات کی مکمل تسکین فراہم نہ کرسکا۔ 

دوسرے مرحلے میں اشتراکیت (Socialism) کی علمی تشریح کرنے والے مفکرین ، جن میں کارل مارکس اور اینجلز شامل تھے کے نزدیک یہ صرف ایک دلکش خواب نہ تھا بلکہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے نتیجہ میں اس کو مدِّ مقابل ممکنہ مستقبل قرار دیتے تھے۔ مارکس کا خیال تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں موجود تضادات ہی اشتراکیت کی ، پہلے سے موجود اسباب یا شرائط کی موجودگی کا باعث بنیں گے ۔ (18)

مارکس کافلسفہ ایک مثلث یعنی تین نکات پر مشتمل ہے جو اگرچہ سیاسی نہیں بلکہ معاشی پہلوؤں سے متعلق ہے لیکن دونوں پہلو باہم اس قدر مربوط ہوگئے ہیں کہ نیم سیاسی ، نیم معاشی نظریہ کی شکل اختیار کرگیا۔ 

1۔ مادی فلسفہ تاریخ (Materialistic Interpretation of History)

2۔ طبقاتی کشمکش کا تصور (Concept of Class Struggle) 

3۔ قدرِ زائد کا تصور (Concept of Surplus Value) 

مارکس کا خیال تھا کہ تاریخی ارتقاء کی کوئی ایک شاہراہ ضرور ہے ، جس پر انسان شروع سے رواں دواں ہے۔ ہر دور کے معاشی نظام اور اس کی اقدار کا عکس معاشرت کے آداب، روایات، اقدار اور فنون لطیفہ میں جھلکتا ہے۔ معاشرتی تعلقات بھی اس کی مناسبت سے پروان چڑھتے ہیں۔ رفتہ رفتہ جب پیداوار کے طریقوں اور معاشرتی و سیاسی تعلقات میں ہم آہنگی نہیں رہتی تو ایک نئی شکل ظہور پذیر ہوتی ہے اور یہ شکلیں یا کوششیں تاریخ میں انقلابات کے نام سے معروف ہوتی ہیں۔ گویا مارکس اُس مادی یا معاشی تعبیرکے پسِ پشت طبقاتی کشمکش کی نشاندہی بھی کرنا چاہتا تھا جو اس کے خیال کے مطابق ہردور میں موجود رہی ہے اور اگر یہ بہت واضح نہ بھی ہو تو اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ موجود نہیں تھی۔جب یہ کشمکش انتہائی حدو ں کو چھولیتی ہے تو پھر تبدیلی سامنے آتی ہے اور طبقاتی کشمکش کا بھی وجود تسلیم کرلیا جاتا ہے ۔ اس نے مختلف تاریخی ادوار سے اس کی نمایاں مثالیں دیتے ہوئے اپنے دور کے صنعتی نظام کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ اور صنعتی کارکنوں کو پرولتار ی کلاس(Prolitarian) قرار دیا۔ جبکہ بورژوا کلاس کو اس کے مدِّ مقابل بیان کرتے ہوئے قدرِ زائد (Surplus Value) جسے وہ مزدور یعنی محنت کرنے والے کا حق سمجھتا تھا کی آڑ میں اس کشمکش کو سامنے لانے کی کوشش کی، جو اس کے مزعومہ خیالات کے مطابق ایک نئے نظامِ اشتراکیت (Socialism)کو وجود میں لانے کا باعث بنیں گے۔ 

مارکس کے مادّی نظریۂ تاریخ کے مطابق سرمایہ دارانہ نشوونما سے جنم لینے والے تقاضے حکمران طبقے کیلئے مسلسل بہت ہولناک بحران پیدا کردیں گے ، مارکس نے یہ نتیجہ نکالا کہ صنعتی پیداوار اور چند ہاتھوں میں سرمایہ کے مرتکز ہونے سے طبقاتی عدم مساوات میں زبردست تضادات (polarization)

آشکار ہوں گے اور کارکنوں کے طبقے کے استحصال میں شدت پیدا ہوگی۔ جو ں جوں سرمایہ دارانہ نظام ارتقائی مدارج طے کرے گا تو کارکنوں کی حالت بدتر ہوتی چلی جائے گی اور ان کی اپنی بہتر بقاء کی جدو جہد سخت تر ہوتی جائے گی ۔ سب سے پہلے ان مخصوص قومی ریاستوں کی حدود کے اندر سرمایہ دار معاشرے کے دو ر قیب گروہوں ، (Bourgeoisie & Proletariat) کے مابین تصادم جنم لے گا اور سرمایہ دارانہ نظام جوں جوں بین الاقوامی طور پر نئی مارکیٹوں میں پھیلتا جائے گا ، تو ساری دنیا کے کارکن مجبور ہوجائیں گے کہ وہ سرمایہ دارانہ معاشرہ کو ختم کرنے کی کوششیں کریں۔ مارکس کے نزدیک اشتراکیت طبقاتی جدو جہد کے اس آخری مرحلے سے منصہ شہود پر آئے گی۔ (19)

مارکس کے خیال میں سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ داروں کے طبقہ کو معاشرے پر تسلّط حاصل تھا۔اور کارکن (پرولتاری) ان کے خدمت گزار تھے ۔ حالانکہ وہ حقیقی معنوں میں دولت کو پیدا کرنے والے تھے۔ معاشی زندگی پر اپنے غلبہ کی وجہ سے سرمایہ دار ، افکار و خیالات، ادب ، مذہب اور ریاست سب چیزوں پر مسلط تھے۔ مارکس کے مطابق کارکنوں اور سرمایہ داروں میں دولت پر کشمکش ہی سرمایہ دارانہ معاشرے کی وضاحت کرتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ اس أمر کو ناگزیر خیال کرتا تھا کہ غیر طبقاتی معاشرے کے قیام کیلئے کارکن لازماً بغاوت پر مجبور ہوں گے۔ (20)

مارکس کی نئی تحریروں سے اشتراکیت کے ارتقاء کے دو مراحل کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ادنیٰ مرحلے میں ( جس کو وہ اشتراکیت یا پرولتاریوں کی ڈکٹیٹر شپ کہتا تھا ) اس نے انسانی صورتِ حالا ت میں بڑی اصلاحی تبدیلیوں کی طرف اشارے ضرو رکیے۔ مثلاً اُس کا خیال تھا کہ پرائیویٹ جائیداد ختم ہوجائے گی، ریاستیں پیدائش کے وسائل کو قومی ملکیت میں لے لیں گی،وراثت کے حقوق ختم ہوجائیں گے، عالمگیر حقِ رائے دہی کو متعارف کرایا جائے گا، کارکنوں میں سے ریاستی نمائندے منتخب کیے جائیں گے اور تعلیم سب کیلئے عام ہوگی ۔ مارکس کے نزدیک چونکہ یہ سب مرحلہ وار ہوگا ۔ لہٰذا اس دَور میں سرمایہ دارانہ معاشرہ کے عوامل بھی ساتھ ساتھ روبہ عمل رہیں گے۔ اس نے خاص طور پر اس أمر کی نشاندہی کی کہ اس ادنیٰ مرحلے میں آمدنی کاغیر مساوی پن جاری رہے گا کیونکہ کارکنوں کو ان کے کام کی نسبت سے معاوضہ دیا جائے گا،جو وہ معاشرتی بہبود کیلئے سرانجام دینگے۔ کارل مارکس کے نزدیک انسانی تاریخ کی نشووارتقاء کا یہ عارضی مرحلہ اشتراکیت کے اگلے اور اعلیٰ مرحلہ میں بتدریج ترقی کرجائے گا اوراس اعلیٰ مرحلہ کو وہ کمیونزم آزادی کی اقلیم یا سلطنت) Realm of Freedom) قرار دیتا تھا۔ کمیونزم کے تحت کام ایک پابندی نہ رہے گی ، بلکہ ایک آزاد تخلیقی سرگرمی کی صورت اختیار کر جائے گا۔ پیداواری عمل پروڈیوسرز کے بالواسطہ کنٹرول میں ہوگا اور معاوضہ کی تقسیم قابلیت کی بجائے ضرورت کی مطابقت سے ہو گی۔ انیسویں صدی عیسوی میں علمی اشتراکیت کے اصولوں کو فرانس ، جرمنی اور برطانوی اشتراکیت پسندوں میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔اکثر لوگوں نے مارکس کے بورژوائی معاشرہ کے تصور کے بارے میں اس کی ہم نوائی کی اور مستقبل کے نقشہ میں دلچسپی لینے لگے۔ لیکن جونہی صدی آگے کو بڑھی اور مارکس کے بیان کردہ منظر نامے میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی تو مختلف سوالات منظرِ عام پر آنے شروع ہوگئے۔ (21)

نکولائی لینن ‘ مارکس کے نظریات کا پیروکار تو تھا لیکن صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نے کئی انقلابی اقدامات کیے، جن میں سے اہم ترین کمیونسٹ پارٹی کا قیام تھا، جو 1905ء کے بعد قائم کی گئی۔ یہ لوگ محض انقلابی بحث و تمحیص اور گفت و شنید پر بھروسہ کرنے کی بجائے موقع ملتے ہی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے نیا معاشرتی و معاشی اور سیاسی نظام قائم کرنا چاہتے تھے۔ جو اس پارٹی کا نصبُ العین قرار دیا گیا کہ وہ لوگوں میں انقلابی جذبہ بیدار کرے اور لینن کا خیال تھا کہ لوگوں کے سیاسی شعور کی پختگی کی بجائے پارٹی کی مضبوطی سے یہ انقلاب کامیاب ثابت ہوگا۔ 

مارکس کے خیال کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک میں اشتمالی ریاست کی سرگرمی کو سب سے پہلے نمودار ہونا چاہیے تھا ، مگر ایسا نہ ہوا ،تو لینن نے یہ جواز نکالا کہ پرولتاریوں کا یہ انقلاب صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی بجائے سرمایہ داری نظام کے اثرات کے ابتدائی مراحل والے ممالک میں بھی وقوع پذیر ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ روس میں زار حکومت (Tsarist Russia) کے خاتمے کے ذریعے 1917ء میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم کرکے اشتمالی ریاست کے تصور کو عملی جامہ پہنایا گیا۔روس پہلی سوویت سوشلسٹ ری پبلک (U.S.S.R.) قرار دیا گیا لیکن یہ پرولتاریوں کی اکثریت کی حکومت کی بجائے کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تھی اور سپریم سوویت کے ادارے کی توثیق کے بغیر کوئی کام سرانجام نہ پاسکتا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ کوئی دوسری پارٹی نہیں اور وہ ہی نامزدگیاں کرتی اور سپریم سوویت کا ادارہ اُن کی توثیق کرتا۔ بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں یورپ، ایشیا، لاطینی امریکہ ، افریقہ اور مشرقِ قریب کے کئی دوسرے ممالک میں بھی روس کی تقلید میں اشتراکیت کے دعؤوں پرمبنی حکومتیں قائم ہوئیں مگر ہر ایک کی نوعیت اور عملی صورت یکساں نہیں تھی۔ اس کے باوجود کچھ نکات ایسے ہیں جو ان اشتراکیت پسند معاشروں میں مشابہہ نظر آتے ہیں۔ 

I۔ وسائل اور تقسیم اجتماعیت کی ملکیت میں دیے گئے۔ 

II۔ معاشی سرگرمیوں کو مرکزی طور پر ریاست منظم کرتی ہے اور وسائل کی تعیین میں مارکیٹ کی قوتیں (forces) بہت کم یا کوئی بھی کردار سرانجام نہیں دیتیں۔

III۔ سیاسی اُفق پر ایک پارٹی کی حکومت ہوتی ہے ا ور و ہ مارکس اور لینن کی تعلیمات سے کوئی نہ کوئی قانونی جواز نکال لیتے ہیں۔

IV۔ نظریاتی یکسانیت کی وجہ سے یہ پارٹی سیاسی کلچر پر غالب ہوتی ہے اور تمام انتظامی ، قانونی اور عدالتی اختیارات کو روبہ عمل لاتی ہے ۔ (22)

ان مماثلتوں کے باوجود اشتراکیت کی دعویدار ریاستوں بالخصوص روس میں اندرونی طور پر معاشی خرابیوں اور کمزوریوں نے منفی اثرات مرتب کرنا شروع کیے۔ انسانی مساوات کا تصور کلیۃً ناکام ثابت ہوا۔ معاشی نظام ، دلچسپی کے محرکات کے خلاء کی وجہ سے ناکامی کا شکا ر ہوا اور ایک صدی کا فاصلہ طے کرنے سے بھی پہلے اشتراکیت کے نظام کو جو اجتماعیت کی فلاح وبہبو د کے دعووں کے ساتھ منظرِ عام پر آیا تھا۔ اِصلاحی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔ ریاستی کنٹرول سے وسائلِ پیداوار کی ایک خاص نسبت پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل کرنا پڑی، تاکہ معیشت کی کھوکھلی عمارت کو سہارا دیا جاسکے۔ یہ نظامِ اشتراکیت جو بلند بانگ دعووں کے ساتھ منظر عام پر آیا تھا، کوئی ایک مشترک فکری و عملی ڈھانچہ نہ دے سکا اور آج اس نظام پر عمل درآمد کے مختلف مظاہر اپنی علاقائی ضرورتوں اور نوعیتوں کے مطابق مختلف انداز میں رُوبہ عمل ہیں۔ اس نظریۂ اجتماعیت پسندی ( بعنوان اشتراکیت /اشتمالیت) کے مجموعی تنقیدی تجزیہ میں کئی نکات کو زیر بحث لایا گیا۔ لاسکی کے خیال کے مطابق :

Undoubtedly it implies fundamentally a certain levelling process. It means that no shall be so placed in the society that hecan overreach his neighbour to the extent which constitutes a denial of later’s citizenship ----It means such an ordering of social forces as will balance a share in toil of living with a share in its gain also.(23)

سب سے زیادہ تنقید مساوات کے اُس تصور پر کی گئی جو نظریۂ اجتماعیت کی بنیاد تھی۔ اسے غیر حقیقی قرار دیا گیا ۔ پرائیویٹ ملکیت کے خاتمہ کو بھی ایک ایسے قوی محرک کا خاتمہ قرار دیا گیا جس کی بناء پر معاشی سرگرمیوں میں طاقت اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔ جس کی عدم موجودگی پیداوار میں کمی کا اہم سبب قرار دی گئی۔ اس کے علاوہ حکومتی مداخلت کو بچت کا باعث بننے سے زیادہ سرخ فیتہ (Red Tapism) کی وجہ سے پیداوار میں کمی کا باعث سمجھا گیا۔ نظریۂ اجتماعیت پسندی کے خلاف ایک اور قوی اعتراض یہ بھی کیا گیا جو ہر برٹ سپنسر کے الفاظ میں:

'Each member of the community as an individual would be a slave of the community as a whole’.

یعنی کمیونٹی کا ہر فرد اپنی انفرادی حیثیت میں کلّی طور پر کمیونٹی کا غلام بن کر رہ جائے گا۔ گویا تمام دفتری کاموں میں انفرادیت پروان چڑھنے کی بجائے ’روٹین ‘ اس کی جگہ لے لے گی۔ فرد کی دلچسپی حکومتی سسٹم کے تابع ہی موقع پاسکے گی، ذہانت اور قوتِ اختراع کا خاتمہ ہوجائے گا کیونکہ اسے قواعد و ضوابط کو ملحوظ رکھنے کے تقاضے کی وجہ سے اجاگر ہونے کا موقع ہی نہ مل سکے گا۔ یہ سب أمور نظریۂ اجتماعیت پسندی کے خلاف منفی پہلو تصور کئے گئے۔لاسکی کے خیال کے مطابق علمِ سیاسیات میں مساوات سے بڑھ کر کوئی مشکل تصور نہیں ہے۔ 

Tocqueville ا ور لارڈ ایکٹن ( Lord Accton (کے برخلاف (جوآزادی کے بہت زیادہ حامی تھے) لاسکی یہ سمجھتا ہے کہ مساوات یکساں برتاؤ (Identity of Treatment) کا نام نہیں کیونکہ انسان اپنی ضرورت اور صلاحیت میں مختلف ہوتے ہیں۔ وہ اس سے مراد یکساں معاوضہ ((Identity of Reward بھی نہیں لیتا۔ Will and Ariel Durant سوشلزم اور ہسٹری کے ضمن میں رقمطراز ہیں:

Socialism in Russia is now restoring individualistic motives to give its system greater productive stimulus and to allow its people more physical and intellectual liberty. Meanwhile Capitalism undergoes a co-relative process of limiting individualistic acquisition by semi-socialistic legislation and re-distribution of wealth through welfare state…..the fear of capitalism has compelled socialism to widen freedom, and the fear of socialism has compelled capitalism to increase quality. (24)

انفرادیت پسندی اور اجتماعیت پسندی ہر دو نظریات کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں نظریات بنیادی مسئلہ فرد اور اجتماعیت کے مابین باہمی ربط و اعتدال اور ہم آہنگی کی وضاحت کے سلسلے میں حل ڈھونڈنا چاہتے تھے ، مگر أفراط و تفریط کی وجہ سے ہر دو نظریات اپنا مثبت توازن قائم نہ رکھ سکے۔ فرد اور اجتماعیت کے باہمی تعلق کی وضاحت کی بجائے ، اُن کے باہم متصادم ہونے کی طرف چل نکلے۔ حالانکہ حقیقت ان دونوں نظریات کے بین بین ہے۔

آکسفورڈ انسائیکلو پیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ کے مقالہ نگار سوشلزم اور اسلام کی بحث کے ضمن میں سید قطب ( (1966-1906کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نظریاتی راستے صرف دو ہی ہیں، ایک اسلام کا راستہ یا دوسرا جاہلیت قبل از اسلام کی لاعلمی کا راستہ ۔ سید قطب کے خیال کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت اسی جاھلیت کا حصہ ہیں اور ان کی اسلام کے ساتھ مفاہمت پیدا نہیں کی جاسکتی۔ اس کے برخلاف اسلام عد ل اور حق پرستی کی و جہ سے تمام تر انسانی ضروریات کی کفایت کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔(25)

کرس وادی (Charis Waddy) رقمطراز ہے کہ نام نہاد آزاد دُنیا نے سیاسی آزادی اور افکار و اظہار کی آزادی کے دعوے تو کِیے لیکن پرائیویٹ کاروبار کے تحت لالچ اور خود غرضی جیسی برائیاں قابلِ قبول قرار پائیں ۔ دولتمند بننے کی آزادی نے غریب کے دکھوں میں بہت اضافہ کیا ہے ۔ آزادئ فکر کو اکثر و بیشتر فکر کو آلودہ کرنے (To Pollute Thought) کی آزادی کے معنوں میں بدل دیا گیا۔ جیسے جیسے لوگ مادّیت پرست ہوتے چلے گئے ویسے ویسے وہ خدا کی رہنمائی سے دور ہوتے چلے گئے۔ جس کا نتیجہ ناخوش معاشرہ ہے ۔ اسی طرح جب ہم اشتراکی معاشروں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہاں صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے ۔ افراد کی حیثیت عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اینٹوں کی مانند ہے ۔ معاشرہ شہدکی مکھیوں کا چھتہ یا چیونٹیوں کی کالونی محسوس ہوتا ہے۔ جو بہت فعّال اور منظم دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس ماحول میں انفرادیت کے کسی نشان کو سیاسی مخالفت گردانا جاتا ہے۔ چونکہ خدا کا عقیدہ معدوم ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ سوچنا بہت دشوار ہے کہ ضمیر، محبت، ضبطِ نفس اور خیرات جیسی اقدار ، کہاں سے آئیں گی، چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ بھی ناخوش معاشرہ ہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں اطراف اپنے اپنے فکری نظام پر نظرِ ثانی کیلئے تیار ہیں۔ کمیونسٹ کیمپ کو کسی نہ کسی قسم کی پرائیویٹ ملکیت کی اجازت دینا پڑے گی اور سرمایہ دارانہ ممالک میں فرد کے لامحدود حقوق پر کچھ قدغنیں عائد کرنا لازمی دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً محصولات میں اضافہ ، ریاستی ملکیت ، فلاحی ریاست کا تصور وغیرہ ۔۔۔ اجتماعیت کے مفادات میں فرد کے حصہ کا مثالی تناسب ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا۔ دینِ اسلام میں اجتماعیت اور انفرادی نقطہ ہائے نظر کو اتنے أحسن طریقے سے باہم یکجان کردیا گیا ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہے۔ اخوت اور محبت وہ سیمنٹ ہے جو مختلف افراد کو ایک معاشرہ کی تشکیل کے رشتے میں جوڑ دیتا ہے۔ شیخ ظفر حسین تقا بلی موازنہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

Islamic regard for individuals, however, can not be extended to support Lessez-Faire Capitalism or individualism as Islam stands for a type of mixed economy and social concern.Classical Capitalism can not break any type of restrictions on individuals or commercial organization except that consumer is considered, in theory, as the king who is a controlling factor in Capitalism. Individual can own unlimited property without any restriction s under capitalism whereas Islam requires, in words of Qur’an to give give away to others, what is surplus to one’s needs.(26)

گویا انفرادیت پسندی میں فرد کی لامحدود آزادی اور دوسری طرف اجتماعیت پسندی میں فرد پر ناروا پابندیوں کی بجائے دینِ اسلام فرد اور اجتماع میں ایسا مثبت اور صحت مند توازن پیدا کرتا ہے جو عد م تصادم کی کیفیت کو نہ صرف پروان چڑھاتا ہے بلکہ اس کو مستحکم کرتے ہوئے فرد اور جماعت دونوں کو ایک دوسرے کیلئے جزوِ لاینفک کا روپ عطا کرتا ہے۔ رسول کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے:’’ المؤمن للمؤمن کالبنیان یشدّ بعضه بعضاً‘‘(27)

کرس وادی کے مطابق دینِ اسلام کے یہ افکار صرف اخلاقی اَقدار نہیں ہیں بلکہ ان کو قانونی طور پر نافذ کیا گیا کیونکہ اسلام کا ایک قانونی نظام بھی ہے ۔ (28)

عبدالحمید صدیقی انفرادیت پسندوں کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ اصل زندگی انفرادی ہے۔ حیاتِ عمرانی کی بناء اِس کے سوا کچھ نہیں کہ شعورِ ذات اپنے تئیں مکانِ بسیط میں پھیلاتا ہے لیکن اس امکانی ا ور عمرانی اَنا کے ہوتے ہوئے بھی خالص انفرادی اَنا ہے ۔ اس لیے احساس و ادراک اس کے باہر ممکن ہی نہیں ۔ لہٰذا عمرانی زندگی جو ہمارے حقیقی وجود سے خارج ہے بالکل ایک مصنوعی چیز ہے ۔ اس بناء پر اس سے ہمارا تعلق بالکل سرسری اور کمزور ہوتا ہے۔ اس طرزِ فکر کے حامیوں نے پوری اِجتماعی زندگی کو چند اَفراد یا کسی خاص فرد کی ہوائے نفس کا غلام بنادیا۔ وہ جس طرح چاہیں معاشرے سے کام لیں اور معاشرے کو اس بات کا قطعاً کوئی حق نہیں کہ وہ اُن سے اُن کے اعمال و افعال کے متعلق باز پرس کرسکے۔ وہ جس کو چاہیں اپنی اَغراض کیلئے استعمال کریں اور کوئی اُنہیں اُن کے کیے پر ٹوکنے والا نہ ہو۔ جدید سرمایہ داری اسی تصور کا شاخسانہ ہے ۔ اس نظریہ کے خلاف اِجتماعیت پسندوں کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ فرد کی شخصیت عمرانی ماحول ہی میں نشوو نما پاتی ہے اور اس کا مکمل اظہار جماعت ہی میں ہے اور جماعت ہی سے ممکن ہے ، نیز اس کے جملہ قوائے ذہنی و روحانی اس مخصوص جماعت کی ضروریات و حوائج کے سانچہ میں ڈھلتے ہیں جس میں بخت و اتفاق نے اسے جنم دیا ہے ۔ اس لیے اصل چیز اِجتماعیت ہی ہے اور اس کے مقابلے میں انفرادیت محض ایک سراب ۔ اس طرزِ فکر کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ فرد کو جماعت کے ہاتھ میں بالکل ایک بے بس کھلونا تصور کرلیا گیا ہے ۔ عہدِ حاضر میں اشتمالیت اسی تخیل کا مظہر ہے۔(29)

عبدالحمید صدیقی اس کا تجزیہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ اسلام کی نگاہ میں اصل اہمیت فرد کی ہے ۔ ہر فرد کو اللہ تعالیٰ نے شعورِ شخصیت عطا کیا ہے، خودی کا احساس دیا ہے۔ انفرادی خصوصیات بخشی ہیں۔خواہش، تمیز، ارادہ اور فیصلے کی قوتیں دی ہیں اور اپنی ملکیت میں سے بہت سی چیزیں امانتاً اس کے سپر د کرکے ان پر تصرّف کے اختیارات اسے عطا کیے ہیں۔ اسی بنا ء پر انسان منفرد اً اللہ تعالی کا نائب اورخلیفہ ہے اور اسی حیثیت سے وہ اپنے اعمال کا ذمّہ دار اور جوابدہ ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جماعت اور اجتماعی نظام ،اِسلام کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ فی الواقع ان کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ مگر اس حیثیت سے نہیں کہ وہ بجائے خو دمقصود ہیں بلکہ اس حیثیت سے کہ فرد کی شخصیت کا ارتقاء اور اُس کی ذات کی تکمیل جماعت ہی کی اصلاح اور اجتماعی نظام کی بہتری پر منحصر ہے۔ دینِ اسلام فرد اور جماعت کے ظاہری تضاد کو بڑی خوبی سے رفع کرتا ہے۔ انفرادیت کے پاسبان کی حیثیت سے وہ انسان کو انتہا ئی حریّت کی ضما نت دیتا ہے۔ مگر خدا کے سامنے اُس کی جوابدہی بڑی حد تک اجتماعی حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں ہی سے متعلق ہے ۔ لہٰذا محض ذاتی اِصلاح ہی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اجتماعی تقاضوں کو بھی پورا کرے جو سوسائٹی کا فرد ہونے کی حیثیت سے اس پر عائد ہوتے ہیں۔ اسلام نے یہ طرزِ فکر اختیار کرکے انفرادی حریّت اور اجتماعی گرفت کے ظاہری تضاد میں جو درحقیقت تضاد نہیں ، ایک معنوی وحدت پیدا کردی ہے۔(30)

علی عزت بیگوچ اپنی کتاب کے آغاز میں تحریر کرتے ہیں کہ کل تک کچھ نظریات بڑے پسندیدہ رہے ، آج وہ ماضی کے قصہ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ مارکس کی تعلیمات نے خاندان اور ریاست کا انکار کیا۔ لیکن یہ دونوں ادارے عملاً برقرار رہے۔ اس نے سماجی انصاف اور پرسکون دنیا کا نقشہ پیش کیا اور کوئی بھی نظریہ ان دونوں باتوں کی نفی نہیں کرتا لیکن خود اشتراکی ممالک ایسے نہ بنے بلکہ ان میں تو تشدد و بے انصافی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ دراصل کسی بھی ادھورے فلسفے کی مدد سے زندگی گزاری نہیں جاسکتی۔ (31)

ڈاکٹر حمودہ عبدالعاطی اقتصادی زندگی کے بارے میں بہت جامع خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسلام کی اقتصادی زندگی کا ڈھانچہ بھی احکاماتِ الٰہی کی ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔۔۔اسلام کا اقتصادی نظام صِرف حسابی اندازوں اور پیداواری صلاحیتوں پر ہی مبنی نہیں، بلکہ اِسے اخلاقیات اور ٹھوس اُصولوں کے ایک جامع نظام کی روشنی میں مرتب کیا گیاہے ۔۔۔ اسلام کا نظریۂ حکومت کمیونزم سے یکسر مختلف ہے ، اسلام کمیونسٹ ریاست کی اجتماعی مصنوعی حاکمیت کی بجائے اللہ کی فیض رساں حاکمیت کو قائم کرتا ہے اور کمیونزم کے طبقاتی کشمکش کے نظریے کی جگہ ٹھوس اخلاقی اصولوں ، باہمی ذمہ داریوں اور تعاون کی فضا کو جنم دیتا ہے ۔ دوسری طرف یہ مالکان کی حریصانہ سرمایہ داری اور ظالمانہ استحصال کے خلاف بھی ضمانت مہیا کرتا ہے ۔ اسلام کا اقتصادی نظام فرد کے خود مختارانہ تشخص اور کام کرنے اور ملکیت رکھنے کی فکری اُمنگوں کو تسلیم کرتا ہے ۔ لیکن اسے اللہ یا کائنات سے کلیتہً آزاد تصور نہیں کرتا ۔ یہ انسان کو یا اس کے سرمایہ کو معبود نہیں بناتا، نہ یہ محنت کش طبقے کو لائقِ پرستش ٹھہراتا ہے اور نہ آزادانہ کاروبار کی ممانعت کرتا ہے۔(32)

ریاست کے اداراتی مقاصد کے تناظر میںنظریۂ انفرادیت پسندی اور نظریۂ اجتماعیت پسندی جو سرما یہ دارانہ اور اشتراکیت و اشتمالیت کے نظام کی صورت میں با ہم متقا بل کھڑے دکھائی دیتے ہیں ، اپنے اندر موجود انتہا پسندی کی وجہ سے ریاست کے ادارے کے حوالے سے اپنے اصل مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ان کے برخلاف دینِ اسلام نے ایک متوازن نظام حیات کو متعارف کروایا۔رىاست کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی مقصدیت کو اُ جاگر کیا۔ فرد اور اجتماع یعنی معاشرہ کو ایک دوسرے کی ضرورت قرار دیا۔

رسول کریمﷺ نے حاکمیتِ الہیہ اور حاکمیتِ قانونِ الہیہ کے تصور کے تابع فرمان بناتے ہوئے وحدانیتِ الہیہ کی برتری قائم فرمائی اوراُمت کے پیروکاروں کو اطاعت الہی اور اطاعتِ رسول کا پابند بنادیا۔باہمی اُخوت و محبت کے خوگر اور ایثار و تعاون کے سانچے میں ڈھال دیا۔مادیت پرستی کے رجحانات کے مدّ مقابل روحانیت پرست بنا یا۔ دُنیاوی زندگی کو اُخروی زندگی کی اساس قرار دیتے ہوئے اِس کی اہمیت کو دارُالعمل اوردارُ الجزاء کے تناظر میں ذہن نشین کروایا۔ فوز و فلاح کے اُس تصور کی آبیاری کی ، جس نے آخرت کی زندگی کو زندہ حقیقت بنا دیا۔نبی کریم ﷺ نے اُن تخریبی عوامل کی نشاندہی فرمائی جو معاشرت کے اتحاد اور یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔دوسری طرف اُن تعمیری عوامل کوزیرِ بحث لاتے ہوئے مثبت اَقدار کی جانب بھی اُمت کے افراد کی توجہ مبذول کروائی تاکہ کسی بھی طرح سے کوئی ایسی منفی صورت حال سامنے نہ آئے۔جس کی بنا ء پر معاشرے کا توازن بگڑجائے۔بلکہ آپ ﷺ کی فکری و عملی رہنمائی کے نتیجے میں فرد اور اجتماعیت کاصحت مند توازن تکمیلی صورت میں وجود پذیر ہوا ۔اَور دونوں کے مابین عدم تصادم کی فکر کو تحریک و ترویج حاصل ہوئی۔رسول کریم ﷺ نے احکاماتِ الہیہ کی روشنی میں مثبت معاشی فکر کو بھی پروان چڑھایا ۔احادیث مبارکہ ﷺ میں اس ضمن میں واضح رہنمائی موجود ہے ۔ آپ ﷺ نے حلت و حرمت کے ربا نی اُصول و ضوابط کو عملی طور پر نافذ فرمایا۔ کسبِ حلال اور اکلِ حلا ل کی اہمیت اُجاگر کی گئی۔اموالِ باطلہ کی نوعیتوں کو واضح فرمایا تا کہ اُ لوہی نا فرمانی سے دامن داغدارنہ ہونے پائے۔حضور نبی کریم ﷺ نے احسن انداز میں زندگی کے اُس معاشی مسئلے کو حل کردیا ، جس نے ریاست کے ادارہ میں مختلف نظریات کی بناء پر فرد اور اجتماع کے درمیان باہمی کشمکش اور طبقاتیت کوفروغ دیا۔ نبی کریم ﷺنے نہ صرف معاشرت بلکہ معاشی سرگرمیوں کو بھی اَخلاقی اقدارکی ہم آہنگی سے مزین کرتے ہوئے ان دونوں اہم شعبوں کو مثبت خدّ و خال کا حامل ا ور دنیوی و اُخروی فوز و فلاح کا ضامن بنا دیا۔ عصری تناظرمیں موجود مختلف نظریات کی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کا سد باب اورخاتمہ حضور نبی کریم ﷺ کے نبوی منہج پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے۔ اسلامی تعلیمات کے تناظر میں ریاست کے اداراتی تخصصات کا تفصیلی جائزہ اس مقالہ میں ممکن نہیں۔ انشاء اﷲ اِن کو الگ مقالہ میں قلمبند کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

حواشی وحوالہ جات:

Alexis, Charles Henri Maurice Clerel (1805-1859) de' villle' * Tocque

French Statesman & Author

1. Encyclopaedia of the Social Sciences, Article : Individualism, P: 7/674

2. The Encyclopaedia Americana, Article : Individualism, [New York: Americana Corporation, 1961] 15/68

3. Encyclopaedia of the Social Sciences, Article: Individualism,7/674-75

4. Encyclopaedia of Sociology, Article Individualism, 2/901

5.The Muslim Mind, P: 38  

6: Lukes, Steven, Individualism [Oxford: Basil Blackwell, 1973] P6* Laissez faire, Literally, let (people) do, or make (what they choose);

Hence non-interference; Webster’s Collegiate Dictionary, P: 470 7.Gilchrist, R. N., Priciples of Political Science,[Calcutta: Longmans Green and Co.Ltd1936] P: 424-426

8. Ibid, P: 427

9.Laski, Harold, J., A Grammer of Politics,[London: George Allen & UnwinLtd, Fifth edition, 1967] Pp: 142-144

10. Encyclopaedia of Sociology, Article Individualism, 2/902

11.Harmon, Judd, M., Political Thought: From Plato to Present [New York: McGraw Hill, Fifth Reprint by National Book Foundation of Pakistan, 1990] P: 387 * Cobden, Richard, 1804-1865, English Statesman and Economist * Bright, John, 1811-1889, English Orator and Statesman

  • نظریۂ انفرادیت پسندی کے دلائل کا تذکرہ گل کرائسٹ کی بحث اور تجزیہ سےماخوذ ہے
  • Riardo, David, 1772-1823, English Economist
  • Malthus, Thomas Robert, 1766-1834, English Economist

12. Robertson, Ian,Sociology : A brief Introduction,P:3

13. Priciplesof Political Science, P: 428-437

14. Encyclopaedia of the Social Sciences, Article: Individualism, P: 7/680

15. Priciplesof Political Science, P: 441-442

16. Year 1827 is mentioned in Encyclopaedia of the Sociology, Article: Socialism, 4/1856 [ 1827 is quoted with the reference of Nuti, Domenico Mario 1981, "Socialism on Earth’’, Cambridge journal of Economics, (5 December): 391-403

17. International Encyclopedia of the Social Sciences, Article: Socialism14/506* Owen: Robert, 1771-1858, British Social Reformer * L. Fourier, Morie Francos, 1772-1837, French Sociologist and reformer

18. Encyclopedia of Sociology, Article Socialism, 4/1857

19. Encyclopedia of Sociology, Article Socialism, 4/1857

20. The New Encyclopaedia Britannica, Article: Social Class, 10/919

21. Encyclopedia of Sociology, Article Socialism, 4/1858

22.Ibid, 4/1859

23.A Grammer of Politics, Pp: 152-153

24.Durant, Will and Ariel, The Lessons of History, [Islamabad:Services Book Club, 1997] P: 66-67

25. The Oxford Encyclopaedia of the Modern Islamic World, Article Socialism and Islam,[New York,Oxford:Oxford University Press,1995] 4/83

26.Zafar Hussain Sheikh,The Reconstruction of Islamic Society,[Lahore:Feroze Sons,1992] P: 128

27۔جامع الصغیرفی أحادیث البشیر النذیر ، ر قم الحدیث:9143، 548/2

28۔ The Muslim Mind, P:38-39 29۔سانیت کی تعمیر نو اور اسلام ، ص:194 30۔ایضاً حوالہ مذکور، ص198-195ملخصاً

31۔ بیگو وچ ، علی عزت، Islam Between East and West مترجم: محمد ایوب منیر،اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کشمکش, [لاہور: ادارہ معارف اسلامی، بار دوم ، 1997ء] ص:33

۳۲۔اسلام ایک زندہ حقیقت، ص: 246-240 ملخصاً 

مصادر و مر اجع:

۱۔ السیوطی، جلال الد ین عبد ا لرحمن بن ابو بکر،ابو الفضل، الإمام، الجامع الصغیر في إحادیث البشیرالنذیر ، بیروت(لبنان):دارالکتب العلمیۃ،1425ھ/2004م.

2 ۔عبدالحمید صدیقی ، انسانیت کی تعمیر نو اور اسلام ،لاہور : اسلامک پبلشنگ ہاؤس، اشاعت اول ، 1976 ء. 

3۔ بیگو و چ ، علی عزت ،Islam between East and West مترجم: محمد ایوب منیر،اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذ یبی کشمکش ،لاہور: ادارہ معارف اسلامی ، بار دوم ، 1997ء . 

4 ۔حمودہ عبدالعاطی، ڈاکٹر، Islam in Focus، مترجم : رضا بدخشانی ،اسلام ایک زندہ حقیقت ، لاہور: اسلامک بُک پبلشرز، س ن .

5. Chariss Waddy, The Muslim Mind, Lahore: Vanguard Books (Pvt.),

Ltd., 1992

6.Durant, Will and Ariel, The Lessons of History, Islamabad: Services

Book Club, 1997

7. Gilchrist, R.N., Principles of Political Science, Calcutta: Longmans, Green and Co. Ltd., 193 Harmon Judd, M., Political thought from Plato to the Present

8. NewYork: McGraw-Hill Book Company, 5th edition by National Book Foundation of Pakistan, 1990

9.Harold, J., Laski, A Grammar of Politics, London George Allen and Unwin Ltd., 5th edition, 1967

10.Lukes, Steven, Individualism, Oxford: Basil Blackwell, 1973

11.Robertson, Ian, A Brief Introduction to Sociology, New York: Worth Inc., Publishers, Third edition,1987

12.Zafar Hussain, Sheikh, The Reconstruction of Islamic Society, Lahore: Feroze Sons, 1992

13.Encyclopaedia of the Social Sciences, Article: Individualism, Edited

By Edwin R.A. Seligman, London: MacMillan and Co. Ltd  

14.The Encyclopaedia Americana, New York: Americana Corporation, 1961

15.Encyclopedia of Sociology, ed., F.Borgatta, Edgar, New york:

Macmillan Publishing Company,1992

16. International Encyclopedia of the Social Sciences ed., David L. Sills, New

York: The Macmillan Company & the Free Press, Reprint edition, 1972

17.The New Encyclopaedia Britannica, Chacago: Britannica Inc., 15th edition

18. The Oxford Encyclopedia of the Modern Islamic World, ed., John

L.,Esposito, New York, University Press, 1995 

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...