Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 36 Issue 2 of Al-Idah

سند قانون : فقہائے اسلام اور مغربى مفکرین کى آراء کا تحقیقى وتنقیدى جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

36

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060034497_839

Pages

1-31

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/13/4

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/13

Subjects

Authority of Law Islamic Jurisprudence Western Jurisprudence Authority of law Islamic Jurisprudence Western Jurisprudence

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

دنیا کے ہر قانون میں قانون کی ماہیئت، حقیقت، تصورِ قانون اور سندِ قانون کے مسئلہ کو اصول ِقانون کی کلیدی مباحث میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سوال کہ ’’قانون کیا ہے اور وہ اپنا جواز کب اور کیسے حاصل کرتا ہے؟‘‘ فلسفہ قانون کے ہرقابل ذکر مفکر نے اٹھایا ہے لیکن اس کا صحیح اور واضح جواب اب تک ذہن کی گرفت میں نہیں آ سکا۔ یہاں تک کہ بعض مغربی ماہرین قانون، تصور قانون اور سند قانون کے حوالے سے کثرت تعبیرات کو دیکھ کر اس قدر الجھن کا شکار ہوئے کہ انہوں نے قانون کی تعریف ہی کی نفی کر دی ہے جبکہ قانون اپنی روح کے اعتبار سے ایک ایسی ناگزیر ضرورت ہے جس سے کسی بھی انسانی معاشرے کو مفرنہیں.

مغربی علم قانون میں قانون کی سندکا مسئلہ خاصا معرکۃ الآراء ہونے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ اور مبہم بھی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ قانون کا نظریہ حیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور مغربی علماء قانون کے ہاں نظریہ حیات کے حوالے سے متضاد آراء پائی جاتی ہیں.چونکہ قانون کی سندکے حوالے سے بنیادی نظریات میں بہت زیادہ پیچیدگی بلکہ تباین پایا جاتا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کو تفصیل سے ذکر کیا جائے۔اس مقصد کے لیے مختلف مکاتب فکر(schools of thought) کے نمائندہ ماہرین قانون کا نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے تاکہ اس حوالے سے ہر مکتب فکر کی سوچ(approach) کا علم ہو سکے۔ اس سے پہلے خود اتھارٹی کے مختلف مفاہیم کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہے۔ نظریہ سند (Notion of authority) سے متعلق مختلف قسم کے مسائل کو سمجھنے کے لیے تجزیاتی اسلوب ا ختیار کیا گیا ہے اور پھر سند کے لحاظ سے اسلامی اور مغربی قانون کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔

اسلامی قانون کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کے فلسفہ قانون، قانون کی سند، قانون کی حدود و قیود اور قانون کے اطلاق وغیرہ سے متعلق مباحث دوسری صدی ہجری کے آغاز ہی میں شروع ہو گئی تھیں اور فقہاء نے ان مباحث پر سیرحاصل گفتگو کی ہے جو مغربی اصول قانون میں انیسویں بیسویں صدی میں موضوع بحث بنی ہیں۔ اس طرح مسلمان فقہاء نے عمومی اصول قانون(General Jurisprudence) کی بنیاد دوسری صدی ہجری میں رکھ دی تھی۔ اسلامی قانون کی سند کے لحاظ سے متقدمین اور متاخرین مسلمان علماء اصول کا مؤقف بیان کرنے کے بعداس حوالے سے مستشرقین کے نقطہ نظر کابھی تنقیدی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے.کیوں کہ اسلامی قانون اور بالخصوص اس کی ابتدائی تاریخ مستشرقین کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ کسی کا نتیجہ فکر یہ ہے کہ اسلامی قانو ن رومن قانون کا چربہ ہے جبکہ بعض کا مؤقف یہ ہے کہ اسلامی قانون کا کوئی تصور ہی نہیں ہے بلکہ جاہلی رسوم و رواج کو حجت کی حیثیت دینے کے لیے ’’سنتِ رسول‘‘ کا نظریہ پروان چڑھایا گیا اور اس طرح اس خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کی گئی حالاں کہ مستشرقین کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ وہ معروضی انداز سے مطالعہ کرتے ہیں اور ان کی تحقیق تعصبات اور ذہنی تحفظات سے بالاتر ہوتی ہے۔

مسلمانوں میں ہمیشہ سے اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ قانون (حکم شرعی) کی سند اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا ہے، یعنی ذات باری کی مرضی و منشا حکم تکلیفی اور حکم وضعی کا مأخذ و سرچشمہ ہے۔ اس لیے اس بحث میں ’’حاکم‘‘ کی بحث کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔، تاہم حکم شرعی کی تعیین میں عقل و دانش کا کس حد تک دخل ہے اور شارع (Lawgiver) کی منشا معلوم کرنے کے کون کون سے طریقے ہیں،یہ ایک حساس اور فکرانگیز موضوع بحث رہا ہے،علاوہ ازیں جب فقہ کے وسیع لٹریچر پر نظر ڈالی جائے تو اجتہادی آراء، شارحین کے اقوال، فتاویٰ، حاکم وقت کے فرامین اور عدالتی فیصلوں کی قانونی حیثیت کی تعیین اور ان کی سند اساسی نوعیت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اگرچہ اسلامی قانون کی اساس قرآن و سنت پر ہی ہے لیکن ان دونوں کی سند کی بنیاد پر بقیہ مآخذ مثلاً اجماع، قیاس، قول صحابی، استحسان، مصالح مرسلہ ، عرف وغیرہ کا قانونی درجہ کیا ہے؟ انہیں کب اور کیسے قانون کا درجہ دیا جا سکتا ہے اور اس کی لازمی شرائط کیا ہیں؟ ان سب مباحث کا تعلق سندِ قانون سے ہے، یہ مقالہ دراصل اسی اساسی سوال کا جواب ہے۔

سند قانون ( Authority of Law) کا تصور

Authorityکالغوی اور اصطلاحی مفہوم:

ماہرین لغت نے سند (Authority) کے درج ذیل معانی ذکر کیے ہیں:* The right to issue commands without that right being questioned[1]

  • Power or right to enforce obedience; Moral or Legal supremacy; the right to command, or give an ultimate decision- Derived or delegated power; conferred right or title; authorization- The person whose opinion or testimony accepted[2]

اس سے درج ذیل اہم نکات معلوم ہوتے ہیں:

  1. کسی کو حکم دینے کا حق یا حاکم مجاز کا حکم یا حتمی فیصلے کا حق
  2. یہ جائز اختیارات کا نام ہے
  3. قانون کے نفاذ کا اختیار
  4. اخلاقی یا قانونی بالادستی
  5. کسی فرد یا ادارے کو اختیارات سونپنا
  6. وہ فرد جس کی رائے کو قبولیت کا درجہ حاصل ہو
  7. کسی چیز کی اساس اور بنیاد

یعنی Authority کے مفہوم میں جواز، اساس، بنیاد، طاقت، حق، اختیار اور بالادستی جیسے مفاہیم پائے جاتے ہیں[3]۔

قانون کی سند کا اصطلاحی مفہوم:

لفظ سند(Authority) کا مفہوم واضح ہو جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون کی سند سے مراد وہ امور ہیں جن کی بنیاد پر کسی چیز کو قانون کا درجہ دیا جا سکتا ہے اور وہ چیز قانونی جواز حاصل کرتی ہے۔ اس لحاظ سے اس بحث کو اصول قانون میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ ہر قانونی نظام اتھارٹی کا دعویٰ کرتا ہے:"Every legal system claims authority"[4]۔ کسی کو حکم دینے کا حق یا اختیار اتھارٹی کہلاتا ہے؛

Authority is the right to command and correlatively, the right to be obeyed" (Robert Paulwolff)[5]

اس تعریف پر یہ نقد کی گئی ہے کہ محض حکم دینے کا اختیار ہی اتھارٹی نہیں ہے بلکہ متعدد دیگر امور کا اختیار بھی اتھارٹی کے ضمن میں آتا ہے مثلاً قانون سازی کا اختیار یا حق، کسی کو اجازت دینے کا اختیار، عدالتی فیصلہ دینے کا اختیار یا کسی کو لازمی نصیحت کا حق وغیرہ یہ سب اتھارٹی کی مختلف صورتیں ہیں، اس لیے یہ تعریف جامع نہیں ہے،یعنی اتھارٹی ایسے مجرد اختیار کا نام نہیں ہے جس کی پشت پر کوئی قانون یا ضابطہ موجود نہ ہو، اس کے علاوہ بھی متعدد معانی بیان کیے گئے ہیں لیکن نسبتاً جان لوکس(John Lucas) کی اس تعریف کو جامع قرار دیا جاتا ہے:

A man or body of men, has authority if it follows from his saying "Let x happen, that x ought to happen"[6]

اس مفہوم کا اطلاق صرف سیاسی حکام (political authority) اور ہر نوع کے اوامر(command) پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر قسم کی اتھارٹی پر ہوتا ہے۔یہ دراصل قانونی نظام کے ایک پہلو یا ایک حصے سے متعلق عملی سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے۔ دیگر امور سے متعلق سوالات کے دیگر شعبوں میں جوابات دیے جاتے ہیں۔ یہاں اصل سوال یہ ہے کہ کسی فعل کے جو قانونی اثرات مرتب ہوئے ان کی اساس اور بنیاد کیا ہے اور اسے جواز فراہم کرنے والی قوت کونسی ہے۔قانونی نظام کے حوالے سے یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کے بغیر کوئی قانون یا قانونی نظام اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ قانونی جواز (Validity) یا عدم جواز ہی سند کی اساسی بحث ہے۔قانون کی نوعیت، اصلیت، تصور اور اس کی سندکے حوالے سے مغربی علماء قانون میں خاصا اختلاف پایا جاتاہے مثلاً اکیونس(Aquinas) کے نزدیک منشا ئے خداوند[7] (will of God) ، بینتھم اور آسٹن کے مطابق اہل حکومت کا فرمان[8] (will of the sovereign) ، کیلسن کے خیال میں Grundnorm[9]،ہارٹ کے نزدیک اصحاب مملکت یا ریاست کی منظوریRule of Recognition[10]اور بعض کے نزدیک قانون کی اساس ضرورت ہے۔[11]

فلسفہ قانون کے حوالے سے چند بڑے مکاتب فکر (Schools of Jurisprudence) ہیں۔ مثلاً کیلسن کا خالص علم قانون کا نظریہ (The Pure Science of Law ) عمرانی علم قانون(Socio logical Jurisprudence) ، قانون کی حقیقت پسندی کا نظریہ(Legal realism) ، نظریۂ افادیت(Theory of utilitarianism) وغیرہ،تقابلی مطالعے کے دوران ان تمام نظریات اور تصورات پر بحث ہو گی۔ ان نظریات کا خلاصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے* بعض مغربی مفکرین[12]کے نزدیک قانون صرف ان رسوم اور رواج کا نام ہے جسے ملکی حکومت کی توثیق حاصل ہو چکی ہے۔

  • بعض علماء قانون[13]کے نزدیک ریاست کی منظوری (sanction) قانون کی اساس ہے۔
  • بعض کا خیال[14]ہے کہ قانون کے لیے کسی ریاست یا مملکت کی منظوری اصل بنیاد نہیں ہے بلکہ یہ معاشرتی ضرورت کے تحت وجود میں آتا ہے۔ اور اس کا مقصد معاشرتی احتیاجات کی زیادہ سے زیادہ تسکین ہے۔
  • کچھ ماہرین قانون[15]کے نزدیک قانون کا سرچشمہ اچھائی اور نیکی کا وہ قدرتی احساس ہے جو ہرنسل میں موجود رہتا ہے یعنی قانون کی اساس حاکم کی مرضی یا رسم و رواج نہیں ہے۔
  • قانون کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ خوشی مہیا کرنا ہے۔ یہ جرمی بینتھم (Jeremy Bentham) اور مِل(Mill) کے اصول افادہ (Doctrine of utilitarianism) پر مبنی ہے۔
  • عمرانیاتی اسلوب مطالعہ میں قانون کے برسرعمل (Law in action) ہونے کا نظریہ سرفہرست ہے جس میں واقعات و حوادث کی تحقیق کی جاتی ہے۔
  • امریکی واقعیت پسند مکتب فکر کے نزدیک قانون کی مستقل تعریف نہیں بلکہ وہ معاشرہ کی طرح ہمیشہ تبدیلی کی زد میں رہتی ہے، اور اصل قانون وہ ہے جو جج فیصلہ کر دے، قطع نظر اس کے کہ کتابوں میں قانونی نظریات کیا ہیں۔
  • سیکنڈری نیونیز واقعیت پسندوں کے نزدیک سماجی حقائق ہی قانون کا دوسرا نام ہیں اور قانونی ضوابط جج صاحبان کے لیے محض ہدایات کا کام دیتے ہیں۔
  • کیلسن کے تصور قانون میں Ground Norm کا نظریہ اساسی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے نزدیک Legal Norms ہی قانون یا قانونی نظام سے عبارت ہے۔
  • ہارٹ بنیادی اور ثانوی قوانین کے اشتراک کو قانونی نظام قرار دیتا ہے جبکہ قانون کے جواز کے لیے Rule of Recognition کا ایک معیار تجویز کرتا ہے۔

اسلامی قانون کی سند کا تصور

اسلامی قانون کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کے فلسفہ قانون، قانون کی سند، قانون کی حدود و قیود اور قانون کے اطلاق وغیرہ سے متعلق مباحث دوسری صدی ہجری کے آغاز ہی میں شروع ہو گئی تھیں اور فقہاء نے ان مباحث پر سیرحاصل گفتگو کی ہے جو مغربی اصول قانون میں انیسویں بیسویں صدی میں موضوع بحث بنی ہیں۔ اس طرح مسلمان فقہاء نے عمومی اصول قانون(General Jurisprudence) کی بنیاد دوسری صدی ہجری میں رکھ دی تھی۔ متقدمین اور متاخرین مسلمان علماء اصول کا مؤقف بیان کرنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ اسلامی قانون کی سند کے حوالے سے ہم غیرمسلم مغربی علماء قانون کا نقطۂ نظر جان سکیں۔

مغربی علماء قانون میں سے بعض مثلاً کیر(Kerr) اور کولسنCoulson)) کا مؤقف یہ ہے اسلامی قانون (شریعہ) مذہبی احکام کانام ہے،جدید مفہوم میں ان شرعی احکام کو ’’قانون‘‘ کی اصطلاح سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ ایسے قوانین ہیں جو جامد (Rigid) اور ناقابل تغیر ہیں، جبکہ قوانین قابل تغیر اور زندہ معاشروں کے لیے ہوتے ہیں، اور معاشرتی ضرورتوں کے مطابق ان میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے[16]۔اس کے برعکس بعض مفکرین نے اسلامی قانون کی اپنے اپنے انداز میں تعریف کی ہے، اس کی حدود کا تعین کیا ہے اور اسلامی قانون کی سند کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ این۔ جے کلسن(N.J. Coulson) نے اسلامی قانون کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

"Law, in classical Islamic theory, is the revealed will of God, divinely ordained system preceding and not preceded by the Muslim state, controlling and not controlled by Muslim society"[17]

یہی مصنف لکھتا ہے کہ مغربی علماء قانون نے قانون کی بے شمار تعریفیں کی ہیں اور قانون کی ماہیئت کے سوال کے متعدد جوابات دیے ہیں لیکن اس کے برعکس مسلمان فقہاء کے ہاں اس کا ایک ہی جواب ہے:

"Law is the command of God"[18]سی۔ جی ویئرمنٹری(C.G Weeramantry) بھی "The origins of Islamic Law" کے عنوان کے تحت لکھتا ہے:

"Islamic Law is based on unqualified submission to the will of God"[19]بحیثیت مجموعی اسلامی قانون کو موضوع بحث بنانے والے مصنفین نے اسلامی قانون کی تعریف اور سند کے حوالے سے ایک جیسا مؤقف اختیار کیا ہے اور اسے الٰہی قوانین سے تعبیر کیا ہے۔

مسلمانوں میں ہمیشہ سے اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ قانون (حکم شرعی) کی سند اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا ہے، یعنی ذات باری کی مرضی و منشا حکم تکلیفی اور حکم وضعی کا مأخذ و سرچشمہ ہے۔ اس لیے اس بحث میں ’’حاکم‘‘ کی بحث کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔شرعی حکم کی تعیین میں عقل و دانش کا کسی حد تک دخل ہے یا نہیں، اگر ہے تو کس حد تک ہے۔ بالفاظ دیگر منشا الٰہی معلوم کرنے کا واحد ذریعہ وحی اور رسالت ہے یا انسانی فکر اور عقل کے ذریعہ بھی کسی حد تک منشا الٰہی کا تعین کیا جا سکتا ہے؟ بنیادی طور پر اس سوال کا تعلق فلسفہ اور علم کلام سے ہے، لیکن علماء اصول نے بالکل ابتدائی دور میں ہی اس حساس اور فکر انگیز موضوع پر گفتگو کی اور یہ اس دور سے ہی علمِ کلام اور اصول فقہ کا ایک اہم اور معرکۃ الآراء مسئلہ رہا ہے۔ اس حوالے سے تین مشہور مکاتب فکر پائے جاتے ہیں:

(i) معتزلہ (ii) اشاعرہ (iii) ماتریدیہ

معتزلی مکتب فکر

یہ ایک عقل پرست مکتب فکر تھا جس کا آغاز پہلی صدی ہجری کے اواخر میں ہی ہو گیا تھا۔ انہوں نے ہر مسئلے میں عقل و فکر کو اساسی اہمیت دی۔معتزلہ کے نزدیک عقل کی بنیاد پر ذات باری تعالیٰ (حاکم) کی مرضی معلوم کی جا سکتی ہے کیونکہ اشیاء میں حسن و قبح ان کا ذاتی وصف ہے۔[20] معتزلہ کے ایک گروہ نے عقل پرستی میں اس قدر غلو کیا ہے کہ انہوں نے بات یہاں تک کہہ دی کہ شریعت کا کام عقل کی دریافت کردہ صداقتوں کی تائید اور تصدیق ہے، اس طرح اس گروہ نے عقل ہی کو کلیدی اہمیت دے کر اسے ہی حقیقی حاکم کا درجہ دے دیا ہے۔[21] اس طرح حکم شرعی کی اساس یا سند عقل انسانی قرار پاتا ہے۔

شاعری مکتب فکر

اس مکتب فکر کے بانی امام ابوالحسن اشعری (م۳۳۰ھ) ہیں، جنہوں نے معتزلہ کی فکری گمراہیوں اور غلطیوں پر ان کی گرفت کی اور ان کا جواب دیا۔ معتزلہ کے برعکس اشاعرہ کا مؤقف یہ ہے کہ حاکم صرف اللہ تعالیٰ ہے، حاکم کی مرضی اور منشاء معلوم کرنے کا واحد ذریعہ وحی اور رسالت ہے۔ کسی چیز میں ذاتی حسن یا قبح (اچھائی یا برائی) نہیں بلکہ جس کے کرنے کا حاکم نے حکم دیا ہے وہ ’’اچھا‘‘ ہے اور جس کے کرنے سے روک دیا ہے وہ ’’بُرا‘‘ ہے۔ کسی چیز کے اچھا یا برا ہونے کا عقل سے فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے[22]۔اس نقطۂ نظر کے مطابق حکم شرعی کی اساس وحی الٰہی ہے اور منشا الٰہی معلوم کرنے کا ذریعہ صرف رسالت ہے۔[23] حکم شرعی ،اسلام کے تصور قانون، قانون کی سند اور حاکم (Law giver) سے متعلق اشاعرہ کا موقف بڑا واضح ہے اور اسلامی تصور قانون کا بہترین نمائندہ نظریہ ہے، لیکن اس نظریے کے مطابق عقل انسانی اور فکر و دانش کا دائرہ خاصا محدود ہو جاتا ہے[24]۔

ماتریدی مکتب فکر

یہ مکتب فکر ابومنصور ماتریدی(م۳۳۳ھ) کی طرف منسوب ہے۔ علم الکلام میں احناف کا مکتب فکر وہی ہے جو ابو منصور ماتریدی کا ہے[25]۔ان کامؤقف یہ ہے کہ افعال و اشیاء میں اچھائی یا برائی ذاتی طور پر پائی جاتی ہے۔ حاکم حقیقی نے جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں اچھائی (ذاتی طور پر)پائی جاتی ہے اور جن امور سے منع کیا ہے ان میں برائی یا شر (ذاتی طور پر) پایا جاتاہے۔ عقل کا مقام یہ ہے کہ وہ اچھائی یا برائی معلوم کرنے کا ذریعہ ہے[26]۔یہ نقطۂ نظر معتزلہ کی خالص عقل پرستی اور اشاعرہ کی عقل کی مکمل نفی کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں وحی الٰہی اور رسالت کے ساتھ ساتھ عقل انسانی کو ایک مناسب اور موزوں مقام عطا کیا گیا ہے، اس کے محدود دائرہ کار کا تعین بھی کیا ہے اور اسے مکمل بے لگام بھی نہیں چھوڑا ہے[27]۔ یہی وجہ ہے کہ عہد جدید کے بہت سے مسلمان مفکرین نے اس نقطۂ نظر کو موزوں قرار دیا ہے[28]۔ اس طرح اس مؤقف کے مطابق حاکم حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ،وہی قانون کا سرچشمہ اور حتمی سند ہے، لیکن منشا الٰہی کے تعین میں عقل کا بھی ایک دائرہ کار ہے۔ گو کہ بظاہر یہ کردار محدود ہے لیکن غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے، اس طرح حکم شرعی میں عقل انسانی کو بھی کسی درجہ میں سند(Authority) حاصل ہے[29]۔صاحب فواتح الرحموت نے اس مسئلہ پر بڑی مدلل گفتگو کی ہے، لکھتے ہیں:

اس سے معلوم ہوا کہ ’’محل نزاع‘‘ حاکم یا حکم شرعی نہیں ہے، اس پر تمام امت متفق ہے کہ حاکم صرف اللہ ہی ہے، اس کے بغیر اسلام کا دعویٰ ہی معتبر نہیں ہو سکتا، البتہ نزاع اس بات میں ہے کہ آیا عقل کے ذریعہ بھی بعض احکام الٰہیہ دریافت کیے جا سکتے ہیں اور یہ کہ اچھائی اور برائی کے لیے معیار عقل بھی ہو سکتی ہے یا صرف شریعت ہے[30]۔

سندِ قانون کے لحاظ سے اسلامی قانون اور مغربی قانون کا تقابل:

اسلامی قانون اور مغربی قانون بالفاظ دیگر انسانی قانون کے درمیان سند کے لحاظ سے جو اساسی فرق ہے اس کی وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ انسانی قانون کی نشوونما کیسے ہوتی ہے، اس کے ارتقاء کی تاریخ کیا ہے، یہ کب شروع ہوا ہے اور کن مراحل سے ہوتا ہوا موجودہ منزل تک پہنچا ہے، کن عوامل نے اس کی تہذیب و تکمیل میں حصہ لیا ہے۔

مغربی قانون کا ارتقاء: فلسفہ قانون کے ماہرین انسانی قانون کے ارتقاء کی جو تاریخ بیان کرتے ہیں جزوی اختلاف سے قطع نظر قدر مشترک یہ نظریہ ہے کہ انسانی اجتماعیت کی بالکل ابتدائی صورت یعنی خاندانی اور قبائلی زندگی کے آغاز ہی سے قانون کی ابتدا ہو گئی تھی۔[31] اس کی ابتدائی اور عملی صورت یہ تھی کہ خاندان کے سربراہ یا قبیلے کے سردار کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ ہی قانون کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بالکل ابتدائی معاشروں میں بھی قانون کا نظریہ کسی حد تک پایا جاتا تھا۔ اس ضمن میں زمانہ قبل مسیح (۲۰۸۴۔۲۰۸۱) میں آسریہ اور بابل کے حکمران بادشاہ کے مجموعہ تعزیرات (جسے تعزیرات حمور ابی (Code of Hammurabi) کا نام دیا جاتا ہے) کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے[32]۔

ارتقاء کا دوسرا مرحلہ: عہد قدیم کے خاتمے کے بعد قانون رسمیات(Formalism) کے دور میں داخل ہوا۔[33] اس طرح ماہرین قانون کا ایک گروہ پیدا ہوا اور قانونی اصطلاحات وجود میں آنے لگیں۔ قانون کی تشکیل میں اس دور کے رسم و رواج کا بڑا حصہ ہے لیکن مذہبی رسوم اور اخلاقی اقدار کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔اس دور میں ریاست کے وجود میں آنے سے قانون میں کسی حد تک یکسانی پیدا ہوئی اور قانون سازی کے ادارے وجود میں آئے جب ریاست نے اپنے دائرۂ اقتدارمیں مختلف قبائل کے قوانین اور رسوم میں اختلاف محسوس کیا تو اپنے استحکام کے نقطہ نظر سے اس اختلاف کو دور کر کے ان قوانین کو ایک ضابطے کی شکل دی جو پوری قوم کے لیے یکساں اور قابل قبول ہو۔

ارتقاء کا تیسرا مرحلہ: اٹھارویں صدی کا اواخر قانون کے نقد و تبصرہ کا دور ہے۔ اس دور میں پہلی مرتبہ قانون کے عام اصول دریافت کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دور میں قانون ایک کلاسیکل عہد میں داخل ہوا۔ اس دور میں مختلف قوموں کے قوانین میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کو دور کرنے کا رحجان پیدا ہوا، عدل و انصاف کے آفاقی اصولوں کی تلاش اور جستجو بھی اسى دور میں شروع ہوئی۔ فلسفہ قانون کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس دور میں قانون کی اساس رسم و رواج کے بجائے ان عملی اور فلسفیانہ نظریات پر ہے جو اصول عدل اور نظریہ مساوات پر مبنی ہیں اور ان کی حیثیت عالمگیر اصولوں کی ہے[34]۔

اسلامی قانون کا ارتقاء

اسلامی قانون کا سرچشمہ قرآن مقدس ہے، وہ اسلامی قانون کے ارتقاء کی تاریخ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: " قُلْنَا اهْبِطُواْ مِنْهَا جَمِيعاً.... هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ[35] ’’ہم نے کہا: یہاں سے سب اُترو، اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت (زندگی گزارنے کا قانون) آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے، تو ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو کفر کریں گے اور میری آیات کو جھٹلائیں گے وہی لوگ دوزخ والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔

اسلامی نقطۂ نظر سے انسان نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز تاریکی سے نہیں بلکہ وحی کی روشنی میں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو حواس اور جوہر عقل سے بھی نوازا لیکن اسے رہنمائی کے لیے ناکافی سمجھتے ہوئے وحی کے ذریعہ اپنی پسند و ناپسند کا علم بھی دیا، یعنی انسان نے جب سے دنیا میں قدم رکھا ہے اسی وقت سے اس قانون کا آغاز بھی ہوا ہے۔ یہی قانون اپنی مکمل اور آخری شکل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔ اسلامی قانون کے آغاز و ارتقاء کے سلسلے میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں پایا جاتا کیونکہ یہ کسی ایک یا چند انسانوں کا خود ساختہ قانون نہیں ہے بلکہ خود خالق کائنات کا عطا کردہ قانون ہے۔اسلامی قانون کے آغاز و ارتقاء کے بارے میں ڈاکٹر عبدالقادر عودہ شہید[36]لکھتے ہیں:

"ایسا نہیں تھا کہ ابتدائی حالت میں شریعت چند مختصر سے قواعد، متفرق و منتشر اصول اور ابتدائی اور نامکمل نظریات کا نام رہا ہو، پھر ان میں تنظیم اور پختگی پیدا ہوئی ہو۔ اس کی تخلیق کسی بچے کی حیثیت سے نہیں ہوئی کہ اس میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں ہوئی ہوں، بلکہ وہ تو اپنے یوم پیدائش ہی سے پورے شباب کو پہنچی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر نقص سے پاک، کامل اور ہمہ گیر اور جامع و مانع صورت میں اتارا‘‘[37]۔

اسلامی قانون کی ابتداء: ممتاز مغربی محققین کی نظر میں

اسلامی قانون کی ابتدائی تاریخ مستشرقین کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ کسی کا نتیجہ فکر یہ ہے کہ اسلامی قانون رومن قانون کا چربہ ہے،[38] کسی کے خیال میں قرآن کی قانون سازی نامکمل تھی اور اس خلاء کو جاہلی رسوم و رواج کے ذریعہ پُر کیا گیا، بعد کے ادوار میں ان رسوم و رواج کو حُجّت کی حیثیت دینے کے لیے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نظریہ پروان چڑھایا گیا[39]۔ اس کے برعکس بعض مستشرقین نے مذکورہ نظریات کی نفی کی ہے۔[40] معاصر مسلم فقہاء نے مضبوط اور مُسکت استدلال کے ساتھ ان نظریات کی بھرپور تردید کی ہے اور ان مفروضات کی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے، ڈاکٹر محمد اختر سعید صدیقی مستشرقین کے مخصوص طریقہ تحقیق کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ان تمام ہی حضرات نے اپنی تحقیقات کے لیے چند مفروضات قائم کیے ہیں اور پھر ان کی بظاہر صداقت ثابت کرنے کے لیے کچھ دلائل تلاش کر لیے ہیں‘‘[41]معروف ماہر قانون ڈاکٹر عبدالرزاق سنہوری لکھتے ہیں:

’’اسلامی شریعت اور رومی قانون کے درمیان اختلاف جوہری ہے کیونکہ اسلامی شریعت وحی الٰہی پر مبنی ہے اور یہ سب سے اہم سبب ہے جو اسلامی قانون کو دوسرے نظامہائے قانون سے ممتاز کرتا ہے، اور اس کے اور رومی قانون اور دیگر وضعی قوانین میں عظیم فرق کرتا ہے‘‘[42]۔مصر اور عرب دنیا کے بعض ماہرین قانون نے بھی اسے موضوع بحث بنایا ہے۔ ان میں زیادہ نمایاں استاد علی البدوی[43]،ڈاکٹر عبدالکریم زیدان[44]،ڈاکٹر شحاتہ[45]،ڈاکٹر محمد یوسف موسیٰ[46]،ڈاکٹر صبحی محمصانی[47]اور دیگر فقہاء[48]نے نہایت مدلّل انداز سے ان مفروضات کی تردید کی ہے۔معروف سکالر ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں:

"اسلامی قانون کے ظہور پذیر ہونے کی یہ صورت قطعاً نہیں کہ ابتداء میں یہ چند معمولی اصول تھے جو مرور ایام سے ترقی کرتے گئے اور آخر وہ شکل اختیار کر لی جو ہمارے سامنے ہے۔ اس کے وجود پذیر ہونے کی یہ صورت بھی نہیں کہ کسی معاشرے میں ابتداءً کچھ رسوم موجود تھے اور ان کو بعد میں مدوّن کر لیا گیا، نہ اس کی صورت یہ ہے کہ خاص زمانہ میں کسی قبیلے یا برادری میں نظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے کچھ قواعد و ضوابط موجود تھے اور ان قواعد و ضوابط پر قبیلے کا سردار یاکوئی اور ذمہ دار شخص زبردستی لوگوں سے عمل کرایا کرتا تھا۔۔۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی دوسری صورتیں جو یورپ کے قانون دانوں کی درسگاہوں اور تخیلاتی جولانیوں کی پیداوار ہیں، باقى انسانى نظامہائے قانون کی آفرینش کی کہانیاں تو ہو سکتی ہیں لیکن اسلامی قانون کے ظہور سے ان کاکوئی علاقہ نہیں، اسلامی قانون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی صورت میں نازل کیا ہے۔ یہ حجۃ الوداع کے روز بھی اس طرح مکمل اور جامع تھا جس طرح آج ہے’’[49]۔

اسلامی قانون اور مغربی قانون کا ارتقاء کے لحاظ سے جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی قانون کی نوعیت اور مزاج کلی طور پر انسانی قوانین سے مختلف ہے، جزوی مشابہت تو ممکن ہے لیکن مجموعی لحاظ سے دونوں میں کسی قسم کی مماثلت نہیں ہے[50] اور یہ مماثلت ممکن بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ اسلامی قانون خالق کائنات کا عطا کردہ قانون ہے جبکہ انسانی قانون انسان کا خود ساختہ قانون ہے، اس لحاظ سے دونوں کا پس منظر اور ارتقاء ایک دوسرے سے مختلف ہے[51]۔

چونکہ مغربی قانون میں مختلف مکاتبِ فکر ہیں اور ہر ایک کے ہاں قانون کا تصور اور قانون کی سند مختلف ہے، اسی طرح حکم شرعی کے تعیین کے بارے میں فقہاء میں اختلاف آراء پایا جاتا ہے، گو کہ یہ اختلاف اساسی نہیں ہے بلکہ جزوی نوعیت کا ہے لیکن بعض امور میں قابل ذکر حد تک اختلاف موجود ہے۔ اس لیے سند کے لحاظ سے تمام مکاتب فکر کی آراء کا تفصیلی جائزہ لے کر اسلامی قانون اور مغربی قانون میں تقابل کیا جائے گا۔

آسٹن کا تصور سندِ قانون اور اسلامی قانون

تجزیاتی مکتب فکر(English analytical school)

:اس مکتب فکر کا بانی جرمی بینتھم(Jeremy Bentham) (1748-1832)کو تصور کیا جاتا ہے لیکن اسے شہرت جان آسٹن کے قانون کے تجزیاتی مطالعہ اور تحریروں سے ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر جان آسٹن کو اس مکتب فکر کا حقیقی بانی تصور کیا جاتا ہے[52]۔آسٹن کا تصور قانون "command theory" کے عنوان سے قانونی حلقوں میں معروف ہے جس کا مختصر الفاظ میں مفہوم یہ ہے کہ مقتدراعلیٰ کا حکم قانون ہے، یعنی یہ کہ will of sovereign ہی قانون کی سند ہے۔ قانون دہندہ یا شارع (Law giver) حاکم وقت ہے جسےسیاسی لحاظ سے بالادستی حاصل ہوتی ہے اور قوانین ان کے لیے بنائے جاتے ہیں جو سیاسی لحاظ سے اس کے ماتحت ہوتے ہیں ۔

(ii)قانون اور مذہب کا تعلق: آسٹن قانون کو مذہب سے کلی طور پر آزاد رکھنا چاہتا ہے۔آسٹن واضح طور پر انسانی قوانین(Positive Law) اور خدائی قوانینDivine Laws)) میں فرق کرتا ہے اور اس کے نزدیک فلسفہ قانون(Jurisprudence) کا موضوع صرف انسان کے وضع کردہ قوانین ہیں۔[53]

(iii) قانون اور اخلاقیات کا تعلق:آسٹن کے تصور قانون کے مطابق اخلاقیات کا قانون سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ قانون کے لیے معیار اصول ’’افادہ‘‘ ہے اور تجزیاتی فکر کے حامل مفکرین کے نزدیک زمین پر رہتے ہوئے حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں ۔

ماہرین قانون نے اخلاق اور قانون کے تعلق کی بحث کو غیرمعمولی اہمیت دی ہے کیونکہ قانون کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بآسانی معلوم کی جا سکتی ہے کہ ہر قوم کے قانون پر اس کی تہذیب، مذہب اور اخلاقیات نے گہرا اثر ڈالا ہے۔

اسلامی قانون میں حاکم وقت کے حکم کی قانونی حیثیت؛حاکم وقت کی قانونی حیثیت کے تعیین میں قرآن مقدس کا یہ ارشاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً" [54]

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر (حاکم) ہوں اگرکسی معاملے میں تمہارے درمیان نزاع ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیرو، اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی اچھا ہے۔‘‘

مفسرین کے نزدیک اولوا ا لأمر کے مفہوم میں حکام، فقہاء اور سیاسی قائدین سب شامل ہیں۔ امام زجاج لکھتے ہیں:

’’اولوالامر سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے دینی امور اور ان کے تمام بھلائی اور بہبود کے کاموں کے لیے کوشاں رہتے ہیں‘‘۔[55]امام قرطبی اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’هم اولو العقل والرای الذین یدبرون أمرالناس‘‘[56]یعنی ’’اولوا الأمر‘‘ قوم کے عقل مند اور صاحب رائے لوگ ہوتے ہیں جو لوگوں کے معاملات کی تدبیر کرتے ہیں۔

مسلمان حکمران کی اطاعت کی حدود و قیود: آسٹن کے نظریے کے برعکس اسلامی قانون میں حاکم وقت کی منشا یا مرضی قانون کا سرچشمہ نہیں ہے۔ آیت میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ سب سے مقدم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ یہ اطاعت ہر دوسری اطاعت پر مقدم ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بات زیادہ صراحت سے بیان کی گئی ہے:" إن أمر علیکم عبد مجدع یقودکم بکتاب الله فاسمعوا وأطیعوا"[57]

’’اگر تم پر کوئی نکٹا غلام بھی امیر بنا دیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو‘‘یعنی حاکم وقت کی اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت کے تحت ہے نہ کہ اس سے آزاد۔

آسٹن کے ہاں حاکم وقت غیرمحدود اختیارات کا حامل ہے اور اس کی اطاعت بھی غیرمشروط اور ناقابل تقسیم ہے جبکہ اسلامی قانون میں حاکم وقت کی اطاعت محدود اور مشروط ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:لاطاعة فی معصية الله انما الطاعة فی المعروف[58]۔

گزشتہ بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے:

  1. آسٹن کے نزدیک حاکم وقت کی مرضی سندِ قانون ہے جبکہ اسلامی قانون میں احکم الحاکمین کی مرضی سند قانون ہے اور حاکم وقت بھی اسی کی مرضی کا تابع ہے۔
  2. آسٹن کے ہاں حاکم وقت مقتدراعلیٰ ہے جبکہ اسلامی قانون میں مقتدراعلیٰ یا حاکمیت صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے[59]۔
  3. آسٹن کے نظریے کے مطابق حاکم وقت غیرمحدود اختیارات کا حامل ہوتا ہے، اس کے اوپر کوئی بالادست نہیں ہوتا اور نہ وہ کسی قاعدے قانون کا پابند ہوتا ہے جبکہ اسلامی قانون میں حاکم وقت کے اختیارات محدود اور مشروط ہوتے ہیں، اس کے اوپر ایک بالاتر قوت (اللہ تعالیٰ) موجود ہوتی ہے، وہ بھی اسی طرح قانون کا پابند ہوتا ہے جس طرح ملک کا عام شہری، اور وہ اپنے مالک اور عوام دونوں کو جواب دہ ہوتے ہیں۔
  4. آسٹن کے تصور قانون کے مطابق قانون کا اخلاقیات اور مذہب سے کوئی رشتہ یا تعلق نہیں ہے جبکہ اسلامی قانون کی اساس دین اسلام ہے اور اسلامی قانون اور اخلاقیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے[60]۔

تاریخی مکتب فکر:

اس مکتب فکر کا بانی ون سیوگنی(Von Savigny) ہے، یہ جرمنی کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے ۱۸۱۴ء میں قانون کا اپنا ایک واضح تصور پیش کیا۔ مرکزی سوال یہ تھا کہ قانون وجود میں کیسے آیا؟ اس مکتب فکر کے حقیقی نمائندہ ہنری (Sir Henry Maine) ہے ان کا تعلق انگلینڈ سے ہے اور انہوں نے "Anthropological approach" کو ترقی دینے میں مرکزی کردار ادا کیاہے۔ قانون کی سند سے متعلق اس مکتب فکر کے خیالات کا خلاصہ درج ذیل ہے:* قانون دریافت کیا جاتا ہے بنایا نہیں جاتا[61]،اور زبان کی طرح بتدریج وجود میں آتا ہے۔

  • قانون کی اساس یا سند کسی معاشرے کے داخلی احساسات اور اس کا شعور ہے۔
  • قانون کی سند حاکم کا حکم یا رسم و رواج نہیں بلکہ اس کا سرچشمہ اچھائی اور نیکی کا شعور ہے[62]۔
  • قانون کا جواز اس کی زندگی میں مضمر ہے۔
  • قانون کو سمجھنے کے لیے تاریخی محرکات کا مطالعہ ناگزیر ہے۔

اسلامی قانون (حکم شرعی) کے نزول میں تدریج کا عنصر ضرور موجود ہے کہ یہ تئیس سال کے عرصے میں حسب ضرورت نازل ہوا ہے۔ لیکن اس کے بعد قیامت تک وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ یہ تو حکم شرعی کا وہ حصہ ہے جس کے بارے میں حاکم حقیقی (Law giver) نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قانون سازی کر دی ہے۔ البتہ دوسرا حصہ جس میں شارع کی طرف سے واضح ہدایات نہیں ہیں وہاں اجتہاد کا وسیع میدان ہے۔ امت مسلمہ کا اجتماعی ضمیر جس بات پر مطمئن ہو جاتا ہے یعنی وہ اجتماع کی شکل اختیار کر لے وہ بھی قانون کا درجہ حاصل کر لیتا ہے اور کسی مجتہد کا وہ اجتہاد جو مقاصد شریعت سے ہم آہنگ ہو اسے بطور قانون قبولیت حاصل ہو جاتی ہے۔

سند کے لحاظ سے تقابل:

تاریخى مکتب فکر کے نزدیک قانون کی سند نیکی کا وہ فطری احساس ہے جو ہر نسل میں موجود رہتا ہے، اور قانون بنایا نہیں جاتا بلکہ دریافت کیا جاتا ہے۔ قریب قریب یہی بات معتزلہ نے بھی کہی ہے۔[63]یعنی معتزلہ کے نزدیک اچھائی یا برائی کو عقل کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے ۔کسی حد تک یہ جزوی مشابہت اسلامی قانون کے بعض تصورات اور تاریخی مکتب فکر میں پائی جاتی ہے لیکن اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اسلامی قانون کی سند صرف منشا الٰہی ہے اور منشا الٰہی معلوم کرنے کا ذریعہ صرف شریعت ہے[64]،البتہ جہاں شریعت کا حکم واضح نہیں ہے وہاں زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ شریعت کے مزاج اور مقاصد کے ہم آہنگ قانون بنایا جا سکتا ہے۔

عمرانی مکتبِ فکر کے نزدیک قانون کی سند اور اسلامی قانون؛

عمرانی مکتب فکر(Sociological Jurisprudence):

اس مکتب فکر میں امریکہ کے ڈین پاؤنڈ(Dean Pound) کو قیادت کا درجہ حاصل ہے۔ یورپ میں اس فکر کے بانی Duguit[65]اورDurkheimجیسے ممتاز قانون دان ہیں۔عمرانی اسلوب مطالعہ تاریخی اسلوب ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے، اس لیے تصور قانون اور سندِ قانون کے حوالے سے ان کا اساسی مؤقف بھی قریب قریب ہے۔ البتہ تفصیلات میں نہ صرف ان دونوں اسالیب کے نمائندہ ماہرین قانون کی آراء میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے، بلکہ اب تو جدید عمرانی علم قانون کے متعدد مکاتب فکرہیں جن کے خیالات اور تصور قانون کے حوالے سے آراء ایک دوسرے سے مختلف ہیں[66]۔اس مکتب فکر کے تصورِ قانون پر ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں:

’’رسکو پاؤنڈ کے مرتب کردہ اس معاشرتی جورس پروڈنس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کا کوئی طے شدہ اور متعین تصور نہیں جو اس نئے رحجان کی نمائندہ تحریروں میں مشترک ہو۔ اس رحجان کا بنیادی مفروضہ ہی یہ ہے کہ قانون میں کوئی یکسانیت نہیں ہے۔ یہ رحجان قانون کا مطالعہ کسی نظریے یا اصول کے طور پر نہیں کرتا بلکہ قانون کو برسرعمل دیکھتا ہے۔ لاء ان ایکشن (Law in action) کے دلچسپ اور خوبصورت عنوان کے پردہ میں قانون کے کسی بنیادی اور مربوط نظریے کا انکار مخفی ہے‘‘[67]۔اس مکتب فکر کے نمائندہ علماء قانون کا دعویٰ ہے کہ وہ :* معاشرہ میں موجود قانونی رویوں کا غیرجانبدارانہ اور معروضی اندازسے مطالعہ کر کے نتائج بیان کرتے ہیں[68]۔

  • معروضی انداز سے اس أمر کا مطالعہ کرتے ہیں کہ قانون کی دنیا میں قانون کے نام پر فی الحقیقت کیا ہو رہا ہے[69]۔
  • عملاً پیش آنے والے واقعات کو زیربحث لاتے ہیں قطع نظر اس کے کہ فی الواقع اچھا کیا ہے؟ اور برا کیا ہے؟[70]
  • قانون کی سند کے بجائے قانون کے مقصد اور غرض و غایت پر زیادہ زور دیتے ہیں،[71] مثلاً یہ کہ قانون کے ذریعے کم سے کم محنت کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ چاہتوں کی تسکین ہوتی ہے، قانون توازن اور اعتدال پیدا کرتا ہے[72]۔

سند کے لحاظ سے دونوں کاتقابل

مسلم مفکرین کے ہاں بھی عمرانیاتی اسلوب کے بارے میں بڑی عمدہ بحثیں ملتی ہیں۔ ان میں علامہ ابن خلدون[73]، علامہ شاطبی[74]اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی[75]کی کاوشیں نمایاں ہیں، لیکن سند قانون کے حوالے سے جہاں تک عمرانیاتی اسلوب اور حکم شرعی کا تعلق ہے تو یہاں (اسلامی قانون میں) عمرانیاتی اسلوب مطالعہ کی گنجائش بہت کم ہے۔ان دونوں میں تقابلی مطالعہ سے درج ذیل پہلو سامنے آتے ہیں:* اصول فقہ یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اسے انسانی رویوں کے حسن و قبح یا اچھا برا ہونے سے بحث نہیں بلکہ یہاں اساسی بحث ہی یہ ہے کہ حکم شرعی کی بنیاد ہی اچھائی یا برائی پر ہے۔ اسلامی قانون کا موضوع بحث ہی انسانی رویوں کا حسن و قبح ہے، یہاں پر ہر چیز کے حسن و قبح کا فیصلہ کرنے میں حتمی سند وحی الٰہی ہے[76]۔

  • عمرانیاتی اسلوب کا منطقی اثباتیت اور اخلاقی اضافیت کے غیراسلامی عقائد سے تعلق ہے جبکہ اسلامی قانون کا آخرت کی جوابدہی سے بڑا گہرا تعلق ہے[77]۔
  • اسلامی قانون میں عمرانی اسلوب کے برعکس قانونی رویوں کا غیرجانبدارانہ مطالعہ نہیں کیا جاتا بلکہ خالص وحی الٰہی کی روشنی میں جانبدارانہ مطالعہ کیا جاتا ہے کہ قانون کی دنیا میں جو ہو رہا ہے وہ کس حد تک حکم شرعی اور مقاصد شریعت سے ہم آہنگ ہے اور کس حد تک متعارض ہے۔[78]
  • حکم شرعی میں بندوں کی زیادہ سے زیادہ چاہتوں کی تسکین کے بجائے ان کی مصلحت کو ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ کس چیز میں بندوں کا دینی، اخلاقی یا دنیوی فائدہ ہے اور کس چیز میں ان کا نقصان ہے۔
  • عمرانیاتی مکتب فکر کے نزدیک قانون کی سند مجرد انسانی عقل ہے جبکہ اسلامی قانون میں قانون کی آخری سند وحی الٰہی ہے گو کہ عقل کے عمل دخل سے انکار نہیں لیکن اس کی حدود کا تعین کیا جا چکا ہے کہ مجتہدین کے اجتہاد کا دائرہ کار کیا ہے۔
  • عمرانیاتی مکتب فکر کے برعکس اسلامی قانون اقدار اور اخلاق پر مبنی ہے۔
  • اسلامی قانون میں سند کے حوالے سے ایک متعین اور طے شدہ مؤقف ہے جبکہ عمرانیاتی مکتب فکر میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔

کیلسن کا نظریہ قانون اور اسلامی قانون:

ہنس کیلسن(Hans Kelson) کا نظریہ قانون اپنے پیش ر و مصنّفین اور مکاتب فکر کے خلاف ردعمل کا اظہار ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک مختلف مکاتب فکر مثلاً تاریخی، عمرانیاتی، تجزیاتی وغیرہ موضوع بحث بنے ہوئے تھے، ان سب کے ردعمل میں کیلسن نے علم قانون کو سائنسی علم قرار دینے کی کوشش کی ہے[79]۔

کیلسن کا خالص علم قانون(Kelson's pure theory of Law)

یہ نظریہ قانون درج ذیل مفروضات پر مبنی ہے:

  1. قانون کو اخلاقیات، سیاسیات، عمرانیات، تاریخ اور دیگر اثرات سے بالکل آزاد ہونا چاہیے یعنی ان تمام اثرات سے الگ کر کے خالص قانون جیسا کہ قانون موضوعہ ہے(Law as it is) کی بنیاد پر اس کا مطالعہ کیا جائے[80]۔
  2. قانون کیمیا، طبیعات اور دوسرے تمام قدرتی علوم سے الگ ہونا چاہیے[81]کیونکہ قانون اس امر کی وضاحت نہیں کرتا کہ کوئی واقعہ کس طرح رونما ہوا ہے بلکہ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ خاص خاص قواعد منضبط کرے اور عمل کے ایسے معیار قائم کرے کہ لوگوں کو اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
  3. دیگر اثباتیت پسندوں (positivists) کی طرح اس نظریہ قانون میں بھی اس بات کے مطالعہ پر زور دیا جاتا ہے کہ قانون کی دنیا میں حقائق کیا ہیں یعنی اس اعتبار سے مطالعہ کیا جاتا ہے کہ وہ کیا ہیں، نہ کہ اس اعتبار سے کہ کیا ہونا چاہیے، چونکہ سائنس میں چیزوں کے حقائق سے بحث ہوتی ہے کہ وہ کیا ہیں، اور علم قانون بھی سائنسی علم ہے اس لیے اس میں بھی اس حیثیت سے مطالعہ ہونا چاہیے[82]۔
  4. نظریہ قانون میں یکسانیت ہونی چاہیے تاکہ اسے ہر جگہ اور ہروقت قبولیت حاصل ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے کیلسن نے نظریہ قانون میں زیادہ عمومیت(Generalize) پیداکرنے کی کوشش کی ہے[83]۔ اس کے نزدیک قانون اور ریاست ہم معنی الفاظ ہیں اور ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ جب قانونی نظام کے مختلف اعضاء ترقی کر کے قانون وضع کرنے، اس کی تشہیر کرنے اور اس کے نفاذ کے قابل ہو جاتے ہیں تو وہ قانون ریاست بن جاتا ہے۔
  5. قانون کی تعریف انصاف کے حوالے سے بھی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ بہت سے قوانین غیرمنصفانہ ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں، پھر بھی وہ قوانین ہوتے ہیں۔ نظریہ انصاف خلاف منطق ہے۔

سند کے لحاظ سے دونوں کا تقابل:

کیلسن کے نزدیک جس چیز کو "Ground Norm" قرار دیا گیا ہے اور جس سے تمام قوانین اپنے وجود کا جواز تلاش کرتے ہیں، اسلامی قانون میں بعینہٖ اسے منشاء الٰہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی کو حکم شرعی کہا جاتا ہے[84]۔

کیلسن اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر قانونی نظام میں ایک جیسا قانونِ اساسی (Groundnorm) ہو، ممکن ہے کہیں کسی ڈکٹیٹر کی مرضی "Groundnorm" ہو اور کسی جگہ کوئی تحریری دستور۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر قانون میں یہی چیزیں قانونِ اساسی کا درجہ رکھتی ہوں۔ البتہ ہر قانونی نظام میں ہمیشہ کوئی اساسی قانون ہوتا ہے[85]جہاں تک اسلامی قانون کا تعلق ہے تو وہ اس سلسلے میں بالکل واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ"[86]

(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی، اور اطاعت کرو رسول کی اور جو تم میں سے صاحب امر ہوں ،اگر کسی چیز میں تمہارے درمیان نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو باقی تمام اطاعتوں پر مقدم ذکر کیا ہے اور پھر کسی نزاع(Dispute) کی صورت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس بارے میں پہلے اللہ کا اور پھر رسول کا حکم دیکھو، یعنی حتمی سند(Final Authority) اللہ کا حکم ہے۔ اسی کو کیلسن اپنی اصطلاح میں "Groundnorm" کا نام دیتا ہے جو ہر قانونی نظام میں لازماً ہوتی ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر جگہ ایک ہی ہو۔

کیلسن کے اس تصور سند اور اسلامی قانون کے تصور سند میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے[87]گو کہ اس کا یہ تصور قانون کسی طرح بھی اسلامی قانون سے مناسبت نہیں رکھتا کہ قانون کو اخلاقیات سے پاک ہونا چاہیے کیونکہ اسلامی قانون کی اساس ہی اخلاقیات اور آخرت کی جوابدہی کے احساس پر ہے، ان دونوں کا تعلق غیرمنفک ہے۔ اسی طرح کیلسن کا دعویٰ ہے کہ اس کا تصور قانون تمام غیر ضروری مواد سے پاک صاف خالص علم قانون ہے جو ہر قسم کے سماجی اور مذہبی اثرات سے آزاد ہے لیکن دوسری طرف اس کا مؤقف یہ ہے کہ جب کوئی "Groundnorm" کم از کم حمایت کے حصول میں ناکام ہو جائے تو وہ "Groundnorm" کا درجہ کھو دیتی ہے۔ یہاں کیلسن خود سماجی ا ثرات اور عوامل کو قبول کر کے اپنے نظریے کی نفی کر رہا ہے[88]یعنی اس کے اپنے مؤقف میں بھی تضاد ہے جبکہ اسلامی قانون کی بنیاد خالص مذہبی عقائد پرہے اور حکم شرعی کا مخاطب قیامت تک آنے والا معاشرہ ہے، اس لیے ان دونوں کو کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خود مغربی علماء قانون نے اس تصور قانون کو محض تصوراتی اور خیالی قرار دیا ہے جس کا قانون کی عملی دنیا سے کم ہی تعلق ہے۔

اسلامی قانون اور قانون قدرت میں سند قانون: ایک تقابل:

قانون قدرت(Natural Law)

نیچرل لاء کے مختلف تاریخی ادوار میں مختلف مفاہیم مروج رہے ہیں،[89]کبھی اس کو مذہب اور اخلاق کے مفہوم میں استعمال کیا گیا اور کسی دور میں اس سے مکمل سیکولر مفہوم مراد لیا گیا ۔ لیکن اس کا کوئی ایک مفہوم آج بھی متعین نہیں کیا جا سکا جیسا کہ معروف مغربی سکالر جارج وائٹ پیٹن لکھتا ہے:

The story of natural law begins with the philosophers of ancient Greece and its true meaning is still a matter of controversy today"[90]

قرونِ وسطیٰ کی سیاسی و قانونی فکر پر مذہب (مسیحیت) حاوی تھا، اس دور کے نظریات میں مذہبی ودینی اصولوں سے استناد کیا جاتا تھاسولہویں صدی عیسوی کے بعد یورپ میں جہاں سیاسی، معاشی اور مذہبی نظریات میں تبدیلیاں آئیں وہیں قانونی فکر میں بھی خاصی تبدیلی رونما ہوئی۔ اس دور میں مسیحیت کے مذہبی پیشوا پے در پے شکست کھا رہے تھے اور عقلی و سائنسی فکر کو مسلسل فتح حاصل ہو رہی تھی، نتیجتاً اخلاق اور مذہب کوقانون سے کلی طور پر الگ کر دیا گیا اور اس خلا کو آزاد خیال اور سیکولر قوتوں نے پُر کیا[91]۔ اس سے قبل قانون قدرت کو قانون موضوعہ پر بالادستی دی جاتی تھی[92]۔ اسی بنا پر معروف ماہر قانون پیٹن نے اٹھارویں صدی کو انسانی دانش کی سنہری صدی اور انیسویں صدی کو سائنس کی صدی قرار دیا ہے[93]۔قانون قدرت کے بنیادی وصف ہی سے اس کی سند کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بنیادی اوصاف درج ذیل ہیں:

  1. قانون قدرت کی بنیاد عقل سلیم ہے جو خود کسی قطعی اور یقینی اساس پر مبنی ہو مثلاً وحی الٰہی
  2. قانون قدرت ابدی اور ناقابل تغیر ہوتا ہے
  3. اس کا ادراک عقل انسانى کے مناسب اور موزوں استعمال سے کیا جا سکتا ہے
  4. قانون قدرت کو قانون موضوعہ پر فوقیت حاصل ہے، یعنی ان دونوں میں تعارض نہیں ہونا چاہیے۔ بصورت تعارض قانون قدرت کو فوقیت حاصل ہو گی۔

قانون فطرت کو اگر خدائی قوانین کے مفہوم میں لیا جائے جیسا کہ بہت سے مغربی مفکرین نے نیچرل لاء کے لیے "Divine Law" کی اصطلاح استعمال کی ہے، تو اس طرح قانونِ فطرت اور وحی الٰہی قریب قریب ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں اور دونوں میں قطعی سند منشاء الٰہی ہے۔ وہ مفکرین جنہوں نے قوانین فطرت کو انسان کے بنائے ہوئے قوانین پر بالادستی دی ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قوانین ابدی اور آفاقی نوعیت کے ہیں، انہیں عالمگیر قبولیت حاصل ہے، اور ان کی اساس قطعی اور یقینی ہے، اس لیے ان کو انسانی قوانین پر برتری حاصل ہو گی اور یہ قانون موضوعہ کے لیے معیار کا درجہ رکھتے ہیں، وہ کسی نہ کسی پہلو سے ان قوانین کا تعلق بالاتر ہستی سے جوڑتے ہیں۔ اس طرح اسلامی قانون کا تصور سند کسی حد تک اس تصور سے قریب ہے کیونکہ اسلامی قانون روز اوّل سے انسانی فطرت اور خدا کی دی ہوئی ہدایت پر مبنی ہے۔تقابلی جائزے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ عقل انسانی کو عقل سلیم بنانے والی کون سی چیز ہے۔ اگر اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی عقل کو عقلِ سلیم بنانے اور فطرت سلیمہ کی راہ پر چلانے والی واحد چیز مذہب، خدائی قوانین یا وحی الٰہی ہے تو اس صورت میں قانون فطرت کی سند کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جاتا ہے لیکن انیسویں صدی میں لامذہبیت کو ایک طے شدہ نظریے کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ مذہب کا رشتہ تمام اجتماعی اداروں اور قانون سے منقطع ہو چکا ہے اور اس کی جگہ سیکولر عقل نے لی ہے۔[94] اب سوال ىہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورت میں سیکولر عقل ہی کو سند کا درجہ حاصل ہو گا[95]؟ قانون کی حقیقی فکری بنیاد کے حوالے سے اہل مغرب میں شدید ترین اختلافات ہیں۔

اہل مغرب کے ہاں مذہب اور قانون کا تعلق

اہل مغرب کے ہاں مذہب اور قانون کے تعلق کے حوالے سے صدیوں سے شدید قسم کا اختلاف چلا آ رہا ہے۔ جدید قانونی فکر کی نشوونما یورپ میں نشأۃ ثانیہ پروٹسٹنٹ اصلاح (Protestant Reformation) کے نتیجے میں رونما ہونے والی ذہنی فضا میں ہوئی لیکن اس کی جڑیں مسیحیت کی دینی فکر میں پیوست ہیں۔ مسیحیت دین اور حکومت یا روحانی اقتدار اور دنیوی اقتدارمیں فرق کی تائید کرتی ہے جیسا کہ انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے : ’’جو حصہ قیصر کاہے قیصر کو دے دو اور جو اللہ کا ہے وہ اللہ کو دے دو‘‘ مغرب میں اس بنیادی فکر نے قانون کا رشتہ مذہب سے توڑ دیا۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ مسیحیت میں زندگی کے متعلق تفصیلی قوانین موجود نہیں ہیں، وہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مواعظ و ارشادات پر مشتمل ہے، جو محض اخلاقی اور روحانی نوعیت کے ہیں۔ قانون کو مذہب سے بے دخل کرنے کاایک بڑا سبب مسیحی مذہبی پیشواؤں کا وہ استحصالی رویہ اور غلط نظریات تھے جن کے خلاف شدید قسم کی بغاوت ہوئی، نتیجتاً قانون کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر دیا گیا۔ اس سے قانون کی فکری بنیاد کے بارے میں علماء قانون میں شدید قسم کے اختلافات رونما ہوئے اور کسی ایک بنیاد پر اتفاق عملاً ناممکن ہو گیا۔

اسلامی قانون؛ اہم نکات

۔ اسلامی قانون کے لیے فقہ اسلامی، شریعت اور حکم شرعی جیسی اصطلاحات کا استعمال زیادہ موزوں خیال کیا جاتا ہے۔

۔ اسلامی قانون سے مراد حکم شرعی ہے۔۔ حکم شرعی کی تعریف سے اس کی حدود وقیود کا تعین ہو جاتا ہے۔

۔ علماء اصول اور فقہاء نے حکم شرعی کی تعریف مختلف الفاظ میں کی ہے۔علماء اصول نے تعریف میں ماخذ و مصدر کو پیش نظر رکھا ہے یعنی یہ کہ حاکم اللہ ہے اور حکم اس کی صفت ہے جبکہ فقہاء نے حکم شرعی کے متعلق کو پیش نظر رکھا ہے۔

۔ اسلامی قانون میں اللہ کے حاکم ہونے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے جبکہ اختلاف اس أمر میں ہے کہ منشاء الٰہی معلوم کرنے کا واحد ذریعہ وحی اور رسالت ہی ہے یا عقل و دانش کے ذریعہ سے بھی کسی چیز کی اچھائی یا برائی کا تعین کیا جا سکتا ہے، اگر کیا جا سکتا ہے تو اس میں عقل کا مقام اور دائرہ کار کیا ہے۔ اس حوالے سے تین بڑے مکاتب فکر ہیں۔

۔ اسلامی قانون کی اساس دین اسلام پر ہے، جہاں قانون اور اخلاقیات کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔

۔ اسلامی قانون کی سند منشاء الٰہی ہے۔ منشاء الٰہی معلوم کرنے کا ذریعہ وحی اور رسالت ہے۔ یہ قطعی اور حتمی ذریعہ ہے جبکہ اجتہاد ظنی ہے جس میں منشاء الٰہی معلوم کرنے میں خطاء کا امکان رہتا ہے۔

۔ اسلامی قانون کی اساس حاکمیت الٰہیہ پر ہے، یعنی اطاعت مطلقہ اور غیرمشروط اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔

۔ اسلامی قانون میں عقل کلی طور پر آزاد اور خودمختار نہیں ہے بلکہ اس کی حدود اور دائرہ کار طے کر دیا گیا ہے، اگرچہ اس کی حدود میں اختلاف ہے۔

۔ اسلامی قانون کا بنیادی وصف یہ ہے کہ یہ ا لٰہی قانون ہے، البتہ ضروری طور پر اس کا کچھ حصہ قطعی اور یقینی ہے اور کچھ ظنی ہے۔

حاصل بحث:

1۔ اسلامی قانون تاریخی مکتب فکر کے برعکس نہ تو کسی قوم کے ذہنی افکار اور مزاج کی پیداوار ہے، نہ تجزیاتی مکتب فکر اور آسٹن کے مؤقف کی طرح کسی مطلق العنان بادشاہ کی مرضی یا فرمان کا نام ہے بلکہ یہاں ’’لا حُکْمَ اِلا لِلّٰہ‘‘ کا واضح تصور موجود ہے، یہ عمرانی مکتب فکر کی طرح قانونی رویّوں کے غیرجانبدارانہ اور معروضی مطالعہ کا دعویٰ بھی نہیں کرتا ، قطع نظر اس کے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے، بلکہ یہاں تو اچھے اور برے کا معیار دیا جاتا ہے اور اس حوالے سے رہنمائی کی جاتی ہے کہ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے۔ کیلسن کے خالص قانون کے نظریے کے برعکس اسلامی قانون کا مذہب، اخلاقیات، سیاسیات اور سماج سے گہرا تعلق ہے، بلکہ اس کی بنیاد ہی مذہب اسلام اور اخلاقیات ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے وہی قوانین فطرت عالمگیر، ابدی، قطعی اور حتمی ہو سکتے ہیں جن کی بنیاد وحی الٰہی اور رسالت پر ہو، نہ کہ سیکولر عقل پر۔ وحی کی روشنی میں بنائے گئے قوانین ہی تمام قوموں کے لیے معیار کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں۔* اسلامی قانون فی الواقع جو کچھ ہے اس کے بارے میں بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے اور جو ہونا چاہیے اس کے بارے میں بتاتا ہے۔

  • اسلامی قانون میں ہر اطاعت (خواہ حاکم وقت ہو یا کوئی دوسرا) اللہ کی اطاعت سے مشروط ہے۔
  • وضعی قوانین انسان کے بنائے ہوئے ہیں جبکہ اسلامی قانون اللہ کا عطا کردہ قانون ہے۔ ایک محدود دائرے میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں انسانوں کو بھی قانون سازی کا اختیار دیا گیا لیکن وہ محدود اور ماتحت قانون سازی ہے۔

مغربی علماء قانون کے ہاں قانون کی تعریف اور سند کے حوالے جو جوہری اور بنیادى اختلافات پائے جاتے ہیں ان کے اسباب میں سے اہم سبب مذہب اور قانون، اخلاق اور قانون ، قانون اور نظریہ حیات کے درمیان تعلق کے حوالے سے اہل مغرب کی فکر ہے۔

 

حوالہ جات

  1. .The Cambridge Encyclopedia ed. by David Crystal Cambridge University Press, p.92
  2. .The Oxford English Dictionary 2nd ed. Clarendon Press. Oxford 1989 p.1:798
  3. Raz, Joseph, The Authority of Law, Oxford, 1979p.103،
  4. حوالا بالا ، ص v
  5. حوالا بالا ، ص ۱۱
  6. جوزف راز نے اسے نسبتاً بہتر قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی کچھ تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے: It applies all typesof practical authority... we can further amend his definition" (ص ۱۱ ۔ ۱۲)
  7. Curzon, L.B. Jurisprudence, 1st ed., MacDonald and Evan, 1979، p.54
  8. Lloyd, Lord, Introduction to Jurisprudence, 4th ed., London Stevens and Sons, 1979.p225
  9. Salmond, Jurisprudence, p65
  10. Hart, H.L.A, The Concept of Law, Oxford, 1961p، 97
  11. تاریخی مکتب فکر کے نزدیک کسی قانون کا زندہ ہونا یا رہنا ہی اس کے جواز کی دلیل ہے"The Living Law is Secret of its validity" (Paton, G.W. A Text-Book of Jurisprudence, 4th ed., Oxford 1972, p.10)
  12. A Text-book of Jurisprudence، p.6
  13. ہارٹ نے"Rule of Recognition and Legal Validity" کے تحت اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے (The Concept of Law، ص ۹۷ ۔ ۱۰۷)
  14. Curzon's Jurisprudence، p.148
  15. تاریخی مکتب فکر کا تصور قانون ملاحظہ کیجئے:Salmond's Jurisprudence ، ص ۲۴
  16. .Muhammad Muslihuddin, Dr., Philosophy of Islamic Law and the Orientalists, Islamic Publications, Lahore, 1980p.89
  17. Coulson, A History of Islamic Law,p.v
  18. حوالہ بالا، ص ۷۵
  19. Weeramantry C.G. (1988) Islamic Jurisprudence An International Perspective, Macmillan Press, Hong Kong,p1 مصنف مونش یونیورسٹی آسٹریلیا میں قانون کے پروفیسر اور سری لنکا کی سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا کے دیگر قانونی نظاموں کا اسلامی قانون سے موازنہ کیا ہے۔ دیکھئے : مذکورہ کتاب۔
  20. معتزلہ نے انسانی اعمال کو اچھا یا بُرا ہونے کے لحاظ سے چار اقسام میں تقسیم کیا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھئے: ۔ زرکشی، محمد بن بہادر، بدرالدین: البحرالمحیط، فی اصول الفقہ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت طباعت اوّل، ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء،۱: ۱۰۶
  21. حوالہ بالا، ۱: ۱۰۴
  22. ابوالحسن اشعری کا یہ مؤقف جمہور فقہاء مثلاً امام مالک، امام شافعی، امام اوزاعی، امام ثوری، امام احمد، امام اسحاق، ابو ثور اور محدثین کا ہے (البحرالمحیط ۱۰۵:۱
  23. بغدادی،علی بن عقیل:ابوالوفاء ، الواضح فی اصول الفقہ ، النشرات الاسلامیہ، بیروت، ۱۴۱۷ھ/۱۹۹۶ء (۱: ۱۲)
  24. علامہ تفتازانی کے بقول اشاعرہ عقل انسانی کی اور معتزلہ شریعت کی مکمل نفی نہیں کرتے بلکہ یہ اختلاف بعض امور تک محدود ہے، دیکھئے: حاشیہ السعد علی التوضیح ۲ : ۱۶، ۱۶۱
  25. شہرستانی، محمد بن عبدالکریم:الملل و النحل، دار السرور، بیروت لبنان، طباعت اوّل، ۱۳۶۸ھ۱۹۴۸ء ، ۱ : ۹۴
  26. میزان الأصول فی نتائج العقول ، مکتبۃ دارالتراث، القاہرہ، طباعت دوم ۱۹۸۷ء،ص ۱۶۲)
  27. ڈاکٹر وھبہ زحیلی نے متقدمین ماتریدیہ اور متاخرین ماتریدیہ کے مؤقف میں فرق واضح کیا ہے(۔ وہبہ زحیلی، اصول الفقہ الاسلامی ، کتب خانہ رشیدیہ، پشاور، س ن ،۱: ۱۱۹، ۱۲۰)
  28. دیاب ، عبدالجواد عطاء، ڈاکٹر:ارکان الحکم دارالادباء ،مصر، ۱۹۸۰ء ،ص ۲۳ ۔ ۲۷
  29. کشف الاسرار عن اصول فخر الاسلام البزدوی،دارالکتب العلمیۃ، بیروت لبنان، طباعت اوّل ۱۹۹۷ء ۱:۲۷۲ ۔ ۲۷۴)
  30. فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت، مکتبۃ الترات الاسلامی، بیروت، لبنان، طباعت اوّل۱۴۱۸ھ/ ۱۹۹۸ء ۱: ۲۶)
  31. ارتقاء قانون کے جدید نظریے کے حوالے سے بھی علماء قانون میں خاصا اختلاف آراء ملتا ہے۔ دیکھئے: Pound, Rosco, An Introduction to the Philosophy of Law, Yale University Press, 1953..p.9-12
  32. علماء قانون کے نزدیک قدیم قانون تین مختلف مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے: (ہنری مین ،دنیا کے قدیم قانون اور رواج، طباعت ۱۸۸۳ء ، ص ۵)
  33. A Text-Book of Jurisprudence، ص ۵۵۔۵۶
  34. حوالہ بالا، ص ۵۷۔۶۲
  35. البقرۃ ۲ : ۳۸، ۳۹
  36. عودہ ، عبدالقادر :التشریع الجنائی الاسلامی، دارالکاتب العربی، بیروت، س ن،۱؛۱۴
  37. التشریع الجنائی الاسلامی ۱:۱۵
  38. معروف مستشرق شیلڈن آموس کا موقف یہ ہے کہ محمدی شریعت (اسلامی قانون) رومن قانون کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جس کو عرب ممالک کے سیاسی احوال کے مطابق ڈھال لیا گیا ہے۔ اس کا ایک قول یہ بھی ہے کہ شرع محمدی عربی لباس میں جسٹینین قانون کے سوا کچھ نہیں۔ (ماہنامہ فکر و نظر، شرع محمدی اور دنیا کے دیگر قوانین ،جنوری ۱۹۸۰ء، جلد ۱۷، شمارہ ۷، ص ۲۷)
  39. یہ مارگو لیوتھ کا مؤقف ہے، دراصل اس نے بھی اپنی تحقیقات میں گولڈ زیہر کے خیالات کی خوشہ چینی کی ہے۔ اس موضوع پر اس کے لیکچرز کا مجموعہ "The Early Development of Muhammadenism" ہے، اس میں پہلے ابتدائی تین لیکچرز قرآن اور نظریہ سنت کے تنقیدی مطالعہ پر مشتمل ہیں۔ دیکھئے :صفحہ ۴۵ تا ۹۸
  40. ۱۔ مجموعی لحاظ سے اس مسئلے میں تین آراء پائی جاتی ہیں: ’’(i) اسلامی قانون رومن قانون اور ماقبل اسلام رسم و رواج کا مجموعہ ہے جسے عربی جامہ پہنا دیا گیا ہے، گولڈ زیہر،ون کریمر اور شیلڈی آموس کی یہی رائے ہے۔ (ii) پہلے نظریے کے برعکس بعض مستشرقین نے یہ رائے قائم کی کہ اسلامی قانون رومن قانون سے متاثر یا اس کا چربہ نہیں ہے۔ یہ رائے معروف اطالوی مستشرق ناللینو(Nallino) اور پروفسیر فیٹزجیرالڈ(Fitzgerald) کی ہے۔ (iii) ایک نظریہ یہ ہے کہ رومی قانون اسلامی شریعت سے متاثر ہوا ہے ۔‘‘( زیدان، عبدالکریم، ڈاکٹر: المدخل للدراسة الشریعة الاسلامية، مکتبة القدس، موسسة الرسالة بیروت، طباعت ۱۴۰۲ھ/ ۱۹۸۲ء) ص۷۳۔۷۴)
  41. سہ ماہی فکر و نظر،اسلامی قانون کی ابتدائی تاریخ پر چند اہم مغربی تحقیقات (ایک تنقیدی تعارف) ،جلد ۲۳، شمارہ ۳، جنوری۔ مارچ ۱۹۸۶ء، ص ۱۸
  42. المدخل لدراسة الشریعة الاسلامية،(زیدان) ، ص۸۸
  43. بدوی، ڈاکٹر علی:ابحاث فی تاریخ الشرائع، (المنشور فی مجلة القانون والاقتصاد المصرية)، ص ۷۳۴
  44. المدخل للدراسة الشریعة الاسلامية (زیدان)،ص ۷۳۔۸۹
  45. النظرية العامة للالتزامات فی الشریعة الاسلامية (شحاته)، ۱:۹۰
  46. الفقہ الاسلامی،(موسیٰ)، ص ۸۷
  47. صبحی محمصانی، ڈاکٹر:فلسفۃ التشریع فی الاسلام ، مولوی محمد احمد رضوی (مترجم)، مجلس ترقی ادب، لاہور، ص ۱۹۳۔۹۶ا
  48. مثلاً ڈاکٹر صوفی حسن ابو طالب نے اپنی کتاب’’بین الشریعۃ الاسلامیۃ و القانون الرومانی، استاد عبدالرحمن البزاز نے ’’الموجز فی تاریخ القانون‘‘ استاذ عبدہ حسن الزیات نے ’’مذکرات فی تاریخ القانون، ڈاکٹر عبدالمنعم البدراوی اور ڈاکٹر محمد عبدالمنعم نے ’’مبادی القانون الرومانی‘‘ اور ڈاکٹر عبدالرزاق السنہوری نے ’’اصول القانون‘‘ میں بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔
  49. ماہنامہ فکر و نظر ،اسلامی قانون کے بعض امتیازی پہلو، ۲۹۵ جلد ۱۰ شمارہ ۵ نومبر ۱۹۷۲ء، ص ۲۹۴
  50. دونوں میں بڑا جوہری اختلاف ہے کہ آسٹن کے نزدیک حاکم وقت کا حکم ہی قانون کی سند ہے لیکن اس کے برعکس اسلامی قانون میں حاکم وقت کا حکم مشروط طور پر قانون کا درجہ حاصل کرتا ہے۔
  51. مصر کے معروف ماہر قانون عبدالقادر عودہ شہید قانون وضعی کے ساتھ اسلامی قانون کا تقابل پیش کرتے ہوئے ’’لامماثلة بین الشریعة والقانون‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: ’’و أن الشریعة لاتماثل القانون ولا تساويه ولا یصح أن یقاس به وأن طبیعة الشریعة تختلف تماماً عن طبیعة القانون‘‘ (التشریع الجنائی الاسلامی ، ۱:۱۷)
  52. جان آسٹن (۱۷۹۰۔۱۸۵۶ء) کی شہرت ایک مقنن اور ماہر فلسفہ قانون کی حیثیت سے ہے ".(Feinberg, Joel, &Hyman Gross, Philosophy of Law, 3rd ed. California, 1986)
  53. Dais, Jurisprudence، ص ۳۴۵
  54. النساء ۴ : ۵۹
  55. ۷۸۔ خازن، علی ابن محمد بن ابراہیم البغدادی:لباب التاویل فی معانی التنزیل (تفسیر الخازن)، دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان، ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ء ۱:۳۹۲۔۲۹۳
  56. الجامع لأحکام القرآن،(القرطبی) ۵:۲۵۰
  57. صحیح مسلم ، کتاب الامارہ، باب وجوب طاعة الامراء فی غیر معصية، وتحریمها فی المعصية، (۸۸۳۸)۳: ۱۴۹۸
  58. صحیح مسلم (۱۸۴۰ ) ۳:۴۶۹
  59. اس حقیقت کا اعتراف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے دیباچہ (preamble) میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:"Whereas sovereighnty over the entire universe belong to Almighty Allahalone, and the authority to be exercised by the people of Pakistanwithin the limits prescribed by him is a sacred trust" (The Constitutionof the Islamic Republic of Pakistan, by AhmberFazeel, p.11)
  60. السیاسية الشرعية،(ابن تیمیہ)ص ۱۹۲۔۱۳۳؛ اسلامی ریاست (مودودی )ص۳۱۴ ؛ اسلامی ریاست (حمیداللہ) ص ۶۰۔ ۶۱؛ اسلامی ریاست (اصلاحی) ص۱۸۔۲۱
  61. Law is found and not madeCurzon, Jurisprudence,، ص ۱۵۵
  62. ". A text-book ofJurisprudence (ص ۱۹) "".(General Theory, Kelley (ص ۱۱۹
  63. امیرعبدالعزیز، اصول الفقہ الاسلامی، ص ۱۲۳
  64. حکم شرعی کی معرفت کے لیے شارع کا حکم ضروری ہے محض عقل کافی نہیں ہے اس پر ماتریدیہ اور اشاعرہ دونوں کا موقف ایک ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: ارشادالفحول، ۱ : ۲۸؛ البحرالمحیط : ۱۰۵۔۱۰۶
  65. Leon Duguit۱۸۵۸۔۱۹۲۸ء) کو فرانس کے انتظامی قانون میں رہبری کا مقام حاصل ہے۔ Emile کے ساتھی تھے۔ 1892ء میں انہیں University of Bordeauxشعبہ دستوری قانون کا سربراہ بنایا گیا۔)Dias, Jurisprudenceص ۴۳۶(۔Emil Durkheim (۱۸۵۸۔۱۹۱۷ء)کو فرانس positivist school of sociology کا بانی تصور کیا جاتاہے، اس نے عمرانی علوم پر بے شمار لیکچر دیے ہیں۔
  66. ایل۔ بی کرزن لکھتے ہیں: "There are several "schools" of Modern Sociology, differentiated bymethodology and basic conceptions, . . . . for some sociologists thelaw appears as the expression of a general Consensus, as a cohesive, integrative force. Others see it as the expression of a fundamentalstruggle between groups and classes". (Jurisprudence، , p.138
  67. ۱۔ علم اصول فقہ(غازی) : ایک تعارف ،ص ۲۹۔۳۰
  68. Anglo-American Philosphy of Law. An Introduction to its development and outcomeص۷۸۔۷۹
  69. A text-book of Jurisprudenceص ۲۹۔۳۰
  70. Curzon, Jurisprudence، ص ۱۴۰
  71. نفس مصدر، ص ۱۴۸
  72. A text-book of Jurisprudence، ص ۲۲
  73. ابن خلدون نے اسلامی قانون کے ایک مخصوص مکتب فکر کی ترویج کے ضمن میں عمرانیاتی اسباب کی نشاندہی کی ہے (مقدمۃ ابن خلدون ۱ : ۴۴۶۔۴۵۰)
  74. اس اسلوب کے حوالے سے ’’الموافقات‘‘ میں مختلف مقامات پر گفتگو کی گئی ہے، مثلاً مقاصد شرعیہ کی بحث، مصلحت کی بحث وغیرہ، دیکھئے :الموافقات ۱:۳۔۸، ۱:۱۵۔۲۶؛ ابوسحاق ابراھم بن موسی المالکی الشہیر بالشاطبی (۷۹۰ھ) مفسر، محدث، فقیہ، اصولی اور ماہر لغت تھے۔ (معجم المؤلفین ۱ : ۱۱۸)
  75. شاہ ولی اللہ نے احکام شریعت کے عمرانیاتی پس منطر پر بڑی مدلل گفتگو کی ہے۔ دیکھئے: حجۃ اللہ البالغہ ، ۱:۲۷، ۳۴، ۴۷، ۶۹، ۳۷۳، ۳۷۴
  76. ۱۔ البحر المحیط، (زرکشی) ۱:۲۲۴۔۲۲۸
  77. میزان الاصول فی نتائج العقول، ص ۱۶۲
  78. حوالہ بالا
  79. Curzon, Jurisprudence، ص ۱۲۱
  80. Hampstead, Introduction to Jurisprudence،ص ۲۸۲
  81. Hampstead, Introduction to Jurisprudence، ص ۲۸۳ ؛ General Theory of Law (Kelly)،ص ۶۵
  82. A Text-Book of Jurisprudence، ص ۱۹
  83. Hyman, Philosphy of Law، ص ۴۲
  84. نیازی، Theories of Islamic Law ، ص ۳۹
  85. "Kelsenrecognised that the Groundnorm need not be the same in verylegal order, but a Groundnorm of some kind there will always be, whether, e.g. a written(ص ۳۶۲constitution or the will of a Dictator". (Dias, Jurisprudence
  86. النساء ۴ : ۵۹
  87. پروفیسر عمران احسن نیازی نے اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے: "The fact that Allah alone is the source of all laws is in itself anindication of the Fundamental norm of the Islamic Legal System" (Theories of Islamic Law ص ۳۸)
  88. دیکھئے : ڈائس Jurisprudence ، ص ۳۶۴
  89. قانون قدرت کے بہت سے مترادفات ہیں: "The phrase has been used synonymously with the expressions such as: The moral law; the universal or common law, the written law; the DivineLaw"...(Curzon, Jurisprudence ص ۴۸)
  90. A Text-Book of Jurisprudencep.99
  91. Even today many theories of natural law have a religious base, butthe eighteenth century we notice an increasing secularization of theapproach to legal and political questions. This ultimately makes moredifficult the solution of the question where comes the binding force ofNatural Law, for the easy solution that it is based on the will of Goddoes not prove acceptable to all men". (A Text-Book of Jurisprudence p. 108.)
  92. A Text-Book of Jurisprudencep.109
  93. حوالہ بالا
  94. قانون فطرت کے مؤیدین اس حوالے سے خود بھی متفکر ہیں کہ عقل کی تعریف کیا ہونی چاہیے: "Natural Law is what human reason discovers, and natural law isdiscovered by human reason. We are, however, left with the difficulty ofknowing what "reason" is, a difficulty later tackled by the BritishEmpirealPhilosphers." (Anglo American Philosphy of law p.6.) سامنڈ گرویشیس (Gratius) کا مؤقف ان الفاظ میں بیان کرتا ہے : "Gratius asserted that human nature is the mother of natural law whichwouldopearate even if God did not exist".(Jurisprudenceسامنڈ، ص ۲۳،)
  95. ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں: ’’مجرد انسانی عقل کی بنیاد پر کوئی متفقہ اساس تلاش کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ جتنے انسان ہوں گے، اتنی ان کی عقلیں ہوں گی اور جتنی عقلیں ہوں گی اتنی ہی بنیادیں تجویز کی جائیں گی۔ انسانی عقلوں کو عقل سلیم بنانے اور فطرت سلیمہ کی شاہراہ پر چلانے والی واحد چیز مذہب اور اخلاق ہی ہے جس سے اہل مغرب بدکتے ہیں‘‘(علم اصول فقہ: ابتدائی تعارف ،ص ۱۱۷) معروف دانشور ڈائس اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے:"There is no one theory; many versions have evolved throughout thisenormous span, of time.--- The Term Natural Law, has been variouslyapplied by different people at different times".(Jurisprudence` ص ۴۷۰)
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...