Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 32 Issue 1 of Al-Idah

طبی میدان عمل میں ضرورت کی بنیاد پر رخصت کا اطلاق |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

32

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060034497_910

Pages

22-37

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/136/128

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/136

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام اىک مکمل ضابطہٴ حىات ہے۔ پىشہٴ طب کے شعبہ سے منسلک اىک مسلمان ڈاکٹر کے لئے ىہ بہت ضرورى ہے کہ وہ اس شعبہ سے متعلق اسلام کى بنىادى اصولوں کو سىکھے اور اسے عملى جامہ پہنائے۔

مسلمان طبیب ایک غىر ذمہ دار انسان نہیں ہوتا بلکہ شعبہٴ طب سے وابستہ ہر مرد و زن کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے اور اس کائنات میں ربِّ کائنات کے خلیفہ کی حیثیت سے اپنے مقام کو جان لے ۔ایک مشہور مقولہ ہے۔ من عرف نفسه فقد عرف ربه[1] یعنی جس نے اپنے آپ کو پہچانا گویا اس نے اپنے رب کی معرفت کی راہ لی۔ پہچاننے کا مطلب یہ نہیں کہ میں کس کی اولاد ہوں یا میرا قبیلہ اور ملک کون سا ہے بلکہ پہچان سے مراد یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر یہ جان لے کہ بحیثیت ایک مسلمان اس معاشرہ میں میری حیثیت کیا ہے؟ جب یہ حقیقت اس کے ذہن نشین ہو جائے تو پھراس پر معرفت ربّانی کے راز کھلتے جائیں گے جو اس کے رویّوں میں مثبت تبدیلی کا باعث بنیں گے۔

انسانی تخلیق میں فلسفہٴ خلافت کار فرما ہے۔ارشاد ربّانی ہے انی جاعل فی الارض خلیفه اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو کرسی پر بٹھا دیا۔ بلکہ اس کا تصوّر یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہے۔ وہ صفات جو فرشتوں میں ظاہر نہیں ہو رہی تھیں زمین پر انسان ان صفات کا مظہر ہے۔ اس دنیا میں اللہ کی خلافت کا تقاضا ہے کہ اس کے رویّوں میں ان صفات کا اظہار ہو۔

ڈاکٹر درحقیقت بنیادی طور پر اللہ کی صفتِ ‘‘شافی’’ کا مظہر ہے اور اس کے پیشے کا تقاضا ہے کہ اس میں اللہ کی دوسری صفات مثلاً رحیم، کریم ستّار، غفار،عفور، صبور،حلیم، حکیم، ودود، عادل،سمیع اور بصیر وغیرہ کا اظہار بھی ہو۔ جیسے صفت شافی کا مطلب یہ ہے کہ دوا تو ڈاکٹر تجویز کرتا ہے لیکن شفا اللہ دیتا ہے اور ڈاکٹر کو دوا لکھنے کی یہ صلاحیت اللہ ربّ العزت ہی کی عطا کردہ ہے ۔ اسی طرح اسے مریضوں سے معاملات کے دوران اس کے عمل میں ان دوسری بیان کردہ صفات ( اس کے علاوہ بھی کئی نام و صفات ہیں جو ایک ڈاکٹر کے پیشے اور کام سے متعلق ہیں) کا اظہار بھی ہونا چاہئے۔ یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جو دل میں اتر جائے تو ایک مسلمان ڈاکٹر کے اخلاق اور رویّے میں تبدیلی کی جھلک ضرور دکھائی دے گی اور اسے احساس وادراک ہو گا کہ وہ اس زمین پر اللہ کی خلافت کا حق کیسے ادا کرتا ہے۔

شعبۂ طب سے وابستہ افراد اور اداروں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ضرورت کے مواقع کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کریں ۔ خصوصاً موجودہ زمانے میں ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے خواتین کو طبّی میدان میں اتنے مواقع فراہم کر دیں کہ وہ طبّی میدان میں خود کفیل ہو جائیں اور آپریشن یا دوسری طبّی ضرورتوں کے لئے مردوں کی خدمات حاصل کرنے کی حاجت و ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ ایسےہی مرو ڈاکٹروں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی خواتین سٹاف وغیرہ کی ضرورت کو کم سے کم رکھیں اور متبادل مردانہ عملے کی ٹریننگ کا بندوبست کریں تاکہ بالآخر ایک ایسا ماحول پیدا ہو جس میں خواتین مریضوں کے لئے خواتین ڈاکٹر اور عملہ اور مردوں کے کے لئے مردانہ عملہ میسّر آ جائے تاکہ صنف مخالف سے استفادہ کی ضرورت ہی باقی نہ رہے یا کم از کم بہت محدود ہو جائے۔

پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے وقت ایک مسلمان ڈاکٹر رنگ، نسل ،جنس اور مذہب کی تفریق سے بالا تر ہوکر اپنے پیشے کے فرائض کی ادائیگی اور مریضوں كي خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ وہ فکری و اعتقادی حساسیت (اس معاملے کی نزاکت ) کا ادراک کرتے ہوئے (بشمول مسلمانوں کے عقائد کے) ان تمام لوگوں کے مذہبی اور فکری جذبات کا خیال کرتا ہے جو کوئی بھی عقیدہ رکھتے ہیں یا جو کسی بھی عقیدے پر یقین نہیں رکھتے۔

انسانی اعمال و افعال کی تقسیم و تفویض(حلال، حرام، مباح، مستحب) کا مرکز فرد ہے اور اس کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ اس کے ذریعے افراد اور تمام معاشروںکی تعمیرو ترقی اور بہبود ہو تاکہ انسان اپنی اس بنیادی ڈیوٹی کو سرانجام دے سکے جو اس کی تخلیق کا سبب ہے اور اس طرح اللہ کی رضا کا حصول ہو۔ بد قسمتی سے مسلمان ملکوں میں شعبۂ طب سے متعلق اسلامی ہدایات و اصول عمومی طور پر طبی درسگاہوں (میڈیکل کالجز) کے نصاب کا حصہ نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان مسائل سے متعلق صرف علم کی کمی ہی نہیں بلکہ شعبۂ طب سے متعلق مسلمان ڈاکٹروں اور دوسرے افراد میں اس بات کا احساس تک نہیں رہا کہ یہ تصورات ایک مسلمان کے لئے اللہ کے ایک سچے نائب (خلیفہ) کے طور پر کتنے اہم ہیں۔

اسلام ایک عملی دین ہے۔ یہ دین فطرت اور ایک آسان دین ہے۔ یہ سختیوں والا دین نہیں ہے۔اسلام تمام انسانوں کی بہبود کے لئے انسانیت کو مشکلات سے نکال کر آسانیاں دینے والا دین ہے۔ قرآن کریم کی کئی آیات میں اس کو بیان کیا گیا ہے یہاںصرف چند بطور مثال ذکر کی جاتی ہیں:

لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا[2]

"يُرِيدُ اللّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ وَخُلِقَ الإِنسَانُ ضَعِيفًا "[3]

"وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ—۔"[4]

وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۔ [5]

فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا ۔۔۔۔۔[6]

رسول کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ میں بھی یہ بات بیان کی گئ ہے مثلاً آپ ﷺ کا ارشاد ہے "يسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا" [7]ترجمہ۔ آسانیاں پیدا کرنا دشواریاں نہ پیدا کرنا خوش رکھنے کی کوشش کرنا رنجیدہ کرنے کی نہیں (بخاری).

أحب الدين إلى الله الحنفية السمحة،[8] (بخاری) ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین وہ ہے جو سیدھا اور آسان ہو.

إن الله يحب أن تؤتي رخصة كما يكره أن توتي معصية،[9] ترجمہ: اللہ تعالیٰ رخصت کو اسی طرح چاہتا ہے جس طرح معصیت اور گناہ کو نا پسند کرتا ہے.

إن خير دينكم أيسره وإن خير دينكم أيسره،[10] ترجمہ: تمہارا بہترین دین اس کی آسانی اور سہولت ہے۔

بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عملی زندگی کا طریقہ بھی یہی تھا کہ اگر دو چیزوں کے درمیان اختیارکرنا ہوتا تو آپ ﷺ آسان تر چیز کو اختیار فرماتے۔ آپ فرماتی ہیں ‘‘نبی کریمﷺ کو جب دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو آپﷺ نے ان دونوں میں سے آسان تر چیز کو اختیار کر لیا بشرطِ کہ وہ گناہ کی چیز نہ ہو۔ اگر وہ گناہ ہوتا تو آپ لوگوں میں سب سے زیادہ ان سے دور ہوتے۔ ۔ ۔’’

اسی بنا پر فقہی قواعد میں بھی آسانیوں اور رخصتوں کا خیال رکھا گیا ہے تاکہ بوقت ضرورت لوگوں کے لئے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے تکلیف اور مشقت سے نکلنے کے راستوں کی نشاندہی کی جائے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کا جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ ضرورت کی تعریف کیا ہے اور ضرورت کے وقت ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کی حدود کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ‘"تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا[11] اور "تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ" [12]اور ‘"وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ" [13]۔ ان آیات میں وضاحت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی حدود کو پہچانو اور ان سے تجاوز مت کرو۔

اس لئے ایک مسلمان ڈاکٹر کے لئے جہاں یہ بات ضروری ہے کہ وہ ضرورت اور رخصت کے مسائل سے واقفیت حاصل کرے وہیں اس کا یہ بھی فرض ہے کہ ان حدود کو پہچاننے کی مکمل کوشش کرے جن سے تجاوز اللہ کی نافرمانی اور گناہ ہو گا۔

انہی باتوں کے پیش نظر ىہاں کچھ بنىادى نکات پىش کئے جا رہے ہىں۔

۱۔ ضرورت کی تعریف اور اس کی اقسام

۲۔ مشقت کی تعریف اور اس کے درجات

۳۔ رخصت کی تعریف، اصول اور اقسام

اسی کے ساتھ یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ مثالوں کی ذریعے بات کی وضاحت ہو سکے۔

ضرورت:

تعریف :

اس کا مادہ ضرّ ہے اور اس کا مطلب ہے نقصان۔ ضَرَّ ا جانی یا مالی نقصان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

علامہ حمومی ؒ نے ضرورت کی تعریف اس طرح کی ہے[14]

’’فا لضرورۃ بلوغه حداً ان لم یناول الممنوع هلك او قاربه‘‘ یعنی ضرورت ایسی حد تک پہنچنا ہے کہ اگر ممنوع چیز کا استعمال نہ کرے توہلاک ہو جائے یا ہلاک ہونے کے قریب پہنچ جائے’’ ۔ علامہ السیوطی [15]ؒ نے بھی ضرورہ کی ایسی ہی تعریف کی ہے ۔ ان حضرات نے ضرورت کو اضطرار (وہ حالت جس میں جان کو شدید خطرہ لاحق ہو) کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔ لیکن کچھ دوسرے اہل علم نے ضرورت کی تعریف میں توسیع کرتے ہوئے اس میں ایسی باتیں بھی شامل کی ہیں جس پر اگر عمل نہ کىا جائے تو نظام حىات مىں مشکلات پىدا ہوتى ہىں۔علّامہ علی حیدر نے ضرورت کی تعریف یوں کی ہے ‘‘ ضرورت اس حالت کا نام ہے جو شرعاً ممنوع چیز کے استعمال پر آدمی کو مجبور کرے’’[16] امام شاطبی ؒ، وھبۃ الزحیلی اور مفتی تقی عثمانی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ امام شاطبی نے مقاصد شریعہ کی حفاظت کو ضرورت قرار دیا ہے۔

درجہ بندی :

ضرورۃ کی درجہ بندی تکلیف اور مشکل صورت حال کی شدّت کے اعتبار سے کی جاسکتی ہے۔ اور اسی بنا پر رخصت لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

تکلیف کی شدّت کی بنیاد پر مشقت کی تقسیم:

اس بنیاد پر مشقت کو تین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

۱۔ مشقت عظیمہ:

ایسی تکلیف جو شدّت کے اعتبار سے انسانی زندگی یا بقائے حیات کے لئے ضروری اعضاءِ(Vital Organs) کے لئے خطرہ ہو -اس حالت میں رخصت کی رعایت سے فائدہ اُٹھانا واجب ہے اور اس میں حرام اشیاء کے استعمال کو بھی جائز کیا گیا ہے۔ مثلاً حرام ادویات و اشیاء سے جان لیوا بیماریوں یا زخموں کا علاج کرنا۔ یا گردے کے افعال کی خراب صورت حال میں روزہ کی ممانعت کرنا اور ایسے ہی ضرورت کے وقت ماہرین طب کا صنف مخالف کے جسم کے کسی حصے کا بقدر ضرورت معائنہ کرنا۔

۲۔ مشقت متوسطہ:

شدید تکلیف تو ہو مگر جان لیوا نہ ہو۔ اس میں رخصت بھی لے سکتے ہیں مگر عزیمت کا راستہ بھی چننے کا اختیار موجود ہے۔ سفر یا بخار میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا۔ ایسی بیماریا ں جو عارضی تکلیف کا باعث ہوں۔جراحت (آپریشن ) کے بعد مریضوں کی نماز اور طہارت کے مسائل اور مختلف بیماریوں میں روزے کے مسائل اسی زمرے میں آئیں گے۔ البتہ ڈاکٹر اور مریض دونوں کے لئے اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ ان کے کسی فعل یا رائے کے نتیجے میں جان یا عضوِبدن کے ضائع ہونے کا امکان نہ ہو۔ اس میں رخصت کا جواز موجود ہے مگر حرام کے استعمال کی اجازت نہیں ہے

۳۔ مشقت خفیفہ:

وہ تکلیف جوبہ آسانی / معمول کے طور پر قابل برداشت ہو اس میں رخصت کی اجازت نہیں ہے۔ مثلاً ہلکا اور معمولی بخار یا سردرد وغیرہ ۔ صحت مند فرد کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ معمول کی تکالیف اس کی عبادات میں مخل ہوں۔ اس میں کوئی رخصت نہیں ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ضرورت اور رخصت کی حدود سےنکل کر انسان خواہشات کے علاقے میں داخل ہو جاتا ہے۔

مشقت عظیمہ تو ضرورت میں شمار ہو گی مگر مشقت متوسط حاجت میں۔

ضرروت اور حاجت کے فرق کو فقہاء کرام نے اس طرح واضح کیا ہے‘‘ کہ ضرورت کی بنا ءپر تمام حرام قطعیہ منصوصہ میں اباحت (وقتی طور پر بقدرِضرورت) ثابت ہوتی ہےاور حاجت کی بناء پرحرام قطعی منصوص کی اباحت ثابت نہیں ہوتی البتہ احکام میں تخفیف ہوتی ہے’’[17]

حالات کے اعتبار سے مشقّت کی تقسیم:

۱وقتی اور محدود۔

بعض اوقات کچھ مخصوص حالات بھی مشقت کے دائرے کو متعیّن کرنے میں فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مثلاً آپریشن کے دوران آپریشن تھئیٹر میں اوٹی کے لباس میں ہی نماز پڑھنا جس پر بعض اوقات خون کے معمولی دھبے بھی ہو سکتے ہیں۔ سرجن کا اشد ضروری اور لمبے آپریشن کے دوران روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنا جب کہ روزہ رکھنے کی صورت میں اس ضروری آپریشن کے کرنے سے قاصر ہوتا ہو، یا کسی دھماکے یا قدرتی آفت کے رونما ہونے پر عبادات میں تخفیف کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور صرف فرائض پر اکتفا کیا جا سکتا ہے اور جب ضرورت بہت زیادہ ہو تو ادا کی بجائےقضا پر اکتفا کرنا۔

۲۔ عمومی اور پائیدار:

معاشرے میں پھیلے مختلف عادات و اطوار بھی مشقت اور رخصت کے فیصلے پر اثرانداز ہو سکتے ہیں مثلاً پیشۂ طب اور مخلوط ماحول میں کام ۔ایسی طبی کانفرنسوں میں شرکت جس میں غیر شرعی کام بھی ہوتے ہوں (مثلاً میوزک یا نامحرم سے اختلاط یا غیر مسلم شرکاء کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانا جبکہ اس میں شراب بھی موجود ہو۔ یہاں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ عموم بلویٰ کی ایک صورت ہے اور اس کا دائرہ عمل مکروہات اور مشتبہات تک محدود ہے۔ اس میں وقتی جواز کو بہانہ بنا کر حرام کو حلال کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

اس کے علاوہ علامہ شاطبی ؒ نے ضرورت کی درجہ بندی پانچ مقاصد شریعہ کے مطابق کی ہے۔ جب کہ حمومیؒ اور سیوطیؒ نے اس کو اضطرار ، حاجت، منفعت، زینت اور فضول کے عنوان سے تقسیم کیا ہے۔

ضرورت کے اسباب:

۱۔ سفر۔ اس سے عبادات میں تخفیف ہو سکتی ہے

۲۔ مرض: یہ صحت کا اعتدال سے ہٹ جانے کا نام ہے۔ مریض کے لئے شریعت کے حکم پر عمل نہ کرنے یا اس میں آسانی پیدا کرنے کی تین بنیادی وجوہا ت ہو سکتی ہیں۔

۱۔ جان کی حفاظت

۲۔ عضو کی حفاظت

۳۔ مرض کی شدّت میں اضافہ یا شفا میں تاخیر

۳۔ اکراہ: وہ حالت جو آدمی کو ایسے فعل یا قول پر مجبور کر دے جواسے نا پسند ہو۔ حضرت ابن نجیم نے اکراہ کی تعریف یوں کی ہے ‘‘خطرناک ذرائع یا اس کی دھمکی سے کسی پر دباؤ ڈالنا کہ کوئی کام کرے یا چھوڑ ے’’[18] اس صورت میں عمومی طور پر انسان کی اپنی رضا اور اختیار باقی نہیں رہتے اوراس کو اکرا ہِ تام کہتے ہیں۔

۴۔ نسیان: نسیان بھول کو کہتے ہیں جو بغیر اختیار کے ہوتی ہے اور یہ بھی تخفیف یا رخصت کا ایک سبب ہے۔

۵: جہل: نہ جاننا یا علم میں کمی یا نقص ہونا۔

۶:عسر اور عموم بلویٰ: کسی ممنوع چیز کا معاشرہ میں علمی یا عملی طور پر اس طرح عام ہوجانا کہ اس سے احتراز کرنے کی صورت میں لوگوں کو سخت مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔ عموم بلویٰ وہاں معتبر ہو گا جہاں جواز اور عدم جواز میں علماء امت کا اختلاف ہو۔ اگر ایک مسئلہ کی حرمت پر اتفاق پایا جائے تو باوجود اس سے احتراز مشکل ہونے کے، اس کا ارتکاب ممنوع ہو گا۔

۷:نقص: جب کسی فرد کی عقل یا بدن میں کوئی نقص پیدا ہو جائے تو اس بنا پربھی رخصت کا جواز بن سکتا ہے۔

وھبۃ الز حیلی نے اس کے علاوہ مزیدسات اقسام کا ذکر بھی کیا ہے

رخصت کی تعریف:

رخصت کا مفہوم یہ ہے کہ ’کسی ممنوعہ یا ناجائز عمل کو انسانوں کی بہتری کے لئے (بوقت ضرورت، بقدر ضرورت، عارضی طور پر) جائز کردینا۔

رخصت کا مقصد:

رخصت کے ذریعے اسانی اور دفع حرج کا بنیادی مقصد، مقاصدِ شرعیہ[ دین،جان، عقل، نسل (بشول عزت و آبرو اور ، مال] کا تحفط ہے ۔

رخصت کے عوامل:

اعمال کئی طرح کے ہو سکتے ہیں اور فقہاءِ کرام نے ان کو تین بنیادی قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

ضرر:

وہ عمل جس کو برقرار رکھنے کے نتیجے میں جان کے جانے کا یا کسی عضو کے معطل ہونے کا شدید خطرہ ہو۔ یہ رخصت کا یقینی سبب ہے۔

حاجات :

کوئی ضرورت یا عمل جس کے جاری رہنے سے زندگی کے جانے یا عضو کے معطل ہونے کا خطرہ تو لاحق نہ ہو لیکن معمول سے زیادہ مشقت برداشت کرنی پڑے۔ یہ رخصت کا محدود سبب بن سکتے ہیں۔ مریضوں کے لئے وضو، طہارت، نماز اور روزے کے مسائل کا بعض حالات میں اسی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

تحسینیات

وہ امور جو کسی عمل کو خوشنما اور مرغوب بناتے ہیں۔ان کی اجازت ہو یا مطلوب و مقصود ہوں، ان سے زندگی یا کسی عضو کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ ان کے کرنے میں کچھ مشقت توہو سکتی ہے لیکن یہ رخصت کی وجہ نہیں بن سکتے۔لیکن بعض اوقات یہ درجہ اہمیت حاصل کر کے بعض افراد میں تحسینیات بھی حاجات کا درجہ پا لیتے ہیں مثلاً اسلام نے کثرت اولاد کو پسند کیا ہے لیکن اگر کسی خاتون کی صحت کثرت اولاد کی وجہ سے اتنی متاثر ہو کہ اس کا حسن و جمال ختم ہو کر اس کی گھریلو زندگی کو متأ ثر کرے تو پھر اس کے لئے مانع حمل ادویات کے استعمال کی گنجائش پىدا ہوجاتى ہے۔

فقہ اسلامی میں ضرورت کی بنیاد پر رخصت دینے کے قاعدے:

ان قواعد کی بنیاد کئی احادیث اور قرآنی احکام ہیں اور ان میں ایک مشہور اور اہم حدیث ’’لا ضرر ولا ضرار‘‘[19] ہے جو بذاتِ خود ایک فقہی قاعدہ بھی ہے ۔ اس کے علاوہ فقہا نے کچھ مزید بنیادی قواعد وضع کیئے ہیں جن کی بنا پر مشکل کو دور کیا جاتا ہے۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:[20][21]

المشقة تجلب التیسیر۔ مشقت (یا دشواری) آسانی لاتی ہے۔

الضرر یزال مشکل کو دور کیا جائیگا۔

الضرر الاشد یزال باالضرر الاخف بڑی مشکل (نقصان) کو چھوٹی مشکل (نقصان) کے ذریعے ختم کیا جائے گا۔

’’جمیع المحرمات تباح باالضرورۃ‘‘ اشد ضرورت کے وقت تمام ممنوعہ اشیاء جائز ہوجاتی ہیں۔

الضرر لا یزال بمثله۔ ایک مشکل (نقصان) کو اس کے برابر دوسری مشکل (نقصان) سے دور نہیں کیا جاسکتا۔

الضرورات تبیح المحظورات ضرورت کی بنیاد پر ممنوع چیزوں کی بھی اجازت دی جاسکتی ہے۔

الضرورات تقدر بقدرها ضرورت صرف مطلوبہ مقدار کے مطابق ہی (معتبر) ہو گی۔ ممنوعات کی اجازت بقدرِ ضرورت اور ایک مخصوص مدت تک ہی رہیگی۔

ما جاز بعذر بطل بزواله جو چیز جس ضرورت کے لئے جائز ہو گی اس عذر ختم ہوتے ہی جواز بھی ختم ہو جائے گا .

دفع المضرۃ مقدم علی جلب المنفعة: (درء المفاسد اولیٰ من جلب المصالح) مضرت کو دور کرنا حصول نفع پر مقدم ہے۔(مفاسد کو دور کرنا فوائد کے حصول پر فوقیت رکھتا ہے)۔ العادۃ محکّمة: عادت کسی حکم کی بنیاد بن سکتی ہے۔

رخصت کےاصول:

رخصت کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رہے کہ بسا اوقات انفرادی معاملے میں رخصت کے مقابلے میں عزیمت پر عمل کرنا ہی زیادہ بہتر ہوتا ہے مثلا جبر و تشدد کے وقت کلمہ کفر کہنے کی رخصت ہے مگر توحید کے اقرار پر قائم رہے تو ثواب کا ذریعہ ہے۔ لیکن علاج معالجے کے میدان میں بسا اوقات رخصت سے استفادہ ضرروی ہوتا ہے مثلاً ایکسیڈنٹ کی صورت میں زخمي بستر پر پڑے ہوں اور ڈاکٹر عزیمت پر عمل کرتے ہوئے ذاتی عبادا ت میں مشغول ہو تو یہ گناہ ہو گا ۔ اسے چاہئے کہ فوراً مریضوں پر توجّہ دے کر ان کی جان بچانے کی فکر کرے اور نماز بعد میں پڑھ لے۔

رخصت درج ذیل اصولوں کے تحت دی جاسکتی ہے:* یہ مخصوص حالات و مسائل کے لئے ہے نہ کہ عام قاعدہ ، یہ صرف خاص مسئلہ اور حالت تک ہی محدود ہوگی اور اس کا اطلاق دیگر مسائل پر نہیں کیا جائیگا۔

  • ‘‘ضرورۃ ’’ کے تحت رخصت کی اجازتِ کے لئے ہر مسئلے کا مشاہدہ اور تجزیہ الگ الگ کیا جائیگا۔
  • رخصت ،مشقت کی شدّت کی بنیاد پہ دی جائے گی
  • رخصت قابلِ جواز حدود کے اندر ہوگی۔
  • اس کا اطلاق مبنی بر حقیقت صورت حال پر ہوگا نہ کہ فرضی حالت پر (قاعدہ کلیہ یقین و امکان)
  • صرف مکمل آگہی کی صورت میں ہی رخصت دی جائے گی بصورتِ دیگر اہل علم سے رجوع کیا جائے گا۔
  • اس کا مقصد تکلیف اور مشکلات کو دور کرنا ہے نہ کہ لذت و راحت کا حصول
  • نیت نیکی (اطاعت) کی ہوگی نہ کہ معصیت (نافرمانی) کی
  • رخصت اختیاری ہو گی جبراً نہیں۔ ( مثلاً قیدیوں کے معاملے میں، ملازمت (خدمات) کی شرائط میں)
  • حق اختیار کا استعمال – فرد خود رخصت یا عزیمت کا فیصلہ کرے گا۔ (مثلاًا سفر میں روزہ نہ رکھنے کی آزادی یا خلافِ اسلام کاروائیوں پر مبنی طبی کانفرنسوں میں شرکت)
  • اس پر عملدرآمد صرف عارضی ( وقتی) ہوگا۔ حالات بہتر ہونے کی صورت میں یا متبادل حل کی موجودگی کی صورت میں رخصت ختم ہوجائیگی۔
  • رخصت صٖرف اسی صورت میں لی جائیگی جب کوئی بھی جائز متبادل حل موجود نہ ہو۔ ایسی صورت حال کہ جس میں حلال متبادل موجود ہو ضرورہ کے اصول کے تحت حرام اشیاء یا عمل کی اجازت نہیں دی جائیگی۔

ایک عمومی مثال کے ذریعے اس بات کی مزید وضاحت /تشریح کرتے ہیں۔ موجودہ معروضی حالات میں مرد اور زنانہ ڈاکٹروں کا ہسپتال میں اکھٹے کام کرنا اور مریضوں کی دیکھ بال کرنا ایک مجبوری ہے ، لیکن اس اختلاط میں شرعی حدود کا خیال رکھنا بھی لازم ہو گا۔

ضرورہ – مردانہ اور زنانہ ڈاکٹروں کا اکٹھے ایک جگہ کام کرنا اور صنف مخالف کے مریضوں کو دیکھنا۔

رخصت : ضروری اورخاص حالات (مثلاًجہاں ایک ہی استعداد کے مرد و خواتین ڈاکٹر علىحدہ علىحدہ موجود نہ ہوں) میں اکٹھے کام کرنے کی اجازت ہو گی اور مریضوں کی دیکھ بال کی جا سکے گی۔ یہی صورتِ حال طب کی تعلیم میں بھی ہو سکتی ہے۔

حدود: ان حالات میں اختلاط کے شرعی تقاضوں کا خیال رکھا جائے گا اور اختلاط بقدر ضرورت ہی ہو گا۔ کام کے دوران یا بعد میں پارٹیوں(مجالس، محافل) میں آزادانہ اختلاط اور ہنسی مذاق کی اجازت نہیں ہو گی،۔مریضوں کے معائنے میں بھی شرعی حدود کا خیال رکھا جائے گا۔

رخصت کی اقسام

رخصت بنیادی طور پر سات حالات میں دی جا سکتی ہے۔ اسقاط، تنقیص، ابدال، تقدیم و تاخیر، ترخیص اور تغییّر۔ جب ان میں سے کوئی بھی حالت موجود ہو تو یہ رخصت کا سبب بن سکتے ہیں۔

اسقاط: اسقاط (معافی): عورت کوحیض کی حالت میں نماز کی رخصت ہے۔

تنقیص: تنقیص (کچھ کمی کرنا) سفر میں چار رکعت نماز کم کرکے دو رکعت ادا کرنے کا حکم ہے۔

ابدال: (بدل): بحالتِ ضرورت تیمم کی وضو کے بدل کے طور پر اجازت ہے

تقدیم: (مقدم کرنا، پہلے کرنا) ظہر کے ساتھ نماز عصر کو ملا کر وقت سے پہلے ادا کرنامثلاً عرفات میں ظہر اورعصرکو ملاکر پڑھنایا ظہر کے وقت آپریشن شروع کرتے وقت یہ یقین ہو کہ آپریشن اتنی دیر سے ختم ہو گا کہ عصر قضا ہو جائے گی۔

تاخیر: (دیر سے، مقررہ وقت کے بعد) مغرب کو دیر کرکے عشاء کے ساتھ ملاکر پڑھنا، (مثال ، مزدلفہ، عصر کو آپریشن شروع ہو اور مغرب قضا ہو جائے تو عشاء کے ساتھ پڑھنا )

ترخیص: (رخصت یا اجازت) مردوں کو ریشم پہننے کی اجازت جبکہ دیگر کپڑوں سے الرجی (خارش) وغیرہ کا مسئلہ درپیش ہو۔

تغیر: (حالت میں تبدیلی) بیماری میں بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھنا۔ یا صلوٰۃ خوف ادا کرنا۔

حلال ، حرام اور مشتبہات کی پہچان اور علم:

ضرورت یا حاجت کی بنیاد پر رخصت لینے یا دینے کی صورت میں ایک مسلمان ڈاکٹر کے لئے حلال، حرام، مباح اور مشبہات کے تصور کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس لئے درج ذیل سطور میں اس کی مختصر تشریح کی جاتی ہے۔

حرام اور حلال کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے

‘‘اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس کو حلال ٹھهرایا وہ حلال ہے اور جس کو حرام ٹھرایا وہ حرام ہے اور جن کے بارے میں سکوت فرمایا وہ معاف ہیں۔ لہٰذا اللہ کی اس فیّاضی کو قبول کرو، کیونکہ اللہ سے بھول چوک کا صدور نہیں ہوتا۔ پھر آپ ﷺ نے سورۃ مریم کی آیت (اللہ سے کبھی بھول سرزد نہیں ہوتی) تلاوت فرمائی۔’’ (البیہقی، مستدرک حاکم)[22]

اسی طرح مشتبہات کے بارے میں آپ ﷺ کی درج ذیل حدیث مشعل راہ کا کام دیتی ہے ۔

حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں کہ آیا یہ حلال ہیں یا حرام۔ تو جو شخص اپنے دین اور آبرو کو بچانے کے لئے ان سے احتراز کرے گا وہ سلامتی میں رہے گا، لیکن جو شخص ان میں سے کسی چیز میں مبتلا ہو گاتو اس کا حرام میں مبتلا ہونا بعید نہیں جس طرح کوئی شخص اپنے جانور ممنوعہ چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہےتو ان کے اندر داخل ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ خبردار! ہر بادشاہ کی ایک ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور سنو! اللہ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں’’ (بخاری و مسلم)

حلال اور حرام کے جمع ہونے کی صورت میں حرام کاحکم لگےگا:۔

ما اجتمع الحلال و الحرام الاغلب الحرام۔(مصنف عبدالرزاق) بعض محدثین نے اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے مرفوعاً نقل کیا ہے (زیلعی) اور بعض نے حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود سے مو قوفاً روایت کی ہے۔ فقہاء نے ذیل کا اصول نکالا ہے۔

’’جب ایسی دو دلیلوں کا ٹکراؤ ہو جن میں سے ایک سے حرمت ثابت ہوتی ہو اور دوسری سے اباحت تو حرمت کو مقدم رکھا جائیگا۔مثلاً اگر مردار کی چربی تیل کے ساتھ مل جائے تو ایسے تیل کا استعمال جائز نہیں ہو گا۔

جس چیز کا لینا حرام اُس کا دینا بھی حرام ہے۔ماحرم اخذہ حرم اعطائه۔ جس کا لینا حرام ہے اُس کا دینا بھی حرام ہے۔ جیسے سود، رشوت، کہانت وغیرہ کی اجرت۔

جس فعل کا کرنا حرام اُس کا دوسرے سے مطالبہ بھی حرام ہے۔ما حرم فعلہ حرم طلبه۔ جس فعل کا کرنا حرام ہے دوسرے سے اُس کا مطالبہ بھی حرام ہے۔

ان عوامل کی موجودگی میں ایک مسلمان ڈاکٹر کے لئے مشتبہات کے بارے میں فیصلہ کرنا بہت اہم مسئلہ ہوتاہے۔ کیونکہ کئی مواقع پر ایسے ہی معاملات درپیش ہوتے ہیں جن کے بارے میں اسے بہرحال کوئی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ان حالات میں اس کے فیصلے کی بنیاد اس کا اپنا علم، تقویٰ اور نیت ہی ہیں۔ ایسی صورت میں اس کے لئے راہِ عمل نبی کریم ﷺکا وہ فرمان مشعل راہ کا کام دیتا ہے جس میں آپﷺ نے ایک صحابی کو بطورمشورہ فرمایاکہ ایسی صورتِ حال میں دل کی کیفیت کو مدّنظر رکھ کر انسان خود فیصلہ کرے کہ اس کا ضمیر اس سے مطمئن ہے یانہیں؟ آپ ﷺکا فرمان ہے :

"يا وابصة! واستفت قلبك، واستفت نفسك، البر مااطمئن اليه القلب، واطمأنت إليه النفس والإثم ما حاك فى النفس وتردد فى الصدر وإن أفتاك الناس وأفتوك". [23]

ترجمہ:اے وابصہ! تم اپنے دِل سے پوچھ لیاکرو، اپنے نفس سے پوچھ لیاکرو۔ نیکی کاکام وہ ہے جس پردِل اور نفس مطمئن ہوجائے۔ اورگناہ کاکام وہ ہے جودِل میں کھٹکے اورسینے میں تردّدہو۔ اگرچہ لوگ تمہیں فتویٰ دیں یافتویٰ دے دیاہو۔

اس حدیث سے معلوم ہواکہ اس موقع پر اپنے دل کو ہی مفتی بنا کر اُس سے دریافت کیاجائے کہ کیا یہ رخصت لینا یا دینا جائز ہے؟ چنانچہ جس صورت میں مریض کا فائدہ ہو اور بددیانتی اور بد نیتی موجود نہ ہو اسے اختیار کیا جائے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ اس دل کی بات ہو رہی ہے جس میں حرام و حلال جاننے کا نہ صرف مخلصانہ جذبہ موجود ہو بلکہ ساتھ ہی اس کے جاننے اور سمجھنے کی مسلسل تڑپ رکھتا ہو اور عملی جدو جہد بھی کرتا ہو۔ اس حدیث میں ایک مومن کی بات کی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ مومن کے لئے ہر معاملہ میں قرآن و سنت ہی راہ نمائی اور ماخذ قانون ہے ۔قرآن و سنت سے آزادی کسی مومن کے نہ شایان شان ہے نہ اس کے لئے جائز۔

یہ اس شخص کے دل کی بات نہیں ہو رہی جس کے بارے میں رسول کریم ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں تفصیل بیان کی کہ ابتداء میں تو اس پر گناہ سے ا ایک کالا دھبہ لگ جاتا ہے لیکن پھر گناہ کرتے کرتے وہ دل پورے کا پورا کالا ہو جاتا ہے۔ اورپھراس میں حق کی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔

اس حدیث کے بارے میں امام غزالیؒ نے فرمایا کہ اس کا تعلق کسی عمل کے مباح اور جائز ہونے کے فتویٰ کے ساتھ ہے۔

اگر کسی معاملے میں حرام کا فتویٰ موجود ہے پھر تو اس کام سے رکنا لازم ہے، یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر مفتی کسی چیز کی حرمت کا حکم دے تو پھر بھی ہم دل سے پوچھیں بلکہ جس چیز کی حرمت کا فتویٰ آجائے اس پر عمل درآمد ہو اور خواہ مخواہ محرمات مکروہات اور مشتبہات کے ارتکاب کی عادت نہ ڈالی جائے ورنہ پھر اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کے صریح حکم کو توڑنے کی نوبت آنے میں بھی دیر نہ لگے گی اور نہ ہی وہ گناہ محسوس ہوگا۔اس بات سے بھی مکمل اجتناب کیا جائے کہ اس بناء پر نعوذ باللہ اپنے دل کو قرآن و سنت کی طرح شارع کا درجہ دے کر گمراہی کا شکار ہوں اور اپنی یا مریض کی خواہش پر کوئی فیصلہ کیا جائے۔ اعاذنا الله من ذالك

یہاں یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ حرام دواؤں کے استعمال میں رخصت کے لئے ضروری ہے کہ ڈاکٹر غلبہ ظن کے دائرے میں یہ مشورہ دیں کہ اس سے بیماری ختم یا اس میں اتنی کمی آسکتی ہے کہ بیماری انسان کےتحمّل کے دائرے میں آ جائے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضرارری ہے کہ ایسی کوئی متبادل دوائی موجود نہ ہو جو اس قسم کے علاج میں کار آمد ہو۔

ضروری نوٹ:

اس تحریر میں عربی زبان کی کتابوں سے لئے گئے حوالہ جات اور زیادہ تر احادیث جامعہ عثمانىہ پشاور کے ‘‘شعبۂ تخصص فی الفقہ الاسلامی والافتاء’’ کے درج ذیل دو غیر مطبوعہ مقالوں سے لئے گئے ہیں

۱۔ شریعت میں ضرروت کا دائرہ کار ۔مقالہ نگار ابو بکر الکوثری ۔ زیر نگرانی ، حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب دامت برکاتھم العالیہ اسباب تخفیف اور احکام شرعیہ ۔ مقالہ نگار انوار الحق عثمانی ۔ زیر نگرانی ، حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن ۔

حوالہ جات

  1. . القاری، ملا علی، مرقاۃ المفاتیح فی شرح مشکاۃ المصابیح، باب: الايمان بالقدر، ج۱، ص: ۳۵۰، دار صادر، بیروت، لبنان، ۱۹۹۵ ء ؛ المناوي، عبد الرؤوف، فيض القدير في شرح الجامع الصغير، ج۱، ص: ۲۲۴، المكتبة التجارية الكبرى، اسكندريه، مصر ، 1356.
  2. ۔ سورہ البقرہ: ۲۸۶
  3. . سورہ النساء: ۲۸
  4. . سورۃ الانعام: ۱۱۹
  5. . سورة الحج: ۷۸
  6. ۔ التغابن: ۱۶
  7. . البخاري، محمد بن اسماعيل، كتاب الأدب، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم يسروا ولا تعسروا وكان يحب التخفيف واليسر على الناس، ج3، ص: 133، حدیث نمبر: 5773 دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2003 ء ؛
  8. . البخاري، كتاب الإيمان، باب الدين يسر، ج1، ص: 23
  9. . ابن خزيمة، محمد بن اسحاق، باب استحباب الصوم فى السفر، ج2، ص: 975، تحقيق: محمد مصطفى الأعظمي، المكتب الاسلامي، بيروت لبنان، 2002 م
  10. . أبو عبد الله الشيباني، احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، حديث محجن بن الأدرع رضي الله عنه، ج2، ص: 479، مؤسسة قرطبة، قاهرة، مصر، 2005 ء
  11. . البقرہ: ۱۸۷
  12. . البقرہ: ۲۲۹
  13. ۔ الطلاق: ۱
  14. الحموی احمد بن محمد الحنفیؒ، غمز عیون البصائر :۱۔۵۲، ادارۃ قرآن وعلوم اسلامیہ کراچی۔
  15. السیوطی ، جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابی بکر، الاشیا والنظائر۱۔۷۶، دارالکتب العلمیہ بیروت
  16. علی حیدر، دررالاحکام :۱۔۳۸ المکتبۃ العربیہ کوئٹہ
  17. مولانا مجاہد اسلام قاسمی ، جدید فقہی مباحث صفحہ ۹، ادارۃ القرآن والعلوم اسلامیہ کراچی
  18. زین الدین بن نجیم ، بحرالرئق۸۔۷۰ مکتبہ رشیدیہ
  19. ۔۔ طبرانی فی الا وسط
  20. ڈاکٹر محمود احمد غازی۔ قواعد کلیہ اور ان کا آغاز و ارتقا (مع اذافات)۔صفحہ۸۱أ۔۱۱۶ طبع دوم ۲۰۱۴ شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد
  21. مولانا محمد نعمان صاحب۔ قواعد الفقہ طبع جدید ۲۰۱۴ صفحہ ۱۰۷ تا ۱۳۶ و ۲۶۷۔ادارۃ المعارف کراچی
  22. اسلام میں حلال و حرام صفحہ ۱۹۔۱۸ ۔ تالیف: علامہ یوسف القرضاوی۔ ترجمہ: شمس پیرزادہ۔ مکتبہ اسلامیہ لاہور
  23. . مسند أحمد، حديث وابصة بن معبد الأسدي، ج4، ص: 228
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...