Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 35 Issue 2 of Al-Idah

عرب عہد جاہلیت میں ’’طلاق‘‘ کا تصور: تحقیقی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060034497_933

Pages

95-111

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/45/39

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/45

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

ازدواجیت انسانی زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت آدم ؑ کی تخلیق کی گئی تو وہ تنہائی کے سبب وحشت زدہ رہا کرتے تھے ۔ ان کا کوئی ہمنشیں نہ تھا ،لیکن جب حضرت حواء علیھا السلام کی تخلیق کی گئی تو وہ خوش ہوئے۔ نیز مردوزن کا ملاپ اگر جائز وقانونی طریقے پر ہو تو اسے نکاح سے موسوم کیا جاتا ہے اور نکاح کا سلسلہ تخلیقِ انسانی سے چلا آرہا ہے۔ تاریخِ انسانی کے مطالعہ سے یہ امر مستفاد ہے کہ بنی نوعِ انسانی میں جب تمدنی ارتقاء فروغ پائی تو پہاڑوں ، غاروں اور جنگلوں میں رہنے والے انسانوں نے یکجا ہو کر رہنے سہنے کا انتظام کیا اور یوں چند گھرانے مل کر قبیلے کی صورت اختیار کر گئے اور انسانی معاشرہ تشکیل پایا۔اب ضرورت اس امر کی تھی کہ ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ اور بقائے باہمی کی کیفیت کو یقینی بنانے کے لیے ایسے اصول مرتب کیئے جاتے کہ جن سے ان کے انفرادی اور اجتماعی حقوق کو تحفظ ملتا اور معاشرہ امن و آشتی کا گہوارہ بن جاتا۔ اس مقصد کے لیے عائلی قوانین وضع کیئے گئے اور ان قوانین میں نکاح و طلاق کو خاص اہمیت حاصل ہے۔شادی کے بعد خوشگوار زندگی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ زوجین میں بہتر تعلقات،طبیعت میں ہم آہنگی نیز محبت و الفت فروغ پائے۔ لیکن مذکورہ امورکبھی تو فطری طور پر موافق ہوتی ہیں تو کبھی مخالف۔موافق ہونے کی صورت میں زندگی خوشیوں کا گہوارہ بن جاتی ہے ۔ اور ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی صورت میں زندگی اجیرن اور محض سمجھوتے کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔کبھی کبھار تو بگاڑ اس حد تک نقصاندہ ہوجاتاہے کہ دوخاندانوں کے درمیان کشیدگی اور تناؤ خاندانی دشمنی اور آنے والی نسلوں تک نفرتوں کے پروان چڑھنے کا سبب بنتی ہیں اور معاملہ باہم دست درازی اور جنگ و جدال کو پہنچ جاتا ہے۔مذکورہ تباہ کن نتائج تک پہنچنے سے پہلے ہی اگر کوئی راہ خوش اسلوبی سے زوجین کے نکاح کے رشتہ کو خیر باد کہنے کا موجود ہو اور قانونی طور پر اسے استعمال کرنے کا حق بھی ہو نیز معاشرتی اعتبار سے ان جیسی مخصوص صورتوں میں اس حق کے استعمال کو مذموم بھی نہ جانا جاتا ہو،تو متزوجین کو ازدواجی تعلق کے انقطاع کے بعد بہتر زندگی گزارنے کا اچھا موقع میسر ہو سکتا ہے۔ سلسلۂ ازدواجیت کے تسلسل کو قانونی، مذہبی یا معاشرتی طور پر منقطع کرنے کو طلاق کہتے ہیں۔

مختلف تہذیبوں میں طلاق سے متعلق مختلف قوانین رائج رہے اسی طرح عرب عہدِ جاہلیت میں بھی طلاق کے بارے میں مختلف طریقے رائج تھے اور ان میں سے بعض صورتیں دینِ اسلام میں بھی مشروع رکھیں گئیں۔ ضرورت اس امرسے آگہی کی ہے کہ جس معاشرے میں اسلام کی بنیاد پڑی وہاں قبل از اسلام طلاق کے بارے میں کیا نظریہ پایا جاتا تھا؟کن اسباب و وجوہ پر طلاق دی جاتی تھیں؟ اسی طرح ان میں طلاق کے کون سے طریقے رائج تھے؟۔ چونکہ طلاق کا وقوع بعد از نکاح ہوتا ہے ، لہذا پہلے عرب جاہلیت میں رائج نکاح کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

قبل از اسلام عربوں میں نکاح کا تصور:

عام طور پرتزویج سے مقصود جنسی جذبات کی تسکین اور بقائے نسل ہوتی ہیں لیکن مختلف تہذیبوں میں اپنے تقاضوں کے مطابق نکاح کے اغراض وابستہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح عرب قبائل باہمی روابط بڑھانے ،نسل کوبڑھانے اور جنگ کے لیے افرادی قوت کے حصول کے لیے عام طور پر شادی کیا کرتے تھے۔شرفاء عرب قبل از اسلام تقریباً دینِ ابراہیمیؑ کی تعلیمات کے مطابق نکاح کیا کرتے تھے جس کی رُو سے رشتہ مانگا جاتا،باقاعدہ مہر مقررکی جاتی اور نکاح کا خطبہ پڑھا جاتا اور گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے بعد ازدواجی زندگی کی ابتداء ہوتی۔لیکن عرب عہدِ جاہلیت میں نکاح کے لیے ایسے متعدد طریقوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ جن سے معاشرے میں بے حیائی کو تقویت حاصل ہوئی۔ عرب عہدِ جاہلیت میں نکاح کے مروجہ صورتوں کو حضرت عائشہؓ یوں بیان فرماتی ہیں:

’’إن النکاح فی الجاهلية کان علی أربع أنحاء فنکاح منها نکاح الناس الیوم یخطب الرجل إلی الرجل ولیته أو ابنته فيصدقها ثم ینکحها۔ ونکاح آخر کان الرجل یقول لإمرأته اذا طهرت من طمثها ارسلی الی فلان فاستبضعی منه و یعتزل لها زوجها ولا يمسها أبدا حتی یتبین حملها من ذلک الرجل الذی تستبضع منه فاذا تبین حملها أصابها زوجها اذا احب وانما یفعل ذلك رغبة فی نجابة الولد فکان هذا النکاح نکاح الاستبضاع۔ ونکاح آخر یجتمع الرهط ما دون العشرۃ فیدخلون علی المراۃ کلهم يصيبها فاذا حملت ووضعت ومرّ عليها لیال بعد ان تضع حملها ارسلت اليهم فلم یستطع رجل ان یمتنع حتی یجتمعوا عندها تقول لهم قد عرففتهم الذی کان من أمرکم و قد ولدت فهو ابنک یا فلان تسمی من احبت باسمه فیلحق به ولدها لا یستطیع ان یمتنع منه الرجل۔ ونکاح رابع یجتمع الناس کثیرا فیدخلون علی المراۃ لا تمتنع ممن جاءها وهن البغایا کن ینصبن علی أبوابهن رایات تکون علما فمن أراد دخل عليهن فاذا حملت احداهن ووضعت حملها جمعوا لها و دعوا القافة ثم الحقوا ولدها بالذی یرون فالتاط به و دعی ابنه لا یمتنع لک ذلک۔‘‘(۱(

’’زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح ہوتے تھے۔۱۔ ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں ، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرلیتا۔۲۔دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہوجاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے صحبت کر لے،اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں۔پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہوجاتا جس سے وہ عرضی طور پر صحبت کرتی رہی ،تو حمل کیظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا۔ ایسا اس لیے کرتے تھے تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو۔ یہ نکاح ’’استبضاع‘‘کہلاتا تھا۔۳۔تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے ۔ پھر جب عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پر چند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا تھا۔چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہوجاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں!یہ بچہ تمہارا ہے۔وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا ، وہ شخص اس سے انکار کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔۴۔چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جاتا کرتے تھے۔عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ یہ کسبیاں ہوتی تھیں۔اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں جو نشانی سمجھے جاتے تھے۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا ۔اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا اس عورت کے اس لڑکے کو اسی کے ساتھ منسوب کردیتے اور وہ بچہ اس کا بیٹا کہلا تا، اس سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔‘‘

عہدِ جاہلیت میں بعض قبائل میں نکاح کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ کسی شخص کی ایسی زوجہ جس سے اس شخص کے لیے کوئی اولاد نہ ہو، تو اگر وہ شخص انتقال کرجائے اور اس متوفیٰ شخص کی کسی دوسری بیوی سے اولاد ہوتے تو ان میں سے بڑا بیٹا اپنے والد کی زوجہ کا وارث بن جاتا اس طرح بطریقِ میراث متوفیٰ والد کی زوجہ اس کے بڑے بیٹے کے ملکِ نکاح میں آجاتی۔اور اگر بڑے بیٹے کے علاوہ کوئی اور بھائی اس سے شادی کرنا چاہتا تو وہ مہرِ جدید کے ذریعہ نکاح کرتا۔سوائے اس کے کہ وہ عورت اپنی جاں خلاصی کے لیے ورثاء کو ان کے رضا کے موافق فدیہ دیتی۔اس قسم کے نکاح کو ’’زواج المقت یا زواج الضیزن‘‘ کہا جاتا تھا۔ (۲)

قرآن کریم میں بھی عہدِ جاہلیت میں وراثت میں ملنے والی عورتوں کا تذکرہ ملتا ہے ، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاء كَرْهًا‘‘(۳)

ترجمہ:مؤمنو!تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔‘‘

امام طبریؒ اس آیت کے بارے میں ابن زیدؒ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ’’ اہلِ یثرب(یعنی مدینہ)کے لوگوں میں اگر کسی شخص کا انتقال ہوتا تو بیٹا اس اپنے والد کی زوجہ کا وارث ہوتا۔‘‘(۴) مذکورہ بالا آیت اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے ازدواجی تعلق کے حرمت کے بارے میں نازل فرمائی۔

اسی طرح عرب عہدِ جاہلیت میں نکاح متعہ کا رواج بھی تھا جو اسلامی دور میں بھی جاری رہا لیکن بعد میں حرام قرار دیا گیا۔نکاح متعہ میں زوجین خاص وقت کی تعیین پر نکاح کرتے اور تکمیلِ وقت پر نکاح ختم ہو جاتا ۔اس کے علاوہ نکاح کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ ایک شخص کسی دوسرے آدمی سے کہتا کہ تم میرے لیے اپنی زوجہ کو چھوڑ دو تو عورت کا شوہر کہتا کہ میں نے تیرے لیے اپنی زوجہ کو چھوڑدی۔اس طرح پہلا شخص دوسرے آدمی کی زوجہ کا خاوند ہوجاتا بغیر مہر کے۔ ایسے ازدواجیت کے تعلق کو نکاحِ بدل کہا جاتا تھا۔

منجملہ نکاح کی صورتوں میں سے ایک نکاحِ شغار بھی تھا جس میں بغیر مہرکے لڑکی کے بدلے لڑکی کو نکاح میں دیا اور لیا جاتا تھا۔مثلاً ایک شخص یوں کہتا کہ اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے کراؤ اور میں بدلے میں اپنی بیٹی یا بہن کی شادی تم سے کراتا ہوں۔

جاہلیت کے زمانے میں نکاح ظعینہ بھی نکاح کی ایک صورت تھی ۔ اس کا طریقہ یہ ہوتاکہ جب کوئی شخص کسی عورت کو(جنگ یا کسی اور طرح سے )قیدی بنالیتا تو اسے اختیار تھا کہ اس سے شادی کرے، اور اس عورت کے لیے انکار کی کوئی گنجائش نہ ہوتی۔ کیوں کہ وہ اس کی قیدی ہوتی اور پہلے سے ہی اس کی ملکیت میں ہوتی ۔یہ شادی بغیر مہر و خطبے کے ہوا کرتی تھی۔(5)

عہدِ جاہلیت میں طلاق کے طریقے:

نکاح کی طرح عرب عہدِ جاہلیت میں طلاق کی بھی مختلف صورتیں تھیں لیکن جزیرہ عرب میں ابتدائی زمانے میں دینِ ابراہیمیؑ کے مطابق طلاق دی جاتی تھی اور شرفاءِ عرب میں تقریباً یہی طریقہ چلتا رہا۔لیکن بعد کے طویل جاہلیت کے زمانے میں طلاق کے معاملے میں بھی انتہائی افراط و تفریط پر مبنی رسومات کا اجراء ہوا جو بسا اوقات عورتوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہوجاتی تھیں۔ عام طور پر قبل از اسلام عرب معاشرے میں لفظِ طلاق کے ذریعہ ازدواجی تعلق کو ختم کیا جاتا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ کچھ اور طریقے بھی اختیار کیئے جاتے تھے ، جیسا کہ جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن جبیرؒ ( لمتو فی ۵ ۹ ھ) فرماتے ہیں کہ:

’’ کان الایلاء و الظهار من طلاق الجاهلية۔‘‘(۶)’’ایلاء اور ظہار جاہلیت کے زمانے میں طلاق شمار ہوا کرتے تھے۔‘‘

مذکورہ بالا بیان سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ عرب عہدِ جاہلیت میں عام طور پر تین طریقوں سے طلاق دینے کا رواج تھا، جیسا کہ امام بیہقی ؒ نے اپنی کتاب معرفۃ السنن و الآثار میں امام شافعی ؒ (متوفیٰ:۲۰۴ھ)سے سنداًنقل کیا ہے کہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’سمعت من ارضی من أهل بالقرآن یذکر أن أهل الجاهلية کانوا یطلقون بثلاثة: الظهار، والایلاء، والطلاق۔‘‘(۷(

’’میں نے قرآن کے اہلِ علم لوگوں سے سنا ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ تین طریقوں سے طلاق دیا کرتے تھے۔(۱)ظہار(۲)ایلاء(۳)طلاق(لفظِ صریح یا کنایہ)۔‘‘

مذکورہ بالا ترتیب سے عہدِ جاہلیت میں مروجہ طلاق کی صورتوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔

(1)ظہار:

ظہار لفظ کا مادہ(ظ،ہ،ر) ہے اور ’’ظہر‘‘پشت(پیٹھ)اورکسی شے کے ظاہر حصے کو کہتے ہیں نیز یہ لفظ سواری کے لیے بھی مستعمل ہے۔جیسا کہ علامہ جوہری ؒ بیان فرماتے ہیں۔‘‘(۸)اورلغت کے معروف محقق ،ابن فارسؒ کے مطابق:

’’الظاء والهاء والراء، أصل صحیح واحد یدلّ علی قوۃ و بروز۔‘‘(۹)

’’ظ‘‘،’’ھ‘‘اور ’’ر‘‘کا مادہ اصل میں قوت اور آشکارہ ہونے کے معنی میں آتا ہے۔‘‘امام ازہریؒ ظہار کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’وهو الظهار، واصله مأخوذ من الظهار، وذلك ان یقول: انت علی کظهر امی، وانما خصو الظھر دون البطن والفخذ والفرج، و هذا اولی بالتحریم، لان الظہر موضع الرکوب، والمرأۃ مرکوبة اذا غشیت،فکانی اذا قال:انت علی کظہر امی، اراد رکوبك للنکاح حرام علی کرکوب امی للنکاح، فاقام الظهر مقام الرکوب لانه مرکوب، و اقام الرکوب مقام النکاح لان الناکح راکب، وهذا من لظیف الاستعارۃ للکناية۔‘‘(۱۰)

’’ظہار کی اصل ماخوذ ہے ظہر(پیٹھ) سے ، اور اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زوجہ سے کہے کہ ،تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ اس کے باوجود کہ پیٹ ، ران اور عورت کا عضوِ مخصوص حرمت کے اعتبار سے زیادہ سخت ہیں،(ظہار کے لیے)ان کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پیٹھ سواری کی جگہ ہے اور عورت حقوقِ زوجیت کی ادائیگی کے وقت مرکوبہ ہوتی ہے۔ گویا کہ شوہر اپنی منکوحہ سے کہتا ہے کہ تجھ پر نکاح کی وجہ سے سوار ہونا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسا کہ مجھ پر میری ماں پر سوار ہونا، تو اس جملے میں پیٹھ کو سواری اور سواری کو نکاح کے قائم مقام ٹہرایا گیا اس لیے کہ نکاح کرنے والا سوار(راکب)ہوتا ہے ۔یہ کنایہ کے لیے لطیف سا استعارہ ہے۔‘‘

امام طبریؒ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ’’ جاہلیت کے زمانے میں اگر کوئی شخص اپنی زوجہ کو کہتاکہ(انت علی کظہر امی)( تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے)۔تو اس سے بیوی اپنے شوہر کے لیے حرام ہوجاتی اور نکاح ختم ہوجاتا۔‘‘(۱۱)نیز امام نظام الدینؒ فرماتے ہیں:

’’ان الظهار کان من أشد طلاق الجاهلية لأنه فی التحریم ‘‘(۱۲)

’’جاہلیت کے زمانے میں سخت ترین طلاق کی صورت ظہار تھی اس لیے کہ اس سے نکاح کا بندھن بالکل حرام ہو جاتاتھا۔‘‘

’’کان الظهار طلاقا فی الجاهلية، الذی اذا تکلم به أحدهم لم یرجع فی امرأته ابدا۔‘‘(13) ’’ظہار جاہلیت کے زمانے میں ایسا طلاق ہوا کرتا تھا کہ اس کا مرتکب اپنی زوجہ سے کبھی بھی رجوع نہیں کرسکتا تھا۔‘‘

(2)ایلاء:

لغت کے معروف محقق محمد بن مکرم افریقیؒ کے مطابق: ’’آلا یولی ایلا ،حلف‘‘(۱۴) ’’ایلاء‘‘لغت میں مطلقاً قسم کے لیے آتا ہے‘‘۔

اور مرتضیٰ زبیدیؒ کے مطابق، ایلاء ضرر اور غضب کی صورت میں قسم کھانے کا نام ہے ناکہ فائدے اور رضاء کے لیے (۱۵)جیسا کہ حضرت علیؓ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی زوجہ سے اتنی مدت تک جدا رہنے کی قسم کھائی تھی کہ جب تک وہ بچے کو دودھ پلائے۔ کیا یہ ایلا ء ہے؟۔تو حضرت علیؓ نے جواباً ارشاد فرمایا(لیس بایلاء، انما اراد الاصلاح بہ)’’یہ ایلاء نہیں ،کیوں کہ اس نے صرف اصلاح کے ارادے سے (قسم کھائی )ہے۔(۱۶)

دکتور جواد علی رقم فرماتے ہیں کہ: ’’کان من طلاق اهل الجاهلية سمّوہ’’الایلاء‘‘، وهو القسم علی ترك المرأۃ مدۃ۔‘‘(۱۷(

’’جاہلیت میں کسی مدت کو متعین کر کے خاوند قسم کھاتا کہ وہ اپنی زوجہ سے اس مدت میں(ازدواجی (تعلقات ترک کیئے رہے گا۔‘‘

ایلاء کی مدت کے بارے میں حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ: ’’کان ایلاء اهل الجاهلية السنة والسنتین واکثر من ذلك ‘‘(۱۸( ’’جاہلیت کے زمانے کے لوگ ایک یا دوسال یا اس سے بھی زیادہ مدت کے لیے ایلاء کیا کرتے تھے۔‘‘

امام سرخسیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’الایلاء کان طلاقا معجلاً‘‘(۱۹) ایلاء طلاق معجل ہوا کرتا تھا۔‘‘

اور علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں کہ: ’’الایلاء کان طلاقا معجلاً فی الجاهلية فجعله الشرع طلاق مؤجلاً۔‘‘( ۲۰(

’’ایلاء جاہلیت کے زمانے میں طلاقِ معجل(فی الفور طلاق) ہواکرتی تھی اور اسلامی شریعت نے اسے طلاقِ مؤجل کردیا۔‘‘

(3)طلاق(بلفظِ صریح و کنایہ):

عام طور پر عرب میں ازدواجی تعلقات کے انقطاع کے لیے لفظِ طلاق صراحتاً بولا جاتا اور بسا اوقات الفاظِ کنایہ کے ذریعہ بھی طلاق دی جاتی تھی۔ عربی تاریخ کے محقق’’توفیق برو‘‘عرب جاہلیت کے زمانے میں طلاق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

’’کان الطلاق من حق الرجل، یستعمله متی شاء لأي سبب أو حتی بدون سبب۔وکان العرف یقضی بان الرجل اذا طلق زوجته واحدۃ کان احق الناس بها۔ اما اذا استوفی الثلاث انقطع السبیل عنها، فالطلاق ثلاثا معناہ الفرقة التامة بین الزوجین۔‘‘( ۲۱(

’’طلاق کا حق صرف مردوں کو حاصل تھا۔وہ جب چاہتے اور کسی بھی سبب سے یا بغیر سبب کے بھی طلاق دے سکتے تھے۔ اور ان کے ہاں کوئی مرد اپنی زوجہ کو ایک طلاق دیتا تو لوگوں میں سب سے زیادہ اس بات کا مستحق ہوتا کہ وہ اپنی مطلقہ زوجہ کو اپنائے ،یعنی رجوع کرے۔اور اگر تین طلاق پورے دیتا تو نکاح کا راستہ منقطع ہوجاتا لہذا تین طلاقوں کے دینے سے زوجین کے مابین مکمل جدائی سمجھی جاتی تھی۔‘‘

عرب عہدِ قدیم میں تین طلاقوں کا تذکرہ ملتا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا، س کے بارے میں علامہ آلوسیؒ رقم فرماتے ہیں کہ:

’’کان العرب فی الجاهلية یطلقون ثلاثا علی التفرقة، و أول من سن ذلك لهم إسماعیل بن إبراهيم عليهما السلام ثم فعلت العرب ذلک،‘‘(۲۲(

’’عرب عہدِ جاہلیت میں متفرق طور پر تین طلاق دیا کرتے تھے اور ان (تین طلاقوں کی حد بندی)حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مقرر فرمائی تھی اور پھر عربوں میں یہ ریت چل پڑی۔‘‘

قدیم عربوں میں تین طلاق کے بعد رجوع کی ممانعت پائی جاتی تھی لیکن بعد میں لوگوں نے تین طلاق کے بعد رجوع کی صورت بنا لی تھی جیسا کہ دکتور جواد علی رقم فرماتے ہیں کہ:

’’ویظهر أن الجاهلين کانوا قد أوجدوا حلا۔۔۔۔ فاباحوا للزوج أن یرجع زوجه إليه بعد الطلاق الثالث، ولکن بشرط ان تتزوج بعد وقوع الطلاق الثالث من رجل غریب، علی أن یطلقها بعد اقترانها به، عندئذ یجوز للزوج الأول أن یعود اليها بزوج جدید۔‘‘(۲۳)

’’یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جاہلیت کے زمانے کے لوگوں نے (تین )طلاقوں کے بعد حلال ہونے کی راہ پائی۔اس طرح کہ تین طلاقوں کے بعد بھی اگر شوہر رجوع کرنا چاہتا تو اس کے لیے رجوع کرنا مباح تھا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ عورت کسی اجنبی شخص سے اس شرط پر نکاح کرے کہ وہ شخص اس عورت کو طلاق دے گا۔اس امر کےمکمل ہونے کے بعد پہلا شوہر اس مطلقہ سے نکاحِ جدید کے ساتھ لوٹ سکتا تھا۔‘‘

عرب عہدِ جاہلیت میں طلاق کی تعداد کامعاملہ بعد کے ادوار میں نہایت ہی غیر اہم ہوا یہاں تک کہ لوگ طلاق درطلاق دیتے جاتے اور پھر رجوع پر رجوع کرتے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا دوسری طرف عورت معلقہ رہتی۔ عرب جاہلیت کے زمانے کی یہ ریت اسلام کے ابتدائی زمانے تک چلتی رہی جیسا کہ حافظ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں رقم فرماتے ہیں کہ:

’’الناس کان عليه الامر فی ابتداء الاسلام من ان الرجل کان احق يرجعة امرأته و ان طلقها مأءۃ مرۃ ما دامت فی العدۃ۔‘‘(۲۴)

’’ابتداء اسلام میں مرد کو حق تھا کہ اپنی زوجہ کو طلاق دینے کے بعد،عدت کے دوران ،رجوع کر سکتا تھا، اگرچہ سو مرتبہ طلاق ہی کیوں نہ دی ہو۔‘‘

اس کی تائید حضرت عائشہؓ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ:

’’الرجل یطلق امرأته ماشاء الله ان يطلقها وهى امرأته اذا ارتجعها وهى فی العدۃ و ان طلقها مائة مرۃ و اکثرحتی قال رجل لامرأته: واللہ لا اطلقک فتبینی ولا آویک ابدا قالت: وکیف ذلك؟ قال :اطلقک فکلما ھمت عدتک ان تنقضی راجعتک فذھبت المرأۃ حتی دخلت علی عائشة فاخبرتها فسکتت عاشة حتی جاء النبی ﷺ فاخبرتہ فسکت النبی ﷺ حتی نزل القرآن الطلاق مرتان۔‘‘(۲۵(

’’مرد اپنی زوجہ کو جتنی چاہتا طلاق دیتا اور عورت اس کی منکوحہ ہی رہتی جبکہ وہ شخص عدت کے دوران اس سے رجوع کرتا اگرچہ طلاق اور رجوع سومرتبہ یاا س سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوتا۔یہاں تک کہ ایک شخص نے اپنی منکوحہ سے کہا کہ اللہ کی قسم میں تجھے نہ مکمل طلاق دے کر چھوڑوں گا اور نہ ہی رکھوں گا ۔عورت نےپوچھا وہ کیسے؟ خاوند نے کہاکہ میں طلاق دیتا رہوں گا اور عدت کے ختم ہونے کے قریب رجوع کرتا رہوں گا۔عورت یہ معاملہ حضرت عائشہؓ کے پاس لائی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے سکوت اختیار فرمایا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی طلاق دو مرتبہ ہے۔‘‘

الفاظِ صریح کے ساتھ ساتھ اہلِ عرب نے ایسے الفاظ متعین کر لیے تھے کہ جن سے طلاق کا واقع ہونا سمجھا جاتا تھا۔یعنی طلاق دینے کے لیے لفظِ طلاق کے بجائے کنایہ الفاظ یا جملے بھی استعمال کیئے جاتے تھے۔ جیسا کہ امام الازہریؒ اپنی کتاب ’’تھذیب اللغہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’کانت العرب اذا طلق أحدهم امرأته فی الجاهلية، قال لها:’’حبلك علی غاربك‘‘ ای خلیت سبیلک فاذهبى حیث شئت۔‘‘(۲۶(

’’عرب جاہلیت کے زمانے میں جب کوئی شخص اپنی زوجہ کو طلاق دیتا تو یوں کہتا۔’’حبلک علی غاربک‘‘ (تیری رسی تیرے کندھے پر ہے)اس سے مراد یہ ہوتا کہ میں نے تیرا راستہ چھوڑ دیا پس تو چلی جا جہاں چاہے۔‘‘

اس کی مثال عربوں میں بعد از اسلام بھی ملتی ہے ،جیسا کہ عطابن ابی رباحؒ روایت فرماتے ہیں کہ:

’’ان رجلا قال لامرأته: حبلك علی غاربك، قال ذلك مرارا، فاتی عمر بن الخطاب فاستحلفه بین الرکن و المقام:’’ما الذی اردت بقولک؟‘‘ قال:اردت الطلاق، ففرق بينهما‘‘(۲۷(

’’ایک شخص نے اپنی زوجہ سے کہا’’حبلک علی غاربک‘‘اور اس طرح بار بار کہا، لہذا وہ شخص حضرت عمر بن خطابؓ کے پاس آیا تو آپؓ نے حجر اسود اور مقام ابراہیمؑ کے درمیان کھڑے ہو کر اس سے قسم لی کہ بتاؤ تم نے اپنے قول ’’حبلک علی غاربک‘‘سے کیا مراد لی ہے؟۔تو اس نے کہا کہ میں نے طلاق کا ارادہ کیا۔تو حضرت عمرؓ نے ان دونوں میں جدائی فرمادی۔‘‘

اسی طرح لغت کے معروف محقق،محمد بن مکرم الافریقیؒ لسان العرب میں الفاظ کنایہ کی ایک مثال یہ دی ہے کہ کوئی شخص عہدِ جاہلیت میں اپنی عورت سے یوں کہتا:

’’انت مخلی كهذا البعیر لا یمنع من شیء۔‘‘(۲۸)’’تو اس اونٹ کی طرح آزاد ہے تجھے کسی چیز سے منع نہیں کیا جائے گا۔‘‘

تو عہدِ جاہلیت کے لوگ اس طرح کہہ کر طلاق دیا کرتے تھے۔ اسی طرح امام ازدیؒ طلاقِ کنایہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں طلاق کے لیے یوں بھی کہا جاتاکہ:

’’اذهبى فلا اندہ سربك‘‘یعنی چلی جا میں تمہارے اونٹ کو نہیں چاہتا ۔اس سے مراد یہ ہوتا کہ تجھے طلاق ہے۔‘‘(۲۹(

اور ڈاکٹر جواد علی کے مطابق یوں بھی کہا جاتا:

’’اخترت الظباء علی البقر‘‘جس کا مفہوم ہے،’’میں نے ہرن کو اختیار کر لیا گائیں پر‘‘ اور ایسے بھی کہتے’’فارقتک‘‘میں نے تجھ سے فرقت اختار کرلی اور ایسے بھی کہتے’’سرحتک‘‘میں نے تجھ کو چھوڑ دیا وغیرہ۔ بھی طلاقِ کنایہ کے لیے مستعمل تھیں۔(۳۰(

4-خلع:

طلاق کی مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ عربوں میں قبل از اسلام طلاق کے حصول کے لیے خلع کا تذکرہ بھی ملتا ہے اور علامہ آلوسی بغدادی ؒ اپنی مشہور کتاب’’ بلوغ الارب ‘‘میں عامر بن ظرب کا واقعہ نقل فرماتے ہیں کہ اس نے اپنی بیٹی کے شکایت کرنے پر اس کے مہر کے بدلے طلاق لی اور پھر رقم فرماتے ہیں کہ:

’’فزعم العلماء ان هذا کان اول خلع فی العرب۔‘‘(۳۱)’’علماء گمان کرتے ہیں کہ یہ عرب میں پہلا خلع تھا۔‘‘

طلاق دینے کا حق اصلاً تو مردوں کو ہی حاصل تھا لیکن زوجہ نکاح کے بندھن سے خلاصی کے لیے اپنے خاوند کو پیشکش کر سکتی تھی کہ مہر کی واپسی یا مال کے بدلے خاوند اس کو طلاق دیدے، اس طرح مطالبے کے ذریعہ طلاق کے حصول کو’’خلع‘‘کہا جاتا تھا۔خلع کے لفظی معنٰی کے بارے میں امام زبیدیؒ لکھتے ہیں کہ:

’’النزع الا ان فی الخلع مهلة قاله اللعث، وسوی بعضهم بین الخلع و النزع۔‘‘(۳۲(

’’اس کے معنی ’’نزع‘‘(نکالنے)کے ہیں مگر لیثؒ فرماتے ہیں کہ خلع میں نزع کے معنیٰ مہلت(تاخیر)کے ساتھ نکالنے کے ہیں اور بعض علماء خلع اور نزع کو مترادف کہتے ہیں۔‘‘عرب عہدِ قدیم میں خلع کے بارے میں دکتور جواد علی لکھتے ہیں کہ:

’’اما الزوجة، فلیس لها حق الطلاق، ولکنها تستطیع خلع نفسها من زوجها بالاتفاق معه علی ترضية تقدمها اليه، کان یتفاوض اهلها او ولی أمرها او من توسطه التفاوض مع الزوج فی تطلیيقها منه فی مقابل مال او جعل یقدم اليه۔ فاذا وافق عليه وطلقها، یقال عندئذ لهذا النوع من الطلاق:’’الخلع۔‘‘(۳۳(

’’عہد جاہلیت میں عورت کو طلاق کا حق نہ تھا ، لیکن عورت اپنے خاوند کو اپنے گھر والوں یا ولی یا کسی اور ذریعہ سے پیشکش کرتی کہ وہ اس عورت کو طلاق دے اور عور ت طلاق کے بدلے میں مال یا کوئی اورچیز دے گی، پس اگر خاوند مان جاتا تو طلاق دیتا، اس قسم کی طلاق کو ’’خلع‘‘کہا جاتا تھا۔‘‘

عہدِ جاہلیت میں طلاق کی وجوہات:

عرب عہدِ جاہلیت میں بڑے خاندانوں میں عورتوں کو حقیر اور دامادی رشتوں کو اپنے لیے عار سمجھا جاتا تھا، قرآن کریم میں زمانہ جاہلیت کے اس تصور کو یوں ذکر کیا گیا ہے کہ:

’’أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاكُم بِالْبَنِينَ۔ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ۔‘‘(۳۴(

ترجمہ:’’کیا اس نے اپنی مخلوق میں سے خود تو بیٹیاں لیں اور تم کو چن کر بیٹے دیئے۔ حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے جو انہوں نے خدا کے لیے بیان کی ہے تو اس کا منہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔‘‘

اور ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

’’وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ۔ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ‘‘(۳۵( ’’اور جب اس لڑکی سے جو زندہ دفنادی گئی ہو پوچھا جائے گا۔کہ وہ کس جرم پر ماری دی گئی۔‘‘

اس کا اثر عام لوگوں پر بھی پڑا اور عوام الناس بھی عام طورپر ایسے اقدامات پر فخر محسوس کرتے جس سے عورت کم تر ظاہر ہوتی ۔ہر معاشرے میں ماسوائے چند مخصوص حالات کے، ،طلاق کے اسباب تقریباً یکساں ہوتے ہیں ،مثلاًزوجین میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہونا اور مزاج کا ناموافق ہونا وغیرہ۔ لیکن عرب جاہلیت کے زمانے میں لوگ عورتو ں کو اذیت دینے کے لیے بھی طلاق دیا کرتے تھے اور اس کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ طلاق کے بعد قبل از عدت رجوع کر کے پھر طلاق دیتے اور یہ سلسہ جاری رہتا، تاکہ عورت کم تر ظاہر ہو اور عورت پر مرد اپنی حاکمیت مسلط رکھے ۔‘‘(۳۶(

عرب جاہلیت کے زمانے میں طلاق کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ بلاوجہ طلاق دینے کو گناہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لہذا عورت کا بانجھ ہونا یا فقط بیٹیاں جننا، عصبیت ،خاندانی دشمنی وغیرہ جیسے معاملوں میں بے دریغ طلاق دیئے جاتے تھے۔(۳۷)عرب جاہلیت میں خاندانی اختلافات اور تبدیلی مذہب بھی طلاق کی عمومی وجوہات میں شامل ایک وجہ تھی۔ جیسا کہ’’ رسول اللہ ﷺکی دوبیٹیوں کو ابولہب کے کہنے پر اس کے دو بیٹیوں نے طلاق دی۔‘‘(۳۸) چونکہ عرب عہدِ جاہلیت میں ’’انسانی حقوق اور خاص کر عورتوں کے حقوق کا کوئی خاص تصور نہیں ہواکر تا تھا لہذا طلاق کے لیے کسی سبب کا ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا اور بے وجہ بھی طلاق دینے کو معاشرتی طور پر عیب نہ جانا جاتا۔‘‘(۳۹(

طلاق کے اثرات:

کسی بھی معاشرے میں عائلی نظام کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے ،گھریلو اعتبار سے انسان کی خوشحالی اس کے ظاہری شخصیت پر اثرانداز ہوتی ہے۔انسانی جملہ صلاحیتیں اس کے بہتر خانگی زندگی پر موقوف ہوتی ہیں۔اسی لیے متمدن معاشروں میں اعلیٰ سطح پر عائلی قوانین مرتب کیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح عہدِ جاہلیت میں بھی عربی معاشرے میں مروجہ عائلی نظامیں مطلقہ عورت کے لیے کچھ امور وضع کیئے گئے تھے جن کی رو سے مطلقہ کے لیے عدت مقرر نہیں کی گئی تھی جیسا کہ امام ابوداؤدؒ نے اپنی سنن میں اسماء بنت یزیدؓ کی روایت نقل فرمائی ہے جس میں مذکور ہے کہ:’’لم یکن للمطلقۃ عدۃ‘‘(۴۰)’’مطلقہ عورت کے لیے کوئی عدت نہیں ہوا کرتی تھی۔‘‘اور اس ضمن میں دکتور جواد علی کی تحقیق کے مطابق’’ بعد از طلاق ،مطلقہ سے فوراً نکاح کر لیا جاتا اگرچہ وہ پہلے شوہر سے حاملہ ہی کیوں نہ ہوتی، حمل ہونے کی صورت میں بچہ زوجِ ثانی کا شمار ہوتا اور شوہر کے موت کی صورت میں عورت پر ایک مکمل سال کی عدت ہوتی ۔مطلقہ عورت کے لیے کوئی نان نفقہ اور رہائش طلب کرنے کا حق،طلاق دینے والے پر نہ تھا۔‘‘(۴۱(

خلاصہ کلام:

عرب عہد جاہلیت میں مطلقہ عورت کے پاس معاشی اور معاشرتی تحفظ کے لیے چند صورتیں تھیں اول یہ کہ خاوند رجوع کرلے اور سابقہ نکاح برقرار رہے، دوم یہ کہ اگر رجوع نہیں کرتا تو مطلقہ عورت کے گھر والے کسی اور شخص سے اس کا نکاح کرادیتے اور وہ عورت اپنی زندگی بسر کرتی اور اگر اس کے برادری والے شادی نہ کراتے تو تمام عمر بغیر نکاح کے اپنے بھائیوں یا ان کی اولاد کی خادمہ بن کر زندگی گزارنا پڑھتی تھی۔

جاہلیت کے عہدِ میں لڑکوں کو ایک قیمتی سرمایہ اور جنگی قوت کی علامت سمجھا جاتا تھا لہذا طلاق کے بعد عورت کی فرقت سے اولاد،والدہ کی مشفقانہ تربیت سے محروم ہوکر سخت دل ہوجاتے جس کا اثر جاہلیت کے زمانے میں معمولی باتوں پر کئی سالوں تک جنگوں ،ظلم و زیادتی اور باہمی حق تلفی جیسے معاشرتی بگاڑ کی صورت میں ظاہر ہوا۔اسی لیے اسلام نے ایسے جملہ معاملوں کی حوصلہ شکنی کی جس سے عورت کو ضرر پہنچتا ہو۔ اور پُرزور طریقے پر بغیر شدید ضرورت کے طلاق دینے کو سخت ترین گناہ بتلایا۔ دورِ حاضر میں بھی طلاق کے سلسلے میں آگہی کا فقدان ہے نیز اسلامی تعلیمات کی رُو سے طلاق سے روکنے کے لیے تفصیلی تعلیمات دی گئی ہیں۔ طلاق کے تباہ کن اثرات براہ راست دو خاندانوں اور متاثرہ بچوں کے ذہنیت پر مرتب ہوتے ہیں اور پھر ان کے واسطے سے پورے معاشرے پر ظاہر ہوتے ہیں ۔اگر جملہ معاشرتی پہلوؤں پر غور کرکے طلاق کے معاملے کو دیکھا جائے تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ صرف منبر و محراب اس امر کی اصلاح کے لیے کافی نہیں بلکہ حکومت ریاستی سطح پر ذرائع ابلاغ کے جملہ وسائط سے ایک بھرپور مہم کے ذریعے لوگوں میں شعود بیدار کرے کہ فقط جزبات اور ذاتی مفادات کی وجہ سے طلاق نہ دی جائے بلکہ اپنے آنے والی نسلوں اور دو خاندانوں نیز اپنے معاشرے کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے تحمل اور بردباری نیز حکمت و بصیرت سے ازدواجی تعلق کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جائے۔

حوالہ جات:

)۱)البخاری،محمد بن اسماعیل، ’’الجامع الصحیح المختصر من امور رسول اللہ ﷺ وسننہ و ایامہ‘‘،دار طوق النجاۃ، بیروت،۱۴۲۲ھ،۷\۵۱

)۲)توفیق برو، ’’تاریخ العرب القدیم‘‘، دار الفکر،بیروت،۱۴۲۲ھ، ۲۶۵

(۳)قرآن کریم، ۴:۹۱، مترجم فتح محمد جالندھری، تاج کمپنی لمٹڈ، لاہور، ص۔۵۰

(۴)الطبری، محمد بن جریر،(متوفٰی:۳۱۰ھ)’’جامع البیان فی تأویل القرآن‘‘، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۰ھ، ۸\۱۰۸

(۵)جواد علی،الدکتور،(متوفٰی:۱۴۰۸ھ)’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ دارالساقی، بیروت، ۲ ۰۰۱م، ۰۱\۲۰۸تا۲۱۸

(۶)ابن کثیر،ابوالفداء اسماعیل(موفٰی:۷۷۴ھ)،’’تفسیر القرآن العظیم‘‘المکتبۃ العصریۃ، بیروت، ۲۰۰۷م، ۴\۲۸۹

(۷)بیہقی،احمد بن حسن،(متوفٰی:۴۵۸ھ)’’معرفۃ السنن و الآثار‘‘،دار الوفاء،قاھرہ،۱۴۱۲ھ،۱\۱۱۳

(۸)جوہری،اسماعیل بن حماد(متوفٰی:۳۹۳ھ)’’الصحاح تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ‘‘،دارالعلم للملایین، بیروت، ۱۴۰۷ھ،۲\۷۳۰

(۹)ابن فارس،ابو الحسین احمد(متوفیٰ:۳۹۵ھ)،’’معجم مقاییس اللغۃ‘‘دار الفکر، بیروت، ۱۳۹۹ھ، ۳\۴۷

(۱۰)الازھری،محمد بن احمد(متوفٰی:۳۷۰ھ)’’تھذیب اللغۃ‘‘،بیروت،دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، ۲۰۰۱م،۶\۱۳۵۔۱۳۶

(۱۱)طبری،محمدبن جریر(متوفٰی:۳۱۰ھ)’’جامع البیان فی تأویل القرآن‘‘،مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۰ھ، ۲۳\۲۲۱

(۱۲)نیسابوری،حسن بن محمد(متوفٰی:۸۵۰)،’’غرائب القرآن وغائب الفرقان‘‘،دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۶ھ،۷\۱۳۴

(۱۳)طبری ،محمد بن جریر،’’جامع البیان فی تأویل القرآن‘‘،۲۳\۲۲۸

(۱۴)افریقی،محمد بن مکرم(۷۱۱ھ)،’’لسان العرب‘‘،دار صادر،بیروت،۱۴\۴۰

(۱۵)مرتضی زبیدی،محمد بن محمد(متوفٰی:۱۲۰۵ھ)’’تاج العروس من جواہر القاموس‘‘، دار الھدیۃ، ۳۷\۹۱

(۱۶)عبد الرزاق بن ھمام(۲۱۱ھ)،’’المصنف‘‘،المکتب الاسلامی،بیروت،۱۴۰۳ھ،۶\۴۵۲

(۱۷)جواد علی،’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘،۱۰\۲۲۳

(۱۸)سعید بن منصور،(متوفیٰ:۲۲۷ھ)’’سنن سعید بن منصور‘‘ الدار السلفیۃ،الھند،۱۴۰۳ھ،۲\۲۷

(۱۹)سرخسی،شمس الائمۃ،محمد بن احمد(متوفیٰ:۴۸۳ھ)’’المبسوط‘‘،دار المعرفۃ،بیروت،۷\۲۰

(۲۰)کاسانی،علاء الدین،ابوبکر بن مسعود،(متوفیٰ:۵۸۷ھ)’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع‘‘، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۰۶ ھ، ۳ \۱۷۶

(۲۱)توفیق،برو،’’تاریخ العرب القدیم‘‘،دار الفکر، بیروت،۱۴۲۲ھ،ص۔۲۶۶

(۲۲)آلوسی،السید محمود شکری،’’بلوغ الارب فی معرفۃ الاحوال العرب‘‘،دار الکتاب المصری،۲\۴۹

(۲۳)جواد علی ،’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘،۱۰\۲۲۱۔۲۲۲

(۲۴)ابن کثیر،’’تفسیر القرآن العظیم‘‘،۱\۲۳۸

(۲۵)جلال الدین سیوطی،عبد الرحمن بن الکمال،’’الدر المنثور‘‘،دار الفکر،بیروت،۱۹۹۳م،۱\۶۶۳

(۲۶)الازہری،’’تھذیب اللغۃ‘‘،۸\۱۱۹

(۲۷)سعید بن منصور،’’سنن سعید بن منصور‘‘،۱\۳۱۹

(۲۸)افریقی،محمد بن مکرم،’’لسان العرب‘‘،۱\۶۴۲

(۲۹)ازدی،محمد بن الحسن(متوفیٰ:۳۲۱ھ)’’جمھرۃ اللغۃ‘‘، دار العلم للملایین، بیروت، ۱۹۸۷م، ۲\۶۸۷

(۳۰)جواد علی ،’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘،۱۰\۲۲۰

(۳۱)آلوسی،السید محمود شکری،’’بلوغ الارب فی معرفۃ الاحوال العرب‘‘،۲\۵۰

(۳۲)زبیدی،’’تاج العروس من جواھر القاموس‘‘،۲۰\۵۱۸

(۳۳)جواد علی ،’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘،۱۰\۲۲۴

(۳۴)قرآن کریم، ۴۳:۱۷۔۱۶، ص۔۲۹۶

(۳۵)قرآن کریم، ۸۱:۸، ص۔۳۵۵

(۳۶)آلوسی،السید محمود شکری،’’بلوغ الارب فی معرفۃ الاحوال العرب‘‘،۲\۵۵

(۳۷)جواد علی ،’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘،۱۰\۲۲۶

(۳۸)طبری،محمد بن جریر،’’تاریخ الامم و الملوک‘‘،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۰۷ھ،۲\۴۲

(۳۹)توفیق برو،’’تاریخ العرب القدیم‘‘،۲۶۵

(۴۰)ابوداؤد،سلیمان بن اشعث،’’سنن ابی داؤد‘‘،دار الفکر، بیروت،۱\۶۹۴

(۴۱)جواد علی ،’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘،۱۰\۲۳۰۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...