Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 36 Issue 1 of Al-Idah

عصمت أنبیاء سے بظاہر متعارض صحیحین کی بعض أحادیث کا علمی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

36

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060034497_938

Pages

1-22

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/21/12

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/21

Subjects

Sahih Bukhari Sahih Muslim Hadith Innocence Sahih Bukhari Sahih Muslim Hadith Innocence

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

صحیح بخاری میں اور اسی طرح حدیث کی دوسری کتابوں میں بعض احادیث ایسی ہیں جو بظاہر عصمت انبیاء کے مخالف نظر آتے ہیں لیکن ان احادیث پر تبصرہ کرنے سے پہلے عصمت کے لغوی اور اصطلاحی معنى پر روشنی ڈالنا مناسب سمجھتے ہیں۔

لغت میں عصمت: عَصَمَ یَعْصِمُ سے مصدر ہے ، کمانا ، روکنا اور حفاظت کے معنی میں آتا ہے[1]۔

اصطلاح میں عصمت انبیاء سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے انکی جسمانی اور نفسیانی فضائل کے سب سے افضل مرتبے میں ، ان پر رحمت اور برکت کے نازل ہونے میں انکی مدد کی ہوتی ہےاور اسی طرح انکی قلوب کی حفاظت کی ہو تی ہے اور انکے ساتھ اللہ کی توفیق ہر حال میں شامل ہوتی ہے ۔ عصمت کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ عصمت عدم قدرت علی المعصیۃ کو کہتے ہیں اور جمہور کے نزدیک مختار معنی یہ ہے کہ عصمت ایک ایسی خصلت کا نام ہے جو معصوم کو ارتکاب معصیۃ سے بلا کسی جبر و اکراہ کے منع کرتی ہے حتی کہ معصوم ترک معصیۃ اور فعل واجب میں مجبور نہیں ہوتا۔

جىسا كہ اما م رازی ؒ نے معصوم کی تعریف کی ہے ’’ معصوم وہ ہے جسکو گناہ کے کرنے پر قدرت نہ ہو ۔ جبکہ بعض کہتے ہیں کہ گناہ پر قدرت تو ہوتی ہے لیکن معصوم کے بدن اور نفس میں ایسی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ انکو گنا ہ کے اقدام سے روکتے ہیں ۔ عصمت کے مسألۃ میں علماء کے اختلاف کے بارے میں امام رازی فرماتے ہیں ، اس مسأ لۃ میں اختلاف چارمقامات پر واقع ہو ا ہے:

(۱)اعتقاد سے متعلق : تمام أمت کا اتفاق ہے کہ انبیاء کفر اور بدعات سے معصوم ہوتے ہیں مگر خوارج میں ایک فرقہ ’’ فضیلۃ ‘‘ انبیاء سے کفر کے وقوع ہونے کے قائل ہیں ۔

(۲)شریعت کے تمام احکام سے متعلق : أمت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیاء سے اس باب میں قصداً یا سھواً تحریف یا خیانت نا ممکن ہے ۔

(۳) فتوی سے متعلق : أمت کا انبیاء سے اس باب میں قصداً خطا ء کے نہ ہونے پر اتفاق ہے لیکن سھواً غلطی کے بارے میں اختلاف ہے ۔

(۴) انبیاء کے افعال اور احوال سے متعلق : اس بارے کئی اقوال ہیں ۔بعض کہتے ہیں كہ کبیرہ گناہ کے ہونے کا امکان ہو سکتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں قصداً صغیرہ گناہ تو ہو سکتا ہےلیکن کبیرہ نہیں۔ بعض دوسرےکہتے ہیں کہ صغیرہ گناہ بھی عمداً نہیں ہو سکتا ۔ پھر وقت کے اعتبا ر سے بھی اختلاف ہے بعض کہتے ہیں یہ سب معصوم ہونا پیدائش سے لیکر آخری عمر تک ، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ صرف نبوت کے زمانے میں گناہ سے معصوم ہوتے ہیں۔ اما م رازی کہتے ہیں : ہم کہتے ہیں کہ انبیاءنبوت کے زمانے میں کبیرہ اور صغیرہ کے قصداً ْ ْ/عمداً سے معصوم ہو تے ہیں لیکن سھواً جائز ہے یعنی ہو سکتے ہیں[2] ۔ عصمت کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو ذکر کرنے کے بعد اب ان احادیث پر علماء کے اقوال کی روشنی میں تبصرہ کریں گے جن پر بعض لوگوں نے طرح طرح کےاعتراضات کرکے ان احادیث کو انبیاء کرام علیھم السلام کی عصمت کے مخالف قرار دے رد کئے ہیں۔ کہ انکے اعتراضات واقعۃ اپنی جگہ پر درست ہیں یا کسی شبہ اور غلط فہمی کی بناء پر کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ پہلی حدیث حضرت سلیمان علیہ السلام سے متعلق ہے۔

1- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ لَهُ سِتُّونَ امْرَأَةً فَقَالَ لَأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى نِسَائِي فَلْتَحْمِلْنَ كُلُّ امْرَأَةٍ وَلْتَلِدْنَ فَارِسًا يُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَطَافَ عَلَى نِسَائِهِ فَمَا وَلَدَتْ مِنْهُنَّ إِلَّا امْرَأَةٌ وَلَدَتْ شِقَّ غُلَامٍ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ سُلَيْمَانُ اسْتَثْنَى لَحَمَلَتْ كُلُّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ فَوَلَدَتْ فَارِسًا يُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ۔ [3]

ابو ہریرۃ رضی اللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کی 60 بیویاں تھیں۔" ایک دن آپ نے فرمایا کہ میں آج رات اپنی سب بیویوں کے پاس جاوں گااور وہ سب حاملہ ہو کر مجاہد پیدا کریں گے جواللہ کے راستے میں جہاد کریں گے پھر آپ سب کے پاس گئے تو سوائے ایک کے جس سے ایک نامکمل بچہ پىدا ہوا باقی کسی سے بھی اولاد پیدا نہیں ہوئی" رسول اللہ نے فرمایا اگر وہ ان شاءاللہ کہہ دیتے تو سب حاملہ ہو کر مجاہدپیدا کرتیں جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے،

بعض روایات میں 99، بعض میں 100، بعض میں 70 اور بعض میں 90 بیویاں منقول ہیں[4]

یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جن کو کچھ مصنفین بعض اشکالات کے پیش نظر رد کرتے ہیں ، حدیث پر وارد کیے جانے والے اشکالات میں سے پہلا اشکال اضطراب فی المتن کا ہے ۔ صادق النجمی لکھتے ہیں کہ روایت کے متن میں اضطراب ہے کیونکہ بعض روایات میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی بیویوں کی تعداد 100 ہے ، بعض میں 99۔ بعض میں 90 اور بعض میں 70، بعض میں 60 ہیں ۔ اور یہ سب روایات امام بخاری اور مسلم نے روایت کی ہیں ۔ لہٰذا حدیث میں اس قدر اضطراب کا ہونا حدیث کے موضوع ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ دوسرا اشکال انسان کی جسمانی صلاحیتوں کے اعتبار سے کیا گیا ہے کہ انسان کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو اس کا ایک رات میں اتنی کثیر تعداد میں جماع کرنا ممکن نہیں ہے ۔تیسرا اشکال وقت کی قلت کے اعتبار سے ہے کہ ایک ہی شخص کے سو مرتبہ جنسی عمل سے گذرنے کے لیے صرف ایک رات کا وقت انتہائی کم ہے، کہ اتنے قلیل وقت میں اس کا وقوع ہی ممکن نہیں۔ چوتھا اشکال یہ ہے کہ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر سلیمان علیہ السلام کیسے ان شاء اللہ کا کلمہ کہنا بھول سکتے ہیں۔[5] پانچوں اشکال کیفیت بیان کے اعتبار سے یہ کہ ، انبیاء کرام اللہ سے براہ راست تربیت یافتہ ہوتے ہیں ،اور سب سے زیادہ حیا دار ہوتے ہیں ،ایسے میں سلیمان علیہ السلام کا لوگوں کے سامنے اپنی بیویوں سے جنسی عمل اور پھر اس کے متوقع نتائج کے بارے میں بات کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ۔.[6] شرف الدین الموسوی اور صالح ابو بکر نے بھی انہی اشکالات کی بنیاد پر اس حدیث کو آیات قرآنیہ اور عصمت انبیاءکی مخالف قرار دیتے ہوئے موضوعات میں سے شمار کیا ہے ۔[7]

ابن بطالؒ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں جہاد کی نیت سے بچے کی پیدائش پر ابھارنا مقصود ہے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام بھی چاہ رہے تھے لیکن اللہ کو منظور نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ ’’انشاء اللہ‘‘ بھول گئے اس لئے اگر وہ بول دیتے تو اللہ ان کو اولاد دے دیتے ۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ کوئی ’’انشاء اللہ‘‘نہ کہے تو اس کاکام پورا نہیں ہوگا۔ فرماتے ہیں کہ اللہ کے ہاں تقدیر کی کئی قسمیں ہیں۔ بعض اوقات اللہ تعالی انسان کے لئےبیٹے، رزق، مرتبہ وغیرہ کو کسی چیز کے ساتھ مقدر کر دیتے ہیں کہ اگر وہ کرے تو وہ چیزمل جاتی ہے نہ کرے تو نہیں ملتی اور اس وقعہ کی حقیقت حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ میں بھی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا :’’ اگر وہ تسبیح نہ کرتے تو مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک رہتے۔[8]

پہلے اشکال: "متن میں اضطراب" کا جواب: اس اشکال کا مناسب جواب ابن حجرؒ نے دیاہے۔ کہ بعض میں 60 ، بعض میں 70، بعض میں 90 اور بعض میں 100 بھی ہے ان سب کو ’’جمع ‘‘ کرناممکن ہے ۔ وہ اس طرح کہ 60 آزاد عورتیں تھیں اور باقی لونڈیاں یا اس کےبرعکس (40 آزاد تھیں اور 60 لونڈیاں) اور 70 کا لفظ مبا لغہ کے لئے کہا ہے اور جس نے 90 ذکر کیا ہے اس نے 100 سے کم ذکر کیں اور 90 کہہ کر کسر کو ترک کردیا ہے اور 100 والی روایت میں پورے ذکر کئے ہیں۔۔۔ ابن حجرؒ آگے فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی 1000 تک بیویوں کا ذکر کیا ہےجن میں 300 نکاح والی تھیں اور 700 لونڈیاں تھیں۔ امام حاکم نے مستدرک میں روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے قواریر کے بنے 1000 گھر تھے جن میں 300 آزاد عورتیں اور 700 لونڈیاں ہوتی تھیں۔ [9]

دوسرے اشکال کا جواب امام عینی نے یہ دیا ہے کہ ایک رات میں اتنی تعداد میں بیویوں کےساتھ جماع کرنا عادتادوسرے لوگوں کے لئے توبہت مشکل ہے لیکن اللہ نے پیغمبروں کے جسموں میں خلاف عادت ہی طاقت اور قوت رکھی ہے جیسا کہ ان کے لئے معجزات اور احوال میں رکھی ہے ۔ اس لئے حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہ قوت حاصل تھی کہ وہ ایک رات میں 100 بیویوں کے ساتھ جماع کر سکتے ۔ مزیدفرماتے ہیں کہ اس روایت کےعلاوہ کسی دوسری روایت میں اس واقعہ کےبارے میں صراحۃ کوئی خبر موجود نہیں مگر یہ کہ روایات میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ثابت ہے کہ ان کو 30 لوگوں کی برابر قوت اور طاقت کی روایت کے مطابق 40 لوگوں کی قوت کے برابرقوت دی گئی تھی ۔ مجاہد فرماتےہیں کہ 40 لوگوں کی قوت دی گئی تھی اور اس سے دنیا کاشخص بھی مراد نہیں بلکہ اہل جنت میں سے40 لوگوں کی برابر قوت دی گیئ تھی ۔ [10]

تیسرے اشکال کا جواب، عبدالسلام رستمی نے اپنی کتاب میں یہ دیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جیسے انسان کے لئے یہ تعجب کی بات نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کے لئے ہوا اور جنات کو مسخر کیا گیاتھا او دنیا کے اکثر ممالک پر انکی حکومت تھی۔ دوسری بات یہ کہ بائبل سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی سات سو لونڈیاں اور تین سو بیویوں کا ثبوت ملتا ہے۔ اگرصحیح حدیث سے سو بیویوں کا ثبوت مل جائے تو پھر اس پر اعتراض کیوں؟۔ اسکے علاوہ عدد کے تفاوت سے حدیث میں اضطراب پیدا نہیں ہوتا ۔ کیونکہ تھوڑے عدد کے ذکر سے زیادہ عدد کی نفی لازم نہیں آتی ۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ بعض نے صرف بیویوں کو ذکر کیا ہو اور بعض نے صرف لونڈیوں کو اور بعض نے سب کو ملا کر ذکر کیا ہو ۔[11] چوتھے اشکال کا جواب ابن حجر نے یہ دیا ہے کہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام انشاء اللہ کہنا بھول گئے تھے لیکن یہاں پر یہ احتمال بھی ہے کہ آپ زبان سے بھول گئے تھے لیکن آپ نےصرف دل میں کہنے پر اکتفاء کیاہو۔[12]

پانچویں اشکال کا جواب حافظ زبیر علی نے یہ دیا ہے کہ منکرین حدیث کا یہ اعتراض کرنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کیسے لوگوں کے سامنے اس بات کا ذکر کیا کہ میں آج رات اپنی بیویوں کے ساتھ جماع کرونگا"؟ فرماتے ہیں: ان کا یہ اعتراض کرنا درست نہیں کیونکہ حدیث سے تو صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ میں آج رات بیویوں کے پاس جاؤں گا ۔۔۔۔ اب یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ بات کس کے سامنے فرمائی تھی ؟ کسی حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے منبر پر لوگوں کے سامنے یہ اعلان کیا تھا ۔لہٰذا ممکن ہے کہ انہوں نے یہ بات اپنی بیویوں کے سامنے کہی ہو جسے اللہ نے بذریعہ وحی اپنے حبیب محمدﷺ کو بتا دیا۔ اور یہی راجح ہے لہٰذا اس پر تعجب کرنا بذات خود باعث تعجب ہے۔[13]

2, عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ فَقَالَ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ فَرَدَّ اللَّهُ عَلَيْهِ عَيْنَهُ ۔۔۔۔[14]

ابو ہریرۃ رضی اللہ سے روایت ہے کہ ملک الموت کو موسی علیہ السلام کے پاس ان کی روح کو قبض کرنے کے لئے بھیجا گیا ، لیکن جب وہ موسی علیہ السلام کے پاس آئے تو موسی علیہ السلام نے فرشتے کو چانٹا مارا ، فرشتہ اس حالت میں اللہ کے حضور چلا گیا اور کہا: آپ نے مجھے ایسے بندے کے پاس بیجھا جو مرنا نہیں چاہتا، پس اللہ نے انکی آنکھہ درست فرما دی۔۔۔

اس حدیث کو بھی مختلف اشکالات کے پیش نظر رد کیا ہے ۔ ابن فرناس نے اس حدیث کو پرانے بادشاہوں کی کہانیوں جیسی کہانی قرار دے کر رد کیا ہے اور بقول ان کے اس جیسی روایات سے دین کو پاک کرنا واجب ہے ۔ متعلقہ اشکالات اور جوابات کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

پہلا اشکال : موت کا ایک وقت مقرر ہے ، جس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی[15] ایسے میں موت کے فرشتے کا کسی کی روح قبض کرنے کے لیے اجازت لینے، اجازت ملے تو ٹھیک، نہ ملے تو روح قبض کیے بغیر واپس چلے جانے کی کچھ حقیقت نہیں ۔ [16]دوسراا اشکال یہ ہےکہ یہ کیسےممکن ہو سکتا ہے کہ جلیل القدر پیغمبر متکبر لوگوں والا کام کرے اور بغیر کسی سبب کے کسی کی آنکھ پھوڑ دے ۔ لہٰذا موسیٰ عليه السلام جیسے پیغمبر کی طرف اس واقعہ کی نسبت کرنا جھوٹ ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ان کو جلیل القدر انبیاء میں شمار کیا ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا ، و اذاخذ من النبین میثاقهم۔۔۔۔ اور دوسری آیت میں ’’ و کان عنداللہ وجیھا‘‘۔[17]حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نزدیک عالی شان مرتبہ والے تھے۔[18] تیسرا اشکال یہ ہے کہ حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اچھائی کے ساتھ بدلہ دیا ۔ حالانکہ انہوں نے ایک برا اور مذموم کام کیا تھااور اس پر کوئی ملامت کی بجائے عزت اور تکریم کا معاملہ کیا اور ان کو ہزاروں سال تک مزید زندگی دینے کی پیشکش کی ۔[19] چوتھا اشکال یہ ہے کہ کیا موسیٰ علیہ السلام زندگی کو زیادہ پسند کرتےتھےجس کی وجہ سے فرشتے کے ساتھ لڑائی کی ، حالانکہ دنیا کو ترجیح دینااور پسند کرنا یہ تو یہودیوں کا کام ہے نہ کہ اللہ کے نیک اور صالح لوگوں کاکام ہے ۔[20] شرف الدین الموسوی اور صالح ابو بکر نے بھی انہی اشکالات کی بنیاد پر اس حدیث کو آیات قرآنیہ اور عصمت انبیاءکےمخالف قرار دیتے ہوئے موضوعات میں سے شمار کیا ہے ۔[21]

حدیث پر وارد اشکالات پر ایک عمومی تبصرہ ابن شہبہ کے پاس ملتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ : حدیث کو حکایات میں سے شمار کرنا اور موضوع کہنا ان لوگوں کا ایک باطل وہم ہے کیونکہ حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں جیسا کہ ا مام احمد بن حنبلؓ نے بھی فرمایا ہے کہ حدیث میں کوئی ایسی چیزنہیں جس پر اعتراض کیا جائے ۔ اعتراض اس وقت ہوتا جب موسیٰ علیہ السلام فرشتہ کو پہچانے کے بعد تھپڑ مارتے اور موت سے جان بچاتے۔ جبکہ انبیاء کی شان اور مقام اس سے بری ہے۔[22] دوسرے اعتراض کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے کہ پیغمبروں سے موت سے پہلے پوچھا جاتا ہے اور ان کو زندگی اور موت کے درمیان اختیار دیاجاتا ہے۔ [23]

تیسرے اور چوتھے اشکال کا جواب ابن حجر نے کچھ اس طرح سے دیا ہےکہ بعض بدعتی لوگوں نےا س حدیث کو یہ کہتے ہوئے رد کیا ہے کہ اگر موسیٰ علیہ السلام نے اس فرشتہ کو پہچان لیا تھا پھر بھی اس کو مارا تو یہ اس فرشتہ کی توہین اور اس کی مرتبے کی تخفیف ہے لیکن اگر نہیں پہچانا تھا تو پھرآنکھ کے پھوڑنے کا قصاص کیوں نہیں لیا گیا؟ آپ جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو موسیٰ علیہ السلام کی روح قبض کرنے کے لئے نہیں بھیجا تھا بلکہ موسیٰ علیہ السلام کا امتحان لینا مقصود تھا۔ رہی یہ بات کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ان کو تھپڑ مارنا اور آنکھ کا پھوڑنا وہ اس لئے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے گھر میں ایک شخص کو بغیر اجازت کے دیکھااور ان کےفرشتہ ہونے کا علم بھی نہیں تھا ۔ شریعت میں کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہونے پر آنکھ کا پھوڑنا جائز ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے پاس بھی فرشتے انسان کی شکل میں آئے تھےاور انہوں نے بھی ابتداء میں نہیں پہچانا تھا اگر پہچان لیتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے لئے کھانے کا انتظام کیوں کرتے بالفرض اگر پہچان بھی لیا تھا تو پھر بھی فرشتوں اور انسانوں کےدرمیان قصاص کہاں مشروع ہے ؟ اور پھر یہ بات کہاں مذکور ہے کہ فرشتے نے قصاص کا مطالبہ کیا ہو اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قصاص نہیں لیا ہو ۔[24]

اس حدیث پر وارد اشکالات پر ایک عمومی تبصرہ احمد شاکر کے’’مسند احمد‘‘ میں مذکورہ حدیث کے حاشیۃ میں دیے گیے جواب میں بھی ملتا ہے کہ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس فرشتہ اس صورت میں نہیں آیا تھا جس صورت میں موسیٰ علیہ السلام ان کو پہچانتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ گھر میں بھی بغیر اجازت کے داخل ہوا جس کی وجہ سے ان کو مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ دی۔ شریعت میں ایسے بندوں کی آنکھ پھوڑنا جائز ہے ۔ اس وجہ سے موسیٰ علیہ السلام نے ایک مباح فعل کیا تھا ۔ اس کے بعدپھر فرشتہ اللہ کےہاں چلاگیا اور واقعہ سنایا جس پر اللہ نے دوبارہ موسیٰ علیہ السلام کا امتحان لینے کے لئے اس کوبھیجا۔ دوسری بار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو پہچانا تو آپ نہ تو موت سے انکار کیا اور نہ ہی کوئی مہلت مانگی ۔ بر خلاف ان لوگوں کے جو محدثین پر الزام اور بہتان لگاتے ہیں کہ اصحاب حدیث لکڑیاں جمع کرنے والے ہیں اور ایسی روایت ذکر کرتے ہیں جس پر کوئی اجر نہیں ملتا بلکہ اس کی وجہ سے اسلام کو بدنام کرتے ہیں ۔ در اصل یہ وہ لوگ ہیں جن کو دین کی صحیح سمجھ اور احادیث کے معانی کا علم نہیں اور حدیث میں غور و فکر نہیں کرتے۔[25]

3۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلًا حَيِيًّا سِتِّيرًا لَا يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَيْءٌ اسْتِحْيَاءً مِنْهُ فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالُوا مَا يَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ إِلَّا مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ وَإِمَّا آفَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا لِمُوسَى فَخَلَا يَوْمًا وَحْدَهُ فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَى الْحَجَرِ ثُمَّ اغْتَسَلَ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ ۔۔۔[26]

ابو ہریرۃ رضی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے ہی شرم والے اور بدن ڈھانپنے والے تھے۔ ان کی حیاء کی وجہ سے ان کے بدن کا کوئی حصہ بھی نہیں دکھائی دیتا تھا۔ بنی اسرائیل کے جو لوگ انہیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے ، ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اس درجہ بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لئے ہے کہ ان کے جسم میں عیب ہے یا کوڑھ ہے یا ان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یا پھر کوئی اور بیماری ہے۔

ادھر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ان کی ہفوات سے پاکی دکھلائے۔ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرنے کے لئے آئے ایک پتھر پر اپنے کپڑے (اتار کر) رکھ دیئے۔ پھر غسل شروع کیا۔ جب فارغ ہوئے تو کپڑے اٹھانے کے لئے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا اٹھایا اور پتھر کے پیچھے دوڑے۔ یہ کہتے ہوئے کہ پتھر! میرےکپڑے دیدے۔ آخر بنى اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے اور ان سب نے آپ کو برہنہ حالت میں دیکھ لیا ۔اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تہمت سے ان کو بری کر دیا۔ اب پتھر بھی رک گیا تو آپ نے کپڑا اٹھا کر پہننے کے بعد پتھر کو اپنے عصا سے مارنے لگے۔ خدا کی قسم اس پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے تین یا چار یا پانچ جگہ نشان پڑ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ”تم ان کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اذیت دی تھی ‘ پھر ان کی تہمت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بری قرار دیا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں بڑی شان والے اور عزت والے تھے۔“ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔

اس ضمن مىں كچھ اشكالات پىش كى جاتى ہىں:

پہلا اشکال یہ ہے کہ اگر موسیٰ علیہ السلام کو قوم کی طرف سے پہنچے والی اذیت صرف ان کے جسم سے تعلق رکھتی تھی[ یعنی قوم کی طرف سے جسمانی عیب کے دعوے کی وجہ سے اذیت میں مبتلا تھے] ، تو پھر یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ ان کا رب ، انہیں بے پردہ کرنے اور رسوائی میں مبتلا کرنے ، ان کو نہ ماننے والوں کے سامنے بر ہنہ کرنے کے بغیر ہی کسی اور طریقے سے اس اذیت سے نجات نہ دے سکتا ہو ، حالانکہ پردہ پوشی کرنے والا قوی ہے۔کیا کوئی عاقل اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ اللہ نے اپنےبندے کی مدد اور نصرت اس طریقہ کے ساتھ کی ہو گی۔ جعفر السبحانی نے بھی یہی اعتراض کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کواس مرض سے نجات دینی تھی تو اس کےاور بھی مناسب طریقےہو سکتے تھے اس طریقےکےمقابلے میں جس میں موسیٰ علیہ السلام ، لوگوں کےسامنے برہنہ حالت میں آئے اور انہوں نے دیکھ کر مذاق اڑایا۔[27]

دوسرا اشکال یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بہت کچھ قرآن میں ذکر کیا ہے تو اس واقعہ کو کیوں ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔ تیسرا اشکال یہ ہے کہ حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پتھر پر غصہ کرنے اور مارنے کا کیا معنیٰ کیونکہ وہ تو بے جان ہے ؟ چوتھا اشکال یہ ہے کہ جب پتھر کپڑے لے کر بھاگ رہا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے عقلاً اور شرعاً یہ ضروری تھا کہ کہیں چھپ جاتے اور بغیر کپڑوں کے لوگوں کے سامنےنہ جاتے۔[28]

ابن فرناس کہتے ہیں کہ اس حدیث کو امام بخاریؒ نے ’’ باب من ان اغتسل عُریانا وحدہ فِی الخلوۃ، و من تستر فالتَّستُر افضل‘‘ میں ذکر کیا ہے ان کو جب اس بات سے متعلق کوئی حدیث نہ ملی تو انہوں نے اس اسرائیلی قصہ کو حدیث بنا کر رسول اللہ ﷺکی طرف منسوب کیا ۔[29]

شرف الدین الموسوی کہتے ہیں، اس حدیث میں عقلاً محال اور ممتنع چیزوں کا ذکر ہے ۔ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایسے واقعہ کےساتھ تشہیر کرنا جس سے اس کے مقام اور رتبے میں کمی آتی ہو جائز نہیں۔[30]

امام عینیؒ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ننگے پیدل چلنےکا اور ضرورت کے وقت پردہ کی جگہوں کو دیکھنے کاجواز ملتا ہے ۔ اس کے علاوہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام انبیاء ظاہری اورباطنی عیوب اور نقصانات سے پاک اور بری ہوتے ہیں اور حدیث سے موسیٰ علیہ السلام کے ایک معجزہ کا ثبوت بھی ملتاہے کہ ان کے مارنے سے اس پتھر پر نشان پڑ گئے تھے ۔[31]

امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ حدیث سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے دو معجزوں کا ثبوت ملتا ہے ۔ ۱۔ پتھر کا کپڑے لے کر بھاگنا ۔۲۔ پتھر کے مارنے سے اس پر آثارکا ظاہر ہونا ۔اس کے علاوہ حدیث سے تمام انبیاء کا تمام عیوب سے پاک ہونا ثابت ہوتا ہے ۔[32]

امام طبریؒ اپنی تفسیر میں اس آیت مبارکہ’’لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آَذَوْا مُوسَى‘‘ کی تفسیر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مرض کے بارے میں فرماتے ہیں،کہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ’فتق‘‘ ہونے کا طعنہ دیتے تھے تو اس سے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف ہوتی تھی اسی وجہ سے پھر یہ واقعہ پیش آیا جس کے ذریعے اللہ نے ان کو اس عیب سے بری کر دیا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ انکو ابرص کی بیماری تھی اور اس کےساتھ یہ کہنا بھی مناسب ہے کہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام پراپنے بھائی ہارون کے قتل کادعویٰ کرتے تھے کہ آپ نے اس کو قتل کیاہے جس کی وجہ سے اس کو ان باتوں سے تکلیف ہوتی تھی ۔ یہ بھی ممکن ہےکہ اوپر ذکر کئے گئے سب باتیں مراد ہوں۔[33] امام بغویؒ اپنی تفسیر میں اسی واقعہ کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت زیادہ حیا والے تھے اور وہ ایسے لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے ان کا کوئی حصہ بھی نظر نہیں آتا تھا تو اس پر بنی اسرائیل کہتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام جو اس طرح سے لباس پہنتے ہیں یہ ان کی جلد میں کوئی عیب ہے وہ برص ہے ، یا آدرۃ ہے اور یا کوئی اور مصیبت ہے ۔ جس پر اللہ نے ان کو اس عیب سے اس واقعہ کے ذریعے بری کیا ۔[34]

ابن عطیۃ ؒ اپنی تفسیر میں سورۃ الاحزاب کے 69 آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایذا (تکلیف ) کے بارے میں بہت سارے اقوال ہیں ۔ ایک یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بدنام کرنے کے لئےاس کے پاس ایک فاحشہ عورت کو بھیج دیا تھا لیکن اس میں بھی اللہ نےحفاظت فرمائی تھی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کے قتل ہونےکا دعویٰ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کرتے تھے ۔ لیکن ؎ راجح یہ ہے کہ وہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جلد کی کسی بیماری کی وجہ سے عیب لگاتے تھے وہ عیب یا توآدرۃ، یا برص، یا کوئی اور مصیبت تھی تو اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس عیب سے اس واقعہ کے بعد بری کر دیا ۔ [35]

ابن حزمؒ فرماتے ہیں : حدیث میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ انہوں نے (بنی اسرائیل) موسیٰ علیہ السلام کی شرمگاہ دیکھی تھی ۔ بلکہ انہوں نے ایسی حالت دیکھی جس سے واضح ہو گیا کہ موسیٰ علیہ السلام پروہ لوگ جو الزامات لگاتے تھےکہ وہ آدرہیں( یعنی ان کےخصیے بہت موٹے ہیں ) اس واقعے سے وہ بری ہوئے کیونکہ ہر دیکھنے والے کو (ایسی حالت میں) بغیر کسی شک کے یعنی شرمگاہ کو دیکھے بغیر ہی یہ واضح طور پرمعلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی عیب نہیں جب دونوں رانوں کے درمیان والی جگہ خالی نظر آرہی ہو ۔[36]

4۔ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَرَصَتْ نَمْلَةٌ نَبِيًّا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ فَأَمَرَ بِقَرْيَةِ النَّمْلِ فَأُحْرِقَتْ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ قَرَصَتْكَ نَمْلَةٌ أَحْرَقْتَ أُمَّةً مِنْ الْأُمَمِ تُسَبِّح ۔[37]

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوتے ہوئے سنا’’ کہ یغمبروں میں سےایک پیغمبر کو ایک چیونٹی نےکاٹا تو انہوں نے چیونٹیوں کی پوری آبادی کو جلانے کاحکم دیا پھر ان کو جلا دیا گیا جس پر اللہ نے وحی کی کہ آپ کو ایک چونٹی نے کاٹا تھا اور آپ نے تسبیح کرنے والی پوری امت کو جلا دیا ‘‘۔

اس حدیث کو بھی عصر حاضر کے بعض اہل علم نے کئی شبہات کی بناء پرموضوعات میں سے شمار کیا ہے ۔ چنانچہ صادق نجمی لکھتے ہیں کہ ابو ہریرہؓ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے صرف ایک چیونٹی کے کاٹنے کے بدلے میں چیونٹیوں کی پوری آبادی کو جلا دیا ۔ لیکن ہمیں یہ پتہ نہیں کہ ابو ہریرہؓ نےکون سےکہانیاں سنانے والے سے یہ روایت نقل کی ہے کیونکہ حدیث کےموضوع ہونے مین کوئی شک نہیں ہےاور اسکی نسبت رسول اللہ کی طرف کرنا بھی جھوٹ ہے ۔[38] صالح ابوبکر نے بھی حدیث پر کئی اعتراضات کرکے حدیث کو موضوعات میں سے شمار کیا ہے۔ پہلا اشکال یہ کیا ہے کہ انبیاء کے اخلاق بہت عمدہ اوراعلیٰ مرتبے پر ہوتے ہیں اور وہ کسی انسان کی تکلیف پر بھی بدلہ نہیں لیتے چہ جائیکہ کہ ایک چیونٹی کےکاٹنےپر سب کو جلا دے یہ ایک غیر معقول اور غیر مقبول چیز ہے ۔دوسرا اشکال یہ کیا ہےکہ اللہ نے رسولوں کو انسانوں کی تربیت اور اصلاح کے لئے چنا ہوتا ہے تا کہ وہ انسانوں کے لئے نمونہ رہیں اگر اس حدیث کے مطابق کوئی پیغمبر بچوں جیسی حرکت کرے تو یہ لوگوں کے لئے ایک سنت بن جائے گی اور لوگ بھی اس کی اتباع کریں گے۔[39]

جعفر السبحانی نے حدیث پر یہ اشکال کیا ہے کہ ہم فرض کرتے ہیں کہ اس حدیث میں چیونٹیوں کا ذکر ہے کہ ان میں ایک مجرم تھی (قصوروار تھی) اگرچہ وہ قصور وار نہیں تھی کیونکہ کاٹنا چیونٹیوں کا ایک طبعی عمل ہے لیکن پھر بھی مان لیا کہ اس ایک کی غلطی تھی لیکن باقی سب کی کیا غلطی تھی ؟۔ کیا یہ پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر سے زیادہ بےشعور تھا اور ان سے زیادہ بے رحم تھا کہ انہوں نے قصداً ان کو روندا نہیں اگر روندتے تب بھی بغیر قصد اور ارادہ کے ہوتا جیسا کہ قرآن میں سورۃ نمل کی آیت ۸۱ میں ذکر کیا ہے۔ لیکن اس پیغمبر نے تو قصداً اور جانتے ہوئے ایک چیونٹی کی جرم کےبدلے سب کو جلا دیا۔ جبکہ نبی علیہ السلام نےچار چیزوں کےمارنے سے منع فرمایا ہے ، چیونٹی، شہد کی مکھی، ھُدھُد اور سارڈ۔ [40]

ابن حجرؒ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ دوسرے روایات کے مطابق اس حدیث میں جس نبی کا ذکر ہے اس سے مراد موسیٰ بن عمران کلیم اللہ ہے جس کو حکیم نے نوادر الاصول میں اور اسی طرح جعفر الفریا بی نے کتاب القدر کے آخر میں موقوفاً روایت کیا ہے ۔[41] امام عینی ؒ فرماتے ہیں : اس حدیث میں رسول اللہ نے خبردی ہے کہ اللہ نے اس نبی کو اس عمل پر عتاب(سرزنش) فرمایا ہے وہ اگر ایک کو جلا دیتے تو عتاب نہ فرماتے ۔ ا مام کرمانی فرماتے ہیں: کہ چیونٹی کو قصاص کے طور پر جلانا کیسے جائز ہے جبکہ وہ تو غیر مکلف بھی ہے ۔ پھر برائی کا بدلہ برائی کی حدتک ہے اور یہاں پر ایک چیونٹی نے کاٹا ہے لہٰذا کوئی بھی ’’ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى‘‘ کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ آگے کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے ان کی شریعت میں یہ جائز ہو اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تکلیف دینے والے کو شرعاً سانپ پر قیاس کرتے ہوئے قتل کرنا جائز ہے ۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ جب جائز تھا تو پھر عتاب کیوں فرمایا ؟ میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے اس کاعتاب کرنے کی وجہ سے اس کا اولیٰ عمل کو چھوڑ کر جواز پر عمل کرنا ہو اس قاعدہ کے تحت ’’ حسنات الابرار سیاٗت المقربین‘‘ اور یہ بات کہنا کہ ممکن ان کی شریعت میں جائز ہو اس میں اشکال ہے کیونکہ یہ تو تخمین(ظن) پر حکم دینا ہے اس لئےبہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے ہو سکتا ہے اسی نبی کو اس وقت تک جلانے کاممنوع ہونے کا علم نہ ہو ۔[42]

بعض علماءنے اس واقعہ کی ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ پیغمبر ایک ایسے علاقے سے گزرے جن کو اللہ نے گناہوں کے بدلے میں ہلاک کیا تھا تو یہ وہاں پر تعجب کی حالت میں کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ اے رب اسی گاؤں میں تو بچے، حیوان اور وہ لوگ ہونگے جنہوں نےکوئی گناہ نہیں کیا ہو گا ۔ اس پر اللہ نے اس نبی کو عبرت دکھانے کی غرض سے ان پر گرمی کو مسلط کیا جس کی وجہ سے وہ ایک درخت کے سایہ میں چلے گئےجہاں پر چیونٹیوں کا گھر بھی تھا۔ تو اس نبی پر نیند غالب آ گئی جب وہ نیند میں خوب مستغرق ہو گئے تو اسی وقت ایک چیونٹی نے ان کوکاٹا جس پر انہوں نے سب کو جلانےکا حکم دیا۔ سب کے جلانے کا حکم یا تو اسی وجہ سے دیا کہ کاٹنے والی کا علم نہیں تھا اور یا یہ کہ وہ ایذا(تکلیف) دینے والے تھے اس پر اللہ نے ان کو متنبہ کیا کہ ایذا دینے والے اور ان کے خاندان کو قتل کرنا ممکن ہے اگرچہ ان کے اہل عیال نے کوئی گناہ نہ کیا ہو ۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ اس وقت کی بات ہے جس نبی کی شریعت میں چیونٹی کو مارنا اور جلانا جائز تھا۔ اس لئے اصل فعل پر ملامت نہیں کیا بلکہ اپنی حد سے بڑھنے کی بناء پر عتاب فرمایا۔ہماری شریعت میں اس مشہور حدیث کی وجہ کسی بھی حیوان کو آگ سے جلانا ممنوع ہے (لا یعذب بالنار الا اللہ تعالیٰ) یعنی اللہ کے سوا کوئی بھی آگ کے ساتھ کسی کو عذاب نہیں دے سکتا ہے۔[43] ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں جب اس نبی کو چیونٹی نے کاٹا تو اس کے لئے قصاصاً ایک کو قتل کرنا کافی تھا۔ جیسا کہ روایت میں آتا ہے کہ ان سے کہا گیا کہ ایک کو کیوں قتل نہیں کیا۔ [44]امام عینیؒ فرماتے ہیں کہ حدیث سے سب حیوانوں کی تسبیح کا ثبوت ملتا ہے۔ ابن التىمہ فرماتے ہیں یہ حدیث ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ چیونٹی جلانا جائز نہیں اور ابن حبیب نے بھی اس کو جائز کہا ہے کہ جب ضرورت ہو تو ان کو جلانا اور ڈبونا جائز ہے ۔[45]

5۔ عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: 'بينما أيوب يغتسل عريانا، خر عليه رجل جراد من ذهب، فجعل يحثي في ثوبه، فناداه ربه يا أيوب ألم أكن أغنيتك عما ترى، قال بلى يا رب، ولكن لا غنى لي عن بركتك'۔[46]

حضرت ابو ہریرہؓ نے رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے’’ کہ حضرت ایوب علیہ السلام ایک دن برہنہ ہو کر غسل کر رہے تھے اس دوران آپ پر سونے کی ٹڈیوں کی ایک کثیر تعداد گر پڑی تو آپ نے ان کو کپڑے میں جمع کرنا شروع کیا اس پر اللہ نے وحی کی کہ اے ایوب کیامیں نے آپ کو ان چیزوں سے مستغنی نہیں کیا ہے حضرت ایوب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کیوں نہیں اے میرے رب ۔ لیکن مجھےآٓپکی برکت سے استغناء نہیں ہے۔

اس حدیث کو بھی عصر حاضر کے بعض اہل علم نے کئی شبہات کی بناء پرموضوعات میں سے شمار کیا ہے۔ عبدالحسین الموسوی نے حدیث پر یہ اعتراض کیا ہےکہ ٹڈیوں کا سونے سے پیدا کرنا یہ تو ایک معجزہ ہے اور اللہ کی عادت یہ ہے کہ وہ اس جیسے معجزات کا ظہور فقط ضرورت کے وقت کرتا ہے۔ لیکن یہاں پر اس جیسے معجزہ کو ظاہر کرنےکی ضرورت کوئی نہیں تھی کیونکہ حضرت ایوب علیہ السلام یہاں پر اکیلے میں غسل کر رہے تھے ۔ اس لیے اس حدیث کو وہی قبول کرے گا جو بصیرت اور حکمت سے خالی اور اندھا ہوگا۔[47]

صالح ابو بکر نے حدیث پر کئی اعتراضات کیے ہیں اور حدیث کو موضوعات میں سے شمار کیا ہے۔ پہلا اعتراض یہ کیا ہے کہ یہ ایک اسرائیلی روایت ہے جس کی رسول اللہ کی طرف جھوٹی نسبت کی گئی ہے کیونکہ حضرت ایوب علیہ السلام جیسے پیغمبر کیسے برہنہ غسل کر سکتے ہیں یہ تو جاہل لوگوں کا کام ہوتا ہے جن میں حیا نہیں ہوتی ۔ دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ جب اللہ تعالی نے حضرت ایوب علیہ السلام کو مال دینا چاہا یا ان کاامتحان لینا چاہا تو اس برہنہ حالت میں کیوں؟ اگر ان کو مال دینا تھا یا ان کا امتحان لینا تھا تو پردے کی حالت میں کیوں نہیں لیا؟ اس لئے اللہ کی شان اور عظمت کے لائق کونسا طریقہ مناسب تھا برہنہ حالت میں یا پردے کی حالت میں ؟۔ تیسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کااور شیطان کے ساتھ واقعے کو قرآن میں ذکر کیا ہے لیکن اس واقعہ کو کیوں ذکر نہیں کیا ہے۔[48]

ابو حب اللہ اپنی کتاب میں عبدالحسین الموسوی کی طرف سے کیے گئے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انکا یہ کہنا کہ معجزےکا ظہور تب ہوتا ہے جب ضرورت ہو ، حالانکہ ہمیں قرآن اور احادیث مباکہ سے بہت سارے معجزات کا علم ہوتار رہاہے جن کا ظہور بغیر کسی ضرورت کے ہو ا ہےمثلاً اسراء اور معراج جیسے معجزات جو کہ بغیر طلب کے اور بغیر ضرورت کے ظاہر ہوئے تھے اور ان کے بارے میں تو کسی کو علم ہی نہیں تھا مگر رسول اللہ کےخود سے خبر دینے کے بعد ہی علم ہوا ۔[49]

ابوالفضل العراقیؒ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس سونے کی ٹڈی کاگرنا یہ ان پراللہ کا بہت بڑا اکرام تھا اور ان کے حق میں ایک معجزہ تھا۔ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان پر صرف مال کے اکٹھےکرنے کی بناء پر برے ہونے یا مال کی محبت کا حکم لگانا یہ درست نہیں کیونکہ اسکے مختلف مقاصد اور وجوہات ہو سکتی ہیں اور عمل کا دارومدار تو نیت پر ہوتا ہے لہٰذایہ کہنا نا ممکن ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے دنیا کی محبت کی وجہ سے جمع کیا تھا۔ بلکہ انہوں نے تو صرف اس وجہ سے کہ یہ اللہ کی طرف سے برکت اور نعمت ہے اوراللہ کی برکت سے کون مستغنی ہو سکتا ہے جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے خود اس بات کی وضاحت کی ہے۔لہٰذا حلال مال کے جمع کرنے میں جب کہ وہ اپنے محبوب کی طرف سے ہو کوئی حرج ہی نہیں ہے ۔[50]

تبصرہ

۱۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک رات میں100 بیویوں کے پاس جانے سے متعلق روایت پر ناقدین کے اعتراضات پہلی نظر میں ایک حد تک صحیح معلوم ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ایک رات میں100 بیویوں کے پاس جانا وقت اور خلقی اعتبار سےبہت ہی مشکل ہے البتہ اللہ کی طرف سےحضرت سلیمان علیہ السلام کیلیے خلاف عادت وقت میں برکت ڈالنے کی وجہ سے ایسے ہی ممکن ہے جیسے ان کے لیے جنات اور ہوا کو اللہ نے مسخر کیا تھا۔ وقت میں برکت کا ہونا یہ تو اللہ کے عام صالح بندوں کے لئے بھی مشاہدے سے ثابت ہے جیسا کہ علماء نے بیان کیا ہے تو اللہ کے رسولوں کے لئے وقت میں برکت کا ہونا بدرجہ اولی ممکن ہے۔ مجھے بھی حدیث پر صرف ایک اعتراض کا درست ہونا معلوم ہو رہا تھا جس کو اوپر بھی بیان کر چکا ہوں وہ یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جیسے پیغمبر نے کیسے لوگوں کے سامنے یہ الفاظ کہے کہ میں آج رات اپنی 100بیویوں کے ساتھ جماع کرونگا ۔۔۔ لیکن اس اعتراض کا حافظ زبیر علی نے مناسب جواب دیا ہے کہ یہ بات آپ نے کس کے سامنے کہی تھی حدیث اس حوالےسے خاموش ہے حدیث سےتو صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ میں آج رات بیویوں کے پاس جاؤں گا ۔کسی حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے منبر پر لوگوں کے سامنے یہ اعلان کیا تھا ۔لہٰذا ممکن ہے کہ انہوں نے یہ بات اپنی بیویوں کے سامنے کہی ہوگی جو اللہ نے بذریعہ وحی اپنے حبیب محمدﷺ کو بتا دی۔ اس جواب سے میرے ذہن میں بھی جو شبہ تھا وہ ختم ہو گیا ۔ پھر یہاں یہ نکتہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ یہ ضروری تو نہیں کہ یہ بات انہوں نے کسی کے سامنے کہی ہو، بلکہ خود کلامی بھی ہوسکتی ہے۔ البتہ حدیث کے متن میں اس قدر اضطراب کا ہونا بھی شبہ سے خالی نہیں۔ کیونکہ علماء نے ان روایات میں جو تطبیق بیان کی ہے اس قدر قوی اور وزنی نہیں جس سے روایات کے درمیان اضطراب کو دور کیا جا سکے۔

۲۔ حضرت موسی علیہ السلام کےفرشتے کی آنکھ پھوڑنے سے متعلق حدیث کو بغیر کسی دلیل کے رد کرنا اور حدیث کو پرانے لوگوں کے قصے اور کہانیوں سے تشبیہ دینا ان لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جن کو دین کی صحیح سمجھ نہیں اور نہ ہی روایات کے معانی میں غور و فکر کرتے ہیں بلکہ جب کوئی حدیث سمجھ میں نہ آئے تو بغیر کسی خوف کے کہہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اگر غور کیا جائے اور اہل علم کے اقوال کی طرف رجوع کیا جائےتو اعتراض والی کوئی بات ہی باقی نہیں رہتی کیونکہ موسی علیہ السلام کا انسانی شکل میں گھر میں داخل ہونے والے فرشتے کی سرزنش کرنا ایک مباح فعل تھا کہ شریعت کے مطابق اگر گھر میں کوئی بغیر اجازت کے داخل ہو جائے تو اس کو مارنا جس سے آنکھ پھوٹ جائے یا کوئی اور نقصان ہو جائے جائز ہے ۔اس کے علاوہ یہ کہنا کہ قرآن میں کیوں ذکر نہیں کیا ہے تو یہ ایک باطل اعتراض ہے کیونکہ قرآن کریم کوئی قصے کہانیوں کی کتا ب نہیں کہ اس میں پچھلے سب انبیاء کے واقعات کو ذکر کیا جائے البتہ بعض واقعات کو اللہ تعالی نے عبرت اورتعلیم کی غرض سے ذکر کئے ہیں ۔

۳ ۔ صحیح بخاری میں پتھر کے حضرت موسی علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگنے سے متعلق حدیث بھی اگرچہ پہلی نظر میں موسی علیہ السلام کی شان اور مقام کے مخالف معلوم ہوتی ہے کیونکہ پتھر کا موسی علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگنا اور پھر موسی علیہ السلام کا برہنہ حالت میں ان کے پیچھے بھاگنا عقلی اعتبار سے نا ممکن معلوم ہوتا ہے البتہ بطور معجزہ کے پتھر کا کپڑے لے کر بھاگنا ممکن ہے۔ رہی یہ بات کہ موسی علیہ السلام کے دیگر واقعات جن کا ذکر قرآن میں ہے اس کو کیوں ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کا جواب انتہائی آسان ہے جس کو ہم نے اوپر کے پیراگراف میں بھی بیان کیا ہے۔کہ قرآن کوئی قصے ، کہانیوں کے مجموعہ کا نام نہیں ۔ البتہ ان اعتراضات میں سے صرف ایک نکتہ کی حکمت نہیں سمجھ سکا کہ ”کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس عیب سے بری کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا تھا جس میں آپ کو برہنہ ہو کر لوگوں کے سامنے نہ آنا پڑتا اور نہ ہی اس وجہ سے آپ کا مذاق اڑایا جاتا ۔ اس اعتراض کا جواب ابن حزمؒ کی قول سے بھی ایک حد تک دیا جا سکتا ہے وہ اس طرح کہ یہ عیب اس وقت ہوتا جب آپ بالکل برہنہ ہو کر سامنے آتے (یعنی آپ نے کچھ بھی نہ پہنا ہوتا) اس لئے ایسے حالت میں آنا ایک بڑی عیب کی بات ہے ۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام پورے برہنہ نہیں تھے بلکہ آپ نے لنگوٹی پہنی ہوئی تھی جس کی وجہ سے شرمگاہ چھپی ہوئی تھی اگرچہ ابن حزم نے اپنے اس قول پر کوئی دلیل ذکر نہیں کی ہے لیکن یہ ایک قوی احتمال ہے ۔ جیسا کہ بہت سے لوگ لنگوٹی پہن کر ہی غسل کرتے ہیں اور جب تالاب وغیرہ میں نہاتے ہیں تو بالکل برہنہ ہو کر نہیں نہاتے بلکہ لنگوٹی پہن کر نہاتے ہیں لہذا موسیٰ علیہ السلام نے بھی پہنی ہوگی اس وجہ سے تو آپ پتھر کے پیچھے بھاگے۔ یہاں پر ایک اور بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایسی حالت میں کوئی قصدا نہیں بھاگتا بلکہ فطری طور پر اس چیز کو پکڑنے کی کوشش میں بھاگتا ہے تو موسیٰ علیہ السلام بھی غالبا اسی طرح پتھر سے کپڑے لینے کی غرض سے بھاگے ہونگے یہاں تک کہ وہ اس حال میں لوگوں کے پاس پہنچے گئے۔ لہٰذا ان احتمالات کے ہوتے ہوئے حدیث کو مطلقاً موضوع کہنا اور اسرائیلیات میں سے شمارکرنا یہ ان لوگوں کا ایک وہم اور غلط فہمی ہے ۔

4۔ صحیح بخاری میں ایک نبی کا ایک چیونٹی کے کاٹنے سے چیونٹیوں کی پورے وادی کے جلانے سے متعلق حدیث کے بارے میں اہل علم حضرات نے جو وجوہات بیان کی ہیں اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نبی کی امت میں حیوان کو جلانے کی اجازت تھی اس وجہ سے تو جلانے پر عتاب نہیں فرمایا بلکہ سب کے جلانے پر عتاب فرمایا۔ لیکن پھر بھی یہ اشکال باقی رہتا ہے کہ ایک کے کاٹنے کیوجہ سے سب کو کیوں جلایا ۔ کیونکہ بغیر کسی غلطی کے ایک پیغمبر جو کہ دیگر انسانوں کے مقابلے میں بہت رحم دل ہوتے ہیں اس نے کیسے سب کو جلا دیا؟۔

۵۔ حضرت ایوب علیہ السلام کاغسل کرتے وقت ان پر سونے کی ٹڈیوں کے گرنے سے متعلق حدیث پر صالح ابو بکر اور دوسرے لوگوں کی طرف سے کئے گئے اعتراضات میں کوئی وزن ہے اورنہ ہی ان کی کوئی حقیقت ہے اس لیے کہ اگر حدیث کے الفاظ اور معنیٰ میں غور کیا جائے اور اسی طرح حدیث کے بارے میں علماءکے اقوال کی طرف رجوع کیا جائے تو سب اعتراضات رفع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے صالح ابو بکر کا یہ کہنا کہ حضرت ایوب علیہ السلام کیسے برہنہ غسل کر سکتے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھے ہی نہیں کیونکہ حدیث کامطلب ہے کہ اکیلے میں برہنہ ہو کر غسل کر رہے تھے نہ کہ لوگوں کے سامنے جیسا کہ صالح ابو بکر کو وہم ہو گیا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس مال کا آنا اور پھر ان کو جمع کرنا اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ وہ خود فرما رہے ہیں کہ یہ اللہ کی برکت اورانعام ہے اس سے کوئی مستغنی نہیں ہو سکتا ہےجبکہ یہ ایک معجزہ تھا اللہ کی طرف سے جس پر حضرت ایوب علیہ السلام نے خوشی کا اظہار کیا۔ جیسا کہ سب علماءنے اس بات کوذکر کیا ہے کہ حلال مال کے جمع کرنے میں جبکہ وہ اپنے محبوب کی طرف سے بھی ہو کوئی قباحت نہیں اور اس سے کسی انسان کا دنیا سے محبت کا اظہار ہونا معلوم نہیں ہوتا۔ حدیث پر عبدالحسین الموسوی کا یہ اعتراض کرنا کہ یہ تو معجزہ ہے اور معجزہ کا ظہورضرورت کے وقت یا لوگوں کی طلب کی بناءپر اللہ اپنی نبی کی مدد اور نصرت کے لئے ظاہرکرتا ہے یہ بھی ان کی کم علمی اور علوم دینیہ سے نا واقفیت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بہت سارے معجزات ایسے ہیں جو بنا کسی فوری ضرورت کے واقع ہوئے ہیں۔

 

حوالہ جات

  1. ابن منظور ’ محمد بن مكرم‘ لسان العرب‘ دار صادر بىروت‘ ج ۱۲‘ ص ۴۱۳؛ مادة ‘‘ عصم‘‘
  2. رازى، فخر الدىن، امام: تفسىر مفاتىح الغىب المشهور بتفسىر الكبىر، دار الفكر، بىرو، ج ۲‘ ص۲۸
  3. : البخاری، صحيح البخاري, كتاب النكاح, رقم الحديث, 7449, و مسلم, صحيح مسلم, كتاب الأيمان, رقم الحديث, 1654.
  4. : احادیث کے لیے دیکھیے: البخاری، صحيح البخاري, كتاب الجھاد رقم الحديث، 2819، کتاب الانبیاء، 3424، کتاب الایمان، رقم الحديث، 6720۔
  5. : صادق النجمي, الأضواء على الصحيحين, مؤسسة المعارف الأسلامية,بيروت, 1419، ص، 219
  6. : جعفر السبحاني, الحديث النبوي بين الرواية و الدراية, مؤسسة الأمام الصادق, ايران, 1419ه، ص، 330
  7. دیکھئے: شرف الدین المسوی، کتاب ابوھریرۃ، بغداد، 1965، ص، 69؛ اور السید صالح ابوبکر، الأضواء القرأنية في اكتساح الأحاديث الاسرائيلية و تطهير البخاري منها, دار السلفية, السعود ية , 1974 , ص، 333۔
  8. : ابن بطال, شرح صحيح البخاري, تحقيق, أبو تميم ياسر, مكتبة الرشد, رياض, 1423, ج، 5، س 32۔
  9. : ابن حجر, فتح الباري, دار المعارفۃ، بیروت، 1379ھ ، ج،6، ص، 461۔
  10. : العيني, عمدة القاري, مکتبة احیائ التراث ، لبنان، ج، 14، ص، 117۔
  11. : عبدالسلام رستمی, انکار حدیث سے انکار قرآن تک، دار السلام، لاھور، ص، 380
  12. : ابن حجر, فتح الباري, دار المعارفۃ، بیروت، 1379ھ ، ج،6، ص، 461۔
  13. : حافظ زبیر علی, صحیح بخاری پر منکرین حدیث ک حملے، مکتبۃ الحدیث، اٹک ، 1426ھ، ص، 19۔
  14. : البخاري, صحيح, کتاب الجنائز، رقم الحدیث، 1339؛ و مسلم، صحیح، کتاب الفضائل، رقم الحدیث، 2372
  15. : سورۃ المنافقون، 11
  16. : ابن فرناس، الحدیث و القرآن، بغداد، 2008، ص، 131
  17. ؛ سورۃ احزاب، 69۔
  18. : صادق النجمی، الأضؤاء على الصحيحين, ص، 220؛ جعفر السبحانی، الحديث النبوي بين الرواية و الدراية, ص، 332
  19. : حوالہ بالہ
  20. : جعفر السبحانی، الحديث النبوي بين الرواية و الدراية, ص، 332
  21. : دیکھے:شرف الدین المسوی، کتاب ابو هریرۃ، ص، 70؛ اور صالح ابوبکر، الأضواء القرأنية في اكتساح الأحاديث الاسرائيلية، ص، 187
  22. : محمد أبو شهبة, دفاع عن السنة, مكتبة السنة, مصر, 1989ء, ص،162
  23. : عبد اللہ بن علی النجدی، مشکلات الاحادیث النبویۃ، ص، 72
  24. : ابن حجر، فتح الباری، ج، 6، ص،442؛ العینی، عمدۃ القاری، ج، 8،ص، 148؛ حمزۃ محمد قاسم، منار القاری شرح البخاری، ج، 2،ص 397
  25. : ابن قدامة المقدسی، لمعة الاعتقاد ک حاشیۃ میں، وزارة الشؤون الإسلامية، السعودية، 1420ھ، ج،1، ص، 28
  26. : البخاری، صحیحِ، کتاب احادیث الأنبياء، حدیث، 3404؛ و مسلم، صحیح، کتاب الفضائل، رقم الحدیث، 2372؛
  27. : جعفر السبحانی، الحديث النبوي بين الرواية و الدراية, ص، 344
  28. : صالح ابو بکر، الأضواء القرأنية في اكتساح الأحاديث الاسرائيلية و تطهير البخاري منها, ص، 237
  29. : ابن فرناس، الحدیث و القرآن، ص، 41
  30. : شرف الدین الموسوی، کتاب ابوھریرۃ، بغداد، 1965، ص، 73
  31. : العینی، عمدۃ القاری، ج، 15، ص، 301
  32. : ملا علی القاری، مرقاۃ المفاتیح، دار الفكر، بيروت ، 1422هـ ، ج، 9، ص، 3642
  33. : جریر الطبری، جامع البيان في تأويل القرآن، تحقيق, احمد محمد شاكر, مؤسسة الرسالة, بيروت, 1420ه, ج، 20، ص، 331
  34. : محي الدين البغوی، معالم التنزيل في تفسير القرآن, تحقيق, عبد الرازاق المهدي, دار احياء التراث, بيروت, 1420ه, ج، 3،ص، 667
  35. : ابن عطیۃ الأندلسي، المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز, تحقيق, عبد السلام عبد الشافعي, الكتب العلمية, بيروت, 1422ه, ج، 4،ص، 401
  36. : ابن حزم، المحلی، دارلفکر، بیروت۔ ج، 3، ص، 213
  37. : البخاری، صحیح،کتاب الجھاد، حدیث، 3019؛ و مسلم، صحیح، کتاب السلام، حدیث، 2241۔
  38. : صادق النجمی، الأضواء على الصحيحين, ص، 226
  39. : صالح ابوبکر، الأضواء القرأنية في اكتساح الأحاديث الاسرائيلية و تطهير البخاري منها, ص، 328
  40. : جعفر السبحانی، الحديث النبوي بين الرواية و الدراية,ص، 351
  41. : ابن حجر، فتح الباری، ج، 1،ص،292
  42. : العینی، عمدۃ القاری،ج،14، ص، 268
  43. : ملا علی القاری، مرقاۃ المفاتیح، ج،7، ص، 267؛ اور دیکھیں: حافظ العراقی، طرح التثریب، ج، 7،ص، 189
  44. : ابن الجوزی، کشف المشکل ، تحقیق: علي حسين البواب ، دار الوطن – الرياض، ج، 3، ص، 363
  45. : العینی، عمدۃ القاری،ج، 14، ص، 269
  46. : البخاری، صحیح البخاری، کتاب احادیث الأنبياء، حدیث، 3391؛
  47. : شرف الدین الموسوی، کتاب ابی ھریرۃ، ص، 84۔
  48. : صالح ابو بکر، الأضواء القرأنية في اكتساح الأحاديث الاسرائيلية و تطهير البخاري منها,ص، 320
  49. : ابو حب اللہ ، الرد علی شرف الدین الموسوی فی انتقاداتہ لآبی ھریرۃ، ص، 8
  50. : أبو الفضل العراقی، طرح التثریب في شرح التقريب، دار الفكر, بيروت, ج، 2 ،ص،232
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...